Surat Marium

Surah: 19

Verse: 1

سورة مريم

کٓہٰیٰعٓصٓ ۟﴿ۚ۱﴾

Kaf, Ha, Ya, 'Ayn, Sad.

کہیعص

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Story of Zakariyya and His Supplication for a Son Allah says: كهيعص Kaf Ha Ya `Ain Sad. The discussion about the separate letters has already preceded at the beginning of Surah Al-Baqarah. Concerning Allah's statement, ذِكْرُ رَحْمَةِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا

دعا اور قبولیت ۔ اس سورت کے شروع میں جو پانچ حروف ہیں انہیں حروف مقطعہ کہا جاتا ہے ان کا تفصیلی بیان ہم سورہ بقرہ کی تفسیر کے شروع میں کر چکے ہیں ۔ اللہ کے بندے حضرت زکریا نبی علیہ السلام پر جو لطف الہٰی نازل ہوا اس کا واقعہ بیان ہو رہا ہے ۔ ایک قرأت ہے ۔ یہ لفظ مد سے بھی ہے اور قصر سے بھی ۔ دونوں قرأتیں مشہور ہیں ۔ آپ بنو اسرائیل کے زبر دست رسول تھے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے آپ بڑھئی کا پیشہ کر کے اپنا پیٹ پالتے تھے ۔ رب سے دعا کرتے ہیں لیکن اس وجہ سے کہ لوگوں کے نزدیک یہ انوکھی دعا تھی کوئی سنتا تو خیال کرتا کہ لو بڑھاپے میں اولاد کی چاہت ہوئی ہے ۔ اور یہ وجہ بھی تھی کہ پوشیدہ دعا اللہ کو زیادہ پیاری ہوتی ہے اور قبولیت سے زیادہ قریب ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ متقی دل کو بخوبی جانتا ہے اور آہستگی کی آواز کو پوری طرح سنتا ہے ۔ بعض سلف کا قول ہے کہ جو شخص اپنے والوں کی پوری نیند کے وقت اٹھے اور پوشیدگی سے اللہ کو پکارے کہ اے میرے پروردگار اے میرے پالنہار اے میرے رب اللہ تعالیٰ اسی وقت جواب دیتا ہے کہ لبیک میں موجود ہوں میں تیرے پاس ہوں ۔ دعا میں کہتے ہیں کہ اے اللہ تعالیٰ اسی وقت جواب دیتا ہے کہ لبیک میں موجود ہوں میں تیرے پاس ہوں ۔ دعا میں کہتے ہیں کہ اے اللہ میرے قوی کمزور ہوگئے ہیں میری ہڈیاں کھوکھلی ہوچکی ہیں میرے سر کے بالوں کی سیاہی اب تو سفیدی سے بدل گئی ہے یعنی ظاہری اور پوشیدگی کی تمام طاقتیں زائل ہوگئی ہیں اندرونی اور بیرونی ضعف نے گھیر لیا ہے ۔ میں تیرے دروازے سے کبھی خالی ہاتھ نہیں گیا تجھ کریم سے جو مانگا تو نے عطا فرمایا ۔ موالی کو کسائی نے موالی پڑھا ہے ۔ مراد اس سے عصبہ ہیں ۔ امیرا لمومنین حضرت عثمان بن عفان سے خفت کو خفت پڑھنا مروی ہے یعنی میرے بعد میرے والے بہت کم ہیں ۔ پہلی قرأت پر مطلب یہ ہے کہ چونکہ میری اولاد نہیں اور جو میرے رشتے دار ہیں ان سے خوف ہے کہ مبادہ یہ کہیں میرے بعد کوئی برا تصرف نہ کردیں تو تو مجھے اولاد عنایت فرماجو میرے بعد میری نبوت سنبھالے ۔ یہ ہرگز نہ سمجھا جائے کہ آپ کو اپنے مال املاک کے ادھر ادھر ہو جانے کا خوف تھا ۔ انبیاء علیہم السلام اس سے بہت پاک ہیں ۔ ان کا مرتبہ اس سے بہت سوا ہے کہ وہ اس لئے اولاد مانگیں کہ اگر اولاد نہ ہوئی تو میرا ورثہ دور کے رشتے داروں میں چلا جائے گا ۔ دوسرے بہ ظاہر یہ بھی ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام جو عمر بھر اپنی ہڈیاں پیل کر بڑھئی کا کام کر کے اپنا پیٹ اپنے ہاتھ کے کام سے پالتے رہے ان کے پاس ایسی کون سی بڑی رقم تھی کہ جس کے ورثے کے لئے اس قدر پس وپیش ہوتا کہ کہیں یہ دولت ہاتھ سے نکل نہ جائے ۔ انبیاء علہم السلام تو یوں بھی ساری دنیا سے زیادہ مال سے بےرغبت اور دنیا کے زاہد ہوتے ہیں ۔ تیسری وجہ یہ بھی ہے کہ بخاری ومسلم میں کئی سندوں سے حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہمارا ورثہ تقسیم نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑیں سب صدقہ ہے ۔ ترمذی میں صحیح سند سے مروی ہے کہ ہم اس سے مطلب ورثہ نبوت ہے نہ کہ مالی ورثہ ۔ اسی لئے آپ نے یہ بھی فرمایا کہ وہ میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو ۔ جیسے فرمان ہے کہ ( وورث سلیمان داود ) سلیمان داؤد علیہ السلام کے وارث ہوئے ۔ یعنی نبوت کے وراث ہوئے ۔ نہ کہ مال کے ورنہ مال میں اور اولاد بھی شریک ہوتی ہے ۔ تخصیص نہیں ہوتی ۔ چوتھی وجہ یہ بھی ہے اور یہ بھی معقول وجہ ہے کہ اولاد کا وارث ہونا تو عام ہے ، سب میں ہے تمام مذہبوں میں ہے پھر کوئی ضرورت نہ تھی کہ حضرت زکریا اپنی دعا میں یہ وجہ بیان فرماتے اس سے صاف ثابت ہے کہ وہ ورثہ کوئی خالص ورثہ تھا اور وہ نبوت کا وارث بننا تھا ۔ پس ان تمام وجوہ سے ثابت ہے کہ اس سے مراد ورثہ نبوت ہے ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے ہم جماعت انبیاء کا ورثہ نہیں بٹتا ہم جو چھوڑ جائیں صدقہ ہے ۔ مجاہد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں مراد ورثہ علم ہے ۔ حضرت زکریا علیہ السلام اولاد یعقوب علیہ السلام میں تھے ۔ ابو صالح رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ وہ بھی اپنے بڑوں کی طرح نبی ہے ۔ حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں نبوت اور علم کا وارث بنے ۔ سدی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے میری اور آل یعقوب علیہ السلام کی نبوت کا وہ وراث ہو ۔ زید بن اسلم بھی یہی فرماتے ہیں ابو صالح کا قول یہ بھی ہے کہ میرے مال کا اور خاندان حضرت یعقوب علیہ السلام کی نبوت کا وہ وارث ہو ۔ عبد الرزاق میں حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ زکریا علیہ السلام پر رحم کرے بھلا انہیں وراثت مال سے کیا غرض تھی ؟ اللہ تعالیٰ لوط علیہ السلام پر رحم کرے وہ کسی مضبوط قلعے کی تمنا کرنے لگے ۔ ابن جریر میں ہے کہ آپ نے فرمایا میرے بھائی زکریا پر اللہ کا رحم ہو کہنے لگے اے اللہ مجھے اپنے پاس سے والی عطا فرما جو میرا اور آل یقوب کا وارث بنے لیکن یہ سب حدیثیں مرسل ہیں جو صحیح احادیث کامعارضہ نہیں کر سکتیں واللہ اعلم ۔ اور اے اللہ اسے اپنا پسندیدہ غلام بنالے اور ایسا دین دار دیانتدار بنا کہ تیری محبت کے علاوہ تمام مخلوق بھی اس سے محبت کرے اس کا دین اور اخلاق ہر ایک پسندیدگی اور پیار کی نظر سے دیکھے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] اس سورة کا نام مریم اس لئے ہے کہ اس میں سیدہ مریم کے حالات کا تفصیلی ذکر آیا ہے اور یہی ایک خاتون ہیں جن کا قرآن میں نام مذکور ہے اور کم از کم تیس مقامات پر ان کا نام آیا ہے۔ [٢] ہجرت حبشہ :۔ یہ سورت مکہ میں ہجرت حبشہ یعنی ٥ نبوی سے پیشتر نازل ہوئی تھی۔ قریش کے ناروا مظالم اور سختیوں میں مسلمان پس رہے تھے اور کوئی غلام تھا یا آزاد، کمزور تھا یا قوی سب مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا۔ بالآخر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ وہاں کا عیسائی بادشاہ جسے مسلمان نجاشی کہتے تھے۔ اپنے عدل کی وجہ سے مشہور تھا اور حبشہ کی طرف ہجرت کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ وہاں تبلیغ کے لئے میدان کھلا تھا۔ چناچہ پہلی دفعہ سیدنا عثمان (رض) کی سر کردگی میں جو وفد حبشہ کو روانہ ہوا اس میں گیارہ مرد اور چار عورتیں شامل تھیں۔ ان عورتوں میں سیدنا عثمان (رض) کی بیوی یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی رقیہ بھی شامل تھیں۔ اسی موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : && سیدنا ابراہیم کے بعد یہ پہلا جوڑا ہے جو اللہ کی راہ میں ہجرت کے لئے نکلا && رفتہ رفتہ ان مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ چند ہی ماہ میں ٨٣ مرد اور ١١ عورتیں حبشہ کو منتقل ہوگئے جن میں سات غیر قریشی مسلمان بھی تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مکہ میں صرف ٤٠ آدمی رہ گئے۔ اس صورت حال نے کفار مکہ کو سخت بےچین کردیا۔ کیونکہ ہجرت کرنے والے تقریبا ً سب ہی کسی نہ کسی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ کسی کا بیٹا، کسی کا داماد، کسی کی بیٹی، کسی کی بہن وغیرہ تھے۔ اس صدمہ سے متاثر ہو کر کچھ لوگ تو مسلمان ہوئے اور زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جنہوں نے مسلمانوں پر سختیوں میں مزید اضافہ کردیا۔ ایک تجویز طے ہوئی کہ جیسے بھی بن پڑے مہاجرین حبشہ کو یہاں واپس مکہ لایا جائے۔ ہجرت حبشہ اور قریشی وفد کی ناکامی :۔ اس غرض کے لئے دو ماہرین سفارت عبداللہ بن ابی ربیعہ (ابوجہل کا ماں جایا بھائی) اور عمرو بن عاص (فاتح مصر، جو ابھی تک اسلام نہ لائے تھے) کا انتخاب کیا گیا۔ یہ دونوں بادشاہ اور پادریوں کے لئے تحفے تحائف لے کر حبشہ پہنچے۔ پہلے پادریوں سے ملے اور انھیں تحفے تحائف دے کر اس بات پر آمادہ کرلیا کہ جب ہم بادشاہ کے سامنے اپنی عرضداشت پیش کریں تو وہ ان کی ہاں میں ہاں ملا دیں۔ چناچہ دوسرے دن اس وفد نے بادشاہ کے سامنے حاضر ہو کر نذرانے پیش کرنے کے بعد عرض کی کہ ہمارے چند مجرموں نے مکہ سے بھاگ کر آپ کے ہاں پناہ لی ہے۔ وہ ہمیں واپس کردیئے جائیں۔ ساتھ ہی رشوت خور درباریوں اور پادریوں نے ہاں میں ہاں ملا دی۔ مگر نجاشی انصاف پسند انسان تھا۔ ان کی باتوں میں نہ آیا اور کہہ دیا کہ جب تک میں ان لوگوں کی بات نہ سن لوں ان کی واپسی کا کیسے حکم دے سکتا ہوں۔ چناچہ مسلمانوں کو بلایا گیا اور ان سے صورت حال دریافت کی گئی۔ مسلمانوں نے سیدنا جعفر طیار کو اپنا نمائندہ یا ترجمان مقرر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہم فلاں فلاں قسم کی گمراہیوں میں مبتلا تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے درمیان نبی مبعوث کیا جس پر ہم ایمان لے آئے تو یہ لوگ ہاتھ دھو کر ہمارے پیچھے پڑگئے۔ انہی لوگوں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر ہم نے آپ کے ملک میں پناہ لی ہے۔ نجاشی کہنے لگا : تمہارے نبی پر جو کلام نازل ہوا ہے۔ اس کا کچھ حصہ تو سناؤ چناچہ سیدنا جعفر طیار نے اسی سورة مریم کی ابتدائی آیات تلاوت فرمائیں جن میں سیدنا زکریا اور سیدہ مریم کا ذکر ہے۔ یہ کلام سن کر نجاشی پر رقت طاری ہوگئی۔ سنتا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا حتیٰ کہ اس کی داڑھی تر ہوگئی اور جب سیدنا جعفر طیار نے تلاوت ختم کی تو کہنے لگا : یہ کلام اور وہ کلام جو سیدنا عیسیٰ ( علیہ السلام) پر نازل ہوا دونوں ایک ہی منبع سے پھوٹے ہیں۔ واللہ ! میں ان لوگوں کو تمہارے حوالہ نہ کروں گا && نجاشی کے انکار پر قریشی وفد سخت مایوس ہوگیا اور موجودہ صورتحال پر غور کرنے کے لئے سر جوڑ بیٹھے۔ عمرو بن عاص یکدم پکار اٹھا کہ بادشاہ سے دوبارہ ملاقات کی جائے میں کل ایسی بات پیش کروں گا جس سے یقینا ً ہم کامیاب ہوں گے۔ چناچہ دوسرے دن عمرو بن عاص نے رسائی حاصل کرکے بادشاہ سے کہا : حضور آپ کو یہ بھی علم ہے کہ یہ لوگ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق کیا اعتقاد رکھتے ہیں ؟ بادشاہ نے اس سوال کے جواب کے لئے دوبارہ مسلمانوں کو بلا بھیجا۔ انھیں بھی اس بات کی خبر ہوگئی تھی۔ بہرحال انہوں نے یہ طے کرلیا کہ حالات جیسے بھی پیش آئیں ہمیں سچی بات ہی کہنا چاہئے اور جب نجاشی نے یہ سوال کیا تو سیدنا جعفر طیار کہنے لگے کہ && عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے، اس کے رسول، روح اللہ اور کلمۃ اللہ تھے && یہ جواب سن کر نجاشی نے ایک تنکا اٹھایا اور کہا : && واللہ ! جو کچھ تم نے کہا : عیسیٰ ( علیہ السلام) اس تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ نہیں ہیں && نجاشی کے اس تبصرہ پر درباری لوگ برہم ہوئے مگر نجاشی نے اس کی کچھ پروا نہ کی۔ قریشی سفارت مکمل طور پر ناکام ہوگئی۔ نجاشی نے ان کے تحائف انھیں واپس کردیئے اور مسلمانوں کو امن و اطمینان سے اس ملک میں رہنے کی اجازت دے دی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

كۗهٰيٰعۗصۗاس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة بقرہ کی پہلی آیت کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In the Holy Qur&an Surah Maryam has been placed immediately after Surah Al-Kahf, presumably because there appears some kind of similarity between the two Surahs. While the former deals with some unusual anecdotes, the latter also covers a number of extraordinary events. كهيعص are letters known in Arabic as; حُرُوفِ مُقَطَّعَۃ whose meanings, like are known only to Allah Ta` ala and people should not even attempt to probe their meanings.

