Surat ul Baqara
Surah: 2
Verse: 1
سورة البقرة
الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾
Alif, Lam, Meem.
الؔم
الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾
Alif, Lam, Meem.
الؔم
The Discussion of the Individual Letters Allah, the Most Gracious, the Most Merciful says; الم Alif Lam Mim. The individual letters in the beginning of some Surahs are among those things whose knowledge Allah has kept only for Himself. This was reported from Abu Bakr, Umar, Uthman, Ali and Ibn Mas`ud. It was said that these letters are the names of some of the <... b>Surahs. It was also said that they are the beginnings that Allah chose to start the Surahs of the Qur'an with. Khasif stated that Mujahid said, "The beginnings of the Surahs, such as Qaf, Sad, Ta Sin Mim and Alif Lam Ra, are just some letters of the alphabet." Some linguists also stated that; they are letters of the alphabet and that Allah simply did not cite the entire alphabet of twenty-eight letters. For instance, they said, one might say, "My son recites Alif, Ba, Ta, Tha..." he means the entire alphabet although he stops before mentioning the rest of it. This opinion was mentioned by Ibn Jarir. The Letters at the Beginning of Surahs If one removes the repetitive letters, then the number of letters mentioned at the beginning of the Surahs is fourteen: Alif, Lam, Mim, Sad, Ra, Kaf, Ha, Ya, Ayn, Ta, Sin, Ha, Qaf, Nun. So glorious is He Who made everything subtly reflect His wisdom. Moreover, the scholars said, "There is no doubt that Allah did not reveal these letters for jest and play." Some ignorant people said that; some of the Qur'an does not mean anything, (meaning, such as these letters) thus committing a major mistake. On the contrary, these letters carry a specific meaning. Further, if we find an authentic narration leading to the Prophet that explains these letters, we will embrace the Prophet's statement. Otherwise, we will stop where we were made to stop and will proclaim, امَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا (We believe in it; all of it (clear and unclear verses) is from our Lord), (3:7). The scholars did not agree on one opinion or explanation regarding this subject. Therefore, whoever thinks that one scholar's opinion is correct, he is obliged to follow it, otherwise it is better to refrain from making any judgment on this matter. Allah knows best. Show more
حروف مقطعات اور ان کے معنی الم جیسے حروف مقطعات ہیں جو سورتوں کے اول میں آئے ہیں ان کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے بعض تو کہتے ہیں ان کے معنی صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہیں اور کسی کو معلوم نہیں ۔ اس لئے وہ ان حروف کی کوئی تفسیر نہیں کرتے ۔ قرطبی نے حضرت ابو بکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان ، ... حضرت علی ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے ہی نقل کیا ہے ۔ عامر ، شعبی ، سفیان ثوری ، ربیع بن خیثم رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں ابو حاتم بن حبان کو بھی اسی سے اتفاق ہے بعض لوگ ان حروف کی تفسیر بھی کرتے ہیں لیکن ان کی تفسیر میں بہت کچھ اختلاف ہے ۔ عبدالرحمن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں یہ سورتوں کے نام ہیں ۔ علامہ ابو القاسم محمود بن عمر زمحشری اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں اکثر لوگوں کا اسی پر اتفاق ہے ۔ سیبویہ نے بھی یہی کہا ہے اور اس کی دلیل بخاری و مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن صبح کی نماز میں الم السجد اور ہل اتی علی الانسان پڑھتے تھے ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں الم اور حم اور المص اور ص یہ سب سورتوں کی ابتداء ہے جن سے یہ سورتیں شروع ہوتی ہیں ۔ انہی سے یہ بھی منقول ہے کہ الم قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ہے ۔ حضرت قتادہ اور حضرت زید بن اسلم کا قول بھی یہی ہے کہ اور شاید اس قول کا مطلب بھی وہی ہے جو حضرت عبدالرحمن بن زید اسلم فرماتے ہیں کہ یہ سورتوں کے نام ہیں اس لئے کہ ہر سورت کو قرآن کہہ سکتے ہیں اور یہ نہیں ہو سکتا کہ سارے قرآن کا نام المص ہو کیونکہ جب کوئی شخص کہے کہ میں نے سورۃ المص پڑھی تو ظاہر یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس نے سورۃ اعراف پڑھی نہ کہ پورا قرآن واللہ اعلم ۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نام ہیں ۔ حضرت شعب سالم بن عبداللہ اسماعیل بن عبدالرحمن سدی کبیر یہی کہتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ الم اللہ تعالیٰ کا بڑا نام ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ حم ، طس اور الم یہ سب اللہ تعالیٰ کے بڑے نام ہیں ۔ حضرت علی اور حضرت ابن عباس دونوں سے یہ مروی ہے ۔ ایک اور روایت میں ہے یہ اللہ تعالیٰ کی قسم ہے اور اس کا نام بھی ہے ۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں یہ قسم ہے ۔ ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ اس کے معنی انا اللہ اعلم ہیں یعنی میں ہی ہوں اللہ زیادہ جاننے والا ۔ حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے ۔ ابن عباس ، ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ سے روایت ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے الگ الگ حروف ہیں ۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں کہ یہ تین حرف الف اور لام اور میم انتیس حرفوں میں سے ہیں جو تمام زبانوں میں آتے ہیں ۔ ان میں سے ہر ہر حرف اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کی بلا کا ہے اور اس میں قوموں کی مدت اور ان کے وقت کا بیان ہے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تعجب کرنے پر کہا گیا تھا کہ وہ لوگ کیسے کفر کریں گے ان کی زبانوں پر اللہ تعالیٰ کے نام ہیں ۔ اس کی روزیوں پر وہ پلتے ہیں ۔ الف سے اللہ کا نام اللہ شروع ہوتا ہے اور لام سے اس کا نام لطیف شروع ہوتا ہے اور میم سے اس کا نام مجید شروع ہوتا ہے اور الف سے مراد آلا یعنی نعمتیں ہیں اور لام سے مراد اللہ تعالیٰ کا لطف ہے اور میم سے مراد اللہ تعالیٰ کا مجد یعنی بزرگی ہے ۔ الف سے مراد ایک سال ہے لام سے تیس سال اور میم سے چالیس سال ( ابن ابی حاتم ) امام ابن جریر نے ان سب مختلف اقوال میں تطبیق دی ہے یعنی ثابت کیا ہے کہ ان میں ایسا اختلاف نہیں جو ایک دوسرے کے خلاف ہو ۔ ہو سکتا ہے یہ سورتوں کے نام بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ کے نام بھی ، سورتوں کے شروع کے الفاظ بھی ہوں اور ان میں سے ہر ہر حرف سے اللہ تعالیٰ کے ایک ایک نام کی طرف اشارہ ، اور اس کی صفتوں کی طرف اور مدت وغیرہ کی طرف بھی ہو ۔ ایک ایک لفظ کئی کئی معنی میں آتا ہے ۔ جیسے لفظ امتہ کہ اس کے ایک معنی ہیں ۔ دین جیسے قرآن میں ہے آیت ( اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓي اُمَّةٍ وَّ اِنَّا عَلٰٓي اٰثٰرِهِمْ مُّهْتَدُوْنَ ) 43 ۔ الزخرف:22 ) ہم نے اپنے باپ دادوں کو اسی دین پر پایا ۔ دوسرے معنی ہیں ۔ اللہ کا اطاعت گزار بندہ ۔ جیسے فرمایا آیت ( اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا ) 16 ۔ النحل:120 ) یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے مطیع اور فرمانبردار اور مخلص بندے تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے ۔ تیسرے معنی ہیں جماعت ، جیسے فرمایا آیت ( وَجَدَ عَلَيْهِ اُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُوْنَ ) 28 ۔ القصص:23 ) یعنی ایک جماعت کو اس کنویں پر پانی پلاتے ہوئے پایا ۔ اور جگہ ہے آیت ( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا ) 16 ۔ النحل:36 ) یعنی ہم نے ہر جماعت میں کوئی رسول یقینا بھیجا ۔ چوتھے معنی ہیں مدت اور زمانہ ۔ فرمان ہے آیت ( وَادَّكَرَ بَعْدَ اُمَّةٍ ) 12 ۔ یوسف:45 ) یعنی ایک مدت کے بعد اسے یاد آیا ۔ پس جس طرح یہاں ایک لفظ کے کئی معنی ہوئے اسی طرح ممکن ہے کہ ان حروف مقطعہ کے بھی کئی معنی ہوں ۔ امام ابن جریر کے اس فرمان پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابو العالیہ نے جو تفسیر کی ہے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ یہ ایک لفظ ، ایک ساتھ ، ایک ہی جگہ ان سب معنی میں ہے اور لفظ امت وغیرہ جو کئی کئی معنی میں آئے ہیں جنہیں اصطلاح میں الفاظ مشترکہ کہتے ہیں ۔ ان کے معنی ہوتے ہیں جو عبارت کے قرینے سے معلوم ہو جاتے ہیں ایک ہی جگہ سب کے سب معنی مراد نہیں ہوتے اور سب کو ایک ہی جگہ محمول کرنے کے مسئلہ میں علماء اصول کا بڑا اختلاف ہے اور ہمارے تفسیری موضوع سے اس کا بیان خارج ہے واللہ اعلم ۔ دوسرے یہ کہ امت وغیرہ الفاظ کے معنی ہی بہت سارے ہیں اور یہ الفاظ اسی لئے بنائے گئے ہیں کہ بندش کلام اور نشست الفاظ سے ایک معنی ٹھیک بیٹھ جاتے ہیں ایک حرف کی دلالت ایک ایسے نام پر ممکن ہے جو دوسرے ایسے نام پر بھی دلالت کرتا ہو اور ایک کو دوسرے پر کوئی فضیلت نہ ہو تو مقدر ماننے سے نہ ضمیر دینے سے نہ وضع کے اعتبار سے اور نہ کسی اور اعتبار سے ایسی بات علمی طور پر تو نہیں سمجھی جا سکتی البتہ اگر منقول ہو تو اور بات ہے لیکن یہاں اختلاف ہے اجماع نہیں ہے اس لئے یہ فیصلہ قابل غور ہے ۔ اب بعض اشعار عرب کے جو اس بات کی دلیل میں پیش کئے جاتے ہیں ایک کلمہ کو بیان کرنے کے لئے صرف اس کا پہلا حرف بول دیتے ہیں ۔ یہ ٹھیک ہے لیکن ان شعروں میں خود عبارت ایسی ہوتی ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے ۔ ایک حرف کے بولتے ہی پورا کلمہ سمجھ میں آ جاتا ہے لیکن یہاں ایسا بھی نہیں واللہ اعلم قرطبی کہتے ہیں ایک حدیث میں ہے کہ جو مسلمان قتل پر آدھے کلمہ سے بھی مدد کرے مطلب یہ ہے کہ اقتل پورا نہ کہے بلکہ صرف اق کہے مجاہد کہتے ہیں ۔ سورتوں کے شروع میں جو حروف ہیں مثلاً ق ، ص ، حم ، طسم الر وغیرہ یہ سب حروف ہجا ہیں ۔ بعض عربی دان کہتے ہیں کہ یہ حروف الگ الگ جو اٹھائیس ہیں ان میں سے چند ذکر کر کے باقی کو چھوڑ دیا گیا ہے جیسے کوئی کہے کہ میرا بیٹا اب ت ث لکھتا ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ تمام اٹھائیس حروف لکھتا ہے لیکن ابتدا کے چند حروف ذکر کر دئیے اور باقی کو چھوڑ دیا ۔ سورتوں کے شروع میں اس طرح کے کل چودہ حروف آئے ہیں ۔ ا ل م ص و ک ہ ی ع ط س ح ق ن ان سب کو اگر ملا لیا جائے تو یہ عبارت بنتی ہے ۔ نص حکیم قاطع لہ سر تعداد کے لحاظ سے یہ حروف چودہ ہیں اور جملہ حروف اٹھائیس ہیں اس لئے یہ آدھے ہوئے بقیہ جن حروف کا ذکر نہیں کیا گیا ان کے مقابلہ میں یہ حروف ان سے زیادہ فضیلت والے ہیں اور یہ صناعت تصریف ہے ایک حکمت اس میں یہ بھی ہے کہ جتنی قسم کے حروف تھے اتنی قسمیں باعتبار اکثریت کے ان میں آ گئیں یعنی مہموسہ مجہورہ وغیرہ ۔ سبحان اللہ ہر چیز میں اس مالک کی حکمت نظر آتی ہے یہ یقینی بات ہے کہ اللہ کا کلام لغو ، بیہودہ ، بیکار ، بےمعنی الفاظ سے پاک ہے جو جاہل لوگ کہتے ہیں کہ سرے سے ان حروف کے کچھ معنی ہی نہیں وہ بالکل خطا پر ہیں ۔ اس کے کچھ نہ کچھ معنی یقیناً ہیں اگر نبی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے معنی کچھ ثابت ہوں تو ہم وہ معنی کریں گے اور سمجھیں گے ورنہ جہاں کہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ معنی بیان نہیں کئے ہم بھی نہ کریں گے اور ایمان لائیں گے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تو اس بارہ میں ہمیں کچھ نہیں ملا اور علماء کا بھی اس میں بیحد اختلاف ہے ۔ اگر کسی پر کسی قول کی دلیل کھل جائے تو خیر وہ اسے مان لے ورنہ بہتر یہ ہے کہ ان حروف کے کلام اللہ ہونے پر ایمان لائے اور یہ جانے کہ اس کے معنی ضرور ہیں جو اللہ ہی کو معلوم ہیں اور ہمیں معلوم نہیں ہوئے ۔ دوسری حکمت ان حروف کے لانے میں یہ بھی ہے کہ ان سے سورتوں کی ابتداء معلوم ہو جائے لیکن یہ وجہ ضعیف ہے اس لئے کہ اس کے بغیر ہی سورتوں کی جدائی معلوم ہو جاتی ہے جن سورتوں میں ایسے حروف ہی نہیں کیا ان کی ابتداء انتہا معلوم نہیں؟ پھر سورتوں سے پہلے بسم اللہ کا پڑھنے اور لکھنے کے اعتبار سے موجود ہونا کیا ایک سورت کو دوسری سے جدا نہیں کرتا ؟ امام ابن جریر نے اس کی حکمت یہ بھی بیان کی ہے کہ چونکہ مشرکین کتاب اللہ کو سنتے ہی نہ تھے اس لئے انہیں سنانے کے لئے ایسے حروف لائے گئے تاکہ جب ان کا دھیان کان لگ جائے تو باقاعدہ تلاوت شروع ہو لیکن یہ وجہ بھی بودی ہے اس لئے اگر ایسا ہوتا تو تمام سورتوں کی ابتدا انہی حروف سے کی جاتی حالانکہ ایسا نہیں ہوا ۔ بلکہ اکثر سورتیں اس سے خالی ہیں پھر جب کبھی مشرکین سے کلام شروع ہو یہی حروف چاہئیں ۔ نہ کہ صرف سورتوں کے شروع میں ہی یہ حروف ہوں ۔ پھر اس پر بھی غور کر لیجئے کہ یہ سورت یعنی سورۃ بقرہ اور اس کے بعد کی سورت یعنی سورۃ آل عمران یہ تو مدینہ شریف میں نازل ہوتی ہیں اور مشرکین مکہ ان کے اترنے کے وقت وہاں تھے ہی نہیں پھر ان میں یہ حروف کیوں آئے؟ ہاں یہاں پر ایک اور حکمت بھی بیان کی گئی ہے کہ ان حروف کے لانے میں قرآن کریم کا ایک معجزہ ہے جس سے تمام مخلوق عاجز ہے باوجود یہ کہ یہ حروف بھی روزمرہ کے استعمالی حروف کے لانے میں قرآن کریم کا ایک معجزہ ہے جس سے تمام مخلوق عاجز ہے باوجود یہ کہ یہ حروف بھی روزمرہ کے استعمالی حروف سے ترکیب دئیے گئے ہیں لیکن مخلوق کے کلام سے بالکل نرالے ہیں ۔ مبرد اور محققین کی ایک جماعت اور فراء اور قطرب سے بھی یہی منقول ہے زمخشری نے تفسیر کشاف میں اس قول کو نقل کر کے اس کی بہت کچھ تائید کی ہے ۔ شیخ امام علامہ ابو العباس حضرت ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ مجتہد ابو الحاج مزی نے بھی یہی حکمت بیان کی ہے ۔ زمحشری فرماتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام حروف اکٹھے نہیں آئے ہاں ان حروف کو مکرر لانے کی یہ وجہ ہے کہ بار بار مشرکین کو عاجز اور لاجواب کیا جائے اور انہیں ڈانٹا اور دھمکایا جائے جس طرح قرآن کریم میں اکثر قصے کئی کئی مرتبہ لائے گئے ہیں اور بار بار کھلے الفاظ میں بھی قرآن کے مثل لانے میں ان کی عاجزی کا بیان کیا گیا ہے ۔ بعض جگہ تو صرف ایک حرف آیا ہے جیسے ص ن ق کہیں دو حروف آئے ہیں جیسے حم کہیں تین حروف آئے ہیں جیسے الم کہیں چار آئے ہیں جیسے المر اور المص اور کہیں پانچ آئے ہیں جیسے کھیعص اور حمعسق اس لئے کہ کلمات عرب کے کل کے کل اسی طرح پر ہیں یا تو ان میں ایک حرفی لفظ ہیں یا دو حرفی یا سہ حرفی یا چار حرفی یا پانچ حرفی کے پانچ حرف سے زیادہ کے کلمات نہیں ۔ جب یہ بات ہے کہ یہ حروف قرآن شریف میں بطور معجزے کے آئے ہیں تو ضروری تھا کہ جن سورتوں کے شروع میں یہ حروف آئے ہیں وہاں ذکر بھی قرآن کریم کا ہو اور قرآن کی بزرگی اور بڑائی بیان ہو چنانچہ ایسا ہی انتیس سورتوں میں یہ واقع ہوا ہے سنئے فرمان ہے آیت ( الۗمّۗ Ǻ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ Ą ) 2 ۔ البقرۃ:2-1 ) یہاں بھی ان حروف کے بعد ذکر ہے کہ اس قرآن کے اللہ جل شانہ کا کلام ہونے میں کوئی شک نہیں اور جگہ فرمایا آیت ( الۗـۗمَّ Ǻۙ اللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ الْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ Ąۭ نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَاَنْزَلَ التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ Ǽۙ ) 3 ۔ آل عمران:3-2-1 ) وہ اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ اور دائم قائم ہے جس نے تم پر حق کے ساتھ یہ کتاب تھوڑی تھوڑی نازل فرمائی ہے جو پہلے کی کتابوں کی بھی تصدیق کرتی ہے یہاں بھی ان حروف کے بعد قرآن کریم کی عظمت کا اظہار کیا گیا ۔ اور جگہ فرمایا آیت ( الۗمّۗصۗ Ǻۚ كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَيْكَ فَلَا يَكُنْ فِيْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنْذِرَ بِهٖ وَذِكْرٰي لِلْمُؤْمِنِيْنَ Ą ) 7 ۔ الاعراف:2-1 ) یعنی یہ کتاب تیری طرف اتاری گئی ہے تو اپنا دل تنگ نہ رکھ اور جگہ فرمایا آیت ( الر کتاب انزلنا الیک ) الخ یہ کتاب ہم نے تیری طرف نازل کی تاکہ تو لوگوں کو اپنے رب کے حکم سے اندھیروں سے نکال کر اجالے میں لائے ۔ ارشاد ہوتا ہے آیت ( الۗمّۗ Ǻۚ تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ لَا رَيْبَ فِيْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ Ąۭ ) 32 ۔ السجدہ:2-1 ) اس کتاب کے رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔ فرماتا ہے آیت ( حٰـمۗ Ǻۚ تَنْزِيْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ Ąۚ ) 41 ۔ فصلت:2-1 ) بخششوں اور مہربانیوں والے اللہ نے اسے نازل فرمایا ہے آیت ( حمعسق کذلک یوحی الیک ) الخ یعنی اسی طرح وحی کرتا ہے اللہ تعالیٰ غالب حکمتوں والا تیری طرف اور ان نبیوں کی طرف جو تجھ سے پہلے تھے ، اسی طرح اور ایسی سورتوں کے شروع کو بہ غور دیکھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان حروف کے بعد کلام پاک کی عظمت و عزت کا ذکر ہے جس سے یہ بات قوی معلوم ہوتی ہے کہ یہ حروف اس لئے لائے گئے ہیں کہ لوگ اس کے لئے معارضے اور مقابلے میں عاجز ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان حروف سے مدت معلوم کرائی گئی ہے اور فتنوں لڑائیوں اور دوسرے ایسے ہی کاموں کے اوقات بتائے گئے ہیں ۔ لیکن یہ قول بھی بالکل ضعیف معلوم ہوتا ہے اس کی دلیل میں ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے ۔ لیکن اول تو وہ ضعیف ہے دوسرے اس حدیث سے اس قول کی پختگی کا ایک طرف اس کا باطل ہونا زیادہ ثابت ہوتا ہے ۔ وہ حدیث محمد بن اسحاق بن یسار نے نقل کی ہے جو تاریخ کے مصنف ہیں ۔ اس حدیث میں ہے کہ ابو یاسر بن اخطب یہودی اپنے چند ساتھیوں کو لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا آپ اس وقت سورۃ بقرہ کی شروع آیت ( الۗمّۗ Ǻ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ ٻ فِيْهِ ڔ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ Ą ) 2 ۔ البقرۃ:2-1 ) تلاوت فرما رہے تھے وہ اسے سن کر اپنے بھائی حی بن اخطب کے پاس آیا اور کہا میں نے آج حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے ۔ وہ پوچھتا ہے تو نے خود سنا ؟ اس نے کہا ہاں میں نے خود سنا ہے ۔ حی ان سب یہودیوں کو لے کر پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ سچ ہے کہ آپ اس آیت کو پڑھ رہے تھے ۔ آپ نے فرمایا ہاں سچ ہے ۔ اس نے کہا سنئے! آپ سے پہلے جتنے نبی آئے کسی کو بھی نہیں بتایا گیا تھا ۔ کہ اس کا ملک اور مذہب کب تک رہے گا لیکن آپ کو بتا دیا گیا پھر کھڑا ہو کر لوگوں سے کہنے لگا سنو! الف کا عدد ہوا ایک ، لام کے تیس ، میم کے چالیس ۔ کل اکہتر ہوئے ۔ کیا تم اس نبی کی تابعداری کرنا چاہتے ہو جس کے ملک اور امت کی مدت کل اکہتر سال ہو پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہو کر دریافت کیا کہ کیا کوئی اور آیت بھی ایسی ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں المص ۔ کہنے لگا یہ بڑی بھاری اور بہت لمبی ہے ۔ الف کا ایک ، لام کے تیس ، میم کے چالیس ، صواد کے نوے یہ سب ایک سو اکسٹھ سال ہوئے ۔ کہا اور کوئی بھی ایسی آیت ہے ۔ آپ نے فرمایا ہاں ۔ الر کہنے لگا یہ بھی بہت بھاری اور لمبی ہے ۔ الف کا ایک ، لام کے تیس اور رے کے دو سو ۔ جملہ دو سو اکتیس برس ہوئے ۔ کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی ایسی ہے ۔ آپ نے فرمایا المر ہے کہا یہ تو بہت ہی بھاری ہے الف کا ایک ، لام کے تیس ، میم کے چالیس ، رے کے دو سو ، سب مل کر دو سو اکہتر ہوگئے ۔ اب تو کام مشکل ہو گیا اور بات خلط ملط ہو گئی ۔ لوگو اٹھو ۔ ابو یاسر نے اپنے بھائی سے اور دوسرے علماء یہود سے کہا ۔ کیا عجب کہ ان سب حروف مجموعہ کی مدت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا ہو اکہتر ایک ، سو ایک ، سو اکتیس ایک ، دو سواکتیس ایک ، دو سو اکہتر ایک ، یہ سب مل کر سات سو چار برس ہوئے ۔ انہوں نے کہا اب کام خلط ملط ہو گیا ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آیتیں انہی لوگوں کے حق میں نازل ہوئیں آیت ( ھُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ ) 3 ۔ آل عمران:7 ) یعنی وہی اللہ جس نے تجھ پر یہ کتاب نازل فرمائی جس میں محکم آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور دوسری آیتیں مشابہت والی بھی ہیں ۔ اس حدیث کا دارومدار محمد بن سائب کلبی پر ہے اور جس حدیث کا یہ اکیلا راوی ہو محدثین اس سے حجت نہیں پکڑتے اور پھر اس طرح اگر مان لیا جائے اور ہر ایسے حرف کے عدد نکالے جائیں تو جن پر چودہ حروف کو ہم نے بیان کیا ان کے عدد بہت ہو جائیں گے اور جو حروف ان میں سے کئی کئی بار آئے ہیں اگر ان کے عدد کا شمار بھی کئی کئی بار لگایا جائے تو بہت ہی بڑی گنتی ہو جائے گی ۔ واللہ اعلم Show more
