Surat Marium

Surah: 19

Verse: 12

سورة مريم

یٰیَحۡیٰی خُذِ الۡکِتٰبَ بِقُوَّۃٍ ؕ وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡحُکۡمَ صَبِیًّا ﴿ۙ۱۲﴾

[ Allah ] said, "O John, take the Scripture with determination." And We gave him judgement [while yet] a boy

اے یحیی! میری کتاب کو مضبوطی سے تھام لے اور ہم نے اسے لڑکپن ہی سے دانائی عطا فرما دی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Birth of the Boy and His Characteristics This also implies what is not mentioned, that this promised boy was born and he was Yahya. There is also the implication that Allah taught him the Book, the Tawrah which they used to study among themselves. The Prophets who were sent to the Jews used to rule according to the Tawrah, as did the scholars and rabbis among them. He...  was still young in age when Allah gave him this knowledge. This is the reason that Allah mentioned it. Because of how Allah favored him and his parents, He says, يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ ... O Yahya! Hold fast to the Scripture (the Tawrah). Means, "Learn the Book with strength." In other words, learn it well, with zeal and studious effort. ... وَاتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا And We gave him wisdom while yet a child. This means he was given understanding, knowledge, fortitude, diligence and zeal for good and the pursuit of good. He was blessed with these characteristics even though he was young. Allah said,   Show more

پیدائش یحییٰ علیہ السلام ۔ بمطابق بشارت الہٰی حضرت زکریا علیہ السلام کے ہاں حضرت یحییٰ علیہ السلام پیدا ہوئے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تورات سکھا دی جو ان میں پڑھی جاتی تھی اور جس کا احکام نیک لوگ اور انبیاء دوسروں کو بتلاتے تھے اس وقت ان کی عمر بچپن کی ہی تھی اسی لئے اپنی اس انوکھی نعمت کا بھی ذکر...  کیا کہ بچہ بھی دیا اور اسے آسمانی کتاب کا عالم بھی بچپن سے ہی کر دیا اور حکم دے دیا کہ حرص اجتہاد کوشش اور قوت کے ساتھ کتاب اللہ سیکھ لے ۔ ساتھ ہی ہم نے اسے اسی کم عمری میں فہم وعلم ، قوت وعزم ، دانائی اور حلم عطا فرمایا نیکیوں کی طرف بچپن سے ہی جھک گئے اور کوشش وخلوص کے ساتھ اللہ کی عبادت اور مخلوق کی خدمت میں لگ گئے ۔ بچے آپ سے کھیلنے کو کہتے تھے مگر یہ جواب پاتے تھے کہ ہم کھیل کے لئے پیدا نہیں کئے گئے ۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کا وجود حضرت زکریا علیہ السلام کے لئے ہماری رحمت کا کرشمہ تھا جس پر بجز ہمارے اور کوئی قادر نہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بھی مروی ہے ۔ کہ واللہ میں نہیں جانتا کہ حنان کا مطلب کیا ہے لغت میں محبت شقفت رحمت وغیرہ کے معنی میں یہ آتا ہے بہ ظاہر یہ مطلب معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے اسے بچپن سے ہی حکم دیا اور اسے شفقت ومحبت اور پاکیزگی عطا فرمائی ۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ اسک شخص جہنم میں ایک ہزار سال تک یا حنان یا منان پکارتا رہے گا پس ہر میل کچیل سے ہر گناہ اور معصیت سے آپ بچے ہوئے تھے ۔ صرف نیک اعمال آپ کی عمر کا خلاصہ تھا آپ گناہوں سے اور اللہ کی نافرمانیوں سے یکسو تھے ساتھ ہی ماں باپ کے فرمابردار اطاعت گزار اور ان کے ساتھ نیک سلوک تھے کبھی کسی بات میں ماں باپ کی مخالفت نہیں کی کبھی ان کے فرمان سے باہر نہیں ہوتے کبھی ان کی روک کے بعد کسی کام کو نہیں کیا کوئی سرکشی کوئی نافرمانی کی خو آپ میں نہ تھی ۔ ان اوصاف جمیلہ اور خصائل حمیدہ کے بدلے تینوں حالتوں میں آپ کو اللہ کی طرف سے امن وامان اور سلامتی ملی ۔ یعنی پیدائش والے دن موت والے دن اور حشر والے دن ۔ یہی تینوں جگہیں گھبراہٹ کی اور انجان ہوتی ہیں ۔ انسان ماں کے پیٹ سے نکلتے ہی ایک نئی دنیا دیکھتا ہے جو اس کی آج تک کی دنیا سے عظیم الشان اور بالکل مختلف ہوتی ہے موت والے دن اس مخلوق سے وابسطہ پڑتا ہے جس سے حیات میں کبھی بھی واسطہ نہیں پڑا انہیں کبھی نہ دیکھا ۔ محشروالے دن بھی علی ہذالقیاس اپنے تئیں ایک بہت بڑے مجمع میں جو بالکل نئی چیز ہے دیکھ کر حیرت زدہ ہو جاتا ہے ۔ پس ان تینوں وقتوں میں اللہ کی طرف سے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو سلامتی ملی ۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمام لوگ قیامت کے دن کچھ نہ کچھ گناہ لے کر جائیں گے سوائے حضرت یحییٰ علیہ السلام کے ۔ حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ آپ نے گناہ بھی کبھی نہیں کیا ۔ یہ حدیث مرفوعا اور دوسندوں سے بھی مروی ہے لیکن وہ دونوں سندیں بھی ضغیف ہیں واللہ اعلم ۔ حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام سے فرمانے لگے آپ میرے لئے استغفار کیجئے آپ مجھ سے بہتر ہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام نے جواب دیا آپ مجھ سے بہتر ہیں حضرت عیسی ٰعلیہ السلام نے فرمایا میں نے آپ ہی اپنے اوپر سلام کیا اور آپ پر خود اللہ نے سلام کہا ۔ اب ان دونوں نے ہی اللہ کی فضیلت ظاہر کی ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 یعنی اللہ نے حضرت زکریا (علیہ السلام) کو یٰحیٰی (علیہ السلام) عطا فرمایا اور جب وہ کچھ بڑا ہوا، گو ابھی بچہ ہی تھا، اس اللہ نے کتاب کو مضبوطی سے پکڑنے یعنی اس پر عمل کرنے کا حکم دیا۔ کتاب سے مراد تورات ہے یا ان پر مخصوص نازل کردہ کوئی کتاب ہے جس کا ہمیں علم نہیں۔ 12۔ 2 حُکْم سے مراد دانائی، ع... قل، شعور، کتاب میں درج احکام دین کی سمجھ، علم وعمل کی جامعیت یا نبوت سے مراد ہے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ اس امر میں کوئی مانع نہیں ہے کہ حکم میں یہ ساری ہی چیزیں داخل ہوں۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣] سیدنا یحییٰ کے اوصاف :۔ یعنی اللہ کی کتاب کو خود بھی سیکھو دوسروں کو بھی سکھاؤ۔ اس کے احکام پر خود بھی پوری طرح عمل کرو دوسروں کو بھی اس کی دعوت دو ۔ یہی وہ مشن تھا جس کے لئے سیدنا زکریا ( علیہ السلام) نے دعا کی تھی۔ چناچہ اللہ نے سیدنا یحییٰ کو سن رشد پر پہنچتے ہی منصب نبوت پر سرفراز فرما کر ... یہ حکم دے دیا تھا۔ اور ساتھ ہی قوت فیصلہ، قوت اجتہاد، تفقہ فی الدین، معاملات میں صحیح رائے قائم کرنے کی صلاحیت اور معاملات میں فیصلہ کرنے کا اختیار بھی دے دیا گیا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰــيَحْـيٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے بہت سی وہ باتیں چھوڑ دیں جو خود ہی سمجھ میں آجاتی ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ یحییٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے، کچھ سمجھدار ہوئے تو والد کے جانشین کے طور پر تیار کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ اے یحییٰ ! تورات کو قوت کے ساتھ پکڑ... و، یعنی اسے حفظ کرو، معانی و مطالب سمجھو، اس پر عمل کرو اور اس کے احکام پوری قوت کے ساتھ اپنے آپ پر اور پوری قوم پر نافذ کرو۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں بچپن ہی میں فیصلہ کرنے کی قوت عطا فرما دی اور وہ نو عمری ہی میں اپنے والد کے علم و فضل، بنی اسرائیل کی سیادت اور وحی و نبوت کے وارث بن گئے اور پوری قوت سے بنی اسرائیل کو تورات پڑھانے اور فیصلے کرنے لگے۔ والد کمزور تھے اور یہ نوجوان، سو والد کی جگہ لوگوں کو کتاب کا علم سکھانے لگے۔ اگر کوئی کہے کہ بچپن میں یہ کیسے ہوسکتا ہے تو جواب اس کا یہ ہے کہ نبوت کا سارا معاملہ خرق عادت یعنی دنیا کے عام معمول، عادت اور دستور کے خلاف ہوتا ہے، اس لیے اس خرق عادت پر بھی تعجب نہیں ہونا چاہیے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰــيَحْـيٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّۃٍ۝ ٠ۭ وَاٰتَيْنٰہُ الْحُكْمَ صَبِيًّا۝ ١٢ۙ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ... ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو قوی القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] ( ق وو ) القوۃ یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسرعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ حكم والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] ( ح ک م ) حکم الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔ صبا الصَّبِيُّ : من لم يبلغ الحلم، ورجل مُصْبٍ : ذو صِبْيَانٍ. قال تعالی: قالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] . وصَبَا فلان يَصْبُو صَبْواً وصَبْوَةً : إذا نزع واشتاق، وفعل فعل الصِّبْيَانِ. قال : أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُنْ مِنَ الْجاهِلِينَ [يوسف/ 33] ، وأَصْبَانِي فصبوت، والصَّبَا : الرّيح المستقبل للقبلة . وصَابَيْتُ السّيف : أغمدته