Surat Marium

Surah: 19

Verse: 15

سورة مريم

وَ سَلٰمٌ عَلَیۡہِ یَوۡمَ وُلِدَ وَ یَوۡمَ یَمُوۡتُ وَ یَوۡمَ یُبۡعَثُ حَیًّا ﴿٪۱۵﴾  4

And peace be upon him the day he was born and the day he dies and the day he is raised alive.

اس پر سلام ہے جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن وہ مرے اور جس دن وہ زندہ کر کے اٹھایا جائے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And Salam (peace) be on him the day he was born, and the day he dies, and the day he will be raised up to life (again)! This means that he had security and safety in these three circumstances. Sufyan bin Uyaynah said, "The loneliest that a man will ever feel is in three situations. The first situation is on the day that he is born, when he sees himself coming out of what he was in. The second situation is on the day that he dies, when he sees people that he will not see anymore. The third situation is on the day when he is resurrected, when he sees himself in the great gathering. Allah has exclusively honored Yahya, the son of Zakariyya, by granting him peace in these situations. Allah says, وَسَلَمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا And Salam (peace) be on him the day he was born, and the day he dies, and the day he will be raised up to life (again)! This narration was reported by Ibn Jarir, from Ahmad bin Mansur Al-Marwazi, from Sadaqah bin Al-Fadl, from Sufyan bin Uyaynah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 تین مواقع انسان کے لئے سخت ودہشت ناک ہوتے ہیں، 1۔ جب انسان رحم مادر سے باہر آتا ہے، 2۔ جب موت کا شکنجہ اسے اپنی گرفت میں لیتا ہے، 3۔ اور جب اسے قبر سے زندہ کر کے اٹھایا جائے گا تو وہ اپنے کو میدان محشر کی ہولناکیوں میں گھرا ہوا پائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان تینوں جگہوں میں اس کیلئے ہماری طرف سے سلامتی اور امان ہے۔ بعض اہل بدعت اس آیت سے یوم ولادت پر عید میلاد " کا جواز ثابت کرتے ہیں لیکن کوئی ان سے پوچھے تو پھر یوم وفات پر عید وفات یا عید ممات " بھی منانی ضروری ہوئی کیونکہ جس طرح یوم ولادت کے لیے سلام ہے یوم وفات کے لیے بھی سلام ہے اگر محض لفظ " سلام " سے عید میلاد " کا اثبات ممکن ہے تو پر اسی لفظ سے " عید وفات " کا بھی اثبات ہوتا ہے لیکن کہاں وفات کی عید تو کجا سرے سے وفات وممات ہی کا انکار ہے یعنی وفات نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کر کے نص قرآنی کا تو انکار کرتے ہی ہیں خود اپنے استدلال کی رو سے بھی آیت کے ایک جز کو تو مانتے ہیں اور اسی آیت کے دوسرے جز سے ان ہی کے استدلال کی روشنی میں جو ثابت ہوتا ہے اس کا انکار ہے۔ (ۭاَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ) 2 ۔ البقرۃ :85) کیا بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦] انسان پر تین ہی مشکل گھڑیاں پیش آتی ہیں۔ جو بہرحال مشکل ہوتی ہیں۔ ایک پیدائش کا وقت اس کے اپنے آپ پر اور اس کی ماں پر۔ دوسرے موت کا وقت اور تیسرے بعث الموت کا وقت گویا اللہ تعالیٰ کی نظروں میں بھی وہ اس قدر پسندیدہ تھے کہ اس دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی کوئی وقت ایسا نہیں آیا یا نہیں آئے گا جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر سلامتی نازل نہ ہوتی ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَسَلٰمٌ عَلَيْهِ ۔۔ : یعنی ان تینوں وقتوں میں وہ ہر پریشانی سے سلامت رہیں گے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” اللہ جو بندے پر سلام کہے اس کا معنی یہ ہے کہ اس پر کچھ پکڑ نہیں۔ “ (موضح) سفیان بن عیینہ (رض) نے فرمایا : ” أَوْحَشُ مَا یَکُوْنُ الْخَلْقُ فِيْ ثَلَاثَۃِ مَوَاطِنَ یَوْمَ یُوْلَدُ فَیَرَی نَفْسَہٗ خَارِجًا مِمَّا کَانَ فِیْہِ وَیَوْمَ یَمُوْتُ فَیَرَی قَوْمًا لَمْ یَکُنْ عَایَنَھُمْ وَیَوْمَ یُبْعَثُ فَیَرَی نَفْسَہٗ فِيْ مَحْشَرٍ عَظِیْمٍ قَالَ فَأَکْرَمَ اللّٰہُ فِیْہَا یَحْیَی بْنَ زَکَرِیًّا فَخَصَّہُ بالسَّلاَمِ عَلَیْہِ “ [ طبري : ٢٣٧٥١، بسند صحیح ]” آدمی سب سے زیادہ خوف زدہ تین مواقع پر ہوتا ہے، جس دن پیدا ہوتا ہے اور اپنے آپ کو اس جگہ سے نکلتے ہوئے دیکھتا ہے جہاں وہ تھا اور جس دن فوت ہوتا ہے اور ایسے لوگوں کو دیکھتا ہے جنھیں اس نے نہیں دیکھا تھا اور جس دن وہ زندہ کیا جائے گا اور اپنے آپ کو بہت بڑے محشر (اکٹھ) میں دیکھے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں وقتوں میں یحییٰ بن زکریا ( علیہ السلام) کو عزت بخشی اور انھیں سلامت رکھنے کی خاص نعمت عطا فرمائی۔ “ یحییٰ (علیہ السلام) کے کچھ اوصاف حمیدہ اس سے پہلے سورة آل عمران (٣٩) میں گزر چکے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَسَلٰمٌ عَلَيْہِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوْتُ وَيَوْمَ يُـبْعَثُ حَيًّا۝ ١٥ۧ سلام السِّلْمُ والسَّلَامَةُ : التّعرّي من الآفات الظاهرة والباطنة، قال : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [ الشعراء/ 89] ، أي : متعرّ من الدّغل، فهذا في الباطن، وقال تعالی: مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها [ البقرة/ 71] ، فهذا في الظاهر، وقد سَلِمَ يَسْلَمُ سَلَامَةً ، وسَلَاماً ، وسَلَّمَهُ الله، قال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال/ 43] ، وقال : ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر/ 46] ، أي : سلامة، وکذا قوله : اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود/ 48] . والسّلامة الحقیقيّة ليست إلّا