Surat ul Baqara

The Cow

Surah: 2

Verses: 286

Ruku: 40

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

تفسیر سورۃ بقرۃ اس مبارک سورت کے فضائل کا بیان حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ سورۃ بقرہ قرآن کا کوہان ہے اور اس کی بلندی کا یہ عالم ہے کہ اس کی ایک ایک آیت کے ساتھ اسی اسی ( ٨٠ ) فرشتے نازل ہوتے تھے اور بالخصوص آیت الکرسی تو خاص عرش...  تلے نازل ہوئی اور اس سورت میں شامل کی گئی ۔ سورۃ یٰسین قرآن کا دل ہے جو شخص اسے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور آخرت طلبی کے لئے پڑھے اسے بخش دیا جاتا ہے ۔ اس سورت کو مرنے والوں کے سامنے پڑھا کرو ( مسند احمد ) اس حدیث کی سند میں ایک جگہ عن رجل ہے تو یہ نہیں معلوم ہوتا تھا کہ اس سے مراد کون ہے؟ لیکن مسند احمد ہی کی دوسری روایت میں اس کا نام ابو عثمان آیا ہے ۔ یہ حدیث اسی طرح ابو داؤد نسائی اور ابن ماجہ میں بھی ہے ۔ ترمذی کی ایک ضعیف سند والی حدیث ہے کہ ہر چیز کی ایک بلندی ہوتی ہے اور قرآن پاک کی بلندی سورۃ بقرہ ہے ۔ اس سورت میں ایک آیت ہے جو تمام آیتوں کی سردار ہے اور وہ آیت آیت الکرسی ہے ۔ مسند احمد ، صحیح مسلم ، ترمذی اور نسائی میں حدیث ہے کہ اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ ۔ جس گھر میں سورۃ بقرہ پڑھی جائے وہاں شیطان داخل نہیں ہو سکتا ۔ امام ترمذی اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ جس گھر میں سورۃ بقرہ پڑھی جائے وہاں سے شیطان بھاگ جاتا ہے ۔ اس حدیث کے ایک راوی کو امام یحییٰ بن معین تو ثقہ بتاتے ہیں لیکن امام احمد وغیرہ ان کی حدیث کو منکر کہتے ہیں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی طرح کا قول منقول ہے ۔ اسے نسائی نے عمل الیوم واللیلہ میں اور حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے اور اس کی سند کو صحیح کہا ہے ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم میں سے کسی کو ایسا نہ پاؤں کہ وہ پیر پر پیر چڑھائے پڑھتا چلا جائے لیکن سورۃ بقرہ نہ پڑھے ۔ سنو! جس گھر میں یہ مبارک سورت پڑھی جاتی ہے وہاں سے شیطان بھاگ کھڑا ہوتا ہے ، سب گھروں میں بدترین اور ذلیل ترین گھر وہ ہے جس میں کتاب اللہ کی تلاوت نہ کی جائے امام نسائی نے عمل الیوم واللیلہ میں بھی اسے وارد کیا ہے مسند دارمی میں حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ جس گھر میں سورۃ بقرہ پڑھی جائے اس گھر سے شیطان گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے ۔ ہر چیز کی اونچائی ہوتی ہے اور قرآن کی اونچائی سورۃ بقرہ ہے ۔ ہر چیز کا ما حصل ہوتا ہے اور قرآن کا ما حصل مفصل سورتیں ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ جو شخص سورۃ بقرہ کی پہلی چار آیتیں اور آیت الکرسی اور دو آیتیں اس کے بعد کی اور تین آیتیں سب سے آخر کی ، یہ سب دس آیتیں رات کے وقت پڑھ لے اس گھر میں شیطان اس رات نہیں جا سکتا اور اسے اور اس کے گھر والوں کو اس دن شیطان یا کوئی اور بری چیز ستا نہیں سکتی ۔ یہ آیتیں مجنون پر پڑھی جائیں تو اس کا دیوانہ پن بھی دور ہو جاتا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس طرح ہر چیز کی بلندی ہوتی ہے ، قرآن کی بلندی سورۃ بقرہ ہے جو شخص رات کے وقت اسے اپنے گھر میں پڑھے تین راتوں تک شیطان اس گھر میں نہیں جا سکتا اور دن کو اگر گھر میں پڑھ لے تو تین دن تک شیطان اس گھر میں قدم نہیں رکھ سکتا ۔ ( طبرانی ۔ ابن حبان ۔ ابن مردویہ ) ترمذی ۔ نسائی اور ابن ماجہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹا سا لشکر ایک جگہ بھیجا اور اس کی سرداری آپ نے انہیں دی جنہوں نے فرمایا تھا کہ مجھے سورۃ بقرہ یاد ہے ، اس وقت ایک شریف شخص نے کہا میں بھی اسے یاد کر لیتا لیکن ڈرتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اس پر عمل نہ کر سکوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن سیکھو ، قرآن پڑھو جو شخص اسے سیکھتا ہے ، پڑھتا ہے پھر اس پر عمل بھی کرتا ہے ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے مشک بھرا ہوا برتن جس کی خوشبو ہر طرف مہک رہی ہے ۔ اسے سیکھ کر سو جانے والے کی مثال اس برتن کی سی ہے جس میں مشک تو بھرا ہوا ہے لیکن اوپر سے منہ بند کر دیا گیا ہے ۔ ( امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں اور مرسل روایت بھی ہے ) واللہ اعلم ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ رات کو سورۃ بقرہ کی تلاوت شروع کی ، ان کا گھوڑا جو ان کے پاس ہی بندھا ہوا تھا ، اس نے اچھلنا کودنا اور بدکنا شروع کیا ۔ آپ نے قرأت چھوڑ دی گھوڑا بھی سیدھا ہو گیا ۔ آپ نے پھر پڑھنا شروع کیا ۔ گھوڑے نے بھی پھر بدکنا شروع کیا ۔ آپ نے پھر پڑھنا موقوف کیا ۔ گھوڑا بھی ٹھیک ٹھاک ہو گیا ۔ تیسری مرتبہ بھی یہی ہوا چونکہ ان کے صاحبزادے یحییٰ گھوڑے کے پاس ہی لیٹے ہوئے تھے اس لئے ڈر معلوم ہوا کہ کہیں بچے کو چوٹ نہ آ جائے ، قرآن کا پڑھنا بند کر کے اسے اٹھا لیا ۔ آسمان کی طرف دیکھا کہ جانور کے بدکنے کی کیا وجہ ہے؟ صبح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر واقعہ بیان کرنے لگے آپ سنتے جاتے اور فرماتے جاتے ہیں پھر اسید پڑھے چلے جاؤ حضرت اسید نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم تیسری مرتبہ کے بعد تو یحییٰ کی وجہ سے میں نے پڑھنا بالکل بند کر دیا ۔ اب جو نگاہ اٹھی تو دیکھتا ہوں کہ ایک نورانی چیز سایہ دار ابر کی طرح ہے اور اس میں چراغوں کی طرح کی روشنی ہے بس میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ اوپر کو اٹھ گئی ۔ آپ نے فرمایا جانتے ہو یہ کیا چیز تھی؟ یہ فرشتے جو تمہاری آواز کو سن کر قریب آ گئے تھے اگر تم پڑھنا موقوف نہ کرتے تو وہ صبح تک یونہی رہتے اور ہر شخص انہیں دیکھ لیتا ، کسی سے نہ چھپتے ۔ یہ حدیث کئی کتابوں میں کئی سندوں کے ساتھ موجود ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اس کے قریب قریب واقعہ حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے کہ ایک مرتبہ لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ گزشتہ رات ہم نے دیکھا ، ساری رات حضرت ثابت کا گھر نور کا بقعہ بنا رہا اور چمکدار روشن چراغوں سے جگمگاتا رہا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید انہوں نے رات کو سورۃ بقرہ پڑھی ہو گی ۔ جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا سچ ہے رات کو میں سورۃ بقرہ کی تلاوت میں مشغول تھا ۔ اس کی اسناد تو بہت عمدہ ہے مگر اس میں ابہام ہے اور یہ مرسل بھی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران کی فضیلت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ سیکھو ، اس کو حاصل کرنا برکت ہے اور اس کا چھوڑنا حسرت ہے ۔ جادوگر اس کی طاقت نہیں رکھتے پھر کچھ دیر چپ رہنے کے بعد فرمایا ۔ سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران سیکھو ، یہ دونوں نورانی سورتیں ہیں اپنے پڑھنے والے پر سائبان یا بادل یا پرندوں کے جھنڈ کی طرح قیامت کے روز سایہ کریں گی ، قرآن پڑھنے والا جب قبر سے اٹھے گا تو دیکھے گا کہ ایک نوجوان نورانی چہرے والا شخص اس کے پاس کھڑا ہوا کہتا ہے کہ کیا آپ مجھے جانتے ہیں یہ کہے گا نہیں تو وہ جواب دے گا کہ میں قرآن ہوں جس نے دن کو تجھے بھوکا پیاسا رکھا تھا اور راتوں کو بستر سے دور بیدار رکھا تھا ۔ ہر تاجر اپنی تجارت کے پیچھے ہے لیکن آج سب تجارتیں تیرے پیچھے ہیں اب اس کے رہنے کے لئے سلطنت اس کے داہنے ہاتھ میں دی جائے گی اور ہمیشہ کے فائدے اس کے بائیں ہاتھ میں ، اس کے سر پر وقار و عزت کا تاج رکھا جائے گا ، اس کے ماں باپ کو دو ایسے عمدہ قیمتی حلے پہنائے جائیں گے کہ ساری دنیا بھی اس کی قیمت کے سامنے ہیچ ہو گی ، وہ حیران ہو کر کہیں گے کہ آخر اس رحم و کرم اور اس انعام و اکرام کی کیا وجہ ہے؟ تو انہیں جواب دیا جائے گا کہ تمہارے بچے کے قرآن حفظ کرنے کی وجہ سے تم پر یہ نعمت انعام کی گئی ۔ پھر اسے کہا جائے گا پڑھتا جا اور جنت کے درجے چڑھتا جا ، چنانچہ وہ پڑھتا جائے گا اور درجے چڑھتا جائے گا ۔ خواہ ترتیل سے پڑھے یا بے ترتیل ۔ ابن ماجہ میں بھی اس حدیث کا بعض حصہ مروی ہے اس کی اسناد حسن ہیں اور شرط مسلم پر ہیں ۔ اس کے راوی بشر ، ابن ماجہ سے امام مسلم بھی روایت لیتے ہیں اور امام ابن معین اسے ثقہ کہتے ہیں ۔ نسائی کا قول ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ۔ ہاں امام احمد اسے منکر الحدیث بتاتے ہیں اور فرماتے ہیں میں نے تلاش کی تو دیکھا کہ وہ عجب عجب حدیثیں لاتا ہے ۔ امام بخاری فرماتے ہیں اس کی بعض احادیث سے اختلاف کیا جاتا ہے ۔ ابو حاتم رازی کا فیصلہ ہے کہ اس کی حدیثیں لکھی جاتی ہیں لیکن ان سے دلیل نہیں پکڑی جا سکتی ۔ ابن عدی کا قول ہے کہ ان کی ایسی روایتیں بھی ہیں جن کی متابعت نہیں کی جاتی ۔ دارقطنی فرماتے ہیں یہ قوی نہیں ہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ اس کی اس روایت کے بعض مضمون دوسری سندوں سے بھی آئے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے ۔ قرآن پڑھا کرو یہ اپنے پڑھنے والوں کی قیامت کے دن شفاعت کرے گا ۔ دو نورانی سورتوں بقرہ اور آل عمران کو پڑھتے رہا کرو ۔ یہ دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی کہ گویا یہ دو سائبان ہیں یا دو ابر ہیں یا پر کھولے پرندوں کی دو جماعتیں ہیں ۔ اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے اللہ تعالیٰ سے سفارش کریں گی ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ سورہ بقرہ پڑھا کرو ۔ اس کا پڑھنا برکت ہے اور چھوڑنا حسرت ہے ۔ اس کی طاقت باطل والوں کو نہیں صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے ۔ مسند احمد کی ایک اور حدیث میں ہے قرآن اور قرآن پڑھنے والوں کو قیامت کے دن بلوایا جائے گا ۔ آگے آگے سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران ہوں گی ، بادل کی طرح یا سائے اور سائبان کی طرح یا پر کھولے پرندوں کے جھرمٹ کی طرح ۔ یہ دونوں پروردگار سے ڈٹ کر سفارش کریں گی ۔ مسلم اور ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے ۔ امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں ۔ ایک شخص نے اپنی نماز میں سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران پڑھی اس کے فارغ ہونے کے بعد حضرت کعب نے فرمایا اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ان میں اللہ کا وہ نام ہے کہ اس نام کے ساتھ جب کبھی اسے پکارا جائے وہ قبول فرماتا ہے ۔ اب اس شخص نے حضرت کعب سے عرض کی کہ مجھے بتائیے وہ نام کونسا ہے؟ حضرت کعب نے اس سے انکار کیا اور فرمایا اگر میں بتا دوں تو خوف ہے کہ کہیں تو اس نام کی برکت سے ایسی دعا نہ مانگ لے جو میری اور تیری ہلاکت کا سبب بن جائے ۔ حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں تمہارے بھائی کو خواب میں دکھلایا گیا کہ گویا لوگ ایک بلند و بالا پہاڑ پر چڑھ رہے ہیں ۔ پہاڑ کی چوٹی پر دو سرسبز درخت ہیں اور ان میں سے آوازیں آ رہی ہیں کہ کیا تم میں کوئی سورۃ بقرہ کا پڑھنے والا ہے؟ کیا تم میں سے کوئی سورۃ آل عمران کا پڑھنے والا ہے؟ جب کوئی کہتا ہے کہ ہاں تو وہ دونوں درخت اپنے پھلوں سمیت اس کی طرف جھک جاتے ہیں اور یہ اس کی شاخوں پر بیٹھ جاتا ہے اور وہ اسے اوپر اٹھا لیتے ہیں ۔ حضرت ام درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتی ہیں کہ ایک قرآن پڑھے ہوئے شخص نے اپنے پڑوسی کو مار ڈالا پھر قصاص میں وہ بھی مارا گیا ۔ پس قرآن کریم ایک ایک سورت ہو ہو کر الگ ہونا شروع ہوا یہاں تک کہ اس کے پاس سورۃ آل عمران اور سورہء بقرہ رہ گئیں ۔ ایک جمعہ کے بعد سورۃ آل عمران چلی گئی پھر ایک جمعہ گزرا تو آواز آئی کہ میری باتیں نہیں بدلا کرتیں اور میں اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا چنانچہ یہ مبارک سورت یعنی سورۃ بقرہ بھی اس سے الگ ہو گئی مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں سورتیں اس کی طرف سے بلاؤں اور عذاب کی آڑ بنی رہیں اور اس کی قبر میں اس کی دلجوئی کرتی رہیں اور سب سے آخر اس کے گناہوں کی زیادتی کے سبب ان کی سفارش نہ چلی ۔ یزید بن اسود جرشی کہتے ہیں کہ ان دونوں سورتوں کو دن میں پڑھنے والا دن بھر میں نفاق سے بری رہتا ہے اور رات کو پڑھنے والا ساری رات نفاق سے بری رہتا ہے خود حضرت یزید اپنے معمولی وظیفہ قرآن کے علاوہ ان دونوں سورتوں کو صبح شام پڑھا کرتے تھے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جو شخص ان دونوں سورتوں کو رات بھر پڑھتا رہے گا ۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ فرمانبرداروں میں شمار ہو گا ۔ اس کی سند منقطع ہے ، بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھ کو سات لمبی سورتیں توریت کی جگہ دی گئی ہیں اور انجیل کی جگہ مجھ کو دو سو آیتوں والی سورتیں ملی ہیں اور زبور کے قائم مقام مجھ کو دو سو سے کم آیتوں والی سورتیں دی گئی ہیں اور پھر مجھے فضیلت میں خصوصاً سورۃ ق سے لے کر آخر تک کی سورتیں ملی ہیں یہ حدیث غریب ہے اور اس کے ایک راوی سعید بن ابو بشیر کے بارہ میں اختلاف ہے ۔ ابو عبید نے اسے دوسری سند سے بھی نقل کیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ ایک اور حدیث میں ہے جو شخص ان سات سورتوں کو حاصل کر لے وہ بہت بڑا عالم ہے ۔ یہ روایت بھی غریب ہے ۔ مسند احمد میں بھی یہ روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور ان کا امیر انہیں بنایا ، جنہیں سورۃ بقرہ یاد تھی حالانکہ وہ ان سب میں چھوٹی عمر کے تھے ۔ حضرت سعید بن جبیر تو ولقد اتیناک سبعا من المثانی کی تفسیر میں بھی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہی سات سورتیں ہیں ۔ سورۃ بقرہ ، سورۃ آل عمران ، سورۃ نسائ ، سورۃ مائدہ ، سورۃ انعام ، سورۃ اعراف اور سورہء یونس ، حضرت مجاہد مکحول ، عطیہ بن قیس ، ابو محمد فارسی ، شداد بن اوس ، یحییٰ بن حارث ذماری سے بھی یہی منقول ہے ۔ مقام نزول سورۃ بقرہ ساری کی ساری مدینہ شریف میں نازل ہوئی ہے اور شروع شروع جو سورتیں نازل ہوئیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے البتہ اس کی ایک آیت واتقوا یوما ترجعون فیہ الی اللہ یہ سب سے آخر نازل شدہ بتائی جاتی ہے یعنی قرآن کریم میں سب سے آخر یہ آیت نازل ہوئی ہے ۔ ممکن ہے کہ نازل بعد میں ہوئی ہو لیکن اسی میں ہے ۔ اور اسی طرح سود کی حرمت کی آیتیں بھی آخر میں نازل ہوئی ہیں ۔ حضرت خالد بن معدان سورہء بقرہ کو فسطاط القرآن یعنی قرآن کا خیمہ کہا کرتے تھے ۔ بعض علماء کا فرمان ہے کہ اس میں ایک ہزار خبریں ہیں اور ایک ہزار حکم ہیں اور ایک ہزار کاموں سے ممانعت ہے ۔ اس کی آیتیں دو سو ستاسی ہیں ۔ اس کے کلمات چھ ہزار دو سو اکیس ہیں ۔ اس کے حروف ساڑھے پچیس ہزار ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ ابن عباس فرماتے ہیں یہ سورت مدنی ہے ۔ حضرت عبد بن زبیر اور حضرت زید بن ثابت اور بہت سے ائمہ علماء اور مفسرین سے بھی بلا اختلاف یہی مروی ہے ۔ ابن مردویہ کی ایک حدیث میں ہے کہ سورۃ بقرہ سورۃ آل عمران ، سورۃ النساء وغیرہ نہ کہا کرو بلکہ یوں کہو کہ وہ سورت جس میں بقرہ کا ذکر ہے ۔ وہ سورت جس میں آل عمران کا بیان ہے اور اسی طرح قرآن کی سب سورتوں کے نام لیا کرو ۔ لیکن یہ حدیث غریب ہے بلکہ اس کا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونا ہی صحیح نہیں ۔ اس کے راوی عیسیٰ بن میمون ابو سلمہ خواص ضعیف ہیں ۔ ان کی روایت سے سند نہیں لی جا سکتی ۔ اس کے برخلاف بخاری و مسلم میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بطن وادی سے شیطان پر کنکر پھینکے ۔ بیت اللہ ان کی بائیں جانب تھا اور منیٰ دائیں طرف ۔ اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن پر سورۃ بقرہ اتری ہے ۔ اسی جگہ سے کنکر پھینکے تھے گو اس حدیث سے صاف ثابت ہو گیا ہے کہ سورۃ بقرہ وغیرہ کہنا جائز ہے لیکن مزید سنئے ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب میں کچھ سستی دیکھی تو انہیں یا اصحاب سورۃ بقرہ کہہ کر پکارا ۔ غالباً یہ غزوہ حنین والے دن کا ذکر ہے جب لشکر کے قدم اکھڑ گئے تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت عباس نے انہیں درخت والو یعنی اے بیعت الرضوان کرنے والو اور اے سورۃ بقرہ والو کہہ کر پکارا تھا تاکہ ان میں خوشی اور دلیری پیدا ہو ۔ چنانچہ اس آواز کے ساتھ ہی صحابہ ہر طرف سے دوڑ پڑے ۔ مسیلمہ جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا ، اس کے ساتھ لڑنے کے وقت بھی جب قبیلہ بنو حنفیہ کی چیرہ دستیوں نے پریشان کر دیا اور قدم ڈگمگا گئے تو صحابہ نے اسی طرح لوگوں کو پکارا یا اصحاب سورۃ البقرہ ، اے سورۃ بقرہ والو ۔ اس آواز پر سب کے سب جمع ہوگئے اور جم کر لڑے یہاں تک کہ ان مرتدوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنے لشکر کو فتح دی ۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سب صحابہ سے خوش ہو  Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] فضائل سورة البقرۃ :۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس گھر میں سورة البقرہ پڑھی جائے، شیطان اس گھر سے نکل جاتا ہے۔ (مسلم، کتاب صلوۃ المسافرین و قصرھا، باب استحباب الصلوۃ النافلۃ فی بیتہ۔۔ الخ) نیز آپ نے فرمایا : الزھراوین (دو جگمگانے والی سورتیں یعنی البقرہ اور آل عمران) ... پڑھا کرو۔ قیامت کے دن وہ اس حال میں آئیں گی جیسے وہ دو بادل یا دو سائبان یا پرندوں کے دو جھنڈ ہیں اور وہ اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے (مغفرت کے لیے) جھگڑا کریں گی (لہٰذا) سورة البقرہ پڑھا کرو۔ اسے حاصل کرنا برکت اور چھوڑ دینا حسرت ہے اور باطل قوتیں (جادو وغیرہ) اس کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ (مسلم، کتاب فضائل القرآن و مایتعلق بہ باب فضل قراءۃ القرآن و سورة البقرۃ) زمانہ نزول اور شان نزول :۔ مدنی سورتوں میں سب سے پہلی سورت ہے۔ مکہ میں چھیاسی (٨٦) سورتیں نازل ہوئیں اور نزولی ترتیب کے لحاظ سے اس کا نمبر ٨٧ ہے، اگرچہ اس سورة کا بیشتر حصہ ابتدائی مدنی دور میں نازل ہوا تاہم اس کی کچھ آیات بہت مابعد کے دور میں نازل ہوئیں مثلاً حرمت سود کی آیات جو ١٠ ھ کے اواخر میں نازل ہوئیں۔ سورة بقرہ کے نزول کا پس منظر :۔ مدینہ پہنچ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلا کام جو کیا وہ مسجد نبوی کی تعمیر تھی تاکہ تمام مسلمان دن میں پانچ دفعہ اکٹھے ہو کر نماز ادا کریں اور اپنے مسائل پر غور کرسکیں۔ دوسرا اہم مسئلہ مہاجرین کی آباد کاری اور ان کے معاش کا تھا جس کے لیے آپ نے مہاجرین و انصار میں سلسلہ مواخات قائم فرمایا جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ تیسرا اہم مسئلہ مدینہ کی ایک چھوٹی سی نوخیز اسلامی ریاست کے دفاع کا تھا۔ کیونکہ اب مشرکین مکہ کے علاوہ دوسرے مشرک قبائل بھی مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلے ہوئے تھے۔ خود مدینہ میں یہود مسلمانوں کے اس لیے دشمن بن گئے تھے کہ آنے والا نبی سیدنا اسحاق کی اولاد کے بجائے سیدنا اسماعیل کی اولاد سے کیوں مبعوث ہوا ہے۔ یہود کے تین قبائل بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ مدینہ میں آباد تھے جو آپس میں پھٹے ہوئے تھے اور مدینہ کے مشرکوں کے دو مشہور قبائل اوس اور خزرج کے حلیف بن کر انہیں لڑاتے رہتے تھے۔ آپ نے سب سے پہلے یہودیوں کو ہی ایک مشترکہ مفاد کی طرف دعوت دی اور وہ مفاد تھا مدینہ کا دفاع۔ جس کی اہم دفعات یہ تھیں : (١) اگر مدینہ پر باہر سے حملہ ہوا تو مسلمان اور یہود مل کر دفاع کریں گے۔ (٢) مسلمان اور یہود دونوں حصہ رسدی اخراجات برداشت کریں گے۔ (٣) مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کسی طرح کے بھی جھگڑے کی صورت میں حکم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات ہوگی۔ یہود کے لیے بظاہر ایسی شرائط کو تسلیم کرلینا ناممکن نظر آ رہا تھا۔ کیونکہ وہ مدینہ کی معیشت اور سیاست پر پوری طرح چھائے ہوئے تھے، مگر یہ اللہ کی خاص مہربانی اور ان کی باہمی نااتفاقی کا نتیجہ تھا کہ یہودی قبائل باری باری اور مختلف اوقات میں اس معاہدہ کو تسلیم کرتے چلے گئے۔ اس طرح جب یہ ریاست اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی تو مسلمانوں اور کافروں کے علاوہ ایک تیسرا مفاد پرستوں کا طبقہ بھی معرض وجود میں آگیا۔ جنہیں منافقین کا نام دیا گیا۔ اس سورة کی ابتدا میں انہیں تین گروہوں (مسلمان، کافر اور منافقین) کا ذکر ہوا ہے اور یہی اس کا زمانہ نزول ہے۔ حروف مقطعات کی بحث :۔ قرآن کی ٢٩ سورتوں کی ابتدا میں ایسے حروف استعمال ہوئے ہیں، ان میں سے مندرجہ ذیل تین یک حرفی ہیں : (١) سورة ص والقرآن ٣٨ (٢) سورة ق والقرآن ٥٠ (٣) سورة ن والقلم ٦٨ اور ٩ دو حرفی ہیں جن میں سے (٤) المومن ٤٠، حم تنزیل الکتاب (٥، ) سورة حم السجدۃ ٤١ حم تنزیل من (٦) الزخرف ٤٣ حم والکتاب المبین (٧) الدخان ٤٤ حم والکتاب المبین (٨) الجاثیہ ٤٥ حم تنزیل الکتاب (٩) الاحقاف ٤٦ حم تنزیل الکتاب (١٠) طہ ٢٠ طہ ما انزلنا (١١) النمل ٢٧ طس تلک آیت (١٢) یس ٢٦ یس والقرآن اور ١٣ سہ حرفی ہیں جو یہ ہیں : (١٣) یونس ١٠ الر تلک آیات (١٤) ھود ١١ الر کتاب احکمت (١٥) یوسف ١٢ الر تلک آیات ١٠١، ابراہیم ١٤، الر کتاب انزلنا ١٧، حجر ١٥، الم تلک آیات (١٨) البقرۃ ٢ الم ذلک الکتاب (١٩) آل عمران ٣ الم اللہ لا الہ (٢٠) عنکبوت ٢٩ الم احسب الناس (٢١) الروم ٣٠ الم غلبت الروم (٢٢) لقمان ٣١ الم تلک آیات (٢٣) السجدہ ٣٢ الم تنزیل الکتاب (٢٤) شعراء ٢٦ طسم تلک آیات (٢٥) القصص ٢٨ طسم تلک آیات اور مندرجہ ذیل ٢ چار حرفی ہیں : (٢٦) الاعراف ٧ المص کتاب انزلنہ (٢٧) الرعد ١٣ المر تلک آیات اور مندرجہ ذیل ٢ پانچ حرفی ہیں : (٢٨) مریم ١٩ کھیعص ذکر رحمۃ (٢٩) الشوریٰ ٤٢ حم عسق کذلک یوحی الیک۔ مجموعہ احادیث میں سے کوئی بھی ایسی متصل اور صحیح حدیث مذکور نہیں جو ان حروف کے معانی و مفہوم پر روشنی ڈالتی ہو۔ لہذا انہیں (وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ ۝) 3 ۔ آل عمران :7) کے زمرہ میں شامل کرنا ہی سب سے انسب ہے۔ ان کے متعلق جو اقوال ملتے ہیں وہ درج ذیل ہیں : ١۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ مگر احادیث صحیحہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں اور جو نام ان میں مذکور ہیں ان میں ان حروف کا ذکر نہیں۔ ٢۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے ابتدائی حصے ہیں جن کو ملانے سے اللہ تعالیٰ کا کوئی نہ کوئی نام بن جاتا ہے۔ جیسے الٰر اور حم اور ن کو ملانے سے الرحمن بن جاتا ہے۔ یہ توجیہ بھی کچھ درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ الرحمن میں بھی م اور ن کے درمیان ایک الف ہے جس کو لکھتے وقت تو کھڑی زبر سے کام چلا کر حذف کیا جاسکتا ہے مگر تلفظ میں تو حذف نہیں ہوسکتا۔ علاوہ ازیں یہ ایک لفظ تو بن گیا اب اگر مزید کوشش کی جائے تو شاید ایک آدھ لفظ اور بن جائے، سارے حروف کو اس انداز سے ترکیب دینا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے نام بن جائیں ناممکن سی بات معلوم ہوتی ہے۔ ٣۔ ایک قول یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام ہیں، اور اس سلسلہ میں بالخصوص طہ اور یس کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ توجیہ اس لحاظ سے درست نہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود جو اپنے نام بتائے ہیں وہ یہ ہیں۔ محمد، احمد، ماحی (کفر کو مٹانے والا) حاشر اور عاقب۔ (بخاری، کتاب التفسیر، تفسیر سورة صف) نیز بخاری میں مذکور ہے کہ حبشی زبان میں طہ کے معنی اے مرد ! ہیں یا ایسا آدمی جس کی زبان سے کوئی حرف نہ نکل سکے، وہ رک رک کر یا اٹک اٹک کر بات کرے اور یہ بات اس کی زبان میں گرہ کی وجہ سے ہو اور یہ تو واضح ہے کہ رسول نعوذ باللہ ایسے نہیں تھے۔ ٤۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف قرآن کے نام ہیں، جبکہ قرآن نے اپنے نام خود ہی بتا دیئے ہیں جو یہ ہیں۔ الکتاب، کتاب مبین، قرآن، قرآن مجید، قرآن کریم، قرآن عظیم، فرقان، ذکر، تذکرہ، حدیث اور احسن الحدیث ان ناموں کی موجودگی میں ایسے ناموں کی ضرورت ہی کب رہ جاتی ہے، جن کی سمجھ ہی نہ آتی ہو۔ ٥۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف سورتوں کے نام ہیں۔ یہ قول کسی حد تک درست ہے۔ مثلاً : ص، ق، طہ، یس سورتوں کے نام بھی ہیں۔ سورة القلم کو ن بھی کہا گیا ہے۔ حوامیم (جمع حم) کا ذکر بھی احادیث میں ملتا ہے۔ تاہم ان میں سے بھی بیشتر سورتیں دوسرے ناموں سے ہی مشہور ہوئیں۔ جن کا ان سورتوں میں امتیازاً ذکر آیا ہے۔ پھر یہ بھی ملحوظ رہے کہ کئی سورتوں کے دو دو نام بھی مشہور ہیں۔ ٦۔ ایک قول یہ ہے کہ الفاظ میں پورے نظام رسالت کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ مثلاً الم میں الف سے مراد اللہ، ل سے مراد جبریل اور م سے مراد محمد ہیں۔ یہ بھی ایسی توجیہ ہے جسے تمام حروف مقطعات پر لاگو نہیں کیا جاسکتا۔ ٧۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف کفار کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں کہ دیکھ لو کہ انہی مفرد حروف سے تم اپنے کلام کو ترکیب دیتے ہو، پھر تمہارے اور اللہ تعالیٰ کے کلام میں اتنا فرق ہے کہ تم سب مل کر بھی قرآن کے مقابلہ میں ایک سورت بھی اس جیسی پیش نہیں کرسکتے۔ یہ توجیہ اس لحاظ سے درست نہیں کہ جب ان الفاظ کا ٹھیک مفہوم متعین ہی نہیں تو پھر چیلنج کیسا ؟ ٨۔ ایک قول یہ ہے کہ بحساب جمل ان حروف کے عدد نکال کر جمع کرنے سے اس امت کی عمر یا قیامت کی آمد کی مدت کا اشارہ پایا جاتا ہے۔ یہ توجیہ انتہائی غیر معقول ہے۔ ایک تو جمل کے حساب کی شرعاً کچھ حیثیت نہیں۔ دوسرا انسان کے پاس کوئی ایسا علم یا ایسا ذریعہ موجود ہونا ناممکنات سے ہے۔ جس سے قیامت کی آمد کے مخصوص وقت کا حساب لگایا جاسکے۔ ٩۔ ایک قول یہ ہے کہ حروف طویل جملوں یا ناموں کے ابتدائی حروف یا مخففات ہیں اور ان کا مفہوم صرف رسول ہی جانتے تھے اور کوئی نہیں جان سکتا۔ گویا یہ عبد اور معبود کے درمیان راز و نیاز کی باتیں ہیں۔ یہ ایسی توجیہ ہے جس کے متعلق ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ واللہ اعلم بالصواب۔ ١٠۔ اور ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے سر بستہ راز ہیں جو اگرچہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں تاہم ان پر مطلع ہونا انسان کے بس کی بات نہیں۔ یہی وہ توجیہ ہے جس کی طرف ہم نے ابتدا میں اشارہ کردیا ہے اور یہی توجیہ سب سے انسب معلوم ہوتی ہے۔ ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی بعض ایسی صفات مذکور ہیں جن کا سمجھنا انسانی عقل کی بساط سے باہر ہے اور ان پر کسی عمل کی بنیاد بھی نہیں اٹھتی۔ رہی یہ بات کہ صحابہ کرام (رض) کو جس بات کی سمجھ نہیں آتی تھی تو فوراً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھ لیا کرتے تھے اور چونکہ صحابہ کرام (رض) نے ان حروف کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کبھی استفسار نہیں کیا لہذا معلوم ہوا کہ عربی زبان میں حروف مقطعات کا رواج عام تھا اور صحابہ کرام (رض) ان کے معانی بھی خوب جانتے تھے۔ پھر عربی ادب سے کچھ شاذ قسم کی مثالیں بھی پیش کی جاتی ہیں تو یہ خیال درست نہیں جب قرآنی آیات کی پوری تشریحات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صحابہ کرام (رض) کے ذریعہ ہم تک پوری صحت کے ساتھ پہنچ چکی ہیں تو پھر آخر ان حروف کی تشریح و تفسیر ہی ہم تک کیوں نہیں پہنچی۔ بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام (رض) خوب سمجھتے تھے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے ایسے راز یا صفات ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی جان نہیں سکتا۔ کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ کسی صحابی نے آپ سے یہ پوچھا ہو کہ اللہ تعالیٰ جب ہم میں سے ہر ایک کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے تو پھر وہ عرش پر کیسے متمکن ہے ؟ یا جب وہ بوقت سحر آسمان سے دنیا پر نزول فرماتا ہے تو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب کے کیا معنی ؟ ہرگز نہیں۔ بالکل یہی صورت ان حروف مقطعات کی بھی ہے۔ لہذا ان کے معانی و مفہوم نہ جاننے کے باوجود انہوں نے کبھی ان کے متعلق استفسار نہیں کیا تھا، کیونکہ یہ حروف متشابہات سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے لیے یہ بات ہی کافی ہے کہ اس بات پر ایمان لائیں کہ یہ بھی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں، نہ یہ مہمل ہیں، نہ زائد ہیں۔ بلکہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں۔ البتہ ان کے معانی و مفہوم جاننے کے نہ ہم مکلف ہیں اور نہ ہی ان پر کسی شرعی مسئلے کا دار و مدار ہے۔  Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Surah begins with the Arabic letters Alif, Lam and Mim (equivalents of A, L and M). Several Surahs begin with a similar combination of letters, for example, Ha, Mim, or Alif, Lam, Mim, Sad. Each of these letters is pronounced separately without the addition of a vowel sound after it. So, the technical term for them is مقطعات (Mugatta` at: isolated letters). According to certain commentators, ... the isolated letters are the names of the Surahs at the beginning of which they occur. According to others, they are the symbols of the Divine Names. But the majority of the blessed Companions (رض) and the generation next to them, the تابعین Tabi’ in, and also the later authoritative scholars have preferred the view that the isolated letters are symbols or mysteries, the meaning of which is known to Allah alone or may have been entrusted as a special secret to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) not to be communicated to anyone else. That is why no commentary or explanation of these letters has at all been reported from him. The great commentator Al-Qurtubi has adopted this view of the matter, which is summarized below: |"According to ` Amir Al-Sha bi, Sufyan Al-Thawri and many masters of the science of Hadith, every revealed book contains certain secret signs and symbols and mysteries of Allah; the isolated letters too are the secrets of Allah in the Holy Qur an, and hence they are among the مشتبہات (Mutashabihat: of hidden meaning), the meaning of which is known to Allah alone, and it is not permissible for us even to enter into any discussion with regard to them. The isolated letters are not, however, without some benefit to us. Firstly, to believe in them and to recite them is in itself a great merit. Secondly, in reciting them we receive spiritual blessings from the unseen world, even if we are not aware of the fact. AI-Qurtubi (رح) adds: |"The Blessed Caliphs Abu Bakr, ` Umar, ` Uthman and ` Ali (رض) and most of the Companions like ` Abdullah ibn Mas ud (رض) firmly held the view that these letters are the secrets of Allah, that we should believe in them as having descended from Allah and recite them exactly in the form in which they have descended, but should not be inquisitive about their meanings, which would be improper|". Citing Al-Qurtubi and others, Ibn Kathir too prefers this view. On the other hand, interpretations of the isolated letters have been reported from great and authentic scholars. Their purpose, however, was only to provide symbolical interpretation, or to awaken the minds of the readers to the indefinite possibilities of meanings that lie hidden in the Holy Qur an, or just to simplify things; they never wished to claim that these were the meanings intended by Allah Himself. Therefore, it would not be justifiable to challenge such efforts at interpretation since it would go against the considered judgment of veritable scholars.  Show more

سورة البقرہ نام اور تعداد آیات : اس سورت کا نام سورة بقرہ ہے اور اسی نام سے حدیث اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے جس روایت میں سورة بقرہ کہنے کو منع کیا ہے وہ صحیح نہیں (ابن کثیر) تعداد آیات دو سو چھیاسی ہے اور کلمات چھ ہزار دو سو اکیس اور حروف پچیس ہزار پانسو ہیں (ابن کثیر) زمانہ نزول : یہ ... سورت مدنی ہے، یعنی ہجرت مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی اگرچہ اس کی بعض آیات مکہ مکرمہ میں حج کے وقت نازل ہوئی ہیں مگر وہ بھی باصطلاح مفسرین مدنی کہلاتی ہیں، سورة بقرہ قرآن کریم کی سب سے بڑی سورت اور مدینہ طیبہ میں سب سے پہلے اس کا نزول شروع ہوا اور مختلف زمانوں میں مختلف آیتیں نازل ہوتی رہیں یہاں تک کہ ربا یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں اور اس کی ایک آیت واتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللّٰهِ (٢٨١: ٢) تو قرآن کی بالکل آخری آیت ہے جو ١٠ ھ ذی الحجہ کو منیٰ کے مقام پر نازل ہوئی جبکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے (قرطبی) اور اس کے اسّی نوّے دن کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی اور وحی الہی کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا، فضائل سورة بقرہ : یہ قرآن کریم کی سب سے بڑی سورت اور بہت سے احکام پر مشتمل ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ سورة ٔ بقرہ کو پڑھا کرو کیونکہ اس کا پڑھنا برکت ہے، اور اس کا چھوڑنا حسرت اور بدنصیبی ہے، اور اہل باطل اس پر قابو نہیں پاسکتے، قرطبی نے حضرت معاویہ سے نقل کیا ہے کہ اس جگہ اہل باطل سے مراد جادوگر ہیں مراد یہ ہے کہ اس سورت کے پڑھنے والے پر کسی کا جادو نہ چلے گا (قرطبی از مسلم بروایت ابوامامہ باہلی) اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس گھر میں سورة بقرہ پڑھی جائے شیطان وہاں سے بھاگ جاتا ہے (ابن کثیر از حاکم) اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سورة بقرہ سنام القرآن اور ذروۃ القرآن ہے سنام اور ذروہ ہر چیز کے اعلیٰ و افضل حصہ کو کہا جاتا ہے، اس کی ہر آیت کے نزول کے وقت اسی فرشتے اس کے جلو میں نازل ہوئے ہیں، (ابن کثیر از مسند احمد) اور حضرت ابوہریرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ اس سورت میں ایک آیۃ ایسی ہے جو تمام آیات قرآن میں اشرف و افضل ہے اور وہ آیت الکرسی ہے (ابن کثیر از ترمذی) حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ سورة بقرہ کی دس آیتیں ایسی ہیں کہ اگر کوئی شخص ان کو رات میں پڑھ لے تو اس رات کو جن شیطان گھر میں داخل نہ ہوگا اور اس کو اور اس کے اہل عیال کو اس رات میں کوئی آفت، بیماری رنج وغم وغیرہ ناگوار چیز پیش نہ آئے گی اور اگر یہ آیتیں کسی مجنون پر پڑھی جائیں تو اس کو افاقہ ہوجائے وہ دس آیتیں یہ ہیں چار آیتیں شروع سورة بقرہ کی پھر تین آیتیں درمیانی یعنی آیۃ الکرسی اور اس کے بعد کی دو آیتیں، پھر آخر سورة بقرہ کی تین آیتیں۔ احکام و مسائل مضامین و مسائل کے اعتبار سے بھی سورة بقرہ کو ایک خاص امتیاز حاصل ہے ابن عربی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ سورة بقرہ میں ایک ہزار امر اور ایک ہزار نہی اور ایک ہزار حکمتیں ایک ہزار خبر اور قصص ہیں (قرطبی وابن کثیر) یہی وجہ ہے کہ حضرت فاروق اعظم نے جب سورة بقرہ کو تفسیر کے ساتھ پڑھا تو اس کی تعلیم میں بارہ سال خرچ ہوئے اور حضرت عبداللہ بن عمر نے یہ سورت آ ٹھ سال میں پڑھی (قرطبی) سورة فاتحہ درحقیقت پورے قرآن کا خلاصہ ہے اس کے بنیادی مضامین تین ہیں اوّل اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، یعنی پروردگار عالم ہونے کا بیان دوسرے اس کا مستحق عبادت ہونا اور اس کے سوا کسی کا لائق عبادت نہ ہونا تیسرے طلب ہدایت سورة فاتحہ کا آخری مضمون صراط مستقیم کی ہدایت طلب کرنا ہے اور درحقیقت پورا قرآن اس کے جواب میں ہے کہ جو شخص صراط مستقیم چاہتا ہے قرآن ہی میں ملے گا، اسی لئے فاتحہ کے بعد پہلی سورت سورة بقرہ رکھی گئی اور اس کو ذلک الکتٰب سے شروع کرکے اس طرف اشارہ کردیا گیا کہ جس صراط مستقیم کو تم ڈھونڈہتے ہو وہ یہ کتاب ہے، اس کے بعد اس سورت میں اول ایمان کے بنیادی اصول توحید، رسالت، آخرت اجمالی طور پر اور آخر سورت میں ایمان مفصل بیان فرمایا گیا ہے اور درمیان میں ہر شعبہ زندگی، عبادات، معاملات، معاشرت، اخلاق، اصلاح، ظاہر و باطن کے متعلق ہدایات کے بنیادی اصول اور ان کے ساتھ بہت سی جزئیات بیان ہوئی ہیں، خلاصہ تفسیر، یہ کتاب ایسی ہے جس میں کوئی شبہ نہیں (یعنی قرآن کے منجانب اللہ ہونے میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں اگرچہ کوئی نافہم اس میں شبہ رکھتا ہو کیونکہ یقینی بات کسی کے شبہ کرنے میں بھی حقیقت میں یقینی ہی رہتی ہے) راہ بتلانے والی ہے خدا سے ڈرنے والوں کو جو یقین لاتے ہیں چھپی ہوئی چیزوں پر (یعنی جو چیزیں ان کے حواس وعقل سے پوشیدہ ہیں صرف اللہ و رسول کے فرمانے سے ان کو صحیح مان لیتے ہیں) اور قائم رکھتے ہیں نماز کو (قائم رکھنا یہ ہے کہ اس کو اس پابندی کے ساتھ اس کے وقت میں پورے شرائط وارکان کے ساتھ ادا کریں) اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں (یعنی نیک کاموں میں) اور وہ لوگ ایسے ہیں کہ یقین رکھتے ہیں اس کتاب پر بھی جو آپ کی طرف اتاری گئی ہے اور ان کتابوں پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری جاچکی ہیں (مطلب یہ ہے کہ ان کا ایمان قرآن پر بھی ہے اور پہلی کتابوں پر بھی اور ایمان سچا سمجھنے کو کہتے ہیں عمل کرنا دوسری بات ہے جتنی کتابیں اللہ نے پہلے انبیاء پر نازل فرمائی ہیں ان کو سچا سمجھنا فرض اور شرط ایمان ہے یعنی یہ سمجھے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی تھیں وہ صحیح ہیں خود غرض لوگوں نے جو اس میں تبدیل و تحریف کی ہے وہ غلط ہے رہ گیا عمل سو وہ صرف قرآن پر ہوگا پہلی کتابیں سب منسوخ ہوگئیں ان پر عمل جائز نہیں) اور آخرت پر بھی وہ لوگ یقین رکھتے ہیں بس یہ لوگ ہیں ٹھیک راہ پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ملی ہے اور یہ لوگ ہیں پورے کامیاب (یعنی ایسے لوگوں کو دنیا میں تو یہ نعمت ملی کہ راہ حق ملی اور آخرت میں ہر طرح کی کامیابی ان کے لیے ہے) ، حل لغات : ذٰلِكَ کسی دور کی چیز کی طرف اشارہ کے لئے استعمال ہوتا ہے، رَيْبٌ شک وشبہ، ھُدًى ہدایت سے بنا ہے اور ہدایت کے معنی رہنمائی مُتَّقِيْنَ جن میں صفت تقویٰ ہو، تقویٰ کے لفظی معنی بچنے کے ہیں مراد اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنا ہے غَيْبِ لفظی معنی ہر وہ چیز جو انسان کی نظر اور دوسرے حواس سماعت وغیرہ سے باہر ہو يـقِيْمُوْنَ اقامت سے بنا ہے جس کے معنی سیدھا کرنے کے ہیں اور نماز کا سیدھا کرنا یہ کہ آداب اور خشوع خضوع کے ساتھ ادا کی جائے رَزَقْنٰھُمْ رزق سے بنا ہے جس کے معنی ہیں روزی اور گذارے کا سامان دینا يُنْفِقُوْنَ انفاق سے بنا ہے خرچ کرنے کے معنی میں آتا ہے اٰخِرَةُ لغت میں مؤ خر اور بعد میں آنے والی چیز کو آخرہ کہا جاتا ہے اس جگہ عالم دنیا کے مقابلے میں عالم آخرت بولا گیا يُوْقِنُوْنَ ایقان سے ہے اور وہ یقین سے بنا ہے اور یقین اس کو کہتے ہیں جس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہ ہو مُفْلِحُوْنَ افلاح سے اور وہ فلاح سے بنا ہے فلاح کے معنی پوری کامیابی۔ معارف و مسائل حروف مقطعہ جو بہت سی سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کی تحقیق : بہت سی سورتوں کے شروع میں چند حرفوں سے مرکب ایک کلمہ لایا گیا ہے جیسے الۗمّۗ، حٓمٓ، الۗمٓصٓ وغیرہ ان کو اصطلاح میں حروف مقطعہ کہا جاتا ہے ان میں سے ہر حرف جدا جدا ساکن پڑھا جاتا ہے، الف، لام، میم، حروف مقطعہ جو اوائل سورة میں آئے ہیں ان کے متعلق بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ ان سورتوں کے نام ہیں بعض حضرات نے فرمایا کہ اسماء الہیہ کے رموز ہیں مگر جمہور صحابہ وتابعین اور علماء امت کے نزدیک راجح یہ ہے کہ یہ حروف رموز اور اسرار ہیں جس کا علم سوائے خدا تعالیٰ کے کسی کو نہیں اور ہوسکتا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا علم بطور ایک راز کے دیا گیا ہو جس کی تبلیغ امت کے لئے روک دی گئی ہو اسی لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان حروف کی تفسیر و تشریح میں کچھ منقول نہیں امام تفسیر قرطبی نے اپنی تفسیر میں اسی کو اختیار فرمایا ہے ان کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ ؛ عامر شعبی، سفیان ثوری اور ایک جماعت محدّثین نے فرمایا ہے کہ ہر آسمانی کتاب میں اللہ تعالیٰ کے کچھ خاص رموز و اسرار ہوتے ہیں اسی طرح یہ حروف مقطعہ قرآن میں حق تعالیٰ کا راز ہے اس لئے یہ ان متشابہات میں سے ہیں جن کا علم صرف حق تعالیٰ ہی کو ہے ہمارے لئے ان میں بحث و گفتگو بھی جائز نہیں مگر اس کے باوجود ہمارے فائدے سے خالی نہیں اول تو ان پر ایمان لانا پھر ان کا پڑھنا ہمارے لئے ثواب عظیم ہے دوسرے ان کے پڑھنے کے معنوی فوائد و برکات ہیں جو اگرچہ ہمیں معلوم نہ ہوں مگر غیب سے وہ ہمیں پہنچتے ہیں، پھر فرمایا : حضرت صدیق اکبر، فاروق اعظم، عثمان غنی، علی مرتضیٰ ، عبداللہ بن مسعود وغیرہ جمہور صحابہ کا ان حروف کے متعلق یہی عقیدہ تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اسرار ہیں، ہمیں ان پر ایمان لانا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں اور جس طرح آئے ہیں ان کی تلاوت کرنا چاہئے مگر معنی معلوم کرنے کی فکر میں پڑنا درست نہیں، ابن کثیر نے بھی قرطبی وغیرہ سے نقل کرکے اسی مضمون کو ترجیح دی ہے اور بعض اکابر علماء سے جو ان حروف کے معنی منقول ہیں اس سے صرف تمثیل و تنبیہ اور تسہیل مقصود ہے یہ نہیں کہ امر وحق تعالیٰ یہ ہے اس لئے اس کو بھی غلط کہنا تحقیق علماء کے خلاف ہے،  Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

شان نزول : (آیت) ” الم (١) ذلک الکتاب لا ریب فیہ “۔ ابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ سورة بقرہ کی پہلی چار آیات مومنوں سے بارے میں اتری ہیں، اور اس کے بعد کی دو آیتیں کافروں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور تیرہ آیات منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علام... ہ سیوطی (رح ) (١) الم (ال م) کے بارے میں عبداللہ بن مبارک، علی بن اسحاق سمرقندی، محمد بن مروان، کلبی، ابوصالح کی سند سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے کہ الف سے اللہ، لام سے جبریل اور میم سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں، دوم : الف سے اللہ تعالیٰ کی نعمتیں، لام سے اس کا لطف، میم سے اس کا ملک وبادشاہت مراد ہے، سوم : الف سے اللہ تعالیٰ کے نام کی ابتدا اللہ، لام سے لطیف، میم سے مجید مراد ہے، جہارم : اللہ اعلم سے بھی اس کی تفسیر کی گئی ہے، پنجم : یہ قسم کے الفاظ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے کہ یہ کتاب قرآن جس کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے سامنے پیش کرتے ہیں اس میں کسی قسم کے کوئی شبہ کی گنجایش نہیں ہے، کیوں کہ یہ میری کتاب ہے، اگر تم اس کتاب پر ایمان لاؤ گے تو تمہیں ہدایت دوں گا اور اگر اس پر ایمان نہیں لاؤ گے تو میں تمہیں عذاب دوں گا۔ کتاب سے مراد لوح محفوظ بھی ہے کتاب کی تفسیر اس وعدہ کے ساتھ بھی ہے جو کہ عہد میثاق میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا گیا تھا کہ میں آپ پر وحی بھیجوں گا، کتاب سے تورات وانجیل بھی مراد ہے، اس میں بھی کسی شک وشبہ کی گنجایش نہیں ہے، ان دونوں کتابوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف و توصیف مذکور ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة نام اور وجہ تسمیہ : اس سُورۃ کا نام ” بقرۃ“ اس لیے ہے کہ اس میں ایک جگہ گائے کا ذکر آیا ہے ۔ قرآن کی ہر سورۃ میں اس قدر وسیع مضامین بیان ہوئے ہیں کہ ان کے لیے مضمون کے لحاظ سے جامع عنوانات تجویز نہیں کیے جاسکتے ۔ عربی زبان اگرچہ اپنی لغت کے اعتبار سے نہایت مالدار ہے ، مگر بہر حال ... ہے تو انسانی زبان ہی ۔ انسان جو زبانیں بھی بولتا ہے وہ اس قدر تنگ اور محدود ہیں کہ وہ ایسے الفاظ یا فقرے فراہم نہیں کر سکتیں جو ان وسیع مضامین کے لیےجامع عنوان بن سکتے ہوں ۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے قرآن کی بیشتر سورتوں کے لیے عنوانات کے بجائے نام تجویز فرمائے جو محض علامت کا کام دیتے ہیں ۔ اس سُورۃ کو بقرہ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس میں گائے کے مسئلے پر بحث کی گئی ہے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ” وہ سورۃ جس میں گائے کا ذکر آیا ہے ۔ زمانہ نزول : اس سُورۃ کا بیشتر حصّہ ہجرتِ مدینہ کے بعد مدنی زندگی کے بالکل ابتدائی دَور میں نازل ہوا ہے ، اور کمتر حصّہ ایسا ہے جو بعد میں نازل ہوا اور مناسبتِ مضمون کے لحاظ سے اس میں شامل کر دیا گیا ۔ حتیٰ کہ سود کی ممانعت کے سلسلہ میں جو آیات نازل ہوئی ہیں وہ بھی اس میں شامل ہیں حالانکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کی زندگی کے بالکل آخری زمانہ میں اُتری تھیں ۔ سُورۃ کا خاتمہ جن آیات پر ہوا ہے وہ ہجرت سے پہلے مکہ میں نازل ہو چکی تھیں مگر مضمون کی مناسبت سے ان کو بھی اِسی سُورۃ میں ضم کر دیا گیا ہے ۔ شان نزول : اس سُورۃ کے سمجھنے کے لیے پہلے اس کا تاریخی پس منظر اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے: ( ۱ ) ہجرت سے قبل جب تک مکہ میں اسلام کی دعوت دی جاتی رہی ، خطاب بیشتر مشرکینِ عرب سے تھا جن کے لیے اسلام کی آواز ایک نئی اور غیر مانوس آواز تھی ۔ اب ہجرت کے بعد سابقہ یہودیوں سے پیش آیا جن کی بستیاں مدینہ سے بالکل متصل ہی واقع تھیں ۔ یہ لوگ توحید ، رسالت ، وحی ، آخرت اور ملائکہ کے قائل تھے ، اس ضابطہء شرعی کو تسلیم کرتے تھے جو خدا کی طرف سے ان کے نبی موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا ، اور اُصولاً ان کا دین وہی اسلام تھا جس کی تعلیم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلّم دے رہے تھے ۔ لیکن صدیوں کے مسلسل انحطاط نے ان کو اصل دین سے بہت دُور ہٹا *1* دیا تھا ۔ ان کے عقائد میں بہت سے غیر اسلامی عناصر کی آمیزش ہوگئی تھی جن کے لیے توراۃ میں کوئی سَنَد موجود نہ تھی ۔ ان کی عملی زندگی میں بکثرت ایسے رسُوم اور طریقے رواج پاگئے تھے جو اصل دین میں نہ تھے اور جن کے لیے توراۃ میں کوئی ثبوت نہ تھا ۔ خود توراۃ کو انہوں نے انسانی کلام کے اندر خلط ملط کر دیا تھا ، اور خدا کا کلام جس حد تک لفظاً یا معنیً محفوظ تھا اس کو بھی انہوں نے اپنی من مانی تاویلوں اور تفسیروں سے مسخ کر رکھا تھا ۔ دین کی حقیقی روح ان میں سے نکل چکی تھی اور ظاہری مذہبیت کا محض ایک بے جان ڈھانچہ باقی تھا جس کو وہ سینہ سے لگائے ہوئے تھے ۔ ان کے علماء اور مشائخ ، ان کے سردارانِ قوم اور ان کے عوام ، سب کی اعتقادی ، اخلاقی اور عملی حالت بگڑ گئی تھی ، اور اپنے اس بگاڑ سے ان کو ایسی محبت تھی کہ وہ کسی اصلاح کو قبول کرنے پر تیار نہ ہوتے تھے ۔ صدیوں سے مسلسل ایسا ہو رہا تھا کہ جب کوئی اللہ کا بندہ انہیں دین کا سیدھا راستہ بتانے آتا تو وہ اسے اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے اور ہر ممکن طریقہ سے کوشش کرتے تھے کہ وہ کسی طرح اصلاح میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ یہ لوگ حقیقت میں بگڑے ہوئے مسلمان تھے جن کے ہاں بدعتوں اور تحریفوں ، موشگافیوں اور فرقہ بندیوں ، استخواں گیری و مغز افگنی ، خدا فراموشی و دنیا پرستی کی بدولت انحطاط اس حد کو پہنچ چکا تھا کہ وہ اپنا اصل نام ”مسلم“ تک بھُول گئے تھے ، محض ” یہُودی“ بن کر رہ گئے تھے اور اللہ کے دین کو انہوں نے محض نسلِ اسرائیل کی آبائی وراثت بنا کر رکھ دیا تھا ۔ پس جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہدایت فرمائی کہ ان کو اصل دین کی طرف دعوت دیں ، چنانچہ سُورۂ بقرہ کے ابتدائی پندرہ سولہ رکوع اسی دعوت پر مشتمل ہیں ۔ ان میں یہودیوں کی تاریخ اور ان کی اخلاقی و مذہبی حالت پر جس طرح تنقید کی گئی ہے ، اور جس طرح ان کے بگڑے ہوئے مذہب و اخلاق کی نمایاں خصُوصیّات کے مقابلہ میں حقیقی دین کے اصول پہلو بہ پہلو پیش کیے گئے ہیں ، اس سے یہ بات بالکل آئینے کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ایک پیغمبر کی اُمّت کے بگاڑ کی نوعیت کیا ہوتی ہے ، رسمی دینداری کے مقابلہ میں حقیقی دینداری کس چیز کا نام ہے ، دین حق کے بنیادی اصول کیا ہیں اور خدا کی نگاہ میں اصل اہمیّت کِن چیزوں کی ہے ۔ ( ۲ ) مدینہ پہنچ کر اسلامی دعوت ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی تھی ۔ مکّہ میں تو معاملہ صرف اُصُولِ دین کی تبلیغ اور دین قبول کرنے والوں کی اخلاقی تربیت تک محدُود تھا ، مگر جب ہجرت کے بعد عرب کے مختلف قبائل کے وہ سب لوگ جو اسلام قبول کر چکے تھے ، ہر طرف سے سمٹ کر ایک جگہ جمع ہونے لگے اور انصار کی مدد سے ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست کی بنیاد پڑ گئی تو اللہ تعالیٰ نے تمدّن ، معاشرت ، معیشت ، قانون اور سیاست کے متعلق بھی اُصُولی ہدایات دینی شروع کیں اور یہ بتایا کہ اسلام کی اساس پر یہ نیا نظام زندگی کس طرح تعمیر کیا جائے ۔ اس سُورۃ کے آخری ۲۳ رکوع زیادہ تر انہی ہدایات پر مشتمل ہیں ، جن میں سے اکثر ابتدا ہی میں بھیج دی گئی تھیں اور بعض متفرق طور پر حسبِ ضرورت بعد میں بھیجی جاتی رہیں ۔ ( ۳ ) ہجرت کے بعد اسلام اور کفر کی کشمکش بھی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی تھی ۔ ہجرت سے پہلے اسلام کی دعوت خود کفر کے گھر میں دی جا رہی تھی اور متفرق قبائل سے جو لوگ اسلام قبول کرتے تھے وہ اپنی اپنی جگہ رہ کر ہی دین کی تبلیغ کرتے اور جواب میں مصائب اور مظالم کے تختہء مشق بنتے تھے ۔ مگر ہجرت کے بعد جب یہ منتشر مسلمان مدینہ میں جمع ہو کر ایک جتھا بن گئے اور انہوں نے ایک چھوٹی سی آزاد ریاست قائم کر لی تو صُورتِ حال یہ ہوگئی کہ ایک طرف ایک چھوٹی سی بستی تھی اور دُوسری طرف تمام عرب اس کا استیصال کر دینے پر تُلا ہوا تھا ۔ اب اس مُٹھی بھر جماعت کی کامیابی کا ہی نہیں بلکہ اس کے وجود و بقا کا انحصار بھی اس بات پر تھا کہ اوّلاً وہ پُورے جوش و خروش کے ساتھ اپنے مسلک کی تبلیغ کر کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم عقیدہ بنانے کی کوشش کرے ۔ ثانیاً وہ مخالفین کا برسرِ باطل ہونا اس طرح ثابت و مبرہن کر دے کہ کسی ذی عقل انسان کو اس میں شبہہ نہ رہے ۔ ثالثًا بے خان و ماں ہونے اور تمام ملک کی عداوت و مزاحمت سے دوچار ہونے کی بنا پر فقر و فاقہ اور ہمہ وقت بے امنی و بے اطمینانی کی جو حالت ان پر طاری ہو گئی تھی اور جن خطرات میں وہ چاروں طرف سے گھِر گئے تھے ، ان میں وہ ہراساں نہ ہوں ، بلکہ پورے صبر وثبات کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کریں اور اپنے عزم میں ذرا تزلزل نہ آنے دیں ۔ رابعاً وہ پُوری دلیری کے ساتھ ہر اس مسلّح مزاحمت کا مسلّح مقابلہ کر نے کے لیے تیار ہو جائیں جو ان کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے کسی طاقت کی طرف سے کی جائے ، اور اس بات کی ذرا پروا نہ کریں کہ مخالفین کی تعداد اور ان کی مادّی طاقت کتنی زیادہ ہے ۔ خامسًا ان میں اتنی ہمّت پیدا کی جائے کہ اگر عرب کے لوگ اس نئے نظام کو ، جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے ، فہمائش سے قبول نہ کریں ، تو انہیں جاہلیّت کے فاسد نظام زندگی کو بزور مٹا دینے میں بھی تامل نہ ہو ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے اس سُورۃ میں ان پانچوں امور کے متعلق ابتدائی ہدایات دی ہیں ۔ ( ٤ ) دعوت اسلامی کے اس مرحلہ میں ایک نیا عنصر بھی ظاہر ہونا شروع ہو گیا تھا ، اور یہ منافقین کا عنصر تھا ۔ اگرچہ نفاق کے ابتدائی آثار مکّہ کے آخری زمانہ میں بھی نمایاں ہونے لگے تھے ، مگر وہاں صرف اس قسم کے منافق پائے جاتے تھے جو اسلام کے برحق ہونے کے تو معترف تھے اور ایمان کا اقرار بھی کرتے تھے لیکن اس کے لیے تیار نہ تھے کہ اس حق کی خاطر اپنے مفاد کی قربانی اور اپنے دُنیوی تعلقات کا اِنقطاع اور ان مصائب و شدائد کو بھی برداشت کرلیں جو اس مسلکِ حق کو قبول کرنے کے ساتھ ہی نازل ہونے شروع ہو جاتے تھے ۔ مدینہ پہنچ کر اس قسم کے منافقین کے علاوہ چند اور قسموں کے منافق بھی اسلامی جماعت میں پائے جانے لگے ۔ ایک قسم کے منافق وہ تھے جو قطعاً اسلام کے منکر تھے اور محض فتنہ برپا کرنے کے لیے جماعتِ مسلمین میں داخل ہو جاتے تھے ۔ دوسری قِسم کے منافق وہ تھے جو اسلامی جماعت کے دائرۂ اقتدار میں گھِر جانے کی وجہ سے اپنا مفاد اسی میں دیکھتے تھے کہ ایک طرف مسلمانوں میں بھی اپنا شمار کرائیں اور دُوسری طرف مخالفینِ اسلام سے بھی ربط رکھیں تاکہ دونوں طرف کے فوائد سے متمتع ہوں اور دونوں طرف کے خطرات سے محفوظ رہیں ۔ تیسری قسم ان لوگوں کی تھی جو اسلام اور جاہلیّت کے درمیان متردّد تھے ۔ انہیں اسلام کے برحق ہونے پر کامل اطمینان نہ تھا ۔ مگر چونکہ ان کے قبیلے یا خاندان کے بیشتر لوگ مسلمان ہو چکے تھے اس لیے یہ بھی مسلمان ہوگئے تھے ۔ چوتھی قسم میں وہ لوگ شامل تھے جو امرِ حق ہونے کی حیثیت سے تو اسلام کے قائل ہو چکے تھے مگر جاہلیّت کے طریقے اور اوہام اور رسمیں چھوڑنے اور اخلاقی پابندیاں قبول کرنے اور فرائض اور ذمہ داریوں کا بار اُٹھانے سے ان کا نفس انکار کرتا تھا ۔ سُورۃ بقرہ کے نزول کے وقت ان مختلف اقسام کے منافقین کے ظہُور کی محض ابتدا تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف صرف اجمالی اشارات فرمائے تھے ۔ بعد میں جتنی جتنی ان کی صفات اور حرکات نمایاں ہوتی گئیں اسی قدر تفصیل کے ساتھ بعد کی سورتوں میں ہر قسم کے منافقین کے متعلق ان کی نوعیت کے لحاظ سے الگ الگ ہدایات بھیجی گئیں ۔ ”  Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

تعارف : یہ قرآن کریم کی سب سے لمبی سورت ہے، اس کی آیات ٦٧ تا ٧٣ میں اس گائے کا واقعہ مذکور ہے جسے ذبح کرنے کا حکم بنی اسرائیل کو دیا گیا تھا، اس لئے اس سورت کا نام سورۃ البقرۃ ہے، کیونکہ بقرہ عربی میں گائے کو کہتے ہیں، سورت کا آغاز اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کے بیان سے ہوا ہے، ... اسی ضمن میں انسانوں کی تین قسمیں یعنی، مومن، کافر اور منافق بیان کی گئی ہیں، پھر حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے، تاکہ انسان کو اپنی پیدائش کا مقصد معلوم ہو، اس کے بعد آیات کے ایک طویل سلسلہ میں بنیادی طو پر خطاب یہودیوں سے ہے جوبڑی تعداد میں مدینہ منورہ کے آس پاس آباد تھے ان پر اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں نازل فرمائیں اور جس طرح انہوں نے ناشکری اور نافرمانی سے کام لیا اس کا مفصل بیان ہے، پہلے پارہ کے تقریباً آخر میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ ہے، اس لئے کہ انہیں نہ صرف یہودی اور عیسائی بلکہ عرب کے بت پرست بھی اپنا پیشوا مانتے تھے، ان سب کو یاد دلایا گیا کہ وہ خالص توحید کے قائل تھے اور انہوں نے کبھی کسی قسم کی شرک کو گوارہ نہیں کیا، اسی ضمن میں بیت اللہ کی تعمیر اور اسے قبلہ بنانے کا موضوع زیر بحث آیا ہے، دوسرے پارہ کے شروع میں اس کے مفصل احکام بیان کرنے کے بعد اس سورت میں مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے متعلق بہت سے احکام بیان فرمائے گئے ہیں جن میں عبادت سے لے کر معاشرت، خاندانی امور اور حکمرانی سے متعلق بہت سے مسائل داخل ہیں۔ یہ سورت مدنی ہے اور اس میں 286 آیتیں اور 40 رکوع ہیں  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تعارف سورة البقرہ سورۂ بقرہ قرآن کریم کی سب سے بڑی اور اہم ترین سورت ہے جس میں بنی اسرائیل اور امت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تفصیل سے خطاب کرنے کے بعد عبادات، اسلامی عقائد، اخلاق، اعمال اور زندگی گذارنے کے بنیادی احکامات ارشاد فرمائے گئے ہیں۔ نبی کریم حضرت محمد مصطفےٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ...  وسلم) نے بھی اس سورت کے بہت سے فضائل بیان فرمائے ہیں۔ (١) حضرت ابی امامہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قرآن کریم پڑھا کرو۔ قیامت کے دن یہ پڑھنے والوں کی شفاعت کرے گا ۔ (خاص طور پر) سورة بقرہ اور سورة آل عمران جو کہ ” زھراوین “ (دو نہایت روشن چیزیں) ہیں ان کو پڑھا کرو کیوں کہ قیامت کے دن یہ اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت کریں گے۔ سورة بقرہ پڑھا کرو۔ اس کے پڑھنے میں بڑی برکت اور اس کے چھوڑ دینے میں بڑی حسرت ہے۔ دھوکے باز اور فریبی (شیاطین) اس کے مقابلے کی طاقت نہیں رکھتے (صحیح مسلم ) (٢) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سورة بقرہ کو ھان کی طرح ہے (مسند احمد) اونٹ کے جسم میں سب سے نمایاں اور اونچے حصے کو کو ھان کہا جاتا ہے۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اونٹ کے جسم میں سب سے اونچے اور نمایاں حصے کو کوہان کہا جاتا ہے اسی طرح اس سورت کا مقام بھی بہت بلند اور نمایاں ہے۔ (٣) امیر المومنین سیدنا عمر فاروق اعظم (رض) جنہیں اللہ تعالیٰ نے فہم قرآن کا ایک خاص ذوق عطا فرمایا تھا انہوں نے نبی کریم خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سورة بقرہ کو کئی سال میں پڑھا اور سیکھا۔ (٤) حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ ہم میں سے جو شخص بھی سورة بقرہ اور سورة آل عمران جانتا تھا اس کی بہت عزت کی جاتی تھی۔ (صحیح مسلم ) (٥) حضرت اسید حضیر (رض) ایک رات سورة بقرہ کی تلاوت کر رہے تھے۔ ان کا گھوڑا ان کے پاس ہی بندھا ہوا تھا اچانک ان کا گھوڑا اچھلنے کودنے لگا۔ انہوں نے جیسے ہی پڑھنا بند کیا تو گھوڑا بھی چپ چاپ کھڑا ہوگیا۔ جب انہوں نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا تو گھوڑے نے پہلے کی طرح اچھل کود شروع کردی۔ یہ واقعہ تین مرتبہ پیش آیا۔ فرماتے ہیں کہ میرا بیٹا قریب ہی سو رہا تھا مجھے ڈر ہوا کہ کہیں گھوڑے کی اس اچھل کود میں میرا بچہ کچلا نہ جائے میں نے پڑھنا بند کردیا۔ فرماتے ہیں کہ میں نے اوپر کی طرف دیکھا تو ایک روشن بادل دکھائی دیا جس میں مشعلیں سی روشن تھیں۔ پھر میں اس کو دیکھنے کے لئے باہر نکل آیا۔ اور دیکھتا رہا صبح ہوئی تو میں نے تمام صورت حال نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں عرض کردی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے تھے جو تمہاری تلاوت سن رہے تھے ۔ اگر تم صبح تک پڑھتے رہتے تو وہ فرشتے بھی موجود رہتے اور سب کو نظر آتے ۔ آپ نے دو مرتبہ فرمایا ” ابن حضیر اس کو پڑھا کرو “ ” اس کو پڑھا کرو “ (بخاری مسلم ) ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ سورة بقرہ بڑی اہم سورت ہے جس کا پڑھنا ایک بہت بڑی سعادت ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سورة بقرہ کو اللہ کے فرشتے بھی بڑے ذوق اور شوق سے سنتے ہیں۔ سورۂ بقرہ، دین ابراہیمی اور کفار مکہ بقرہ کے دو معنی آتے ہیں (١) گائے (٢) بیل۔ جس طرح لفظ انسان سے عورت بھی مراد ہے اور مرد بھی اسی لیے مفسرین کرام میں سے کسی نے & بقرہ & کا ترجمہ گائے کا کیا ہے اور کسی نے بیل کا۔ اس سورت میں بقرہ (گائے۔ بیل ) کا ایک بہت اہم واقعہ بیان کیا گیا ہے جس کی مناسبت سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سورت کا نام ہی بقرہ رکھ دیا۔ بقرہ کا واقعہ یہ تھا کہ ایک قبیلے کے سردار کو کسی نے قتل کردیا تھا ۔ قاتل کا پتہ نہ چلنے کی وجہ سے بنی اسرائیل ایک دوسرے پر الزام لگانے لگے جس سے بنی اسرائیل میں خانہ جنگی کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ قوم کے کچھ ذمہ دار لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچے اور کہا کہ آپ تو کہتے ہیں کہ اللہ آپ سے کلام کرتا ہے اس سے پوچھ کر قاتل کا نام بتا دیجئے تا کہ آپ کی قوم آپس کی جنگ سے بچ جائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب اللہ کی بارگاہ میں دعا کی ۔ اللہ نے فرمایا کہ اگر وہ لوگ ایک بقرہ ذبح کردیں اور اس کے گوشت کا ٹکڑا مرنے والے کے جسم سے لگا دیں تو مرنے والا زندہ ہو کر قاتل کا نام خود بتا دے گا۔ مگر اس میں مشکل یہ تھی کہ یہ قوم گائے کو اپنا معبود سمجھ کر اس کی عبادت کرتی تھی۔ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بےت کے سوالات شروع کر دئیے تا کہ وہ تنگ آکر یہ کہہ دیں کہ گائے کے بجائے کوئی اور جانور ذبح کرلیں لیکن اللہ اور اس کے رسول کو عاجز اور بےسمجھنے والے خود ہی مشکلات میں پڑے گئے۔ آخر کار انہوں نے بقرہ کو ذبح کیا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ واقعہ بیان کیا ہے جس سے قوم بنی اسرائیل کی پوری ذہنیت اور ان کے سوچنے کا انداز سامنے آجاتا ہے۔ اس قوم کی بنیادی خرابی یہ تھی کہ شدید بےعملی اور کافرانہ انداز کے باوجود ان کو اس بات پر بڑا گھمنڈ تھا کہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور پیغمبروں کی اولاد ہیں ۔ اللہ کے محبوب اور پسندیدہ بندے ہیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کے علاوہ سب کافر ہیں صرف وہی دین دار لوگ ہیں ۔ وہ کچھ بھی کرتے رہیں جنت صرف ان کے لئے مخصوص ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بتا یا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جس دین کو لے کر آئے اور پوری زندگی اسی دین پر محنت کرتے رہے وہ دین کفر و شرک ، بدعتوں ، جہالتوں اور خرابیوں سے پاک تھا۔ اسی سچے دین کو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش فرما رہے ہیں۔ اب اس دین سے وابستگی ہی پوری دنیا کو کفر و شرک سے نجات دلا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ میں تین مرتبہ ” یبنی اسرائیل “ کہہ کر جس قوم کو للکارا ہے اسے سیکڑوں سال تک ہر طرح کی نعمتوں سے نواز کر دنیا میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمایا تھا۔ اس قوم میں سیکڑوں پیغمبروں کو بھیجا گیا۔ دنیا بھر میں عزت و عظمت، شہرت و ناموری، مال و دولت ، حکومت و سلطنت امامت و پیشوائی۔ اس وقت کی دنیا میں بسنے والی قوموں پر برتری اور طرح طرح کی نعمتوں سے مالا مال کیا تھا لیکن قوم بنی اسرائیل نے ان نعمتوں پر شکر ادا کرنے کے بجائے نا شکریوں کی انتہا کردی تھی۔ جو بھی اللہ کے پیغمبر تشریف لاتے ان کی اطاعت کرنے کے بجائے ان کو جھٹلانا، ستانا اور قتل کرنا ان کا مزاج بن چکا تھا۔ آخر کار اللہ کا فیصلہ آگیا۔ ان سے عظمتوں اور نعمتوں کو چھین کر ان پر ظالم حکمران مسلط کر دئیے۔ اور ان پر طرح طرح کے عذاب نازل کئے گئے۔ پھر وہ قوم اس طرح دنیا میں در بدر ہوگئی کہ جب بھی انہیں عروج اور ترقی نصیب ہوئی حالات نے اس طرح کروٹ لی کہ اچانک ان کی عزت و عظمت خاک میں مل گئی۔ اور پھر ان کو اپنا قومی وجود بچانا بھی مشکل ہوگیا۔ اور یہ سلسلہ قیامت تک اسی طرح چلتا رہے گا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) جو اللہ کے پیغمبر ہیں ان کا لقب اسرائیل تھا۔ ان کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا گیا ہے بعد میں جب بنی اسرائیل نے اپنے آپ کو ” یہودا “ کی طرف منسوب کر کے یہودی کہنا شروع کیا تو وہ اسی نام سے مشہور ہوگئے ۔ قرآن کریم میں پوری وضاحت سے بیان کردیا گیا ہے کہ کفار، مشرکین ، یہودیوں اور عیسائیوں نے اللہ کے دین کو بری طرح تبدیل کر کے اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ انہوں نے ہدایت کے بجائے گمراہی کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ اب اگر وہ سچی ہدایت اور آخرت کی کامیابی چاہتے ہیں تو انہیں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس دین پر چلنا ہوگا جسے وہ اللہ کی طرف سے پیش فرما رہے ہیں اور حضرت محمد مصطفےٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دامن اطاعت و محبت سے پورے خلوص کے ساتھ وابستگی اختیار کرنے پڑے گی۔ فرمایا کہ اگر اللہ اپنے آخری نبی اور آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کتاب ہدایت کو نہ بھیجتا تو ساری دنیا جہالت، کفر اور شرک کے اندھیروں میں بھٹکتی رہتی اور ان کو راہ ہدایت نصیب نہ ہوتی۔ اللہ کی طرف سے یہ ہدایت کا آخری موقع ہے۔ اگر اس موقع کا فائدہ نہ اٹھایا گیا تو پھر دنیا والوں کو اپنی زندگی کے اندھیروں کو دور کرنے کا موقع نصیب نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو بھی صاف صاف بیان کردیا ہے کہ دین اسلام کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ہے بلکہ وہ ایک نظریہ حیات ہے جو بھی اس پر عمل کرے گا وہ کامیاب ہوگا ۔ کوئی شخص اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو کہ وہ فلاں کی اولاد اور اس کا فلاں خاندان سے تعلق ہے۔ جو بھی ایمان اور عمل صالح کی جتنی دولت لے کر آئے گا اسی سے اس کو آخرت میں اعلیٰ ترین مقام عطا کیا جائے گا۔ خلاصہ سورة بقرہ سورة بقرہ جو تقریباً ڈھائی سیپاروں پر مشتمل ہے قرآن کریم کی سب سے بڑی اور اہم سورت ہے۔ چالیس رکوع، دو سو چھیاسی آیات اور زندگی گذارنے کے ایسے یقینی اصول بیان کئے گئے ہیں جن میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ کتاب ہدایت ہے جس سے فائدہ اٹھا کر وہی کامیاب ہو سکتے ہیں جو تقویٰ ، پرہیز گاری اور غیب کی ہر حقیقت پر ایمان لا کر نماز کو قائم کرتے ہیں۔ جو اللہ کے راستے میں اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے خرچ کرتے ہیں، قرآن کریم اور اس سے پہلے جن کتابوں کو نازل کیا گیا ہے ان پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت کی زندگی پر یقین کامل رکھتے ہیں ایسے لوگ نہ صرف کامیاب ہیں بلکہ ان کا رب خود ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ لیکن ایسے بےحس لوگ جن پر کسی اچھی بات اور نصیحت کا اثر نہیں ہوتا۔ جنہوں نے اپنی آنکھوں اور کانوں کو بند کرلیا ہے اور ہر حقیقت کو دیکھنے کے بجائے اپنی آنکھوں پر پردے ڈال رکھے ہیں اللہ ایسے لوگوں کی آنکھوں، کانوں اور دلوں پر بدنصیبی کی مہریں لگا کر ان کو جہنم کا ایندھن بنا دیتا ہے۔ کچھ لوگ اپنے ذاتی مفاد کے لئے مومنوں اور کافروں دونوں سے ملے رہتے ہیں جو زبان سے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لے آئے ہیں اور ہمیں آخرت کی زندگی پر بھی یقین ہے لیکن ان کے دل مومن نہیں ہوتے۔ وہ اپنے طرز عمل سے اللہ کو اور ایمان والوں کو فریب دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ خود ایک بہت بڑے دھوکے میں مبتلا ہیں ان کا انجام دہری زندگی گزارنے کی وجہ سے دردناک عذاب ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اصلاح کے نام پر فساد کرتے ہیں جو ایمان اور سچائی کے راستے پر چلنے والوں کو حقیر اور بیوقوف سمجھتے ہیں۔ جن کی گھریلو اور باہر کی زندگی بالکل مختلف ہوتی ہے وہ ایسے مال کے سوداگر ہیں جس میں کسی طرح کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ زندگی بھر اندھیروں میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ وہ بدترین انجام کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو پیدا کر کے جسم اور روح کی غذائیں پید ا کی ہیں۔ پوری کائنات کا ذرہ ذرہ اور اس کی ہر چیز کو انسانی جسم کی ضرورت کے لئے بنایا ہے اور اپنے پیغمبروں کے ذریعہ اپنا کلام بھیج کر انسانی روح کی غذا بنایا ہے۔ اللہ نے آخر میں اس کلام قرآن مجید کو اپنے آخری نبی اور آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا جس میں کسی شک اور شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ نے قیامت تک آنے والوں کو چیلنج کیا ہے کہ اگر کسی کو اس کے کلام الٰہی ہونے میں شک اور شبہ ہے تو وہ قرآن کریم کی جیسی ایک سورت ہی بنا کرلے آئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ساری دنیا کے لئے ایک ایسا کھلا چیلنج ہے جس کا جواب نہ تو گذشتہ ڈیڑھ ہزار سال میں دیا گیا ہے اور نہ دیا جاسکے گا۔ کیوں کہ قرآن مجید ایک ایسا معجزہ ہے جس میں ہر بڑی سے بڑی حقیقت کو معمولی اور چھوٹی سے چھوٹی مثالوں سے اس طرح سمجھایا گیا ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں ذرہ برابر ایمان کی روشنی ہوگی وہ راہ ہدایت حاصل کرتے چلے جائیں گے۔ انسان جسے اللہ نے بیشمار صلاحیتوں سے نوازا ہے اسے اپنا نائب اور خلیفہ بنایا ہے جس کا کام عدل و انصاف اور علم کی سچائیوں کو پھیلانا ہے۔ یہی وہ علمی صلاحیت تھی جس نے اسے عظمت کی بلندیاں عطا کیں اور فرشتوں کو بھی اس کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا۔ جب شیطان نے اس انسانی عظمت کا انکار کیا تو قیامت تک کے لئے اس کو بارگاہ الٰہی سے نکال دیا گیا۔ اس طرح اللہ نے یہ بتا دیا کہ اس کائنات میں سب سے افضل اور اعلیٰ مخلوق انسان ہی ہے۔ اس سے زیادہ انسان کی عظمت اور کیا ہوگی کہ اللہ نے اپنے تمام پیغمبروں کو انسانوں ہی میں سے بنایا ہے۔ وہ بشر ہوتے ہیں مگر ایسے بشر جن کی عظمت سے ساری کائنات کو عزت و عظمت نصیب ہوتی ہے۔ سورة بقرہ کی آیت نمبر ٤٧ سے آیت نمبر ١٢٣ تک مسلسل دس رکوعوں میں بنی اسرائیل کے واقعات زندگی کو بیان کر کے فرمایا ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو ہر طرح کی نعمتوں اور عظمتوں سے نوازا تھا مگر انہوں نے ہر نعمت پر نا شکری کرنا اللہ سے کئے ہوئے ہر عہد اور معاہدہ کو توڑنا اور بد عملی کی وہ انتہا کردی تھی جس کی وجہ سے بنی اسرائیل کو ہر عزت و عظمت کے مقام سے معزول کرنا پڑا اور ان کی بدکرداریوں کی وجہ سے ان پر قیامت تک کے لئے عذاب مسلط کردیا گیا جس سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بنی اسرائیل کی زندگی کے تاریخی واقعات اور عروج زوال کا ذکر کرنے کے بعد “ امت وسط ” اور “ خیر امت ” کا ذکر فرمایا ہے۔ وہ امت جس کے لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اتنی زبردست قربانیاں دیں کہ اللہ نے انہیں ساری دنیا کی قوموں کی امامت و پیشوائیت کا مقام عطا فرمایا۔ اسی مقصد کو لے کر سارے پیغمبر تشریف لاتے رہے اور اس مقصد اور دین کے اصولوں کی تکمیل خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کی گئی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نہ صرف دین اسلام کی تکمیل فرمائی گئی بلکہ نعمت نبوت کو بھی مکمل کردیا گیا اور اللہ نے اس امت کو وہ پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عطا فرمائے ہیں جو اللہ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ جن کے بعد کوئی کسی طرح کا نبی اور رسول نہیں آسکتا کیونکہ اللہ نے دین بھی مکمل کردیا۔ نبوت بھی مکمل کردی بلکہ کائنات کا مقصد بھی مکمل کردیا۔ اب قیامت ہی آئے گی اور پھر اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کو “ بہترین اور معتدل امت ” بنا کر انہیں ہر طرح کی عظمتوں سے نواز دیا ہے۔ قبلہ کو بیت المقدس سے تبدیل کر کے مسجد الحرام اور بیت اللہ کا رخ دے کر در حقیقت بنی اسرائیل کو ان کی ہر عظمت سے باقاعدہ معزول کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے اور اس خیر امت کو اللہ کے دین کی عظمت کے لئے ذمہ دار بنایا گیا ہے۔ اب یہ آخری نبی کی آخری امت ہے۔ ساری انسانیت کی بھلائی، عزت، سربلندی صرف خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لائے ہوئے دین اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقوں پر چلنے میں مل سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو قرآن کریم جیسی عظیم کتاب اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث اور پر نور سنتوں سے آراستہ کر کے قیامت تک آنے والی نسلوں کی ہدایت اور رہنمائی کا فریضہ سونپ دیا ہے۔ اب صرف ہر طرح کی کامیابیوں اور کامرانیوں کی سعادت ان ہی لوگوں کے حصے آئے گی جو حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دامن اطاعت و محبت سے وابستہ ہوں گے لیکن جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث اور سنتوں کو چھوڑ کر دوسرے طریقوں پر چلنے کی کوشش کریں گے۔ وہ دنیا اور آخرت میں سخت ناکام اور بد نصیب لوگوں میں شامل ہوں گے۔ بنی اسرائیل اور خیر امت کا ذکر کرنے کے بعد آیت نمبر ١٥٣ سے سورت کے آخر تک ایسے چالیس اصول زندگی ارشاد فرمائے گئے ہیں جن پر عمل کرنے سے ہر مومن کی دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں گی۔ شاید ان اصولوں میں اس طرف بھی اشارہ کردیا گیا ہے کہ اے امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر تم یہ چاہتے ہو کہ بنی اسرائیل کی طرح نافرمانیوں اور نا شکریوں میں مبتلا نہ ہو تو سورة بقرہ اور اس کے بعد پورے قرآن کریم میں بیان کئے ہوئے اصولوں پر چلو تو تم کبھی راستہ نہ بھٹکو گے صراط مستقیم ہی تمہارا مقدر ہوگا۔ اب آپ ان چالیس اصولوں کی تفصیل ملاحظہ کیجئے جنہیں سورة بقرہ میں بیان فرمایا گیا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کریم کے ابدی اصولوں اور خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل اطاعت اور محبت کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پر نور سنتوں پر چلنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین   Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

سورة البقرۃ کا تعارف ” سورة البقرۃ “ کے چالیس رکوع اور دو سو چھیاسی آیات، چھ ہزار اکتیس الفاظ اور بیس ہزار حروف بنتے ہیں۔ اس سورة مبارکہ کی چند آیات کے سوا باقی تمام آیات مدینہ طیبہ میں نازل ہوئیں۔ اس میں بنی اسرائیل کے ایک مقتول کو دوسرے مقتول یعنی ذبیحہ گائے کے ذریعہ زندہ کیا گیا۔ جس سے بنی اسرا... ئیل کے اندھے قتل کا فیصلہ سنایا گیا ہے اس لیے اس سورة کا نام ” البقرۃ “ قرار پایا۔ اس میں شرک کی نفی اور موت کے بعد جی اٹھنے کے عملی ثبوت پیش کیے گئے ہیں۔ اس سورة مبارکہ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے بارے میں دو ٹوک الفاظ میں بتایا ہے کہ اس کے من جانب اللہ ہونے، رشد و ہدایت اور اس کی رہنمائی میں کسی قسم کے شبہ کی گنجائش اور نقصان کا اندیشہ نہیں لیکن اس سے وہی لوگ مستفید ہو پائیں گے جو اپنے رب کی رہنمائی کی چاہت، پیروی اور اس کی ممنوع کردہ چیزوں کو مسترد کریں گے۔ اس کے بعد ایمان اور اسلام کے بنیادی ارکان اور ان پر عمل کرنے والوں کو دنیا و آخرت کی کامیابی کا مژدہ سنایا گیا ہے۔ قرآن مجید کا انکار کرنے والوں کو ان کے انجام سے ڈرایا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا ہے کہ خدا کے منکروں کو جس طرح چاہیں سمجھائیں یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ بعد ازاں متذبذب اور دو غلے کردار کے حامل اور مفاد پرست لوگوں کی نشان دہی اور ان کے انجام کے بارے میں واضح فرمایا ہے کہ یہ خطرناک ‘ کذاب اور مسلمانوں کی آستینوں کے سانپ ہیں۔ ان سے بچ کر رہنا اور یہ دھوکہ باز اور ابن الوقت اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکیں گے۔ اس کے بعد قرآن مجید اور انبیاء کی دعوت یعنی اللہ کی توحید اور اس کے ایسے آفاقی اور ٹھوس دلائل دیئے ہیں۔ جن سے شہری ‘ دیہاتی ‘ ان پڑھ ‘ تعلیم یافتہ غرض کہ ہر انسان کو واسطہ پڑتا ہے اور وہ ان سے استفادہ کرتا ہے اور ہر کوئی جانتا ہے کہ زمین و آسمان اور دنیا ومافیہا کی چیزوں کو بنانے اور سجانے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ ان دلائل کے بعد ہر انسان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسے صرف ایک رب کی عبادت کرنا چاہیے پھر قرآن مجید کے بارے میں چیلنج دیا ہے کہ اگر تمہیں اس کے من جانب اللہ ہونے میں شک ہے تو اللہ تعالیٰ کے سوا سب مل کر کوئی ایک سورة بنا لاؤ۔ چوتھے رکوع میں آدم (علیہ السلام) کا مقام و مرتبہ بیان کے بعد شیطان کی شرارتوں اور سازشوں اور حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ اس کی عداوت اور کش مکش کا ذکر کرتے ہوئے آدم (علیہ السلام) کے پھسلنے اور ان کو زمین پر بھیجنے کا مقصد واضح فرمایا ہے کہ اگر شیطان کی شیطنت اور دنیا وآخرت کے خوف وخطر سے بچنا اور اپنا کھویا ہوا مقام جنت حاصل کرنا چاہتے ہو تو صرف اور صرف اللہ کی ہدایات کی پیروی کرتے رہنا۔ جس سے تمہیں دنیا میں امن نصیب ہوگا اور آخرت کے خوف و غم سے مامون ہوجاؤ گے۔ پھر دنیا کی اقوام میں ایک معزز اور منفرد قوم کے عروج وزوال کے اسباب کا نہایت ہی تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہوئے اس پر ناصحانہ انداز میں تبصرہ کیا گیا ہے۔ بنی اسرائیل کے سیاسی، جہادی اور مذہبی پیشواؤں کے کردار پر روشنی ڈالی گئی کہ وہ اس قدر دین کی حقیقت اور اخلاق کی دولت سے تہی دامن ہوئے کہ انہوں نے دین و اخلاق کو دنیا کے حصول کا ذریعہ بنا لیا۔ پھر بنی اسرائیل کی مذہبی، اخلاقی اور سیاسی پستیوں کی نشاندہی فرمائی کہ جس وقت بنی اسرائیل پستیوں کا شکار ہوئے اور جب کبھی انہیں اپنی عزت رفتہ کا احساس ہو اتو انہوں نے اپنے کردار کو سنوارنے اور جدو جہد کا راستہ اپنا نے کے بجائے جادو ٹونے کے ذریعے عزت و عظمت کو پانے کی کوشش کی اور پھر اس سارے دھندے کو اللہ کے عظیم پیغمبرحضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ذمہ لگایا۔ حالانکہ جادو کفر ہے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) ہرگز کفر نہیں کرتے تھے۔ کبھی اپنے بوسیدہ اور پراگندہ خیالات کی تائید کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا سہارا لینے کی کوشش کی اور مقدس شخصیات کو اپنے ہم عقیدہ ثابت کرنے کی مذموم کوششیں کیں یہاں تک کہ ان زمینی حقائق کا بھی انکار کیا جو دنیا کے سینے پر بیت اللہ، صفا ومروہ اور زمزم کی شکل میں خاندان ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمات کا منہ بولتا ثبوت اور ان کی قبلہ گاہ ہے۔ بنی اسرائیل کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو سمجھایا گیا کہ اگر دنیا وآخرت کی بلندیوں کے طلب گار ہو تو پھر ابتلاء اور آزمائشوں کے لیے اپنے آپ کو تیار کرو کیونکہ آزمائش ایمان کی بلندی اور دنیا کی ترقی کا پیش خیمہ ہے جو لوگ حق و باطل کی رزم گاہ میں شہید ہوں انہیں مردہ مت کہو کیونکہ انہوں نے عظیم مقصد کے لیے قربانی دی ہے لہٰذا وہ زندہ ہیں لیکن ان کی زندگی کے بارے میں رائے زنی کرنے کی اجازت نہیں ہے اور تمہارے لیے بنی اسرائیل کے جرائم سے بچنا لازم ہے۔ اس کے بعد اس سورة مبارکہ میں انسانی زندگی کے مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جس میں معاشی، سماجی، جہادی، معاشرتی، اخلاقی، خاندانی اور انفرادی مسائل کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر شعبے کے لیے اصولوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ معاشی مسائل کے حل اور ان میں ناہمواری ختم کرنے کے لیے صدقہ و خیرات کی ترغیب مؤثر اور مدلل انداز میں دیتے ہوئے فرمایا کہ غریبوں ‘ مسکینوں اور اعزاء و اقربا کی مالی خدمت کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے مترادف ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ سات سو گنا سے بھی زیادہ کر کے قیامت کے دن واپس لوٹائے گا۔ جس دن نیکی کے علاوہ کوئی چیز کار آمد نہ ہوگی۔ صدقہ کی تحریک دینے کے بعد سود کو نہ صرف حرام قرار دیا بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جنگ قرار دیا ہے۔ جس سے ثابت ہوا کہ اسلام سے بڑھ کر کوئی دین غریبوں اور مستحقین کا ہمدرد اور خیر خواہ نہیں ہوسکتا۔ سود کے خاتمہ کے ساتھ صدقات اور تجارت کو فروغ دینے کی ترغیب دیتے ہوئے لین دین کے معاملات کو احاطۂ تحریر میں لانے کا حکم دیا۔ اس سورة کی ابتدا اسلام کے ارکان اور ایمان کے مدارج سے ہوئی اس کا اختتام بھی دین و ایمان کے بنیادی اصولوں پر کیا گیا ہے۔ آخر میں مومنوں کو ایک دعا سکھلائی گئی ہے کہ اپنے رب کے حضور یہ درخواست کرتے رہو کہ اے مولائے کریم ! ہمارے عمل میں دانستہ و غیر دانستہ طور پر جو کوتاہی سرزد ہو تو اسے معاف اور صرف نظر فرماتے ہوئے کفار پر ہمیں غلبہ عطا فرما۔ یہی مسلمان کی زندگی کا مقصد ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سرخرو ہوجائے اور دنیا میں اسلام کا پرچم سر بلند رکھتے ہوئے کامیاب انسان کے طور پر زندگی بسر کرئے۔ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یاربّ العالمین۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لاَ تَجْعَلُوا بُیُوتَکُمْ مَقَابِرَ إِنَّ الشَّیْطَانَ یَنْفِرُ مِنَ الْبَیْتِ الَّذِی تُقْرَأُ فیہِ سُورَۃُ الْبَقَرَۃِ ) (رواہ مسلم : باب استحباب صلوۃ النافلۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ۔ بیشک اس گھر سے شیطان بھاگ جاتا ہے جس میں سورة بقرۃ کی تلاوت کی جاتی ہے۔ “  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورة بقرہ ایک نظر میں سورة بقرہ کا شمار ان ابتدائی سورتوں میں ہوتا ہے جن کا نزول ہجرت کے متصل مابعد شروع ہوا۔ قرآن مجید کی تمام سورتوں میں یہ طویل ترین سورت ہے ۔ راجع قول یہی ہے کہ اس کی آیات کا نزول اس طرح تسلسل کے ساتھ نہیں ہوا کہ اس کی تکمیل سے قبل کسی دوسری سورت کی کوئی آیت نازل نہ ہوئی ہو ۔...  کیونکہ جب ہم سورة بقرہ کی بعض آیات اور مدینہ میں نازل ہونے والی دوسری طویل سورتوں کی بعض آیات کے اسباب نزول پر غور کرتے ہیں (اگرچہ اسباب نزول کے واقعات قطعی الثبوت نہیں ہوتے) تو معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام سورتوں کی آیات کا نزول تسلسل سے نہیں ہوا ۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک سورت کا نزول شروع ہوجاتا ہے لیکن ابھی اس کی ابتدائی آیات ہی نازل ہوئی ہوتی ہیں کہ دوسری سورت کا نزول شروع ہوجاتا ہے ۔ چناچہ سورتوں کے زمانہ نزول کے تعین کا دارومدار ان کی ابتدائی آیات پر ہوتا نہ کہ پوری سورت پر مثلاً سورة بقرہ کی آیت ربا کا شمار ان آیات میں ہوتا ہے جو نزول قرآن کے آخری دور سے تعلق رکھتی ہیں ۔ حالانکہ راجح قول کے مطابق بقرة کا ابتدائی حصہ مدنی دور میں سب سے پ ہے نازل ہوا۔ آیات قرآنی کی ترتیب اور انہیں ایک سورت کی شکل میں جمع کرنے کا کام براہ راست اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی روشنی میں ہوا ۔ امام ترمذی نے حضرت ابن عباس (رض) کی ایک روایت نقل کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان (رض) سے سوال کیا ” آپ لوگوں نے سورة انفال اور سورة توبہ کو باہم ملادیا حالانکہ انفال مثانی میں سے ہے اور توبہ ” مئین “ میں سے ہے ۔ نیز آپ حضرات نے دونوں کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم کی سطر بھی نہیں لکھی اور ان کو سبع طوال میں رکھ دیا ہے ۔ معلوم نہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ حضرت عثمان (رض) نے فرمایا ” دراصل بات یہ تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بیک وقت متعدد سورتیں نازل ہوتی رہتی تھیں ، جب کبھی آپ پر نئی آیات کا نزول ہوتا ، آپ کاتبین وحی میں سے کسی کو بلالیتے اور حکم دیتے کہ اس آیت کو فلاں فلاں سورت میں شامل کردو ۔ “ سورة انفال ان سورتوں میں سے تھی جو مدینہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی اور سورة توبہ ایسی آیات پر مشتمل تھی جن کا نزول سلسلہ نزول قرآن کے آخری دور میں ہوا ۔ ان دونوں کے مضامین چونکہ باہم مشابہ تھے ، اس لئے میں نے یہ گمان کیا کہ شاید یہ انفال ہی کا حصہ ہے ۔ اس اثناء میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوگیا اور آپ کو اس بات کی وضاحت کا موقع نہ ملا کہ وہ انفال کا حصہ ہے یا نہیں ؟ ان وجوہات کی بناء پر میں نے ان دونوں سورتوں کو باہم ملادیا اور اسی لئے دونوں کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ لکھا اور ان کو ” سبع طوال “ میں رکھ دیا۔ “ یہ روایت صاف صاف بتارہی ہے کہ سورتوں کی شکل آیات کی ترتیب خاص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایات کے تحت تکمیل پذیر ہوئی ۔ امام مسلم اور بخاری نے حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں آپ فرماتے ہیں ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) .... بھلائی کرنے میں بےحد کشادہ دل تھے ۔ بالخصوص رمضان المبارک میں تو آپ کی فراخ دلی کی کوئی انتہانہ رہتی تھی ۔ پورے رمضان المبارک میں ہر رات جبرائیل امین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملتے تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو قرآن سناتے تھے ۔ بعض روایات میں فیدارسہ القرآن کے لفظ آتے ہیں ۔ یعنی باہم پڑھتے پڑھاتے تھے ۔ تو جب رمضان میں جبرائیل امین آپ سے ملتے تو آپ کارخیر کے لئے فراخدلی میں ، ان ہواؤں سے بھی بڑھ جاتے جو بارش لاتی ہیں ۔ “ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پورا قرآن مجید جبرائیل امین کو سناتے تھے اور اسیطرح جبرائیل امین آپ کو سناتے ۔ تو معلوم ہوا کہ پورا قرآن سورتوں کی شکل میں بہرحال مرتب تھا۔ جو شخص قرآن کے سائے میں جیتا ہے اور اس میں غوروفکر کرتا ہے اس پر یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ قرآن کی ہر سورت ایک مستقل اور ذی روح شخصیت رکھتی ہے ۔ دل مومن تو اس کے ساتھ اسی طرح مانوس ہوجاتا ہے کہ گویا وہ کسی زندہ انسان سے ہم کلام ہے جو واضح خدوخال اور روح وحیات رکھتا ہے .... ہر سورت کا ایک مرکزی مضمون ہے یا کئی مضامین جو ایک ہی محور کے گردگھوم رہے ہیں ۔ نیز ہر سورت کی ایک مخصوص فضاء ہے جو اس کی تمام موضوعات سخن پر چھائی ہوئی ہے ۔ اس میں ان موضوعات پر متعین پہلوؤں سے بحث ہوتی ہے تاکہ ان موضوعات اور سورت کی اس عمومی فضا کے درمیان کامل درجہ کی ہم آہنگی پائی جائے ۔ پھر ہر سورت کا ایک مخصوص صوتیاتی اثر ہوتا ہے۔ اور وہ پوری سو رت میں ایک ہی رہتا ہے۔ اگر کہیں اس میں تبدیلی ہو بھی تو وہ اس مخصوص موضوع سخن کی وجہ سے ہوتی ہے۔ قرآن کی تمام سورتوں کی یہی خصوصیت ہے اور اس سے سورة بقرہ جیسی طویل سورتیں بھی مستثنیٰ نہیں ہیں۔ سورة بقرہ متعدد موضوعات پر مشتمل ہے لیکن وہ تمام موضوعات ایک ہی محور کے گرد گھوم رہے ہیں ۔ یہ محور دومتوازی اور باہم مربوط خطوط سے مرکب ہے ۔ ایک طرف تو یہ پوری سورت بتاتی ہے کہ بنی اسرائیل نے دعوت اسلامی کے مقابلے میں کیا موقف اختیار کیا ؟ انہوں نے اس دعوت کا استقبال کس طرح کیا ؟ اس کے پیغامبر کو کیا کیا اذیتیں دیں۔ اس دعوت کی بنیاد پر اٹھنے والی جماعت اور امت مسلمہ کے خلاف کیا کیا سازشیں کیں ۔ نیز اس موقف کی دوسری تفصیلات اور کڑیاں مثلاً یہود ومنافقین کا باہم گٹھ جوڑ ، یہود ومشرکین کا باہم تعلق وغیرہ .... دوسری طرف اس سورت میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اب بنی اسرائیل کو فریضہ ادائیگی خلافت کے لئے نااہل قرار دیا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے اس بارے میں اللہ کریم سے جو عہدوپیمان باندھے تھے وہ ایک ایک کرکے توڑ چکے ہیں اور یہ کہ اب انہیں اس تحریک کے داعی اول حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کوئی نسبت نہیں رہی ہے اور یہ کہ مسلمانوں کو بھی اس بات کی تنبیہ کی جاتی ہے کہ وہ ان غلطیوں سے بچیں جن کی وجہ سے بنی اسرائیل کو نااہل قراردیا جارہا ہے ۔ پھر اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اپنے ابتدائی حالات میں (منصب امامت کو سنبھالتے ہوئے) اسلامی جماعت نے کیا موقف اختیار کیا اور کس پالیسی پر گامزن رہی ۔ اس نے فریضہ اقامت دین ، دعوت دین اور خلافت فی الارض کی اس عظیم الشان اور بھاری ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے اپنے آپ کو کیوں کر تیار کیا ؟ غرض سورة بقرہ کے تمام مضامین ان دومتوازی خطوط پر چل رہے ہیں اس کی تفصیل انشاء اللہ آئندہ تفصلی بحثوں کے دوران آئے گی ۔ یہاں اس بات کی ضرورت ہے کہ اس صورت حالات پر اجمالاً بحث کی جائے جس کے مقابلے کے لئے سب سے پہلے یہ سورت نازل ہوئی تاکہ ایک طرف تو اس سورت اور اس کے مضامین کے درمیان ربط کا صحیح اندازہ ہوسکے ۔ اور دوسرے یہ معلوم ہوسکے کہ مدنی دور کے ابتدائی ایام میں دعوت اسلامی کی رفتار کیا تھی ؟ اس اسلامی جماعت کی سرگرمیاں اور پیش آنے والے حالات کیا تھے ؟ یہاں یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ یہ صورت حال اپنے عمومی پہلو سے بعینہ وہی ہے جو ہر دور اور ہر زمانے میں ایک معمولی فرق کے ساتھ دعوت اسلامی کے حاملین کو پیش آتی رہی ہے۔ تاریخ میں دعوت اسلامی کے دشمنوں نے ہمیشہ وہی کردار ہے جو کبھی مدینہ کے اسلام دشمنوں نے ادا کیا تھا ۔ اور اس کے دوستوں کا تعلق اخلاص بھی ایسا رہا جو قرن اول کے فداکار اسلام کا رہا ۔ اس طرح یہ قرآنی ہدایات دعوت اسلامی کے لئے ایک طرح کا دائمی دستور بن جاتی ہیں ۔ اور ان آیات میں ہر حال اور ہر زمانے کے لئے زندہ جاوید ہدایت پائی جاتی ہے اور یہ آیات امت مسلمہ کے لئے اس طویل اور کٹھن سفر میں مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں جس میں اسے کئی مختلف الشکل لیکن متحد المزاج مخالف عناصر کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے ۔ پورے قرآن مجید کی ایک ایک آیت میں یہ خصوصیت موجود ہے اور یہ قرآن کریم کے اعجاز کے ایک خاص پہلو کو ظاہر کررہی ہے۔ مدینہ کی طرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت کا عمل ایک محکم منصوبے اور سوچی سمجھی تعلیم کے مطابق ظہور پذیر ہوا ۔ اور جن حالات میں ہجرت کا فیصلہ ہوا وہ ایسے تھے کہ انہوں نے ہجرت کے عمل کو لابدی اور حتمی بنادیا تھا کیونکہ جس منصوبے کے مطابق باری تعالیٰ کو تحریک اسلامی کو چلانا مقصود تھا ، اس کے لئے ہجرت ضروری ہوگئی تھی ۔۔ قریش نے دعوت اسلامی کے بارے میں جو موقف اختیار کیا تھا ، حضرت خدیجة الکبریٰ (رض) اور ابوطالب کی وفات کے بعد ، اس کی وجہ سے مکہ اور اس کے ماحول میں دعوت اسلامی پر ایک جمود اور ٹھہراؤ کی کیفیت طاری ہوگئی تھی ۔ اگرچہ قریش کی گہری سازشوں اور ان کی بےحد ایذا رسانیوں کے باوجود بعض لوگ دین اسلام میں داخل ہورہے تھے ۔ تاہم قریش کے سخت رویے اور اسلام کے خلاف ان کی چومکھی لڑائی کی وجہ سے مکہ اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں عملاً دعوت اسلامی کا پھیلاؤ روک دیا گیا تھا اور مکہ کے علاوہ دوسرے عرب قبائل نے بھی محتاط اور ” انتظار کرو اور دیکھو “ کا رویہ اختیار کرلیا تھا ۔ وہ اس بات کے منتظر تھے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے قریبی رشتہ داروں ، ابولہب ، عمروابن ہشام ، ابوسفیان بن حرب وغیرہ کے درمیان جو کشمکش برپا ہے اس کا کیا فیصلہ ہوتا ہے کیونکہ یہ لوگ دعوت اسلامی کے قریبی رشتہ دار تھے اور عرب کے قبائلی معاشرے میں کنبہ پروری کو بڑی اہمیت حاصل تھی اور عام لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاندان سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ سب سے پہلے اسلام کو قبول کرے۔ لہٰذا ان کے اس معاندانہ موقف میں کوئی وجہ نہ تھی کہ ایک عام عرب دعوت اسلامی کو قبول کرے بالخصوص جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خاندان کعبہ کا متولی بھی تھا۔ اور جزیرة العرب میں وہی دینداری اور مذہبیت کی نمائندگی کا مستحق سمجھا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلسل اس بات کی تلاش میں رہے کہ مکہ کے باہر دعوت اسلامی کے لئے کوئی ایسا مرکزی مقام تلاش کیا جائے جو اس نظریہ حیات کا گہوارہ ہو اور تحریک کو امن وآزادی کی ضمانت دے ۔ جہاں تحریک اسلامی اس جمود کی حالت سے نکل سکے جو مکہ میں اس پر طاری ہوگئی تھی اور جہاں آزادی کے ساتھ لوگوں کے سامنے دعوت اسلامی پیش کی جاسکے اور اسے قبول کرنے والا آلام وفتن اور دشمن کی ایذا رسائیوں سے محفوظ ہوں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہجرت کے اقدام کے جو اسباب بھی ہوں ان میں یہ پہلا اور سب سے اہم سبب ہے۔ یثرب کو تحریک اسلامی کا مرکز بنانے سے قبل بھی کئی دوسرے مقامات زیر غور رہے تھے ۔ سب سے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت ہوئی تھی۔ جن لوگوں نے ابتدائی ایام میں دین اسلام کو قبول کیا تھا۔ ان کی بڑی تعداد نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی ۔ یہ بات درست نہیں کہ یہ لوگ محض جسمانی نجات حاصل کرنے کے لئے حبشہ کی طرف نکل گئے تھے ۔ کیونکہ قرائن اس کی تردید کرتے ہیں ۔ اگر یہ ہجرت صرف جسمانی اذیت سے نجات پانے کے لئے ہوتی تو مسلمانوں میں سے صرف وہ لوگ ہجرت کرتے جن کے جان ومال اور آبرو کی حفاظت کا مکہ مکرمہ میں کوئی بندوبست نہ تھا۔ حالانکہ جو لوگ نکلے ان کی حالت اس سے برعکس تھی ۔ ان مہاجرین میں وہ لوگ شامل نہ تھے جن پر جسمانی اذیت کے پہاڑ توڑے جارہے تھے مثلاً ضعفاء اور غلام وغیرہ ۔ جو لوگ اس ہجرت میں شریک ہوئے وہ سب خاندانی اور ذی وجاہت لوگ تھے ۔ اور ان کے خاندان کے ہوتے ہوئے کوئی شخص یہ جراءت نہ کرسکتا تھا کہ انہیں کسی قسم کی اذیت پہنچائے ۔ کیونکہ قبائلی عصبیت کے اس معاشرے میں لوگ اپنے مسلمان رشتہ داروں کی حمایت بھی کرتے تھے ۔ ان مہاجرین کی اکثریت قریش سے نسبی تعلق رکھتی تھی ۔ مثلاجعفر بن ابی طالب (حالانکہ ابوطالب اور دوسرے ہاشمی نوجوان ہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حمایت کررہے تھے ) زبیر بن عوام ، عبدالرحمن بن عوف ، ابومسلمہ مخزومی اور عثمان بن عفان وغیرہ ، اسی طرح ان مہاجرین مکہ کے اونچے خاندانوں کی خواتین بھی شامل تھیں اور اس بات کا کوئی امکان ہی نہ تھا کہ انہیں کسی قسم کی اذیت پہنچائے ۔ البتہ اس بات کا امکان ہے کے ہجرت کے پس منظر میں کچھ اسباب اور بھی پوشیدہ ہوں مثلاً یہ کہ قریشی اونچے درجے کے گھرانوں میں یہ احساس اور بےچینی برپا کرنا کہ اس میں ایسے معزز اور سرکردہ شرفا ان کی ایذاؤں سے تنگ آکر ، اپنے نظریہ حیات کو لے کر ، اور اپنے وطن عزیز اور اعزہ کو الوداع کہہ کر ، جاہلیت سے بھاگ رہے ہیں۔ ظاہر ہے عرب جیسے باحمیت اور کنبہ پرست معاشرے میں مسلمانوں کا یہ اقدام غم وغصہ کی لہر دوڑا سکتا تھا ۔ جبکہ مہاجرین میں ام حبیبہ بنت ابی سفیان بھی شامل ہیں جو جاہلیت کا سب سے بڑا علمبردار تھا۔ اور اسلامی نظریہ حیات اور اس کے داعی کے خلاف برپا کی ہوئی اس فتنہ انگیزی میں ایک بڑا پارٹ ادا کررہا تھا لیکن ان اسباب کو صحیح تسلیم کرنے کے بعد بھی اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حبشہ کی طرف ہجرت بھی انہی کوششوں کی ایک کڑی تھی ۔ جو تحریک اسلامی کے لئے ایک آزاد مرکز کی تلاش کے سلسلے میں ہورہی تھیں۔ جہاں یہ نئی تحریک آزاد اور پرامن طریقے سے کام کرسکے ۔ اس کی تائید ان روایات سے بھی ہوتی ہے جو حبشہ کے نجاشی کے اسلام کے بارے میں کتب احادیث میں نقل ہوئی ہیں ۔ جن میں کہا گیا کہ نجاشی نے اپنے اسلام کا اعلان محض اس لئے نہ کیا کہ وہ اپنے مذہبی لیڈروں سے خائف تھا۔ سیرت کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت سے قبل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف کا سفر فرمایا۔ اس کا مقصد بھی دعوت اسلامی کے لئے ایک آزاد اور مامون مرکز کی تلاش تھا ۔ لیکن آپ کی یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی ۔ اور ثقیف کے کبراء نے آپ کا استقبال پتھروں سے کیا ۔ انہوں نے اپنے نادانوں اور بچوں کو آپ کے پیچھے لگادیا ۔ یہ لوگ آپ کو پتھر مارنے لگے ۔ آپ کے پاؤں مبارک زخمی ہوگئے اور آپ کو مجبوراً عتبہ اور شیبہ پسران ربیعہ ، کے باغ میں پناہ لینی پڑی ۔ اس باغ میں آپ کی زبان مبارک سے جو پرخلوص اور گہری دعا نکلی وہ داعیان حق کے لئے نمونہ عبرت ہے ۔ آپ نے فرمایا ! ” اللہ ! میں اپنی ناتوانی ، قلت تدبیر اور لوگوں کے مقابلے میں اپنی کمزوری کی فریاد آپ ہی سے کرتا ہوں۔ اے ارحم الرحمین ! تو ہی میرا اور سب ضعیفوں کا رب ہے تو مجھے کس کے حوالے کررہا ہے ۔ کیا تونے میرا معاملہ دشمن کے سپرد کردیا ہے ؟ یا کسی غیر کے جو مجھ سے ترش روئی سے پیش آئے ۔ اگر تو مجھ پر غضبناک نہیں ہے تو پھر مجھے کسی چیز کی پرواہ نہیں لیکن تیری عافیت میرے لئے کشادہ ہے ۔ میں تیری غضب اور تیری پھٹکار سے تیرے چہرہ کے نور میں پناہ مانگتا ہوں ۔ جس نے اندھیروں کو اجالا کردیا جن سے دینی اور دنیوی امور درست ہوتے ہیں ۔ میں تیرے ہی در کا سوالی ہوں ۔ یہاں تک کہ تو مجھ سے راضی ہوجائے اور تیرے سوا قوت واستطاعت کا کوئی اور مصدر نہیں ہے۔ چناچہ اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دعوت اسلامی کے لئے غیبی اسباب فراہم ہوگئے ۔ عقبہ گھاٹی کے دامن میں پہلی بیعت ہوئی ۔ پھر اگلے سال دوسری ہوئی ۔ چونکہ ان بیعتوں کا ہمارے موضوع اور مدینہ میں دعوت اسلامی کی تاریخ سے گہرا تعلق ہے اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ان کا مختصر تذکرہ کیا جائے ۔ ہجرت سے ٢ سال قبل کا واقعہ ہے کہ حجاج کے سامنے دعوت اسلامی پیش کرنے کے دوران نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملاقات خزرج کے کچھ لوگوں سے ہوئی ۔ آپ کا معمول تھا کہ حج کے موقع پر آپ لوگوں کو دعوت دیتے اور ایک ایک قبیلے سے درخواست کرتے کہ وہ دعوت اسلامی کو قبول کریں اور آپ کی حمایت کریں تاکہ آپ اپنے رب کا پیغام پوری دنیا تک پہنچاسکیں ۔ یثرب کے باشندوں کے پڑوس میں چونکہ یہود آباد تھے اور یہ لوگ اکثر اوقات یہودیوں سے یہ بات سنا کرتے تھے کہ ایک نبی آخرالزماں آنے والا ہے اور یہ کہ اس کی حمایت و قیادت میں وہ عربوں پر فتح یاب ہوں گے ۔ وہ اللہ سے دعائیں بھی مانگتے تھے کہ وہ انہیں اس کی طفیل فاتح وکامران کرے اور وہ نبی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں ان کا حامی و مددگار ہوگا۔ جب خزرج کے وفد نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو سنا تو آپس میں کہنے لگے ” خدا کی قسم یہ وہی نبی ہے جس سے تمہیں یہود ڈراتے ہیں اور ایسا نہ ہو کہ یہودی تم سے پہلے اس پر ایمان لے آئیں ۔ لہٰذا انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت قبول کرلی ۔ اور آپ سے کہا کہ ” ہماری پوری قوم مدینہ طیبہ میں ہے اور ان میں آج کل ایسی دشمنی اور خانہ جنگی برپا ہے جو کسی دوسری قوم میں نہیں ہے ۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ آپ کے ذریعے اللہ اس دشمنی کو ختم کردے ۔ “ جب یثرب لوٹے تو یہ واقعہ انہوں نے اہل مدینہ کو سنایا۔ اہل مدینہ بےحد خوش ہوئے اور دعوت اسلامی کو قبول کرلینے پر متفق ہوگئے ۔ اگلے سال اوس اور خزرج کی ایک جماعت موسم حج میں مکہ آئی ۔ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کی اور حلقہ بگوش اسلام ہوکر لوٹی ۔ آپ نے کچھ معلمین اور مبلغین ان کے ساتھ کردیئے تاکہ وہ ان کی مزید تربیت کریں۔ تیسرے سال اوس و خزرج کی ایک بہت بڑی جمیعت حاضر ہوئی ۔ اور آپ کے ساتھ معاہدہ کیا ۔ یہ معاہدہ حضرت عباس کی موجودگی میں ہوا۔ معاہدہ کی اہم شق یہ تھی کہ اہل یثرب آپ کی حفاظت اس طرح کریں گے جس طرح وہ اپنی جان ومال کی حفاظت کرتے ہیں ۔ اس معاہدے کو بیعت عقبہ کبریٰ کہتے ہیں۔ اس کے بارے میں محمد بن کعب قرظی نقل کرتے ہیں کہ اس میں عبداللہ بن رواحہ نے حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا ” آپ اپنے رب اور اپنی ذات کے لئے جو شرائط ہم سے چاہیں منوالیں ۔ “ آپ نے فرمایا اللہ کے لئے صرف یہ شرط ہے کہ آپ لوگ اس کی بندگی کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور اپنے لئے میں تم پر صرف یہ شرط عائد کرتا ہوں کہ آپ لوگ میری حفاظت ایسے ہی کریں گے جیسے اپنی جان ومال کی کرتے ہیں ۔ “ اس پر عبداللہ بن رواحہ نے کہا تو پھر اس پر ہمیں کیا اجر ملے گا ؟ “ آپ نے فرمایا ” جنت ! “ اس پر سب نے کہا ” بہت نفع بخش سودا ہے ۔ “ نہ ہم اسے واپس کرتے ہیں اور نہ فریق ثانی سے اس کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ یوں مسلمانوں نے بزور طاقت نظام حکومت اپنے ہاتھ میں لیا اور اسلام مدینہ طیبہ میں تیزی سے پھیل گیا۔ کوئی گھر ایسا نہ رہا جس میں کوئی مسلمان نہ ہو۔ مسلمان مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ آنے شروع ہوگئے ۔ اور صرف دولت ایمان لے کر اپنے گھروں سے نکلے اور اپنا سب کچھ راہ حق میں لٹادیا۔ مدینہ میں ان کے بھائیوں نے جوان سے قبل دارالاسلام اور ایمان میں جم کر بس گئے تھے ، ان کے ساتھ جس ایثار اور بھائی چارے کا مظاہرہ کیا ، وہ ایسا ہے کہ پوری انسانی تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صدیق اکبر نے ہجرت فرمائی ۔ اور آپ اس مامون اور آزاد مرکز میں جاپہنچے جس کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرصہ سے متلاشی تھے ، جس دن آپ مدینہ پہنچے اسی دن اس نئے مرکز میں اسلامی حکومت قائم ہوگئی تھی ۔ جن لوگوں نے تحریک اسلامی کے اس مرحلے میں مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی اور ان کے معاون و مددگار پہلے سے مدینہ میں ان کے لئے منتظر بیٹھے تھے ، یہ دونوں مل کر وہ جماعت بن گئے جس کی طرف قرآن کریم متعدد مقامات پر اشارہ کرتا ہے ۔ سورة بقرہ کے آغاز ہی میں جن ایمانی مبادیات کا ذکرشروع ہوجاتا ہے ، یہ صفات اگرچہ علی الاطلاق تمام سچے مومنین کی ہیں لیکن ان صفات کا سب سے پہلا مصداق مومنین کی وہ جماعت ہے جو اس وقت مدینہ طیبہ میں جمع تھی۔   Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi