What was said to Her after the Birth
Allah tells,
فَنَادَاهَا مِن تَحْتِهَا
...
Then he cried unto her from below her, saying:
Some reciters read the Ayah as,
مَنْ تَحْتِهَا
(Who was below her),
Meaning the one who was below her called to her.
Others recited it as,
مِن تَحْتِهَا
(from below her),
With the meaning of a preposition (from) instead of a pronoun (who).
The scholars of Tafsir have differed over the interpretation of who was calling out.
Al-`Awfi and others reported from Ibn `Abbas that he said,
فَنَادَاهَا مِن تَحْتِهَا
(Then cried unto her from below her),
"This is referring to Jibril because `Isa did not speak until she brought him to her people."
Similarly, Sa`id bin Jubayr, Ad-Dahhak, `Amr bin Maymun, As-Suddi and Qatadah all said,
"Verily, this is referring to the angel Jibril."
This means that he (Jibril) called out to her from the bottom of the valley.
Mujahid said,
فَنَادَاهَا مِن تَحْتِهَا
(Then cried unto her from below her),
"This is referring to `Isa bin Maryam."
Likewise, Abdur-Razzaq reported from Ma`mar that Qatadah said that Al-Hasan said,
"This is referring to her son (`Isa)."
This is also one of the two opinions reported from Sa`id bin Jubayr -- that it was her son, `Isa, speaking.
Sa`id said, "Have you not heard Allah saying,
فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ
(Then she pointed to him. Ayah 29),
Ibn Zayd and Ibn Jarir preferred this opinion in his Tafsir.
Allah said,
...
أَلاَّ تَحْزَنِي
...
Grieve not:
He called to her saying, "Do not grieve."
...
قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا
your Lord has provided a Sariy under you.
Sufyan Ath-Thawri and Shu`bah reported from Abu Ishaq that Al-Bara' bin `Azib said,
"This means a small stream."
Likewise, Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said,
"Sariy means a river."
Amr bin Maymun held the same view, as he said,
"It means a river for her to drink from."
Mujahid said,
"It means river in the Syrian language."
Sa`id bin Jubayr said,
"Sariy is a small flowing river."
Others said that Sariy refers to `Isa.
This was said by Al-Hasan, Ar-Rabi bin Anas, Muhammad bin Abbad bin Jafar, and it is one of the two opinions reported from Qatadah.
It is also the view of Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam.
However, the first view seems to be the most obvious meaning. For this reason, Allah said after it,
مریم علیہا السلام اور معجزات ۔
( من تحتہا ) کی دوسری قرأت من تحتھا بھی ہے یہ خطاب کرنے والے حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تو پہلا کلام وہی تھا جو آپ نے اپنی والدہ کی برات وپاکدامنی میں لوگوں کے سامنے کیا تھا ۔ اس وادی کے نیچے کے کنارے سے اس گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے یہ تشفی دی تھی ۔ یہ قول بھی کہا گیا ہے کہ یہ بات حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ہی کہی تھی ۔ آواز آئی کہ غمگین نہ ہو تیرے قدموں تلے تیرے رب نے صاف شفاف شیریں پانی کا چشمہ جاری کردیا ہے یہ پانی تم پی لو ۔ ایک قول یہ ہے کہ اس چشمے سے مراد خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں ۔ لیکن پہلا قول زیادہ ظاہر ہے ۔ چنانچہ اس پانی کے ذکر کے بعد ہی کھانے کا ذکر ہے کہ کھجور کے اس درخت کو ہلاؤ اس میں سے تروتازہ کھجوریں جھڑیں گی وہ کھاؤ ۔ کہتے ہیں یہ درخت سوکھا پڑا ہوا تھا اور یہ قول بھی ہے کہ پھل دار تھا ۔ بہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت وہ درخت کھجوروں سے خالی تھا لیکن آپ کے ہلاتے ہی اس میں سے قدرت الہٰی سے کھجوریں جھڑنے لگیں کھانا پینا سب کچھ موجود ہوگیا اور اجازت بھی دے دی ۔
فرمایا کھا پی اور دل کو مسرور رکھ ۔ حضرت عمرو بن میمون کا فرمان ہے کہ نفاس والی عورتوں کے لئے کھجوروں سے اور خشک کھجوروں سے بہتر اور کوئی چیز نہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کھجور کے درخت کا اکرام کرو یہ اسی مٹی سے پیدا ہوا ہے جس سے آدم علیہ السلام پیدا ہوئے تھے اس کے سوا اور کوئی درخت نرمادہ مل کر نہیں پھلتا ۔ عورتوں کو ولادت کے وقت تر کھجوریں کھلاؤ نہ ملیں تو خشک ہی سہی کوئی درخت اس سے بڑھ کر اللہ کے پاس مرتبے والا نہیں ۔ اسی لئے اس کے نیچے حضرت مریم علیہ السلام کو اتارا یہ حدیث بالکل منکر ہے تساقط کی دوسری قرأت تساقط اور تسقط بھی ہے مطلب تمام قرأت وں کا ایک ہی ہے پھر ارشاد ہوا کہ کسی سے بات نہ کرنا اشارے سے سمجھا دینا کہ میں آج روزے سے سمجھا دینا کہ سمجھا دینا کہ میں آج روزے سے ہوں یا تو مراد یہہے کہ ان کے روزے میں کلام ممنوع تھا یا یہ کہ میں نے بولنے سے ہی روزہ رکھا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس دو شخص آئے ۔ ایک نے تو سلام کیا ، دوسرے نے نہ کیا آپ نے پوچھا اس کی کیا وجہ ؟ لوگوں نے کہا اس نے قسم کھائی ہے کہ آج یہ کسی سے بات نہ کرے گا آپ نے فرمایا اسے توڑ دے سلام کلام شروع کر یہ تو صرف حضرت مریم علیہا السلام کے لئے ہی تھا کیونکہ اللہ کو آپ کی صداقت وکرامت ثابت کرنا منظور تھی اس لئے اسے عذربنا دیا تھا ۔ حضرت عبد الرحمن بن زید کہتے ہیں جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی والدہ سے کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں تو آپ نے کہا میں کیسے نہ گھبراؤں خاوند والی میں نہیں ، کسی کی ملکیت کی لونڈی باندی میں نہیں مجھے دنیا نہ کہے گی کہ یہ بچہ کیسے ہوا ؟ میں لوگوں کے سامنے کیا جواب دے سکوں گی ؟ کون سا عذر پیش کرسکوں گی ؟ ہاے کاش کہ میں اس سے پہلے ہی مرگئی ہوتی کاش کہ میں نسیا منسیا ہوگئی ہوتی ۔ اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا اماں آپ کو کسی سے بولنے کی ضرورت نہیں میں آپ ان سب سے نبٹ لوں گا آپ تو انہیں صرف یہ سمجھا دینا کہ آج سے آپ نے چپ رہنے کی نذر مان لی ہے ۔