Surat Marium

Surah: 19

Verse: 42

سورة مريم

اِذۡ قَالَ لِاَبِیۡہِ یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعۡبُدُ مَا لَا یَسۡمَعُ وَ لَا یُبۡصِرُ وَ لَا یُغۡنِیۡ عَنۡکَ شَیۡئًا ﴿۴۲﴾

[Mention] when he said to his father, "O my father, why do you worship that which does not hear and does not see and will not benefit you at all?

جب کہ انہوں نے اپنے باپ سے کہا کہ ابا جان! آپ ان کی پوجا پاٹ کیوں کر رہے ہیں جو نہ سنیں نہ دیکھیں؟ نہ آپ کو کچھ بھی فائدہ پہنچا سکیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِذْ قَالَ لاَِبِيهِ ... When he (Ibrahim ) said to his father: ... يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لاَا يَسْمَعُ وَلاَا يُبْصِرُ وَلاَا يُغْنِي عَنكَ شَيْيًا O my father! Why do you worship that which hears not, sees not and cannot avail you in anything! Meaning that these idols will not benefit you, nor can they protect you from any harm.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٩] سیدنا ابراہیم کا اپنے باپ کو بت پرستی کی قباحتیں سمجھانا :۔ مروجہ شرک کی دو بڑی اقسام ہیں ایک بت پرستی دوسرے پیر پرستی۔ پیر خواہ زندہ ہو یا فوت شدہ۔ زندہ پیر کم از کم دیکھ تو سکتا ہے اور سن بھی سکتا ہے اور مادی وسائل کے ذریعہ مدد بھی کرسکتا ہے۔ مگر سیدنا ابراہیم کی قوم تو بت پرست تھی۔ جو نہ سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں۔ نہ حرکت کرسکتے ہیں بلکہ وہ اپنے وجود تک کے لئے انسانوں کے محتاج ہیں۔ پھر وہ دوسروں کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کیا خاک کرسکتے ہیں ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَبَتِ ’ کے معنی کے لیے دیکھیے سورة یوسف (٤) ۔ اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ يٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ ۔۔ : اس سے معلوم ہوا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا والد بت پرست تھا۔ مزید دیکھیے سورة انعام (٧٤) ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے نہایت ادب، نرمی، حسن اخلاق اور بہترین دلائل کے ساتھ بت پرستی ترک کرنے کی نصیحت کی کہ کہیں وہ بڑے پن اور ضد میں آکر حق سے انکار نہ کر دے۔ چناچہ سب سے پہلے انھوں نے اس سے ان بتوں کو پوجنے کی وجہ پوچھی کہ جن کی کسی عقل مند کے نزدیک کوئی وقعت ہی نہیں، خواہ وہ عالم ہو یا جاہل، کجا یہ کہ ان کی عبادت کی جائے، جو تعظیم، محبت اور عاجزی کا انتہائی مرتبہ ہے۔ کیونکہ عبادت تو اس کی ہونی چاہیے جو ہر طرح سے دوسروں سے غنی ہو، کسی کا محتاج نہ ہو، سب نعمتوں کا مالک ہو، سب کو پیدا کرنے والا، رزق دینے والا ہو، زندگی، موت، ثواب اور عذاب کا مالک ہو۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے توجہ دلائی کہ صاحب عقل کو لازم ہے کہ جو بھی کرے کسی صحیح مقصد کے لیے کرے۔ کوئی بھی چیز یا شخص جو زندہ ہو، صاحب عقل ہو، سنتا دیکھتا ہو، کوئی فائدہ یا نقصان بھی پہنچا سکتا ہو مگر عدم سے وجود میں آیا ہو اور اس کا اختیار کسی اور کا عطا کردہ ہو تو عقل سلیم اس کی عبادت میں عار محسوس کرے گی، خواہ وہ کتنی اونچی مخلوق مثلاً انسان ہو یا فرشتہ، کیونکہ وہ خود اپنی ضروریات کے لیے اس ہستی کا محتاج ہے جو نہ اپنے وجود میں کسی کی محتاج ہے اور نہ اپنی بقا میں۔ پھر پتھر، لکڑی یا دھات کے بنے ہوئے بت یا مٹی اور اینٹوں سے بنی ہوئی قبریں کہ جن میں زندہ لوگوں والی کوئی خوبی ہے ہی نہیں، جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں، نہ کسی کے کام آسکیں، ان کی عبادت کیوں ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

