Surat Marium

Surah: 19

Verse: 76

سورة مريم

وَ یَزِیۡدُ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اہۡتَدَوۡا ہُدًی ؕ وَ الۡبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیۡرٌ عِنۡدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّ خَیۡرٌ مَّرَدًّا ﴿۷۶﴾

And Allah increases those who were guided, in guidance, and the enduring good deeds are better to your Lord for reward and better for recourse.

اور ہدایت یافتہ لوگوں کو اللہ تعالٰی ہدایت میں بڑھاتا ہے اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک ثواب کے لحاظ سے اور انجام کے لحاظ سے بہت ہی بہتر ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Increasing Guidance of Those Who are guided Allah says: وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدًى ... And Allah increases in guidance those who walk aright. After Allah mentions the extended time and respite that is allowed to those who are in misguidance, increasing them in misguidance, He informs of the increase in guidance of those who are rightly guided. Similarly He says, وَإِذَا مَأ أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُمْ مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَـذِهِ إِيمَـناً And whenever there comes down a Surah, some of them say: "Which of you has had his faith increased by it!" (9:124) And the following Ayah also shows this. Concerning Allah's statement, ... وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ ... And the righteous good deeds that last, Its explanation has already preceded in Surah Al-Kahf, along with a lengthy discussion concerning it and the related Hadiths. ... خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا ... (they) are better with your Lord for reward. meaning the recompense and reward. ... وَخَيْرٌ مَّرَدًّا and better for resort. meaning in the final outcome, the result for its doer.

گمراہوں کی گمراہی میں ترقی ۔ جس طرح گمراہوں کی گمراہی بڑھتی رہتی ہے اسی طرح ہدایت والوں کی ہدایت بڑھتی رہتی ہے جیسے فرمان ہے کہ کوئی سورت اترتی ہے تو بعض لوگ کہنے لگتے ہیں تم میں سے کس کو اس نے ایمان میں زیادہ کر دیا ؟ الخ ، باقیات صالحات کی پوری تفسیر ان ہی لفظوں کی تشریح میں سورہ کہف میں گزر چکی ہے ۔ یہاں فرماتا ہے کہ یہی پائیدار نیکیاں جزا اور ثواب کے لحاظ سے اور انجام اور بدلے کے لحاظ سے نیکوں کے لئے بہتر ہیں ۔ عبدالرزاق میں ہے کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک خشک درخت تلے بیٹھے ہوئے تھے اس کی شاخ پکڑ کر ہلائی تو سوکھے پتے جھڑنے لگے آپ نے فرمایا دیکھو اسی طرح انسان کے گناہ لا الہ الا اللہ واللہ اکبر سبحان اللہ والحمد للہ کہنے سے جھڑتے ہیں ۔ اے ابو درداء ان کا ورد رکھ اس سے پہلے کہ وہ وقت آئے کہ تو انہیں نہ کہہ سکے یہی باقیات صالحات ہیں یہی جنت کے خزانے ہیں اس کو سن کر حضرت ابو دارداء کا یہ حال تھا کہ اس حدیث کو بیان فرما کر فرماتے کہ واللہ میں تو ان کلمات کو پڑھتا ہی رہوں گا کبھی ان سے زبان نہ روکوں گا گو لوگ مجھے مجنون کہنے لگیں ۔ ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث دوسری سند سے ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

