Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 89

سورة الكهف

ثُمَّ اَتۡبَعَ سَبَبًا ﴿۸۹﴾

Then he followed a way

پھر وہ اور راہ کے پیچھے لگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

His Journey East Allah tells; ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا

ایک وحشی بستی ۔ ذوالقرنین مغرب سے واپس مشرق کی طرف چلے ۔ راستے میں جوقومیں ملتیں اللہ کی عبادت اور اس کی توحید کی انہیں دعوت دیتے ۔ اگر وہ قبول کر لیتے توبہت اچھا ورنہ ان سے لڑائی ہوتی اور اللہ کے اور اللہ کے فضل سے وہ ہارتے آپ انہیں اپنا ماتحت کر کے وہاں کے مال ومویشی اور خادم وغیرہ لے کر آگے کو چلتے ۔ بنی اسرائیلی خبروں میں ہے کہ یہ ایک ہزار چھ سو سال تک زندہ رہے ۔ اور برابر زمین پر دین الہٰی کی تبلیغ میں رہے ساتھ ہی بادشاہت بھی پھیلتی رہے ۔ جب آپ سورج نکلنے کی جگہ پہنچے وہاں دیکھا کہ ایک بستی آباد ہے لیکن وہاں کے لوگ بالکل نیم وحشی جیسے ہیں ۔ نہ وہ مکانات بناتے ہیں نہ وہاں کوئی درخت ہے سورج کی دھوپ سے پناہ دینے والی کوئی چیز وہاں انہیں نظرنہ آئی ۔ ان کے رنگ سرخ تھے ان کے قد پست تھے عام خوراک ان کی مچھلی تھی ۔ حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں سورج کے نکلنے کے وقت وہ پانی میں چلے جایا کرتے تھے اور غروب ہونے کے بعد جانوروں کی طرح ادھر ادھر ہوجایا کرتے تھے ۔ قتادہ کا قول ہے کہ وہاں تو کچھ اگتا نہ تھا سورج کے نکلنے کے وقت وہ پانی میں چلے جاتے اور زوال کے بعد دوردراز اپنی کھیتیوں وغیرہ میں مشغول ہو جاتے ۔ سلمہ کا قول ہے کہ ان کے کان بڑے بڑے تھے ایک اوڑھ لیتے ، ایک بجھالیتے ۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں یہ وحشی حبشی تھے ۔ ابن جریر فرماتے ہیں کہ وہاں کبھی کوئی مکان یا دیوار یا احاطہ نہیں بنا سورج کے نکلنے کے وقت یہ لوگ پانی میں گھس جاتے وہاں کوئی پہاڑ بھی نہیں ۔ پہلے کسی وقت ان کے پاس ایک لشکر پہنچا تو انہوں نے ان سے کہا دیکھو سورج نکلتے وقت باہر نہیں ٹھہرنا انہو نے کہا نہیں ہم تو رات ہی رات یہاں سے چلے جائیں گے لیکن یہ توبتاؤ کہ یہ ہڈیوں کے چمکیلے ڈھیر کیسے ہیں ؟ انہوں نے کہا یہاں سے پہلے ایک لشکر آیا تھا سورج کے نکلنے کے وقت وہ یہیں ٹھیرا رہا سب مر گئے یہ ان کی ہڈیاں ہیں یہ سنتے ہی وہ وہاں سے واپس ہو گے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ذوالقرنین کی اس کے ساتھیوں کی کوئی حرکت کوئی گفتار اور رفتار ہم پر پوشیدہ نہ تھی ۔ گو اس کا لاؤ لشکر بہت تھا زمین کے ہر حصے پر پھیلا ہوا تھا لیکن ہمارا علم زمین وآسمان پر حاوی ہے ۔ ہم سے کوئی چیز مخفی نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

