Surat Marium

Surah: 19

Verse: 61

سورة مريم

جَنّٰتِ عَدۡنِ ۣ الَّتِیۡ وَعَدَ الرَّحۡمٰنُ عِبَادَہٗ بِالۡغَیۡبِ ؕ اِنَّہٗ کَانَ وَعۡدُہٗ مَاۡتِیًّا ﴿۶۱﴾

[Therein are] gardens of perpetual residence which the Most Merciful has promised His servants in the unseen. Indeed, His promise has ever been coming.

ہمیشگی والی جنتوں میں جن کا غائبانہ وعدہ اللہ مہربان نے اپنے بندوں سے کیا ہے ۔ بیشک اس کا وعدہ پورا ہونے والا ہی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Description of the Gardens of the Truthful and Those Who repent Allah, the Exalted, says; جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدَ الرَّحْمَنُ عِبَادَهُ بِالْغَيْبِ ... They will enter `Adn Gardens which the Most Gracious has promised to His servants in the unseen. Allah, the Exalted, says that the Gardens (of Paradise), which the penitent will enter, will be Gardens of `Adn, meaning, eternity. These are Gardens that the Most Beneficent promises His servants in the unseen. This means that these Gardens are from the unseen things that they believe in, even though they have never witnessed them. They believe in the unseen out of their strong conviction and the strength of their faith. Concerning Allah's statement, ... إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا Verily, His promise must come to pass. This affirms the fact that this will occur, and that it is a settled matter. Allah does not break His promise, nor does He change it. This is similar to His statement, كَانَ وَعْدُهُ مَفْعُولاً His promise is certainly to be accomplished. (73:18) This means that His promise will be and there is no avoiding it. Allah's statement here, مَأْتِيًّا (must come to pass), This means that it will come to His servants who are striving towards it and they will reach it. There are those commentators who said, مَأْتِيًّا (must come to pass), "This means it is coming, because everything that comes to you, you also come to it. This is as the Arabs say, `Fifty years came to me, and I came to fifty years.' They both mean the same thing (I'm fifty years old)." Concerning Allah's statement,