حافظ عماد الدین ابن کثیر۔
نام نسب : اسماعیل کنیت : ابوالفداء لقب : عماد الدین اور ابن کثیر عرف ہے
سلسلہ نسب یہ ہے : اسماعیل بن عمر بن کثیر بن ضوء بن ذرع القیسی البصروی ثم الدمشقی
آپ ایک معزز اور علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔ آپ کے والد شیخ ابوحفص شہاب الدین عمر اپنی بستی خطیب تھے آپ کے بڑے بھائی شیخ عبدالوہاب ایک ممتاز عالم اور فقیہ تھے۔
ولادت و تعلیم و تربیت : آپ کی ولادت ٧٠٠ ھ میں بمقام مجدل ہوئی جو ملک شام کے مشہور بصریٰ کے اطراف میں ایک قریہ ہے ، اس وقت آپ کے والد یہاں کے خطیب تھے ، ابھی آپ تیسرے یا چوتھے برس میں ہی تھے کہ والد بزرگوار نے ٧٠٣ ھ میں وفات پائی اور نہایت ہی کم سنی میں آپ یتیمی کا داغ اٹھانا پڑا، باپ کا سایہ سر سے اٹھا تو بڑے نے اپنی آغوش تربیت میں لے لیا ۔ والد کی وفات کے تین سال بعد یعنی ٧٠٦ ھ میں آپ اپنے برادر بزرگوار کے ساتھ دمشق چلے آئے اور پھر یہیں آپ کی نشو و نما ہوئی ، ابتدا میں اپنے بڑے بھائی سے فقہ کی تعلیم پائی بعد کو شیخ برھان الدین ابراہیم بن عبدالرحمن فرازی معروف بہ ابن فرکاح شارخ تنبیہ المتوفی ٧٢٩ ھ اور شیخ کمال الدین قاضی شہبہ سے اس فن کی تکمیل کی ، اس زمانہ میں دستور تھا کہ طالب علم جس فن کو حاصل کرتا اس فن کی کوئی مختصر کتاب زبانی یاد کرلیتا۔ چناچہ آپ نے بھی فقہ کی التنبیہ فی فروع الشافعیہ ، مصنفہ شیخ ابواسحاق شیرازی المتوفی ٤٧٦ ھ کو حفظ کرکے ٧١٨ ھ میں سنادیا اور اصول فقہ میں علامہ ابن حاجب مالکی المتوفی ٧٤٦ ھ کی مختصر کو زبانی یاد کیا۔ اصول کی کتابیں آپ نے علامہ شمس الدین محمود بن عبدالرحمن اصفہانی شارح مختصر ابن حاجب المتوفی ٧٤٩ ھ سے پڑھی تھیں۔
فن حدیث کی تکمیل آپ نے اس عہد کے مشہور اساتذہ فن سے کی تھی ، علامہ سیوطی ، ذیل تذکرہ الحفاظ میں لکھتے ہیں ۔ سمع الحجازوالطبقۃ یعنی حجاز اور اس طبقہ کے علماء سے آپ نے سماع حدیث کیا۔
حجاز کے ہم طبقہ وہ علماء جن سے آپ نے علم حدیث حاصل کیا اور جن کا ذکر خصوصیت سے آپ کے تذکرہ میں علماء نے کیا ہے وہ حسب ذیل ہیں (١) عیسیٰ بن المعطعم ّ (٢) بہاؤالدین قاسم بن عساکر المتوفی ٧٢٣ ھ (٣) عفیف الدین اسحاق بن یحییٰ الامدی المتوفی ٧٢٥ ھ (٤) محمد بن زراد (٥) بدرالدین محمد بن ابراہیم معروف بہ ابن سویدی المتوفی ٧١١ ھ (٦) ابن الرضی (٧) حافظ مزی (٨) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (٩) حافظ ذہبی (١٠) عمادالدین محمد بن الشیرازی المتوفی ٧٤٩ ھ۔
لیکن ان تمام حضرات میں سب سے زیادہ جس سے آپ کو استفاد ہ کا موقع ملا وہ محدث شام حافظ جمال الدین یوسف بن عبدالرحمن مزی شافعی مصنف تہذیب الکمال المتوفی ٧٤٢ ھ ہیں ۔ حافظ مزی نے خصوصی تعلق کی بناء پر اپنی صاحبزادی کا آپ سے نکاح کردیا تھا ۔ اس رشتہ نے اس تعلق کو اور زیادہ استوار کردیا۔ سعادت مند شاگرد نے اپنے محترم استاذ کی شفقت سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ، مدت مدید تک حاضر خدمت رہے اور ان کی اکثر تصانیف کا جس میں تہذیب الکمال بھی داخل ہے بھی داخل ہے ، خود ان سے سماع کیا اور اس فن کی پوری تکمیل ان ہی کی خدمت میں رہ کر کی
چنانچہ سیوطی لکھتے ہیں وتخرج بالمزی ولازمہ وبرع۔ اسی طرح شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ المتوفی ٧٢٨ ھ سے بھی آپ نے بہت کچھ علم حاصل کیا تھا اور عرصہ تک ان کی صحبت میں رہے تھے۔
حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ مصر سے آپ کو دیوسی ، وانی اور ختنی وغیرہ نے حدیث کی اجازت دی تھی۔
منزلت علمی : امام ابن کثیر کو علم حدیث کے علاوہ فقہ ، تفسیر ، تاریخ اور عربیت میں بھی کمال حاصل تھا ، چناچہ علامہ ابن العماد حنبلی ، ابن حبیب سے ناقل ہیں ۔ انتھت الیہ ریاستہ العلم فی التاریخ و الحدیث والتفسیر (ان پر تاریخ ، حدیث اور تفسیر میں ریاست علمی ختم ہوگئی۔
درس وافتاء ، ذکر الٰہی شگفتہ مزاجی :۔ حافظ ابن کثیر کی تمام عمر درس وافتاء اور تصنیف و تالیف میں بسر ہوئی ۔ حافظ ذہبی کی وفات کے بعد مدرسہ ام صالح اور مدرسہ تنکریہ (جو اس زمانہ میں علم حدیث کے مشہور مدرسے تھے ) میں آپ شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز رہے ، بڑے ذاکر شاغل تھے ، چناچہ ابن حبیب نے آپ کے متعلق لکھا کہ امام ذی التسبیح والتھلیل طبیعت بڑی شگفتہ پائی تھی ۔ لطیفہ گو اور بذلہ سنج تھے ، حافظ ابن حجر نے آپ کے اوصاف میں حسن الفاکہۃ کے الفاظ استعمال کئے ہیں ، یعنی بڑا پر لطف مزاح کیا کرتے تھے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ سے خصوصی تعلق : اخیر میں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ حافظ ابن کثیر کو اپنے استاذ علامہ ابن تیمیہ سے خصوصی تعلق تھا ، جس نے آپ کی علمی زندگی پر گہرا اثر ڈالا تھا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آپ بعض ان مسائل میں بھی امام ابن تیمیہ سے متاثر تھے جن میں وہ جمہور سلف سے متفرد ہیں ، چناچہ ابن قاضی شہبہ اپنے طبقات میں لکھتے ہیں
'' کانت لہ خصوصیۃ بابن تیمیہ مناضلتہ عنہ و اتباع لہ فی کثیر من ارایئہ وکان یفتی برایہ فی مسئلتہ الطلاق وامتحن بسبب ذالک واوذی ''۔
ان کو ابن تیمیہ کے ساتھ خصوصی تعلق تھا اور ان کی طرف سے لڑا کرتے تھے اور بہت سی آراء میں ان کی اتباع کرتے تھے چناچہ طلاق کے مسئلہ میں بھی انہی کی رائے پر فتوی دیتے تھے جس کے نتیجے میں آزمائش میں پڑے اور ستائے گئے۔
وفات :
اخیر عمر میں بینائی جاتی رہی تھی ، جمعرات کے دن شعبان کی چھبیس تاریخ ٧٧٤ ھ میں وفات پائی (رحمتہ اللہ ) اور مقبرہ صوفیہ میں اپنے محبوب استاذ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے پہلو میں دفن کئے گئے ، آپ کے کسی شاگرد نے آپ کی وفات پر بڑا درد انگیز مرثیہ لکھا ہے، جس کے دو شعر یہ ہیں
لفقدک طلاب العلوم تاسفوا وجادوابدمع لایبیدغزیر
ومزجواماء المدامع بالدما لکان قلیلا فیک یا ابن کثیر
ترجمہ (شائقین علوم تمہارے اٹھ جانے پر متاسف ہیں ، اس کثرت سے آنسو بہا رہے ہیں کہ تھمنے ہی کو نہیں آتے اور اگر وہ آنسوؤں کے ساتھ لہو بھی ملا دیتے تب بھی اے ابن کثیر تمہارے لئے تھوڑے تھے)
پسماندگان
پسماندگان میں دو صاحبزادے بڑے نامور چھوڑے تھے ، ایک زین الدین عبدالرحمن جن کی وفات ٧٩٢ ھ میں ہوئی اور دوسرے بدرالدین ابوالبقاء محمد۔ یہ بڑے پایہ کے محدث گزرے ہیں ۔ انہوں نے ٨٠٣ ھ میں بمقام رملہ وفات پائی ، ان دونوں کا ذکر حافظ بن فہد نے اپنے ذیل میں بسلسلہ وفیات کیا ہے۔
تصنیفات :
آپ نے تفسیر ، حدیث ، سیر ت اور تاریخ میں بڑی بلند پایہ تصانیف یادگار چھوڑی ہیں، یہ آپ کے اخلاص کا ثمرہ اور حسن نیت کی برکت تھی کہ بارگاہ ایزدی سے ان کو قبول عام اور شہرت دوام کی مسند عطا ہوئی، مورخین نے آپ کے تصانیف کی افادیت اور ان کی قبولیت کا ذکر خاص طور سے کیا ہے ، ذہبی لکھتے ہیں ، ولہ تصانیف مفیدۃ ابن حجر کہتے ہیں ۔
'' سادت تصانیفہ فی البلادفی حیاتہ وانتفع الناس بھا بعد وفاتہ ''
ان کی زندگی میں ان کی تصانیف شہر شہر جا پہنچیں اور ان کی وفات کے بعد لوگ ان سے نفع اندوز ہوتے رہے۔
آپ کی جن تصانیف پر ہمیں اطلاع ملی ہے وہ حسب ذیل ہیں۔
(١) تفسیر القرآن العظیم : جس کے متعلق حافظ سیوطی تصریح کرتے ہیں کہ اس طرز پر دوسری تفسیر نہیں لکھی گئی ، یہ تفسیر بالروایہ میں سب سے زیادہ مفید ہے۔
(٢) البدایہ والنہایہ : یہ فن تاریخ میں ان کی بیش بہا تصانیف ہیں اور مصر سے طبع ہو کر شائع ہوچکی ہے اس میں ابتدائے کائنات سے لے کر احوال آخرت تک درج ہیں۔
(٣) التکمیل فی معرفتہ الثقات والضعفاء والمجاہیل :
(٤) الہدی والسنن فی احادیث المسانید والسنن : یہی کتاب ہے جو جامع المسانید کے نام سے مشہور ہے۔
(٥) طبقات الشافعیہ : اس میں فقہاء شافعیہ کا تذکرہ ہے ۔
(٦) مناقب الشافعی : یہ رسالہ امام شافعی کے حالات میں ہے ۔
(٧) تخریج احادیث ادلتہ التنبیہ۔
(٨) تخریج احادیث مختصر ابن حاجب ، التنبیہ اور مختصر یہ دونوں کتابیں وہی ہیں جن کو مصنف نے عہد طالب علمی میں حفظ کیا تھا، ان دونوں کتابوں میں کتب حدیث سے تخریج بھی لکھی ہے۔
(٩) شرح صحیح بخاری ک : اسکی تصنیف بھی شروع کی تھی مگر ناتمام رہ گئی ' کشف الطنون میں ہے کہ صرف ابتدائی ٹکڑے کی شرح ہے۔ مصنف نے اس کا ذکر اختصار علوم الحدیث میں کیا ہے۔
(١٠) الاحکام الکبیر : یہ کتاب بہت بڑے پیمانہ پر احادیث احکام میں لکھنی شروع کی تھی ' مگر کتاب الحج تک لکھ سکے تمام نہ کرسکے ' مصنف نے اختصار علوم الحدیث میں اس کتاب کا بھی ذکر کیا ہے۔
(١١) اختصار علوم الحدیث : نواب صدیق حسن خاں نے منہج الوصول فی اصطلاح احادیث الرسول میں اس کا نام الباعث الحثیث علی معرفتہ علوم الحدیث لکھا ہے ' یہ علامہ ابن صلاح المتوفی ٦٤٣ ھ کی مشہور کتاب '' علوم الحدیث '' معروف بہ مقدمہ ابن صلاح کا جو اصول حدیث میں ہے ' اختصار ہے ' مصنف نے اس میں جابجا مفید اضافے کئے ہیں ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی اس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں ولہ فیہ فوائد (اس کتاب میں حافظ ابن کثیر کے بہت سے افادات ہیں ۔ )
(١٢) مسند الشیخین : اس میں شیخین یعنی حضرت ابوبکر و عمر (رض) سے جو حدیثیں مروی ہیں انکو جمع کیا گیا ہے۔ مصنف نے اختصار علوم الحدیث میں اپنی ایک تصنیف مسند عمر (رض) کا ذکر کیا ہے ۔ یہ معلوم نہ ہوسکا کہ آیا وہ مستقل علیحدہ کتاب ہے یا اسی کا حصہ ثانی ہے۔
(١٣) السیرۃ النبویہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : یہ سیرت پر بڑی طویل کتاب ہے۔
(١٤) الفصول فی اختصار سیرۃ الرسول : یہ سیرت پر ایک مختصر کتاب ہے ۔ مصنف نے اس کا ذکر اپنی تفسیر میں سورة احزاب کے اندر غزوہ خندق کے بیان میں کیا ہے ۔ اس کتاب کا قلمی نسخہ مدینہ منورہ میں کتب خانہ شیخ الاسلام میں موجود ہے۔
(١٥) کتاب المقدمات : اس کا ذکر مصنف نے اختصار علوم الحدیث میں کیا ہے۔
(١٦) مختصر کتاب المدخل للبیہقی : اس کا ذکر بھی اختصار الحدیث کے مقدمہ میں کیا ہے۔
(١٧) الاجتہاد فی طلب الجہاد : جب فرنگیوں نے قلعہ ایاس کا محاصرہ کیا اس وقت آپ نے یہ رسالہ امیر منجک کے لئے لکھا ' یہ رسالہ مصر سے چھپ کر شائع ہوچکا ہے۔
(١٨) رسالتہ فی فضائل القرآن : یہ رسالہ بھی تفسیر ابن کثیر کیساتھ مطبع المنار مصر میں طبع ہوچکا ہے۔
(١٩) مسند امام احمد بن حنبل کو بھی حروف پر مرتب کیا تھا اور اسکے ساتھ طبرانی کی معجم اور ابو یعلی کی مسند سے زوائد بھی درج کئے تھے ۔ امام ابن کثیر کی تمام تصانیف میں یہ خوبی عیاں ہے کہ جو کچھ لکھتے ہیں نہایت تحقیق کیساتھ لکھتے ہیں اور مفصل لکھتے ہیں ' عبارت سہل اور پیرایہ بیان دلکش ہوتا ہے۔
ف 1 الف لام میم انہیں حروف مقطعات کہا جاتا ہے، یعنی علیحدہ علیحدہ پڑھے جانے والے حروف ان کے معنی کے بارے میں کوئی مستند روایت نہیں ہے (وَاللّہ العالِمُ بمرادہ) البتہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ضرور فرمایا ہے میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف، میم ایک حرف اور لام ایک حرف ہر ح... رف پر ایک نیکی اور ایک نیکی کا اجر دس گنا ہے۔ Show more
مقدمہ
ازقلم معالی اشیخ صالح بن عبدالعزیزبن محمد آل الشیخ
وزیر اسلامی امور اوقاف اور دعوت وارشاد
نگران اعلٰی مجمع الملک فہد
خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز آل سعود حفظہ اللہ نے کتاب الہٰی کی خدمت کے سلسلہ میں جو ہدایات دی ہیں ان میں قرآن مجید کی طباعت ، وسیع پیمانے پر مسلمانان عالم میں اس کی تقسیم کے اہتمام اور دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ و تفسیر کی اشاعت پر خاص طور سے زور دیا گیا ہے۔
وزارۃالشؤون الاسلامیۃ والأوقاف والدعوۃ والارشاد
کی نظرمیں عربی زبان سے ناواقف مسلمانوں کےلئےقرآن فہمی کی راہ ہموارکرنے اور تبلیغ کی اس ذمہ داری سے عہدہ برآہونےکےلئےجورسول اکرم ﷺ کےارشادگرامی : بلغوا عنی ولوآیۃ : (میری جانب سے لوگوں تک پنچاؤخواہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو ) میں بیان کی گئی ہے، دنیا کے تمام اہم زبانوں میں قرآن مجید کے مطا لب کو منتقل کیا جانا انتہائ ضروری ہے۔
[١] فضائل سورة البقرۃ :۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ & جس گھر میں سورة البقرہ پڑھی جائے، شیطان اس گھر سے نکل جاتا ہے۔ & (مسلم، کتاب صلوۃ المسافرین و قصرھا، باب استحباب الصلوۃ النافلۃ فی بیتہ۔۔ الخ) نیز آپ نے فرمایا : & الزھراوین (دو جگمگانے والی سورتیں یعنی البقرہ ا... ور آل عمران) پڑھا کرو۔ قیامت کے دن وہ اس حال میں آئیں گی جیسے وہ دو بادل یا دو سائبان یا پرندوں کے دو جھنڈ ہیں اور وہ اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے (مغفرت کے لیے) جھگڑا کریں گی (لہٰذا) سورة البقرہ پڑھا کرو۔ اسے حاصل کرنا برکت اور چھوڑ دینا حسرت ہے اور باطل قوتیں (جادو وغیرہ) اس کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ & (مسلم، کتاب فضائل القرآن و مایتعلق بہ باب فضل قراءۃ القرآن و سورة البقرۃ) زمانہ نزول اور شان نزول :۔ مدنی سورتوں میں سب سے پہلی سورت ہے۔ مکہ میں چھیاسی (٨٦) سورتیں نازل ہوئیں اور نزولی ترتیب کے لحاظ سے اس کا نمبر ٨٧ ہے، اگرچہ اس سورة کا بیشتر حصہ ابتدائی مدنی دور میں نازل ہوا تاہم اس کی کچھ آیات بہت مابعد کے دور میں نازل ہوئیں مثلاً حرمت سود کی آیات جو ١٠ ھ کے اواخر میں نازل ہوئیں۔ سورة بقرہ کے نزول کا پس منظر :۔ مدینہ پہنچ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلا کام جو کیا وہ مسجد نبوی کی تعمیر تھی تاکہ تمام مسلمان دن میں پانچ دفعہ اکٹھے ہو کر نماز ادا کریں اور اپنے مسائل پر غور کرسکیں۔ دوسرا اہم مسئلہ مہاجرین کی آباد کاری اور ان کے معاش کا تھا جس کے لیے آپ نے مہاجرین و انصار میں سلسلہ مواخات قائم فرمایا جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ تیسرا اہم مسئلہ مدینہ کی ایک چھوٹی سی نوخیز اسلامی ریاست کے دفاع کا تھا۔ کیونکہ اب مشرکین مکہ کے علاوہ دوسرے مشرک قبائل بھی مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلے ہوئے تھے۔ خود مدینہ میں یہود مسلمانوں کے اس لیے دشمن بن گئے تھے کہ آنے والا نبی سیدنا اسحاق کی اولاد کے بجائے سیدنا اسماعیل کی اولاد سے کیوں مبعوث ہوا ہے۔ یہود کے تین قبائل بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ مدینہ میں آباد تھے جو آپس میں پھٹے ہوئے تھے اور مدینہ کے مشرکوں کے دو مشہور قبائل اوس اور خزرج کے حلیف بن کر انہیں لڑاتے رہتے تھے۔ آپ نے سب سے پہلے یہودیوں کو ہی ایک مشترکہ مفاد کی طرف دعوت دی اور وہ مفاد تھا مدینہ کا دفاع۔ جس کی اہم دفعات یہ تھیں : (١) اگر مدینہ پر باہر سے حملہ ہوا تو مسلمان اور یہود مل کر دفاع کریں گے۔ (٢) مسلمان اور یہود دونوں حصہ رسدی اخراجات برداشت کریں گے۔ (٣) مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کسی طرح کے بھی جھگڑے کی صورت میں حکم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات ہوگی۔ یہود کے لیے بظاہر ایسی شرائط کو تسلیم کرلینا ناممکن نظر آ رہا تھا۔ کیونکہ وہ مدینہ کی معیشت اور سیاست پر پوری طرح چھائے ہوئے تھے، مگر یہ اللہ کی خاص مہربانی اور ان کی باہمی نااتفاقی کا نتیجہ تھا کہ یہودی قبائل باری باری اور مختلف اوقات میں اس معاہدہ کو تسلیم کرتے چلے گئے۔ اس طرح جب یہ ریاست اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی تو مسلمانوں اور کافروں کے علاوہ ایک تیسرا مفاد پرستوں کا طبقہ بھی معرض وجود میں آگیا۔ جنہیں منافقین کا نام دیا گیا۔ اس سورة کی ابتدا میں انہیں تین گروہوں (مسلمان، کافر اور منافقین) کا ذکر ہوا ہے اور یہی اس کا زمانہ نزول ہے۔ حروف مقطعات کی بحث :۔ قرآن کی ٢٩ سورتوں کی ابتدا میں ایسے حروف استعمال ہوئے ہیں، ان میں سے مندرجہ ذیل تین یک حرفی ہیں : (١) سورة ص والقرآن ٣٨ (٢) سورة ق والقرآن ٥٠ (٣) سورة ن والقلم ٦٨ اور ٩ دو حرفی ہیں جن میں سے (٤) المومن ٤٠، حم تنزیل الکتاب (٥، ) سورة حم السجدۃ ٤١ حم تنزیل من (٦) الزخرف ٤٣ حم والکتاب المبین (٧) الدخان ٤٤ حم والکتاب المبین (٨) الجاثیہ ٤٥ حم تنزیل الکتاب (٩) الاحقاف ٤٦ حم تنزیل الکتاب (١٠) طہ ٢٠ طہ ما انزلنا (١١) النمل ٢٧ طس تلک آیت (١٢) یس ٢٦ یس والقرآن اور ١٣ سہ حرفی ہیں جو یہ ہیں : (١٣) یونس ١٠ الر تلک آیات (١٤) ھود ١١ الر کتاب احکمت (١٥) یوسف ١٢ الر تلک آیات ١٠١، ابراہیم ١٤، الر کتاب انزلنا ١٧، حجر ١٥، الم تلک آیات (١٨) البقرۃ ٢ الم ذلک الکتاب (١٩) آل عمران ٣ الم اللہ لا الہ (٢٠) عنکبوت ٢٩ الم احسب الناس (٢١) الروم ٣٠ الم غلبت الروم (٢٢) لقمان ٣١ الم تلک آیات (٢٣) السجدہ ٣٢ الم تنزیل الکتاب (٢٤) شعراء ٢٦ طسم تلک آیات (٢٥) القصص ٢٨ طسم تلک آیات اور مندرجہ ذیل ٢ چار حرفی ہیں : (٢٦) الاعراف ٧ المص کتاب انزلنہ (٢٧) الرعد ١٣ المر تلک آیات اور مندرجہ ذیل ٢ پانچ حرفی ہیں : (٢٨) مریم ١٩ کھیعص ذکر رحمۃ (٢٩) الشوریٰ ٤٢ حم عسق کذلک یوحی الیک۔ مجموعہ احادیث میں سے کوئی بھی ایسی متصل اور صحیح حدیث مذکور نہیں جو ان حروف کے معانی و مفہوم پر روشنی ڈالتی ہو۔ لہذا انہیں (وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ ) 3 ۔ آل عمران :7) کے زمرہ میں شامل کرنا ہی سب سے انسب ہے۔ ان کے متعلق جو اقوال ملتے ہیں وہ درج ذیل ہیں : ١۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ مگر احادیث صحیحہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں اور جو نام ان میں مذکور ہیں ان میں ان حروف کا ذکر نہیں۔ ٢۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے ابتدائی حصے ہیں جن کو ملانے سے اللہ تعالیٰ کا کوئی نہ کوئی نام بن جاتا ہے۔ جیسے الٰر اور حم اور ن کو ملانے سے الرحمن بن جاتا ہے۔ یہ توجیہ بھی کچھ درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ الرحمن میں بھی م اور ن کے درمیان ایک الف ہے جس کو لکھتے وقت تو کھڑی زبر سے کام چلا کر حذف کیا جاسکتا ہے مگر تلفظ میں تو حذف نہیں ہوسکتا۔ علاوہ ازیں یہ ایک لفظ تو بن گیا اب اگر مزید کوشش کی جائے تو شاید ایک آدھ لفظ اور بن جائے، سارے حروف کو اس انداز سے ترکیب دینا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے نام بن جائیں ناممکن سی بات معلوم ہوتی ہے۔ ٣۔ ایک قول یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام ہیں، اور اس سلسلہ میں بالخصوص طہ اور یس کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ توجیہ اس لحاظ سے درست نہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود جو اپنے نام بتائے ہیں وہ یہ ہیں۔ محمد، احمد، ماحی (کفر کو مٹانے والا) حاشر اور عاقب۔ (بخاری، کتاب التفسیر، تفسیر سورة صف) نیز بخاری میں مذکور ہے کہ حبشی زبان میں طہ کے معنی & اے مرد &! ہیں یا ایسا آدمی جس کی زبان سے کوئی حرف نہ نکل سکے، وہ رک رک کر یا اٹک اٹک کر بات کرے اور یہ بات اس کی زبان میں گرہ کی وجہ سے ہو اور یہ تو واضح ہے کہ رسول نعوذ باللہ ایسے نہیں تھے۔ ٤۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف قرآن کے نام ہیں، جبکہ قرآن نے اپنے نام خود ہی بتا دیئے ہیں جو یہ ہیں۔ الکتاب، کتاب مبین، قرآن، قرآن مجید، قرآن کریم، قرآن عظیم، فرقان، ذکر، تذکرہ، حدیث اور احسن الحدیث ان ناموں کی موجودگی میں ایسے ناموں کی ضرورت ہی کب رہ جاتی ہے، جن کی سمجھ ہی نہ آتی ہو۔ ٥۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف سورتوں کے نام ہیں۔ یہ قول کسی حد تک درست ہے۔ مثلاً : ص، ق، طہ، یس سورتوں کے نام بھی ہیں۔ سورة القلم کو & ن & بھی کہا گیا ہے۔ حوامیم (جمع حم) کا ذکر بھی احادیث میں ملتا ہے۔ تاہم ان میں سے بھی بیشتر سورتیں دوسرے ناموں سے ہی مشہور ہوئیں۔ جن کا ان سورتوں میں امتیازاً ذکر آیا ہے۔ پھر یہ بھی ملحوظ رہے کہ کئی سورتوں کے دو دو نام بھی مشہور ہیں۔ ٦۔ ایک قول یہ ہے کہ الفاظ میں پورے نظام رسالت کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ مثلاً الم میں الف سے مراد اللہ، ل سے مراد جبریل اور م سے مراد محمد ہیں۔ یہ بھی ایسی توجیہ ہے جسے تمام حروف مقطعات پر لاگو نہیں کیا جاسکتا۔ ٧۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف کفار کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں کہ دیکھ لو کہ انہی مفرد حروف سے تم اپنے کلام کو ترکیب دیتے ہو، پھر تمہارے اور اللہ تعالیٰ کے کلام میں اتنا فرق ہے کہ تم سب مل کر بھی قرآن کے مقابلہ میں ایک سورت بھی اس جیسی پیش نہیں کرسکتے۔ یہ توجیہ اس لحاظ سے درست نہیں کہ جب ان الفاظ کا ٹھیک مفہوم متعین ہی نہیں تو پھر چیلنج کیسا ؟ ٨۔ ایک قول یہ ہے کہ بحساب جمل ان حروف کے عدد نکال کر جمع کرنے سے اس امت کی عمر یا قیامت کی آمد کی مدت کا اشارہ پایا جاتا ہے۔ یہ توجیہ انتہائی غیر معقول ہے۔ ایک تو جمل کے حساب کی شرعاً کچھ حیثیت نہیں۔ دوسرا انسان کے پاس کوئی ایسا علم یا ایسا ذریعہ موجود ہونا ناممکنات سے ہے۔ جس سے قیامت کی آمد کے مخصوص وقت کا حساب لگایا جاسکے۔ ٩۔ ایک قول یہ ہے کہ حروف طویل جملوں یا ناموں کے ابتدائی حروف یا مخففات ہیں اور ان کا مفہوم صرف رسول ہی جانتے تھے اور کوئی نہیں جان سکتا۔ گویا یہ عبد اور معبود کے درمیان راز و نیاز کی باتیں ہیں۔ یہ ایسی توجیہ ہے جس کے متعلق ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ واللہ اعلم بالصواب۔ ١٠۔ اور ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے سر بستہ راز ہیں جو اگرچہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں تاہم ان پر مطلع ہونا انسان کے بس کی بات نہیں۔ یہی وہ توجیہ ہے جس کی طرف ہم نے ابتدا میں اشارہ کردیا ہے اور یہی توجیہ سب سے انسب معلوم ہوتی ہے۔ ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی بعض ایسی صفات مذکور ہیں جن کا سمجھنا انسانی عقل کی بساط سے باہر ہے اور ان پر کسی عمل کی بنیاد بھی نہیں اٹھتی۔ رہی یہ بات کہ صحابہ کرام (رض) کو جس بات کی سمجھ نہیں آتی تھی تو فوراً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھ لیا کرتے تھے اور چونکہ صحابہ کرام (رض) نے ان حروف کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کبھی استفسار نہیں کیا لہذا معلوم ہوا کہ عربی زبان میں حروف مقطعات کا رواج عام تھا اور صحابہ کرام (رض) ان کے معانی بھی خوب جانتے تھے۔ پھر عربی ادب سے کچھ شاذ قسم کی مثالیں بھی پیش کی جاتی ہیں تو یہ خیال درست نہیں جب قرآنی آیات کی پوری تشریحات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صحابہ کرام (رض) کے ذریعہ ہم تک پوری صحت کے ساتھ پہنچ چکی ہیں تو پھر آخر ان حروف کی تشریح و تفسیر ہی ہم تک کیوں نہیں پہنچی۔ بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام (رض) خوب سمجھتے تھے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے ایسے راز یا صفات ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی جان نہیں سکتا۔ کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ کسی صحابی نے آپ سے یہ پوچھا ہو کہ اللہ تعالیٰ جب ہم میں سے ہر ایک کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے تو پھر وہ عرش پر کیسے متمکن ہے ؟ یا جب وہ بوقت سحر آسمان سے دنیا پر نزول فرماتا ہے تو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب کے کیا معنی ؟ ہرگز نہیں۔ بالکل یہی صورت ان حروف مقطعات کی بھی ہے۔ لہذا ان کے معانی و مفہوم نہ جاننے کے باوجود انہوں نے کبھی ان کے متعلق استفسار نہیں کیا تھا، کیونکہ یہ حروف متشابہات سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے لیے یہ بات ہی کافی ہے کہ اس بات پر ایمان لائیں کہ یہ بھی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں، نہ یہ مہمل ہیں، نہ زائد ہیں۔ بلکہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں۔ البتہ ان کے معانی و مفہوم جاننے کے نہ ہم مکلف ہیں اور نہ ہی ان پر کسی شرعی مسئلے کا دار و مدار ہے۔ Show more
مفسر مرحوم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مولانا عبدالرحمن کیلانی (رح)
مولانا عبدالرحمان کیلانی مرحوم بہت ہی سادہ اور دویش صفت انسان تھے انہوں نے گھر اور باہر جب بھی انہیں دیکھا سفید لباس میں دیکھا سفید لباس ' تہبند اور قمیص پر مشتمل ہو یا شلوار قمیض پر سر پر ہمیشہ سفید رومال رکھتے اور بازار جاتے وقت سیاہ رنگ کی جناح کیپ استعمال کرتے لکھنے کے لئے ہمیشہ کوئی بھی معمولی سا قلم اور سواری کے لئے سائیکل ہی استعمال کی۔ مالی طور پر خوب مستحکم تھے مگر اس کے باوجود کبھی تصنع یا بڑائی کا اظہار نہیں کیا ۔
والد مرحوم چار بھائی تھے۔ ان چار بھائیوں میں چار چار سال کا فرق تھا اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ پہلے تینوں بھائی اسی ترتیب سے چار چار سال وقفے سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ بچپن میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیوشن پڑھا کرتے اور کبھی دکان کے ذریعہ اپنے والد صاحب کا ہاتھ بٹایا ۔ ان حالات میں ہمیشہ ہر امتحان میں اعلی کامیابی اور وظیفہ حاصل کیا۔ بی اے۔ کا امتحان گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے نہ دے سکے ۔
محترم ابا جان نے فوج میں ملازمت کی اور فوج سے صرف اس بناء پر استعفیٰ دے دیا کہ یہ ملازمت داڑھی رکھنے سے مانع تھی جب کہ انہیں داڑھی منڈوانا منظور نہ تھا۔ حالانکہ محکمہ نے انہیں پر وموشن اور تنخواہ میں اضافے کا بھی لالچ دیا مگر یہ چیزیں سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ میں ان کے سامنے ہیچ تھیں۔
استعفی کے بعد کتابت کو بطور پیشہ اختیار کیا۔ ١٩٤٧ ء سے ١٩٦٥ ء تک اردو کتابت کی اور اس وقت کے سب سے بہتر ادارے ، فیروز سنز سے منسلک رہے ۔ ١٩٦٥ ے میں قرآن مجید کی کتابت شروع کی اور تاج کمپنی کے لئے کام کرتے رہے ۔ غالبا ٥٠ کے قریب قرآن مجید کی کتابت کی سعادت حاصل کی ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ١٩٧٢ ء میں حج کرنے گئے تو مکی سورتوں کی کتابت باب بلال (مسجد حرام ) میں بیٹھ کر کی اور مدنی سورتوں کی کتابت مسجد نبوی میں اصحاب صفہ کے چبوترہ پر بیٹھ کر کی ۔ الحمد للہ اس تفسیر میں قرآن مجید کی اسی بابرکت کتابت کو ہی بطور متن قرآن شائع کیا جارہا ہے۔ (ایں سعادت بزور بازو نیست ! )
١٩٨٠ ء کے بعد جب انہیں فکر معاش سے قدرے آزادی نصیب ہوئی تو تصنیف و تالیف کی طرف متوجہ ہوئے ۔ اس میدان میں بھی ماشاء اللہ علماء و مصنفین حضرات کی صف میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ مرحوم نے معاشرت ' معیشت ' سیاست ' عقائد اور جدید دینی مسائل پر تحقیق و تنقید کی اور علمی حلقوں میں داد تحسین پائی۔ ابا جان مرحوم کی تصانیف میں سے مترادفات القرآن ' آئینہ پرویزیت ' شریعت و طریقت ' خلافت و جمہوریت ' تجارت اور لین دین کے مسائل ' عقل پرستی اور انکار معجزات ' روح ' عذاب قبر اور سماع موتی ' احکام ستر و حجاب ' اسلام میں دولت کے مصارف اور الشمس والقمر بحسبان ہیں ۔ انکی وفات کے بعد جب ان کے مسودات وغیرہ دیکھے گئے تو کئی ایک غیر مطبوعہ کتب بھی ملیں جو وہ مکمل کرچکے تھے ۔ ان میں سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بحیثیت سپہ سالار طبع ہوچکی ہے ۔ '' محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبر و ثبات کے پیکر اعظم اور ایک مجلس کی تین طلاقیں اور انکا شرعی حل ' بھی زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں۔ اسکے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی ان کے مفصل علمی مقالہ جات موجود ہیں۔
آخری عمر میں وہ قرآن مجید کی ایک تفسیر لکھ رہے تھے ۔ انکی خواہش تھی کہ ا سکوخود طبع کروائیں مگر عمر نے وفا نہ کی انکی وفات کے بعد الحمد للہ اس تفسیر کو چھپوانے کا اعزاز ہمیں حاصل ہوا ہے '' تیسیرالقرآن '' نے چند ہی سالوں میں دوسری متداول تفاسیر میں اپنی امتیازی حیثیت کو تسلیم کروا لیا ہے۔ اس تفسیر میں انہوں نے آیت کے ساتھ مطابقت رکھنے والی احادیث کا با حوالہ ذکر کیا ہے اور صحاح ستہ سے ہی احادیث لی ہیں۔ مروجہ اردو تفاسیر کے انداز میں لکھی جانے والی اس تفسیر کی اضافی خوبی یہ ہے کہ حاشیہ میں ذیلی سرخیوں کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ تفسیر ٤ جلدوں میں ہے۔
محترم ابا جان نے دو دفعہ قومی سیرت کانفرنس میں صدارتی ایوارڈ حاصل کیا۔ یہ مقالے '' اصلاح معاشرہ '' اور '' پیغمبراسلام داعی امن و اخوت '' کے موضوعات پر تھے۔ مرحوم اپنی زندگی میں اتنا کام کرگئے کہ جید علماء جن کے پاس مستقل ادارے اور ملازمین ہیں حیران ہوتے ہیں کہ مرحوم کس طرح اکیلے یہ سارے کام کرتے ۔ ساتھ ہی ساتھ اتنی تحقیق اور معلوماتی کتب تصنیف کیں کہ جن سے آج تک علمی حلقے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
١٨ دسمبر ١٩٩٥ ء کو رات کا کھانا کھا رہے تھے کہ نماز عشاء کا وقت ہوگیا۔ وضو کیا اور مسجد کی طرف چل دئیے۔ جاکر پہلی صف میں دائیں طرف جگہ ملی پہلے سجدہ کے دوران روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ ساتھ والے نمازی نے اپنی نماز توڑ کر انکو پانی پلانے کی کوشش کی ۔ مگر بےسود۔۔۔۔۔ ایسی پرسکون ' اطمینان بخش موت کہ جس کی ہر مسلمان بجا طور تمنا کرسکتا ہے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین
پروفیسر نجیب الرحمن کیلانی
( تفسیر تیسیر القرآن مفصل کو مولانا عبدالرحمن کیلانی مرحوم کے چاروں بیٹوں اور چاروں بیٹوں اور ان کی دوسری زوجہ محترمہ کی طرف سے اجازت کے بعد ہم CD پر لا رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مفسر قرآن مولانا عبدالرحمن کیلانی اور ان کی پہلی زوجہ محترم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔
اس تفسیر کو محترم والد صاحب ، والدہ صاحبہ، اور ہم سب بہن بھائیوں اور ہماری دوسری والدہ محترمہ کیلئے صدقہ جاریہ بنائے ۔ عامۃ الناس کے لئے اس تفسیر کو نافع بنائے۔ آمین )
الۗمّ : کچھ سورتوں کے شروع میں جو حروف آئے ہیں انھیں مقطعات کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ الگ الگ کر کے پڑھے جاتے ہیں، ان کا معنی تو صاف ظاہر ہے کہ یہ حروف تہجی کے نام ہیں، اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ قرآن مجید میں ایسے الفاظ بھی ہیں جن کا کوئی معنی ہی نہیں، مگر یہ حروف سورتوں کے شروع میں کیوں لائے گئے ہی... ں، اس کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) سے صحیح سند کے ساتھ کوئی بات منقول نہیں۔ قرطبی (رض) نے خلفائے اربعہ اور عبداللہ بن مسعود (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ یہ حروف سر الٰہی ہیں جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، مگر اس کی سند نہ قرطبی نے ذکر کی ہے نہ کہیں اور مل سکی ہے۔ عبداللہ بن عباس اور بعض تابعین سے اس کی تاویل میں مختلف اقوال مروی ہیں، مگر صحت سند کے ساتھ ثابت نہیں۔ بعض علماء نے ان کی تفسیر میں اپنی طرف سے کچھ نکات بیان کیے ہیں، مگر وہ محض فنی کاوش ہیں، حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ سب سے قریب بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان حروف کے ذکر سے تمام دنیا کو چیلنج کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید انھی حروف تہجی میں اتارا ہے، اگر تمہیں اس کے منزل من اللہ ہونے میں شک ہے تو حروف تہجی تمہارے بھی علم اور استعمال میں ہیں تم بھی اس جیسی کوئی سورت بنا کرلے آؤ۔ اس کا قرینہ یہ ہے کہ عموماً یہ حروف جہاں بھی آئے ہیں ان کے بعد قرآن مجید، کتاب یا وحی کا ذکر آیا ہے، ابن کثیر نے فراء، مبرد، زمخشری اور دوسرے علماء کے علاوہ ابن تیمیہ کا یہی قول ذکر کیا ہے، مگر یہ بات پھر بھی باقی رہ جاتی ہے کہ کسی سورت کے شروع میں جو حروف آئے ہیں اس کے ساتھ ان کا خاص تعلق ہے، مثلاً کچھ سورتوں کے شروع میں الۗمّ “ ہے تو دوسری سورتوں کے شروع میں ” الر “ یا ” طسٓ“ وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی حکمت تک رسائی ہمارے بس سے باہر ہے اور یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ یہ ان متشابہات سے ہیں جن کی حقیقی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ Show more
ترجمہ و تفسیر القرآن الکریم
تفسیر القرآن الکریم۔ حافظ عبدالسلام بھٹوی
مصنف کا تعارف :
حافظ عبدالسلام علوم القرآن اور علوم الحدیث میں ایک مقام کے حامل ہیں۔ موصوف کا مکمل نام ابوعبدالرحمن حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی ہے۔ حافظ صاحب اگست 1946 کو گوہڑ چک نمبر 8 ضلع قصور میں پیدا ہوئے۔
تعلیم :
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے گھر سے ہی کیا۔ قرآن مجید حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ ابتدائی علوم دینیہ کا بھی سلسلہ جاری رکھا۔ پھر آپ نے میٹرک کا امتحان اعلی نمبروں سے پاس کیا۔ موصوف نے میٹرک کے بعد درس نظامی، فاضل عربی، فاضل فارسی اور فاضل طب کی تعلیم حاصل کی۔
اساتذہ :
مترجم نے ابتدائی و اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بہت سے اساتذہ سے استفادہ کیا۔ مثلاً محمد گوندلوی، مولانا محمد عبدہ الفلاح، مولانا صادق خلیل، قاری اسلم اور مولانا شریف اللہ سواتی وغیر۔ حافظ صاحب نے ترجمہ قرآن کے علاوہ اور بھی کتابیں لکھیں ہیں۔ مثلاً ایک دین چار مذہب۔ چوری کے متعلق قانون الہی، مقالات طیبہ۔ احکام زکوۃ و عشر و صدقہ فطر۔ ترجمۃ القرآن الکریم۔ شرح کتاب الطہارہ من بلوغ المرا۔ شرح کتاب الجامع من بلوغ المرا وغیرہ۔
حافظ صاحب نے 17 سال کی عمر میں تدریس کا آغاز کیا۔ 1966 سے 1992 تک جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں پڑھایا۔ اس وقت سے لے کر تاحال تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیںَ
خصوصیات ترجمہ وتفسیر :
1 ۔ تاکید کے الفاظ کا ترجمہ بھی تاکید سے کیا گیا ہے۔
2 ۔ مبالغہ کے صیغوں کا ترجمہ بھی اضافہ سے کیا گیا ہے۔
3 ۔ صیغوں کے مطابق ترجمہ کیا گیا ہے۔
4 ترجمہ کمی و بیشی کے بغیر بامحاورہ اردو زبان میں ہے۔
5 ۔ آسان فہم اور رائج اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔
6 ۔ صرف و نحو کے اصول و قواعد کو مد نظر رکھتے ہوئے عربی میں استعمال ہونے والے حروف ربط، حروف جر، وغیرہ کا بھی موقع کی مناسبت سے ترجمہ کیا گیا ہے۔
The Surah begins with the Arabic letters Alif, Lam and Mim (equivalents of A, L and M). Several Surahs begin with a similar combination of letters, for example, Ha, Mim, or Alif, Lam, Mim, Sad. Each of these letters is pronounced separately without the addition of a vowel sound after it. So, the technical term for them is مقطعات (Mugatta` at: isolated letters). According to certain commentators, ... the isolated letters are the names of the Surahs at the beginning of which they occur. According to others, they are the symbols of the Divine Names. But the majority of the blessed Companions (رض) and the generation next to them, the تابعین Tabi’ in, and also the later authoritative scholars have preferred the view that the isolated letters are symbols or mysteries, the meaning of which is known to Allah alone or may have been entrusted as a special secret to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) not to be communicated to anyone else. That is why no commentary or explanation of these letters has at all been reported from him. The great commentator Al-Qurtubi has adopted this view of the matter, which is summarized below: |"According to ` Amir Al-Sha&bi, Sufyan Al-Thawri and many masters of the science of Hadith, every revealed book contains certain secret signs and symbols and mysteries of Allah; the isolated letters too are the secrets of Allah in the Holy Qur&an, and hence they are among the مشتبہات (Mutashabihat: of hidden meaning), the meaning of which is known to Allah alone, and it is not permissible for us even to enter into any discussion with regard to them. The isolated letters are not, however, without some benefit to us. Firstly, to believe in them and to recite them is in itself a great merit. Secondly, in reciting them we receive spiritual blessings from the unseen world, even if we are not aware of the fact. AI-Qurtubi (رح) adds: |"The Blessed Caliphs Abu Bakr, ` Umar, ` Uthman and ` Ali (رض) and most of the Companions like ` Abdullah ibn Mas&ud (رض) firmly held the view that these letters are the secrets of Allah, that we should believe in them as having descended from Allah and recite them exactly in the form in which they have descended, but should not be inquisitive about their meanings, which would be improper|". Citing Al-Qurtubi and others, Ibn Kathir too prefers this view. On the other hand, interpretations of the isolated letters have been reported from great and authentic scholars. Their purpose, however, was only to provide symbolical interpretation, or to awaken the minds of the readers to the indefinite possibilities of meanings that lie hidden in the Holy Qur&an, or just to simplify things; they never wished to claim that these were the meanings intended by Allah Himself. Therefore, it would not be justifiable to challenge such efforts at interpretation since it would go against the considered judgment of veritable scholars. Show more
