Surat Marium

Surah: 19

Verse: 30

سورة مريم

قَالَ اِنِّیۡ عَبۡدُ اللّٰہِ ۟ ؕ اٰتٰنِیَ الۡکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیۡ نَبِیًّا ﴿ۙ۳۰﴾

[Jesus] said, "Indeed, I am the servant of Allah . He has given me the Scripture and made me a prophet.

بچہ بول اٹھا کہ میں اللہ تعالٰی کا بندہ ہوں ۔ اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور مجھے اپنا پیغمبر بنایا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ ... He (`Isa) said, ... إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ ... Verily, I am a servant of Allah, The first thing that he said was a declaration of the lofty honor of his Lord and His being free of having a child. Also, he affirmed that he himself was a worshipper of his Lord. Allah said, ... اتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا He has given me the Scripture and made me a Prophet. This was a declaration of innocence for his mother from the immorality that was attributed to her. Nawf Al-Bikali said, "When they said what they said to his mother, he (`Isa) was nursing from her breast. At their statement he released the breast from his mouth and reclined on his left saying, إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ اتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا (Verily, I am a servant of Allah, He has given me the Scripture and made me a Prophet). And he continued speaking until he said, مَا دُمْتُ حَيًّا (as long as I live)." Concerning his statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

30۔ 1 یعنی قضا وقدر ہی میں اللہ نے یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ مجھے کتاب اور نبوت سے نوازے گا

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٩] سیدنا عیسیٰ نے کلام فی المھد سے اپنی والدہ کی بہتان سے مکمل بریّت کردی :۔ تب اس نومولود بچے کو اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے قوت گویائی عطا فرمائی اور پہلی بات جو اس نے کی وہ یہ تھی کہ && میں اللہ کا بندہ ہوں && بالفاظ دیگر میں نہ اللہ ہوں اور نہ ابن اللہ ہوں اور یہ ایسی بنیادی بات تھی جو بعد میں اس کے پیروکاروں میں ہی متنازعہ فیہ بن گئی۔ کسی نے انھیں اللہ ہی کہہ دیا اور کسی نے اللہ کا بیٹا۔ آپ نے اپنے اس معجزانہ کلام کے آغاز میں ہی اس کی تردید فرما دی تھی۔ نیز یہ بھی بتایا کہ && اللہ نے مجھے کتاب دی ہے اور اپنا نبی بھی بنایا ہے && اس کے دو مفہوم ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ نے مجھے کتاب تورات کا علم عطا فرمایا اور دوسرا یہ کہ اللہ مجھے کتاب انجیل بھی عطا فرمانے والا ہے اور نبوت بھی۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کا یہ کلام دراصل ان کی سب بہتان تراشیوں کا مکمل جواب تھا اور اس کلام میں ان کی والدہ سیدہ مریم کی مکمل بریّت کا اظہار مقصود تھا یعنی اگر ایک نومولود بول سکتا ہے اور ایسا مبنی برحقیقت کلام کرسکتا ہے تو یہ بھی عین ممکن ہے کہ وہ پیدا بھی معجزانہ طور پر بن باپ کے ہوا ہو۔ بالفاظ دیگر اسی عمر میں ایسے کلام کرنے کے معجزہ سے معجزانہ پیدائش کی توثیق مقصود تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ اِنِّىْ عَبْدُ اللّٰهِ : گویا سب سے پہلا کلمہ جو عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی زبان سے ادا کیا وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا اعتراف تھا، جو ان کے خود اللہ تعالیٰ ہونے یا اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہونے یا تین معبودوں میں سے ایک ہونے کی صاف نفی ہے۔ اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ : ظاہر ہے کہ کتاب اور نبوت کا ملنا کچھ مدت بعد ہی ہوا ہوگا، کیونکہ دودھ پیتا بچہ نبوت کے فرائض دعوت و تبلیغ، اصلاح امت وغیرہ کیسے ادا کرسکتا ہے ؟ اس لیے اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں اور دونوں ہی درست ہیں۔ ایک تو یہ کہ ازل سے اللہ تعالیٰ نے میرا نبی ہونا اور مجھے کتاب ملنا لکھ دیا ہے، جیسا کہ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کُنْتُ نَبِیًّا وَآدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ ) [ صحیح الجامع للألباني : ٤٥٨١، عن میسرۃ الفجر (رض) ]” میں اس وقت نبی تھا جب آدم (علیہ السلام) روح اور جسم کے درمیان تھے۔ “ حالانکہ اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چالیس برس کی عمر میں نبوت عطا ہوئی، اس لیے مراد تقدیر میں نبی لکھا ہونا ہے۔ دوسرا معنی یہ کہ ماضی کا لفظ بول کر مستقبل مراد لیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے اتنے یقینی ہیں کہ سمجھو واقع ہوچکے ہیں۔ یہ اندازبیان قرآن مجید میں عام ہے، جیسے قیامت کے متعلق فرمایا : (اَتٰٓى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ ) [ النحل : ١ ] ” اللہ کا حکم آگیا، سو اس کے جلدی آنے کا مطالبہ مت کرو۔ “ اسی طرح سورة زمر کی آیت (٦٨) میں ماضی کے چاروں صیغے مستقبل کے معنی میں ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

