اسی سورت کے شروع کی آیتیں حضرت جعفر بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے شاہ حبشہ کے دربار میں بادشاہ کے درباریوں کے سامنے تلاوت فرمائی تھیں ۔ ( مسند احمد اور سیرت محمد بن اسحاق )
[١] اس سورة کا نام مریم اس لئے ہے کہ اس میں سیدہ مریم کے حالات کا تفصیلی ذکر آیا ہے اور یہی ایک خاتون ہیں جن کا قرآن میں نام مذکور ہے اور کم از کم تیس مقامات پر ان کا نام آیا ہے۔ [٢] ہجرت حبشہ :۔ یہ سورت مکہ میں ہجرت حبشہ یعنی ٥ نبوی سے پیشتر نازل ہوئی تھی۔ قریش کے ناروا مظالم اور سختیوں میں مسلمان پس رہے تھے اور کوئی غلام تھا یا آزاد، کمزور تھا یا قوی سب مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا۔ بالآخر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ وہاں کا عیسائی بادشاہ جسے مسلمان نجاشی کہتے تھے۔ اپنے عدل کی وجہ سے مشہور تھا اور حبشہ کی طرف ہجرت کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ وہاں تبلیغ کے لئے میدان کھلا تھا۔ چناچہ پہلی دفعہ سیدنا عثمان (رض) کی سر کردگی میں جو وفد حبشہ کو روانہ ہوا اس میں گیارہ مرد اور چار عورتیں شامل تھیں۔ ان عورتوں میں سیدنا عثمان (رض) کی بیوی یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی رقیہ بھی شامل تھیں۔ اسی موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سیدنا ابراہیم کے بعد یہ پہلا جوڑا ہے جو اللہ کی راہ میں ہجرت کے لئے نکلا رفتہ رفتہ ان مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ چند ہی ماہ میں ٨٣ مرد اور ١١ عورتیں حبشہ کو منتقل ہوگئے جن میں سات غیر قریشی مسلمان بھی تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مکہ میں صرف ٤٠ آدمی رہ گئے۔ اس صورت حال نے کفار مکہ کو سخت بےچین کردیا۔ کیونکہ ہجرت کرنے والے تقریبا ً سب ہی کسی نہ کسی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ کسی کا بیٹا، کسی کا داماد، کسی کی بیٹی، کسی کی بہن وغیرہ تھے۔ اس صدمہ سے متاثر ہو کر کچھ لوگ تو مسلمان ہوئے اور زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جنہوں نے مسلمانوں پر سختیوں میں مزید اضافہ کردیا۔ ایک تجویز طے ہوئی کہ جیسے بھی بن پڑے مہاجرین حبشہ کو یہاں واپس مکہ لایا جائے۔ ہجرت حبشہ اور قریشی وفد کی ناکامی :۔ اس غرض کے لئے دو ماہرین سفارت عبداللہ بن ابی ربیعہ (ابوجہل کا ماں جایا بھائی) اور عمرو بن عاص (فاتح مصر، جو ابھی تک اسلام نہ لائے تھے) کا انتخاب کیا گیا۔ یہ دونوں بادشاہ اور پادریوں کے لئے تحفے تحائف لے کر حبشہ پہنچے۔ پہلے پادریوں سے ملے اور انھیں تحفے تحائف دے کر اس بات پر آمادہ کرلیا کہ جب ہم بادشاہ کے سامنے اپنی عرضداشت پیش کریں تو وہ ان کی ہاں میں ہاں ملا دیں۔ چناچہ دوسرے دن اس وفد نے بادشاہ کے سامنے حاضر ہو کر نذرانے پیش کرنے کے بعد عرض کی کہ ہمارے چند مجرموں نے مکہ سے بھاگ کر آپ کے ہاں پناہ لی ہے۔ وہ ہمیں واپس کردیئے جائیں۔ ساتھ ہی رشوت خور درباریوں اور پادریوں نے ہاں میں ہاں ملا دی۔ مگر نجاشی انصاف پسند انسان تھا۔ ان کی باتوں میں نہ آیا اور کہہ دیا کہ جب تک میں ان لوگوں کی بات نہ سن لوں ان کی واپسی کا کیسے حکم دے سکتا ہوں۔ چناچہ مسلمانوں کو بلایا گیا اور ان سے صورت حال دریافت کی گئی۔ مسلمانوں نے سیدنا جعفر طیار کو اپنا نمائندہ یا ترجمان مقرر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہم فلاں فلاں قسم کی گمراہیوں میں مبتلا تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے درمیان نبی مبعوث کیا جس پر ہم ایمان لے آئے تو یہ لوگ ہاتھ دھو کر ہمارے پیچھے پڑگئے۔ انہی لوگوں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر ہم نے آپ کے ملک میں پناہ لی ہے۔ نجاشی کہنے لگا : تمہارے نبی پر جو کلام نازل ہوا ہے۔ اس کا کچھ حصہ تو سناؤ چناچہ سیدنا جعفر طیار نے اسی سورة مریم کی ابتدائی آیات تلاوت فرمائیں جن میں سیدنا زکریا اور سیدہ مریم کا ذکر ہے۔ یہ کلام سن کر نجاشی پر رقت طاری ہوگئی۔ سنتا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا حتیٰ کہ اس کی داڑھی تر ہوگئی اور جب سیدنا جعفر طیار نے تلاوت ختم کی تو کہنے لگا : یہ کلام اور وہ کلام جو سیدنا عیسیٰ ( علیہ السلام) پر نازل ہوا دونوں ایک ہی منبع سے پھوٹے ہیں۔ واللہ ! میں ان لوگوں کو تمہارے حوالہ نہ کروں گا نجاشی کے انکار پر قریشی وفد سخت مایوس ہوگیا اور موجودہ صورتحال پر غور کرنے کے لئے سر جوڑ بیٹھے۔ عمرو بن عاص یکدم پکار اٹھا کہ بادشاہ سے دوبارہ ملاقات کی جائے میں کل ایسی بات پیش کروں گا جس سے یقینا ً ہم کامیاب ہوں گے۔ چناچہ دوسرے دن عمرو بن عاص نے رسائی حاصل کرکے بادشاہ سے کہا : حضور آپ کو یہ بھی علم ہے کہ یہ لوگ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق کیا اعتقاد رکھتے ہیں ؟ بادشاہ نے اس سوال کے جواب کے لئے دوبارہ مسلمانوں کو بلا بھیجا۔ انھیں بھی اس بات کی خبر ہوگئی تھی۔ بہرحال انہوں نے یہ طے کرلیا کہ حالات جیسے بھی پیش آئیں ہمیں سچی بات ہی کہنا چاہئے اور جب نجاشی نے یہ سوال کیا تو سیدنا جعفر طیار کہنے لگے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے، اس کے رسول، روح اللہ اور کلمۃ اللہ تھے یہ جواب سن کر نجاشی نے ایک تنکا اٹھایا اور کہا : واللہ ! جو کچھ تم نے کہا : عیسیٰ ( علیہ السلام) اس تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ نہیں ہیں نجاشی کے اس تبصرہ پر درباری لوگ برہم ہوئے مگر نجاشی نے اس کی کچھ پروا نہ کی۔ قریشی سفارت مکمل طور پر ناکام ہوگئی۔ نجاشی نے ان کے تحائف انھیں واپس کردیئے اور مسلمانوں کو امن و اطمینان سے اس ملک میں رہنے کی اجازت دے دی۔
