Surat Marium

Surah: 19

Verse: 81

سورة مريم

وَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اٰلِہَۃً لِّیَکُوۡنُوۡا لَہُمۡ عِزًّا ﴿ۙ۸۱﴾

And they have taken besides Allah [false] deities that they would be for them [a source of] honor.

انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا رکھے ہیں کہ وہ ان کے لئے باعث عزت ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Idols of the Polytheists will deny Their Worship Allah says: وَاتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ الِهَةً لِّيَكُونُوا لَهُمْ عِزًّا And they have taken gods besides Allah, that they might give them honor, power and glory. Allah, the Exalted, informs about the disbelievers who associate partners with their Lord, that they have taken gods besides Allah, so that these gods may be a source of honor and might for them. They think that these gods give them power and make them victorious. Then, Allah mentions that the matter is not as they claim, and it will not be as they hope. He says,

اللہ تعالیٰ کے سوا معبود ۔ کافروں کا خیال ہے کہ ان کے اللہ کے سوا اور معبود ان کے حامی مددگار ہوں گے ۔ غلط خیال ہے بلکہ محال ہے بلکہ معاملہ اس کے برعکس اور بالکل برعکس ہے ان کی پوری محتاجی کے دن یعنی قیامت میں یہ صاف منکر ہو جائیں گے اور اپنے عابدوں کے دشمن بن کر کھڑے ہوں گے ۔ جیسے فرمایا ان سے بڑھ کر بد راہ اور گم کردہ راہ کون ہے جو اللہ کو چھوڑ کر انہیں پکار رہا ہے جو قیامت تک جواب نہ دے سکیں ان کی دعا سے بالکل غافل ہوں اور روز محشر ان کے دشمن بن جائیں اور ان کی عبادت کا بالکل انکار کر جائیں ۔ کلا کی دوسری قرأت کل بھی ہے خود یہ کفار بھی اس دن اللہ کے سوا اوروں کی پوجا پاٹ کا انکار کرجائیں گے ۔ یہ سب عابد و معبود جہنمی ہوں گے ، ایک دوسرے کے ساتھی ہوں گے ۔ وہ اس پر یہ اس پر لعنت وپھٹکار کرے گا ، ہر ایک دوسرے پر ڈالے گا ، ایک دوسرے کو برا کہے گا ، سخت تر جھگڑے پڑیں گے ، سارے تعلقات کٹ جائیں گے ، ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے ۔ مدد تو کہاں مروت تک نہ ہوگی ۔ معبود عابدوں کے لئے اور عابد معبودوں کے لئے بلائے بےدرماں حسرت بےپایا ہوجائیں گے ۔ کیا تجھے نہیں معلوم کہ ان کافروں کو ہر وقت شیاطین نافرمانیوں پر آمادہ کرتے رہتے ، مسلمانوں کے خلاف اکساتے رہتے ہیں ، آرزو میں بڑھاتے ہیں ، طغیان اور سرکشی میں آگے کرتے رہتے ہیں جیسے فرمان ہے کہ ذکر رحمان سے منہ موڑنے والے شیطان کے حوالے ہوجاتے ہیں ۔ تو جلدی نہ کر ان کے لئے کوئی بدعا نہ کر ہم نے خود عمدا انہیں ڈھیل دے رکھی ہے انہیں بڑھتا رہنے دے آخر وقت مقررہ پر دبوچ لئے جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ان ظالموں کے کرتوتوں سے بےخبر نہیں ہے انہیں تو کچھ یونہی سی ڈھیل ہے جس میں ہی اپنے گناہوں میں بڑھے چلے جار ہے ہیں آخر سخت عذابوں کی طرف بےبسی کے ساتھ جا پڑیں گے تم فائدہ حاصل کر لو لیکن یاد رکھو کہ تمہارا اصلی ٹھکانا دوزخ ہی ہے ۔ ہم ان کے سال کے مہینے دن اور وقت شمار کررہے ہیں ان کے سانس بھی ہمارے گنے ہوئے ہیں مقررہ وقت پورا ہوتے ہی عذابوں میں پھنس جائیں گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٤] عزکا لغوی مفہوم :۔ لفظ عز کا معنی یہ ہے کہ ان کے معبود ان کے لئے سبب عزت بن جائیں گے اور عزت سے مراد عربی زبان میں کسی شخص کا ایسا طاقتور اور بالا دست ہونا ہے جس پر کوئی ہاتھ نہ ڈال سکے۔ ( ضد ذلت) اور ان کے معبودوں کا ان کے لئے سبب عزت ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ ان کی حمایت پر ہوں گے جس کی وجہ سے ان کا کوئی مخالف ان پر ہاتھ نہ ڈال سکے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً ۔۔ : حشر و نشر کے بیان کے بعد اب ان کے بنائے ہوئے معبودوں کی نفی ہے، خواہ انسان ہوں یا فرشتے یا جن یا بت یا آستانے یا قبریں۔ یعنی اللہ کے سوا انھوں نے اس لیے معبود بنا رکھے ہیں کہ ضرورت اور حاجت کے وقت اللہ تعالیٰ سے سفارش کرکے کام کروا سکیں، مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ سے کہہ کر اسے ٹال دیں، یا وہ موت اور قیامت کے وقت ان کو عذاب سے بچا لیں اور اس طرح وہ ان کے لیے قوت و عزت کا باعث بن جائیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورة یونس (١٨) اور سورة زمر (٣) میں مشرکین کا یہی عقیدہ بیان فرمایا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش کر ہی نہیں سکتا اور نہ کرسکے گا، آیت الکرسی میں ہے : (مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ) [ البقرۃ : ٢٥٥ ] ” کون ہے وہ جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے ؟ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ اٰلِہَۃً لِّيَكُوْنُوْا لَہُمْ عِزًّا۝ ٨١ۙ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ عز العِزَّةُ : حالةٌ مانعة للإنسان من أن يغلب . من قولهم : أرضٌ عَزَازٌ. أي : صُلْبةٌ. قال تعالی: أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء/ 139] ( ع ز ز ) العزۃ اس حالت کو کہتے ہیں جو انسان کو مغلوب ہونے سے محفوظ رکھے یہ ارض عزاز سے ماخوذ ہے جس کے معنی سخت زمین کے ہیں۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء/ 139] کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ عزت تو سب خدا ہی کی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨١) اور یہ کفار مکہ اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو پوجتے ہیں تاکہ یہ بت ان کی عذاب الہی سے حفاظت کریں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨١ (وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اٰلِہَۃً لِّیَکُوْنُوْا لَہُمْ عِزًّا ) ” ان کا خیال ہے کہ ان کے یہ معبود ان کے لیے پشت پناہ ثابت ہوں گے اور انہیں اللہ کے عذاب سے چھڑا لیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