اللہ تعالیٰ کے وعدے برحق ہیں ۔ جن جنتوں میں گناہوں سے توبہ کرنے والے داخل ہوں گے یہ جنتیں ہمیشہ والی ہوں گی جن کا غائبانہ وعدہ ان سے ان کا رب کر چکا ہے ان جنتوں کو انہوں نے دیکھا نہیں لیکن تاہم دیکھنے سے بھی زیادہ انہیں ان پر یقین وایمان ہے بات بھی یہی ہے کہ اللہ کے وعدے اٹل ہوتے ہیں وہ حقائق ہیں جو سامنے آکر ہی رہیں گے ۔ نہ اللہ وعدہ خلافی کرے نہ وعدے کو بدلے یہ لوگ وہاں ضرور پہنچائے جائیں گے اور اسے ضرور پائیں گے ۔ ماتیاکے معنی اتیا کے بھی آتے ہیں اور یہ بھی ہے کہ جہاں ہم جائیں وہ ہمارے پاس آہی گیا ۔ جیسے کہتے ہیں مجھ پر پچاس سال آئے یا میں پچاس سال کو پہنچا ۔ مطلب دونوں جملوں کا ایک ہی ہوتا ہے ۔ ناممکن ہے کہ ان جنتوں میں کوئی لغو اور ناپسندیدہ کلام ان کے کانوں میں پڑے ۔ صرف مبارک سلامت کی دھوم ہوگی ۔ چاروں طرف سے اور خصوصا فرشتوں کی پاک زبانی یہی مبارک صدائیں کان میں گونجتی رہیں گی ۔ جیسے سورہ واقعہ میں ہے ( لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِيْمًا 25۝ۙ ) 56- الواقعة:25 ) وہاں کوئی بیہودہ اور خلاف طبع سخن نہ سنیں گے بجر سلام اور سلامتی کے ۔ یہ استثنار منقطع ہے ۔ صبح شام پاک طیب عمدہ خوش ذائقہ روزیاں بلا تکلف وتکلیف بےمشقت وزحمت چلی آئیں گی ۔ لیکن یہ نہ سمجھا جائے کہ جنت میں بھی دن رات ہونگے نہیں بلکہ ان انوار سے ان وقتوں کو جنتی پہچان لیں گے جو اللہ کی طرف سے مقرر ہیں ۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پہلی جماعت جو جنت میں جائے گی ان کے چہرے چودویں رات کے چاند جیسے روشن اور نورانی ہوں گے ۔ نہ وہاں انہیں تھوک آئے گا نہ ناک آئے گی نہ پیشاب پاخانہ ۔ ان کے برتن اور فرنیچر سونے کے ہوں گے ان کا بخور خوشبودار اگر ہوگا ، ان کے پسینے مشک بو ہوں گے ، ہر ایک جنتی مرد کی دو بیویاں تو ایسی ہوں گی کہ ان کے پنڈے کی صفائی سے ان کی پنڈلیوں کی نلی کا گودا تک باہر نظر آئے ۔ ان سب جنتوں میں نہ تو کسی کو کسی سے عداوت ہوگی نہ بغض سب ایک دل ہوں گے ۔ کوئی اختلاف باہم دیگر نہ ہوگا ۔ صبح شام تسبیح میں گزریں گے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں شہید لوگ اس وقت جنت کی ایک نہر کے کنارے جنت کے دروازے کے پاس سرخ رنگ قبوں میں ہیں ۔ صبح شام روزی پہنچائے جاتے ہیں ( مسند ) پس صبح وشام باعتبار دنیا کے ہے وہاں رات نہیں بلکہ ہروقت نور کا سماں ہے پردے گرجانے اور دروازے بند ہوجانے سے اہل جنت وقت شام کو اسی طرح پردوں کے ہٹ جانے اور دروازوں کے کھل جانے سے صبح کے وقت کو جان لیے گے ۔ ان دروازوں کا کھلنا بند ہونا بھی جنتیوں کے اشاروں اور حکموں پر ہوگا ۔ یہ دروازے بھی اس قدر صاف شفاف آئینہ نما ہیں کہ باہر کی چیزیں اندر سے نظر آئیں ۔ چونکہ دنیا میں دن رات کی عادت تھی اس لئے جو وقت جب چاہیں گے پائیں گے ۔ چونکہ عرب صبح شام ہی کھانا کھانے کے عادی تھے اس لئے جنتی رزق کا وقت بھی وہی بتایا گیا ہے ورنہ جنتی جو چاہیں جب چاہیں موجود پائیں گے ۔ چنانچہ ایک غریب منکر حدیث میں ہے کہ صبح شام کا ٹھیکہ ہے ، رزق تو بیشمار ہر وقت موجود ہے لیکن اللہ کے دوستوں کے پاس ان اوقات میں حوریں آئیں گی جن میں ادنی درجے کی وہ ہوں گی جو صرف زعفران سے پیدا کی گئی ہیں ۔ یہ نعمتوں والی جنتیں انہیں ملیں گی جو ظاہر باطن اللہ کے فرمانبردار تھے جو غصہ پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے تھے جن کی صفیتں ( قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ Ǻ۝ۙ ) 23- المؤمنون:1 ) کے شروع میں بیان ہوئی ہیں اور فرمایا گیا ہے کہ یہی وارث فردوس بریں ہیں جن کے لئے دوامی طور پر جنت الفردوس اللہ نے لکھ دی ہے ( اللہ اے اللہ ہمیں بھی تو اپنی رحمت کاملہ سے فردوس بریں میں پہنچا ، آمین )

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

61۔ 1 یعنی یہ ان کے ایمان و یقین کی پختگی ہے کہ انہوں نے جنت کو دیکھا بھی نہیں، صرف اللہ کے غائبانہ وعدے پر ہی اس کے حصول کے لئے ایمان وتقویٰ کا راستہ اختیار کیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

