Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 98

سورة الكهف

قَالَ ہٰذَا رَحۡمَۃٌ مِّنۡ رَّبِّیۡ ۚ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ رَبِّیۡ جَعَلَہٗ دَکَّآءَ ۚ وَ کَانَ وَعۡدُ رَبِّیۡ حَقًّا ﴿ؕ۹۸﴾

[Dhul-Qarnayn] said, "This is a mercy from my Lord; but when the promise of my Lord comes, He will make it level, and ever is the promise of my Lord true."

کہا یہ صرف میرے رب کی مہربانی ہے ہاں جب میرے رب کا وعدہ آئے گا تو اسے زمین بوس کر دے گا بیشک میرے رب کا وعدہ سچا اور حق ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ هَذَا رَحْمَةٌ مِّن رَّبِّي ... (Dhul-Qarnayn) said: "This is a mercy from my Lord..." meaning, after it was built by Dhul-Qarnayn. قَالَ هَذَا رَحْمَةٌ مِّن رَّبِّي He said: This is a mercy from my Lord, for the people, when he placed a barrier between them and Ya'juj and Ma'juj, to stop them from spreading evil and corruption on earth. ... فَإِذَا جَاء وَعْدُ رَبِّي ... but when the promise of my Lord comes, means, when the true promise comes. ... جَعَلَهُ دَكَّاء ... He shall Dakka' it down to the ground. means, will make it flat. The Arabs use Dakka' to describe a female camel whose back is flat and has no hump. And Allah says: فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا So when his Lord appeared to the mountain, He made it Dakkan. (7:143) meaning, level to the ground. ... وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا And the promise of my Lord is ever true. means, it will come to pass without a doubt.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

98۔ 1 یعنی یہ دیوار اگرچہ بڑی مضبوط بنادی گئی جس کے اوپر چڑھ کر اس میں سوراخ کر کے یاجوج ماجوج کا ادھر آنا ممکن نہیں ہے لیکن جب میرے رب کا وعدہ آجائے گا، تو وہ اسے ریزہ ریزہ کر کے زمین کے برابر کر دے گا، اس وعدے سے مراد قیامت کے قریب یاجوج و ماجوج کا ظہور ہے جیسا کہ احادیث میں ہے۔ مثلًا ایک حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دیوار کے تھوڑے سے سوراخ کو فتنے کے قریب ہونے سے تعبیر فرمایا (صحیح بخاری، نمبر 3346 و مسلم، نمبر 2208) ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ وہ ہر روز اس دیوار کو کھودتے ہیں اور پھر کل کے لئے چھوڑ دیتے ہیں، لیکن جب اللہ کی مشیت ان کے باہر نکلنے کی ہوگی تو پھر وہ کہیں گے کل انشا اللہ اسکو کھو دیں گے اور پھر دوسرے دن وہ اس سے نکلنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ زمین میں فساد پھیلائیں گے حتٰی کے لوگ قلعہ بند ہوجائیں گے، یہ آسمانوں پر تیر پھینکیں گے جو خون آلودہ لوٹیں گے، بالآخر اللہ تعالیٰ ان کی گدیوں پر ایسا کیڑا پیدا فرما دے گا جس سے ان کی ہلاکت واقع ہوجائے گی۔ صحیح مسلم میں نواس بن سمعان کی روایت میں وضاحت ہے کہ یاجوج و ماجوج کا ظہور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کے بعد ان کی موجودگی میں ہوگا۔ جس سے ان حضرات کی تردید ہوجاتی ہے، جو کہتے ہیں کہ تاتاریوں کا مسلمانوں پر حملہ، یا منگول ترک جن میں چنگیز بھی تھا یا روسی یا چینی قومیں یہی یاجوج و ماجوج ہیں، جن کا ظہور ہوچکا۔ یا مغربی قومیں ان کا مصداق ہیں کہ پوری دنیا میں ان کا غلبہ و تسلط ہے۔ یہ سب باتیں غلط ہیں کیونکہ ان کے غلبے سے سیاسی غلبہ مراد نہیں ہے بلکہ قتل و غارت گری اور زرو و فساد کا وہ عارضی غلبہ ہے جس کا مقابلہ کرنے کی طاقت مسلمانوں میں نہیں ہوگی، تاہم پھر وبائی مرض سے سب کے سب آن واحد میں لقمہ اجل بن جائیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٠] جب یہ دیوار تعمیر ہوگئی تو ذوالقرنین نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا۔ جس نے یہ دیوار بنانے اور لوگوں کو آئے دن کی پریشانیوں سے نجات دلانے کی توفیق بخشی مگر ساتھ ہی لوگوں کو یہ بھی بتادیا کہ یہ دیوار اگرچہ بہت مضبوط اور مستحکم ہے مگر یہ لازوال نہیں جو چیز بھی بنی ہے بالآخر فنا ہونے والی ہے جب تک اللہ کو منظور ہے قائم رہے گی اور && وعدے کے وقت && سے مراد یا تو اس دیوار کی تباہی کا وقت ہے یا اس سے مراد قیامت ہے جب کہ ہر چیز ہی فنا ہوجائے گی جیسا کہ اس کے بعد والی آیت سے اسی دوسرے مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ [٨١] ذوالقرنین کے خصائل :۔ اس آیت پر ذوالقرنین کا ان لوگوں سے خطاب بھی ختم ہوجاتا ہے اور قصہ ذوالقرنین بھی۔ اس میں محض کفار مکہ کے سوال کا جواب ہی نہیں دیا گیا بلکہ یہ بتایا گیا ہے کہ ذوالقرنین ایک بہت بڑا فاتح اور شان و شوکت والا بادشاہ ہونے کے باوجود توحید اور آخرت کا قائل تھا۔ عدل و انصاف کے علاوہ فیاضی سے کام لیتا تھا۔ نرمی کا برتاؤ کرتا تھا تمہاری طرح کم ظرف نہ تھا کہ معمولی قسم کی سرداریاں پاکر اکڑے بیٹھے ہو اور دوسروں کو حقیر سمجھتے ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ ھٰذَا رَحْمَةٌ مِّنْ رَّبِّيْ : ذوالقرنین نے دیوار بنا کر اسے اپنا کارنامہ قرار دینے کے بجائے اپنے رب کی رحمت قرار دیا، جس کی بدولت وہ لوگ یاجوج ماجوج کے حملوں سے محفوظ ہوگئے۔ اس کے ساتھ ہی اس کی مضبوطی کے باوجود اسے لازوال قرار دینے کے بجائے فرمایا کہ جب میرے رب کا وعدہ آئے گا تو وہ اسے زمین کے برابر کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ ہمیشہ سے سچا ہے۔ ذوالقرنین کی بات اور دو باغوں والے بےایمان کی بات کا موازنہ کریں، جو اپنے باغوں کو کبھی برباد نہ ہونے والا کہہ رہا تھا، تو مومن و کافر کی سوچ کا فرق صاف واضح ہوجاتا ہے۔ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ رَبِّيْ جَعَلَهٗ دَكَّاۗءَ ۔۔ : ذوالقرنین کی اس بات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ساری دنیا کی بادشاہت ملنے کے باوجود آخرت کی فکر ہر وقت رہنی چاہیے، کیونکہ دنیا فانی ہے اور آخرت ہمیشہ رہنے والی ہے۔ اس وعدے سے مراد قیامت کے قریب یاجوج ماجوج کے نکلنے کا وقت ہے، جیسا کہ سورة انبیاء (٩٦، ٩٧) میں ہے۔ زینب بنت جحش (رض) فرماتی ہیں : ( اِسْتَیْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ النَّوْمِ مُحْمَرًّا وَجْھُہُ وَھُوَ یَقُوْلُ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، وَیْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ ، فُتِحَ الْیَوْمَ مِنْ رَدْمِ یَأْجُوْجَ وَمَأْجُوْجَ مِثْلُ ھٰذِہِ وَعَقَدَ سُفْیَانُ تِسْعِیْنَ أَوْ ماءَۃً قِیْلَ أَنَھْلِکُ وَفِیْنَا الصَّالِحُوْنَ ؟ قَالَ نَعَمْ إِذَا کَثُرَ الْخَبَثُ ) [ بخاری، الفتن، باب قول النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ویل للعرب۔۔ : ٧٠٥٩ ]” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیند سے لا الٰہ الا اللہ کہتے ہوئے بیدار ہوئے، جب کہ آپ کا چہرہ سرخ تھا، فرمایا : ” عرب کے لیے بہت بڑی تباہی ہے، اس شر سے جو بہت قریب آگیا ہے، آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں اتنا حصہ کھول دیا گیا۔ “ اور سفیان نے نوے (٩٠) یا سو (١٠٠) کی گرہ بنائی، یعنی انگوٹھے اور شہادت کی انگلی ملا کر گول دائرہ بنا کر دکھایا۔ پوچھا گیا : ” کیا ہم اپنے آپ میں صالحین کے موجود ہوتے ہوئے ہلاک ہوجائیں گے۔ “ فرمایا : ” ہاں، جب برائی زیادہ ہوجائے گی۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ ھٰذَا رَحْمَۃٌ مِّنْ رَّبِّيْ ۝ ٠ۚ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ رَبِّيْ جَعَلَہٗ دَكَّاۗءَ ۝ ٠ۚ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّيْ حَقًّا۝ ٩٨ۭ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ دك الدَّكُّ : الأرض الليّنة السّهلة، وقد دَكَّهُ دَكّاً ، قال تعالی: وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبالُ فَدُكَّتا دَكَّةً واحِدَةً [ الحاقة/ 14] ، وقال : دُكَّتِ الْأَرْضُ دَكًّا [ الفجر/ 21] ، أي : جعلت بمنزلة الأرض اللّيّنة . وقال اللہ تعالی: فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا [ الأعراف/ 143] ، ومنه : الدُّكَّان . والدّكداك «4» : رمل ليّنة . وأرض دَكَّاء : مسوّاة، والجمع الدُّكُّ ، وناقة دكّاء : لا سنام لها، تشبيها بالأرض الدّكّاء . ( دک ک ) الدک ( اسم ) کے معنی نرم اور ہموار زمین کے ہیں ۔ اور دلہ ( ن) دکا کے معنی کوٹ کر ہموار کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبالُ فَدُكَّتا دَكَّةً واحِدَةً [ الحاقة/ 14] اور زمین اور پہاڑ دونوں اٹھائے جائیں گے پھر ایک بارگی توڑ کر برابر کردیئے جائیں گے ۔ دُكَّتِ الْأَرْضُ دَكًّا [ الفجر/ 21] یعنی زمین کوٹ کوٹ کر ہموار کردی جائیگی ۔ فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا [ الأعراف/ 143] جب ان کا پروردگار پہاڑ پر نمودار ہواتو ( تجلی انوار بانی نے ) اس کو ریزہ ریزہ کردیا ۔ اور اسی سے دکان ہے جس کے معنی ہموار چبوترہ کے ہیں ۔ الدکداک نرم ریت ہموار زمین ۔ ج د ک ۔ اور ہموار زمین کے ساتھ تشبیہ دے کر ناقۃ دکآء اس اونٹنی کو کہہ دیتے ہیں جس کی کوہان نہ ہو ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٨ (قَالَ ھٰذَا رَحْمَةٌ مِّنْ رَّبِّيْ ) اتنا بڑا کارنامہ سر انجام دینے کے بعد بھی ذوالقرنین کوئی کلمہ فخر زبان پر نہیں لائے بلکہ یہی کہا کہ اس میں میرا کوئی کمال نہیں یہ سب اللہ کی مہربانی سے ہی ممکن ہوا ہے۔ (فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ رَبِّيْ جَعَلَهٗ دَكَّاۗءَ ) چنانچہ امتداد زمانہ کے سبب یہ دیوار اب ختم ہوچکی ہے صرف اس کے آثار موجود ہیں جن سے اس کے مقام اور سائز وغیرہ کا پتا چلتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

71. That is, though I have built a very strong iron wall, as far as it was possible for me, it is not ever lasting, for it will last only as long as Allah wills, and will fall down to pieces when the time of my Lord’s promise shall come. Then no power in the world shall be able to keep it safe and secure. As regards to the time of Allah’s promise, it has two meanings. (1) It may mean the time of the destruction of the wall. (2) It may also mean the time of the death and destruction of everything destined by Allah at the end of the world i.e. the Hour of Resurrection. Some people have entertained the misunderstanding that the wall attributed here to Zul-Qarnain refers to the famous wall of China, whereas this wall was built between Derbent and Daryal, two cities of Daghestan in the Caucasus, the land that lies between the Black Sea and the Caspian. There are high mountains between the Black Sea and Daryal having deep gorges which cannot allow large armies to pass through them. Between Derbent and Daryal, however, there are no such mountains and the