Surat Marium

Surah: 19

Verse: 8

سورة مريم

قَالَ رَبِّ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ غُلٰمٌ وَّ کَانَتِ امۡرَاَتِیۡ عَاقِرًا وَّ قَدۡ بَلَغۡتُ مِنَ الۡکِبَرِ عِتِیًّا ﴿۸﴾

He said, "My Lord, how will I have a boy when my wife has been barren and I have reached extreme old age?"

زکریا ( علیہ السلام ) کہنے لگے میرے رب! میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا ، جب کہ میری بیوی بانجھ اور میں خود بڑھاپے کے انتہائی ضعف کو پہنچ چکا ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

His amazement after the acceptance of His Supplication Allah tells: قَالَ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا He (Zakariyya) said: "My Lord! How can I have a son, when my wife is barren, and I have reached the extreme old age." Zakariyya was amazed when his supplication was answered and he was given the good news of a son. He became extremely overjoyed and asked how this child would be born to him, and in what manner he would come. This was particularly amazing because his wife was an old woman who was barren and had not given birth to any children in her entire life. Even Zakariyya himself had become old and advanced in years, his bones had become feeble and thin, and he had no potent semen or vigor for sexual intercourse. The Answer of the Angel

بشارت قبولیت سن کر ۔ حضرت زکریا علیہ السلام اپنی دعا کی قبولیت اور اپنے ہاں لڑکا ہونے کی بشارت سن کر خوشی اور تعجب سے کیفیت دریافت کرنے لگے کہ بظاہر اسباب تو یہ امر مستعد اور ناممکن معلوم ہوتا ہے ۔ دونوں جانب سے حالت ناامیدی کی ہے ۔ بیوی بانجھ جس سے اب تک اولاد نہیں ہوئی میں بوڑھا اور بیحد بوڑھا جس کی ہڈیوں میں اب تو گودا بھی نہیں رہا خشک ٹہنی جیسا ہوگیا ہوں گھر والی بھی بڑھیا پھوس ہو گئی ہے پھر ہمارے ہاں اولاد کیسے ہوگی؟ غرض رب العالمین سے کیفیت بوجہ تعجب وخوشی دریافت کی ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں تمام سنتوں کو جانتا ہوں لیکن مجھے یہ معلوم نہیں ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ظہر عصر میں پڑھتے تھے یا نہیں؟ اور نہ یہ معلوم ہے کہ اس لفظ کو عتیا پڑھتے تھے یا عسیا ( احمد ) فرشتے نے جواب دیا کہ یہ تو وعدہ ہو چکا اسی حالت میں اسی بیوی سے تمہارے ہاں لڑکا ہوگا اللہ کے ذمے یہ کام مشکل نہیں ۔ اس سے زیادہ تعجب والا اور اس سے بڑی قدرت والا کام تو تم خود دیکھ چکے ہو اور وہ خود تمہارا وجود ہے جو کچھ نہ تھا اور اللہ تعالیٰ نے بنا دیا ۔ پس جو تمہاری پیدائش پر قادر تھا وہ تمہارے ہاں اولاد دینے پر بھی قادر ہے ۔ جسے فرمان ہے ( هَلْ اَتٰى عَلَي الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْـــًٔا مَّذْكُوْرًا Ǻ۝ ) 76- الإنسان:1 ) یعنی یقینا انسان پر اس کے زمانے کا ایسا وقت بھی گزرا ہے جس میں وہ کوئی قابل ذکر چیز ہی نہ تھا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 عَاقِر اس عورت کو بھی کہتے ہیں جو بڑھاپے کی وجہ سے اولاد جننے کی صلاحیت سے محروم ہوچکی ہو اور اس کو بھی کہتے ہیں جو شروع سے ہی بانجھ ہو۔ یہاں یہ دوسرے معنی میں ہی ہے۔ جو لکڑی سوکھ جائے، اسے عِتِیًّا کہتے ہیں۔ مراد بڑھاپے کا آخری درجہ ہے۔ جس میں ہڈیاں اکڑ جاتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ میری بیوی تو جوانی سے ہی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کے آخری درجے پر پہنچ چکا ہوں، اب اولاد کیسے ممکن ہے ؟ کہا جاتا ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کی اہلیہ کا نام اشاع بنت فاقود بن میل ہے یہ حضرت حنہ (والدہ مریم) کی بہن ہیں۔ لیکن زیادہ قول صحیح یہ لگتا ہے کہ اشاع بھی حضرت عمران کی دختر ہیں جو حضرت مریم کے والد تھے۔ یوں حضرت یٰحیٰی (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔ حدیث صحیح سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠] سیدنا زکریا کے تعجب کی وجہ :۔ یعنی جب دعا کی تھی اس وقت تو تعجب نہ ہوا اور جب قبول ہوگئی اور بشارت ملی تو تعجب کرنے لگے۔ اور یہ تعجب اس لئے نہ تھا کہ آپ کو اللہ کی قدرت میں شک تھا ورنہ ایسی دعا ہی نہ کرتے بلکہ یہ تعجب اس فطری داعیہ کی بنا پر تھا کہ انسان کی عادت ہے کہ جب وہ کوئی غیر معمولی خوشخبری سنے تو مزید اطمینان اور مزید خوشی کے حصول کے لئے اس بات کو کرید کرید کر بار بار پوچھتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ رَبِّ اَنّٰى يَكُوْنُ لِيْ غُلٰمٌ ۔۔ :” عِتِيًّا “ ” عَتَا یَعْتُوْ عِتِیًّا “ بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ جانا۔ خشک لکڑی کو ” عَاتٍ “ اور ” عَاسٍ “ کہتے ہیں، جو بھی بڑھاپے یا فساد یا کفر کی انتہا کو پہنچ جائے اسے ” عَاتٍ “ (عَتَا یَعْتُوْسے اسم فاعل) کہا جاتا ہے۔ (طبری) یہاں خیال پیدا ہوتا ہے کہ خود ہی دعا کی، پھر یہ پوچھنے کا کیا مطلب کہ میرے لیے لڑکا کیسے ہوگا ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے یہ سوال عام دستور کے خلاف بیٹے کی خوش خبری سن کر مزید اطمینان حاصل کرنے کے لیے غیر اختیاری طور پر کیا۔ اس کے علاوہ یہ سوال بےپناہ خوشی اور تعجب کے اظہار کی ایک شکل بھی ہوسکتا ہے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” انوکھی چیز مانگنے پر تعجب نہ ہوا، جب سنا کہ ملے گی تب تعجب کیا۔ “ (موضح) بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ پوچھنا دراصل معلوم کرنے کے لیے تھا کہ بیٹا اسی بانجھ بیوی سے ہوگا یا کسی اور بیوی سے اور میرے بڑھاپے کا کیا بنے گا ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The word عِتِيًّا is derived from which actually means &unresponsive& or &insensitive&, and in the present context it means dryness of the bones.

