Surat Marium

Surah: 19

Verse: 24

سورة مريم

فَنَادٰىہَا مِنۡ تَحۡتِہَاۤ اَلَّا تَحۡزَنِیۡ قَدۡ جَعَلَ رَبُّکِ تَحۡتَکِ سَرِیًّا ﴿۲۴﴾

But he called her from below her, "Do not grieve; your Lord has provided beneath you a stream.

اتنے میں اسے نیچے سے ہی آواز دی کہ آزردہ خاطر نہ ہو تیرے رب نے تیرے پاؤں تلے ایک چشمہ جاری کر دیا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

What was said to Her after the Birth Allah tells, فَنَادَاهَا مِن تَحْتِهَا ... Then he cried unto her from below her, saying: Some reciters read the Ayah as, مَنْ تَحْتِهَا (Who was below her), Meaning the one who was below her called to her. Others recited it as, مِن تَحْتِهَا (from below her), With the meaning of a preposition (from) instead of a pronoun (who). The scholars of Tafsir have differed over the interpretation of who was calling out. Al-`Awfi and others reported from Ibn `Abbas that he said, فَنَادَاهَا مِن تَحْتِهَا (Then cried unto her from below her), "This is referring to Jibril because `Isa did not speak until she brought him to her people." Similarly, Sa`id bin Jubayr, Ad-Dahhak, `Amr bin Maymun, As-Suddi and Qatadah all said, "Verily, this is referring to the angel Jibril." This means that he (Jibril) called out to her from the bottom of the valley. Mujahid said, فَنَادَاهَا مِن تَحْتِهَا (Then cried unto her from below her), "This is referring to `Isa bin Maryam." Likewise, Abdur-Razzaq reported from Ma`mar that Qatadah said that Al-Hasan said, "This is referring to her son (`Isa)." This is also one of the two opinions reported from Sa`id bin Jubayr -- that it was her son, `Isa, speaking. Sa`id said, "Have you not heard Allah saying, فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ (Then she pointed to him. Ayah 29), Ibn Zayd and Ibn Jarir preferred this opinion in his Tafsir. Allah said, ... أَلاَّ تَحْزَنِي ... Grieve not: He called to her saying, "Do not grieve." ... قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا your Lord has provided a Sariy under you. Sufyan Ath-Thawri and Shu`bah reported from Abu Ishaq that Al-Bara' bin `Azib said, "This means a small stream." Likewise, Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said, "Sariy means a river." Amr bin Maymun held the same view, as he said, "It means a river for her to drink from." Mujahid said, "It means river in the Syrian language." Sa`id bin Jubayr said, "Sariy is a small flowing river." Others said that Sariy refers to `Isa. This was said by Al-Hasan, Ar-Rabi bin Anas, Muhammad bin Abbad bin Jafar, and it is one of the two opinions reported from Qatadah. It is also the view of Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam. However, the first view seems to be the most obvious meaning. For this reason, Allah said after it,

