Surat ul Kaahaf
Surah: 18
Verse: 92
سورة الكهف
ثُمَّ اَتۡبَعَ سَبَبًا ﴿۹۲﴾
Then he followed a way
وہ پھر ایک سفر کے سامان میں لگا ۔
ثُمَّ اَتۡبَعَ سَبَبًا ﴿۹۲﴾
Then he followed a way
وہ پھر ایک سفر کے سامان میں لگا ۔
His Journey to the Land of Ya'juj and Ma'juj, and building the Barrier Allah says of Dhul-Qarnayn: ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا
یاجوج ماجوج ۔ اپنے شرقی سفر کو ختم کرکے پھر ذوالقرنین وہیں مشرق کی طرف ایک راہ چلے دیکھا کہ دو پہاڑ ہیں جو ملے ہوئے ہیں لیکن ان کے درمیان ایک گھاٹی ہے جہاں سے یاجوج ماجوج نکل کر ترکوں پر تباہی ڈالا کرتے ہیں انہیں قتل کرتے ہیں کھیت باغات تباہ کرتے ہیں بال بچوں کو بھی ہلاک کر تے ہیں اور سخت فساد بربا کرتے رہتے ہیں ۔ یاجوج ماجوج بھی انسان ہیں جیسے کہ بخاری مسلم کی حدیث سے ثابت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ عزوجل حضرت آدم علیہ السلام سے فرمائے گا کہ اے آدم ! آپ لبیک وسعدیک کے ساتھ جواب دیں گے ، حکم ہوگا آگ کا حصہ الگ کر ۔ پوچھیں گے کتنا حصہ ؟ حکم ہوگا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے دوزخ میں اور ایک جنت میں ۔ یہی وہ وقت ہوگا کہ بچے بوڑھے ہوجائیں گے اور ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا ۔ پھر حضور علیہ السلام نے فرمایا تم میں دو امتیں ہیں کہ وہ جن میں ہوں انہین کثرت کو پہنچا دیتی ہیں یعنی یاجوج ماجوج ۔ امام نووی رحمۃ للہ نے شرح صحیح مسلم میں ایک عجیب بات لکھی ہے وہ لکھتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے خاص پانی کے چند قطرے جو مٹی میں گرے تھے انہی سے یاجوج ماجوج پیدا کئے گئے ہیں گویا وہ حضرت حوا اور حضرت آدم علیہ السلام کی نسل سے نہیں بلکہ صرف نسل آدم علیہ السلام سے ہیں لیکن یہ یاد رہے کہ یہ قول بالکل ہی غریب ہے نہ اس پر عقلی دلیل ہے نہ نقلی اور ایسی باتیں جو اہل کتاب سے پہنچتی ہیں وہ ماننے کے قابل نہیں ہوتیں ۔ بلکہ ان کے ہاں کے ایسے قصے ملاوٹی اور بناوٹی ہوتے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے تین لڑکے تھے سام حام اور یافث ۔ سام کی نسل سے کل عرب ہیں اور حام کی نسل سے کل حبشی ہیں اور یافث کی نسل سے کل ترک ہیں ۔ بعض علماء کا قول ہے کہ یاجوج ماجوج ترکوں کے اس جد اعلیٰ یافث کی ہی اولاد ہیں انہیں ترک اس لئے کہا گیا ہے کہ انہیں بوجہ ان کے فساد اور شرارت کے انسانوں کی اور آبادی کے پس پشت پہاڑوں کی آڑ میں چھوڑ دیا گیا تھا ۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے ذوالقرنین کے سفر کے متعلق اور اس دیوار کے بنانے کے متعلق اور یاجوج ماجوج کے جسموں ان کی شکلوں اور ان کے کانوں وغیرہ کے متعلق وہب بن منبہ سے ایک بہت لمبا چوڑا واقعہ اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے جو علاوہ عجیب وغریب ہونے کے صحت سے دور ہے ۔ ابن ابی حاتم میں بھی ایسے بہت سے واقعات درج ہیں لیکن سب غریب اور غیر صحیح ہیں ۔ ان پہاڑوں کے درے میں ذوالقرنین نے انسانوں کی ایک آبادی پائی جو بوجہ دنیا کے اور لوگوں سے دوری کے اور ان کی اپنی مخصوص زبان کے اوروں کی بات بھی تقریبانہیں سمجھ سکتے تھے ۔ ان لوگوں نے ذوالقرنین کی قوت وطاقت عقل وہنر کو دیکھ کر درخواست کی کہ اگر آپ رضامند ہوں تو ہم آپ کے لئے بہت سا مال جمع کردیں اور آپ ان پہاڑوں کے درمیان کی گھاٹی کو کسی مضبوط دیوار سے بند کردیں تاکہ ہم ان فسادیوں کی روزمرہ کی ان تکالیف سے بچ جائیں ۔ اس کے جواب میں حضرت ذوالقرنین نے فرمایا مجھے تمہارے مال کی ضرورت نہیں اللہ کا دیا سب کچھ میرے پاس موجود ہے اور وہ تمہارے مال سے بہت بہتر ہے ۔ یہی جواب حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف سے ملکہ سبا کے قاصدوں کو دیا گیا تھا ۔ ذوالقرنین نے اپنے اس جواب کے بعد فرمایا کہ ہاں تم اپنی قوت وطاقت اور کام کاج سے میرا ساتھ دو تو میں تم میں اور ان میں ایک مضبوط دیوار کھڑی کر دیتا ہوں ۔ زبر جمع ہے زبرۃ کی ۔ ذوالقرنین فرماتے ہیں کہ لوہے کے ٹکڑے اینٹوں کی طرح کے میرے پاس لاؤ ۔ جب یہ ٹکڑے جمع ہوگئے تو آپ نے دیوار بنانی شروع کرا دی اور وہ لمبائی چوڑائی میں اتنی ہو گئی کہ تمام جگہ گھر گئی اور پہاڑ کی چوٹی کے برابر پہنچ گئی ۔ اس کے طول وعرض اور موٹائی کی ناپ میں بہت سے مختلف اقوال ہیں ۔ جب یہ دیوار بالکل بن گئی تو حکم دیا کہ اب اس کے چاروں طر ف آگ بھڑکاؤ جب وہ لوہے کی دیوار بالکل انگارے جیسی سرخ ہوگئی توحکم دیا کہ اب پگھلا ہوا تانبا لاؤ اور ہر طرف سے اس کے اوپر بہا دو چنانچہ یہ بھی کیا گیا پس ٹھنڈی ہو کر یہ دیوار بہت مضبوط اور پختہ ہوگئی اور دیکھنے میں ایسی معلوم ہونے لگی جیسے کوئی دھاری دار چادر ہو ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے وہ دیوار دیکھی ہے آپ نے فرمایا کیسی ہے ؟ اس نے کہا دھاری دار چادر جیسی ہے جس میں سرخ وسیاہ دھاریاں ہیں تو آپ نے فرمایا ٹھیک ہے لیکن یہ روایت مرسل ہے ۔ خلیفہ واثق نے اپنے زمانے میں اپنے امیروں کو ایک وافر لشکر اور بہت ساسامان دے کر روانہ کیا تھا کہ وہ اس دیوار کی خبر لائیں یہ لشکر دوسال سے زیادہ سفر میں رہا اور ملک در ملک پھرتا ہوا آخر اس دیوار تک پہنچا دیکھا کہ لوہے اور تانبے کی دیوار ہے اس میں ایک بہت بڑا نہایت پختہ عظیم الشان دروازہ بھی اسی کا ہے جس پر منوں کے وزنی قفل لگے ہوئے ہیں اور جو مال مسالہ دیوار کا بچا ہوا ہے وہ وہیں پر ایک برج میں رکھا ہوا ہے جہاں پہرہ چوکی مقرر ہے ۔ دیوار بیحد بلند ہے کتنی ہی کوشش کی جائے لیکن اس پر چڑھنا ناممکن ہے اس سے ملا ہوا پہاڑیوں کا سلسلہ دونوں طرف برابر چلا گیا ہے اور بھی بہت سے عجائب وغرائب امور دیکھے جو انہوں نے واپس آکر خلیفہ کی خدمت میں عرض کئے ۔
ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا ۔۔ : مغرب و مشرق کے سفر کے بعد ذوالقرنین کا یہ تیسرا سفر ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی جہت بیان نہیں فرمائی کہ وہ شمال ہے یا جنوب یا چاروں جہتوں کا کوئی کونا۔ معلوم ہوتا ہے اسے پوشیدہ رکھنے ہی میں اللہ کی حکمت ہے۔ چناچہ مدت دراز سے لوہے اور تانبے سے بنی ہوئی دو پہاڑوں کے درمیان اس جیسی بلندی والی یہ دیوار کسی نے نہیں دیکھی۔ دیوار چین یا داغستان میں دربند اور خوزامہ کے درمیان کسی زمانے میں پائی جانے والی دیوار یا کسی اور دیوار کی نہ یہ ہیئت ہے، نہ ان کے پار رہنے والوں میں کہیں یاجوج ماجوج کا وجود ہے۔ 3 بہت سے مفسرین نے ذوالقرنین کا یہ سفر شمال کی طرف قرار دیا ہے، کوئی اسے روس کا علاقہ قرار دیتا ہے، کوئی تاتاریوں کو یاجوج ماجوج کا مصداق ٹھہراتا ہے، جنھوں نے شمال کی جانب سے نکل کر دنیا کو تہ و بالا کردیا تھا اور بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ بعض انھیں مغل یا ترک قرار دیتے ہیں، مگر سب بلادلیل اندھیرے میں پتھر پھینکتے چلے جاتے ہیں۔ بعض حضرات اپنے دعوے کے کسی جز کی دلیل کے طور پر بائبل سے کچھ نقل کرکے پورے دعوے کی دلیل کے فریضے سے سبکدوش ہوجاتے ہیں، حالانکہ موجودہ بائبل پر یقین ممکن ہی نہیں۔ ان حضرات کی تفسیر کا حاصل یہ ہے کہ ذوالقرنین کی دیوار ختم ہوچکی اور اس کے پیچھے روکے ہوئے یاجوج ما جوج، جو نکلنے تھے، نکل چکے، حالانکہ قرآن و سنت دونوں سے اس کی تردید ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کی کسی آیت کی تفصیل کی ضرورت ہو تو وہ قرآن مجید کی کسی دوسری آیت ساتھ ملانے سے پوری ہوجاتی ہے، اگر پھر بھی ضرورت باقی رہے تو صحیح حدیث ملانے سے وہ بھی پوری ہوجاتی ہے۔ قرآن مجید میں یاجوج ماجوج کے نکلنے کا ذکر ایک اور مقام پر بھی آتا ہے، فرمایا : (حَتّٰٓي اِذَا فُتِحَتْ يَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ وَهُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ 96 وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَاِذَا هِىَ شَاخِصَةٌ اَبْصَارُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۭ يٰوَيْلَنَا قَدْ كُنَّا فِيْ غَفْلَةٍ مِّنْ ھٰذَا بَلْ كُنَّا ظٰلِمِيْنَ ) [ الأنبیاء : ٩٦، ٩٧ ] ” یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کھول دیے جائیں گے اور وہ ہر اونچی جگہ سے دوڑتے ہوئے آئیں گے اور سچا وعدہ بالکل قریب آجائے گا تو اچانک یہ ہوگا کہ ان لوگوں کی آنکھیں کھلی رہ جائیں گی جنھوں نے کفر کیا۔ ہائے ہماری بربادی ! بیشک ہم اس سے غفلت میں تھے، بلکہ ہم ظلم کرنے والے تھے۔ “ سورة کہف اور سورة انبیاء دونوں کی آیات کو ملانے سے صاف واضح ہے کہ اس دیوار کے زمین کے برابر ہونے اور یاجوج ماجوج کے موجیں مارتے ہوئے نکلنے کا وقت ایک ہی ہے اور اس کے بعد نفخ صور اور قیامت بالکل قریب ہوں گی۔ اس کی مزید تفصیل صحیح مسلم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی موجود ہے کہ یہ سب کچھ دجال کے نکلنے اور مسیح (علیہ السلام) کے زمین پر نازل ہونے کے بعد ہوگا۔ چناچہ نواس بن سمعان (رض) سے مروی لمبی حدیث میں دجال کے نکلنے، فتنہ و فساد پھیلانے، پھر مسیح (علیہ السلام) کے نازل ہو کر اسے قتل کرنے کا ذکر ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” عیسیٰ (علیہ السلام) اسی طرح (مصروف) ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی فرمائے گا کہ میں نے اپنے کچھ ایسے بندے نکالے ہیں کہ کسی میں ان سے لڑنے کی طاقت نہیں، اس لیے میرے بندوں کو طور کی طرف لے جا کر محفوظ کرلو، تو اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ہر اونچی جگہ سے دوڑتے ہوئے آئیں گے۔ ان کے پہلے لوگ طبریہ جھیل پر پہنچیں گے تو اس میں جو بھی (پانی) ہے پی جائیں گے اور ان کے آخری لوگ گزریں گے اور کہیں گے کہ یہاں کبھی ضرور پانی رہا ہے۔ اللہ کے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی محصور رہیں گے، یہاں تک کہ ان میں سے ہر ایک کے نزدیک بیل کا سر آج تمہارے نزدیک سو دینار (تین سو گرام سونے) سے بہتر ہوگا۔ پھر عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں کیڑے ڈال دے گا تو وہ سب ایک شخص کی موت کی طرح ہلاک ہوجائیں گے، پھر اللہ کے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی زمین پر اتریں گے تو زمین میں ایک بالشت جگہ بھی نہیں پائیں گے جسے ان کی سڑاند اور گندگی نے نہ بھر رکھا ہو۔ تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کی گردنوں جیسے پرندے بھیجے گا جو انھیں اٹھا کر وہاں پھینک دیں گے جہاں اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ ایسی بارش برسائے گا کہ کوئی مکان یا خیمہ اس کے بغیر نہیں رہے گا۔ چناچہ وہ بارش زمین کو دھو دے گی، یہاں تک کہ اسے آئینے کی طرح صاف کر دے گی۔ پھر زمین کو حکم ہوگا کہ اپنے پھل اگا اور اپنی برکت واپس لا تو ان دنوں ایک جماعت انار کا ایک حصہ کھائے گی اور اس کے چھلکے سے سایہ حاصل کرے گی اور دودھ والے جانوروں میں برکت دی جائے گی، یہاں تک کہ دودھ والی اونٹنی لوگوں کی کئی جماعتوں کو کافی ہوگی اور دودھ والی گائے لوگوں کے ایک قبیلے کو کافی ہوگی اور دودھ والی بکری لوگوں کے ایک خاندان کو کافی ہوگی۔ تو وہ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ایک طیب ہوا بھیجے گا جو ان کی بغلوں کے نیچے اثر کرے گی اور ہر مومن اور ہر مسلم کی روح قبض کرلے گی اور بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے، جو گدھوں کی طرح ایک دوسرے سے جنسی ملاپ کریں گے تو ان پر قیامت قائم ہوگی۔ “ [ مسلم، الفتن، باب ذکر الدجال : ٢٩٣٧ ] اس صحیح حدیث سے ذوالقرنین کی دیوار کا زمین کے برابر ہوچکا ہونا اور یاجوج ماجوج کا روسی، چینی یا تاتاری ہونا اور ان کے خروج کا واقع ہوچکا ہونا صاف غلط ثابت ہوتا ہے اور یہ بات طے شدہ ہے کہ قرآن مجید اور صحیح حدیث کے خلاف جو بات بھی ہے وہ باطل اور جھوٹ ہے، خواہ وہ بات کہنے والا کتنا بڑا ہو اور خواہ وہ بائبل کی کسی کتاب میں موجود ہو، کیونکہ بائبل کے محفوظ نہ رہنے اور اس میں اضافہ اور تبدیلی کی شہادت قرآن مجید میں کئی جگہ موجود ہے۔ دیکھیے سورة مائدہ (١٣) ، انعام (٩١) ، بقرہ (٧٩) اور آل عمران (٧٨) اس کے مقابلے میں قرآن و سنت کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔ دیکھیے سورة حجر (٩) ، قیامہ (١٦، ١٧) ، حم السجدہ (٤٢) اور نجم (٣، ٤) بلکہ اس میں کئی ایسی عبارتیں ہیں کہ کوئی یہودی یا عیسائی انھیں عام مجمع میں پڑھنے کی جرأت نہیں کرسکتا، مثلاً لوط، داؤد اور سلیمان پر تہمتوں کے طوفان والی عبارتیں۔ اور اس بات پر امت کا اتفاق ہے کہ اہل کتاب کی کوئی بات قرآن و سنت کے خلاف ہو تو وہ جھوٹ ہے اور اگر نہ خلاف ہو نہ موافق تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ انھیں نہ سچا کہو نہ جھوٹا۔ زیر تفسیر آیات کے بارے میں اسرائیلی روایات قرآن مجید اور صحیح احادیث کے خلاف ہیں، اس لیے بےبنیاد اور باطل ہیں۔ 3 یاجوج اور ماجوج عجمی نام ہیں، اس لیے عجمہ اور تانیث (مجوس کی طرح قبیلہ ہونے) کی وجہ سے غیر منصرف ہیں۔ اگر انھیں عربی مانا جائے تو یاجوج بروزن ” یَفْعُوْلٌ“ مثلاً ” یَرْبُوْعٌ“ اور ماجوج بروزن ” مَفْعُوْلٌ“ مثلاً ” مَعْقُوْلٌ“ ہوگا اور ان کا ماخذ ” اَجَّ یَؤُجُّ “ ہوگا۔ ” اَجَّ الظَّلِیْمُ “ کا معنی نر شتر مرغ تیز دوڑا اور ” اَجَّتِ النَّارُ “ آگ بھڑک اٹھی۔ غرض یاجوج اور ماجوج کا اشتقاق ایک ہی مادے سے ہے اور اس کے مفہوم میں تیزی اور اشتعال شامل ہے اور یہ لفظ معرفہ اور تانیث کی وجہ سے غیر منصرف ہیں۔ (قاسمی) 3 یاجوج اور ماجوج آدم (علیہ السلام) ہی کی اولاد ہیں، جیسا کہ صحیحین میں ہے : ( یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ یَا آدَمُ ! فَیَقُوْلُ لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ وَالْخَیْرُ فِيْ یَدَیْکَ قَالَ یَقُوْلُ أَخْرِجْ بَعْثَ النَّارِ ، قَالَ وَمَا بَعْثُ النَّارِ ؟ قَالَ مِنْ کُلِّ أَلْفٍ تِسْعَمِاءَۃٍ وَتِسْعَۃً وَتِسْعِیْنَ ، قَالَ فَذَاکَ حِیْنَ یَشِیْبُ الصَّغِیْرُ (وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكٰرٰي وَمَا هُمْ بِسُكٰرٰي وَلٰكِنَّ عَذَاب اللّٰهِ شَدِيْد) قَالَ فَاشْتَدَّ ذٰلِکَ عَلَیْھِمْ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! أَیُّنَا ذَاک الرَّجُلُ ؟ فَقَالَ أَبْشِرُوْا فَإِنَّ مِنْ یَأْجُوْجَ وَمَأْجُوْجَ أَلْفٌ، وَمِنْکُمْ رَجُلٌ ) [ مسلم، الإیمان، باب قولہ : یقول اللّٰہ لآدم۔۔ : ٢٢٢۔ بخاري : ٦٥٣٠ ] ” اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : ” اے آدم ! وہ عرض کریں گے : ” لبیک وسعدیک اور ہر خیر تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ “ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : ” آگ والی جماعت کو نکالو۔ “ وہ عرض کریں گے : ” اور آگ والی جماعت کیا ہے ؟ “ فرمائیں گے : ” ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تو یہ وہ وقت ہوگا کہ بچہ بوڑھا ہوجائے گا اور ہر حمل والی اپنا حمل گرا دے گی اور تو لوگوں کو نشے میں دیکھے گا، حالانکہ وہ ہرگز نشے میں نہیں ہوں گے اور لیکن اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔ “ راوی نے کہا، تو یہ بات ان پر بہت شاق گزری، انھوں نے کہا : ” اے اللہ کے رسول ! ہم میں وہ ایک آدمی کون ہوگا ؟ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” خوش ہوجاؤ کہ یاجوج ماجوج میں سے ایک ہزار اور تم میں سے ایک آدمی ہوگا۔ “ بعض مفسرین نے یاجوج ماجوج کی شکل و صورت، قد کے لمبے اور چھوٹے ہونے اور ان کے کانوں کے متعلق عجیب و غریب اقوال و روایات لکھی ہیں جن میں سے کوئی بھی قرآن و سنت سے ثابت نہیں۔ (ابن کثیر) 3 اس حقیقت پر بعض کم فہم لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یورپی اقوام نے زمین کا ہر کونا چھان مارا ہے مگر انھیں نہ کہیں یاجوج ماجوج نظر آتے ہیں نہ پہاڑوں جیسی بلند لوہے اور تانبے کی کوئی دیوار نظر آتی ہے۔ جواب اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے مخفی رکھنا چاہے کوئی اسے نہیں دیکھ سکتا۔ بنی اسرائیل میدان تیہ میں چالیس سال تک چند میل کے دائرے میں گھومتے رہے، نہ وہ اس دائرے سے نکل سکے اور نہ کسی اور کو ان کا پتا چل سکا، ورنہ وہ انھیں نکلنے کا راستہ بتا کر وہاں سے نکال لیتا۔ ایمان ہو تو اس دیوار، یاجوج ماجوج، نزول مسیح، دجال، دا بۃ الارض سب پر یقین آجاتا ہے اور اگر ایمان نہ ہو تو انسان ” ایک جمع ایک، جمع ایک، برابر تین “ کے بجائے ” برابر ایک “ جیسی صریح خلاف عقل بات پر اڑ جاتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ کے رازوں تک اپنی نا رسائی کو تسلیم نہیں کرتا۔
