Surat Marium

Surah: 19

Verse: 35

سورة مريم

مَا کَانَ لِلّٰہِ اَنۡ یَّتَّخِذَ مِنۡ وَّلَدٍ ۙ سُبۡحٰنَہٗ ؕ اِذَا قَضٰۤی اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿ؕ۳۵﴾

It is not [befitting] for Allah to take a son; exalted is He! When He decrees an affair, He only says to it, "Be," and it is.

اللہ تعالٰی کے لئے اولاد کا ہونا لائق نہیں وہ تو بالکل پاک ذات ہے وہ تو جب کسی کام کے سر انجام دینے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا وہ اسی وقت ہو جاتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مَا كَانَ لِلَّهِ أَن يَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ سُبْحَانَهُ ... It befits not (the majesty of) Allah that He should beget a son. Glorified be He. Means glory be unto Him, He is far exalted above that which these ignorant, wrongdoing, transgressing people say about Him. ... إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ When He decrees a thing, He only says to it: "Be!" -- and it is. Whenever He wants something, He merely commands it and it happens as He wills. This is as Allah says, إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ ءَادَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَ تَكُنْ مِّن الْمُمْتَرِينَ Verily, the likeness of `Isa before Allah is the likeness of Adam. He created him from dust, then said to him: "Be" -- and he was. (This is) the truth from your Lord, so be not of those who doubt. (3:59-60) `Isa commanded the Worship of Allah Alone, then the People differed after Him Allah said; وَإِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

