Surat Marium

Surah: 19

Verse: 11

سورة مريم

فَخَرَجَ عَلٰی قَوۡمِہٖ مِنَ الۡمِحۡرَابِ فَاَوۡحٰۤی اِلَیۡہِمۡ اَنۡ سَبِّحُوۡا بُکۡرَۃً وَّ عَشِیًّا ﴿۱۱﴾

So he came out to his people from the prayer chamber and signaled to them to exalt [ Allah ] in the morning and afternoon.

اب زکریا ( علیہ السلام ) اپنے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آکر انہیں اشارہ کرتے ہیں کہ تم صبح وشام اللہ تعالٰی کی تسبیح بیان کرو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَخَرَجَ عَلَى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ ... Then he came out to his people from the Mihrab, referring to the place where he was given the good news of the child. ... فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ ... he indicated to them by signs, Meaning he made a gesture to them that was subtle and swift. ... أَن سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا to glorify (Allah) in the morning and in the afternoon. That they should be agreeable to what he was commanded to do during these three days, to increase in his deeds and gratitude to Allah for what He had given him. Mujahid said, فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ (he indicated to them by signs), "He made a gesture." Wahb and Qatadah said the same.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 مِحْرَاب سے مراد حجرہ ہے جس میں وہ اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ یہ حَرْب سے ہے جس کے معنی لڑائی کے ہیں۔ گویا عبادت گاہ میں اللہ کی عبادت کرنا ایسے ہے گویا وہ شیطان سے لڑ رہا ہے۔ 11۔ 2 صبح وشام اللہ کی تسبیح سے مراد عصر اور فجر کی نماز ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ دو وقتوں میں اللہ کی تسبیح و تمحید اور پاکی کا خصوصی اہتمام کرو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَخَرَجَ عَلٰي قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ : ” الْمِحْرَابِ “ نماز کی جگہ، یا وہ کمرہ جس میں وہ عبادت کیا کرتے تھے، یا مسجد، کیونکہ بنی اسرائیل کی مساجد کو ” مَحَارِیْبُ “ کہا جاتا تھا، کیونکہ وہ ایسے مقامات ہیں جن میں شیطانوں سے حرب (جنگ) کی جاتی ہے۔ (طنطاوی) فَاَوْحٰٓى اِلَيْهِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَةً وَّعَشِـيًّ : یعنی حمل کی نشانی کے طور پر زبان بند ہوگئی تو اشارے سے لوگوں کو پہلے اور پچھلے پہر اللہ تعالیٰ کی تسبیح کا حکم دیا، کیونکہ خود انھیں علامت ظاہر ہونے پر اللہ کی طرف سے یہی حکم تھا، جیسا کہ فرمایا : (وَاذْكُرْ رَّبَّكَ كَثِيْرًا وَّسَبِّحْ بالْعَشِيِّ وَالْاِبْكَارِ ) [ آل عمران : ٤١ ] ” اور اپنے رب کو بہت یاد کر اور شام اور صبح تسبیح بیان کر۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَخَرَجَ عَلٰي قَوْمِہٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰٓى اِلَيْہِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَۃً وَّعَشِـيًّا۝ ١١ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] حرب الحَرْبُ معروف، والحَرَب : السّلب في الحرب ثم قد سمّي كل سلب حربا، قال : والحرب فيه الحرائب، وقال : والحرب مشتقة المعنی من الحرب «5» وقد حُرِبَ فهو حَرِيب، أي : سلیب، والتّحریب : إثارة الحرب، ورجل مِحْرَب، كأنه آلة في الحرب، والحَرْبَة : آلة للحرب معروفة، وأصله الفعلة من الحرب أو من الحراب، ومِحرابُ المسجد