مقلوبا، وصَابَيْتُ الرّمح : أملته، وهيّأته للطّعن . والصَّابِئُونَ : قوم کانوا علی دين نوح، وقیل لكلّ خارج من الدّين إلى دين آخر : صَابِئٌ ، من قولهم : صَبَأَ نابُ البعیر : إذا طلع، ومن قرأ : صَابِينَ «2» فقد قيل : علی تخفیف الهمز کقوله : لا يَأْكُلُهُ إِلَّا الْخاطِؤُنَ «3» [ الحاقة/ 37] ، وقد قيل : بل هو من قولهم : صَبَا يَصْبُو، قال تعالی: وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصاری[ الحج/ 17] . وقال أيضا : وَالنَّصاری وَالصَّابِئِينَ [ البقرة/ 62] . ( ص ب و ) الصبی نابالغ لڑکا رجل مصب عیال دار جس کے بچے نابالغ ہوں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] ( وہ بولے کہ ) ہم اس سے جو کہ گود کا بچہ ہے کیونکر بات کریں ۔ صبا فلان یصبو صبوا وصبوۃ کسی چیز کی طرف مائل ہوکر بچوں کے سے کام کرنے لگا قرآن میں ہے : ۔ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُنْ مِنَ الْجاهِلِينَ [يوسف/ 33] تو میں ان کی طرف مائل ہوجاؤ نگا اور نادانوں میں داخل ہوجاؤ نگا ۔ اصبانی فصبوت اس نے مجھے گرویدہ کیا چناچہ میں گر ویدہ ہوگیا ۔ الصبا ۔ پروائی ہوا ۔ صابیت السیف الٹی تلوار نیام میں ڈالی ۔ صابیت الرمح نیزہ مارنے کے لئے جھکا دیا ۔ الصابئون ایک فرقے کا نام ہے جو نوح (علیہ السلام) کے دین پر ہونے کا مدعی تھا اور ہر وہ آدمی جو ایک دین کو چھوڑ کر دوسرے دین میں داخل ہوجائے اسے صابئی کہا جاتا ہے صباء ناب البعیر کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں اونٹ کے کچلی نکل آئی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصاری[ الحج/ 17] اور ستارہ پرست اور عیسائی ۔ وَالنَّصاری وَالصَّابِئِينَ [ البقرة/ 62] اور عیسائی یا ستارہ پرست ۔ اور ایک قرات میں صابین ( بدوں ہمزہ کے ) ہے بعض نے کہا ہے کہ ہمزہ تخفیف کے لئے حزف کردیا گیا ہے جیسا کہ آیت : ۔ لا يَأْكُلُهُ إِلَّا الْخاطِؤُنَ «3» [ الحاقة/ 37] جس کو گنہگاروں کے سوا کوئی نہیں کھائے گا ۔ میں الخاطون اصل میں خاطئون ہے ۔ اور بعض نے کہا نہیں بلکہ یہ صبا یصبو سے مشتق ہے جس کے معنی مائل ہونا اور جھکنا کے ہیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢۔ ١٣۔ ١٤) پھر یحییٰ (علیہ السلام) نے جس وقت بالغ ہوئے اور سن شعور کو پہنچ گئے تو الہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ اے یحییٰ کتاب توریت میں جو احکامات ہیں ان کی پوری کوشش اور پابندی کے ساتھ پیروی کرو اور ہم نے یحییٰ (علیہ السلام) کو لڑکپن ہی میں عقل وعلم عطا کیا تھا اور خاص اپنی طرف سے ان کے والدین کے...  لیے رحمت اور صلہ رحمی یا یہ کہ ان کو دین میں صلاحیت عطا کی تھی۔ اور وہ اپنے رب کے بڑے تابعدار اور اپنے والدین کے بڑے خدمت گزار تھے اور وہ دین میں نافرمانی کرنیوالے اور غصہ میں قتل کرنے والے اور اپنے پروردگار کی نافرمانی کرنے والے نہیں تھے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ (یٰیَحْیٰی خُذِ الْکِتٰبَ بِقُوَّۃٍ ) کتاب سے مراد یہاں زبور ‘ تورات اور دیگر صحائف ہیں جو اس وقت بنی اسرائیل کے درمیان موجود تھے۔ (وَاٰتَیْنٰہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا) اب حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) کے خصوصی اوصاف بیان کیے جا رہے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اور حضرت یحییٰ ( علیہ ... السلام) (John The Baptist and Jesus of Nazarat) دونوں ایسی غیر معمولی شخصیات ہیں کہ ان جیسے اوصاف دوسرے انبیاء و رسل ( علیہ السلام) میں بھی نہیں پائے گئے۔ چناچہ حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) کو بچپن ہی میں حکمت عطا کردی گئی۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

9. The details regarding the birth of Prophet John (peace be upon him), according to the divine will, and his coming of age, have been left out. Here, in one sentence, the mission of Prophethood entrusted to him on attaining maturity has been stated, which was to observe and follow the Torah in letter and spirit, and to exhort the Israelites as well to do the same. 10. The Arabic word hukm implie... s ability (1) to make decisions, (2) to form right opinions, (3) to interpret the divine law, (4) to solve problems, and (5) it also means authority from Allah to decide affairs.  Show more

