Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 93

سورة الكهف

حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ بَیۡنَ السَّدَّیۡنِ وَجَدَ مِنۡ دُوۡنِہِمَا قَوۡمًا ۙ لَّا یَکَادُوۡنَ یَفۡقَہُوۡنَ قَوۡلًا ﴿۹۳﴾

Until, when he reached [a pass] between two mountains, he found beside them a people who could hardly understand [his] speech.

یہاں تک کہ جب وہ دو دیواروں کے درمیان پہنچا ان دونوں کے پرے اس نے ایک ایسی قوم پائی جو بات سمجھنے کے قریب بھی نہ تھی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

حَتَّى إِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ ... Then he followed (another) way. Until, when he reached between two mountains, meaning, he traveled from the east of the earth until he reached a place between the two mountains which were next to one another with a valley in between, from which Ya'juj and Ma'juj (Gog and Magog) will emerge into the land of the Turks and spread mischief there, destroying crops and people. Ya'juj and Ma'juj are among the progeny of Adam, peace be upon him, as was recorded in the Two Sahihs; إِنَّ اللهَ تَعَالَى يَقُولُ يَا ادَمُ فَيَقُولُ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ فَيَقُولُ ابْعَثْ بَعْثَ النَّارِ فَيَقُولُ وَمَا بَعْثُ النَّارِ فَيَقُولُ مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعُمِايَةٍ وَتِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ إِلَى النَّارِ وَوَاحِدٌ إِلَى الْجَنَّةِ فَحِينَيِذٍ يَشِيبُ الصَّغِيرُ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا فَقَالَ إِنَّ فِيكُمْ أُمَّتيْنِ مَا كَانَتَا فِي شَيْءٍ إِلاَّ كَثَّرَتَاهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوج "Allah said: "O Adam." Adam said, "Here I am at Your service." Allah said, "Send forth the group of Hellfire." Adam said, "What is the group of Hellfire?" Allah said: "Out of every thousand, nine hundred and ninety-nine will go to Hell and one will go to Paradise." At that time young men will turn grey and every pregnant female will drop her load. Among you are two nations who never come to anything but they overwhelm it with their huge numbers. (They are) Ya'juj and Ma'juj." ... وَجَدَ مِن دُونِهِمَا قَوْمًا لاَّ يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ قَوْلاً he found before them a people who scarcely understood a word. he could not understand their speech, because they were so isolated from other people.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

93۔ 1 اس سے مراد دو پہاڑ ہیں جو ایک دوسرے کے مقابل تھے، ان کے درمیان کھائی تھی، جس سے یاجوج و ماجوج ادھر آبادی میں آجاتے اور اودھم مچاتے اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتے۔ 93۔ 2 یعنی اپنی زبان کے سوا کسی اور کی زبان نہیں سمجھتے تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Explanation of Difficult Words 1. The word السَّدَّ used in the expression: بَيْنَ السَّدَّيْنِ denotes what be-comes a barrier against something. It may be a wall or mountain and it may be natural or artificial. At this place, the word: السَّدَّيْنِ (as-saddain) means two mountains that stood as a barrier against the intrusion of Ya&juj and Ma&juj. But, they still attacked through the pass in between the two mountains and which was closed by Dhul-Qarnain. 2. The word: زُبَرَ‌ (zubar) in: زُبَرَ‌ الْحَدِيدِ (zubar al-hadid - 96) is the plural of: زُبرہ (zubrah) which means sheets in the sense of pieces, fragments or ingots of iron which were to be used in the wall designed to block the pass, obviously a stronger device as compared to bricks and rocks. 3. The word: الصَّدَفَيْنِ (as-sadafain - 96) signifies the two sides of the mountain facing each other. 4. According to most commentators, the last word: قِطْرً‌ا (qitr) in verse 96 means molten copper. There are some others who have explained &qitr& as molten iron or pewter. (al-Qurtubi) The expression: دَكَّاءَ (dakkaa&a - 98) used about the wall means what would crumble down to the level of the ground.

معارف و مسائل : لغات مشکلہ کا حل : بَيْنَ السَّدَّيْنِ لفظ سد عربی زبان میں ہر اس چیز کے لئے بولا جاتا ہے جو کسی چیز کے لئے رکاوٹ بن جائے خواہ دیوار ہو یا پہاڑ اور قدرتی ہو یا مصنوعی یہاں سدین سے دو پہاڑ مراد ہیں جو یاجوج و ماجوج کے راستہ میں رکاوٹ تھے لیکن ان دونوں کے درمیانی درے سے وہ حملہ آور ہوتے تھے جس کو ذوالقرنین نے بند کیا۔ زُبَرَ الْحَدِيْدِ زبر زبرہ کی جمع ہے جس کے معنی تختی یا چادر کے ہیں مراد لوہے کے ٹکڑے ہیں جن کو اس درہ کو بند کرنے والی دیوار میں اینٹ پتھر کے بجائے استعمال کرنا تھا۔ الصَّدَفَيْنِ دو پہاڑوں کی دو جانبیں جو ایک دوسرے کے بالمقابل ہوں۔ قِطْرًا قطر کے معنی اکثر مفسرین کے نزدیک پگھلے ہوئے تانبے کے ہیں بعض نے پگھلے ہوئے لوہے یارانگ کو بھی قطر کہا ہے (قرطبی) دَكَّاۗءَ یعنی ریزہ ریزہ ہو کر زمین کے برابر ہوجانے والی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