إِنِّي عَبْدُ اللَّـهِ (|"I am the servant of Allah|" - 19:30) There is a report that when her family members started berating and censuring Sayyidah Maryam (علیہا السلام) ، Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) was sucking milk. When he heard their accusations he stopped sucking milk and moved over to his left side facing them, and raising his index finger he said:إِنِّي عَبْدُ اللَّـهِ i.e. I am the servant of Allah. In this way in his very first words Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) made it clear that although his birth was a miracle, he himself was not God, but only a servant of God. This was to eliminate forever the possibility of people worshipping him as God due to his miraculous birth. آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا |"He has given me the Book and made me a prophet.|" - 19:30. In these words, Sayyidna ` Isa I even in his infancy announced his future prophethood and the revelation to him of a sacred book from Allah Ta` ala. Since no prophet has been granted prophethood and a sacred book before the age of forty years, therefore this pre-announcement of his prophethood by Sayyidna ` Isa (علیہا السلام) here means to convey in advance that he would be bestowed prophethood and the Book at the proper time. In a similar manner The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said that he was bestowed prophethood even before Adam (علیہ السلام) was yet in the process of his creation. This shows that the promise for granting prophethood to Sayyidna Muhammad Al-Mustafa (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was firm and final. Here too, because of the certainty of occurrence, the grant of prophethood is referred to in the past tense. By announcing his future prophethood he (Sayyidna ` Isa علیہ السلام) dispelled peoples& doubts and exonerated his mother from the charge of fornication, because his being a Prophet was proof enough that his birth was free from any blemish.

(آیت) اِنِّىْ عَبْدُ اللّٰهِ ، ایک روایت میں ہے کہ جس وقت خاندان کے لوگوں نے حضرت مریم (علیہ السلام) کو ملامت کرنا شروع کی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دودھ پی رہے تھے۔ جب انہوں نے ان لوگوں کی ملامت کو سنا تو دودھ چھوڑ دیا اور اپنی بائیں کروٹ پر سہارا لے کر ان کی طرف متوجہ ہوئے اور انگشت شہادت سے اشارہ کرتے ہوئے یہ الفاظ فرمائے اِنِّىْ عَبْدُ اللّٰهِ یعنی میں اللہ کا بندہ ہوں، اس پہلے ہی لفظ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس غلط فہمی کا ازالہ کردیا کہ اگرچہ میری پیدائش معجزانہ انداز سے ہوئی ہے مگر میں خدا نہیں خدا کا بندہ ہوں تاکہ لوگ میری پرستش میں مبتلا نہ ہو جائیں (آیت) اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ وَجَعَلَنِيْ نَبِيًّا ان الفاظ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی شیر خوارگی کے زمانے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبوت اور کتاب ملنے کی خبر دی۔ حالانکہ کسی پیغمبر کو چالیس سال کی عمر سے پہلے نبوت و کتاب نہیں ملتی اس لئے مفہوم اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ طے فرما دیا ہے کہ مجھے اپنے وقت پر نبوت اور کتاب دیں گے اور یہ بالکل ایسا ہے جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے نبوت اس وقت عطا کردی گئی تھی جب کہ آدم (علیہ السلام) ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے ان کا خمیر ہی تیار ہو رہا تھا اس کا مطلب ظاہر ہے کہ اس کے سوا نہیں کہ عطا نبوت کا وعدہ محمد مصطفے ٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے قطعی اور یقینی تھا یہاں بھی اسی یقین کو عطا نبوت کے لفظ ماضی سے تعبیر کردیا گیا ہے۔ عطا نبوت کا اظہار کرنے سے ان لوگوں کی بدگمانی رفع کردی گئی کہ میری والدہ پر بدکاری کا الزام لگانا سراسر غلط ہے کیونکہ میرا نبی ہونا اور مجھے رسالت کا ملنا اس کی دلیل ہے کہ میری پیدائش میں کسی گناہ کا دخل نہیں ہوسکتا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ اِنِّىْ عَبْدُ اللہِ ۝ ٠ۣۭ اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ وَجَعَلَنِيْ نَبِيًّا۝ ٣٠ۙ عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٠۔ ٣١) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بول اٹھے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے ماں کے پیٹ ہی سے مجھے علم توریت وانجیل دیا (گو آئندہ دے گا مگر بوجہ یقینی ہونے کے ایسا ہے جیسے دے دی) اور ماں کے پیٹ سے نکلنے کے بعد مجھے نبی بنایا (یعنی بنائے گا) اور میں جس مقام پر بھی ہوں، مجھے نیکیوں کی تعلیم دینے والا بنایا ہے اور اس نے مجھے نماز ادا کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا ہے جب تک کہ میں زندہ ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