سورة مَرْیَم نام : اس سورت کا نام آیت واذکر فی الکتب مریم سے ماخوذ ہے ۔ مراد یہ ہے کہ وہ سورہ جس میں حضرت مریم کا ذکر آیا ہے ۔ زمانہ نزول : اس کا زمانہ نزول ہجرت حبشہ سے پہلے کا ہے ۔ معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مہاجرین اسلام جب نجاشی کے دربار میں بلائے گئے تھے اس وقت حضرت جعفر نے یہی سورہ بھرے دربار میں تلاوت کی تھی ۔ تاریخی پس منظر : جس دور میں یہ سورہ نازل ہوئی اس کے حالات کی طرف ہم کسی حد تک سورہ کہف کے دیباچے میں اشارہ کر چکے ہیں لیکن وہ مختصر اشارہ اس سورے کو اور اس دور کی دوسری سورتوں کو سمجھنے کے لئے کافی نہیں ہے ۔ اس لئے ہم ذرا اس وقت کے حالات زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں ۔ قریش کے سردار جب تضحیک ، استہزاء اطماع تخویف اور جھوٹے الزامات کی تشہیر سے تحریک اسلامی کو دبانے میں ناکام ہو گئے تو انہوں نے ظلم و ستم ، مار پیٹ اور معاشی دباؤ کے ہتھیار استعمال کرنے شروع کیے ۔ ہر قبیلے کے لوگوں نے اپنے اپنے قبیلے کے نو مسلموں کو تنگ پکڑا اور طرح طرح سے ستا کر ، قید کر کے بھوک پیاس کی تکلیفیں دے کر ، حتی کہ سخت جسمانی اذیتیں دے دے کر انہیں اسلام چھوڑنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی ۔ اس سلسلے میں خصوصیت کے ساتھ غریب لوگ اور وہ غلام اور سوالی جو قریش والوں کے تحت زیر دست کی حیثیت سے رہتے تھے ، بری طرح پیسے گئے ۔ مثلاً بلال ، عامر بن مہر ، ام عبیس ، زبیرہ ، عمار بن یاسر اور ان کے والدین وغیرہم ، ان لوگوں کو مار مار کر ادھ موا کر دیا جاتا ، بھوکا پیاسا بند رکھا جاتا ، مکے کی تپتی ہوئی ریت چلچلاتی دھوپ میں لٹا دیا جاتا اور سینے پر بھاری پتھر رکھ کر گھنٹوں تڑپایا جاتا ۔ جو لوگ پیشہ ور تھے ان سے کام لے لیا جاتا اور اجرت ادا کرنے میں پریشان کیا جاتا ۔ چنانچہ صحیحین میں حضرت خباب بن ارت کی یہ روایت موجود ہے کہ : میں مکے میں لوہار کا کام کرتا تھا ، مجھ سے عاص بن وائل نے کام لیا ، پھر جب میں اس سے اجرت لینے گیا تو اس نے کہا کہ تیری اجرت نہ دونگا جب تک تو محمد کا انکار نہ کرے اسی طرح جو لوگ تجارت کرتے تھے ان کے کاروبار کو برباد کرنے کی کوششیں کی جاتیں اور جو معاشرے میں کچھ عزت کا مقام رکھتے ان کو ہر طریقے سے ذلیل و رسوا کیا جاتا ۔ اسی زمانے کا حال بیان کرتے ہوئے حضرت خباب کہتے ہیں کہ ایک روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کعبے کے سائے میں تشریف فرما تھے ۔ میں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ۔ اب تو ظلم کی حد ہو گئی ہے ۔ آپ خدا سے دعا نہیں فرماتے ؟ یہ سن کر آپ کا چہرہ مبارک تمتما اٹھا اور آپ نے فرمایا تم سے پہلے جو اہل ایمان تھے ان پر اس سے زیادہ مظالم ہو چکے ہیں ۔ ان کی ہڈیوں پر لوہے کی کنگھیاں گھسی جاتی تھیں ، ان کے سروں پر رکھ کر آرے چلائے جاتے پھر بھی وہ اپنے دین سے نہ پھر تے تھے ۔ یقین جانو کہ اللہ اس کام کو پورا کر کے رہے گا یہاں تک کہ ایک وقت وہ آئے گا کہ ایک آدمی صنعاء سے حضر موت تک بےکھٹکے سفر کرے گا اور اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہو گا ، مگر تم لوگ جلد بازی کرتے ہو ( بخاری ) ۔ یہ حالات جب ناقابل برداشت حد تک پہنچ گئے تو رجب 45 ہجری عام الفیل ( شہ نبوی ) میں حضور نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ لوخرجتم الی ارض الحبشتہ فان بھا ملکا لایطیلم عندہ احد وھی ارض صد حتی یجعل اللہ لکم فرجا مما انتم فیہ ۔ اچھا ہو کہ تم لوگ نکل کر حبش چلے جاؤ ۔ وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا اور وہ بھلائی کی سر زمین ہے ۔ جب تک اللہ تمہاری اس مصیبت کو رفع کرنے کی کوئی صورت پیدا کرے ، تم لوگ وہاں ٹھیرے رہو ۔ اس ارشاد کی بنا پر پہلے گیارہ مردوں اور چار خواتین نے حبش کی راہ لی ۔ قریش کے لوگوں نے ساحل تک ان کا پیچھا کیا ، مگر خوش قسمتی سے شعیبہ کے بندرگاہ پر ان کو بر وقت حبش کے لئے کشتی مل گئی اور وہ گرفتار ہونے سے بچ گئے ۔ پھر چند مہینوں کے اندر مزید لوگوں نے ہجرت کی یہاں تک کہ 83 مرد گیارہ عورتیں اور 7 غیر قریشی مسلمان حبش میں جمع ہو گئے اور مکے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف 40 آدمی رہ گئے ۔ اس ہجرت سے مکے کے گھر گھر میں کہرام مچ گیا ، کیونکہ قریش کے بڑے اور چھوٹے خاندانوں میں سے کوئی ایسا نہ تھا جس کے چشم و چراغ ان مہاجرین میں شامل نہ ہوں ۔ کسی کا بیٹا گیا تو کسی کا داماد ، کسی کی بیٹی گئی تو کسی کا بھائی اور کسی کی بہن ۔ ابو جہل کے بھائی اور کسی کی بہن ۔ ابو جہل کے بھائی سلمہ بن ہشام ، اس کے چچا زاد بھائی ہشام بن ابی حذیفہ اور عیاش بن ابی ربیعہ اور اس کی چچا زاد بہن حضرت ام سلمہ ، ابو سفیان کی بیٹی ام حبیبیہ ۔ عتبہ کے بیٹے اور ہند جگر خوار کے سگے بھائی ابو حذیفہ ۔ سہل بن عمرد کی بیٹی سلہلہ ۔ اور اسی طرح دوسرے سردار قریش اور مشہور دشمنان اسلام کے اپنے جگر گوشے دین کی خاطر گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے تھے ۔ اسی لئے کوئی گھر نہ تھا جو اس واقعہ سے متاثر نہ ہوا ہو ۔ بعض لوگ اس کی وجہ سے اسلام دشمنی میں پہلے سے زیادہ سخت ہوگئے ۔ اور بعض کے دلوں پر اس کا اثر ایسا ہوا کہ آخر کار وہ مسلمان ہو کر رہے ۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اسلام دشمنی پر پہلی چوٹ اسی واقعہ سے لگی ۔ ان کی ایک قریبی رشتہ دار لیلی بنت حشمہ بیان کرتی ہیں کہ میں ہجرت کے لئے اپنا سامان باندھ رہی تھی ، اور میرے شوہر عامر بن ربیعہ کسی کام سے باہر گئے ہوئے تھے ۔ اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ آئے اور کھڑے ہو کر میری مشغولیت کو دیکھتے رہے کچھ دیر کے بعد کہنے لگے عبداللہ کی ماں ، جارہی ہو ؟ میں نے کہا ہاں خدا کی قسم تم لوگوں نے ہمیں ستایا ۔ خدا کی زمین کھلی پڑی ہے ، اب ہم کسی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں خدا ہمیں چین دے یہ سن کر عمر کے چہرے پر رقت کے ایسے آثار طاری ہوئے جو میں نے کبھی ان پر نہ دیکھے تھے اور وہ بس یہ کہہ کر نکل گئے کہ خدا تمہارے ساتھ ہو ۔ ہجرت کے بعد قریش کے سردار سر جوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے طے کیا کہ عبداللہ بن ابی ربیعہ ( ابو جہل کے ماں جائے بھائی ) اور عمر و بن عاص کو بہت سے قیمتی تحائف کے ساتھ حبش بھیجا جائے اور یہ لوگ کسی نہ کسی طرح نجاشی کو اس بات پر راضی کریں کہ وہ ان مہاجرین کو مکہ واپس بھیج دے ۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ نے ( جو خود مہاجرین حبشہ میں شامل تھیں ) یہ واقعہ بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ وہ فرماتی ہیں کہ قریش کے یہ دونوں ماہر سیاست سفیر ہمارے تعاقب میں حبش پہنچے ۔ پہلے انہوں نے نجاشی کے اعیان سلطنت میں خو ہدیہ تقسیم کر کے سب کو اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ مہاجرین کو واپس کرنے کے لئے نجاشی پر بالاتفاق زور دیں گے ۔ پھر نجاشی سے ملے اور اس کو بیش قیمت نذرانہ دینے کے بعد کہا کہ ہمارے شہر کے چند نادان لونڈے بھاگ کر آپ کے ہاں آ گئے ہیں قوم کے اشرف نے ہمیں آپ کے پاس ان کی واپسی کو درخواست کرنے کے لئے بھیجا ہے ۔ یہ لڑ کے ہمارے دین سے نکل گئے ہیں اور آپ کے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے ایک نرالا دین نکال لیا ہے ان کا کلام ختم ہوتے ہی اہل دربار ہر طرف سے بولنے لگے کہ ایسے لوگوں کو ضرور واپس کر دینا چاہیے ، ان کی قوم کے لوگ زیادہ جانتے ہیں کہ ان میں کیا عیب ہے ۔ انہیں رکھنا ٹھیک نہیں ہے ۔ مگر نجاشی نے بگڑ کر کہا کہ اس طرح تو میں انہیں حوالے نہیں کروں گا ۔ جن لوگوں نے دوسرے ملک کو چھوڑ کر میرے ملک پر اعتماد کیا اور یہاں پناہ لینے کے لئے آئے ان سے میں بے وفائی نہیں کر سکتا پہلے میں انہیں بلا کر تحقیق کروں گا کہ یہ لوگ ان کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے چنانچہ نجاشی نے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے دربار میں بلا بھیجا ۔ نجاشی کا پیغام پا کر سب مہاجرین جمع ہوئے اور انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ بادشاہ کے سامنے کیا کہنا ہے ۔ آخر سب نے بالاتفاق یہ فیصلہ کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جو تعلیم ہمیں دی ہے ہم تو وہی بےکم و کاست پیش کریں گے خواہ نجاشی ہمیں رکھے یا نکال دے ۔ دربار میں پہنچے تو چھوٹتے ہی نجاشی نے سوال کیا کہ یہ تم لوگوں نے کیا کیا کہ اپنی قوم کا دین بھی چھوڑا اور میرے دین میں بھی داخل نہ ہوئے ، نہ دنیا کے دوسرے ادیان ہی میں سے کسی کو اختیار کیا ؟ آخر یہ تمہارا نیا دین ہے کیا ؟ اس پر مہاجرین کی طرف سے جعفر بن ابی طالب نے ایک برجستہ تقریر کی جس میں پہلے عرب جاہلیت کی دینی ، اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں کو بیان کیا ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ذکر کر کے بتایا کہ آپ کیا تعلیمات پیش فرماتے ہیں ، پھر ان مظالم کا ذکر کیا جو آنحضور کی پیروی اختیار کرنے والوں پر قریش کے لوگ ڈھا رہے تھے ، اور اپنا کلام اس بات پر ختم کیا کہ دوسرے ملکوں کے بجائے ہم نے آپ کے ملک کا رخ اس امید پر کیا ہے کہ یہاں ہم پر ظلم نہ ہوگا ۔ نجاشی نے یہ تقریر سن کر کہا کہ ذرا مجھے وہ کلام تو سناؤ جو تم کہتے ہو کہ خدا کی طرف سے تمہارے نبی پر اترا ہے ۔ حضرت جعفر نے جواب میں سورہ مریم کا وہ ابتدائی حصہ سنایا جو حضرت یحیی اور حضرت عیسی علیہما السلام سے متعلق ہے ۔ نجاشی اس کو سنتا رہا اور روتا رہا یہاں تک کہ اس کی ڈاڑھی تر ہوگئی جب حضرت جعفر نے تلاوت ختم کی تو اس نے کہا کہ یقیناً یہ کلام اور جو کچھ عیسیٰ لائے تھے دونوں ایک ہی سر چشمے سے نکلے ہیں ۔ خدا کی قسم میں تمھیں ان لوگوں کے حوالے نہ کروں گا ۔ دوسرے روز عمر و بن العاص نے نجاشی سے کہا کہ ذرا ان لوگوں سے بلا کر یہ تو پوچھیے کہ عیسی بن مریم کے بارے میں ان کا عقیدہ کیا ہے ۔ یہ لوگ ان کے متعلق ایک بڑی بات کہتے ہیں نجاشی نے پھر مہاجرین کو بلا بھیجا ۔ مہاجرین کو پہلے سے عمرو ذکی کی چال کا علم ہو چکا تھا ۔ انہوں نے جمع ہو کر پھر مشورہ کیا کہ اگر نجاشی نے عیسی علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا تو کیا جواب دو گے ؟ موقع بڑا نازک تھا اور سب اس سے پریشان تھے ۔ مگر پھر بھی اصحاب رسول اللہ نے یہی فیصلہ کیا کہ جو کچھ ہوتا ہے ہو جائے ہم تو وہی بات کہیں گے جو اللہ نے فرمائی اور اللہ کے رسول نے سکھائی ۔ چنانچہ جب یہ لوگ دربار میں گئے اور نجاشی نے عمرو بن العاص کا پیش کردہ سوال ان کے سامنے دہرایا تو جعفر بن ابی طالب نے اٹھ کر بلا تامل کہا کہ ھو عبداللہ و رسولہ و روحہ وکلمتہ القاھا الی مریم العذراء البتول ۔ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کی طرف سے ایک روح اور ایک کلمہ ہیں جسے اللہ نے کنواری مریم پر القا کیا نجاشی نے سن کر ایک تنکا زمین سے اٹھایا اور کہا خدا کی قسم جو کچھ تم نے کہا ہے عیسی اس سے تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں تھے ۔ اس کے بعد نجاشی نے قریش کے بھیجے ہوئے تمام ہدیے یہ کہہ کر واپس کر دیے کہ میں رشوت نہیں لیتا اور مہاجرین سے کہا کہ تم بالکل اطمینان کے ساتھ رہو ۔ موضوع اور مضمون : اس تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھ کر جب ہم اس سورے کو دیکھتے ہیں تو اس میں اولیں بات نمایاں ہو کر ہمارے سامنے یہ آتی ہے کہ اگرچہ مسلمان ایک مظلوم پناہ گزیں گروہ کی حیثیت سے اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے ملک میں جا رہے تھے ، مگر اس حالت میں بھی اللہ تعالی نے ان کو دین کے معاملے میں ذرہ برابر مداہنت کرنے کی تعلیم نہ دی ، بلکہ چلتے وقت زاد راہ کے طور پر یہ سورہ ان کے ساتھ کی تاکہ عیسائیوں کے ملک میں عیسی علیہ السلام کی بالکل صحیح حیثیت پیش کریں اور انکے ابن اللہ ہونے کا صاف صاف انکار کر دیں ۔ پہلے دو رکوعوں میں یحیی اور عیسی کا قصہ سنا نے کے بعد پھر تیسرے رکوع میں حالات زمانہ کی مناسبت سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ سنایا گیا ہے کیونکہ ایسے ہی حالات میں وہ بھی اپنے باپ اور خاندان اور اہل ملک کے ظلم سے تنگ آ کر وطن سے نکل کھڑے ہوئے تھے ۔ اس سے ایک طرف کفار مکہ کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ آج ہجرت کرنے والے مسلمان ابراہیم علیہ السلام کی پوزیشن میں ہیں اور تم لوگ ان ظالموں کی پوزیشن میں ہو جنہوں نے تمہارے باپ اور پیشواؤ ابراہیم علیہ السلام کو گھر سے نکالا تھا ۔ دوسری طرف مہاجرین کو یہ بشارت دی گئی ہے کہ جس طرح ابراہیم علیہ السلام وطن سے نکل کر تباہ نہ ہوئے بلکہ اور زیادہ سر بلند ہو گئے ایسا ہی انجام نیک تمہارا انتظار کر رہا ہے ۔ اس کے بعد چوتھے رکوع میں دوسرے انبیاء کا ذکر کیا گیا ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام وہی دین لے کر آئے تھے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں ، مگر انبیاء کے گزر جانے کے بعد ان کی امتیں بگڑتی رہی ہیں اور آج مختلف امتوں میں جو گمراہیاں پائی جا رہی ہیں یہ اسی بگاڑ کا نتیجہ ہیں ۔ آخری دو رکوعوں میں کفار مکہ کی گمراہیوں پر سخت تنقید کی گئی ہے اور کلام ختم کرتے ہوئے اہل ایمان کو مژدہ سنایا گیا ہے کہ دشمنان حق کی ساری کوششوں کے باوجود بالآخر تم محبوب خلائق ہو کر رہو گے ۔
تعارف اس سورت کا بنیادی مقصد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کے بارے میں صحیح عقائد کی وضاحت اور ان کے بارے میں عیسائیوں کی تردید ہے۔ اگرچہ مکہ مکرمہ میں، جہاں یہ سورت نازل ہوئی، عیسائیوں کی کوئی خاص آبادی نہیں تھی، لیکن مکہ مکرمہ کے بت پرست کبھی کبھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعوائے نبوت کی تردید کے لیے عیسائیوں سے مدد لیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بہت سے صحابہ کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آکر حبشہ کی طرف ہجرت کر رہے تھے جہاں عیسائی مذہب ہی کی حکمرانی تھی۔ اس لیے ضروری تھا کہ مسلمان حضرت عیسی، حضرت مریم، حضرت زکریا اور حضرت یحی علیہم السلام کی صحیح حقیقت سے واقف ہوں۔ چنانچہ اس سورت میں ان حضرات کے واقعات اسی سیاق و سباق میں بیان ہوئے ہیں۔ اور چونکہ یہ واضح کرنا تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خدا کے بیٹے نہیں ہیں، جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے، بلکہ وہ انبیائے کرام ہی کے مقدس سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ اس لیے بعض دوسرے انبیائے کرام علیہم السلام کا بھی مختصر تذکرہ اس سورت میں آیا ہے۔ لیکن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی معجزانہ ولادت اور اس وقت حضرت مریم علیہا السلام کی کیفیات سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ اسی سورت میں بیان ہوئی ہیں، اس لیے اس کا نام سورۃ مریم رکھا گیا ہے۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سورة مریم سورة نمبر 19 آیات 98 رکوع 6 الفاظ وکلمات 762 حروف 3986 مقام نزول مکہ مکرمہ اس سورة میں دس انبیاء کرام کے نام اور چند انبیاء کے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ حضرت آدم، حضرت نوح، حضرت ادریس، حضرت ابراہیم، خلیل اللہ، حضرت اسماعیل، ذبیح اللہ، حضرت اسرائیل (یعقوب) ، حضرت موسیٰ ، حضرت ہارون، حضرت زکریا، حضرت عیسیٰ یہ سورة مکہ مکرمہ میں اس وقت نازل کی گئی جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جا نثار صحابہ کرام کو اتنا زیادہ ستایا گیا اور تکلیفیں پہنچائی گئیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ وہ ملک حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں۔ چناچہ صحابہ کرام کی بڑی تعداد مکہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئی اور حبشہ کی طرف ہجرت کرگئی۔ حضرت زکریا علیہ اسللام بنی اسرائیل کے عظیم پیغمبر اور بیت المقدس کے متولی (نگران) تھے۔ جب ان کی نسبتی بہن کے گھر حضرت مریم پیدا ہوئیں تو حضرت مریم کی والدہ کی منت کی وجہ سے حضرت زکریا حضرت مریم کے نگران بنائے گئے۔ سورة مریم مکہ مکرمہ میں اس وقت نازل ہوئی جب کفار و مشرکین مکہ کا ظلم و ستم اس قدر بڑھ چکا تھا کہ صبر و تحمل کے پیکر اعظم حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اپنے جاں نثاروں پر اس ظلم و زیادتی کو برداشت نہ کرسکے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ کرام سے فرمایا کہ : ” تم مکہ مکرمہ سے نکل کر ملکہ حبشہ کی طرف چلے جاؤ۔ وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کی موجودگی میں کسی پر ظلم نہیں ہو سکتا۔ تمہارے لئے بھلائی کی زمین ہے جب تک اللہ تعالیٰ تمہاری اس مصیبت کو دور کرنے کی کوئی سبیل پیدا نہ کردیں اس وقت تک تم وہیں ٹھہرنا۔ “ چنانچہ ارشاد نبوی کے مطابق رجب ٥ ھ نبوی میں سب سے پہلے گیارہ (١١) مسلمان مردوں اور چار (٤) خواتین نے بیت اللہ کی سر زمین کو چھوڑ کر قریبی ملک حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ زیادہ عرصہ نہ گذارا تھا کہ کچھ اور صحابہ کرام و صحابیات نے مکہ سے ملک حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی اس طرح چند مہینوں میں تراسی (٨٣) مرد اور گیارہ (١١) خواتین جن میں سات (٧) غیر قریشی مسلمان بھی تھے حبشہ کی سر زمین پر جمع ہوگئے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس صرف چالیس صحابہ کرام رہ گئے۔ چونکہ مکہ مکرمہ کے تمام قبیلوں میں سے کسی نہ کسی قبیلے کے ایک یا دو افراد اس ہجرت میں شامل تھے اس سے تمام قبیلوں میں ایک کہرام مچ گیا وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو نہ صرف سینکڑوں لوگ مکہ چھوڑ جائیں گے بلکہ وہ مسلمان حبشہ میں ایک قوت بن جائیں گے اور قریش کے رعب اور دبدبہ کو سخت نقصان پہنچے گا۔ نیز مکہ والے یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ ساری دنیا میں ان کی ہوا اکھڑ جائے گی۔ کفار مکہ اس توہین کو برداشت نہ کرسکے اور چند نہایت سمجھدار افراد پر مشتمل ایک وفد ترتیب دے کر ملک حبشہ میں شاہ نجاشی کے پاس بھیجا گیا اور بادشاہ کے لئے کچھ تحفے ساتھ کردیئے گئے۔ اس وفد کے ارکان نے بحشہ کے بادشاہ نجاشی سے یہ کہا کہ ہمارے کچھ غلام بھاگ کر آپ کے ملک میں آگئے ہیں براہ کرم ان کو واپس بھیج دیجیے۔ نجاشی بادشاہ نے کہا کہ جب تک میں ان لوگوں سے نہ مل لوں اس وقت تک کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔ چناچہ نجاشی نے مکہ سے آنے والوں کو بلا بھیجا۔ تمام صحابہ کرام بادشاہ کے پاس پہنچ گئے۔ بادشاہ کے پوچھنے پر حضرت جعفر طیار آگے بڑھے اور انہوں نے کہا کہ اے نجاشی ! ہم گراہ تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ ہم راہ ہدایت نصیب ہوئی۔ اس ہدایت پر چلنے کی وجہ سے مکہ کی سر زمین میں ہم پر اتنے ظلم و ستم کئے گئے کہ ہم اپنے گھر بار کو چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ اس موثر تقریر کے بعد حضرت جعفر طیار نے سورة مریم کی تلاوت بھی فرمائی۔ آیات کی تلاوت سن کر نجاشی بادشاہ اس قدر رویا کہ آنسوؤں سے اس کی داڑھی تر ہوگئی۔ تلاوت کے بعد نجاشی نے کہا یقینا یہ کلام اور جو کچھ حضرت عیسیٰ لے کر آئے تھے وہ ایک ہی سرچشمے سے نکلے ہیں۔ نجاشی نے کفار مکہ کے وفد سے کہا کہ اللہ کی قسم میں ان لوگوں کو تمہارے حوالے نہیں کروں گا۔ یہ کہہ کر اس نے مکہ والوں کے تحفے بھی واپس کردیئے۔ خلاف توقع مکہ کے لوگوں کو اس قدر ناکامی اور ذلت نصیب ہوئی کہ وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کی سر توڑی کوششوں کے باوجود مسلمانوں کو حبشہ میں عزت و سربلندی سے نوازا۔ بادشاہ نے تمام مسلمانوں کو اپنے ملک میں رہنے کی اجازت دے دی۔ یہ وہ حالات تھے جن میں سورة مریم نازل کی گئی اور اللہ کے کلام کی حقانیت ثابت ہو کر رہی۔ اس سورة کا نام سورة مریم ہے۔ مریم کے معنی کنواری اور پاکیزہ کے آتے ہیں۔ اس سورت میں حضرت مریم کی شان اور عظمت کو بھی بیان فرمایا گیا ہے اور کچھ پیغمبروں کا بھی ذکر فرمایا گیا ہے۔ اس سورة کی ابتداء حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ کے ذکر سے فرمائی گئی ہے۔ حضرت زکریا بنی اسرائیل کے بڑے جلیل القدر اور عظیم پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر ہیں۔ آپ اس زمانہ میں بنی اسرائیل کے پیشوا، رہنما اور بیت المقدس کے متولی بھی تھے۔ حضرت زکریا اپنے ہاتھ سے روزی کماتے تھے اور بڑھئی کے کاموں سے جو کچھ ملتا اس پر گزارہ کرتے تھے۔ جب ان کی عمر مبارک ١٢٠ سال کی ہوگئی تو ان کی نسبتی بہن کے گھر حضرت مریم پیدا ہوئیں۔ حضرت مریم کی والدہ نے ان کی پیدائش سے پہلے یہ منت مان لی تھی کہ جو بھی اولاد پیدا ہوگی اسے میں بیت المقدس کے لئے وقف کر دوں گی۔ حضرت مریم کی پیدائش کے بعد منت کے مطابق ان کو بیت المقدس کے متولی حضرت زکریا جو حضرت مریم کے سگے خالو تھے ان کے حوالے کردی گئیں۔ جب وہ جوان ہوئیں تو ان کیلئے بیت المقدس میں ایک حجرے کا انتظام کردیا گیا جس میں وہ عبادت کرتی تھیں۔ حضرت مریم نہایت پاکیزہ صفت اور عبادت گذار خاتون تھیں۔ ایک دن حضرت زکریا ان کے حجرے میں گئے تو ان کے سامنے بےموسم کے پھل دیکھے۔ ان سے پوچھا کہ یہ پھل کہاں سے آئے ہیں ؟ انہوں نے نہایت معصومیت کے ساتھ جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم۔ یہ میرے اللہ کی طرف سے آئے ہیں۔ حضرت زکریا سوچنے لگے کہ جب اس جگہ جہاں کسی کے آنے کے امکانات نہیں ہے بےموسم کے پھل آسکتے ہیں تو میری زندگی کا اگرچہ موسم نکل گیا ہے کہ میرے گھر اولاد ہو مگر اللہ کی قدرت سے یہ بعید نہیں ہے۔ اس جگہ حضرت زکریا نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی۔ الٰہی ! میں بوڑھا ہوگیا ہوں۔ میری ہڈیاں تک سوکھ گئی ہیں۔ سر میں بالوں کی سفیدی پھیل گئی ہے۔ میری بیوی بانجھ ہے۔ اے رب ! آپ نے اپنے فضل و کرم سے مجھے کبھی مایوس اور محروم نہیں کیا۔ میرے رشتہ داروں میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اس دین کا وارث بن سکے جو آپ نے مجھے عطا فرمایا ہے۔ آپ مجھے اپنی رحمت خاص سے ایک ایسا بیٹا عطا فرما دیجیے جو میرا اور آل یعقوب کی دینی عظمتوں کا وارث ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول فرمایا اور حضرت یحییٰ جیسا بیٹا عطا فرمایا۔ اللہ نے بتا دیا کہ وہ اللہ تمام قدرتوں کا مالک ہے وہ اسباب کا محتاج نہیں ہے وہ جب اور جس طرح چاہے اپنی قدرت کا اظہار فرما دیتا ہے۔ سورة مریم کی آیات اور حضرت زکریا کے اس واقعہ سے اہل ایمان کو تسلی دی گئی ہے کہ جس اللہ پر تم ایمان لائے ہو وہ اتنی قدرت و طاقت والا ہے کہ ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے اور اسباب کا محتاج نہیں ہے۔ لہٰذا مستقبل اہل ایمان کا ہے۔ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ کی قدرت و طاقت پر بھروسہ رکھا جائے اور عمل صالح اختیار کیا جائے۔ اسی میں سب سے بڑی کامیابی ہے۔
