تفسیر سورۃ بقرۃ اس مبارک سورت کے فضائل کا بیان حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ سورۃ بقرہ قرآن کا کوہان ہے اور اس کی بلندی کا یہ عالم ہے کہ اس کی ایک ایک آیت کے ساتھ اسی اسی ( ٨٠ ) فرشتے نازل ہوتے تھے اور بالخصوص آیت الکرسی تو خاص عرش... تلے نازل ہوئی اور اس سورت میں شامل کی گئی ۔ سورۃ یٰسین قرآن کا دل ہے جو شخص اسے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور آخرت طلبی کے لئے پڑھے اسے بخش دیا جاتا ہے ۔ اس سورت کو مرنے والوں کے سامنے پڑھا کرو ( مسند احمد ) اس حدیث کی سند میں ایک جگہ عن رجل ہے تو یہ نہیں معلوم ہوتا تھا کہ اس سے مراد کون ہے؟ لیکن مسند احمد ہی کی دوسری روایت میں اس کا نام ابو عثمان آیا ہے ۔ یہ حدیث اسی طرح ابو داؤد نسائی اور ابن ماجہ میں بھی ہے ۔ ترمذی کی ایک ضعیف سند والی حدیث ہے کہ ہر چیز کی ایک بلندی ہوتی ہے اور قرآن پاک کی بلندی سورۃ بقرہ ہے ۔ اس سورت میں ایک آیت ہے جو تمام آیتوں کی سردار ہے اور وہ آیت آیت الکرسی ہے ۔ مسند احمد ، صحیح مسلم ، ترمذی اور نسائی میں حدیث ہے کہ اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ ۔ جس گھر میں سورۃ بقرہ پڑھی جائے وہاں شیطان داخل نہیں ہو سکتا ۔ امام ترمذی اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ جس گھر میں سورۃ بقرہ پڑھی جائے وہاں سے شیطان بھاگ جاتا ہے ۔ اس حدیث کے ایک راوی کو امام یحییٰ بن معین تو ثقہ بتاتے ہیں لیکن امام احمد وغیرہ ان کی حدیث کو منکر کہتے ہیں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی طرح کا قول منقول ہے ۔ اسے نسائی نے عمل الیوم واللیلہ میں اور حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے اور اس کی سند کو صحیح کہا ہے ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم میں سے کسی کو ایسا نہ پاؤں کہ وہ پیر پر پیر چڑھائے پڑھتا چلا جائے لیکن سورۃ بقرہ نہ پڑھے ۔ سنو! جس گھر میں یہ مبارک سورت پڑھی جاتی ہے وہاں سے شیطان بھاگ کھڑا ہوتا ہے ، سب گھروں میں بدترین اور ذلیل ترین گھر وہ ہے جس میں کتاب اللہ کی تلاوت نہ کی جائے امام نسائی نے عمل الیوم واللیلہ میں بھی اسے وارد کیا ہے مسند دارمی میں حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ جس گھر میں سورۃ بقرہ پڑھی جائے اس گھر سے شیطان گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے ۔ ہر چیز کی اونچائی ہوتی ہے اور قرآن کی اونچائی سورۃ بقرہ ہے ۔ ہر چیز کا ما حصل ہوتا ہے اور قرآن کا ما حصل مفصل سورتیں ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ جو شخص سورۃ بقرہ کی پہلی چار آیتیں اور آیت الکرسی اور دو آیتیں اس کے بعد کی اور تین آیتیں سب سے آخر کی ، یہ سب دس آیتیں رات کے وقت پڑھ لے اس گھر میں شیطان اس رات نہیں جا سکتا اور اسے اور اس کے گھر والوں کو اس دن شیطان یا کوئی اور بری چیز ستا نہیں سکتی ۔ یہ آیتیں مجنون پر پڑھی جائیں تو اس کا دیوانہ پن بھی دور ہو جاتا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس طرح ہر چیز کی بلندی ہوتی ہے ، قرآن کی بلندی سورۃ بقرہ ہے جو شخص رات کے وقت اسے اپنے گھر میں پڑھے تین راتوں تک شیطان اس گھر میں نہیں جا سکتا اور دن کو اگر گھر میں پڑھ لے تو تین دن تک شیطان اس گھر میں قدم نہیں رکھ سکتا ۔ ( طبرانی ۔ ابن حبان ۔ ابن مردویہ ) ترمذی ۔ نسائی اور ابن ماجہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹا سا لشکر ایک جگہ بھیجا اور اس کی سرداری آپ نے انہیں دی جنہوں نے فرمایا تھا کہ مجھے سورۃ بقرہ یاد ہے ، اس وقت ایک شریف شخص نے کہا میں بھی اسے یاد کر لیتا لیکن ڈرتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اس پر عمل نہ کر سکوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن سیکھو ، قرآن پڑھو جو شخص اسے سیکھتا ہے ، پڑھتا ہے پھر اس پر عمل بھی کرتا ہے ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے مشک بھرا ہوا برتن جس کی خوشبو ہر طرف مہک رہی ہے ۔ اسے سیکھ کر سو جانے والے کی مثال اس برتن کی سی ہے جس میں مشک تو بھرا ہوا ہے لیکن اوپر سے منہ بند کر دیا گیا ہے ۔ ( امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں اور مرسل روایت بھی ہے ) واللہ اعلم ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ رات کو سورۃ بقرہ کی تلاوت شروع کی ، ان کا گھوڑا جو ان کے پاس ہی بندھا ہوا تھا ، اس نے اچھلنا کودنا اور بدکنا شروع کیا ۔ آپ نے قرأت چھوڑ دی گھوڑا بھی سیدھا ہو گیا ۔ آپ نے پھر پڑھنا شروع کیا ۔ گھوڑے نے بھی پھر بدکنا شروع کیا ۔ آپ نے پھر پڑھنا موقوف کیا ۔ گھوڑا بھی ٹھیک ٹھاک ہو گیا ۔ تیسری مرتبہ بھی یہی ہوا چونکہ ان کے صاحبزادے یحییٰ گھوڑے کے پاس ہی لیٹے ہوئے تھے اس لئے ڈر معلوم ہوا کہ کہیں بچے کو چوٹ نہ آ جائے ، قرآن کا پڑھنا بند کر کے اسے اٹھا لیا ۔ آسمان کی طرف دیکھا کہ جانور کے بدکنے کی کیا وجہ ہے؟ صبح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر واقعہ بیان کرنے لگے آپ سنتے جاتے اور فرماتے جاتے ہیں پھر اسید پڑھے چلے جاؤ حضرت اسید نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم تیسری مرتبہ کے بعد تو یحییٰ کی وجہ سے میں نے پڑھنا بالکل بند کر دیا ۔ اب جو نگاہ اٹھی تو دیکھتا ہوں کہ ایک نورانی چیز سایہ دار ابر کی طرح ہے اور اس میں چراغوں کی طرح کی روشنی ہے بس میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ اوپر کو اٹھ گئی ۔ آپ نے فرمایا جانتے ہو یہ کیا چیز تھی؟ یہ فرشتے جو تمہاری آواز کو سن کر قریب آ گئے تھے اگر تم پڑھنا موقوف نہ کرتے تو وہ صبح تک یونہی رہتے اور ہر شخص انہیں دیکھ لیتا ، کسی سے نہ چھپتے ۔ یہ حدیث کئی کتابوں میں کئی سندوں کے ساتھ موجود ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اس کے قریب قریب واقعہ حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے کہ ایک مرتبہ لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ گزشتہ رات ہم نے دیکھا ، ساری رات حضرت ثابت کا گھر نور کا بقعہ بنا رہا اور چمکدار روشن چراغوں سے جگمگاتا رہا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید انہوں نے رات کو سورۃ بقرہ پڑھی ہو گی ۔ جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا سچ ہے رات کو میں سورۃ بقرہ کی تلاوت میں مشغول تھا ۔ اس کی اسناد تو بہت عمدہ ہے مگر اس میں ابہام ہے اور یہ مرسل بھی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران کی فضیلت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ سیکھو ، اس کو حاصل کرنا برکت ہے اور اس کا چھوڑنا حسرت ہے ۔ جادوگر اس کی طاقت نہیں رکھتے پھر کچھ دیر چپ رہنے کے بعد فرمایا ۔ سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران سیکھو ، یہ دونوں نورانی سورتیں ہیں اپنے پڑھنے والے پر سائبان یا بادل یا پرندوں کے جھنڈ کی طرح قیامت کے روز سایہ کریں گی ، قرآن پڑھنے والا جب قبر سے اٹھے گا تو دیکھے گا کہ ایک نوجوان نورانی چہرے والا شخص اس کے پاس کھڑا ہوا کہتا ہے کہ کیا آپ مجھے جانتے ہیں یہ کہے گا نہیں تو وہ جواب دے گا کہ میں قرآن ہوں جس نے دن کو تجھے بھوکا پیاسا رکھا تھا اور راتوں کو بستر سے دور بیدار رکھا تھا ۔ ہر تاجر اپنی تجارت کے پیچھے ہے لیکن آج سب تجارتیں تیرے پیچھے ہیں اب اس کے رہنے کے لئے سلطنت اس کے داہنے ہاتھ میں دی جائے گی اور ہمیشہ کے فائدے اس کے بائیں ہاتھ میں ، اس کے سر پر وقار و عزت کا تاج رکھا جائے گا ، اس کے ماں باپ کو دو ایسے عمدہ قیمتی حلے پہنائے جائیں گے کہ ساری دنیا بھی اس کی قیمت کے سامنے ہیچ ہو گی ، وہ حیران ہو کر کہیں گے کہ آخر اس رحم و کرم اور اس انعام و اکرام کی کیا وجہ ہے؟ تو انہیں جواب دیا جائے گا کہ تمہارے بچے کے قرآن حفظ کرنے کی وجہ سے تم پر یہ نعمت انعام کی گئی ۔ پھر اسے کہا جائے گا پڑھتا جا اور جنت کے درجے چڑھتا جا ، چنانچہ وہ پڑھتا جائے گا اور درجے چڑھتا جائے گا ۔ خواہ ترتیل سے پڑھے یا بے ترتیل ۔ ابن ماجہ میں بھی اس حدیث کا بعض حصہ مروی ہے اس کی اسناد حسن ہیں اور شرط مسلم پر ہیں ۔ اس کے راوی بشر ، ابن ماجہ سے امام مسلم بھی روایت لیتے ہیں اور امام ابن معین اسے ثقہ کہتے ہیں ۔ نسائی کا قول ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ۔ ہاں امام احمد اسے منکر الحدیث بتاتے ہیں اور فرماتے ہیں میں نے تلاش کی تو دیکھا کہ وہ عجب عجب حدیثیں لاتا ہے ۔ امام بخاری فرماتے ہیں اس کی بعض احادیث سے اختلاف کیا جاتا ہے ۔ ابو حاتم رازی کا فیصلہ ہے کہ اس کی حدیثیں لکھی جاتی ہیں لیکن ان سے دلیل نہیں پکڑی جا سکتی ۔ ابن عدی کا قول ہے کہ ان کی ایسی روایتیں بھی ہیں جن کی متابعت نہیں کی جاتی ۔ دارقطنی فرماتے ہیں یہ قوی نہیں ہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ اس کی اس روایت کے بعض مضمون دوسری سندوں سے بھی آئے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے ۔ قرآن پڑھا کرو یہ اپنے پڑھنے والوں کی قیامت کے دن شفاعت کرے گا ۔ دو نورانی سورتوں بقرہ اور آل عمران کو پڑھتے رہا کرو ۔ یہ دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی کہ گویا یہ دو سائبان ہیں یا دو ابر ہیں یا پر کھولے پرندوں کی دو جماعتیں ہیں ۔ اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے اللہ تعالیٰ سے سفارش کریں گی ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ سورہ بقرہ پڑھا کرو ۔ اس کا پڑھنا برکت ہے اور چھوڑنا حسرت ہے ۔ اس کی طاقت باطل والوں کو نہیں صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے ۔ مسند احمد کی ایک اور حدیث میں ہے قرآن اور قرآن پڑھنے والوں کو قیامت کے دن بلوایا جائے گا ۔ آگے آگے سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران ہوں گی ، بادل کی طرح یا سائے اور سائبان کی طرح یا پر کھولے پرندوں کے جھرمٹ کی طرح ۔ یہ دونوں پروردگار سے ڈٹ کر سفارش کریں گی ۔ مسلم اور ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے ۔ امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں ۔ ایک شخص نے اپنی نماز میں سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران پڑھی اس کے فارغ ہونے کے بعد حضرت کعب نے فرمایا اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ان میں اللہ کا وہ نام ہے کہ اس نام کے ساتھ جب کبھی اسے پکارا جائے وہ قبول فرماتا ہے ۔ اب اس شخص نے حضرت کعب سے عرض کی کہ مجھے بتائیے وہ نام کونسا ہے؟ حضرت کعب نے اس سے انکار کیا اور فرمایا اگر میں بتا دوں تو خوف ہے کہ کہیں تو اس نام کی برکت سے ایسی دعا نہ مانگ لے جو میری اور تیری ہلاکت کا سبب بن جائے ۔ حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں تمہارے بھائی کو خواب میں دکھلایا گیا کہ گویا لوگ ایک بلند و بالا پہاڑ پر چڑھ رہے ہیں ۔ پہاڑ کی چوٹی پر دو سرسبز درخت ہیں اور ان میں سے آوازیں آ رہی ہیں کہ کیا تم میں کوئی سورۃ بقرہ کا پڑھنے والا ہے؟ کیا تم میں سے کوئی سورۃ آل عمران کا پڑھنے والا ہے؟ جب کوئی کہتا ہے کہ ہاں تو وہ دونوں درخت اپنے پھلوں سمیت اس کی طرف جھک جاتے ہیں اور یہ اس کی شاخوں پر بیٹھ جاتا ہے اور وہ اسے اوپر اٹھا لیتے ہیں ۔ حضرت ام درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتی ہیں کہ ایک قرآن پڑھے ہوئے شخص نے اپنے پڑوسی کو مار ڈالا پھر قصاص میں وہ بھی مارا گیا ۔ پس قرآن کریم ایک ایک سورت ہو ہو کر الگ ہونا شروع ہوا یہاں تک کہ اس کے پاس سورۃ آل عمران اور سورہء بقرہ رہ گئیں ۔ ایک جمعہ کے بعد سورۃ آل عمران چلی گئی پھر ایک جمعہ گزرا تو آواز آئی کہ میری باتیں نہیں بدلا کرتیں اور میں اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا چنانچہ یہ مبارک سورت یعنی سورۃ بقرہ بھی اس سے الگ ہو گئی مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں سورتیں اس کی طرف سے بلاؤں اور عذاب کی آڑ بنی رہیں اور اس کی قبر میں اس کی دلجوئی کرتی رہیں اور سب سے آخر اس کے گناہوں کی زیادتی کے سبب ان کی سفارش نہ چلی ۔ یزید بن اسود جرشی کہتے ہیں کہ ان دونوں سورتوں کو دن میں پڑھنے والا دن بھر میں نفاق سے بری رہتا ہے اور رات کو پڑھنے والا ساری رات نفاق سے بری رہتا ہے خود حضرت یزید اپنے معمولی وظیفہ قرآن کے علاوہ ان دونوں سورتوں کو صبح شام پڑھا کرتے تھے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جو شخص ان دونوں سورتوں کو رات بھر پڑھتا رہے گا ۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ فرمانبرداروں میں شمار ہو گا ۔ اس کی سند منقطع ہے ، بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھ کو سات لمبی سورتیں توریت کی جگہ دی گئی ہیں اور انجیل کی جگہ مجھ کو دو سو آیتوں والی سورتیں ملی ہیں اور زبور کے قائم مقام مجھ کو دو سو سے کم آیتوں والی سورتیں دی گئی ہیں اور پھر مجھے فضیلت میں خصوصاً سورۃ ق سے لے کر آخر تک کی سورتیں ملی ہیں یہ حدیث غریب ہے اور اس کے ایک راوی سعید بن ابو بشیر کے بارہ میں اختلاف ہے ۔ ابو عبید نے اسے دوسری سند سے بھی نقل کیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ ایک اور حدیث میں ہے جو شخص ان سات سورتوں کو حاصل کر لے وہ بہت بڑا عالم ہے ۔ یہ روایت بھی غریب ہے ۔ مسند احمد میں بھی یہ روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور ان کا امیر انہیں بنایا ، جنہیں سورۃ بقرہ یاد تھی حالانکہ وہ ان سب میں چھوٹی عمر کے تھے ۔ حضرت سعید بن جبیر تو ولقد اتیناک سبعا من المثانی کی تفسیر میں بھی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہی سات سورتیں ہیں ۔ سورۃ بقرہ ، سورۃ آل عمران ، سورۃ نسائ ، سورۃ مائدہ ، سورۃ انعام ، سورۃ اعراف اور سورہء یونس ، حضرت مجاہد مکحول ، عطیہ بن قیس ، ابو محمد فارسی ، شداد بن اوس ، یحییٰ بن حارث ذماری سے بھی یہی منقول ہے ۔ مقام نزول سورۃ بقرہ ساری کی ساری مدینہ شریف میں نازل ہوئی ہے اور شروع شروع جو سورتیں نازل ہوئیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے البتہ اس کی ایک آیت واتقوا یوما ترجعون فیہ الی اللہ یہ سب سے آخر نازل شدہ بتائی جاتی ہے یعنی قرآن کریم میں سب سے آخر یہ آیت نازل ہوئی ہے ۔ ممکن ہے کہ نازل بعد میں ہوئی ہو لیکن اسی میں ہے ۔ اور اسی طرح سود کی حرمت کی آیتیں بھی آخر میں نازل ہوئی ہیں ۔ حضرت خالد بن معدان سورہء بقرہ کو فسطاط القرآن یعنی قرآن کا خیمہ کہا کرتے تھے ۔ بعض علماء کا فرمان ہے کہ اس میں ایک ہزار خبریں ہیں اور ایک ہزار حکم ہیں اور ایک ہزار کاموں سے ممانعت ہے ۔ اس کی آیتیں دو سو ستاسی ہیں ۔ اس کے کلمات چھ ہزار دو سو اکیس ہیں ۔ اس کے حروف ساڑھے پچیس ہزار ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ ابن عباس فرماتے ہیں یہ سورت مدنی ہے ۔ حضرت عبد بن زبیر اور حضرت زید بن ثابت اور بہت سے ائمہ علماء اور مفسرین سے بھی بلا اختلاف یہی مروی ہے ۔ ابن مردویہ کی ایک حدیث میں ہے کہ سورۃ بقرہ سورۃ آل عمران ، سورۃ النساء وغیرہ نہ کہا کرو بلکہ یوں کہو کہ وہ سورت جس میں بقرہ کا ذکر ہے ۔ وہ سورت جس میں آل عمران کا بیان ہے اور اسی طرح قرآن کی سب سورتوں کے نام لیا کرو ۔ لیکن یہ حدیث غریب ہے بلکہ اس کا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونا ہی صحیح نہیں ۔ اس کے راوی عیسیٰ بن میمون ابو سلمہ خواص ضعیف ہیں ۔ ان کی روایت سے سند نہیں لی جا سکتی ۔ اس کے برخلاف بخاری و مسلم میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بطن وادی سے شیطان پر کنکر پھینکے ۔ بیت اللہ ان کی بائیں جانب تھا اور منیٰ دائیں طرف ۔ اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن پر سورۃ بقرہ اتری ہے ۔ اسی جگہ سے کنکر پھینکے تھے گو اس حدیث سے صاف ثابت ہو گیا ہے کہ سورۃ بقرہ وغیرہ کہنا جائز ہے لیکن مزید سنئے ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب میں کچھ سستی دیکھی تو انہیں یا اصحاب سورۃ بقرہ کہہ کر پکارا ۔ غالباً یہ غزوہ حنین والے دن کا ذکر ہے جب لشکر کے قدم اکھڑ گئے تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت عباس نے انہیں درخت والو یعنی اے بیعت الرضوان کرنے والو اور اے سورۃ بقرہ والو کہہ کر پکارا تھا تاکہ ان میں خوشی اور دلیری پیدا ہو ۔ چنانچہ اس آواز کے ساتھ ہی صحابہ ہر طرف سے دوڑ پڑے ۔ مسیلمہ جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا ، اس کے ساتھ لڑنے کے وقت بھی جب قبیلہ بنو حنفیہ کی چیرہ دستیوں نے پریشان کر دیا اور قدم ڈگمگا گئے تو صحابہ نے اسی طرح لوگوں کو پکارا یا اصحاب سورۃ البقرہ ، اے سورۃ بقرہ والو ۔ اس آواز پر سب کے سب جمع ہوگئے اور جم کر لڑے یہاں تک کہ ان مرتدوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنے لشکر کو فتح دی ۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سب صحابہ سے خوش ہو Show more
حافظ عماد الدین ابن کثیر۔
نام نسب : اسماعیل کنیت : ابوالفداء لقب : عماد الدین اور ابن کثیر عرف ہے
سلسلہ نسب یہ ہے : اسماعیل بن عمر بن کثیر بن ضوء بن ذرع القیسی البصروی ثم الدمشقی
آپ ایک معزز اور علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔ آپ کے والد شیخ ابوحفص شہاب الدین عمر اپنی بستی خطیب تھے آپ کے بڑے بھائی شیخ عبدالوہاب ایک ممتاز عالم اور فقیہ تھے۔
ولادت و تعلیم و تربیت : آپ کی ولادت ٧٠٠ ھ میں بمقام مجدل ہوئی جو ملک شام کے مشہور بصریٰ کے اطراف میں ایک قریہ ہے ، اس وقت آپ کے والد یہاں کے خطیب تھے ، ابھی آپ تیسرے یا چوتھے برس میں ہی تھے کہ والد بزرگوار نے ٧٠٣ ھ میں وفات پائی اور نہایت ہی کم سنی میں آپ یتیمی کا داغ اٹھانا پڑا، باپ کا سایہ سر سے اٹھا تو بڑے نے اپنی آغوش تربیت میں لے لیا ۔ والد کی وفات کے تین سال بعد یعنی ٧٠٦ ھ میں آپ اپنے برادر بزرگوار کے ساتھ دمشق چلے آئے اور پھر یہیں آپ کی نشو و نما ہوئی ، ابتدا میں اپنے بڑے بھائی سے فقہ کی تعلیم پائی بعد کو شیخ برھان الدین ابراہیم بن عبدالرحمن فرازی معروف بہ ابن فرکاح شارخ تنبیہ المتوفی ٧٢٩ ھ اور شیخ کمال الدین قاضی شہبہ سے اس فن کی تکمیل کی ، اس زمانہ میں دستور تھا کہ طالب علم جس فن کو حاصل کرتا اس فن کی کوئی مختصر کتاب زبانی یاد کرلیتا۔ چناچہ آپ نے بھی فقہ کی التنبیہ فی فروع الشافعیہ ، مصنفہ شیخ ابواسحاق شیرازی المتوفی ٤٧٦ ھ کو حفظ کرکے ٧١٨ ھ میں سنادیا اور اصول فقہ میں علامہ ابن حاجب مالکی المتوفی ٧٤٦ ھ کی مختصر کو زبانی یاد کیا۔ اصول کی کتابیں آپ نے علامہ شمس الدین محمود بن عبدالرحمن اصفہانی شارح مختصر ابن حاجب المتوفی ٧٤٩ ھ سے پڑھی تھیں۔
فن حدیث کی تکمیل آپ نے اس عہد کے مشہور اساتذہ فن سے کی تھی ، علامہ سیوطی ، ذیل تذکرہ الحفاظ میں لکھتے ہیں ۔ سمع الحجازوالطبقۃ یعنی حجاز اور اس طبقہ کے علماء سے آپ نے سماع حدیث کیا۔
حجاز کے ہم طبقہ وہ علماء جن سے آپ نے علم حدیث حاصل کیا اور جن کا ذکر خصوصیت سے آپ کے تذکرہ میں علماء نے کیا ہے وہ حسب ذیل ہیں (١) عیسیٰ بن المعطعم ّ (٢) بہاؤالدین قاسم بن عساکر المتوفی ٧٢٣ ھ (٣) عفیف الدین اسحاق بن یحییٰ الامدی المتوفی ٧٢٥ ھ (٤) محمد بن زراد (٥) بدرالدین محمد بن ابراہیم معروف بہ ابن سویدی المتوفی ٧١١ ھ (٦) ابن الرضی (٧) حافظ مزی (٨) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (٩) حافظ ذہبی (١٠) عمادالدین محمد بن الشیرازی المتوفی ٧٤٩ ھ۔
لیکن ان تمام حضرات میں سب سے زیادہ جس سے آپ کو استفاد ہ کا موقع ملا وہ محدث شام حافظ جمال الدین یوسف بن عبدالرحمن مزی شافعی مصنف تہذیب الکمال المتوفی ٧٤٢ ھ ہیں ۔ حافظ مزی نے خصوصی تعلق کی بناء پر اپنی صاحبزادی کا آپ سے نکاح کردیا تھا ۔ اس رشتہ نے اس تعلق کو اور زیادہ استوار کردیا۔ سعادت مند شاگرد نے اپنے محترم استاذ کی شفقت سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ، مدت مدید تک حاضر خدمت رہے اور ان کی اکثر تصانیف کا جس میں تہذیب الکمال بھی داخل ہے بھی داخل ہے ، خود ان سے سماع کیا اور اس فن کی پوری تکمیل ان ہی کی خدمت میں رہ کر کی
چنانچہ سیوطی لکھتے ہیں وتخرج بالمزی ولازمہ وبرع۔ اسی طرح شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ المتوفی ٧٢٨ ھ سے بھی آپ نے بہت کچھ علم حاصل کیا تھا اور عرصہ تک ان کی صحبت میں رہے تھے۔
حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ مصر سے آپ کو دیوسی ، وانی اور ختنی وغیرہ نے حدیث کی اجازت دی تھی۔
منزلت علمی : امام ابن کثیر کو علم حدیث کے علاوہ فقہ ، تفسیر ، تاریخ اور عربیت میں بھی کمال حاصل تھا ، چناچہ علامہ ابن العماد حنبلی ، ابن حبیب سے ناقل ہیں ۔ انتھت الیہ ریاستہ العلم فی التاریخ و الحدیث والتفسیر (ان پر تاریخ ، حدیث اور تفسیر میں ریاست علمی ختم ہوگئی۔
درس وافتاء ، ذکر الٰہی شگفتہ مزاجی :۔ حافظ ابن کثیر کی تمام عمر درس وافتاء اور تصنیف و تالیف میں بسر ہوئی ۔ حافظ ذہبی کی وفات کے بعد مدرسہ ام صالح اور مدرسہ تنکریہ (جو اس زمانہ میں علم حدیث کے مشہور مدرسے تھے ) میں آپ شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز رہے ، بڑے ذاکر شاغل تھے ، چناچہ ابن حبیب نے آپ کے متعلق لکھا کہ امام ذی التسبیح والتھلیل طبیعت بڑی شگفتہ پائی تھی ۔ لطیفہ گو اور بذلہ سنج تھے ، حافظ ابن حجر نے آپ کے اوصاف میں حسن الفاکہۃ کے الفاظ استعمال کئے ہیں ، یعنی بڑا پر لطف مزاح کیا کرتے تھے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ سے خصوصی تعلق : اخیر میں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ حافظ ابن کثیر کو اپنے استاذ علامہ ابن تیمیہ سے خصوصی تعلق تھا ، جس نے آپ کی علمی زندگی پر گہرا اثر ڈالا تھا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آپ بعض ان مسائل میں بھی امام ابن تیمیہ سے متاثر تھے جن میں وہ جمہور سلف سے متفرد ہیں ، چناچہ ابن قاضی شہبہ اپنے طبقات میں لکھتے ہیں
'' کانت لہ خصوصیۃ بابن تیمیہ مناضلتہ عنہ و اتباع لہ فی کثیر من ارایئہ وکان یفتی برایہ فی مسئلتہ الطلاق وامتحن بسبب ذالک واوذی ''۔
ان کو ابن تیمیہ کے ساتھ خصوصی تعلق تھا اور ان کی طرف سے لڑا کرتے تھے اور بہت سی آراء میں ان کی اتباع کرتے تھے چناچہ طلاق کے مسئلہ میں بھی انہی کی رائے پر فتوی دیتے تھے جس کے نتیجے میں آزمائش میں پڑے اور ستائے گئے۔
وفات :
اخیر عمر میں بینائی جاتی رہی تھی ، جمعرات کے دن شعبان کی چھبیس تاریخ ٧٧٤ ھ میں وفات پائی (رحمتہ اللہ ) اور مقبرہ صوفیہ میں اپنے محبوب استاذ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے پہلو میں دفن کئے گئے ، آپ کے کسی شاگرد نے آپ کی وفات پر بڑا درد انگیز مرثیہ لکھا ہے، جس کے دو شعر یہ ہیں
لفقدک طلاب العلوم تاسفوا وجادوابدمع لایبیدغزیر
ومزجواماء المدامع بالدما لکان قلیلا فیک یا ابن کثیر
ترجمہ (شائقین علوم تمہارے اٹھ جانے پر متاسف ہیں ، اس کثرت سے آنسو بہا رہے ہیں کہ تھمنے ہی کو نہیں آتے اور اگر وہ آنسوؤں کے ساتھ لہو بھی ملا دیتے تب بھی اے ابن کثیر تمہارے لئے تھوڑے تھے)
پسماندگان
پسماندگان میں دو صاحبزادے بڑے نامور چھوڑے تھے ، ایک زین الدین عبدالرحمن جن کی وفات ٧٩٢ ھ میں ہوئی اور دوسرے بدرالدین ابوالبقاء محمد۔ یہ بڑے پایہ کے محدث گزرے ہیں ۔ انہوں نے ٨٠٣ ھ میں بمقام رملہ وفات پائی ، ان دونوں کا ذکر حافظ بن فہد نے اپنے ذیل میں بسلسلہ وفیات کیا ہے۔
تصنیفات :
آپ نے تفسیر ، حدیث ، سیر ت اور تاریخ میں بڑی بلند پایہ تصانیف یادگار چھوڑی ہیں، یہ آپ کے اخلاص کا ثمرہ اور حسن نیت کی برکت تھی کہ بارگاہ ایزدی سے ان کو قبول عام اور شہرت دوام کی مسند عطا ہوئی، مورخین نے آپ کے تصانیف کی افادیت اور ان کی قبولیت کا ذکر خاص طور سے کیا ہے ، ذہبی لکھتے ہیں ، ولہ تصانیف مفیدۃ ابن حجر کہتے ہیں ۔
'' سادت تصانیفہ فی البلادفی حیاتہ وانتفع الناس بھا بعد وفاتہ ''
ان کی زندگی میں ان کی تصانیف شہر شہر جا پہنچیں اور ان کی وفات کے بعد لوگ ان سے نفع اندوز ہوتے رہے۔
آپ کی جن تصانیف پر ہمیں اطلاع ملی ہے وہ حسب ذیل ہیں۔
(١) تفسیر القرآن العظیم : جس کے متعلق حافظ سیوطی تصریح کرتے ہیں کہ اس طرز پر دوسری تفسیر نہیں لکھی گئی ، یہ تفسیر بالروایہ میں سب سے زیادہ مفید ہے۔
(٢) البدایہ والنہایہ : یہ فن تاریخ میں ان کی بیش بہا تصانیف ہیں اور مصر سے طبع ہو کر شائع ہوچکی ہے اس میں ابتدائے کائنات سے لے کر احوال آخرت تک درج ہیں۔
(٣) التکمیل فی معرفتہ الثقات والضعفاء والمجاہیل :
(٤) الہدی والسنن فی احادیث المسانید والسنن : یہی کتاب ہے جو جامع المسانید کے نام سے مشہور ہے۔
(٥) طبقات الشافعیہ : اس میں فقہاء شافعیہ کا تذکرہ ہے ۔
(٦) مناقب الشافعی : یہ رسالہ امام شافعی کے حالات میں ہے ۔
(٧) تخریج احادیث ادلتہ التنبیہ۔
(٨) تخریج احادیث مختصر ابن حاجب ، التنبیہ اور مختصر یہ دونوں کتابیں وہی ہیں جن کو مصنف نے عہد طالب علمی میں حفظ کیا تھا، ان دونوں کتابوں میں کتب حدیث سے تخریج بھی لکھی ہے۔
(٩) شرح صحیح بخاری ک : اسکی تصنیف بھی شروع کی تھی مگر ناتمام رہ گئی ' کشف الطنون میں ہے کہ صرف ابتدائی ٹکڑے کی شرح ہے۔ مصنف نے اس کا ذکر اختصار علوم الحدیث میں کیا ہے۔
(١٠) الاحکام الکبیر : یہ کتاب بہت بڑے پیمانہ پر احادیث احکام میں لکھنی شروع کی تھی ' مگر کتاب الحج تک لکھ سکے تمام نہ کرسکے ' مصنف نے اختصار علوم الحدیث میں اس کتاب کا بھی ذکر کیا ہے۔
(١١) اختصار علوم الحدیث : نواب صدیق حسن خاں نے منہج الوصول فی اصطلاح احادیث الرسول میں اس کا نام الباعث الحثیث علی معرفتہ علوم الحدیث لکھا ہے ' یہ علامہ ابن صلاح المتوفی ٦٤٣ ھ کی مشہور کتاب '' علوم الحدیث '' معروف بہ مقدمہ ابن صلاح کا جو اصول حدیث میں ہے ' اختصار ہے ' مصنف نے اس میں جابجا مفید اضافے کئے ہیں ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی اس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں ولہ فیہ فوائد (اس کتاب میں حافظ ابن کثیر کے بہت سے افادات ہیں ۔ )
(١٢) مسند الشیخین : اس میں شیخین یعنی حضرت ابوبکر و عمر (رض) سے جو حدیثیں مروی ہیں انکو جمع کیا گیا ہے۔ مصنف نے اختصار علوم الحدیث میں اپنی ایک تصنیف مسند عمر (رض) کا ذکر کیا ہے ۔ یہ معلوم نہ ہوسکا کہ آیا وہ مستقل علیحدہ کتاب ہے یا اسی کا حصہ ثانی ہے۔
(١٣) السیرۃ النبویہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : یہ سیرت پر بڑی طویل کتاب ہے۔
(١٤) الفصول فی اختصار سیرۃ الرسول : یہ سیرت پر ایک مختصر کتاب ہے ۔ مصنف نے اس کا ذکر اپنی تفسیر میں سورة احزاب کے اندر غزوہ خندق کے بیان میں کیا ہے ۔ اس کتاب کا قلمی نسخہ مدینہ منورہ میں کتب خانہ شیخ الاسلام میں موجود ہے۔
(١٥) کتاب المقدمات : اس کا ذکر مصنف نے اختصار علوم الحدیث میں کیا ہے۔
(١٦) مختصر کتاب المدخل للبیہقی : اس کا ذکر بھی اختصار الحدیث کے مقدمہ میں کیا ہے۔
(١٧) الاجتہاد فی طلب الجہاد : جب فرنگیوں نے قلعہ ایاس کا محاصرہ کیا اس وقت آپ نے یہ رسالہ امیر منجک کے لئے لکھا ' یہ رسالہ مصر سے چھپ کر شائع ہوچکا ہے۔
(١٨) رسالتہ فی فضائل القرآن : یہ رسالہ بھی تفسیر ابن کثیر کیساتھ مطبع المنار مصر میں طبع ہوچکا ہے۔
(١٩) مسند امام احمد بن حنبل کو بھی حروف پر مرتب کیا تھا اور اسکے ساتھ طبرانی کی معجم اور ابو یعلی کی مسند سے زوائد بھی درج کئے تھے ۔ امام ابن کثیر کی تمام تصانیف میں یہ خوبی عیاں ہے کہ جو کچھ لکھتے ہیں نہایت تحقیق کیساتھ لکھتے ہیں اور مفصل لکھتے ہیں ' عبارت سہل اور پیرایہ بیان دلکش ہوتا ہے۔
مقدمہ
ازقلم معالی اشیخ صالح بن عبدالعزیزبن محمد آل الشیخ