How to give counsel to elders. يَا أَبَتِ (My dear father - 19:42) In Arabic language this word conveys deep respect and intense love for one&s father. Allah Ta` ala had combined in the person of Sayyidna Khalilullah (علیہ السلام) the noble qualities and attributes, and his address to his father is a perfect example of moderation and restraint on the one hand, and the balancing of the opposites on the other. He finds his father living a life of unbelief and polytheism, and also calling upon other people to follow him in a life of sin - the very things which he was sent to eradicate. At the same time there is the filial love and respect which he feels towards his father. Now, the thing to note is, how well he combines the two conflicting feelings together. In the first place he uses the word يَا أَبَتِ , which is the mark of love and respect for his father, in the beginning of each sentence of the address. Then there is not a single derogatory word in his address which could hurt the feelings of his father, and words such as infidel or sinner have been carefully avoided. Instead, guided by prophetic wisdom he merely invited his father&s attention to the helplessness and insensitivity of his idols, so that he might himself realize the fallacy of his beliefs. In the second sentence he made a mention of the prophetic knowledge that was granted to him by Allah Ta’ ala. Then in the third and fourth sentences he warned him against the Divine wrath, which would surely fall on him as a punishment for infidelity and idolatry. Even to these respectful entreaties his father did not pay any heed and, instead of giving any thought to what was said to him and adopting a gentle attitude, he addressed him ina very harsh language. Whereas Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) had addressed him with the loving words of يَا أَبَتِ , which should have called for a soft and tender response, such as یَا بُنَیَّ (My dear son) he chose to call him by his name and said يَا إِبْرَ‌اهِيمُ , and not only threatened to stone him to death but also asked him to leave his house. How Sayyidna Khalilullah& (علیہا السلام) responded to this threat is worthy of deep reflection.