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :9 بیچ میں یہ تفصیل چھوڑ دی گئی ہے کہ اس فرمان الہی کے مطابق حضرت یحیی پیدا ہوئے اور جوانی کی عمر کو پہنچے ۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ جب وہ سن رشد کو پہنچے تو کیا کام ان سے لیا گیا ۔ یہاں صرف ایک فقرے میں اس مشن کو بیان کر دیا گیا ہے جو منصب نبوت پر مامور کرتے وقت ان کے ... سپرد کیا گیا تھا ۔ یعنی وہ توراۃ پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوں اور بنی اسرائیل کو اس پر قائم کرنے کی کوشش کریں ۔ سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :10 حکم یعنی قوت فیصلہ ، قوت اجتہاد ، تفقہ فی الدین معاملات میں صحیح رائے قائم کرنی کی صلاحیت اور اللہ کی طرف سے معاملات میں فیصلہ دینے کا اختیار ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

8: کتاب سے مراد تورات ہے، اور مضبوطی کے ساتھ تھامنے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر خود بھی پورا پورا عمل کرو۔ اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٢۔ ١٤۔ مطلب کو مختصر کرنے کے لیے یہاں اتنی عبادت کو حذف کردیا گیا ہے کہ زکریا ( علیہ السلام) کو یحییٰ (علیہ السلام) کے پیدا ہونے کی خوشخبری جو دی گئی تھی اس کے موافق یحییٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور حضرت عبداللہ بن (رض) عباس کے قول کے موافق جب سات برس کی عمر کو پہنچ گئے تو ان کو یہ حکم ہوا کہ اے ی... حییٰ توریت کے احکام کے موافق تم خود بھی مستعدی سے عمل کرو اور بنی اسرائیل کو بھی ان احکام کا پابند رکھو اگرچہ اس میں اختلاف ہے کہ کتنی عمر میں یحییٰ (علیہ السلام) کو احکام توریت کے موافق عمل کرنے کا حکم ہوا لیکن ترمذی میں سبرہ بن معبد جہینی کی صحیح حدیث ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب لڑکا سات برس کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کو نماز کی تاکید کرو ١ ؎ اس صحیح حدیث سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سات برس کی عمر میں لڑکا اس قابل ہوجاتا ہے کہ اس کو احکام شرع کا پابند کیا جاسکتا ہے۔ حنانا کے معنے اکثر سلف نے رحمتہ کے لیے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے زکریا (علیہ السلام) کو صاحب اولاد کیا اور پھر یحییٰ (علیہ السلام) کو چھوٹی عمر میں نبوت دی بعضے سلف نے حنانا کے معنے شوق کے لیے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یحییٰ (علیہ السلام) کو نیک کام کا شوق دیا تھا ترجمہ میں بھی یہی قول لیا گیا ہے۔ زکوٰۃ کے معنے یہاں پاکیزگی کے ہیں قتادہ کے قول کے موافق جس کا مطلب یہ ہے کہ یحییٰ (علیہ السلام) عمر بھر ہر طرح کے گناہوں سے پاک رہے آگے اللہ تعالیٰ نے یحییٰ (علیہ السلام) کی یہ تعریف فرمائی کہ وہ پرہیزگار اور ماں باپ کے فرمانبردار تھے کسی طرح کی جبرو زیادتی یا بےحکمی ان کی عادت میں نہ تھی سفیان بن عیینہ کا قول ہے کہ پیدا ہونے والے دن عالم ارواح سے دنیا میں آنے اور مرنے والے دن قبر کی تنہائی کی اور حشر کے دن اس دن کی سختیوں کی انسان کو پریشانی ہوتی ہے اس لیے فرمایا کہ یحییٰ (علیہ السلام) ان تینوں دن کی پریشانی سے امن میں ہیں نبی بن کر پیدا ہوئے شہید ہو کر مرے اور اسی حال میں حشر کے دن اٹھیں گے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے اپنی فرما نبرداری کے ساتھ کئی جگ ماں باپ سے اچھی طرح پیش آنے کا ذکر فرمایا ہے جس سے ماں باپ کا رتبہ اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے اسی واسطے صحیح مسلم کو ابوہریرہ (رض) کی روایت میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اپنے بوڑھے ماں باپ یا ان دونوں میں سے ایک کو زندہ پاوے اور پھر ان کی خدمت کر کے اس کے اجر میں جنت نہ حاصل کرے تو ایسا شخص بڑا بدنصیب ہے ٢ ؎۔ صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے دوسری رویت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص لوگوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کا برتاؤ کرے گا اس کی نیکیاں چھین کر قیامت کے دن مظلوموں کو دے دی جائیں گی ٣ ؎۔ ان آیتوں میں تعریف کے طور پر اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا کہ یحییٰ (علیہ السلام) کی کسی پر ظلم و زیادتی کرنے کی عادت نہ تھی اس کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا میں جو لوگوں اس عادت کے پابند نہیں وہ قیامت کے دن اپنی نیکیاں ہاتھ سے کھو بیٹھیں گے۔ ١ ؎ جامع ترمذی ص ٥٤ ج اباب ماجاء متی یومر الصبی بالصلوٰۃ۔ ٢ ؎ صحیح مسلم ص ٣١٤ ج ٢ باب تقدیم برالو الدین الخ۔ ٣ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٣٥ باب الظلم۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:12) الحکم۔ حکمت ، دانائی۔ فراست، عقل وفہم۔ صبیا۔ بچہ۔ لڑکا۔ وہ بچہ جو بلوغ کو نہ پہنچا ہو۔ صبا۔ یصبوا صبو صبو وصبائ۔ مصدر۔ بچپن کی طرف مائل ہونا۔ بچوں کی خصلت والا۔ صبی بروزن فعیلصفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ اس کی جمع صبیان۔ صبیۃ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی جب یحییٰ پیدا ہونے کے بعد سوچنے سمجھنے کی عمر کو پہنچے تو ہم نے انہیں حکم دیا ” اے یحییٰ …(شوکانی) 12 سمجھ یعنی کتاب کو سمجھنے اور اس کے احکام کے مطابق تمام معاملات میں صحیح رائے قائم کرنے ک صلاحیت بعض مفسرین نے حکم سے مراد نبوت بھی لی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے عام عادت کے خلاف حضرت یحییٰ کو ... بچپن ہی سے نبوت عطا فرمائی (ابن کثیر) شاہ صاحب لکھتے ہیں : باپ ضعیف تھے اور یہ جوان پس یہ باپ کی جگہ لوگوں کو علم کتاب سکھانے لگے (موضح)13 یعنی اخلاق و کردار کی پاکیزگی جو گناہوں سے بچے رہنے سے حاصل ہوتی ہے۔14 اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ کو ہر گناہ سے بچایا تھا۔ حدیث میں ہے کہ انہوں نے نہ کبھی گناہ کیا اور نہ گناہ کا ارادہ کیا۔ (فتح القدیر)15 یعنی خود سر اور مغرور حالانکہ بڑی امنگوں کے بعد پیدا ہونے والی اولاد عموماً ایسی ہوتی ہے لیکن یحییٰ ایسے نہ تھے۔ (موضح)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی توریت کہ اس وقت وہی کتاب شریعت تھی، اور انجیل کا نزول بعد میں ہوا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو ہدایات : قرآن مجید کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یحییٰ (علیہ السلام) کو بچپن میں نبوت کے منصب پر فائز کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے کتاب سے سرفراز فرمایا تھا۔ کیونکہ اس آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ ہم نے اسے بچپن میں ہی حکمت و دانائی اور قوت فیصلہ عنایت کی تھی...  اور انھیں حکم دیا تھا کہ کتاب اللہ کو فکری اور عملی طور پر پوری قوت کے ساتھ پکڑے رکھنا یعنی اس کے ابلاغ، نفاذ اور اس پر عمل کرنے میں آپ سے دانستہ طور پر سستی اور کوتاہی سرزد نہیں ہونا چاہیے۔ قرآن مجید کے ظاہری الفاظ سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ یحییٰ (علیہ السلام) کو بچپن میں یہ چیزیں عنایت کی گئیں تھیں۔ قریب قریب اس طرح کے الفاظ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں بھی استعمال ہوئے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ ارشاد ہے کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بچپن میں ہی رشد و ہدایت سے سرفراز فرمایا تھا اور ہم ابراہیم کو اچھی طرح جاننے والے ہیں۔ (الانبیاء : ٥١) اس کا مفہوم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان سے سمجھنا چاہیے آپ نے فرمایا کہ مجھے اس وقت نبوت عطا کی گئی تھی جب آدم (علیہ السلام) کا خمیر اٹھایا جا رہا تھا۔ حالانکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پہلی وحی ٤٠ سال کے بعد نازل ہوئی تھی۔ لہٰذا یہ بات حقیقت کے قریب لگتی ہے کہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو بچپن کی عمر میں نہیں، بلکہ باضابطہ طور پر بھرپور جوانی کے عالم میں نبوت سے سرفراز کیا گیا تھا۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے بارے میں روایات موجود ہیں کہ انھیں ٣٥ سال کے بعد کتاب عنایت کی گئی تھی۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی کتاب میں انہی باتوں پر زور دیا گیا تھا جو ہمیشہ سے آسمانی کتب اور ہر نبی کی نبوت کا مرکزی پیغام رہا ہے۔ کیونکہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے نبی ہیں جن کی شریعت کے بنیادی اصولوں کا تذکرہ سورة البقرۃ میں یوں کیا گیا ہے۔ (وَإِذْ أَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ إِلَّا اللّٰہَ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنِ وَقُوْلُوا للنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِیمُوْا الصَّلَاۃَ وَاٰتُوا الزَّکَاۃَ ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ إِلَّا قَلِیْلاً مِنْکُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُوْنَ ) [ البقرۃ : ٨٣] ” اور یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ وعدہ لیا تھا کہ نہ عبادت کرنا اللہ کے سوا۔ اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرنا نیز رشتہ داروں ‘ یتیموں اور مسکینوں سے بھی حسن سلوک کا مظاہرہ کرنا، لوگوں سے اچھی باتیں کہنا اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا مگر سب نے منہ موڑ لیا صرف چند آدمی تم سے ثابت قدم رہے۔ تم تو رو گردانی کرنے والے ہو۔ “ جب حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو منصب نبوت پر فائز کیا گیا تو انہیں کتاب پر پوری تندہی سے عمل کرنے کی تلقین کی گئی آپ کی زندگی بتاتی ہے کہ آپ نے اس حکم خداوندی کی تعمیل کا حق ادا کردیا۔ دورافتادہ آبادیوں، صحراؤں اور دشوار گزار پہاڑوں میں جا جا کر لوگوں کو پیغام حق سنایا اور انہیں گناہوں سے تائب ہونے کی ترغیب دی۔ بیشمار لوگ آپ کی تبلیغ کی برکت سے راہ حق پر آگئے۔ فسق وفسجور کی زندگی ترک کرکے زہدو تقویٰ کو اپنا شعار بنایا۔ قوم کے ہر طبقہ کو آپ نے ان کی کوتاہیوں اور خامیوں پر متنبہ کیا۔ بنی اسرائیل کے جو علماء دنیا کی محبت میں گرفتار ہوچکے تھے اور احکام الٰہی کی تحریف میں کوئی جھجک محسوس نہ کرتے تھے انہیں بڑی سختی سے جھنجھوڑا۔ (أَنَّ الْحَارِثَ الأَشْعَرِیَّ حَدَّثَہُ أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ اللَّہَ أَمَرَ یَحْیَی بْنَ زَکَرِیَّا بِخَمْسِ کَلِمَاتٍ أَنْ یَعْمَلَ بِہَا وَیَأْمُرَ بَنِی إِسْرَاءِیلَ أَنْ یَعْمَلُوا بِہَا وَإِنَّہُ کَادَ أَنْ یُبْطِءَ بِہَا فَقَال عیسَی إِنَّ اللَّہَ أَمَرَکَ بِخَمْسِ کَلِمَاتٍ لِتَعْمَلَ بِہَا وَتَأْمُرَ بَنِی إِسْرَاءِیلَ أَنْ یَعْمَلُوا بِہَا فَإِمَّا أَنْ تَأْمُرَہُمْ وَإِمَّا أَنَا آمُرُہُمْ فَقَالَ یَحْیَی أَخْشَی إِنْ سَبَقْتَنِی بِہَا أَنْ یُخْسَفَ بِی أَوْ أُعَذَّبَ فَجَمَعَ النَّاسَ فِی بَیْتِ الْمَقْدِسِ فَامْتَلأَ الْمَسْجِدُ وَقَعَدُوا عَلَی الشُّرَفِ فَقَالَ إِنَّ اللَّہَ أَمَرَنِی بِخَمْسِ کَلِمَاتٍ أَنْ أَعْمَلَ بِہِنَّ وَآمُرَکُمْ أَنْ تَعْمَلُوا بِہِنَّ أَوَّلُہُنَّ أَنْ تَعْبُدُوا اللَّہَ وَلاَ تُشْرِکُوا بِہِ شَیْءًا وَإِنَّ مَثَلَ مَنْ أَشْرَکَ باللَّہِ کَمَثَلِ رَجُلٍ اشْتَرَی عَبْدًا مِنْ خَالِصِ مَالِہِ بِذَہَبٍ أَوْ وَرِقٍ فَقَالَ ہَذِہِ دَارِی وَہَذَا عَمَلِی فَاعْمَلْ وَأَدِّ إِلَیَّ فَکَانَ یَعْمَلُ وَیُؤَدِّی إِلَی غَیْرِ سَیِّدِہِ فَأَیُّکُمْ یَرْضَی أَنْ یَکُونَ عَبْدُہُ کَذَلِکَ وَإِنَّ اللَّہَ أَمَرَکُمْ بالصَّلاَۃِ فَإِذَا صَلَّیْتُمْ فَلاَ تَلْتَفِتُوا فَإِنَّ اللَّہَ یَنْصِبُ وَجْہَہُ لِوَجْہِ عَبْدِہِ فِی صَلاَتِہِ مَا لَمْ یَلْتَفِتْ وَآمُرُکُمْ بالصِّیَامِ فَإِنَّ مَثَلَ ذَلِکَ کَمَثَلِ رَجُلٍ فِی عِصَابَۃٍ مَعَہُ صُرَّۃٌ فیہَا مِسْکٌ فَکُلُّہُمْ یَعْجَبُ أَوْ یُعْجِبُہُ ریحُہَا وَإِنَّ ریح الصَّاءِمِ أَطْیَبُ عِنْدَ اللَّہِ مِنْ ریحِ الْمِسْکِ وَآمُرُکُمْ بالصَّدَقَۃِ فَإِنَّ مَثَلَ ذَلِکَ کَمَثَلِ رَجُلٍ أَسَرَہُ الْعَدُوُّ فَأَوْثَقُوا یَدَہُ إِلَی عُنُقِہِ وَقَدَّمُوہُ لِیَضْرِبُوا عُنُقَہُ فَقَالَ أَنَا أَفْدِیہِ مِنْکُمْ بالْقَلِیلِ وَالْکَثِیرِفَفَدَی نَفْسَہُ مِنْہُمْ وَآمُرُکُمْ أَنْ تَذْکُرُوا اللَّہَ فَإِنَّ مَثَلَ ذَلِکَ کَمَثَلِ رَجُلٍ خَرَجَ الْعَدُوُّ فِی أَثَرِہِ سِرَاعًا حَتَّی إِذَا أَتَی عَلَی حِصْنٍ حَصِینٍ فَأَحْرَزَ نَفْسَہُ مِنْہُمْ کَذَلِکَ الْعَبْدُ لاَ یُحْرِزُ نَفْسَہُ مِنَ الشَّیْطَانِ إِلاَّ بِذِکْرِ اللَّہِ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَأَنَا آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ اللَّہُ أَمَرَنِی بِہِنَّ السَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ وَالْجِہَادُ وَالْہِجْرَۃُ وَالْجَمَاعَۃُ فَإِنَّہُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ قیدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَۃَ الإِسْلاَمِ مِنْ عُنُقِہِ إِلاَّ أَنْ یَرْجِعَ وَمَنِ ادَّعَی دَعْوَی الْجَاہِلِیَّۃِ فَإِنَّہُ مِنْ جُثَا جَہَنَّمَ فَقَالَ رَجُلٌ یَا رَسُول اللَّہِ وَإِنْ صَلَّی وَصَامَ قَالَ وَإِنْ صَلَّی وَصَامَ فَادْعُوا بِدَعْوَی اللَّہِ الَّذِی سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِینَ الْمُؤْمِنِینَ عِبَاد اللَّہِ ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی مَثَلِ الصَّلاَۃِ وَالصِّیَامِ وَالصَّدَقَۃِ ] ” حارث الاشعری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے یحییٰ بن زکریا کو پانچ کلمات پر عمل کرنے کا اور بنی اسرائیل کو عمل کروانے کا حکم دیا ہے۔ قریب تھا کہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) اس میں تاخیر کرتے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں یاد دلاتے ہوئے کہا کہ اللہ نے آپ کو پانچ کلمات سونپے ہیں اور ان پر عمل کرنے کا اور عمل کروانے کا حکم دیا ہے۔ یا تو ان کلمات سے آپ لوگوں کو آگاہ کریں یا میں کرتا ہوں مجھے ڈر ہے کہیں سستی کی بنیاد پر اللہ کا عذاب ہم پر مسلط نہ ہوجائے یا اللہ ہمیں زمین میں نہ دھنسا دے۔ انہوں نے لوگوں کو بیت المقدس میں جمع کیا جب مسجد لوگوں سے بھر گئی تو بلند مقام پر بیٹھ کر انہیں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے کہا اللہ نے مجھے پانچ کلمات پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے اور ذمہ داری عائد کی ہے کہ تمہیں بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دوں۔ وہ پانچ باتیں یہ ہیں۔ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے اس کی مثال اس آدمی کی ہے جس نے اپنے خالص مال سونے اور چاندی سے ایک غلام خریدا اور اسے کہا یہ میرا گھر ہے اور یہ میرا کام ہے۔ کام کرو اور اس کا معاوضہ مجھے دو ۔ وہ غلام مزدوری کر کے مزدوری اپنے مالک کے سوا کسی اور آدمی کو دیتا ہے۔ تم میں ایسے غلام پر کون راضی ہوگا ؟ اسی طرح اللہ نے تمہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ جب تم نماز پڑھو تو نماز میں ادھر ادھر نہ جھانکو۔ جب تک کوئی انسان پوری توجہ سے نماز پڑھتا رہتا ہے اللہ اس کی طرف پوری طرح متوجہ رہتے ہیں، اور میں تمہیں روزے رکھنے کا حکم دیتا ہوں روزہ رکھنے والے کی مثال اس آدمی کی سی ہے جو کسی جماعت کے ساتھ ہو اور اس کے پاس کستوری کی ایک تھیلی ہو۔ جماعت میں سے ہر آدمی اس کی خوشبو کو پسند کرے گا اور وہ بھی اسے پسند کرے گا اور بیشک روزے دار کے منہ کی خوشبو۔ اللہ کے ہاں کستوری سے بڑھ کر ہے۔ میں تمہیں صدقہ دینے کا حکم دیتا ہوں بیشک جو آدمی صدقہ دیتا ہے اس کی مثال اس آدمی کی سی ہے جس کو دشمن نے قید کرلیا اور مضبوطی سے اس کے ہاتھ اس کی گردن پر باندھ دیے اور اس کی گردن تن سے جدا کرنے کے لیے آگے بڑھے تو اس نے کہا میں تمہیں تھوڑا بہت فدیہ دیتا ہوں۔ وہ اس سے فدیہ قبول کرلیتا ہے۔ اور میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ تم ہر حال میں اللہ کو یاد رکھو بیشک جو آدمی اللہ کے ذکر میں مصروف رہتا ہے اس کی مثال اس آدمی کی سی ہے جس کی کھوج میں دشمن لگا ہوا ہے یہاں تک کہ وہ قلعے میں داخلہ ہو کر اپنے اپنا کو بچا لیتا ہے اسی طرح انسان اپنے آپ کو اللہ کے ذکر کے بغیر شیطان سے نہیں بچا سکتا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں بھی تمہیں پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور یہ پانچ چیزوں وہ ہیں جن کا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے 1 امیر کی بات سننا 2 اطاعت امیر 3 جہاد 4 ہجرت 5 جماعت کے ساتھ منسلک رہنا۔ جو آدمی جماعت کو چھوڑ کر ایک بالشت ادھر ادھر ہوا اس نے اپنی گردن سے اسلام کے طوق کو اتار دیا الا کہ وہ جماعت میں واپس آجائے اور جس نے جاہلیت کا دعویٰ کیا وہ جہنم کا انگارا بنے گا۔ ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگرچہ وہ نماز پڑھتا ہو روزہ رکھتا ہو۔ آپ نے فرمایا اگرچہ نماز روزے کا پابند ہو۔ میں تمہیں ان چیزوں کی دعوت دیتا ہوں جن کی دعوت دینے کا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے۔ اللہ وہ ہے جس نے تمہارا نام مسلمان، مؤمن اور اللہ کے بندے رکھا ہے۔ “ کتاب اللہ کے بارے میں سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اپنی امت کو ہدایت : ” حضرت مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہیں یہ حدیث پہنچی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جب تک ان کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہیں ہو گے ایک اللہ کی کتاب ہے اور دوسری اس کے نبی کی سنت۔ “ [ موطا امام مالک : باب النَّہْیِ عَنِ الْقَوْلِ بالْقَدَرِ ]  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یبحی خذ الکتب بقوۃ (٩١ : ٢١) ” اے یحییٰ کتاب الٰہی کو مضبوط سے تھام لے۔ “ حضرت یحییٰ پیدا بھی ہوئے ، بچپنا گزرا ، جوان ہوئے اور یہ سب کچھ ان دو مناظر کے درمیان گیپ میں ہوگیا۔ یہ قرآن کریم کا مخصوص فنی انداز بیان ہے۔ وہ صے کے اہم حلقوں کو پیش کردیتا ہے جن میں بھرپور زندگی اور ہماہمی ہوتی ہے۔ غیر اہم ... حلقے ذہن انسانی کے لئے چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔ حضرت یحییٰ کو کلمہ ندا کے ساتھ پکارا جاتا ہے اور بعد میں ان سے بات ہوتی ہے کیونکہ آواز دے کر کسی کو پکارنے کا منظر نہایت ہی دلکش منظر ہوتا ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عالم بالا میں حضرت یحییٰ کا مقام کیا ہے ، پھر یہ کہ حضرت زکریا کی دعا کی قبولیت کس قدر اہم واقعہ تھا۔ ان کی دعا ہی یہ تھی کہ ان کا ولی وارث ہونا چاہئے ، جو ان کے بعد ان کا خلیفہ ہو اور منصب خلافت کو اچھی طرح چلائے ، نظریاتی حوالے سے بھی اور خاندانی ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی۔ چناچہ حضرت یحییٰ کو یہ چارج دیا جارہا ہے تاکہ وہ حسب دعا اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ یبحی خذ الکتب بقوۃ (٩١ : ٢١) ” اے یحییٰ کتاب الٰہی کو مضبوطی سے تھام لے۔ “ اس کتاب سے مراد تورات ہے ، جو مسویٰ (علیہ السلام) کے بعد بنی اسرائیل کی کتاب تھی۔ اور انبیاء بنی اسرائیل اسی کتاب کو لے کر چلتے تھے ، اسی پر عمل پیرا ہوتے تھے اور اسی کے مطابق فیصلے کرتے تھے ۔ حضرت یحییٰ اپنے والد زکریا کے وارث تھے ، اس لئے ان کو آواز دی گیء کہ وہ اب اس بوجھ کو اٹھائیں اور قوت اور عزم سے اس امانت کو لے کر اٹھیں اور اس کام میں سستی نہ کریں اور نہ کوئی کمزوری دکھائیں اور اس وراثت کی ذمہ داریوں سے پیچھے نہ ہٹیں۔ اس پکار کے بعد بتایا جاتا ہے کہ اللہ نے یحییٰ کو کیسی شخصیت عطا کی تھی تاکہ وہ منصب خلافت کی ذمہ داریاں ادا کرے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ و اخلاق عالیہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی پیدائش ہوگئی اللہ تعالیٰ نے ان سے خطاب فرمایا (یَا یَحْیٰی خُذِ الْکِتَابَ بِقُوَّۃٍ ) اے یحییٰ کتاب کو مضبوطی کے ساتھ لے لو مفسرین نے فرمایا کہ اس سے توریت شریف مراد ہے چونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد انبیاء بن... ی اسرائیل توریت شریف پر ہی عامل تھے جیسا کہ سورة مائدہ میں فرمایا ہے (یَحْکُمُ بِھَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا) (الآیۃ) لفظ بقوۃ میں خوب اچھی طرح یاد رکھنا بھی آگیا اور عمل کرنے کو بھی یہ لفظ شامل ہوگیا اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو حضرت زکریا (علیہ السلام) کے واسطہ سے خطاب فرمایا پھر فرمایا (وَاٰتَیْنَاہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا) (اور ہم نے یحییٰ کو بچپن ہی کی حالت میں حکم عطا فرما دیا اور یہ ان کی خصوصیت ہے کیونکہ عموماً حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کو چالیس سال کی عمر ہوجانے پر نبوت دی جاتی تھی اگر اس قول کو لیا جائے کہ انھیں بچپن ہی میں نبوت دے دی گئی تھی تو پھر یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہتی کہ (یَا یَحْیٰی خُذِ الْکِتَابَ بِقُوَّۃٍ ) کا خطاب حضرت زکریا (علیہ السلام) کے ذریعہ ہوا۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے حکم سے فہم کتاب مراد ہے اور بعض حضرات نے حکم بمعنی حکمت اور بعض حضرات نے بمعنی فراست صادقہ لیا ہے۔ (ما ذکرہ صاحب الروح ص ٧٢ ج ١٦)  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ اس سے پہلے اندماج ہے کیونکہ یہ حکم تو ان کے پیدا ہونے کے بعد ہی دیا جاسکتا تھا۔ ای فلما ولد و بلغ سنا یومر مثلہ فیہ قلنا ییحی (روح) الکتاب میں الف لام عہد کے لیے ہے اور اس سے مراد تورات ہے۔ کتاب کو قوت سے پکڑنے سے اس پر پورا پورا عمل کرنے کی طرف اشارہ ہے۔ ” و اتینہ الحکم صبیا “۔ الحکم سے حکمت ی... عنی دین کی سمجھ یا عقل یا نبوت مراد ہے انہ الحکمۃ وھو الفہم فی التوراۃ والفقہ فی الدین والثانی قول معمر انہ العقل والثالث انہ النبوۃ و ذلک لان اللہ تعالیٰ بعث یحییٰ و عیسیٰ علیھما السلام و ھما صبیان لا کما بعث موسیٰ و محمدا علیھما السلام۔ وقد بلغا الاشد (کبیر باختصار ج 5 ص 774) ۔ ” حنانا “ یہ ” الحکم “ پر معطوف ہے۔ یعنی رحمت و شفقت۔ ” و زکوۃ “ یہ بھی ” الحکم “ پر معطوف ہے اور اس سے برکت یا طہات اخلاق مراد ہے مطلب یہ کہ ہم نے بچپن ہی میں اس کو دین کی سمجھ یا دانائی یا نبوت عطا کردی۔ اور اسے شفیق و مہربان اور مبارک بنایا۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

12 اے یحییٰ (علیہ السلام) اس کتاب توریت کو مضبوطی کے ساتھ سنبھال کرلو اور ہم نے اس کو بچپنے ہی میں دین کی سمجھ