وزیر اسلامی امور اوقاف اور دعوت وارشاد
نگران اعلٰی مجمع الملک فہد
خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز آل سعود حفظہ اللہ نے کتاب الہٰی کی خدمت کے سلسلہ میں جو ہدایات دی ہیں ان میں قرآن مجید کی طباعت ، وسیع پیمانے پر مسلمانان عالم میں اس کی تقسیم کے اہتمام اور دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ و تفسیر کی اشاعت پر خاص طور سے زور دیا گیا ہے۔
وزارۃالشؤون الاسلامیۃ والأوقاف والدعوۃ والارشاد
کی نظرمیں عربی زبان سے ناواقف مسلمانوں کےلئےقرآن فہمی کی راہ ہموارکرنے اور تبلیغ کی اس ذمہ داری سے عہدہ برآہونےکےلئےجورسول اکرم ﷺ کےارشادگرامی : بلغوا عنی ولوآیۃ : (میری جانب سے لوگوں تک پنچاؤخواہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو ) میں بیان کی گئی ہے، دنیا کے تمام اہم زبانوں میں قرآن مجید کے مطا لب کو منتقل کیا جانا انتہائ ضروری ہے۔
[١] فضائل سورة البقرۃ :۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس گھر میں سورة البقرہ پڑھی جائے، شیطان اس گھر سے نکل جاتا ہے۔ (مسلم، کتاب صلوۃ المسافرین و قصرھا، باب استحباب الصلوۃ النافلۃ فی بیتہ۔۔ الخ) نیز آپ نے فرمایا : الزھراوین (دو جگمگانے والی سورتیں یعنی البقرہ اور آل عمران) ... پڑھا کرو۔ قیامت کے دن وہ اس حال میں آئیں گی جیسے وہ دو بادل یا دو سائبان یا پرندوں کے دو جھنڈ ہیں اور وہ اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے (مغفرت کے لیے) جھگڑا کریں گی (لہٰذا) سورة البقرہ پڑھا کرو۔ اسے حاصل کرنا برکت اور چھوڑ دینا حسرت ہے اور باطل قوتیں (جادو وغیرہ) اس کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ (مسلم، کتاب فضائل القرآن و مایتعلق بہ باب فضل قراءۃ القرآن و سورة البقرۃ) زمانہ نزول اور شان نزول :۔ مدنی سورتوں میں سب سے پہلی سورت ہے۔ مکہ میں چھیاسی (٨٦) سورتیں نازل ہوئیں اور نزولی ترتیب کے لحاظ سے اس کا نمبر ٨٧ ہے، اگرچہ اس سورة کا بیشتر حصہ ابتدائی مدنی دور میں نازل ہوا تاہم اس کی کچھ آیات بہت مابعد کے دور میں نازل ہوئیں مثلاً حرمت سود کی آیات جو ١٠ ھ کے اواخر میں نازل ہوئیں۔ سورة بقرہ کے نزول کا پس منظر :۔ مدینہ پہنچ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلا کام جو کیا وہ مسجد نبوی کی تعمیر تھی تاکہ تمام مسلمان دن میں پانچ دفعہ اکٹھے ہو کر نماز ادا کریں اور اپنے مسائل پر غور کرسکیں۔ دوسرا اہم مسئلہ مہاجرین کی آباد کاری اور ان کے معاش کا تھا جس کے لیے آپ نے مہاجرین و انصار میں سلسلہ مواخات قائم فرمایا جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ تیسرا اہم مسئلہ مدینہ کی ایک چھوٹی سی نوخیز اسلامی ریاست کے دفاع کا تھا۔ کیونکہ اب مشرکین مکہ کے علاوہ دوسرے مشرک قبائل بھی مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلے ہوئے تھے۔ خود مدینہ میں یہود مسلمانوں کے اس لیے دشمن بن گئے تھے کہ آنے والا نبی سیدنا اسحاق کی اولاد کے بجائے سیدنا اسماعیل کی اولاد سے کیوں مبعوث ہوا ہے۔ یہود کے تین قبائل بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ مدینہ میں آباد تھے جو آپس میں پھٹے ہوئے تھے اور مدینہ کے مشرکوں کے دو مشہور قبائل اوس اور خزرج کے حلیف بن کر انہیں لڑاتے رہتے تھے۔ آپ نے سب سے پہلے یہودیوں کو ہی ایک مشترکہ مفاد کی طرف دعوت دی اور وہ مفاد تھا مدینہ کا دفاع۔ جس کی اہم دفعات یہ تھیں : (١) اگر مدینہ پر باہر سے حملہ ہوا تو مسلمان اور یہود مل کر دفاع کریں گے۔ (٢) مسلمان اور یہود دونوں حصہ رسدی اخراجات برداشت کریں گے۔ (٣) مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کسی طرح کے بھی جھگڑے کی صورت میں حکم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات ہوگی۔ یہود کے لیے بظاہر ایسی شرائط کو تسلیم کرلینا ناممکن نظر آ رہا تھا۔ کیونکہ وہ مدینہ کی معیشت اور سیاست پر پوری طرح چھائے ہوئے تھے، مگر یہ اللہ کی خاص مہربانی اور ان کی باہمی نااتفاقی کا نتیجہ تھا کہ یہودی قبائل باری باری اور مختلف اوقات میں اس معاہدہ کو تسلیم کرتے چلے گئے۔ اس طرح جب یہ ریاست اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی تو مسلمانوں اور کافروں کے علاوہ ایک تیسرا مفاد پرستوں کا طبقہ بھی معرض وجود میں آگیا۔ جنہیں منافقین کا نام دیا گیا۔ اس سورة کی ابتدا میں انہیں تین گروہوں (مسلمان، کافر اور منافقین) کا ذکر ہوا ہے اور یہی اس کا زمانہ نزول ہے۔ حروف مقطعات کی بحث :۔ قرآن کی ٢٩ سورتوں کی ابتدا میں ایسے حروف استعمال ہوئے ہیں، ان میں سے مندرجہ ذیل تین یک حرفی ہیں : (١) سورة ص والقرآن ٣٨ (٢) سورة ق والقرآن ٥٠ (٣) سورة ن والقلم ٦٨ اور ٩ دو حرفی ہیں جن میں سے (٤) المومن ٤٠، حم تنزیل الکتاب (٥، ) سورة حم السجدۃ ٤١ حم تنزیل من (٦) الزخرف ٤٣ حم والکتاب المبین (٧) الدخان ٤٤ حم والکتاب المبین (٨) الجاثیہ ٤٥ حم تنزیل الکتاب (٩) الاحقاف ٤٦ حم تنزیل الکتاب (١٠) طہ ٢٠ طہ ما انزلنا (١١) النمل ٢٧ طس تلک آیت (١٢) یس ٢٦ یس والقرآن اور ١٣ سہ حرفی ہیں جو یہ ہیں : (١٣) یونس ١٠ الر تلک آیات (١٤) ھود ١١ الر کتاب احکمت (١٥) یوسف ١٢ الر تلک آیات ١٠١، ابراہیم ١٤، الر کتاب انزلنا ١٧، حجر ١٥، الم تلک آیات (١٨) البقرۃ ٢ الم ذلک الکتاب (١٩) آل عمران ٣ الم اللہ لا الہ (٢٠) عنکبوت ٢٩ الم احسب الناس (٢١) الروم ٣٠ الم غلبت الروم (٢٢) لقمان ٣١ الم تلک آیات (٢٣) السجدہ ٣٢ الم تنزیل الکتاب (٢٤) شعراء ٢٦ طسم تلک آیات (٢٥) القصص ٢٨ طسم تلک آیات اور مندرجہ ذیل ٢ چار حرفی ہیں : (٢٦) الاعراف ٧ المص کتاب انزلنہ (٢٧) الرعد ١٣ المر تلک آیات اور مندرجہ ذیل ٢ پانچ حرفی ہیں : (٢٨) مریم ١٩ کھیعص ذکر رحمۃ (٢٩) الشوریٰ ٤٢ حم عسق کذلک یوحی الیک۔ مجموعہ احادیث میں سے کوئی بھی ایسی متصل اور صحیح حدیث مذکور نہیں جو ان حروف کے معانی و مفہوم پر روشنی ڈالتی ہو۔ لہذا انہیں (وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ ) 3 ۔ آل عمران :7) کے زمرہ میں شامل کرنا ہی سب سے انسب ہے۔ ان کے متعلق جو اقوال ملتے ہیں وہ درج ذیل ہیں : ١۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ مگر احادیث صحیحہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں اور جو نام ان میں مذکور ہیں ان میں ان حروف کا ذکر نہیں۔ ٢۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے ابتدائی حصے ہیں جن کو ملانے سے اللہ تعالیٰ کا کوئی نہ کوئی نام بن جاتا ہے۔ جیسے الٰر اور حم اور ن کو ملانے سے الرحمن بن جاتا ہے۔ یہ توجیہ بھی کچھ درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ الرحمن میں بھی م اور ن کے درمیان ایک الف ہے جس کو لکھتے وقت تو کھڑی زبر سے کام چلا کر حذف کیا جاسکتا ہے مگر تلفظ میں تو حذف نہیں ہوسکتا۔ علاوہ ازیں یہ ایک لفظ تو بن گیا اب اگر مزید کوشش کی جائے تو شاید ایک آدھ لفظ اور بن جائے، سارے حروف کو اس انداز سے ترکیب دینا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے نام بن جائیں ناممکن سی بات معلوم ہوتی ہے۔ ٣۔ ایک قول یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام ہیں، اور اس سلسلہ میں بالخصوص طہ اور یس کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ توجیہ اس لحاظ سے درست نہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود جو اپنے نام بتائے ہیں وہ یہ ہیں۔ محمد، احمد، ماحی (کفر کو مٹانے والا) حاشر اور عاقب۔ (بخاری، کتاب التفسیر، تفسیر سورة صف) نیز بخاری میں مذکور ہے کہ حبشی زبان میں طہ کے معنی اے مرد ! ہیں یا ایسا آدمی جس کی زبان سے کوئی حرف نہ نکل سکے، وہ رک رک کر یا اٹک اٹک کر بات کرے اور یہ بات اس کی زبان میں گرہ کی وجہ سے ہو اور یہ تو واضح ہے کہ رسول نعوذ باللہ ایسے نہیں تھے۔ ٤۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف قرآن کے نام ہیں، جبکہ قرآن نے اپنے نام خود ہی بتا دیئے ہیں جو یہ ہیں۔ الکتاب، کتاب مبین، قرآن، قرآن مجید، قرآن کریم، قرآن عظیم، فرقان، ذکر، تذکرہ، حدیث اور احسن الحدیث ان ناموں کی موجودگی میں ایسے ناموں کی ضرورت ہی کب رہ جاتی ہے، جن کی سمجھ ہی نہ آتی ہو۔ ٥۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف سورتوں کے نام ہیں۔ یہ قول کسی حد تک درست ہے۔ مثلاً : ص، ق، طہ، یس سورتوں کے نام بھی ہیں۔ سورة القلم کو ن بھی کہا گیا ہے۔ حوامیم (جمع حم) کا ذکر بھی احادیث میں ملتا ہے۔ تاہم ان میں سے بھی بیشتر سورتیں دوسرے ناموں سے ہی مشہور ہوئیں۔ جن کا ان سورتوں میں امتیازاً ذکر آیا ہے۔ پھر یہ بھی ملحوظ رہے کہ کئی سورتوں کے دو دو نام بھی مشہور ہیں۔ ٦۔ ایک قول یہ ہے کہ الفاظ میں پورے نظام رسالت کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ مثلاً الم میں الف سے مراد اللہ، ل سے مراد جبریل اور م سے مراد محمد ہیں۔ یہ بھی ایسی توجیہ ہے جسے تمام حروف مقطعات پر لاگو نہیں کیا جاسکتا۔ ٧۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف کفار کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں کہ دیکھ لو کہ انہی مفرد حروف سے تم اپنے کلام کو ترکیب دیتے ہو، پھر تمہارے اور اللہ تعالیٰ کے کلام میں اتنا فرق ہے کہ تم سب مل کر بھی قرآن کے مقابلہ میں ایک سورت بھی اس جیسی پیش نہیں کرسکتے۔ یہ توجیہ اس لحاظ سے درست نہیں کہ جب ان الفاظ کا ٹھیک مفہوم متعین ہی نہیں تو پھر چیلنج کیسا ؟ ٨۔ ایک قول یہ ہے کہ بحساب جمل ان حروف کے عدد نکال کر جمع کرنے سے اس امت کی عمر یا قیامت کی آمد کی مدت کا اشارہ پایا جاتا ہے۔ یہ توجیہ انتہائی غیر معقول ہے۔ ایک تو جمل کے حساب کی شرعاً کچھ حیثیت نہیں۔ دوسرا انسان کے پاس کوئی ایسا علم یا ایسا ذریعہ موجود ہونا ناممکنات سے ہے۔ جس سے قیامت کی آمد کے مخصوص وقت کا حساب لگایا جاسکے۔ ٩۔ ایک قول یہ ہے کہ حروف طویل جملوں یا ناموں کے ابتدائی حروف یا مخففات ہیں اور ان کا مفہوم صرف رسول ہی جانتے تھے اور کوئی نہیں جان سکتا۔ گویا یہ عبد اور معبود کے درمیان راز و نیاز کی باتیں ہیں۔ یہ ایسی توجیہ ہے جس کے متعلق ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ واللہ اعلم بالصواب۔ ١٠۔ اور ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے سر بستہ راز ہیں جو اگرچہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں تاہم ان پر مطلع ہونا انسان کے بس کی بات نہیں۔ یہی وہ توجیہ ہے جس کی طرف ہم نے ابتدا میں اشارہ کردیا ہے اور یہی توجیہ سب سے انسب معلوم ہوتی ہے۔ ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی بعض ایسی صفات مذکور ہیں جن کا سمجھنا انسانی عقل کی بساط سے باہر ہے اور ان پر کسی عمل کی بنیاد بھی نہیں اٹھتی۔ رہی یہ بات کہ صحابہ کرام (رض) کو جس بات کی سمجھ نہیں آتی تھی تو فوراً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھ لیا کرتے تھے اور چونکہ صحابہ کرام (رض) نے ان حروف کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کبھی استفسار نہیں کیا لہذا معلوم ہوا کہ عربی زبان میں حروف مقطعات کا رواج عام تھا اور صحابہ کرام (رض) ان کے معانی بھی خوب جانتے تھے۔ پھر عربی ادب سے کچھ شاذ قسم کی مثالیں بھی پیش کی جاتی ہیں تو یہ خیال درست نہیں جب قرآنی آیات کی پوری تشریحات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صحابہ کرام (رض) کے ذریعہ ہم تک پوری صحت کے ساتھ پہنچ چکی ہیں تو پھر آخر ان حروف کی تشریح و تفسیر ہی ہم تک کیوں نہیں پہنچی۔ بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام (رض) خوب سمجھتے تھے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے ایسے راز یا صفات ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی جان نہیں سکتا۔ کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ کسی صحابی نے آپ سے یہ پوچھا ہو کہ اللہ تعالیٰ جب ہم میں سے ہر ایک کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے تو پھر وہ عرش پر کیسے متمکن ہے ؟ یا جب وہ بوقت سحر آسمان سے دنیا پر نزول فرماتا ہے تو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب کے کیا معنی ؟ ہرگز نہیں۔ بالکل یہی صورت ان حروف مقطعات کی بھی ہے۔ لہذا ان کے معانی و مفہوم نہ جاننے کے باوجود انہوں نے کبھی ان کے متعلق استفسار نہیں کیا تھا، کیونکہ یہ حروف متشابہات سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے لیے یہ بات ہی کافی ہے کہ اس بات پر ایمان لائیں کہ یہ بھی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں، نہ یہ مہمل ہیں، نہ زائد ہیں۔ بلکہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں۔ البتہ ان کے معانی و مفہوم جاننے کے نہ ہم مکلف ہیں اور نہ ہی ان پر کسی شرعی مسئلے کا دار و مدار ہے۔ Show more
مفسر مرحوم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مولانا عبدالرحمن کیلانی (رح)
مولانا عبدالرحمان کیلانی مرحوم بہت ہی سادہ اور دویش صفت انسان تھے انہوں نے گھر اور باہر جب بھی انہیں دیکھا سفید لباس میں دیکھا سفید لباس ' تہبند اور قمیص پر مشتمل ہو یا شلوار قمیض پر سر پر ہمیشہ سفید رومال رکھتے اور بازار جاتے وقت سیاہ رنگ کی جناح کیپ استعمال کرتے لکھنے کے لئے ہمیشہ کوئی بھی معمولی سا قلم اور سواری کے لئے سائیکل ہی استعمال کی۔ مالی طور پر خوب مستحکم تھے مگر اس کے باوجود کبھی تصنع یا بڑائی کا اظہار نہیں کیا ۔
والد مرحوم چار بھائی تھے۔ ان چار بھائیوں میں چار چار سال کا فرق تھا اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ پہلے تینوں بھائی اسی ترتیب سے چار چار سال وقفے سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ بچپن میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیوشن پڑھا کرتے اور کبھی دکان کے ذریعہ اپنے والد صاحب کا ہاتھ بٹایا ۔ ان حالات میں ہمیشہ ہر امتحان میں اعلی کامیابی اور وظیفہ حاصل کیا۔ بی اے۔ کا امتحان گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے نہ دے سکے ۔
محترم ابا جان نے فوج میں ملازمت کی اور فوج سے صرف اس بناء پر استعفیٰ دے دیا کہ یہ ملازمت داڑھی رکھنے سے مانع تھی جب کہ انہیں داڑھی منڈوانا منظور نہ تھا۔ حالانکہ محکمہ نے انہیں پر وموشن اور تنخواہ میں اضافے کا بھی لالچ دیا مگر یہ چیزیں سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ میں ان کے سامنے ہیچ تھیں۔
استعفی کے بعد کتابت کو بطور پیشہ اختیار کیا۔ ١٩٤٧ ء سے ١٩٦٥ ء تک اردو کتابت کی اور اس وقت کے سب سے بہتر ادارے ، فیروز سنز سے منسلک رہے ۔ ١٩٦٥ ے میں قرآن مجید کی کتابت شروع کی اور تاج کمپنی کے لئے کام کرتے رہے ۔ غالبا ٥٠ کے قریب قرآن مجید کی کتابت کی سعادت حاصل کی ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ١٩٧٢ ء میں حج کرنے گئے تو مکی سورتوں کی کتابت باب بلال (مسجد حرام ) میں بیٹھ کر کی اور مدنی سورتوں کی کتابت مسجد نبوی میں اصحاب صفہ کے چبوترہ پر بیٹھ کر کی ۔ الحمد للہ اس تفسیر میں قرآن مجید کی اسی بابرکت کتابت کو ہی بطور متن قرآن شائع کیا جارہا ہے۔ (ایں سعادت بزور بازو نیست ! )
١٩٨٠ ء کے بعد جب انہیں فکر معاش سے قدرے آزادی نصیب ہوئی تو تصنیف و تالیف کی طرف متوجہ ہوئے ۔ اس میدان میں بھی ماشاء اللہ علماء و مصنفین حضرات کی صف میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ مرحوم نے معاشرت ' معیشت ' سیاست ' عقائد اور جدید دینی مسائل پر تحقیق و تنقید کی اور علمی حلقوں میں داد تحسین پائی۔ ابا جان مرحوم کی تصانیف میں سے مترادفات القرآن ' آئینہ پرویزیت ' شریعت و طریقت ' خلافت و جمہوریت ' تجارت اور لین دین کے مسائل ' عقل پرستی اور انکار معجزات ' روح ' عذاب قبر اور سماع موتی ' احکام ستر و حجاب ' اسلام میں دولت کے مصارف اور الشمس والقمر بحسبان ہیں ۔ انکی وفات کے بعد جب ان کے مسودات وغیرہ دیکھے گئے تو کئی ایک غیر مطبوعہ کتب بھی ملیں جو وہ مکمل کرچکے تھے ۔ ان میں سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بحیثیت سپہ سالار طبع ہوچکی ہے ۔ '' محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبر و ثبات کے پیکر اعظم اور ایک مجلس کی تین طلاقیں اور انکا شرعی حل ' بھی زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں۔ اسکے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی ان کے مفصل علمی مقالہ جات موجود ہیں۔
آخری عمر میں وہ قرآن مجید کی ایک تفسیر لکھ رہے تھے ۔ انکی خواہش تھی کہ ا سکوخود طبع کروائیں مگر عمر نے وفا نہ کی انکی وفات کے بعد الحمد للہ اس تفسیر کو چھپوانے کا اعزاز ہمیں حاصل ہوا ہے '' تیسیرالقرآن '' نے چند ہی سالوں میں دوسری متداول تفاسیر میں اپنی امتیازی حیثیت کو تسلیم کروا لیا ہے۔ اس تفسیر میں انہوں نے آیت کے ساتھ مطابقت رکھنے والی احادیث کا با حوالہ ذکر کیا ہے اور صحاح ستہ سے ہی احادیث لی ہیں۔ مروجہ اردو تفاسیر کے انداز میں لکھی جانے والی اس تفسیر کی اضافی خوبی یہ ہے کہ حاشیہ میں ذیلی سرخیوں کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ تفسیر ٤ جلدوں میں ہے۔
محترم ابا جان نے دو دفعہ قومی سیرت کانفرنس میں صدارتی ایوارڈ حاصل کیا۔ یہ مقالے '' اصلاح معاشرہ '' اور '' پیغمبراسلام داعی امن و اخوت '' کے موضوعات پر تھے۔ مرحوم اپنی زندگی میں اتنا کام کرگئے کہ جید علماء جن کے پاس مستقل ادارے اور ملازمین ہیں حیران ہوتے ہیں کہ مرحوم کس طرح اکیلے یہ سارے کام کرتے ۔ ساتھ ہی ساتھ اتنی تحقیق اور معلوماتی کتب تصنیف کیں کہ جن سے آج تک علمی حلقے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
١٨ دسمبر ١٩٩٥ ء کو رات کا کھانا کھا رہے تھے کہ نماز عشاء کا وقت ہوگیا۔ وضو کیا اور مسجد کی طرف چل دئیے۔ جاکر پہلی صف میں دائیں طرف جگہ ملی پہلے سجدہ کے دوران روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ ساتھ والے نمازی نے اپنی نماز توڑ کر انکو پانی پلانے کی کوشش کی ۔ مگر بےسود۔۔۔۔۔ ایسی پرسکون ' اطمینان بخش موت کہ جس کی ہر مسلمان بجا طور تمنا کرسکتا ہے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین
پروفیسر نجیب الرحمن کیلانی
( تفسیر تیسیر القرآن مفصل کو مولانا عبدالرحمن کیلانی مرحوم کے چاروں بیٹوں اور چاروں بیٹوں اور ان کی دوسری زوجہ محترمہ کی طرف سے اجازت کے بعد ہم CD پر لا رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مفسر قرآن مولانا عبدالرحمن کیلانی اور ان کی پہلی زوجہ محترم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔
اس تفسیر کو محترم والد صاحب ، والدہ صاحبہ، اور ہم سب بہن بھائیوں اور ہماری دوسری والدہ محترمہ کیلئے صدقہ جاریہ بنائے ۔ عامۃ الناس کے لئے اس تفسیر کو نافع بنائے۔ آمین )
ترجمہ و تفسیر القرآن الکریم
تفسیر القرآن الکریم۔ حافظ عبدالسلام بھٹوی
مصنف کا تعارف :
حافظ عبدالسلام علوم القرآن اور علوم الحدیث میں ایک مقام کے حامل ہیں۔ موصوف کا مکمل نام ابوعبدالرحمن حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی ہے۔ حافظ صاحب اگست 1946 کو گوہڑ چک نمبر 8 ضلع قصور میں پیدا ہوئے۔
تعلیم :
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے گھر سے ہی کیا۔ قرآن مجید حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ ابتدائی علوم دینیہ کا بھی سلسلہ جاری رکھا۔ پھر آپ نے میٹرک کا امتحان اعلی نمبروں سے پاس کیا۔ موصوف نے میٹرک کے بعد درس نظامی، فاضل عربی، فاضل فارسی اور فاضل طب کی تعلیم حاصل کی۔
اساتذہ :
مترجم نے ابتدائی و اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بہت سے اساتذہ سے استفادہ کیا۔ مثلاً محمد گوندلوی، مولانا محمد عبدہ الفلاح، مولانا صادق خلیل، قاری اسلم اور مولانا شریف اللہ سواتی وغیر۔ حافظ صاحب نے ترجمہ قرآن کے علاوہ اور بھی کتابیں لکھیں ہیں۔ مثلاً ایک دین چار مذہب۔ چوری کے متعلق قانون الہی، مقالات طیبہ۔ احکام زکوۃ و عشر و صدقہ فطر۔ ترجمۃ القرآن الکریم۔ شرح کتاب الطہارہ من بلوغ المرا۔ شرح کتاب الجامع من بلوغ المرا وغیرہ۔
حافظ صاحب نے 17 سال کی عمر میں تدریس کا آغاز کیا۔ 1966 سے 1992 تک جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں پڑھایا۔ اس وقت سے لے کر تاحال تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیںَ
خصوصیات ترجمہ وتفسیر :
1 ۔ تاکید کے الفاظ کا ترجمہ بھی تاکید سے کیا گیا ہے۔
2 ۔ مبالغہ کے صیغوں کا ترجمہ بھی اضافہ سے کیا گیا ہے۔
3 ۔ صیغوں کے مطابق ترجمہ کیا گیا ہے۔
4 ترجمہ کمی و بیشی کے بغیر بامحاورہ اردو زبان میں ہے۔
5 ۔ آسان فہم اور رائج اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔
6 ۔ صرف و نحو کے اصول و قواعد کو مد نظر رکھتے ہوئے عربی میں استعمال ہونے والے حروف ربط، حروف جر، وغیرہ کا بھی موقع کی مناسبت سے ترجمہ کیا گیا ہے۔
The Surah begins with the Arabic letters Alif, Lam and Mim (equivalents of A, L and M). Several Surahs begin with a similar combination of letters, for example, Ha, Mim, or Alif, Lam, Mim, Sad. Each of these letters is pronounced separately without the addition of a vowel sound after it. So, the technical term for them is مقطعات (Mugatta` at: isolated letters). According to certain commentators, ... the isolated letters are the names of the Surahs at the beginning of which they occur. According to others, they are the symbols of the Divine Names. But the majority of the blessed Companions (رض) and the generation next to them, the تابعین Tabi’ in, and also the later authoritative scholars have preferred the view that the isolated letters are symbols or mysteries, the meaning of which is known to Allah alone or may have been entrusted as a special secret to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) not to be communicated to anyone else. That is why no commentary or explanation of these letters has at all been reported from him. The great commentator Al-Qurtubi has adopted this view of the matter, which is summarized below: |"According to ` Amir Al-Sha bi, Sufyan Al-Thawri and many masters of the science of Hadith, every revealed book contains certain secret signs and symbols and mysteries of Allah; the isolated letters too are the secrets of Allah in the Holy Qur an, and hence they are among the مشتبہات (Mutashabihat: of hidden meaning), the meaning of which is known to Allah alone, and it is not permissible for us even to enter into any discussion with regard to them. The isolated letters are not, however, without some benefit to us. Firstly, to believe in them and to recite them is in itself a great merit. Secondly, in reciting them we receive spiritual blessings from the unseen world, even if we are not aware of the fact. AI-Qurtubi (رح) adds: |"The Blessed Caliphs Abu Bakr, ` Umar, ` Uthman and ` Ali (رض) and most of the Companions like ` Abdullah ibn Mas ud (رض) firmly held the view that these letters are the secrets of Allah, that we should believe in them as having descended from Allah and recite them exactly in the form in which they have descended, but should not be inquisitive about their meanings, which would be improper|". Citing Al-Qurtubi and others, Ibn Kathir too prefers this view. On the other hand, interpretations of the isolated letters have been reported from great and authentic scholars. Their purpose, however, was only to provide symbolical interpretation, or to awaken the minds of the readers to the indefinite possibilities of meanings that lie hidden in the Holy Qur an, or just to simplify things; they never wished to claim that these were the meanings intended by Allah Himself. Therefore, it would not be justifiable to challenge such efforts at interpretation since it would go against the considered judgment of veritable scholars. Show more