حَتّٰٓي اِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِنْ دُوْنِہِمَا قَوْمًا۝ ٠ۙ لَّا يَكَادُوْنَ يَفْقَہُوْنَ قَوْلًا۝ ٩٣ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے سد السَّدُّ والسُّدُّ قيل هما واحد، وقیل : السُّدُّ : ما کان خلقة، والسَّدُّ : ما کان صنعة «1» ، وأصل السَّدِّ مصدر سَدَدْتُهُ ، قال تعالی: بَيْنَنا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا، [ الكهف/ 94] ، وشبّه به الموانع، نحو : وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس/ 9] ، وقرئ سدا «2» السُّدَّةُ : کا لظُّلَّة علی الباب تقية من المطر، وقد يعبّر بها عن الباب، كما قيل : ( الفقیر الذي لا يفتح له سُدَدُ السّلطان) «3» ، والسَّدَادُ والسَّدَدُ : الاستقامة، والسِّدَادُ : ما يُسَدُّ به الثّلمة والثّغر، واستعیر لما يسدّ به الفقر . ( س د د ) السد : ( دیوار ، آڑ ) بعض نے کہا ہے سد اور سد کے ایک ہی معنی ہیں اور بعض دونوں میں فرق کرتے ہیں کہ سد ( بضمہ سین ) اس آڑ کو کہا جاتا ہے جو قدرتی ہو اور سد ( بفتحہ سین ) مصنوعی اور بنائی ہوئی روک کو کہتے ہیں ۔ اصل میں یہ سددتہ ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی رخنہ کو بند کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَيْنَنا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا، [ الكهف/ 94] کہ ( آپ ) ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار کھینچ دیں ۔ اور تشبیہ کے طور پر ہر قسم کے موانع کو سد کہہ دیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس/ 9] اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنا دی اور ان کے پیچھے بھی ایک قراءت میں سدا بھی ہے ۔ السدۃ برآمدہ جو دروازے کے سامنے بنایا جائے تاکہ بارش سے بچاؤ ہوجائے ۔ کبھی دروازے کو بھی سدۃ کہہ دیتے ہیں جیسا کہ مشہور ہے : ۔ ( الفقیر الذي لا يفتح له سُدَدُ السّلطان) یعنی وہ فقیر جن کے لئے بادشاہ کے دروازے نہ کھولے جائیں ۔ السداد والسدد کے معنی استقامت کے ہیں اور السداد اسے کہتے ہیں جس سے رخنہ اور شگاف کو بھرا جائے ۔ اور استعارہ کے طور پر ہر اس چیز کو سداد کہا جاتا ہے جس سے فقر کو روکا جائے ۔ كَادَ ووُضِعَ «كَادَ» لمقاربة الفعل، يقال : كَادَ يفعل : إذا لم يكن قد فعل، وإذا کان معه حرف نفي يكون لما قد وقع، ويكون قریبا من أن لا يكون . نحو قوله تعالی: لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء/ 74] ، وَإِنْ كادُوا[ الإسراء/ 73] ، تَكادُ السَّماواتُ [ مریم/ 90] ، يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة/ 20] ، يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج/ 72] ، إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات/ 56] ولا فرق بين أن يكون حرف النّفي متقدما عليه أو متأخّرا عنه . نحو : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة/ 71] ، لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء/ 78] . وقلّما