عِتِيًّا : عتو سے مشتق ہے جس کے اصلی معنے تأثر قبول نہ کرنا ہے مراد اس سے ہڈیوں کا خشک ہوجانا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ رَبِّ اَنّٰى يَكُوْنُ لِيْ غُلٰمٌ وَّكَانَتِ امْرَاَتِيْ عَاقِرًا وَّقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا۝ ٨ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ غلم الْغُلَامُ الطّارّ «3» الشّارب . يقال : غُلَامٌ بيّن الغُلُومَةِ والغُلُومِيَّةِ. قال تعالی: أَنَّى يَكُونُ لِي غُلامٌ [ آل عمران/ 40] ، وَأَمَّا الْغُلامُ فَكانَ أَبَواهُ مُؤْمِنَيْنِ [ الكهف/ 80] ، وقال : وَأَمَّا الْجِدارُ فَكانَ لِغُلامَيْنِ [يوسف/ 19] ، وقال في قصة يوسف : هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، والجمع : غِلْمَةٌ وغِلْمَانٌ ، واغْتَلَمَ الْغُلَامُ :إذا بلغ حدّ الغلومة، ولمّا کان من بلغ هذا الحدّ كثيرا ما يغلب عليه الشّبق قيل للشّبق : غِلْمَةٌ ، واغْتَلَمَ الفحلُ. ( غ ل م ) الغلام اس لڑکے کو کہتے ہیں جس کی مسیں بھیگ چکی ہوں محاورہ ہے غلام بین الغلومۃ والغیو میۃ لڑکا جو بھر پور جوانی کی عمر میں ہو۔ کی عمر میں ہو قرآن پاک میں ہے : أَنَّى يَكُونُ لِي غُلامٌ [ آل عمران/ 40] میرے ہاں لڑکا کیونکہ ہوگا ۔ وَأَمَّا الْغُلامُ فَكانَ أَبَواهُ مُؤْمِنَيْنِ [ الكهف/ 80] اور وہ لڑکا تھا اس کے ماں باپ دونوں مومن تھے ۔ وَأَمَّا الْجِدارُ فَكانَ لِغُلامَيْنِ [يوسف/ 19] اور جو دیورار تھی سو وہ دو لڑکوں کی تھی ۔ اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قصہ میں فرمایا : هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] یہ تو نہایت حسین ) لڑکا ہے ۔ غلام کی جمع غلمۃ وغلمان آتی ہے ۔ اور اغتلم الغلام کے معنی ہیں لڑکا بالغ ہوگیا ۔ عام طور پر چونکہ اس عمر میں جنسی خواہش کا غلبہ ہوجاتا ہے اس لئے غلمۃ کا لفظ جنسی خواہش کی شدت پر بولا جاتا ہے ۔ اور اغتلم الفحل کے معنی ہیں سانڈ جنسی خواہش سے مغلوب ہوگیا ۔ عقر عقر عُقْرُ الحوض والدّار وغیرهما : أصلها ويقال : له : عَقْرٌ ، وقیل : ( ما غزي قوم في عقر دارهم قطّ إلّا ذلّوا) «4» ، وقیل للقصر : عُقْرَة . وعَقَرْتُهُ أصبت : عُقْرَهُ ، أي : أصله، نحو، رأسته، ومنه : عَقَرْتُ النّخل : قطعته من أصله، وعَقَرْتُ البعیر : نحرته، وعقرت ظهر البعیر فانعقر، قال : فَعَقَرُوها فَقالَ تَمَتَّعُوا فِي دارِكُمْ [هود/ 65] ، وقال تعالی: فَتَعاطی فَعَقَرَ [ القمر/ 29] ، ومنه استعیر : سرج مُعْقَر، وکلب عَقُور، ورجل عاقِرٌ ، وامرأة عاقر : لا تلد، كأنّها تعقر ماء الفحل . قال : وَكانَتِ امْرَأَتِي عاقِراً [ مریم/ 5] ، وَامْرَأَتِي عاقِرٌ [ آل عمران/ 40] ، وقد عَقِرَتْ ، والعُقْرُ : آخر الولد . وبیضة العقر کذلک، والعُقَار : الخمر لکونه کالعاقر للعقل، والمُعَاقَرَةُ : إدمان شربه، وقولهم للقطعة من الغنم : عُقْرٌ فتشبيه بالقصر، فقولهم : رفع فلان عقیرته، أي : صوته فذلک لما روي أنّ رجلا عُقِرَ رِجْلُهُ فرفع صوته «5» ، فصار ذلک مستعارا للصّوت، والعقاقیر : أخلاط الأدوية، الواحد : عَقَّار . ( ع ق ر ) العقر کے معنی حوض یا مکان کے اصل اور وسط کے ہیں اور اسے عقر بھی کہتے ہیں حدیث میں ہے (42) ماغزی قوم فی عقر دارھم قط الا ذلو ا کہ کسی قوم پر ان کے گھروں کے وسط میں حملہ نہیں کیا جاتا مگر وہ ذلیل ہوجاتی ہیں اور تصر یعنی محل کو عقرۃ کہاجاتا ہے ۔ عقرتہ اس کی عقر یعنی جڑپر مارا ۔ جیسا کہ راستہ کے معنی ہیں میں نے اس کے سر پر مارا اسی سے عقرت النخل ہے جس کے معنی ہیں میں نے کھجور کے درخت کو جڑ سے کاٹ دیا ۔ عقرت البعیر اونٹ کی کو نچیں کاٹ دیں اسے ہلاک کردیا عقرت ظھر البعیر اونٹ کی پشت کو رخمی کردیا انعقر ظھرہ اس کی پیٹھ زخمی ہوگئی قرآن میں ہے : فَعَقَرُوها فَقالَ تَمَتَّعُوا فِي دارِكُمْ [هود/ 65] مگر انہوں نے اس کی کو نچیں کاٹ ڈالیں تو صالح نے کہا کہ اپنے گھروں میں فائدہ اٹھالو ۔ ۔ فَتَعاطی فَعَقَرَ [ القمر/ 29] تو اس نے جسارت کرکے اونٹنی کو پکڑا اور اس کی کو نچیں کاٹ ڈالیں اور اسی سے بطور استعارہ کہاجاتا ہے ۔ سرج شعقر زخمی کردینے والی زین ۔ کلب عقور کاٹ کھانے والا کتا ، درندہ جانور رجل عاقر بانجھ مرد ۔ امرءۃ عاقر بانچھ عورت گو یا وہ مرد کے نطفہ کو قطع کردیتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانَتِ امْرَأَتِي عاقِراً [ مریم/ 5] اور میری بیوی بانجھ ہے ۔ اور میری بیوی بانجھ ہے ۔ قد عقرت وہ بانجھ ہوگئی ۔ العقر آخری بچہ بیضۃ العقر آخری انڈا عقار ( پرانی ) شراب کیونکہ وہ عقل کو قطع کردیتی ہے ۔ المعاقرۃ کے معنی ہیں شراب نوشی کا عادی ہونا اور قصر کے ساتھ تشبیہ دے کر بکریوں کی ٹکڑی کو بھی عقر کہاجاتا ہے ۔ رفع فلان عقیرتہ فلاں نے آواز بلند کی مروی ہے کہ ایک آدمی کی ٹانگ کٹ گئی وہ چلایا تو اس وقت سے بطور استعارہ عقر کا لفظ بلند آواز کے معنی میں ہونے لگا ہے ۔ عقاقیر جڑی بوٹیاں ۔ اس کا واحد عقار ہے ۔ بلغ البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] ( ب ل غ ) البلوغ والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ كبر ( بوڑها) فلان كَبِيرٌ ، أي : مسنّ. نحو قوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما[ الإسراء/ 23] ، وقال : وَأَصابَهُ الْكِبَرُ [ البقرة/ 266] ، وَقَدْ بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ [ آل عمران/ 40] ( ک ب ر ) کبیر اور قرآن میں ہے : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما[ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک تمہارے سامنے پڑھاپے کو پہنچ جائیں ۔ وَأَصابَهُ الْكِبَرُ [ البقرة/ 266] اور اسے بڑھا آپکڑے ۔ وَقَدْ بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ [ آل عمران/ 40] کہ میں تو بڈھا ہوگیا ہوں ۔ اور عتو العُتُوُّ : النبوّ عن الطاعة، يقال : عَتَا يَعْتُو عُتُوّاً وعِتِيّاً. قال تعالی: وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيراً [ الفرقان/ 21] ، فَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ [ الذاریات/ 44] ، عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّها [ الطلاق/ 8] ، بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک/ 21] ، مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا[ مریم/ 8] ، أي : حالة لا سبیل إلى إصلاحها ومداواتها . وقیل :إلى رياضة، وهي الحالة المشار إليها بقول الشاعر : 310 ۔ ومن العناء رياضة الهرم«2» وقوله تعالی: أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمنِ عِتِيًّا [ مریم/ 69] ، قيل : العِتِيُّ هاهنا مصدرٌ ، وقیل هو جمعُ عَاتٍ «3» ، وقیل : العَاتِي : الجاسي . ( ع ت و ) عتا ۔ یعتوا ۔ عتوا ۔ عتیا ۔ حکم عدولی کرنا قرآن میں ہے : فَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ [ الذاریات/ 44] تو انہوں نے اپنے پروردگار کے حکم سے سر کشی کی ۔ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيراً [ الفرقان/ 21] اور اسی بنا پر بڑے سر کش ہورہے ہیں ، عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّها[ الطلاق/ 8] اپنے پروردگار کے امر سے سر کشی کی ۔ بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک/ 21] لیکن یہ سر کشی اور نفرت میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا[ مریم/ 8] کے معنی یہ ہیں کہ میں بڑھاپے کی ایسی حالت تک پہنچ گیا ہوں جہاں اصلاح اور مداوا کی کوئی سبیل نہیں رہتی یا عمر کے اس وجہ میں ریا ضۃ بھی بیکار ہوتی ہے اور لفظ ریا ضت سے وہی معنی مراد ہیں جن کی طرف شاعر نے اشارہ کیا ہے ( الکامل ) ( 302 ) امن العناء ریاضۃ الھرم اور انتہائی بڑھاپے میں ریاضت دینا سراسر تکلیف وہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمنِ عِتِيًّا[ مریم/ 69] جو خدا سے سخت سر کشی کرتے تھے میں بعض نے کہا ہے کہ عتیا مصدر بعض نے کہا ہے کہ عات کی جمع ہے اور العانی کے معنی سنگ دل اور اجڈ بھی آتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨) زکریا (علیہ السلام) نے جبریل امین (علیہ السلام) کے ذریعے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار مجھے اولاد کس طرح ہوگی جب کہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کے انتہائی درجہ کو پہنچ گیا ہوں یہ کہ میری عمر بہتر (٧٢) سال کی ہوچکی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (قَالَ رَبِّ اَ نّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ) یہ وہی بات ہے جو حضرت زکریا (علیہ السلام) کے حوالے سے ہم سورة آل عمران (آیت ٤٠) میں بھی پڑھ چکے ہیں۔ (وَّکَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا وَّقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْکِبَرِ عِتِیًّا) یعنی بڑھاپے کی وجہ سے میرے جسم میں حیات کے سارے سوتے خشک ہوچکے ہیں ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: یہ تعجب کا اظہار در حقیقت فرط مسرت میں اللہ تعالیٰ کے اس انعام پر شکر ادا کرنے کا ایک اسلوب تھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:8) انی یکون۔ کیف اومن این یکون۔ کیسے اور کہاں سے۔ کیونکر (میرے ہاں بیٹا ہوسکتا ہے) ۔ عتیا۔ عتا یعتوکا مصدر ہے۔ جوہری کا بیان ہے کہ یہ اصل میں عتوہی تھا۔ اس کے ایک ضمہ کو کسرہ سے بدلا۔ تو وائو بھی یاء سے بدل گیا۔ اور عتیاہو گیا۔ پھر ایک کسرہ کے ساتھ دوسرا کسرہ بھی لگا دیا گیا۔ تاکہ اس تبدیلی کی مزید تاکید ہوجائے اس طرح عتیاہو گیا۔ عتوکا معنی ہے سرکشی نافرمانی۔ اطاعت سے اکڑجانا۔ تکبر کرنا۔ حد سے بڑھ جانا۔ حکم عدولی کرنا۔ قرآن مجید میں ہے فعتوا عن امر ربہم۔ (5:44) تو انہوں نے اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی کی۔ دوسری جگہ ہے بل لجوا فی عتو ونفور (67:21) لیکن یہ سرکشی اور نفرت میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہاں عتیا سے کمال پیری مراد ہے۔ جب آدمی کے اعضاء قابو میں نہیں رہتے اور وہ اپنی مرضی سے ان سے کام نہیں لے سکتا۔ وقد بلغت من الکبر عتیا۔ اور میں بڑھاپے کی اس منزل تک پہنچ گیا ہوں جہاں آدمی کے اعضاء بھی اس کو جواب دے جاتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 حضرت زکریا نے یہ سوال بیٹے کی غیر معمولی خوشخبری سن کر مزید دلی اطمینان حاصل کرنے کے لئے غیر اختیاری طور پر کیا ہے۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں انوکھی چیز مانگنے پر تعجب نہ آیا جب سنا کہ ملے گی تب تعجب کیا۔ یعلی تیرے بڑھاپے اور تیری بیوی کے بانجھ پن کے باوجود تیرے ہاں لڑکا پیدا ہوگا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قال رب انی یکون لی غلم و کانت امراتی عاقراً وقدبلغت من الکبر عتیاً (٩١ : ٨) ” عرض کیا ، پروردگار ! بھلا میرے ہاں کیسے بیٹا ہوگا ، جبکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بوڑھا ہو کر سوکھ چکا ہوں۔ “ چونکہ ان کو ایک عملی صورتحال سے دوچار ہنا پڑا۔ پھر اللہ کا وعدہ بھی ہے اور ٹال ہے۔ ان کو پورا پورا یقین ہے کہ یہ عمل ہونے والا ہے لیکن وہ اس کی کیفیت معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں یہ وعدہ کس طرح حقیقت کا روپ اختیار کرے گا تاکہ ان کا دل مطمئن ہو۔ یہ ایک قدرتی اور طبیعی نفسیاتی حالت ہوتی ہے۔ حضرت زکریا نبی صالح ہیں مگر ایک بشر ہیں اور ایک واقعیت پسند انسان۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ واقعی حقیقی صورت حالات کو اللہ کس طرح بدل دے گا ؟ اللہ کی ہاں سے اس کا بھی جواب آجاتا ہے۔ اے بندے یہ کام کوئی مشکل نہیں ہے۔ ذرا اپنے نفس کو تو دیکھو کہ تم کیسے وجود میں آگئے جبکہ تم سرے سے تھے ہی نہیں۔ ہر ذات ذات کی یہی مثال ہے۔ اس کائنات کی ہر زندہ چیز نہ تھی اور ہوگئی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بیٹے کی بشارت ملنے پر تعجب کرنا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا (علیہ السلام) کو بیٹے کی بشارت دے دی اور بیٹے کا نام بھی بتادیا تو عرض کیا اے میرے رب میرے یہاں لڑکا کیسے ہوگا میری بیوی تو بانجھ ہے اور میرا بڑھاپا انتہا درجہ کو پہنچ چکا ہے، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے یہ جانتے ہوئے کہ میں بہت بوڑھا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے اللہ تعالیٰ سے بیٹے کی دعا مانگی تھی پھر جب دعا قبول ہوگئی تو اب تعجب کیوں کر رہے ہیں ؟ اس سوال کے جواب میں حضرات مفسرین نے کئی باتیں لکھی ہیں اول یہ ان کا سوال حصول ولد کی کیفیت سے تھا کہ مجھے اسی عورت سے اولاد عطا ہوگی یا دوسری کوئی جوان عورت سے نکاح کرنا ہوگا، دوم یہ کہ یہ تعجب بشریت کے فطری تقاضے کے اعتبار سے ان کی زبان سے ظاہر ہوگیا قدرت الٰہی کو کامل جانتے ہوئے بھی اس قسم کے مواقع پر انسان کی زبان سے ایسے کلمات نکل جاتے ہیں سوم بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ غایت اشتیاق کی وجہ سے انھوں نے سوال کرلیا تاکہ خدائے پاک کی طرف سے دوبارہ بشارت کا اعادہ ہو اور قلبی لذت میں اضافہ ہوجائے۔ جب حضرت زکریا (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے میرے رب میرے یہاں بیٹا کیسے ہوگا حالانکہ صورت حال اس طرح سے ہے تو اللہ جل شانہ نے فرمایا کَذٰلِکَ یہ بات اسی طرح ہے یعنی واقعی تمہارے یہاں بیٹا ہوگا اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے یہ میرے لیے آسمان ہے کہ بوڑھے مرد اور بانجھ عورت سے اولاد پیدا کر دوں تم یہ بھی تو خیال کرلو کہ میں نے تمہیں پیدا کیا جبکہ تم کچھ بھی نہیں تھے، جس طرح تمہیں عدم سے وجود بخش دیا تو اب تم سے اولاد پیدا کردینا یہ کون سی تعجب کی بات ہے حضرت زکریا (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ میرے لیے کوئی ایسی نشانی مقرر فرما دیجیے جس سے مجھے پتہ چل جائے کہ میری بیوی کو استقرار حمل ہوچکا ہے، اللہ تعالیٰ شانہ نے ان کے لیے یہ نشانی مقرر فرما دی کہ تم اچھے خاصے ٹھیک تندرست ہوتے ہوئے (نہ مریض ہو گے نہ گونگے ہو گے) تین دن تین رات تک کسی سے بات نہیں کرسکو گے تین رات کا ذکر تو یہاں سورة مریم میں ہے اور تین دن کا ذکر سورة آل عمران میں گزر چکا ہے وہاں (اَلَّا تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَۃَ اَیَّامٍ اِلَّا رَمْزًا) فرمایا ہے یعنی زبان سے تو نہیں اشارہ سے بات کرسکو گے ہاتھ یا سر کا اشارہ کرنے پر تو قدرت ہوگی لیکن زبان سے بات نہ کرسکو گے سورة آل عمران میں یہ بھی ہے کہ (وَاذْکُرْ رَبَّکَ کَثِیْرًا وَّسَبِّحْ بالْعَشِیِّ وَالْاِبْکَارِ ) جس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں سے بات نہ کرسکو گے البتہ اللہ کے ذکر پر قدرت ہوگی اللہ کو کثرت کے ساتھ یاد کرنا اور صبح شام اللہ کے ذکر میں مشغول رہنا، بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ صبح شام سے اوقات نماز کی پابندی مراد ہے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ صبح شام کنایہ ہے جمیع اوقات سے یعنی ہر وقت اللہ کی تسبیح میں مشغول رہو۔ سورة انبیاء میں فرمایا ہے (فَاسْتَجَبْنَالَہٗ وَوَھَبْنَا لَہٗ یَحْیٰی وَاَصْلَحْنَا لَہٗ زَوْجَہٗ ) کہ ہم نے زکریا کی دعا قبول کی اور ان کو یحییٰ (بیٹا) عطا فرما دیا اور اس کی بیوی کو درست کردیا یعنی ولادت کے قابل بنا دیا اللہ تعالیٰ خالق الاسباب اور خالق المسببات ہے وہ اسباب بھی پیدا فرماتا ہے اور اسباب کے بغیر بھی اسے ہر چیز کی تخلیق پر قدرت ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:۔ زکریا (علیہ السلام) کو جب بیٹے کی خوشخبری ملی۔ تو سخت متعجب ہوئے اور کہنے لگے۔ میرے لڑکا کس طرح پیدا ہوگا۔ حالانکہ میری بیوی بانجھ اور ناقابل اولاد ہے۔ اور میں خود بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ چکا ہوں ” قال کذلک “ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ اسی طرح ہی ہوگا۔ تم دونوں میاں بیوی کے انہی حالات میں تمہارے یہاں بیٹا پیدا ہوگا۔ میرے لیے یہ بات بہت آسان ہے زکریا ! تعجب کیوں کرتے ہو۔ ایک وقت تھا کہ تم معدوم تھے۔ تو میں نے تجھے موجود کردیا اب بھی ایسا ہی ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

8 حضرت زکریا نے عرض کیا اے میرے پروردگار ! مجھے لڑکا کیونکر اور کہاں سے عطا ہوگا حالانکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کے انتہائی درجہ کو پہونچ چکا ہوں اور بڑھاپے کی وجہ سے خشک ہوگیا ہوں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں انوکھی چیز مانگتے تعجب نہیں آیا جب سنا کہ ہوگا تب تعجب کیا ۔ 12 بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کے اس سوال کا مطلب یہ ہے کہ اسی حالت میں ہوگا۔ یا ہم میاں بیوی جوان کردیئے جائیں گے یا مجھے کسی دوسرے نکاح کا حکم ہوگا آخر صورت کیا ہوگی۔