76۔ 1 اس میں ایک دوسرے اصول کا ذکر ہے جس طرح قرآن سے، جن کے دلوں میں کفر اور شرک و ضلالت کا روگ ہے۔ ان کی بدبختی و ضلالت میں اور اضافہ ہوجاتا ہے، اسی طرح اہل ایمان کے دل ایمان و ہدایت میں اور پختہ ہوجاتے ہیں۔ 76۔ 2 اس میں فقرا مسلمین کو تسلی ہے کہ کفار و مشرکین جن مال و اسباب پر فخر کرتے ہیں، وہ سب فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے اور تم جو نیک اعمال کرتے ہو، یہ ہمیشہ باقی رہنے والے ہیں۔ جن کا اجر وثواب تمہیں اپنے رب کے ہاں ملے گا۔ اور ان کا بہترین صلہ اور نفع تمہاری طرف لوٹے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٨] ہر واقعہ مومن کی ہدایت میں اضافہ کرتا ہے :۔ کافروں کی تو خوشحالی سے آزمائش ہوتی ہے اور ہر نعمت اور خوشحالی کے موقعہ پر ان کی گمراہی میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس کے برعکس مومنوں کے لئے ہر آزمائش مزیدہدایت کا سبب بن جاتی ہے۔ کوئی بھلائی اور نعمت ملے تو اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں اور دکھ پہنچے تو صبر و استقلال کے دامن کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ غرض ہر حال میں وہ صابر و شاکر رہتے ہیں اور ہر نیا واقعہ وہ جیسا بھی ہو، ان کی مزید ہدایت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ [٦٩] اس کی تشریح کے لئے سورة کہف کی آیت نمبر ٤٦ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيَزِيْدُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اهْتَدَوْا هُدًى : یعنی جس طرح گمراہوں کو ڈھیل دیتا ہے اور وہ بدی کے راستے میں بڑھتے چلے جاتے ہیں اسی طرح ہدایت یافتہ لوگوں کو بھی مزید نیک کام کرنے کی توفیق دیتا جاتا ہے، جس سے وہ اس کی خوشنودی کے راستوں پر بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ پھر ایمان کے بعد اخلاص کی دولت سے نوازنا بھی ” زَادَھُمْ ھُدًی “ (انھیں ہدایت کی مزید توفیق دینا) میں داخل ہے۔ (کبیر) وَالْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ ۔۔ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة کہف کی آیت (٤٦) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ‌ عِندَ رَ‌بِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ‌ مَّرَ‌دًّا &&And the everlasting virtues are better with your Lord in respect of reward and better in their return|". - 19:76 These words have been interpreted differently by different scholars as has been explained at some length in the commentary of Sarah Al-Kahf (سورۃ کھف). The more plausible interpretation, however, is that the words refer to submission to the commands of Allah and to good deeds, the benefits of which are everlasting. مَّرَ‌دًّا by means consequences, and the sense of this verse is that good deeds alone are the real wealth whose reward is great and whose result is eternal peace.

وَالْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَيْرٌ مَّرَدًّا، باقیات صالحات کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں جس کی تفصیل سورة کہف میں گزر چکی ہیں اور مختار قول یہی ہے کہ اس سے مراد وہ تمام طاعات اور نیک کام ہیں جن کے فوائد باقی رہنے والے ہیں۔ مردا کا لفظ بمعنے مرجع ہے مراد انجام و عاقبت ہے۔ مراد آیت کی واضح ہے کہ اعمال صالحہ ہی اصل دولت ہیں جن کا ثواب بڑا اور انجام دائمی راحت ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَزِيْدُ اللہُ الَّذِيْنَ اہْتَدَوْا ہُدًى ۝ ٠ۭ وَالْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَيْرٌ مَّرَدًّا۝ ٧٦ زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ بقي البَقَاء : ثبات الشیء علی حاله الأولی، وهو يضادّ الفناء، وعلی هذا قوله : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود/ 86] ( ب ق ی ) البقاء کے معنی کسی چیز کے اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں یہ فناء کی ضد ہے ۔ یہ باب بقی ( س) یبقی بقاء ہے ۔ یہی معنی آیت کریمہ : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود/ 86] ، میں بقیۃ اللہ کے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف مضاف ہے ۔ صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ ثوب أصل الثَّوْب : رجوع الشیء إلى حالته الأولی التي کان عليها، أو إلى الحالة المقدّرة المقصودة بالفکرة، وهي الحالة المشار إليها بقولهم : أوّل الفکرة آخر العمل «2» . فمن الرجوع إلى الحالة الأولی قولهم : ثَابَ فلان إلى داره، وثَابَتْ إِلَيَّ نفسي، وسمّي مکان المستسقي علی فم البئر مَثَابَة، ومن الرجوع إلى الحالة المقدرة المقصود بالفکرة الثوب، سمّي بذلک لرجوع الغزل إلى الحالة التي قدّرت له، وکذا ثواب العمل، وجمع الثوب أَثْوَاب وثِيَاب، وقوله تعالی: وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر/ 4] ( ث و ب ) ثوب کا اصل معنی کسی چیز کے اپنی اصلی جو حالت مقدمہ اور مقصود ہوتی ہے اس تک پہنچ جانا کے ہیں ۔ چناچہ حکماء کے اس قول اول الفکرۃ اٰخرالعمل میں اسی حالت کی طرف اشارہ ہے یعنی آغاز فکر ہی انجام عمل بنتا ہے ۔ چناچہ اول معنی کے لحاظ سے کہا جاتا ہے ۔ شاب فلان الی درہ ۔ فلاں اپنے گھر کو لوٹ آیا ثابت الی نفسی میری سانس میری طرف ہوئی ۔ اور کنوئیں کے منہ پر جو پانی پلانے کی جگہ بنائی جاتی ہے اسے مثابۃ کہا جاتا ہے اور غور و فکر سے حالت مقدرہ مقصود تک پہنچ جانے کے اعتبار سے کپڑے کو ثوب کہاجاتا ہے کیونکہ سوت کاتنے سے عرض کپڑا بننا ہوتا ہے لہذا کپڑا بن جانے پر گویا سوت اپنی حالت مقصود ہ کی طرف لوٹ آتا ہے یہی معنی ثواب العمل کا ہے ۔ اور ثوب کی جمع اثواب وثیاب آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر/ 4] اپنے کپڑوں کو پاک رکھو ۔ رد الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( رد د ) الرد ( ن ) اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٦) اور اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ دنیا میں شریعت کے ساتھ ہدایت بڑھاتا رہتا ہے یا یہ کہ جو حضرات ناسخ کے ذریعے سے ہدایت پر ہیں تو منسوخ کے ساتھ ان کو ہدایت عطا فرماتا ہے۔ اور پانچوں نمازیں جن پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ثواب عطا فرمائے گا وہ ثواب کے اعتبار سے بھی بہتر ہیں اور آخرت میں انجام کے اعتبار سے بھی افضل ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَالْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّخَیْرٌ مَّرَدًّا ) ” یہ مال و دولت دنیا سب یہیں کی چیزیں ہیں اور یہیں رہ جائیں گی۔ بقا اور دوام اگر کسی چیز کو ہے تو وہ نیک اعمال ہیں۔ انسان کے ساتھ عالم آخرت میں بھی نیک اعمال ہی جائیں گے۔ یہ بدلے کے اعتبار سے بھی بہتر ہیں اور اس اعتبار سے بھی کہ بالآخر ہر کسی نے لوٹ کر اپنے انہی اعمال کے پاس ہی جانا ہے۔ جب کوئی نیک شخص جنت میں پہنچے گا تو اپنے نیک اعمال کو جنت کی نعمتوں کی شکل میں اپنا منتظر پائے گا۔ وہاں اسے بتایا جائے گا کہ یہ نعمتیں دراصل تمہارے وہ نیک اعمال ہیں جو تم نے دنیا میں سر انجام دیے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مہربانی سے انہوں نے جنت کی ان نعمتوں کی شکل اختیار کرلی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

46. That is, On every critical occasion, Allah guides them to make right decisions and helps them to adopt the right way, and protects them from evil and wrong things; thus they go on making more and more progress on the right way.