في الجنّة، إذ فيها بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وصحّة بلا سقم، كما قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : السلام ة، قال : وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس/ 25] ، وقال تعالی: يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة/ 16] ، يجوز أن يكون کلّ ذلک من السّلامة . وقیل : السَّلَامُ اسم من أسماء اللہ تعالیٰ «1» ، وکذا قيل في قوله : لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام/ 127] ، والسَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر/ 23] ، قيل : وصف بذلک من حيث لا يلحقه العیوب والآفات التي تلحق الخلق، وقوله : سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس/ 58] ، سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد/ 24] ، سلام علی آل ياسین «2» كلّ ذلک من الناس بالقول، ومن اللہ تعالیٰ بالفعل، وهو إعطاء ما تقدّم ذكره ممّا يكون في الجنّة من السّلامة، وقوله : وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان/ 63] ، أي : نطلب منکم السّلامة، فيكون قوله ( سلاما) نصبا بإضمار فعل، وقیل : معناه : قالوا سَلَاماً ، أي : سدادا من القول، فعلی هذا يكون صفة لمصدر محذوف . وقوله تعالی: إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات/ 25] ، فإنما رفع الثاني، لأنّ الرّفع في باب الدّعاء أبلغ «3» ، فكأنّه تحرّى في باب الأدب المأمور به في قوله : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء/ 86] ، ومن قرأ سلم «4» فلأنّ السّلام لمّا کان يقتضي السّلم، وکان إبراهيم عليه السلام قد أوجس منهم خيفة، فلمّا رآهم مُسَلِّمِينَ تصوّر من تَسْلِيمِهِمْ أنهم قد بذلوا له سلما، فقال في جو ابهم : ( سلم) ، تنبيها أنّ ذلک من جهتي لکم كما حصل من جهتكم لي . وقوله تعالی: لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة/ 25- 26] ، فهذا لا يكون لهم بالقول فقط، بل ذلک بالقول والفعل جمیعا . وعلی ذلک قوله تعالی: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 91] ، وقوله : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] ، فهذا في الظاهر أن تُسَلِّمَ عليهم، وفي الحقیقة سؤال اللہ السَّلَامَةَ منهم، وقوله تعالی: سَلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات/ 79] ، سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات/ 120] ، سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات/ 109] ، كلّ هذا تنبيه من اللہ تعالیٰ أنّه جعلهم بحیث يثنی __________ عليهم، ويدعی لهم . وقال تعالی: فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ [ النور/ 61] ، أي : ليسلّم بعضکم علی بعض . ( س ل م ) السلم والسلامۃ کے معنی ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [ الشعراء/ 89] پاک دل ( لے کر آیا وہ بچ جائیگا یعنی وہ دل جو دغا اور کھوٹ سے پاک ہو تو یہ سلامت باطن کے متعلق ہے اور ظاہری عیوب سے سلامتی کے متعلق فرمایا : مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها[ البقرة/ 71] اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو ۔ پس سلم یسلم سلامۃ وسلاما کے معنی سلامت رہنے اور سلمۃ اللہ ( تفعیل ) کے معنی سلامت رکھنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال/ 43] لیکن خدا نے ( تمہیں ) اس سے بچالیا ۔ ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر/ 46] ان میں سلامتی اور ( خاطر جمع ) سے داخل ہوجاؤ ۔ اسی طرح فرمایا :۔ اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود/ 48] ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ ۔۔۔ اترآؤ ۔ اور حقیقی سلامتی تو جنت ہی میں حاصل ہوگی جہاں بقائ ہے ۔ فنا نہیں ، غنا ہے احتیاج نہیں ، عزت ہے ذلت نہیں ، صحت ہے بیماری نہیں چناچہ اہل جنت کے متعلق فرمایا :۔ لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے ۔ وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس/ 25] اور خدا سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے ۔ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة/ 16] جس سے خدا اپنی رضامندی پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے ۔ ان تمام آیات میں سلام بمعنی سلامتی کے ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں السلام اسمائے حسنیٰ سے ہے اور یہی معنی آیت لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام/ 127] میں بیان کئے گئے ہیں ۔ اور آیت :۔ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر/ 23] سلامتی امن دینے والا نگہبان ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وصف کلام کے ساتھ موصوف ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جو عیوب و آفات اور مخلوق کو لاحق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے پاک ہے ۔ اور آیت :۔ سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس/ 58] پروردگار مہربان کی طرف سے سلام ( کہاجائیگا ) سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد/ 24] اور کہیں گے ) تم رحمت ہو ( یہ ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے ۔ سلام علی آل ياسین «2» کہ ایسا پر سلام اور اس مفہوم کی دیگر آیات میں سلام علیٰ آیا ہے تو ان لوگوں کی جانب سے تو سلامتی بذریعہ قول مراد ہے یعنی سلام علی ٰ الخ کے ساتھ دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے سلامتی بالفعل مراد ہے یعنی جنت عطافرمانا ۔ جہاں کہ حقیقی سلامتی حاصل ہوگی ۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں اور آیت :۔ وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان/ 63] اور جب جاہل لوگ ان سے ( جاہلانہ ) گفتگو کرتے ہیں ۔ تو سلام کہتے ہیں ۔ مٰیں قالوا سلاما کے معنی ہیں ہم تم سے سلامتی چاہتے ہیں ۔ تو اس صورت میں سلاما منصوب اور بعض نے قالوا سلاحا کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اچھی بات کہتے ہیں تو اس صورت میں یہ مصدر مخذوف ( یعنی قولا ) کی صٖت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات/ 25] جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام کہا ۔ انہوں نے بھی ( جواب میں ) سلام کہا ۔ میں دوسری سلام پر رفع اس لئے ہے کہ یہ باب دعا سے ہے اور صیغہ دعا میں رفع زیادہ بلیغ ہے گویا اس میں حضرت ابراہیم نے اس اد ب کو ملحوظ رکھا ہے جس کا کہ آیت : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء/ 86] اور جب تم کوئی دعا دے تو ( جواب میں ) تم اس سے بہتر ( کا مے) سے ( اسے ) دعا دو ۔ میں ھکم دیا گیا ہے اور ایک قرآت میں سلم ہے تو یہ اس بنا پر ہے کہ سلام سلم ( صلح) کو چاہتا تھا اور حضرت ابراہیم السلام ان سے خوف محسوس کرچکے تھے جب انہیں سلام کہتے ہوئے ۔ ستاتو اس کو پیغام صلح پر محمول کیا اور جواب میں سلام کہہ کر اس بات پر متنبہ کی کہ جیسے تم نے پیغام صلح قبول ہو ۔ اور آیت کریمہ : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة/ 25- 26] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے ار نہ گالی گلوچ ہاں ان کا کلام سلام سلام ( ہوگا ) کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات صرف بذیعہ قول نہیں ہوگی ۔ بلکہ اور فعلا دونوں طرح ہوگئی ۔ اسی طرح آیت :: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 91] تو ( کہا جائیگا کہ ) تم پر پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام میں بھی سلام دونوں معنی پر محمول ہوسکتا ہے اور آیت : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] اور سلام کہدو ۔ میں بظارہر تو سلام کہنے کا حکم ہے لیکن فی الحققیت ان کے شر سے سللامتی کی دعا کرنے کا حکم ہے اور آیات سلام جیسے سلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات/ 79]( یعنی ) تمام جہان میں نوح (علیہ السلام) پر سلام کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام ۔ ۔ سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات/ 120] ابراہیم پر سلام ۔ سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات/ 109] میں اس بات پر تنبیہ ہی کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء ابراہیم کو اس قدر بلند مرتبہ عطا کیا تھا کہ لوگ ہمیشہ ان کی تعریف کرتے اور ان کے لئے سلامتی کے ساتھ دعا کرتے رہیں گے اور فرمایا : فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ [ النور/ 61] اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے ( گھر والوں ) کو سلام کیا کرو ۔ یعنی تم ایک دوسرے کو سلام کہاکرو ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] ، زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] ، ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] ، فالبعث ضربان : - بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة . - وإلهي، وذلک ضربان : - أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس «3» ، وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد . والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] ، يعني : يوم الحشر، وقوله عزّ وجلّ : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] ، أي : قيّضه، وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] ، نحو : أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] ، وقوله تعالی: ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] ، وذلک إثارة بلا توجيه إلى مکان، وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] ، قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] ، وقالعزّ وجلّ : فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] ، والنوم من جنس الموت فجعل التوفي فيهما، والبعث منهما سواء، وقوله عزّ وجلّ : وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] ، أي : توجههم ومضيّهم . ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بھیجنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردیگا کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے ۔ ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] تمہارا پیدا کرنا اور جلا اٹھا نا ایک شخص د کے پیدا کرنے اور جلانے اٹھانے ) کی طرح ہے پس بعث دو قم) پر ہے بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید نے لگا ۔ میں بعث بمعنی قیض ہے ۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے ۔ تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] فرمایا ہے اور آیت : ۔ ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] پھر ان کا جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ ( غار میں ) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کو مقدار کس کو خوب یاد ہے ۔ میں بعثنا کے معنی صرف ۃ نیند سے ) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] اور اس دن کو یا د کرو جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہہ و کہ ) اس پر بھی ) قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ عذاب بھیجے ۔ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی ( اور ) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کبھی تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھادیتا ہے ۔ میں نیند کے متعلق تونی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت سے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] لیکن خدا نے ان کا اٹھنا ( اور نکلنا ) پسند نہ کیا ۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥) اور یحییٰ (علیہ السلام) کو ہماری جانب سے سلام مغفرت اور سعادت عطا ہو، جس دن کہ وہ پیدا ہوئے اور جس دن کہ انہوں نے انتقال فرمایا اور جس وقت کہ وہ قبر سے اٹھائے جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ (وَسَلٰمٌ عَلَیْہِ یَوْمَ وُلِدَ وَیَوْمَ یَمُوْتُ وَیَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا) یہاں پر حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) کا قصہ اختتام کو پہنچا اور اب آگے حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کا قصہ بیان کیا جا رہا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12. In order to have a full understanding of the mission and the pure character of Prophet John, about which brief references have been made in this Surah and Surah Aal- Imran, it will be useful to study this story as given in different Books of the New Testament in the following order: According to Luke, Prophet John was older than Prophet Jesus (peace be upon them) by six months and their mothers were cousins. He was appointed a Prophet at the age of 30 years, and according to the Gospel of John, he started his mission of inviting the people toward God in Jordan. He would say: I am the voice of one crying in the wilderness. Make straight the way of the Lord. (John, I: 23) According to Mark: John did baptize in the wilderness, and preach the baptizm of repentance for the remission of sins. And there went out unto him all the land of Judaea, and they of Jerusalem, and were all baptized of him in the river of Jordan, confessing their sins. (Mark, I: 45). He thus came to be known as John the Baptist, and the Israelites held him as a prophet. (Mat. 21: 26). Prophet Jesus said about John: Among them that are born of women there hath not risen a man greater than John the Baptist." (Mat. 11 : 11). John had his raiment of camel’s hair, and a leather girdle about his loins; and his meat was locusts and wild honey. (Mat. 3: 4). He would say: Repent ye, for the kingdom of heaven is at hand. (Mat. 3: 2). By this he meant that very soon Prophet Jesus was going to start his mission of Prophethood. The same thing has been said about him in the Quran: He (John) will come to confirm a command from Allah. (Surah Aal-Imran, Ayat 39). For the same reason he has been called a sign of or pointer to Prophet Jesus (peace be upon him). He urged the people to observe the Fast and Prayers. (Mat. 9: 14, Luke, 5: 33, I1: 1). He would also tell them: He that hath two coats, let him impart to him that hath none; and he that hath meat, let him do likewise. (Luke 3: 11). When the tax-collectors asked: Master, what shall we do? He said unto them: Exact no more than that what is appointed you. (12-13). And when the soldiers sought his guidance, he said: Do violence to no man, neither accuse any falsely; and be content with your wages. (Luke, 3: 14). When the corrupt scholars, Pharisees and Sadducees of the Israelites, came to be baptized by him, he rebuked them, saying: O generation of vipers, who hath warned you to flee from the wrath to come? Think not to say within yourselves: We have Abraham to our father, now also the ax is laid unto the root of the trees: therefore every tree which bringeth not forth good fruit is hewn down, and cast into the fire. (Mat-3 :7-10). The Jewish ruler of his time, Herod Antipas, in whose government he was performing his mission of inviting the people to the truth, had been so deeply influenced by the Roman civilization that he was causing sin and evil to spread freely in the land. He had kept Herodias, his brother Philip’s wife, unlawfully in his house; when Prophet John reproved him for this and raised his voice against other evils being committed by him, Herod got him arrested and sent to jail. However, he held him in high esteem for his piety and righteousness and even feared him on account of the great respect he enjoyed among the people. On the contrary, Herodias thought that the moral consciousness that Prophet John was producing among the people was directly aimed at women like herself and pulling them down in the public eye. Thus she nursed a grudge against him and would have him killed but could not. Soon an opportunity came her way. On the birthday banquet of Herod, her daughter danced and so delighted Herod and others that the king said to her: Ask of me whatsoever thou wilt, and I will give it thee. The girl asked her mother what she should ask for. The mother said: Ask for the head of John the Baptist. The girl went back to the king and requested to have there and then the head of John the Baptist on a dish. Herod felt sorry to hear this, but could not reject the demand of the daughter of his beloved. He at once got Prophet John killed in the prison and presented his head on a dish to the dancing girl. (Mat. 14: 3-12, Mark, 6: 17-29, Luke, 3: 19-20).