passes also are wide and passable. In ancient times savage hordes from the north invaded and ravaged southern lands through these passes and the Persian rulers who were scared of them had to build a strong wall, 50 miles long, 29 feet high and 10 feet wide, for fortification purposes, ruins of which can still be seen. Though it has not yet been established historically who built this wall in the beginning, the Muslim historians and geographers assign it to Zul-Qarnain because its remains correspond with the description of it given in the Quran. Ibn Jarir Tabari and Ibn Kathir have recorded the event, and Yaqut has mentioned it in his Mu jam-ul-Buldan that when after the conquest of Azerbaijan, Umar sent Suraqah bin Amr, in 22 A.H. on an expedition to Derbent, the latter appointed Abdur Rehman bin Rabiah as the chief of his vanguard. When Abdur Rehman entered Armenia, the ruler Shehrbraz surrendered without fighting. Then when Abdur Rehman wanted to advance towards Derbent, Shehrbraz informed him that he had already gathered full information about the wall built by Zul-Qarnain, through a man, who could supply all the necessary details and then the man was actually presented before Abdur Rehman. (Tabari, Vol. III, pp. 235-239; AIBidayah wan-Nihayah, Vol. VII, pp. 122-125, and Mujamul- Buldan, under Bab-ul-Abwab: Derbent). Two hundred years later, the Abbasid Caliph Wathiq (227- 233 A.H.) dispatched a party of 50 men under Sallam-ul- Tarjuman to study the wall of Zul-Qarnain, whose observations have been recorded in great detail by Yaqut in Mujam-ul-Buldan and by Ibn Kathir in AI-Bidayah. They write that this expedition reached Samarrah from where they reached Tiflis (the present Tbilisi) and then through As-Sarir and Al-Lan, they reached Filanshah, from where they entered the Caspian territory. From there they arrived at Derbent and saw the wall. (AIBidayah Vol. II, p. 111, Vol. VII, pp. 122-125; Mujam-ul-Buldan: under BabulAbwab). This clearly shows that even up till the third century of Hijrah the Muslim scholars regarded this wall of the Caucasus as the wall of Zul-Qarnain. Yaqut in his Mujam-ul-Buldan has further confirmed the same view at a number of places. For instance, under Khazar (Caspian) he writes: This territory belongs to the Turks, which adjoins the wall of Zul Qarnain just behind Bab-ul-Abwab, which is also called Derbent. In the same connection, he records a report by Ahmad bin Fadlan, the ambassador of Caliph Al- Muqtadar-billah, who has given a full description of the Caspian land, saying that Caspian is the name of a country whose capital is Itil (near the present Astrakhan) right through which flows River Itil, which joins the Caspian from Russia and Bulghar. Regarding Bab-ul-Abwab he says that this city is called both Al-Bab and Derbent, which is a highly difficult passage for the people coming from the northern lands towards the south. Once this territory was a part of the kingdom of Nausherwan, and the Persian rulers paid particular attention to strengthening their frontiers on that side. 72. Here the story of