سورة البقرہ نام اور تعداد آیات : اس سورت کا نام سورة بقرہ ہے اور اسی نام سے حدیث اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے جس روایت میں سورة بقرہ کہنے کو منع کیا ہے وہ صحیح نہیں (ابن کثیر) تعداد آیات دو سو چھیاسی ہے اور کلمات چھ ہزار دو سو اکیس اور حروف پچیس ہزار پانسو ہیں (ابن کثیر) زمانہ نزول : یہ... سورت مدنی ہے، یعنی ہجرت مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی اگرچہ اس کی بعض آیات مکہ مکرمہ میں حج کے وقت نازل ہوئی ہیں مگر وہ بھی باصطلاح مفسرین مدنی کہلاتی ہیں، سورة بقرہ قرآن کریم کی سب سے بڑی سورت اور مدینہ طیبہ میں سب سے پہلے اس کا نزول شروع ہوا اور مختلف زمانوں میں مختلف آیتیں نازل ہوتی رہیں یہاں تک کہ ربا یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں اور اس کی ایک آیت واتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللّٰهِ (٢٨١: ٢) تو قرآن کی بالکل آخری آیت ہے جو ١٠ ھ ذی الحجہ کو منیٰ کے مقام پر نازل ہوئی جبکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے (قرطبی) اور اس کے اسّی نوّے دن کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی اور وحی الہی کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا، فضائل سورة بقرہ : یہ قرآن کریم کی سب سے بڑی سورت اور بہت سے احکام پر مشتمل ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ سورة ٔ بقرہ کو پڑھا کرو کیونکہ اس کا پڑھنا برکت ہے، اور اس کا چھوڑنا حسرت اور بدنصیبی ہے، اور اہل باطل اس پر قابو نہیں پاسکتے، قرطبی نے حضرت معاویہ سے نقل کیا ہے کہ اس جگہ اہل باطل سے مراد جادوگر ہیں مراد یہ ہے کہ اس سورت کے پڑھنے والے پر کسی کا جادو نہ چلے گا (قرطبی از مسلم بروایت ابوامامہ باہلی) اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس گھر میں سورة بقرہ پڑھی جائے شیطان وہاں سے بھاگ جاتا ہے (ابن کثیر از حاکم) اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سورة بقرہ سنام القرآن اور ذروۃ القرآن ہے سنام اور ذروہ ہر چیز کے اعلیٰ و افضل حصہ کو کہا جاتا ہے، اس کی ہر آیت کے نزول کے وقت اسی فرشتے اس کے جلو میں نازل ہوئے ہیں، (ابن کثیر از مسند احمد) اور حضرت ابوہریرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ اس سورت میں ایک آیۃ ایسی ہے جو تمام آیات قرآن میں اشرف و افضل ہے اور وہ آیت الکرسی ہے (ابن کثیر از ترمذی) حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ سورة بقرہ کی دس آیتیں ایسی ہیں کہ اگر کوئی شخص ان کو رات میں پڑھ لے تو اس رات کو جن شیطان گھر میں داخل نہ ہوگا اور اس کو اور اس کے اہل عیال کو اس رات میں کوئی آفت، بیماری رنج وغم وغیرہ ناگوار چیز پیش نہ آئے گی اور اگر یہ آیتیں کسی مجنون پر پڑھی جائیں تو اس کو افاقہ ہوجائے وہ دس آیتیں یہ ہیں چار آیتیں شروع سورة بقرہ کی پھر تین آیتیں درمیانی یعنی آیۃ الکرسی اور اس کے بعد کی دو آیتیں، پھر آخر سورة بقرہ کی تین آیتیں۔ احکام و مسائل مضامین و مسائل کے اعتبار سے بھی سورة بقرہ کو ایک خاص امتیاز حاصل ہے ابن عربی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ سورة بقرہ میں ایک ہزار امر اور ایک ہزار نہی اور ایک ہزار حکمتیں ایک ہزار خبر اور قصص ہیں (قرطبی وابن کثیر) یہی وجہ ہے کہ حضرت فاروق اعظم نے جب سورة بقرہ کو تفسیر کے ساتھ پڑھا تو اس کی تعلیم میں بارہ سال خرچ ہوئے اور حضرت عبداللہ بن عمر نے یہ سورت آ ٹھ سال میں پڑھی (قرطبی) سورة فاتحہ درحقیقت پورے قرآن کا خلاصہ ہے اس کے بنیادی مضامین تین ہیں اوّل اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، یعنی پروردگار عالم ہونے کا بیان دوسرے اس کا مستحق عبادت ہونا اور اس کے سوا کسی کا لائق عبادت نہ ہونا تیسرے طلب ہدایت سورة فاتحہ کا آخری مضمون صراط مستقیم کی ہدایت طلب کرنا ہے اور درحقیقت پورا قرآن اس کے جواب میں ہے کہ جو شخص صراط مستقیم چاہتا ہے قرآن ہی میں ملے گا، اسی لئے فاتحہ کے بعد پہلی سورت سورة بقرہ رکھی گئی اور اس کو ذلک الکتٰب سے شروع کرکے اس طرف اشارہ کردیا گیا کہ جس صراط مستقیم کو تم ڈھونڈہتے ہو وہ یہ کتاب ہے، اس کے بعد اس سورت میں اول ایمان کے بنیادی اصول توحید، رسالت، آخرت اجمالی طور پر اور آخر سورت میں ایمان مفصل بیان فرمایا گیا ہے اور درمیان میں ہر شعبہ زندگی، عبادات، معاملات، معاشرت، اخلاق، اصلاح، ظاہر و باطن کے متعلق ہدایات کے بنیادی اصول اور ان کے ساتھ بہت سی جزئیات بیان ہوئی ہیں، خلاصہ تفسیر، یہ کتاب ایسی ہے جس میں کوئی شبہ نہیں (یعنی قرآن کے منجانب اللہ ہونے میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں اگرچہ کوئی نافہم اس میں شبہ رکھتا ہو کیونکہ یقینی بات کسی کے شبہ کرنے میں بھی حقیقت میں یقینی ہی رہتی ہے) راہ بتلانے والی ہے خدا سے ڈرنے والوں کو جو یقین لاتے ہیں چھپی ہوئی چیزوں پر (یعنی جو چیزیں ان کے حواس وعقل سے پوشیدہ ہیں صرف اللہ و رسول کے فرمانے سے ان کو صحیح مان لیتے ہیں) اور قائم رکھتے ہیں نماز کو (قائم رکھنا یہ ہے کہ اس کو اس پابندی کے ساتھ اس کے وقت میں پورے شرائط وارکان کے ساتھ ادا کریں) اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں (یعنی نیک کاموں میں) اور وہ لوگ ایسے ہیں کہ یقین رکھتے ہیں اس کتاب پر بھی جو آپ کی طرف اتاری گئی ہے اور ان کتابوں پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری جاچکی ہیں (مطلب یہ ہے کہ ان کا ایمان قرآن پر بھی ہے اور پہلی کتابوں پر بھی اور ایمان سچا سمجھنے کو کہتے ہیں عمل کرنا دوسری بات ہے جتنی کتابیں اللہ نے پہلے انبیاء پر نازل فرمائی ہیں ان کو سچا سمجھنا فرض اور شرط ایمان ہے یعنی یہ سمجھے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی تھیں وہ صحیح ہیں خود غرض لوگوں نے جو اس میں تبدیل و تحریف کی ہے وہ غلط ہے رہ گیا عمل سو وہ صرف قرآن پر ہوگا پہلی کتابیں سب منسوخ ہوگئیں ان پر عمل جائز نہیں) اور آخرت پر بھی وہ لوگ یقین رکھتے ہیں بس یہ لوگ ہیں ٹھیک راہ پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ملی ہے اور یہ لوگ ہیں پورے کامیاب (یعنی ایسے لوگوں کو دنیا میں تو یہ نعمت ملی کہ راہ حق ملی اور آخرت میں ہر طرح کی کامیابی ان کے لیے ہے) ، حل لغات : ذٰلِكَ کسی دور کی چیز کی طرف اشارہ کے لئے استعمال ہوتا ہے، رَيْبٌ شک وشبہ، ھُدًى ہدایت سے بنا ہے اور ہدایت کے معنی رہنمائی مُتَّقِيْنَ جن میں صفت تقویٰ ہو، تقویٰ کے لفظی معنی بچنے کے ہیں مراد اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنا ہے غَيْبِ لفظی معنی ہر وہ چیز جو انسان کی نظر اور دوسرے حواس سماعت وغیرہ سے باہر ہو يـقِيْمُوْنَ اقامت سے بنا ہے جس کے معنی سیدھا کرنے کے ہیں اور نماز کا سیدھا کرنا یہ کہ آداب اور خشوع خضوع کے ساتھ ادا کی جائے رَزَقْنٰھُمْ رزق سے بنا ہے جس کے معنی ہیں روزی اور گذارے کا سامان دینا يُنْفِقُوْنَ انفاق سے بنا ہے خرچ کرنے کے معنی میں آتا ہے اٰخِرَةُ لغت میں مؤ خر اور بعد میں آنے والی چیز کو آخرہ کہا جاتا ہے اس جگہ عالم دنیا کے مقابلے میں عالم آخرت بولا گیا يُوْقِنُوْنَ ایقان سے ہے اور وہ یقین سے بنا ہے اور یقین اس کو کہتے ہیں جس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہ ہو مُفْلِحُوْنَ افلاح سے اور وہ فلاح سے بنا ہے فلاح کے معنی پوری کامیابی۔ معارف و مسائل حروف مقطعہ جو بہت سی سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کی تحقیق : بہت سی سورتوں کے شروع میں چند حرفوں سے مرکب ایک کلمہ لایا گیا ہے جیسے الۗمّۗ، حٓمٓ، الۗمٓصٓ وغیرہ ان کو اصطلاح میں حروف مقطعہ کہا جاتا ہے ان میں سے ہر حرف جدا جدا ساکن پڑھا جاتا ہے، الف، لام، میم، حروف مقطعہ جو اوائل سورة میں آئے ہیں ان کے متعلق بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ ان سورتوں کے نام ہیں بعض حضرات نے فرمایا کہ اسماء الہیہ کے رموز ہیں مگر جمہور صحابہ وتابعین اور علماء امت کے نزدیک راجح یہ ہے کہ یہ حروف رموز اور اسرار ہیں جس کا علم سوائے خدا تعالیٰ کے کسی کو نہیں اور ہوسکتا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا علم بطور ایک راز کے دیا گیا ہو جس کی تبلیغ امت کے لئے روک دی گئی ہو اسی لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان حروف کی تفسیر و تشریح میں کچھ منقول نہیں امام تفسیر قرطبی نے اپنی تفسیر میں اسی کو اختیار فرمایا ہے ان کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ ؛ عامر شعبی، سفیان ثوری اور ایک جماعت محدّثین نے فرمایا ہے کہ ہر آسمانی کتاب میں اللہ تعالیٰ کے کچھ خاص رموز و اسرار ہوتے ہیں اسی طرح یہ حروف مقطعہ قرآن میں حق تعالیٰ کا راز ہے اس لئے یہ ان متشابہات میں سے ہیں جن کا علم صرف حق تعالیٰ ہی کو ہے ہمارے لئے ان میں بحث و گفتگو بھی جائز نہیں مگر اس کے باوجود ہمارے فائدے سے خالی نہیں اول تو ان پر ایمان لانا پھر ان کا پڑھنا ہمارے لئے ثواب عظیم ہے دوسرے ان کے پڑھنے کے معنوی فوائد و برکات ہیں جو اگرچہ ہمیں معلوم نہ ہوں مگر غیب سے وہ ہمیں پہنچتے ہیں، پھر فرمایا : حضرت صدیق اکبر، فاروق اعظم، عثمان غنی، علی مرتضیٰ ، عبداللہ بن مسعود وغیرہ جمہور صحابہ کا ان حروف کے متعلق یہی عقیدہ تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اسرار ہیں، ہمیں ان پر ایمان لانا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں اور جس طرح آئے ہیں ان کی تلاوت کرنا چاہئے مگر معنی معلوم کرنے کی فکر میں پڑنا درست نہیں، ابن کثیر نے بھی قرطبی وغیرہ سے نقل کرکے اسی مضمون کو ترجیح دی ہے اور بعض اکابر علماء سے جو ان حروف کے معنی منقول ہیں اس سے صرف تمثیل و تنبیہ اور تسہیل مقصود ہے یہ نہیں کہ امر وحق تعالیٰ یہ ہے اس لئے اس کو بھی غلط کہنا تحقیق علماء کے خلاف ہے، Show more
نام : معارف القرآن
مترجم و مفسر : حضرت مولانا مفتی محمد شفیع
تفسیر کا تعارف :
معارف القرآن جو پہلے ریڈیو پاکستان سے نشر کی گئی پھر بعد میں کتابی صورت میں مرتب ہوئی، اس تفسیر کے لیے قلم اٹھانے کی وجہ مولانا مفتی شفیع صاحب (رح) نے اپنے مقدمہ میں خود تحریر فرمائی ہے، چناچہ لکھتے ہیں :
" ریڈیو پاکستان کے ذمہ دار حضرات نے مجھ سے درس قرآن ریڈیو پاکستان سے نشر کرنے کی فرمائش کی؛ لیکن میں چند اعذار کی بناء پر قبول نہ کرسکا، ان کے مزید اصرار کی وجہ سے انھیں کی ایک دوسری تجویز کو بنام خدا منظور کرلیا، وہ تجویز یہی معارف القرآن کی کہ ہفتہ میں ایک روز جمعہ کے دن تفسیر نشر ہوا کرے اور اس میں پورے قرآن کی تفسیر پیش نظر نہ ہو بلکہ عام مسلمانوں کے موجودہ ضرورت کے پیش نظر خاص خاص آیات کا انتخاب کرکے ان کی تفسیر اور اس سے متعلقہ احکام و مسائل کا بیان ہوا کرے "۔
پھر آگے لکھتے ہیں :
" اطراف دنیا سے مسلمانوں کے خطوط اور آنے جانے والوں سے یہ معلوم ہوا کہ عام مسلمان اور خصوصاً تعلیم یافتہ حضرات اس درس سے کافی فائدہ اٹھاتے ہیں؛ لیکن اس سلسلہ کی دس سالہ پابندی نے ایک طرف تو ایک ضخیم جلد معارف القرآن کی غیرارادی طور پر تیار کرادی، دوسری طرف ریڈیو پر سننے والے حضرات کی طرف سے بیشمار تقاضے آنے شروع ہوئے کہ اس کو کتابی صورت میں شائع کیا جائے "۔
لوگوں کی اس قدر دلچسپی اور ان کے تقاضے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک اردو زبان میں جتنی تفسیریں منظرعام پر آئیں تھیں، ان میں یا تو علمی اور تحقیقی موشگافیاں زیادہ تھیں جن سے عوام پوری طرح مستفید نہیں ہوسکتی تھی، دوسرے یہ کہ اردو زبان کے اسلوب میں پہلے کے مقابلہ کافی تبدیلی آچکی تھی، اس لیے بھی پہلے کی اردو تفاسیر کا سمجھنا عام لوگوں کے لیے دشوار تھا؛ نیزبعض تفاسیر سرسری اور بہت مختصر تھیں جن سے پڑھنے والوں کی پیاس نہیں بجھ پاتی تھی۔
تفسیر معارف القرآن کی چند خصوصیات یہ ہیں :
چونکہ مصنف موصوف کے پیش نظر یہ تھا کہ عوام جو علمی اصلاحات سے واقف اور دقیق مضامین کے متحمل نہیں ہیں وہ بھی قرآن کریم کو اپنے حوصلے کے مطابق سمجھ سکیں، اس لیے تفسیر کو لکھتے ہوئے اس کی پوری رعایت کی گئی ہے کہ فنی اصطلاحات، دقیق بحثیں اور غیر معروف ومشکل الفاظ سے گریز کیا جائے، تفسیر میں سلف صالحین کی تفسیروں پر اعتماد کیا گیا ہے اور بےسندباتوں سے احتراز کیا گیا ہے؛ چناچہ جگہ بہ جگہ صحابہ وتابعین کے تفسیری اقوال اور متقدمین کی تفسیری کتب سے استفادہ کرکے ان کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
لطائف و معارف کے ضمن میں متاخرین میں سے مستند مفسرین کے مضامین بھی لیے گئے ہیں، خصوصاً ایسے مضامین جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت ومحبت کو بڑھاتے ہوں اور ان کی وجہ سے اعمال صالحہ انجام دینے کی تحریک ہوتی ہو، متن قرآن کے ترجمہ میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) اور حضرت شیخ الہند قدس سرہ کے ترجموں پر اعتماد کیا گیا ہے، ترجمہ کے بعد مکمل تفسیر و تشریح سے پہلے خلاصہ تفسیر لکھ دیا گیا ہے جو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کی تفسیر بیان القرآن سے ماخوذ ہے، اسے آیات پر مختصر نوٹ کہا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی مشغول آدمی اتنا ہی دیکھ لے تو فہم قرآن کے لیے ایک حد تک کافی ہوجائے، آخر میں آیات مندرجہ سے متعلق احکام و مسائل لکھے گئے ہیں، اس میں اس کا التزام کیا گیا ہے کہ صرف وہ احکام و مسائل لئے جائیں جو کسی نہ کسی طرح الفاظ قرآن کے تحت آتے ہوں، احکام و مسائل کا بڑا حصہ تفسیر قرطبی، احکام القرآن للجصاص، احکام القرآن لابن العربی، تفسیرات احمدیہ، تفسیر محیط، روح المعانی، روح البیان اور بیان القرآن وغیرہ سے لیا گیا ہے، جن کے حوالہ جات بھی مذکور ہیں، تاہم نئے عہد کے بعض نئے مسائل کا بھی ذکر ہے، قرآن وحدیث اور مجتہدین کرام کے اصول کو پیش نظر رکھا گیا ہے اور جس طرح مسائل واحکام میں متقدمین نے اپنے اپنے عہد کے فرقوں اور اس زمانہ کے مسائل کو اہمیت دی ہے، مفتی محمد شفیع صاحب (رح) نے بھی اس کو ملحوظ رکھا ہے۔
مصنف کا تعارف :
مفتی محمد شفیع صاحب (رح) ۔ مصنف معار ف القرآن
ولادت : 25 جنوری 1897، دیوبند (موجودہ یو۔ پی) بھارت
وفات : 6 اکتوبر 1976 ۔ کراچی پاکستان
مکمل تعلیم دیوبند میں حاصل کی
خدمات :
مفتی صاحب برصغیر پاک وہند کے متاز سنی حنفی دیوبندی عالم تھے۔
قیام پاکستان سے پہلے دار العلوم دیوبند میں مدرس رہے۔
قیام پاکستان کے بعد پاکستان کراچی تشریف لے آئے اور ایک عظیم الشان مدرسہ دارالعلوم کراچی کے نام سے قائم کیا
مفتی صاحب کی تقریبا 100 سے زائد تصانیف ہیں۔ جن میں سب سے مشہور معارف القرآن ہے ۔ جو آپ کی وفات سے چار سال پہلے ، آپ ریڈیو پاکستان پر ہفتہ وار قرآن کے لیکچرز کی صورت میں نشر ہونا شروع ہوا ۔ بعد ازاں اسے کتابی شکل دی گئی۔
نام : مفردات القرآن فی غریب القرآن
مصنف : امام راغب اصفہانی
اردو مترجم : مولانا محمد عبدہ فیروز پوری
مطبوعہ : اسلامی اکیڈیمی، الفضل مارکیٹ اردو بازار لاہور
کتاب اور مصنف کا تعارف :
مفردات القرآن ابوالقاسم حسن بن محمد المعروف علامہ راغب اصفہانی (متوفی 502 ھ - 1108 ء) کی تصنیف ہے اس کا پورا نام " المفردات فی تحقیق مواد لغات العرب المتعلقہ بالقرآن " ہے جبکہ مطبوعہ نسخوں پر " المفردات فی غریب القرآن " کا عنوان مرقوم ہے اردو میں اسے " مفردات القرآن " سے شہرت ہے۔
مفردات القرآن کے نام سے بہت سی کتابیں شائع ہوئیں لیکن جو شہرت و دوام اس کتاب کو حاصل ہے اور کسی کو نہیں۔
یہ کتاب حروف تہجی کی ترتیب کے مطابق ہے اس میں ہر کلمہ کے حروف اصلیہ میں اول حرف کی رعایت کی گئی ہے اور قرآن میں استعمال ہونے والے تمام الفاظ کی لغوی تشریح کی گئی ہے ۔
طریق بیان بڑا فلسفیانہ ہے جس میں پہلے ہر مادہ کے جوہری معنی متعین کئے جاتے ہیں پھر انہیں قرآنی آیات پر منطبق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شرح الفاظ کیلئے یہ طریقہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے اس سے صحیح معنی تک رسائی ممکن ہوتی ہے اور تمام اشتباہ دور ہوجاتے ہیں۔
بہت سے مصنفین اور آئمہ لغت نے اس کتاب سے استفادہ کیا ہے۔
مصنف کا تعارف :
یہ کتاب امام راغب اصفہانی (رح) کی تصنیف ہے، امام راغب پانچویں اور چھٹی صدی کے علماء میں شمار ہوتے ہیں۔۔
ان کا پورا نام ابو القاسم حسین بن محمد بن مفضل بن محمد ہے اور راغب اصفہانی کے نام سے مشہور ہیں،
امام راغب علم و فضل میں یگانۂ روزگار تھے، مؤلفِ جامع علوم و فنون ہونے کے ساتھ بلند پایہ صوفی بھی تھے، اور ادب و فلسفہ ، جملہ علوم میں ان کا پایہ بہت بلند تھا اور انہوں نے قرآن پاک کی ایک بہت بڑی تفسیر بھی لکھی ہے۔
علامہ ذہبی (رح) نے ان کا تذکرہ “ طبقات المفسرین ” میں کیا ہے اور امام سیوطی (رح) ان کو لغت و نحو کے ائمہ میں شمار کرتے ہیں، مختلف تذکروں میں حکیم، ادیب ، مفسر، کی حیثیت سے ان کا تعارف کروایا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف ہمہ فنی امام تھے اور بیک تفسیر و لغت کے امام ہونے کے ساتھ بہت بڑے حکیم اور صوفی تھے۔
امام راغب کی وفات 502 ہجری میں ہوئی۔
تالیفات :
امام راغب کی تالیفات مندرجہ ذیل ہیں :
1 ۔ محاضرات الادباء :
2 ۔ حل متشابہات القرآن
3 ۔ حل متشابہات القرآن
4 ۔ الذریعہ الی مکارم الشریعہ
5 ۔ درۃ التاویل فی غرۃ التنزیل
6 ۔ تحقیق البیان فی تاویل القرآن
7 ۔ افانین البلاغۃ۔
8 ۔ کتاب الایمان والکفر
9 ۔ تفصیل النشاتین :
10 ۔ المفردات فی غریب القرآن
11 ۔ کتاب المعانی الاکبر
12 ۔ کتاب احتجاج القراء۔
مترجم کا تعارف۔
امام راغب افہانی کی مفردات القرآن اصل کتاب عربی میں ہے ۔ جبکہ ایزی قرآن و حدیث میں اس کا اردو ترجمہ شامل کیا گیا ہے۔
مترجم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبدہٗ فیروز پوری ہیں۔ جو عبدہ الفلاح کے نام سے بھی مشہور ہیں آپ جولائی 1917 کو موضع وٹواں ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے۔ وٹو برادری سے تعلق تھا۔ ابتدائی تعلیم جس میں سکول اور دینیات اپنے گاؤں میں حاصل کی۔ پھر بڈھیمال میں پڑھتے رہے۔ اس کے بعد دہلی تشریف لے گئے۔ دہلی کی معروف مسجد فتح پوری میں تحصیل علم کیا۔ اور آخر میں حضرت حافظ محمد گوندلوی مرحوم سے گوجرانوالہ میں بخاری شریف پڑھی۔ فراغت کے بعد تدریس کے میدان میں آگے۔ آپ نے گوجرانوالہ ، اوڈانوالہ ، اوکاڑہ ، فیصل آباد میں تدریسی فرائض سر انجام دیئے۔ خصوصاًجامعہ سلفہ میں بڑی کتب کے علاوہ بخاری شریف پڑھاتے تھے۔ آپ کو تفہیم کا ملکہ حاصل تھا۔ مختصر مگر جامع گفتگو کرتے۔ اور تدریس کا حق ادا کردیتے۔ مشکل سے مشکل بحث کو آسانی کے ساتھ سمجھا دیتے۔ تصنیف و تالیف اور ترجمہ کا عمدہ ذوق پایا تھا۔ آپ نے کئی یادگار تصا نیف چھوڑی ہیں۔ جن میں معروف ترین اشرف الحواشی ہے۔ جو کہ قرآن حکیم پر مختصر تفسیر ہے۔ آپ دو مرتبہ جامعہ سلفیہ میں بطور شیخ الحدیث رہے ہیں۔ دوسری مرتبہ جب آپ اس منصب پر فائز ہوئے۔ تو آپ گلے کے مریض بن گئے۔ زیادہ بلند آواز میں بات نہ کرسکتے تھے۔ جس سے طلبہ آپ کی گفتگو نہ سن سکتے تھے۔ مائیک کا ا نتظام کرنے کے باوجود بات نہ بنی۔ تو پھر خود ہی مستعفی ہوگئے۔ لیکن جامعہ کی انتظامیہ نے آپ کا وظیفہ برابر جاری رکھا ۔ حاجی آباد فیصل آباد میں رحلت فرمائی۔ جامعہ سلفیہ میں نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ اور گاؤں نز د تاندلیانوالہ میں سپرد خاک کئے گئے۔