خلاصہ تفسیر کھیعص (اس کے معنی تو اللہ ہی کو معلوم ہیں) یہ (جو آئندہ قصہ آتا ہے) تذکرہ ہے آپ کے پروردگار کے مہربانی فرمانے کا اپنے (مقبول) بندہ (حضرت) زکریا (علیہ السلام کے حال) پر جبکہ انہوں نے اپنے پروردگار کو پوشیدہ طور پر پکارا (جس میں یہ) عرض کیا کہ اے میرے پروردگار میری ہڈیاں (بوجہ پیری کے) کمزور ہوگئیں اور (میرے) سر میں بالوں کی سفیدی پھیل پڑی (یعنی تمام بال سفید ہوگئے اور اس حالت کا مقتضاء یہ ہے کہ میں اس حالت میں اولاد کی درخواست نہ کروں مگر چونکہ آپ کی قدرت و رحمت بڑی کامل ہے) اور (میں اس قدرت و رحمت کے ظہور کا خوگر ہمیشہ رہا ہوں چناچہ اس کے قبل کبھی) آپ سے (کوئی چیز) مانگنے میں اے میرے رب ناکام نہیں رہا ہوں (اس بنا پر بعید سے بعید مقصود بھی طلب کرنا مضائقہ نہیں) اور (اس طلب کا مرجح یہ امر خاص ہوگیا ہے کہ) میں اپنے (مرنے کے) بعد (اپنے) رشتہ داروں (کی طرف) سے (یہ) اندیشہ رکھتا ہوں (کہ میری مرضی کے موافق شریعت اور دین کی خدمت نہ بجالاویں گے۔ یہ امر مرجح ہے طلب اولاد کے لئے جس میں خاص خاص اوصاف پائے جاویں جن کو توقع خدمت دین میں داخل ہو) اور (چونکہ میری پیرانہ سالی کے ساتھ) میری بیوی (بھی) بانجھ ہے (جس کے کبھی باوجود صحت مزاج کے اولاد ہی نہیں ہوئی اس لئے اسباب عادیہ اولاد ہونے کے بھی مفقود ہیں سو (اس صورت میں) آپ مجھ کو خاص اپنے پاس سے (یعنی بلا توسط اسباب عادیہ کے) ایک ایسا وارث (یعنی بیٹا) دے دیجئے کہ وہ (میرے علوم خاصہ میں) میرا وارث بنے اور (میرے جد) یعقوب (علیہ السلام) کے خاندان (کے علوم متوارثہ میں ان) کا وارث بنے (یعنی علوم سابقہ و لاحقہ اس کو حاصل ہوں) اور (بوجہ باعمل ہونے کے) اس کو اے میرے رب (اپنا) پسندیدہ (ومقبول) بنائیے (یعنی عالم بھی ہو اور عامل بھی ہو۔ حق تعالیٰ کا بواسطہ ملائکہ کے ارشاد ہوا کہ) اے زکریا ہم تم کو ایک فرزند کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہوگا کہ اس کے قبل (خاص اوصاف میں) ہم نے کسی کو اس کا ہم صفت نہ بنایا ہوگا (یعنی جس علم و عمل کی تم دعا کرتے ہو وہ تو اس فرزند کو ضرور ہی عطا کریں گے اور مزید برآں کچھ اوصاف خاصہ بھی عنایت کئے جاویں گے مثلاً خشیت الٰہی سے خاص درجہ کی رقت قلب وغیرہ۔ چونکہ اس اجابت دعا میں کوئی خاص کیفیت حصول ولد کی بتلائی نہ گئی تھی اس لئے اس کے استفار کیلئے) زکریا (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے میرے رب میرے اولاد کس طرح پر ہوگی حالانکہ میری بی بی بانجھ ہے اور (ادھر) میں پڑھاپے کے انتہائی درجہ کو پہنچ چکا ہوں (پس معلوم نہیں کہ ہم جوان ہوں گے یا مجھ کو دوسرا نکاح کرنا ہوگا یا بحالت موجودہ اولاد ہوگی) ارشاد ہوا کہ حالت (موجودہ) یوں ہی رہے گی (اور پھر اولاد ہوگی اے زکریا) تمہارے رب کا قول ہے کہ یہ (امر) مجھ کو آسان ہے اور (یہ کیا اس سے بڑا کام کرچکا ہوں مثلاً ) میں نے تم کو (ہی) پیدا کیا ہے حالانکہ (پیدائش کے قبل) تم کچھ بھی نہ تھے (اسی طرح خود اسباب عادیہ بھی کوئی چیز نہ تھے جب معدوم کو موجود کرنا آسان ہے تو ایک موجود سے دوسرا موجود کردینا کیا مشکل ہے یہ سب ارشاد تقویت رجا کے لئے تھا نہ کہ دفع شبہ کے لئے، کیونکہ زکریا (علیہ السلام) کو کوئی شبہ نہ تھا جب) زکریا (علیہ السلام کو قوی امید ہوگئی تو انہوں) نے عرض کیا کہ اے میرے رب (وعدہ پر تو اطمینان ہوگیا اب اس وعدہ کے قریب وقوع یعنی حمل کی بھی) کوئی علامت میرے لئے مقرر فرمادیجئے (تاکہ زیادہ شکر کروں اور خود وقوع تو محسوسات ظاہرہ ہی میں سے ہے) ارشاد ہوا کہ تمہاری (وہ) علامت یہ ہے کہ تم تین رات (اور تین دن تک) آدمیوں سے بات (چیت) نہ کرسکو گے حالانکہ تندرست ہوگے (کوئی بیماری وغیرہ نہ ہوگی اور اسی وجہ سے ذکر اللہ کے ساتھ تکلم پر قدرت رہے گی چناچہ باذن اللہ تعالیٰ زکریا (علیہ السلام) کی بیوی حاملہ ہوئیں اور حسب انبار الٰہی زکریا (علیہ السلام) کی زبان پستہ ہوگئی) پس حجرے میں سے اپنی قوم کے پاس برآمد ہوئے اور ان کو ارشارہ سے فرمایا (کیونکہ زبان سے تو بول نہ سکتے تھے) کہ تم لوگ صبح اور شام خدا کی پاکی بیان کیا کرو۔ (یہ تسبیح اور امر بالتسبیح یا تو حسب معمول تھا ہمیشہ تذکیرا زبان سے کہتے تھے آج اشارہ سے کہا یا اس نعمت جدیدہ کے شکر میں خود بھی تسبیح کی کثرت فرمائی اور اوروں کو بھی اسی طور پر امر فرمایا غرض پھر یحییٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور سن شعور کو پہنچے تو ان کو حکم ہوا کہ) اے یحییٰ کتاب کو (یعنی توریت کو کہ اس وقت وہی کتاب شریعت تھی اور انجیل کا نزول بعد میں ہوا) مضبوط ہو کرلو (یعنی خاص کوشش کی ساتھ عمل کرو) اور ہم نے ان کو (انکے) لڑکپن ہی میں (دین کی) سمجھ اور خاص اپنے پاس سے رقت قلب (کی صفت) اور پاکیزگی (اخلاق کی) عطا فرمائی تھی (حکم میں علم کی طرف اور حنان اور زکوٰة میں اخلاق کی طرف اشارہ ہوگیا) اور (آگے اعمال ظاہرہ کیطرف اشارہ فرمایا کہ) وہ بڑے پرہیزگار اور اپنے والدین کے خدمت گزار تھے (اس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی طرف اشارہ ہوگیا) اور وہ (خلق کے ساتھ) سرکشی کرنے والے (یا حق تعالیٰ کی) نافرمانی کرنے والے نہ تھے اور (عنداللہ ایسے وجیہ اور مکرم تھے کہ انکے حق میں منجانب اللہ یہ ارشاد ہوتا ہے کہ) ان کو (اللہ تعالیٰ کا) سلام پہنچے جس دن کہ وہ پیدا ہوئے اور جس دن کہ وہ انتقال کریں گے اور جس دن (قیامت میں) زندہ ہو کر اٹھائے جاویں گے۔ معارف ومسائل سورة کہف کے بعد سورة مریم شاید اس مناسبت سے رکھی گئی جیسے سورة کہف بہت سے واقعات عجیبہ پر مشتمل تھی اسی طرح سورة مریم بھی ایسے واقعات غریبہ پر مشتمل ہے (روح المعانی) کھیعص حروف مقطعہ اور متشابہات میں سے ہے جسکا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے بندوں کے لئے اس کی تفتیش بھی اچھی نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كۗہٰيٰعۗصۗ۝ ١ۣۚ ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَہٗ زَكَرِيَّا ۝ ٢ۖ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١) کھیعص۔ یہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حمد وثنا فرمائی ہے یعنی وہ کافی ہے ہدایت عطا فرمانے والا ہے اور عالم ہے، صادق ہے یا یہ ہے کاف کا مطلب وہ اپنی مخلوق کو کافی ہے اور ھاء سے مراد ہدایت فرمانے والا ہے اور یا سے مراد ہے کہ اس کا تسلط اور غلبہ تمام مخلوق پر ہے اور عین سے مراد کہ وہ تمام مخلوق کے احوال جاننے والا ہے اور صاد یعنی کہ اپنے وعدے میں سچا ہے یا یہ کہ کاف سے کریم اور لفظ ھا سے ھاد یا حلیم اور عین سے علیم اور صاد سے صادق کنایہ ہے یا یہ کہ صدوق سے کنایہ ہے یعنی کہ بہت ہی زیادہ سچا اور یا یہ کہ ایک قسم ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے کھائی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١ (كۗهٰيٰعۗصۗ) قرآن مجید کی یہ واحد سورت ہے جس کے آغاز میں اکٹھے پانچ حروف مقطعات ہیں۔ اگرچہ سورة الشوریٰ کے شروع میں بھی پانچ حروف مقطعات ہیں لیکن وہاں یہ دو آیات میں ہیں۔ دو حروف (حٰمٓ ) پہلی آیت میں جبکہ تین حروف (عٓسٓقٓ) دوسری آیت میں ہیں۔ بہر حال سورة مریم کو اس لحاظ سے انفرادیت حاصل ہے کہ اس کے آغاز میں اکٹھے پانچ حروف مقطعات آئے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: جیسا کہ سورۂ بقرہ کے شروع میں عرض کیا گیا، مختلف سورتوں کے شروع میں جو حروفِ مقطعات آئے ہیں، اُن کاٹھیک ٹھیک مطلب اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ٤۔ اس سورت میں مریم (علیہا السلام) کا قصہ ہے اس واسطے اس سورة کا نام مریم ہے حروف مقطعات کی تفسیر کا ذکر سورة بقرہ میں گزر چکا ہے سورة آل عمران کی آیتوں کے مضمون کے موافق حضرت مریم کی ماں نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر ان کے ہاں کوئی لڑکا پیدا ہوگا تو اس کو دنیا کے کاموں سے باز رکھ کر بیت المقدس کا خادم بنا دیا جائے گا۔ اتفاق سے لڑکی پیدا ہوئی تو لڑکی کو بیت المقدس کی خادمہ بنانے کا دستور نہ تھا اس واسطے حضرت مریم کی ان کو نذر کے پورا نہ ہونے کا بڑا رنج ہوا اللہ تعالیٰ نے ان کا رنج رفع کرنے کے لیے اپنی رحمت سے حضرت مریم کی خادمی جائز فرمائی اور حضرت مریم کی پرورش ان کے خالو زکریا (علیہ السلام) کے ذمہ ٹھہری جب حضرت مریم سیانی ہوگئیں تو زکریا (علیہ السلام) نے حضرت مریم کے لیے ایک عبادت خانہ بنوا دیا اس عبادت خانہ میں زکریا (علیہ السلام) جب حضرت مریم سے ملنے آتے تو حضرت مریم کے پاس ان کو بےفصل کا میوہ رکھا ہوا نظر آیا کرتا تھا جب حضرت زکریا نے ایک دن پوچھا مریم یہ میوہ کہاں سے آیا تو حضرت مریم ( علیہ السلام) نے جواب دیا کہ یہ میوہ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے حاصل کلام یہ کہ جب زکریا (علیہ السلام) نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے بےفصل کا میوہ حضرت مریم کو عنایت کیا تو زکریا علیہ السلا کے دل میں یہ خیال گزرا کہ وہ صاحب قدرت میرے بڑھاپے اور میری بی بی کے بانجھ پنے میں مجھے اولاد عطا فرمادے تو اس کی قدرت سے کچھ بعید نہیں ہے اسی خیال سے زکریا (علیہ السلام) نے یہ دعا کی جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ اے رسول اللہ کے اس وقت کی اللہ کی رحمت کا حال سنو جب کہ ذکریا (علیہ السلام) نے اس خیال سے کہ بڑھاپے میں بیٹے کا مانگنا ایک ایسی خلاف عادت بات ہے کہ جس کو سن کر لوگ تعجب کریں گے اس لیے تنہائی میں زکریا (علیہ السلام) نے اپنی دعا کو یوں شروع کیا کہ یا اللہ بڑھاپے کے سبب سے اگرچہ میرے بدن کے سب جوڑ کمزور ہوگئے اور سارا سر سفید ہوگیا لیکن اس سے پہلے میری کوئی دعا رائیگاں نہیں گئی اس لیے تیری رحمت کے بھروسہ پر ایک دعا کر کے اس کی قبولیت کا امیدوار ہوں۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) کی روایت سے حدیث ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہر شخص جیسا گمان رکھتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں بھی اس شخص کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرتا ہوں ١ ؎۔ اس حدیث کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ زکریا (علیہ السلام) نے قبولیت کے گمان سے بڑھاپے میں اولاد کی دعا کی اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے گمان کو پورا کیا اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ زکریا (علیہ السلام) کو جو نیک گمان تھا اس کو انہوں نے اس طرح ظاہر کیا کہ یا اللہ اس دعا سے پہلے میری کوئی دعا رائیگاں نہیں گئی ہے اس لیے میرا حسن ظن یہی ہے کہ میری یہ دعا بھی بلا اثر نہ جائے گی ” وَاشْتَعَلَ “ کے معنے آگ کے شعلہ کے ہیں مطلب ہے کہ جس طرح کہ لکڑیوں میں آگ کا شعلہ پھیل جاتا ہے اسی طرح سارے سر کے بالوں میں سپیدی پھیل گئی۔ ١ ؎ صحیح مسلم ص ٣١٤١ ج ٢ کتاب الذکر والدعا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:1) کھیعص۔ حروف مقطعات ہیں۔ جن کے معنی خدا اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جانتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة مریم : (رکوع نمبر ١) اسرارومعارف سورة مریم بھی مکی سورتوں میں سے ہے اور سورة کہف کی طرح اس میں بھی بہت سے واقعات عجیبہ کا تذکرہ ہے ، پہلی گزرنے والی سورة یعنی سورة کہف کی طرح اس میں بھی بہت سے واقعات کا ذکر تھا جو علمائے یہود نے مشرکین مکہ کو پوچھنے کے لیے کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ان واقعات کو صحیح طور پر صرف اللہ جل جلالہ کا نبی ہی بیان کرسکتا ہے اللہ کریم نے وہ واقعات ارشاد فرما کر اپنے رسول فداہ ابی وامی کو مزید واقعات غریبہ سے مطلع فرمایا جن کے بارے کفار ومشرکین سوال بھی نہ کر پائے تھے کہ وہ اتنا بھی علم نہ رکھتے تھے ۔ (حروف مقطعات) کھیعص : حروف مقطعات کی بات پہلے گزر چکی کہ انہیں پڑھنے کا ثواب بھی قاری پالیتا ہے اور کیفیت بھی ، رہا ان کا مفہوم تو یہ اللہ کریم اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان راز ہے یا اس کے خاص بندوں کو باتباع نبی جتنا اللہ کریم چاہے نصیب ہوتا ہے ۔ (اللہ کریم کے انداز عطا کا تذکرہ) یہاں رب جلیل کی عطائے کریمانہ کا تذکرہ ہے کہ وہ اسباب کا محتاج نہیں جب چاہے جو چاہے اور جس کو چاہے عطا کر دے ہاں مانگنے کی شرائط بھی ہیں اور سلیقہ بھی پھر اس کی رحمت کا تماشہ دیکھو ۔ (مانگنے کی شرط اور سلیقہ) مانگنے کی شرط تو یہ ہے کہ بندہ اس کا ہو ، جیسا کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) تو کامل بندے ہوتے ہیں ، مذاہب باطلہ نے اپنے اپنے مذہبی راہنماؤں کو کبھی دیوتا ماننا اور کبھی اللہ جل جلالہ کا اوتار ، کسی میں حلول کے قائل ہوگئے اور کسی میں خدائی اوصاف کو مان لیا ، مگر اسلام اور دین حق کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ اللہ جل جلالہ کا نبی یا اللہ کی طرف دعوت دینے والا اللہ جل جلالہ کا رسول اس کا کامل بندہ ہوتا ہے لہذا ہر مانگنے والے لیے بنیادی شرط تو یہ ہے کہ اللہ کریم کو مالک اور خود کو اس کا بندہ جانے ، اب رہا سلیقہ تو وہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کے انداز سے عیاں ہے کہ پہلے تو نہایت خفیہ انداز میں یعنی قلبی طور پر چپکے چپکے رب جلیل سے مانگے یعنی بات اس کے اور اس کے ربن کے درمیان ہو محض دکھلاوے کے لیے شور برپا نہ کرے ۔ (ذکر خفی) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد حضرت سعد ابن وقاص (رض) نے روایت فرمایا ” ان خیرالذکر الخفی وخیر الرزق مایکفی “۔ کہ بہترین ذکر ” خفی “ ہے اور بہترین رزق وہ ہے جو کافی ہو اور ضرورت پوری کرنے والا ہو ، دوسرا انداز یہ ہے کہ اپنی احتیاج اور کمزوری کو بیان کرے اور اپنی حاجت مندی کا ذکر کرے ، اور تیسری بات یہ کہ اللہ کریم کی بخشش اور عطا پر اعتماد ہو ، جیسے حضرت زکریا (علیہ السلام) نے چپکے چپکے دعا کی کہ اے رب کریم میری تو ہڈیاں بھی بوڑھی ہوگئیں ، اور یہ بڑھاپے کی زیادتی کا بیان کہ اس کا اثر نہ صرف اعصاب پر ہے بلکہ ہڈیاں تک کمزور پڑگئی ہیں اور سر سے بڑھاپے کا شعلہ نکل گیا ہے یعنی میرے سر کا حال بالوں کی سفیدی یا سماعت و بصارت کی فطری کمزوری یا لرزہ وغیرہ بڑھاپے کا اعلان ایسے کر رہے ہیں جیسے شعلہ اٹھ کر آگ کے ہونے کی خبر دیتا ہے سبحان اللہ کیا خوبصورت انداز بیان ہے اور تیری عطائے کریمانہ یہ ہے کہ میں کبھی بھی تجھ سے مانگ کر محروم نہیں رہا ، نیز ساتھ میں مانگنے کا بنیادی سبب دین کو قرار دیا اگرچہ ساتھ دنیا کا فائدہ بھی نصیب ہوا کہ اولاد کی نعمت عطا ہوئی مگر عرض کیا کہ میں اپنے رشتہ داروں کے رویہ سے ڈرتا ہوں کہ یہ دینی خدمت انجام نہ دے سکیں گے بلکہ الٹا دین میں رکاوٹ کا باعث بن جائیں گے ۔ (اہل اللہ اور ان کے رشتہ دار) یہ بڑی عجیب بات ہے کہ بہت خوش قسمت رشتہ دار انبیاء کرام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مستفید ہوئے ورنہ اکثر محرومی کا شکار ہوئے اسی طرح اہل اللہ کے بھی رشتہ داروں نے بہت کم فائدہ پایا اور اکثر نے دینی امور میں مخالفت کی اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ استفادہ کرنے کے لیے عقیدت ، ادب اور اطاعت بنیادی باتیں ہیں مگر رشتہ دار عموما عقیدت ہی سے محروم ہوتے ہیں اور نبی کو نبی ماننے کی بجائے بھائی بھتیجہ یا قوم کا آدمی ہی جانتے ہیں ایسے ہی اہل اللہ کے رشتہ دار انہیں محض اپنے رشتے سے پہچاننے پہ اکتفا کرتے ہیں جو ان کے لیے برکات سے محرومی کا سبب بن جاتا ہے لہذا انہوں نے بھی یہاں یہ بات عرض کی کہ رشتہ داروں سے خائف ہوں اور ان سب باتوں میں بہت بڑی بات یہ بھی ہے کہ میری بیوی بانجھ ہے جسے ساری عمر اولاد نصیب نہیں ہو سکتی ۔ لیکن اے میرے پروردگار تو قادر مطلق ہے لہذا مجھے ایک وارث عطا کر جو میرا ایسا وارث ہو کہ آل یعقوب (علیہ السلام) کی وارثت کا حق ادا کرسکے اور وہ تیرا مقبول ومحبوب بندہ بھی ہو ۔ (انبیاء (علیہ السلام) کی وراثت) جمہور کا اس پر اتفاق ہے کہ انبیاء کرام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وراثت ان کے علوم ہوتے ہیں اور دنیا کا مال انبیاء کرام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وراثت نہیں ہوتا ، ایک حدیث صحاح میں بھی ہے اور کتب شیعہ میں سے بھی کافی کلینی “ میں موجود ہے کہ بیشک علماء ہی انبیاء کرام (علیہ السلام) کے وارث ہیں کیونکہ انبیاء کرام (علیہ السلام) دینار ودرحم کی وارثت نہیں چھوڑتے بلکہ ان کی وارثت علم ہوتا ہے جس نے حاصل کرلیا بڑی دولت پالی ، اور مال انبیاء کرام (علیہ السلام) جو رہ جائے ، وہ صدقہ ہوتا ہے ، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہتھیار زریں اور گھوڑے وغیرہ وارثوں کو نہیں بلکہ محض برکت کے لیے ان حضرات کو عطا ہوئے ، یہاں بھی دنیا کی وراثت مراد نہیں بلکہ فرمایا (آیت) ” یرثنی ویرث ال یعقوب “۔ کہ میرا وارث بنے اور آل یعقوب (علیہ السلام) کا جس سے واضح ہے کہ علمی وراثت ہے اور دنیا کے مال کا وارث تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے قریبی لوگوں نے بننا تھا نہ کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کی اولاد نے نیز اپنے اقربا سے ڈرتے ہیں کہ وراثت کے اہل نہ ہوں گے تو مراد علم اور دین ہے ورنہ دنیا کی دولت تو پھر وارث لے لیتا ہے اور حضرت زکریا (علیہ السلام) کے پاس دولت بھی تو نہ تھی ۔ ارشاد ہوا آپ کی دعا قبول فرما کر بیٹے کی بشارت دی جاتی ہے آپ اس کا نام بھی یحیٰ (علیہ السلام) رکھیں جو ایک منفرد نام ہے کہ پہلے یہ نام کسی کو نصیب نہیں ہوا ، گویا نام کا خوبصورت اور منفرد ہونا بہت اچھی بات ہے ۔ (نام خوبصورت اور منفرہونا چاہئے) اور نام بامعنی بھی ہونا چاہئے جس کا اہتمام اسلام میں بہت ہے ورنہ غیر اسلامی دنیا کے آج کے نام بھی امریکہ کا صدر بش ہے یعنی جھاڑی اور نائب صدر کوئل یعنی بیٹر ، ان کا اثر شخصیت پہ ہونا ایک قدرتی امر ہے ۔ تو آپ نے عرض کیا بارے الہا میرا بڑھاپا بھی حد سے گزر گیا ہے اور میری بیوی بھی بانجھ ہے تو وہ کیا طریقہ ہوگا کہ ہمیں بیٹا نصیب ہوگا بظاہر اس بات سے آگاہ ہونے کی کوئی نشانی تو ہم میں ہے نہیں تو کیا میں جوان ہوں گا یا اور شادی ہوگی یا کیسے یہ کام ہوگا فرمایا مجھے اسباب کی ضرورت نہیں اور میری قدرت کاملہ ہر انسان کے روبرو ہے کہ کوئی کچھ نہیں ہوتا تو ہم بنا دیتے ہیں ایسے ہی اسباب کو ہم بناتے ہیں تو عرض کیا اللہ کریم کوئی نشانی ہی مقرر فرما دے کہ جان سکوں فرمایا علامت یہ ہے کہ جب آپ کی بیوی حاملہ ہوگی تو تین روز تک آپ کسی سے بات نہ کرسکیں گے ذکر الہی پر تکلم کی طاقت ہوگی کسی انسان سے بات نہ ہو سکے گی چناچہ جب آپ کی یہ حالت ہوگئی تو حجرہ مبارک سے باہر آئے اور قوم کو کثرت سے ذکر کرنیکا حکم دیا اور اشارے سے سمجھایا ۔ (اولاد یا نعمت کی عطا پر اظہار خوشی کا طریقہ) یہ قدرتی امر ہے کہ نعمت پا کر خوشی ہوتی ہے اور اولاد بہت بڑی نعمت ہے تو اظہار مسرت کا طریقہ یہ ہے کہ کثرت سے اللہ جل جلالہ کا ذکر کیا جائے محافل منعقد کی جائیں سیرت بیان کی جائے احکامات بیان کیے جائیں اور ذکر اللہ کا اہتمام کیا جائے ۔ چناچہ انہیں فرزند عطا ہوا حضرت یحیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے جب انہوں نے ہوش سنبھالا تو ارشاد ہوا کہ اے یحیٰ (علیہ السلام) کتاب یعنی تورات کو مضبوطی سے تھا میں یعنی اس پر عمل کو پوری کوشش کریں اور انہیں لڑکپن میں ہی دین کا فہم و شعور عطا ہوا اور اللہ جل جلالہ نے اپنی محبت عطا کردی اور ان کے قلب میں اپنی طلب ڈال دی اور بہت صاف ستھرے نہایت پرہیزگار تھے اور والدین کے ساتھ بہت سلوک کرنے والے عام آدمیوں پر بھی شفقت لٹانے والے تھے کبھی بھی سخت گیر اور خود سر نہ تھے اور اللہ کے اتنے محبوب تھے کہ فرمایا میری طرف سے سلامتی ہو ان پر جس روز وہ پیدا ہوئے جس روز دنیا سے رخصت ہوں گے اور جب میدان حشر میں دوبارہ زندہ ہو کر اٹھیں گے تب بھی ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 10 ذکر یاد، تذکرہ۔ وھن کمزوری، بیماری، خرابی۔ العضم ہڈی، ہڈیاں، اشتعل پھیل گیا، یا بھڑک اٹھا۔ شیب سفید بال، بڑھاپا۔ شقی محروم، نامراد۔ الموالی رشتہ دار۔ عاقر بانجھ (اولاد سے مایوس) ۔ سمی نام ، رکھنا۔ عتی انتہائی بڑھاپا۔ ھین آسان، سہل۔ سوی ٹھیک ہونا۔ برابر ہونا۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 10 اللہ تعالیٰ نے سورة مریم کا آغاز حروف مقطعات سے کیا ہے جن کے معنی کا علم اللہ کو ہے۔ پھر حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے تذکرہ سے کیا ہے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) تمام قوم بنی اسرائیل کے پیشوا، رہنما اور بیت المقدس کے متولی اور نگران تھے۔ حضرت زکریا حضرت مریم کے سگے خالو تھے۔ جب حضرت زکریا کی عمر مبارک 120 سال کی ہوگئی اس وقت اللہ نے حضرت زکریا کو حضرت یحییٰ جیسا عظیم بیٹا عطا فرمایا جن کا نام بھی اللہ نے رکھا اور ان کو نبوت کی بہت سی اعلیٰ صفات عطا فرمائی گئیں۔ اہل ایمان کو حضرت زکریا کا واقعہ سنا کر بتایا جا رہا ہے کہ اللہ نے ان کو بڑھاپے کی انتہاؤں پر بیٹا عطا کیا جو بظاہر ناممکن تھا لیکن اللہ اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنتا ہے اور ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے۔ اس میں ان کو یہ تسلی بھی دی گیء ہے کہ اللہ ہر چیز پر پوری پوری قدرت رکھتا ہے۔ وہ جس طرح چاہتا ہے اس کائنات میں تصرف فرماتا ہے اسی کی قدرت ہے جس نے بغیر ماں باپ کے آدم (علیہ السلام) کو اور بغیر باپ کے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا کیا ہے ۔ جو بھی اس کی بارگاہ میں جھک کر اور عاجزی اور انکساری سے مانگتا ہے وہ ضرور عطا کرتا ہے اور کوئی شخص اس کی رحمت اور اس کے کرم سے محروم نہیں رہتا۔ گویا جان نثاران مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جارہا ہے کہ اے اصحاب رسول ! تم انبیاء کے راستے پر چل رہے ہو اور اس کے لئے ہر طرح کی قربانیاں پیش کر رہے ہو تو یہ مت سمجھنا کہ اللہ تمہاری قربانیوں اور ایثار سے بیخبر ہے بلکہ اس کو تمہاری ہر کیفیت کا علم ہے اور وہ تمہیں بہت جلد عظمت کی بلندیوں تک پہنچائے گا۔ مگر اس کے لئے وقت کا انتظار اور ایثار و قربانی سے کام لے کر صبر و تحمل سے حالات کو برداشت کرنا ہوگا۔ پھر یہی لوگ تمہارے قدموں پر جھکنے کیلئے مجبور ہوجائیں گے۔ قرآن کریم میں حضرت زکریا (علیہ السلام) کی دعا کی تفصیل یہ بیان کی گئی ہے کہ حضرت مریم کی والدہ نے حضرت مریم کی پیدائش سے پہلے یہ منت مان لی تھی کہ اے اللہ میرے گھر میں جو بھی اولاد پیدا ہوگی اس کو میں بیت المقدس کی خدمت کیلئے وقف کر دوں گی۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کو پیدا کیا تو حضرت مریم کی والدہ بہت پریشان ہوگئیں کہ لڑکی کو میں بیت المقدس کے لئے کیسے وقف کر دوں۔ حسن اتفاق کہ اس وقت بیت المقدس کے متولی اور نگران حضرت زکریا (علیہ السلام) تھے جو حضرت مریم کے سگے خالو تھے ۔ چناچہ ان کو حضرت زکریا (علیہ السلام) کی نگرانی میں دے دیا گیا۔ حضرت مریم انتہائی نیک اور پارسا تھیں وہ دن رات اپنے حجرے میں اللہ کی عبادت و بندگی کرتی رہتی تھیں۔ حضرت زکریا اکثر حضرت مریم کے حجرے میں خیریت معلوم کرنے جاتے رہتے تھے ۔ ان دن انہوں نے دیکھا کہ حضرت مریم کے پاس بےموسم کے پھل رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ مریم ! یہ تمہارے پاس کہاں سے آئے ہیں ؟ حضرت مریم نے کہا کہ یہ سب اللہ کی طرف سے آئے ہیں حضرت زکریا (علیہ السلام) جو اللہ کے نبی تھے سمجھ گئے کہ حضرت مریم پر اللہ کا خاص فضل و کرم ہے اور بےموسم کے پھل دیکھ کر اللہ کے سامنے جھک گئے اور کچھ اس طرح دعا کی الٰہی ! (اگر آپ مریم کو بےموسم پھل دے سکتے ہیں تو) بیشک میں بوڑھا ہوگیا ہوں میرے سر کے بال بھی انتہائی سفید ہوگئے ہیں، میری بیوی بانجھ ہے جس کے ہاں اولاد ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن آپ کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔ مجھے ایک وارث عطا فرما دیجیے جو میرے مقصد اور مشن کو آگے لے کر چلے اور وہ ان علوم کا صحیح وارث بن سکے جو آپ نے مجھے عطا فرمائے ہیں کیونکہ مجھے قوم بنی اسرائیل میں سے کوئی بھی اس کا اہل نظر نہیں آتا جو اس علم کی میراث کو لے کر چل سکے۔ ظاہر ہے اس دعا میں آپ اپنا وارث مال و دولت کے لئے نہیں مانگ رہے تھے کیونکہ انبیاء کرام اللہ کے علوم کے وارث ہوتے ہیں وہ علم چھوڑ کر جاتے ہیں درہم و دینار نہیں چھوڑتے۔ انہیں اپنے مشن اور مقصد سے پیار ہوتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کی زندگی میں اور بعد کی زندگی میں راہ مستقیم کو نہ چھوڑیں۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اس مشن اور مقصد کے لئے اللہ سے دعا فرمائی۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) جو پوری عاجزی و انکساری سے دعا فرما رہے تھے۔ اس بات سے مطمئن ہوگئے کہ اللہ نحے ان کی دعا ضرور قبول کرلی ہوگی کیونکہ اس دعا کا مقصد صرف دنیا کی غرض اور سکون نہیں تھا بلکہ بنی اسرائیل کے لئے رشد و ہدایت کی درخواست تھی چنانچہ ایک دن حضرت زکریا عبادت میں مشغول تھے کہ اللہ کے فرشتے نے ان کو دعا کی قبولیت کی خوش خبری سنائی اور کہا کہ اللہ نے آپ کی دعا قبول کرلی ہے اور ایک ایسا بیٹا عطا کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا نام یحییٰ ہوگا۔ یہ سنا تو حیرت، تعجب اور شوق سے پوچھا کہ کیا میرے گھر ایک ایسا بیٹا ہوگا۔ جس کا نام بھی اللہ خود ہی نے رکھ دیا ہے ؟ یہ کیسے ممکن ہوگا۔ ؟ کیونکہ میں انتہائی بوڑھا ہوچکا ہوں۔ میری بیوی بانجھ ہے۔ فرشتے نے کہا کہ یہ تو مجھے معلوم نہیں البتہ اللہ کا فیصلہ ہے کہ یہ کام اسی طرح ہو کر رہے گا اور ایسا کرنا اللہ کی قدرت سے باہر نہیں ہے بلکہ اللہ کے لئے آسان ہے۔ فرمایا کہ تم خود اپنے وجود پر غور کرلو کہ تم کچھ بھی نہ تھے لیکن آج تم ایک انسانی شکل میں موجود ہو۔ جب حضرت زکریا کو پورا اطمینان ہوگیا تو عرض کیا الٰہی ! اس کی علامت کیا ہوگی ؟ اللہ نے فرمایا کہ اس کی ایک نشانی یہ ہوگی کہ تم تین راتوں تک سوائے اشاروں کے کسی سے بات نہ کرسکو گے۔ اس طرح اللہ نے تمام اہل ایمان کو بتا دیا کہا للہ جب کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو اس کو دنیا کے لوگوں کی طرح اسباب اور وسائل کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ جب وہ کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو اس کے ہونے کا حکم دیتا ہے اور وہ چیز وجود اختیار کرلیتی ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سورة مریم بھی حروف مقطعات سے شروع ہوئی ہے۔ ان کے بارے میں پہلے بیان ہوچکا ہے کہ حروف مقطعات کا حقیقی معنٰی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ جن لوگوں نے بزرگوں کے اقوال سے ان کا معنٰی متعین کرنے کی کوشش کی ہے اسے فکری کاوش کے سوا کوئی حیثیت نہیں دی جاسکتی۔ حقیقت یہی ہے کہ اس کا معنٰی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ مکہ معظمہ میں مسلمانوں کے حالات اس قدر مخدوش ہوچکے تھے کہ دور دور تک روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی تھی جس سے یہ واضح ہو کہ اللہ کی توحید کا غلبہ اور اسلام کی تحریک کامیاب ہو سکے گی۔ ان حالات میں سورة مریم نازل ہوئی جس کی ابتداء اس بات سے کی جا رہی ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم آپ کے سامنے زکریاکا واقعہ ذکر کرتے ہیں جو میرا بندہ تھا۔ آپ کے رب نے اس وقت اس پر اپنی رحمت اور شفقت کا نزول فرمایا جب وہ اپنی عمر کے اعتبار سے اولاد کے قابل نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بڑھاپے میں بیٹا عنایت فرمایا۔ آپ بھی میرے بندے اور رسول ہیں۔ اس لیے آپ کو اسباب کے فقدان اور ظاہری حالات سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اسباب آپ کے رب کے محتاج اور حالات اس کے حکم کے تابع ہیں۔ عنقریب وقت آئے گا کہ اللہ تعالیٰ توحید کے منکروں، اسلام کے مخالفوں اور آپ کے دشمنوں کو ناکام اور آپ کو دنیا اور آخرت کی کامیابیوں سے سرفراز فرمائے گا۔ سیدنا زکریا (علیہ السلام) قرآن حکیم حضرت زکریا (علیہ السلام) کا ذکر خیر چار سورتوں میں سات مرتبہ آیا ہے جن کے حوالے درج ذیل ہیں : سورۂ آل عمران : ٣٧ تا ٤١ الانعام : ٨٥ مریم : ٢ تا ١١ الانبیاء : ٨٩۔ ٩٠ حضرت زکریا (علیہ السلام) کا پیشہ : (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ کَانَ زَکَرِیَّا نَجَّارًا) [ رواہ المسلم : کتاب الانبیاء ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا زکریا (علیہ السلام) نجاری کا پیشہ کرتے تھے۔ “ مسائل ١۔ حروف مقطعات کا معنٰی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ٢۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) ، حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے والد گرامی اور اپنے وقت کے عظیم نبی تھے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ حروف مقطعات جن سے اس سورة کا آغاز ہو رہا ہے ان کی تفسیر میں ہماری یہی رائے ہے کہ یہ وہی حروف ہیں جن سے قرآن کریم بنا ہے۔ ان ہی سے یہ معجز کتاب بنی ہے اور انسانیت اس کتاب جیسی کتاب لانے سے عاجز ہے۔ حالانکہ یہ حروف اور ان سے بنے ہوئے کلمات انسانوں کی دسترس میں ہیں ، لیکن وہ اس موجود مواد سے کوئی ایسی کتاب تیار کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ ان حروف کے تذکرے کے بعد حضرت زکریا اور یحییٰ کا قصہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس قصے کا بیشتر مواد رحمت الٰہی پر مبنی ہے۔ پورے ماحول پر رحمت خداوندی سایہ فگن ہے۔ چناچہ آغاز ہی لفظ رحمت سے ہوتا ہے ، ذکر رحمت سے ہوتا ہے ……

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ حروف مقطعات متشابہات میں سے ہیں اور ان کی تاویل اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس کی مفصل تحقیق سورة بقرہ کی تفسیر میں گذر چکی ہے ملاحظہ ہو ص 18 حاشیہ 2 ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 کھیعص