يستعمل في كاد أن إلا في ضرورة الشّعر «1» . قال قد كَادَ من طول البلی أن يمصحا«2» أي : يمضي ويدرس . ( ک و د ) کاد ( س ) فعل مقارب ہے یعنی کسی فعل کے قریب الوقوع ہون کو بیان کرنے کے لئے آتا ہے مثلا کا دیفعل قریب تھا وہ اس کا م کو گزرتا یعنی کرنے والا تھا مگر کیا نہیں قرآن میں لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء/ 74] تو تم کسی قدر ان کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے ۔ وَإِنْ كادُوا[ الإسراء/ 73] قریب تھا کہ یہ ( کافر) لگ تم اس سے بچلا دیں ۔ تَكادُ السَّماواتُ [ مریم/ 90] قریب ہے کہ ( اس فتنہ ) سے آسمان پھٹ پڑیں ۔ ؛ يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة/ 20] قریب ہے ک کہ بجلی کی چمک ان کی آنکھوں کی بصاحب کو اچک لے جائے ۔ يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج/ 72] قریب ہوتے ہیں کہ ان پر حملہ کردیں إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات/ 56] تو تو مجھے ہلا ہی کرچکا تھا ۔ اور اگر ا ن کے ساتھ حرف نفی آجائے تو اثباتی حالت کے برعکدس فعل وقوع کو بیان کرنے کیلئے آتا ہے جو قوع کے قریب نہ ہوا اور حروف نفی اس پر مقدم ہو یا متاخر دونوں صورتوں میں ایک ہی معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة/ 71] اور وہ ا یسا کرنے والے تھے نہیں ۔ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء/ 78] کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اور کاد کے بعد ا ان کا استعمال صرف ضرورت شعری کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 387 ) قد کاد من طول البلیٰ ان یمصحا قریب تھا کہ زیادہ بوسیدہ گی کے باعث وہ سٹ جائے فقه الفِقْهُ : هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد، فهو أخصّ من العلم . قال تعالی: فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] ( ف ق ہ ) الفقہ کے معنی علم حاضر سے علم غائب تک پہچنچنے کے ہیں اور یہ علم سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٣ (حَتّٰٓي اِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ ) ” سد “ دیوار کو کہتے ہیں۔ دو دیواروں سے مراد یہاں دو پہاڑی سلسلے ہیں۔ داہنی طرف مشرق میں بحیرۂ کیسپین تھا اور دوسری طرف بحیرۂ اسود۔ ان دونوں سمندروں کے ساحلوں کے ساتھ ساتھ دو پہاڑی سلسلے متوازی چلتے ہیں۔ اور ان پہاڑی سلسلوں کی درمیانی گزر گاہ سے شمالی علاقوں کے وحشی قبائل (یاجوج ماجوج) اس علاقے پر حملہ آور ہوتے تھے۔ (وَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمَا قَوْمًا ۙ لَّا يَكَادُوْنَ يَفْقَهُوْنَ قَوْلًا) گویا یہ بھی ایک غیر متمدن قوم تھی۔ اس قوم کے افراد ذوالقرنین اور ان کے ساتھیوں کی زبان سے قطعاً ناآشنا تھے اور حملہ آور لشکر کے لوگ بھی اس مفتوحہ قوم کی زبان نہیں سمجھ سکتے تھے۔ مگر پھر بھی انہوں نے کسی نہ کسی طرح سے ذوالقرنین کے سامنے اپنا مدعا بیان کر ہی دیا :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