35۔ 1 جس اللہ کی یہ شان اور قدرت ہو اسے بھلا اولاد کی کیا ضرورت ہے ؟ اور اسی طرح اس کے لئے بغیر باپ کے پیدا کردینا کون سا مشکل امر ہے۔ گویا جو اللہ کے لئے اولاد ثابت کرتے ہیں یا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی اعجازی ولادت سے انکار کرتے ہیں، وہ دراصل اللہ کی قدرت وطاقت کے منکر ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٢] اللہ کو بیٹے یا کسی مددگار کی قطعاً ضرورت نہیں :۔ اللہ تعالیٰ کو کسی کو بیٹا بنانے کی قطعا ً ضرورت نہیں ہے، کیونکہ جب سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے پہلے ہی یہ کارخانہ کائنات ٹھیک طرح چل رہا تھا تو پھر بیٹا بنانے کی ضرورت کہاں سے آگئی ؟ علاوہ ازیں ایسی باتیں اللہ تعالیٰ کی شان کے شایان بھی نہیں ہیں وہ اس قسم کی کمزوریوں اور مجبوریوں سے بالاتر اور پاک ہے نیز جب اس کے سارے کام فقط کن کا حکم دینے سے ہوجاتے ہیں۔ فورا ً اسباب و وسائل مہیا ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور وہ چیز ہو کے رہتی ہے تو پھر اسے کسی کو بیٹا یا شریک بنانے کی ضرورت بھی کیا ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَا كَانَ لِلّٰهِ اَنْ يَّــتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ ۔۔ : ” کَانَ “ استمرار کے لیے ہے، یعنی اللہ کے لائق نہ پہلے کبھی تھا اور نہ ہے کہ وہ کوئی بھی اولاد بنائے۔ ” وَلَدٍ “ نکرہ ہونے کی وجہ سے ترجمہ تھا ” کوئی اولاد “ لیکن اس سے پہلے ” مِنْ “ آنے کی وجہ سے عموم اور زیادہ ہوگیا، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” کہ وہ کوئی بھی اولاد بنائے “ لڑکا یا لڑکی، کسی فرشتے کو یا جن کو، یا انسان کو یا کسی اور مخلوق کو۔ يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ : یعنی جسے یہ قدرت حاصل ہو کہ کلمہ ” کن “ سے ہر چیز وجود میں لاسکتا ہو، اسے بیٹا بنانے کی کیا ضرورت ہے ؟ بیٹے کی ضرورت تو اسے ہے جو بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے محتاج ہو، یا فنا ہونے والا ہو اور اسے وارث کی ضرورت ہو۔ مزید دیکھیے سورة بنی اسرائیل کی آخری آیت۔ پھر جب وہ آدم کو ” کُنْ “ کہہ کر پیدا کرسکتا ہے تو عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی آدم (علیہ السلام) کی طرح ” کُنْ “ کہہ کر پیدا کرسکتا ہے، دیکھیے سورة آل عمران (٥٩، ٦٠) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَا كَانَ لِلہِ اَنْ يَّــتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ ۝ ٠ۙ سُبْحٰــنَہٗ ۝ ٠ۭ اِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَہٗ كُنْ فَيَكُوْنُ۝ ٣٥ۭ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ سبحان و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة/ 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة . ( س ب ح ) السبح ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔ قضی الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی: وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] أي : أمر بذلک، ( ق ض ی ) القضاء کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ كان كَانَ «3» : عبارة عمّا مضی من الزمان، وفي كثير من وصف اللہ تعالیٰ تنبئ عن معنی الأزليّة، قال : وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب/ 40] ، وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب/ 27] وما استعمل منه في جنس الشیء متعلّقا بوصف له هو موجود فيه فتنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له، قلیل الانفکاک منه . نحو قوله في الإنسان : وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء/ 67] وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] ، وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف/ 54] فذلک تنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له قلیل الانفکاک منه، وقوله في وصف الشّيطان : وَكانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا [ الفرقان/ 29] ، وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء/ 27] . وإذا استعمل في الزمان الماضي فقد يجوز أن يكون المستعمل فيه بقي علی حالته كما تقدّم ذكره آنفا، ويجوز أن يكون قد تغيّر نحو : كَانَ فلان کذا ثم صار کذا . ولا فرق بين أن يكون الزمان المستعمل فيه کان قد تقدّم تقدما کثيرا، نحو أن تقول : کان في أوّل ما أوجد اللہ تعالی، وبین أن يكون في زمان قد تقدّم بآن واحد عن الوقت الذي استعملت فيه کان، نحو أن تقول : کان آدم کذا، وبین أن يقال : کان زيد هاهنا، ويكون بينک وبین ذلک الزمان أدنی وقت، ولهذا صحّ أن يقال : كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] فأشار بکان أنّ عيسى وحالته التي شاهده عليها قبیل . ولیس قول من قال : هذا إشارة إلى الحال بشیء، لأنّ ذلك إشارة إلى ما تقدّم، لکن إلى زمان يقرب من زمان قولهم هذا . وقوله : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] فقد قيل : معنی كُنْتُمْ معنی الحال «1» ، ولیس ذلک بشیء بل إنما ذلک إشارة إلى أنّكم کنتم کذلک في تقدیر اللہ تعالیٰ وحكمه، وقوله : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة/ 280] فقد قيل : معناه : حصل ووقع، والْكَوْنُ يستعمله بعض الناس في استحالة جو هر إلى ما هو دونه، وكثير من المتکلّمين يستعملونه في معنی الإبداع . وكَيْنُونَةٌ عند بعض النّحويين فعلولة، وأصله : كَوْنُونَةٌ ، وكرهوا الضّمة والواو فقلبوا، وعند سيبويه «2» كَيْوِنُونَةٌ علی وزن فيعلولة، ثم أدغم فصار كَيِّنُونَةً ، ثم حذف فصار كَيْنُونَةً ، کقولهم في ميّت : ميت . وأصل ميّت : ميوت، ولم يقولوا كيّنونة علی الأصل، كما قالوا : ميّت، لثقل لفظها . و «الْمَكَانُ» قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل : تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] . ( ک و ن ) کان ۔ فعل ماضی کے معنی کو ظاہر کرتا ہے پیشتر صفات باری تعا لےٰ کے متعلق استعمال ہو تو ازلیت ( یعنی ہمیشہ سے ہے ) کے معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب/ 40] اور خدا ہر چیز واقف ہے ۔ وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب/ 27] اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ۔ اور جب یہ کسی جنس کے ایسے وصف کے متعلق استعمال ہو جو اس میں موجود ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ یہ وصف اس اسم کے ساتھ لازم وملزوم رہتا ہے اور بہت ہی کم اس علیحدہ ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء/ 67] اور انسان ہے ہی ناشکرا ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] اور انسان دل کا بہت تنگ ہے ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف/ 54] اور انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑا لو ہے ، میں تنبیہ کی ہے کہ یہ امور انسان کے اوصاف لازمہ سے ہیں اور شاذ ونا ور ہی اس سے منفک ہوتے ہیں اسی طرح شیطان کے متعلق فرمایا : ۔ كانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا[ الفرقان/ 29] اور شیطان انسان کی وقت پر دغا دینے والا ہے ۔ وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء/ 27] اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوں کا کفران کرنے والا یعنی نا قدرا ہے ۔ جب یہ فعل زمانہ ماضی کے متعلق استعمال ہو تو اس میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ وہ چیز تا حال اپنی پہلی حالت پر قائم ہو اور یہ بھی کہ اس کی وہ حالت متغیر ہوگئی ہو مثلا کان فلان کذا ثم صار کذا ۔ یعنی فلاں پہلے ایسا تھا لیکن اب اس کی حالت تبدیل ہوگئی ہے نیز یہ ماضی بعید کے لئے بھی آتا ہے جیسے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز پیدا کی تھی اور ماضی قریب کے لئے بھی حتی کہ اگر وہ حالت زمانہ تکلم سے ایک لمحہ بھی پہلے ہوتو اس کے متعلق کان کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے لہذا جس طرح کان ادم کذا کہہ سکتے ہیں اسی طرح کان زید ھھنا بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس بنا پر آیت : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا[ مریم/ 29]( وہ بولے کہ ) ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکہ بات کریں ۔ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جو ابھی گو د کا بچہ تھا یعنی کم عمر ہے اور یہ بھی کہ جو ابھی گود کا بچہ ہے یعنی ماں کی گود میں ہے لیکن یہاں زمانہ حال مراد لینا بےمعنی ہے اس میں زمانہ قریب ہے جیسے آیت : ۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] جتنی امتیں ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو ۔ میں بھی بعض نے کہا ہے کہ کنتم زمانہ حالپر دلالت کرتا ہے لیکن یہ معنی صحیح نہیں ہیں بلکہ معنی یہ ہیں کہ تم اللہ کے علم اور حکم کے مطابق بہتر تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة/ 280] اور اگر ( قرض لینے والا ) تنگ دست ہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں کان کے معنی کسی چیز کا واقع ہوجانا کے ہیں اور یہ فعل تام ہے ۔ یعنی اگر وہ تنگدست ہوجائے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کون کا لفظ کسی جوہر کے اپنے سے پست تر جو میں تبدیل ہونے کے لئے آتا ہے اور اکثر متکلمین اسے معنی ابداع میں استعمال کرتے ہیں بعض علامائے نحو کا خیال ہے کہ کینونۃ کا لفظ اصل میں کو نو نۃ بر وزن فعلولۃ ہے ۔ ثقل کی وجہ سے واؤ سے تبدیل ہوگئی ہے مگر سیبو کے نزدیک یہ اصل میں کیونو نۃ بر وزن فیعلولۃ ہے ۔ واؤ کو یا میں ادغام کرنے سے کینونۃ ہوگیا پھر ایک یاء کو تخفیف کے لئے گرادیا تو کینونۃ بن گیا جیسا کہ میت سے میت بنا لیتے ہیں جو اصل میں میوت ہے ۔ فرق صرف یہ ہے ۔ کہ کینو نۃ ( بتشدید یاء کے ساتھ اکثر استعمال ہوتا ہے المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٥) اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو اولاد کے طور پر اپنائے اس کی ذات اولاد اور شریک سے بالکل ماوراء وپاک ہے کیوں کہ اس کی شان تو یہ ہے کہ کہ جب وہ کسی کام کو کرنا چاہتا ہے مثلا وہ بغیر باپ کے لڑکا پیدا کرنا چاہتا ہے جیسا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا تو وہ صرف اتنا فرما دیتے ہیں کہ ” کن “ ہوجا سو وہ کام ہوجاتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٥ (مَا کَانَ لِلّٰہِ اَنْ یَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍلا سُبْحٰنَہٗط اِذَا قَضآی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ) یعنی حضرت مسیح (علیہ السلام) کی ولادت کے سلسلے میں باپ کا حصہ اللہ تعالیٰ کے ایک حرف ” کُن “ کے ذریعے سے پورا ہوا ‘ جبکہ باقی سارا عمل عام فطری اور طبعی طریقے سے تکمیل پذیر ہوا۔ اسی لیے آپ ( علیہ السلام) کو کلمۃٌ منہُ (آل عمران : ٤٥) یعنی اللہ کا خاص کلمہ قرار دیا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