اپنے بڑوں کو نصیحت کرنے کا طریقہ اور اس کے آداب : يٰٓاَبَتِ عربی لغت کے اعتبار سے یہ لفظ باپ کی تعظیم و محبت کا خطاب ہے۔ حضرت خلیل اللہ علیہ الصلوٰة والسلام کو حق تعالیٰ نے جو مقام جامعیت اوصاف و کمالات کا عطا فرمایا تھا، ان کی یہ تقریر جو اپنے والد کے سامنے ہو رہی ہے اعتدال مزاج اور رعایت اضداد کی ایک بےنظیر تقریر ہے کہ ایک طرف باپ کو شرک و کفر اور کھلی گمراہی میں نہ صرف مبتلا بلکہ اس کا داعی دیکھ رہے ہیں جس کے مٹانے ہی کے لئے خلیل اللہ پیدا کئے گئے ہیں، دوسری طرف باپ کا ادب اور عظمت و محبت ہے ان دونوں ضدوں کو حضرت خلیل اللہ نے کس طرح جمع فرمایا اول تو يٰٓاَبَتِ کا لفظ جو باپ کی مہربانی اور محبت کا داعی ہے ہر جملہ کے شروع میں اس لفظ سے خطاب کیا پھر کسی جملہ میں باپ کی طرف کوئی لفظ ایسا منسوب نہیں جس سے اس کی توہین یا دل آزاری ہو کہ اس کو گمراہ یا کافر کہتے بلکہ حکمت پیغمبرانہ کے ساتھ صرف ان کے بتوں کی بےبسی اور بےحسی کا اظہار فرمایا کہ ان کو خود اپنی غلط روش کی طرف توجہ ہوجائے۔ دوسرے جملہ میں اپنی اس نعمت کا اظہار فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے ان کو علوم نبوت کی عطا فرمائی تھی تیسرے اور چوتھے جملے میں اس انجام بد سے ڈرایا جو اس شرک و کفر کے نتیجہ میں آنے والا تھا۔ اس پر بھی باپ نے بجائے کسی غور و فکر یا یہ کہ ان کی فرزندانہ گزارش پر کچھ نرمی کا پہلو اختیار کرتے پورے تشدد کے ساتھ خطاب کیا، انہوں نے تو خطاب يٰٓاَبَتِ کے پیارے لفظ سے کیا تھا جس کا جواب عرف میں یا بنی کے لفظ سے ہونا چاہئے تھا مگر آزر نے ان کا نام لے کر یا ابراہیم سے خطاب کیا اور ان کو سنگسار کرکے قتل کرنے کی دھمکی اور گھر سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ اس کا جواب حضرت خلیل اللہ کی طرف سے کیا ملتا ہے وہ سننے اور یاد رکھنے کے قابل ہے فرمایا :

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذْ قَالَ لِاَبِيْہِ يٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِيْ عَنْكَ شَـيْــــــًٔــا۝ ٤٢ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ أب الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] ( اب و ) الاب ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ { النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔ عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ غنی( فایدة) أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة/ 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد/ 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران/ 10] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة/ 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد/ 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران/ 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٢) جب کہ انہوں نے اپنے باپ آزر سے کہا کہ اے میرے باپ تم اللہ تعالیٰ کے علاوہ ایسی چیزوں کی کیوں عبادت کرتے ہو جو نہ تمہاری پکار کو سنتے ہیں اور نہ تمہاری عبادت کو دیکھتے ہیں اور نہ عذاب الہی کے مقابلہ میں تمہاری کچھ مدد کرسکتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٢ (اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ یٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَلَا یُبْصِرُ وَلَا یُغْنِیْ عَنْکَ شَیْءًا ) ” اِن آیات کے حوالے سے یہ نکتہ لائق توجہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے والد کو مخاطب کرنے کا انداز انتہائی مؤدبانہ ہے : یٰٓاَبَتِ ‘ یٰٓاَ بَتِ (اے میرے ابا جان ! اے میرے ابا جان ! ) ۔ ایک داعی اور مبلغ کے لیے یہ گویا ایک مثال ہے کہ اگر اسے دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں اپنے سے کسی بڑے یا کسی بزرگ کو مخاطب کرنا ہو تو اس کا طرز تخاطب کیسا ہونا چاہیے۔ اس لحاظ سے یہ قرآن مجید کا بہترین مقام ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

