Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 80

سورة الكهف

وَ اَمَّا الۡغُلٰمُ فَکَانَ اَبَوٰہُ مُؤۡمِنَیۡنِ فَخَشِیۡنَاۤ اَنۡ یُّرۡہِقَہُمَا طُغۡیَانًا وَّ کُفۡرًا ﴿ۚ۸۰﴾

And as for the boy, his parents were believers, and we feared that he would overburden them by transgression and disbelief.

اور اس لڑکے کے ماں باپ ایمان والے تھے ، ہمیں خوف ہوا کہ کہیں یہ انہیں اپنی سرکشی اور کفر سے عاجز و پریشان نہ کر دے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Interpretation of why the Boy was killed Khidr explains about his second action: وَأَمَّا الْغُلَأمُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُوْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَن يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا "And as for the boy, his parents were believers, and we feared he would oppress them by rebellion and disbelief." Ibn Abbas narrated from Ubayy bin Ka`b that the Prophet said: الْغُلَمُ الَّذِي قَتَلَهُ الْخَضِرُ طُبِعَ يَوْمَ طُبِعَ كَافِرًا The boy Al-Khidr killed was destined to be a disbeliever from the day he was created. It was recorded by Ibn Jarir from Ibn Abbas. He said: فَكَانَ أَبَوَاهُ مُوْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَن يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا (his parents were believers, and we feared he would oppress them by rebellion and disbelief). Their love for him might make them follow him in disbelief. Qatadah said, "His parents rejoiced when he was born and grieved for him when he was killed. If he had stayed alive, he would have been the cause of their doom. So let a man be content with the decree of Allah, for the decree of Allah for the believer, if he dislikes it, is better for him than if He were to decree something that he likes for him." An authentic Hadith says; لاَا يَقْضِي اللهُ لِلْمُوْمِنِ مِنْ قَضَاءٍ إِلاَّ كَانَ خَيْرًا لَه Allah does not decree anything for the believer except it is good for him. And Allah says: وَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْيًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ and it may be that you dislike a thing which is good for you. (2:216) فَأَرَدْنَا أَن يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِّنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا

اللہ کی رضا اور انسان ۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس نوجوان کا نام حیثور تھا ۔ حدیث میں ہے کہ اس کی جبلت میں ہی کفر تھا ۔ حضرت خضر فرماتے ہیں کہ بہت ممکن تھا کہ اس بچے کی محبت اس کے ماں باپ کو بھی کفر کی طرف مائل کر دے ۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس کی پیدائش سے اس کے ماں باپ بہت خوش ہوئے تھے اور اس کی ہلاکت سے وہ بہت غمگین ہوئے حالانکہ اس کی زندگی ان کے لئے ہلاکت تھی ۔ پس انسان کو چاہے کہ اللہ کی قضا پر راضی رہے ۔ رب انجام کو جانتا ہے اور ہم اس سے غافل ہیں ۔ مومن جو کام اپنے لئے پسند کرتا ہے ، اس کی اپنی پسند سے وہ اچھا ہے جو اللہ اس کے لئے پسند فرماتا ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ مومن کے لئے اللہ کے فیصلے ہوتے ہیں وہ سراسر بہتری اور عمدگی والے ہی ہوتے ہیں ۔ قرآن کریم میں ہے ( فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَهُوْا شَـيْـــــًٔـا وَّيَجْعَلَ اللّٰهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيْرًا 19؀ ) 4- النسآء:19 ) یعنی بہت ممکن ہے کہ ایک کام تم اپنے لئے برا اور ضرر والا سمجھتے ہو اور وہ دراصل تمہارے لئے بھلا اور مفید ہو ۔ حضرت خضر فرماتے ہیں کہ ہم نے چاہا کہ اللہ انہیں ایسا بچہ دے جو بہت پرہیزگار ہو اور جس پر ماں باپ کو زیادہ پیار ہو ۔ یا یہ کہ جو ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرتا ہو ۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس لڑکے کے بدلے اللہ نے ان کے ہاں ایک لڑکی دی ۔ مروی ہے کہ اس بچے کے قتل کے وقت اس کی والدہ کے حمل سے ایک مسلمان لڑکا تھا اور وہ حاملہ تھیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٨] یعنی وہ لڑکا بہت خوب صورت تھا اور مجھے اس بات کا (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) علم تھا کہ یہ گمراہی کا راستہ اختیار کرے گا اور والدین کو چونکہ اس سے بےحد محبت تھی لہذا یہ عین ممکن تھا کہ وہ اپنے ساتھ اپنے والدین کو بھی لے ڈوبے جو اللہ کے سچے فرمانبردار ہیں، لہذا اللہ تعالیٰ کی حکمت اس بات کی متقاضی ہوئی کہ اس لڑکے کا کام ہی تمام کر ڈالا جائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاَمَّا الْغُلٰمُ فَكَانَ اَبَوٰهُ مُؤْمِنَيْنِ ۔۔ : ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے مومن بندوں کی آنے والے فتنوں سے بھی حفاظت کرتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اِنَّ اللّٰهَ يُدٰفِعُ عَنِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا) [ الحج : ٣٨ ] ” بیشک اللہ ان لوگوں کی طرف سے دفاع کرتا ہے جو ایمان لائے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The opening sentence of verse 80: وَأَمَّا الْغُلَامُ (As for the boy) means the boy who was killed by al-Khadir (علیہ السلام) . The reality behind it, as stated by him, was that the boy was cut out for infidelity and rebellion against parents. But, his parents were pious people. Al-Khadir (علیہ السلام) said that they apprehended that, once this boy grew up, he would harass his parents and cause them pain. And when he took to infidelity as a young man, he would not only become a live trial for the parents but would also endan¬ger the very faith of his parents because of their love for him.