مریم علیہا السلام اور معجزات ۔ ( من تحتہا ) کی دوسری قرأت من تحتھا بھی ہے یہ خطاب کرنے والے حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تو پہلا کلام وہی تھا جو آپ نے اپنی والدہ کی برات وپاکدامنی میں لوگوں کے سامنے کیا تھا ۔ اس وادی کے نیچے کے کنارے سے اس گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے یہ تشفی دی تھی ۔ یہ قول بھی کہا گیا ہے کہ یہ بات حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ہی کہی تھی ۔ آواز آئی کہ غمگین نہ ہو تیرے قدموں تلے تیرے رب نے صاف شفاف شیریں پانی کا چشمہ جاری کردیا ہے یہ پانی تم پی لو ۔ ایک قول یہ ہے کہ اس چشمے سے مراد خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں ۔ لیکن پہلا قول زیادہ ظاہر ہے ۔ چنانچہ اس پانی کے ذکر کے بعد ہی کھانے کا ذکر ہے کہ کھجور کے اس درخت کو ہلاؤ اس میں سے تروتازہ کھجوریں جھڑیں گی وہ کھاؤ ۔ کہتے ہیں یہ درخت سوکھا پڑا ہوا تھا اور یہ قول بھی ہے کہ پھل دار تھا ۔ بہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت وہ درخت کھجوروں سے خالی تھا لیکن آپ کے ہلاتے ہی اس میں سے قدرت الہٰی سے کھجوریں جھڑنے لگیں کھانا پینا سب کچھ موجود ہوگیا اور اجازت بھی دے دی ۔ فرمایا کھا پی اور دل کو مسرور رکھ ۔ حضرت عمرو بن میمون کا فرمان ہے کہ نفاس والی عورتوں کے لئے کھجوروں سے اور خشک کھجوروں سے بہتر اور کوئی چیز نہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کھجور کے درخت کا اکرام کرو یہ اسی مٹی سے پیدا ہوا ہے جس سے آدم علیہ السلام پیدا ہوئے تھے اس کے سوا اور کوئی درخت نرمادہ مل کر نہیں پھلتا ۔ عورتوں کو ولادت کے وقت تر کھجوریں کھلاؤ نہ ملیں تو خشک ہی سہی کوئی درخت اس سے بڑھ کر اللہ کے پاس مرتبے والا نہیں ۔ اسی لئے اس کے نیچے حضرت مریم علیہ السلام کو اتارا یہ حدیث بالکل منکر ہے تساقط کی دوسری قرأت تساقط اور تسقط بھی ہے مطلب تمام قرأت وں کا ایک ہی ہے پھر ارشاد ہوا کہ کسی سے بات نہ کرنا اشارے سے سمجھا دینا کہ میں آج روزے سے سمجھا دینا کہ سمجھا دینا کہ میں آج روزے سے ہوں یا تو مراد یہہے کہ ان کے روزے میں کلام ممنوع تھا یا یہ کہ میں نے بولنے سے ہی روزہ رکھا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس دو شخص آئے ۔ ایک نے تو سلام کیا ، دوسرے نے نہ کیا آپ نے پوچھا اس کی کیا وجہ ؟ لوگوں نے کہا اس نے قسم کھائی ہے کہ آج یہ کسی سے بات نہ کرے گا آپ نے فرمایا اسے توڑ دے سلام کلام شروع کر یہ تو صرف حضرت مریم علیہا السلام کے لئے ہی تھا کیونکہ اللہ کو آپ کی صداقت وکرامت ثابت کرنا منظور تھی اس لئے اسے عذربنا دیا تھا ۔ حضرت عبد الرحمن بن زید کہتے ہیں جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی والدہ سے کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں تو آپ نے کہا میں کیسے نہ گھبراؤں خاوند والی میں نہیں ، کسی کی ملکیت کی لونڈی باندی میں نہیں مجھے دنیا نہ کہے گی کہ یہ بچہ کیسے ہوا ؟ میں لوگوں کے سامنے کیا جواب دے سکوں گی ؟ کون سا عذر پیش کرسکوں گی ؟ ہاے کاش کہ میں اس سے پہلے ہی مرگئی ہوتی کاش کہ میں نسیا منسیا ہوگئی ہوتی ۔ اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا اماں آپ کو کسی سے بولنے کی ضرورت نہیں میں آپ ان سب سے نبٹ لوں گا آپ تو انہیں صرف یہ سمجھا دینا کہ آج سے آپ نے چپ رہنے کی نذر مان لی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَنَادٰىهَا مِنْ تَحْتِهَآ ۔۔ : ” سَرِيًّا “ ” سَرَی یَسْرِيْ “ (ض) (چلنا) سے ہو تو معنی ہے ندی، کیونکہ اس میں پانی چلتا ہے اور ” سَرُوَ یَسْرُوْ “ (شَرُفَ یَشْرُفُ ) سے ہو تو معنی ہے سردار۔ مریم [ کو ان کے نیچے سے کس نے آواز دی ؟ اس کے متعلق مفسرین کے دو قول ہیں، ایک یہ کہ وہ جبریل (علیہ السلام) تھے، کیونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کے طعن و ملامت کے وقت ہی بات کی تھی۔ طبری نے ابن عباس (رض) سے یہ بات نقل فرمائی ہے کہ یہ جبریل تھے اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کے پاس لے جانے سے پہلے کلام نہیں کیا۔ مگر یہ روایت عوفی کے طریق سے ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ سعید بن جبیر، ضحاک، عمرو بن میمون اور قتادہ کا کہنا بھی یہی ہے کہ انھیں نیچے سے جبریل (علیہ السلام) نے آواز دی تھی اور ان کے نیچے ایک ندی چلنے کی بشارت دی تھی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ انھیں ان کے نیچے سے عیسیٰ (علیہ السلام) نے آواز دی تھی۔ ابن جریر نے اسے ترجیح دی ہے۔ اس کی تین وجہیں ہیں، ایک یہ کہ اگر کوئی مانع نہ ہو تو ضمیر قریب ترین مرجع کی طرف لوٹتی ہے اور یہاں اس سے پہلے قریب ترین ذکر عیسیٰ (علیہ السلام) کا ہے، یعنی ” فَـحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهٖ “ اور اگر جبریل (علیہ السلام) نے آواز دی ہوتی تو ان کا نام آنا تھا۔ دوسری یہ کہ اس وقت مریم [ کا حوصلہ مضبوط کرنے کی ضرورت تھی اور ظاہر ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا اس وقت بولنا ایک معجزہ تھا، جس سے انھیں اطمینان حاصل ہوا۔ تیسری یہ کہ قوم کے پاس جانے سے پہلے ان کے کلام کرنے سے مریم [ کو یقین ہوجائے کہ قوم کے لوگوں کی ملامت کے وقت بھی یہ بول کر ان کی تسلی کردیں گے۔ بظاہر ابن جریر کی بات زیادہ قوی معلوم ہوتی ہے۔ (واللہ اعلم)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