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :46 یعنی ہر آزمائش کے موقع پر اللہ تعالی ان کو صحیح فیصلے کرنے اور صحیح راستہ اختیار کرنے کی توفیق بخشتا ہے ، ان کو برائیوں اور غلطیوں سے بچاتا ہے اور اس کی ہدایت و رہنمائی سے وہ برابر راہ راست پر بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٦:۔ اوپر ان لوگوں کا ذکر تھا جن کی گمراہی قرآن شریف کی آیتیں سن کر دن بدن اور بڑھتی جاتی تھی اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جنہوں نے قرآن کی نصیحت سے دن بدن زیادہ نیک ہدایت پائی جیسے مثلا ہجرت سے پہلے مکہ میں فقط نماز فرض تھی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو اچھی طرح ادا کرنے کی انہیں توفیق دی تھی ہجرت کے بعد جس زکوٰۃ روزوں اور حج کی آیتیں نازل ہوئیں تو ان لوگوں کے نیک عمل توفیق الٰہی کے سبب سے اور بڑھ گئے پھر فرمایا یہی نیک عمل ایسی چیز ہیں جن کا بدلہ بارگاہ الٰہی سے بڑھ جائیں گے اور عقبیٰ میں ایسے لوگوں کو بہت مذامت ہوگی اور بےوقت کی ندامت ان کے کچھ کام نہ آئے گی۔ معتبر سند سے مسند بزار میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مال اور اولاد دنیا میں چھوڑ جانے کی چیزیں ہیں ہاں جو عمل آدمی نے عمر بھر کیے ہیں وہ مرنے کے بعد اس کے ساتھ جانے کی چیز ہے ١ ؎۔ مسند امام احمد اور ابوداؤد میں براء بن عازب (رض) سے صحیح روایت ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ نیک عمل اچھی صورت اور بد عمل بری صورت بن کر قبر میں ایک مردہ کے پاس آتے ہیں ٢ ؎۔ مسند امام احمد میں محمد بن ابی عمرہ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو لوگ دنیا میں عمر بھر نیک عمل کرتے رہیں گے وہ بھی قیامت کے دن یوں پچھتائیں گے کہ انہوں نے نیک عمل اور زیادہ کیوں نہیں کیے جو آج کے روز زیادہ اجر ملتا اس حدیث سے لوگوں کے پچھتانے کا حال جو عمر بھر برے کاموں میں لگے رہے اور اوپر کی حدیثوں سے مال واولاد کا دنیا میں چھوڑ جانے اور نیک عمل کا مرنے کے بعد کام آنے کا حال اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ ١ ؎ الترغیب دالترہیب ص ٢٣٧ ج ٢ باب الزہدالخ۔ ٢ ؎ مشکوٰۃ ص ١٤٢ باب مایقال عند من حضرہ الموت فصل ثالث۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:76) اھتدوا۔ اھتداء (افتعال) سے ماضی جمع مذکر غائب انہوں نے سیدھی راہ پائی۔ انہوں نے ہدایت پائی۔ اھتداء کا استعمال کبھی ہدایت طلب کرنے یا اس کے لئے کوشش کرنے یا کسی ہدایت یافتہ کی پیروی کے متعلق بھی ہوتا ہے۔ ھدی۔ اسم ومصدر (باب ضرب) ہدایت۔ ویزید اللہ الذین اھتدوا ھدی۔ اور اللہ ہدایت والوں کی ہدایت کو بڑھاتا ہے (جیسا کہ اس کے بالمخالف من کان فی الضللۃ فلیمدد لہ الرحمن مدا آیا ہے) ۔ البقیت الصلحت۔ موصوف، صفت، باقی رہنے والی نیکیاں۔ اس سے مراد ایمان کے علاوہ کل اعمال صالحہ ہیں جن کا ثواب دائمی اور اجر غیر منقطع ہے اس سے کوئی خاص و متعین عبادت نہیں ہے۔ مردا۔ ای مرجعا وعاقبۃ۔ مرجع۔ انجام۔ لوٹنے کی جگہ۔ خیر ثوابا وخیر مردا۔ ثواب کے لحاظ سے بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہتر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ایمان اور جمیع اعمال صالحہ ان میں داخل ہیں کیونکہ ان کا نفع دائمی ہے باقیات صالحات سے مراد ہیں وہ اعمال جن کا ثواب مرنے کے بعد قائم رہتا ہے حدیث میں ہے کہ ” لا الہ الا اللہ واللہ اکبر سبحان اللہ بھی الہاقیات الصالحات میں سے ہیں۔ (دیکھیے سورة کہف آیت 3)6 لہٰذا فکر بھی انہی کی ہونی چاہیے نہ کہ دنیا کے چند روز عیش و آرام کی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ پس ان کو ثواب میں بڑی بڑی نعمتیں ملیں گی جن میں مکانات اور باغات سب کچھ ہوں گے، اور انجام ان اعمال کا ابدیت ہے ان نعمتوں کی، پس کیفیة و کمیة مسلمانوں ہی کی حالت اخیرہ بہتر ہوگی، اور اخیر ہی کا اعتبار ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منکرین حق کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو ہدایت میں زیادہ کرتا ہے۔ منکرین حق کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ہدایت میں زیادہ کرتا ہے اچھے اعمال کرنے کی مزید توفیق عطا فرماتا ہے اچھے اعمال ہی ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ ایسے لوگ ہی آپ کے رب کے نزدیک اجر وثواب اور نتیجہ کے اعتبار سے بہتر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ منکرین حق کے مقابلہ میں نہ صرف ہدایت میں اپنے بندوں کو مضبوط اور زیادہ کرتا ہے۔ بلکہ انھیں صالح اعمال کی توفیق بخشتا ہے جو ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ (مَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْآخِرَۃِ نَزِدْ لَہٗ فِیْ حَرْثِہِ وَمَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤتِہِ مِنْہَا وَمَا لَہٗ فِی الْآخِرَۃِ مِنْ نَّصِیبٍ ) [ الشوریٰ : ٢٠] ” جو شخص آخرت کا خواہاں ہے ہم اس کی آخرت کی کھیتی میں اضافہ کردیں گے اور جو دنیا کا طلب گار ہے ہم اسے دنیا عطا کریں گے اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ “ (عَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃَ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہٗٓ اِلَّا مِنْ ثَلَاثَۃٍ الاَّمِنْ صَدَقَۃٍ جَارِےَۃٍ اَوْ عِلْمٍ یُّنْتَفَعُ بِہٖ اَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَّدْعُوْ لَہٗ ) [ رواہ مسلم : باب مَا یَلْحَقُ الإِنْسَانَ مِنَ الثَّوَابِ بَعْدَ وَفَاتِہٖ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ذکر کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدمی کے فوت ہونے سے اس کے عمل کا تسلسل ختم ہوجاتا ہے۔ مگر تین اعمال کے علاوہ (١) صدقہ جاریہ۔ (٢) ایساعلم جس سے لوگ مستفید ہوتے رہیں۔ (٣) نیک اولاد جو اس کے لیے دعائیں کرتی رہے۔ “ مسائل ١۔ ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کو نیکی کا بہترین صلہ عطا فرمائیگا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

