Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 99

سورة الكهف

وَ تَرَکۡنَا بَعۡضَہُمۡ یَوۡمَئِذٍ یَّمُوۡجُ فِیۡ بَعۡضٍ وَّ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَجَمَعۡنٰہُمۡ جَمۡعًا ﴿ۙ۹۹﴾

And We will leave them that day surging over each other, and [then] the Horn will be blown, and We will assemble them in [one] assembly.

اس دن ہم انہیں آپس میں ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوتے ہوئے چھوڑ دیں گے اور صور پھونک دیا جائے گا پس سب کو اکٹھا کرکے ہم جمع کرلیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ ... We shall leave some of them, meaning mankind, on that day, the day when the barrier will be breached and these people (Ya'juj and Ma'juj) will come out surging over mankind to destroy their wealth and property. وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَيِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ ... We shall leave some of them to surge like waves on one another; As-Suddi said: "That is when they emerge upon the people." All of this will happen before the Day of Resurrection and after the Dajjal, as we will explain when discussing the Ayat: حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُمْ مِّن كُلِّ حَدَبٍ يَنسِلُونَ وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ Until, when Ya'juj and Ma'juj are let loose, and they swoop down from every Hadab. And the true promise shall draw near... (21:96-97) ... وَنُفِخَ فِي الصُّورِ ... and As-Sur will be blown. As-Sur, as explained in the Hadith, is a horn that is blown into. The one who will blow into it is (the angel) Israfil, peace be upon him, as has been explained in the Hadith quoted at length above, and there are many Hadiths on this topic. According to a Hadith narrated from Atiyah from Ibn Abbas and Abu Sa`id, and attributed to the Prophet, كَيْفَ أَنْعَمُ وَصَاحِبُ الْقَرْنِ قَدِ الْتَقَمَ الْقَرْنَ وَحَنَى جَبْهَتَهُ وَاسْتَمَعَ مَتَى يُوْمَرُ How can I relax when the one with the Horn has put the Horn in his mouth and has knelt down, listening out for the command to be given to him? They said, "What should we say?" He said: قُولُوا حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ عَلَى اللهِ تَوَكَّلْنَا Say: "Allah is Sufficient for us and the best Disposer of affairs, in Allah have we put our trust." ... فَجَمَعْنَاهُمْ جَمْعًا and We shall collect them (the creatures) all together. means, `We shall bring them all together for Reckoning.' قُلْ إِنَّ الاٌّوَّلِينَ وَالاٌّخِرِينَ لَمَجْمُوعُونَ إِلَى مِيقَـتِ يَوْمٍ مَّعْلُومٍ Say: "(Yes) verily, those of old, and those of later times. All will surely be gathered together for appointed meeting of a known Day. (56:49-50) وَحَشَرْنَـهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً and we shall gather them all together so as to leave not one of them behind. (18:47)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٢] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جب دیوار ذوالقرنین پیوند خاک ہوجائے گی تو یاجوج ماجوج سمندر کی موجوں کی طرح بیشمار تعداد میں ٹھاٹھیں مارتے ہوئے نکلیں گے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن نفخہ صور ثانی ہوگا تو لوگ اپنی قبروں سے اٹھ کر موجوں کی طرح ایک دوسرے میں گھس جائیں گے اس کے بعد سب اللہ کے سامنے میدان حشر میں اکٹھے کیے جائیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ يَّمُوْجُ فِيْ بَعْضٍ : اس دن سے مراد یہ ہے کہ ذوالقرنین کی بنائی ہوئی دیوار کے مسمار ہونے کے وقت یاجوج ماجوج سمندر کی موجوں کی طرح بےحساب تعداد میں یلغار کرتے ہوئے نکلیں گے۔ اسی کیفیت کو ( وَهُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ ) [ الأنبیاء : ٩٦ ] میں بیان کیا گیا ہے۔ وَّنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَـجَـمَعْنٰهُمْ جَمْعًا :” الصُّوْرِ “ سے مراد وہ سینگ ہے جس میں فرشتہ پھونک مارے گا تو حشر برپا ہوجائے گا۔ یہ تفسیر خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے، چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلصُّوْرُ قَرْنٌ یُنْفَخُ فِیْہِ ) [ أبوداوٗد، السنۃ، باب في ذکر البعث والصور : ٤٧٤٢۔ الصحیحۃ : ١٠٨٠ ] ” صور وہ قرن ہے جس میں پھونکا جائے گا۔ “ اس آیت میں مذکور نفخہ سے مراد دوسرا نفخہ ہے جس سے سب لوگ قبروں سے نکل کر میدان حشر میں جمع ہوجائیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary As for the pronoun of the word: بَعْضَهُمْ (ba` dahum) in بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ (And on that day, We will leave them [ Ya’ juj and Ma&juj ] surging over one another - 99), it is obvious that it reverts back to Ya&juj Ma juj. Then, as for their condition described therein - &surging over one another& - it is also obvious that this will be their state when the passage lies open for them and they will be hastening their way from the hilly heights down to the ground. Commentators have suggested other pro¬babilities as well. The pronoun in: فَجَمَعْنَاهُمْ (fajama&nahum: Then We shall gather them together - 99) is reverting back to the creation at large, human beings and the Jinn. The sense is that the entire creation of human beings and the Jinn who have been obligated with the percepts of the Shari` ah (mukallaf) shall be gathered together on the plains of Resurrection (al-Hashr).