89۔ 1 یعنی اب مغرب سے مشرق کی طرف سفر اختیار کیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ اَتْـبَـعَ سَبَبًا ۔۔ : مغرب کی طرف انسانی آبادی کے آخری حصے تک تمام علاقے فتح کرکے اسلام کے زیر نگیں لانے کے بعد اب اس نے مشرق کی طرف آبادی کے آخری حصے تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے ایک نہایت طویل اور دشوار سفر کے لیے ہر قسم کا سازوسامان مہیا کیا اور اپنی زبردست افواج اور جنگی سازو سامان ساتھ لے کر بیشمار دریاؤں، پہاڑوں، جنگلوں اور صحراؤں کو عبور کرتا ہوا اور تمام بادشاہوں کو شکست دیتا ہوا مشرق کی طرف آبادی کی ابتدا تک جا پہنچا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ سورج ایسے لوگوں پر طلوع ہوتا ہے جن کے پاس سورج کی تپش سے بچنے کے لیے کوئی پردہ تھا نہ مکان، نہ کوئی عمارت، نہ خیمہ، نہ لباس۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے تفصیل سے ذکر نہیں فرمایا، مگر اہل مغرب کے ساتھ اس کے سلوک سے ظاہر ہے کہ اس نے انھیں بھی اسلام کی دعوت دی اور ہر ایک کے ساتھ اس کے رویے کے مطابق سلوک کیا ہے اور انھیں وحشی زندگی کے بجائے تہذیب و تمدن کی تعلیم دی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The Holy Qur&an does describe this state of the people Dhul-Qarnain found living towards the East meaning thereby that they were not accustomed to the use of ways and means like houses, tents and dresses to seek protection against the Sun. But, it does not mention anything about their faith and deeds, nor does it say what Dhul-Qarnain did to them. However, it is obvious that these people too were infidels and Dhul-Qar¬nain handled them the way he had handled the people he had found in the West as mentioned earlier. But, describing it again at this place was not considered necessary since finding it out is also possible on the analogy of the previous event. (As in al-Bahr al-Muhit from Ibn Atiyyah)

خلاصہ تفسیر : پھر (ممالک مغربیہ فتح کرکے مشرقی ممالک فتح کرنے کے ارادہ سے مشرق کی طرف) ایک راہ پر ہو لئے یہاں تک کہ جب طلوع آفتاب کے موقع پر (یعنی جانب مشرق میں منتہائی آبادی پر) پہنچے تو آفتاب کو ایک ایسی قوم پر طلوع ہوتے دیکھا جن کے لئے ہم نے آفتاب کے ادھر کوئی آڑ نہیں رکھی تھی (یعنی اس جگہ ایک ایسی قوم آباد تھی جو دھوپ سے بچنے کے لئے کوئی مکان یا خیمہ وغیرہ بنانے کے عادی نہ تھے بلکہ شاید لباس بھی نہ پہنتے ہوں جانوروں کی طرح کھلے میدان میں رہتے تھے) یہ قصہ اسی طرح ہے اور ذوالقرنین کے پاس جو کچھ (سامان وغیرہ) تھا ہم کو اس کی پوری خبر ہے (اس میں امتحان نبوت کے لئے ذوالقرنین کے متعلق سوال کرنے والوں کو اس پر تنبیہ ہے کہ ہم جو کچھ بتلا رہے ہیں وہ علم وخبر کی بنیاد پر ہے عام تاریخی کہانیوں کی طرح نہیں تاکہ نبوت محمدی کی حقانیت واضح ہوجائے) معارف و مسائل : ذوالقرنین نے مشرق کی جانب میں جو قوم آباد پائی اس کا یہ حال تو قرآن کریم نے ذکر فرمایا کہ وہ دھوپ سے بچنے کے لئے کوئی سامان مکان خیمہ لباس وغیرہ کے ذریعہ نہ کرتے تھے لیکن ان کے مذہب و اعمال کا کوئی ذکر نہیں فرمایا اور نہ یہ کہ ذوالقرنین نے ان لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا اور ظاہر یہ ہے کہ یہ لوگ بھی کافر ہی تھے اور ذوالقرنین نے ان کے ساتھ بھی وہی معاملہ کیا جو مغربی قوم کے ساتھ اوپر مذکور ہوچکا ہے مگر اس کے بیان کرنے کی یہاں اس لئے ضرورت نہیں سمجھی کہ پچھلے واقعہ پر قیاس کرکے اس کا بھی علم ہوسکتا ہے (کذا فی بحر المحیط عن ابن عطیہ )