خلاصہ تفسیر : پھر (مغرب و مشرق فتح کرکے) ایک اور راہ پر ہو لئے (قرآن میں اس سمت کا نام نہیں لیا مگر آبادی زیادہ جانب شمال ہی ہے اس لئے مفسرین نے اس سفر کو شمالی ممالک کا سفر قرار دیا تاریخی شہادتیں بھی اس کی مؤ ید ہیں) یہاں تک کہ جب ایسے مقام پر جو دو پہاڑوں کے درمیان تھا پہنچے تو ان پہاڑوں سے اس طرح ایک قوم کو دیکھا جو (زبان اور لغت سے ناواقف وحشیانہ زندگی کی وجہ سے) کوئی بات سمجھنے کے قریب بھی نہیں پہنچتے تھے (ان الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صرف زبان سے ناواقفیت نہ تھی کیونکہ سمجھ بوجھ ہو تو غیر زبان والے کی باتیں بھی کچھ اشارے کنائے سے سمجھی جاسکتی ہیں بلکہ وحشیانہ زندگی نے سمجھ بوجھ سے بھی دور رکھا تھا مگر پھر شاید کسی ترجمان کے واسطے سے) انہوں نے عرض کیا اے ذوالقرنین قوم یاجوج وماجوج (جو اس گھاٹی کے اس طرف رہتے ہیں ہماری) اس سر زمین میں (کبھی کبھی آکر) بڑا فساد مچاتے ہیں (یعنی قتل و غارتگری کرتے ہیں اور ہم میں ان کے مقابلے کی طاقت نہیں) سو کیا ہم لوگ آپ کے لئے چندہ کرکے کچھ رقم جمع کردیں اس شرط پر کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی روک بنادیں (کہ وہ اس طرف نہ آنے پائیں) ذوالقرنین نے جواب دیا کہ جس مال میں میرے رب نے مجھ کو (تصرف کرنے کا) اختیار دیا ہے وہ بہت کچھ ہے (اس لئے چندہ جمع کرنے اور مال دینے کی تو ضرورت نہیں البتہ) ہاتھ پاؤں کی طاقت (یعنی محنت مزدوری) سے میری مدد کرو تو میں تمہارے اور ان کے درمیان خوب مضبوط دیوار بنادوں گا (اچھا تو) تم لوگ میرے پاس لوہے کی چادریں لاؤ (قیمت ہم دیں گے ظاہر یہ ہے کہ اس آہنی دیوار بنانے کے لئے اور بھی ضرورت کی چیزیں منگوائی ہوں گی مگر یہاں وحشی ملک میں سب سے زیادہ کم یاب چیز لوہے کی چادریں تھیں اس لئے ان کے ذکر کرنے پر اکتفاء کیا گیا سب سامان جمع ہوجانے پر دونوں پہاڑوں کے درمیان آہنی دیوار کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا) یہاں تک کہ جب (اس دیوار کے ردے ملاتے ملاتے) ان (دونوں پہاڑوں) کے دونوں سروں کے بیچ (کے خلاء) کو (پہاڑوں کے) برابر کردیا تو حکم دیا کہ دھونکو (دھونکنا شروع ہوگیا) یہاں تک کہ جب (دھونکتے دھونکتے) اس کو لال انگارا کردیا تو حکم دیا کہ اب میرے پاس پگھلا ہوا تانبا لاؤ (جو پہلے سے تیار کرا لیا ہوگا) کہ اس پر ڈال دوں (چنانچہ یہ پگھلا ہوا تانبا لایا گیا اور آلات کے ذریعہ اوپر سے چھوڑ دیا گیا کہ دیوار کی تمام درزوں میں گھس کر پوری دیوار ایک ذات ہوجائے اس کا طول و عرض خدا کو معلوم ہے) تو (اس کی بلندی اور چکناہٹ کے سبب) نہ تو یاجوج و ماجوج اس پر چڑھ سکتے اور نہ اس میں (غایت استحکام کے سبب کوئی) نقب لگا سکتے تھے ذوالقرنین نے (جب اس دیوار کو تیار دیکھا جس کا تیار ہونا کوئی آسان کام نہ تھا تو بطور شکر کے) کہا کہ یہ میرے رب کی ایک رحمت ہے (مجھ پر بھی کہ میرے ہاتھوں یہ کام ہوگیا اور اس قوم کے لئے بھی جن کو یاجوج و ماجوج ستاتے تھے) پھر جس وقت رب کا وعدہ آئے گا (یعنی اس کی فنا کا وقت آئے گا) تو اس کو ڈھا کر (زمین کے) برابر کردے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے (اور اپنے وقت پر ضرور واقع ہوتا ہے)
ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا ٩٢ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے
لغات القرآن آیت نمبر 92 تا 101 السدین دو دیواریں، دو پہاڑ۔ لایکادون قریب نہ تھے۔ یفقھون وہ سمجھتے ہیں۔ خرج کچھ مال۔ سد دیوار۔ مکنی مجھے اختیار دیا۔ اعینوا مدد کرو۔ ردماً آڑ، رکاوٹ۔ زبر الحدید لوہے کے تختے۔ ساوی برابر کردیا۔ صدفین دونوں پہاڑ۔ انفخوا دھونکو، پھونکو۔ افرغ ڈال دو ۔ قطر پگھلا ہوا تانبہ ۔ ان یظھروا یہ کہ وہ چڑھیں۔ نقب سوراخ۔ دکاء برابر کیا۔ عرض سامن۔ غطاء پردہ۔ سمع سننا تشریح : آیت نمبر 92 تا 101 مشرق و مغرب کے سفروں کے بعد ذوالقرنین نے تیسری سمت بھی سفر کیا۔ اکثر مفسرین اور مورخین کے ارشاد کے مطابق یہ سفر شمال کی طرف تھا۔ چلتے چلتے ذوالقرنین ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں کے لوگ نہ تو تہذیب و تمدن سے آشنا تھے اور نہ اپنی مقامی زبان کے علاوہ کسی اور زبان سے واقف تھے۔ ذوالقرنین نے ان کے ساتھ بھی نہایت احسان اور کرم کا معاملہ کیا۔ جب انہوں نے ایسے عادل و منصف بادشاہ کو دیکھا تو کسی ترجمان کے ذریعے انہوں نے ذوالقرنین کو اپنی سب سے بڑی مشکل اور مصیبت بتائی انہوں نے کہا کہ ان کے اور پہاڑوں کے درمیان دوسری طرف ایک ایسی قوم رہتی ہے جن کو یاجوج ماجوج کہا جاتا ہے وہ پہاڑی درے سے نکل کر ان کی بستیوں میں آجاتے ہیں اور ان کے تمام مال و اسباب کو لوٹ کرلے جاتے ہیں۔ ہم اونچے اونچے پہاڑوں اور یاجوج ماجوج کی طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ انہوں نے ذوالقرنین سے درخواست کی کہ اگر وہ یاجوج ماجوج اور ان کے درمیان اس درہ پر کوئی زبردست دیوار کھڑی کردیں جہاں سے یاجوج ماجوج آتے ہیں تو ہم نہ صرف ان کے ظلم و ستم سے بچ جائیں گے بلکہ ہم احسان مند بھی ہوں گے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کام کے لئے اگر کسی رقم کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ دینے کو تیار ہیں۔ ذوالقرنین نے ان کی فریاد سنی اور ان کی بےبسی پر بڑا ترس آیا۔ ذوالقرنین نے دونوں پہاڑوں کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنانے کا وعدہ کرلیا اور کہا مجھے تمہارے مال و دولت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اللہ نے مجھے سب کچھ دیا ہے۔ البتہ تم سب مل کر ہاتھ پاؤں سے میری مدد کرو ۔ یہ سن کر وہ پوری قوم محنت مزدروی کے لئے تیار ہوگئی۔ ذوالقرنین نے حکم دیا کہ لوہے کے بڑے بڑے تختے منگوائے جائیں اور ان کو دونوں پہاڑوں کے درمیان تہہ در تہہ بچھا دیا جائے۔ چناچہ کام شروع کردیا گیا ۔ جب اس دیوار کی اونچائی دونوں پہاڑوں کی چوٹیوں تک پہنچ گئی تو انہوں نے لوگوں سے کہا کہ لوہے یا تانبے کے نیچے بہت تیز آگ جلائی جائے جب لوہا یا تانبا پگھل جائے تو اس کو ل ہے کے تختوں کے اوپر سے اس کی دروزوں میں ڈالا جائے تاکہ وہ دیوار انتہائی مضبوط اور لوہے کی طرح بن جائے۔ جب یہ دیوار تیار ہوگئی تو وہ پوری قوم یاجوج ماجوج کے ظلم و ستم سے محفوظ ہوگئی۔ ذوالقرنین کا یہ اتنا بڑا اور عظیم کارنامہ تھا کہ ذوالقرنین اس پر فخر کرسکتے تھے لیکن انہوں نے فخر و غرور کرنے کے بجائے یہ کہا کہ یہ جو کچھ ہے وہ سب اللہ کا فضل کرم ہے جو ایک خاص مدت تک اسی طرح باقی رہے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ذوالقرنین محض ایک بادشاہ نہیں بلکہ اللہ کے نیک اور پارسا بندوں میں سے تھے۔ اس تمام واقعہ سے اور علماء مفسرین کی وضاحتوں سے چند حقائق سامنے آتے ہیں۔ (1) علماء نے لکھا ہے کہ ذوالقرنین حضرت ابراہیم کے زمانے میں گذرے ہیں اور حضرت خضر ان کے وزیر تھے۔ وہ نہایت ذہین، نیک دل، صاحب تدبیر، رعب اور دبدبے کے آدمی تھے۔ وہ اللہ کو ایک مانتے تھے اور مشرک ہرگز نہ تھے۔ اللہ نے ان کو دنیا کے تمام مال و اسباب عطا فرمائے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے مشرق و مغرب اور شمال کے ملکوں کے سفر کئے اور حیرت انگیز طریقے پر تمام ملکوں کو فتح کرتے چلے گئے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ ان کو یہ سب کچھ بیت اللہ شریف اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی دعا سے نصیب ہوا تھا۔ جب کہ ذوالقرنین پیدل چل کر حرم کعبہ کی زیارت کے لئے آئے۔ حضرت ابراہیم کو ان کے آنے کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے مکہ مکرمہ سے باہر نکل کر ان کا استقبال کیا۔ حضرت ابراہیم نے ان کو دعائیں بھی دیں اور کچھ نصیحتیں بھی فرمائیں (البدایہ ص 108 ج 2) ذوالقرنین نے حضرت ابراہیم کے ساتھ طواف کیا اور قربانی بھی دی (ابن کثیر) (2) ذوالقرنین نے جس دیوار کو تعمیر کیا تھا وہ کہاں ہے اور کس حالت میں ہے اس کا صحیح علم کسی کو بھی نہیں ہے البتہ بعض حضرات نے اس سلسلہ میں مختلف علاقوں کی نشان دہی کی ہے جو تاریخ کا ایک حصہ ہے۔ البتہ کفار مکہ نے یہودیوں کے کہنے پر ذوالقرنین کے متعلق پوچھا تھا تو اللہ نے اس کا جواب دے کر کفار کو بتا دیا تھا کہ تم اپنی معمولی سرداریوں، مال و دولت پر جس طرح اترا رہے ہو وہ ذوالقرنین کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہے۔ جب کہ انہوں نے سب کچھ ہوتے ہوئے بھی لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف کیا ایسے لوگ جو جنگلیوں جیسی زندگی گذار رہے تھے ان کے ساتھ بھی حسن سلوک کیا۔ کفار مکہ سے فرمایا جا رہا ہے تمہارا حال یہ ہے کہ تم اپنے ہی بھائی بندوں پر طرح طرح کے ظلم و ستم کر رہے ہو اور اس ظلم و زیادتی پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے ہو۔ میری ناقص رائے یہ ہے کہ اگر اس دیوار کے بنانے کی بات کو اسی حد تک رہنے دیا جائے کہ اللہ کو معلوم ہے تو بہتر ہوگا۔ کیونکہ جب کسی کو معلوم ہی نہیں ہے اور اس سلسلہ میں ایک رائے بھی نہیں ہے تو اس کو تاریخ کا ایک حصہ سمجھ کر چھوڑ دینا چاہئے اور اسے مضمون کی روح کو سامنے رکھنا چاہئے۔
فہم القرآن ربط کلام : ذوالقرنین کی تیسری عسکری مہم۔ مفسرین کا خیال ہے کہ مشرق و مغرب کو فتح کرنے کے بعد ذوالقرنین اپنے ملک سے ملحقہ اس زمانے کی موجود دنیا کے شمال مشرقی علاقے میں پہنچا جسے بعض مؤرخ ترکستان کے قریب کا علاقہ شمار کرتے ہیں۔ یہاں حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے یافث کی اولاد آباد تھی۔ جہاں بحرقرز اور بحر اسود کے درمیان پہاڑی سلسلہ ہے یہاں کے لوگوں کو مؤرخ منگول قوم کے نام سے یاد کرتے ہیں یہ قریب قریب وہی علاقے ہیں جہاں چائینہ کا ملک ہے۔ کیونکہ یہاں کوہ قفقاز کے دامن میں آہنی دیوار موجود ہے۔ ذوالقرنین کی تعمیر کردہ دیوار کے متعلق بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے مراد مشہور دیوار چین ہے۔ حالانکہ دراصل یہ دیوار قفقاز (Caucasus) کے علاقہ داغستان میں دربند اور داریاں (Darial) کے درمیان بنائی گئی تھی۔ قفقاز اس ملک کو کہتے ہیں جو بحیرۂ اسود (Black Sea) اور بحیرۂ خَزر (Caspian Sea) کے درمیان واقع ہے۔ اس ملک میں بحیرۂ اسود سے داریال تک تو نہایت بلند پہاڑ ہیں اور ان کے درمیان اتنے تنگ درے ہیں کہ ان سے کوئی بڑی فوج نہیں گزر سکتی۔ البتہ در بند اور داریال کے درمیان جو علاقہ ہے اس میں پہاڑ بھی زیادہ بلند نہیں ہیں اور ان میں کوہستانی راستے بھی خاصے وسیع ہیں۔ قدیم زمانے میں شمال کی وحشی قومیں اسی طرف سے جنوب کی طرف غارت گرانہ حملے کرتی تھیں اور ایرانی فرمانرواؤں کو اسی طرف سے اپنی مملکت پر شمالی حملوں کا خطرہ لاحق رہتا تھا۔ انہی حملوں کو روکنے کے لیے ایک نہایت مضبوط دیوار بنائی گئی تھی جو ٥٠ میل لمبی ٢٩٠ فٹ بلند اور دس فٹ چوڑی تھی۔ ابھی تک تاریخی طور پر یہ تحقیق نہیں ہوسکی ہے کہ یہ دیوار ابتداً کب اور کس نے بنائی۔ مگر مسلمان مؤرخین اور جغرافیہ نویس اسی کو سدِّ ذوالقرنین قرار دیتے ہیں۔ ابن جریر طبری اور ابن کثیر نے اپنی تاریخوں میں یہ واقعہ لکھا ہے اور یاقوت نے بھی مُعْجم البلدان میں اس کا حوالہ دیا ہے کہ حضرت عمر (رض) نے آذر بائیجان کی فتح کے بعد ٢٢ ہجری میں سُرَاقہ بن عمرو کو باب الابواب ( دربند) کی مہم پر روانہ کیا اور سراقہ نے عبدالرحمن بن ربیعہ کو مقدمۃ الجیش کا افسر بنا کر آگے بھیجا۔ عبدالرحمن جب رمینیہ کے علاقے میں داخل ہوئے تو وہاں کے فرمانروا شہر براز نے جنگ کے بغیر اطاعت قبول کرلی۔ اس کے بعد انہوں نے باب الابواب کی طرف پیش قدمی کا ارادہ کیا۔ اس موقع پر شہر براز نے ان سے کہا کہ میں نے اپنے ایک آدمی کو سدِّ ذوالقرنین کا مشاہدہ اور اس علاقے کے حالات کا مطالعہ کرنے کے لیے بھیجا تھا، وہ آپ کو تفصیلات سے آگاہ کرسکتا ہے۔ چناچہ اس نے عبدالرحمن کے سامنے اس شخص کو پیش کیا۔ (طبری، ج، ٣ : البدایۃ والنہایہ ج ٧ : معجم البلدان، ذکر باب الابواب) اس واقعہ کے دو سو سال بعد عباسی خلیفہ واثق (٢٢٧۔ ٢٣٣ ھ) نے سدّ ذوالقرنین کا مشاہدہ کرنے کے لیے سلام الترجمان کی قیادت میں ٥٠ آدمیوں کی ایک مہم روانہ کی جس کے حالات یاقوت نے معجم البلدان اور ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں خاصی تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں لکھتے ہیں کہ یہ وفد سامَرّہ (سُرَّمَنْ رَأیٰ ) سے تفلیس وہاں سے السر یر وہاں سے اللان ہوتا ہوا فیلان شاہ کے علاقے میں پہنچا، پھر خَزَر کے ملک میں داخل ہوا۔ اس کے بعد دربند پہنچ کر اس نے سدّ کا مشاہدہ کیا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تیسری صدی ہجری میں بھی مسلمان عام طور پر قفقاز کی اس دیوار ہی کو سدّ ذوالقرنین سمجھتے تھے۔ یاقوت نے معجم البلدان میں متعدد دوسرے مقامات پر بھی اسی امر کی تصریح کی ہے۔ (ہِیَ بِلَاد التُرَکِ خَلَفَ بَابِ الْاَبْوَابِ الْمَعْرُوْفِ بالدَّْرْ بَنْدَ قَرِیْبٌ مِنْ سَدِّ ذِی الْقَرْنَیْنِ ) یہ ترکوں کا علاقہ ہے جو سد ذوالقرنین کے قریب باب الابواب کے پیچھے واقع ہے جسے دربند بھی کہتے ہیں۔ “ اسی سلسلہ میں خلیفہ المقتدر باللہ کے سفیر، احمد بن فضلان کی ایک رپورٹ نقل کرتا ہے جن میں مملکت خزر کی تفصیلی کیفیت بیان کی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ خزر ایک مملکت کا نام ہے جس کا صدر مقام اتل ہے۔ دریائے اِتِل اس شہر کے درمیان سے گزرتا ہے اور یہ دریا روس اور بلغار سے آکر بحر خزر میں گرتا ہے۔ باب الابواب کے زیر عنوان لکھتا ہے کہ اس کو الباب اور دربند بھی کہتے ہیں، یہ بحر خزر کے کنارے واقع ہے۔ بلاد کفر سے بلاد مسلمین کی طرف آنے والوں کے لیے یہ راستہ انتہائی دشوار گزار ہے۔ ایک زمانہ میں یہ نوشیروان کی مملکت میں شامل تھا اور شاہان ایران اس سرحد کی حفاظت کو غایت درجہ اہمیت دیتے تھے۔ (تفہیم القرآن : جلد، ٣) یہاں ذوالقرنین نے ایسی قوم کو پایا۔ جن کی زبان سے وہ واقف نہ تھا۔ ظاہر ہے اس قوم کے نمائندوں نے کسی ترجمان یا اشاروں کی زبان سے اپنی صورت حال بادشاہ سلامت کے سامنے پیش کی ہوگی یہاں یا جوج ماجوج قوم رہتی ہے۔ جو اس علاقے پر شب و خون مارتے اور ہر قسم کا دنگا فساد کرتے ہیں انھوں نے ہمارا جینا حرام کر رکھا ہے۔ ان سے ہماری حفاظت کا کوئی بندوبست فرمائیں۔ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی رکاوٹ کھڑی کریں۔ ہم اس کے لیے آپ کی خدمت میں ٹیکس بھی پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کی گفتگو سے ثابت ہوتا ہے کہ ذوالقرنین نے ان پر کسی قسم کی زیادتی نہیں کی تھی اور نہ ہی ان کے مال میں تصرف کیا جس وجہ سے وہ از خود مال کی پیشکش کرتے ہیں۔ رحم دل بادشاہ نے کہا کہ مجھے آپ کے مال کی ضرورت نہیں۔” اللہ “ کا مجھ پر کرم ہے اس نے مجھے سب کچھ دے رکھا ہے۔ آپ صرف افرادی قوت مہیا کریں یعنی لیبر دیں میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک بند بنائے دیتا ہوں۔ تم لوہے کی چادریں اٹھا اٹھا کر لاؤ۔ میں دونوں پہاڑوں کے درمیان آہنی دیوارکھڑی کردیتا ہوں۔ چناچہ اس نے پہاڑوں کے دونوں جانب لوہے کی موٹی موٹی دیواریں کھڑی کرکے ان کو آگ سے تپا یا جب وہ ایک خاص ڈگری تک گرم ہوگئیں تو حکم دیا ان کے درمیان پگھلا ہوا تانبا بھر دیا جائے۔ اس طرح دونوں پہاڑوں کے درمیانی حصے کو لوہے اور تانبے کے کنکریٹ سے بند کردیا۔ اس موقعہ پر بادشادہ نے اختتامی کلمات کہتے ہوئے فرمایا کہ یاجوج ماجوج نہ اس پر چڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس میں نقب لگا سکتے ہیں ظاہر ہے اتنے بڑے منصوبہ کی تکمیل پر لوگوں نے ذوالقرنین کی تعریف کی ہوگی۔ نیک دل بادشاہ اس پر اترانے کی بجائے کہتا ہے کہ یہ میرے رب کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ البتہ جب میرے رب کا وعدہ آن پہنچے گا تو وہ اسے پیوندِخاک کر دے گا اور اس کا وعدہ حق اور سچ ہے۔ وعدہ سے مراد قیامت یا دیوار کی مدّتِ عمر ہے۔ یہاں پھر ذوالقرنین کے حسن کردار اور عقیدہ کی پختگی کا پتہ چلتا ہے کہ عظیم فاتح اور بلاشرکت غیرے دنیا کا حکمران ہونے کے باوجود رعایا کے ساتھ کس قدر مہربان اور قیامت پر کتنا پختہ عقیدہ رکھنے والا شخص تھا جس کی کلام حمید میں تعریف کی گئی ہے۔
92 پھر وہ ایک اور سفر کے ساز و سامان کے پیچھے لگا اور ایک راہ ہو لیا۔ یعنی پھر مشرق کے سفر سے فارغ ہو کر اور ایک سفر کا ساز و سامان کرنے لگا اور ساز و سامان مہیا کر کے ایک تیسرا سفر اختیار کیا یہ سفر غالباً شمال کی جانب ہوگا جیسا کہ عام مفسرین کا خیال ہے لیکن قرآن کریم میں کوئی تصریح اس سفر کے سمت کی نہیں ہے۔