سَرِیّاً The literal meaning of the word سَرِی appearing in verse 24 is a small canal. Allah Ta’ ala caused a small stream to flow at the moment either by his direct command or through Sayyidna Jibra&il (علیہ السلام) . There are reports supporting both these probabilities. It is worth noting here that while describing the means to bring consolation to Sayyidah Maryam (علیہا السلام) water was mentioned first and then date as something to eat

سَرِيًّا : لفظ سری کے لغوی معنی چھوٹی نہر کے ہیں۔ اس موقع پر حق تعالیٰ نے ایک چھوٹی نہر اپنی قدرت سے بلا واسطہ جاری فرمادی یا جبرئیل کے ذریعہ چشمہ جاری کرادیا، دونوں طرح کی روایتیں ہیں۔ یہاں یہ امر قابل لحاظ ہے کہ حضرت مریم کی تسلی کے اسباب ذکر کرنے کے وقت تو پہلے پانی کا ذکر فرمایا پھر کھانے کی چیز کھجور کا، اور جب استعمال کا ذکر آیا تو ترتیب بدل کر پہلے کھانے کا حکم فرمایا پھر پانی پینے کا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَنَادٰىہَا مِنْ تَحْتِہَآ اَلَّا تَحْزَنِيْ قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا۝ ٢٤ ندا النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر : 435- كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُورِ «1» أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق/ 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال : فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف . ( ن د ی ) الندآ ء کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق/ 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں ۔ تحت تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس/ 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت/ 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] . ( ت ح ت) تحت ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ حزن الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] ( ح ز ن ) الحزن والحزن کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو سری السُّرَى: سير اللّيل، يقال : سَرَى وأَسْرَى. قال تعالی: فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ [هود/ 81] ، وقال تعالی: سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلًا [ الإسراء/ 1] 232- بسرو حمیر أبوال البغال به «1» فأسری نحو أجبل وأتهم، وقوله تعالی: سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ [ الإسراء/ 1] ، أي : ذهب به في سراة من الأرض، وسَرَاةُ كلّ شيء : أعلاه، ومنه : سَرَاةُ النهار، أي : ارتفاعه، وقوله تعالی: قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا[ مریم/ 24] أي : نهرا يسري «2» ، وقیل : بل ذلک من السّرو، أي : الرّفعة . يقال، رجل سَرْوٌ. قال : وأشار بذلک إلى عيسى عليه السلام وما خصّه به من سروه، يقال : سَرَوْتُ الثوبَ عنّي، أي : نزعته، وسَرَوْتُ الجُلَّ عن الفرس «3» ، وقیل : ومنه : رجل سَرِيٌّ ، كأنه سَرَى ثوبه بخلاف المتدثّر، والمتزمّل، والزّمّيل «4» ، وقوله : وأَسَرُّوهُ بِضاعَةً [يوسف/ 19] ، أي : خمّنوا في أنفسهم أن يحصّلوا من بيعه بضاعة، والسَّارِيَةُ يقال للقوم الذین يَسْرُونَ باللیل، وللسّحابة التي تسري، وللأسطوانة . ( س ر ی و ) السریٰ کے معنی رات کو سفر کرنے کے ہیں اور اس معنی میں سریٰ ( ض ) واسریٰ ( افعال ) دونوں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ [هود/ 81] تو کچھ رات رہے سے اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو ۔ سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلًا [ الإسراء/ 1] ( وہ ذات ) پاک ) ہے جو ایک رات اپنے بندے کو لے گیا ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اسریٰ ( باب افعال ) سریٰ یسری سے نہیں ہے ۔ جس کے معنی رات کو سفر کرنے کے ہیں بلکہ یہ سراۃ سے مشتق ہے جس کے معنی کشادہ زمین کے ہیں ۔ اور اصل میں اس کے لام کلمہ میں واو ہے اور اسی سے شاعر نے کہا ہے ۔ ( البسیط ) بسرو حمیر أبوال البغال بهحمیر کی کشادہ زمین میں جہاں خچروں کا پیشاب یعنی کہ سراب نظر آتے ہیں ۔ پس اسری کے معنی کشادہ زمین چلے جانا ہیں ۔ جیسے اجبل کے معنی ہیں وہ پہاڑ پر چلا گیا اور اتھم کے معنی ، وہ تہامہ میں چلا گیا ۔ لہذا آیت ؛۔ سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ [ الإسراء/ 1] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو وسیع اور کشادہ سر زمین میں لے گیا ۔ نیز سراۃ ہر چیز کے افضل اور اعلیٰ حصہ کو بھی کہتے ہیں ۔ اسی سے سراۃ النھار ہے جس کے معنی دن کی بلندی کے ہیں ۔ اور آیت : قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا [ مریم/ 24] تمہارے پروردگار نے تمہارے سے نیچے ایک چشمہ پیدا کردیا ہے میں سری سے نہر جاری مراد ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ سرو سے مشتق ہے جس کے معنی رفعت کے ہیں اور بلند قدر آدمی کو رجل سرو ۔ کہا جاتا ہے تو لفظ سری سے عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے اس شرف کی طرف اشارہ ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں خاص طور پر نوازا تھا ۔ محاورہ ہے : سَرَوْتُ الثوبَ عنّي : میں نے اپنے اوپر سے کپڑا اتار دیا ۔ وسَرَوْتُ الجُلَّ عن الفرس : میں گھوڑے سے جھول اتار دیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسی سے رجل سری ۔ ہے کیونکہ بلند قدر آدمی ہوشیار رہتا ہے گویا وہ کپڑے اتارے ہوئے ہے اسکے برعکس کاہل سست اور ناتوان آدمی کو متدثر متزمل اور زمیل وغیرہ کہا جاتا ہے گویا وہ اپنے کپڑوں میں لپٹا پڑا ہے اور الساریۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جو رات کو سفر کرتی ہو اور اس کے معنی رات کے بادل اور ستون بھی آتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٤) فورا حضرت جبریل (علیہ السلام) نے پائیں مکان سے ان کو پکارا کہ اے مریم (علیہ السلام) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے تم دکھی مت ہو اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت عطا کی ہے اور یہ کہ تمہارے رب نے تمہارے پائیں مکان میں ایک نہر جاری کردی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ (فَنَادٰٹہَا مِنْ تَحْتِہَآ) یہاں عام مفسرین کا خیال یہ ہے کہ جس فرشتے نے پہلے بشارت دی تھی اسی نے اب بھی انہیں آواز دی۔ مِنْ تَحْتِہَآ کا مفہوم یہی لیا گیا ہے کہ اس وقت حضرت مریم نسبتاً بلند جگہ پر ہوں گی اور وہ فرشتہ ذرا نشیب میں ہوگا۔ ویسے بھی وضع حمل کے موقع پر فرشتے کا آپ کے بالکل قریب رہنامناسب نہیں تھا۔ لیکن مِنْ تَحْتِہَا کی ایک قراءت مَنْ تَحْتَہَآ بھی ہے ‘ یعنی اسے پکارا اس نے جو اس کے نیچے تھا۔ اس ترجمے کے مطابق مفہوم یہ ہوگا کہ ولادت کے فوراً بعد بچہ بول پڑا اور میں یہاں اسی مفہوم کو ترجیح دیتا ہوں۔ اس لیے کہ اگر اس وقت بچے نے کلام نہ کیا ہوتا تو حضرت مریم کو کیسے یقین آتا کہ یہ بچہ لوگوں کے سوالات کا خود ہی جواب دے گا اور وہ بچے کو لے کر لوگوں کے سامنے آنے پر کیونکر تیار ہوجاتیں۔ بہر حال وہ جو نیچے تھا اس نے آپ کو پکار کر کہا : (اَ لَّا تَحْزَنِیْ ) اگر یہ حضرت مسیح (علیہ السلام) یعنی نومولود ہی کا کلام ہے تو گویا آپ ( علیہ السلام) اپنی والدہ کو تسلی دے رہے ہیں کہّ امی جان ! آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:24) نادھا۔ اس (فرشتہ جبریل علیہ السلام) نے اس (حضرت مریم علیہما السلام) کو پکارا ۔ من تحتھا۔ ای من مکان اسفل منھا۔ یعنی جہاں وہ تھیں اس مقام کی پائیں سے۔ ان لا تحزنی۔ فعل نہیں واحد مؤنث حاضر۔ کہ تو غم مت کھا۔ حزن۔ غم۔ رنج۔ سریا۔ ایک چشمہ۔ اس کی جمع اسریۃ اور سریان ہے بعض نے اس کے معنی جدول (چھوٹی نہر) کے لئے ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) اور دیگر اہل لغت کا یہی قول ہے۔ چناچہ انہوں نے اس کی تفسیر چھوٹی نہر سے کی ہے جو نخلستان کی طرف رواں ہو۔ اس صورت میں یہ سری (لام کلمہ ی) سے ہے۔ بعض کے نزدیک یہ سرو (لام کلمہ واو) سے ہے۔ اور سروبمعنی رفعت کے ہے۔ جس سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ یعنی تیرے رب نے تیرے سے ایک رفیع الشان بلند مرتبت لڑکا پیدا کرنے والا ہے۔ (19:25) ھزی۔ فعل امر۔ واحد مؤنث حاضر۔ ھزمصدر۔ تو ہلا۔ باب نصر سے ہے۔ بنفسہ وبالباء متعدی ہے۔ ہلانا۔ ھزہ وھزبہ اس کو ہلایا۔ جذع النخلۃ۔ مضاف مضاف الیہ۔ کھجور کا تنہ۔ تسقط۔ مضارع واحد مؤنث غائب مجزوم بوجہ جواب امر۔ وہ گرائے گی۔ وہ ڈالے گی۔ مساقطۃ (مفاعلۃ) سے جس کے معنی گرانے کے ہیں۔ ضمیر مؤنث نخلتہ کے لئے ہے اور جگہ جگہ قرآن مجید میں ہے۔ فاسقط علینا کسفا من السمائ (26:187) تو ہم پر ایک ٹکڑا آسمان سے گرا لائو۔ رطبا۔ تازہ خرما۔ تازہ کھجوریں ۔ پکی ہوئی کھجوریں۔ جمع۔ رطبۃ واحد۔ لطاب و الطاب۔ جمع الجمع۔ جن یا۔ تازہ چنا ہوا میوہ۔ روزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ جنی تازہ پھل جو حال ہی میں توڑا گیا ہو۔ جنی مصدر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 سریا کے معنی بعض مفسرین نے بیان کئے ہیں جمہور مفسرین نے اس کے معنی چھوٹی نہر “ یا ” چشمہ رواں “ کئے ہیں اور موقع و محل کی مناسبت سے یہی زیادہ موزوں ہیں۔ یوں لغت کے اعتبار سے دونوں کی گنجائش ہے۔ (ابن کثیر شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) ان کے احترام کی وجہ سے سامنے نہیں گئے بلکہ جس مقام پر حضرت مریم (علیہا السلام) تھیں اس سے اسفل مقام میں آڑ میں آئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یا اللہ ، یہ کیسا بچہ ہے ، ابھی تو پیدا ہوا ہے ، زمین پر پڑا ہے اور وہ باتیں کر رہا ہے۔ اب مریم کو خوشی کے ساتھ سکون حاصل ہوگیا۔ اب وہ اپنے رب سے واصل ہیں۔ ان کے کھانے اور پینے کا بندوبست بھی کردیا گیا ہے ، عجیب انداز میں اور ان کو اس معجزانہ ولات کی دلیل اور جواز بھی سمجھا دیا گیا ہے۔ اے ماں تو پریشان نہ ہو۔ قد جعل ربک تحتک سریاً (٩١ : ٣٢) ” تیرے رب نے تیرے نیچے ایک چشمہ رواں کردیا ہے۔ “ وہ تمہیں بھولا نہیں اور نہ تمہیں بےسہارا چھوڑ دیا ہے ، بلکہ اس نے تمہارے لئے تمہارے قدموں کے نیچے ایک چشمہ جاری نکال دیا ہے۔ رجح بات یہ ہے کہ ایک لحظہ میں یہ چشمہ معجزانہ طور پر پھوٹ پڑا۔ زمین سے یا پانی کی کسی گزر گاہ سے۔ جس کھجور کا تم نے سہارا لے رکھا ہے اسے ذرا حرکت دو ، تیرے اوپر ترو تازہ کھجوریں ٹپک پڑیں گی۔ چناچہ یہ تیسری خوراک ہے اور وہ شراب طہور ہے۔ نفاس اور زچگی کی مریضہ کے لئے میٹھا کھانا بہت مفید ہوتا ہے ، کجوریں تازہ اور خشک زچگی کی مریض خواتین کا بہترین طعام ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(فَنَادٰھَا مِنْ تَحْتِھَا) (سو جبریل نے حضرت مریم کو آواز دی جو اس جگہ سے نیچے کھڑے ہوئے تھے جہاں وہ اوپر کسی ٹیلے پر تھیں اور یوں کہاں (اَنْ لَّا تَحْزَنِیْ ) (کہ تو رنجیدہ نہ ہو) (کمافی الروح ص ٨٢ ج ١١) (قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا) (تیرے رب نے تیرے نیچے ایک نہر بنا دی ہے) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے وہاں اپنا پاؤں مار دیا جس کی وجہ سے میٹھے پانی کا چشمہ جاری ہوگیا اور ایک قول یہ ہے کہ وہاں پہلے سے خشک نہر تھی اللہ تعالیٰ نے اس میں پانی جاری فرما دیا اور وہیں ایک خشک کھجور کا درخت تھا اس میں پتے اور پھل آگئے اور اسی وقت پک گئے۔ (معالم التنزیل ص ١٩٣ ج ٣)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18:۔ ” نَادٰي “ کا فاعل حضرت جبریل (علیہ السلام) ہیں۔ جیسا کہ ابن عباس سے منقول ہے۔ ” مِنْ تحْتِھَا “ یعنی حضرت مریم سے نیچے ” سَرِیَّا “ چھوٹی سی نالی جس میں وہاں سے پھوٹنے والے چشمہ کا پانی بہہ رہا تھا۔ ” وَ ھُزِّيْ اِلَیْکِ الخ “ جب حضرت مریم کو درد زہ کی تکلیف شروع ہوئی تو وہ ایک ایسی جگہ چلی گئیں جو آس پاس کی زمین سے کچھ بلند تھی۔ وہاں کھجور کا دخت تھا اور نیچے پانی کی نہر تھی۔ جب وہ اپنی اس حالت پر اور تکلیف پر وہاں مغموم بیٹھی تھیں۔ اس وقت حضرت جبریل (علیہ السلام) نے نیچے کھرے ہو کر ان سے یہ گفتگو کی۔ کہ غم مت کرو۔ دیکھو تمہارے پاؤں تلے چشمہ ابل رہا ہے اوپر کھجور کا درخت ہے۔ درخت کو جھٹکے سے ہلاؤ اس سے کھجوریں گریں گی وہ کھاؤ اور چشمہ سے پانی پیو اور اس طرح اپنا غم غلط کرو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

24 اس وقت حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے بحکم خداوندی حضرت مریم (علیہ السلام) جس ٹیلے پر بیٹھی تھیں اس کے نیچے سے پکار کر کہا اے مریم غمگین نہ ہو تیرے پائیں اور اس ٹیلے کے نشیبی حصہ میں تیرے پروردگار نے ایک چشمہ اور نہر کو جاری کردیا۔ یعنی حضرت مریم زمین کے ایک بالائی حصہ میں بٹھی تھیں فرشتہ سامنے نہیں آیا۔ بلکہ نشیب اور زیرین حصہ سے پکار کر کہا کہ غمگین نہ ہو غمگین اور پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں آپ کے نشیبی اور پائیں حصہ میں آپ کے پروردگار نے نہر جاری کردی ہے۔ یعنی ایک چشمہ پھوٹ نکلا ہے یہ پانی پینے اور نہانے کے کام آئے گا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ آواز دی فرشتہ نے اور زمین میں ایک چشمہ پھوٹ نکلا۔ 12