49. The Arabic word Izzan (from Izat) implies a powerful and strong person whom nobody may dare do any harm; here it means a person’s having such a strong supporter that no enemy or opponent of his may even cherish an evil intention against him.

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :49 اصل میں لفظ عزا استعمال ہوا ہے ، یعنی وہ ان کے لیئے سبب عزت ہوں ۔ مگر عزت سے مراد عربی زبان میں یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اس کی حمایت پر ہو جس کی وجہ سے اس کا کوئی مخالف اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ سکے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

36: بعض مشرکین یہ کہا کرتے تھے کہ ہم لات اور عزا جیسی بتوں یا دوسرے معبودوں کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہماری سفارش کریں (سورہ یونس :18) یہ ان کے اسی عقیدے کی طرف اشارہ ہے۔ اور جواب میں فرمایا گیا ہے کہ جن دیوتاؤں پر یہ بھروسہ کیے بیٹھے ہیں۔ قیامت کے دن وہ تو اس بات ہی سے انکار کردیں گے کہ ان کی عبادت کی گئی تھی اور وہ ان کی سفارش تو کیا کرتے، الٹے ان کے مخالف ہوجائیں گے۔ یہ مضمون سورۃ نحل : 86 میں بھی گذرا ہے جیسا کہ وہاں بھی عرض کیا گیا تھا، عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان بتوں کو بھی زبان دیدے اور وہ ان کے جھوٹا ہونے کا اعلان کریں، کیونکہ دنیا میں بے جان ہونے کی بنا پر انہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ کون ان کی عبادت کر رہا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ زبان حال سے یہ بات کہیں، اور شیاطین واقعی زبان سے یہ بات کہہ کر ان سے اپنی بے تعلقی کا اظہار کریں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:81) عزا۔ عزت۔ قوت۔ دبدبہ۔ مدد۔ عز یعزکا مصدر ہے۔ جس کے معنی قوی ہونے کے ہیں۔ لیکونوا لہم عزا۔ کہ وہ ان کے لئے باعث قوت و باعث مدد بن سکیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 انکار اس معنی میں کرینگے کہ وہ کہیں گے ہم نے کبھی ان سے نہیں کہا تھا کہ ہماری عبادت کرو اور نہ ہمیں یہ خبر تھی کہ وہ ہماری عبادت کر رہے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 81 تا 87 توز وہ ابھارتا ہے۔ از ابھارنا، ہلانا۔ نعد ہم گن رہے ہیں۔ عد گنتی۔ وفد مہمان بنانا۔ نسوق ہم چلائیں گے۔ ورد پیاسا۔ عھد عہد، وعدہ۔ تشریح : آیت نمبر 81 تا 87 ان آیات میں دو باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ (1) پہلی بات تو یہ ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اور بہت سے معبود گھڑ رکھے ہیں تاکہ وہ قیامت کے دن ان کی سفارش کر کے ان کو عزت و سربلندی کے مقام پر بٹھائیں گے ان کی حمایت کریں گے، کوئی مصیبت پڑی تو وہ ان کو بچا لیں گے فرمایا کہ یہ جھوٹے معبود تمہاری عزت و سربلندی کا ذریعہ نہیں بلکہ تمہاری ذلت، رسوائی اور محرومی کا سبب بنیں گے کیونکہ وہ قیامت کے دن صاف انکار کردیں گے اور کہہ دیں گے کہ اے پروردگار ہمیں کیا معلوم کہ وہ ہماری عبادت و بندگی کیوں کرتے تھے۔ ہم نے تو ان سے نہیں کہا تھا کہ وہ ہمارے سامنے جھکیں اور ہماری عبادت و بندگی کریں۔ فرمایا کہ یہ معبود تمہارے دوست نہیں بلکہ دشمن ثابت ہوں گے۔ (2) دوسری بات یہ ارشاد فرمائی گی ہے کہ جو لوگ اللہ کو اپنا معبود نہیں مانتے ہم ان پر شیطانوں کو مسلط کردیتے ہیں جو ان کو ہر وقت نافرمانیوں ، غل کاموں اور گناہوں پر اکساتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ نتیجہ سے بےپرواہ ہر طرح کے غلط کاموں میں لگے رہتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ہر حرکت کو دیکھنے والا یا اس پر گرفت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ حالانکہ یہ اللہ کی طرف سے ڈھیل اور مہلت دی جاتی ہے تاکہ وہ سنبھل کر اور توبہ کر کے ایمان اور عمل صالح کی طرف آجائیں۔ اس عرصہ میں اللہ ایسے لوگوں کے ایک ایک لمحے اور ہر سانس کو گنتا رہتا ہے او ان کے نامہ اعمال میں لکھتا چلا جاتا ہے قیامت میں جب اللہ ان کے نامہ اعمال اور حرکتوں کے ریکارڈ کو ان کے سامنے رکھے گا تب ان کو اس بات کا صحیح اندازہ ہوگا۔ کہ انہوں نے غیر اللہ کی اور شیطان کی پیروی کر کے اپنی آخرت کو برباد کر ڈالا ہے۔ لہٰذا اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان کے بارے میں کسی فیصلے کے لئے جلد نہ کیجیے وہ بہت جلد اپنے اعمال کی سزا بھگتنے کے لئے ہمارے پاس ہی آئیں گے۔ فرمایا کہ جب ہم ان مجرموں کو جہنم کی طرف دھکیل دیں گے۔ جب بھوک پیاس سے نڈھال یہ لوگ جہنم کے گھاٹ کی طرف دوڑیں گے تاکہ وہاں سے اپنی پیاس کو بجھا لیں تو ان کو یہ دیکھ کر سخت مایوسی ہوگی کہ وہاں ان کی ضیافت اور مہمان داری کے لئے سوائے گندے پانی کے کچھ بھی نہ ہوگا۔ فرمایا کہ یہ تو اللہ کی مرضی ہے کہ وہ اپنے نیک بندوں میں سے کچھ لوگوں کو سفارش کی اجازت عطا فرما دیں گے لیکن جو ایمان سے محروم ہیں ان کے لئے تو کسی کو زبان ہلانے کی بھی اجازت نہ ہوگی۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جنہوں نے اللہ کا تقویٰ اور خوف الٰہی کے ساتھ زندگی گزاری ہوگی ان کی مہمان نوازی اللہ کی طرف سے کی جائے گی اور ان کو جنت کی ابدی راحتوں اور آسائشوں سے ہم کنار کیا جائے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : شرک کرنے کا بنیادی سبب یہ ہوتا ہے کہ انسان صرف اللہ تعالیٰ کو کارساز، خود مختار اور ایک جاننے کی بجائے دوسروں کو بھی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتا ہے۔ اسی وجہ سے مشرک اور کافر اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کے سامنے ہاتھ جوڑتے، جھکتے، سجدے کرتے اور نذ ونیاز پیش کرتے ہیں۔ ذات کبریا کا اصل نام ” اللہ “ ہے اس کا متبادل نام الٰہ ہے۔ جو متبادل نام ہونے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تمام بڑی بڑی صفات کا ترجمان ہے۔ اس کا ایک معنٰی حاجت روا، مشکل کشا ہے۔ (النمل : ٦٢) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بار بار اس بات سے منع کیا ہے کہ لوگو ! اللہ کے سوا نہ کسی کی عبادت کرو اور نہ کسی کو پکارو اور نہ اللہ کے ساتھ کسی کی عبادت کرو کیونکہ (تمھارا الٰہ ایک ہی ہے۔ وہ بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ البقرۃ : ١٦٣) لیکن مشرک یہ بات ماننے اور سمجھنے کی بجائے ان بزرگوں کے سامنے اپنی حاجات پیش کرتے ہیں۔ جن کو یہ معلوم بھی نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ جب انھیں اٹھا کر اللہ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا تو نہ صرف وہ مشرکوں کے شرک سے انکار کریں گے بلکہ ان کے مخالف شہادت دیتے ہوئے کہیں گے کہ بارالٰہ نہ صرف ہم ان کے شرک کی مذمت اور انکار کرتے ہیں بلکہ ہماری درخواست ہے کہ شرک کرنے والوں کو جہنم میں جھونکا جائے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ جو علماء یہ کہہ کر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں کہ من دون اللہ سے مراد پتھر، مٹی اور لکڑی کے بت ہیں انھیں معلوم ہونا چاہیے قرآن و حدیث میں کہیں نہیں آیا کہ قیامت کے دن بتوں میں جان ڈالی جائے گی۔ البتہ جن پتھر کے بتوں کی پوجا کی جاتی تھی انھیں مشرکوں کے ساتھ ہی جہنم میں پھینکا جائے گا۔ یہاں من دون اللہ کا معنٰی وہ فوت شدگان بزرگ ہیں۔ جن کو لوگوں نے داتا، دستگیر، حاجت روا اور مشکل کشا بنالیا تھا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ کوئی عبادت کے لائق، حاجت روا اور مشکل کشا نہیں۔ ٢۔ جن انبیاء اور اولیاء کو لوگ حاجت روا، مشکل کشا سمجھ کر پکارتے تھے وہ قیامت کے دن پکارنے والوں کا صاف انکار کریں گے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ لوگ جو آیات الہیہ کا انکار کرتے ہیں ‘ وہ اللہ کے سوا دوسروں کو الہٰ بناتے ہیں اور انکے ہاں اپنی عزت بناتے ہیں اور انہیں سے غلبہ اور نصرت مانگتے ہیں اور ان میں سے بعض لوگ تو ملائل کہ کی بندگی کرتے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جو جنوں کی پرستش کرتے ہیں ‘ ان سے نصرت طلب کرتے ہیں لیکن ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا ‘ عنقریب وہ سب معبود ان سب کی عبادت ‘ بندگی اور پکارنے کا انکار کریں گے۔ ان کے اس فعل سے نفرت کریں گے اور اللہ کے سامنے ان سے پانی برائت کا اظہار کریں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جنھوں نے غیر اللہ کی پرستش کی ان کے معبود اس بات کا انکار کریں گے کہ ہماری عبادت کی گئی اور اپنے عبادت کرنے والوں کے مخالف ہوجائیں گے معبود حقیقی وحدہ لا شریک کو چھوڑ کر جن لوگوں نے دوسرے معبود بنا لیے ہیں وہ یوں سمجھتے ہیں کہ یہ باطل معبود ہمارے لیے عزت کا باعث ہیں ان کی طرف منسوب ہونا ہمارے لیے فخر ہے جیسا کہ ابو سفیان نے غزوہ احد کے موقع پر فخر ظاہر کرتے یوں کہا تھا لنا عزی ولا عزی لکم (ہمارے لیے عزیٰ بت ہے اور تمہارے لیے عزیٰ نہیں ہے) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اس کو یہ جواب دے دو اللہ مولانا ولا مولی لکم (اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور تمہارے لیے کوئی مولیٰ نہیں) مشرکین یہ کہتے تھے کہ یہ باطل معبود قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہماری سفارش کردیں گے۔ اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا کہ جن معبودوں کی عبادت وہ اپنے لیے عزت اور فخر سمجھتے ہیں اور جنھیں اللہ کی بارگاہ میں سفارشی مانتے ہیں وہ مدد تو کیا کریں گے وہاں اس بات کے منکر ہوجائیں گے کہ ان کی عبادت کی تھی، سورة احقاف میں فرمایا (وَاِِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوْا لَہُمْ اَعْدَاءً وَّکَانُوْا بِعِبَادَتِہِمْ کٰفِرِیْنَ ) اور جب لوگ جمع کیے جائیں گے تو ان کے باطل معبود اپنے عبادت گزاروں کے دشمن ہوجائیں گے اور ان کی عبادت کے منکر ہوجائیں گے۔ یہ باطل معبود نہ صرف اپنے عبادت گزاروں کی عبادت کے منکر ہوں گے بلکہ وہاں ان کے مخالف ہوجائیں گے اور ان کو الزام بھی دیں گے اور ان کے لیے عذاب دوزخ میں جانے کے خواہشمند ہوں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

56:۔ یہ زجر ہے۔ ” عِزًّا “ سے مراد اعوان و انصار ہیں۔ جو دنیا وآخرت کے ہر میدان میں ان کے کام آئیں۔ ای لیعتزوا بالھتھم و یکونوا لھم شفعاء و انصارا ینقذونھم من العذاب (مدارک ج 3 ص 35) ۔ اس آیت میں مشرکین کے شرک کی اصل غرض وغایت بیان فرما دی کہ انہوں نے اللہ کے سوا جو معبود بنا رکھے ہیں اور جن کی عبادت کرتے اور جن کے نام کی نذریں منتیں دیتے ہیں اس سے ان کا مقصد یہ ہے کہ وہ ان کی مدد کریں اور خدا کے یہاں ان کی سفارش کریں۔ یہ اس حصے کی مرکزی آیت ہے اور اس میں سورت کی ایک خصوصیت کا بیان ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

8 1 اور ان دین حق کے منکروں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اور معبود بنا رکھے ہیں تاکہ وہ باطل معبود ان کے لئے باعث عزت اور موجب مدد ہوں۔