67. The “two mountains” must have been parts of that mountain range which runs between the Caspian Sea and the Black Sea as stated in (Ayat 96). This must be so because beyond them was the territory of Gog and Magog. 68. That is, it was difficult to communicate with them: their language was almost foreign to Zul-Qarnain and his companions, and, as they were quite barbaric, none could understand their language, nor were they acquainted with any foreign language.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :67 چونکہ آگے یہ ذکر آ رہا ہے کہ ان دونوں پہاڑوں کے اس طرف یاجوج ماجوج کا علاقہ تھا ، اس لیے لامحالہ ان پہاڑوں سے مراد کا کیشیا کے وہ پہاڑی سلسلے ہی ہو سکتے ہیں جو بحر خزر ( کیسپین ) اور بحر اسود کے درمیان واقع ہیں ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :68 یعنی اس کی زبان ذوالقرنین اور اس کے ساتھیوں کے لیے قریب قریب بالکل اجنبی تھی ۔ سخت وحشی ہونے کے سبب سے نہ کوئی ان کی زبان سے واقف تھا اور نہ وہ کسی غیر زبان سے واقف تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

47: یہ ذوالقرنین کا تیسرا سفر ہے، قرآن کریم نے اس سفر کی سمت متعین نہیں فرمائی، لیکن بیشتر مفسرین کا خیال یہ ہے کہ یہ سفر شمال میں دنیا کی انتہائی آبادی کی طرف ہوا تھا، یہاں کے لوگوں کی زبان بالکل مختلف تھی، اور شاید حلیہ بھی ایسا ہو کہ ان میں سمجھ کے آثار نظر نہ آتے ہوں، اور آگے ان سے جو گفتگو ہوئی ہے وہ یا تو کسی ترجمان کے ذریعے ہوئی ہوگی یاا شاروں سے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:93) السدین۔ دو پہاڑ ۔ دو آڑ۔ سد کا تثنیہ ہے۔ لا یکادون یفقھون۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب۔ وہ کوئی بات آسانی سے نہیں سمجھ سکتے تھے۔ کاد یکاد۔ افعال مقاربہ میں سے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی اس مقام پر جہاں مشرق میں اس زمانہ کی مہذب آبادی کی انتہا تھی۔9 یعنی وہاں ایسے لوگ بستے تھے جو رہنے کے لئے گھر یا خیمے تک بنانا نہیں جانتے تھے اور نہ لباس اسعتمال کرتے تھے بلکہ کھلے میدان میں ننگے رہتے تھے۔ (شوکانی) 10 یعنی ذولاقرنین کا قصہ ایسا ہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ وسائل و اسباب سے کام لیکر مغرب اور پھر مشرق تک پہنچا۔ یا جو معاملہ اس نے مغرب دلوں سے کیا وہی معاملہ اس نے مشرق والوں سے کیا اور وہ یہ کہ ایمانداروں کے لئے آسانی کی اور شریروں کافروں کو سزا دی۔ (کذا فی شوکانی)11 یعنی ہمیں اس کی صلاحیتوں اسباب و وسائل اور حالات سے بخوبی آگاہی ہے جو کچھ ہم بیان کرتے ہیں وہی صحیح ہے۔21 یعنی ایک اور سمت سفر شروع کیا۔ یہ تیسرا سفر مشرق و مغرب کے علاوہ کسی سمت تھا ؟ مفسرین عموماً اسے شمال کی سمت قرار دیتے ہیں کیونکہ یاجوج ماجوج جو ترک سے ایک قوم ہے اس کا مکسن قصص شمال ہے مگر قرآن و حدیث میں اس کی تصریح نہیں۔ شوکانی کبیر)13 یعنی ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں دائیں بائیں دو پہاڑ تھے جن پر پڑھنا ممکن نہ تھا البتہ دونوں پہاڑوں کے درمیان ایک گھاٹی اور تھی جس کے ذریعے ادھر سے ادھر سے ادھر نقل و حرکت ممکن تھی۔ اس جگہ سے مراد بعض مفسرین وہ علاقہ لیتے ہیں جہاں ترکوں کا ملک ختم ہوتا اور بعض آرمینیہ اور آذربائیجان کے درمیان کا علاقہ مگر ان بیانات رولی اطمینان حاصل نہیں ہوتا۔ واللہ علم۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی غیر زبان ہونے کی وجہ سے تو بات سمجھتے اور وحشی اور قلیل الفہم ہونے کی وجہ سے سمجھنے کے لگ بھگ بھی نہیں پہنچتے، ورنہ عاقل آدمی رموز و قرائن سے کچھ قریب قریب سمجھ لیتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

79:۔ یہ ذوالقرنین کی تیسری مہم کا بیان ہے، اس کے متعلق عام مفسرین کی رائے یہی ہے کہ یہ سفر شمال کی جانب تھا۔ ” السدین “ (دو دیواروں) سے مراد وہ پہاڑ ہیں جن کے درمیان درہ تھا اور جس سے یاجوج ماجوج بیرونی علاقے میں آکر فساد کرتے تھے۔ ” من دونھما “ ان دونوں پہاڑوں سے ورے ایک قوم آباد تھی جن کی زبان بالکل علیحدہ تھی۔ وہ ذوالقرنین کی کوئی بات سمجھ نہیں سکتے تھے۔ نہ ذوالقرنین ان کی زبان سے آشنا تھے۔ قال ابن عباس لا یفہمون کلام احد ولا یفھم الناس کلامھم (خازن ج 4 ص 187) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

93 یہاں تک کہ جب وہ چلتے چلتے دو پہاڑوں کے درمیان پہونچا تو اس نے ان پہاڑوں سے درے ایک ایسی قوم کو پایا جو کسی بات کو سمجھنے کے بالکل قریب نہ تھی۔ یعنی دو پہاڑ تھے اور ان کے قریب ہی ایک قوم ایسی آباد تھی جو ذوالقرنین اور اس کی فوج کی بات اور بولی سمجھتی دو پہاڑ شاید اس درے کو فرمایا جو پہاڑ میں واقع تھا پہاڑ کے درے اور گھاٹی کے دو سمت پہاڑ ہوتے ہیں اور بیچ میں راستہ ہوتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی کسی کی بولی ان سے نہ ملتی تھی اور دو آڑ دو پہاڑ تھے اس ملک میں اور یاجوج ماجوج کے ملک میں وہی اٹکائو تھی ان پر چڑھائی نہ تھی مگر بیچ میں کھلا تھا ایک گھاٹا اس راہ سے یاجوج ماجوج آتے اور لوگوں کو لوٹ مار کر چلے جاتے۔ 12