سورة البقرہ نام اور تعداد آیات : اس سورت کا نام سورة بقرہ ہے اور اسی نام سے حدیث اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے جس روایت میں سورة بقرہ کہنے کو منع کیا ہے وہ صحیح نہیں (ابن کثیر) تعداد آیات دو سو چھیاسی ہے اور کلمات چھ ہزار دو سو اکیس اور حروف پچیس ہزار پانسو ہیں (ابن کثیر) زمانہ نزول : یہ ... سورت مدنی ہے، یعنی ہجرت مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی اگرچہ اس کی بعض آیات مکہ مکرمہ میں حج کے وقت نازل ہوئی ہیں مگر وہ بھی باصطلاح مفسرین مدنی کہلاتی ہیں، سورة بقرہ قرآن کریم کی سب سے بڑی سورت اور مدینہ طیبہ میں سب سے پہلے اس کا نزول شروع ہوا اور مختلف زمانوں میں مختلف آیتیں نازل ہوتی رہیں یہاں تک کہ ربا یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں اور اس کی ایک آیت واتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللّٰهِ (٢٨١: ٢) تو قرآن کی بالکل آخری آیت ہے جو ١٠ ھ ذی الحجہ کو منیٰ کے مقام پر نازل ہوئی جبکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے (قرطبی) اور اس کے اسّی نوّے دن کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی اور وحی الہی کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا، فضائل سورة بقرہ : یہ قرآن کریم کی سب سے بڑی سورت اور بہت سے احکام پر مشتمل ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ سورة ٔ بقرہ کو پڑھا کرو کیونکہ اس کا پڑھنا برکت ہے، اور اس کا چھوڑنا حسرت اور بدنصیبی ہے، اور اہل باطل اس پر قابو نہیں پاسکتے، قرطبی نے حضرت معاویہ سے نقل کیا ہے کہ اس جگہ اہل باطل سے مراد جادوگر ہیں مراد یہ ہے کہ اس سورت کے پڑھنے والے پر کسی کا جادو نہ چلے گا (قرطبی از مسلم بروایت ابوامامہ باہلی) اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس گھر میں سورة بقرہ پڑھی جائے شیطان وہاں سے بھاگ جاتا ہے (ابن کثیر از حاکم) اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سورة بقرہ سنام القرآن اور ذروۃ القرآن ہے سنام اور ذروہ ہر چیز کے اعلیٰ و افضل حصہ کو کہا جاتا ہے، اس کی ہر آیت کے نزول کے وقت اسی فرشتے اس کے جلو میں نازل ہوئے ہیں، (ابن کثیر از مسند احمد) اور حضرت ابوہریرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ اس سورت میں ایک آیۃ ایسی ہے جو تمام آیات قرآن میں اشرف و افضل ہے اور وہ آیت الکرسی ہے (ابن کثیر از ترمذی) حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ سورة بقرہ کی دس آیتیں ایسی ہیں کہ اگر کوئی شخص ان کو رات میں پڑھ لے تو اس رات کو جن شیطان گھر میں داخل نہ ہوگا اور اس کو اور اس کے اہل عیال کو اس رات میں کوئی آفت، بیماری رنج وغم وغیرہ ناگوار چیز پیش نہ آئے گی اور اگر یہ آیتیں کسی مجنون پر پڑھی جائیں تو اس کو افاقہ ہوجائے وہ دس آیتیں یہ ہیں چار آیتیں شروع سورة بقرہ کی پھر تین آیتیں درمیانی یعنی آیۃ الکرسی اور اس کے بعد کی دو آیتیں، پھر آخر سورة بقرہ کی تین آیتیں۔ احکام و مسائل مضامین و مسائل کے اعتبار سے بھی سورة بقرہ کو ایک خاص امتیاز حاصل ہے ابن عربی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ سورة بقرہ میں ایک ہزار امر اور ایک ہزار نہی اور ایک ہزار حکمتیں ایک ہزار خبر اور قصص ہیں (قرطبی وابن کثیر) یہی وجہ ہے کہ حضرت فاروق اعظم نے جب سورة بقرہ کو تفسیر کے ساتھ پڑھا تو اس کی تعلیم میں بارہ سال خرچ ہوئے اور حضرت عبداللہ بن عمر نے یہ سورت آ ٹھ سال میں پڑھی (قرطبی) سورة فاتحہ درحقیقت پورے قرآن کا خلاصہ ہے اس کے بنیادی مضامین تین ہیں اوّل اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، یعنی پروردگار عالم ہونے کا بیان دوسرے اس کا مستحق عبادت ہونا اور اس کے سوا کسی کا لائق عبادت نہ ہونا تیسرے طلب ہدایت سورة فاتحہ کا آخری مضمون صراط مستقیم کی ہدایت طلب کرنا ہے اور درحقیقت پورا قرآن اس کے جواب میں ہے کہ جو شخص صراط مستقیم چاہتا ہے قرآن ہی میں ملے گا، اسی لئے فاتحہ کے بعد پہلی سورت سورة بقرہ رکھی گئی اور اس کو ذلک الکتٰب سے شروع کرکے اس طرف اشارہ کردیا گیا کہ جس صراط مستقیم کو تم ڈھونڈہتے ہو وہ یہ کتاب ہے، اس کے بعد اس سورت میں اول ایمان کے بنیادی اصول توحید، رسالت، آخرت اجمالی طور پر اور آخر سورت میں ایمان مفصل بیان فرمایا گیا ہے اور درمیان میں ہر شعبہ زندگی، عبادات، معاملات، معاشرت، اخلاق، اصلاح، ظاہر و باطن کے متعلق ہدایات کے بنیادی اصول اور ان کے ساتھ بہت سی جزئیات بیان ہوئی ہیں، خلاصہ تفسیر، یہ کتاب ایسی ہے جس میں کوئی شبہ نہیں (یعنی قرآن کے منجانب اللہ ہونے میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں اگرچہ کوئی نافہم اس میں شبہ رکھتا ہو کیونکہ یقینی بات کسی کے شبہ کرنے میں بھی حقیقت میں یقینی ہی رہتی ہے) راہ بتلانے والی ہے خدا سے ڈرنے والوں کو جو یقین لاتے ہیں چھپی ہوئی چیزوں پر (یعنی جو چیزیں ان کے حواس وعقل سے پوشیدہ ہیں صرف اللہ و رسول کے فرمانے سے ان کو صحیح مان لیتے ہیں) اور قائم رکھتے ہیں نماز کو (قائم رکھنا یہ ہے کہ اس کو اس پابندی کے ساتھ اس کے وقت میں پورے شرائط وارکان کے ساتھ ادا کریں) اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں (یعنی نیک کاموں میں) اور وہ لوگ ایسے ہیں کہ یقین رکھتے ہیں اس کتاب پر بھی جو آپ کی طرف اتاری گئی ہے اور ان کتابوں پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری جاچکی ہیں (مطلب یہ ہے کہ ان کا ایمان قرآن پر بھی ہے اور پہلی کتابوں پر بھی اور ایمان سچا سمجھنے کو کہتے ہیں عمل کرنا دوسری بات ہے جتنی کتابیں اللہ نے پہلے انبیاء پر نازل فرمائی ہیں ان کو سچا سمجھنا فرض اور شرط ایمان ہے یعنی یہ سمجھے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی تھیں وہ صحیح ہیں خود غرض لوگوں نے جو اس میں تبدیل و تحریف کی ہے وہ غلط ہے رہ گیا عمل سو وہ صرف قرآن پر ہوگا پہلی کتابیں سب منسوخ ہوگئیں ان پر عمل جائز نہیں) اور آخرت پر بھی وہ لوگ یقین رکھتے ہیں بس یہ لوگ ہیں ٹھیک راہ پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ملی ہے اور یہ لوگ ہیں پورے کامیاب (یعنی ایسے لوگوں کو دنیا میں تو یہ نعمت ملی کہ راہ حق ملی اور آخرت میں ہر طرح کی کامیابی ان کے لیے ہے) ، حل لغات : ذٰلِكَ کسی دور کی چیز کی طرف اشارہ کے لئے استعمال ہوتا ہے، رَيْبٌ شک وشبہ، ھُدًى ہدایت سے بنا ہے اور ہدایت کے معنی رہنمائی مُتَّقِيْنَ جن میں صفت تقویٰ ہو، تقویٰ کے لفظی معنی بچنے کے ہیں مراد اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنا ہے غَيْبِ لفظی معنی ہر وہ چیز جو انسان کی نظر اور دوسرے حواس سماعت وغیرہ سے باہر ہو يـقِيْمُوْنَ اقامت سے بنا ہے جس کے معنی سیدھا کرنے کے ہیں اور نماز کا سیدھا کرنا یہ کہ آداب اور خشوع خضوع کے ساتھ ادا کی جائے رَزَقْنٰھُمْ رزق سے بنا ہے جس کے معنی ہیں روزی اور گذارے کا سامان دینا يُنْفِقُوْنَ انفاق سے بنا ہے خرچ کرنے کے معنی میں آتا ہے اٰخِرَةُ لغت میں مؤ خر اور بعد میں آنے والی چیز کو آخرہ کہا جاتا ہے اس جگہ عالم دنیا کے مقابلے میں عالم آخرت بولا گیا يُوْقِنُوْنَ ایقان سے ہے اور وہ یقین سے بنا ہے اور یقین اس کو کہتے ہیں جس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہ ہو مُفْلِحُوْنَ افلاح سے اور وہ فلاح سے بنا ہے فلاح کے معنی پوری کامیابی۔ معارف و مسائل حروف مقطعہ جو بہت سی سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کی تحقیق : بہت سی سورتوں کے شروع میں چند حرفوں سے مرکب ایک کلمہ لایا گیا ہے جیسے الۗمّۗ، حٓمٓ، الۗمٓصٓ وغیرہ ان کو اصطلاح میں حروف مقطعہ کہا جاتا ہے ان میں سے ہر حرف جدا جدا ساکن پڑھا جاتا ہے، الف، لام، میم، حروف مقطعہ جو اوائل سورة میں آئے ہیں ان کے متعلق بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ ان سورتوں کے نام ہیں بعض حضرات نے فرمایا کہ اسماء الہیہ کے رموز ہیں مگر جمہور صحابہ وتابعین اور علماء امت کے نزدیک راجح یہ ہے کہ یہ حروف رموز اور اسرار ہیں جس کا علم سوائے خدا تعالیٰ کے کسی کو نہیں اور ہوسکتا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا علم بطور ایک راز کے دیا گیا ہو جس کی تبلیغ امت کے لئے روک دی گئی ہو اسی لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان حروف کی تفسیر و تشریح میں کچھ منقول نہیں امام تفسیر قرطبی نے اپنی تفسیر میں اسی کو اختیار فرمایا ہے ان کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ ؛ عامر شعبی، سفیان ثوری اور ایک جماعت محدّثین نے فرمایا ہے کہ ہر آسمانی کتاب میں اللہ تعالیٰ کے کچھ خاص رموز و اسرار ہوتے ہیں اسی طرح یہ حروف مقطعہ قرآن میں حق تعالیٰ کا راز ہے اس لئے یہ ان متشابہات میں سے ہیں جن کا علم صرف حق تعالیٰ ہی کو ہے ہمارے لئے ان میں بحث و گفتگو بھی جائز نہیں مگر اس کے باوجود ہمارے فائدے سے خالی نہیں اول تو ان پر ایمان لانا پھر ان کا پڑھنا ہمارے لئے ثواب عظیم ہے دوسرے ان کے پڑھنے کے معنوی فوائد و برکات ہیں جو اگرچہ ہمیں معلوم نہ ہوں مگر غیب سے وہ ہمیں پہنچتے ہیں، پھر فرمایا : حضرت صدیق اکبر، فاروق اعظم، عثمان غنی، علی مرتضیٰ ، عبداللہ بن مسعود وغیرہ جمہور صحابہ کا ان حروف کے متعلق یہی عقیدہ تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اسرار ہیں، ہمیں ان پر ایمان لانا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں اور جس طرح آئے ہیں ان کی تلاوت کرنا چاہئے مگر معنی معلوم کرنے کی فکر میں پڑنا درست نہیں، ابن کثیر نے بھی قرطبی وغیرہ سے نقل کرکے اسی مضمون کو ترجیح دی ہے اور بعض اکابر علماء سے جو ان حروف کے معنی منقول ہیں اس سے صرف تمثیل و تنبیہ اور تسہیل مقصود ہے یہ نہیں کہ امر وحق تعالیٰ یہ ہے اس لئے اس کو بھی غلط کہنا تحقیق علماء کے خلاف ہے، Show more
نام : معارف القرآن
مترجم و مفسر : حضرت مولانا مفتی محمد شفیع
تفسیر کا تعارف :
معارف القرآن جو پہلے ریڈیو پاکستان سے نشر کی گئی پھر بعد میں کتابی صورت میں مرتب ہوئی، اس تفسیر کے لیے قلم اٹھانے کی وجہ مولانا مفتی شفیع صاحب (رح) نے اپنے مقدمہ میں خود تحریر فرمائی ہے، چناچہ لکھتے ہیں :
" ریڈیو پاکستان کے ذمہ دار حضرات نے مجھ سے درس قرآن ریڈیو پاکستان سے نشر کرنے کی فرمائش کی؛ لیکن میں چند اعذار کی بناء پر قبول نہ کرسکا، ان کے مزید اصرار کی وجہ سے انھیں کی ایک دوسری تجویز کو بنام خدا منظور کرلیا، وہ تجویز یہی معارف القرآن کی کہ ہفتہ میں ایک روز جمعہ کے دن تفسیر نشر ہوا کرے اور اس میں پورے قرآن کی تفسیر پیش نظر نہ ہو بلکہ عام مسلمانوں کے موجودہ ضرورت کے پیش نظر خاص خاص آیات کا انتخاب کرکے ان کی تفسیر اور اس سے متعلقہ احکام و مسائل کا بیان ہوا کرے "۔
پھر آگے لکھتے ہیں :
" اطراف دنیا سے مسلمانوں کے خطوط اور آنے جانے والوں سے یہ معلوم ہوا کہ عام مسلمان اور خصوصاً تعلیم یافتہ حضرات اس درس سے کافی فائدہ اٹھاتے ہیں؛ لیکن اس سلسلہ کی دس سالہ پابندی نے ایک طرف تو ایک ضخیم جلد معارف القرآن کی غیرارادی طور پر تیار کرادی، دوسری طرف ریڈیو پر سننے والے حضرات کی طرف سے بیشمار تقاضے آنے شروع ہوئے کہ اس کو کتابی صورت میں شائع کیا جائے "۔
لوگوں کی اس قدر دلچسپی اور ان کے تقاضے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک اردو زبان میں جتنی تفسیریں منظرعام پر آئیں تھیں، ان میں یا تو علمی اور تحقیقی موشگافیاں زیادہ تھیں جن سے عوام پوری طرح مستفید نہیں ہوسکتی تھی، دوسرے یہ کہ اردو زبان کے اسلوب میں پہلے کے مقابلہ کافی تبدیلی آچکی تھی، اس لیے بھی پہلے کی اردو تفاسیر کا سمجھنا عام لوگوں کے لیے دشوار تھا؛ نیزبعض تفاسیر سرسری اور بہت مختصر تھیں جن سے پڑھنے والوں کی پیاس نہیں بجھ پاتی تھی۔
تفسیر معارف القرآن کی چند خصوصیات یہ ہیں :
چونکہ مصنف موصوف کے پیش نظر یہ تھا کہ عوام جو علمی اصلاحات سے واقف اور دقیق مضامین کے متحمل نہیں ہیں وہ بھی قرآن کریم کو اپنے حوصلے کے مطابق سمجھ سکیں، اس لیے تفسیر کو لکھتے ہوئے اس کی پوری رعایت کی گئی ہے کہ فنی اصطلاحات، دقیق بحثیں اور غیر معروف ومشکل الفاظ سے گریز کیا جائے، تفسیر میں سلف صالحین کی تفسیروں پر اعتماد کیا گیا ہے اور بےسندباتوں سے احتراز کیا گیا ہے؛ چناچہ جگہ بہ جگہ صحابہ وتابعین کے تفسیری اقوال اور متقدمین کی تفسیری کتب سے استفادہ کرکے ان کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
لطائف و معارف کے ضمن میں متاخرین میں سے مستند مفسرین کے مضامین بھی لیے گئے ہیں، خصوصاً ایسے مضامین جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت ومحبت کو بڑھاتے ہوں اور ان کی وجہ سے اعمال صالحہ انجام دینے کی تحریک ہوتی ہو، متن قرآن کے ترجمہ میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) اور حضرت شیخ الہند قدس سرہ کے ترجموں پر اعتماد کیا گیا ہے، ترجمہ کے بعد مکمل تفسیر و تشریح سے پہلے خلاصہ تفسیر لکھ دیا گیا ہے جو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کی تفسیر بیان القرآن سے ماخوذ ہے، اسے آیات پر مختصر نوٹ کہا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی مشغول آدمی اتنا ہی دیکھ لے تو فہم قرآن کے لیے ایک حد تک کافی ہوجائے، آخر میں آیات مندرجہ سے متعلق احکام و مسائل لکھے گئے ہیں، اس میں اس کا التزام کیا گیا ہے کہ صرف وہ احکام و مسائل لئے جائیں جو کسی نہ کسی طرح الفاظ قرآن کے تحت آتے ہوں، احکام و مسائل کا بڑا حصہ تفسیر قرطبی، احکام القرآن للجصاص، احکام القرآن لابن العربی، تفسیرات احمدیہ، تفسیر محیط، روح المعانی، روح البیان اور بیان القرآن وغیرہ سے لیا گیا ہے، جن کے حوالہ جات بھی مذکور ہیں، تاہم نئے عہد کے بعض نئے مسائل کا بھی ذکر ہے، قرآن وحدیث اور مجتہدین کرام کے اصول کو پیش نظر رکھا گیا ہے اور جس طرح مسائل واحکام میں متقدمین نے اپنے اپنے عہد کے فرقوں اور اس زمانہ کے مسائل کو اہمیت دی ہے، مفتی محمد شفیع صاحب (رح) نے بھی اس کو ملحوظ رکھا ہے۔
مصنف کا تعارف :
مفتی محمد شفیع صاحب (رح) ۔ مصنف معار ف القرآن
ولادت : 25 جنوری 1897، دیوبند (موجودہ یو۔ پی) بھارت
وفات : 6 اکتوبر 1976 ۔ کراچی پاکستان
مکمل تعلیم دیوبند میں حاصل کی
خدمات :
مفتی صاحب برصغیر پاک وہند کے متاز سنی حنفی دیوبندی عالم تھے۔
قیام پاکستان سے پہلے دار العلوم دیوبند میں مدرس رہے۔
قیام پاکستان کے بعد پاکستان کراچی تشریف لے آئے اور ایک عظیم الشان مدرسہ دارالعلوم کراچی کے نام سے قائم کیا
مفتی صاحب کی تقریبا 100 سے زائد تصانیف ہیں۔ جن میں سب سے مشہور معارف القرآن ہے ۔ جو آپ کی وفات سے چار سال پہلے ، آپ ریڈیو پاکستان پر ہفتہ وار قرآن کے لیکچرز کی صورت میں نشر ہونا شروع ہوا ۔ بعد ازاں اسے کتابی شکل دی گئی۔
نام : مفردات القرآن فی غریب القرآن
مصنف : امام راغب اصفہانی
اردو مترجم : مولانا محمد عبدہ فیروز پوری
مطبوعہ : اسلامی اکیڈیمی، الفضل مارکیٹ اردو بازار لاہور
کتاب اور مصنف کا تعارف :
مفردات القرآن ابوالقاسم حسن بن محمد المعروف علامہ راغب اصفہانی (متوفی 502 ھ - 1108 ء) کی تصنیف ہے اس کا پورا نام " المفردات فی تحقیق مواد لغات العرب المتعلقہ بالقرآن " ہے جبکہ مطبوعہ نسخوں پر " المفردات فی غریب القرآن " کا عنوان مرقوم ہے اردو میں اسے " مفردات القرآن " سے شہرت ہے۔
مفردات القرآن کے نام سے بہت سی کتابیں شائع ہوئیں لیکن جو شہرت و دوام اس کتاب کو حاصل ہے اور کسی کو نہیں۔
یہ کتاب حروف تہجی کی ترتیب کے مطابق ہے اس میں ہر کلمہ کے حروف اصلیہ میں اول حرف کی رعایت کی گئی ہے اور قرآن میں استعمال ہونے والے تمام الفاظ کی لغوی تشریح کی گئی ہے ۔
طریق بیان بڑا فلسفیانہ ہے جس میں پہلے ہر مادہ کے جوہری معنی متعین کئے جاتے ہیں پھر انہیں قرآنی آیات پر منطبق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شرح الفاظ کیلئے یہ طریقہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے اس سے صحیح معنی تک رسائی ممکن ہوتی ہے اور تمام اشتباہ دور ہوجاتے ہیں۔
بہت سے مصنفین اور آئمہ لغت نے اس کتاب سے استفادہ کیا ہے۔
مصنف کا تعارف :
یہ کتاب امام راغب اصفہانی (رح) کی تصنیف ہے، امام راغب پانچویں اور چھٹی صدی کے علماء میں شمار ہوتے ہیں۔۔
ان کا پورا نام ابو القاسم حسین بن محمد بن مفضل بن محمد ہے اور راغب اصفہانی کے نام سے مشہور ہیں،
امام راغب علم و فضل میں یگانۂ روزگار تھے، مؤلفِ جامع علوم و فنون ہونے کے ساتھ بلند پایہ صوفی بھی تھے، اور ادب و فلسفہ ، جملہ علوم میں ان کا پایہ بہت بلند تھا اور انہوں نے قرآن پاک کی ایک بہت بڑی تفسیر بھی لکھی ہے۔
علامہ ذہبی (رح) نے ان کا تذکرہ “ طبقات المفسرین ” میں کیا ہے اور امام سیوطی (رح) ان کو لغت و نحو کے ائمہ میں شمار کرتے ہیں، مختلف تذکروں میں حکیم، ادیب ، مفسر، کی حیثیت سے ان کا تعارف کروایا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف ہمہ فنی امام تھے اور بیک تفسیر و لغت کے امام ہونے کے ساتھ بہت بڑے حکیم اور صوفی تھے۔
امام راغب کی وفات 502 ہجری میں ہوئی۔
تالیفات :
امام راغب کی تالیفات مندرجہ ذیل ہیں :
1 ۔ محاضرات الادباء :
2 ۔ حل متشابہات القرآن
3 ۔ حل متشابہات القرآن
4 ۔ الذریعہ الی مکارم الشریعہ
5 ۔ درۃ التاویل فی غرۃ التنزیل
6 ۔ تحقیق البیان فی تاویل القرآن
7 ۔ افانین البلاغۃ۔
8 ۔ کتاب الایمان والکفر
9 ۔ تفصیل النشاتین :
10 ۔ المفردات فی غریب القرآن
11 ۔ کتاب المعانی الاکبر
12 ۔ کتاب احتجاج القراء۔
مترجم کا تعارف۔
امام راغب افہانی کی مفردات القرآن اصل کتاب عربی میں ہے ۔ جبکہ ایزی قرآن و حدیث میں اس کا اردو ترجمہ شامل کیا گیا ہے۔
مترجم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبدہٗ فیروز پوری ہیں۔ جو عبدہ الفلاح کے نام سے بھی مشہور ہیں آپ جولائی 1917 کو موضع وٹواں ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے۔ وٹو برادری سے تعلق تھا۔ ابتدائی تعلیم جس میں سکول اور دینیات اپنے گاؤں میں حاصل کی۔ پھر بڈھیمال میں پڑھتے رہے۔ اس کے بعد دہلی تشریف لے گئے۔ دہلی کی معروف مسجد فتح پوری میں تحصیل علم کیا۔ اور آخر میں حضرت حافظ محمد گوندلوی مرحوم سے گوجرانوالہ میں بخاری شریف پڑھی۔ فراغت کے بعد تدریس کے میدان میں آگے۔ آپ نے گوجرانوالہ ، اوڈانوالہ ، اوکاڑہ ، فیصل آباد میں تدریسی فرائض سر انجام دیئے۔ خصوصاًجامعہ سلفہ میں بڑی کتب کے علاوہ بخاری شریف پڑھاتے تھے۔ آپ کو تفہیم کا ملکہ حاصل تھا۔ مختصر مگر جامع گفتگو کرتے۔ اور تدریس کا حق ادا کردیتے۔ مشکل سے مشکل بحث کو آسانی کے ساتھ سمجھا دیتے۔ تصنیف و تالیف اور ترجمہ کا عمدہ ذوق پایا تھا۔ آپ نے کئی یادگار تصا نیف چھوڑی ہیں۔ جن میں معروف ترین اشرف الحواشی ہے۔ جو کہ قرآن حکیم پر مختصر تفسیر ہے۔ آپ دو مرتبہ جامعہ سلفیہ میں بطور شیخ الحدیث رہے ہیں۔ دوسری مرتبہ جب آپ اس منصب پر فائز ہوئے۔ تو آپ گلے کے مریض بن گئے۔ زیادہ بلند آواز میں بات نہ کرسکتے تھے۔ جس سے طلبہ آپ کی گفتگو نہ سن سکتے تھے۔ مائیک کا ا نتظام کرنے کے باوجود بات نہ بنی۔ تو پھر خود ہی مستعفی ہوگئے۔ لیکن جامعہ کی انتظامیہ نے آپ کا وظیفہ برابر جاری رکھا ۔ حاجی آباد فیصل آباد میں رحلت فرمائی۔ جامعہ سلفیہ میں نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ اور گاؤں نز د تاندلیانوالہ میں سپرد خاک کئے گئے۔
احکام القرآن للجصاص
نام و کنیت
نام احمد بن على الرازى اوركنيت الجصاص: ابوبكراحمد بن على الرازى الجصاص سے مشہور ہیں۔
ولاد ت
امام جصاص کی ولادت رے شہر میں ہو ئی اسی نسبت سے رازى کہلاتے ہیں ولادت کا سال 305ھ بمطابق 917ء بیس سال کی عمر میں بغداد منتقل ہو گئے۔
علمی سفر
ابوبکر جصاص نے بہت سے علمی سفر کئےاور اکابر علماء سے علم حاصل کیابالخصوص علمائے احناف سے بہت استفادہ کیا اہواز نیشاپورکے سفر کئے اور اس علمی سفر کی انتہاء بغداد میں ہوئی امام کرخی کے پاس نیشا پور میں تھے کہ ان کا انتقال ہوا۔
شيوخ
ان کے مشائخ میں
ابو الحسن الكرخی جن سے زہد و ورع حاصل کیا
ابو سہل الزجاج
عبد الباقی بن قانع حديث کا علم حاصل کیا
ابوحاتم الرازی
ابوسعيد الدارمی عثمان بن سعيد الدارمي صاحب المسند
تصنیفات
شرح الجامع الكبير محمد بن الحسن الشيبانی
شرح الجامع الصغير محمد بن الحسن الشيبانى
شرح المناسك لمحمد بن الحسن الشيبانى
شرح مختصر الفقہ للطحاوی
شرح آثار الطحاوى
مختصر اختلاف الفقہاء طحاوى
شرح ادب القاضی خصاف
شرح مختصر الكرخی
شرح الاسماء الحسنى
جوابات المسائل
احكام القرآن
الفصول فی الاصول
وفات
انکی وفات 370ھ بمطابق 980ء میں بغداد میں ہوئ
شان نزول : (آیت) ” الم (١) ذلک الکتاب لا ریب فیہ “۔ ابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ سورة بقرہ کی پہلی چار آیات مومنوں سے بارے میں اتری ہیں، اور اس کے بعد کی دو آیتیں کافروں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور تیرہ آیات منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علام... ہ سیوطی (رح ) (١) الم (ال م) کے بارے میں عبداللہ بن مبارک، علی بن اسحاق سمرقندی، محمد بن مروان، کلبی، ابوصالح کی سند سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے کہ الف سے اللہ، لام سے جبریل اور میم سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں، دوم : الف سے اللہ تعالیٰ کی نعمتیں، لام سے اس کا لطف، میم سے اس کا ملک وبادشاہت مراد ہے، سوم : الف سے اللہ تعالیٰ کے نام کی ابتدا اللہ، لام سے لطیف، میم سے مجید مراد ہے، جہارم : اللہ اعلم سے بھی اس کی تفسیر کی گئی ہے، پنجم : یہ قسم کے الفاظ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے کہ یہ کتاب قرآن جس کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے سامنے پیش کرتے ہیں اس میں کسی قسم کے کوئی شبہ کی گنجایش نہیں ہے، کیوں کہ یہ میری کتاب ہے، اگر تم اس کتاب پر ایمان لاؤ گے تو تمہیں ہدایت دوں گا اور اگر اس پر ایمان نہیں لاؤ گے تو میں تمہیں عذاب دوں گا۔ کتاب سے مراد لوح محفوظ بھی ہے کتاب کی تفسیر اس وعدہ کے ساتھ بھی ہے جو کہ عہد میثاق میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا گیا تھا کہ میں آپ پر وحی بھیجوں گا، کتاب سے تورات وانجیل بھی مراد ہے، اس میں بھی کسی شک وشبہ کی گنجایش نہیں ہے، ان دونوں کتابوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف و توصیف مذکور ہے۔ Show more
تفسیر ابن عباس (تنویر المقب اس من تفسیر ابن عباس)
تعارف کتاب و امتیازی خصوصیات :
یہ تفسیر در اصل ایک عربی تفسیر " تنویر المقب اس من تفسیر ابن عباس " کا اردو ترجمہ ہے :
اصل عربی تفسیر کے مصنف ابو الطاہر محمد بن یعقوب بن محمد بن بن ابراہیم نجد الدین الشیرازی الشافعی ہیں۔ اور یہ تفسیر تفسیر قرآن سے متعلق حضرت ابن عباس (رض) کی روایات کا مجموعہ ہے :
ہمارے سوفٹ ویئر " ایزی قرآن و حدیث " میں اس تفسیر کا اردو ترجمہ شامل کیا گیا ہے۔ اس تفسیر کے اردو ترجمہ کا کام پر وفسیر حافظ محمد سعید احمد عاطف نے سر انجام دیا ہے۔ اور ہمارے سوفٹ ویئر میں جو نسخہ شامل کیا گیا ہے وہ " مکی دار الکتب " 37 مزنگ روڈ بک سٹریٹ، لاہور، پاکستان سے طبع شدہ ہے۔
ذیل میں ، اس کتاب کا مختصر تعارف، پیش ہے :
عربی تفسیر " تنویر المقب اس "
اس تفسیر " تنویر المقب اس " کے حوالے سے اسلاف کی آراء مختلف فیہ ہیں۔ اس کی اسناد کے متعلق بھی گفتگو کی خاصی گنجائش ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی متعدد روایات صحاح ستہ و دیگر کتب حدیث مثلا : مسند احمد بن حنبل، مسند ابی داود الطیالسی، مسند الشافعی، مسند الحمیدی، معجم طبرانی، المنتقی لابن جارود، سنن دارمی، سنن الدارقطنی میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ صحابہ کے اقوال و آثار بھی ہیں۔ لغتِ عرب، تاریخ عرب، ایام العرب سے استشہاد و استناد بھی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کی روایات سے مزین ہیں۔ ان تمام شواہد اور قرائن کی موجودگی میں اس مجموعہ روایات ابن عباس سے بےاعتنائی، قرینِ انصاف نہیں۔ پھر یہ تفسیر ایک طویل عرصے سے ہزاروں کی تعداد میں دنیا کے مختلف حصوں میں زیور طبع سے آراستہ ہورہی ہے اور اہل علم اس سے استفادہ بھی کرتے رہے ہیں۔ اور ہمارے پاس ابن عباس (رض) جیسے مفسر اعظم کی تفسیری آراء کا اس کے علاوہ کوئی اور مجموعہ نہیں ہے۔ اس تفسیر کا ایک قلمی نسخہ پنجاب پبلک لائبریری لاہور میں موجود ہے۔ یہ تفسیر 1314 ھ کو امام سیوطی کی تفسیر در منثور کے حواشی پر مصر سے شائع ہوئی اور مستقل طور پر 1316 ھ کو مصر سے چھپی اور برصغیر میں کئی مرتبہ شائع ہوئی، 1285 ھ کو شاہ ولی اللہ کے ترجمہ قرآن کے ساتھ اور پھر شاہ رفیع الدین کے اردو ترجمہ کے حاشیہ پر بھی شائع ہوئی ۔ اردو ترجمہ پہلی بار 1926 ء میں آگرہ سے شائع ہوا اور 1970 میں مولانا عابد الرحمن صدیقی کے ترجمہ کو کلام کمپنی کراچی نے شائع کیا۔
تعارف مفسر :
نام و نسب
آپ کا نام عبداللہ، ابوالعباس کنیت تھا۔ آپ کے والد کا نام حضرت عباس (رض) اور والدہ کا نام امالفضل لبابہ (رض) عنہا تھا۔ آپ کا شجرہِ نسب یہ ہے۔
عبداللہ بن العباس بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف۔
آپ کے والد حضرت عباس (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سگے چچا تھے۔ اس طرح آپ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ابن عم تھے۔ آپ (رض) ام المومنین حضرت میمونہ (رض) کے خواہرزادہ تھے کیونکہ آپ (رض) کی والدہ ام الفضل (رض) اور حضرت میمونہ (رض) حقیقی بہنیں تھیں۔
پیدائش
حضرت عبداللہ ابن عباس کی پیدائش ہجرت سے 3 برس قبل شعب ابی طالب میں محصوریت کے دوران ہوئی تھی۔ آپ کی پیدائش کے بعد حضرت عباس (رض) آپ کے بارگاہِ رسالت میں لے کر آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انکے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈال کر آپ کے حق میں دعا فرمائی۔
قبولِ اسلام
آپ کے والد محترم حضرت عباس (رض) نے اگرچہ فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا، لیکن آپ کی والدہ حضرت ام الفضل (رض) نے ابتدا میں ہی داعی توحید کو لبیک کہا تھا۔ اس لئے آپ کی پرورش توحید کے سائے میں ہوئی۔
ہجرت
حضرت عباس (رض) 8 ہجری میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے۔ اس وقت آپ کی عمر تقریباً 11 سال تھی۔ آپ اپنے والد کے حکم سے بیشتر اوقات بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوتے تھے۔
عہد طفویلیت میں مصاحبتِ رسول
آپ کی مصاحبت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جو زمانہ پایا، دراصل وہ آپ کے لڑکپن کا زمانہ تھا۔ تاہم آپ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت میں اکثر رہتے۔ ام المومینین حضرت میمونہ (رض) آپ کی خالہ تھی اور آپ سے بہت شفقت رکھتیں تھیں اس لیے آپ اکثر انے خدمت میں حاضر رہتے تھے اور کئی دفع رات میں انکے گھر پر ہی سو جاتے تھے۔ اس طرح انکو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت سے مستفیض ہونے کا بہترین موقع میسر تھا۔ آپ ایسے ہی ایک رات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔
” ایک مرتبہ میں اپنی خالہ کے پاس سو رہا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور چار رکعت پڑھ کر استراحت فرما ہوئے، پھر کچھ رات باقی تھی کے آپ بیدار ہوئے اور مشکیزہ کے پانی سے وضو کر کے نماز پڑھنے لگے میں بھی اٹھ کر بائیں طرف کھڑا ہوگیا۔ آپ نے میرا سر پکڑ کر مجھے داہنی طوف کھڑا کرلیا۔ “
آپ کے حق میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا
اسی طرح ایک بار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے لئے بیدار ہوئے تو آپ (رض) نے وضو کے لئے پنی لا کر رکھ دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو سے فراخت کے بعد پوچھا کے پانی کون لایا تھا۔ حضرت میمونہ (رض) نے حضرت عبداللہ بن عباس کا نام لیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوش ہو کر یہ دعا دی۔
” اللهم فقهه في الدين وعلمه التأويل
یعنی اے اللہ اس کو مذہب کا فقیہ بنا اور تاویل کا طریقہ سکھا “
وفات : آپ (رض) کی وفات : 68 ہجری بمطابق 687 ء میں ہوئی۔
تعارف مصنف :
1. اس تفسیری مجموعہ کے مؤلف و مرتب کا مکمل نام ابو الطاہر محمد بن یعقوب بن محمد بن ابراہیم نجد الدین بن الشیرازی الشافعی ہے۔
پیدائش : آپ شیراز شہر کے قریب ایک گاؤں " کا زشرون " میں 749 ہجری بمطابق 1339 ء کو پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم :
آپ کی تعلیم کا علاقہ اور اساتذہ کا دائرہ خاصا وسیع ہے۔ ابتداء شیراز ہی سے تعلیم حاصل بعد ازیں بغداد کا رخ کیا جو اس وقت علم و فن کا مرکز تھا۔ ازاں بعد امام ابن قیم اور امام السبکی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ پھر بیت المقدس تشریف لے گئے اور تقریبا دس سال تک تعلیم و تعلم کا یہ سلسلہ بیت المقدس میں قریباً دس سال تک چلتا رہا۔ اس کے علاوہ آپ نے حرمین شریفین، ترکی، قاہری اور ہندوستان کے شیوخ و اکابر سے بھی علم حاصل کیا۔
مقام ومرتبہ : آپ اپنے وقت کے جلیل القدر، مفسر، محدث، ماہر لغت اور اعلی پائے کے ادیب تھے۔ شخصی اعتبار سے بڑے غیرت مند، خود دار اور متقی تھے۔ زندگی کا انداز سادہ و پروقار تھا۔ ۔
آپ کی تصانیف درج ذیل ہیں :
تنویر المقب اس من تفسیر ابن عباس
بصائر ذوالتمیز فی لطائف الکتاب العزیز کے نام سے آپ نے قرآن مجید کی چھ جلدوں پر مشتمل تفسیر لکھی۔ یہ تفسیر قاہرہ و بیرت سے بار ہا چھپ چکی ہے۔
علامہ زمخشری کی کشات کے خطبہ کی ایک مستقل شرح لکھی۔
سیرت النبی پر مختصر کتاب سفر السعادۃ یا الصراط المستقیم کے نام سے لکھی۔
بخاری شریف کی ایک شرح بھی لکھی۔
آپ کی اہم اور مشہور ترین تالیف، القاموس، ہے۔ یہ جامع ترین عربی لغات میں شمار ہوتی ہے۔
البلغہ فی تاریخ ائمۃ اللغۃ۔
کتاب تحبیر الموشین فیما نقال بالسین والشین۔
1. بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد)
ڈاکٹر اسرار احمد ایک ممتاز پاکستانی مسلمان سکالر تھے، جو پاکستان، بھارت، مشرق وسطیٰ اور امریکہ میں اپنا دائرہ اثر رکھتے تھے۔ آپ بھارت کے ضلعہریانہ میں مؤرخہ 26 اپریل 1932 ء کو پیدا ہوئے۔
آپ تنظیم اسلامی کے بانی تھے، جو پاکستان میں نظام خلافت کے قیام کی خواہاں ہے۔ تنظیم اسلامی کا مرکزی ہیڈکوارٹر لاہور، پاکستان میں واقع ہے۔
تعلیمی پس منظر
قیام پاکستان کے بعد آپ لاہور منتقل ہوگئے اور گورمنٹ کالج سے ایف ایس سی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا . 1954 میں انہوں سے کنگ ایڈورڈ کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد 1965 میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی سند بھی حاصل کی۔ آپ نے 1971 تک میڈیکل پریکٹس کی .