17: یعنی بڑے ہو کر مجھے انجیل عطا کی جائے گی، اور نبی بنایا جائے گا، اور یہ بات اتنی یقینی ہے جیسے ہو ہی چکی۔ دودھ پیتے بچے کا اس طرح بولنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھلا ہوا معجزہ تھا جس نے حضرت مریم علیہا السلام کی براءت بالکل واضح کردی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:30) اتنی۔ اس نے مجھ کو دی۔ اثی ماضی واحد مذکر غائب (باب افعال) نوقایہ یمتکلم کی۔ ضمیر فاعل اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 گویا سب سے پہلا کلمہ جو حضرت عیسیٰ نے اپنی زبان سے ادا کیا وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا اعتراف تھا اور یہ کہ آئندذہ مجھے کتاب مقدس انجیل ملے گی 9 یعنی تا زندگی جیسا کہ آنحضرت کو حکم دیا گیا ہے۔ ” واعبد ربک حئی یاتیک الیقین (حجر 99)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی گو آئندہ دے گا مگر بوجہ یقینی ہونے کے ایسا ہی ہے کہ جیسے دے دی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ابھی لوگوں کا شور و غل ختم نہیں ہوا تھا کہ والدہ کا اشارہ پاکر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جواب دیتے ہیں۔ حضرت مریم [ کا اشارہ ہوا ہی تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بول اٹھے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی اور نبی بنایا ہے۔ میں جہاں کہیں ہوں اس نے اپنی برکات سے نوازا ہے۔ میرے رب نے مجھے وصیت کی ہے کہ جب تک زندہ رہوں نماز پڑھوں اور زکوٰۃ ادا کروں۔ مجھے یہ بھی وصیت کی گئی ہے کہ میں اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کرتا رہوں اور میرے رب نے مجھے باغی اور منحوس نہیں بنایا۔ میرے رب نے میری پیدائش، موت اور موت کے بعد اٹھنے کے دن مجھے اپنی رحمت کے دامن میں لے لیا ہے۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ جب حضرت مریم [ نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کو بولنے کا اشارہ کیا تھا تو وہ ان کی گود میں دودھ پی رہے تھے۔ جونہی ان کی والدہ نے اشارہ کیا تو دودھ چھوڑ کر پیغمبرانہ انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔ جس میں ان کی شریعت کے بنیادی اور مرکزی مسائل کا بیان ہے۔ جسے قرآن مجید نے اپنے الفاظ میں ذکر کیا ہے۔ یہاں دو باتیں غور طلب ہیں کہ چند دنوں کے بچے کو اپنی ماں کے اشارے کا کس طرح علم ہوا ؟ دوسری بات یہ کہ کیا عیسیٰ (علیہ السلام) کو اتنی چھوٹی عمر میں صاحب کتاب نبی بنا دیا گیا تھا ؟ جہاں تک چھوٹی عمر میں نبوت ملنے کا تعلق ہے اس کے بارے میں سب اہل علم کا اتفاق ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی معجزانہ گفتگو تھی۔ نبوت انھیں جوانی میں عطا کی گئی تھی۔ رہی بات اپنی والدہ کا اشارہ پاکر شہادت دینے کی تو یہ بھی ایک معجزہ ہے ورنہ اتنا چھوٹا بچہ اشارہ کیا اپنی ماں کی زبان بھی نہیں سمجھ سکتا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یوں حضرت عیسیٰ یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے بندے ہیں ، وہ خدا کے بیٹے نہیں ہیں ، جس طرح بعض عیسانی فرقے دعویٰ کرتے ہیں۔ نہ وہ بذات خود الہ ہیں جس طرح بعض دور سے فرقے عقیدہ رکھتے ہیں ۔ نہ یہ بات ہے کہ وہ تینوں کا ایک ہیں اور تین الہ واحد ہیں جیسا کہ ایک دوسرا فرقہ یہ عقیدہ رکھتا ہے۔ وہ اعلان کرتے ہیں کہ اللہ نے مجھے نبی بنایا ہے۔ نہ بیٹا بنایا ہے اور نہ شریک۔ مجھ میں برکت ڈلای ہے اور یہ حکم دیا ہے کہ پوری زندگی میں نماز ادا کروں اور زکوۃ رپ عمل کروں۔ والدہ کے ساتھ حسن سلوک کروں اور فیملی کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھوں۔ خود میری زنگدی محدود ہے۔ موت کے لئے ایک دن مقرر ہے۔ مروں گا ، پھر اٹھایا جائوں گا۔ اللہ نے میرے لئے سلامتی ، امن ، اطمینان کا پورا پورا سامان کردیا ہے ، ولادت کے وقت بھی ، موت کے وقت بھی اور بعث بعد موت کے وقت بھی۔ یہ آیت حضرت عیسیٰ کی موت اور بعث بعد موت پر نص صریح ہے۔ اس میں کوئی تاویل نہیں کی جاسکتی اور نہ اس میں بحث کی کوئی گنجائش ہے۔ قرآن مجید یہ منظر پیش کر کے اس پر کسی اور بات کا اضافہ نہیں کرتا۔ یہ تفصیلات نہیں دی جاتیں کہ اس معجزے کے بعد قوم کا ردعمل کیا ہوا۔ اس کے بعد مریم اور ان کے اس ذی شان بچے کا کیا بنا۔ جس نبوت کی طرف انہوں نے اپنے کلام میں اشارہ کیا تھا وہ انہیں کب ملی کیونکہ انہوں نے کہا تھا۔ اتنی الکتب وجعلنن نبیاً (٩١ : ٠٣) ” مجھے اس نے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔ “ کیونکہ اس جگہ قرآن کا مقصود یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا خارق عادت معجزہ پیش کردیا جائے اور جب بات اس حیران کن اور معجزانہ کلام تک پہنچتی ہے تو پردہ گرتا ہے تاکہ اس کے بعد وہ اصل بات نہایت ہی مثبت ، فیصلہ کن انداز میں کی جائے کیونکہ یہ بہتر موقعہ ہے کہ اس مقام پر نہایت ہی سنجیدہ لہجے میں اصل بات کہہ دی جائے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) فوراً بول اٹھے کہ میں تو اللہ بندہ ہوں۔ اللہ نے مجھے نبی بنایا اور مجھے کتاب بھی دی ہے اور مجھے بابرکت کیا ہے اور جب تک میں زندہ رہوں۔ مجھے نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم فرمایا ہے۔ ” و بَرًّا بِوَالِدَتِیْ الخ “ اور مجھے اس نے والدہ سے حسن سلوک کرنے والا بنایا ہے اور مجھے سخت طبیعت اور سنگ دل نہیں بنایا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) چونکہ بغیر باپ صرف والدہ ہی سے پیدا ہوئے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی زبان پر ” بَرًّا بِوَالِدَتِیْ “ کے الفاظ جاری فرمائے اور والدہ کے ساتھ والد کا ذکر نہیں ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

30 اتنی دیر میں اس لڑکے نے ماں کا دودھ چھوڑا اور بولنا شروع کردیا اور کہنے لگا میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں اس نے مجھ کو کتاب عطا کی ہے اور اسی نے مجھ کو نبی بنایا ہے۔ پہلی بات میں اپنے بندے ہونے کا اعتراف کیا پھر کتاب ملنے کی خبر دی اور پھر اپنی نبوت کا اظہار کیا اور بالکل یقین کی بنا پر مستقبل کی خبر ماضی کے صیغوں کے ساتھ دی۔