والبقیت۔۔۔۔۔۔ وخیر مردا (٩١ : ٦٧) ” اور باقی رہ جانے والی نیکایں ہی تیرے رب کے نزدیک جزا اور انجام کے اعتبار سے بہتر ہیں “۔ ان تمام چیزوں سے بہتر ہیں جن پر اہل دنیا فخر کرتے ہیں اور گمراہ ہوتے ہیں۔ اب کافروں کے فخر و مباہات کا ایک دوسرا نمونہ ملاحظہ ہو ۔ ان کی ایک دوسری بات جس پر تعجب کر کے سخت نکیر کی جاتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

53:۔ اور ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ اپنی توفیق سے ایمان پر ثبات و استقلال عطا فرماتا ہے، و یثبت اللہ المومنین علی الھدی ویزیدھم فی النصرۃ الخ (قرطبی ج 11 ص 144) ۔ ” وَالْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ “ مشرکین اور کفار دنیوی مال و زر پر مغرور اور ظاہری جاہ و جلال پر نازاں ہیں حالانکہ یہ تمام چیزیں فانی اور زوال پذیر ہیں۔ البتہ ایمان اور اعمال صالحہ باقی رہنے والی چیزیں ہیں۔ آخرت میں جن کا اچھا بدلہ ملے گا۔ اور نیک انجام ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

76 اور جو لوگ ہدایت یافتہ اللہ تعالیٰ ان کو ازروئے ہدایت اور ترقی دیتا ہے اور جو نیک اعمال ہمیشہ کو باقی رہنے والے ہیں وہ آپ کے رب کے نزدیک با عتبار ثواب کے بھی بہتر ہیں اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہیں۔ ہدایت یافتہ یعنی مسلمان تو ان کی ہدایت میں ترقی ہوتی رہتی ہے دنیا کی دولت نہ ہو تو نہ ہو جو اصل دولت ہے وہ ان کے پاس ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ ترقی اور بڑھوتری کرتا رہتا ہے ہدایت کی ترقی یہی کہ دین کی راہیں کھیلتی رہتی ہیں۔ عبادت میں لطف آتا ہے اور مزید ریاضت کو جی چاہتا ہے۔ یہی ان کے پاس سرمایہ ہے اور آخرت میں ان کے نیک اعمال جو باقیات الصالحات ہیں ان کا ثواب ملنے والا ہے اور ان اعمال کا اچھا انجام ہونے والا ہے اور جو گھاٹیاں اور خطرات پیش آنے والے ہیں ان سب میں اعمال نیک سود مند ہوں گے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی دنیا کی رونق رب کے ہاں کام کی نہیں نیکیاں سب رہیں گی۔ دنیا نہ رہے گی۔ 12