22. In (Ayats 1-35), it has been shown that the “Doctrine of the son of God” in regard to Prophet Jesus is absolutely wrong. For just as the miraculous birth of Prophet John did not make him the son of God, so the miraculous birth of Prophet Jesus could not make him the son of God. For the births of both were the result of the same sort of miracle as they have been mentioned together in the same context in the Gospel of Luke. Therefore, it is mere distortion that the Christians should regard one as the servant of God and the other as the son of God.

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :22 یہاں تک جو بات عیسائیوں کے سامنے واضح کی گئی ہے وہ یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق ابن اللہ ہونے کا جو عقیدہ انہوں نے اختیار کر رکھا ہے وہ باطل ہے ۔ جس طرح معجزہ سے حضرت یحیی کی پیدائش نے ان کو خدا کا بیٹا نہیں بنا دیا اسی طرح ایک دوسرے معجزہ حضرت عیسی کی پیدائش بھی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی بنا پر انہیں خدا کا بیٹا قرار دے دیا جائے ۔ عیسائیوں کی اپنی روایات میں بھی یہ بات موجود ہے کہ حضرت یحیی اور حضرت عیسی ، دونوں ایک ایک طرح کے معجزہ سے پیدا ہوئے تھے ۔ چنانچہ لوقا کی انجیل میں کہا گیا ہے ۔ لیکن یہ عیسائیوں کا غلو معجزے سے پیدا ہونے والے کو اللہ کا بندہ کہتے ہیں اور دوسرے معجزہ سے پیدا ہونے والے کو اللہ کا بیٹا بنا بیٹھے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٥:۔ اوپر گزرا کہ نصاری میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے باب میں طرح طرح کا جھگڑا ہے اسی واسطے اس آیت میں فرمایا یہ جھگڑا ڈالنے والے لوگ اللہ کی قدرت کو بھول گئے ہیں اس واسطے ایسی باتیں کرتے ہیں اس کی قدرت تو وہ ہے کہ جس کام کے کرنے کا اس کا ارادہ ٹھہرتا ہے کلمہ کن کے فرما دینے سے وہ کام فورا ہوجاتا ہے اسی کلمہ کن کے فرما دینے سے اس نے بغیر ماں باپ کے آدم (علیہ السلام) اور بغیر باپ کے عیسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا کیا غرض عیسیٰ (علیہ السلام) آدم (علیہ السلام) کی طرح اللہ کی مخلوق میں سے ہیں نہ خدا ہیں نہ خدا کے بیٹے نہ خدا کے شریک اللہ کی شان ان لوگوں کی تراشی ہوئی باتوں سے بہت دور ہے اسی واسطے کسی آسمانی کتاب سے یہ لوگ اپنی ان تراشی ہوئی باتوں کی سند نہیں پیش کرسکتے صحیح بخاری اور مسلم کے حوالہ سے عبادہ بن الصامت (رض) کی حدیث جو اوپر کی آیت کی تفسیر میں گزری وہ اور متی کی انجیل کا تیسرا اور چوتھا باب گویا اس آیت کی تفسیر ہیں جس کا حاصل وہی ہے جو اوپر کی آیت کی تفسیر میں بیان کیا گیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) انجیل اور قرآن کی تعلیم کے موافق اللہ کے بندے رسول ہیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بعضے الہاموں کی بنا پر جو باتیں تراشی گئی ہیں وہ الہام بالکل غلط ہیں کیونکہ کوئی صحیح الہام کتاب آسمانی کے برخلاف نہیں ہوسکتا کس لیے کہ اللہ کی شان سے یہ بات بعید ہے کہ وہ وحی کے ذریعہ سے نبی کو ایک حکم دے اسی نبی کی امت میں کے بعضے لوگوں کو الہام کے ذریعہ سے دوسرا حکم دے اور الہام کے ذریعہ سے وحی آسمانی کو جھٹلادے چالیس دن کی عمر میں معجزے کے طور پر عیسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کے لوگوں سے جو باتیں کیں ان باتوں کے سلسلہ میں اس آیت اور اس سے اوپر کی آیت کا مضمون اللہ تعالیٰ نے نصیحت کے طور پر بڑھا دیا تھا اب آگے کی آیت میں عیسیٰ (علیہ السلام) کی باتوں کے سلسلہ کا خاتمہ ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:35) ما کان للہ۔ اللہ کی یہ شان نہیں ہے۔ قضی۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ قضاء مصدر۔ صلات کے اختلاف اور سیاق کی مناسبت سے مختلف معانی مراد ہوتے ہیں۔ بنانا۔ پورا کرنا۔ عزم کرنا۔ فیصلہ کرنا۔ حکم دینا وغیرہ یہاں بمعنی وہ فیصلہ کرلیتا ہے (ماضی بمعنی حال)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 جسے یہ قدرت حال ہو کہ کلمہ کن سے ہر چیز وجود میں لاسکتا ہو اسے ییٹا بنانے کی کیا ضرورت اور پھر جب اللہ جلہ کی شان یہ ہے تو حضرت عیسیٰ کو بغیر باپ کے جنم دے سکتا ہے۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ماکان ۔۔ من ولد (٩١ : ٥٣) ” اللہ کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے “۔ وہ اس سے بہت بلند ہے۔ اس کا یہ کام نہیں ہے اور نہ اس کو اس کی ضرورت ہے کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے۔ بیٹا تو ان لوگوں کی ضرورت ہے جو فنا ہونے والے ہیں۔ وہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے کسی کو اپنا بیٹا بناتے ہیں ‘ پھر ایک ضعیف والد کو آخری عمر میں مدد کے لئے بیٹے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ باقی اور لازوال ہے ‘ وہ قادر مطلق ہے ‘ کسی کا محتاج نہیں ہے اور تمام کائنات اس کے کلمہ کن سے بنتی ہے۔ وہ جو چاہتا ہے ہوجاتا ‘ محض اس کا ارادہ اس طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے ‘ لہٰذا اسے نہ اولاد اور نہ شریک کی ضرورت ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی بات اس پر ختم ہوتی ہے کہ اللہ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے ‘ لہٰذا صرف اسی خدائے واحد کی عبادت کرو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کسی کو اپنی اولاد بنانا اللہ تعالیٰ کے شایان شان نہیں ہے ان آیات میں بھی حضرت عیسیٰ بن مریم ( علیہ السلام) کا تذکرہ ہے اور اللہ پاک کی توحید بیان فرمائی ہے اور یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ شرک سے، کسی کو اولاد بنانے سے بری اور بیزار ہے پہلے تو یہ فرمایا کہ یہ عیسیٰ بن مریم جن کا ذکر گزشتہ آیات میں ہوا۔ ان کے بارے ہم نے سچی بات بیان کردی اس سچی بات میں لوگ جھگڑتے ہیں اور یہ جھگڑالو یہود و نصاریٰ ہیں اور اب تو جھوٹی نبوت کے دعویدار بھی ان کے ہم نوا ہوگئے ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے باپ تجویز کرتے ہیں اس کے بعد فرمایا کہ یہ بات اللہ کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو اپنی اولاد بنائے وہ اس سے پاک ہے، جب وہ کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے صرف اتنا فرما دیتا ہے کہ ہوجا، لہٰذا وہ ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ اس نے بغیر باپ کے ایک بچہ کو پیدا فرما دیا۔ جو ایسا صاحب کمال اور صاحب قدرت کاملہ ہو اس کے لیے اولاد تجویز کرنا سراپا حماقت اور ضلالت ہے۔ باپ اور بیٹے آپس میں ہم جنس ہوتے ہیں مخلوق خالق کی ہم جنس نہیں پھر مخلوق کیسے اس کی اولاد بن سکتی ہے۔ نیز مخلوق کا یہ طریقہ ہے کہ اپنی مدد کے لیے اولاد کو چاہتے ہیں اس لیے کہ خود ناقص ہیں اللہ تعالیٰ جو اپنی ذات اور صفات میں کامل ہے اور اس میں کبھی کوئی تغیر اور نقص و ضعف آنے والا نہیں اسے کسی معاون اور مددگار کی ضرورت نہیں پھر وہ اپنے لیے اولاد کیوں تجویز کرے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

26:۔ یہ زجر ہے نصاریٰ کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی طرف ولد کی نسبت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے ولد اور نائب ہیں فرمایا یہ غلط ہے۔ اس کا کوئی ولد اور نائب نہیں اور نہ اسے نائب کی ضرورت ہے وہ تو ایسا قادر ہے کہ جو چاہے لفظ کن سے پیدا کرلے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

35 اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں کہ وہ کسی کو اولاد بنائے اور کسی کو بیٹا بنائے وہ جملہ عیوب سے پاک اور بالکل منزہ ہے جب وہ کسی کام کے سر انجام کا ارادہ کرتا ہے اور جب وہ کسی کام کا کرنا ٹھہرا لیتا ہے تو بس اس کو اتنا کہہ دیتا ہے کہ ہوجا پس وہ ہوجاتا ہے۔ یعنی صرف ارادہ کا تعلق شئی کے وجود کو مستلزم ہے۔