Surat Marium

Surah: 19

Verse: 22

سورة مريم

فَحَمَلَتۡہُ فَانۡتَبَذَتۡ بِہٖ مَکَانًا قَصِیًّا ﴿۲۲﴾

So she conceived him, and she withdrew with him to a remote place.

پس وہ حمل سے ہوگئیں اور اسی وجہ سے وہ یکسو ہو کر ایک دور کی جگہ چلی گئیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Conception and the Birth Allah, the Exalted, informs; فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِهِ مَكَانًا قَصِيًّا So she conceived him, and she withdrew with him to a remote place, Allah, the Exalted, informs about Maryam that when Jibril had spoken to her about what Allah said, she accepted the decree of Allah. Many scholars of the predecessors (Salaf) have menti... oned that; at this point the angel (who was Jibril) blew into the opening of the garment that she was wearing. Then the breath descended until it entered into her vagina and she conceived the child by the leave of Allah. Muhammad bin Ishaq said, "When she conceived him and filled her water jug (at a well), she returned (to her people). After this, her menstrual bleeding ceased and she experienced what the pregnant woman experiences of sickness, hunger, change of color and there was even a change in the manner of her speech. After this, no people came to visit any house like they did the house of Zakariyya. The word spread among the Children of Israel and the people were saying, `Verily, her partner (in fornication) was Yusuf, because there was no one else in the temple with her except him.' So she hid herself from the people and placed a veil between herself and them. No one saw her and she did not see anyone else." Allah said;   Show more

مریم علیہا السلام اور حضرت جبرائیل علیہ السلام ۔ مروی ہے کہ جب آپ فرمان الہٰی تسلیم کر چکیں اور اس کے آگے گردن جھکا دی تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ان کے کرتے کے گربیان میں پھونک ماری ۔ جس سے انہیں بحکم رب حمل ٹھہر گیا اب تو سخت گبھرائیں اور یہ خیال کلیجہ مسوسنے لگا کہ میں لوگوں کو کیا منہ دک... ھاؤں گی ؟ لاکھ اپنی برات پیش کروں لیکن اس انوکھی بات کو کون مانے گا ؟ اسی گھبراہٹ میں آپ تھیں کسی سے یہ واقعہ بیان نہیں کیا تھا ہاں جب آپ اپنی خالہ حضرت زکریا علیہا السلام کی بیوی کے پاس گئیں تو وہ آپ سے معانقہ کرکے کہنے لگیں بچی اللہ کی قدرت سے اور تمہارے خالو کی دعا سے میں اس عمر میں حاملہ ہوگئی ہوں ۔ آپ نے فرمایا خالہ جان میرے ساتھ یہ واقعہ گزرا اور میں بھی اپنے آپ کو اسی حالت میں پاتی ہوں چونکہ یہ گھرانہ نبی کا گھرانہ تھا ۔ وہ قدرت الہٰی پر اور صداقت مریم پر ایمان لائیں ۔ اب یہ حالت تھی کہ جب کبھی یہ دونوں پاک عورتیں ملاقات کرتیں تو خالہ صاحبہ یہ محسوس فرماتیں کہ گویا ان کا بچہ بھانجی کے بچے کے سامنے جھکتا ہے اور اس کی عزت کرتا ہے ۔ ان کے مذہب میں یہ جائز بھی تھا اسی وجہ سے حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اور آپ کے والد نے آپ کو سجدہ کیا تھا ۔ اور اللہ نے فرشتوں کو حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا لیکن ہماری شریعت میں یہ تعظیم اللہ کے لیے مخصوص ہو گئی اور کسی دوسرے کو سجدہ کرنا حرام ہو گیا کیونکہ یہ تعظیم الہٰی کے خلاف ہے ۔ اس کی جلالت کے شایان شان نہیں ۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام خالہ زاد بھائی تھے ۔ دونوں ایک ہی وقت حمل میں تھے ۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی والدہ اکثر حضرت مریم سے فرماتی تھیں کہ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرا بچہ تیرے بچے کے سامنے سجدہ کرتا ہے ۔ امام مالک رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں اس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کیونکہ اللہ نے آپ کے ہاتھوں اپنے حکم سے مردوں کو زندہ کر دیا اور مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو بھلا چنگا کر دیا ۔ جمہور کا قول تو یہ ہے کہ آپ نو مہینے تک حمل میں رہے ۔ عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں آٹھ ماہ تک ۔ اسی لئے آٹھ ماہ کے حمل کا بچہ عموما زندہ نہیں رہتا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حمل کے ساتھ ہی بچہ ہو گیا ۔ یہ قول غریب ہے ۔ ممکن ہے آپ نے آیت کے ظاہری الفاظ سے یہ سمجھا ہو کیونکہ حمل کا الگ ہونے کا اور دردزہ کا ذکر ان آیتوں میں ف کے ساتھ ہے اور ف تعقیب کے لئے آتی ہے ۔ لیکن تعقیب ہر چیز کی اس کے اعتبار سے ہوتی ہے جیسے عام انسانوں کی پیدائش کا حال آیت قرآن ( وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِيْنٍ 12 ؀ۚ ) 23- المؤمنون:12 ) میں ہوا ہے کہ ہم نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا پھر اسے بصورت نطفہ رحم میں ٹھہرایا پھر نطفے کو پھٹکی بنایا پھر اس پھٹکی کو لو تھڑا بنایا ، پھر اس لوتھڑے میں ہڈیاں پیدا کیں ۔ یہاں بھی دو جگہ ف ہے اور ہے بھی تعقیب کے لیے ۔ لیکن حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ان دو حالتوں میں چالیس دن کا فاصلہ ہوتا ہے ۔ قرآن کریم کی آیت میں ہے ( اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ۡ فَتُصْبِحُ الْاَرْضُ مُخْضَرَّةً ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَطِيْفٌ خَبِيْرٌ 63؀ۚ ) 22- الحج:63 ) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برساتا ہے ۔ پس زمین سرسبز ہوجاتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ پانی برسنے کے بعد سبزہ اگتا ہے ۔ حالانکہ ف یہاں بھی ہے پس تعقیب ہر چیز کے اعتبار سے ہوتی ہے ۔ سیدھی سی بات تو یہ ہے کہ مثل عادت عورتوں کے آپ نے حمل کا زمانہ پورا گزارا مسجد میں ہی ۔ مسجد کے خادم ایک صاحب اور تھے جن کا نام یوسف نجار تھا ۔ انہوں نے جب مریم علیہا السلام کا یہ حال دیکھا تو دل میں کچھ شک سا پیدا ہوا لیکن حضرت مریم کے زہد وتقوی ، عبادت وریاضت ، خشیت الہٰی اور حق بینی کو خیال کرتے ہوئے انہوں نے یہ برائی دل سے دور کرنی چاہی ، لیکن جوں جوں دن گزرتے گئے حمل کا اظہار ہوتا گیا اب تو خاموش نہ رہ سکے ایک دن با ادب کہنے لگے کہ مریم میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں ناراض نہ ہونا بھلا بغیر بیج کے کسی درخت کاہونا ، بغیر دانے کے کھیت کا ہونا ، بغیر باپ کے بچے کا ہونا ممکن بھی ہے ؟ آپ ان کے مطلب کو سمجھ گئیں اور جواب دیا کہ یہ سب ممکن ہے سب سے پہلے جو درخت اللہ تعالیٰ نے اگایاوہ بغیر بیج کے تھا ۔ سب سے پہلے جو کھیتی اللہ نے اگائی وہ بغیر دانے کی تھی ، سب سے پہلے اللہ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا وہ بےباپ کے تھے بلکہ بےماں کے بھی ان کی تو سمجھ میں آگیا اور حضرت مریم علیہا السلام اور اللہ کی قدرت کو نہ جھٹلا سکے ۔ اب حضرت صدیقہ نے جب دیکھا کہ قوم کے لوگ ان پر تہمت لگا رہے ہیں تو آپ ان سب کو چھوڑ چھاڑ کر دور دراز چلی گئیں ۔ امام محمد بن اسحاق رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں جب حمل کے حالات ظاہر ہوگئے قوم نے پھبتیاں پھینکی ، آوازے کسنے اور باتیں بنانی شروع کر دیں اور حضرت یوسف نجار جیسے صالح شخص پر یہ تہمت اٹھائی تو آپ ان سب سے کنارہ کش ہوگئیں نہ کوئی انہیں دیکھے نہ آپ کسی کو دیکھیں ۔ جب دردزہ اٹھا تو آپ کجھور کے ایک درخت کی جڑ میں آبیٹھیں کہتے ہیں کہ یہ خلوت خانہ بیت المقدس کی مشرقی جانب کا حجرہ تھا ۔ یہ بھی قول ہے کہ شام اور مصر کے درمیان آپ پہنچ چکی تھیں اس وقت بچہ ہونے کا درد شروع ہوا ۔ اور قول ہے کہ بیت المقدس سے آپ آٹھ میل چلی گئی تھیں اس بستی کا نام بیت لحم تھا ۔ معراج کے واقعہ کے بیان میں پہلے ایک حدیث گزری ہے جس میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی جگہ بھی بیت لحم تھا ۔ واللہ اعلم ۔ مشہور بات بھی یہی ہے اور نصرانیوں کا تو اس پر اتفاق ہے اور اس حدیث میں بھی ہے اگر یہ صحیح ہو ۔ اس وقت آپ موت کی تمنا کرنے لگیں کیونکہ دین کے فتنے کے وقت یہ تمنا بھی جائز ہے ۔ جانتی تھیں کہ کوئی انہیں سچا نہ کہے گا انکے بیان کردہ واقعہ کو ہر شخص گھڑنت سمجھے گا ۔ دنیا آپ کو پریشان کر دے گی اور عبادت واطمینان میں خلل پڑے گا ۔ ہر شخص برائی سے یاد کرے گا اور لوگوں پر برا اثر پڑے گا ۔ تو فرمانے لگیں کاش کہ میں اس حالت سے پہلے ہی اٹھالی جاتی بلکہ میں پیدا ہی نہ کی جاتی اس قدر شرم وحیا دامن گیر ہوئی کہ آپ نے اس تکلیف پر موت کو ترجیح دی اور تمنا کی کہ کاش میں کھوئی ہوئی اور یاد سے اتری ہوئی چیز ہو جاتی کہ نہ کوئی یاد کرے ۔ نہ ڈھونڈے ، نہ ذکر کرے ، احادیث میں موت مانگنے کی ممانعت وارد ہے ۔ ہم نے ان روایتوں کو آیت ( تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ ١٠١؁ ) 12- یوسف:101 ) ، کی تفسیر بیان کردیا ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٣] سیدہ مریم میں روح جبرئیل نے پھونکی تھی یا اللہ تعالیٰ نے ؟ روایات میں ہے کہ یہ کہہ کر سیدنا جبریل نے سیدہ مریم کی قمیص کے گریبان میں روح پھونکی جسے سورة تحریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا : (فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُّوْحِنَا 12۝ۧ) 66 ۔ التحریم :12) ۔ یعنی یہ روح ہم نے پھ... ونکی تھی۔ اسی سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ جبریل نے یہ کیوں کہا تھا && تاکہ میں تجھے ایک پاکیزہ لڑکا عطا کروں && اس نفخہ جبریل یا نفخہ الٰہی سے سیدہ مریم کو حمل قرار پا گیا۔ اسی وجہ سے آپ کو روح اللہ کہتے ہیں۔ حمل کی وجہ سے سیدہ مریم کا بیت المقدس سے چلے جانا :۔ جب آپ حاملہ ہوگئیں تو اب شرم کے مارے وہاں رہنا گوارا نہ کیا اور آپ بیت المقدس کا حجرہ چھوڑ کر دور کسی مقام پر چلی گئیں۔ کہتے ہیں کہ یہ مقام بیت اللحم تھا جو وہاں سے تقریبا آٹھ میل دور ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَـحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهٖ مَكَانًا قَصِيًّا : ” قَصِيًّا “ ” قَصِیَ یَقْصَی قُصُوًّا “ ” رَضِیَ یَرْضَی “ کی طرح ناقص واوی ” عَلِمَ یَعْلَمُ “ سے ہے۔ ” قَصِيًّا أَيْ بَعِیْدًا “ یعنی دور۔ ” فَـحَمَلَتْهُ “ جبریل (علیہ السلام) کے یہ کہنے اور ان میں روح پھونکنے کے بعد وہ حاملہ ہوگئیں۔ روح پھونک... نے کی کیفیت کے لیے دیکھیے سورة انبیاء (٩١) اور سورة تحریم (١٢) حاملہ ہونے کے بعد فطری تقاضے کے مطابق حمل کی مدت پوری کرنے کے دوران لوگوں کے طعن و ملامت سے بچنے کے لیے وہ بیت المقدس سے دور ایک مقام پر منتقل ہوگئیں۔ ابن کثیر (رض) نے وہب کا قول ذکر کیا ہے کہ وہ بیت اللحم میں منتقل ہوئیں، جو بیت المقدس سے آٹھ میل دور تھا اور وہیں عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی۔ ابن کثیر نے فرمایا کہ نصاریٰ اس میں کوئی شک نہیں کرتے۔ مگر وہب کا قول اسرائیلیات ہی سے ماخوذ ہے، نہ اس کے صحیح ہونے کا یقین ہوسکتا ہے اور نہ نصاریٰ کے کہنے کا۔ البتہ اکثر علماء کا کہنا یہی ہے۔ حمل کے کتنا عرصہ بعد عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی ؟ بعض مفسرین نے فرمایا کہ بس حمل ہونے کی دیر تھی کہ اس کے ساتھ ہی ولادت ہوگئی۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کچھ مشکل نہیں مگر یہ بات کسی قابل اعتماد ذریعے سے نہیں آئی اور وحئ الٰہی کے بغیر کسی واقعہ کے متعلق سیکٹروں برس بعد اگر کوئی شخص سنی سنائی بات بیان کرے تو خواہ وہ کتنا عظیم ہو، وہ بات یقین کی ٹھنڈک نہیں پہنچا سکتی۔ اس لیے ظاہر یہی ہے کہ حمل کی عام مدت پوری ہوئی اور جمہور مفسرین کا قول بھی یہی ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر پھر (اس گفتگو کے بعد جبرئبل (علیہ السلام) نے ان کے گریبان میں پھونک مار دی جس سے) ان کے پیٹ میں لڑکا رہ گیا، پھر (جب اپنے وقت پر حضرت مریم کو بچہ کی پیدائش کے آثار محسوس ہوئے تو) اس حمل کو لئے ہوئے (اپنے گھر سے) کسی دور جگہ (چنگل پہاڑ میں) الگ چلی گئیں پھر (جب درد شروع ہوا تو) درد زِہ ... کی وجہ سے کھجور کے درخت کی طرف آئیں (کہ اس کے سہارے بیٹھیں اٹھیں، اب حالت یہ تھی کہ نہ کوئی انیس نہ جلیس، دور سے بےچین، ایسے وقت جو سامان راحت و ضرورت کا ہونا چاہئیے وہ ندارد ادھر بچہ ہونے پر بدنامی کا خیال، آخر گھبرا کر) کہنے لگیں کاش میں اس (حالت) سے پہلے مرگئی ہوتی اور ایسی نیست و نابود ہوجاتی کہ کسی کو یاد بھی نہ رہتی، پس (اسی وقت خدا تعالیٰ کے حکم سے حضرت) جبرئیل ( علیہ السلام) پہنچے اور ان کے احترام کی وجہ سے سامنے گئے بلکہ جس مقام پر حضرت مریم تھی اس سے اسفل مقام میں آڑ میں آئے اور انھوں) نے ان کے (اس) پائیں (مکان) سے ان کو پکارا۔ (جس کو حضرت مریم نے پہچانا کہ یہ اسی فرشتہ کی آواز ہے جو اوّل ظاہر ہوا تھا) کہ تم (بےسروسامانی سے یا خوف بدنامی سے) مغموم مت ہو، (کیونکہ بےسروسامانی کا تو یہ انتظام ہوا ہے کہ) تمہارے رب نے تمہارے پائیں (مکان) میں ایک نہر پیدا کردی ہے (جس کے دیکھنے سے اور پانی پینے سے فرحت طبعی ہو ونیز حسب روایت روح انکو اس وقت پیاس بھی لگی تھی اور حسب مسئلہ طبیہ گرم چیزوں کا استعمال قبل وضع مسہل ولادت و دافع فضلات ومقوی طبیعت بھی ہے اور پانی میں اگر سخونت (گرمی) بھی ہو جیسا بعض چشموں میں مشاہد ہے تو اور زیادہ مزاج کے موافق ہوگا، ونیز کھجور کثیر الغذاء مولد خون، مسمّن ومقوی گردہ کمر و مفاصل ہونے کی وجہ سے زچہ کے لئے سب غذاؤں اور دواؤں سے بہتر ہے اور حرارت کی وجہ سے جو اس کی مضرت کا احتمال ہے سو اوّل تو رطب میں حرارت کم ہے، دوسرے پانی سے اس کی اصلاح ہوسکتی ہے تیسرے مضرت کا ظہور جب ہوتا ہے کہ عضو میں ضعف ہو ورنہ کوئی چیز بھی کچھ نہ کچھ مضرت سے خالی نہیں ہوتی و نیز خرق عادت (کرامت) کا ظہور اللہ کے نزدیک مقبولیت کی علامت ہونے کی وجہ سے موجب مسرّت روحانی بھی ہے) اور اس کھجور کے تنہ کو (پکڑ کر) اپنی طرف ہلاؤ اس سے تم پر تروتازہ کھجوریں جھڑیں گی (کہ اس سے پھل کے کھانے میں لذت جسمانی اور بطور خرق عادت کے پھل کے آنے میں لذت روحانی مجتمع ہے) پھر (اس پھل کو) کھاؤ اور (وہ پانی) پیو اور آنکھیں ٹھنڈی کرو (یعنی بچہ کے دیکھنے سے اور کھانے پینے سے اور علامت قبول عنداللہ ہونے سے خوش رہو) پھر (جب بدنامی کے احتمال کا موقع آوے یعنی کوئی آدمی اس قصہ پر مطلع ہو تو اس کا یہ انتظام ہوا ہے کہ) اگر تم آدمیوں میں سے کسی کو بھی (آتا اور اعتراض کرتا) دیکھو تو (تم کچھ مت بولنا بلکہ اشارہ سے اس سے) کہہ دینا کہ میں نے تو اللہ کے واسطے (ایسے) روزہ کی منت مان رکھی ہے (جس میں بولنے کی بندش ہے) سو (اسوجہ سے) میں آج (دن بھر) کسی آدمی سے نہیں بولوں گی (اور خدا کے ذکر اور دعا میں مشغول ہونا اور بات ہے بس تم اتنا جواب دے کر بےفکر ہوجانا، اللہ تعالیٰ اس مولود مسعود کو خرق عادت کے طور پر بولتا کردے گا جس سے ظہور اعجاز دلیل نزاہت وعصمت ہوجاوے گی غرض ہر غم کا علاج ہوگیا۔ )   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَـحَمَلَتْہُ فَانْتَبَذَتْ بِہٖ مَكَانًا قَصِيًّا۝ ٢٢ حمل الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل . وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب... ، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی: وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] ، ( ح م ل ) الحمل ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔ نبذ النَّبْذُ : إلقاء الشیء وطرحه لقلّة الاعتداد به، ولذلک يقال : نَبَذْتُهُ نَبْذَ النَّعْل الخَلِق، قال تعالی: لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ [ الهمزة/ 4] ، فَنَبَذُوهُ وَراءَ ظُهُورِهِمْ [ آل عمران/ 187] لقلّة اعتدادهم به، وقال : نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ [ البقرة/ 100] أي : طرحوه لقلّة اعتدادهم به، وقال : فَأَخَذْناهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْناهُمْ فِي الْيَمِ [ القصص/ 40] ، فَنَبَذْناهُ بِالْعَراءِ [ الصافات/ 145] ، لَنُبِذَ بِالْعَراءِ [ القلم/ 49] ، وقوله : فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] فمعناه : ألق إليهم السّلم، واستعمال النّبذ في ذلک کاستعمال الإلقاء کقوله : فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكاذِبُونَ [ النحل/ 86] ، وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل/ 87] تنبيها أن لا يؤكّد العقد معهم بل حقّهم أن يطرح ذلک إليهم طرحا مستحثّا به علی سبیل المجاملة، وأن يراعيهم حسب مراعاتهم له، ويعاهدهم علی قدر ما عاهدوه، وَانْتَبَذَ فلان : اعتزل اعتزال من لا يقلّ مبالاته بنفسه فيما بين الناس . قال تعالی: فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَکاناً قَصِيًّا[ مریم/ 22] وقعد نَبْذَةً ونُبْذَةً. أي : ناحية معتزلة، وصبيّ مَنْبُوذٌ ونَبِيذٌ کقولک : ملقوط ولقیط، لکن يقال : منبوذ اعتبارا بمن طرحه، وملقوط ولقیط اعتبارا بمن تناوله، والنَّبِيذُ : التّمرُ والزّبيبُ الملقَى مع الماء في الإناء، ثمّ صار اسما للشّراب المخصوص . ( ن ب ذ) النبذ کے معنی کسی چیز کو در خود اعتنا نہ سمجھ کر پھینک دینے کے ہیں اسی سے محاورہ مشہور ہے ۔ نبذ تہ نبذلنعل الخلق میں نے اسے پرانے جو تا کی طرح پھینک دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ [ الهمزة/ 4] وہ ضرور حطمہ میں ڈالا جائیگا ۔ فَنَبَذُوهُ وَراءَ ظُهُورِهِمْ [ آل عمران/ 187] تو انہونے اسے پس پشت پھینک دیا ۔ یعنی انہوں نے اسے قابل التفات نہ سمجھا نیز فرمایا ۔ نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ [ البقرة/ 100] تو ان بیس ایک فریق نے اس کو بےقدر چیز کی طرح پھینک دیا فَأَخَذْناهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْناهُمْ فِي الْيَمِ [ القصص/ 40] تو ہم نے ان کو اور ان کے لشکر کو پکڑ لیا ۔ اور دریا میں ڈال دیا ۔ فَنَبَذْناهُ بِالْعَراءِ [ الصافات/ 145] پھر ہم نے ان کو فراخ میدان میں ڈال دیا ۔ لَنُبِذَ بِالْعَراءِ [ القلم/ 49] تو وہ چٹیل میدان میں ڈال دیئے جاتے ۔ تو ان کا عہد انہی کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو میں کے معنی یہ ہیں کہ معاہدہ صلح سے دستبر ہونے کے لئے لہذا یہاں معاہدہ صلح ست دستبر دار ہونے کے لئے مجازا نبذا کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] تو ان کے کلام کو مسترد کردیں گے اور ان سے نہیں کے کہ تم جھوٹے ہو اور اس دن خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے میں قول ( اور متکلم القاء کا لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت ۔ فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكاذِبُونَ [ النحل/ 86] فانبذا الخ میں متنبہ کیا ہے کہ اس صورت میں ان کے معاہدہ کو مزید مؤکد نہ کیا جائے بلکہ حسن معاملہ سے اسے فسخ کردیا جائے اور ان کے رویہ کے مطابق ان سے سلوک کیا جائے یعنی جب تک وہ معاہدہ کو قائم رکھیں اسکا احترام کیا جائے فانتبذ فلان کے معنی اس شخص کی طرح یکسو ہوجانے کے ہیں جو اپنے آپ کو ناقابل اعتبار سمجھاتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَکاناً قَصِيًّا[ مریم/ 22] اور وہ اس بچے کے ساتھ حاملہ ہوگئیں اور اسے لے کر ایک دور جگہ چلی گئیں ۔ اور قعد نبذ ۃ کے معنی یکسو ہوکر بیٹھ جانے کے ہیں اور راستہ میں پڑے ہوئے بچے کو صبی منبوذ ونبیذ کہتے ہیں جیسا کہ اسئ ملقوط یا لقیط کہا جاتا ہے ۔ لیکن اس لحاظ سے کہ کسی نے اسے پھینک دیا ہے اسے منبوذ کہا جاتا ہے اور اٹھائے جانے کے لحاظ سے لقیط کہا جاتا ہے ۔ النبذ اصل میں انگور یا کجھور کو کہتے ہیں ۔ جو پانی میں ملائی گئی ہو ۔ پھر خاص قسم کی شراب پر بولا جاتا ہے ۔ قصی القَصَى: البعد، والْقَصِيُّ : البعید . يقال : قَصَوْتُ عنه، وأَقْصَيْتُ : أبعدت، والمکان الأَقْصَى، والناحية الْقَصْوَى، ومنه قوله : وَجاءَ رَجُلٌ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعى [ القصص/ 20] ، وقوله : إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى [ الإسراء/ 1] يعني : بيت المقدس، فسمّاه الْأَقْصَى اعتبارا بمکان المخاطبین به من النبيّ وأصحابه، وقال : إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال/ 42] . وقَصَوْتُ البعیر : قطعت أذنه، وناقة قَصْوَاءُ ، وحکوا أنه يقال : بعیر أَقْصَى، والْقَصِيَّةُ من الإبلِ : البعیدةُ عن الاستعمال . ( ق ص و ) القصی کے معنی بعد یعنی دوری کے ہیں اور قصی بعید کو کہا جاتا ہے محاورہ ہے : ۔ قصؤت عنہ میں اس سے دور ہوا اقصیہ میں نے اسے دور کردیا ۔ المکان الاقصی دور دراز جگہ الناحیۃ القصویٰ دور یا کنارہ اسی سے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَجاءَ رَجُلٌ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعى [ القصص/اور ایک شخص شہر کی پر لی طرف سے دوڑتا ہوا آیا ۔ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى [ الإسراء/ 1] مسجد اقصی ٰ یعنی بیت المقدس تک ۔ میں المسجد الاقصیٰ سے مراد بیت المقدس ہے اور اسے الاقصیٰ مخاطبین یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے مقام سکونت کے اعتبار سے کہا ہے ۔ کیونکہ وہ مدینہ سے دور تھی ۔ إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال/ 42] جس وقت تم ( مدینے سے ) قریب ناکے پر تھے اور کافر بعید کے نا کے پر ۔ قصؤت البعیر کے معنی اونٹ کا کان قطع کرنے کے ہیں اور کان کٹی اونٹنی کو ناقۃ قصراء کہا جاتا ہے اور اس معنی میں بعیر اقصیٰ کا ماکورہ بھی منقول ہے قصیۃ اس اونٹنی کو کہا جاتا ہے جو کام کاج سے دور رکھی گئی ہو ( اصیل اونٹنی )  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٢۔ ٢٣) چناچہ حضرت مریم (علیہ السلام) حاملہ ہوگئیں اور ان کا حمل نو ماہ کا تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک دن کا تھا چناچہ وہ اس کی پیدائش کے وقت دور دراز مقام پر لوگوں سے علیحدہ کسی جگہ پر چلی گئیں اور دردزہ کی شدت کی وجہ سے ایک خشک کھجور کے درخت کی آڑ لی اور گھبرا کر بولیں کہ کاش میں اس بچہ سے پ... ہلے ہی یا اس دن سے پہلے ہی مرگئی ہوتی اور ایسی نیست ونابود ہوجاتی کہ کسی کو یاد بھی نہ رہتی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ (فَحَمَلَتْہُ فَانْتَبَذَتْ بِہٖ مَکَانًا قَصِیًّا) اس پریشانی میں کہ حمل بڑھے گا تو لوگ کیا کہیں گے ‘ حضرت مریم تنہائی کی غرض سے بیت اللحم چلی گئیں ‘ جو ہیکل سلیمانی سے آٹھ میل کے فاصلے پر تھا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

16. When she conceived the child, she left the sanctuary and went to a distant place (Bethlehem) in order to escape the bitter criticism of the people. They would have said: Look at the virgin daughter of the pious house of Aaron! She has conceived a child and that, too, in the sanctuary where she had retired for devotion! Thus she temporarily succeeded in concealing the shame of the conception, b... ut this event itself is a proof that prophet Jesus was born without a father. Had Mary been married and had a husband, she would not have left his or her parents house by herself and chosen a distant place for the purpose of delivery.  Show more

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :16 دور کے مقام سے مراد لحم ہے ۔ حضرت مریم کا اپنے اعتکاف سے نکل کر وہاں جانا ایک فطری امر تھا ۔ بنی اسرائیل کے مقدس ترین گھرانے بنی ہارون کی لڑکی ، اور پھر وہ جو بیت المقدس میں خدا کی عبادت کے لیئے وقف ہو کر بیٹھی تھی ، یکایک حاملہ ہو گئی ۔ اس حالت میں اگر وہ اپنی ج... ائے اعتکاف پر بیٹھی رہتیں اور ان کا حمل لوگوں پر ظاہر ہو جاتا تو خاندان والے ہی نہیں قوم کے دوسرے لوگ بھی ان کا جینا مشکل کر دیتے ۔ اس لیئے بے چاری اس شدید آزمائش میں مبتلا ہونے کے بعد خاموشی کے ساتھ اپنے اعتکاف کا حجرہ چھوڑ کر نکل کھڑی ہوئیں تاکہ جب تک اللہ کی مرضی پوری ہو ، قوم کی لعنت ملامت اور عام بدنامی سے تو بچی رہیں ۔ یہ واقعہ بجائے خود اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام باپ کے بغیر پیدا ہوئے تھے ۔ اگر وہ شادی شدہ ہوتیں اور شوہر ہی سے ان کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تو کوءی وجہ نہ تھی کہ میکے اور سسرال سب کو چھوڑ چھاڑ کر وہ زچگی کے لئےتن تنہا ایک دور درا مقام پر چلی جاتیں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٢۔ ٢٦:۔ صحیح بخاری میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مرد اور عورت کا نطفہ چالیس روز تک عورت کے رحم میں رہ کر جما ہوا خون ہوجاتا ہے پھر اس خون کا گوشت بن جاتا ہے اور اس گوشت سے ہڈیاں بن کر ان ہڈیوں پر گوشت کا غلاف چڑھ جاتا ہے اس طرح ساڑھے...  چار مہینے میں یہ سب کچھ ہو کر بچہ کا پتلا تیار ہوجاتا ہے اور پھر اس پتلہ میں روح پھونک دی جاتی ہے ١ ؎۔ یہ تو سب عورتوں کے حمل کی حالت ہوئی حضرت مریم کے حمل میں یہ بات نہیں ہوئی کہ بجائے مرد اور عورت کے نطفہ کے فقط عورت کے نطفہ سے کلمہ کن کے موافق پتلہ تیار ہوا اور پتلہ سے اس روح کا تعلق ہوگیا جو روح جبرئیل (علیہ السلام) نے حضرت مریم کے جسم میں پھونک دی تھی۔ چناچہ سورة نساء کی آیت (انما المسیح عیسیٰ بن مریم رسول اللہ وکلمتہ القاھا الیٰ مریم) سے اس بات کو جتلایا گیا ہے غرض کہ جس صاحب قدرت نے مرد اور عورت کے نطفہ سے خلاف عقل پتلہ کی تیاری کا کام لیا یا بغیر مرد اور عورت کے نطفہ کے آدم (علیہ السلام) اور حوا کو پیدا کیا فقط عورت کے رحم کی رطوبت سے ایک بچہ کا پتلا بنا دینا اس کی قدرت سے کیا بعید ہے ان آیتوں میں حضرت مریم کے حمل کا ذکر تھا یہ ذکر نہیں تھا کہ وہ حمل بغیر مرد کے نطفہ کے کیونکر رہ گیا سورة نساء کی اوپر کی آیت کو ان آیتوں کے ساتھ ملایا جائے تو یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ خلاف عادت اس حمل کا ظہور کیوں کر ہوا بغیر مرد کے نطفہ کے حمل کا رہنا خلاف عادت تھا جس سے مریم (علیہا السلام) کو یہ اندیشہ ہوا کہ اس خلاف عادت حمل کو دیکھ کر قوم کے لوگ طرح طرح کی باتیں بنا دیں گے اس اندیشہ سے مریم (علیہا السلام) اپنے عبادت خانہ سے دور ایک مکان میں چلی گئیں اور بچہ کی پیدائش کے وقت تک وہیں رہیں اور بچہ کی پیدائش کا درد جب شروع ہوا تو وہاں سے بھی الگ ایک کھجور کے درخت کے نیچے جا بیٹھیں پھر درد زہ کی تکلیف اور خلاف عادت بچہ کی پیدائش کی شرم سے اپنے آپ کو یوں کو سنے لگیں کہ کسی طرح اس حالت سے پہلے ہی مرجاتی اور اب تک لوگوں کے دل سے بھولی بسری ہوجاتی تو خوب ہوتا۔ سورة الاعراف میں گزر چکا ہے کہ بنی اسرائیل میں کے ستر آدمی جب بجلی گر کر مرگئے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی موت کی تمنا ظاہر کی تھی اسی واسطے مریم (علیہا السلام) نے اس طرح کی تمنا کو جائز رکھا لیکن شریعت محمدی میں تکلیف کے وقت موت کی تمنا جائز نہیں ہے۔ چناچہ صحیح مسلم کی انس بن مالک کی روایت میں اس طرح کی تمنا کی مناہی آئی ہے ٢ ؎۔ معلوم ہوتا ہے کہ شریعت موسوی میں اس طرح کی تمنا جائز تھی۔ آگے یہ جو ذکر ہے کہ اس گھبراہٹ کے وقت مریم (علیہا السلام) کو یہ آواز آئی کہ گھبراؤ نہیں ‘ تمہارے پیروں کے نیچے اللہ تعالیٰ نے پانی کی نہر جاری کردی ہے اور اس کھجور کے درخت کو ہلاؤ گی تو اس میں سے پکی کھجوریں جھڑیں گی وہ کھجوریں کھاؤ نہر کا پانی پیو اپنے لڑکے کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کرو اور قوم میں کا کوئی شخص نظر آوے اور تم سے بات چیت کرنی چاہے تو اس سے کہہ دو کہ میرا آج خاموشی کا روزہ ہے اس لیے میں بات چیت نہیں کرسکتی۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مریم (علیہا السلام) کے پیروں کے نیچے سے پیدا ہوتے ہی یہ آواز جبرئیل (علیہ السلام) کی تھی اور مجاہد کا قول ہے کہ یہ آواز عیسیٰ (علیہ السلام) نے دی تھی حافظ ابو جعفر ابن جریر نے مجاہد کے قول کو ترجیح دی ہے ٣ ؎۔ اور اس ترجیح کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اس آواز کے دینے سے مریم (علیہا السلام) کو عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف عادت بولنے کا تجربہ ہوچکا تھا اسی واسطے انہوں نے آگے کی آیت میں قوم کے لوگوں کو اشارہ سے جتلایا کہ تم اس لڑکے سے بات چیت کرو لیکن اکثر سلف کا قول وہی ہے جس کی روایت حضرت عبداللہ بن عباس سے ہے اس واسطے شاہ صاحب نے اپنے فائدہ میں یہی قول لیا ہے شریعت موسوی میں خاموشی کا روزہ ہوا کرتا تھا شریعت محمدی میں اس طرح کا روزہ جائز نہیں ہے چناچہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے ایک شخص کو اس طرح کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھ کر منع کیا ٤ ؎۔ اس طرح کی ممانعت عبداللہ بن مسعود نے ضرور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن کر کی ہوگی کیونکہ اپنی طرف سے صحابہ کوئی ایسا حکم نہیں دیتے تھے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٤٦٩ ج ١ باب خلق آدم وزرتیہ۔ ٢ ؎ صحیح ٣٤٢ ج ٢ باب کر اہتہ تمنی الموت۔ ٣ ؎ تمام اقوال کے لیے دیکھئے تفسیر ابن کثیرص ١١٥ ج ٣۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:22) فحملتہ۔ پس اس نے اس کو اٹھایا۔ اس کو پیٹ میں رکھا۔ حملت حمل سے ہے۔ جس کا معنی پیٹ کا بچہ۔ حمل (احمال) جمع ہے۔ ماضی واحد مؤنث غائب ہُ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب۔ جس کا مرجع پیٹ کا بچہ ہے۔ انتبذت۔ ملاحظہ ہو 19:16 ۔ انتبذت بہ۔ اس کو لے کر ایک طرف الگ ہوگئی۔ قصیا۔ القصی کے معنی بعید۔ دور کے ہیں... ۔ اس کی جمع اقصاء ہے۔ مؤنث قصیۃ ہے اس کی جمع قصایا ہے قصومادہ۔ قصا یقصوا (نصر) قصو وقصو وقصائمصدر مکانا قصیا۔ دور جگہ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 تاکہ حمل کے دن لوگوں کے طعن وتشنیع اور چہ میگوئیوں سے محفوظ رہ کر گزار سکیں۔ ” دور کان “ سے مراد بیت اللحم ہے جو بیت المقدس سے آٹھ میل دور واقع ہے اسی کا نسائی میں حضرت انس کی ایک روایت میں ذکر ہے اور یہی وہ مشہور بات ہے جسے مفسرین یکے بعد دیگرے نقل کرتے رہے ہیں اور اس باب میں نصاریٰ کو بھی کوئ... ی شک نہیں ہے۔ (ابن کثیر)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 22 تا 36 انتبذت (انتباذ) الگ ہوگئی، جدا ہوگئی قصی دور کا فاصلہ۔ المخاض زچگی کا درد۔ دردزہ۔ جزع جڑ۔ نسیا منسیا بھولی بسری چیز۔ بےنام و نشان ہوجانا۔ سری پانی کا چشمہ۔ ھزی ہلالی۔ جھکادے۔ تساقط گرائی گی۔ رطب ترو تازہ۔ جنی پکا ہوا پھل۔ قری عین آنکھیں ٹھنڈی رکھ۔ ترین تو دیکھے۔ نذرت...  میں نے منت مان رکھی ہے۔ تحملہ وہ اس کو اٹھا لائے۔ فری (افترائ) عجیب اور نرالی بات۔ المھد گود۔ صبی بچہ۔ اوصنی مجھے حکم دیا۔ مادمت حیا جب تک میں زندہ ہوں۔ شقی بدنصیب، بدنصیب، بدقسمت۔ یمترون وہ شک کرتے ہیں۔ تشریح : آیت نمبر 22 تا 36 حضرت مریم نے جب سے ہوش سنبھالا تھا اس وقت سے وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتیں اور پاکیزگی، عفت و عصمت کی ایک مکمل تصویر تھیں۔ وہ لوگوں سے الگ ہو کر عبادت الٰہی کی خاطر ایک مکان میں بیٹھ گئیں۔ اس دوران حضرت جبرئیل اللہ کے حکم سے ایک مکمل انسان کی شکل میں حضرت مریم کے سامنے آگئے۔ اس اکیلے مکان میں ایک اجنبی آدمی کو دیکھ کر حضرت مریم گھبرا گئیں۔ شرم و حیا سے سمٹ کر کہہ اٹھیں اگر تمہارے دل میں ذرہ برابر بھی خوف الٰہی ہے تو یہاں سے چلے جاؤ۔ حضرت جبرئیل نے حضرت مریم کی گھبراہٹ کو دیکھ کر اپنے آپ کو ظاہر کردیا اور کہا کہ میں تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے بھیجا ہوا آیا ہوں تاکہ تمہیں ایک بیٹے کی اطلاع اور خوشخبری سناؤں۔ حضرت مریم نے حیرت اور تعجب سے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے جب کہ مجھے آج تک کسی انسان نے ہاتھ تک نہیں لگایا اور نہ میں کوئی بدکار عورت ہوں۔ فرشتے نے کہا ” کذالک “ یعنی ایسے ہی ہوگا ۔ آپ نے گزشتہ آیات میں پڑھ لیا ہے کہ جب حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اپنی اور اپنی بیوی کی حالت کو دیکھ کر تعجب سے پوچھا تھا کہ اس بڑھاپے میں ہمارے ہاں بیٹا کیسے ہوگا۔ اس پر فرشتے نے کہا تھا۔ ” کذالک “ اسی طرح ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ” کذالک “ کے معنی یہی ہے کہ اللہ تمام قدرتوں اور طاقوتوں کا مالک ہے۔ جب وہ کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کرلیتا ہے تو وہ اسی طرح ہوتا ہے جس طرح وہ چاہتا ہے کیونکہ وہ انسانوں کی طرح ہر کام میں اسباب اور وسائل کا محتاج نہیں ہے۔ اس جگہ یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اے مریم اس میں تعجب کی کیا بات ہے وہ اولاد کے پیدا کرنے میں اس اصول کا پابند نہیں ہے کہ ہر بچہ ماں اور باپ کے ملاپ سے پیدا ہو بلکہ وہ چاہے تو بغیر ماں باپ کے حضرت آدم علیہ اسلام اور حواء کو پیدا کر دے اور بغیر باپ کے تمہیں بیٹا عطا فرما دے۔ اس اللہ کی اتنی زبردست قوت ہے کہ وہ اپنے فیصلوں اور کام میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ اللہ نے اس کام کے کرنے کا فیصلہ فرما لیا ہے۔ تاکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کو ایک معجزہ اور نشانی بنا دیا جائے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ مقام جہاں حضرت مریم چلی گئی تھیں وہ بیت اللحم ہے جو بیت المقدس سے آٹھ میل کے فاصلے پر ہے۔ جب زچگی کا درد محسوس ہوا تو حضرت مریم بےتابانہ جنگل کی طرف نکل گئیں اور ایک کھجور کا درخت جو کسی قدر اونچائی پر واقع تھا اس کے سہارے بیٹھ گئیں ان کے منہ سے نکل گیا کاش میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی یا اس رسوائی سے پہلے مٹ گئی ہوتی آپ اس کشمکش میں تھیں کہ ٹیلے کے نیچے سے حضرت جبرئیل کی آواز آئی کہ گھبرانا مت اللہ نے آپ کے لئے راحت و آرام کے تمام اسباب کا انتظام فرما دیا ہے۔ آپ سے قریب ہی صاف و شفاف پانی کا چشمہ بہادیا گیا ہے اور تازہ کھجوروں کا یہ درخت جس کے نیچے آپ ہیں اس کو ہلائیے تو تازہ اور لذیذ کھجوریں گر پڑیں گی یہ اللہ نے آپ کے کھانے پینے کا انتظام کیا ہے۔ آپ اس کو کھائیے اور پیجئے اور اولاد سے آنکھیں ٹھنڈی رکھئے اللہ نے یہ بھی فرما دیا کہ اگر کوئی ادھر نکل آئے تو اس سے اشارے سے بتا دینا کہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے اس شریعت میں روزہ رکھنے کا یہی طریقہ تھا کہ روزے کی حالت میں کسی سے بات نہ کی جاتی تھی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے بعد جب حضرت مریم اپنے بچے کو لیکر واقف کاروں میں پہنچیں تو انہوں نے تعجب حیرت اور افسوس سے کہا کہ اے مریم تم نے یہ کیا غضب کیا ہم سب جانتے ہیں کہ تمہارے والد تو نہایت پاکیزہ صفت صالح اور نیک آدمی تھے تمہارے والدہ بھی نہایت شریف پاک دامن اور پارسا خاتون تھیں تم جیسی نیک خاندان کی لڑکی سے اس طرح کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی اس طرح لوگوں نے طرح طرح کے طعنے دینے شروع کردیئے جب سب لوگوں نے طرح طرح کی باتیں کیں تو حضرت مریم نے اللہ کے حکم سے اس بچے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر تمہیں میری پاکدامنی پر شبہ ہے تو تم خود اس بچے ہی سے پوچھ لو حضرت مریم جیسی سنجیدہ اور باوقار خاتون سے یہ جملہ سن کر سب کی زبان سے نکلا کہ بھلا وہ بچہ جو اپنے گہوارے میں ہمک رہا ہے وہ ہم سے کیسے بات کرے گا اور ہم اس سے کیسے پوچھیں گے۔ ابھی یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بولنے کی قوت اور طاقت عطا فرمائی اور انہوں نے کہنا شروع کیا میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے نبی بنا کر کتاب دینے کا فیصلہ کیا ہے او اس نے مجھے اس قدر خوش نصیب بنایا ہے کہ میں جہاں بھ یر ہوں گا وہیں خیر و برکت میرے ساتھ ساتھ رہے گی اس اللہ نے مجھے نماز ادا کرنے اور زکوۃ دینے کا حکم دیا ہے جب تک میں زندہ رہوں اور اس نے مجھے اپنی والدہ کیساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم بھی دیا ہے اور مجھے ہر طرح کی سرکشی اور بدنصیبی سے دور کررہا ہے۔ اس نے مجھے خوش خلق اور ہمدرد بنایا ہے اور فرمایا کہ اللہ کا مجھ پر کتنا کرم ہے کہ دنیا کی زندگی اور موت اور قیامت کے دن دوبارہ اٹھائے جانے کے دن تک میرے اوپر سلامتی ہی سلامتی رہے گی اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ان آٹھ صفات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ ہیں وہ حضرت عیسیٰ ابن مریم جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا فرماں برادار اور انسانیت کا سچا خادم بتایا ہے۔ فرمایا کہ تم جس عیسیٰ کی بات کرتے ہو وہ تمہارے ذہن کا گھڑا ہوا جھوٹا تصور ہے بلکہ اصل عیسیٰ ابن مریم وہ ہیں جو اللہ کے فرماں بردار اور اطاعت گذار بندے ہیں وہ اللہ کے بیٹے نہیں تھے جیسے کہ تم کہتے ہو فرمایا کہ اس اللہ کو اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا، بیٹی یا بیوی بنائے کیونکہ وہ دنیا کے تمام اسباب سے بےنیاز ہے وہ جب کسی کام کے کرنے کا حکم دیتا ہے تو وہ صرف ” کن “ (ہو جا) کہتا ہے اور وہ چیز ہوجاتی ہے حکم دیا کہ لوگوں تم اسی کی عبادت اور بندگی کرو اور انسانوں کو معبود کا درجہ نہ دو کیونکہ اس صراط مستقیم سے ہٹ کر جو راستہ بھی تلاش کیا جائے گا وہ منزل تک نہیں پہنچا سکتا وہ منزل سے دور کر دے گا۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : فرشتے نے حضرت مریم [ کے جسم پر پھونک ماری جس سے وہ حاملہ ہوگئیں۔ اٹھائیسویں پارہ سورة التحریم کی آخری آیت میں جبرائیل امین (علیہ السلام) کی پھونک کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے عمران کی بیٹی مریم [ جس نے اپنی شرم و حیاء کی حفاظت فرمائی۔ ہم نے اس می... ں اپنی روح پھونک دی۔ جبرئیل امین کی پھونک کے ساتھ وہ حاملہ ہوگئیں تو اس حالت میں مسجد اقصیٰ سے دور ایک مکان میں جا ٹھہریں۔ جب اسے زچگی کی تکلیف محسوس ہوئی تو وہ ایک کھجور کے تنے کے قریب آئیں۔ تکلیف اور ولادت کی وجہ سے بےساختہ کہنے لگی ہائے کاش ! میں اس سے پہلے مرچکی ہوتی اور لوگوں کے ذہن میں بھولی بسری ہوچکی ہوتی۔ اس مشکل وقت میں کھجور کے نیچے سے فرشتے نے آواز دی اے مریم [! تجھے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ کے رب نے تیرے پاؤں کے نیچے ایک چشمہ جاری کردیا ہے اور کھجور کے تنے کو ہلاؤ تیرے سامنے ترو تازہ کھجوریں آگریں گی۔ کھجوریں کھاؤ، پانی پیو اور بیٹے سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو۔ اگر اپنی طرف کسی آدمی کو آتے ہوئے دیکھو تو اسے کہو کہ میں نے رب رحمن کے لیے روزے کی منت مانی ہے اس لیے میں آج کسی مرد و زن سے بات نہیں کروں گی۔ قرآن مجید کے الفاظ سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ حضرت مریم [ زچگی کے وقت مسجد اقصیٰ سے دور ایک مکان میں چلی گئی تھیں۔ جس کے متعلق مفسرین نے مختلف باتیں لکھیں ہیں جن میں اقرب ترین بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہی وہ مقام ہے جسے تاریخ میں بیت لحم کہا جاتا ہے۔ معراج کے واقعے میں سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اس مقام سے گزرے تو جبرئیل امین (علیہ السلام) نے آپ کو توجہ دلائی یہ وہ بیت اللحم ہے جہاں عیسیٰ ( علیہ السلام) پیدا ہوئے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے براق سے اتر کر یہاں دو نفل ادا کیے۔ اسی مقام پر حضرت مریم [ کو یہ ہدایات دی جا رہی ہیں کہ آپ تازہ کھجوریں کھائیں، ٹھنڈا پانی پئیں اور بیٹے سے پیار کرکے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں۔ اگر کوئی آپ سے بات کرنا چاہے تو کہیں کہ میں نے نہ بولنے کی منت مانی ہوئی ہے۔ بنی اسرائیل کی شریعت میں چپ کا روزہ رکھنا جائز تھا مگر ہماری شریعت میں چپ کا روزہ رکھنا اور ایسی نذر ماننا جائز نہیں، یہاں تک کہ مصیبت کے وقت موت مانگنا یا خود کشی کرنا بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔ حضرت مریم [ نے ارادتاً نہیں بلکہ لوگوں کی طعنہ وتشنیع کے خوف سے انتہائی کرب کے عالم میں یہ الفاظ کہے تھے۔ مصیبت کے وقت ایسے الفاظ بڑے بڑے نیک لوگوں کی زبان سے بےساختہ نکل جایا کرتے ہیں۔ ان الفاظ کا معنٰی موت مانگنا نہیں ہوتا بلکہ انتہا درجہ کے غم کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔ نذر کے مسائل : (عَنْ عَاءِشَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ نَذَرَ أَنْ یُطِیع اللَّہَ فَلْیُطِعْہُ ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ باب النَّذْرِ فِی الطَّاعَۃِ یَعْصِیَہُ فَلاَ یَعْصِہِ )[ رواہ البخاری : باب النَّذْرِ فِی الطَّاعَۃِ ] ” سیدہ عائشہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیان کرتی ہیں جو شخص اللہ کی اطاعت کی نذر مانتا ہے اس چاہیے کہ وہ نذر پوری کرے اور جس نذر میں اللہ کی نافرمانی ہو اسے پورا نہیں کرنا چاہیے۔ “ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ بَیْنَا النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَخْطُبُ إِذَا ہُوَ بِرَجُلٍ قَاءِمٍ فَسَأَلَ عَنْہُ فَقَالُوا أَبُو إِسْرَاءِیلَ نَذَرَ أَنْ یَقُومَ وَلاَ یَقْعُدَ وَلاَ یَسْتَظِلَّ وَلاَ یَتَکَلَّمَ وَیَصُومَ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مُرْہُ فَلْیَتَکَلَّمْ وَلْیَسْتَظِلَّ وَلْیَقْعُدْ وَلْیُتِمَّ صَوْمَہُ ) [ رواہ البخاری : باب النَّذْرِ فیمَا لاَ یَمْلِکُ وَفِی مَعْصِیَۃٍ ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ آپ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ کھڑا ہوا ہے آپ نے اس کے بارے میں لوگوں سے پوچھالوگوں نے عرض کی کہ یہ ابواسرائیل ہے اس نے نذر مانی ہے کہ وہ کھڑا رہے گا بیٹھے گا نہیں نہ سایہ میں جائے گا، نہ کلام کرے گا اور ہمیشہ روزے کی حالت میں رہے گا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسے کہو کلام کرے سایہ میں جائے، بیٹھے اور اپنا روزہ پورا کرے۔ “ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ ہُرَیْرَۃَنَذَرَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ أَنْ یَعْتَکِفَ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ قَالَ أُرَاہُ قَالَ لَیْلَۃً قَالَ لَہُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَوْفِ بِنَذْرِکَ ) [ رواہ البخاری : باب إِذَا نَذَرَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ أَنْ یَعْتَکِفَ ثُمَّ أَسْلَمَ ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے دور جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ وہ مسجد حرام میں اعتکاف کریں گے راوی کہتا ہے میرا خیال ہے انہوں نے ایک رات کی نذر مانی تھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنی نذر پوری کرو۔ “ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ہُرَیْرَۃَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لاَ یَتَمَنَّیَنَّ أَحَدُکُمُ الْمَوْتَ مِنْ ضُرٍّ أَصَابَہُ ، فَإِنْ کَانَ لاَ بُدَّ فَاعِلاً فَلْیَقُلِ اللَّہُمَّ أَحْیِنِی مَا کَانَتِ الْحَیَاۃُ خَیْرًا لِی، وَتَوَفَّنِی إِذَا کَانَتِ الْوَفَاۃُ خَیْرًا لِی) [ رواہ البخاری : باب تَمَنِّی الْمَرِیضِ الْمَوْتَ ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تکلیف کی وجہ سے کوئی آدمی موت کی تمنا نہ کرے اگر وہ ایسا کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ یہ دعا کریں۔ اے اللہ ! جب تک میرا زندہ رہنا بہتر ہے مجھے زندہ رکھ اور جب میرا فوت ہونا بہتر ہو تو مجھے فوت فرما لے۔ “ کون سی نذر نہیں ماننا چاہیے : (حَدَّثَنِیْ ثَابِتُ بْنُ الضَّحَاکِ ہُرَیْرَۃَ قَالَ نذَرَ رَجُلٌ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنْ یَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ فَأَتَی النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ إِنِّيْ نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ فَقَال النَّبِيُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھَلْ کَانَ فِیْھَا وَثَنٌ مِنْ أَوْثَانِ الْجَاھِلِیَّۃِ یُعْبَدُ قَالُوْا لَا قَالَ ھَلْ کَانَ فِیْھَا عِیْدٌ مِنْ أَعْیَادِھِمْ قَالُوْا لَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَوْفِ بِنَذْرِکَ فَإِنَّہٗ لَاوَفَاءَ لِنَذْرٍ فِيْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ وَلَا فِیْمَا لَا یَمْلِکُ ابْنُ آدَمَ ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الأیمان والنذور باب مایؤمربہ من وفاء النذر ] ” مجھے ثابت بن ضحاک (رض) نے بتایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں ایک آدمی نے بوانہ نامی جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی۔ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر عرض کی میں نے نذر مانی ہے کہ میں بوانہ نامی جگہ پر اونٹ ذبح کروں گا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی عبادت کی جاتی تھی ؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں۔ آپ نے پھر پوچھا : کیا وہاں کوئی ان کا میلہ لگتا تھا ؟ صحابہ نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرو کیونکہ اللہ کی نافرمانی والی نذر پوری نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی وہ نذر پوری کرنا لازم ہے جس کی انسان طاقت نہیں رکھتا۔ “ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ہُرَیْرَۃَ وَ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا تَنْذُرُوْا فَإِنَّ النَّذْرَ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْقَدْرِ شَیْءًا وَإِنَّمَا یُسْتَخْرَجُ بِہٖ مِنَ الْبَخِیْلِ ) [ رواہ مسلم : باب النَّہْیِ عَنِ النَّذْرِ وَأَنَّہُ لاَ یَرُدُّ شَیْءًا ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) اور عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نذر نہ مانا کرو ‘ اس لیے کہ نذر تقدیر کو نہیں ٹال سکتی اس طرح صرف بخیل سے کچھ نہ کچھ مال نکلوایا جاتا ہے۔ “ مسائل ١۔ حضرت مریم [ زچگی کے عالم میں مسجد اقصیٰ سے دور چلی گئیں تھیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے زچگی کے وقت حضرت مریم [ کو چشمہ کا پانی اور تازہ کھجوریں عنایت فرمائی تھیں۔ ٣۔ نذر شریعت کے مطابق ماننا اور اسے پورا کرنا چاہیے۔ ٤۔ ہارون سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی ہارون نہیں۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کی نظر میں نذر : ١۔ میں نے رحمٰن کے لیے نذر مانی ہے میں کسی سے کلام نہیں کروں گی۔ (مریم : ٢٦ ) ٢۔ جو تم اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتے ہو یا تم نذر مانتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٧٠) ٣۔ عمران (علیہ السلام) کی بیوی نے کہا جو کچھ میرے بطن میں ہے میں اس کی نذر مانتی ہوں۔ (آل عمران : ٢٥)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ اس پاک دامن دوشیزہ کے لئے تیسرا دھچکا ہے۔ سیاق کلام میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ یہ حمل کیسے ٹھہرا ، کتنا عرصہ رہا یا کوئی عادی حمل تھا جس طرح عورتوں کو ہوتا ہے۔ یہ اللہ کی جانب سے ایک پھونک تھی اور عورت کے رحم میں بیضے کے اندر حرکت پیدا ہوگئی۔ یہ خون کالوتھڑا بن گیا ، اس کے اندر ہڈیاں بن گئیں ، ہڈیو... ں پر گوشت بننا شروع ہوگیا اور جنین نے حمل کا مقررہ وقت پورا کیا۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کیونکہ عورت کے بیضے میں حرکت پیدا کی اور اس نے اپنا طبیعی عمل شروع کردیا۔ یہ بیھ ممکن ہے کہ اس غیر معمولی واقعہ میں بیضے نے اپنا عادی کورس پورا نہ کیا ہو ، یہ تمام مراحل اعجوبے کی طرح جلدی جلدی طے ہوگئے ہوں اور رحم مادر میں بچہ جلدی جلدی تکمیل کے مراحل طے کر گیا ہو۔ یہاں ایٓت میں تو کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ دونوں طریقفوں اور امکانیات میں سے کون سا عمل ہوا۔ لہٰذا ہم بھی اس بحث میں نہیں پڑتے جس کے بارے میں تحقیق کے لئے مہارے پاس کوئی مسند مواد نہیں ہے۔ ہمیں جو بات یہاں بتائی اور دکھائی جاتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ حمل ٹھہرا اور مریم اپنی فیملی سے دور ایک تنہا مقام میں چلی گئی ہیں۔ یہ صورت حالات ان کے لئے سابقہ حالات سے زیادہ خوفناک ہے پہلے موقف میں تو ان کو صرف اپنے کنوارے پن ، تربیت اور اخلاق کی فکر تھی ، یہ صرف ان کا خفیہ مسئلہ تھا۔ خفیہ رہ سکتا تھا ، لیکن یہاں یہ مسئلہ اب سوسائٹی کے سامنے آنے الا ہے۔ نفسیاتی تکالیف کے ساتھ اب وہ جسمانی تکالیف سے بھی دوچار ہیں۔ دردزہ کی تکلیف انہیں کھجور کے ایک تنے کے پاس لاتی ہے۔ وہ مجبوراً اس درخت کا سہارا لیتی ہے۔ یہاں یہ یکہ و تنہا ہے۔ کنوارے پن کی پہلی ولادت میں زچگی کی تکالیف بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ وہ کچھ تجربہ نہیں رکھتیں ، کوئی معاون و مددگار بھی نہیں ہے ، اچانک اس کے منہ سے یہ کلمات نکلتے ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حمل اور وضع حمل کا واقعہ، دردزہ کی وجہ سے کھجور کے درخت کے نیچے پہنچنا فرشتہ کا آواز دینا کہ غم نہ کرو درخت کا تنا ہلاؤ تر کھجوریں کھاؤ (فَحَمَلَتْہُ فاَنْتَبَذَتْ بْہٖ مَکَانًا قَصِیًّا) (سو اس لڑکے سے وہ حاملہ ہوگئی۔ لہٰذا وہ اس حمل کو لیے ہوئے علیحدہ ہو کر دور چلی گئی) سورة تحریم میں فرمایا (وَم... َرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِیْ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِکَلِمَاتِ رَبِّہَا وَکُتُبِہٖ وَکَانَتْ مِنَ الْقَانِتِیْنَ ) (اور اللہ عمران کی بیٹی مریم کا حال بیان فرماتا ہے جس نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا سو ہم نے اس کے گریبان میں اپنی روح پھونک دی اور انھوں نے اپنے پروردگار کے پیغاموں کی اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اطاعت والوں میں سے تھیں) حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے پھونکنے کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے تھے اس پھونکنے سے حمل قرار پا گیا۔ حمل قرار پانے کے بعد وہ اس حمل کو لیے ہوئے اپنے گھر سے کسی دور جگہ میں چلی گئیں پھر جب دردزہ یعنی پیدائش کا درد شروع ہوا تو اس کی وجہ سے کھجور کے درخت کے پاس آگئیں اور اس کے تنہ کے قریب یا اس سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئیں اور اسی حالت میں کہنے لگیں کہ ہائے کاش میں پہلے سے مرگئی ہوتی اور بالکل ہی بھولی بسری ہوجاتی نہ کوئی جانتا نہ پہچانتا، اس وقت پریشانی کا عالم تھا جنگل تھا تنہائی تھی درد سے بےچین تھیں کوئی چھپر تک نہیں تھا جس میں لیٹیں اور یہ بھی خیال لگا ہوا تھا کہ بچہ پیدا ہوگا تو لوگ کیا کہیں گے ایسی پریشانی میں منہ سے یہ بات نکل گئی کہ کاش میں اس سے پہلے مردہ ہوچکی ہوتی، حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ استقرار حمل کے بعد تھوڑی ہی دیر میں ولادت ہوگئی (ذکرہ فی معالم التنزیل عنہ) آیت کریمہ کے سیاق سے بھی ایسا معلوم ہوتا ہے اور یہ سمجھ میں آتا ہے کہ دیگر حاملہ عورتوں کی طرح ان پر حمل کی مدت نہیں گزری کیونکہ اتنی لمبی مدت تک تنہا اکیلی عورت کا گھر سے باہر اور دور رہنا بعید ہے پھر اگر لمبی مدت ہوتی تو حمل کا ظاہر ہونا اور اندر پیٹ میں پرورش پانا اس سے لوگوں کو ولادت سے پہلے ہی حاملہ ہوجانے کا پتہ چل جاتا اور لوگوں کا طعن اور اعتراض شروع ہوجاتا لیکن قرآن کے بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ بچہ کو لے کر آئیں اس وقت لوگوں نے اعتراض کیا۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

17:۔ حضرت جبریل (علیہ السلام) نے حضرت مریم کے گریبان میں پھونک مارا جس سے وہ فوراً حاملہ ہوگئیں۔ ” فانتبذت بہ “ اور اس کے بعد ” فاجاءھا المخاض “ یعنی وہ اس کے فوراً بعد ایک دور جگہ چلی گئی اور پھر فورا درد زہ ایک کھجور کے سایہ میں لے آیا۔ ان پر فاء کا دخول جو تراخی بلا مہلت پر دلالت کرتی ہے اس سے بع... ض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ حمل کے فورا بعد بچے کی پیدائش ہوگئی تھی اور مدت حمل لمبی نہیں ہوئی (قرطبی ج 11 ص 92) ۔ لیکن حضرت عبداللہ بن عباس اور دیگر مفسرین کا قول ہے کہ مدت حمل ممتد تھی۔ جس طرح عام عورتوں کی ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباس سے نوماہ، عطا، ابو العالیہ اور ضحاک سے سات ماہ اور بعض سے ماہ منقول ہیں۔ (کبیر ج 5 ص 784، روح ج 16 ص 79)  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

22 پھر مریم (علیہ السلام) کو لڑکے کا حمل ہوگیا اور بیٹے کا پیٹ رہ گیا اور وہ اس حمل کو لئے ہوئے لوگوں سے علیحدہ اور یکسو ہو کر ایک دور جگہ چلی گئی ۔ یعنی حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کی پھونک سے حمل رہ گیا۔ پھر جب آثار وضع حمل ظاہر ہوئے تو وہ شرم کی وجہ سے کسی دور مقام پر چلی گئی۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ... ہیں یعنی جننے کے وقت 12۔ پھر مریم (علیہا السلام) کو حمل رہنے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت بقول عبداللہ بن عباس (رض) ایک گھڑی میں ہوئی، یعنی قیام حمل کے تھوڑیدیر کے بعد وضع حمل ہوگیا۔ بعض حضرات نے فرمایا ایک گھڑی حمل ٹھہرا اور دوسری گھڑی میں صورت بنی اور تیسرے گھنٹے میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوگئے۔ بعض مفسرین نے فرمایا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) عام بچوں کی طرح نو ماہ میں پیدا ہوئے۔ (واللہ اعلم)  Show more