خلاصہ تفسیر : اور ہم اس روز (یعنی جب اس دیوار کے انہدام کا یوم موعود آئے گا اور یاجوج و ماجوج کا خروج ہوگا تو اس روز ہم) ان کی یہ حالت کریں گے کہ ایک میں ایک گڈ مڈ ہوجائیں گے۔ کیونکہ یہ کثرت سے ہوں گے اور بیک وقت نکل پڑیں گے اور سب ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر میں ہوں گے) اور (یہ قیامت کے قریب زمانہ میں ہوگا پھر بعد چندے قیامت کا سامان شروع ہوگا ایک بار اول صور پھونکا جائے گا جس سے تمام عالم فنا ہوجائے گا پھر) صور (دوبارہ) پھونکا جائے گا (جس سے سب زندہ ہوجائیں گے) پھر ہم سب کو ایک ایک کرکے (میدان حشر میں) جمع کرلیں گے اور دوزخ کو اس روز کافروں کے سامنے پیش کردیں گے جن کی آنکھوں پر (دنیا میں) ہماری یاد سے (یعنی دین حق کے دیکھنے سے) پردہ پڑا ہوا تھا اور (جس طرح یہ حق کو دیکھتے نہ تھے اسی طرح اس کو) وہ سن بھی نہ سکتے تھے (یعنی حق کو معلوم کرنے کے ذرائع دیکھنے اور سننے کے سب راستے بند کر رکھے تھے) معارف و مسائل : (آیت) بَعْضَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ يَّمُوْجُ فِيْ بَعْضٍ کی ضمیر میں ظاہر یہی ہے کہ یاجوج وماجوج کی طرف راجع ہے اور ان کا جو حال اس میں بیان ہوا ہے کہ ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوجائیں گے ظاہر یہ ہے کہ یہ اس وقت کا حال ہے جب کہ ان کا راستہ کھلے گا اور وہ زمین پر پہاڑیوں کی بلندیوں سے جلد بازی کے ساتھ اتریں گے مفسرین نے دوسرے احتمالات بھی لکھے ہیں۔ وَجَـمَعْنٰهُمْ ضمیر عام مخلوق جن و انس کی طرف راجع ہے مراد یہ ہے کہ میدان حشر میں تمام مکلف مخلوق جن و انس کو جمع کردیا جائے گا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَتَرَكْنَا بَعْضَہُمْ يَوْمَىِٕذٍ يَّمُوْجُ فِيْ بَعْضٍ وَّنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَـجَـمَعْنٰہُمْ جَمْعًا۝ ٩٩ۙ ترك تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] ، وقوله : وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان/ 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان/ 25] ( ت ر ک) ترک الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان/ 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان/ 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔ بعض بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ( ب ع ض ) بعض الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ موج المَوْج في البحر : ما يعلو من غوارب الماء . قال تعالی: فِي مَوْجٍ كَالْجِبالِ [هود/ 42] ، يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ [ النور/ 40] ومَاجَ كذا يَمُوجُ ، وتَمَوَّجَ تَمَوُّجاً : اضطرب اضطرابَ الموج . قال تعالی: وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] ( م و ج ) الموج سمندر سے پانی کی جو لہر مغرب کی طرف سے اٹھتی ہے اسے موج کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛ ۔ فِي مَوْجٍ كَالْجِبالِ [هود/ 42] مہروں میں چلنے لگی ( لہریں کیا تھیں گویا پہاڑ ( تھے) يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ [ النور/ 40] جس پر چلی آتی ہو اور اس کے اوپر اور لہر آرہی ہے ماج کذا یموج وتموج تموجا موج کی طرح سضطرب ہونا۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] اس ( روز ) ہم ان کو چھوڑ دیں گے ۔ کہ روئے زمین پر پھیل کر ) ایک دوسرے میں گھس جائیں ۔ نفخ النَّفْخُ : نَفْخُ الرِّيحِ في الشیءِّ. قال تعالی: يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه/ 102] ، وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف/ 99] ، ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر/ 68] ، وذلک نحو قوله : فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] ومنه نَفْخُ الرُّوح في النَّشْأَة الأُولی، قال : وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ( ن ف خ ) النفخ کے معنی کسی چیز میں پھونکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه/ 102] ، اور جس دن صور پھونکا جائیگا ۔ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف/ 99] اور جس وقت ) صؤر پھونکا جائے گا ۔ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر/ 68] پھر دوسری دفعہ پھونکا جائے گا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] جب صور پھونکا جائے گا ۔ اور اسی سے نفخ الروح ہے جس کے معنی اس دنیا میں کسی کے اندر روح پھونکنے کے ہیں چناچہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي[ الحجر/ 29] اور اس میں اپنی بےبہا چیز یعنی روح پھونک دوں ۔ صور الصُّورَةُ : ما ينتقش به الأعيان، ويتميّز بها غيرها، وذلک ضربان : أحدهما محسوس يدركه الخاصّة والعامّة، بل يدركه الإنسان وكثير من الحیوان، كَصُورَةِ الإنسانِ والفرس، والحمار بالمعاینة، والثاني : معقول يدركه الخاصّة دون العامّة، کالصُّورَةِ التي اختصّ الإنسان بها من العقل، والرّويّة، والمعاني التي خصّ بها شيء بشیء، وإلى الصُّورَتَيْنِ أشار بقوله تعالی: ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف/ 11] ، وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر/ 64] ، وقال : فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار/ 8] ، يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحامِ [ آل عمران/ 6] ، وقال عليه السلام : «إنّ اللہ خلق آدم علی صُورَتِهِ» «4» فَالصُّورَةُ أراد بها ما خصّ الإنسان بها من الهيئة المدرکة بالبصر والبصیرة، وبها فضّله علی كثير من خلقه، وإضافته إلى اللہ سبحانه علی سبیل الملک، لا علی سبیل البعضيّة والتّشبيه، تعالیٰ عن ذلك، وذلک علی سبیل التشریف له کقوله : بيت الله، وناقة الله، ونحو ذلك . قال تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل/ 87] ، فقد قيل : هو مثل قرن ينفخ فيه، فيجعل اللہ سبحانه ذلک سببا لعود الصُّوَرِ والأرواح إلى أجسامها، وروي في الخبر «أنّ الصُّوَرَ فيه صُورَةُ الناس کلّهم» «1» ، وقوله تعالی: فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» أي : أَمِلْهُنَّ من الصَّوْرِ ، أي : المیل، وقیل : قَطِّعْهُنَّ صُورَةً صورة، وقرئ : صرهن «3» وقیل : ذلک لغتان، يقال : صِرْتُهُ وصُرْتُهُ «4» ، وقال بعضهم : صُرْهُنَّ ، أي : صِحْ بِهِنَّ ، وذکر الخلیل أنه يقال : عصفور صَوَّارٌ «5» ، وهو المجیب إذا دعي، وذکر أبو بکر النّقاش «6» أنه قرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) «7» بضمّ الصّاد وتشدید الرّاء وفتحها من الصَّرِّ ، أي : الشّدّ ، وقرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) «8» من الصَّرِيرِ ، أي : الصّوت، ومعناه : صِحْ بهنّ. والصَّوَارُ : القطیع من الغنم اعتبارا بالقطع، نحو : الصّرمة والقطیع، والفرقة، وسائر الجماعة المعتبر فيها معنی القطع . ( ص و ر ) الصورۃ : کسی عین یعنی مادی چیز کے ظاہر ی نشان اور خدوخال جس سے اسے پہچانا جاسکے اور دوسری چیزوں سے اس کا امتیاز ہوسکے یہ دو قسم پر ہیں ( 1) محسوس جن کا ہر خاص وعام ادراک کرسکتا ہو ۔ بلکہ انسان کے علاوہ بہت سے حیوانات بھی اس کا ادراک کرلیتے ہیں جیسے انسان فرس حمار وغیرہ کی صورتیں دیکھنے سے پہچانی جاسکتی ہیں ( 2 ) صؤرۃ عقلیہ جس کا ادارک خاص خاص لوگ ہی کرسکتے ہوں اور عوام کے فہم سے وہ بالا تر ہوں جیسے انسانی عقل وفکر کی شکل و صورت یا وہ معانی یعنی خاصے جو ایک چیز میں دوسری سے الگ پائے جاتے ہیں چناچہ صورت کے ان پر ہر دو معانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف/ 11] پھر تمہاری شکل و صورت بنائی : وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر/ 64] اور اس نے تمہاری صورتیں بنائیں اور صؤرتیں بھی نہایت حسین بنائیں ۔ فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار/ 8] اور جس صورت میں چاہا تجھے جو ڑدیا ۔ جو ماں کے پیٹ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری صورتیں بناتا ہے ۔ اور حدیث ان اللہ خلق ادم علیٰ صؤرتہ کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اس کی خصوصی صورت پر تخلیق کیا ۔ میں صورت سے انسان کی وہ شکل اور ہیت مراد ہے جس کا بصرہ اور بصیرت دونوں سے ادارک ہوسکتا ہے اور جس کے ذریعہ انسان کو بہت سی مخلوق پر فضیلت حاصل ہے اور صورتہ میں اگر ہ ضمیر کا مرجع ذات باری تعالیٰ ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف لفظ صورت کی اضافت تشبیہ یا تبعیض کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ اضافت ملک یعنی ملحاض شرف کے ہے یعنی اس سے انسان کے شرف کو ظاہر کرنا مقصود ہے جیسا کہ بیت اللہ یا ناقۃ اللہ میں اضافت ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] میں روح کی اضافت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے اور آیت کریمہ وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل/ 87] جس روز صور پھونکا جائیگا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ صؤر سے قرآن یعنی نر سنگھے کی طرح کی کوئی چیز مراد ہے جس میں پھونکا جائیگا ۔ تو اس سے انسانی صورتیں اور روحیں ان کے اجسام کی طرف لوٹ آئیں گی ۔ ایک روایت میں ہے ۔ ان الصورفیہ صورۃ الناس کلھم) کہ صور کے اندر تمام لوگوں کی صورتیں موجود ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» میں صرھن کے معنی یہ ہیں کہ ان کو اپنی طرف مائل کرلو اور ہلالو اور یہ صور سے مشتق ہے جس کے معنی مائل ہونے کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی پارہ پارہ کرنے کے ہیں ایک قرات میں صرھن ہے بعض کے نزدیک صرتہ وصرتہ دونوں ہم معنی ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ صرھن کے معنی ہیں انہیں چلا کر بلاؤ چناچہ خلیل نے کہا ہے کہ عصفور صؤار اس چڑیا کو کہتے ہیں جو بلانے والے کی آواز پر آجائے ابوبکر نقاش نے کہا ہے کہ اس میں ایک قرات فصرھن ضاد کے ضمہ اور مفتوحہ کے ساتھ بھی ہے یہ صر سے مشتق ہے اور معنی باندھنے کے ہیں اور ایک قرات میں فصرھن ہے جو صریربمعنی آواز سے مشتق ہے اور معنی یہ ہیں کہ انہیں بلند آواز دے کر بلاؤ اور قطع کرنے کی مناسبت سے بھیڑبکریوں کے گلہ کو صوار کہاجاتا ہے جیسا کہ صرمۃ قطیع اور فرقۃ وغیرہ الفاظ ہیں کہ قطع یعنی کاٹنے کے معنی کے اعتبار سے ان کا اطلاق جماعت پر ہوتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٩) اور ان کے نکلنے کے دن یا روم سے واپسی کے دن جب کہ یاجوج ماجوج اس سے نہیں نکل سکیں گے ہم ان کی یہ حالت کردیں گے کہ ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوجائیں گے اور صور پھونکے جانے کے بعد ہم سب کو جمع کرلیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٩ (وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ يَّمُوْجُ فِيْ بَعْضٍ ) یہ قیامت سے پہلے رونما ہونے والے جنگی واقعات کی طرف اشارہ ہے۔ قرب قیامت کے واقعات میں سے ایک اہم واقعہ یاجوج و ماجوج کا ظہور بھی ہے۔ احادیث میں ان کے بارے میں ایسی خبریں ہیں کہ وہ دریاؤں اور سمندروں کا پانی پی جائیں گے اور ہرچیز کو ہڑپ کر جائیں گے۔ عین ممکن ہے وہ آدم خور بھی ہوں اور ضرورت پڑنے پر انسانوں کو بھی کھا جائیں۔ جیسے آج ہم چینی قوم کو دیکھتے ہیں کہ وہ سانپ بچھو کتا بلی ہرچیز کو ہڑپ کر جاتے ہیں۔ کثرت آبادی کے لحاظ سے بھی یاجوج و ماجوج کی بیشتر علامات کا تطابق چینی قوم پر ہوتا نظر آتا ہے۔ یاجوج و ماجوج کی یلغار کا نقشہ سورة الانبیاء میں اس طرح کھینچا گیا ہے : (وَہُمْ مِّنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ ) ” اور وہ ہر پہاڑ کی ڈھلوان سے اترتے ہوئے نظر آئیں گے “۔ ١٩٦٢ ء میں چین بھارت جنگ کے دوران اخباروں نے چینی افواج کے حملوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے بھی کچھ ایسی ہی تصویر کشی کی تھی : |" Waves after waves of Chinese soldiers were coming down the slopes.|" بہرحال جس طرح یاجوج و ماجوج آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے اپنے ملحقہ علاقوں کی مہذب آبادیوں کو تاخت و تاراج کرتے تھے ‘ اسی طرح قیامت سے پہلے ایک دفعہ پھر وہ دنیا میں تباہی مچائیں گے اور ان کا ظہور اپنی نوعیت کا ایک بہت اہم واقعہ ہوگا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

73. “That Day”: “The Day of Resurrection”. As if to continue the theme of life after death to which Zul-Qarnain referred as the time of my Lord’s promise, the Quran has added (verses 99-101) to it.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :73 یعنی قیامت کے روز ۔ ذو القرنین نے جو اشارہ قیامت کے وعدۂ بر حق کی طرف کیا تھا اسی کی مناسبت سے یہ فقرے اس کے قول پر اضافہ کرتے ہوئے ارشاد فرمائے جا رہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

51: اس سے مراد یاجوج ماجوج کا وہ ریلا بھی ہوسکتا ہے جو قیامت کے قریب نکلے گا اور مطلب یہ ہے کہ جب وہ قیامت کے قریب نکلیں گے تو ایک غیر منظم بھیڑ کی شکل میں نکلیں گے اور موجوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرارہے ہوں گے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ قیامت کے وقت عام لوگوں کی بد حواسی کا بیان ہو کہ قیامت کے ہولناک مناظر دیکھ کر لوگ بدحواسی میں ایک دوسرے سے ٹکرارہے ہوں گے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩٩۔ ١٠٢ یہ ہر ایک ایماندار آدمی کا اعتقاد ہے کہ دنیا کی کوئی چیز ہمیشہ رہنے والی نہیں اسی اعتقاد کے موافق ذوالقرنین نے وقت مقررہ پر اس دیوار کے گر جانے کا ذکر کیا اب اس دیوار کے گرجانے کے بعد جو کچھ ہوگا وہ ایک غیب کی بات تھی جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ اس دیوار کے گرتے ہی یاجوج ماجوج اپنی کثرت کے سبب سے دریا کہ موج کی طرح تمام زمین پر پھیل جائیں گے صحیح مسلم کی نواس بن سمعان کی جس روایت ١ ؎ کا تذکرہ اوپر گزرا اس میں یاجوج ماجوج کے زمین پر پھیل جانے سے لے کر پہلے صور تک کا حال یوں ہے۔ کہ یاجوج ماجوج کے زمین پر پھیل جانے سے پہلے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوگا کہ تم اپنے ساتھ کے ایمان دار لوگوں کو لے کر کوہ طور پر چڑھ جاؤ کیونکہ زمین پر اب اللہ کی ایک ایسی مخلوق پھیلنے والی ہیں جس کے مقابلہ کی تمہیں طاقت نہیں ہے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے موافق عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے ساتھیوں کو لے کر کوہ طور پر چڑھ جائیں گے اور یاجوج ماجوج زمین پر پھیل کر طرح طرح کی دھوم مچادیں گے جس کا ذکر اوپر کی آیتوں کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔ کوہ طور پر عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو کھانے کی چیزوں کی اس قدر تکلیف ہوگی کہ ایک گائے کی سری کی قدر اشرفیوں سے بھی زیادہ ہوجائے گی اس تکلیف سے تنگ آن کر عیسیٰ (علیہ السلام) یاجوج ماجوج کے حق میں بددعا کریں گے اور اللہ کے رسول کی بددعا سے جس طرح یاجوج ماجوج ہلاک ہوجائیں گے اس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے یاجوج ماجوج کی ہلاکت کے بعد اللہ تعالیٰ ایک طرح کے جانور پیدا کرے گا جو جانور یاجوج ماجوج کی لاشوں کو اٹھا کر جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم ہوگا وہاں پھینک دیں گے اور اللہ کے حکم سے پھر خوب مینہ برسے گا جس سے زمین پر ان لاشوں کے سبب سے بدبو جو پھیل گئی تھی وہ سب جاتی رہے گی اس کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی زمین پر رہیں گے اگرچہ نواس بن سمعان (رض) کی روایت میں ان سات کا ذکر نہیں ہے لیکن صحیح مسلم کی اور روایتوں میں یہ ذکر صاف آیا ہے ٢ ؎۔ اس نواس بن سمعان (رض) کی وایت کے موافق اس کے بعد ایک ٹھنڈی ہوا ایسی چلے جس کے اثر سے سب لوگ مرجائیں گے جن کے دل میں کچھ بھی ایمان ہے۔ صحیح مسلم کی انس بن مالک کی روایت کے مطابق تمام دنیا فنا ہوجائے گی اس کے چالس برس کے بعد دوسرا صور پھونکا جائے گا اور سب لوگ قبروں سے اٹھ کر حساب و کتاب کے لیے میدان محشر میں جمع ہوجائیں گے ٣ ؎۔ اسی دوسرے صور کا اور سب لوگوں کے میدان محشر میں جمع ہوجانے کا ذکر اس آیت میں ہے۔ دوسرے صور کے بعد جو کچھ ہونے والا ہے اس کے مشرکین مکہ منکر تھے اسی واسطے خاص طور پر اسی کا ذکر فرمایا یاجوج ماجوج کے نکلنے کے بعد سے دوسرے صور تک جن باتوں کا ذکر اوپر گزرا ان باتوں کا کچھ ذکر آیت میں نہیں فرمایا اس تفسیر میں کئی جگہ اس بات کا ذکر آیا ہے کہ ہجرت سے پہلے مسلمانوں کی کمزوری کے زمانہ میں درگزر کا جو حکم تھا ہجرت کے بعد مسلمانوں میں قوت آجانے اور جہاد کا حکم نازل ہوجانے سے وہ درگزر کا حکم منسوخ نہیں ہے کیونکہ شریعت میں جو احکام کسی سبب کے موجودگی پر منحصر ہیں ان کا مطلب یہ ہے کہ جب سبب پایا جائے گا تو حکم بھی پایا جائے گا نہیں تو نہیں۔ مثلا مالداری زکوٰۃ کے واجب نہ ہونے کا سبب ہے اب فرض کیا جائے کہ ایک شخص کچھ عرصہ تک تنگدست تھا پھر مالدار ہوگیا اور کچھ مدت کے بعد پھر پہلے کی طرح اس کو تنگدستی نے آن گھیرا تو جس طرح پہلے تنگدستی کے زمانہ میں شریعت کا حکم ہے کہ ایسے تنگدست شخص پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے کیونکہ زکوٰۃ کے واجب ہونے کا سبب اس شخص میں اب نہیں پایا جاتا یہی حکم ہے کہ ہجرت سے پہلے مسلمانوں کی کمزوری کے سبب سے درگزر کا حکم تھا جہاد کا حکم نہیں تھا ہجرت کے بعد مسلمانوں میں قوت آگئی اس لیے جہاد کا حکم ہوا اب ضعف اسلام کے وقت مسلمان کی وہی حالت ہوجائے گی جو مالدار شخص کی پچھلی تنگدستی کی حالت تھی اس واسطے جس طرح ایسے تنگدست شخص کے حق میں شریعت کا یہ حکم ہے کہ ایسے شخص پر زکوٰۃ واجب نہیں اسی طرح مسلمانوں کی کمزوری کے میں یہی قول صحیح قرار دیا گیا ہے کہ جہاد کے حکم سے درگزر کا حکم منسوخ نہیں ہے وہاں صحیح مسلم کے حوالہ سے ابو سعید خدری (رض) کی وہ حدیث بھی ذکر کی گئی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایماندار شخص جب کوئی خلاف شریعت بات دیکھے تو قوت کے وقت ہاتھ پاؤں کی کوشش سے درگزر کرنے اور زبانی نصیحت یا دلی نفرت کے کافی ہوجانے کا حکم اللہ کے رسول ہرگز نہ دیتے جو مطلب ابوسعید خدری (رض) کی حدیث سے کئی جگہ ثابت کیا گیا ہے وہی مطلب تو اوس بن سمعان (رض) کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کیونکہ شرعی روایتوں سے جس طرح یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ آخری زمانہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے زمین پر آئیں گے اور چالیس برس کے قریب زمین پر رہیں گے اسی طرح شرعی روایتوں سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ اس زمانہ میں عیسیٰ (علیہ السلام) ہر کام شریعت محمدی کے موافق کریں گے اب اگر شرع محمدی میں درگزر کا حکم منسوخ ٹھہرایا جاوے تو عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہ حکم کیوں کر ہوسکتا ہے کہ تم میں یاجوج ماجوج کے مقابلہ کی طاقت نہیں ہے اس لیے تم ان کے مقابلہ سے درگزر کرو اور اپنے ساتھیوں کو لے کر کوہ طور پر چڑھ جاؤ۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ ستر ہزار نکیلیں لگا کر دوزخ کو محشر کے میدان میں لایاجائے گا ٤ ؎۔ آیت میں یہ جو ذکر ہے کہ دوزخ میں جھونکے جانے سے پہلے نافرمان لوگوں کو دوزخ کے عذاب کا حال دکھایا جاوے گا یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس دوزخ کے یہ لوگ دنیا میں منکر تھے ان کو قائل کرنے کے لیے پہلے میدان محشر میں اس دوزخ کو انہیں دکھایا جائے گا، حساب و کتاب کے بعد اس اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کون شخص جنت میں داخل ہونے کے قابل کام کرے گا اور کون دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل اب دنیا میں پیدا ہونے کے بعد ہر شخص اسی انجام کے قابل کام کرتا ہے اور ویسے ہی کام اس کو اچھے اور آسان معلوم ہوتے ہیں اس حدیث کو آیت کے ساتھ ملانے سے آیت کے آخری ٹکڑے کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے علم غیب میں دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل قرار پاچکے ہیں وہ برے کاموں میں ایسے مصروف ہیں۔ اوپر ان مشرکوں کا ذکر تھا جن کی آنکھوں پر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی نشانیوں کے دیکھنے سے پردہ پڑا ہوا تھا اور ان کے کان قرآن کی نصیحت کے سننے سے بہرے تھے اس آیت میں فرمایا کیا ایسے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شیطان کے بہکانے سے جن نیک لوگوں کی مورتوں کی پوجا یہ بت پرست دنیا میں کرتے ہیں عقبیٰ میں وہ نیک لوگ ان بت پرستوں کے کچھ کام نہ آئے گے پھر فرمایا یہ سمجھ ان لوگوں کی بڑی نادانی کی سمجھ ہے عقبیٰ میں وہ نیک لوگ ان بت پرستوں کی بت پرستی پر اللہ تعالیٰ کو گواہی سے بیزاری ظاہر کریں گے اور اللہ تعالیٰ کو جو گواہ قرار دیں گے اس کا ذکر سورة یونس میں گزر چکا ہے اور مشرک کی بخشش نہ ہونے کا جو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اس کا ذکر سورة النساء میں گزر چکا ہے صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس قوم میں پہلے پہل بت پرستی پھیلی اس قوم میں کے کچھ نیک لوگ مرگئے تھے جن کے مرجانے کا رنج قوم کے لوگوں کو بہت تھا شیطان نے قوم کے لوگوں کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ ان نیک لوگوں کی صورت کی مورتیں بنا کر رکھ لی جائیں تو ان نیک لوگوں کے آنکھوں کے سامنے سے اٹھ جانے کا کچھ رنج کم ہوجائے گا قوم کے لوگوں نے اس وسوسہ شیطانی کے موافق عمل کیا اور ایک عرصہ تک تو وہ بت یوں ہی رہے پھر رفتہ رفتہ ان کی پوجا ہونے لگی اسی قوم کی ہدایت کے لیے نوح (علیہ السلام) نبی ہو کر آئے مگر بت پرستی دنیا سے نہ اٹھی ٥ ؎۔ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ بغیر مرضی اور بلا اجازت نیک لوگوں کے نیک لوگوں کی مورتیں بنائی گئیں اور ان ہی مورتوں کی پوجا سے دنیا میں بت پرستی شروع ہوئی جس کی ان نیک لوگوں کو خبر تک نہیں، اسی واسطے قیامت کے دن وہ نیک لوگ اس سے اپنی بیخبر ی اور بیزاری ظاہر کر کے اللہ تعالیٰ کو اس پر گواہ ٹھہرا دیں گے۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیرص ١٩٥۔ ١٩٢۔ ج ٣ ٢ ؎ فتح الباری ص ٥٧٦ ج ٢ ٣ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٨٠ باب لاتقوم الساعۃ الا علی شرار الناس ٤ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ١٠٢ ج ٣ ٥ ؎ صحیح بخاری ٧٣٢ ج ٢

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:99) ترکنا۔ ماضی جمع متکلم بمعنی مستقبل ہم چھوڑیں گے۔ یہاں جعلنا کے مرادف استعمال ہوا ہے۔ یعنی کردیں گے۔ یموج۔ مضارع واحد مذکر غائب موجمصدر ( باب نصر) لہریں مارتے ہوں گے : (1) اگر وعد ربی سے مراد یوم قیامت ہے تو یہاں بعضہم کی ضمیر الناس کے لئے ہے کہ خلقت جن وانس اس روز کی ہولناکی اور شدت اضطراب سے طوفانی سمندر کی لہروں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا کر گڈ مڈ ہو رہے ہوں گے۔ (2) اگر وعد ربی سے مراد سد ذوالقرنین کا انہدام ہے اور یاجوج ماجوج کے خروج کا دن ہے تو ضمیر اگر (الف) الناسکے لئے ہے تو مطلب یہ ہے کہ یاجوج ماجوج باہر نکل پڑیں گے تو لوگ خوف وہراس سے متلاطم سمندر کی موجوں کی طرح ایک دوسرے سے گڈ مڈ ہورہے ہوں گے ( ب) اگر ضمیر یاجوج ماجوج کے لئے جیسا کہ ابو حیان کا قول ہے تو مطلب یہ ہے کہ سدّ کے انہدام پر یاجوج ماجوج اس ازدحام کی صورت میں باہر نکلیں گے کہ کثرت وسرعت میں ایک دوسرے سے گڈ مڈ ہو رہے ہوں گے۔ وترکنا بعضہم یومئذ یموج فی بعض۔ اور اس روز ہم ان کو ایسا کردیں گے کہ سمندر کی تند موجوں کی طرح ایک دوسرے سے الجھ رہے ہوں گے۔ ونفخ فی الصور فجمعنہم جمعا۔ اور صور پھونکا جائے گا پھر ہم سب کو جمع کرلیں گے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہدم دیوار کا وقوع قرب قیامت میں ہوگا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی وہ دیوار توڑ کر بیشمار تعداد میں سمندر کی موجوں کی طرح یلغار کرتے نکلیں گے یہ آخری زمانہ میں ہوگا۔ اس کے بعد جلد ہی قیامت آجائے گی۔ دیکھیے انبیاء آیت 9796) حضرت خدیجہ سے روایت ہے کہ قیامت نہ آئے گی جب تک تم اس سے پہلے دس نشانیاں نہ دیکھ لو۔ پھر آپ نے یہ نشانیاں شمار فرمائیں جن میں سے ایک یاجوج ماجوج کی یورش تھی۔ (مسلم) آیت کا یہ مفہوم کے لئے قرار دی جائے۔ اور ونفخ فی الصور کے یہ معنی کئے جائیں کہ اس کے بعد صور پھونکا جائے گا اور گار یہ لوگوں کے لئے قرار دی جائے تو آیت کا ترجمہ یوں ہوگا ” اس دن قیامت کے دن ہم لوگوں کو شدت خوف و ہراس سے ایک دوسرے میں موجود کی طرح باہم در آتے چھوڑ دیں گے بعض مفسرین نے آیت کا یہ مفہوم بھی بیان کیا ہے۔ اس صورت میں ذوالقرنین کا قصہ حقا پر ختم ہوجاتا ہے۔ (کبیر) 8 یہ قیامت کے دن ہوگا جو رب کا وعدہ ہے۔ (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی جب اس دیوار کے انہدام کا وقت موعود آوے گا اور یاجوج ماجوج کا خروج ہوگا تو اس روز ان کی یہ حالت کریں گے کہ ایک میں ایک گڈ مڈ ہوجاویں گے بوجہ اس کے کہ کثرت سے ہوں گے اور ایک دم سے نکل پڑیں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ مفسرین نے یاجوج ماجوج کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے یافث کی اولاد ہیں۔ ان کے بارے میں اختلاف ہے کہ ماضی اور موجودہ زمانے میں اس کا کون سی قوم کے ساتھ تعلق بنتا ہے اور یہ قوم کس ملک اور علاقے میں پائی جاتی تھی بہرحال اللہ “ کا حکم نافذ ہوگا تو نہ صرف سدِّ ذوالقرنین ٹوٹ جائی گی بلکہ پوری دنیا الٹ پلٹ ہوجائے گی، اس دن تمام لوگوں کو محشر کے میدان میں جمع کرلیا جائے گا۔ یاجوج ماجوج سے مراد ایشیا کے شمالی مشرقی علاقے کی وہ قومیں ہیں جو قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر غارت گرانہ حملے کرتی رہی ہیں اور جن کے سیلاب وقتاً فوقتاً اٹھ کر ایشیاء اور یورپ دونوں طرف رخ کرتے رہے ہیں۔ بائیبل کی کتاب پیدائش (باب ١٠) میں ان کو حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے یافث کی نسل میں شمار کیا گیا ہے اور یہی بیان مسلمان مؤرخین کا بھی ہے حزتی ایل کے صیحفے ( باب ٣٨، ٣٩) میں ان کا علاقہ روس اور توبل ( موجودہ تو بالسک) اور مسک ( موجودہ ماسکو) بتایا گیا ہے۔ اسرائیلی مؤرخ یوسیفوس ان سے مراد سیتھیئن قوم لیتا ہے جس کا علاقہ بحراسود کے شمال اور مشرق میں واقع تھا۔ جیروم کے بیان کے مطابق ماجوج کا کیشیا کے شمال میں بحر خزر کے قریب آباد تھے۔ یاجوج ماجوج کے بارے میں مفسرین نے بہت ہی رطب یا بس جمع کیا اور لکھنے والوں نے یہاں تک لکھا ہے کہ یاجوج ماجوج قد کے لحاظ سے فٹ ڈیڑھ فٹ لمبے اور ان کے کان اتنے بڑے بڑے ہیں کہ ایک نیچے اور دوسرا کان اوپر لے کر سوتے ہیں ایک مادہ کم ازکم سو بچے جنم دیتی ہے۔ حدیث کی بعض کتب میں یہ روایات بھی ملتی ہیں کہ وہ سارا دن اس دیوار کو چاٹتے رہتے ہیں۔ جب مغرب کا وقت ہوتا تو تھک ہار کر کہتے ہیں کہ کل ہم اس دیوار کو چاٹ چاٹ کر ختم کردیں اور اس حصار سے باہر نکل آئیں گے یہ بھی ایک روایت میں درج ہے کہ قرب قیامت جب باہر نکلیں گے تو آسمان کی طرف تیر چلائیں گے جو خون آلود ہو کر نیچے آئیں گے۔ جن کو دیکھ کر یاجوج ماجوج کہیں گے کہ ہم نے مسلمانوں کے رب کو قتل کردیا ہے وہ اتنی تعداد میں ہوں گے کہ ان کا پہلا قافلہ بڑے بڑے دریاؤں کا پانی پی جائے گا۔ بعد کے قافلے دریاؤں اور چشموں کی مٹی بھی چاٹ جائیں وغیرہ وغیرہ۔ یاجوج ماجوج کی اصلیّت اور ان کے بارے میں روایات کی حقیقت : (عَنْ زَیْنَبَ ابْنَۃِ جَحْشٍ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دَخَلَ عَلَیْہَا یَوْمًا فَزِعًا یَقُولُ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، وَیْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ ، فُتِحَ الْیَوْمَ مِنْ رَدْمِ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلُ ہَذِہِ وَحَلَّقَ بِإِصْبَعَیْہِ الإِبْہَامِ وَالَّتِی تَلِیہَاقَالَتْ زَیْنَبُ ابْنَۃُ جَحْشٍ فَقُلْتُ یَا رَسُول اللَّہِ أَفَنَہْلِکُ وَفِینَا الصَّالِحُونَ قَالَ نَعَمْ إِذَا کَثُرَ الْخَبَثُ ) [ رواہ البخاری : باب یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ ] حضرت زینب بنت جحش بیان کرتی ہیں کہ ایک دن رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھبراہٹ کے عالم میں ان کے ہاں تشریف لائے اور فرمانے لگے۔” اللہ “ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں عربوں کے لیے ایک بڑا ہلاکت خیز فتنہ بالکل قریب آپہنچا ہے۔ یا جوج وماجوج کی دیوار میں اس قدر سوراخ ہوگیا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضاحت کے لیے اپنے انگوٹھے اور ساتھ والی انگلی سے حلقہ بنایا۔ آپ کی زوجہ محترمہ حضرت زینب (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے پوچھا ‘ اے اللہ کے رسول ا ! کیا ہم ہلاک کردیے جائیں گے ‘ جبکہ ہم میں نیک لوگ موجود ہوں گے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں ! جب خباثتیں زیادہ ہوجائیں گی۔ (عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ أَسِیدٍ الْغِفَارِیِّ ہُرَیْرَۃَ قَالَ اطَّلَعَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلَیْنَا وَنَحْنُ نَتَذَاکَرُ فَقَالَ مَا تَذَاکَرُونَ قَالُوا نَذْکُرُ السَّاعَۃَقَالَ إِنَّہَا لَنْ تَقُومَ حَتَّی تَرَوْنَ قَبْلَہَا عَشْرَ آیَاتٍ فَذَکَرَ الدُّخَانَ وَالدَّجَّالَ وَالدَّابَّۃَ وَطُلُوع الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا وَنُزُول عیسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَیَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَثَلاَثَۃَ خُسُوفٍ خَسْفٌ بالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ بِجَزِیرَۃِ الْعَرَبِ وَآخِرُ ذَلِکَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنَ الْیَمَنِ تَطْرُدُ النَّاسَ إِلَی مَحْشَرِہِمْ )[ رواہ مسلم : باب فِی الآیَاتِ الَّتِی تَکُونُ قَبْلَ السَّاعَۃِ ] ” حضرت حذیفہ بن اسید غفاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم آپس میں قیامت کا ذکر کر رہے تھے آپ نے استفسار فرمایا کہ کس چیز کا ذکر کرر ہے ہو۔ ہم نے عرض کیا ہم قیامت کا ذکر کر رہے ہیں ‘ آپ نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی ‘ جب تک تم اس کی دس نشایناں نہ دیکھ لو پھر آپ نے یہ نشانیاں ذکر فرمائیں : دھواں ‘ دجال ‘ دابۃ الارض ‘ سورج کا مغرب کی جانب سے طلوع ہونا ‘ حضرت عیسیٰ ابن مریم کا نزول، یا جوج وماجوج کا خروج اور لوگوں کا تین دفعہ دھنسائے جانا 249 ان میں سے ایک بار دھنسنا مشرق میں ‘ ایک مغرب میں اور ایک جزیرۃ العرب میں ہوگا۔ ان کے آخر میں یمن سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو میدان محشر کی طرف دھکیلے گی۔ ایک اور روایت میں ہے آگ عدن کے آخری کنارے سے نکلے گی جو لوگوں کو میدان حشر کی طرف دھکیل کرلے جائے گی تیسری روایت میں دسویں علامت کے طور پر آندھی کا ذکر ہے جو لوگوں کو سمندر میں گرا دے گی۔ “ صور کا پھونکا جانا : ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں کیسے نعمتوں سے لذّت اٹھاؤں ؟ جبکہ سینگ والے نے سینگ منہ میں ڈالا ہوا ہے اور اجازت کا منتظر ہے کب اس کو پھونکنے کا حکم ملے تو وہ پھونک مار دے۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) پر یہ بات گراں گزری نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا تم کہو ہمیں اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہتر کار ساز ہے اور ہم اپنے اللہ پر ہی توکل کرتے ہیں۔ “ [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیا مۃ، باب ما جاء فی صفۃ الصور ]