سیاسی زندگی[ترمیم ]
دوران تعلیم آپ اسلامی جمیت طلبہ سے وابستہ رہے اور فعال کردار ادا کرتے ہوئے ناظم اعلی مقرر ہوئے . تملیم سے فراغت کے بعد آپ نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ تاہم جماعت کی انتخابی سیاست اور فکری اختلافات کے باعث آپ نے اس سے علحیدگی اختیار کرلی اور اسلامی تحقیق کا سلسلہ شروع کردیا اور 1975 میں تنظیم اسلامی کی بنیاد رکھی جس کے وہ بانی قائد مقرر ہوئے . 1981 میں آپ جنرل ضیا الحق کی مجلس شورئ کے بھی رکن رہے۔ حکومت پاکستان نے آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اسی سال ستارہ امتیاز سے نوازا . آپ مروجہ انتخابی سیاست کے کے مخالف تھے اور خلافت راشدہ کے طرز عمل پر یقین رکھتے تھے . آپ اسلامی ممالک میں مغربی خصوصا امریکی فوجی مداخلت کے سخت ناقد تھے .
بحیثیت اسلامی اسکالر
تنظیم اسلامی کی تشکیل کے بعد آپ نے اپنی تمام توانائیاں تحقیق و اشاعت اسلام کے لئے وقف کردی تھیں . آپ نے 100 سے زائد کتب تحریر کیں جن میں سے کئی کا دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ آپ نے قرآن کریم کی تفسیر اور سیرت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کئی جامع کتابیں تصنیف کیں . مشہور بھارتی مسلم اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ان کے قریبی تعلقات تھے اسی ضمن میں انہوں نے بھارت کے کئی دورے بھی کئے . عالمی سطح پر آپ نے مفسر قران کی حیثیت سے زبردست شہرت حاصل کی . بلا مبالغہ ان کے سیکڑوں آڈیو ، ویڈیو لیکچرز موجود ہیں جن کے دنیا کی کئی زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں . بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اسلام کا صحیح تشخص ابھارنے میں وہ اہم ترین کردار ادا کیا جو تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا .
وفات
ڈاکٹر اسرار احمد کافی عرصے سے دل کے عارضے اور کمر کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ بالآخر مؤرخہ 14 اپریل 2010 ء کو 78 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کو گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے پسماندگان میں ان کی بیوہ، چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں۔
سورة الْبَقَرَة نام اور وجہ تسمیہ : اس سُورۃ کا نام ” بقرۃ“ اس لیے ہے کہ اس میں ایک جگہ گائے کا ذکر آیا ہے ۔ قرآن کی ہر سورۃ میں اس قدر وسیع مضامین بیان ہوئے ہیں کہ ان کے لیے مضمون کے لحاظ سے جامع عنوانات تجویز نہیں کیے جاسکتے ۔ عربی زبان اگرچہ اپنی لغت کے اعتبار سے نہایت مالدار ہے ، مگر بہر حال ... ہے تو انسانی زبان ہی ۔ انسان جو زبانیں بھی بولتا ہے وہ اس قدر تنگ اور محدود ہیں کہ وہ ایسے الفاظ یا فقرے فراہم نہیں کر سکتیں جو ان وسیع مضامین کے لیےجامع عنوان بن سکتے ہوں ۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے قرآن کی بیشتر سورتوں کے لیے عنوانات کے بجائے نام تجویز فرمائے جو محض علامت کا کام دیتے ہیں ۔ اس سُورۃ کو بقرہ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس میں گائے کے مسئلے پر بحث کی گئی ہے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ” وہ سورۃ جس میں گائے کا ذکر آیا ہے ۔ زمانہ نزول : اس سُورۃ کا بیشتر حصّہ ہجرتِ مدینہ کے بعد مدنی زندگی کے بالکل ابتدائی دَور میں نازل ہوا ہے ، اور کمتر حصّہ ایسا ہے جو بعد میں نازل ہوا اور مناسبتِ مضمون کے لحاظ سے اس میں شامل کر دیا گیا ۔ حتیٰ کہ سود کی ممانعت کے سلسلہ میں جو آیات نازل ہوئی ہیں وہ بھی اس میں شامل ہیں حالانکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کی زندگی کے بالکل آخری زمانہ میں اُتری تھیں ۔ سُورۃ کا خاتمہ جن آیات پر ہوا ہے وہ ہجرت سے پہلے مکہ میں نازل ہو چکی تھیں مگر مضمون کی مناسبت سے ان کو بھی اِسی سُورۃ میں ضم کر دیا گیا ہے ۔ شان نزول : اس سُورۃ کے سمجھنے کے لیے پہلے اس کا تاریخی پس منظر اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے: ( ۱ ) ہجرت سے قبل جب تک مکہ میں اسلام کی دعوت دی جاتی رہی ، خطاب بیشتر مشرکینِ عرب سے تھا جن کے لیے اسلام کی آواز ایک نئی اور غیر مانوس آواز تھی ۔ اب ہجرت کے بعد سابقہ یہودیوں سے پیش آیا جن کی بستیاں مدینہ سے بالکل متصل ہی واقع تھیں ۔ یہ لوگ توحید ، رسالت ، وحی ، آخرت اور ملائکہ کے قائل تھے ، اس ضابطہء شرعی کو تسلیم کرتے تھے جو خدا کی طرف سے ان کے نبی موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا ، اور اُصولاً ان کا دین وہی اسلام تھا جس کی تعلیم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلّم دے رہے تھے ۔ لیکن صدیوں کے مسلسل انحطاط نے ان کو اصل دین سے بہت دُور ہٹا *1* دیا تھا ۔ ان کے عقائد میں بہت سے غیر اسلامی عناصر کی آمیزش ہوگئی تھی جن کے لیے توراۃ میں کوئی سَنَد موجود نہ تھی ۔ ان کی عملی زندگی میں بکثرت ایسے رسُوم اور طریقے رواج پاگئے تھے جو اصل دین میں نہ تھے اور جن کے لیے توراۃ میں کوئی ثبوت نہ تھا ۔ خود توراۃ کو انہوں نے انسانی کلام کے اندر خلط ملط کر دیا تھا ، اور خدا کا کلام جس حد تک لفظاً یا معنیً محفوظ تھا اس کو بھی انہوں نے اپنی من مانی تاویلوں اور تفسیروں سے مسخ کر رکھا تھا ۔ دین کی حقیقی روح ان میں سے نکل چکی تھی اور ظاہری مذہبیت کا محض ایک بے جان ڈھانچہ باقی تھا جس کو وہ سینہ سے لگائے ہوئے تھے ۔ ان کے علماء اور مشائخ ، ان کے سردارانِ قوم اور ان کے عوام ، سب کی اعتقادی ، اخلاقی اور عملی حالت بگڑ گئی تھی ، اور اپنے اس بگاڑ سے ان کو ایسی محبت تھی کہ وہ کسی اصلاح کو قبول کرنے پر تیار نہ ہوتے تھے ۔ صدیوں سے مسلسل ایسا ہو رہا تھا کہ جب کوئی اللہ کا بندہ انہیں دین کا سیدھا راستہ بتانے آتا تو وہ اسے اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے اور ہر ممکن طریقہ سے کوشش کرتے تھے کہ وہ کسی طرح اصلاح میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ یہ لوگ حقیقت میں بگڑے ہوئے مسلمان تھے جن کے ہاں بدعتوں اور تحریفوں ، موشگافیوں اور فرقہ بندیوں ، استخواں گیری و مغز افگنی ، خدا فراموشی و دنیا پرستی کی بدولت انحطاط اس حد کو پہنچ چکا تھا کہ وہ اپنا اصل نام ”مسلم“ تک بھُول گئے تھے ، محض ” یہُودی“ بن کر رہ گئے تھے اور اللہ کے دین کو انہوں نے محض نسلِ اسرائیل کی آبائی وراثت بنا کر رکھ دیا تھا ۔ پس جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہدایت فرمائی کہ ان کو اصل دین کی طرف دعوت دیں ، چنانچہ سُورۂ بقرہ کے ابتدائی پندرہ سولہ رکوع اسی دعوت پر مشتمل ہیں ۔ ان میں یہودیوں کی تاریخ اور ان کی اخلاقی و مذہبی حالت پر جس طرح تنقید کی گئی ہے ، اور جس طرح ان کے بگڑے ہوئے مذہب و اخلاق کی نمایاں خصُوصیّات کے مقابلہ میں حقیقی دین کے اصول پہلو بہ پہلو پیش کیے گئے ہیں ، اس سے یہ بات بالکل آئینے کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ایک پیغمبر کی اُمّت کے بگاڑ کی نوعیت کیا ہوتی ہے ، رسمی دینداری کے مقابلہ میں حقیقی دینداری کس چیز کا نام ہے ، دین حق کے بنیادی اصول کیا ہیں اور خدا کی نگاہ میں اصل اہمیّت کِن چیزوں کی ہے ۔ ( ۲ ) مدینہ پہنچ کر اسلامی دعوت ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی تھی ۔ مکّہ میں تو معاملہ صرف اُصُولِ دین کی تبلیغ اور دین قبول کرنے والوں کی اخلاقی تربیت تک محدُود تھا ، مگر جب ہجرت کے بعد عرب کے مختلف قبائل کے وہ سب لوگ جو اسلام قبول کر چکے تھے ، ہر طرف سے سمٹ کر ایک جگہ جمع ہونے لگے اور انصار کی مدد سے ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست کی بنیاد پڑ گئی تو اللہ تعالیٰ نے تمدّن ، معاشرت ، معیشت ، قانون اور سیاست کے متعلق بھی اُصُولی ہدایات دینی شروع کیں اور یہ بتایا کہ اسلام کی اساس پر یہ نیا نظام زندگی کس طرح تعمیر کیا جائے ۔ اس سُورۃ کے آخری ۲۳ رکوع زیادہ تر انہی ہدایات پر مشتمل ہیں ، جن میں سے اکثر ابتدا ہی میں بھیج دی گئی تھیں اور بعض متفرق طور پر حسبِ ضرورت بعد میں بھیجی جاتی رہیں ۔ ( ۳ ) ہجرت کے بعد اسلام اور کفر کی کشمکش بھی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی تھی ۔ ہجرت سے پہلے اسلام کی دعوت خود کفر کے گھر میں دی جا رہی تھی اور متفرق قبائل سے جو لوگ اسلام قبول کرتے تھے وہ اپنی اپنی جگہ رہ کر ہی دین کی تبلیغ کرتے اور جواب میں مصائب اور مظالم کے تختہء مشق بنتے تھے ۔ مگر ہجرت کے بعد جب یہ منتشر مسلمان مدینہ میں جمع ہو کر ایک جتھا بن گئے اور انہوں نے ایک چھوٹی سی آزاد ریاست قائم کر لی تو صُورتِ حال یہ ہوگئی کہ ایک طرف ایک چھوٹی سی بستی تھی اور دُوسری طرف تمام عرب اس کا استیصال کر دینے پر تُلا ہوا تھا ۔ اب اس مُٹھی بھر جماعت کی کامیابی کا ہی نہیں بلکہ اس کے وجود و بقا کا انحصار بھی اس بات پر تھا کہ اوّلاً وہ پُورے جوش و خروش کے ساتھ اپنے مسلک کی تبلیغ کر کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم عقیدہ بنانے کی کوشش کرے ۔ ثانیاً وہ مخالفین کا برسرِ باطل ہونا اس طرح ثابت و مبرہن کر دے کہ کسی ذی عقل انسان کو اس میں شبہہ نہ رہے ۔ ثالثًا بے خان و ماں ہونے اور تمام ملک کی عداوت و مزاحمت سے دوچار ہونے کی بنا پر فقر و فاقہ اور ہمہ وقت بے امنی و بے اطمینانی کی جو حالت ان پر طاری ہو گئی تھی اور جن خطرات میں وہ چاروں طرف سے گھِر گئے تھے ، ان میں وہ ہراساں نہ ہوں ، بلکہ پورے صبر وثبات کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کریں اور اپنے عزم میں ذرا تزلزل نہ آنے دیں ۔ رابعاً وہ پُوری دلیری کے ساتھ ہر اس مسلّح مزاحمت کا مسلّح مقابلہ کر نے کے لیے تیار ہو جائیں جو ان کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے کسی طاقت کی طرف سے کی جائے ، اور اس بات کی ذرا پروا نہ کریں کہ مخالفین کی تعداد اور ان کی مادّی طاقت کتنی زیادہ ہے ۔ خامسًا ان میں اتنی ہمّت پیدا کی جائے کہ اگر عرب کے لوگ اس نئے نظام کو ، جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے ، فہمائش سے قبول نہ کریں ، تو انہیں جاہلیّت کے فاسد نظام زندگی کو بزور مٹا دینے میں بھی تامل نہ ہو ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے اس سُورۃ میں ان پانچوں امور کے متعلق ابتدائی ہدایات دی ہیں ۔ ( ٤ ) دعوت اسلامی کے اس مرحلہ میں ایک نیا عنصر بھی ظاہر ہونا شروع ہو گیا تھا ، اور یہ منافقین کا عنصر تھا ۔ اگرچہ نفاق کے ابتدائی آثار مکّہ کے آخری زمانہ میں بھی نمایاں ہونے لگے تھے ، مگر وہاں صرف اس قسم کے منافق پائے جاتے تھے جو اسلام کے برحق ہونے کے تو معترف تھے اور ایمان کا اقرار بھی کرتے تھے لیکن اس کے لیے تیار نہ تھے کہ اس حق کی خاطر اپنے مفاد کی قربانی اور اپنے دُنیوی تعلقات کا اِنقطاع اور ان مصائب و شدائد کو بھی برداشت کرلیں جو اس مسلکِ حق کو قبول کرنے کے ساتھ ہی نازل ہونے شروع ہو جاتے تھے ۔ مدینہ پہنچ کر اس قسم کے منافقین کے علاوہ چند اور قسموں کے منافق بھی اسلامی جماعت میں پائے جانے لگے ۔ ایک قسم کے منافق وہ تھے جو قطعاً اسلام کے منکر تھے اور محض فتنہ برپا کرنے کے لیے جماعتِ مسلمین میں داخل ہو جاتے تھے ۔ دوسری قِسم کے منافق وہ تھے جو اسلامی جماعت کے دائرۂ اقتدار میں گھِر جانے کی وجہ سے اپنا مفاد اسی میں دیکھتے تھے کہ ایک طرف مسلمانوں میں بھی اپنا شمار کرائیں اور دُوسری طرف مخالفینِ اسلام سے بھی ربط رکھیں تاکہ دونوں طرف کے فوائد سے متمتع ہوں اور دونوں طرف کے خطرات سے محفوظ رہیں ۔ تیسری قسم ان لوگوں کی تھی جو اسلام اور جاہلیّت کے درمیان متردّد تھے ۔ انہیں اسلام کے برحق ہونے پر کامل اطمینان نہ تھا ۔ مگر چونکہ ان کے قبیلے یا خاندان کے بیشتر لوگ مسلمان ہو چکے تھے اس لیے یہ بھی مسلمان ہوگئے تھے ۔ چوتھی قسم میں وہ لوگ شامل تھے جو امرِ حق ہونے کی حیثیت سے تو اسلام کے قائل ہو چکے تھے مگر جاہلیّت کے طریقے اور اوہام اور رسمیں چھوڑنے اور اخلاقی پابندیاں قبول کرنے اور فرائض اور ذمہ داریوں کا بار اُٹھانے سے ان کا نفس انکار کرتا تھا ۔ سُورۃ بقرہ کے نزول کے وقت ان مختلف اقسام کے منافقین کے ظہُور کی محض ابتدا تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف صرف اجمالی اشارات فرمائے تھے ۔ بعد میں جتنی جتنی ان کی صفات اور حرکات نمایاں ہوتی گئیں اسی قدر تفصیل کے ساتھ بعد کی سورتوں میں ہر قسم کے منافقین کے متعلق ان کی نوعیت کے لحاظ سے الگ الگ ہدایات بھیجی گئیں ۔ ” Show more
1. ترجمہ و تفسیر تفہیم القرآن
تفہیم القرآن
یہ مشہور زمانہ تفسیر تحریک اسلامی کے قائد وموسس مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی ہے جو پہلی بار ١٩٤٩ ء میں اشاعت پذیر ہوئی، یہ تفسیر چھ ضخیم جلدوں میں ہے اور ہندوپاک میں اس کے درجنوں ایڈیشن نکل چکے ہیں، اس تفسیر کے لکھنے کے محرکات کیا ہوئے ؟ ان کو خود مصنف نے اس طرح لکھا ہے : " اس کام میں میرے پیش نظر علماء اور محققین کی ضروریات نہیں ہیں اور نہ ان لوگوں کی ضروریات ہیں جو عربی زبان اور علوم دینیہ کی تحصیل سے فارغ ہونے کے بعد قرآن مجید کا گہرا تحقیقی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں، ایسے حضرات کی پیاس بجھانے کے لیے بہت کچھ سامان پہلے سے موجود ہے ، میں جن لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں وہ اوسط درجے کے تعلیم یافتہ لوگ ہیں، جو عربی سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں اور علوم قرآن کے وسیع ذخیرے سے استفادہ کرنا جن کے لیے ممکن نہیں ہے انہی کی ضروریات کو پیش نظر رکھا ہے "۔
مصنف کو انشاء پردازی پر بڑی قدرت اور مشکل مضامین کو بھی آسان زبان اور جچے تلے انداز میں لکھنے کا ملکہ ہے؛ چناچہ اس تفسیر میں بھی یہ وصف نمایاں ہے، قرآن کی جو آیات کائناتی حقائق سے متعلق ہیں ان پر بڑی عمدہ گفتگو کی گئی ہے، اسی طرح قصص و واقعات جن کی تحقیق کے لیے علم الآثار اور تاریخی حقائق سے واقفیت مطلوب ہے، بہت اچھی بحثیں ہیں، مستشرقین کے اعتراضات وشبہات کے رد پر بھی شافی وکافی کلام ہے اور اس کو اس تفسیر کا نقطۂ امتیاز قرار دیا جاسکتا ہے، اسی طرح قرآن کا بائبل اور مذہبی صحائف سے تقابلی مطالعہ کی جہاں کہیں ضرورت ہے، وہاں بھی نہایت محققانہ اور فاضلانہ مباحث ہیں، یہ بات واضح طور پر محسوس ہوتی ہے کہ مصنف نے پہلی دوجلدوں میں اختصار کی راہ اختیار کی ہے اور تفسیر وحدیث کے مراجع کی طرف کم التفات کیا ہے، تیسری سے چھٹی جلد تک احادیث وآثار بکثرت نقل کئے گئے ہیں۔
بہت سی خوبیوں کے باوجود اس تفسیر میں بعض ایسی خامیاں بھی موجود ہیں جس کی وجہ سے اہل تحقیق علماء کو مصنف سے اختلاف ہے، ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ حضرات انبیاء کے تذکرہ میں بعض مواقع پر ایسی تعبیرات اختیار کی گئی ہیں جو حدِ ادب سے متجاوز محسوس ہوتی ہیں، مثلاً حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بارے میں رقمطراز ہیں :
" جو فعل ان سے صادر ہوا تھا اس کے اندر خواہش نفس کا کچھ دخل تھا اس کا حاکمانہ اقتدار کے نامناسب استعمال سے بھی کوئی تعلق تھا اور وہ کوئی ایسا فعل تھا جو حق کے ساتھ حکومت کرنے والے کسی فرماں روا کو زیب نہ دیتا تھا "۔
(تفہیم القرآن : ٤/٣٢٧)
اس طرح کی بعض اور تعبیرات بھی اس تفسیر اور مصنف کی بعض دیگر کتب میں بھی موجود ہیں اگر یہ تفسیر اس طرح کی باتوں سے خالی ہوتی اور مصنف نے علماء کے توجہ دلانے کے بعد اہل حق کی شان کے مطابق ایسی باتوں سے علی الاعلان رجوع کرلیا ہوتا تو یقینا یہ بہت بہتر بات ہوتی، زبان سہل اور عام فہم ہے اور قدیم مآخذ کے ساتھ جدید تحقیقات سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔
تعارف مصنف :
سید ابوالاعلٰی مودودی (پیدائش :1903 ء، انتقال :1979 ء) مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور جماعت اسلامی کے بانی تھے۔ بیسوی صدی کے موثر ترین اسلامی مفکرین میں سے ایک تھے۔ ان کی فکر، سوچ اور ان کی تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحاریک کے ارتقاء میں گہرا اثر ڈالا اور بیسیویں صدی کے مجدد اسلام ثابت ہوئے۔
ابتدائی زندگی
سید ابوالاعلٰی مودودی 1903 ء بمطابق 1321 ھ میں اور نگ آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباؤ و اجداد میں ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی گذرے تھے جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ سید مودودی کا خاندان انہی خواجہ مودود چشتی کے نام سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلاتا ہے۔
آپ کا گھرانہ ایک مکمل مذہبی گھرانہ تھا۔ مودودی نے ابتدائی دور کے پورے گیارہ برس اپنے والد کی نگرانی میں رہے اور گھر پر تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انہیں مدرسہ فرقانیہ اور نگ آباد کی آٹھویں جماعت میں براہ راست داخل کیا گیا۔
1914 ء میں انہوں نے مولوی کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئے۔ اس وقت ان کے والدین اور نگ آباد سے حیدرآباد منتقل ہوگئے جہاں سید مودودی کو مولوی عالم کی جماعت میں داخل کرایا گیا۔
تعارف : یہ قرآن کریم کی سب سے لمبی سورت ہے، اس کی آیات ٦٧ تا ٧٣ میں اس گائے کا واقعہ مذکور ہے جسے ذبح کرنے کا حکم بنی اسرائیل کو دیا گیا تھا، اس لئے اس سورت کا نام سورۃ البقرۃ ہے، کیونکہ بقرہ عربی میں گائے کو کہتے ہیں، سورت کا آغاز اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کے بیان سے ہوا ہے، ... اسی ضمن میں انسانوں کی تین قسمیں یعنی، مومن، کافر اور منافق بیان کی گئی ہیں، پھر حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے، تاکہ انسان کو اپنی پیدائش کا مقصد معلوم ہو، اس کے بعد آیات کے ایک طویل سلسلہ میں بنیادی طو پر خطاب یہودیوں سے ہے جوبڑی تعداد میں مدینہ منورہ کے آس پاس آباد تھے ان پر اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں نازل فرمائیں اور جس طرح انہوں نے ناشکری اور نافرمانی سے کام لیا اس کا مفصل بیان ہے، پہلے پارہ کے تقریباً آخر میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ ہے، اس لئے کہ انہیں نہ صرف یہودی اور عیسائی بلکہ عرب کے بت پرست بھی اپنا پیشوا مانتے تھے، ان سب کو یاد دلایا گیا کہ وہ خالص توحید کے قائل تھے اور انہوں نے کبھی کسی قسم کی شرک کو گوارہ نہیں کیا، اسی ضمن میں بیت اللہ کی تعمیر اور اسے قبلہ بنانے کا موضوع زیر بحث آیا ہے، دوسرے پارہ کے شروع میں اس کے مفصل احکام بیان کرنے کے بعد اس سورت میں مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے متعلق بہت سے احکام بیان فرمائے گئے ہیں جن میں عبادت سے لے کر معاشرت، خاندانی امور اور حکمرانی سے متعلق بہت سے مسائل داخل ہیں۔ یہ سورت مدنی ہے اور اس میں 286 آیتیں اور 40 رکوع ہیں Show more
نام : توضیح القرآن ترجمہ آسان قرآن
مترجم و مفسر : مولانا مفتی تقی عثمانی
ناشر : مکتبہ معارف القرآن کراچی
زیر نظر نسخہ : طبع جدید جمادی الاول 1430 ۔ مئی 2009 ء
مختصر تعارف :
مصنف تفسیر ھذا کے پیش لفظ میں رقمطراز ہیں :
آج سے چند سال پہلے تک میرا خیال یہ تھا کہ اردو میں مستند علمائے کرام کے اتنے ترجمے موجود ہیں کہ ان کے بعد کسی نئے ترجمے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ چناچہ جب کچھ حضرات مجھ سے قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کی فرمائش کرتے تو اس خدمت کو عظیم سعادت سمجھنے کے باوجود اول تو اپنی نااہلی کا احساس آڑے آتا، اور دوسرے کسی نئے ترجمے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی تھی۔
لیکن پھر مختلف اطراف سے احباب نے یہ خیال ظاہر فرمایا کہ اردو کے جو مستند ترجمے اس وقت موجود ہیں وہ عام مسلمانوں کی سمجھ سے بالا تر ہوگئے ہیں، اور ایسے آسان ترجمے کی واقعی ضرورت ہے جو معمولی پڑھے لکھے افراد کی سمجھ میں بھی آسکے۔ یہ مطالبہ اتنی کثرت سے ہوا کہ موجودہ ترجموں کا باقاعدہ جائزہ لینے کے بعد مجھے بھی اس مطالبے میں وزن نظر آنے لگا، اور جب میرا انگریزی ترجمہ مکمل ہوکر شائع ہوا تو یہ مطالبہ اور زیادہ زور پکڑ گیا۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کے نام پر میں نے ترجمہ شروع کیا۔ لیکن ساتھ ہی مجھے یہ خیال تھا کہ عام مسلمانوں کو قرآن کریم کا مطلب سمجھنے کے لیے ترجمے کے ساتھ مختصر تشریحات کی بھی ضرورت ہوگی، اس خیال کے پیش نظر میں نے ترجمے کے ساتھ مختصر تشریحی حواشی بھی لکھنے کا اہتمام کیا۔
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی وہ کتاب ہے جو بذات خود ایک عظیم معجزہ ہے، اس لیے اس کا ٹھیک ٹھیک ترجمہ جو قرآن کریم کی بلاغت اور اس کے بےمثال اسلوب اور تاثیر کو کسی دوسری زبان میں منتقل کردے، بالکل ناممکن ہے۔ لیکن اپنی بساط کی حد تک بندہ نے یہ کوشش کی ہے کہ قرآن کریم کا مطلب آسان، بامحاورہ اور رواں انداز میں واضح ہوجائے۔ یہ ترجمہ بالکل لفظی ترجمہ بھی نہیں ہے، اور اتنا آزاد بھی نہیں ہے جو قرآن کریم کے الفاظ سے دور چلا جائے۔ وضاحت کو پیش نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ حتی الوسع قرآن کریم کے الفاظ سے بھی قریب رہنے کی کوشش کی گئی ہے اور جہاں قرآن کریم کے الفاظ میں ایک سے زیادہ تفسیروں کا احتمال ہے، وہاں یہ کوشش بھی کی گئی ہے کہ ترجمے کے الفاظ میں بھی وہ احتمالات باقی رہیں۔ اور جہاں ایسا ممکن نہ ہوسکا، وہاں سلف کے مطابق جو تفسیر زیادہ راجح معلوم ہوئی، اس کے مطابق ترجمہ کیا گیا ہے۔
تشریحی حواشی میں صرف اس بات کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ ترجمہ پڑھنے والے کو جہاں مطلب سمجھنے میں کچھ دشواری ہو، وہاں وہ حاشیہ کی تشریح سے مدد لے سکے، لمبے تفسیری مباحث اور علمی تحقیقات کو نہیں چھیڑا گیا، کیونکہ اس کے لیے بفضلہٖ تعالیٰ مفصل تفسیریں موجود ہیں۔ البہ ان مختصر حواشی میں چھنی چھنائی بات عرض کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو بہت سی کتابوں کے مطالعے کے بعد حاصل ہوئی ہے۔
تعارف مصنف :
مفتی محمد تقی عثمانی عالم اسلام کے مایہ ناز عالم اور جید فقیہ ہیں۔ آپ کا شمار عالم اسلام کی چند چوٹی کی علمی شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپ 1980 سے 1982 تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982 سے 2002 تک عدالت عظمی پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔ آپ اسلامی فقہ اکیڈمی، جدہ کے نائب صدر اور جامعہ دارلعلوم، کراچی کے نائب مہتمم بھی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ آٹھ اسلامی بینکوں میں بحیثت مشیر کام کررہے ہیں۔
•
پیدائش
مفتی محمد تقی احمد عثمانی تحریک پاکستان کے کارکن اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی کے سب سے چھوٹے فرزند اور موجودہ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ آپ کی پیدائش سن 1943 میں ہندوستان کے صوبہ اترپردیش کے ضلع سہارنپور کے مشہور قصبہ دیوبند میں ہوئی۔
تعلیم
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم مرکزی جامع مسجد تھانوی جیکب لائن کراچی میں حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی صاحب کے قائم کردہ مدرسۂ اشرفیہ میں حاصل کی اور پھر آپ نے اپنے والد بزرگوار کی نگرانی میں دارالعلوم کراچی سے درس نظامی کی تعلیم مکمل کی جس کے بعد 1961 میں اسی ادارے سے ہی فقہ میں تخصص کیا۔ بعد ازاں جامعہ پنجاب میں عربی ادب میں ماسٹرز اور جامعہ کراچی سے وکالت کا امتحان نمایاں نمبروں سے پاس کیا۔
اجازت
آپ نے اپنے وقت کے تقریبا تمام جید علماء سے حدیث کی اجازت حاصل کی۔ ان علماء میں خود انکے والد مفتی محمد شفیع عثمانی کے علاوہ مولانا ادریس کاندھلوی اور مولانا زکریا کاندھلوی شامل ہیں۔
تصوف و معرفت
مفتی صاحب کے والد ہمیشہ آپ کی روحانی تربیت کے حوالے سے فکر مند رہتے تھے۔ اسی بابت آپ نے مفتی صاحب کو اپنے وقت کے سب سے بڑے شیخ اور عارف بااللہ ڈاکٹر عبدالحئی کی صحبت اختیار کرنے اور ان سے روحانی تعلق استوار کرنے کا حکم دیا۔ آپ نے والد کے حکم پر شیخ کی صحبت اختیار کی تو کچھ ہی عرصے انکی شخصیت سے اتنے متاثر ہوئے کہ فوراً ہی ان سے بیعت ہوگئے۔ کچھ ہی عرصے میں آپ اپنے شیخ کے خاص مریدوں میں شمار ہونے لگے۔ عارف باللہ ڈاکٹر عبدالحئی کے انتقال کے بعد آپ انکے خلیفہ مجاز ہیں۔
تدریس
مفتی تقی عثمانی تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں۔ آپ دارالعلوم کراچی میں صحیح بخاری، فقہ اور اسلامی اصول معیشت پڑھاتے ہیں۔ اسکے علاوہ مختلف ملکی و غیر ملکی جامعات وقتاً فوقتاً اپنے یہاں آپ کے خطبات کا انتظام کرتی رہتی ہیں۔ آپ چند سالوں سے جامعہ دارالعلوم کراچی میں درس بخاری دے رہے، پہلے آپ ایک فقیہ کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور اب دنیا آپ کو ایک محدث کی حیثیت سے بھی جانتی ہے، یہی وجہ ہے کہ علماء نے آپ کو شیخ الاسلام کا لقب عطا کیا ہے۔
رکن اسلامی نطریاتی کونسل
جنرل ضیاء الحق نے 1977 میں 1973 کے دستور سنت کے مطابق ڈھالنے کے لئے 1973 کے آئین کی روشنی میں ایک مشاورتی باڈی اسلامی نظریاتی کونسل کی بنیاد رکھی، مفتی تقی احمد عثمانی اس کونسل کے بانی ارکان میں سے تھے۔ آپ نے قرآن مجید میں بیان کردہ اللہ کی حدود اور انکی سزاؤوں پر عملد درآمد کے لئے حدود آرڈینینس کی تیاری میں اہم کردا ر ادا کیا۔ آپ نے سودی نظام بینکاری کے خاتمے کے لئے بھی کئی سفارشات پیش کیں۔
بحثیت جج
مفتی تقی عثمانی جامعہ کراچی سے وکالت کی سند حاصل کرنے کے بعد طویل عرصے کے لئے پاکستان کے عدالتی نظام سے وابستہ ہوگئے۔ آپ 1980 سے 1982 تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982 سے 2002 تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔ آپ شریعت ایپلیٹ بینچ کے منصف اعظم اور پاکستان کے قائم مقام منصف اعظم بھی رہے۔ آپ بحثیت جج کئی اہم فیصلے کئے جن میں سود کو غیر اسلامی قرار دیکر اس پر پابندی کا فیصلہ سب سے مشہور ہے۔ 2002 میں اسی فیصلے کی پاداش میں سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے آپ کو آپ کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔
اسلامی بینکاری
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ربا یعنی سود کو حرام قرار دیا ہے۔ ایسی صورت میں جب جدید معاشی نظام کی اساس جدید بینکنگ ہے جس کا پورا ڈھانچہ سود کی بنیادوں پر کھڑا ہے مسلمان ملکوں میں اللہ کی نافرمانی کی زد میں آئے بغیر معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھنا ایک مستقل مسئلہ تھا۔ لیکن اب مفتی صاحب کی مجدادنہ کوششوں کی بدولت یہ مستقل طور پر حل ہوچکا ہے۔ مفتی صاحب نے شریعت کے حدود میں رہ کر بینکاری کا ایسا نظام وضع کیا ہے جو عصر حاضر کے تمام معاشی تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ مفتی صاحب کے اس نظام کو اسلامی فقہ اکیڈمی کی منظوری کے بعد ساری دنیا میں نہایت تیزی سے اپنایا جارہا ہے۔
اس وقت مفتی تقی عثمانی صاحب کے اصولوں پر درجنوں اسلامی بینک کام کررہے ہیں۔ کینیڈا کے کئی اسلامی بینکوں نے ایک سال نہایت کامیابی سے کام کرتے ہوئے دو سو فیصد سے زائد منافع کمایا ہے۔ مفتی صاحب خود آٹھ اسلامی بینکوں کے مشیر کے طور پر کام کررہے ہیں۔ مفتی صاحب اسلامی مالیاتی اداروں کے اکاونٹینگ اور آڈیٹینگ اور گنائزیشن کے چیر مین بھی ہیں۔
ملی و سیاسی کردار
مفتی تقی عثمانی صاحب کا نام پہلی مرتبه اس وقت سامنے آیا جب آپ نے شیخ الحدیث حضرت مولانا یوسف بنوری کی ہدایت پر 1974 کی قادیانی مخالف تحریک میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی اس تحریک میں آپ نے مولانا سمیع الحق کے ساتھ مل کر ایک دستاویز تیار کی جو قادیانیوں کے خلاف پارلیمان میں پیش کی گئی۔ 9/11 کے بعد جب پرویز مشرف کی حکومت پاکستان کو سامراجی مقاصد کے سامنے قربانی کے بکرے کے طور پر پیش کیا گیا تو مفتی صاحب نے اس معاملے پر اپنے کالموں اور بیانوں کے زریعہ کھل کر مخالفت کی۔ آپ نے افغانستان کی اسلامی ریاست پر آمری کہ کے حملہ کو طاغوتی سامراج کا تیسری دنیا کے مما لک کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا۔ حقوق نسواں بل میں ترمیم اور لال مسجد کے معاملے پر بھی کھل کر اظہار خیال کیا اور حکومتی موقف کو جھوٹ اور دغا کا پلندہ قرار دیا۔ آپ صلی و علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور ٹیوی پر آکر ان شیطانی فتنوں کی مذمت کی اور عوام کو توہین کے عمل میں ملوث ممالک کا معاشی بائیکاٹ کرنے کا فتوا دیا۔ مفتی صاحب نے 18 فروری کے انتخابات کے بعد پرویز مشرف سے استعفی کا مطالبہ بھی کیا۔
کتابیں
• آسان ترجمہ قرآن (توضیح القرآن) مع تشریحات مکمل تین جلدیں
• آسان نیکیاں
• اندلس میں چند روز
• اسلام اور سیاست حاضره
• اسلام اور جدت پسندی
• اکابر دیوبند کیا تھے
• تقلید کی شرعی حیثیت
• پرنور دین
• تراشے
• بائبل کیا ہے
• جہاں دیدہ
• دنیا میرے آگے
• حضرت معاویہ اور تاریخی حقائق
• حجت حدیث
• حضور نے فرمایا
• فرد کی اصلاح
• علوم القرآن
• ہمارا معاشی نظام
• نمازیں سنت کے مطابق پڑہیں
• عدالتی فیصلے
• عیسائیت کیا ہے
• درسِ ترمذی
احسن التفاسیر
احسن التفاسیر تفسیر بالاحادیث کا بہترین مجموعہ ہے، کئی بار چھپ چکی ہے، آخر میں پاکستان میں مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کی توجہ اور مولانا عبدالرحمٰن گوہڑوی کی تعلیقات سے چھپی ہے۔ شاہ عبدالقادر کے ترجمہ پر مشتمل ہے، سید احمد حسن دہلوی (المتوفی ١٣٣٨ھ) تلمیذ سید نذیر حسین محدث دہلوی (المتوفی ١٣٢٠ ھ) عظیم علمی شخصیت کے مالک تھے، تنقیح الرواۃ فی تخریج احادیث المشکوٰۃ ان کی مشہور تصنیف ہے جو ان کی علمی شان و مہارت تامہ کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ پاکستان میں المکتبہ السلفیہ لاہور نے چھاپی ہے۔
سید احمد حسن احسن التفاسیر کی تالیف کے بارے میں لکھتے ہیں۔ قرآن شریف عربی زبان میں ہے۔ اور ہر شخص کو عربی زبان کے سمجھنے کی طاقت نہیں، اس واسطے شاہ عبدالقادر صاحب مرحوم کے عام فہم اردو کے ترجمہ کے زیادہ عام فہم ہوجانے کی غرض سے اسی ترجمہ کی سلیس اردو کے ڈھنگ پر پہلے چیدہ چیدہ آیتوں کے فوائد احسن الفوائد کے نام سے تین ترجمے کے قرآن مطبوعہ مطبع فاروقی کے حاشیہ پر چھاپ دیے گئے تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان فوائد سے مسلمان بھائیوں کو بہت فائدہ پہنچا جس کے سبب سے اس قرآنی ترجمہ مع فوائد کے اب بہت لوگ خواہش مند ہیں لیکن وہ قرآن نہیں ملتا۔ ان فوائد میں چیدہ چیدہ آیتوں کا مطلب تھا، اس واسطے ان فوائد سے پورے قرآن شریف کا مطلب سمجھ میں نہیں آسکتا تھا، اسی لیے ان فوائد کا یہ نقصان رفع کردینے کی غرض جسے شاہ عبدالقادر مرحوم کے ترجمہ کا یہ قرآن اس ڈھنگ سے چھاپا گیا کہ اوپر قرآن شریف کی آیتیں اور ان کا ترجمہ ہے اور نیچے احسن التفاسیر کے طور پر تمام قرآن شریف کی مختصر صحیح تفسیر ہے تاکہ ترجمہ اور اس تفسیر کی مدد سے اردو دان مسلمان مرد اور عورتیں قرآن شریف کا مطلب اچھی طرح سمجھ سکیں۔
مصنف کے احوال :
مؤلف احسن التفاسیر اللہ تعالیٰ
١٢٥٨۔۔۔۔۔۔ ١٣٣٨ ھ
مولدومسکن : آپ کا خاندان قدیم الایام سے دہلی کا رہنے والا تھا۔ ١٢٥٨ ھ میں آپ دہلی میں پیدا ہوئے قلعہ معلّٰی میں اچھے حاصے خاندانی تعلقات کے باعث بچپن قلعہ معلّٰی میں گذرا۔
حفظ قرآن : وہی قاری امیدعلی صاحب سے جن کا وطن ڈھا کہ تھا لیکن عرصہ دراز سے دہلی میں رہ رہے تھے۔ قرآن مجید حفظ شروع کیا۔ اور گیارہ سال کی عمر میں حفظ قرآن کی دولت سے مالا مال ہوگئے۔
فارسی کی ابتدائی کتابیں : چودہ سال کی عمر تک اس قدر پڑھ ڈالیں کہ فارسی کی عبارت سمجھنے کی اچھی استعداد پیدا ہوگئی۔ عام قابلیت بھی اتنی ہوچکی تھی کہ وہ خط و کتابت بخوبی کرسکتے تھے۔
ترک وطن : انہی ایام میں ١٨٥٧ ء کا ہنگامہ ہوگیا۔ اس طوفانِ رست خیز میں آپ کے والد بال بچوں سمیت پٹیالہ (حال مشرقی پنجاب ) چلے آئے۔ وہاں پہنچ کر آپ کے والد ماجدنے فارسی کتابوں کی خود تعلیم دینی شروع کی، نیز آپ کو مرزرا احمد بیگ کے بھی سپرد کردیا گیا۔ غالباً اس لئے کہ دفتر کاموں کی واقفیت پیدا ہو سکے۔ چناچہ تین ساڑھے تین سال کے عرصے میں فارسی کی تحصیل کے ساتھ ساتھ دفتری امور میں بھی مہارت حاصل ہوگئی ۔ جو حید آباد کی ملازمت کے دوران میں خوب کام آئی۔
علوم آلیہ کی تحصیل : بعدہٗ ٹونک چلے گئے جو ان دنوں صرف و نحود وغیرہ کامرکز تھا۔ صرف دنحو کی تمام کتابوں کی تکمیل یہاں کرلی اتنے میں دہلی ک حالت معمول پر آئی تو آپ کے والد ماجد پٹیالہ سے دہلی واپس آگئے۔
آپ بھی والدین کی اوقات کے لئے ٹونک سے دہلی آئے اور والد کے اصرار پر ٹونک کا ارادہ ترک کر کے دہلی میں ہی تعلیم حاصل کرنی شروع کردی۔ مگر تھوڑے عرصے کے بعد اپنے ایک ہم سبق مولوی عبد الغفور ١ جو بڑے لائق اور قابل آدمی تھے۔ کی معیت میں جناب مولانا محمد حسین ٢ خاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے جن کا فیض تدریس نحبی طور پر خواجہ ضلع بلند شہر (ہند) میں جاری تھا اور علوم میں اعلیٰ قابلیت کی شہرت رکھتے تھے۔ ان کے ہاں صرف ونحو کو اچھی طرح ضبط کرنے کے علاوہ منطق کی ابتدائی اور وفقہ و ا صولِ فقہ کی کتابیں خوب پڑھیں۔
اس کے بعد علی گڑھ جا کر مولانا فیض الحسن صاحب سہارن پوری سے اکتسابِ علوم کیا فقہ و اصول اور منطق وغیرہ کی بقیہ کتابوں کے ساتھ ہی تفسیر بھی ان سے پڑھی۔
تفسیر و حدیث کی تکمیل : پھر واپس آکر حضرت شیخ الکل فی الکل مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب محدث قدس اللہ سرہ کی خدمت میں زانوئے تلمذ طے کیا اور حضرت سے اکتساب فیض کرتے ہوئے تھوڑے ہی عرصہ میں تفسیر و صحاح کی تکمیل کر ڈالی۔ چناچہ حضرت میاں صاحب a نے سند حدیث عنایت فرمائی ۔
طب : تکمیل علوم شرعیہ کے بعد حکیم امام الدین صاحب مرحوم سے پوری طب پڑھی اور حکیم حسام الدین خاں صاحب مرحوم (عرف منجھلے میاں) کے مطب میں ایک عرصے تک بفرض تجربہ حاضر رہ کر طبابت کی بھی سند حاصل کرلی۔
سند فراغت کے بعد : حضرت میاں صاحب کی خدمت میں کچھ م دت تدریس و فتویٰ میں مصروف رہے پھر حضرت ہی کے مشورہ سے جناب مولوی ڈپٹی نذیر احمد صاحب مرحوم ۔ مصنف ترجمۃ القرآن کے ہاں شادی قرار پائی۔
ان دنوں ڈپی نذیر احمد صاحب (رح) کا گورکھ پور (ہند) میں قیام تھا۔ شادی وہیں عمل میں آئی۔ پھر ٹونک چلے گئے لیکن کچھ مدت بعد ڈپٹی صاحب موصوف آپ کو حیدر آباد دکن لے گئے اور ضلع نانذیر میں آٹھ سو روپے مشاہرہ پر ڈپٹی کلکٹر کے عہدہ پر لگوایا۔ جس پر سالہا سال تک سرفراز رہے اور وہیں سے پنشن پائی۔
١٣٠٨ ھ میں حج بیت اللہ کی نعمت سے سرفراز ہوئے۔ وہاں آپ کو بھی حوادث و مصائب سے دو چار ہونا پڑا مگر آپ نے بخندہ پیشانی ان سب کو جھیلا اور ١٣٩٠ ھ کو بخیریت واپس تشریف لائے۔
علمی شغف : علمی ذوق کا اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ڈپٹی کلکٹر کی ملازمت کے دوران میں آپ نے تین ترجموں والا قرآن مجید مرتب کیا پہلا ترجمہ فارسی فتح الرحمن از شاہ ولی اللہ صاحب (رح) دوسراؔ اردو تحت اللفظ از شاہ رفیع الدین ، تیسیرا اردو با محاورہ از شاہ عبد القادر صاحب۔ پھر اس پر ” احسن الفوائد “ کے نام سے بہترین ملحض تفسیر ی حواشی خود لکھے۔ اس قرآن مجید کو آپ نے اپنے خرچ پر طبع کرایا۔
تصانیف : احسن ١ الفوئد (اردو تفسیر ) جس کا اوپر ذکر آچکا ہے۔ دو دفعہ دہلی میں طبع ہوا۔ (با ر اوّل ١٣١٥ ھ بار دوم ١٣٤٧ ھ) ٢ تفسیر احسن التفاسیر (اردوض ہزاروں صفحات پر مشتمل بہترین اردو تفسیر ١٣٢٥ ھ میں مطبع فاروق دہلی سے سات بڑی جلدوں میں شائع ہوئی۔ یہ تفسیر بڑی قابلیت سے مرتب کی گئی ہے جس میں بہت سی تفاسیر کا خلاصہ آسان اور عام فہم انداز میں کردیا گیا ہے۔
٣ مقدمہ تفسیر احسن التفاسیر جو اعلیٰ تفسیری فوائد اور علمی نکات و مباحث پر مشتمل ہونے کی وجہ سے مستقل تصنیف کی حیثیت رکھتا ہے۔ ١٣٣٠ ھ ، ١٩١٢ ء میں طبع ہوا۔
٤ تفسیر آیات الاحکام من کلام رب الانام (اردو) صرف سورة بقرہ کا حصہ کانفرنس اہلحدیث دہلی نے شائع کیا تھا، پور ی ہوجاتی، تو اردو میں آیات احکام کی تفسیر میں اپنی نظیر آپ ہوتی۔ ٤٢٤ صفحات پر ١٩٢١ ء میں بمقام دہلی طبع ہوئی۔
٥ حاشیہ بلوغ المرام (عربی ) فقہی اور محدثانہ انداز کا جامع حاشیہ ، متن کے ساتھ کم و بیش ٥٠ ٣ صفحات پر مطبع فاروقی دہلی سے ١٣٢٥ ھ میں شائع ہوا۔ اس کا دوسرا ایڈیشن ١٩٧٨ ء میں سرگودھا سے شائع ہوا۔
٦ تنفتح الرواۃ فی تخریج احادیث المشکوٰۃ کامل محدثانہ طریق پر مشکوٰۃ کا جامع اور بےنظیر حاشیہ ، پہلی جلد خود لکھی باقی اپنی نگرانی میں اور ہدایت کے تحت استاد محترم مولانا محمد شرف الدین محدث دہلوی (متوفی ٰ ١٣٨١ ھ ) سے لکھوائی۔ پہلا ربع ١٣٢٥ ھ میں مطب انصاری دہلی سے اور دوسرا ربع ١٣٣٣ ھ میں مطبع مجتبائی دہلی سے شائع ہوا۔ دوسرا نصف مجتبائی والوں ک سر د مہری کی نذر ہوگیا تھ ا۔ تا ہم تلاش بسیار کے بعد مبطع مجتبائی والوں کے ورثاء سے اس کا کرم خوردو مسودہ دستیاب ہوگیا اور اس کا تیسیرا ربع راقم کی تصحیح و تحقیق اورا ضافوں کے ساتھ ١٤٠٤ ھ میں دار لدعوۃ السلفیہ لاہور کے اہتمام میں چھپا اور آخری ربع (جو بہت زیادہ خرا بکو کرم خوردہ ہے ) اس کی تصحیح و تحقیق اور استدراکات کا کام جاری ہے۔
٧ بحر ذخار بجوا انتصار ، مولانا انتشار حسین رام پوری نے حضرت میاں صاحب (رح) کی معرکۃ الآرا کتاب ” معیار الحق “ کے جواب میں ” انتصار الحق “ بڑی ضخیم کتاب لکھی ” بخر زخار “ کم بیش تین سوصفحات پر مشتمل اسی کتا ب کا مدلل ، معقول اور سنجیدہ جواب ہے۔
٨ صراط الاھتداء فی بیان الاقتدارء اہلحدیث کے امتیازی مسائل کی تحقیق اور اہل حدیث کی اقتداء میں نماز پڑھنے کے جواز میں مدلل یہ کتاب ١٢٨٩ میں مطبع فاروقی دہلی سے طبع ہوئی۔
٩ عمر کے آخری دور میں مسند احمد کی احادیث کی تخریج شروع کی تھی لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ کام کتنا کیا تھا ؟ اور وہ کہیں محفوظ ہے یا نہیں ؟
وفات : ١٧؍جمادی الاولیٰ ١٣٣٨ ھ (٩ مارچ ١٩٢٠ ء ) تقریباً اسی ٨٠ اسی سال کی عمر میں انتقال فرمایا :
یہ کتاب قرآن حکیم کے ان طالب علموں کے لیے لکھی گئی ہے جو زبان عربی کا کم از کم ابتدائی علم رکھتے ہوں اور صرف و نحو کی مبادیات سے واقف ہوں اور اس سلسلہ میں مزید معلومات کے خواہشمند ہوں۔ یہ کتاب نہ صرف ان کو قرآنی عبارت کے مختلف الفاظ اور جملوں کی تعلیل صرفی اور ترکیب نحوی میں مدد گار ثابت ہوگی بلکہ ربط الفاظ و آیات میں بھی معاونت کرے گی۔
عام لغات (ڈکشنری) کی کتابوں میں الفاظ کے مواخذ و معنی بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے اور ان کے صرفی و نحوی پہلو کو چھوڑ دیا گیا ہے اس طرح طالب علم، نہج عبارت اور نشست الفاظ کی اصولی وجوہ سے ناواقف رہ جاتا ہے، بقول مولانا محمد نذیر عرشی مصنف مفتاح العلوم شرح مثنوی مولانا روم :
" ترکیب نحوی نہ جاننے والے لوگوں کی زباندانی کی مثال اس کوتاہ نظر راہرو کی سی ہے جس کی نظر پگڈنڈی کے صرف اتنے ہی حصے پر ہے جو اس کے پاؤں کے سامنے ہے اور وہ اس تسلسل نظر کے ساتھ اپنی مسافت طے کرتا جارہا ہے بخلاف اس شخص کے جو جانتا ہے کہ یہ کلمہ فعل ہے یہ فاعل ہے یہ اسم موصول ہے یہ جملہ اس کا صلہ ہے ، یہ کلمہ مقدم آنا واجب ہے اور یہ موخر ہونا چاہیے اس کلمہ میں ضمیر کا ہونا ضروری ہے اس کا مرجع یہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس پر عبارت کا مطلب و مدعا خود بخود آئینہ ہوجاتا ہے اور جب وہ عبارت کا ترجمہ کرتا ہے تو ایک مبصر کی حیثیت سے کرتا ہے اس کی مثال اس وسیع النظر اور دور بین راہرو کی سی ہے جس نے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے نقشہ کے ذریعہ، سفر ناموں کے مطالعہ سے اور واقفان راہ سے گفتگو کر کے تمام منازل سفر پر نظر ڈال لی ہو۔ خلاصہ یہ کہ اس کا سفر خطرات سے محفوظ ہوگا "۔
ایسی ہی وجوہات کو مد نظر رکھتے ہوئے ضروری الفاظ، جملوں اور آیات کی صرفی و نحوی لحاظ سے وضاحت کردی گئی ہے اس طرح اصطلاحا یہ کتاب نہ تو ایک لغات ( ڈکشنری) ہے نہ تفسیر نہ ترجمہ، اسی بناء پر اس کا نام " انوار البیان فی حل لغۃ القرآن " رکھا گیا ہے ۔
سورت اور اس کی آیات کو یا آیات میں مندرجہ جملوں یا الفاظ کو اس ترتیب سے لکھا گیا ہے کہ پہلے سورت کا نمبر دیا ہے اس کے بعد آیت کا نمبر ہے ۔ ازاں بعد جملہ یا الفاظ کا حوالہ ہے ۔ مثلا ١١٩: ٣ میں ٣ سورة آل عمران کو ظاہر کرتا ہے اور ١١٩ سورة آل عمران کی آیت ١١٩ کو، اور اس آیت میں مندرج مشکل الفاظ کو اس آیت کے محاظ درج کیا ہے ۔
چونکہ اس کتاب میں صرف مشکل الفاظ کی تشریح کی گئی ہے لہذا ضروری نہیں کہ ہر سورة یا ہر پارہ اس کے انہی الفاظ سے شروع ہو جو قرآن میں ہیں۔
کتاب ہذا کا مقصد طالب علم کو قرآن حکیم کے سمجھنے میں معاونت کرنا ہے لہذا ان کتب سے دل کھول کر مدد لی گئی ہے۔ مؤلف کتاب ہذا کو اپنی کوتاہی علم کا شدت سے احساس ہے۔ لہذا کتاب ہذا میں جو محاسن نظر آئیں ان کے لئے سزاوار تحسین وہ ہستیاں ہیں جن کے گلستان تصنیف سے خوشہ چینی کی گئی ہے البتہ جو خامیاں رہ گئی ہیں ان کے لئے ذمہ دار وہ خود مؤلف ہے جس کے لئے وہ بارگاہ ایزدی سے معافی کا خواستگار ہے۔
نام : اشرف الحواشی
ترجمہ اول : حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی (رح)
ترجمہ دوم : نواب وحید الزمان خان حیدر آبادی
مرتب و مؤلف : ابوالقاسم محمد عبدہ الفلاح
ناشر : شیخ محمد اشرف ناشران قرآن مجید و تاجران کتب
مختصر تعارف و خصوصیات :
مؤلف اور ناشر تفسیر کے اخیر میں لکھتے ہیں :
1 ۔ تاریخ کے ہر دور میں علماء نے قرآن کی تشریح و تفسیر کا فریضہ ادا کیا۔ اور علماء کی ان خدمات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ انکا احصاء ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ برصغیر میں خاندان ولی اللہی کی خدمات کو اساسی حیثیت حاصل ہے۔ ان میں شاہ رفیع الدین دہلوی (رح) کا ترجمہ اپنی سہولت اور اختصار کے سبب نہایت مقبول ہے اور یہ ترجمہ جو مسلک سلف کا مظہر ہے۔ اس پر خود حضرت النواب نے تفسیری حواشی مرتب فرمائے مگر وہ نہایت مختصر تھے۔ اس بناء پر کسی ایسے تفسیری حواشی کی ضرورت عرصہ سے محسوس ہورہی تھی جو اس ترجمہ سے ہم آہنگ ہو، اور احادیث صحیحہ، دورِ آثار صحابہ و تابعین پر حاوی ہو تاکہ سلف کے طرز پر قرآن سمجھنے والے اس سے اپنا شوق پورا کرسکیں۔ ان تفسیری حواشی میں مندرجہ ذیل اصول کو سامنے رکھا گیا ہے۔
2 ۔ کتب تفسیر میں ابن کثیر، فتح القدیر اور فتح البیان کو اصل قرار دیا گیا ہے اور ان سے تفسیر بالماثور کا حصہ نہایت اختصار کے ساتھ اخذ کیا گیا ہے۔
3 ۔ بلا واسطہ کتب حدیث سے استفادہ کیا ہے اور اس سلسلہ میں صحاح ستہ اور ان کے شروح کو سامنے رکھا گیا ہے۔
4 ۔ جن عقل پسندوں نے قرآن کی ترجمانی کے زعم میں بعض صحیح احادیث کا انکار کیا ہے، فوائد میں ان پر بھی بالاختصار تنقید کردی گئی ہے۔
5 ۔ اس تفسیر میں دوترمے ہیں۔ پہلا ترجمہ حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی کا ہے اور دوسرا ترجمہ علامہ نواب وحید الزماں کا۔ نواب صاحب مشہور عالم اور صحاح ستہ کے مترجم ہیں۔ حواشی میں اس امر کا خاص طور پر التزام کیا گیا ہے کہ قرآن مجید کی متعلقہ آیات کی تائید میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ حدیث درج کی جائے جو مضمون آیات کے عین مطابق ہو۔ حواشی کو اشرف الحواشی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جسے آپ تفسیر قرآن بالحدیث کے نام سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
مصنف : امیر محمد اکرم اعوان
۔۔۔
امیر محمد اکرم اعوان مفسر قرآن اور مذہبی پیشوا ہیں جو تنظیم الاخوان کے امیر ہیں۔
آپ کا تعلق کوہسار کے خوبصورت علاقہ ونہار کے ایک معروف زمیندار خاندان سے ہے آپ نے علاّمہ مو لانا اللہ یار خان صاحب (رح) کی صحبت کی بھٹی میں پچیس سال کا عرصہ گزارا اور کندن بن کر نکلے۔ حضرت العلاّم مولانا اللہ یار خان نوّر اللہ مرقدہ نے اپنے شاگرد رشید کے سینے میں برکاتِ نبوّت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بےکراں سمندر انڈیلا اور اپنے بعد سلسلے کا شیخ نامزد فرمایا۔
حضرت امیر مکرّم مولانا محمد اکرم اعوان مد ظلہ العالی سلسلہ عالیہ نقشبندیہ اویسیہ کے فی زمانہ شیخ ہیں ۔ آپ نے اصلی حقیقی تصوّف کو واضح کرنے کے لیے ارشاد السالکین ، کنز الطّالبین، طریقِ نسبتِ اویسیہ، رموزِدلِ ، کنوزِ دل جیسی قریباً چالیس کتب سالکین کی رہنمائی کے لیے تصنیف فرمائیں۔
آپ نے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کی " مسائل السلو ک من کلام الملوک " کی شرح فرمائی اور اپنے عطیم المرتبت شیخ ضرت العلام مولانا اللہ یار خان صاحب (رح) کی کتاب دلائل السلوک کی بھی شرح فرمائی۔
آپ عصرِ حاضر کی ایک عہد ساز شخصیت ہیں
آپ نے تعلیمِ بالغاں کا با قا عدہ سلیبس مقرر کر رکھا ہے۔ مختلف کو رسز کے ذریعے لوگ قرآن حدیث ، فقہ اور عربی سیکھتے ہیں۔ جن میں ایمانیات، عبادات، معاملات اور اخلاقیات کی بنیادی تعلیم کے ساتھ معاشیات، عدالت اور معاشرت کی رہنمائی ملتی ہے۔ مَردوں کی طرح خواتین کی تربیت کا نتظام ہے۔ " الا خوات " کا نام سے ان کی بھی تنظیم ہے۔
آپ نے گزشتہ ادوار ِ حکومت میں ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کو نفاذِ اسلام کے لیے تحریری مسوّدہ پیش کیا۔ شومٔی قسمت کہ ان حکومتوں کو توفیقِ عمل نہ ہوئی۔
آپ مفسِّر قرآن ہیں۔ اللہ کریم نے آپ کو علم لَدُنّی سے نوازا ہے۔ اور قرآن پاک کا خص فہم عطا فرمایا ہے۔ یہ اسی علم لدنی کی برکت ہے کہ آپ نے ایک تفسیر " اسرار التنزیل " تحریر فرمائی ہے۔ جس میں آپ نے موقع بہ موقع تسوّف کے رموز کو آشکار کیا ہے ۔ یہ تفسیر صاحب دل حضرات کے لیے کسی نایاب تحفے سے کم نہیں۔ علاوہ ازیں زبان و بیا ن کی خوبیوں سے آراستہ اور خاص و عا م میں پسندیدہ ہے۔ آپ کی دوسری بیانیہ تفسیر " اکرم التفاسیر " ہے جو نصف سے زا ئد یعنی سولہ پا روں میں زیور طباعت سے آراستہ ہوچکی ہے۔ یہ تفسیر " وَلَقَد یَسَّرنَا القُر آنَ لِلذِّکرِ " آسان قرآن " کا اظہر من الشمس ثبوت ہے۔ آسان زبان میں ہونے کے ساتھ ساتھ موجودہ دور کے حالات کے مطابق ہونے کی وجہ سے یوں لگتا ہے کہ قرآن کریم شاید موجودہ زمانے کے لیے ہی نازل ہوا ہے۔ آپ کی ایک اور پنجابی تفسیر " رب دیاں گلاّں " " اپنا ٹیوی چینل سے ٹیلی کا سٹ ہوتی رہی ہے۔ اس کی سی ڈی اور ڈیوی ڈی وغیرہ دستیاب ہیں اور انشاء اللہ طباعت کے بعد منظر عام پر آ جائے گی۔
آپ مترجمِ قران بھی ہیں۔ آپ کا قرآن پاک کا سلیس ترجمہ " اکرم التراجم " قدرت اللہ کمپنی کی طرف سے شائع ہو کر کتب خانوں، مساجد اور گھروں کی زینت بن چکا ہے اور اپنی روانی، سلاست اور شستگی کے باعث علماء اور عوام میں یکساں مقبول ہے۔
آپ صوفی شاعر، محقق اور اور اعلیٰ پائے کے ادیب ہیں دلی کیفیات زباں پر آئیں تو گردسفر، دیدۂ تر، متاعِ فقیر، نشانِ منزل، آس جزیرہ، کونسی ایسی بات ہوئی ہے اور دِل دروازہجی سے مجموعہ ہائے کلام معرض وجود میں آئے۔
آپ کے ہزاروں بیانات آڈیو، وڈیو ریکارڈ شدہ ہیں۔ سی ڈیز وغیرہ دستیاب ہیں۔ کتب کے علاوہ بیشمار پمفلٹ ہیں کسی چیز پر رائلٹی نہیں لیتے۔
آپ الفلاح فاؤنڈیشن کے بانی ہیں جو پورے ملک میں عموماً اور شمالی علاقہ جات میں خصوصاً رفاہِ عامہ کی خدمات سر انجام دے رہی ہے۔
آپ صقارہ ایجو کیشن سسٹم کے بانی اور سرپرستِ اعلیٰ ہیں۔ صقارہ اکیڈمی جس کا افتتاح صدر جنرل ضیاء الحق صاحب نے کیا وہاں اقبال کے شاہینوں کی تربیت کی جاتی ہے ۔ صقارہ اکیڈمی دین اور علوم جدیدہ کا حسین امتزاج ہے۔
العلم علمان : علم الادیان وعلم الابدان کے مصداق spirtual ، نارمیٹو سائنسز کے علم اور فزیکل سائنسز کے علم کا شاہکار عملی نمونہ ہے۔
اس اکیڈمی کا " راولپنڈی بورڈ " میں ایک خاص مقام ہے۔ اکیڈمی کے تعلیم و تربیت یافتہ سول و آرمی کے اعلیٰ عہدوں پر ہیں نیز مختلف شعبہ ہائے زندگی میں قابل تقلید نمونہ کے حامل ہیں۔
تعارف سورة البقرہ سورۂ بقرہ قرآن کریم کی سب سے بڑی اور اہم ترین سورت ہے جس میں بنی اسرائیل اور امت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تفصیل سے خطاب کرنے کے بعد عبادات، اسلامی عقائد، اخلاق، اعمال اور زندگی گذارنے کے بنیادی احکامات ارشاد فرمائے گئے ہیں۔ نبی کریم حضرت محمد مصطفےٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ... وسلم) نے بھی اس سورت کے بہت سے فضائل بیان فرمائے ہیں۔ (١) حضرت ابی امامہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قرآن کریم پڑھا کرو۔ قیامت کے دن یہ پڑھنے والوں کی شفاعت کرے گا ۔ (خاص طور پر) سورة بقرہ اور سورة آل عمران جو کہ ” زھراوین “ (دو نہایت روشن چیزیں) ہیں ان کو پڑھا کرو کیوں کہ قیامت کے دن یہ اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت کریں گے۔ سورة بقرہ پڑھا کرو۔ اس کے پڑھنے میں بڑی برکت اور اس کے چھوڑ دینے میں بڑی حسرت ہے۔ دھوکے باز اور فریبی (شیاطین) اس کے مقابلے کی طاقت نہیں رکھتے (صحیح مسلم ) (٢) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سورة بقرہ کو ھان کی طرح ہے (مسند احمد) اونٹ کے جسم میں سب سے نمایاں اور اونچے حصے کو کو ھان کہا جاتا ہے۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اونٹ کے جسم میں سب سے اونچے اور نمایاں حصے کو کوہان کہا جاتا ہے اسی طرح اس سورت کا مقام بھی بہت بلند اور نمایاں ہے۔ (٣) امیر المومنین سیدنا عمر فاروق اعظم (رض) جنہیں اللہ تعالیٰ نے فہم قرآن کا ایک خاص ذوق عطا فرمایا تھا انہوں نے نبی کریم خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سورة بقرہ کو کئی سال میں پڑھا اور سیکھا۔ (٤) حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ ہم میں سے جو شخص بھی سورة بقرہ اور سورة آل عمران جانتا تھا اس کی بہت عزت کی جاتی تھی۔ (صحیح مسلم ) (٥) حضرت اسید حضیر (رض) ایک رات سورة بقرہ کی تلاوت کر رہے تھے۔ ان کا گھوڑا ان کے پاس ہی بندھا ہوا تھا اچانک ان کا گھوڑا اچھلنے کودنے لگا۔ انہوں نے جیسے ہی پڑھنا بند کیا تو گھوڑا بھی چپ چاپ کھڑا ہوگیا۔ جب انہوں نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا تو گھوڑے نے پہلے کی طرح اچھل کود شروع کردی۔ یہ واقعہ تین مرتبہ پیش آیا۔ فرماتے ہیں کہ میرا بیٹا قریب ہی سو رہا تھا مجھے ڈر ہوا کہ کہیں گھوڑے کی اس اچھل کود میں میرا بچہ کچلا نہ جائے میں نے پڑھنا بند کردیا۔ فرماتے ہیں کہ میں نے اوپر کی طرف دیکھا تو ایک روشن بادل دکھائی دیا جس میں مشعلیں سی روشن تھیں۔ پھر میں اس کو دیکھنے کے لئے باہر نکل آیا۔ اور دیکھتا رہا صبح ہوئی تو میں نے تمام صورت حال نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں عرض کردی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے تھے جو تمہاری تلاوت سن رہے تھے ۔ اگر تم صبح تک پڑھتے رہتے تو وہ فرشتے بھی موجود رہتے اور سب کو نظر آتے ۔ آپ نے دو مرتبہ فرمایا ” ابن حضیر اس کو پڑھا کرو “ ” اس کو پڑھا کرو “ (بخاری مسلم ) ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ سورة بقرہ بڑی اہم سورت ہے جس کا پڑھنا ایک بہت بڑی سعادت ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سورة بقرہ کو اللہ کے فرشتے بھی بڑے ذوق اور شوق سے سنتے ہیں۔ سورۂ بقرہ، دین ابراہیمی اور کفار مکہ بقرہ کے دو معنی آتے ہیں (١) گائے (٢) بیل۔ جس طرح لفظ انسان سے عورت بھی مراد ہے اور مرد بھی اسی لیے مفسرین کرام میں سے کسی نے & بقرہ & کا ترجمہ گائے کا کیا ہے اور کسی نے بیل کا۔ اس سورت میں بقرہ (گائے۔ بیل ) کا ایک بہت اہم واقعہ بیان کیا گیا ہے جس کی مناسبت سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سورت کا نام ہی بقرہ رکھ دیا۔ بقرہ کا واقعہ یہ تھا کہ ایک قبیلے کے سردار کو کسی نے قتل کردیا تھا ۔ قاتل کا پتہ نہ چلنے کی وجہ سے بنی اسرائیل ایک دوسرے پر الزام لگانے لگے جس سے بنی اسرائیل میں خانہ جنگی کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ قوم کے کچھ ذمہ دار لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچے اور کہا کہ آپ تو کہتے ہیں کہ اللہ آپ سے کلام کرتا ہے اس سے پوچھ کر قاتل کا نام بتا دیجئے تا کہ آپ کی قوم آپس کی جنگ سے بچ جائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب اللہ کی بارگاہ میں دعا کی ۔ اللہ نے فرمایا کہ اگر وہ لوگ ایک بقرہ ذبح کردیں اور اس کے گوشت کا ٹکڑا مرنے والے کے جسم سے لگا دیں تو مرنے والا زندہ ہو کر قاتل کا نام خود بتا دے گا۔ مگر اس میں مشکل یہ تھی کہ یہ قوم گائے کو اپنا معبود سمجھ کر اس کی عبادت کرتی تھی۔ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بےت کے سوالات شروع کر دئیے تا کہ وہ تنگ آکر یہ کہہ دیں کہ گائے کے بجائے کوئی اور جانور ذبح کرلیں لیکن اللہ اور اس کے رسول کو عاجز اور بےسمجھنے والے خود ہی مشکلات میں پڑے گئے۔ آخر کار انہوں نے بقرہ کو ذبح کیا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ واقعہ بیان کیا ہے جس سے قوم بنی اسرائیل کی پوری ذہنیت اور ان کے سوچنے کا انداز سامنے آجاتا ہے۔ اس قوم کی بنیادی خرابی یہ تھی کہ شدید بےعملی اور کافرانہ انداز کے باوجود ان کو اس بات پر بڑا گھمنڈ تھا کہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور پیغمبروں کی اولاد ہیں ۔ اللہ کے محبوب اور پسندیدہ بندے ہیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کے علاوہ سب کافر ہیں صرف وہی دین دار لوگ ہیں ۔ وہ کچھ بھی کرتے رہیں جنت صرف ان کے لئے مخصوص ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بتا یا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جس دین کو لے کر آئے اور پوری زندگی اسی دین پر محنت کرتے رہے وہ دین کفر و شرک ، بدعتوں ، جہالتوں اور خرابیوں سے پاک تھا۔ اسی سچے دین کو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش فرما رہے ہیں۔ اب اس دین سے وابستگی ہی پوری دنیا کو کفر و شرک سے نجات دلا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ میں تین مرتبہ ” یبنی اسرائیل “ کہہ کر جس قوم کو للکارا ہے اسے سیکڑوں سال تک ہر طرح کی نعمتوں سے نواز کر دنیا میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمایا تھا۔ اس قوم میں سیکڑوں پیغمبروں کو بھیجا گیا۔ دنیا بھر میں عزت و عظمت، شہرت و ناموری، مال و دولت ، حکومت و سلطنت امامت و پیشوائی۔ اس وقت کی دنیا میں بسنے والی قوموں پر برتری اور طرح طرح کی نعمتوں سے مالا مال کیا تھا لیکن قوم بنی اسرائیل نے ان نعمتوں پر شکر ادا کرنے کے بجائے نا شکریوں کی انتہا کردی تھی۔ جو بھی اللہ کے پیغمبر تشریف لاتے ان کی اطاعت کرنے کے بجائے ان کو جھٹلانا، ستانا اور قتل کرنا ان کا مزاج بن چکا تھا۔ آخر کار اللہ کا فیصلہ آگیا۔ ان سے عظمتوں اور نعمتوں کو چھین کر ان پر ظالم حکمران مسلط کر دئیے۔ اور ان پر طرح طرح کے عذاب نازل کئے گئے۔ پھر وہ قوم اس طرح دنیا میں در بدر ہوگئی کہ جب بھی انہیں عروج اور ترقی نصیب ہوئی حالات نے اس طرح کروٹ لی کہ اچانک ان کی عزت و عظمت خاک میں مل گئی۔ اور پھر ان کو اپنا قومی وجود بچانا بھی مشکل ہوگیا۔ اور یہ سلسلہ قیامت تک اسی طرح چلتا رہے گا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) جو اللہ کے پیغمبر ہیں ان کا لقب اسرائیل تھا۔ ان کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا گیا ہے بعد میں جب بنی اسرائیل نے اپنے آپ کو ” یہودا “ کی طرف منسوب کر کے یہودی کہنا شروع کیا تو وہ اسی نام سے مشہور ہوگئے ۔ قرآن کریم میں پوری وضاحت سے بیان کردیا گیا ہے کہ کفار، مشرکین ، یہودیوں اور عیسائیوں نے اللہ کے دین کو بری طرح تبدیل کر کے اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ انہوں نے ہدایت کے بجائے گمراہی کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ اب اگر وہ سچی ہدایت اور آخرت کی کامیابی چاہتے ہیں تو انہیں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس دین پر چلنا ہوگا جسے وہ اللہ کی طرف سے پیش فرما رہے ہیں اور حضرت محمد مصطفےٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دامن اطاعت و محبت سے پورے خلوص کے ساتھ وابستگی اختیار کرنے پڑے گی۔ فرمایا کہ اگر اللہ اپنے آخری نبی اور آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کتاب ہدایت کو نہ بھیجتا تو ساری دنیا جہالت، کفر اور شرک کے اندھیروں میں بھٹکتی رہتی اور ان کو راہ ہدایت نصیب نہ ہوتی۔ اللہ کی طرف سے یہ ہدایت کا آخری موقع ہے۔ اگر اس موقع کا فائدہ نہ اٹھایا گیا تو پھر دنیا والوں کو اپنی زندگی کے اندھیروں کو دور کرنے کا موقع نصیب نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو بھی صاف صاف بیان کردیا ہے کہ دین اسلام کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ہے بلکہ وہ ایک نظریہ حیات ہے جو بھی اس پر عمل کرے گا وہ کامیاب ہوگا ۔ کوئی شخص اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو کہ وہ فلاں کی اولاد اور اس کا فلاں خاندان سے تعلق ہے۔ جو بھی ایمان اور عمل صالح کی جتنی دولت لے کر آئے گا اسی سے اس کو آخرت میں اعلیٰ ترین مقام عطا کیا جائے گا۔ خلاصہ سورة بقرہ سورة بقرہ جو تقریباً ڈھائی سیپاروں پر مشتمل ہے قرآن کریم کی سب سے بڑی اور اہم سورت ہے۔ چالیس رکوع، دو سو چھیاسی آیات اور زندگی گذارنے کے ایسے یقینی اصول بیان کئے گئے ہیں جن میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ کتاب ہدایت ہے جس سے فائدہ اٹھا کر وہی کامیاب ہو سکتے ہیں جو تقویٰ ، پرہیز گاری اور غیب کی ہر حقیقت پر ایمان لا کر نماز کو قائم کرتے ہیں۔ جو اللہ کے راستے میں اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے خرچ کرتے ہیں، قرآن کریم اور اس سے پہلے جن کتابوں کو نازل کیا گیا ہے ان پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت کی زندگی پر یقین کامل رکھتے ہیں ایسے لوگ نہ صرف کامیاب ہیں بلکہ ان کا رب خود ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ لیکن ایسے بےحس لوگ جن پر کسی اچھی بات اور نصیحت کا اثر نہیں ہوتا۔ جنہوں نے اپنی آنکھوں اور کانوں کو بند کرلیا ہے اور ہر حقیقت کو دیکھنے کے بجائے اپنی آنکھوں پر پردے ڈال رکھے ہیں اللہ ایسے لوگوں کی آنکھوں، کانوں اور دلوں پر بدنصیبی کی مہریں لگا کر ان کو جہنم کا ایندھن بنا دیتا ہے۔ کچھ لوگ اپنے ذاتی مفاد کے لئے مومنوں اور کافروں دونوں سے ملے رہتے ہیں جو زبان سے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لے آئے ہیں اور ہمیں آخرت کی زندگی پر بھی یقین ہے لیکن ان کے دل مومن نہیں ہوتے۔ وہ اپنے طرز عمل سے اللہ کو اور ایمان والوں کو فریب دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ خود ایک بہت بڑے دھوکے میں مبتلا ہیں ان کا انجام دہری زندگی گزارنے کی وجہ سے دردناک عذاب ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اصلاح کے نام پر فساد کرتے ہیں جو ایمان اور سچائی کے راستے پر چلنے والوں کو حقیر اور بیوقوف سمجھتے ہیں۔ جن کی گھریلو اور باہر کی زندگی بالکل مختلف ہوتی ہے وہ ایسے مال کے سوداگر ہیں جس میں کسی طرح کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ زندگی بھر اندھیروں میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ وہ بدترین انجام کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو پیدا کر کے جسم اور روح کی غذائیں پید ا کی ہیں۔ پوری کائنات کا ذرہ ذرہ اور اس کی ہر چیز کو انسانی جسم کی ضرورت کے لئے بنایا ہے اور اپنے پیغمبروں کے ذریعہ اپنا کلام بھیج کر انسانی روح کی غذا بنایا ہے۔ اللہ نے آخر میں اس کلام قرآن مجید کو اپنے آخری نبی اور آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا جس میں کسی شک اور شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ نے قیامت تک آنے والوں کو چیلنج کیا ہے کہ اگر کسی کو اس کے کلام الٰہی ہونے میں شک اور شبہ ہے تو وہ قرآن کریم کی جیسی ایک سورت ہی بنا کرلے آئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ساری دنیا کے لئے ایک ایسا کھلا چیلنج ہے جس کا جواب نہ تو گذشتہ ڈیڑھ ہزار سال میں دیا گیا ہے اور نہ دیا جاسکے گا۔ کیوں کہ قرآن مجید ایک ایسا معجزہ ہے جس میں ہر بڑی سے بڑی حقیقت کو معمولی اور چھوٹی سے چھوٹی مثالوں سے اس طرح سمجھایا گیا ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں ذرہ برابر ایمان کی روشنی ہوگی وہ راہ ہدایت حاصل کرتے چلے جائیں گے۔ انسان جسے اللہ نے بیشمار صلاحیتوں سے نوازا ہے اسے اپنا نائب اور خلیفہ بنایا ہے جس کا کام عدل و انصاف اور علم کی سچائیوں کو پھیلانا ہے۔ یہی وہ علمی صلاحیت تھی جس نے اسے عظمت کی بلندیاں عطا کیں اور فرشتوں کو بھی اس کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا۔ جب شیطان نے اس انسانی عظمت کا انکار کیا تو قیامت تک کے لئے اس کو بارگاہ الٰہی سے نکال دیا گیا۔ اس طرح اللہ نے یہ بتا دیا کہ اس کائنات میں سب سے افضل اور اعلیٰ مخلوق انسان ہی ہے۔ اس سے زیادہ انسان کی عظمت اور کیا ہوگی کہ اللہ نے اپنے تمام پیغمبروں کو انسانوں ہی میں سے بنایا ہے۔ وہ بشر ہوتے ہیں مگر ایسے بشر جن کی عظمت سے ساری کائنات کو عزت و عظمت نصیب ہوتی ہے۔ سورة بقرہ کی آیت نمبر ٤٧ سے آیت نمبر ١٢٣ تک مسلسل دس رکوعوں میں بنی اسرائیل کے واقعات زندگی کو بیان کر کے فرمایا ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو ہر طرح کی نعمتوں اور عظمتوں سے نوازا تھا مگر انہوں نے ہر نعمت پر نا شکری کرنا اللہ سے کئے ہوئے ہر عہد اور معاہدہ کو توڑنا اور بد عملی کی وہ انتہا کردی تھی جس کی وجہ سے بنی اسرائیل کو ہر عزت و عظمت کے مقام سے معزول کرنا پڑا اور ان کی بدکرداریوں کی وجہ سے ان پر قیامت تک کے لئے عذاب مسلط کردیا گیا جس سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بنی اسرائیل کی زندگی کے تاریخی واقعات اور عروج زوال کا ذکر کرنے کے بعد “ امت وسط ” اور “ خیر امت ” کا ذکر فرمایا ہے۔ وہ امت جس کے لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اتنی زبردست قربانیاں دیں کہ اللہ نے انہیں ساری دنیا کی قوموں کی امامت و پیشوائیت کا مقام عطا فرمایا۔ اسی مقصد کو لے کر سارے پیغمبر تشریف لاتے رہے اور اس مقصد اور دین کے اصولوں کی تکمیل خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کی گئی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نہ صرف دین اسلام کی تکمیل فرمائی گئی بلکہ نعمت نبوت کو بھی مکمل کردیا گیا اور اللہ نے اس امت کو وہ پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عطا فرمائے ہیں جو اللہ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ جن کے بعد کوئی کسی طرح کا نبی اور رسول نہیں آسکتا کیونکہ اللہ نے دین بھی مکمل کردیا۔ نبوت بھی مکمل کردی بلکہ کائنات کا مقصد بھی مکمل کردیا۔ اب قیامت ہی آئے گی اور پھر اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کو “ بہترین اور معتدل امت ” بنا کر انہیں ہر طرح کی عظمتوں سے نواز دیا ہے۔ قبلہ کو بیت المقدس سے تبدیل کر کے مسجد الحرام اور بیت اللہ کا رخ دے کر در حقیقت بنی اسرائیل کو ان کی ہر عظمت سے باقاعدہ معزول کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے اور اس خیر امت کو اللہ کے دین کی عظمت کے لئے ذمہ دار بنایا گیا ہے۔ اب یہ آخری نبی کی آخری امت ہے۔ ساری انسانیت کی بھلائی، عزت، سربلندی صرف خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لائے ہوئے دین اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقوں پر چلنے میں مل سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو قرآن کریم جیسی عظیم کتاب اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث اور پر نور سنتوں سے آراستہ کر کے قیامت تک آنے والی نسلوں کی ہدایت اور رہنمائی کا فریضہ سونپ دیا ہے۔ اب صرف ہر طرح کی کامیابیوں اور کامرانیوں کی سعادت ان ہی لوگوں کے حصے آئے گی جو حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دامن اطاعت و محبت سے وابستہ ہوں گے لیکن جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث اور سنتوں کو چھوڑ کر دوسرے طریقوں پر چلنے کی کوشش کریں گے۔ وہ دنیا اور آخرت میں سخت ناکام اور بد نصیب لوگوں میں شامل ہوں گے۔ بنی اسرائیل اور خیر امت کا ذکر کرنے کے بعد آیت نمبر ١٥٣ سے سورت کے آخر تک ایسے چالیس اصول زندگی ارشاد فرمائے گئے ہیں جن پر عمل کرنے سے ہر مومن کی دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں گی۔ شاید ان اصولوں میں اس طرف بھی اشارہ کردیا گیا ہے کہ اے امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر تم یہ چاہتے ہو کہ بنی اسرائیل کی طرح نافرمانیوں اور نا شکریوں میں مبتلا نہ ہو تو سورة بقرہ اور اس کے بعد پورے قرآن کریم میں بیان کئے ہوئے اصولوں پر چلو تو تم کبھی راستہ نہ بھٹکو گے صراط مستقیم ہی تمہارا مقدر ہوگا۔ اب آپ ان چالیس اصولوں کی تفصیل ملاحظہ کیجئے جنہیں سورة بقرہ میں بیان فرمایا گیا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کریم کے ابدی اصولوں اور خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل اطاعت اور محبت کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پر نور سنتوں پر چلنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین Show more
نام : بصیرت قرآن
مترجم و مفسر : مولانا محمد آصف قاسمی
ناشر : مکتبہ بصیرت قرآن کراچی
مختصر تعارف :
زیر نظر تفسیر مولانا محمد آصف قاسمی مدظلہ کی تصنیف ہے، مولانا محمد آصف قاسمی، حضرت مولانا قاسم نانوتوی (رح) کے پڑپوتے ہیں اور کینیڈا میں مقیم ہیں۔ اور یہ تفسیری مجموعہ در اصل ان کے دروس قرآن ہیں۔ جنہیں بعد ازیں کیسٹوں سے سن کر تحریری شکل دی گئی۔ تفسیر کی خصوصیات خود مصنف کے اپنے الفاظ میں درج ذیل ہیں :
تفسیر بصیرت قرآن کی چند خصوصیات
1 ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس ترجمہ و تفسیر کے لکھنے میں میرا بنیادی جذبہ صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہوجائیں اور اس کے صدقے میں میری مغفرت فرما دیں۔ اس سلسلہ میں میری حیثیت اس بڑھیا جیسی ہے جو مصر کے بازار میں سوت کا ایک گولہ لے کر اس جذبہ کے ساتھ آ گئی تھی کہ اس کا نام بھی یوسف کے خریداروں میں آجائے۔ کیا خبر کہ میری یہ ادنی سی کاوش و کوشش کل قیامت کے دن جب صحابہ کرام، علماء عظام اور بزرگان دین اپنا اپنا انعام حاصل کرے رہے ہوں تو ان کے صدقے میں مجھے بھی مغفرت و نجات کا پروانہ مل جائے۔
2 ۔ اس پوری تفسیر میں لفظ " خدا " نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ خدا کہنے میں اللہ کی طرف سے کسی اجر و ثواب کا وعدہ نہیں ہے جب کہ لفظ اللہ قرآن کریم کا لفظ ہے اور حدیث سے ثابت ہے کہ قرآن کریم کے ایک ایک حرف پر دس نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے میں نے پوری تفسیر میں لفظ خدا لکھنے سے گریز کیا ہے۔
3 ۔ تفسیر میں اس بات کی پوری کوشش کی گئی ہے کہ آسان زبان میں بات کو سمجھایا جائے کیونکہ عام مسلمانوں کو شکوہ یہ ہے کہ تفسیروں میں اتنے مشکل الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جن کے سمجھنے میں بڑی دشواری ور مشکل پیش آتی ہے لہذا میں نے زیادہ سے زیادہ سادہ الفاظ استعمال کرنے کی کوشش کی ہے اپنی اس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوا ہوں اس کا صحیح فیصلہ تو قارئین ہی کرسکتے ہیں۔
4 ۔ اس بات کی ممکن حد تک کوشش کی گئی ہے کہ فقہ حنفیہ کے مطابق بیان کیا جائے کیونکہ جب ہم مختلف فقہا کا مسلک بیان کرتے ہیں تو آسان پسند لوگ ہر فقہ سے اپنے مطلب کے مسائل نکال کر خود ہی فیصلے کرنے لگتے ہیں۔ چونکہ اس کی وجہ سے کافی الجھنیں پیدا ہو رہی ہیں اس لیے میں نے عام طور پر اسی قول کو نقل کیا ہے جو فقہ حنفی کے مطابق ہے۔
5 ۔ تفسیر کرنے میں میری کوشش یہ رہی ہے کہ جو آیت سامنے ہے اس کے مفہوم کو واضح کرکے بتادیا جائے تا کہ بات مختصر بھی ہو اور سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔
6 ۔ ترجمہ کے ساتھ الفاظ قرآن کا الگ الگ ترجمہ بھی کردیا ہے تاکہ جو شخص قرآن کے ترجمہ و تفسیر کے ساتھ خود بھی ترجمہ سیکھنا چاہتا ہو وہ لغات القرآن اور تفسیر کے مطالعہ سے قرآن کریم کو با ترجمہ سیکھ سکے۔
7 ۔ پوری تفسیر میں میں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ اپنی رائے سے کوئی بات نہ لکھوں جہاں کوئی اختلافی مسئلہ ہوتا ہے اس میں مختلف مفسرین کی رائے پیش کردیتا ہوں کیونکہ ہمارے اکابر نے پوری زندگیاں لگا کر حق و صداقت کی باتوں پر تحقیق فرمائی ہے اور اس کو امت کے سامنے پیش کیا ہے۔ میں نے بھی ان ہی بزرگوں کے فیض سے روشنی حاصل کرکے ایک ادنی سی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے ۔ آمین۔
ترجمہ و تفسیر بیان القرآن
سوفٹ وئیر میں شامل نسخہ تاج کمپنی کا ہی ہے۔
یہ ترجمہ وتفسیر مشہور دیوبندی عالم مولانا اشرف علی تھانوی المتوفی ١٩٤٣ء کا ہے جس کا پہلا ایڈیشن ١٩٠٨ء میں مطبع مجتبائی دہلی سے بارہ جلدوں میں طبع ہوا تب سے برابر چھپتا رہتا ہے۔ بعض ایڈیشن میں صرف ترجمہ ہی چھپتا ہے۔ قرآن شریف کے جو تراجم سب سے زیادہ چھپتے ہیں ان میں اس کا بہت اونچا مقام ہے۔ ترجمہ سلیس، سہل اور آسان ہے۔ تفسیر میں جن نواحی کو شامل کیا ہے اس سے عوام کم علماء زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بعد ازاں انڈ و پاک میں لا تعداد مکاتب نے شائع کیا۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کا نام کم سے کم برصغیر میں کسی صاحب علم کے لیے محتاجِ تعارف نہیں، آپ بلند پایہ فقہیہ، حدیث کے ذوق آشنا اور تصوف میں اپنے عہد کے گویا امام تھے، ایک خلقت کی اللہ نے آپ کے ذریعہ اصلاح فرمائی اور بڑے بڑے اہل علم وفضل آپ کے دامن تربیت سے وابستہ ہوئے، یہ تفسیر آپ ہی کی ہے اور آپ کی عمیق فکرونظر اور گہری بصیرت کی شاہد عدل ہے، آپ نے احباب کے بہت اصرار پر یہ تفسیر لکھی، جو تقریباً چھ سال کی مدت میں مکمل ہوئی اور پہلی بار ١٣٢٦ ھ میں " اشرف المطابع " تھا نہ بھون سے طبع ہوئی، اس تفسیر کی خصوصیات یہ ہیں : قرآن مجید کا نسبۃ آسان اور سلیس ترجمہ کیا ہے جو بامحاورہ ہونے کے باوجود الفاظِ قرآنی سے بھی پوری طرح ہم آہنگ ہے، دوسرے یہ کہ ترجمہ میں خالص محاورات استعمال نہیں کئے گئے ہیں؛ کیونکہ محاورات ہر جگہ ومقام کے الگ الگ ہوتے ہیں، ترجمہ شاہ رفیع الدین صاحب (رح) کے ترجمہ کے قریب ہے، تیسرے یہ کہ نفس ترجمہ کے علاوہ جس مضمون پر توضیح کی ضرورت تھی یا کوئی شبہ خود قرآن کے مضمون سے بظاہر پیدا ہوتا ہے اس جگہ " ف " بناکر اس کی تحقیق و وضاحت کردی گئی ہے، لطائف ونکات یاطویل وعریض حکایات وفضائل اور فقہی احکام کی تفصیلات سے تفسیر کو طویل نہیں کیا گیا ہے، چوتھے جس آیت کی تفسیر میں بہت سے اقوال مفسرین کے ہیں، ان میں جس کو ترجیح معلوم ہوئی صرف اس کو نقل کیا گیا ہے، پانچویں خلافیات کی تفسیر میں صرف مذہب حنفی کو لیا گیا ہے اور دوسرے مذاہب بشرط ضرورت حاشیہ میں لکھ دیئے گئے ہیں، چھٹے نفعِ عوام کے ساتھ افادہ خواص کا خیال کرتے ہوئے ایک حاشیہ عربی میں بڑھادیا گیا ہے، جس میں غیر مشہور لغات، وجوہ بلاغت، مغلق تراکیب، خفی استنباط، فقہیات وکلامیات اور اسباب نزول وغیرہ پر گفتگو کی گئی ہے، یہ نہایت ہی عالمانہ تفسیر ہے اور دینی مدارس کے اساتذہ وطلبہ کے لیے بہت ہی نفع بخش ہے؛ بلکہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اردو کی " جلالین " ہے۔
مصنف کا تعارف :
نام نامی ولقب گرامی
نام نامی ” اشرف علی “ ہے، یہ نام اس زمانہ کے مقبول و مشہور مجذوب و بزرگ حضرت حافظ غلام مرتضیٰ صاحب پانی پتی رحمة اللہ علیہ نے تجویز فرمایا تھا۔ أپ کالقب ” حکیم الامت “ ہے، جسے عرصہ دراز سے حق تعالیٰ نے خواص و عوام میں القا فرمادیا ہے اور جو بلاد و اَمصار میں عام طور پر شائع و ذائع ہے۔
شرف نسب
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ والد کی طرف سے فاروقی اور والدہ کی طرف سے علوی النسب ہونے کا شرف رکھتے ہیں۔ والد ماجد کا نام ” عبدالحق “ تھا، آپ قصبہ تھا نہ بھون ضلع مظفر نگر کے ایک مقتدر رئیس ، صاحب نقد و جائیدا د تھے۔ حضرت رحمة اللہ علیہ کی والدہ صاحبہ محترمہ بھی ایک باخدا اور صاحب نسبت بی بی تھیں، نیز ان کی عقل و فراست اور فہم و بصیرت کی تصدیق حضرت حافظ غلام مرتضیٰ صاحب مجذوب رحمة اللہ علیہ نے بھی فرمائی۔
وطن مالوف
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ کا وطن مالوف قصبہ تھا نہ بھون ہے، جو ضلع مظفر نگر ہندوستان میں واقع ہے، اس کا اصل نام ” تھا نہ بھیم “ تھا، کیوں کہ یہ کسی زمانہ میں راجا بھیم کا تھا نہ تھا، کثرت استعمال سے تھا نہ بھون ہوگیا، البتہ جب مسلمان یہاں آکر آباد ہوئے تو شرفائے قصبہ کے بعض اجداد نے اپنے ایک فرزند ” فتح محمد “ کے نام سے اس کا نام ” محمد پور “ رکھا، جو کاغذات شاہی میں بھی پایا جاتا ہے، لیکن عام طور پر پرانا نام ” تھا نہ بھون “ ہی مشہور ہے۔
ولادت باسعادت
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ کی ولادت باسعادت 15 ربیع الثانی 1280 ھجری کو چار شنبہ کے دن بوقت صبح صادق ہوئی۔
بچپن کے حالات
حضرت رحمة اللہ علیہ بچپن ہی سے اعزہ و اقارب ، اپنوں اور بیگانوں سب میں محبوب رہے، بچپن میں شوخیاں بہت فرمائیں، مگر ایسی کوئی شرارت نہیں کی جس سے دوسروں کو تکلیف وایذا پہنچے ، شروع ہی سے نماز کا بہت شوق تھا، فرائض کے اہتمام کے علاوہ صرف 13-12 برس ہی کی عمر سے رات تہجد میں اٹھتے اور نوافل و وظائف پڑھا کرتے تھے۔
تحصیل علوم
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ نے قرآن شریف زیادہ تر دہلی کے حافظ حسین علی رحمة اللہ علیہ سے حفظ کیا، البتہ شروع کے چند پارے ضلع میرٹھ کے آخون جی صاحب رحمة اللہ علیہ سے پڑھے تھے۔
ابتدائی فارسی میرٹھ میں مختلف استادوں سے پڑھی، پھر تھا نہ بھون میں فارسی کی متوسطات حضرت مولانافتح محمد صاحب رحمة اللہ علیہ سے پڑھیں اور انتہائی کتب اپنے ماموں واحد علی صاحب رحمة اللہ علیہ سے پڑھیں، جو ادب فارسی کے استاد کامل تھے۔ تحصیل عربی کے لیے دیوبند تشریف لیے گئے، وہاں بقیہ کتب فارسی مولانا منفعت علی صاحب دیوبندی رحمة اللہ علیہ سے پڑھیں۔ عربی کی پوری تکمیل دیوبند ہی میں فرمائی اور صرف 19 یا 20 سال کی عمر میں بفضلہ تعالیٰ فارغ التحصیل ہوگئے ۔
اساتذہ کرام
آپ کے تمام اساتذہ ہر فن ماہر ہونے کے ساتھ بڑے صاحب باطن اور کامل بھی تھے ، گویا ان میں ہر ایک غزالی اور رازی وقت تھا۔ اساتذہ کرام میں حضرت مولانا یعقوب صاحب، مولانا سید احمد صاحب، مولانا محمود صاحب، مولانا عبدالعلی صاحب اور حضرت شیخ الہند محمود حسن صاحب رحمھم اللہ شامل ہیں۔ قراءت کی مشق شہرہ آفاق قاری ، جناب قاری محمد عبداللہ صاحب مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ سے بمقام مکہ معظمہ فرمائی۔
درس و تدریس
مروجہ علوم سے فراغت کے بعد حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ صفر 1301 ھ سے 1315 ھ تقریبا 14 سال تک کان پور میں مدرسہ فیض عام میں درس و تدریس میں مشغول رہے اور اپنے مواعظ حسنہ اور تصانیف مفیدہ سے وہاں کے مسلمانوں کو مستفید فرماتے رہے، علاوہ بریں افتاء کا کام بھی اپنے ذمہ لے رکھا تھا، 14 سال کے بعد اپنے پیرو مرشد کے حکم سے دوبارہ اپنے وطن تھا نہ بھون میں قیام پذیر ہوگئے۔
تلامذہ
قیام کان پور کے زمانہ میں نزدیک و دور کے صدہا طلبہ نے حضرت رحمة اللہ علیہ سے علوم فاضلہ حاصل کیے ، سب کا استقصا تو ممکن نہیں ، البتہ چند مخصوص حضرات قابل ذکر یہ ہیں : مولانا قاری محمد اسحاق صاحب برودانی، مولانا محمد رشید صاحب کان پوری ، مولانا احمد علی صاحب فتح پوری، مولانا صادق الیقین صاحب کرسوی، مولانا فضل حق صاحب الہ آبادی ، مولانا شاہ لطف رسول صاحب فتح پوری، مولانا حکیم محمد مصطفیٰ صاحب بجنوری، مولانا اسحاق علی صاحب کان پوری ، مولانامظہر الحق چاٹ گامی، مولانا سعید احمد اٹاوی ، حضرت مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی ، مولانا سعید صاحب، مولانا مظہر علی صاحب تھانوی وغیرہ رحمھم اللہ کے علاوہ پاک ہند کے بیشمار حضرات نے حضرت رحمة اللہ علیہ سے فیض پایا ہے۔
حضرت حاجی صاحب سے بیعت اور خلافت و اجازت
1301 ھ میں حضرت حج کے لیے تشریف لیے گئے تو آپ کو حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ سے بیعت ہونے کا شرف حاصل ہوا، 1310 ھجری میں دوسری بار حج کے لیے تشریف لے گئے اور اپنی طلب صادق اور حضرت شیخ کی منشا اور ان کی خواہش کے مطابق وہاں چھ ماہ قیام فرمایا۔ حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ نہایت شفقت و محبت کے ساتھ اپنے مرید صادق کی تربیت باطنی کی طرف متوجہ ہوگئے اور وہ تمام علوم باطنی اور اسرار و رموز روحانی جو اللہ تعالیٰ نے ان کے قلب پاک پر وارد و القا فرمائے تھے حضرت کے قلب مصفیٰ میں منتقل فرماتے رہے ؛نتیجہ یہ ہوا کہ قلیل عرصہ میں حضرت شیخ کی توجہات خاص سے حضرت کا سینہ مبارک معارف و حقائق باطنی کا خزینہ اور انوار وتجلیات روحانی کا آئینہ بن گیا اور محبت حق سبحانہ وتعالیٰ اور محبت نبی الرحمہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوزو گداز رگ و پے میں سرایت کرگئے۔
بالآخر ہر صورت سے مطمئن ہو کر حضرت حاجی صاحب نے خلعت خلافت اور منصب ارشاد و ہدایت سے سرفراز فرمایا اور خلق اللہ کی راہ نمائی کے لیے تعلیم و تلقین کی اجازت مرحمت فرمائی اور فرمایا : ” میاں اشرف علی ! میں دیکھتا ہوں کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے تم کو تمام معاصرین پر خاص فضیلت عطا فرمائی ہی “ ،” ذلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشآء “․
تھانہ بھون میں مستقل قیام
1310 ھجری میں کان پور سے سبک دوشی اختیار کرکے اپنے وطن تھا نہ بھون تشریف لائے اور اپنے شیخ کو اطلاع دی ، تو انہوں نے جواب میں فرمایا : ” بہتر ہوا آپ تھا نہ بھون تشریف لیے گئے ، امید ہے کہ آپ سے خلق کثیر کو فائدہ ظاہری و باطنی ہوگا اور آپ ہمارے مدرسہ اور خانقاہ کو ازسر نو آباد کریں گے، میں ہر وقت آپ کے حق میں دعا کرتا ہوں اور آپ کا مجھے خیال رہتا ہے “۔
چناں چہ حضرت رحمة اللہ علیہ نے حضرت حافظ محمد ضامن صاحب شہید، حضرت مولانا شیخ محمد صاحب اور حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمھم اللہ کی خانقاہ میں مستقل سکونت اختیار کی اور خلق خدا کو مستفید فرمانے لگے۔
حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ کے چند مشہور خلفاء
(1) حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی رحمة اللہ علیہ (2) حضرت ڈاکٹر عبدالحئ صاحب عارفی رحمة اللہ علیہ (3) حضرت مولانا فقیر محمد صاحب رحمة اللہ علیہ (4) حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب رحمة اللہ علیہ (5) مولانا ولی محمد صاحب بٹالوی رحمة اللہ علیہ (6) مولانا ابرارالحق صاحب حقی رحمة اللہ علیہ (7) حضرت مولانا رسول خان صاحب رحمة اللہ علیہ (8) حضرت مولانا کفایت اللہ شاہ جہان پوری رحمة اللہ علیہ (9) حضرت مولاناشیر محمد صاحب مہاجر مدنی رحمة اللہ علیہ (10) حضرت مولانا شاہ وصی اللہ رحمة اللہ علیہ (11) حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ (12) حضرت مولانا علامہ سید سلیمان ندوی رحمة اللہ علیہ (13) حضرت مولانا عبدالغنی پھول پوری رحمة اللہ علیہ (14) حضرت مولانا محمد انوار الحسن صاحب کا کو روی رحمة اللہ علیہ (15) حضرت مولانا محمد موسیٰ سرحدی رحمة اللہ علیہ (16) حضرت مولانا سید مرتضیٰ حسن صاحب چاندپوری رحمة اللہ علیہ (17) حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب کیمبل پوری رحمة اللہ علیہ (18) حضرت مولانا عبدالرحمن کان پوری رحمة اللہ علیہ (19) حضرت مولانا عبدالکریم گھمتھلوی رحمة اللہ علیہ (20) حضرت مولانا عبدالباری ندوی رحمة اللہ علیہ (21 ) حضرت خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب رحمة اللہ علیہ۔
علوم دینیہ میں خدمات اور تصانیف
علوم دینیہ سے متعلق قرآن مجید کی تفاسیر میں احادیث سے استنباط میں، فقہ کی توجیہات میں، تصوف کی غایات میں ، جہاں عوام و خواص غلط فہمیوں اور غلط کاریوں میں مبتلا ہوگئے تھے، وہاں اس مجدّد عصر کی نظر اصلاح کار فرما نظر آتی ہے اور ان علوم کے ہر باب میں مفصل تصانیف موجود ہیں۔
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ کی تصانیف کی تعداد تقریباً ایک ہزار سے متجاوز ہے، حضرت رحمة اللہ علیہ کی تمام تصانیف و تالیفات ، تمام مواعظ و ملفوظات ، تحریری و تقریری کارناموں کو ملاحظہ کیا جائے تو یہ بات نمایاں طور سے آشکار ا ہوتی ہے کہ دین مبین کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو حکیم الامت ، مصلح شریعت و طریقت کی اصلاحی و تجدید ی جدوجہد کے احاطہ میں نہ آیا ہو۔
وفات وتدفین
آخر عمر میں کئی ماہ علیل رہ کر 16 رجب المرجب 1362 بمطابق 20 جو لاائی 1943 ء کی شب آپ رحلت فرماگئے اور تھا نہ بھون میں آپ ہی کی وقف کردہ زمین ” قبرستان عشق بازاں “ میں آپ کی تدفین ہوئی۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون !
سورة البقرۃ کا تعارف ” سورة البقرۃ “ کے چالیس رکوع اور دو سو چھیاسی آیات، چھ ہزار اکتیس الفاظ اور بیس ہزار حروف بنتے ہیں۔ اس سورة مبارکہ کی چند آیات کے سوا باقی تمام آیات مدینہ طیبہ میں نازل ہوئیں۔ اس میں بنی اسرائیل کے ایک مقتول کو دوسرے مقتول یعنی ذبیحہ گائے کے ذریعہ زندہ کیا گیا۔ جس سے بنی اسرا... ئیل کے اندھے قتل کا فیصلہ سنایا گیا ہے اس لیے اس سورة کا نام ” البقرۃ “ قرار پایا۔ اس میں شرک کی نفی اور موت کے بعد جی اٹھنے کے عملی ثبوت پیش کیے گئے ہیں۔ اس سورة مبارکہ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے بارے میں دو ٹوک الفاظ میں بتایا ہے کہ اس کے من جانب اللہ ہونے، رشد و ہدایت اور اس کی رہنمائی میں کسی قسم کے شبہ کی گنجائش اور نقصان کا اندیشہ نہیں لیکن اس سے وہی لوگ مستفید ہو پائیں گے جو اپنے رب کی رہنمائی کی چاہت، پیروی اور اس کی ممنوع کردہ چیزوں کو مسترد کریں گے۔ اس کے بعد ایمان اور اسلام کے بنیادی ارکان اور ان پر عمل کرنے والوں کو دنیا و آخرت کی کامیابی کا مژدہ سنایا گیا ہے۔ قرآن مجید کا انکار کرنے والوں کو ان کے انجام سے ڈرایا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا ہے کہ خدا کے منکروں کو جس طرح چاہیں سمجھائیں یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ بعد ازاں متذبذب اور دو غلے کردار کے حامل اور مفاد پرست لوگوں کی نشان دہی اور ان کے انجام کے بارے میں واضح فرمایا ہے کہ یہ خطرناک ‘ کذاب اور مسلمانوں کی آستینوں کے سانپ ہیں۔ ان سے بچ کر رہنا اور یہ دھوکہ باز اور ابن الوقت اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکیں گے۔ اس کے بعد قرآن مجید اور انبیاء کی دعوت یعنی اللہ کی توحید اور اس کے ایسے آفاقی اور ٹھوس دلائل دیئے ہیں۔ جن سے شہری ‘ دیہاتی ‘ ان پڑھ ‘ تعلیم یافتہ غرض کہ ہر انسان کو واسطہ پڑتا ہے اور وہ ان سے استفادہ کرتا ہے اور ہر کوئی جانتا ہے کہ زمین و آسمان اور دنیا ومافیہا کی چیزوں کو بنانے اور سجانے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ ان دلائل کے بعد ہر انسان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسے صرف ایک رب کی عبادت کرنا چاہیے پھر قرآن مجید کے بارے میں چیلنج دیا ہے کہ اگر تمہیں اس کے من جانب اللہ ہونے میں شک ہے تو اللہ تعالیٰ کے سوا سب مل کر کوئی ایک سورة بنا لاؤ۔ چوتھے رکوع میں آدم (علیہ السلام) کا مقام و مرتبہ بیان کے بعد شیطان کی شرارتوں اور سازشوں اور حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ اس کی عداوت اور کش مکش کا ذکر کرتے ہوئے آدم (علیہ السلام) کے پھسلنے اور ان کو زمین پر بھیجنے کا مقصد واضح فرمایا ہے کہ اگر شیطان کی شیطنت اور دنیا وآخرت کے خوف وخطر سے بچنا اور اپنا کھویا ہوا مقام جنت حاصل کرنا چاہتے ہو تو صرف اور صرف اللہ کی ہدایات کی پیروی کرتے رہنا۔ جس سے تمہیں دنیا میں امن نصیب ہوگا اور آخرت کے خوف و غم سے مامون ہوجاؤ گے۔ پھر دنیا کی اقوام میں ایک معزز اور منفرد قوم کے عروج وزوال کے اسباب کا نہایت ہی تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہوئے اس پر ناصحانہ انداز میں تبصرہ کیا گیا ہے۔ بنی اسرائیل کے سیاسی، جہادی اور مذہبی پیشواؤں کے کردار پر روشنی ڈالی گئی کہ وہ اس قدر دین کی حقیقت اور اخلاق کی دولت سے تہی دامن ہوئے کہ انہوں نے دین و اخلاق کو دنیا کے حصول کا ذریعہ بنا لیا۔ پھر بنی اسرائیل کی مذہبی، اخلاقی اور سیاسی پستیوں کی نشاندہی فرمائی کہ جس وقت بنی اسرائیل پستیوں کا شکار ہوئے اور جب کبھی انہیں اپنی عزت رفتہ کا احساس ہو اتو انہوں نے اپنے کردار کو سنوارنے اور جدو جہد کا راستہ اپنا نے کے بجائے جادو ٹونے کے ذریعے عزت و عظمت کو پانے کی کوشش کی اور پھر اس سارے دھندے کو اللہ کے عظیم پیغمبرحضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ذمہ لگایا۔ حالانکہ جادو کفر ہے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) ہرگز کفر نہیں کرتے تھے۔ کبھی اپنے بوسیدہ اور پراگندہ خیالات کی تائید کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا سہارا لینے کی کوشش کی اور مقدس شخصیات کو اپنے ہم عقیدہ ثابت کرنے کی مذموم کوششیں کیں یہاں تک کہ ان زمینی حقائق کا بھی انکار کیا جو دنیا کے سینے پر بیت اللہ، صفا ومروہ اور زمزم کی شکل میں خاندان ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمات کا منہ بولتا ثبوت اور ان کی قبلہ گاہ ہے۔ بنی اسرائیل کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو سمجھایا گیا کہ اگر دنیا وآخرت کی بلندیوں کے طلب گار ہو تو پھر ابتلاء اور آزمائشوں کے لیے اپنے آپ کو تیار کرو کیونکہ آزمائش ایمان کی بلندی اور دنیا کی ترقی کا پیش خیمہ ہے جو لوگ حق و باطل کی رزم گاہ میں شہید ہوں انہیں مردہ مت کہو کیونکہ انہوں نے عظیم مقصد کے لیے قربانی دی ہے لہٰذا وہ زندہ ہیں لیکن ان کی زندگی کے بارے میں رائے زنی کرنے کی اجازت نہیں ہے اور تمہارے لیے بنی اسرائیل کے جرائم سے بچنا لازم ہے۔ اس کے بعد اس سورة مبارکہ میں انسانی زندگی کے مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جس میں معاشی، سماجی، جہادی، معاشرتی، اخلاقی، خاندانی اور انفرادی مسائل کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر شعبے کے لیے اصولوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ معاشی مسائل کے حل اور ان میں ناہمواری ختم کرنے کے لیے صدقہ و خیرات کی ترغیب مؤثر اور مدلل انداز میں دیتے ہوئے فرمایا کہ غریبوں ‘ مسکینوں اور اعزاء و اقربا کی مالی خدمت کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے مترادف ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ سات سو گنا سے بھی زیادہ کر کے قیامت کے دن واپس لوٹائے گا۔ جس دن نیکی کے علاوہ کوئی چیز کار آمد نہ ہوگی۔ صدقہ کی تحریک دینے کے بعد سود کو نہ صرف حرام قرار دیا بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جنگ قرار دیا ہے۔ جس سے ثابت ہوا کہ اسلام سے بڑھ کر کوئی دین غریبوں اور مستحقین کا ہمدرد اور خیر خواہ نہیں ہوسکتا۔ سود کے خاتمہ کے ساتھ صدقات اور تجارت کو فروغ دینے کی ترغیب دیتے ہوئے لین دین کے معاملات کو احاطۂ تحریر میں لانے کا حکم دیا۔ اس سورة کی ابتدا اسلام کے ارکان اور ایمان کے مدارج سے ہوئی اس کا اختتام بھی دین و ایمان کے بنیادی اصولوں پر کیا گیا ہے۔ آخر میں مومنوں کو ایک دعا سکھلائی گئی ہے کہ اپنے رب کے حضور یہ درخواست کرتے رہو کہ اے مولائے کریم ! ہمارے عمل میں دانستہ و غیر دانستہ طور پر جو کوتاہی سرزد ہو تو اسے معاف اور صرف نظر فرماتے ہوئے کفار پر ہمیں غلبہ عطا فرما۔ یہی مسلمان کی زندگی کا مقصد ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سرخرو ہوجائے اور دنیا میں اسلام کا پرچم سر بلند رکھتے ہوئے کامیاب انسان کے طور پر زندگی بسر کرئے۔ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یاربّ العالمین۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لاَ تَجْعَلُوا بُیُوتَکُمْ مَقَابِرَ إِنَّ الشَّیْطَانَ یَنْفِرُ مِنَ الْبَیْتِ الَّذِی تُقْرَأُ فیہِ سُورَۃُ الْبَقَرَۃِ ) (رواہ مسلم : باب استحباب صلوۃ النافلۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ۔ بیشک اس گھر سے شیطان بھاگ جاتا ہے جس میں سورة بقرۃ کی تلاوت کی جاتی ہے۔ “ Show more
فہم القرآن
ہمارے سوفٹ وئیر میں ایک تفسیر " فہم القرآن " بھی شامل ہے جو ابوہریرہ اکیڈمی 37 ۔ کمرشل کریم بلاک اقبال ٹاؤن لاہور والوں کی شائع کردہ ہے اور اس کے مصنف میاں محمد جمیل بن میاں محمد ابراہیم ہیں۔ تفسیر کا مختصر تعارف پیش ہے۔۔
مصنف تفسیر کے آغاز میں " فہم القران اور اعتراف حقیقت " کے عنوان کے تحت رقمطراز ہیں :
رسولِ محترم e کی بعثت کے مقاصد میں سے مرکزی مقصد یہ بھی تھا کہ آپ قرآن کے مطابق لوگوں کے سامنے عملی نمونہ پیش کریں اور اپنی زبان اطہر سے قرآن مجید کی تشریح اور تفسیر فرمائیں۔ جس کو صحابہ کرام y نے آپ سے براہ راست سیکھا ‘ سمجھا اور اس پر عمل کیا۔ جہاں تک تفسیر قرآن کا تعلق ہے آپ نے حضرت عبداللہ بن عباس w کو قرآن فہمی کی دعا سے سرفراز فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن عباس w اور صحابہ کرام y نے اپنی اولاد اور شاگردوں کو قرآن پڑھایا اور سمجھایا۔ اس طرح قرآن مجید کی تبلیغ تحریر ، تقریر اور تدریس کے ذریعے نسل در نسل جاری رہی تاآنکہ 270 ہجری میں جامع البیان کے نام پر علامہ ابو جعفر بن جریر طبری نے چالیس سال کی جدوجہد سے کتبات ‘ مسوّدات اور مختلف اہل علم سے استفادہ فرما کر تیس جلدوں پر محیط تفسیر جامع البیان لکھی جو تفسیر ابن جریر کے نام سے معروف ہے۔ ان کے بعد حافظ عماد الدین ابو الفداء اسمعیل بن کثیر المعروف امام ابن کثیر نے تفسیر ابن کثیر رقم فرمائی جو تمام مسالک کے نزدیک ممتاز اور منفرد تفسیر سمجھی جاتی ہے۔ بعد ازاں ہر دور اور ہر زبان میں قرآن مجید کی تفاسیر لکھی گئی ہیں۔ یہاں تک کہ برصغیر میں انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کی ابتدا میں تراجم اور تفاسیر کا بیشمار ذخیرہ اردو زبان میں پیش کیا گیا جو علمی اور اسنادی اعتبار سے عربی کے سوا تمام زبانوں میں لکھی جانے والی تفاسیر پر حاوی ہے۔ ماضی قریب میں تفہیم القرآن ‘ تدبر قرآن ‘ معارف القرآن ‘ تفسیر ثنائی ‘ تیسیرالقرآن ‘ ضیاء القرآن کے مؤلفین نے اپنے اپنے انداز اور نقطۂ نگاہ سے فرقانِ حمید کی تفسیریں لکھیں جو اردو زبان میں ممتاز تفاسیر شمار ہوتی ہیں۔
فہم القرآن اور اعترافِ حقیقت
تفسیر کا نام سورة الانبیاء کی آیت 79{ فَفَھَّمْنٰـھَا سُلَیْمٰنَ } سے لیا گیا ہے ۔ میں اس سچائی کا محض روایتی اور عاجزانہ نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ اعتراف کرتا ہوں کہ خدمت قرآن کی چودہ سو سالہ تاریخ میں مجھ سے کم علم آدمی کوئی نہیں گزرا ہوگا کہ جس نے قرآن مجدی کے کسی پہلو پر قلم اٹھایا ہو۔ میں نے بزرگوں کی خوشہ چینی کے سوا کچھ نہیں کیا۔ میرے کام میں حسن و خوبی کا کوئی پہلو دکھائی دے تو وہ اللہ کے فضل و کرم کا نتیجہ اور متقدمین کی پر خلوص کوششوں کا ثمرہ ہے۔ کوتاہی اور کمزوری کو میری کم علمی اور کوتاہ فہمی تصور کرتے ہوئے آگاہ کیا جائے تاکہ اس کی تصحیح کی جائے ۔ اپنے مختصر تدریسی تجربہ اور تفاسیر کا مطالعہ کرتے ہوئے چند باتوں کی ضرورت محسوس کی جس بنا پر ضروری سمجھا کہ اگر درج ذیل باتیں تفسیر میں جمع کردی جائیں تو عوام الناس ‘ طلبہ اور مبتدی خطباء کے لیے نہایت مفید اور بہتر ہوگا۔
(١) ۔ لفظی اور بامحاورہ ترجمہ (٢) ربطِ کلام (٣) ۔ ہر آیت کے الگ الگ مسائل کا بیان
(٤) ۔ تفسیر بالقرآن کے حوالے سے ہر آیت کے مرکزی مضمون سے متعلقہ چند آیات جمع کرنا۔
اللہ تعالیٰ اسے قبولیت کے شرف سے نوازے اور تعاون کرنے والوں کے لیے توشۂ آخرت بنائے۔ آمین یا رب العٰلمین۔
نوٹ : (قاری حضرات سے گزارش ہے کہ وہ لفظی ترجمہ کی بجائے رواں ترجمہ سے استفادہ کریں کیونکہ لفظی ترجمہ میں باہم ربط نہ ہونے کی وجہ سے الجھن پیش آسکتی ہے ۔ لفظی ترجمہ تعلیم و تعلم کے لیے زیادہ مفید ہوتا ہے ۔ )
مفسّر کا تعارف
میاں محمد جمیل بن میاں محمد ابراہیم گوہڑ چک 8 پتو کی (قصور) اپریل 1947 ء آرائیں فیملی میں پیدا ہوئے۔ حفظِ قرآن اور سکول کی تعلیم اپنے گائوں میں حاصل کی۔ تجویدِ قرآن جامعہ محمدیہ اور درس نظامی کی تعلیم جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ سے پائی بعد ازاں وفاق المدارس کیا اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ ایم۔ اے اسلامیات اور فاضل اردو کی ڈگریاں حاصل کیں۔ فراغت ِ تعلیم کے بعد لاہور میں کاروبار کرنے کے ساتھ ساتھ جون 1986 ء میں جامع مسجد ابوہریرہ (رض) کی بنیاد کریم بلاک اقبال ٹائون میں رکھی اور اعزازی خطابت کی ذمہ داری سنبھالی۔ 1997 ء میں ابوہریرہ (رض) شریعہ کالج کا آغاز کیا جو اب تک ملک میں واحد ادارہ ہے جس میں طلبہ کو چار سال میں درس نظامی اور بی ۔ اے (Compulsoy) کروایا جاتا ہے۔ 1987 ء میں مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے سیکرٹری اطلاعات اور 1996 ء سے لے کر 2002 تک مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سیکرٹری جنرل رہے۔ سیکرٹری شپ کا دوسرا ٹینور پورا ہونے پر آئندہ ذمہ داری سنبھالنے سے معذرت کی اور اپنے آپ کو تعلیم و تصنیف کے لیے وقف کیا۔ دیگر کتب تحریک کے بارے میں تالیف کرنے کے بعد 2005 ء میں تفسیر فہم القرآن لکھنے کا آغاز کیا۔ ہر سال پانچ پاروں پر مشتمل منظر عام پر منظر عام پر آتی رہی اور الحمدللہ 6 سال کے عرصہ میں مکمل ہوئی اور زیور طباعت سے آراستہ ہوئی ۔ اس تفسیر کی اہم خصوصیات یہ ہیں۔
١۔ تفسیر رازی، ابن کثیر ، تفہیم القرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اس کے علاوہ دیگر عربی تفاسیر کے اہم نکات پر مشتمل ہے۔
٢۔ لفظی ترجمہ کے ساتھ ساتھ سلیس بامحاورہ ترجمہ جو دل میں اتر جائے۔
٣۔ علم وادب کا مرقع اور ہر آیت کی تفسیر حدیث رسول e کے ساتھ ہے۔
٤۔ ہر آیت کے الگ الگ مسائل کی نشاندہی جو ذہن پر منقش ہوجائیں۔
٥۔ آیت کے مرکزی مضمون کی تفسیر دیگر آیات کے ساتھ ایک مکمل تقریر جو علماء اور لیکچرار حضرات کے لیے عظیم تحفہ ہے۔
سورة بقرہ ایک نظر میں سورة بقرہ کا شمار ان ابتدائی سورتوں میں ہوتا ہے جن کا نزول ہجرت کے متصل مابعد شروع ہوا۔ قرآن مجید کی تمام سورتوں میں یہ طویل ترین سورت ہے ۔ راجع قول یہی ہے کہ اس کی آیات کا نزول اس طرح تسلسل کے ساتھ نہیں ہوا کہ اس کی تکمیل سے قبل کسی دوسری سورت کی کوئی آیت نازل نہ ہوئی ہو ۔... کیونکہ جب ہم سورة بقرہ کی بعض آیات اور مدینہ میں نازل ہونے والی دوسری طویل سورتوں کی بعض آیات کے اسباب نزول پر غور کرتے ہیں (اگرچہ اسباب نزول کے واقعات قطعی الثبوت نہیں ہوتے) تو معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام سورتوں کی آیات کا نزول تسلسل سے نہیں ہوا ۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک سورت کا نزول شروع ہوجاتا ہے لیکن ابھی اس کی ابتدائی آیات ہی نازل ہوئی ہوتی ہیں کہ دوسری سورت کا نزول شروع ہوجاتا ہے ۔ چناچہ سورتوں کے زمانہ نزول کے تعین کا دارومدار ان کی ابتدائی آیات پر ہوتا نہ کہ پوری سورت پر مثلاً سورة بقرہ کی آیت ربا کا شمار ان آیات میں ہوتا ہے جو نزول قرآن کے آخری دور سے تعلق رکھتی ہیں ۔ حالانکہ راجح قول کے مطابق بقرة کا ابتدائی حصہ مدنی دور میں سب سے پ ہے نازل ہوا۔ آیات قرآنی کی ترتیب اور انہیں ایک سورت کی شکل میں جمع کرنے کا کام براہ راست اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی روشنی میں ہوا ۔ امام ترمذی نے حضرت ابن عباس (رض) کی ایک روایت نقل کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان (رض) سے سوال کیا ” آپ لوگوں نے سورة انفال اور سورة توبہ کو باہم ملادیا حالانکہ انفال مثانی میں سے ہے اور توبہ ” مئین “ میں سے ہے ۔ نیز آپ حضرات نے دونوں کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم کی سطر بھی نہیں لکھی اور ان کو سبع طوال میں رکھ دیا ہے ۔ معلوم نہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ حضرت عثمان (رض) نے فرمایا ” دراصل بات یہ تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بیک وقت متعدد سورتیں نازل ہوتی رہتی تھیں ، جب کبھی آپ پر نئی آیات کا نزول ہوتا ، آپ کاتبین وحی میں سے کسی کو بلالیتے اور حکم دیتے کہ اس آیت کو فلاں فلاں سورت میں شامل کردو ۔ “ سورة انفال ان سورتوں میں سے تھی جو مدینہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی اور سورة توبہ ایسی آیات پر مشتمل تھی جن کا نزول سلسلہ نزول قرآن کے آخری دور میں ہوا ۔ ان دونوں کے مضامین چونکہ باہم مشابہ تھے ، اس لئے میں نے یہ گمان کیا کہ شاید یہ انفال ہی کا حصہ ہے ۔ اس اثناء میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوگیا اور آپ کو اس بات کی وضاحت کا موقع نہ ملا کہ وہ انفال کا حصہ ہے یا نہیں ؟ ان وجوہات کی بناء پر میں نے ان دونوں سورتوں کو باہم ملادیا اور اسی لئے دونوں کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ لکھا اور ان کو ” سبع طوال “ میں رکھ دیا۔ “ یہ روایت صاف صاف بتارہی ہے کہ سورتوں کی شکل آیات کی ترتیب خاص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایات کے تحت تکمیل پذیر ہوئی ۔ امام مسلم اور بخاری نے حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں آپ فرماتے ہیں ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) .... بھلائی کرنے میں بےحد کشادہ دل تھے ۔ بالخصوص رمضان المبارک میں تو آپ کی فراخ دلی کی کوئی انتہانہ رہتی تھی ۔ پورے رمضان المبارک میں ہر رات جبرائیل امین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملتے تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو قرآن سناتے تھے ۔ بعض روایات میں فیدارسہ القرآن کے لفظ آتے ہیں ۔ یعنی باہم پڑھتے پڑھاتے تھے ۔ تو جب رمضان میں جبرائیل امین آپ سے ملتے تو آپ کارخیر کے لئے فراخدلی میں ، ان ہواؤں سے بھی بڑھ جاتے جو بارش لاتی ہیں ۔ “ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پورا قرآن مجید جبرائیل امین کو سناتے تھے اور اسیطرح جبرائیل امین آپ کو سناتے ۔ تو معلوم ہوا کہ پورا قرآن سورتوں کی شکل میں بہرحال مرتب تھا۔ جو شخص قرآن کے سائے میں جیتا ہے اور اس میں غوروفکر کرتا ہے اس پر یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ قرآن کی ہر سورت ایک مستقل اور ذی روح شخصیت رکھتی ہے ۔ دل مومن تو اس کے ساتھ اسی طرح مانوس ہوجاتا ہے کہ گویا وہ کسی زندہ انسان سے ہم کلام ہے جو واضح خدوخال اور روح وحیات رکھتا ہے .... ہر سورت کا ایک مرکزی مضمون ہے یا کئی مضامین جو ایک ہی محور کے گردگھوم رہے ہیں ۔ نیز ہر سورت کی ایک مخصوص فضاء ہے جو اس کی تمام موضوعات سخن پر چھائی ہوئی ہے ۔ اس میں ان موضوعات پر متعین پہلوؤں سے بحث ہوتی ہے تاکہ ان موضوعات اور سورت کی اس عمومی فضا کے درمیان کامل درجہ کی ہم آہنگی پائی جائے ۔ پھر ہر سورت کا ایک مخصوص صوتیاتی اثر ہوتا ہے۔ اور وہ پوری سو رت میں ایک ہی رہتا ہے۔ اگر کہیں اس میں تبدیلی ہو بھی تو وہ اس مخصوص موضوع سخن کی وجہ سے ہوتی ہے۔ قرآن کی تمام سورتوں کی یہی خصوصیت ہے اور اس سے سورة بقرہ جیسی طویل سورتیں بھی مستثنیٰ نہیں ہیں۔ سورة بقرہ متعدد موضوعات پر مشتمل ہے لیکن وہ تمام موضوعات ایک ہی محور کے گرد گھوم رہے ہیں ۔ یہ محور دومتوازی اور باہم مربوط خطوط سے مرکب ہے ۔ ایک طرف تو یہ پوری سورت بتاتی ہے کہ بنی اسرائیل نے دعوت اسلامی کے مقابلے میں کیا موقف اختیار کیا ؟ انہوں نے اس دعوت کا استقبال کس طرح کیا ؟ اس کے پیغامبر کو کیا کیا اذیتیں دیں۔ اس دعوت کی بنیاد پر اٹھنے والی جماعت اور امت مسلمہ کے خلاف کیا کیا سازشیں کیں ۔ نیز اس موقف کی دوسری تفصیلات اور کڑیاں مثلاً یہود ومنافقین کا باہم گٹھ جوڑ ، یہود ومشرکین کا باہم تعلق وغیرہ .... دوسری طرف اس سورت میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اب بنی اسرائیل کو فریضہ ادائیگی خلافت کے لئے نااہل قرار دیا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے اس بارے میں اللہ کریم سے جو عہدوپیمان باندھے تھے وہ ایک ایک کرکے توڑ چکے ہیں اور یہ کہ اب انہیں اس تحریک کے داعی اول حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کوئی نسبت نہیں رہی ہے اور یہ کہ مسلمانوں کو بھی اس بات کی تنبیہ کی جاتی ہے کہ وہ ان غلطیوں سے بچیں جن کی وجہ سے بنی اسرائیل کو نااہل قراردیا جارہا ہے ۔ پھر اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اپنے ابتدائی حالات میں (منصب امامت کو سنبھالتے ہوئے) اسلامی جماعت نے کیا موقف اختیار کیا اور کس پالیسی پر گامزن رہی ۔ اس نے فریضہ اقامت دین ، دعوت دین اور خلافت فی الارض کی اس عظیم الشان اور بھاری ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے اپنے آپ کو کیوں کر تیار کیا ؟ غرض سورة بقرہ کے تمام مضامین ان دومتوازی خطوط پر چل رہے ہیں اس کی تفصیل انشاء اللہ آئندہ تفصلی بحثوں کے دوران آئے گی ۔ یہاں اس بات کی ضرورت ہے کہ اس صورت حالات پر اجمالاً بحث کی جائے جس کے مقابلے کے لئے سب سے پہلے یہ سورت نازل ہوئی تاکہ ایک طرف تو اس سورت اور اس کے مضامین کے درمیان ربط کا صحیح اندازہ ہوسکے ۔ اور دوسرے یہ معلوم ہوسکے کہ مدنی دور کے ابتدائی ایام میں دعوت اسلامی کی رفتار کیا تھی ؟ اس اسلامی جماعت کی سرگرمیاں اور پیش آنے والے حالات کیا تھے ؟ یہاں یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ یہ صورت حال اپنے عمومی پہلو سے بعینہ وہی ہے جو ہر دور اور ہر زمانے میں ایک معمولی فرق کے ساتھ دعوت اسلامی کے حاملین کو پیش آتی رہی ہے۔ تاریخ میں دعوت اسلامی کے دشمنوں نے ہمیشہ وہی کردار ہے جو کبھی مدینہ کے اسلام دشمنوں نے ادا کیا تھا ۔ اور اس کے دوستوں کا تعلق اخلاص بھی ایسا رہا جو قرن اول کے فداکار اسلام کا رہا ۔ اس طرح یہ قرآنی ہدایات دعوت اسلامی کے لئے ایک طرح کا دائمی دستور بن جاتی ہیں ۔ اور ان آیات میں ہر حال اور ہر زمانے کے لئے زندہ جاوید ہدایت پائی جاتی ہے اور یہ آیات امت مسلمہ کے لئے اس طویل اور کٹھن سفر میں مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں جس میں اسے کئی مختلف الشکل لیکن متحد المزاج مخالف عناصر کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے ۔ پورے قرآن مجید کی ایک ایک آیت میں یہ خصوصیت موجود ہے اور یہ قرآن کریم کے اعجاز کے ایک خاص پہلو کو ظاہر کررہی ہے۔ مدینہ کی طرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت کا عمل ایک محکم منصوبے اور سوچی سمجھی تعلیم کے مطابق ظہور پذیر ہوا ۔ اور جن حالات میں ہجرت کا فیصلہ ہوا وہ ایسے تھے کہ انہوں نے ہجرت کے عمل کو لابدی اور حتمی بنادیا تھا کیونکہ جس منصوبے کے مطابق باری تعالیٰ کو تحریک اسلامی کو چلانا مقصود تھا ، اس کے لئے ہجرت ضروری ہوگئی تھی ۔۔ قریش نے دعوت اسلامی کے بارے میں جو موقف اختیار کیا تھا ، حضرت خدیجة الکبریٰ (رض) اور ابوطالب کی وفات کے بعد ، اس کی وجہ سے مکہ اور اس کے ماحول میں دعوت اسلامی پر ایک جمود اور ٹھہراؤ کی کیفیت طاری ہوگئی تھی ۔ اگرچہ قریش کی گہری سازشوں اور ان کی بےحد ایذا رسانیوں کے باوجود بعض لوگ دین اسلام میں داخل ہورہے تھے ۔ تاہم قریش کے سخت رویے اور اسلام کے خلاف ان کی چومکھی لڑائی کی وجہ سے مکہ اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں عملاً دعوت اسلامی کا پھیلاؤ روک دیا گیا تھا اور مکہ کے علاوہ دوسرے عرب قبائل نے بھی محتاط اور ” انتظار کرو اور دیکھو “ کا رویہ اختیار کرلیا تھا ۔ وہ اس بات کے منتظر تھے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے قریبی رشتہ داروں ، ابولہب ، عمروابن ہشام ، ابوسفیان بن حرب وغیرہ کے درمیان جو کشمکش برپا ہے اس کا کیا فیصلہ ہوتا ہے کیونکہ یہ لوگ دعوت اسلامی کے قریبی رشتہ دار تھے اور عرب کے قبائلی معاشرے میں کنبہ پروری کو بڑی اہمیت حاصل تھی اور عام لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاندان سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ سب سے پہلے اسلام کو قبول کرے۔ لہٰذا ان کے اس معاندانہ موقف میں کوئی وجہ نہ تھی کہ ایک عام عرب دعوت اسلامی کو قبول کرے بالخصوص جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خاندان کعبہ کا متولی بھی تھا۔ اور جزیرة العرب میں وہی دینداری اور مذہبیت کی نمائندگی کا مستحق سمجھا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلسل اس بات کی تلاش میں رہے کہ مکہ کے باہر دعوت اسلامی کے لئے کوئی ایسا مرکزی مقام تلاش کیا جائے جو اس نظریہ حیات کا گہوارہ ہو اور تحریک کو امن وآزادی کی ضمانت دے ۔ جہاں تحریک اسلامی اس جمود کی حالت سے نکل سکے جو مکہ میں اس پر طاری ہوگئی تھی اور جہاں آزادی کے ساتھ لوگوں کے سامنے دعوت اسلامی پیش کی جاسکے اور اسے قبول کرنے والا آلام وفتن اور دشمن کی ایذا رسائیوں سے محفوظ ہوں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہجرت کے اقدام کے جو اسباب بھی ہوں ان میں یہ پہلا اور سب سے اہم سبب ہے۔ یثرب کو تحریک اسلامی کا مرکز بنانے سے قبل بھی کئی دوسرے مقامات زیر غور رہے تھے ۔ سب سے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت ہوئی تھی۔ جن لوگوں نے ابتدائی ایام میں دین اسلام کو قبول کیا تھا۔ ان کی بڑی تعداد نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی ۔ یہ بات درست نہیں کہ یہ لوگ محض جسمانی نجات حاصل کرنے کے لئے حبشہ کی طرف نکل گئے تھے ۔ کیونکہ قرائن اس کی تردید کرتے ہیں ۔ اگر یہ ہجرت صرف جسمانی اذیت سے نجات پانے کے لئے ہوتی تو مسلمانوں میں سے صرف وہ لوگ ہجرت کرتے جن کے جان ومال اور آبرو کی حفاظت کا مکہ مکرمہ میں کوئی بندوبست نہ تھا۔ حالانکہ جو لوگ نکلے ان کی حالت اس سے برعکس تھی ۔ ان مہاجرین میں وہ لوگ شامل نہ تھے جن پر جسمانی اذیت کے پہاڑ توڑے جارہے تھے مثلاً ضعفاء اور غلام وغیرہ ۔ جو لوگ اس ہجرت میں شریک ہوئے وہ سب خاندانی اور ذی وجاہت لوگ تھے ۔ اور ان کے خاندان کے ہوتے ہوئے کوئی شخص یہ جراءت نہ کرسکتا تھا کہ انہیں کسی قسم کی اذیت پہنچائے ۔ کیونکہ قبائلی عصبیت کے اس معاشرے میں لوگ اپنے مسلمان رشتہ داروں کی حمایت بھی کرتے تھے ۔ ان مہاجرین کی اکثریت قریش سے نسبی تعلق رکھتی تھی ۔ مثلاجعفر بن ابی طالب (حالانکہ ابوطالب اور دوسرے ہاشمی نوجوان ہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حمایت کررہے تھے ) زبیر بن عوام ، عبدالرحمن بن عوف ، ابومسلمہ مخزومی اور عثمان بن عفان وغیرہ ، اسی طرح ان مہاجرین مکہ کے اونچے خاندانوں کی خواتین بھی شامل تھیں اور اس بات کا کوئی امکان ہی نہ تھا کہ انہیں کسی قسم کی اذیت پہنچائے ۔ البتہ اس بات کا امکان ہے کے ہجرت کے پس منظر میں کچھ اسباب اور بھی پوشیدہ ہوں مثلاً یہ کہ قریشی اونچے درجے کے گھرانوں میں یہ احساس اور بےچینی برپا کرنا کہ اس میں ایسے معزز اور سرکردہ شرفا ان کی ایذاؤں سے تنگ آکر ، اپنے نظریہ حیات کو لے کر ، اور اپنے وطن عزیز اور اعزہ کو الوداع کہہ کر ، جاہلیت سے بھاگ رہے ہیں۔ ظاہر ہے عرب جیسے باحمیت اور کنبہ پرست معاشرے میں مسلمانوں کا یہ اقدام غم وغصہ کی لہر دوڑا سکتا تھا ۔ جبکہ مہاجرین میں ام حبیبہ بنت ابی سفیان بھی شامل ہیں جو جاہلیت کا سب سے بڑا علمبردار تھا۔ اور اسلامی نظریہ حیات اور اس کے داعی کے خلاف برپا کی ہوئی اس فتنہ انگیزی میں ایک بڑا پارٹ ادا کررہا تھا لیکن ان اسباب کو صحیح تسلیم کرنے کے بعد بھی اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حبشہ کی طرف ہجرت بھی انہی کوششوں کی ایک کڑی تھی ۔ جو تحریک اسلامی کے لئے ایک آزاد مرکز کی تلاش کے سلسلے میں ہورہی تھیں۔ جہاں یہ نئی تحریک آزاد اور پرامن طریقے سے کام کرسکے ۔ اس کی تائید ان روایات سے بھی ہوتی ہے جو حبشہ کے نجاشی کے اسلام کے بارے میں کتب احادیث میں نقل ہوئی ہیں ۔ جن میں کہا گیا کہ نجاشی نے اپنے اسلام کا اعلان محض اس لئے نہ کیا کہ وہ اپنے مذہبی لیڈروں سے خائف تھا۔ سیرت کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت سے قبل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف کا سفر فرمایا۔ اس کا مقصد بھی دعوت اسلامی کے لئے ایک آزاد اور مامون مرکز کی تلاش تھا ۔ لیکن آپ کی یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی ۔ اور ثقیف کے کبراء نے آپ کا استقبال پتھروں سے کیا ۔ انہوں نے اپنے نادانوں اور بچوں کو آپ کے پیچھے لگادیا ۔ یہ لوگ آپ کو پتھر مارنے لگے ۔ آپ کے پاؤں مبارک زخمی ہوگئے اور آپ کو مجبوراً عتبہ اور شیبہ پسران ربیعہ ، کے باغ میں پناہ لینی پڑی ۔ اس باغ میں آپ کی زبان مبارک سے جو پرخلوص اور گہری دعا نکلی وہ داعیان حق کے لئے نمونہ عبرت ہے ۔ آپ نے فرمایا ! ” اللہ ! میں اپنی ناتوانی ، قلت تدبیر اور لوگوں کے مقابلے میں اپنی کمزوری کی فریاد آپ ہی سے کرتا ہوں۔ اے ارحم الرحمین ! تو ہی میرا اور سب ضعیفوں کا رب ہے تو مجھے کس کے حوالے کررہا ہے ۔ کیا تونے میرا معاملہ دشمن کے سپرد کردیا ہے ؟ یا کسی غیر کے جو مجھ سے ترش روئی سے پیش آئے ۔ اگر تو مجھ پر غضبناک نہیں ہے تو پھر مجھے کسی چیز کی پرواہ نہیں لیکن تیری عافیت میرے لئے کشادہ ہے ۔ میں تیری غضب اور تیری پھٹکار سے تیرے چہرہ کے نور میں پناہ مانگتا ہوں ۔ جس نے اندھیروں کو اجالا کردیا جن سے دینی اور دنیوی امور درست ہوتے ہیں ۔ میں تیرے ہی در کا سوالی ہوں ۔ یہاں تک کہ تو مجھ سے راضی ہوجائے اور تیرے سوا قوت واستطاعت کا کوئی اور مصدر نہیں ہے۔ چناچہ اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دعوت اسلامی کے لئے غیبی اسباب فراہم ہوگئے ۔ عقبہ گھاٹی کے دامن میں پہلی بیعت ہوئی ۔ پھر اگلے سال دوسری ہوئی ۔ چونکہ ان بیعتوں کا ہمارے موضوع اور مدینہ میں دعوت اسلامی کی تاریخ سے گہرا تعلق ہے اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ان کا مختصر تذکرہ کیا جائے ۔ ہجرت سے ٢ سال قبل کا واقعہ ہے کہ حجاج کے سامنے دعوت اسلامی پیش کرنے کے دوران نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملاقات خزرج کے کچھ لوگوں سے ہوئی ۔ آپ کا معمول تھا کہ حج کے موقع پر آپ لوگوں کو دعوت دیتے اور ایک ایک قبیلے سے درخواست کرتے کہ وہ دعوت اسلامی کو قبول کریں اور آپ کی حمایت کریں تاکہ آپ اپنے رب کا پیغام پوری دنیا تک پہنچاسکیں ۔ یثرب کے باشندوں کے پڑوس میں چونکہ یہود آباد تھے اور یہ لوگ اکثر اوقات یہودیوں سے یہ بات سنا کرتے تھے کہ ایک نبی آخرالزماں آنے والا ہے اور یہ کہ اس کی حمایت و قیادت میں وہ عربوں پر فتح یاب ہوں گے ۔ وہ اللہ سے دعائیں بھی مانگتے تھے کہ وہ انہیں اس کی طفیل فاتح وکامران کرے اور وہ نبی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں ان کا حامی و مددگار ہوگا۔ جب خزرج کے وفد نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو سنا تو آپس میں کہنے لگے ” خدا کی قسم یہ وہی نبی ہے جس سے تمہیں یہود ڈراتے ہیں اور ایسا نہ ہو کہ یہودی تم سے پہلے اس پر ایمان لے آئیں ۔ لہٰذا انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت قبول کرلی ۔ اور آپ سے کہا کہ ” ہماری پوری قوم مدینہ طیبہ میں ہے اور ان میں آج کل ایسی دشمنی اور خانہ جنگی برپا ہے جو کسی دوسری قوم میں نہیں ہے ۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ آپ کے ذریعے اللہ اس دشمنی کو ختم کردے ۔ “ جب یثرب لوٹے تو یہ واقعہ انہوں نے اہل مدینہ کو سنایا۔ اہل مدینہ بےحد خوش ہوئے اور دعوت اسلامی کو قبول کرلینے پر متفق ہوگئے ۔ اگلے سال اوس اور خزرج کی ایک جماعت موسم حج میں مکہ آئی ۔ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کی اور حلقہ بگوش اسلام ہوکر لوٹی ۔ آپ نے کچھ معلمین اور مبلغین ان کے ساتھ کردیئے تاکہ وہ ان کی مزید تربیت کریں۔ تیسرے سال اوس و خزرج کی ایک بہت بڑی جمیعت حاضر ہوئی ۔ اور آپ کے ساتھ معاہدہ کیا ۔ یہ معاہدہ حضرت عباس کی موجودگی میں ہوا۔ معاہدہ کی اہم شق یہ تھی کہ اہل یثرب آپ کی حفاظت اس طرح کریں گے جس طرح وہ اپنی جان ومال کی حفاظت کرتے ہیں ۔ اس معاہدے کو بیعت عقبہ کبریٰ کہتے ہیں۔ اس کے بارے میں محمد بن کعب قرظی نقل کرتے ہیں کہ اس میں عبداللہ بن رواحہ نے حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا ” آپ اپنے رب اور اپنی ذات کے لئے جو شرائط ہم سے چاہیں منوالیں ۔ “ آپ نے فرمایا اللہ کے لئے صرف یہ شرط ہے کہ آپ لوگ اس کی بندگی کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور اپنے لئے میں تم پر صرف یہ شرط عائد کرتا ہوں کہ آپ لوگ میری حفاظت ایسے ہی کریں گے جیسے اپنی جان ومال کی کرتے ہیں ۔ “ اس پر عبداللہ بن رواحہ نے کہا تو پھر اس پر ہمیں کیا اجر ملے گا ؟ “ آپ نے فرمایا ” جنت ! “ اس پر سب نے کہا ” بہت نفع بخش سودا ہے ۔ “ نہ ہم اسے واپس کرتے ہیں اور نہ فریق ثانی سے اس کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ یوں مسلمانوں نے بزور طاقت نظام حکومت اپنے ہاتھ میں لیا اور اسلام مدینہ طیبہ میں تیزی سے پھیل گیا۔ کوئی گھر ایسا نہ رہا جس میں کوئی مسلمان نہ ہو۔ مسلمان مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ آنے شروع ہوگئے ۔ اور صرف دولت ایمان لے کر اپنے گھروں سے نکلے اور اپنا سب کچھ راہ حق میں لٹادیا۔ مدینہ میں ان کے بھائیوں نے جوان سے قبل دارالاسلام اور ایمان میں جم کر بس گئے تھے ، ان کے ساتھ جس ایثار اور بھائی چارے کا مظاہرہ کیا ، وہ ایسا ہے کہ پوری انسانی تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صدیق اکبر نے ہجرت فرمائی ۔ اور آپ اس مامون اور آزاد مرکز میں جاپہنچے جس کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرصہ سے متلاشی تھے ، جس دن آپ مدینہ پہنچے اسی دن اس نئے مرکز میں اسلامی حکومت قائم ہوگئی تھی ۔ جن لوگوں نے تحریک اسلامی کے اس مرحلے میں مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی اور ان کے معاون و مددگار پہلے سے مدینہ میں ان کے لئے منتظر بیٹھے تھے ، یہ دونوں مل کر وہ جماعت بن گئے جس کی طرف قرآن کریم متعدد مقامات پر اشارہ کرتا ہے ۔ سورة بقرہ کے آغاز ہی میں جن ایمانی مبادیات کا ذکرشروع ہوجاتا ہے ، یہ صفات اگرچہ علی الاطلاق تمام سچے مومنین کی ہیں لیکن ان صفات کا سب سے پہلا مصداق مومنین کی وہ جماعت ہے جو اس وقت مدینہ طیبہ میں جمع تھی۔ Show more
مصنف کے حالات :
سید قطب 1902 ء میں مصر کے ایک صوبہ اسیوط کے ایک گاؤں موشاء میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام حاجی قطب ابراہیم اور والدہ کا نام فاطمہ حسین عثمان تھا۔ دونوں عربی النسل تھے۔ سید قطب اپنے والدین کے سب سے بڑے لڑکے تھے۔
آپ نے ثانوی تعلیم تجہیزیہ دار العلوم نامی ایک اسکول میں حاصل کی۔ اس اسکول میں طلباء کو دار العلوم میں داخلہ کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ وہاں سے فارغ ہوکر آپ 1929 میں قاہرہ کے دار العلوم میں داخل ہوئے۔ 1933 میں آپ نے بی۔ اے کی ڈگری اور ڈپلومہ ان ایجوکیشن حاصل کیا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے محکمہ تعلیم میں بحیثیت انسپکٹر تعلیم ملازمت اختیار کرلی اور 1952 ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اسی دوران 1954 ء میں آپ اخوان المسلمون سے متعارف ہوئے۔ اور 2 جولائی 1954 ء میں آپ کو اخوان کے شعبہ نشر و اشاعت نے اخبار الاخوان المسلمون کا ایڈیٹر مقرر کیا۔
شہید اسلام سید قطب 1954 سے لے کر 1964 تک جیل میں رہے اور اگست 1964 ء میں مرحوم عبدالسلام عارف صدر عراق کی کوششوں سے رہا ہوئے۔ رہا ہوتے ہی پوری دنیا کے نوجوانوں نے آپ کی طرف رجوع کیا اور آپ کا لٹریچر جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیلنے لگا۔ چناچہ لادین مغرب پرست کمیونسٹ اور سوشلسٹ عناصر چیخ اٹھے اور بیک وقت ماسکو اور واشنگٹن سے ان کے خلاف سازشیں ہونے لگیں۔ چناچہ آپ کو ایک سال بعد اگست 1965 ء میں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا اور ایک سال بعد 29 اگست 1966 ء میں آپ کو شہید کردیا گیا۔ اللہ آپ کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔
نام : انوار البیان فی کشف اسرار القرآن
مترجم و مفسر : حضرت مولانا مفتی محمد عاشق الہی مہاجر مدنی (رح)
ناشر : نوید احمد خاں۔ مکتبہ زکریا۔ رحمان پلازہ مچھلی منڈی اردو بازار لاہور۔
زیر نظر نسخہ : اشاعت اول۔ 2009 ء۔ 1430 ھ
کتاب کا مختصر تعارف :
" ایزی قرآن و حدیث " میں شامل چھ جلدوں پر مشتمل ایک اہم اردو تفسیر حضرت مولانا عاشق الہی بلند شہری (رح) کی بھی ہے۔ اس کا مختصر تعارف ، امتیازی خصوصیات اور سبب تالیف انہی کے اپنے الفاظ میں درج ذیل ہے :
" اما بعد ! 1374 ھ یا 1375 ھ کی بات ہے کہ راقم الحروف کلکتہ میں مقیم تھا۔ وہاں میعادی بخار میں مبتلا ہوگیا اور شدت تکلیف کے باعث ایک رات ایسی گزری کہ صبح تک زندہ رہ جانے کی امید نہ تھی، میں نے اللہ جل شانہ سے ناز کے انداز میں عرض کردیا کہ اے اللہ ! میں ابھی مر رہا ہوں حالانکہ میں نے ابھی تفسیر بھی نہیں لکھی، اللہ جل شانہ کا فضل ہوا کہ میں اچھا ہوگیا، اور اس کے بعد سے کبھی شدید بیماری میں بھی مبتلا نہیں ہوا، لیکن تدریسی مشاگل کے باعث اور دوسری چھوٹی موٹی تالیفات میں لگنے کی وجہ سے تفسیر لکھنے کا موقعہ نہیں آیا، اب جبکہ عمر ستر سال کے قریب پہنچ گئی تو موت کا ڈر لاحق ہوا، اور ساتھ یہ فکر دامنگیر ہوئی کہ تفسیر لکھنے کا وعدہ جو اللہ جل شانہ سے کیا تھا وہ پورا کرنا چاہیے، تفسیر لکھنا شروع کردیا، مجھے علم بھی زیادہ نہیں ہے، جگہ جگہ مشکلات پیش آئیں اللہ جل شانہ سے دعائیں کی، مشکلات حل ہوتی گئیں اور برابر شرح صدر ہوتا گیا اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ اردو میں اکابر کی متعدد تفسیریں موجود ہیں تجھے نئی تفسیر لکھنے کی کیا ضرورت تھی ؟ تو میں اس کا جواب دینے سے قاصر ہوں البتہ مجھے اپنے طور پر اس بات کی خوشی ہے کہ میری عمر کے آخری چند سال قرآن کریم کی خدمت میں خرچ ہوگئے، عام فہم اردو زبان میں شرح اور بسط کے ساتھ قرآن مجید کے معانی اور مطالب بیان کردئیے ہیں اور ساتھ ہی مسلمانوں کو جگہ جگہ جھنجھوڑا بھی ہے کہ قرآن مجید کا تم سے کیا مطالبہ ہے اور تمہاری اجتماعی وانفرادی زندگی کس رخ پر ہے، کوشش کی ہے کہ تفسیر و حدیث کے اصل ماخذ کی طرف رجوع کیا جائے، اور تفسیر القرآن بالقرآن، اور تفسیر القرآن بالحدیث کو اختیار کیا جائے۔ یہ تفسیر انشاء اللہ ہر طبقہ کے مسلمانوں کے لیے مفید ہوگی۔ لیکن خصوصیت کے ساتھ ترجمہ اور تفسیر پڑھنے والے طلبہ کی زیادہ رعایت کی گئی ہے۔ سبب نزول لکھنے کا خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ اور کوشش کی گئی ہے کہ ترجمہ تحت اللفظ ہو اور بامحاورہ بھی، میری کوشش انشاء اللہ تعالیٰ کامیاب ہے۔ اللہ جل شانہ سے امید کرتا ہوں کہ اس تفسیر کو شرف قبولیت بخشے، اور اپنے بندوں میں بھی قبولیت عامہ عطا فرمائے ۔ آمین
کچھ مصنف کے بارے میں
حضرت مولانا عاشق الہی بلند شہری مہاجر مدنی ، اتر پر دیش، انڈیا کے ایک شہر بلند شہر میں ، 1343 ھجری میں پیدا ہوئے ۔
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم مدرسہ امدادیہ مرادآباد اور جامی مسجد علی گڑھ میں مکمل کی۔
مکمل دینی تعلیم مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور سے حاصل کی۔
آپ نے مدرسہ حیات العلوم فیروز پور اور کلکتہ کے کئی مدارس میں تدریس کی خدمت سر انجام دی۔
بعد ازاں ، مفتی محمد شفیع (رح) کی درخواست پر دارالعلوم کراچی تشریف لے آئے ۔ اور یہاں کئی سال تک شیخ الحدیث ، شیخ التفسیر کے طور پر تدریس کی، اور دارالافتاء میں بھی نمایاں کام کیا۔
چند سال بعد آپ مدینہ منورہ منتقل ہوگئے جہاں آپ نے اپنی زندگی کے آخری 25 سال گزارے ۔
آپ کی وفات 1999 میں ہوئی اور آپ جنت البقیع میں مدفون ہیں۔
آپ کی متعدد تصانیف ہیں جن میں سے مشہور کتب ۔ انوار البیان، زاد الطالبین ، فوائد الثنیہ فی شرح علوم النبویہ اور تسہیل الضروری شرح قدوری ہیں۔
حضرت مولانا غلام اللہ خان
حضرت مولانا غلام اللہ خان صاحب (رح)
خاندان : آپ 1909 ء کو جناب فیروزخان صاحب کے گھر ” وریہ “ متصل حضرو ضلع کمیلپور میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والدصاحب دیندار اورگاؤں کے نمبردار تھے ۔ قومیت کے لحاظ سے ” اعوان “ ہیں۔ تعلیم : حضروہائی سکول سے مڈل کا امتحان پاس کیا اور پھر دینی طلباء کو دیکھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کا شوق پیدا ہوا۔ پہلا سے ابتدائی فارسی اور صرف ونحو کی کتابیں پڑھیں ۔ پھر شاہ محمد ہری پور ہزارہ میں مولانا سکندر علی صاحب اور انکے بڑے بھائی مولانا محمداسماعیل صاحب ساکن کو کل ، ہزارہ سے مختلف کتب کا درس لے، فنون کی کتابیں مولانا عبداللہ پٹھو اورمولانا محمد دین صاحب سے پڑھیں، پھر انہی ضلع گجرات کے مولانا غلام رسول صاحب اور ان کے داماد مولانا ولی اللہ صاحب سے معقولات کی آخری کتابیں پڑھیں، مشکوٰۃ ، جلالین ، بیضاوی اور ترجمہ قرآن کریم بھی یہیں پڑھا۔ بعدا زاں حضرت مولانا حسین علی صاحب (رح) ساکن واں بچھراں ضلع میانوالی کی خدمت میں پہنچے ۔ ان سے تفسیر قرآن کریم کا درس لیا اور انہی کے ارشاد پر دارالعلوم دیوبند کیلئے رخت سفر باندھا۔ امتحان داخلہ حضرت مولانا رسول خان صاحب ہزاروی (رح) نے لیا۔ وہاں زیادہ تر علم ادب کی کتابیں پڑھیں ۔ پھر ڈابھیل پہنچے اور وہاں 1933 ء میں دورۂ حدیث پڑھ کر سند الفراغ حاصل کی، پھر حضرت علامہ محمدانور شاہ کشمیری (رح) کے ارشاد پر آپ وہاں ایک سال بطور معین درس پڑھاتے رہے ، اسی دوران اپنے شیخ حضرت مولانا حسین علی صاحب (رح) کے ارشاد پر واپس آگئے اور مدرسہ ” برکات الاسلام “ وزیر آباد میں تدریس پر مامور ہوئے اور ایک عرصہ تک معقولات و منقولات کی تدریس کرتے رہے۔ پھر شیخ عبدالغنی صاحب آپ کو 1939 ء میں وزیرآباد سے راولپنڈی لے آئے ۔ یہاں پانچ سات ماہ تک ہائی سکول میں کام کیا ، اسی دوران لوگوں کی استدعا پر پرانے قلعہ کی مسجد میں مشروط خطابت قبول کی کہ تنخواہ نہیں لوں گا ۔ سکول چھوڑ کر مسجد میں درس شروع کردیا اور مختلف جگہ تقاریر کے علاوہ درس قرآن کریم کا سلسلہ شروع کیا ۔ پہلی مرتبہ جب دورۂ تفسیر شروع کیا تو کل نو طالب علم تھے پھر رفتہ رفتہ حلقہ بڑھتا گیا اور اب تک پاکستان کے ممتاز دارالعلوم میں شمار ہے ۔
نام : کشف الرحمن فی تفسیر القرآن
مصنف : حضرت مولانا احمد سعید دہلوی (رح)
ناشر : مکتبہ رشیدیہ۔ کراچی
یہ تفسیر مصنف کی اٹھارہ سالہ محنت کا نتیجہ ہے۔ اس کے مصنف پاک و ہند کے مشہور عالم سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی (رح) ہیں۔ ترجمہ کا نام کشف الرحمن اور تفسیر کا نام تیسیر القرآن ہے۔ موصوف کی یہ تفسیر شستہ زبان، عام فہم طرز اداء اور اپنی خصوصیات کے اعتبار سے نہایت قابل قدر ہے، اور ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ مصنف نے اس ترجمہ اور تفسیر کی تالیف میں بہت محنت کی ہے اور بڑی بڑی معتبر کتابوں کی زمانہ دراز تک ورق گردانی کرکے یہ ذخیرہ جمع کیا ہے اور اس کو ایسے طریقے پر مرتب کیا ہے کہ ہر طقبہ کے لوگ اس سے مستفید ہوسکیں، یہ اہل علم کے لیے بھی مفید ہے اور عوام کے لیے بھی، بڑی خوبی اس میں یہ ہے کہ زبان کو آسان اور سہل کرنے کے ساتھ ساتھ سلفِ صالحین کے مسلک کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور زبان کی شگفتگی کو بھی برقرار رکھا۔
مصنف کا تعارف :
سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعید دہلوی ربیع الثانی 1306 ہجری بمطابق دسمبر 1888 ہجری میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم مولانا عبدالمجید مصطفیٰ آبادی مرحوم سے حاصل کی، اور تکمیل حفظِ قرآن کی دستار بندی مدرسہ حسینیہ دلی میں ہوئی۔
اعلی تعلیم مدرسہ امینیہ میں حاصل کی۔ اور اس کے بعد مدرسہ امینیہ میں کئی برس تک تدریس کی خدمات سر انجام دیں۔ اور دین کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں سر انجام دیے ۔
آپ جمعیت العلماء ہند کے صدر ، عالم دین اور ایک محب وطن شخصیت تھے۔
1920 ء سے قومی تحریکات میں حصہ لینا شروع کیا اور آٹھ مرتبہ جیل گئے۔ خوش بیان مقرر تھے اور سبحان الہند کہلاتے تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی کی وفات کے بعد جمعیت العلماء ہند کے صدر مقرر ہوئے۔ اس سے قبل آپ اس جماعت کے ناظم اعلٰی تھے۔ دینی اور علمی موضوعات پر تقریباً بیس کتابیں یادگار چھوڑیں۔
آپ کی تصنیفات و تالیفات میں ١۔ کشف الرحمن فی ترجمۃ القرآن۔ ٢۔ تقاریر سیرت۔ ٣۔ خدا کی باتیں۔ ٤۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں۔ ٥، معجزاتِ رسول۔ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔
آپ کو وفات 3 جمادی الثانی 1379 ہجری بمطابق دسمبر 1959 ء میں ہوئی۔