احکام القرآن للجصاص
نام و کنیت
نام احمد بن على الرازى اوركنيت الجصاص: ابوبكراحمد بن على الرازى الجصاص سے مشہور ہیں۔
ولاد ت
امام جصاص کی ولادت رے شہر میں ہو ئی اسی نسبت سے رازى کہلاتے ہیں ولادت کا سال 305ھ بمطابق 917ء بیس سال کی عمر میں بغداد منتقل ہو گئے۔
علمی سفر
ابوبکر جصاص نے بہت سے علمی سفر کئےاور اکابر علماء سے علم حاصل کیابالخصوص علمائے احناف سے بہت استفادہ کیا اہواز نیشاپورکے سفر کئے اور اس علمی سفر کی انتہاء بغداد میں ہوئی امام کرخی کے پاس نیشا پور میں تھے کہ ان کا انتقال ہوا۔
شيوخ
ان کے مشائخ میں
ابو الحسن الكرخی جن سے زہد و ورع حاصل کیا
ابو سہل الزجاج
عبد الباقی بن قانع حديث کا علم حاصل کیا
ابوحاتم الرازی
ابوسعيد الدارمی عثمان بن سعيد الدارمي صاحب المسند
تصنیفات
شرح الجامع الكبير محمد بن الحسن الشيبانی
شرح الجامع الصغير محمد بن الحسن الشيبانى
شرح المناسك لمحمد بن الحسن الشيبانى
شرح مختصر الفقہ للطحاوی
شرح آثار الطحاوى
مختصر اختلاف الفقہاء طحاوى
شرح ادب القاضی خصاف
شرح مختصر الكرخی
شرح الاسماء الحسنى
جوابات المسائل
احكام القرآن
الفصول فی الاصول
وفات
انکی وفات 370ھ بمطابق 980ء میں بغداد میں ہوئ
شان نزول : (آیت) ” الم (١) ذلک الکتاب لا ریب فیہ “۔ ابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ سورة بقرہ کی پہلی چار آیات مومنوں سے بارے میں اتری ہیں، اور اس کے بعد کی دو آیتیں کافروں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور تیرہ آیات منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علام... ہ سیوطی (رح ) (١) الم (ال م) کے بارے میں عبداللہ بن مبارک، علی بن اسحاق سمرقندی، محمد بن مروان، کلبی، ابوصالح کی سند سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے کہ الف سے اللہ، لام سے جبریل اور میم سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں، دوم : الف سے اللہ تعالیٰ کی نعمتیں، لام سے اس کا لطف، میم سے اس کا ملک وبادشاہت مراد ہے، سوم : الف سے اللہ تعالیٰ کے نام کی ابتدا اللہ، لام سے لطیف، میم سے مجید مراد ہے، جہارم : اللہ اعلم سے بھی اس کی تفسیر کی گئی ہے، پنجم : یہ قسم کے الفاظ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے کہ یہ کتاب قرآن جس کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے سامنے پیش کرتے ہیں اس میں کسی قسم کے کوئی شبہ کی گنجایش نہیں ہے، کیوں کہ یہ میری کتاب ہے، اگر تم اس کتاب پر ایمان لاؤ گے تو تمہیں ہدایت دوں گا اور اگر اس پر ایمان نہیں لاؤ گے تو میں تمہیں عذاب دوں گا۔ کتاب سے مراد لوح محفوظ بھی ہے کتاب کی تفسیر اس وعدہ کے ساتھ بھی ہے جو کہ عہد میثاق میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا گیا تھا کہ میں آپ پر وحی بھیجوں گا، کتاب سے تورات وانجیل بھی مراد ہے، اس میں بھی کسی شک وشبہ کی گنجایش نہیں ہے، ان دونوں کتابوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف و توصیف مذکور ہے۔ Show more
تفسیر ابن عباس (تنویر المقب اس من تفسیر ابن عباس)
تعارف کتاب و امتیازی خصوصیات :
یہ تفسیر در اصل ایک عربی تفسیر " تنویر المقب اس من تفسیر ابن عباس " کا اردو ترجمہ ہے :
اصل عربی تفسیر کے مصنف ابو الطاہر محمد بن یعقوب بن محمد بن بن ابراہیم نجد الدین الشیرازی الشافعی ہیں۔ اور یہ تفسیر تفسیر قرآن سے متعلق حضرت ابن عباس (رض) کی روایات کا مجموعہ ہے :
ہمارے سوفٹ ویئر " ایزی قرآن و حدیث " میں اس تفسیر کا اردو ترجمہ شامل کیا گیا ہے۔ اس تفسیر کے اردو ترجمہ کا کام پر وفسیر حافظ محمد سعید احمد عاطف نے سر انجام دیا ہے۔ اور ہمارے سوفٹ ویئر میں جو نسخہ شامل کیا گیا ہے وہ " مکی دار الکتب " 37 مزنگ روڈ بک سٹریٹ، لاہور، پاکستان سے طبع شدہ ہے۔
ذیل میں ، اس کتاب کا مختصر تعارف، پیش ہے :
عربی تفسیر " تنویر المقب اس "
اس تفسیر " تنویر المقب اس " کے حوالے سے اسلاف کی آراء مختلف فیہ ہیں۔ اس کی اسناد کے متعلق بھی گفتگو کی خاصی گنجائش ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی متعدد روایات صحاح ستہ و دیگر کتب حدیث مثلا : مسند احمد بن حنبل، مسند ابی داود الطیالسی، مسند الشافعی، مسند الحمیدی، معجم طبرانی، المنتقی لابن جارود، سنن دارمی، سنن الدارقطنی میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ صحابہ کے اقوال و آثار بھی ہیں۔ لغتِ عرب، تاریخ عرب، ایام العرب سے استشہاد و استناد بھی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کی روایات سے مزین ہیں۔ ان تمام شواہد اور قرائن کی موجودگی میں اس مجموعہ روایات ابن عباس سے بےاعتنائی، قرینِ انصاف نہیں۔ پھر یہ تفسیر ایک طویل عرصے سے ہزاروں کی تعداد میں دنیا کے مختلف حصوں میں زیور طبع سے آراستہ ہورہی ہے اور اہل علم اس سے استفادہ بھی کرتے رہے ہیں۔ اور ہمارے پاس ابن عباس (رض) جیسے مفسر اعظم کی تفسیری آراء کا اس کے علاوہ کوئی اور مجموعہ نہیں ہے۔ اس تفسیر کا ایک قلمی نسخہ پنجاب پبلک لائبریری لاہور میں موجود ہے۔ یہ تفسیر 1314 ھ کو امام سیوطی کی تفسیر در منثور کے حواشی پر مصر سے شائع ہوئی اور مستقل طور پر 1316 ھ کو مصر سے چھپی اور برصغیر میں کئی مرتبہ شائع ہوئی، 1285 ھ کو شاہ ولی اللہ کے ترجمہ قرآن کے ساتھ اور پھر شاہ رفیع الدین کے اردو ترجمہ کے حاشیہ پر بھی شائع ہوئی ۔ اردو ترجمہ پہلی بار 1926 ء میں آگرہ سے شائع ہوا اور 1970 میں مولانا عابد الرحمن صدیقی کے ترجمہ کو کلام کمپنی کراچی نے شائع کیا۔
تعارف مفسر :
نام و نسب
آپ کا نام عبداللہ، ابوالعباس کنیت تھا۔ آپ کے والد کا نام حضرت عباس (رض) اور والدہ کا نام امالفضل لبابہ (رض) عنہا تھا۔ آپ کا شجرہِ نسب یہ ہے۔
عبداللہ بن العباس بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف۔
آپ کے والد حضرت عباس (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سگے چچا تھے۔ اس طرح آپ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ابن عم تھے۔ آپ (رض) ام المومنین حضرت میمونہ (رض) کے خواہرزادہ تھے کیونکہ آپ (رض) کی والدہ ام الفضل (رض) اور حضرت میمونہ (رض) حقیقی بہنیں تھیں۔
پیدائش
حضرت عبداللہ ابن عباس کی پیدائش ہجرت سے 3 برس قبل شعب ابی طالب میں محصوریت کے دوران ہوئی تھی۔ آپ کی پیدائش کے بعد حضرت عباس (رض) آپ کے بارگاہِ رسالت میں لے کر آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انکے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈال کر آپ کے حق میں دعا فرمائی۔
قبولِ اسلام
آپ کے والد محترم حضرت عباس (رض) نے اگرچہ فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا، لیکن آپ کی والدہ حضرت ام الفضل (رض) نے ابتدا میں ہی داعی توحید کو لبیک کہا تھا۔ اس لئے آپ کی پرورش توحید کے سائے میں ہوئی۔
ہجرت
حضرت عباس (رض) 8 ہجری میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے۔ اس وقت آپ کی عمر تقریباً 11 سال تھی۔ آپ اپنے والد کے حکم سے بیشتر اوقات بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوتے تھے۔
عہد طفویلیت میں مصاحبتِ رسول
آپ کی مصاحبت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جو زمانہ پایا، دراصل وہ آپ کے لڑکپن کا زمانہ تھا۔ تاہم آپ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت میں اکثر رہتے۔ ام المومینین حضرت میمونہ (رض) آپ کی خالہ تھی اور آپ سے بہت شفقت رکھتیں تھیں اس لیے آپ اکثر انے خدمت میں حاضر رہتے تھے اور کئی دفع رات میں انکے گھر پر ہی سو جاتے تھے۔ اس طرح انکو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت سے مستفیض ہونے کا بہترین موقع میسر تھا۔ آپ ایسے ہی ایک رات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔
” ایک مرتبہ میں اپنی خالہ کے پاس سو رہا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور چار رکعت پڑھ کر استراحت فرما ہوئے، پھر کچھ رات باقی تھی کے آپ بیدار ہوئے اور مشکیزہ کے پانی سے وضو کر کے نماز پڑھنے لگے میں بھی اٹھ کر بائیں طرف کھڑا ہوگیا۔ آپ نے میرا سر پکڑ کر مجھے داہنی طوف کھڑا کرلیا۔ “
آپ کے حق میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا
اسی طرح ایک بار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے لئے بیدار ہوئے تو آپ (رض) نے وضو کے لئے پنی لا کر رکھ دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو سے فراخت کے بعد پوچھا کے پانی کون لایا تھا۔ حضرت میمونہ (رض) نے حضرت عبداللہ بن عباس کا نام لیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوش ہو کر یہ دعا دی۔
” اللهم فقهه في الدين وعلمه التأويل
یعنی اے اللہ اس کو مذہب کا فقیہ بنا اور تاویل کا طریقہ سکھا “
وفات : آپ (رض) کی وفات : 68 ہجری بمطابق 687 ء میں ہوئی۔
تعارف مصنف :
1. اس تفسیری مجموعہ کے مؤلف و مرتب کا مکمل نام ابو الطاہر محمد بن یعقوب بن محمد بن ابراہیم نجد الدین بن الشیرازی الشافعی ہے۔
پیدائش : آپ شیراز شہر کے قریب ایک گاؤں " کا زشرون " میں 749 ہجری بمطابق 1339 ء کو پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم :
آپ کی تعلیم کا علاقہ اور اساتذہ کا دائرہ خاصا وسیع ہے۔ ابتداء شیراز ہی سے تعلیم حاصل بعد ازیں بغداد کا رخ کیا جو اس وقت علم و فن کا مرکز تھا۔ ازاں بعد امام ابن قیم اور امام السبکی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ پھر بیت المقدس تشریف لے گئے اور تقریبا دس سال تک تعلیم و تعلم کا یہ سلسلہ بیت المقدس میں قریباً دس سال تک چلتا رہا۔ اس کے علاوہ آپ نے حرمین شریفین، ترکی، قاہری اور ہندوستان کے شیوخ و اکابر سے بھی علم حاصل کیا۔
مقام ومرتبہ : آپ اپنے وقت کے جلیل القدر، مفسر، محدث، ماہر لغت اور اعلی پائے کے ادیب تھے۔ شخصی اعتبار سے بڑے غیرت مند، خود دار اور متقی تھے۔ زندگی کا انداز سادہ و پروقار تھا۔ ۔
آپ کی تصانیف درج ذیل ہیں :
تنویر المقب اس من تفسیر ابن عباس
بصائر ذوالتمیز فی لطائف الکتاب العزیز کے نام سے آپ نے قرآن مجید کی چھ جلدوں پر مشتمل تفسیر لکھی۔ یہ تفسیر قاہرہ و بیرت سے بار ہا چھپ چکی ہے۔
علامہ زمخشری کی کشات کے خطبہ کی ایک مستقل شرح لکھی۔
سیرت النبی پر مختصر کتاب سفر السعادۃ یا الصراط المستقیم کے نام سے لکھی۔
بخاری شریف کی ایک شرح بھی لکھی۔
آپ کی اہم اور مشہور ترین تالیف، القاموس، ہے۔ یہ جامع ترین عربی لغات میں شمار ہوتی ہے۔
البلغہ فی تاریخ ائمۃ اللغۃ۔
کتاب تحبیر الموشین فیما نقال بالسین والشین۔
یہ حروف مقطعاتّ ہیں جن کے بارے میں یہ جان لیجیے کہ ان کے حقیقی ‘ حتمی اور یقینی مفہوم کو کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ اور اس کے رسول کے۔ یہ ایک راز ہے اللہ اور اس کے رسول کے مابین۔ حروف مقطعات کے بارے میں اگرچہ بہت سی آراء ظاہر کی گئی ہیں ‘ لیکن ان میں سے کوئی شے رسول اللہ سے منقول نہیں ہے۔ البتہ یہ ... بات ثابت ہے کہ اس طرح کے حروف مقطعات کا کلام میں استعمال عرب میں معروف تھا ‘ اس لیے کسی نے ان پر اعتراض نہیں کیا۔ قرآن مجید کی ١١٤ میں سے ٢٩ سورتیں ایسی ہیں جن کا آغاز حروف مقطعات سے ہوا ہے۔ سورة قٓ‘ سورة القلم اور سورة صٓ کے آغاز میں ایک ایک حرف ہے۔ حٰمٓ‘ طٰہٰ اور یٰسٓ دو دو حرف ہیں۔ ا ل م اور ا ل ر تین تین حروف ہیں جو کئی سورتوں کے آغاز میں آئے ہیں۔ الم اور الر چار چار حروف ہیں۔ حروف مقطعات میں زیادہ سے زیادہ پانچ حروف یکجا آتے ہیں۔ چناچہ کٓھٰیٰعٓصٓ سورة مریم کے آغاز میں اور حٰمٓ عٓسٓقٓ سورة الشوریٰ کے آغاز میں آئے ہیں۔ ان کے بارے میں اس وقت مجھے اس سے زائد کچھ عرض نہیں کرنا ہے۔ اپنے مفصل درس قرآن میں میں نے ان پر تفصیل سے بحثیں کی ہیں۔ Show more
1. بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد)
ڈاکٹر اسرار احمد ایک ممتاز پاکستانی مسلمان سکالر تھے، جو پاکستان، بھارت، مشرق وسطیٰ اور امریکہ میں اپنا دائرہ اثر رکھتے تھے۔ آپ بھارت کے ضلعہریانہ میں مؤرخہ 26 اپریل 1932 ء کو پیدا ہوئے۔
آپ تنظیم اسلامی کے بانی تھے، جو پاکستان میں نظام خلافت کے قیام کی خواہاں ہے۔ تنظیم اسلامی کا مرکزی ہیڈکوارٹر لاہور، پاکستان میں واقع ہے۔
تعلیمی پس منظر
قیام پاکستان کے بعد آپ لاہور منتقل ہوگئے اور گورمنٹ کالج سے ایف ایس سی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا . 1954 میں انہوں سے کنگ ایڈورڈ کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد 1965 میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی سند بھی حاصل کی۔ آپ نے 1971 تک میڈیکل پریکٹس کی .
سیاسی زندگی[ترمیم ]
دوران تعلیم آپ اسلامی جمیت طلبہ سے وابستہ رہے اور فعال کردار ادا کرتے ہوئے ناظم اعلی مقرر ہوئے . تملیم سے فراغت کے بعد آپ نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ تاہم جماعت کی انتخابی سیاست اور فکری اختلافات کے باعث آپ نے اس سے علحیدگی اختیار کرلی اور اسلامی تحقیق کا سلسلہ شروع کردیا اور 1975 میں تنظیم اسلامی کی بنیاد رکھی جس کے وہ بانی قائد مقرر ہوئے . 1981 میں آپ جنرل ضیا الحق کی مجلس شورئ کے بھی رکن رہے۔ حکومت پاکستان نے آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اسی سال ستارہ امتیاز سے نوازا . آپ مروجہ انتخابی سیاست کے کے مخالف تھے اور خلافت راشدہ کے طرز عمل پر یقین رکھتے تھے . آپ اسلامی ممالک میں مغربی خصوصا امریکی فوجی مداخلت کے سخت ناقد تھے .
بحیثیت اسلامی اسکالر
تنظیم اسلامی کی تشکیل کے بعد آپ نے اپنی تمام توانائیاں تحقیق و اشاعت اسلام کے لئے وقف کردی تھیں . آپ نے 100 سے زائد کتب تحریر کیں جن میں سے کئی کا دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ آپ نے قرآن کریم کی تفسیر اور سیرت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کئی جامع کتابیں تصنیف کیں . مشہور بھارتی مسلم اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ان کے قریبی تعلقات تھے اسی ضمن میں انہوں نے بھارت کے کئی دورے بھی کئے . عالمی سطح پر آپ نے مفسر قران کی حیثیت سے زبردست شہرت حاصل کی . بلا مبالغہ ان کے سیکڑوں آڈیو ، ویڈیو لیکچرز موجود ہیں جن کے دنیا کی کئی زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں . بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اسلام کا صحیح تشخص ابھارنے میں وہ اہم ترین کردار ادا کیا جو تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا .
وفات
ڈاکٹر اسرار احمد کافی عرصے سے دل کے عارضے اور کمر کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ بالآخر مؤرخہ 14 اپریل 2010 ء کو 78 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کو گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے پسماندگان میں ان کی بیوہ، چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں۔
1. The names of letters of the Arabic alphabet, called huruf muqatta'at, occur at the beginning of several surahs of the Qur'an. At the time of the Qur'anic revelation the use of such letters was a well-known literary device, used by both poets and orators, and we find several instances in the pre-Islamic Arabic literature that has come down to us. Since the muqatta'at were commonly used the Arab... s of that period generally knew what they meant and so they did not present a puzzle. We do not notice, therefore, any contemporaries of the Prophet (peace be on him) raising objections against the Qur'an on the ground that the letters at the beginning of some of its surahs were absurd. For the same reason no Tradition has come down to us of any Companion asking the Prophet about the significance of the muqatta'at. Later on this literary device gradually fell into disuse and hence it became difficult for commentators to determine their precise meanings. It is obvious, however, that deriving right guidance from the Qur'an does not depend on grasping the meaning of these vocables, and that anyone who fails to understand them may still live a righteous life and attain salvation. The ordinary reader, therefore, need not delve too deeply into this matter. Show more
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :1 یہ حُرُوفِ مُقَطعَات قرآن مجید کی بعض سورتوں کے آغاز میں پائے جاتے ہیں ۔ جس زمانے میں قرآن مجید نازل ہوا ہے اس دَور کے اسالیب بیان میں اس طرح کے حُرُوفِ مُقطعات کا استعمال عام طور پر معروف تھا ۔ خطیب اور شعراء دونوں اس اُسْلوب سے کام لیتے تھے ۔ چنانچہ اب بھی کلام ج... اہلیّت کے جو نمونے محفوظ ہیں ان میں اس کی مثالیں ہمیں ملتی ہیں ۔ اس استعمال عام کی وجہ سے یہ مُقطعات کوئی چیستاں نہ تھےجس کو بولنے والے کے سوا کوئی نہ سمجھتا ہو ، بلکہ سامعین بالعموم جانتے تھے کہ ان سے مراد کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے خلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر مخالفین میں سے کسی نے بھی یہ اعتراض کبھی نہیں کیا کہ یہ بے معنی حرُوف کیسے ہیں جو تم بعض سورتوں کی ابتداء میں بولتے ہو ۔ اور یہی وجہ ہے کہ صحابہء کرام سے بھی ایسی کوئی روایت منقول نہیں ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے معنی پوچھے ہوں ۔ بعد میں اُسلوب عربی زبان میں متروک ہوتا چلا گیا اور اس بنا پر مفسّرین کے لیے ان کے معانی متعیّن کرنا مشکل ہوگیا ۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ نہ تو ان حُرُوف کا مفہُوم سمجھنے پر قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کا انحصار ہے ۔ اور نہ یہ بات ہے کہ اگر کوئی شخص ان کے معنی نہ جانے گا تو اس کے راہِ راست پانے میں کوئی نقص رہ جائے گا ۔ لہٰذا ایک عام ناظر کے لیے کچھ ضروری نہیں ہے کہ وہ ان کی تحقیق میں سرگرداں ہو ۔ Show more
1. ترجمہ و تفسیر تفہیم القرآن
تفہیم القرآن
یہ مشہور زمانہ تفسیر تحریک اسلامی کے قائد وموسس مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی ہے جو پہلی بار ١٩٤٩ ء میں اشاعت پذیر ہوئی، یہ تفسیر چھ ضخیم جلدوں میں ہے اور ہندوپاک میں اس کے درجنوں ایڈیشن نکل چکے ہیں، اس تفسیر کے لکھنے کے محرکات کیا ہوئے ؟ ان کو خود مصنف نے اس طرح لکھا ہے : " اس کام میں میرے پیش نظر علماء اور محققین کی ضروریات نہیں ہیں اور نہ ان لوگوں کی ضروریات ہیں جو عربی زبان اور علوم دینیہ کی تحصیل سے فارغ ہونے کے بعد قرآن مجید کا گہرا تحقیقی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں، ایسے حضرات کی پیاس بجھانے کے لیے بہت کچھ سامان پہلے سے موجود ہے ، میں جن لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں وہ اوسط درجے کے تعلیم یافتہ لوگ ہیں، جو عربی سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں اور علوم قرآن کے وسیع ذخیرے سے استفادہ کرنا جن کے لیے ممکن نہیں ہے انہی کی ضروریات کو پیش نظر رکھا ہے "۔