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ ایک ایسا منظر ہے جو مختلف انسانی گروہوں کی عکاسی کر رہا ہے ، جس میں مختلف گروپ نظر آ رہے ہیں جو مختلف رنگوں ، مختلف علاقوں اور مختلف زمانوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ یہ سب لوگ ایک وسیع میدان میں اٹھائے گئے ہیں اور یہ لوگ بغیر کسی نظام اور ترتیب کے ایک دوسرے کے خلاف گتھم گتھا ہو رہے ہیں ۔ کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کیوں ادھر سے ادھر بھاگ رہا ہے۔ یہ لوگ دریا کی موجوں کی طرح ایک دور سے کے ساتھ ٹکراتے ہیں اور باہم مل جاتے ہیں بغیر کسی انتظام کے۔ پھر ایک صور پھونکا جائے گا۔ ونفخ فی الصور فجمعنھم جمعاً (٨١ : ٩٩) ” پھر صور پھونکا جائے گا اور ہم سب انسانوں کو ایک ساتھ جمع کریں گے۔ “ اب وہ ایک صف میں منظر طریقے سے کھڑے ہیں۔ پھر وہ کافر جنہوں نے اللہ کی یاد سے منہ موڑا اور جو اس طرح نظر آ رہے تھے کہ شاید ان کی آنکھوں پر پردے ہیں اور شاید ان کے کانوں میں سننے کی قوت ہی نہیں ہے۔ ان پر جنم پیش ہوگی ۔ اب یہ لوگ جہنم سے اس طرح منہ نہ موڑ سکیں گے جس طرح یہ دنیا میں ہایت سے منہ موڑ رہے تھے۔ اب ان میں موڑنے کی طاقت نہ ہوگی۔ اب ان کی آنکھوں کے اوپر سے پردے ہٹ جائیں گے اب وہ سرکشی اور اعراض کا نتیجہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں گے یعنی جزاء پوری کی پوری جزائ۔ قرآن کریم نے یہاں اس منظر کو اس طرح پیش کیا ہے کہ ان کے اعراض کی تصویر کو اور ان کے لئے جہنم کی تپیش کو ایک دوسرے کے بالمقبال پیش کیا ہے دونوں چیزیں عملاً حرکت کرتے ہوئے منظر کی صورت میں پیش کی گئی ہیں اور یہ قرآن کریم کا مخصوص انداز کلام ہے اور اس تقابلی منظر کشی پر پھر تبصرہ ، نہایت ہی ختلخ اور حقارت آمیز تبصرہ یوں کیا جاتا ہے !

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَ تَرَکْنَا بَعْضَھُمْ یَوْمَءِذٍ یَّمُوْجُ فِیْ بَعْضٍ ) اور ہم اس دن ان کو اس حال میں چھوڑ دیں گے کہ ایک دوسرے میں گھستے رہیں گے۔ (یعنی قیامت سے پہلے جب یاجوج ماجوج نکلیں گے تو ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوجائیں گے اور اسی طرح دنیا میں پھیل پڑیں گے۔ ھذا علی احدالقولین وروی عن ابن عباس (رض) انہ اراد بہ الذین تقوم علیھم الساعۃ ای یضطربون اضطراب البحر یختلط انسھم وجنھم من شدۃ الھول ذکرہ صاحب الروح۔ (صفحہ ٦٢ ج ١٦) (وَّ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَجَمَعْنٰھُمْ جَمْعًا) اور صور پھونک دیا جائے گا سو ہم ان سب کو جمع کریں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

84:۔ یہ تخویف اخروی ہے۔ مشرکین کے چاروں شبہات کا جواب دینے کے بعد ان مشرکین کے لیے تخویف اخروی کا ذکر کیا گیا۔ جنہوں نے دنیا میں اللہ کے ذکر اور اس کی توحید سے آنکھیں بند کرلیں۔ اور اللہ کی توحید سننے کے لیے بھی تیار نہ تھے۔ بعض مفسرین نے اس آیت کو یاجوج ماجوج سے متعلق کیا ہے۔ لیکن صحیح وہی ہے جو محققین نے بیان کیا ہے کہ بعضھم کی ضمیر سے لوگ مراد ہیں اور یموج، موج سے ہے اور اس سے بےچینی اور اضطراب مراد ہے، یعنی جب دوسری بار صورت پھونکا جائے گا تو لوگ قبروں سے گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوں گے اور شدت ہول کی وجہ سے بےچین و مضطرب ہوں گے۔ والموج مجاز عن الاضطراب ای یضطربون اضطراب البحر یختلط انسھم وجنھم من شدۃ الھول (روح ج 16 ص 43) وترکنا وجعلنا بعضھم بعض الخق یومئذ یموج یختلط فی بعض ای یضطربون و یختلطون انسھم و جنھم حیاری (مدارک ج 3 ص 21) ْ 85:۔ اس سے نفخہ ثانیہ مراد ہے۔ کیونکہ اس کا مابعد اس پر دلالت کرتا ہے۔ الظاھر ان المراد النفخۃ الثانیۃ لانہ المناسب لما بعد (روح ج 6 ص 66) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

99 اور ہم اس دن ان کی ایسی حالت کردیں گے کہ وہ ایک دوسرے میں موجوں کی طرح گھس رہے ہوں گے اور صور پھونکا جائے تو ہم سب کو یکجا جمع کرلیں گے۔ یا تو یہ مطلب ہے کہ وہ اس دن اس کثرت سے نکلیں گے کہ ان کا اژدھام ایسا ہوگا کہ ایک دوسرے میں موجوں کی مانند گھسے جاتے ہوں گے یعنی بیشمار ہوں گے یا پہلے نفخہ صور کی طرف اشارہ ہوگا کہ اس وقت اس کی خوفناک آواز کا یہ اثر ہوگا کہ سب گڈ مڈ ہوجائیں گے حتیٰ کہ درندے بھی آبادیوں میں بھاگ آئیں گے اور سب ختم ہوجانے کے بعد دوسری بار جب صور پھونکا جائے گا تو پھر ایک ایک کر کے سب کو جمع کرلیا جائے گا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ قیامت کے دن ہوگا جو رب کا وعدہ ہے۔ 12