(آیت) وَاَمَّا الْغُلٰمُ یہ لڑکا جس کو حضرت خضر (علیہ السلام) نے قتل کیا اس کی حقیقت یہ بیان فرمائی کہ اس لڑکے کی طبیعت میں کفر اور والدین کے خلاف سرکشی تھی والدین اس کے نیک اور صالح تھے حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ہمیں خطرہ تھا کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر ان صالح ماں باپ کو ستائے گا اور تکلیف پہنچائے گا اور کفر میں مبتلا ہو کر ماں باپ کے لئے بھی ایک فتنہ بنے گا اس کی محبت میں ماں باپ کا ایمان بھی خطرے میں پڑجائے گا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَمَّا الْغُلٰمُ فَكَانَ اَبَوٰہُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِيْنَآ اَنْ يُرْہِقَہُمَا طُغْيَانًا وَّكُفْرًا۝ ٨٠ۚ غلم الْغُلَامُ الطّارّ «3» الشّارب . يقال : غُلَامٌ بيّن الغُلُومَةِ والغُلُومِيَّةِ. قال تعالی: أَنَّى يَكُونُ لِي غُلامٌ [ آل عمران/ 40] ، وَأَمَّا الْغُلامُ فَكانَ أَبَواهُ مُؤْمِنَيْنِ [ الكهف/ 80] ، وقال : وَأَمَّا الْجِدارُ فَكانَ لِغُلامَيْنِ [يوسف/ 19] ، وقال في قصة يوسف : هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، والجمع : غِلْمَةٌ وغِلْمَانٌ ، واغْتَلَمَ الْغُلَامُ :إذا بلغ حدّ الغلومة، ولمّا کان من بلغ هذا الحدّ كثيرا ما يغلب عليه الشّبق قيل للشّبق : غِلْمَةٌ ، واغْتَلَمَ الفحلُ. ( غ ل م ) الغلام اس لڑکے کو کہتے ہیں جس کی مسیں بھیگ چکی ہوں محاورہ ہے غلام بین الغلومۃ والغیو میۃ لڑکا جو بھر پور جوانی کی عمر میں ہو۔ کی عمر میں ہو قرآن پاک میں ہے : أَنَّى يَكُونُ لِي غُلامٌ [ آل عمران/ 40] میرے ہاں لڑکا کیونکہ ہوگا ۔ وَأَمَّا الْغُلامُ فَكانَ أَبَواهُ مُؤْمِنَيْنِ [ الكهف/ 80] اور وہ لڑکا تھا اس کے ماں باپ دونوں مومن تھے ۔ وَأَمَّا الْجِدارُ فَكانَ لِغُلامَيْنِ [يوسف/ 19] اور جو دیورار تھی سو وہ دو لڑکوں کی تھی ۔ اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قصہ میں فرمایا : هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] یہ تو نہایت حسین ) لڑکا ہے ۔ غلام کی جمع غلمۃ وغلمان آتی ہے ۔ اور اغتلم الغلام کے معنی ہیں لڑکا بالغ ہوگیا ۔ عام طور پر چونکہ اس عمر میں جنسی خواہش کا غلبہ ہوجاتا ہے اس لئے غلمۃ کا لفظ جنسی خواہش کی شدت پر بولا جاتا ہے ۔ اور اغتلم الفحل کے معنی ہیں سانڈ جنسی خواہش سے مغلوب ہوگیا ۔ أب الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] ( اب و ) الاب ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ { النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔ خشی الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ( خ ش ی ) الخشیۃ ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ رهق رَهِقَهُ الأمر : غشيه بقهر، يقال : رَهِقْتُهُ وأَرْهَقْتُهُ ، نحو ردفته وأردفته، وبعثته وابتعثته قال : وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [يونس/ 27] ، وقال : سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً [ المدثر/ 17] ، ومنه : أَرْهَقْتُ الصّلاة : إذا أخّرتها حتّى غشي وقت الأخری. ( ر ھ ق ) رھقہ ( س ) رھقا ۔ الامر ۔ کسی معاملہ نے اسے بزور و جبر دبا لیا ۔ اور رھقہ وارھقہ ( مجرد و مزید فیہ ) دونوں کے ایک ہی معنی ہیں جیسے ۔ ردفہ اردفہ وبعثہ وابعثہ ۔ قرآن میں ہے ۔ وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [يونس/27] اور ان پر ذلت چھا رہی ہوگی ۔ سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً [ المدثر/ 17] ہم عنقریب اس کو عذاب سخت میں مبتلا کردیں گے ، اور اسی سے ارھقت الصلوٰۃ ہے جس کے معنی نماز کو آخر وقت تک موخر کرنے کے ہیں ۔ حتی ٰ کہ دوسری نماز کا وقت آجائے ۔ طغی طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٠ (وَاَمَّا الْغُلٰمُ فَكَانَ اَبَوٰهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِيْنَآ اَنْ يُّرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَّكُفْرًا) حضرت خضر کو اپنے خاص علم کی بنا پر معلوم ہوا ہوگا کہ اس بچے کے genes اچھے نہیں ہیں اور بڑا ہو کر اپنے والدین کے لیے سوہان روح ثابت ہوگا اور سرکشی اور ناشکری کی روش اختیار کر کے ان کو عاجز کر دے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:80) فخشینا۔ ماضی جمع متکلم۔ خشیۃ مصدر (باب سمع) ہم ڈرے۔ ہمیں اندیشہ ہوا الخازن میں ہے فعلمنا۔ ہمیں معلوم ہوا ان یرھقہما۔ ارھق یرھق ارھاق (افعال) مضارع واحد مذکر غائب منصوب بوجہ عمل ان۔ ہما تثنیہ مذکر غائب۔ ارھاق اثر انداز ہونا۔ اکسانا ۔ مبتلا کرنا۔ مجبور کرنا۔ زبردستی چھا جانا۔ دشواری میں ڈالنا۔ ارھقہ ظلما ظلم میں مبتلا کرنا۔ ارھقہ اثما۔ کسی کو گناہ پر اکسانا۔ رھق وارھق (مجرد و مزید فیہ) دونوں کے ایک ہی معنی ہیں۔ قرآن مجید میں ہے وترھقہم ذلۃ (10:27) اور ان پر ذلت چھا رہی ہوگی۔ اور سارھقہ صعودا۔ (74:17) ہم عنقریب اس کو عذاب سخت میں مبتلا کریں گے۔ اور ولا ترھقنی من امری عسرا (18:3) اور میرے (اس) معاملہ میں مجھ کو دشواری میں نہ ڈالئے ۔ ان یرھقہما کہ وہ ان دونوں (ماں باپ) کو (سرکشی اور کفر پر) مجبور کر دے گا تقدیر کلام یوں ہوگی : فخشینا ان یرھقہما طغیانا وکفرا لو بقی حیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی ایسا نہ ہو کہ یہ اپنے مومن والدین کو کفر و سرکشی میں اپنے ساتھ شامل کرلے اور اس کی محبت میں وہ بھی مرتد ہوجائیں اگر یہ غلام بالغ ہو تو کافر بالغل کا قتل جائز ہے اور اگر نابالغ ہو جیسا کہ مشہور ہے تو خصر کی شریعت میں یہ جائز تھا کیونکہ جمہور کے نزدیک حضرت خضر (علیہ السلام) نبی تھے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اسے قتل کیا تھا جیسا کہ آخر میں وما فعلتہ عن امیر سے معلوم ہوتا ہے۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ، بچے کو قتل کرنے کی حکمت۔ حضرت خضر (علیہ السلام) بچے کو قتل کرنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ رہا بچے کو قتل کرنے کا معاملہ۔ تو میں نے اس بچے کو اس لیے قتل کیا کہ اس کے ماں باپ مومن اور نہایت ہی اچھے لوگ ہیں۔ ہم نے خطرہ جانا کہ یہ بچہ بڑا ہو کر نہ صرف کفر و شرک کرے گا بلکہ اپنی سرکشی اور نافرمانی کی وجہ سے اپنے ماں باپ کو بھی کفر اور نافرمانی پر مجبور کرے گا اس لیے میں نے اسے قتل کردیا کیونکہ ہم نے چاہا ان کا رب اس کے بدلے میں اس سے نیک، رحمدل اور شریف النفس بیٹا عطا فرمائے۔ حضرت خضر کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض امور کی حکمت کا علم دے کر کچھ ایسے کام کرنے کا حکم دے رکھا تھا جو ظاہری طور پر شریعت کے ضابطوں کے خلاف تھے۔ اسی وجہ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بچے کے قتل پر چپ نہ رہ سکے کیونکہ تمام شریعتوں میں بچہ ہو یا بڑا کسی کو ناحق قتل نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس بچے کو عین اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اجازت کے مطابق قتل کیا تھا۔ اس لیے انھوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا : ہم نے چاہا اس کے ماں باپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیک اور نرم خو بیٹا عنایت کیا جائے۔ کسی کو اولاد عنایت کرنا خالصتاً اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کام میں اس کا کوئی شریک اور سہیم نہیں ہوتا۔ اس لیے حضرت خضر (علیہ السلام) نے بیٹے کی تخلیق کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی ہے۔ جہاں تک اسے جان سے مار دینے کا تعلق ہے اس کے بارے میں ” ہم نے چاہا “ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ کیونکہ کسی کو قتل کرنا سنگین جرم ہے۔ اس لیے حضرت خضر یہ کام اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے انھوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یقین دلانے اور اس کام کی پوری طرح حکمت منکشف کرنے کے لیے ” ہم “ کی ضمیر استعمال فرمائی جس میں اشارہ ہے کہ میں نے یہ کام اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی منشاء اور اس کے حکم سے کیے ہیں۔ میں شامل کیا ہے۔ اس کام میں یہ حکمت بھی بتلا دی کہ نیک اولاد کے اوصاف میں یہ وصف بھی ہونا چاہیے کہ وہ کردار کے لحاظ سے پاکیزہ اور روّیے کے اعتبار سے اپنے ماں باپ کے ساتھ انتہائی شفقت کرنے والی ہو۔ والدین کو حکم : (وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُھُمْ وَ اِیَّاکُمْ اِنَّ قَتْلَھُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْرًا) [ بنی اسرائیل : ٣١] ” اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی انھیں اور تمہیں رزق دیتے ہیں۔ بیشک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ “ ( اولاد نافرمان ہونے کی صورت میں بھی ماں باپ کو اسے قتل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ) (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ سَأَلْتُ أَوْ سُءِلَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّ الذَّنْبِ عِنْدَ اللّٰہِ أَکْبَرُ قَالَ أَنْ تَجْعَلَ لِلّٰہِ نِدًّا وَہْوَ خَلَقَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ خَشْیَۃَ أَنْ یَطْعَمَ مَعَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ أَنْ تُزَانِیَ بِحَلِیلَۃِ جَارِکَ ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب قولہ الذین لایدعون مع اللہ ....] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ کونسا گناہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ میں نے پھر سوال کیا اس کے بعد ؟ آپ نے فرمایا کہ اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔ میں نے پھر عرض کی اس کے بعد کونسا گناہ بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرے۔ “ مسائل ١۔ بری اولاد بسا اوقات ماں باپ کو بھی برے کاموں پر مجبور کرتی ہے۔ ٢۔ اولاد کو اپنے ماں باپ کے ساتھ شفقت اور مہربانی کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن ماں باپ کے لیے اولاد آزمائش ہے : ١۔ یقیناً تمہارے مال اور اولاد آزمائش ہیں اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ (الانفال : ٢٨) ٢۔ اے ایمان والو ! تمہارے مال اور اولاد تمہیں ہلاکت میں مبتلا نہ کردیں۔ (المنافقون : ٩) ٣۔ یقیناً تمہاری بیویوں اور اولاد میں سے تمہارے دشمن ہیں ان سے بچ کر رہو۔ (التغابن : ١٤) ٤۔ مال اور اولاد دنیا کی زندگی کی خوبصورتی ہیں نیک اعمال باقی رہنے والے ہیں اور ان کا ثواب اللہ کے بہترین ہے۔ (الکہف : ٤٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ لڑنا بظاہر تو قتل کے مستحق نہ تھا۔ نہ واجب القتل تھا ، لیکن مستقبل میں وہ بہت ہی خطرناک بن رہا تھا۔ سخت کافر اور حد سے تجاوز کرنے والا ہو رہا تھا۔ اس کے نفس کے اندر ان برائیوں کے بیج موجود اور بعد میں ظاہر ہونے والے تھے۔ اگر یہ زندہ رہتا تو اپنے کفر اور سرکشی کی وجہ سے والدین کی نافرمانی کرتا اور یہ والدین اس کی محبت کی وجہ سے اس کی راہ پر چلتے۔ اس لئے اللہ نے اس بندئہ صالح کو حکم دیا کہ اس لڑکے کو قتل کر دے اور اللہ اس کے والدین کو اس کے بدلے نہایت ہی صالح اولاد دے دے گا جو والدین کے ساتھ زیادہ حسن سلوک کرنے والی ہوگی۔ اگر ان امور کو انسان کے ظاہری علم ہی پر چھوڑ دیا جاتا تو انسان اس لڑکے کے بارے میں ظاہری فیصلہ ہی کرتا اور اس لڑکے کو قانوناً کچھ بھی نہ کہا جاسکتا تھا۔ کیونکہ اس نے شریعت کے مطابق ایسا کوئی جرم نہ کیا تھا کہ اسے قتل کردیا جاتا۔ نیز اللہ کے سوا اگر کوئی غیب بھی جانتا ہو تو بھی کسی فرد کو کوئی اس طرح قتل نہیں کرسکتا۔ کوئی جج بھی اپنے ذاتی علم کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کرسکتا۔ فیصلہ قانون کے مطابق ہی ہوگا۔ لیکن یہاں عبد صالح نے فیصلہ اللہ کے حکم کے مطابق کیا اور یہ حکم مستقبل کے اعمال کے ساتھ وابستہ علم الٰہی کی وجہ سے کیا گیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

لڑکے کو کیوں قتل کیا اب رہی لڑکے کی بات تو اس کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کافر تھا اور کفر پر ڈھال دیا گیا تھا۔ بالغ ہو کر کبھی بھی وہ مسلمان ہونے والا نہ تھا (فی صحیح مسلم و اما الغلام فطبع یوم طبع کافرا صفحہ ٢٧١ ج ٢) اس کے ماں باپ کو اس سے بہت زیادہ محبت تھی، اندیشہ تھا کہ بڑا ہو کر اپنے ماں باپ کو بھی کفر پر نہ ڈال دے۔ ایسا نہ ہو کہ محبت کے جوش میں وہ اس کے کفر کے ساتھی بن جائیں۔ پیاری اولاد کا ماں باپ پر جو زور چلتا ہے اس زور کو استعمال کرکے یہ انہیں سرکش اور کافر نہ بنا دے، لہٰذا اس کو تو قتل کردیا اور اس کے بدلہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دوسری اولاد عطا فرما دی جو پاکیزہ ہونے کے اعتبار سے بھی اس لڑکے سے بہتر تھی۔ (کیونکہ یہ اولاد مومن تھی) اور والدین کے ساتھ رحمت اور شفقت کا برتاؤ کرنے میں بھی اس سے بہت زیادہ بہتر تھی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

80 اور رہا وہ لڑکا تو اس کا حال یہ تھا کہ اس کے ماں باپ دونوں صاحب ایمان تھے پس ہم اس بات سے ڈرے کہ کہیں یہ ماں باپ پر سرکشی اور کفر کا اثر نہ ڈال دے۔ یعنی ماں باپ ہیں مومن اور اس لڑکے سے ان کو محبت بہت ہے یہ بڑا ہو کر کافر ہوگا کہیں ایسا نہ ہو کہ جو ان ہو کر ماں باپ کو مجبور کرے ۔ چونکہ یہ بات تحقیق تھی اس لئے حضرت خضر (علیہ السلام) کو ڈر ہوا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی اگر وہ بڑا ہوتا تو موذی اور بد راہ ہوتا تو اس کے ماں باپ اس کے ساتھ خراب ہوتے بعضے آدمی کو بنیاد بری پڑتی ہے اور بعضے کی بھلی جیسے ککڑی کھیرا کوئی میٹھا پڑا کوئی کڑوا اسی طرح آدمی کی بنیاد بھی اصل بہتر ہے بگڑ کر کوئی پھل کڑوا نکلتا ہے اس کا علم اللہ کو ہے پیغمبر نے فرمایا ہر آدمی کی بنیاد مسلمانی پر ہے یہی معنی سمجھنے چاہئیں۔ 12