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :12 حضرت یحیی کے جو حالات مختلف انجیلوں میں بکھرے ہوئے ہیں انہیں جمع کر کے ہم یہاں ان کی سیرت پاک کا ایک نقشہ پش کرتے ہیں جس سے سورہ آل عمران اور اس سورے کے مختصر اشارات کی توضیح ہو گی ۔ لوقا کے بیان کے مطابق حضرت یحیی ، حضرت عیسی سے 6 ۔ مہینے بڑے تھے ۔ ان کی والدہ اور حضرت عیسی کی والدہ آپس میں قریبی رشتہ دار تھیں ۔ تقریباً 30 سال کی عمر میں وہ نبوت کے منصب پر عملاً مامور ہوئے اور یوحنا کی روایت کے مطابق انہوں نے شرق اردن کے علاقے میں دعوت الی اللہ کا کام شروع کیا ۔ وہ کہتے تھے: میں بیابان ایک پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ کو سیدھا کرو ( یوحنا 23:1 ) مرقس کا بیان ہے کہ وہ لوگوں سے گناہوں کی توبہ کرنے والے کو بپتسمہ دیتے تھے ۔ یعنی توبہ کے بعد غسل کراتے تھے تاکہ روح اور جسم دونوں پاک ہوجائیں ، یہودیہ اور یروشلم کے بکثرت لوگ ان کے معتقد ہو گئے تھے اور ان کے پاس جا کر بپتسمہ لیتے تھے ( مرقس 4:1 ۔ 5 ) اسی بنا پر ان کا نام یوحنا بپتسمہ والا ( John The Baptist ) مشہور ہو گیا تھا ۔ عام طور پر بنی اسرائیل ان کی نبوت تسلیم کر چکے تھے ( متی 26:21 ) مسیح علیہ السلام کا قول تھا کہ جو عورتوں سے پیدا ہوئے ہیں ان میں یوحنا بپتسمہ دینے والے سے بڑا کوئی نہیں ہوا ( متی 11:11 ) وہ اونٹ کے بالوں کی پوشاک پہنے اور چمڑے کا پٹا کمر سے باندھے رہتے تھے اور ان کی خوراک ٹڈیاں اور جنگلی شہد تھا ( متی 4:3 ) اس فقیرانہ زندگی کے ساتھ وہ منادی کرتے پھرتے تھے کہ توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی قریب آ گئی ہے ( متی 2:3 ) یعنی مسیح علیہ السلام کی دعوت نبوت کا آغاز ہونے والا ہے ۔ اسی بنا پر ان کو عموماً حضرت مسیح کا ارہاص کہا جاتا ہے ، اور یہی بات ان کے متعلق قرآن میں کہی گئی ہے کہ مصد قاً بکلمۃ من اللہ ( آل عمران4 ) ۔ وہ لوگوں کو روزے اور نماز کی تلقین کرتے تھے ( 14:9 ۔ لوقا 33 ۔ 5 لوقا 1:11 ) وہ لوگوں سے کہتے تھے کہ جس کے پاس دو کُرتے ہوں وہ اس کو جس کے پاس نہ ہو بانٹ دے اور جس کے پاس کھانا ہو وہ بھی ایسا ہی کرے ۔ محصول لینے والوں نے پوچھا کہ استاد ، ہم کیا کریں تو انہوں نے فرما یا جو تمہارے لیئے مقرر ہے اس سے زیادہ نہ لینا سپاہیوں نے پوچھا ہمارے لیئے کیا ہدایت ہے ؟ فرمایا : نہ کسی پر ظلم کرو اور نہ ناحق کسی سے کچھ لو اور اپنی تنخواہ پر کفایت کرو لوقا 10:3 ۔ 14 ) ۔ بنی اسرائیل کے بگڑے ہوئے علماء فریسی اور صدوتی ان کے پاس بپتسمہ لینے آئے تو ڈانٹ کر فرمایا اے سانپ کے بچو ! تم کو کس نے جتا دیا کہ آنے والے غضب سے بھاگو؟ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے دلوں میں کہنے کا خیال نہ کرو کہ ابراہیم ہمارا باپ ہے ۔ ۔ ۔ اب درختوں کی جڑوں پر کلہاڑا رکھا ہوا ہے ، پس جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے ۔ ( 7:3 ۔ 10 ) ۔ ان کے عہد کا یہودی فرمانروا ، ہیرو اینٹی پاس ، جس کی ریاست میں وہ دعوت حق کی خدمت انجام دیتے تھے ، سرتا پا رومی تہذیب میں غرق تھا اور اس کی وجہ سے سارے ملک میں فسق و فجور پھیل رہا تھا ۔ اس نے خود اپنے بھائی فلپ کی بیوی ہیرو دیاس کو اپنے گھر میں ڈال رکھا تھا ۔ حضرت یحیی نے اس پر ہیرد کو ملامت کی اور اس کی فاسقانہ حرکات کے خلاف آواز اٹھائی ۔ اس جرم میں ہیرد نے ان کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا ۔ تاہم وہ ان کو ایک مقدس اور راستباز آدمی جان کر ان کا احترام بھی کرتا تھا اور پبلک میں انکے غیر معمولی اثر سے ڈرتا بھی تھا ۔ لیکن ہیرد دیاس یہ سمجھتی تھی کہ یحیی علیہ السلام جو اخلاقی روح قوم میں پھونک رہے ہیں وہ لوگوں کی نگاہ میں اس جیسی عورتوں کو ذلیل کیئے دے رہی ہے ۔ اس لیئے وہ ان کی جان کے درپے ہو گئی ۔ آخر کار ہیرد کی سالگرہ کے جشن میں اس نے وہ موقع پالیا جس کی وہ تاک میں تھی ۔ جشن کے دربار میں اس کی بیٹی نے خوب رقص کیا جس پر خوش ہو کر ہیرد نے کہا مانگ کیا مانگتی ہے ۔ بیٹی نے اپنی فاحشہ ماں سے پو چھا کیا مانگوں ؟ ماں نے کہا یحیی کا سر مانگ لے ۔ چنانچہ اس نے ہیرد کے سامنے ہاتھ باندھ کر عرض کیا مجھے یوحنا بپتسمہ دینے والے کا سر ایک تھال میں رکھوا کر ابھی منگوا دیجئے ۔ ہیرد یہ سن کر بہت غمگین ہوا ، مگر محبوبہ کی بیٹی کا تقاضا کیسے رد کر سکتا تھا ۔ اس نے فوراً قید خانہ سے یحیی علیہ السلام کا سر کٹوا کر منگوایا اور ایک تھال میں رکھوا کر رقاصہ کی نذر کر دیا ( مننی 3:14 12 مرقس 17:6 ۔ 29 لوقا 19:3 ۔ 20 )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٥۔ ٢١:۔ اوپر بنی اسرائیل کے اس دستور کا ذکر گزر چکا ہے وہ اپنے لڑکوں کو بیت المقدس کا خادم بنایا کرتے تھے حضرت مریم ( علیہ السلام) کی ماں حنہ نے اس دستور کے موافق نذر مانی کہ ان کے پیٹ میں جو بچہ ہے اس کے پیدا ہونے کے بعد اس کو وہ بیت المقدس کا خادم بنا دیویں گی جب حضرت مریم پیدا ہوئیں تو لڑکی کے پیدا ہونے سے ان کو بڑا رنج ہوا کس لیے کہ لڑکیوں کو بیت المقدس کا خادم بنانے کا حکم نہیں تھا مگر یہ قصہ سورة آل عمران میں گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر باوجود لڑکی ہونے کے ان کا خادم ہونا قبول فرما لیا حضرت مریم کے باپ عمران حضرت مریم کے پیدا ہونے سے پہلے وفات پاگئے تھے اس لیے اپنے خالو حضرت زکریا ( علیہ السلام) کے پاس حضرت مریم پرورش پاکر بیت المقدس کی خدمت کیا کرتی تھیں اس واسطے ان کا نام مریم ہے سریانی زبان میں مریم کے معنے خادم کے ہیں چھوٹی سی عمر میں حضرت مریم کی اس کرامت کا ذکر سورة آل عمران میں ہے کہ اکثر بےفصل کے میوے حضرت زکریا ( علیہ السلام) ان کے پاس دیکھ کر پوچھا کرتے تھے کہ مریم یہ میوے کہاں سے آئے تو جواب دیا کرتی تھیں کہ یہ میوے اللہ نے دیئے ہیں حضرت مریم کے نبی ہونے میں علماء کا اختلاف ہے اکثر علماء کا قول یہی ہے کہ حضرت مریم صدیقہ ہیں نبی نہیں تھیں غرض جب اللہ کو منظور ہوا کہ اپنی قدرت کا ایک نمونہ دنیا میں پیدا کرے تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے ان کے جسم میں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی روح پھونک دی اور ان کو حمل رہ گیا حضرت مریم کے چچا کا بیٹا یوسف نجار بھی بیت المقدس کا خادم تھا جب اس کو حضرت مریم کے حمل کا حال معلوم ہوا تو اس کو بہت حیرت ہوئی کہ حضرت مریم اس کا سوال سمجھ گئیں اور یوسف کو یہی جواب دیا کہ اللہ ہر بات پر قادر ہے علماء نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی پیدائش دنیا میں ظاہر کردی تاکہ انسان کو اس کی ہر طرح کی قدرت پر پورا ایمان ہو۔ حضرت آدم ( علیہ السلام) کو عورت حضرت مریم کے جسم سے پیدا کیا اور مرد و عورت سے تو اولاد کا پیدا ہونا ایک عادتی بات ہے حاصل یہ ہے کہ دنیا میں جو اسباب اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں ان اسباب قدرت منحصر نہیں ہے جس طرح جو چاہے وہ کرسکتا ہے عادتی سبب یہ ہے کہ بانجھ عورت کے اولاد دی بعضے وقت ظاہری سبب دنیا کے سب موجود ہوتے ہیں لیکن اس کا حکم نہیں ہوتا تو کوئی سبب کام نہیں آتا میاں بی بی اکثر جگہ جوان ہوتے ہیں اور اولاد کی تمنا بھی حد سے بڑھ کر ہوتی ہے مگر بچہ نہیں ہوتا موسم برسات کا ہوتا ہے اور بادل بھی گھر کر آتا ہے مگر ایک بوند نہیں پڑتی اس طرح اور اسباب کا حال ہے غرض جس طرح بغیر سبب کے ہر کام پر وہ قادر ہے اسی طرح اسباب میں تاثیر کا دینا بھی اس کا کام ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ حضرت مریم کے خالو زکریا (علیہ السلام) نے حضرت مریم کو پالا تھا اس مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے سورة آل عمران میں اور یہاں زکریا (علیہ السلام) کے قصہ کے بعد حضرت مریم کا ذکر فرمایا حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ حضرت مریم نہانے کا ارادہ کرکے اپنے عبادت خانہ سے مشرق کی طرف کے ایک مکان میں گئیں اور لوگوں سے آڑ کرلینے کے لیے وہاں انہوں نے ایک پردہ ڈالا تو اللہ کے حکم سے جبرئیل (علیہ السلام) وہاں ایک آدمی کی صورت بن کر آگئے حضرت مریم نے خالی مکان اور پردہ کی آڑ میں جب غیر مرد کو دیکھا تو یہ کہا کہ اے شخص اگر تو پرہیزگار ہے تو میں تیرے بد ارادہ سے اللہ کی پناہ میں آنا چاہتی ہوں۔ حضرت مریم کی اس بات سے ان کی کمال درجہ کی پارسائی ثابت ہوتی ہے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے سورة التحریم میں ان کی پارسائی کی تعریف فرمائی ہے صحیح بخاری اور ابن ماجہ میں حضرت عائشہ (رض) کی روایت سے ایک قصہ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک عورت جو نیہ سے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نکاح کیا اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت کے پاس جانے کا قصد کیا تو اس عورت نے یہ کہا کہ میں تم سے اللہ کی پناہ میں آنا چاہتی ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو نے بہت بڑی پناہ چاہی یہ فرما کر آپ نے اس عورت کو طلاق دے دی ١ ؎۔ اس سے معلوم ہوا کہ لڑائی جھگڑے کے وقت کسی عورت کو اپنے خاوند سے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں کیونکہ یہ ایسا کلمہ ہے کہ جو نیہ کے منہ سے جب یہ کلمہ نکلا تو پھر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اپنے نکاح میں رکھنا پسند نہیں کیا اور اللہ کی پناہ کی عظمت اس میں خیال کیا کہ اس عورت کو طلاق دے دی ٢ ؎۔ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ اکیلے مکان میں غیر مرد کو دیکھ کر مریم (علیہا السلام) کی تسکین کی اور یہ کہا کہ میں تو اللہ کا قاصد ہوں تم کو لڑکے کے پیدا ہونے کا پیغام پہنچانے آیا ہوں جبرئیل (علیہ السلام) کا یہ پیغام سن کر مریم (علیہا السلام) کو بڑا تعجب ہوا اور انہوں نے تعجب سے کہا کہ نہ کسی مرد سے میرا نکاح ہوا اور نہ میں بدکار تھی پھر بغیر مرد سے واقف ہونے کے میرے ہاں لڑکا کیوں کر پیدا ہوگا۔ مریم (علیہا السلام) کی یہ بات سن کر جبیرئیل (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ کسی مرد سے واقف نہ ہونے کی تمہاری بات تو سچ ہے مگر اللہ کا حکم یہی ہے جس کا میں نے پغام پہنچایا اور جس صاحب قدرت نے بنی آدم کے باپ آدم (علیہ السلام) کو بغیر ماں باپ کے پیدا ہوگا کہ لوگوں نظروں میں اللہ کی قدرت کی ایک نشانی ہو اور یہود نے توریت کے احکام میں طرح طرح کے اختلافات جو ڈال رکھے ہیں ان اختلافوں کے رفع ہوجانے کے لیے عیسیٰ علیہ السلا کا پیدا ہونا بہت سے لوگوں کے حق میں گویا اللہ کی ایک رحمت ہے اور یہ باتیں جو اوپر بیان کی گئیں یہ ایسی باتیں ہیں کہ اللہ کے علم غیب کے موافق یہ باتیں ٹھہر چکی اور لوح محفوظ میں لکھی جاچکی ہیں اس واسطے ان میں سے کوئی بات اب ٹل نہیں سکتی۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے ٣ ؎۔ کہ دنیا میں جو کچھ ہونے والا تھا اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر دنیا کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے وہ سب اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے۔ یہ حدیث ان آیتوں کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جبرئیل (علیہ السلام) کا آدمی کی صورت میں مریم (علیہا السلام) کے پاس آنا اور ان کو عیسیٰ (علیہ السلام) کے بغیر باپ کے پیدا ہونے کا پیغام الٰہی پہنچانا اور پھر اس پیغام کے موافق عیسیٰ (علیہ السلام) کا پیدا ہونا اور بہت سے لوگوں کے حق میں اس پیدائش کا قدرت الہی کا نشانی کا ٹھہرنا ایسی باتیں تھیں جو دنیا کے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے لوح محفوظ میں لکھی جا چکی تھیں اس واسطے ان باتوں میں سے کوئی بات ٹل نہیں سکتی اس تفسیر سے وکان امرا مقضیا کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ (١ ؎ سنن ابن ماجہ ص ١٤٨ باب مایقع بہ الطلاق ) (٢ ؎ صحیح بخاری ص ٧٩٠ ج ٢ باب من طلق وھل یواجہ الرجل امرئتہ بالطلاق ) (٣ ؎ مثلاج ٣ ص ٠٣٤ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی پیدائش سے وافت تک اللہ تعالیٰ کی امان میں رہیں گے اور دوسرے بنی آدم کی طرح ان پر شیطان کا تسلط نہیں ہو سکے گا اور آئندہ بھی قیامت تک اللہ تعالیٰ انہیں اپنی حفاظت میں رکھے گا۔ اس سے ان کی عزت افزائی کی طرف اشارہ ہے۔ بعض نے لکھا ہے کہ یوم یموت کے معنی یہ ہیں کہ عذاب قبر سے مامون رہیں گے۔ یہ تین اقوات انسان پر انتہائی وحشت کے ہوں گے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان اقوات میں یحی (علیہ السلام) کے اکرام کو ظاہر کردیا۔ (کبیر) شاہ صاحب لکھتے ہیں اللہ کے کسی بندے پر سلام کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس پر کوئی گرفت نہ ہوگی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ وہ عنداللہ ایسے وجیہ و مکرم تھے کہ ان کے حق میں من جانب اللہ یہ ارشاد ہوتا ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ کا سلام پہنچے جس دن کہ وہ پیدا ہوئے اور جس دن وہ انتقال کریں گے اور جس دن قیامت میں زندہ ہو کر اٹھائے جاویں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت یحییٰ (علیہ السلام) پر پیدائش سے لے کر تادم واپیس اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں۔ یہ مسلمّہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے پیغمبر دنیا میں جلوہ گر فرمائے ان کی پیدائش سے لے کر وفات تک اور قبر سے لے کر حشر تک، حشر سے لے کر جنت الفردوس میں پہنچنے تک ہر لمحہ ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول رہتا ہے۔ لیکن بعض انبیاء کرام (علیہ السلام) کے خصوصی حالات کے پیش نظر ان کے بارے میں خاص طور پر ذکر فرمایا ہے کہ ان پر ان کی پیدائش سے لے کر ان کی موت اور دوبارہ زندہ ہونے تک اللہ کی رحمت ان کے شامل حال رہی اور رہے گی۔ ان میں بالخصوص حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کا نام لے کر ذکر کیا گیا ہے کہ سلام ہے اس پر جس دن وہ پیدا ہوا۔ جس دن اسے موت آئے گی اور جس دن وہ اٹھایا جائے گا۔ یاد رہے کہ انسانی زندگی میں تین مرحلے ایسے ہیں جن میں کسی نبی، ولی، امیر، فقیر، شاہ و گدا، اعلیٰ اور ادنیٰ کو اختیار نہیں ہوتا ان اوقات میں وہ ناتواں اور بالکل بےبس ہوتا ہے۔ ١۔ ولادت کے وقت ہر نومولود اس قدر نازک اندام، ناتواں اور بےبس ہوتا ہے کہ پھول کی پنکھڑی کی طرح معمولی سے معمولی سختی بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ ٢۔ موت کا وقت اس قدر شدید اور سخت ہوتا ہے کہ بہادر سے بہادر انسان گھبراہٹ میں مبتلا ہوجاتا ہے (وَعَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ اِنَّ مِنْ نِّعَمِ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیَّ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تُوُفِّیَ فِیْ بَیْتِیْ وَفِیْ یَوْمِیْ وَبَیْنَ سَحْرِیْ وَنَحْرِیْ ۔۔ فَجَعَلَ یُدْخِلُ یَدَیْہِ فِی الْمَاءِ فَیَمْسَحُ بِھِمَا وََجْہَہٗ وَیَقُوْلُ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ اِنَّ لِلْمَوْتِ سَکَرَاتٌ ثُمَّ نَصَبَ یَدَہٗ فَجَعَلَ یَقُوْلُ فِی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی حَتّٰی قُبِضَ وَمَالَتْ یَدُہٗ ۔ ) [ رواہ البخاری : باب مَرَضِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَوَفَاتِہِ ] ” حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مجھ پر بےپناہ انعامات میں سے ایک یہ ہے ‘ کہ رسول اکرم میرے گھر میں ‘ میری باری کے دن ‘ میرے سینے اور حلق کے درمیان فوت کیے گئے۔۔ آپ پانی میں اپنے ہاتھ ڈالتے اور اپنے چہرے پر دونوں ہاتھ ملتے رہے اور کہتے لاَ اِ لٰہ اِ لَّا اللّٰہ بلا شبہ سکرات موت برحق ہیں۔ پھر اپنا ہاتھ بلند کیا اور رفیق اعلیٰ کی دعا کر رہے تھے۔ حتیٰ کہ آپ کی روح قبض کرلی گئی اور آپ کا دست مبارک جھک گیا۔ ٣۔ حشرکا دن سخت ہوگا۔ ” کوئی دوست کسی دوست کا پرسان حال نہ ہوگا۔ حالانکہ ایک دوسرے کو سامنے دیکھ رہے ہونگے۔ گنہگار خواہش کرے گا کہ کسی طرح اس دن کے عذاب کے بدلے میں سب کچھ دے دے یعنی اپنے بیٹے اور اپنی بیوی اور اپنے بھائی اور اپنا خاندان جس میں وہ رہتا تھا۔ اور جتنے آدمی زمین میں ہیں غرض سب کچھ دے دے اور اپنے آپ کو عذاب سے چھڑا لے۔[ المعارج : ١٠ تا ١٤]

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَسَلاَمٌ عَلَیْہِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا) (اور یحییٰ پر اللہ کا سلام ہے جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن وفات پائیں گے اور جس دن وہ زندہ ہو کر اٹھائے جائیں گے) ۔ لفظ یَمُوْتُ صیغہ مضارع اس وقت کے اعتبار سے ہے جب وہ پیدا ہوئے تھے مستقبل کا ترجمہ دیکھ کر یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ وہ اب بھی زندہ ہیں۔ حضرت سفیان بن عیینہ (رح) نے فرمایا کہ یہ تین مواقع (یعنی ولادت کا دن اور موت کا وقت اور قبروں سے نکلنے کا وقت) انسان کے لیے توحش کے موقع ہوتے ہیں ان تینوں مواقع کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے لیے بطور خوشخبری کے فرما دیا کہ ان میں باسلامت رہنے والے ہیں۔ (ذکرہ فی معالم التنزیل)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ سلام سلامتی اور امان یحییٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ولادت کے وقت مس شیطان سے، موت کے وقت وحشت موت سے اور آخرت میں ہول قیامت سے محفوظ رکھا۔ ابن عطیہ کہتے ہیں کہ سلام سے مراد تحیہ متعارفہ ہے۔ یعنی ان تینوں حالتوں میں تشریف و تکریم کے طور پر اللہ تعالیٰ ان پر تحیہ نازل فرمائے گا۔ یہاں تین مختلف حالتیں بیان کی گئی ہیں۔ 1 ۔ ولادت۔ اس وقت سے جو زندگی شروع ہوتی ہے۔ اسے دنیوی زندگی کہتے ہیں۔ 2 ۔ موت اس پر دنیوی زندگی ختم ہوجاتی ہے اور برزخی زندگی کا دور شروع ہوجاتا ہے۔ 3 ۔ بعث بعد الموت اس پر برزخی زندگی ختم ہوجاتی ہے اور اخروی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

15 اور اس یحییٰ (علیہ السلام) پر سلامتی ہو جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن وہ مرے اور جس دن وہ زندہ کر کے اٹھایا جائے۔ یعنی ہر حال میں اس پر سلامتی نازل ہو۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں اللہ جو بندے پر سلام کہے اور اس کے معنی یہ کہ اس پر کچھ پکڑ نہیں۔ 12 خلاصہ : یہ کہ دنیا میں آفات سے محفوظ برزخ میں ہر قسم کی سختی سے محفوظ قیامت کے دن کے عذاب سے محفوظ۔