Zul-Qarnain comes to an end. Though this story has been related in answer to the questions put by the disbelievers of Makkah as a test along with the stories of the sleepers of the cave and Moses and Khidr, the Quran has utilized this story, too, for its own aim and object, as if to say: Zul Qarnain, about whose glory you have heard from the people of the Book, was not merely a conqueror, but also a believer of the doctrines of Tauhid and the life after death and acted upon the principles of justice and generosity. He was not a mean person like you who have been puffed up by the possession of petty estates, and give yourselves airs of superiority.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :71 یعنی اگرچہ میں نے اپنی حد تک انتہائی مستحکم دیوار تعمیر کی ہے ، مگر یہ لازوال نہیں ہے ۔ جب تک اللہ کی مرضی ہے ، یہ قائم رہے گی ، اور جب وہ وقت آئے گا جو اللہ نے اس کی تباہی کے لیے مقدر کر رکھا ہے تو پھر اس کو پارہ پارہ ہونے سے کوئی چیز نہ بچا سکے گی ۔ وعدے کا وقت ذو معنی لفظ ہے ۔ اس سے مراد اس دیوار کی تباہی کا وقت بھی ہے اور وہ ساعت بھی جو اللہ نے ہر چیز کی موت اور فنا کے لیے مقرر فرما دی ہے ، یعنی قیامت ۔ ( اس دیوار کے متعلق تفصیلی معلومات کے لیے ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر ۔ 2 ) سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :72 یہاں پہنچ کر ذو القرنین کا قصہ ختم ہو جاتا ہے ۔ یہ قصہ اگرچہ کفار مکہ کے امتحانی سوال پر سنایا گیا ہے ، مگر قصۂ اصحاب کہف اور قصۂ موسیٰ و خضر کی طرح اس کو بھی قرآن نے اپنے قاعدے کے مطابق اپنے مدعا کے لیے پوری طرح استعمال کیا ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ ذو القرنین ، جس کی عظمت کا حال تم نے اہل کتاب سے سنا ہے ، محض ایک فاتح ہی نہ تھا ، بلکہ توحید اور آخرت کا قائل تھا ، عدل و انصاف اور فیاضی کے اصولوں پر عامل تھا ، اور تم لوگوں کی طرح کم ظرف نہ تھا کہ ذرا سی سرداری ملی اور سمجھ بیٹھے کہ ہم چومن دیگرے نیست ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

50: ذوالقرنین نے اتنا بڑا کارنامہ انجام دینے کے بعد دو حقیقتوں کو واضح کیا، ایک یہ کہ یہ سارا کارنامہ میرے قوت بازو کا کرشمہ نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مجھے اس کی توفیق ہوئی ہے، اور دوسرے یہ کہ اگرچہ اس وقت یہ دیوار بہت مستحکم بن گئی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے اسے توڑنا کچھ مشکل نہیں ہے، جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا یہ قائم رہے گی، اور جب وہ وقت آجائے گا جس میں اللہ تعالیٰ نے اس کا ٹوٹنا مقرر کر رکھا ہے تو یہ ٹوٹ کر زمین کے برابر ہوجائے گی، اس طرح قرآن کریم سے یہ بات یقینی طور پر معلوم نہیں ہوتی کہ یہ دیوار قیامت تک قائم رہے گی، بلکہ اس کا قیامت سے پہلے ٹوٹنا بھی ممکن ہے، چنانچہ بعض محققین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ دیوار روس کے علاقے داغستان میں در بند کے مقام پر بنائی گئی تھی، اور اب وہ ٹوٹ چکی ہے، یاجوج ماجوج کے مختلف ریلے تاریخ کے محتلف زمانوں میں متمدن آبادیوں پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں، اور پھر وہ ان متمدن علاقوں میں پہنچ کر خود بھی متمدن ہوتے رہے ہیں، البتہ ان کا آخری ریلا قیامت کے کچھ پہلے نکلے گا، اس موضوع کی مفصل تحقیق حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب (رح) کی کتاب قصص القرآن اور حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب (رح) کی