قيل : سمّي بذلک لأنه موضع محاربة الشیطان والهوى، وقیل : سمّي بذلک لکون حقّ الإنسان فيه أن يكون حریبا من أشغال الدنیا ومن توزّع الخواطر، وقیل : الأصل فيه أنّ محراب البیت صدر المجلس، ثم اتّخذت المساجد فسمّي صدره به، وقیل : بل المحراب أصله في المسجد، وهو اسم خصّ به صدر المجلس، فسمّي صدر البیت محرابا تشبيها بمحراب المسجد، وكأنّ هذا أصح، قال عزّ وجل : يَعْمَلُونَ لَهُ ما يَشاءُ مِنْ مَحارِيبَ وَتَماثِيلَ [ سبأ/ 13] . والحِرْبَاء : دویبة تتلقی الشمس كأنها تحاربها، والحِرْبَاء : مسمار، تشبيها بالحرباء التي هي دویبة في الهيئة، کقولهم في مثلها : ضبّة وکلب، تشبيها بالضبّ والکلب . ( ح ر ب ) الحرب جنگ کا راز ۔ اور فتحۃ را کے ساتھ لڑائی میں کسی کا مال چھیننے کے ہیں پھر ہر قسم کے سب کے حرب کہاجاتا ہے اور حرب معنوی لحاظ سے حرب سے مشتق ہے کہا جاتا ہے ۔ حرب الرجل ان کا سامان چھین لیا گیا فھو حریب یعنی لٹا ہوا ۔ التحریب لڑائی کا بھڑکا نا ۔ رجل محرب جنگجو گویا وہ لڑائی بھڑکانے کا آلہ ہے ۔ الحربۃ بر چھا ۔ اصل میں یہ حرب یا حراب سے فعلۃ کے وزن پر ہے اور مسجد کے محراب کو محراب یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ شیطان اور خواہشات نفسانی سے جنگ کرنے کی جگہ ہے اور یا اس لئے کہ اس جگہ میں کھڑے ہو کر عبادت کرنیوالے پر حق یہ ہے کہ دنیوی کاروبار ۔ اور پریشان خیالیوں سے یک سو ہوجانے ۔ بعض کہتے ہیں کہ اصل میں محراب البیت صدر مجلس کو کہتے ہیں اسی بنا پر جب مسجد میں امام کی گہ بنائی گئی تو اسے بھی محراب کہہ دیا گیا ۔ اور بعض نے اس کے برعکس محراب المسجد کو اصل اور محراب البیت کو اس کی فرع نانا ہے اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْمَلُونَ لَهُ ما يَشاءُ مِنْ مَحارِيبَ وَتَماثِيلَ [ سبأ/ 13] وہ جو چاہتے یہ ان کے لئے بناتے یعنی محراب اور مجسمے ۔ الحرباء گرگٹ کیونکہ وہ سورج کے سامنے اس طرح بیٹھ جاتی ہے گویا اس سے جنگ کرنا چاہتی ہے نیز زرہ کے حلقہ یا میخ کو بھی صوری مشابہت کی بنا پر حرباء کہاجاتا ہے جیسا کہ ضب اور کلب کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے اس کی بعض حصوں کو ضبہ اور کلب کہہ دیتے ہیں ۔ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے سبح السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] ، ( س ب ح ) السبح اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے بكر أصل الکلمة هي البُكْرَة التي هي أوّل النهار، فاشتق من لفظه لفظ الفعل، فقیل : بَكَرَ فلان بُكُورا : إذا خرج بُكْرَةً ، والبَكُور : المبالغ في البکرة، وبَكَّر في حاجته وابْتَكَر وبَاكَرَ مُبَاكَرَةً. وتصوّر منها معنی التعجیل لتقدمها علی سائر أوقات النهار، فقیل لكلّ متعجل في أمر : بِكْر، قال الشاعر بكرت تلومک بعد وهن في النّدى ... بسل عليك ملامتي وعتاب وسمّي أول الولد بکرا، وکذلك أبواه في ولادته [إيّاه تعظیما له، نحو : بيت الله، وقیل : أشار إلى ثوابه وما أعدّ لصالحي عباده ممّا لا يلحقه الفناء، وهو المشار إليه بقوله تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ ] «3» [ العنکبوت/ 64] ، قال الشاعر يا بکر بكرين ويا خلب الکبد «4» فبکر في قوله تعالی: لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة/ 68] . هي التي لم تلد، وسمّيت التي لم تفتضّ بکرا اعتبارا بالثيّب، لتقدّمها عليها فيما يراد له النساء، وجمع البکر أبكار . قال تعالی:إِنَّا أَنْشَأْناهُنَّ إِنْشاءً فَجَعَلْناهُنَّ أَبْکاراً [ الواقعة/ 35- 36] . والبَكَرَة : المحالة الصغیرة، لتصوّر السرعة فيها . ( ب ک ر ) اس باب میں اصل کلمہ بکرۃ ہے جس کے معنی دن کے ابتدائی حصہ کے ہیں پھر اس سے صیغہ فعل مشتق کرکے کہا جاتا ہے ۔ بکر ( ن ) فلان بکورا کسی کام کو صبح سویرے نکلنا ۔ البکور ( صیغہ مبالغہ ) بہت سویرے جانے والا ۔ بکر ۔ صبح سورے کسی کام کے لئے جانا اور بکرۃ دن کا پہلا حصہ ) چونکہ دن کے باقی حصہ پر متقدم ہوتا ہے اس لئے اس سے شتابی کے معنی لے کر ہر اس شخص کے معلق بکدرس ) فعل استعمال ہوتا ہے جو کسی معاملہ میں جلد بازی سے کام نے شاعر نے کہا ہے وہ کچھ عرصہ کے بعد جلدی سے سخاوت پر ملامت کرنے لگی میں نے کہا کہ تم پر مجھے ملامت اور عتاب کرنا حرام ہے ۔ بکر پہلا بچہ اور جب ماں باپ کے پہلا بچہ پیدا ہو تو احتراما انہیں بکر ان کہا جاتا ہے جیسا کہ بیت اللہ بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ثواب الہی اور ان غیر فانی نعمتوں کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے تیار کی ہیں جس کی طرف آیت کریمہ : ۔ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ ] «3» [ العنکبوت/ 64] اور ( ہمیشہ کی زندگی ( کا مقام تو آخرت کا گھر ہے میں اشارہ فرمایا ہے شاعر نے کہا ہے ع ( رجز ) ( 23 ) اے والدین کے اکلوتے بیٹے اور جگر گوشے ۔ پس آیت کریمہ : ۔ لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة/ 68] نہ تو بوڑھا ہو اور نہ بچھڑا ۔ میں بکر سے نوجوان گائے مراد ہے جس نے ابھی تک کوئی بچہ نہ دیا ہو ۔ اور ثیب کے اعتبار سے دو شیزہ کو بھی بکر کہا جاتا ہے کیونکہ اسے مجامعت کے لئے ثیب پر ترجیح دی جاتی ہے بکر کی جمع ابکار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْشَأْناهُنَّ إِنْشاءً فَجَعَلْناهُنَّ أَبْکاراً [ الواقعة/ 35- 36] ہم نے ان ( حوروں ) کو پیدا کیا تو ان کو کنوار یاں بنایا ۔ البکرۃ چھوٹی سی چرخی ۔ کیونکہ وہ تیزی کے ساتھ گھومتی ہے ۔ عشا العَشِيُّ من زوال الشمس إلى الصّباح . قال تعالی: إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها[ النازعات/ 46] ، والعِشَاءُ : من صلاة المغرب إلى العتمة، والعِشَاءَانِ : المغرب والعتمة «1» ، والعَشَا : ظلمةٌ تعترض في العین، ( ع ش ی ) العشی زوال آفتاب سے لے کر طلوع فجر تک کا وقت قرآن میں ہے : ۔ إِلَّا عَشِيَّةً أَوْضُحاها[ النازعات 46] گویا ( دنیا میں صرف ایک شام یا صبح رہے تھے ۔ العشاء ( ممدود ) مغرب سے عشا کے وقت تک اور مغرب اور عشا کی نمازوں کو العشاء ن کہا جاتا ہے اور العشا ( توندی تاریکی جو آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے رجل اعثی جسے رتوندی کی بیمار ی ہو اس کی مؤنث عشراء آتی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

محراب کیا ہے ؟ قول باری ہے (فخرج علی قومہ من المحراب۔ چناچہ وہ محراب سے نکل کر اپنی قوم کے سامنے آئے) ابوعبیدہ کا قول ہے کہ محراب صدر مجلس یعنی بیٹھنے کی جگہ کے درمیان والے حصے کو کہتے ہیں۔ اسی سے مسجد کا محراب نکلا ہے۔ ایک قول کے مطابق محراب غرفہ یعنی بالا خانہ کو کہتے ہیں۔ اسی سے قول باری ہے (اذ تسوروا المحراب ۔ جب وہ دیوار پھاند کر حجرہ میں آ گئے ) ایک اور قول ہے کہ محراب مصلی یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ گونگے کے اشارے سے عمل درآمد ہوسکتا ہے قول باری ہے (فاوحی الیھم اس نے انہیں اشارے سے کہا) ایک قول کے مطابق حضرت زکریاعلیہ السلام نے اپنی قوم کو ہاتھ کے اشارے سے کہا اس طرح ہاتھ کے اشارے نے اس مقام پر قول کی جگہ سے لی اس لئے کہ اشارے سے وہی کچھ بتادیا گیا جو قول کے ذریعے بتایا جاسکتا تھا۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ گونگے کے اشارے پر عمل درآمد ہوسکتا ہے اور اس کا یہ اشارہ اس کے ذمہ عائد ہونے والے امور میں قول کے قائم مقام سمجھا جائے گا، تاہم فقہاء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ایک تندرست انسان کا اشارہ جسے گونگے پن کی کوئی بیماری نہ ہو، اس کے قول کے قائم مقام نہیں قرار دیا جاسکتا۔ گونگے انسان کے اشارے کو یہ حیثیت اس لئے دی گئی کہ گونگا اپنی مشق کی وجہ سے، نیز عادت اور ضرورت کی بنا پر اشارے سے وہ کچھ بتاسکتا ہے جو قول کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس ایک تندرست انسان کی یہ مشق اور عادت نہیں ہوتی اس لئے یہ عملدرآمد کے قابل نہیں ہے۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کسی شخص کی زبان میں رکاوٹ ہو اور زبان پوری طرح نہ چلتی ہو اور اس نے اشارے سے کسی وصیت وغیرہ کی بات کی ہو تو اس کی اس وصیت پر عمل درآمد نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ ایسے شخص کی یہ مستقل عادت اور مشق نہیں ہوتی کہ اسے گونگے کی طرح تسلیم کرلیا جائے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١) چناچہ مسجد سے اپنی قوم کے پاس تشریف لائے اور ان کو اشارہ سے یا زمین پر لکھ کر فرمایا کہ صبح و شام اللہ کی تعالیٰ کی عبادت اور پاکی بیان کرنے میں مصروف رہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١ (فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِہٖ مِنَ الْمِحْرَابِ ) اپنی عبادت ‘ رازو نیاز اور مناجات کے بعد حضرت زکریا (علیہ السلام) اپنے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے لوگوں کی طرف آئے۔ (فَاَوْحٰٓی اِلَیْہِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُکْرَۃً وَّعَشِیًّا) آپ ( علیہ السلام) نے لوگوں کو اشاروں کنایوں سے سمجھایا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بہت اہم فیصلہ ہونے جا رہا ہے ‘ لہٰذا تم لوگ صبح وشام کثرت سے اللہ کی تسبیح وتحمید کرتے رہو۔ عربی میں ” وحی “ کے لغوی معنی ہیں : الاعلام بالسِّر والخِفاء ‘ یعنی کسی کو اشارے سے کوئی بات اس طرح بتانا کہ دوسروں کو پتا نہ چلے۔ انبیاء ورسل (علیہ السلام) کی طرف جو وحی آتی ہے اس کی کیفیت بھی یہی ہوتی ہے۔ وحی کی مختلف صورتوں کا تذکرہ (بیان القرآن ‘ جلد اول کے آغاز میں) ” تعارف قرآن “ کے ضمن میں آچکا ہے۔ آگے سورة الشوریٰ میں بھی اس کا ذکر آئے گا۔ حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) کی ولادت کے بعد اب ان کو براہ راست مخاطب کیا جا رہا ہے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

7. For the explanation of mihrab (sanctuary), see (E.N. 36 of Aal-Imran). 8. Below we reproduce the details of this event as given in Luke’s Gospel so that the reader may study and compare the Quranic version with the Christian version. The references and additions within the brackets are ours: There was in the days of Herod, the king of Judaea, see (Surah Bani-Israil, E.N.9) a certain priest named Zacharias, of the course of Abiah: and his wife was of the daughter of Aaron, and her name wag Elisabeth. And they were both righteous before God, walking in all the commandments and ordinances of the Lord blameless. And they had no child, because that Elisabeth was barren, and they both were now well stricken in years. And it came to pass, that while he executed the priest’s office before God in the order of his course, according to the custom of the priest’s office, his lot was to burn