20: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ آزر نہ صرف بت پرست تھا، بلکہ خود بت تراشی کیا کرتا تھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:42) یابت۔ یا حرف ندا۔ ابت اصل میں ابی تھا۔ تا کو یاء کے عوض لایا گیا۔ اور اب بوجہ منادی مضاف منصوب ہوا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 مراد وہ بت ہیں جن کی آزر اور اس کی قوم کے لوگ پوجا کیا کرتے تھے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٣) اسرارومعارف انہیں کتاب اللہ میں ابراہیم (علیہ السلام) کے حالات بھی سنائیے کہ مشرکین عرب ان کی پیروی کا دعوی رکھتے تھے مگر عقائد و اعمال مشرکانہ گھڑ رکھے تھے تو یہ بھی واضح ہوجائے کہ محض واقعات عجیبہ ہی سننے کا شوق رکھتے ہیں یا حق کی طلب بھی تاکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حالات سے ان کا عقیدہ اور عمل بھی اپنی صحیح صورت میں سامنے آجائے کہ وہ تو صدیق تھے اور نبی تھے ۔ (صدیق) یہاں صدیق سے مراد سچائی لیا جائے تو ہر نبی ہی صدیق اور سچا ہوتا ہے تو پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خصوصیت کیا رہ جاتی ہے ۔ (معنے اور منصب نیز مناصب ولایت کی خصوصیات) حق یہ ہے کہ صدیق ہونا یا ” صدیقیت “ ایک منصب جلیلہ ہے اور انبیاء کرام (علیہ السلام) میں سے رب کریم نے جسے چاہا صدیق بنا دیا ، اسی طرح ولایت کے مناصب کی انتہا بھی صدیقیت ہے ، محققین صوفیاء کے مطابق ہر عہد میں ایک ولی اللہ منصب غوثیت پہ فائز ہوتا ہے ، جب اللہ جل جلالہ چاہے تو غوث کو ترقی دے کر ” قیوم “ بنا دیتا ہے اگر وہ بھی ترقی کرے تو فرد بن جاتا ہے اور فرد ترقی کرکے قطب وحدت بنتا ہے اور وہ ترقی کرکے ” صدیق “ بنتا ہے ، ولی سارے کمالات نبی کی اطاعت اور اتباع سے پاتا ہے نیز مقامات ولایت کو انتہا تک عورت بھی حاصل کرسکتی ہے کہ قرآن حکیم نے حضرت مریم (علیہا السلام) کو ” صدیقہ “ کہا ہے یہ مناصب ولایت جس مزاج کے لوگوں کو نصیب ہوں عامۃ المسلمین اس طرف چل پڑتے ہیں اور قدرتی طریقے سے اس کے وجود کی برکات ذہنوں میں زیروبم پیدا کرتی ہیں فی زمانہ اللہ کریم کا بہت ہی زیادہ احسان ہے کہ مناصب ولایت میں نہ صرف صدیق موجود ہے بلکہ دور حاضرہ کا صدیق اللہ کریم کی طرف سے ” اما الصدیقین “ ہے ، یہ اسی کے وجود کی برکات ہیں کہ پوری دنیا میں مسلمان بیدار ہو رہا ہے ۔ فالحمد للہ علی ذاک بہرحال نبی کی صدیقیت بحیثیت نبی کے ہوتی ہے صحابی کی اپنی شان ہے اور ولی کی اپنے مقام کے مطابق انبیاء کرام (علیہ السلام) کے بعد کائنات میں صدیقوں کے سردار ابوبکر (رض) ہیں ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے گھر میں اور اپنے والد کو بھی بتوں کا پجاری پایا تو ان کا اتباع نہ کیا بلکہ انہیں نہایت خوبصورت طریقے سے بتوں کی پوجا چھوڑ کر اللہ واحد کی عبادت اختیار کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اگر آپ اس پہ بتوں کو پوجتے ہیں کہ یہ آپ کی ضرورتیں پوری کریں گے تو ضرورت پوری کرنے پہ اختیار تو دور کی بات ہے ان میں تو اتنی سکت بھی نہیں کہ آپ کی بات ہی سن سکیں یا آپ کو اور آپ کے حالات کو دیکھ سکیں ، تو یقینا یہ آپ کے کسی کام بھی نہیں آسکتے ۔ (دلیل بزرگی) میں نے یہ بات محض رواجا نہیں کہی بلکہ مجھے علم نصیب ہوا ہے مراد وحی رسالت ہے اور یہ ایسا علم ہے جو آپ کے پاس نہیں گویا محض بڑا ہونا یا عمر کی زیادتی بزرگی کی دلیل نہیں بلکہ اس کا مدار اللہ جل جلالہ کی معرفت پر ہے لہذا آپ میری بات مانیں اور میرا اتباع کریں تو میں آپ کو سیدھے پر لے چلوں گا ، اور آپ جو بتوں کو پوجتے ہیں یہ درحقیقت آپ شیطان ہی کو پوج رہے ہیں کہ اسی نے اس راہ پر ڈالا ہے حالانکہ بظاہر کا فر بھی شیطان کو برا ہی کہتا ہے مگر اس کی بات مان کر اور بت پرستی میں مبتلا ہو کر گویا اسی کی عبادت بھی کرتا ہے اور شیطان تو اللہ جل جلالہ کا جو بہت بڑا رحم کرنے والا ہے ، نافرمان ہے ، ڈر یہ ہے کہ اس جرم میں آپ کو سزا نہ مل جائے ، اگر ایسا ہوا تو پھر آپ بھی شیطان کے ساتھی بن جائیں گے مگر برا ہوا اللہ جل جلالہ سے دوری کی کیفیات کا کہ اپنے عظیم بیٹے اور اللہ جل جلالہ کے عظیم رسول کی بات سن کر بھی بابا جی بھڑک اٹھے اور کہنے لگے اب سمجھا گویا تم میرے معبودوں سے پھر چکے ہو اور مجھے بھی ایسا ہی کرنے کی دعوت دے رہے ہو لیکن یہ یاد رکھ لو کہ اولاد بیشک عزیز ہوتی ہے مگر اپنے معبود سے بڑھ کر نہیں لہذا ایسی باتوں سے باز آجاؤ ورنہ سنگسار کر دوں گا تب تک میری نگاہوں سے دور ہوجاؤ تو انہوں نے فرمایا کہ بہتر میں آپ کو سلام کرتا ہوں ، اس سے مراد اچھے طریقے سے الگ ہونا بھی ہے اور یہ بات شریعت ابراہیمی کی تھی ۔ (کافر کو سلام) مگر امت مرحومہ کو حدیث شریف میں کافر کو سلام سے ابتدا کرنے سے منع فرمایا ہے ہاں ایسا مجمع جس میں بعض مسلمان بھی ہوں تو اسے سلام کہا جاسکتا ہے نیز فرمایا اللہ جل جلالہ سے آپ کے لیے بخشش طلب کرتا رہوں گا کہ وہ مجھ پر بہت مہربان ہے امت مرحومہ کو کتاب اللہ میں غیر مسلم کی مغفرت طلب کرنے سے روک دیا گیا ہے ہاں ہدایت کی دعا کرنا درست ہے ، لیکن اس حالت کفر میں میرا آپ کا ساتھ نہیں ہو سکتا ، لہذا میں آپ سے اور آپ کے ان معبودوں سے ظاہرا بھی الگ ہوتا ہوں اور صرف اپنے پروردگار کی عبادت کروں گا اور کافرانہ ماحول سے الگ ہو کر یقینا بہتر طور پر عبادت کرسکوں گا ۔ (عبادات پر ماحول کا اثر) یہاں ثابت ہے کہ ماحول عبادات اور ان پر مرتب ہونے والے اثرات و کیفیات کو متاثر کرتا ہے لہذا برے ماحول سے الگ ہونا ضروری ہے اسی لیے فرشتے وقت مرگ بھی کہتے ہیں کہ اللہ جل جلالہ کی زمین وسیع تھی تو بدکاروں کو چھوڑ کر کہیں اور جا بستا ، لہذا بلاضرورت ایسے ماحول میں نہ جانا چاہئے جب انہوں نے ہجرت فرمائی اور ان سے دور یعنی ملک شام کو چلے گئے تو ہم نے انہیں ان سے بہت ہی بہتر رشتہ دار عطا فرما دیے ۔ (ہجرت کے انعامات) حضرت اسحاق (علیہ السلام) جیسے بیٹے اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) جیسے پوتے سے نوازا جو دونوں نبی تھے یعنی ایک بہت اعلی خاندان عطا فرما دیا اور ان کی اولاد کو صاحب کمال بنا کر اپنی رحمت سے نوازا اور ان کے نام کو عزت وبلندی بخش دی کہ ہر کوئی تعظیم سے اور ادب سے نام لیتا تھا ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ مراد بت ہیں حالانکہ اگر کوئی دیکھتا سنتا کچھ کام آتا بھی ہو مگر واجب الوجود نہ ہو تب بھی لائق عبادت نہیں۔ چہ جائیکہ ان اوصاف سے بھی عاری ہو وہ تو بدرجہ اولی لائق عبادت نہ ہوگا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعوت کا آغاز اپنے گھر سے فرمایا یہی بہترین اور فطری طریقہ ہے کہ داعی اپنی دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کرے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم اور ان کے والد آذر بتوں کی پرستش کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پیغمبرانہ طریقہ کے مطابق تبلیغ کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔ چناچہ باپ کے مرتبہ کا خیال رکھتے ہوئے نہایت ادب کے ساتھ فرماتے ہیں کہ اے والد گرامی ! آپ بتوں کی کیوں عبادت کرتے ہیں ؟ جو نہ سن سکتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی آپ کو کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ اے والد گرامی ! یقیناً میرے پاس ایساعلم آیا ہے جو آپ کے پاس موجود نہیں۔ میری بات مانیں میں آپ کو سیدھے راستے کی رہنمائی کروں گا۔ اے میرے والد آپ شیطان کی عبادت نہ کریں شیطان رب رحمن کا نافرمان ہے۔ اے میرے باپ ! مجھے ڈر ہے کہ شرک کی وجہ سے رب رحمن کا آپ پر عذاب نازل نہ ہوجائے اور آپ شیطان کے ساتھی قرار پائیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کو یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسا علم عطا فرمایا ہے جو آپ کے پاس نہیں۔ مرادنبوت کا علم ہے۔ نبی کی نبوت اور اس کی اتباع کے بغیر کوئی شخص حقیقی رہنمائی حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی اسے ہدایت یافتہ قرار دیا جاسکتا ہے جو شخص اس راستہ سے ہٹے گا وہ شیطان کا ساتھی قرار پائے گا۔ اسے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی چیز بچا نہیں سکتی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کے سامنے توحید کی دعوت پیش کرتے ہوئے جو پہلی بات فرمائی وہ یہ تھی کہ پتھر اور مٹی کی بنی ہوئی مورتیاں نہ سن سکتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ ہی کسی کو کچھ فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ یاد رہے کہ بتوں کے سامنے جھکنے اور ان کے سامنے اپنی حاجات پیش کرنے والوں سے بات کی جائے تو وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اِ ن کی عبادت نہیں کرتے۔ چونکہ اِ ن میں ہمارے بزرگوں کی روح حلول کرچکی ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے خوش ہو کر کچھ اختیارات دے رکھے ہیں۔ جس وجہ سے یہ ہماری فرمادیں رب کے حضور پہنچاتے اور ہمیں رب تعالیٰ کے قریب کردیتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں۔ ہم ان کے وسیلہ اور برکت سے مانگتے ہیں۔ ایسے لوگ کا یہ بھی نظر یہ ہے کہ اس طرح ذکر اور عبادت کرنے میں سکون ملتا اور یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس طریقہ عبادت کو شیطان کی عبادت قرار دیا ہے۔ یہی بات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد کو سمجھائی تھی۔ اسی طریقۂ عبادت سے نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل مکہ اور لوگوں کو روکا کرتے تھے۔ فرق یہ ہے کہ مکہ کے لوگ بتوں کو عبادت کا ذریعہ بناتے، یہودی اور عیسائی انبیاء اور اولیاء کی قبروں کو قرب کا ذریعہ بناتے تھے۔ جبکہ فوت شدگان کے بارے میں قرآن مجید دو ٹوک الفاظ میں وضاحت کرتا ہے کہ یہ نہ کوئی بات سنتے ہیں اور نہ ہی کسی کی مدد کرسکتے ہیں انہیں تو یہ بھی خبر نہیں کہ انہیں موت کے بعد کب اٹھا جائے گا۔ (وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْءًا وَّ ھُمْ یُخْلَقُوْنَ ۔ اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ ) [ النحل : ٢٠] ” اور وہ لوگ جو اللہ کے سوا غیر اللہ کو پکارتے ہیں انہوں نے کسی چیز کو پیدا نہیں کیا بلکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ وہ مردہ ہیں زندہ نہیں اور انہیں یہ بھی خبر نہیں کہ انہیں کب اٹھایا جائے گا۔ “ جہاں تک بتوں یا مدفون لوگوں کے وسیلہ کا معاملہ ہے یہی بات تو کفار مکہ کہا کرتے تھے۔ (وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہِ أَوْلِیَاءَ مَا نَعْبُدُہُمْ إِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا إِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی )[ الزمر : ٣] ” وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے علاوہ کار ساز بنا رکھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں۔ “ (وَإِذَا قِیْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَا أَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَاءَ نَا) [ البقرۃ : ١٧٠] ” اور جب کہا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کرو جو اللہ نے نازل فرمایا ہے تو کہتے ہیں نہیں بلکہ ہم اس کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ “ مسائل ١۔ توحید کی دعوت ہر چھوٹے، بڑے کو دینا چاہیے۔ ٢۔ دعوت کا آغاز اپنے اقرباء سے کرنا چاہیے۔ ٣۔ نبی آخر الزّماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کے بغیر کوئی شخص ہدایت نہیں پاسکتا۔ ٤۔ توحید اور رسالت کا انکار کرنے والا شیطان کا ساتھی ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن شیطان کے ساتھی کون ؟: ١۔ اے میرے باپ شیطان کی عبادت نہ کرو یقیناً شیطان رحمن کا نافرمان ہے اے میرے باپ مجھے ڈر لگتا ہے کہ آپ کو رحمن کا عذاب آلے اور آپ شیطان کے ساتھی بن جائیں۔ (مریم : ٤٤۔ ٤٥) ٢۔ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ (بنی اسرائیل : ٢٧) ٣۔ یقیناً شیطان تمہیں اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے ان سے نہ ڈرو۔ (آل عمران : ١٧٥) ٤۔ جس کا ساتھی شیطان ہوا وہ بدترین ساتھی ہے۔ (النساء : ٣٨) ٥۔ تم شیطان کے دوستوں سے لڑائی کرو یقیناً شیطان کی تدبیر کمزور ہے۔ (النساء : ٧٦) ٦۔ جس نے شیطان کو اپنا دوست بنایا وہ خائب و خاسر ہوا۔ (النساء : ١١٩) ٧۔ شیطان انسان کا دشمن ہے۔ (البقرۃ : ١٦٨) ٨۔ شیطان کی رفاقت کا بدترین انجام۔ (الفرقان : ٢٧، ٢٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وہ نہایت ہی ادب اور تہذیب کے ساتھ اپنے باپ سے ہمکلام ہیں۔ وہ یہ کوشش کررہے ہیں کہ اللہ نے جو ہدایت ان کو دی ہے ‘ اس سے ان کے والد بھی مستفید ہوجائیں۔ جو علم اللہ نے ان کو دیا ہے وہ اپنے باپ کو بھی سکھا دیں۔ وہ نہایت ہیمحبت کے انداز میں باپ سے مخاطب ہیں۔ ابا جان ‘ نہایت ہی نرم الفاظ ہیں۔ لم تعبدو مالا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شیئا (٩١ : ٢٤) ” آپ کیوں ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں ‘ نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کا کوئی کام بنا سکتی ہیں ؟ “ عبادت کا اصول تو یہ ہے کہ انسان اس ذلت کے آگے سرنگوں ہو جو انسان سے اعلیٰ وارفع ہو۔ زیادہ علم والا اور زیادہ قوت والا ہو اور وہ ذات انسان کو مقام انسانیت سے بھی بلند کردے اور مزید اونچا مرتبہ دے دے۔ ایک انسان ان چیزوں کی عبادت اور بندگی کیسے کرسکتا ہے جو اس سے کم تر ہوں ! بلکہ وہ دوسرے حیوانات سے بھی کم تر ہوں ‘ نہ سنتی ہوں ‘ نہ دیکھتی ہوں اور نہ کسی کے نفع و نقصان کی مالک ہوں۔ یہ تقریر انہوں نے اس لئے کی کہ ان کے والد اور ان کی قوم بتوں کی پوجا کرتے تھے جس طرح اہل قریش بتوں کی پوجا کرتے تھے جن کے ساتھ اسلام کا مقابلہ تھا۔ یہ تو تھی پہلی جھلک حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت توحید کی جو انہوں نے اپنے والد کے سامنے پیش کی۔ اس کے بعد انہوں نے مزید تشریح کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ یہ بات وہ خود اپنی جانب سے نہیں کہہ رہے بلکہ دراصل یہ وہ علم ہے جو ان کے پاس اللہ کی طرف سے آیا ہے۔ اللہ نے مجھے ہدایت کی ہے کہ میں آپ کو یہ دعوت دوں اگر چہ میں عمر میں آپ سے کم ہوں اور میرا تجربہ بھی آپ سے کم ہے لیکن عالم بالا کی امداد سے میں حقیقت تک پہنچ گیا ہوں۔ وہ اپنے والد کو درد مندی کے ساتھ نصیحت کرتے ہیں کہ آپ کو اس علم کا پتہ نہیں ہے لہذا آپ کو چاہیے کہ آپ میری اطاعت کریں۔ میں آپ کو راہ راست دکھا سکتا ہوں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

32:۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ کا نام تارح اور لقب آزر تھا۔ جو نہ صرف بت پرست تھا۔ بلکہ بت تراش بھی تھا وہ بت بنا کر فروخت کیا کرتا تھا۔ اس کی زیادہ تحقیق سورة انعام رکوع 9 کی تفسیر میں گذر چکی ہے اور مزید تحقیق سورة شعراء کے آخری رکوع کی تفسیر میں آئے گی۔ انشاء اللہ تعالی۔ ” لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ الخ “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بغیر کسی تمہید کے مسئلہ توحید کا منفی پہلو (جو نسبتا زیادہ ناگوار گذرتا ہے) اپنے باپ کے سامنے پیش فرما دیا۔ یہ غالباً تبلیغ کا آخر موقع تھا۔ اس سے قبل توحید کا مثبت پہلو کئی بار بیان فرم اچکے تھے۔ اس میں انہوں نے معبودانِ باطلہ کے تین نقائص بیان فرمائے ہیں۔ اول یہ کہ پکارنے والے کی دعاء اور پکار کو سن نہیں سکتے دوم یہ کہ وہ اپنے پکارنے والے کا خشوع و خضوع اور اس کا عجز و انکسار دیکھ نہیں سکتے۔ سوم یہ کہ وہ کسی کام نہیں آسکتے نہ وہ مشکلکشائی کرسکتے ہیں نہ حاجت روائی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

42 واقعہ ابراہیمی میں وہ وقت قابل ذکر ہے جبکہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے کہا اے میرے باپ تو ایسی چیز کی عبادت اور بندگی کیوں کرتا ہے جو سن سکتی ہے اور نہ دیکھ سکتی ہے اور نہ وہ تیرے کچھ کام آسکتی ہے۔ یعنی نہ سننے کی طاقت نہ دیکھنے کی طاقت اور نہ برے وقت کام آنے کی صلاحیت تو اللہ رب العزت کی موجودگی میں اگرچہ چیزیں کچھ نافع ہوتیں تب بھی قابل پرستش نہ تھیں چہ جائیکہ جب ان میں کسی کی صلاحیت اور اہلیت بھی نہ ہو تو ان مورتیوں کا پوجنا سوائے حماقت کے اور کیا ہے۔