سورة مریم کا تعارف ربط سورة : الکہف کا اختتام اس بات پر ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ لوگوں کو فرما دیں کہ میں تمہارے جیسا بشر ہوں۔ لیکن ” اللہ “ نے مجھے اپنا رسول منتخب فرمایا ہے تاکہ اس کی الوہیّت کا پرچار کروں یہی بات سورة مریم کے آغاز بیان ہوئی ہے کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) بھی ایک بشر اور نبی تھے۔ اور اپنے رب کی توحید اور اس کی عبادت کی طرف بلانے والے تھے۔ سورۃ مریم کا نام اسی سورة کی آیت ١٦ سے لیا گیا ہے یہ سورة ہجرت حبشہ سے پہلے مکہ میں نازل ہوئی۔ سورة مریم 6 رکوع اور 98 آیات پر مشتمل ہے۔ اہل مکہ نے مسلمانوں پر اس قدر مظالم ڈھائے کہ مسلمانوں کا مکہ میں رہنا ناممکن ہوگیا۔ اس صورت حال میں اللہ کے پیغمبر نے اپنے ساتھیوں کو مشورہ دیا کہ تم کچھ مدت کے لیے حبشہ کی طرف ہجرت کر جاؤ۔ کیونکہ وہاں کا بادشاہ نہایت ہی منصف مزاج اور شفیق انسان ہے۔ حالات بہتر ہوں گے تو واپس آجانا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشورہ کے مطابق پہلی مرتبہ گیارہ صحابہ اور چار صحابیات نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ کچھ دنوں کے بعد ہجرت کرنے والوں کو یہ خبر پہنچی کہ مکہ کے حالات نسبتاً بہتر ہوگئے ہیں۔ جب یہ لوگ مکہ واپس آئے تو انہیں معلوم ہوا کہ حالات پہلے سے زیادہ نازک صورت اختیار کرچکے ہیں۔ ہوسکتا ہے مکہ والوں کو مہاجرین کی واپسی پر یہ یقین ہوگیا ہو کہ ان لوگوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں۔ اس لیے انہوں نے اپنے مظالم میں کئی گنا اضافہ کردیا۔ اس صورت حال میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ساتھیوں کو دوبارہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کا مشورہ دیا اس وقت پر ٨٣ مرد اور گیارہ خواتین نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ اہل تحقیق کے نزدیک مہاجرین کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مکہ میں صرف چالیس مسلمان باقی رہ گئے۔ تاہم مکہ کے بڑے بڑے گھرانوں میں کوئی ایسا گھر نہیں تھا جس کے کسی عزیز نے ہجرت نہ کی ہو، اس وجہ سے اس ہجرت کے مکہ پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ مکہ کے سردار دل ہی دل میں اس کرب کو محسوس کرنے لگے۔ یہاں تک کہ عمر بن خطاب کی ایک قریبی رشتہ دار لیلہ (رض) بنت حشمہ ہجرت کی تیاری کر رہی تھیں کہ اس دوران عمر بن خطاب ان کے گھر آئے دیکھا کہ لیلہ بنت حشمہ ہجرت کی تیاری کر رہی ہیں پوچھا کدھر کی تیاری ہے ؟ بہن نے رقت آمیز لہجہ میں جواب دیا بھائی جب تم نے ہمارا جینا حرام کردیا ہے تو ہم نے یہاں رہ کر کیا کرنا ہے۔ عمر بن خطاب اپنی عزیزہ کی بات سن کر خاموش ہوگئے مگر ان کے چہرے سے نمایاں طور پر دکھائی دے رہا تھا کہ وہ اندر سے ہل چکے ہیں۔ اس اضطراب کے باوجود مکہ والوں کے رویّے میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ جس بنا پر انہوں نے عبداللہ بن ابی ربیعہ ابوجہل کے سوتیلے بھائی اور عمر بن عاص پر مشتمل ایک وفد تیار کیا اور انہیں قیمتی تحائف دئے تاکہ حبشہ کے حکمران کی خدمت میں پیش کریں اور اس سے مسلمانوں کی واپسی کا مطالبہ کریں۔ مکی وفد حبشہ کے حکمران کی خدمت میں پہنچ کر پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ مہاجرین کو ان کے حوالے کیا جائے۔ کیونکہ یہ اپنے دین سے منحرف ہوچکے ہیں۔ مکہ والوں کا مؤقف سن کر نجاشی نے مہاجرین کو بلاکر پوچھا کہ اس مسئلہ میں تمہارا مؤقف کیا ہے ؟ مہاجرین نے کہا کہ اے بادشاہ ! اللہ نے ہم ہی سے ایک شخص کو اپنا رسول منتخب فرمایا ہے جس نے ہمیں سچے دین کی دعوت دی اور ہم اس پر ایمان لے آئے جس وجہ سے یہ لوگ ہم پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ یہ بات سن کر نجاشی نے اہل مکہ کا مؤقف مسترد کردیا اور اپنے اہل کاروں کو حکم دیا کہ ہمارے ملک میں مہاجرین مہمان ہیں انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچنا چاہیے۔ مکہ کا وفد مایوس ہو کر اپنی قیام گاہ میں واپس لوٹا، اور ساری رات پیچ وتاب کھاتے رہے۔ بالآخر انہوں نے اگلے دن نجاشی سے ملاقات کی اور اسے کہا کہ یہ لوگ مریم (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی توہین کرتے ہیں، اس پر نجاشی نے مسلمانوں کی طرف دوبارہ قاصد بھیجا کہ وہ حاضر ہوجائیں۔ مسلمان نجاشی کے پاس تشریف لے گئے تو اس نے حضرت مریم اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں مسلمانوں سے استفسار کیا کہ تمہارا ان ہستیوں کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ مسلمانوں نے باہم مشورہ کر کے حضرت جعفر (رض) بن ابی طالب کو اپنا نمائندہ مقرر کیا۔ اور ان سے کہا کہ ہمیں ہر حال میں سچ بات کہنا ہے۔ حضرت جعفر (رض) طیار نے اپنے ساتھیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے سورة مریم کی ان آیات کی تلاوت کی جس میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ حضرت مریم کے ہاں کس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے گہوارے میں اپنے بارے میں کیا گفتگو فرمائی۔ نجاشی نے ان آیات کی تلاوت سنی تو اس نے زمین سے ایک تنکا اٹھا کر کہا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ سو فیصد ٹھیک ہے ان کی شان میں ایک تنکا کے برابر بھی کمی، بیشی نہیں کی گئی۔ اس طرح مسلمان سرخرو ہوئے اور مکہ کا وفد ناکام اور نامراد ٹھہرا۔ اس سورة مبارکہ میں حضرت مریم اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خطاب کے بارے میں تفصیلات دی گئی ہیں، جس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے والد کے سامنے توحید کے واضح دلائل اور اس کا کھلے الفاظ میں ابلاغ کرتے ہیں۔ مگر باپ کے ادب میں فرق نہیں آنے دیتے۔ جس میں یہ بتلایا گیا ہے توحید کی سچائی اور غیرت اپنی جگہ لیکن اہل توحید کو ادب کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مختصر تذکرہ ہے ان کے بیان کے بعد اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر اور ان کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے کہ وہ وعدے کے سچے رسول اور نبی تھے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا وعدہ کے بارے میں سچا ہونے کی صفت شائد اس لیے ذکر کی گئی ہے کہ انہوں نے بارہ تیرا سال کی عمر اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) سے عرض کی تھی کہ والد محترم آپ نے خواب میں مجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھا ہے تو مجھے ذبح کردیجیے آپ مجھے حوصلہ کرنے والا پائیں گے یعنی مجھے اس عہد پر پکا پائیں گے۔ حضرت اسماعیل نے انتہائی چھوٹی عمر میں باپ سے کیے ہوئے وعدے کو کمال درجے میں پورا کیا۔ جس وجہ سے ان کی اس صفت کا بالخصوص ذکر ہوا ہے۔ اس کے بعد برے لوگوں کا انجام اور متقین کے انعام کا بیان ہوا ہے۔ سورة کا اختتام اس بات پر ہوا کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد ٹھہرانا اتنا بڑا جرم ہے کہ قریب ہے آسمان پھٹ جائے، زمین شک ہوجائے، اور پہاڑ گرپڑیں۔ ان لوگوں کی حماقت کی انتہا ہے کہ یہ نہیں سوچتے اللہ کے ہاں اولاد کس طرح ہوسکتی ہے۔ اس کی تو کوئی بیوی نہیں وہ ہر قسم کی حاجت سے مبّرا ہے۔ اولاد کی ضرورت اسے ہوتی ہے جسے اپنا نسب جاری رکھنے کی خواہش یا کسی قسم کی معاونت کی ضرورت ہو۔ اللہ تعالیٰ ہر ضرورت سے بےنیاز ہے کیونکہ زمین و آسمانوں کی ہر چیز اس کی ملکیت اور اس کے تابع فرمان ہے۔
سورة مریم کا محور عقیدہ توحید ہے اور نفی اولاد اور نفی شرک ہے۔ عقیدئہ توحید کا لازمی تقاضا عقیدہ بعث بعد الموت ہے ، لہٰذا مناظر قیامت بھی اس سورة کا بنیادی مضمون ہیں۔ چناچہ دوسری مکی سورتوں کی طرح اس سورة کا اساسی مضمون بھی یہی ہے۔ اس سورة کے مواد میں زیادہ تر قصص ہیں۔ آغاز قصہ حضرت زکریا سے ہوتا ہے۔ حضرت یحییٰ کا قصہ آتا ہے۔ مریم اور ولادت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حالات ہیں۔ حضرت ابراہیم اور ان کے باپ کی ایک جھلک ہے۔ اس کے بعد تمام نبیوں کی طرف اشارات ہیں۔ حضرت اسحاق و یعقوب ، حضرت موسیٰ و ہارون ، حضرت اسماعیل و ادریس اور حضرت آدم و نوح وغیرہ۔ اس سورة کا دو تہائی حصہ ان قصص پر مشتمل ہے۔ تمام قصص کے لانے سے مقود عقیدئہ توحید ہے۔ عقیدہ بعث بعد الموت کا ثبوت ، رد شرک اور نفی اولاد۔ مزید یہ بتایا گیا ہے کہ ان نبیوں کے متبین کے خدو خال کیا رہے اور گمراہوں کا طرز عمل کیا رہا۔ اس میں منکرین قیامت کے لئے بعض مناظر قیامت دکھائے گئے ہیں اور شرک اور دعوائے انبیت عیسیٰ کی مذمت اور رد بھی اس میں ہے۔ مشرکین اور رسولوں کی تکذیب کرنے والوں پر عذاب الٰہی کے مناظر بھی ہیں۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور یہ سب مناظر اس سورة میں پائے جانیوالے قصص کے رخ کے ساتھ ہم آہنگ بھی ہیں اور سورة کے اصلی اور حقیقی محور اور موضوع کے ساتھ منسلک بھی۔ پھر اس سورة کی ایک خاص فضا ہے جو اس پوری سورة میں قائم رہتی ہے اور اس کے تمام موضوعات میں وہ فضا پائی جاتی ہے۔ اس سورة کا انداز کلام گہرے تاثرات اور گہرے شعور پر مشتمل ہے۔ نفس انسانی کے تاثرات ، اس کے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات کا گہرا شعور ! کائنات کا شعور ! ہاں اس کائنات کو ہم جمادات کا حصہ شمار کرتے ہیں جو احساس سے محروم ہے لیکن یہ سورة بناتی ہے کہ حقیقت کبریٰ کا شعور و احساس اس جامد کائنات کو بھی ہے۔ یہ کائنات بھی اس شعور میں شریک ہے۔ یہ سورة بتاتی ہے کہ عقائد شرکیہ کے اظہار پر اس کائنات کو بھی غصہ آتا ہے اور خوف بھی آتا ہے اور اس غصے اور خوف کے مارے قریب ہے کہ یہ پہاڑ پھٹ جائیں اور ریزہ ریزہ ہوجائیں ۔ کیوں ؟ ان دعوا للرحمن ولدا (١٩) وما ینبغی للرحمٰن ان یتخذ ولداً (٢٩) (٩١ : ١٩-٢٩) ” اس بات پر کہ لوگوں نے رحمٰن کے لئے اولاد ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور اللہ کے لئے سزا وار نہیں کہ اس کی اولاد ہو۔ “ انسانی نفس کے تاثرات تو اس سورة کے آغاز ہی سے شروع ہوتے ہیں اور اس کے اختتام تک جاری رہتے ہیں۔ اس سورة کے اہم قصص میں بھی یہ نفسیاتی تاثرات قائم ہیں۔ خصوصاً قصص کے پریشان کن مواقع میں۔ مثلاً قصہ مریم کے مختلف مراحل میں۔ اس سورة کی غالب فضا رحمت ، رضا مندی اور اللہ کے ساتھ اتصال کی فضا ہے۔ اس کا آغاز حضرت زکریا اور اللہ تعالیٰ کی مناجات سے ہوتا ہے۔ ذکر رحمت ربک عبدہ زکریا (٩١ : ٢) ” ذکر ہے اس رحمت کا جو تیرے رب نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی۔ “ یہ اس وقت کی بات ہے جب اپنے رب کے بہت ہی قریب تھے اور ان کے درمیان مناجات ہو رہی تھی۔ اذ نادی ربہ ندآء خفیاً (٩١ : ٣) ” جبکہ اس نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا۔ “ اس سے ورہ میں لفظ رحمت کا بار بار تکرار ہوتا ہے اور رحمت خداوندی کی فضا بھی اس پوری سورة پر چھائی ہوئی ہے۔ اس سورة میں اللہ کے لئے رحمٰن کا لفظ بھی بکثرت استعمال ہوا ہے۔ اس سورة میں اس نعمت کا بھی ذکر ہے جسے اہل ایمان باہم دگر محبت کی شکل میں پاتے ہیں۔ ان الذین امنوا و عملوا الصلحت سیجعل لھم الرحمٰن وداً (٩١ : ٦٩) ” یقینا جو لوگ ایمان لائے ہیں اور نیک عمل کر رہے ہیں ، عنقریب رحمٰن ان کے دلوں میں محبت پیدا کر دے گا۔ “ اللہ تعالیٰ حضرت یحییٰ پر اپنی رحمت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان کو حنان (محبت کرنے والا) بنایا گیا۔ وحنانا من لدنا و زکوۃ وکان تقباً (٩١ : ٣١) ” اور اپنی طرف سے اس کو نرم دلی اور پاکیزگی عطا کی اور وہ بڑا پرہیز گار تھا۔ “ اور حضرت عیسیٰ پر اللہ کی رحمت کا ایک رنگ یہ تھا کہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ بہت ہی نرمی کرنے والے تھے اور والدہ کے حق شناس بنائے گئے تھے۔ وبرا بوالدیہ ولم یکن جباراً عصباً (٩١ : ٣١) ” اور اللہ نے مجھے اپنی والدہ کا حق ادا کرنے والا بنایا اور مجھ کو جبار اور شقی نہیں بنایا۔ “ آپ جب اس سورة کو غور سے پڑھیں تو آپ اس میں نہایت ہی مہربانی ، محبت اور رحمت و شقت کے لطیف کلمات و عبادات اور نہایت ہی گہری چھائوں محسوس کریں گے۔ جس طرح آپ محسوس کریں گے کہ شرک اور اغبیت کے عقیدے کو سن کر یہ کائنات بھی مارے خوف کے کانپ اٹھتی ہے اور فطرت کائنات کیلئے بھی یہ قول ناقابل برداشت ہے۔ پھر اس سورة میں ایک خاص موسیقی اور ترنم ہے۔ اس کے الفاظ میں بھی اور اس کے فواصل میں بھی نہایت ہی گہرا ترنم ہے۔ مثلاً دیکھیے رضیا ، خفیا سریا ، نجیا ……لیکن جہاں مقام شدت اور سختی کا ہے تو اس میں لفظ بھی سخت ہیں مثلاً مشدد دال ہے۔ مثلاً مدا ، ضدا ، ھدایا مشدد ، زاء ہے عزا ، ازا وغیرہ۔ اس سورة میں فواصل اور قافیہ کا تنوع بھی واضح طور پر پایا جاتا ہے اور ان کے تنوع کے ساتھ ترنم اور موسیقی میں بھی تنوع اور زیرو بم پایا جاتا ہے۔ حصہ اول کا آغاز حضرت زکریا اور یحییٰ کے ذکر سے ہوتا ہے تو فواصل اور قافیے یوں ہیں۔ ذکر رحمت ربک عبدہ زکریا (٢) اذنادی ربہ ندآء خفیاً (٣) (٩١ : ٢-٣) اور اس کے بعد جب حضرت مریم و عیسیٰ کا قصہ شروع ہوتا ہے تو فواصل و قوافی یوں بدل جاتے ہیں۔ واذکر فی الکتب مریم اذ انتبذت من اھلھا مکاناً شرقیاً (٦١) فاتخذت من دونھم حجاباً فارسلنا الیھا روحنا فتمثل لھا بشراً سویاً (٨١) (٩١ : ٦١-٨١) یوں یہ قوافی چلتے ہیں۔ اس طرح قص ختم ہوتے ہیں اور پھر ان پر تبصرہ آتا ہے۔ اس میں حضرت عیسیٰ کی حقیقت کا تعین کیا جاتا ہے ، ان کی نبوت کے بارے میں قول فیصل آتا ہے اور قوافی و فواصل کا نظام بدل جاتا ہے۔ آیات کا فاصلہ طویل ہوجاتا ہے اور میم اور نون کا قافیہ ختم ہوتا ہے جو وقت پر برقرار رہتا ہے اور ساکن ہوتا ہے اور یائے ممدودہ کے فواصل بھی ختم ہوجاتے ہیں۔ ذلک عیسیٰ …کن فیکون (٥٣) (٩١ : ٣٣-٥٣) پھر جب بات کی سختی ختم ہوتی ہے اور بات فیصلہ کن انداز کی ہوجاتی ہے تو پھر وہی مدوالا قافیہ آجاتا ہے اور بات میں وہی نرمی آجاتی ہے جو اس سورة کا خاص رنگ ہے۔ واذکر فی الکتب ابرھیم انہ کان صدیقاً نبیاً (١٣) اذ قال لابیہ یابت لم تعبد مالا یسمع ولا یبصر ولایغنی عنک شیئاً (٢٣) (٩١ : ١٣-٢٣) لیکن جب اس قصے میں جھٹلانے والوں کا ذکر آتا ہے ، جس میں جھٹلانے والوں کے لئے عذاب اور ان سے خدائی انتقام کا ذکر ہے تو آیات کا ترنم اور قافیہ کی صوتی صورت حالات بدل بھی جاتی ہے۔ قل من کان فی الضللۃ فلیمددلہ الرحمٰن مداً حتی اذا راوا مایوعدون اما العذاب واما الساعۃ فسیعلموکن من ھو شرمکاناً واضعف جنداً (٩١ : ٥٨) پھر سر زنش اور جھڑکی کے موقع پر یہ صنوی ترنم اور موسیقی مشدد رول کی شکل میں آتی ہے۔ قالوا اتخذ الرحمٰن ولداً (٨٨) لقد جئتم شیئاً ادا (٩٨) تکاد السموت یتفطرن منہ وتنشق الارض و تخرالجبال ھداً (٠٩) (٩١ : ٨٨ تا ٠٩) یوں اس صورت میں مسویقی اور الفاظ کی سختی اور نرمی مفہوم ، فضا اور موقعہ کے اعتبار سے نرم اور سخت ہوجاتی ہے۔ یوں پوری سورة کے درمیان صوتی اثرات اور لہجہ موقعہ و محل کے مطابق نرم و سخت ہوتا رہتا ہے۔ جوں ہی سیاق کلام اور مفہوم ایک فضا سے دوسری فضا میں داخل ہوتا ہے الفاظ اور صوتی انداز بھی بدل جاتا ہے۔ یہ سورة اپنے موضوع کے اعتبار سے تین حصوں میں تفسیم کردی جاتی ہے۔ (١) پہلے حصے میں حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ کا قصہ ہے۔ پھر حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم کا قصہ ہے۔ اس پر پھر تفصیلی تبصرہ کر کے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے مسئلے کو نہایت ہی حقیقت پسندانہ انداز میں حل کردیا گیا ہے۔ کیونکہ ان کے بارے میں یہود نصاریٰ کے درمیان نہایت بنیادی اختلاف تھا اور دونوں گروہ دو انتہائوں پر تھے۔ (٢) حصہ دوئم میں حضرت ابراہیم کے قصے کا ایک حصہ ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے باپ اور ان کی قوم کے درمیان کشمکش کی کہانی۔ ان کا ان لوگوں سے الگہ ونا اور پھر ان کو بہترین اولاد دینا اور پھر ان کو امت قرار دینا۔ پھر دوسرے نبیوں کے قصص اور ان لوگوں کا ذکر جنہوں نے ہدایت حاصل کی اور ان لوگوں کا ذکر جو گمراہ ہوئے اور دونوں کا انجام اس حصے کا اختتام بھی عقیدئہ توحید کے بیان پر ہوتا ہے۔ اللہ کی بندگی بلاشائبہ شرک۔ رب السموت ولارض وما بینھما فاعبدہ و اصطبر لعبادتہ ھل تعلم لہ سمیاً (٩١ : ٥٦) ” وہ رب ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور ان ساری چیزوں کا جو زمین کے درمیان ہیں۔ بس تم اس کی بندگی پر ثابت قدم رہو۔ کیا ہے کوئی ہستی تمہارے علم میں اس کے ہم پایہ ؟ “ (٣) تیسرا حصہ بعث بعد الموت پر کلام سے شروع ہوتا ہے۔ قیامت کے کچھ مناظر اس میں بیان ہتوے ہیں۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ پوری کائنات عقیدہ شرکیہ کا انکار کرتی ہے اور پھر قرون اولیٰ کی بیشمار منکر حق اقوام کی ہلاکت کا ایک موثر منظر بھی دکھایا گیا ہے۔ وکم اھلکنا قبلھم من قرن ھل تحس منھم من احد او تسمع لھم رکزا (٩١ : ٨٩) ” ان سے پہلے ہم کتنی ہی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں ، پھر آج کہیں تم ان کا نشان پاتے ہو یا ان کی بھٹک بھی کہیں سنانئی دیتی ہے ؟ “ اب درس اول کی طرف آتے ہیں۔