جَنّٰتِ عَدْنِۨ الَّتِيْ وَعَدَ الرَّحْمٰنُ ۔۔ : ہمیشگی کی جنتوں کا وعدہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے اپنے رحمٰن ہونے اور بندوں کو اپنا بندہ کہنے کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی رحمت کس قدر بےحساب و بےکنار ہے اور فرماں بردار بندوں سے اس کا تعلق کتنا گہرا اور پیارا ہے۔ ” بن دیکھے “ کا مطلب یہ ہے کہ بندوں سے اس رحمٰن نے وعدہ کیا ہے جس رحمٰن کو انھوں نے نہیں دیکھا، یعنی بن دیکھے اس پر ایمان لائے ہیں۔ دوسرا معنی ہے کہ رحمٰن نے ان سے ایسی جنتوں کا وعدہ کیا ہے جو انھوں نے دیکھی نہیں مگر انھیں دیکھے بغیر ہی ان کے ملنے کا یقین ہے، کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ رحمٰن کا وعدہ ہمیشہ پورا ہو کر رہنے والا ہے۔ ” اِنَّ “ تعلیل کے لیے ہے۔ ” مَاْتِيًّا “ ” أَتَی یَأْتِيْ “ سے اسم مفعول ہے۔ اللہ کا وعدہ جنت ہے اور اس کے بندے یقیناً اس میں آنے والے ہیں، یہ بات اس لیے فرمائی کہ عموماً لوگ ان دیکھی چیزوں کے کیے ہوئے وعدے پورے نہیں کرتے۔ (بقاعی) اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہنے پر مشتمل آیات کے لیے دیکھیے سورة رعد (٣١) ، آل عمران (١٩٤، ١٩٥) ، بنی اسرائیل (١٠٨) ، مزمل (١٧، ١٨) اور فرقان (١٥، ١٦) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

جَنّٰتِ عَدْنِۨ الَّتِيْ وَعَدَ الرَّحْمٰنُ عِبَادَہٗ بِالْغَيْبِ۝ ٠ۭ اِنَّہٗ كَانَ وَعْدُہٗ مَاْتِيًّا۝ ٦١ عدن قال تعالی: جَنَّاتِ عَدْنٍ [ النحل/ 31] ، أي : استقرار وثبات، وعَدَنَ بمکان کذا : استقرّ ، ومنه المَعْدِنُ : لمستقرّ الجواهر، وقال عليه الصلاة والسلام : «المَعْدِنُ جُبَارٌ» «2» . ( ع د ن ) عدن ( ن ض ) کے معنی کسی جگہ قرار پکڑنے اور ٹہر نے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ عدن بمکان کذا یعنی اس نے فلاں جگہ قیام کیا قرآن میں ہے : ۔ جَنَّاتِ عَدْنٍ [ النحل/ 31] یعنی ہمیشہ رہنے کے باغات ۔ اسی سے المعدن ( کان ) ہے کیونکہ کا ن بھی جواہرات کے ٹھہر نے اور پائے جانے کی جگہ ہوتی ہے حدیث میں ہے ۔ المعدن جبار کہ اگر کوئی شخص کان میں گر کر مرجائیں تو کان کن پر اس کی دیت نہیں ہے ۔ عدن قال تعالی: جَنَّاتِ عَدْنٍ [ النحل/ 31] ، أي : استقرار وثبات، وعَدَنَ بمکان کذا : استقرّ ، ومنه المَعْدِنُ : لمستقرّ الجواهر، وقال عليه الصلاة والسلام : «المَعْدِنُ جُبَارٌ» «2» . ( ع د ن ) عدن ( ن ض ) کے معنی کسی جگہ قرار پکڑنے اور ٹہر نے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ عدن بمکان کذا یعنی اس نے فلاں جگہ قیام کیا قرآن میں ہے : ۔ جَنَّاتِ عَدْنٍ [ النحل/ 31] یعنی ہمیشہ رہنے کے باغات ۔ اسی سے المعدن ( کان ) ہے کیونکہ کا ن بھی جواہرات کے ٹھہر نے اور پائے جانے کی جگہ ہوتی ہے حدیث میں ہے ۔ المعدن جبار کہ اگر کوئی شخص کان میں گر کر مرجائیں تو کان کن پر اس کی دیت نہیں ہے ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ غيب الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦١۔ ٦٢) اب اللہ تعالیٰ جس جنت میں یہ لوگ جائیں گے اس کے اوصاف بیان فرما رہا ہے یعنی ان ہمیشہ رہنے والے باغوں میں جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے غائبانہ وعدہ فرمایا ہے اور اس کا وعدہ ضرور پورا ہوگا اور یہ لوگ جنت میں فضول جھوٹی قسمیں نہ سننے پائیں گے سوائے اکرام و اعزاز کے طور پر ایک دوسرے کو سلام کرنے کے اور ان کو جنت میں دنیا کے انداز سے صبح وشام کھانا ملا کرے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦١ (جَنّٰتِ عَدْنِ نِ الَّتِیْ وَعَدَ الرَّحْمٰنُ عِبَادَہٗ بالْغَیْبِ ط) ” اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن میں ایسے وعدے جگہ جگہ کیے گئے ہیں۔ دنیوی زندگی میں نہ تو کسی نے جنت کو دیکھا ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کو۔ یہ سارا معاملہ غیب ہی کا ہے۔ چناچہ جو شخص اللہ کو اور اس کے ایسے تمام وعدوں کو مانتا ہے وہ یُؤْمِنُوْنَ بالْغَیب کے مصداق غیب پر ایمان لاتا ہے۔ (اِنَّہٗ کَانَ وَعْدُہٗ مَاْتِیًّا ) ” وہ اپنے وقت پر پورا ہو کر رہے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