تفسیر معارف القرآن میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اور آگے ذوالقرنین نے جو یہ فرمایا کہ میرے رب کا وعدہ بالکل سچا ہے، اس سے مراد قیامت کا وعدہ ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ تو ابھی معلوم نہیں ہے کہ اس دیوار کے ٹوٹنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کونسا وقت مقرر فرمایا ہے، لیکن ایک وعدہ واضح طور پر معلوم ہے کہ ایک وقت قیامت آنے والی ہے، اور جب وہ آئے گی تو ہر مضبوط سے مضبوط چیز بھی ٹوٹ پھوٹ کر فنا ہوجائے گی، ذوالقرنین نے اس پر قیامت کا جو حوالہ دیا اس کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے آگے قیامت کے کچھ حالات بیان فرمائے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:98) ھذا۔ سدّ کی طرف اشارہ ہے۔ وہ دیوار جو اس نے آڑ کے لئے بنائی تھی۔ وکائ۔ واحد دکاوات جمع۔ نرم پہاڑ۔ مٹی کا پشتہ۔ ہموار شدہ سطح۔ دک یدک (نصر) کو ٹنا۔ ریزہ ریزہ کرنا۔ ہموار کرنا۔ مدکوک۔ کوٹ کوٹ کور ریزہ کیا ہوا۔ وہ اسے ریزہ ریزہ کر دے گا۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے ۔ اذا دکت الارض دکا دکا (89:21) جب زمین توڑ توڑ کر ریزہ ریزہ کردی جائے گی۔ فاذا جاء وعد ربی۔ ای فاذا جاء وقت وعد ربی۔ وقت وعدہ سے مراد یوم قیام بھی ہوسکتا ہے ۔ اور یاجوج ماجوج کا یوم خروج بھی۔ سیاق قرآن کے مطابق دونوں صورتیں مراد ہوسکتی ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی یہ دیوار گو انتہائی مضبوط ہے مگر یہ اس وقت تک قائم رہے گی جب تک میرے مالک کی مرضی ہے اور جب وہ وقت آئے گا جو میرے مالک نے اس کی تباہی کے لئے مقدر فرمایا ہے تو کوئی چیز اسے پیوند خاک ہونے سے نہیں بچا سکے گی۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : ذوالقرنین ایسی محکم دیوار پر بھی منتظر تھا کہ آخر یہ بھی فنا ہوگی نہ جیسے وہ باغ والا اپنے باغ پر مغرور (موضح) بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دیوار آنحضرت کے زمانہ تک قائم تھی۔ اور آپ نے اپنی انگلیوں سے ایک دائرہ بنا کر بتایا کہ آج یاجوج ماجوج کے بند میں سے اتنا کھل گیا ہے۔ بخاری مسلم یہاں ولہ سے مراد دیوار کے ختامہ اور تباہی کا وقت ہے اور وہ قیامت یا اس سے پہلے کا کوئی زمانہ ہوسکتا ہے۔ احادیث صحیحیہ اور آثار مرویہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ کے نزول اور قتل دخال کے بعد قیامت کے قریب یاجوج ماجوج کے نکلنے کا وعدہ ہے تمام دنیا والے ان کی لڑائی سے عاجز ہوں گے آخر کار آسمان پر تیر چلا ویں گے وہ تیر خون آلودہ واپس آئیں گے۔ آخر حضرت عیسیٰ کی بد دعا سے ان پر کوئی وبا آئے گی اور وہ سب ایک دم مرجائیں گے۔ (کذا فی ابن کثیر) اب یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ دیوار کہاں وقع ہے یا وہ کون سی جگہ ہے جہاں یاجوج ماجوج قید ہیں ؟ اگر اب تک لوگوں کو اس دیوار کا پتا نہیں چل سکا تو اس سے لازم نہیں آتا کہ اس کا وجود ہی نہ ہو آخر دنیا کی کتنی چیزیں ہیں جن کا انسان کو اب تک علم نہیں ہوسکا

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قال ھذا رحمۃ من ربی فاذا جآء وعد ربی جعلہ دکآء وکان وعد ربی حقاً (٨١ : ٨٩) ” یہ میرے رب کی رحمت ہے مگر جب میرے رب کے وعدے کا وقت آئے گا تو وہ اسے پیوند خاک کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے۔ “ یوں سیرت ذوالقرنین کا یہ حلقہ ختم ہوتا ہے۔ ذوالقرنین ایک اچھے حکمران کا نمونہ تھے جسے اللہ نے تمکین فی الارض عطا کی۔ ترقی اور قوت کے اسباب فراہم کئے۔ اس نے زمین کے شرق و غرب کو روند ڈالا۔ لیکن اس نے کبر و غرور کو اپنے قریب آنے نہ دیا ، نہ اس نے سرکشی اور نافرمانی کی۔ نہ اس نے اپنے مفتوحہ علاقوں کے اندر لوٹ مار مچائی۔ نہ افراد ، نہ علاقوں اور ملکوں کا استحصال کیا۔ اپنے مفتوجہ علاقوں کو غلام بھی نہ بنایا۔ نہ اس نے علاقوں کو اپنے مفادات کے لئے فتح کیا۔ بلکہ یہ حکمران جہاں جاتا ہے وہاں عدل و انصاف کا سایہ پھیلاتا ہے۔ پسماندہ لوگوں کی امداد کرتا ہے اور بغیر ٹیکس لئے لوگوں پر ظلم کرنے والوں کا ہاتھ روکتا ہے۔ سائنسی قوت اور ٹیکنالوجی جو اللہ نے اسے دی ، اسے وہ انسانیت کی اصلاح اور تعمیر کے لئے استعملا کرتا ہے۔ ظلم کو روک کر حق حقدار تک پہنچاتا ہے اور یہ سارے کام کر کے پھر وہ ان کا کریڈٹ اللہ کو دیتا ہے کہ یہ تو اللہ کی توفیق اور رحمت ہے۔ اپنی اس قوت ، جبروت اور جلال کے باوجود وہ اس حقیقت کو یاد رکھتا ہے کہ ایک دن سب قوتیں ، ریزہ ریزہ ہوجائیں گی اور لوگ اللہ کے ہاں حاضر ہوں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ یاجوج و ماجوج کون ہیں ؟ اور اب یہ لوگ کہاں ہیں ؟ ان کا واقعہ کیا تھا اور کیا ہوگا ؟ واقعہ یہ ہے کہ ان تمام سوالات کا علی وجہ الیقین جواب دینا بہت ہی دشوار ہے کیونکہ یاوجود و ماجوج کے بارے میں تاریخ خاموشی ہے اور صرف قرآن نے بھی ان کے بارے میں یہ مختصر واقعہ دیا ہے۔ بعض صحیح احادیث میں بھی ان کے بارے میں مختصر سی معلومات ہیں۔ اس موقعہ پر قرآن کریم ذوالقرنین کی زبانی یہ بات کہتا ہے : اس موقعہ پر قرآن کریم ذوالقرنین کی زبانی یہ بات کہتا ہے : فاذا جآء وعد ربی جعلہ دکاء وکان وعد ربی حقاً (٨١ : ٨٩) ” مگر جب میرے رب کے وعدے کا وقت آئے گا تو وہ اسے پیوند خاک کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے۔ “ یہ نص کسی مخصوص وقت کا تعین نہیں کرتی کہ اللہ کا وعدہ کب آئے گا۔ اللہ کے وعدے سے مراد یہاں وہ معیاد ہے کہ جب یہ بند ٹوٹ جائے گا۔ یہو سکتا ہے کہ اللہ کا وعدہ گزر چکا ہو اور وہ بند ٹوٹ چکا ہو ، جب تارتاریوں نے عالم اسلام پر بلا بولا تھا تو انہوں نیت مام مہذب ممالک میں پھیل کر ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ (١) شورہ انبیاء کی ایک آیت میں ہے۔ حتی اذا فتحت ……الحق (٨٩) (١٢ : ٦٩-٨٩) “ یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کھول دیئے ۔ (١) پندرہویں صدی میں یہ معلوم ہوا ہے کہ ترمذ شہر کیق ریب ایک ل ہے کے دروازے کی دریافت ہوئی ہے۔ ایک جرمن سیاح سیفلڈ برجر نے اسے دیکھا اور اپنی کتاب میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ ایک ہسپانوی مورخ کلانیجو نے ٣٠٤١ ھ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ سمرقند سے انڈیا کی طرف جاتے ہوئے راستے میں لوہے کا ایک دروازہ واقع ہے ہو سکتا ہے کہ ذوالقرنین کا بنایا ہوا ہو۔ جائیں گے اور وہ ہر بلندی سے نکل پڑیں گے اور وعدئہ برحق کے آنے کا وقت قریب آ لگے گا۔ “ اس آیت میں بھی خروج یا جوج و ماجوج کا زمانہ متعین نہیں ہے۔ وعدئہ برحق کے قریب آنے کا مطلب یہ ہے کہ قیامت قریب آجائے گی۔ قیامت کا قریب آجانا واقعہ ہوچکا ہے ، جب سے رسول اللہ مبعثو ہوتے ہیں۔ قرآن مجید میں دوسری جگہ ہے : افتربت الساعۃ وانشق القمر ” قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔ “ اب قریب کا مطلب اس زمانے کے لحاظ سے نہیں ہے جس کا شمار ہم کرتے ہیں ، اللہ کے حساب میں قرب اور دوری کا اور مفہوم ہے ہو سکتا ہے کہ قیامت کے قریب آنے اور وقوع قیامت کے درمیان بھی کئی ملین سال گزر جائیں یا صدیاں گزر جائیں جنہیں انسان اپنے حساب میں ایک طویل عرصہ سمجھتا ہے جبکہ اللہ کے نزدیک وہ بہت ہی مختصر عرصہ ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ تفسیر بھی جائز ہ ہے کہ حضور کی رسالت کے زمانے کے بعد اور ہمارے اس دور سے قبل ہی یہ بند کھل گیا ہو اور مغلوں اور تارتاریوں کا خروج خروج یاجوج و ماجوج ہو۔ ایک صحیح حدیث جسے امام احمد نے سفیان عن عروہ کے واسطہ سے نقل کیا ہے۔ انہوں نے انب بنت ابو سلمہ ، حبیبہ بنت امام حبیبہ بنت ابوسفیان سے۔ اس نے اپنی ماں حبیبہ سے۔ انہوں نے زینب بنت حجش ام المومنین سے۔ انہوں نے فرمایا کہ ایک دن رسول اللہ خواب سے پیدا ہوئے تو آپ کا چہرہ مبارک سرخ تھا اور آپ فرما رہے تھے ” ہلاکت ہے عربوں کے لئے اس شر سے جو قریب ہوگئی ہے۔ آج یاجوج اور ماجو کے بند میں اس قدر شگاف پڑگیا ہے اور آپ نے اپنے انگوٹھے اور اشارہ کی انگلی کے درمیان فاصلہ کر کے بتایا کہ اس قدر شگاف پڑگیا ہے۔ میں نے دریافت کیا رسول خدا کیا ہمیں ہلاک کردیا جائے گا حلان کہ ہمارے درمیان صالح لوگ بھی موجود ہیں۔ آپ نے فرمایا ہاں جب برا عنصر زیادہ ہوجائے۔ اس پیشین گوئی کو چودہ سو سال ہوگئے ہیں۔ تارتاریوں کی تاخت و تاراج اس کے بعد واقعہ ہوئی۔ انہوں نے عربوں کی حکومت کو ، خلافت عباسیہ کے زمانے میں ، معتصم کی خلافت کے دور میں ، جو عباسی خلفاء میں سے آخری خلیفہ تھا ، ختم کردیا ۔ یہ حضور اکر مکہ خواب کی تعبیر ہو سکتی ہے۔ حقیقی علم اللہ ہی کے پاس ہے۔ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں یہ کوئی یقینی بات نہیں ہے بلکہ ہماری ترجیح ہے۔ اب ہم دوبارہ سیاق قرآن کی طرف آتے ہیں۔ ذوالقرنین کے تذکرہ کے بعد بطور تعقیب مناظر قیامت میں سے ایک منظر سامنے لایا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ رَبِّیْ جَعَلَہٗ دَکَّآءَ ) (سو جب میرے رب کا وعدہ آپہنچے گا) یعنی جب اس کے فنا ہونے کا وقت موعود آجائے گا تو میرا رب اسے چورا چورا بنا دے گا۔ (وَ کَانَ وَعْدُ رَبِّیْ حَقًّا) (اور میرے رب کا وعدہ سچا ہے یعنی اس نے جو کچھ وعدے فرمائے ہیں اور اپنی مخلوق کے بارے میں خبریں دی ہیں وہ سب سچی ہیں۔ ان کا وقوع ہونا ہی ہونا ہے۔ ) اس وعدہ سے کیا مراد ہے اس کے بارے میں مفسرین کے کئی قول ہیں بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے وقوع قیامت مراد ہے اور بعض نے فرمایا کہ یاجوج ماجوج کا نکلنا مراد ہے جب وہ نکلیں گے تو یہ دیوار ختم ہوجائے گی اور چورا چورا ہو کر زمین کے برابر ہوجائے گی یہ قول اس اعتبار سے زیادہ راجح ہے کہ اس کے بعد اسی آیت میں (ایک قول کے مطابق) یاجوج ماجوج کے نکلنے کا ذکر ہے اور پھر اس کے بعد نفخ صور کا تذکرہ ہے۔ یاجوج ماجوج کا نکلنا قیامت کی علامات میں سے ہے۔ جیسا کہ سورة انبیاء کی آیت (حَتّٰٓی اِذَا فُتِحَتْ یَاْجُوْجُ وَ مَاْجُوْجُ وَ ھُمْ مِّنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ ) سے اور احادیث شریفہ سے ثابت ہو رہا ہے۔ یاجوج ماجوج کے نکلنے کا جن روایات حدیث میں ذکر ہے وہ انشاء اللہ ہم ابھی بیان کریں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

98 دیوار کی تکمیل کے بعد ذوالقرنین نے کہا یہ دیوار میرے پروردگار کی مہربانی ہے پھر جس وقت میرے پروردگار کا وعدہ آجائے گا تو وہ اس دیوار کو برابر کر دے گا اور میرے پروردگار کا وعدہ برحق اور سچا ہے جو یقینا پورا ہوگا۔ یعنی اس وقت تو یاجوج ماجوج کے شر سے محفوظ کردیئے گئے ہیں لیکن جب فنا کا وقت آئے گا تو حق تعالیٰ اس کو گرا کر زمین کے برابر کر دے گا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں حضرت کے وقت میں روپیہ برابر سوراخ اس میں پڑگیا اور حضرت عیسیٰ کے وقت ان کے نکلنے کا وعدہ ہے سب دنیا کو لڑائی سے عاجز کردیں گے آسمان پر تیر چلا دیں گے وہ لہو بھرے آویں گے۔ آخر حضرت عیسیٰ کی بد دعا سے ایک بار سارے مر رہیں گے۔ ذوالقرنین ایسی محکم دیوار پر منتظر تھا کہ آخر یہ بھی فنا ہوگی نہ جیسے وہ باغ پر مغرور 12