incense when he went into the temple of the Lord. And the whole multitude of the people were praying without at the time of incense. And there appeared unto him an angel of the Lord standing on the right side of the altar of incense. And when Zacharias saw him, he was troubled, and fear fell upon him. But the angel said unto him, Fear not, Zacharias: for thy prayer is heard; (there is no mention of Zacharias’prayer anywhere in the Bible) and thy wife Elisabeth shall bear thee a son, and thou shalt call his name John (that is, Yahya). And thou shalt have joy and gladness; and many shall rejoice at his birth. For he shall be great in the sight of the Lord (Sayyidun: a great leader according to the Quran, (Surah Aal-Imran, Ayat 39), and shall drink neither wine nor strong drink (the Quranic version: Taqiyyun, pious and pure); and he shall be filled with the Holy Ghost, even from his mother’s womb (the Quran says: We blessed him with judgment while he was yet a child). And many of the children of Israel shall he turn to the Lord their God. And he shall go before him in the spirit of the power of Elias, to turn the hearts of the fathers to the children, and the disobedient to the wisdom of the just; to make ready a people prepared for the Lord. And Zacharias said unto the angel, Whereby shall I know this for I am an old man, and my wife well stricken in years. And the angel answering said unto him, I am Gabriel, that stand in the presence of God; and am sent to speak unto thee, and to show thee these glad tidings. And, behold, thou shalt be dumb, and not able to speak, until the day that these things shall be performed, because thou believest not my words, which shall be fulfilled in their season. (This is different from the Quran, which gives it as a sign, whereas according to Luke, it was a punishment. Moreover, the Quran mentions it as the silence for three consecutive days, but Luke says that Zacharias remained dumb till the birth of John). And the people waited for Zacharias, and marveled that he tarried so long in the temple. And when he came out, he could not speak unto them: and they perceived that he had seen a vision in the temple: for he beckoned unto them, and remained speechless. (Luke 1: 5-22).

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :7 محراب کی تشریح کے لیئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، آل عمران ، حاشیہ 36 سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :8 اس واقعے کی جو تفصیلات لوقا کی انجیل میں بیان ہوئی ہیں انہیں ہم یہاں نقل کر دیتے ہیں تا کہ لوگوں کے سامنے قرآن کی روایت کے ساتھ مسیحی روایت بھی رہے ۔ درمیان میں قوسین کی عبارتیں ہماری اپنی ہیں : یہود یہ کے بادشاہ ہیروویس کے زمانے میں ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، بنی اسرائیل ، حاشیہ 9 ) ابیاہ کے فریق سے زکریاہ نام کا ایک کاہن تھا اور اس کی بیوی ہارون کی اولاد میں سے تھی اس کا نام الیشبع ( Elzabeth ) تھا ۔ اور وہ خدا کے حضور راستباز اور خداوند کے سب احکام و قوانین پر بے عیب چلنے والے تھے ۔ اور ان کے اولاد نہ تھی کیونکہ الیشبع بانجھ تھی اور وہ دونوں عمر رسیدہ تھے ۔ جب وہ خدا کے حضور اپنے فریق کی باری پر کہانت کا کام دیتا تھا تو ایسا ہوا کہ کہانت کے دستور کے موافق اس کے نام کا قرعہ نکلا کہ خداوند کے مقدس میں جا کر خوشبو جلائے ۔ اور لوگوں کی ساری جماعت خوشبو جلا تے وقت باہر دعا کر رہی تھی کہ خداوند کا فرشتہ خوشبو کے مذبح کی داہنی طرف کھڑا ہوا اس کو دکھائی دیا ۔ اور زکریا دیکھ کر گھبرایا اور اس پر دہشت چھا گئی ۔ مگر فرشتے نے اس سے کہا اے زکریا ! خوف نہ کر کیونکہ تیری دعا سن لی گئی ( حضرت زکریا کی دعا کا ذکر بائیبل میں کہیں نہیں ہے ) اور تیرے لیئے تیری بیوی الیشبع کے بیٹا ہو گا ۔ تو اس کا نام یوحنا ( یعنی یحیی ) رکھنا اور تجھے خوشی و خرمی ہوگی اور بہت سے لوگ اس کی پیدائش کے سبب سے خوش ہوں گے کیونکہ وہ خداوند کے حضور میں بزرگ ہو گا ( سورہ آل عمران میں اس کے لیئے لفظ سیداً استعمال ہوا ہے ) اور ہرگز نہ مے اور نہ کوئی اور شراب پیے گا ( تقیاً ) اور اپنی ماں کے بطن ہی سے روح القدس سے بھر جائے گا ( واتینہ الحکم صبیاً ) اور بہت سے بنی اسرائیل کو خداوند کی طرف جو ان کا خدا ہے پھیرے گا ۔ اور وہ ایلیاہ ( الیاس علیہ السلام ) کی روح اور قوت میں سے اس کے آگے آگے چلے گا کہ والدوں کے دل اولاد کی طرف اور نافرمانوں کی راستبازوں کی دانائی پر چلنے کی طرف پھیرے اور خداوند کے لیئے ایک مستعد قوم تیار کرے زکریا نے فرشتے سے کہا میں اس بات کو کس طرح جانوں ؟ کیونکہ میں بوڑھا ہوں اور میری بیوی عمر رسیدہ ہے ۔ فرشتے نے اس سے کہا میں جبرائیل ہوں خدا کے حضور کھڑا رہتا ہوں اور اس لیئے بھیجا گیا ہوں کہ تجھے ان باتوں کی خوش خبری دوں ۔ اور دیکھ جس دن تک یہ باتیں واقع نہ ہولیں تو چپکا رہے گا اور بول نہ سکے گا اس لیئے کہ تو نے میری باتوں کا جو اپنے وقت پر پوری ہوں گی یقین نہ کیا ۔ ( یہ بیان قرآن سے مختلف ہے ۔ قرآن اسے نشانی قرار دیتا ہے اور لوقا کی روایت اسے سزا کہتی ہے ۔ نیز قرآن صرف تین دن کی خاموشی کا ذکر کرتا ہے اور لوقا کہتا ہے کہ اس وقت سے حضرت یحیی کی پیدائش تک حضرت زکریا گونگے رہے ) اور لوگ زکریا کی راہ دیکھتے اور تعجب کرتے تھے کہ اسے مقدس میں کیوں دیر لگی ۔ جب وہ باہر آیا تو ان سے بول نہ سکا ۔ پس انہوں نے معلوم کیا کہ اس نے مقدس میں رویا دیکھی ہے اور وہ ان سے اشارے کرتا تھا اور گونگا ہی رہا ۔ ( لوقا ۔ باب ۔ 1 ۔ آیت 5تا 22 ۔ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:11) خرج علی قومہ۔ اپنی قوم کی طرف نکل آیا۔ المحراب۔ اسم مفرد محاریبجمع۔ کمرہ ۔ بالاخانہ۔ کوٹھڑی۔ اوحی۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ اوحی یوحی ایحاء (افعال) اس نے وحی بھیجی۔ اس نے حکم دیا۔ اس نے اشارہ سے کہا ان کو۔ ان سبحوا۔ سبحوا۔ فعل امر۔ جمع مذکر حاضر۔ کہ تم تسبیح پڑھو۔ تم پاکی بیان کرو۔ تم عبادت کرو۔ بکرۃ۔ دن کا اول حصہ۔ صبح۔ عشیا۔ شام۔ امام راغب (رح) نے اس کے معنی زوال سے لے کر صبح تک کے لکھے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 کیونکہ اس وقت وہ صرف اشاررے ہی سے گفتگو کرسکتے تھے جیسا کہ سورة آل عمران کی آیت میں ہے ” الا رمزا “ مگر اشارے سے بات چیت کرسکو گے) اور لوگوں کو صبح و شام خدا کی تسبیح کا اس لئے حکم دیا گیا کہ خود انہیں علامت ظاہر ہوجانے پر یہی حکم دیا گیا تھا۔ واذ کر ربک کثیر وسیج بالغشی والابکار اور اپنے رب کو بہت یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 11 تا 15 المحراب عبادت کرنے کی جگہ ۔ اوحی اس نے اشارہ کیا۔ سبحوا تسبیح کرو۔ عبادت کرو۔ بکرۃ صبح۔ عشی شام۔ خذ لے لو۔ پکڑو۔ الحکم حکمت و دانئای۔ صبی بچپن۔ حنان شفقت و محبت۔ برا نیکی کرنا۔ جبار سرکشی کرنے والا۔ عصی نافرمان۔ ولد پیدا کیا گیا۔ یبعث دوبارہ اٹھائے گا۔ تشریح : آیت نمبر 11 تا 15 جب حضرت زکریا (علیہ السلام) کی عمر مبارک ایک سو بیس سال کے قریب ہوئی اس وقت آپ نے عاجزی و انکساری سے اللہ کی بارگاہ میں یہ دعا فرمائی کہ اے اللہ مجھے ایک بیٹا عطا فرما دیجیے تاکہ وہ توریت کی تعلیمات کو عام کرسکے اور میرے اسلامی مقصد اور مشن کے لئے میرا صحیح جانشین اور وارث بن سکے۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت جب کہ وہ بڑھاپے کی انتہائی عمر تک پہنچ چکے تھے۔ ان کی بیوی بانجھ تھیں یعنی ظاہری اسباب میں اس کا کوئی امکان نہ تھا کہ اس عمر میں ان کے گھر کوئی اولاد پیدا ہو۔ مگر اللہ نے اپنی قدرت کا اظہار کرتے ہوئے اس ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتوں نے جب اولاد کی خوشخبری سنائی تو اس خبر پر انہیں خوشی کے ساتھ تعجب بھی ہوا۔ انہوں نے عرض کیا الٰہی ! میرے لئے کوئی ایسی نشانی مقرر کردیجیے جس سے مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ میرے گھر ولادت ہونے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کی علامت اور نشانی یہ ہوگی کہ تم تین راتوں تک تندرست ہونے کے باوجود کسی سے بات نہ کرسکو گے۔ جب ایسا ہو سمجھ لینا کہ حمل قرار پا گیا ہے۔ یہ واقعہ جہاں حضرت زکریا (علیہ السلام) کے لئے انتہائی خوشی اور مسرت کا تھا وہیں پوری قوم بنی اسرائیل کے بھی نہایت سکون، خوشی اور مسرت کا پیغام تھا چناچہ جب حضرت زکریا (علیہ السلام) کے لئے یہ وقت آیا اور بات چیت سے زبان رک گئی تو آپ نے اپنی عبادت گاہ سے نکل کر قوم بنی اسرائیل کو اشاروں سے بتایا کہ وہ بھی صبح و شام اللہ کی حمد وثناء کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا (علیہ السلام) کی دعا کو قبول کرتے ہوئے ایک ایسے بیٹے کی خوشخبری عطا فرمائی جن کا نام بھی اللہ تعالیٰ نے خود ہی تجویز کر کے ارشاد فرمایا کہ اس سے پہلے یحییٰ کسی کا بھی نام نہ تھا۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) جو اللہ کے نبی تھے بچپن ہی سے نبوت کی بہت سی خصوصیات کے حامل تھے چناچہ قرآن کریم اور احادیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں فرمایا گیا ہے کہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) بچپن ہی سے نہایت ذہین و ذکی سمجھدار دانا و بینا تھے۔ بچپن کی عمر میں بچے کھیل کود میں لگے رہتے ہیں لیکن حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کا کھیل کود میں دل نہ لگتا تھا انہیں فضول اور غلط باتوں سے سخت نفرت تھی اور جس بات میں سنجیدگی اور وقار نہ ہوتا وہ اس بات کے قریب بھی نہ جاتے تھے ان کا دل پیدائشی طور پر اللہ کے خوف سے بھرا ہوا تھا وہ ہر بات کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ وہ توریت کے ہر حکم پر پوری طرح عمل فرماتے تھے۔ جن باتوں سے پرہیز کرنے کے لئے کہا گیا تھا اس سے پرہیز کرتے تھے۔ نہایت متین، سنجیدہ اور باوقار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی میں اور موت کے بعد بھی سلامتی عطا فرمائی اور قیامت میں بھی ان کو سلامتی عطا کی جائیگی۔ وہ مشکل وقت میں صحیح رائے قائم کرتے اور ہر معاملہ میں صحیح فیصلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فخرج علی قومہ من المحراب فاوحی ال یھم ان سبحوا بکرہ و عشیا ً (٩١ : ١١) ” چناچہ وہ محراب سے نکل کر اپنی قوم کے سامنے آیا اور اس نے اشارے سے ان کو ہدایت کی کہ صبح و شام تسبیح کرو۔ “ تاکہ وہ بھی اس فضا اور اس حالت میں داخل ہوجائیں جس وہ داخل ہوچکے ہیں اور وہ بھی ان کے ساتھ اللہ کا شکر ادا کریں کہ اللہ نے اس پر اور ان پر احسان کیا کیونکہ یہ لڑکا ان کے بعد ان کا امام اور راہنما ہوگا۔ یہاں قرآن مجید زکریا کو حالت خاموشی میں چھوڑ دیتا ہے ، پردہ گرتا ہے ، اور اس منظر کا صفحہ لپیٹ لیا جاتا ہے اور جب دوسرا منظر سامنے آتا ہے تو اس میں خود حضرت یحییٰ چلے آ رہے ہیں اور ان کو عالم بالا سے رب کی ندا آتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِہٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰٓی اِلَیْھِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُکْرَۃً وَّ عَشِیًّا) سو زکریا (علیہ السلام) اپنی قوم پر نکلے یعنی محراب سے باہر آئے عام طور سے نمازی ان کے انتظار میں رہتے تھے جب وہ دروازہ کھولتے تو اندر داخل ہوجاتے اور ان کے ساتھ نماز پڑھ لیتے تھے اور روزانہ صبح شام ایسا ہوتا تھا اپنی بیوی کے استقرار حمل کے بعد حسب عادت محراب کا دروازہ کھولا تھا تو لوگ موجود تھے وہ حسب سابق اندر داخل ہوگئے لیکن آج صورت حال مختلف تھی کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کلام نہیں کرسکتے تھے۔ بولنے پر قدرت نہ ہونے کی وجہ سے انھوں نے اشارہ سے فرمایا کہ صبح و شام حسب سابق نماز پڑھتے رہو۔ (معالم التنزیل ص ١٩٠ ج ٣) لفظ محراب سے اپنے اس زمانہ کی معروف محراب نہیں ہے مطلق نماز کی جگہ یا حجرہ مراد ہے اسی لیے بعض اکابر نے یوں ترجمہ کیا ہے کہ وہ اپنے حجرہ سے نکلے اور یہ ترجمہ سورة آل عمران کی آیت (کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْھَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ ) کے مطابق ہے اور دوسرا ترجمہ یعنی نماز کی جگہ آل عمران کی دوسری آیت (فَنَادَتْہُ الْمَلآءِکَۃُ وَ ھُوَ قَآءِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ ) کے موافق ہے لفظ محراب حرب سے بمعنی جنگ مفعال کے وزن پر ہے صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ عبادت کی جگہ کو محراب اس لیے کہا جاتا ہے کہ عبادت کرنے والا گویا اس میں شیطان سے جنگ کرتا ہے (یعنی شیطان کے وسوسوں اور اس کے مزین کیے ہوئے اعمال کو پس پشت ڈال کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور شیطان دیکھتا ہی رہ جاتا ہے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

9:۔ چناچہ ایسا ہی ہوا۔ جب قدرت خداوندی سے حمل قرار پا گیا۔ تو زکریا (علیہ السلام) سے قوت گویائی سلب ہوگئی۔ اور جب وہ اپنی محراب (عبادت گاہ) سے نکل کر لوگوں کے سامنے ہوئے تو زبان سے کچھ بول نہ سکے اس لیے ہاتھ کے اشارے سے انہیں فرمایا کہ تم سب شکر نعمت کے طور پر صبح شام اللہ کی تسبیح و تقدیس میں لگے رہو۔ ولعلہ (علیہ السلام) کان مامورا بان یسبح شکرا ویامر قومہ (روح ج 16 ص 71) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 1 پھر زکریا (علیہ السلام) اپنی عبادت گاہ سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے اور ان کو اشارے سے سمجھایا گیا کہ تم لوگ حسب معمول صبح اور شام خدا تعالیٰ کی عبادت اور اس کی پاکی بیان کرتے رہو۔ یعنی جو طریقہ تمہاری عبادت کا مقرر ہے اس کو صبح و شام بجا لاتے رہو۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں منہ سے بول نہ سکے نشان ہوا کہ وہ وقت آیا ۔ 12 کہتے ہیں ذکر الٰہی کے لئے زبان چلتی تھی لیکن لوگوں سے بات نہ سکتے تھے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) حضرت دائود کی چوتھی پشت میں تھے ان کی بیوی کی عمر اٹھانوے اور ان کی ننانوے سال تھی ۔ غرض ! حضرت یحییٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور سن شعور کو پہنچے تو ان کو ارشاد ہوا۔