Interpretation of why the Boy was killed
Khidr explains about his second action:
وَأَمَّا الْغُلَأمُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُوْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَن يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا
"And as for the boy, his parents were believers, and we feared he would oppress them by rebellion and disbelief."
Ibn Abbas narrated from Ubayy bin Ka`b that the Prophet said:
الْغُلَمُ الَّذِي قَتَلَهُ الْخَضِرُ طُبِعَ يَوْمَ طُبِعَ كَافِرًا
The boy Al-Khidr killed was destined to be a disbeliever from the day he was created.
It was recorded by Ibn Jarir from Ibn Abbas. He said:
فَكَانَ أَبَوَاهُ مُوْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَن يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا
(his parents were believers, and we feared he would oppress them by rebellion and disbelief).
Their love for him might make them follow him in disbelief.
Qatadah said,
"His parents rejoiced when he was born and grieved for him when he was killed. If he had stayed alive, he would have been the cause of their doom. So let a man be content with the decree of Allah, for the decree of Allah for the believer, if he dislikes it, is better for him than if He were to decree something that he likes for him."
An authentic Hadith says;
لاَا يَقْضِي اللهُ لِلْمُوْمِنِ مِنْ قَضَاءٍ إِلاَّ كَانَ خَيْرًا لَه
Allah does not decree anything for the believer except it is good for him.
And Allah says:
وَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْيًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ
and it may be that you dislike a thing which is good for you. (2:216)
فَأَرَدْنَا أَن يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِّنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا
اللہ کی رضا اور انسان ۔
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس نوجوان کا نام حیثور تھا ۔ حدیث میں ہے کہ اس کی جبلت میں ہی کفر تھا ۔ حضرت خضر فرماتے ہیں کہ بہت ممکن تھا کہ اس بچے کی محبت اس کے ماں باپ کو بھی کفر کی طرف مائل کر دے ۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس کی پیدائش سے اس کے ماں باپ بہت خوش ہوئے تھے اور اس کی ہلاکت سے وہ بہت غمگین ہوئے حالانکہ اس کی زندگی ان کے لئے ہلاکت تھی ۔ پس انسان کو چاہے کہ اللہ کی قضا پر راضی رہے ۔ رب انجام کو جانتا ہے اور ہم اس سے غافل ہیں ۔ مومن جو کام اپنے لئے پسند کرتا ہے ، اس کی اپنی پسند سے وہ اچھا ہے جو اللہ اس کے لئے پسند فرماتا ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ مومن کے لئے اللہ کے فیصلے ہوتے ہیں وہ سراسر بہتری اور عمدگی والے ہی ہوتے ہیں ۔ قرآن کریم میں ہے ( فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَهُوْا شَـيْـــــًٔـا وَّيَجْعَلَ اللّٰهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيْرًا 19 ) 4- النسآء:19 ) یعنی بہت ممکن ہے کہ ایک کام تم اپنے لئے برا اور ضرر والا سمجھتے ہو اور وہ دراصل تمہارے لئے بھلا اور مفید ہو ۔ حضرت خضر فرماتے ہیں کہ ہم نے چاہا کہ اللہ انہیں ایسا بچہ دے جو بہت پرہیزگار ہو اور جس پر ماں باپ کو زیادہ پیار ہو ۔ یا یہ کہ جو ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرتا ہو ۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس لڑکے کے بدلے اللہ نے ان کے ہاں ایک لڑکی دی ۔ مروی ہے کہ اس بچے کے قتل کے وقت اس کی والدہ کے حمل سے ایک مسلمان لڑکا تھا اور وہ حاملہ تھیں ۔