مصنف کو انشاء پردازی پر بڑی قدرت اور مشکل مضامین کو بھی آسان زبان اور جچے تلے انداز میں لکھنے کا ملکہ ہے؛ چناچہ اس تفسیر میں بھی یہ وصف نمایاں ہے، قرآن کی جو آیات کائناتی حقائق سے متعلق ہیں ان پر بڑی عمدہ گفتگو کی گئی ہے، اسی طرح قصص و واقعات جن کی تحقیق کے لیے علم الآثار اور تاریخی حقائق سے واقفیت مطلوب ہے، بہت اچھی بحثیں ہیں، مستشرقین کے اعتراضات وشبہات کے رد پر بھی شافی وکافی کلام ہے اور اس کو اس تفسیر کا نقطۂ امتیاز قرار دیا جاسکتا ہے، اسی طرح قرآن کا بائبل اور مذہبی صحائف سے تقابلی مطالعہ کی جہاں کہیں ضرورت ہے، وہاں بھی نہایت محققانہ اور فاضلانہ مباحث ہیں، یہ بات واضح طور پر محسوس ہوتی ہے کہ مصنف نے پہلی دوجلدوں میں اختصار کی راہ اختیار کی ہے اور تفسیر وحدیث کے مراجع کی طرف کم التفات کیا ہے، تیسری سے چھٹی جلد تک احادیث وآثار بکثرت نقل کئے گئے ہیں۔
بہت سی خوبیوں کے باوجود اس تفسیر میں بعض ایسی خامیاں بھی موجود ہیں جس کی وجہ سے اہل تحقیق علماء کو مصنف سے اختلاف ہے، ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ حضرات انبیاء کے تذکرہ میں بعض مواقع پر ایسی تعبیرات اختیار کی گئی ہیں جو حدِ ادب سے متجاوز محسوس ہوتی ہیں، مثلاً حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بارے میں رقمطراز ہیں :
" جو فعل ان سے صادر ہوا تھا اس کے اندر خواہش نفس کا کچھ دخل تھا اس کا حاکمانہ اقتدار کے نامناسب استعمال سے بھی کوئی تعلق تھا اور وہ کوئی ایسا فعل تھا جو حق کے ساتھ حکومت کرنے والے کسی فرماں روا کو زیب نہ دیتا تھا "۔
(تفہیم القرآن : ٤/٣٢٧)
اس طرح کی بعض اور تعبیرات بھی اس تفسیر اور مصنف کی بعض دیگر کتب میں بھی موجود ہیں اگر یہ تفسیر اس طرح کی باتوں سے خالی ہوتی اور مصنف نے علماء کے توجہ دلانے کے بعد اہل حق کی شان کے مطابق ایسی باتوں سے علی الاعلان رجوع کرلیا ہوتا تو یقینا یہ بہت بہتر بات ہوتی، زبان سہل اور عام فہم ہے اور قدیم مآخذ کے ساتھ جدید تحقیقات سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔
تعارف مصنف :
سید ابوالاعلٰی مودودی (پیدائش :1903 ء، انتقال :1979 ء) مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور جماعت اسلامی کے بانی تھے۔ بیسوی صدی کے موثر ترین اسلامی مفکرین میں سے ایک تھے۔ ان کی فکر، سوچ اور ان کی تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحاریک کے ارتقاء میں گہرا اثر ڈالا اور بیسیویں صدی کے مجدد اسلام ثابت ہوئے۔
ابتدائی زندگی
سید ابوالاعلٰی مودودی 1903 ء بمطابق 1321 ھ میں اور نگ آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباؤ و اجداد میں ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی گذرے تھے جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ سید مودودی کا خاندان انہی خواجہ مودود چشتی کے نام سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلاتا ہے۔
آپ کا گھرانہ ایک مکمل مذہبی گھرانہ تھا۔ مودودی نے ابتدائی دور کے پورے گیارہ برس اپنے والد کی نگرانی میں رہے اور گھر پر تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انہیں مدرسہ فرقانیہ اور نگ آباد کی آٹھویں جماعت میں براہ راست داخل کیا گیا۔
1914 ء میں انہوں نے مولوی کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئے۔ اس وقت ان کے والدین اور نگ آباد سے حیدرآباد منتقل ہوگئے جہاں سید مودودی کو مولوی عالم کی جماعت میں داخل کرایا گیا۔
١) مختلف سورتوں کے شروع میں یہ حروف اسی طرح الگ الگ نازل ہوئے تھے، ان کو حروف مقطعات کہتے ہیں اور صحیح بات یہ ہے کہ ان کا ٹھیک ٹھیک مطلب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کا ایک راز ہے جس کی تحقیق میں پڑنے کی ضرورت نہیں اور عقیدے یا عمل کا کوئی مسئلہ ان کے سمجھنے پر موقوف ... نہیں۔ Show more
نام : توضیح القرآن ترجمہ آسان قرآن
مترجم و مفسر : مولانا مفتی تقی عثمانی
ناشر : مکتبہ معارف القرآن کراچی
زیر نظر نسخہ : طبع جدید جمادی الاول 1430 ۔ مئی 2009 ء
مختصر تعارف :
مصنف تفسیر ھذا کے پیش لفظ میں رقمطراز ہیں :
آج سے چند سال پہلے تک میرا خیال یہ تھا کہ اردو میں مستند علمائے کرام کے اتنے ترجمے موجود ہیں کہ ان کے بعد کسی نئے ترجمے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ چناچہ جب کچھ حضرات مجھ سے قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کی فرمائش کرتے تو اس خدمت کو عظیم سعادت سمجھنے کے باوجود اول تو اپنی نااہلی کا احساس آڑے آتا، اور دوسرے کسی نئے ترجمے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی تھی۔
لیکن پھر مختلف اطراف سے احباب نے یہ خیال ظاہر فرمایا کہ اردو کے جو مستند ترجمے اس وقت موجود ہیں وہ عام مسلمانوں کی سمجھ سے بالا تر ہوگئے ہیں، اور ایسے آسان ترجمے کی واقعی ضرورت ہے جو معمولی پڑھے لکھے افراد کی سمجھ میں بھی آسکے۔ یہ مطالبہ اتنی کثرت سے ہوا کہ موجودہ ترجموں کا باقاعدہ جائزہ لینے کے بعد مجھے بھی اس مطالبے میں وزن نظر آنے لگا، اور جب میرا انگریزی ترجمہ مکمل ہوکر شائع ہوا تو یہ مطالبہ اور زیادہ زور پکڑ گیا۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کے نام پر میں نے ترجمہ شروع کیا۔ لیکن ساتھ ہی مجھے یہ خیال تھا کہ عام مسلمانوں کو قرآن کریم کا مطلب سمجھنے کے لیے ترجمے کے ساتھ مختصر تشریحات کی بھی ضرورت ہوگی، اس خیال کے پیش نظر میں نے ترجمے کے ساتھ مختصر تشریحی حواشی بھی لکھنے کا اہتمام کیا۔
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی وہ کتاب ہے جو بذات خود ایک عظیم معجزہ ہے، اس لیے اس کا ٹھیک ٹھیک ترجمہ جو قرآن کریم کی بلاغت اور اس کے بےمثال اسلوب اور تاثیر کو کسی دوسری زبان میں منتقل کردے، بالکل ناممکن ہے۔ لیکن اپنی بساط کی حد تک بندہ نے یہ کوشش کی ہے کہ قرآن کریم کا مطلب آسان، بامحاورہ اور رواں انداز میں واضح ہوجائے۔ یہ ترجمہ بالکل لفظی ترجمہ بھی نہیں ہے، اور اتنا آزاد بھی نہیں ہے جو قرآن کریم کے الفاظ سے دور چلا جائے۔ وضاحت کو پیش نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ حتی الوسع قرآن کریم کے الفاظ سے بھی قریب رہنے کی کوشش کی گئی ہے اور جہاں قرآن کریم کے الفاظ میں ایک سے زیادہ تفسیروں کا احتمال ہے، وہاں یہ کوشش بھی کی گئی ہے کہ ترجمے کے الفاظ میں بھی وہ احتمالات باقی رہیں۔ اور جہاں ایسا ممکن نہ ہوسکا، وہاں سلف کے مطابق جو تفسیر زیادہ راجح معلوم ہوئی، اس کے مطابق ترجمہ کیا گیا ہے۔
تشریحی حواشی میں صرف اس بات کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ ترجمہ پڑھنے والے کو جہاں مطلب سمجھنے میں کچھ دشواری ہو، وہاں وہ حاشیہ کی تشریح سے مدد لے سکے، لمبے تفسیری مباحث اور علمی تحقیقات کو نہیں چھیڑا گیا، کیونکہ اس کے لیے بفضلہٖ تعالیٰ مفصل تفسیریں موجود ہیں۔ البہ ان مختصر حواشی میں چھنی چھنائی بات عرض کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو بہت سی کتابوں کے مطالعے کے بعد حاصل ہوئی ہے۔
تعارف مصنف :
مفتی محمد تقی عثمانی عالم اسلام کے مایہ ناز عالم اور جید فقیہ ہیں۔ آپ کا شمار عالم اسلام کی چند چوٹی کی علمی شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپ 1980 سے 1982 تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982 سے 2002 تک عدالت عظمی پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔ آپ اسلامی فقہ اکیڈمی، جدہ کے نائب صدر اور جامعہ دارلعلوم، کراچی کے نائب مہتمم بھی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ آٹھ اسلامی بینکوں میں بحیثت مشیر کام کررہے ہیں۔
•
پیدائش
مفتی محمد تقی احمد عثمانی تحریک پاکستان کے کارکن اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی کے سب سے چھوٹے فرزند اور موجودہ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ آپ کی پیدائش سن 1943 میں ہندوستان کے صوبہ اترپردیش کے ضلع سہارنپور کے مشہور قصبہ دیوبند میں ہوئی۔
تعلیم
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم مرکزی جامع مسجد تھانوی جیکب لائن کراچی میں حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی صاحب کے قائم کردہ مدرسۂ اشرفیہ میں حاصل کی اور پھر آپ نے اپنے والد بزرگوار کی نگرانی میں دارالعلوم کراچی سے درس نظامی کی تعلیم مکمل کی جس کے بعد 1961 میں اسی ادارے سے ہی فقہ میں تخصص کیا۔ بعد ازاں جامعہ پنجاب میں عربی ادب میں ماسٹرز اور جامعہ کراچی سے وکالت کا امتحان نمایاں نمبروں سے پاس کیا۔
اجازت
آپ نے اپنے وقت کے تقریبا تمام جید علماء سے حدیث کی اجازت حاصل کی۔ ان علماء میں خود انکے والد مفتی محمد شفیع عثمانی کے علاوہ مولانا ادریس کاندھلوی اور مولانا زکریا کاندھلوی شامل ہیں۔
تصوف و معرفت
مفتی صاحب کے والد ہمیشہ آپ کی روحانی تربیت کے حوالے سے فکر مند رہتے تھے۔ اسی بابت آپ نے مفتی صاحب کو اپنے وقت کے سب سے بڑے شیخ اور عارف بااللہ ڈاکٹر عبدالحئی کی صحبت اختیار کرنے اور ان سے روحانی تعلق استوار کرنے کا حکم دیا۔ آپ نے والد کے حکم پر شیخ کی صحبت اختیار کی تو کچھ ہی عرصے انکی شخصیت سے اتنے متاثر ہوئے کہ فوراً ہی ان سے بیعت ہوگئے۔ کچھ ہی عرصے میں آپ اپنے شیخ کے خاص مریدوں میں شمار ہونے لگے۔ عارف باللہ ڈاکٹر عبدالحئی کے انتقال کے بعد آپ انکے خلیفہ مجاز ہیں۔
تدریس
مفتی تقی عثمانی تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں۔ آپ دارالعلوم کراچی میں صحیح بخاری، فقہ اور اسلامی اصول معیشت پڑھاتے ہیں۔ اسکے علاوہ مختلف ملکی و غیر ملکی جامعات وقتاً فوقتاً اپنے یہاں آپ کے خطبات کا انتظام کرتی رہتی ہیں۔ آپ چند سالوں سے جامعہ دارالعلوم کراچی میں درس بخاری دے رہے، پہلے آپ ایک فقیہ کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور اب دنیا آپ کو ایک محدث کی حیثیت سے بھی جانتی ہے، یہی وجہ ہے کہ علماء نے آپ کو شیخ الاسلام کا لقب عطا کیا ہے۔
رکن اسلامی نطریاتی کونسل
جنرل ضیاء الحق نے 1977 میں 1973 کے دستور سنت کے مطابق ڈھالنے کے لئے 1973 کے آئین کی روشنی میں ایک مشاورتی باڈی اسلامی نظریاتی کونسل کی بنیاد رکھی، مفتی تقی احمد عثمانی اس کونسل کے بانی ارکان میں سے تھے۔ آپ نے قرآن مجید میں بیان کردہ اللہ کی حدود اور انکی سزاؤوں پر عملد درآمد کے لئے حدود آرڈینینس کی تیاری میں اہم کردا ر ادا کیا۔ آپ نے سودی نظام بینکاری کے خاتمے کے لئے بھی کئی سفارشات پیش کیں۔
بحثیت جج
مفتی تقی عثمانی جامعہ کراچی سے وکالت کی سند حاصل کرنے کے بعد طویل عرصے کے لئے پاکستان کے عدالتی نظام سے وابستہ ہوگئے۔ آپ 1980 سے 1982 تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982 سے 2002 تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔ آپ شریعت ایپلیٹ بینچ کے منصف اعظم اور پاکستان کے قائم مقام منصف اعظم بھی رہے۔ آپ بحثیت جج کئی اہم فیصلے کئے جن میں سود کو غیر اسلامی قرار دیکر اس پر پابندی کا فیصلہ سب سے مشہور ہے۔ 2002 میں اسی فیصلے کی پاداش میں سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے آپ کو آپ کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔
اسلامی بینکاری
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ربا یعنی سود کو حرام قرار دیا ہے۔ ایسی صورت میں جب جدید معاشی نظام کی اساس جدید بینکنگ ہے جس کا پورا ڈھانچہ سود کی بنیادوں پر کھڑا ہے مسلمان ملکوں میں اللہ کی نافرمانی کی زد میں آئے بغیر معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھنا ایک مستقل مسئلہ تھا۔ لیکن اب مفتی صاحب کی مجدادنہ کوششوں کی بدولت یہ مستقل طور پر حل ہوچکا ہے۔ مفتی صاحب نے شریعت کے حدود میں رہ کر بینکاری کا ایسا نظام وضع کیا ہے جو عصر حاضر کے تمام معاشی تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ مفتی صاحب کے اس نظام کو اسلامی فقہ اکیڈمی کی منظوری کے بعد ساری دنیا میں نہایت تیزی سے اپنایا جارہا ہے۔
اس وقت مفتی تقی عثمانی صاحب کے اصولوں پر درجنوں اسلامی بینک کام کررہے ہیں۔ کینیڈا کے کئی اسلامی بینکوں نے ایک سال نہایت کامیابی سے کام کرتے ہوئے دو سو فیصد سے زائد منافع کمایا ہے۔ مفتی صاحب خود آٹھ اسلامی بینکوں کے مشیر کے طور پر کام کررہے ہیں۔ مفتی صاحب اسلامی مالیاتی اداروں کے اکاونٹینگ اور آڈیٹینگ اور گنائزیشن کے چیر مین بھی ہیں۔
ملی و سیاسی کردار
مفتی تقی عثمانی صاحب کا نام پہلی مرتبه اس وقت سامنے آیا جب آپ نے شیخ الحدیث حضرت مولانا یوسف بنوری کی ہدایت پر 1974 کی قادیانی مخالف تحریک میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی اس تحریک میں آپ نے مولانا سمیع الحق کے ساتھ مل کر ایک دستاویز تیار کی جو قادیانیوں کے خلاف پارلیمان میں پیش کی گئی۔ 9/11 کے بعد جب پرویز مشرف کی حکومت پاکستان کو سامراجی مقاصد کے سامنے قربانی کے بکرے کے طور پر پیش کیا گیا تو مفتی صاحب نے اس معاملے پر اپنے کالموں اور بیانوں کے زریعہ کھل کر مخالفت کی۔ آپ نے افغانستان کی اسلامی ریاست پر آمری کہ کے حملہ کو طاغوتی سامراج کا تیسری دنیا کے مما لک کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا۔ حقوق نسواں بل میں ترمیم اور لال مسجد کے معاملے پر بھی کھل کر اظہار خیال کیا اور حکومتی موقف کو جھوٹ اور دغا کا پلندہ قرار دیا۔ آپ صلی و علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور ٹیوی پر آکر ان شیطانی فتنوں کی مذمت کی اور عوام کو توہین کے عمل میں ملوث ممالک کا معاشی بائیکاٹ کرنے کا فتوا دیا۔ مفتی صاحب نے 18 فروری کے انتخابات کے بعد پرویز مشرف سے استعفی کا مطالبہ بھی کیا۔
کتابیں
• آسان ترجمہ قرآن (توضیح القرآن) مع تشریحات مکمل تین جلدیں
• آسان نیکیاں
• اندلس میں چند روز
• اسلام اور سیاست حاضره
• اسلام اور جدت پسندی
• اکابر دیوبند کیا تھے
• تقلید کی شرعی حیثیت
• پرنور دین
• تراشے
• بائبل کیا ہے
• جہاں دیدہ
• دنیا میرے آگے
• حضرت معاویہ اور تاریخی حقائق
• حجت حدیث
• حضور نے فرمایا
• فرد کی اصلاح
• علوم القرآن
• ہمارا معاشی نظام
• نمازیں سنت کے مطابق پڑہیں
• عدالتی فیصلے
• عیسائیت کیا ہے
• درسِ ترمذی
(1 ۔ 2) ۔ ١۔ ٢۔ ق ن ص الم طس حم یہ سب حروف مقطعات کہلاتے ہیں ان کی تفسیروں میں خلفاء اربعہ اور سلف کا یہی قول ہے کہ مثل آیات متشابہات کے ہیں جن کا ذکر آگے آوے گا ان حروف مقطعات کے معنی اور نازل فرمانے کا مطلب خدا ہی کو خوب معلوم ہے نماز روزہ۔ حج زکوٰۃ اور احکام کی آیتوں معنی صاف ہیں۔ لیکن یہ متشابہا... ت آیتیں احکام کی آیتوں کے علاوہ ہیں مشرکین مکہ ان متشابہات آیتوں کے معنی بتانے سے بھی باوجود اہل زبان ہونے کے عاجز آگئے۔ اس لئے یہ بھی قرآن شریف کا ایک معجزہ ہے۔ ان آیتوں کا ذکر سورة آل عمران میں تفصیل سے آوے گا۔ غرض حروف مقطعات آیات متشابہات عبادات حج میں شیطانوں کو کنکریاں مارنا وغیرہ دین میں اطاعت الٰہی آزمانے کی باتیں ہیں مسلمان آدمی کو ان میں سوائے اطاعت الٰہی بجا لانے کے زیادہ بحث کی کیا ضرورت ہے۔ ہجرت سے پہلے قرآن شریف کا جو حصہ مکہ میں نازل ہوا اس کی فصاحت و بلا غت نے اہل مکہ کو قائل کردیا۔ دس برس تک ایک چھوٹی سی سورت بھی قرآن کے مقابلہ میں بنا کر وہ پیش نہ کرسکے اور تورات و انجیل کے تو اکثر مضمون قرآن شریف میں موجود ہیں۔ اور قرآن شریف کے اکثر مضمون ان کتابوں میں جس کا مطلب یہ ہوا کہ کتاب لٰہی ہونے میں ایک دوسرے کا گواہ ہے اسی واسطے اہل مکہ اور اہل کتاب سب کو مخاطب کر کے خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ان دونوں گروہ میں سے کسی شخص کو اس بات میں شک و شبہ کرنے کا کوئی موقع باقی نہیں ہے۔ کہ یہ قرآن شریف کتاب الٰہی ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی آخر الزماں ہیں کیونکہ نبی امی پر یہ قرآن نازل ہوا ہے اور باتیں اس قرآن میں وہ ہیں کہ امی شخص تو درکنار اہل کتاب بھی بغیر وحی آسمانی کی مدد کے ہرگز وہ باتیں نہیں کہہ سکتے۔ تو اب اس میں کیا شک باقی رہا کہ قرآن شریف معجزہ نبوی ہے۔ اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی ہیں۔ بخاری میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہر ایک نبی کی امت کے ایمان لانے کے موافق ہر نبی کو معجزہ خدا تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے اور مجھ کو قرآن شریف کا ایک معجزہ ایسا دیا گیا ہے کہ جس سے مجھے کو امید ہے کہ قیامت کے دن میری پیروی کرنے والے سب سے زیادہ ہوں گے۔ الغرض انسان تو انسان جنات کا اس قرآن کو سن کر { اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا یَھْدِیْ اِلَی الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ } (٧٢: ٢) ہم نے سنا ہے کہ ایک قرآن عجب سمجھتا ہے نیک راہ ہم اس پر یقین لائے، کہنا اور حکم جہاد کے نازل ہونے سے پہلے ایک جماعت عظیم کا مسلمان ہوجانا حال کے ضعف اسلام کے زمانہ میں غیر قوم کے لوگوں کا مسلمان ہونا واقعی یہ قرآن کا معجزہ ہے اور یہی صاحب معجزہ کے نبی برحق ہونے کی پوری دلیل ہے ھدی للمتقین۔ متقی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی ہر طرح کی نافرمانی سے بچتے ہیں۔ اور اس کی ہر طرح کی اطاعت بجا لاتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابی بن کعب (رض) سے ایک دن پوچھا کہ تقویٰ کے کیا معنی ہیں انہوں نے جواب دیا کہ کبھی تمہارا گذر ایسے راستہ سے ہوا ہے جس میں ہر طرف کثرت سے خاردار درخت ہوں۔ حضرت عمر (رض) نے کہا ہاں ابی بن کعب (رض) نے کہا پھر تم نے وہاں کیا کیا۔ حضرت عمر (رض) نے کہا ہر طرف سے اپنے دامن سمیٹ کر اپنے کپڑوں کا کانٹوں سے بچایا۔ ابی بن کعب (رض) نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے اسی طرح بچنے کو تقویٰ کہتے ہیں۔ ترمذی ابن ماجہ میں عطیہ سعدی سے روایت ہے جس کا اصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کوئی شخص متقیوں کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا۔ جب بےڈر چیز کو ڈر کی چیز دہشت سے نہ چھوڑ دیوے ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ Show more
احسن التفاسیر
احسن التفاسیر تفسیر بالاحادیث کا بہترین مجموعہ ہے، کئی بار چھپ چکی ہے، آخر میں پاکستان میں مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کی توجہ اور مولانا عبدالرحمٰن گوہڑوی کی تعلیقات سے چھپی ہے۔ شاہ عبدالقادر کے ترجمہ پر مشتمل ہے، سید احمد حسن دہلوی (المتوفی ١٣٣٨ھ) تلمیذ سید نذیر حسین محدث دہلوی (المتوفی ١٣٢٠ ھ) عظیم علمی شخصیت کے مالک تھے، تنقیح الرواۃ فی تخریج احادیث المشکوٰۃ ان کی مشہور تصنیف ہے جو ان کی علمی شان و مہارت تامہ کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ پاکستان میں المکتبہ السلفیہ لاہور نے چھاپی ہے۔
سید احمد حسن احسن التفاسیر کی تالیف کے بارے میں لکھتے ہیں۔ قرآن شریف عربی زبان میں ہے۔ اور ہر شخص کو عربی زبان کے سمجھنے کی طاقت نہیں، اس واسطے شاہ عبدالقادر صاحب مرحوم کے عام فہم اردو کے ترجمہ کے زیادہ عام فہم ہوجانے کی غرض سے اسی ترجمہ کی سلیس اردو کے ڈھنگ پر پہلے چیدہ چیدہ آیتوں کے فوائد احسن الفوائد کے نام سے تین ترجمے کے قرآن مطبوعہ مطبع فاروقی کے حاشیہ پر چھاپ دیے گئے تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان فوائد سے مسلمان بھائیوں کو بہت فائدہ پہنچا جس کے سبب سے اس قرآنی ترجمہ مع فوائد کے اب بہت لوگ خواہش مند ہیں لیکن وہ قرآن نہیں ملتا۔ ان فوائد میں چیدہ چیدہ آیتوں کا مطلب تھا، اس واسطے ان فوائد سے پورے قرآن شریف کا مطلب سمجھ میں نہیں آسکتا تھا، اسی لیے ان فوائد کا یہ نقصان رفع کردینے کی غرض جسے شاہ عبدالقادر مرحوم کے ترجمہ کا یہ قرآن اس ڈھنگ سے چھاپا گیا کہ اوپر قرآن شریف کی آیتیں اور ان کا ترجمہ ہے اور نیچے احسن التفاسیر کے طور پر تمام قرآن شریف کی مختصر صحیح تفسیر ہے تاکہ ترجمہ اور اس تفسیر کی مدد سے اردو دان مسلمان مرد اور عورتیں قرآن شریف کا مطلب اچھی طرح سمجھ سکیں۔