37. That is, the promised gardens which are yet unseen by His servants.

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :37 یعنی جس کا وعدہ رحمان نے کیا وہ جنتیں ان کی نگاہ سے پوشیدہ ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦١۔ ٦٣:۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت سے حدیث قدسی کئی جگہ گزر چکی ہے ١ ؎۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا جنت میں نیک لوگوں کے لیے جو نعمتیں پیدا کی گئی ہیں وہ نہ کسی نے آنکھوں سے دیکھیں نہ کانوں سے سنیں نہ کسی کے دل میں ان کا خیال گزر سکتا ہے ان آیتوں میں جنت کو بن دیکھیں نہ جو فرمایا اس کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا میں بعض بن دیکھی چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگرچہ آدمی ان کو آنکھوں سے نہیں دیکھتا لیکن ان کا حال کانوں سے سنا ہوا ہوتا ہے یا کبھی دل میں ان کا خیال آجاتا ہے جنت ایسی انوکھی چیز ہے جو دیکھی نہ سنی نہ کبھی اس کا خیال کسی کے دل میں گزارا ٢ ؎۔ ابن ماجہ کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی صحیح روایت کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہر ایک شخص کا ایک ٹھکانا جنت میں اور ایک دوزخ میں پیدا کیا ہے جو لوگ ہمیشہ کے لیے دوزخی قرار پائیں گے ان کے جنت میں کے لاوارث خالی مکانوں کا وارث جنتیوں کو بنا دیا جائے گا۔ جنت کو میراث کی چیز جو فرمایا اس کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ نیک لوگوں سے بن دیکھی جنت کے دینے کا وعدہ جو اللہ تعالیٰ نے کیا ہے ایک دن اس وعدہ کا ظہور بلاشک ہونے والا ہے پھر فرمایا یہ جنت وہ ہے جہاں سوائے سلام علیک کی آواز کے اور کوئی ایسی آواز جنتیوں کے کان میں نہ آئے گی جو ان کے کانوں کو بری لگے پھر فرمایا وہاں صبح وشام ان کو طرح طرح کی نعمتیں کھانے کو ملیں گے جنت میں اگرچہ صبح شام نہیں ہے صبح صادق سے لے کر سورج کے نکلنے تک کا جیسا ٹھنڈا وقت ہوتا ہے وہاں ہمیشہ ایسا وقت رہے گا لیکن دنیا میں لوگوں کا صبح وشام کھانا کھانے کا معمول ہے اس واسطے صبح وشام کا ذکر کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ وہاں بھی اندازہ سے یہی معمول قائم رہے گا پھر فرمایا یہ جنت ان لوگوں کی میراث ہے جو دنیا میں نیک کاموں کے کرنے اور برے کاموں سے بچنے کی عادت رکھتے ہیں جنتیوں کی سلام علیک کا ذکر سورة یسین میں اور سورة الواقعہ میں آئے گا مجاہد اور اکثر سلف کا قول یہی ہے کہ جنت میں رات دن نہ ہوگا ہمیشہ صبح کا سا نورانی وقت ہے گا۔ ١ ؎ تفسیر ہذاص ١٢ ج ٣۔ ٢ ؎ سنن ابن ماجہ ص ٣٣٢ باب صنقہ الجنۃ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:61) جنت عدن۔ سدا بہار باغات۔ یا ہمیشہ رہنے کے باغات۔ عدن (باب نصر۔ ضرب) کے معنی کسی جگہ ٹھہرنے اور قرار پانے کے ہیں۔ المعدن (کان ) جواہرات یا دیگر معدنیات کے ٹھہرنے اور پائے جانے کی جگہ۔ جنت عدن۔ میں الجنۃ کا بدل ہے۔ ماتیا۔ اسم مفعول بمعنی اسم فاعل ہے منصوب بوجہ کان کی خبر ہے۔ ماتی اصل میں ماتوی تھا وائو اور یا اکٹھے ہوئے وائو کو یاء سے بدلا۔ یاء کو یاء میں مدغم کیا تاء کو یاء کی مناسبت سے کسرہ دیا۔ ماتی ہوگیا۔ بمعنی آنے والا۔ ہوکر رہنے والا۔ ضرور آکر رہنے والا۔ اتیان مصدر۔ اتی مادہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی ان کا کوئی اجر مارانہ جائے گا جیسا کہ حدیث میں ہے التائب من الذنب کمن لاذنب لہ کہ گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص جیسا ہے جس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ (کذافی ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نیک لوگوں کو جس جنت میں داخل کیا جائے گا۔ اس کے چند اوصاف کا تذکرہ۔ جنت کی جمع جنات ہے۔ جس کا معنٰی باغات ہیں۔ جنت وہ مقام ہے جس کے حسن و جمال اور نعمتوں کا کوئی شخص تصور نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ اس میں اپنے بندوں کو داخل فرمائے گا۔ جس کا وعدہ ہر صورت مومنوں کے ساتھ پورا ہو کر رہے گا۔ اس جنت میں کسی قسم کا لغو، پریشانی اور تکلیف نہیں ہوگی۔ اس میں ہر جنتی ہر اعتبار سے سلامت اور خوش ہوگا۔ جنتی ایک دوسرے کو سلام کہیں گے اور اس کی نعمتیں بھی سلامت رہیں گی۔ ان کے لیے صبح و شام اللہ تعالیٰ کی نعمتیں وافر ہوں گی۔ جن کے بارے میں فرمایا ہے کہ جنتیوں کے لیے اعلان ہوگا جہاں چاہو جتنا چاہو، جس وقت چاہو کھاؤ اور پیو۔ صبح شام سے مراد یہ نہیں کہ انھیں صرف صبح و شام جنت کی نعمتیں دی جائیں گی۔ صبح وشام سے مراد رات اور دن کے پورے اوقات کا احاطہ کرنا ہے۔ جنت کی نعمتوں کا تصور کرنا محال ہے : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْٓا إِنْ شِءْتُمْ (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآاُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ نعمتیں تیار کی ہیں، جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی ان کے متعلق کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال پیدا ہوا۔ اگر چاہو تو اس آیت کی تلاوت کرو۔ (کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے) ۔ “ خاتون جنت کا حسن و جمال : (وَلَوْ اَنَّ اِمْرَاَۃً مِّنْ نِّسَآءِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ اطَّلَعَتْ اِلَی الْاَرْضِ لَاَضَآءَ تْ مَا بَیْنَھُمَا وَلَمَلَاَتْ مَا بَیْنَھُمَا رِیْحًا وَلَنَصِیْفُھَا یَعْنِی الْخِمَارَ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار ] ” اگر اہل جنت کی عورتوں سے کوئی زمین کی طرف جھانک لے تو مشرق و مغرب اور جو کچھ اس میں ہے روشن اور معطر ہوجائے۔ نیز اس کے سر کا دوپٹہ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے قیمتی ہے۔ “ جنتی ایک دوسرے کو سلام کہیں گے : (اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَھْدِیْھِمْ رَبُّھُمْ بِاِیْمَانِھِمْ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھِمُ الْاَنْھٰرُ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ دَعْوٰھُمْ فِیْھَا سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ وَتَحِیَّتُھُمْ فِیْھَا سَلٰمٌ وَاٰخِرُ دَعْوٰھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن) [ یونس : ٩۔ ١٠] ” بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، ان کا رب ان کے ایمان کی وجہ سے ان کی رہنمائی کرے گا، ان کے نیچے سے جنت کے باغوں میں نہریں بہتی ہوں گی۔ ان کی دعا یہ ہوگی ” کہ اے اللہ تو پاک ہے ! “ اور ان کی آپس کی دعا سلام ہوگی اور ان کی دعاؤں کا خاتمہ اس بات پر ہوگا کہ سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ “ (وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ہُرَیْرَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ یَتَحَدَّثُ ، وَعِنْدَہٗ رَجُلٌ مِّنْ اَھْلِ الْبَادِیَۃِ ، اِنَّ رَجُلًا مِّنْ اَھْلِالْجَنَّۃِ اسْتَأذَنَ رَبَّہٗ فِیْ الزَّرْعِ فَقَالَ لَہٗ اَلَسْتَ فِیْمَا شِءْتَ قَالَ بَلٰی وَلٰکِنِّیْ اُحِبُّ اَنْ اَزْرَعَ فَبَذَرَ فَبَادَ رَالطَّرْفَ نَبَاتُہٗ وَاسْتِوَاءُ ہٗ وَاسْتِحْصَادُہٗ فَکَانَ اَمْثَالَ الْجِبَالِ فَیَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی دُوْنَکَ یَابْنَ اٰدَمَ فَاِنَّہٗ لَایُشْبِعُکَ شَیْءٌ فَقَالَ الْاَعْرَابِیُّ وَاللّٰہِ لَاتَجِدُہُ اِلَّا قُرَشِیًا اَوْ اَنْصَارِیًّافَاِنَّھُمْ اَصْحاَبُ زَرْعٍ وَاَمَّا نَحْنُ فَلَسْنَا بِاَصْحَابِ زَرْعٍٍٍ فَضَحِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) [ رواہ البخاری : باب کلاَمِ الرَّبِّ مَعَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک دیہاتی بیٹھا ہوا تھا آپ اس وقت فرما رہے تھے کہ جنتیوں میں سے ایک بندے نے اپنے رب سے کھیتی باڑی کی اجازت مانگی۔ اللہ رب العزت نے فرمایا۔ کیا تیرے پاس تیری پسند کی ہر چیز نہیں ہے ؟ اس دیہاتی نے کہا کیوں نہیں ؟ لیکن مجھے یہ بھی پسند ہے کہ میں کھیتی باڑی کروں چناچہ وہ بیج ڈالے گا۔ پلک جھپکتے ہی فصل اگ آئے گی کھیتی تیارہو جائے گی ‘ اور کٹ جائے گی ‘ پہاڑ کے برابر انبار لگ جائے گا اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اے ابن آدم ! لے تیری خواہش پو ری ہوگئی۔ حقیقتاً تیرا پیٹ کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ دیہاتی کہنے لگا ‘ اللہ کی قسم ! وہ شخص قریشی یا انصاری ہوگا کیونکہ وہی لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم تو کھیتی باڑی کرنے والے نہیں۔ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکرادیے۔ “ جنت عدن کی تعریف : جب کوئی چیز کسی جگہ ہمیشہ کے لیے اقامت گزیں ہوجائے تو عربی میں کہتے ہیں : ” عَدْنَ بِمَکَانِ کَذَا “ اسی لیے کان کو بھی معدن کہتے ہیں کیونکہ یہ جگہ اسی دھات کی قرار گاہ ہوتی ہے۔ جنت کے اعلیٰ درجہ کا نام بھی عدن ہے جو جنت کے وسط میں ہے اسی میں تسنیم کا چشمہ ہے۔ انبیاء کرام، شہداء، صدیقین کے لیے مخصوص ہے۔ ( وَقَالَ مَقَاتَلُ وَالْکَلْبِیْ عَدْنٌ اَعْلَی دَرَجَۃٍ فِیْ الْجَنْۃِ وَفِیْہَا عُیْنٌ تَسْنِیْمٍ وَالْجِنَانَ حَوْلَہَا) [ قرطبی : جلد ٨] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے جنت تیار کر رکھی ہے۔ جس کی نعمتوں کا کوئی تصور نہیں کرسکتا۔ ٢۔ صاحب ایمان اور نیک لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جنت کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔ ٣۔ جنت میں کسی قسم کی لغویات، دکھ اور تکلیف نہیں ہوگی۔ ٤۔ جنتیوں کے لیے ہر وقت نعمتیں حاضر رہیں گی۔ تفسیر باالقرآن جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک : ١۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٢۔ جنت کی مثال جس کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد : ٣٥) ٣۔ جنت میں بےخار بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، لمبا سایہ، چلتا ہوا پانی، اور کثرت سے پھل ہوں گے۔ (الواقعۃ : ٢٨ تا ٣٠) ٤۔ جنت کے پھل ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقۃ : ٢٣) ٥۔ مومنوں کے ساتھ جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس میں چار قسم کی نہریں ہوں گی۔ ( محمد : ١٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل جنت کی نعمتوں کا تذکرہ (جَنَّاتُ عَدْنِنِ الَّتِیْ وَعَدَ الرَّحْمٰنُ عِبَادَہٗ بْالْغَیْبْ ) یعنی ہمیشہ رہنے کے باغوں میں داخل ہوں گے جس کا رحمن نے اپنے بندوں سے وعدہ فرمایا اور یہ وعدہ بالغیب ہے یہ حضرات جنت کے وعدہ پر بغیر دیکھے ایمان لائے دنیا میں جنت کو دیکھا نہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعہ جو خبر دی ہے اور جو وعدہ فرمایا ہے اس کی تصدیق کی ہے اس پر پورا پورا یقین کیا۔ (اِنَّہٗ کَانَ وَعْدُہٗ مَاْتِیًّا) (بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا ہے وہ ضرور پورا ہوگا) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

6 1 وہ جس میں داخل ہوں گے وہ دائمی اور ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں جن کا رحمان نے اپنے بندوں سے بن دیکھے اور غائبانہ وعدہ فرمایا ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کوے وعدہ پر ہے پہنچنا۔ غیب پر ایمان لانے کا صلہ یہ ملا کر اللہ تعالیٰ نے ان دیکھی جنت کا وعدہ فرما لیا اور اللہ تعالیٰ نے جس جس چیز کا وعدہ فرمایا ہے بندے اس کو ضرور پہنچیں گے اور ضرور حاصل کر کے رہیں گے۔ ماتیا کا ترجمہ ہم نے دونوں طرح کردیا ہے۔