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ اَتْـبَـعَ سَبَبًا۝ ٨٩ سبب السَّبَبُ : الحبل الذي يصعد به النّخل، وجمعه أَسْبَابٌ ، قال : فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبابِ [ ص/ 10] ، والإشارة بالمعنی إلى نحو قوله : أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [ الطور/ 38] ، وسمّي كلّ ما يتوصّل به إلى شيء سَبَباً ، قال تعالی: وَآتَيْناهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَباً فَأَتْبَعَ سَبَباً [ الكهف/ 84- 85] ، ومعناه : أنّ اللہ تعالیٰ آتاه من کلّ شيء معرفة، وذریعة يتوصّل بها، فأتبع واحدا من تلک الأسباب، وعلی ذلک قوله تعالی: لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبابَ أَسْبابَ السَّماواتِ [ غافر/ 36- 37] ، أي : لعلّي أعرف الذرائع والأسباب الحادثة في السماء، فأتوصّل بها إلى معرفة ما يدعيه موسی، وسمّي العمامة والخمار والثوب الطویل سَبَباً «1» ، تشبيها بالحبل في الطّول . وکذا منهج الطریق وصف بالسّبب، کتشبيهه بالخیط مرّة، وبالثوب الممدود مرّة . والسَّبُّ : الشّتم الوجیع، قال : وَلا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وسَبَّهُمْ لله ليس علی أنهم يَسُبُّونَهُ صریحا، ولکن يخوضون في ذكره فيذکرونه بما لا يليق به، ويتمادون في ذلک بالمجادلة، فيزدادون في ذكره بما تنزّه تعالیٰ عنه . وقول الشاعر : فما کان ذنب بني مالک ... بأن سبّ منهم غلاما فسب بأبيض ذي شطب قاطع ... يقطّ العظام ويبري العصب «2» فإنه نبّه علی ما قال الآخر : ونشتم بالأفعال لا بالتّكلّم «1» والسِّبُّ : الْمُسَابِبُ ، قال الشاعر : لا تسبّنّني فلست بسبّي ... إنّ سبّي من الرّجال الکريم «2» والسُّبَّةُ : ما يسبّ ، وكنّي بها عن الدّبر، وتسمیته بذلک کتسمیته بالسّوأة . والسَّبَّابَةُ سمّيت للإشارة بها عند السّبّ ، وتسمیتها بذلک کتسمیتها بالمسبّحة، لتحريكها بالتسبیح . ( س ب ب ) السبب اصل میں اس رسی کو کہتے ہیں جس سے درخت خرما وغیرہ پر چڑھا ( اور اس سے اترا ) جاتا ہے اس کی جمع اسباب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبابِ [ ص/ 10] تو ان کو چاہیئے کہ سیڑ ھیاں لگا کر ( آسمان پر ) چڑ ہیں اور یہ معنوی لحاظ سے آیت : ۔ أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [ الطور/ 38] یا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے کہ اس پر چڑھ کر ( آسمان سے باتیں ) سن آتے ہیں کے مضمون کی طرف اشارہ ہے پھر اسی مناسبت سے ہر اس شے کو سبب کہا جاتا ہے ۔ جو دوسری شے تک رسائی کا ذریعہ بنتی ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَآتَيْناهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَباً فَأَتْبَعَ سَبَباً [ الكهف/ 84- 85] اور اسے ہر قسم کے ذرائع بخشے سو وہ ایک راہ پر چلا ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ہر چیز کی معرفت اور سامان و ذرائع عطا کئے تھے جس کے ذریعہ وہ اپنے مقصود تک پہنچ سکتا تھا ۔ چناچہ اس نے ایک ذریعہ اختیار کیا اور آیت کریمہ : ۔ لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبابَ أَسْبابَ السَّماواتِ [ غافر/ 36- 37] تاکہ جو آسمان تک پہنچنے کے ذرائع ہیں ہم ان تک جا پہنچیں ۔ میں بھی اسباب سے مراد ذرائع ہی ہیں یعنی تاکہ ہم ان اسباب و ذرائع کا پتہ لگائیں جو آسمان میں پائے جاتے ہیں اور ان سے موسٰی کے مزعومہ خدا کے متعلق معلومات حاصل کریں اور عمامہ دوپٹہ اور ہر لمبے کپڑے کو طول میں رسی کے ساتھ تشبیہ دے کر بھی سبب کہا جاتا ہے اسی جہت سے شاہراہ کو بھی سبب کہہ دیا جاتا ہے جیسا کہ شاہراہ کو بھی خیط ( تاگا ) اور کبھی محدود کپڑے کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے : ۔ السبب ( مصدر ن ) کے معنی مغلظات اور فحش گالی دینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] تو جو لوگ خدا کے سوا ( دوسرے ) معبودوں کو حاجت روائی کے لئے بلایا ( یعنی ان کی پرشش کیا کرتے ہیں ) ان کو برا نہ کہو کہ یہ لوگ بھی ازراہ نادانی ناحق خدا کو برا کہہ بیٹھیں گے ۔ ان کے اللہ تعالیٰ کو گالیاں دینے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ صریح الفاظ میں اللہ تعالیٰ کو گالیاں دیں گے ۔ کیونکہ اس طرح مشرک بھی نہیں کرتا بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ جوش میں آکر شان الہی میں گستاخی کریں گے اور ایسے الفاظ استعمال کریں گے جو اس کی ذات کے شایاں شان نہیں جیسا کہ عام طور پر مجادلہ کے وقت ہوتا ہے کسی شاعر نے کہا ہے ۔ 220 ۔ فما کان ذنب بني مالک ... بأن سبّ منهم غلاما فسبّ 221 ۔ بأبيض ذي شطب قاطع ... يقطّ العظام ويبري العصببنی مالک کا صرف اتنا گناہ ہے کہ ان میں سے ایک لڑکے کو بخل پر عار دلائی گئی اور اس نے عار کے جواب میں سفید دھاری دار قاطع تلوار سے اپنی موٹی اونٹنیوں کو ذبح کر ڈالا جو ہڈیوں کو کاٹ ڈالتی ہو اور قصب یعنی بانس کو تراش دیتی ہو ۔ ان اشعار میں اس مضمون کی طرف اشارہ ہے جس کو دوسرے شاعر نے یوں ادا کیا ہے کہ ونشتم بالأفعال لا بالتّكلّمکہ ہم زبان کی بجائے افعال سے گالی دیتے ہیں ۔ اور سب ( فعل ) بمعنی دشنام دہندہ کیلئے آتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ لا تسبّنّني فلست بسبّي ... إنّ سبّي من الرّجال الکريم «2»مجھے گالی نہ دو تم مجھے گالی دینے کے لائق نہیں ہو کیونکہ نہایت شریف درجہ کا آدمی ہی مجھے گالی دے سکتا ہے ۔ السبۃ ہر وہ چیز جو عار و ننگ کی موجب ہو اور کنایہ کے طور پر دبر کو بھی سبۃ کہا جاتا ہے ۔ جیسا کہ اسے سوءۃ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ السبابۃ انگشت شہادت یعنی انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کیونکہ گالی دیتے وقت اس کے ساتھ اشارہ کیا جاتا ہے جیسا کہ اس انگلی کو مسبحۃ ( انگشت شہادت ) کہا جاتا ہے کیونکہ تسبیح کے وقت اشارہ کے لئے اسے اوپر اٹھایا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٩ (ثُمَّ اَتْـبَـعَ سَبَبًا) مغربی مہم سے فارغ ہونے کے بعد ذوالقرنین نے مشرقی علاقوں کی طرف پیش قدمی کا منصوبہ بنایا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:89) اتبع۔ اتباع (افعال) سے ماضی واحد مذکر غائب۔ وہ پیچھے لگ گیا۔ پیچھے چل پڑا ۔ اتبع سببا۔ وہ ایک (اور) راہ پر چل نکلا۔ یا چل پڑا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی ان دونوں کی قدرت دی اور یہ قدرت ہر بادشاہ اور حاکم کو ملتی ہے کہ وہ خلق اللہ کو ستاوے یا اپنی خوبی کا ذکر جاری رکھے۔ کذا فی الموضح) لفظ ذلنا (ہم نے کہا) کی بنا پر بعض مفسرین نے ذوالقرننی کو نبی قرار دیا ہے مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے یہ بات براہ راست بذریعہ وحی خطاب کر کے فرمائی ہو۔ بلکہ یہ ارشاد زبان حال یا اس وقت کے نبی واسطہ سے بھی ہوسکتا ہے جیسے فرمایا : قیل یا ارض ابلعی مآءک (ہود) یا جیسے فرمایا فقلنا اضربوہ بیعضھا (بقرہ) اس لئے اکثر علمائے سلف ذوالقرنین کو نبی نہیں بلکہ خدا پرست اور عادل فرمانروا مانتے ہیں۔ معالم التنزیل)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ ذوالقرنین کی مشرق کی جانب دوسری فوجی مہم۔ ذوالقرنین نے دوسری فوجی مہم کے لیے بھی پہلے کی طرح ٹھیک ٹھیک منصوبہ بندی کرتے ہوئے فوج کو اپنے ملک کے مشرقی علاقوں پر یلغار کرنے کا حکم دیا اور پہلے کی طرح فوج کی خود کمان سنبھالی۔ وہ ملک پر ملک زیر نگیں کرتا ہوا زمین کی اس حد تک پہنچا کہ جہاں سے آگے کوئی ملک باقی نہ رہا۔ گویا کہ سورج کے طلوع اور غروب کے درمیان اس کی فرمانروائی کا پرچم لہرانے لگا۔ زمین کی مشرقی سرحد پر اس کا واسطہ ایسی قوم کے ساتھ پڑا جو اس قدر غیر ترقی یافتہ اور غیر مہذب تھی کہ انھیں بودوباش اور رہن سہن کا بھی علم نہیں تھا۔ جس طرح آج بھی افریقہ کے کچھ علاقوں کے لوگ نیم برہنہ اور درختوں کے نیچے رہتے ہیں۔ حرام و حلال کی تمیز کے بغیر اور کھانا پکانے کی بجائے جانوروں کا کچا گوشت کھاتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ نہ ملنے کی صورت میں اپنے بچے بھی کھا جاتے ہیں۔ 2005 ء میں میرے قریبی ساتھی صدر کرنل قذافی کی دعوت پر لیبیا گئے انھیں لیبیا کے ملحقہ ملک کے ایسے علاقے میں لے جایا گیا جہاں انھوں نے ایسے انسان دیکھے جو صحراؤں اور جنگلوں میں رہتے ہیں۔ ان کے جسم اور شکلیں دیکھ کر انسان کو یقین نہیں آتا کہ آدم زاد ہیں۔ صرف ہاتھ، منہ اور انسانی اعضاء کے ناطے سے انسان معلوم ہوتے ہیں۔ یہ تو ترقی یافتہ دور کے انسان کی حالت ہے۔ آج سے ہزاروں سال پہلے جن لوگوں سے ذوالقرنین کو واسطہ پڑا۔ وہ کس طرح کے انسان اور کس قدر غیر مہذب ہوں گے۔ ذوالقرنین نے ایسے لوگوں کے ساتھ شریفانہ اور ہمدردانہ رویہ اختیار کیا ان پر کسی قسم کی زیادتی نہ کی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ ذوالقرنین کو خراج تحسین سے نوازتے ہوئے فرماتا ہے کہ ہم اس کے حالات اور کردار کو خوب جانتے ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرقی کا سفر (ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا) مغرب کے سفر کے بعد ذوالقرنین نے مشرق کے ممالک کا رخ کیا اور مشرقی جانب کی راہ پر چل دئیے، چلتے چلتے جب ایسی جگہ پہنچے جہاں آفتاب طلوع ہونے کی جگہ تھی (یعنی جانب مشرق میں آبادی کی انتہاء پر پہنچ گئے) تو دیکھا کہ سورج ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے کہ آفتاب کے اور ان کے درمیان اللہ تعالیٰ نے کوئی آڑ نہیں رکھی یعنی یہ قوم ایسی تھی جو دھوپ سے بچنے کے لیے کوئی مکان یا خیمہ نہیں بناتے تھے، کھلے میدان میں رہتے تھے (ممکن ہے کہ ان کے یہاں دھوپ کی تیزی زیادہ نہ ہوتی ہو۔ اور دھوپ میں رہنے کی عادت پڑگئی ہو جیسے جنگلی جانور اس دھوپ میں گزارہ کرتے ہیں اور رہتے سہتے ہیں) اور بارش بھی کم ہوتی ہو اور تھوڑی بہت بارش ہونے پر درختوں کے نیچے پناہ لے لیتے ہیں۔ (کَذٰلِکَ ) یہ قصہ اس طرح ہے واقعی ہے (وَ قَدْ اَحَطْنَا بِمَا لَدَیْہِ خُبْرًا) اور ذوالقرنین کے پاس جو کچھ سامان وغیرہ تھا اور ان کو جو حالات پیش آئے ہم کو ان کی پوری خبر ہے۔ حضرت ذوالقرنین نے جس قوم کو مشرق کے آخری حصے میں پایا قرآن مجید میں ان کے بارے میں یہ نہیں بتایا کہ وہ مومن تھے یا کافر، اور نہ یہ بتایا کہ ان کے ساتھ ذوالقرنین نے کیا معاملہ کیا۔ اگر یہ لوگ کافر تھے تو بظاہر وہی معاملہ کیا ہوگا جو مغرب کی جانب رہنے والوں کے ساتھ کیا۔ واللہ تعالیٰ اعلم

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

89 پھر وہ ایک ساز و سامان کے پیچھے لگا اور ایک دوسری راہ ہو لیا۔ یعنی ساز و سامان درست کر کے اب کے مشرقی سمت اختیار کی۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی اور سفر کا انجام کیا۔ 12