مصنف کے احوال :
مؤلف احسن التفاسیر اللہ تعالیٰ
١٢٥٨۔۔۔۔۔۔ ١٣٣٨ ھ
مولدومسکن : آپ کا خاندان قدیم الایام سے دہلی کا رہنے والا تھا۔ ١٢٥٨ ھ میں آپ دہلی میں پیدا ہوئے قلعہ معلّٰی میں اچھے حاصے خاندانی تعلقات کے باعث بچپن قلعہ معلّٰی میں گذرا۔
حفظ قرآن : وہی قاری امیدعلی صاحب سے جن کا وطن ڈھا کہ تھا لیکن عرصہ دراز سے دہلی میں رہ رہے تھے۔ قرآن مجید حفظ شروع کیا۔ اور گیارہ سال کی عمر میں حفظ قرآن کی دولت سے مالا مال ہوگئے۔
فارسی کی ابتدائی کتابیں : چودہ سال کی عمر تک اس قدر پڑھ ڈالیں کہ فارسی کی عبارت سمجھنے کی اچھی استعداد پیدا ہوگئی۔ عام قابلیت بھی اتنی ہوچکی تھی کہ وہ خط و کتابت بخوبی کرسکتے تھے۔
ترک وطن : انہی ایام میں ١٨٥٧ ء کا ہنگامہ ہوگیا۔ اس طوفانِ رست خیز میں آپ کے والد بال بچوں سمیت پٹیالہ (حال مشرقی پنجاب ) چلے آئے۔ وہاں پہنچ کر آپ کے والد ماجدنے فارسی کتابوں کی خود تعلیم دینی شروع کی، نیز آپ کو مرزرا احمد بیگ کے بھی سپرد کردیا گیا۔ غالباً اس لئے کہ دفتر کاموں کی واقفیت پیدا ہو سکے۔ چناچہ تین ساڑھے تین سال کے عرصے میں فارسی کی تحصیل کے ساتھ ساتھ دفتری امور میں بھی مہارت حاصل ہوگئی ۔ جو حید آباد کی ملازمت کے دوران میں خوب کام آئی۔
علوم آلیہ کی تحصیل : بعدہٗ ٹونک چلے گئے جو ان دنوں صرف و نحود وغیرہ کامرکز تھا۔ صرف دنحو کی تمام کتابوں کی تکمیل یہاں کرلی اتنے میں دہلی ک حالت معمول پر آئی تو آپ کے والد ماجد پٹیالہ سے دہلی واپس آگئے۔
آپ بھی والدین کی اوقات کے لئے ٹونک سے دہلی آئے اور والد کے اصرار پر ٹونک کا ارادہ ترک کر کے دہلی میں ہی تعلیم حاصل کرنی شروع کردی۔ مگر تھوڑے عرصے کے بعد اپنے ایک ہم سبق مولوی عبد الغفور ١ جو بڑے لائق اور قابل آدمی تھے۔ کی معیت میں جناب مولانا محمد حسین ٢ خاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے جن کا فیض تدریس نحبی طور پر خواجہ ضلع بلند شہر (ہند) میں جاری تھا اور علوم میں اعلیٰ قابلیت کی شہرت رکھتے تھے۔ ان کے ہاں صرف ونحو کو اچھی طرح ضبط کرنے کے علاوہ منطق کی ابتدائی اور وفقہ و ا صولِ فقہ کی کتابیں خوب پڑھیں۔
اس کے بعد علی گڑھ جا کر مولانا فیض الحسن صاحب سہارن پوری سے اکتسابِ علوم کیا فقہ و اصول اور منطق وغیرہ کی بقیہ کتابوں کے ساتھ ہی تفسیر بھی ان سے پڑھی۔
تفسیر و حدیث کی تکمیل : پھر واپس آکر حضرت شیخ الکل فی الکل مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب محدث قدس اللہ سرہ کی خدمت میں زانوئے تلمذ طے کیا اور حضرت سے اکتساب فیض کرتے ہوئے تھوڑے ہی عرصہ میں تفسیر و صحاح کی تکمیل کر ڈالی۔ چناچہ حضرت میاں صاحب a نے سند حدیث عنایت فرمائی ۔
طب : تکمیل علوم شرعیہ کے بعد حکیم امام الدین صاحب مرحوم سے پوری طب پڑھی اور حکیم حسام الدین خاں صاحب مرحوم (عرف منجھلے میاں) کے مطب میں ایک عرصے تک بفرض تجربہ حاضر رہ کر طبابت کی بھی سند حاصل کرلی۔
سند فراغت کے بعد : حضرت میاں صاحب کی خدمت میں کچھ م دت تدریس و فتویٰ میں مصروف رہے پھر حضرت ہی کے مشورہ سے جناب مولوی ڈپٹی نذیر احمد صاحب مرحوم ۔ مصنف ترجمۃ القرآن کے ہاں شادی قرار پائی۔
ان دنوں ڈپی نذیر احمد صاحب (رح) کا گورکھ پور (ہند) میں قیام تھا۔ شادی وہیں عمل میں آئی۔ پھر ٹونک چلے گئے لیکن کچھ مدت بعد ڈپٹی صاحب موصوف آپ کو حیدر آباد دکن لے گئے اور ضلع نانذیر میں آٹھ سو روپے مشاہرہ پر ڈپٹی کلکٹر کے عہدہ پر لگوایا۔ جس پر سالہا سال تک سرفراز رہے اور وہیں سے پنشن پائی۔
١٣٠٨ ھ میں حج بیت اللہ کی نعمت سے سرفراز ہوئے۔ وہاں آپ کو بھی حوادث و مصائب سے دو چار ہونا پڑا مگر آپ نے بخندہ پیشانی ان سب کو جھیلا اور ١٣٩٠ ھ کو بخیریت واپس تشریف لائے۔
علمی شغف : علمی ذوق کا اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ڈپٹی کلکٹر کی ملازمت کے دوران میں آپ نے تین ترجموں والا قرآن مجید مرتب کیا پہلا ترجمہ فارسی فتح الرحمن از شاہ ولی اللہ صاحب (رح) دوسراؔ اردو تحت اللفظ از شاہ رفیع الدین ، تیسیرا اردو با محاورہ از شاہ عبد القادر صاحب۔ پھر اس پر ” احسن الفوائد “ کے نام سے بہترین ملحض تفسیر ی حواشی خود لکھے۔ اس قرآن مجید کو آپ نے اپنے خرچ پر طبع کرایا۔
تصانیف : احسن ١ الفوئد (اردو تفسیر ) جس کا اوپر ذکر آچکا ہے۔ دو دفعہ دہلی میں طبع ہوا۔ (با ر اوّل ١٣١٥ ھ بار دوم ١٣٤٧ ھ) ٢ تفسیر احسن التفاسیر (اردوض ہزاروں صفحات پر مشتمل بہترین اردو تفسیر ١٣٢٥ ھ میں مطبع فاروق دہلی سے سات بڑی جلدوں میں شائع ہوئی۔ یہ تفسیر بڑی قابلیت سے مرتب کی گئی ہے جس میں بہت سی تفاسیر کا خلاصہ آسان اور عام فہم انداز میں کردیا گیا ہے۔
٣ مقدمہ تفسیر احسن التفاسیر جو اعلیٰ تفسیری فوائد اور علمی نکات و مباحث پر مشتمل ہونے کی وجہ سے مستقل تصنیف کی حیثیت رکھتا ہے۔ ١٣٣٠ ھ ، ١٩١٢ ء میں طبع ہوا۔
٤ تفسیر آیات الاحکام من کلام رب الانام (اردو) صرف سورة بقرہ کا حصہ کانفرنس اہلحدیث دہلی نے شائع کیا تھا، پور ی ہوجاتی، تو اردو میں آیات احکام کی تفسیر میں اپنی نظیر آپ ہوتی۔ ٤٢٤ صفحات پر ١٩٢١ ء میں بمقام دہلی طبع ہوئی۔
٥ حاشیہ بلوغ المرام (عربی ) فقہی اور محدثانہ انداز کا جامع حاشیہ ، متن کے ساتھ کم و بیش ٥٠ ٣ صفحات پر مطبع فاروقی دہلی سے ١٣٢٥ ھ میں شائع ہوا۔ اس کا دوسرا ایڈیشن ١٩٧٨ ء میں سرگودھا سے شائع ہوا۔
٦ تنفتح الرواۃ فی تخریج احادیث المشکوٰۃ کامل محدثانہ طریق پر مشکوٰۃ کا جامع اور بےنظیر حاشیہ ، پہلی جلد خود لکھی باقی اپنی نگرانی میں اور ہدایت کے تحت استاد محترم مولانا محمد شرف الدین محدث دہلوی (متوفی ٰ ١٣٨١ ھ ) سے لکھوائی۔ پہلا ربع ١٣٢٥ ھ میں مطب انصاری دہلی سے اور دوسرا ربع ١٣٣٣ ھ میں مطبع مجتبائی دہلی سے شائع ہوا۔ دوسرا نصف مجتبائی والوں ک سر د مہری کی نذر ہوگیا تھ ا۔ تا ہم تلاش بسیار کے بعد مبطع مجتبائی والوں کے ورثاء سے اس کا کرم خوردو مسودہ دستیاب ہوگیا اور اس کا تیسیرا ربع راقم کی تصحیح و تحقیق اورا ضافوں کے ساتھ ١٤٠٤ ھ میں دار لدعوۃ السلفیہ لاہور کے اہتمام میں چھپا اور آخری ربع (جو بہت زیادہ خرا بکو کرم خوردہ ہے ) اس کی تصحیح و تحقیق اور استدراکات کا کام جاری ہے۔
٧ بحر ذخار بجوا انتصار ، مولانا انتشار حسین رام پوری نے حضرت میاں صاحب (رح) کی معرکۃ الآرا کتاب ” معیار الحق “ کے جواب میں ” انتصار الحق “ بڑی ضخیم کتاب لکھی ” بخر زخار “ کم بیش تین سوصفحات پر مشتمل اسی کتا ب کا مدلل ، معقول اور سنجیدہ جواب ہے۔
٨ صراط الاھتداء فی بیان الاقتدارء اہلحدیث کے امتیازی مسائل کی تحقیق اور اہل حدیث کی اقتداء میں نماز پڑھنے کے جواز میں مدلل یہ کتاب ١٢٨٩ میں مطبع فاروقی دہلی سے طبع ہوئی۔
٩ عمر کے آخری دور میں مسند احمد کی احادیث کی تخریج شروع کی تھی لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ کام کتنا کیا تھا ؟ اور وہ کہیں محفوظ ہے یا نہیں ؟
وفات : ١٧؍جمادی الاولیٰ ١٣٣٨ ھ (٩ مارچ ١٩٢٠ ء ) تقریباً اسی ٨٠ اسی سال کی عمر میں انتقال فرمایا :
(2) سورة البقرۃ مدنیہ (87) 2:1 ۔ الۗمّۗ‘ الف، لام، میم۔ ان کو حروف مفطعات کہتے ہیں۔ ان کی تفسیر میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔ بعض کے نزدیک ان کے معانی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی کو معلوم ہیں۔ ھذا سر بین اللہ وبین الرسول (یہ ایک بھید ہے مابین اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم (صلی ال... لہ علیہ وآلہ وسلم) کے) ۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ ان حروف مقطعات اور متشابہات (3:7) کا علم نہ صرف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلکہ آپ کے اتباع کاملین کو بھی تھا۔ چناچہ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ میں راسخین فی العلم ۔ (3:7) میں سے ہوں اور جو لوگ متشابہات اور مقطعات کی تفسیر کے عالم ہیں ان میں سے ایک میں بھی ہوں حروف مقطعات کا استعمال عربی کلام میں پایا جاتا ہے لیکن بہت کم ، مثلاً الراجز کا شعر ہے : قلت لہا قفی فقالت قاف لا تحسبی انا نسینا الا یجاف اس میں قاف سے وقفت۔ ہے۔ لو میں ٹھیر گئی۔ Show more
یہ کتاب قرآن حکیم کے ان طالب علموں کے لیے لکھی گئی ہے جو زبان عربی کا کم از کم ابتدائی علم رکھتے ہوں اور صرف و نحو کی مبادیات سے واقف ہوں اور اس سلسلہ میں مزید معلومات کے خواہشمند ہوں۔ یہ کتاب نہ صرف ان کو قرآنی عبارت کے مختلف الفاظ اور جملوں کی تعلیل صرفی اور ترکیب نحوی میں مدد گار ثابت ہوگی بلکہ ربط الفاظ و آیات میں بھی معاونت کرے گی۔
عام لغات (ڈکشنری) کی کتابوں میں الفاظ کے مواخذ و معنی بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے اور ان کے صرفی و نحوی پہلو کو چھوڑ دیا گیا ہے اس طرح طالب علم، نہج عبارت اور نشست الفاظ کی اصولی وجوہ سے ناواقف رہ جاتا ہے، بقول مولانا محمد نذیر عرشی مصنف مفتاح العلوم شرح مثنوی مولانا روم :
" ترکیب نحوی نہ جاننے والے لوگوں کی زباندانی کی مثال اس کوتاہ نظر راہرو کی سی ہے جس کی نظر پگڈنڈی کے صرف اتنے ہی حصے پر ہے جو اس کے پاؤں کے سامنے ہے اور وہ اس تسلسل نظر کے ساتھ اپنی مسافت طے کرتا جارہا ہے بخلاف اس شخص کے جو جانتا ہے کہ یہ کلمہ فعل ہے یہ فاعل ہے یہ اسم موصول ہے یہ جملہ اس کا صلہ ہے ، یہ کلمہ مقدم آنا واجب ہے اور یہ موخر ہونا چاہیے اس کلمہ میں ضمیر کا ہونا ضروری ہے اس کا مرجع یہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس پر عبارت کا مطلب و مدعا خود بخود آئینہ ہوجاتا ہے اور جب وہ عبارت کا ترجمہ کرتا ہے تو ایک مبصر کی حیثیت سے کرتا ہے اس کی مثال اس وسیع النظر اور دور بین راہرو کی سی ہے جس نے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے نقشہ کے ذریعہ، سفر ناموں کے مطالعہ سے اور واقفان راہ سے گفتگو کر کے تمام منازل سفر پر نظر ڈال لی ہو۔ خلاصہ یہ کہ اس کا سفر خطرات سے محفوظ ہوگا "۔
ایسی ہی وجوہات کو مد نظر رکھتے ہوئے ضروری الفاظ، جملوں اور آیات کی صرفی و نحوی لحاظ سے وضاحت کردی گئی ہے اس طرح اصطلاحا یہ کتاب نہ تو ایک لغات ( ڈکشنری) ہے نہ تفسیر نہ ترجمہ، اسی بناء پر اس کا نام " انوار البیان فی حل لغۃ القرآن " رکھا گیا ہے ۔
سورت اور اس کی آیات کو یا آیات میں مندرجہ جملوں یا الفاظ کو اس ترتیب سے لکھا گیا ہے کہ پہلے سورت کا نمبر دیا ہے اس کے بعد آیت کا نمبر ہے ۔ ازاں بعد جملہ یا الفاظ کا حوالہ ہے ۔ مثلا ١١٩: ٣ میں ٣ سورة آل عمران کو ظاہر کرتا ہے اور ١١٩ سورة آل عمران کی آیت ١١٩ کو، اور اس آیت میں مندرج مشکل الفاظ کو اس آیت کے محاظ درج کیا ہے ۔
چونکہ اس کتاب میں صرف مشکل الفاظ کی تشریح کی گئی ہے لہذا ضروری نہیں کہ ہر سورة یا ہر پارہ اس کے انہی الفاظ سے شروع ہو جو قرآن میں ہیں۔
کتاب ہذا کا مقصد طالب علم کو قرآن حکیم کے سمجھنے میں معاونت کرنا ہے لہذا ان کتب سے دل کھول کر مدد لی گئی ہے۔ مؤلف کتاب ہذا کو اپنی کوتاہی علم کا شدت سے احساس ہے۔ لہذا کتاب ہذا میں جو محاسن نظر آئیں ان کے لئے سزاوار تحسین وہ ہستیاں ہیں جن کے گلستان تصنیف سے خوشہ چینی کی گئی ہے البتہ جو خامیاں رہ گئی ہیں ان کے لئے ذمہ دار وہ خود مؤلف ہے جس کے لئے وہ بارگاہ ایزدی سے معافی کا خواستگار ہے۔
(2) سورتوں کے شروع میں جو حروف آئے ہیں ان کو مقطعا کہا جاتا ہے کیونکہ یہ الگ الگ کرکے پڑھے جاتے ہیں خلفاء اربعہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود اور دیگر اکا بر صحا بہ کا خیال ہے کہ یہ حروف راز خداوندی ہیں جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ان حروف کی تفسیر میں... کوئی بات ثابت نہیں ہے مگر بعض صحابہ مثلا عبداللہ بن عباس اور بعض تابعین سے اس کی تاویل میں مختلف اقوال مروی ہیں مگر صحت سند کے ساتھ ثابت نہیں ہیں صرف ایک قول عبد الر حمن بن زید سے ثابت ہے کہ انہوں نے ان حروف کو اسمائے سورة قرار دیا ہے وکھوا لصحیح ( کشاف رازی۔ متآ خرین علماء نے ان حروف کو کو لطا ئف دقائق بیان کئے ہیں مگر یہ سب فنی کاوش الغازو تعمیہ کی حثیت رکھتی ہیں ایک احتمال کچھ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کہ اوائل سورة میں ان کے نزول سے تحدی مقصود ہو۔ اور عرب کے فصحا اور بلغا کو دعوت معارضہ دی گئی ہو کہ قرآن ان حروف تہجی سے مرکب ہے جن سے تم اپنا کلام ترکیب دیتے ہو اگر یہ اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہے تو تم بھی اس اس جیسا کلام بنا لاؤ ورنہ سمجھ لو کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے لیکن اس بارے میں تو قف اور سکوت بہتر ہے علامہ شوکانی فرماتے ہیں۔ ہر اس شخص کے لیے جو نجات کا خواہاں اور سلف صالحین کی پیروی کا خواہشمند ہے اتان جان لینا کافی ہے کہ ان حروف کے اتار نے میں کوئی ایسی حکمت ہے جس تک ہماری رسارئی ممکن نہیں ہے پس اس سے زیادہ گہرائی میں جانے کی سعی کرنا لا حا صل ہے۔ (فتح القدیر ) Show more
نام : اشرف الحواشی
ترجمہ اول : حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی (رح)
ترجمہ دوم : نواب وحید الزمان خان حیدر آبادی
مرتب و مؤلف : ابوالقاسم محمد عبدہ الفلاح
ناشر : شیخ محمد اشرف ناشران قرآن مجید و تاجران کتب
مختصر تعارف و خصوصیات :
مؤلف اور ناشر تفسیر کے اخیر میں لکھتے ہیں :
1 ۔ تاریخ کے ہر دور میں علماء نے قرآن کی تشریح و تفسیر کا فریضہ ادا کیا۔ اور علماء کی ان خدمات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ انکا احصاء ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ برصغیر میں خاندان ولی اللہی کی خدمات کو اساسی حیثیت حاصل ہے۔ ان میں شاہ رفیع الدین دہلوی (رح) کا ترجمہ اپنی سہولت اور اختصار کے سبب نہایت مقبول ہے اور یہ ترجمہ جو مسلک سلف کا مظہر ہے۔ اس پر خود حضرت النواب نے تفسیری حواشی مرتب فرمائے مگر وہ نہایت مختصر تھے۔ اس بناء پر کسی ایسے تفسیری حواشی کی ضرورت عرصہ سے محسوس ہورہی تھی جو اس ترجمہ سے ہم آہنگ ہو، اور احادیث صحیحہ، دورِ آثار صحابہ و تابعین پر حاوی ہو تاکہ سلف کے طرز پر قرآن سمجھنے والے اس سے اپنا شوق پورا کرسکیں۔ ان تفسیری حواشی میں مندرجہ ذیل اصول کو سامنے رکھا گیا ہے۔
2 ۔ کتب تفسیر میں ابن کثیر، فتح القدیر اور فتح البیان کو اصل قرار دیا گیا ہے اور ان سے تفسیر بالماثور کا حصہ نہایت اختصار کے ساتھ اخذ کیا گیا ہے۔
3 ۔ بلا واسطہ کتب حدیث سے استفادہ کیا ہے اور اس سلسلہ میں صحاح ستہ اور ان کے شروح کو سامنے رکھا گیا ہے۔
4 ۔ جن عقل پسندوں نے قرآن کی ترجمانی کے زعم میں بعض صحیح احادیث کا انکار کیا ہے، فوائد میں ان پر بھی بالاختصار تنقید کردی گئی ہے۔
5 ۔ اس تفسیر میں دوترمے ہیں۔ پہلا ترجمہ حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی کا ہے اور دوسرا ترجمہ علامہ نواب وحید الزماں کا۔ نواب صاحب مشہور عالم اور صحاح ستہ کے مترجم ہیں۔ حواشی میں اس امر کا خاص طور پر التزام کیا گیا ہے کہ قرآن مجید کی متعلقہ آیات کی تائید میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ حدیث درج کی جائے جو مضمون آیات کے عین مطابق ہو۔ حواشی کو اشرف الحواشی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جسے آپ تفسیر قرآن بالحدیث کے نام سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
اسرار ومعارف الم ذلک الکتاب لاریب فیہ الم حروف مقطعات ہیں جو اکثر مذکور ہوئے ہیں جن پر ایمان لانا ضروری ہے اور معانی میں الجھنا غیر ضروری۔ انھا سرابین اللہ رسولہ۔ یہ اللہ اور اس کے رسول کے درمیان راز ہیں مومن کو معنی جانے بغیر بھی ان کا فائدہ مل جاتا ہے ۔ یہ ایسی کتاب ہے جس میں ادنیٰ درجے کے شبہ ک... ی بھی گنجائش نہیں یعنی ، اس کتاب سے جو جواب دعا ہے استفادہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اے مخاطب ! تو اس کے کسی مضمون یا کسی خبر کو جو گذشتہ یا آئندہ کے بارے ہو یا کسی بھی بیان میں ادنیٰ سا شبہ بھی نہ رکھے کہ واقعتا کسی شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ اکثر کتابیں جو ایسے مضامین پر مشتمل ہوں اور ماورا الطبیعاتی یا ایسے حقائق پر مبنی ہوں جو حواس کے ادراک سے بالا تر ہوں تو خود ان کے مصنفین کو بھی یقین کامل حاصل نہیں ہوتا کہ ساری بات کی بنیاد گمان پر ہوتی ہے مگر اس کتاب کا نازل کرنے والا اللہ ہے جس کا علم قدیم ہے ازلی اور ابدی ہے کامل ومکمل ہے۔ لہٰذا اس کی بیان کردہ حقیقتیں شک وشبہ کی رسائی سے بہت بالا تر ہیں پھر اس رفع شک کے لئے اللہ کریم نے ان تمام واسطوں اور ذریعوں کی صداقت وامانت کی گواہی دی ہے جو انسانوں تک اس کے پہنچنے کا سبب ہیں۔ خالق کا کلام بندے تک پہنچنے کے ذرائع : سب سے پہلا واسطہ اور سبب وہ فرشتہ ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک اس کے پہنچانے کا ذریعہ ہے اللہ کریم نے فرمایا ذی قوۃ عندذی العرش مکین مطاع ثم امین کہ وہ بہت طاقتور اللہ کے نزدیک بہت معزز اور تمام فرشتوں کا سردار اور بہت امانت دار ہے ایسا طاقتور کہ کوئی بھی اپنی طاقت کے ساتھ اس سے وحی چین نہیں سکتا یا جبراً اس کو اس بات پر مجبور نہیں کرسکتا کہ اس میں کسی طرح کی آمیزش کرے اور اگرچہ فرشتے نوری مخلوق ہیں مگر ان فرشتوں کا سردار اور عنداللہ بہت معزز اور بزرگی کا حامل ہے پھر ایسا امانت دار کہ جس کی دیانت امانت پر اللہ خود گواہ ہے یعنی اللہ کی کتاب کو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچانے کا ذریعہ ایک ایسا فرشتہ ہے جو انتہائی قوی ، معزز اور امین ہے۔ دوسرا واسطہ اللہ سے مخلوق تک اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے جو صدق مجسم ہے جن کی صداقت پر نہ صرف قرآن گواہ ہے بلکہ جس کی امانت پر اس کے بدترین دشمن یعنی کفار مکہ بھی گواہ ہیں جو اسے ” صادق وامین “ کے نام سے پکارتے ہیں اور جس کی بےداغ زندگی اس کی نبوت پر بہت بڑی شہادت ہے۔ جہاں معجزات قاہرہ اور دلائل باہرہ اس کی نبوت کا ثبوت میں وہاں اس کی قبل بعثت کی زندگی میں اتنی طبیب و طاہر اور پاک وصاف ہے کہ کبھی کسی بھی طرح کا جھوٹ یا غلط بیانی نہیں پائی جاسکتی بلکہ اس حیات مبارکہ کو سب دلائل نبوت پر ایک تفوق حاصل ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں بعثت فیکم عمراً من قبلہ یعنی میں نے تمہارے درمیان ایک حیات بسر کی ہے کہ تم مجھ پر غلط بیانی کا الزام لگا سکتے ہو ؟ حتیٰ کہ اس حیات طیبہ کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے لعرک یعنی تیری زندگی کی قسم ! تیری زندگی گواہ ہے۔ سبحان اللہ ! اور فرمایا وانک لعلی خلق عظیم ، تیرے اخلاق ان بلندیوں کو چھو رہے ہیں جو بشر کی رسائی کی حد ہے تو گویا اللہ سچا ہے اس کا پیغام لانے والا فرشتہ شک سے بالا تر اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صادق ومصدق ، یہ ساری بنیاد راستی سچائی اور حق ہے لاریب فیہ ہے مگر کیا کیا جائے کہ ساری مخلوق کو یہ واسطہ بھی براہ راست نصیب نہیں بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور امت درمیان ایک پورے طبقہ کا واسطہ ہے جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے براہ راست کلام باری کو سنا ، سمجھا سیکھا اور ساری خدائی تک پہنچایا۔ عدالت صحابہ (رض) کا ثبوت : اگر خدانخواستہ یہ واسطہ اور ذریعہ ہی مجروح قرار پائے تو پھر ثابت نہ ہوسکے گا۔ نیز فرشتہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کسی کو حملہ کرنے کی جرات کم ہوگی مگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین ، چونکہ وہ درجہ معصومیت نہیں رکھتے تو معترضین کیو ہاں حملہ کرنا زیادہ آسان ہوگا اور اگر کوئی اعتراض نہ بھی کرے مگر واقعتا وہ لوگ غلط بیان کر جائیں تو کیا ہو۔ یہی کہ دین کی ساری عمارت مشکوک قرار پائے تو اللہ پاک نے سب سے زیادہ احوال ان حضرات کے ارشاد فرمائے قرآن کریم کی جگہ جگہ ان کی مدح سے مزین فرمایا۔ یہاں تک ان کا ایمان مثالی ایمان فان امنوا بمثل ما امنتم فقہ اھتدوا اور ان کے قلوب مثالی قلوب یعنی اولئک الذین امتحن اللہ قلو بھم لاتقویٰ اور ان کی صداقت مثالی صداقت یعنی اولئک ھم الصائقون۔ اور ان کی زندگی قابل اتباع اور واجب الاتباع قرار دے دی والذین اتبعو ھم باحسان۔ یہ نہ صرف ان کے حالات کا مشاہد قرار دیا بلکہ فرمایا میرے علم ازل میں یہ بات موجود تھی اور میں نے ان کو پیدائش سے بیشتر تورات واناجیل میں ان کے اوصاف ارشاد فرمادیئے تھے کہ یہ میری مثالی مخلوق ہوگی اور انبیاء کے بعد ان کی مثل نہ چشم فلک ان سے پلے پائے گی نہ بعد میں دیکھ سکے گی اور واقعی یہ ضروری تھا کہ قیامت تک باقی رہنے والے دین کو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لے کر اقوام عالم بلکہ ساری انسانیت کہ پہنچانے والے لوگ ایسے ہی مثالی کردار کے حامل ہوتے جن کی ہر کوشش دین کے لئے اور ہر محنت دین کی خاطر ہو اور حق تو یہ کہ نہ صرف مکہ ومدینہ منورہ کی زندگی میں روم وایران کی جنگوں اور قیصروکسریٰ کے مقابلے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دین کی حفاظت کا حق ادا فرمایا بلکہ آج بھی ان کی ذوات مقدسہ اس بارگاہ کی پہردار ہیں اور آج بھی اگر ان کو ہٹا دیا جائے تو دین مخلوق تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔ وہ لسان نبوت ہیں ترجمان نبوت میں۔ انہوں نے قرآن کو براہ راست حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ، سیکھا ، سمجھا اور پھر آپ کے سامنے اس پر عمل کرکے اپنے عمل کی صحت کی سند حاصل کی۔ صدیاں بیت گئیں کفر کے ظلمت کدے سے اٹھنے والی ہر لہر ان ہی سے جاٹکرائی مگر ہمیشہ کی طرح اپنا پاش پاش سرے کر پھر اسی اندھیروں میں گم ہوگئی بلکہ بعض نادان ودوستوں نے بھی ان مقدس بستیوں پر مقدمہ چلانا چاہا ذرا غور تو فرمائیں کہ طبری اور کلبی گواہ ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین معاذ اللہ ملزم اور آج کے محققین منصف ، سبحان اللہ ! پنجابی کی ایک مثال ہے ” ذات دی کوڑ کرلی ، شتیراں نوں جھپے “ مگر اس سب کے باوجود ان کی شان ویسی کی ویسی ہے بےداغ ہے کہ خود قرآن کریم کی لازوال شہادتیں کسی کا کچھ بس نہیں چلنے دیتیں۔ جب یہاں تک بات درست ہوگئی تو اب بیشک ثابت ہوا لاریب فیہ۔ عظمت صحابہ پر یہ لاریب گواہ ہے اور اس بات کا واضح ثبوت کہ مقام صحابیت خودایک خصوصیت کا حامل ہے جو بجز صحبت رسول نصیب نہیں ہوسکتی۔ یہ کہنا کہ الصحابہ کلم عدول کا کلیہ صرف ہکام دین پہنچانے کی حد تک درست ہے ذاتی زندگی میں ان کا صالح ہونا اس سے ثابت نہیں۔ یہ ایسی بات ہے جسے عقل تسلیم نہیں کرتی کہ ایک شخص بیک وقت بدکار بھی ہو اور راست باز بھی۔ پھر راست باز بھی ایسا کہ اللہ کا آخری کلام ، اللہ کی مخلوق تک پہنچانے کا سبب اور ذمہ دار قرار پائے۔ معترضین کو حضرت ماعزرضی اللہ عنہ کی حکایت بطور ثبوت مل گئی مگر کاش اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تنقید کی بجائے ان کی مثال کو توبہ کے حوالے سے مدح صحابہ میں بیان کیا جاتا جو اس کا اصلی مقام تھا۔ اور ایسے واقعات کی فہرست میں بھی تریسٹھ برسوں میں صرف دو واقعات ملتے ہیں لہٰذا دین اور حقانیت دین کے زندہ ثبوت یہی معزز مقدس اور بزرگ ہستیاں ہیں۔ ھدی للمتقین ، یہ رہبری کرتا ہے ان لوگوں کی جو متقی ہوں ہدایت رہنمائی کے معنوں میں ساری انسانیت کے لئے ہے دعوت الی الحق تو سب کے لئے ہے مگر رہبری صرف ایسے لوگوں کے لئے جو اپنے میں اس کے ساتھ چلنے کی استقامت پیدا کرلیں۔ یہ قوت ہے تقویٰ ۔ جس کا اردو ترجمہ ” ڈر “ لکھا ہوتا ہے۔ مگر یہ لفظ یہاں اس کی مراد بیان کرنے سے قاصر ہے اس کا اصل مقصد ایک خاص ڈر ہے جو کسی محبوب ہستی کی ناراضگی کا ڈر ہو۔ جو کسی کے روٹھ جانے کا اندیشہ ہو ، جو ہر حال میں کسی پر نثار ہونے کی تمنا ہو۔ یہ وہ جذبہ ہے جو تمام خواہشات اور ارادوں کو تمام آرا۔ اور مشوروں کو صرف اس وجہ سے روک دے کہ ایسا کرنے سے میرا رب مجھ سے خفا نہ ہوجائے اور اگر بتقضائے بشریت غلطی صادر ہو بھی جائے تو احساس گناہ دل میں کانٹے کی طرح چبھتا اور توبہ پر مجبور کردیتا ہو یہ تقویٰ ہے۔ ولم یصروا علی مافعلوا حصول تقویٰ کے لئے کون سا راستہ ہے اور متقیوں میں کیا اوصاف پائے جاتے ہیں ؟ Show more
مصنف : امیر محمد اکرم اعوان
۔۔۔
امیر محمد اکرم اعوان مفسر قرآن اور مذہبی پیشوا ہیں جو تنظیم الاخوان کے امیر ہیں۔
آپ کا تعلق کوہسار کے خوبصورت علاقہ ونہار کے ایک معروف زمیندار خاندان سے ہے آپ نے علاّمہ مو لانا اللہ یار خان صاحب (رح) کی صحبت کی بھٹی میں پچیس سال کا عرصہ گزارا اور کندن بن کر نکلے۔ حضرت العلاّم مولانا اللہ یار خان نوّر اللہ مرقدہ نے اپنے شاگرد رشید کے سینے میں برکاتِ نبوّت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بےکراں سمندر انڈیلا اور اپنے بعد سلسلے کا شیخ نامزد فرمایا۔
حضرت امیر مکرّم مولانا محمد اکرم اعوان مد ظلہ العالی سلسلہ عالیہ نقشبندیہ اویسیہ کے فی زمانہ شیخ ہیں ۔ آپ نے اصلی حقیقی تصوّف کو واضح کرنے کے لیے ارشاد السالکین ، کنز الطّالبین، طریقِ نسبتِ اویسیہ، رموزِدلِ ، کنوزِ دل جیسی قریباً چالیس کتب سالکین کی رہنمائی کے لیے تصنیف فرمائیں۔
آپ نے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کی " مسائل السلو ک من کلام الملوک " کی شرح فرمائی اور اپنے عطیم المرتبت شیخ ضرت العلام مولانا اللہ یار خان صاحب (رح) کی کتاب دلائل السلوک کی بھی شرح فرمائی۔
آپ عصرِ حاضر کی ایک عہد ساز شخصیت ہیں
آپ نے تعلیمِ بالغاں کا با قا عدہ سلیبس مقرر کر رکھا ہے۔ مختلف کو رسز کے ذریعے لوگ قرآن حدیث ، فقہ اور عربی سیکھتے ہیں۔ جن میں ایمانیات، عبادات، معاملات اور اخلاقیات کی بنیادی تعلیم کے ساتھ معاشیات، عدالت اور معاشرت کی رہنمائی ملتی ہے۔ مَردوں کی طرح خواتین کی تربیت کا نتظام ہے۔ " الا خوات " کا نام سے ان کی بھی تنظیم ہے۔
آپ نے گزشتہ ادوار ِ حکومت میں ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کو نفاذِ اسلام کے لیے تحریری مسوّدہ پیش کیا۔ شومٔی قسمت کہ ان حکومتوں کو توفیقِ عمل نہ ہوئی۔
آپ مفسِّر قرآن ہیں۔ اللہ کریم نے آپ کو علم لَدُنّی سے نوازا ہے۔ اور قرآن پاک کا خص فہم عطا فرمایا ہے۔ یہ اسی علم لدنی کی برکت ہے کہ آپ نے ایک تفسیر " اسرار التنزیل " تحریر فرمائی ہے۔ جس میں آپ نے موقع بہ موقع تسوّف کے رموز کو آشکار کیا ہے ۔ یہ تفسیر صاحب دل حضرات کے لیے کسی نایاب تحفے سے کم نہیں۔ علاوہ ازیں زبان و بیا ن کی خوبیوں سے آراستہ اور خاص و عا م میں پسندیدہ ہے۔ آپ کی دوسری بیانیہ تفسیر " اکرم التفاسیر " ہے جو نصف سے زا ئد یعنی سولہ پا روں میں زیور طباعت سے آراستہ ہوچکی ہے۔ یہ تفسیر " وَلَقَد یَسَّرنَا القُر آنَ لِلذِّکرِ " آسان قرآن " کا اظہر من الشمس ثبوت ہے۔ آسان زبان میں ہونے کے ساتھ ساتھ موجودہ دور کے حالات کے مطابق ہونے کی وجہ سے یوں لگتا ہے کہ قرآن کریم شاید موجودہ زمانے کے لیے ہی نازل ہوا ہے۔ آپ کی ایک اور پنجابی تفسیر " رب دیاں گلاّں " " اپنا ٹیوی چینل سے ٹیلی کا سٹ ہوتی رہی ہے۔ اس کی سی ڈی اور ڈیوی ڈی وغیرہ دستیاب ہیں اور انشاء اللہ طباعت کے بعد منظر عام پر آ جائے گی۔
آپ مترجمِ قران بھی ہیں۔ آپ کا قرآن پاک کا سلیس ترجمہ " اکرم التراجم " قدرت اللہ کمپنی کی طرف سے شائع ہو کر کتب خانوں، مساجد اور گھروں کی زینت بن چکا ہے اور اپنی روانی، سلاست اور شستگی کے باعث علماء اور عوام میں یکساں مقبول ہے۔
آپ صوفی شاعر، محقق اور اور اعلیٰ پائے کے ادیب ہیں دلی کیفیات زباں پر آئیں تو گردسفر، دیدۂ تر، متاعِ فقیر، نشانِ منزل، آس جزیرہ، کونسی ایسی بات ہوئی ہے اور دِل دروازہجی سے مجموعہ ہائے کلام معرض وجود میں آئے۔
آپ کے ہزاروں بیانات آڈیو، وڈیو ریکارڈ شدہ ہیں۔ سی ڈیز وغیرہ دستیاب ہیں۔ کتب کے علاوہ بیشمار پمفلٹ ہیں کسی چیز پر رائلٹی نہیں لیتے۔
آپ الفلاح فاؤنڈیشن کے بانی ہیں جو پورے ملک میں عموماً اور شمالی علاقہ جات میں خصوصاً رفاہِ عامہ کی خدمات سر انجام دے رہی ہے۔
آپ صقارہ ایجو کیشن سسٹم کے بانی اور سرپرستِ اعلیٰ ہیں۔ صقارہ اکیڈمی جس کا افتتاح صدر جنرل ضیاء الحق صاحب نے کیا وہاں اقبال کے شاہینوں کی تربیت کی جاتی ہے ۔ صقارہ اکیڈمی دین اور علوم جدیدہ کا حسین امتزاج ہے۔
العلم علمان : علم الادیان وعلم الابدان کے مصداق spirtual ، نارمیٹو سائنسز کے علم اور فزیکل سائنسز کے علم کا شاہکار عملی نمونہ ہے۔
اس اکیڈمی کا " راولپنڈی بورڈ " میں ایک خاص مقام ہے۔ اکیڈمی کے تعلیم و تربیت یافتہ سول و آرمی کے اعلیٰ عہدوں پر ہیں نیز مختلف شعبہ ہائے زندگی میں قابل تقلید نمونہ کے حامل ہیں۔
سورة البقرۃ لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 5 (لا ریب): شک نہیں ہے۔ یعنی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ (ھدی): ہدایت ہے۔ راستہ دکھانے اور منزل تک پہنچانے کو بھی ہدایت کہتے ہیں۔ (تقویٰ ): بچنا، ڈرنا، خوف۔ (اللہ سے اس طرح ڈرنا کہ اس میں اس کی رحمت پر بھی یقین ہو) ۔ (ایمان): زبان سے اقرار اور دل سے یقین کرنا... ۔ (غیب): انسان کے پانچوں حواس سے باہر جس کو صرف اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی اس کی مرضی سے بتا سکتے ہیں۔ (صلوٰۃ): اللہ کی عبادت کرنے کا وہ مخصوص طریقہ جس کو جیسے رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتایا اس کو اسی طرح ادا کرنا۔ اسی کو عرف عام میں “ نماز ” کہتے ہیں۔ (انفاق): خرچ کرنا اپنے مال اور صلاحیتوں کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکامات کے مطابق خرچ کرنا اور اس میں کنجوسی سے کام نہ لینا۔ (اخرۃ): اس دنیا کی عارضی زندگی کے بعد ہمیشہ رہنے والی زندگی کو آخرت کہا جاتا ہے۔ (فلاح): کامیاب، کامیابی، اہل ایمان کی خصوصیت۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 5 الف، لام، میم ۔ ۔۔ ۔ ان کو اور ان جیسے حروف کو “ حروف مقطعات ” کہتے ہیں یعنی الگ الگ کر کے پڑھے جانے والے۔ معنی سے کٹے ہوئے۔ ایسے حروف جن کے معنی کے متعلق اتنا کہہ دینا کافی ہے “ کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ ان کے کیا معنی ہیں ” اگر ان کے معنی جاننا ضروری ہوتا تو صحابہ کرام نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ضرور پوچھتے کہ ان کے معنی کیا ہیں۔ اس کی دو وجہ ہو سکتی ہیں (1) صحابہ کرام کے لئے یہ کوئی ایسی انوکھی اور نئی بات نہ تھی، جس کو پوچھنا ضروری ہوتا (2) دوسرے یہ کہ وہ جانتے تھے کہ یہ ان آیات میں سے ہیں جن کو قرآن حکیم نے “ متشابہات ” فرمایا ہے جن کے معنی کا علم اللہ کو ہے۔ اور ہو سکتا ہے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بطور ایک راز کے دیا گیا ہو، جس کی تبلیغ امت کے لئے روک دی گئی ہو اسی لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان حروف کی تفسیر و تشریح میں کچھ منقول نہیں۔ عام طور پر مفسرین بھی ان ہی دو باتوں کی طرف گئے ہیں۔ کسی نے یہ کہا ہے کہ عرب کے شاعروں اور ادبی حلقوں میں اس طرح کے الفاظ کا استعمال عام سی بات تھی اور اس کے لئے وہ ان شاعروں کے کلام اور اشعار کو پیش کرتے ہیں۔ ۔۔ ۔ اور یہ کہتے ہیں کہ جن لوگوں کی نظر عربوں کی روایات اور لٹریچر پر ہے وہ جانتے ہیں کہ عرب والے نہ صرف اس طرح کے ناموں سے اچھی طرح واقف تھے بلکہ وہ خود بھی اپنی بہت سی پسندیدہ چیزوں جیسے گھوڑے، جھنڈے، تلواریں، قصیدے اور خطبات کے نام ان ہی سے ملتے جلتے ناموں پر رکھتے تھے۔ قدیم زمانہ کے شاعروں کے کلام میں اس طرح کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عربوں کے لئے حروف مقطعات کا استعمال کوئی نئی اور انوکھی بات نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس بات کو نہ صحابہ کرام (رض) نے دریافت کیا اور نہ ان اسلام کے دشمنوں نے پوچھا جن کا کام ہی اسلام کی ہر بات کا مذاق اڑانا اور قرآن سے دشمنی کرنا تھا۔ بعض علماء نے یہ فرمایا ہے کہ یہ حروف “ آیات متشابہات ” میں سے ہیں جن کے معنی اللہ ہی جانتا ہے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ ہر کتاب کی ایک خصوصیت ہوتی ہے اور حروف مقطعات قرآن مجید کی ایک بہت بڑی خصوصیت ہے۔ بعض علما نے فرمایا کہ یہ ان سورتوں کے نام ہیں جن کی ابتداء میں یہ حروف آئے ہیں۔ تمام مفسرین نے اپنے اپنے علم و فضل کے مطابق ان حروف کی وضاحت فرمائی ہے لیکن ایک بات پر سب متفق ہیں کہ “ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان حروف سے کیا مراد ہے ؟” Show more
نام : بصیرت قرآن
مترجم و مفسر : مولانا محمد آصف قاسمی
ناشر : مکتبہ بصیرت قرآن کراچی
مختصر تعارف :
زیر نظر تفسیر مولانا محمد آصف قاسمی مدظلہ کی تصنیف ہے، مولانا محمد آصف قاسمی، حضرت مولانا قاسم نانوتوی (رح) کے پڑپوتے ہیں اور کینیڈا میں مقیم ہیں۔ اور یہ تفسیری مجموعہ در اصل ان کے دروس قرآن ہیں۔ جنہیں بعد ازیں کیسٹوں سے سن کر تحریری شکل دی گئی۔ تفسیر کی خصوصیات خود مصنف کے اپنے الفاظ میں درج ذیل ہیں :
تفسیر بصیرت قرآن کی چند خصوصیات
1 ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس ترجمہ و تفسیر کے لکھنے میں میرا بنیادی جذبہ صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہوجائیں اور اس کے صدقے میں میری مغفرت فرما دیں۔ اس سلسلہ میں میری حیثیت اس بڑھیا جیسی ہے جو مصر کے بازار میں سوت کا ایک گولہ لے کر اس جذبہ کے ساتھ آ گئی تھی کہ اس کا نام بھی یوسف کے خریداروں میں آجائے۔ کیا خبر کہ میری یہ ادنی سی کاوش و کوشش کل قیامت کے دن جب صحابہ کرام، علماء عظام اور بزرگان دین اپنا اپنا انعام حاصل کرے رہے ہوں تو ان کے صدقے میں مجھے بھی مغفرت و نجات کا پروانہ مل جائے۔
2 ۔ اس پوری تفسیر میں لفظ " خدا " نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ خدا کہنے میں اللہ کی طرف سے کسی اجر و ثواب کا وعدہ نہیں ہے جب کہ لفظ اللہ قرآن کریم کا لفظ ہے اور حدیث سے ثابت ہے کہ قرآن کریم کے ایک ایک حرف پر دس نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے میں نے پوری تفسیر میں لفظ خدا لکھنے سے گریز کیا ہے۔
3 ۔ تفسیر میں اس بات کی پوری کوشش کی گئی ہے کہ آسان زبان میں بات کو سمجھایا جائے کیونکہ عام مسلمانوں کو شکوہ یہ ہے کہ تفسیروں میں اتنے مشکل الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جن کے سمجھنے میں بڑی دشواری ور مشکل پیش آتی ہے لہذا میں نے زیادہ سے زیادہ سادہ الفاظ استعمال کرنے کی کوشش کی ہے اپنی اس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوا ہوں اس کا صحیح فیصلہ تو قارئین ہی کرسکتے ہیں۔
4 ۔ اس بات کی ممکن حد تک کوشش کی گئی ہے کہ فقہ حنفیہ کے مطابق بیان کیا جائے کیونکہ جب ہم مختلف فقہا کا مسلک بیان کرتے ہیں تو آسان پسند لوگ ہر فقہ سے اپنے مطلب کے مسائل نکال کر خود ہی فیصلے کرنے لگتے ہیں۔ چونکہ اس کی وجہ سے کافی الجھنیں پیدا ہو رہی ہیں اس لیے میں نے عام طور پر اسی قول کو نقل کیا ہے جو فقہ حنفی کے مطابق ہے۔
5 ۔ تفسیر کرنے میں میری کوشش یہ رہی ہے کہ جو آیت سامنے ہے اس کے مفہوم کو واضح کرکے بتادیا جائے تا کہ بات مختصر بھی ہو اور سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔
6 ۔ ترجمہ کے ساتھ الفاظ قرآن کا الگ الگ ترجمہ بھی کردیا ہے تاکہ جو شخص قرآن کے ترجمہ و تفسیر کے ساتھ خود بھی ترجمہ سیکھنا چاہتا ہو وہ لغات القرآن اور تفسیر کے مطالعہ سے قرآن کریم کو با ترجمہ سیکھ سکے۔
7 ۔ پوری تفسیر میں میں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ اپنی رائے سے کوئی بات نہ لکھوں جہاں کوئی اختلافی مسئلہ ہوتا ہے اس میں مختلف مفسرین کی رائے پیش کردیتا ہوں کیونکہ ہمارے اکابر نے پوری زندگیاں لگا کر حق و صداقت کی باتوں پر تحقیق فرمائی ہے اور اس کو امت کے سامنے پیش کیا ہے۔ میں نے بھی ان ہی بزرگوں کے فیض سے روشنی حاصل کرکے ایک ادنی سی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے ۔ آمین۔
1۔ ان حروف کے معانی سے عوام کو اطلاع نہیں دی گئی۔ شاید حامل وحی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلا دیا گیا ہو کیونکہ اللہ اور اس کے رسول نے اہتمام کے ساتھ وہی باتیں بتلائی ہیں جن کے نہ جاننے سے دین میں کوئی جرح اور نقصان لازم آتا تھا لیکن ان حروف کا مفہوم نہ جاننے سے کوئی حرج نہ تھا اس لیے ہم کو بھی ... ایسے امور کی تفتیش نہ چاہیے۔ Show more
ترجمہ و تفسیر بیان القرآن
سوفٹ وئیر میں شامل نسخہ تاج کمپنی کا ہی ہے۔
یہ ترجمہ وتفسیر مشہور دیوبندی عالم مولانا اشرف علی تھانوی المتوفی ١٩٤٣ء کا ہے جس کا پہلا ایڈیشن ١٩٠٨ء میں مطبع مجتبائی دہلی سے بارہ جلدوں میں طبع ہوا تب سے برابر چھپتا رہتا ہے۔ بعض ایڈیشن میں صرف ترجمہ ہی چھپتا ہے۔ قرآن شریف کے جو تراجم سب سے زیادہ چھپتے ہیں ان میں اس کا بہت اونچا مقام ہے۔ ترجمہ سلیس، سہل اور آسان ہے۔ تفسیر میں جن نواحی کو شامل کیا ہے اس سے عوام کم علماء زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بعد ازاں انڈ و پاک میں لا تعداد مکاتب نے شائع کیا۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کا نام کم سے کم برصغیر میں کسی صاحب علم کے لیے محتاجِ تعارف نہیں، آپ بلند پایہ فقہیہ، حدیث کے ذوق آشنا اور تصوف میں اپنے عہد کے گویا امام تھے، ایک خلقت کی اللہ نے آپ کے ذریعہ اصلاح فرمائی اور بڑے بڑے اہل علم وفضل آپ کے دامن تربیت سے وابستہ ہوئے، یہ تفسیر آپ ہی کی ہے اور آپ کی عمیق فکرونظر اور گہری بصیرت کی شاہد عدل ہے، آپ نے احباب کے بہت اصرار پر یہ تفسیر لکھی، جو تقریباً چھ سال کی مدت میں مکمل ہوئی اور پہلی بار ١٣٢٦ ھ میں " اشرف المطابع " تھا نہ بھون سے طبع ہوئی، اس تفسیر کی خصوصیات یہ ہیں : قرآن مجید کا نسبۃ آسان اور سلیس ترجمہ کیا ہے جو بامحاورہ ہونے کے باوجود الفاظِ قرآنی سے بھی پوری طرح ہم آہنگ ہے، دوسرے یہ کہ ترجمہ میں خالص محاورات استعمال نہیں کئے گئے ہیں؛ کیونکہ محاورات ہر جگہ ومقام کے الگ الگ ہوتے ہیں، ترجمہ شاہ رفیع الدین صاحب (رح) کے ترجمہ کے قریب ہے، تیسرے یہ کہ نفس ترجمہ کے علاوہ جس مضمون پر توضیح کی ضرورت تھی یا کوئی شبہ خود قرآن کے مضمون سے بظاہر پیدا ہوتا ہے اس جگہ " ف " بناکر اس کی تحقیق و وضاحت کردی گئی ہے، لطائف ونکات یاطویل وعریض حکایات وفضائل اور فقہی احکام کی تفصیلات سے تفسیر کو طویل نہیں کیا گیا ہے، چوتھے جس آیت کی تفسیر میں بہت سے اقوال مفسرین کے ہیں، ان میں جس کو ترجیح معلوم ہوئی صرف اس کو نقل کیا گیا ہے، پانچویں خلافیات کی تفسیر میں صرف مذہب حنفی کو لیا گیا ہے اور دوسرے مذاہب بشرط ضرورت حاشیہ میں لکھ دیئے گئے ہیں، چھٹے نفعِ عوام کے ساتھ افادہ خواص کا خیال کرتے ہوئے ایک حاشیہ عربی میں بڑھادیا گیا ہے، جس میں غیر مشہور لغات، وجوہ بلاغت، مغلق تراکیب، خفی استنباط، فقہیات وکلامیات اور اسباب نزول وغیرہ پر گفتگو کی گئی ہے، یہ نہایت ہی عالمانہ تفسیر ہے اور دینی مدارس کے اساتذہ وطلبہ کے لیے بہت ہی نفع بخش ہے؛ بلکہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اردو کی " جلالین " ہے۔
مصنف کا تعارف :
نام نامی ولقب گرامی
نام نامی ” اشرف علی “ ہے، یہ نام اس زمانہ کے مقبول و مشہور مجذوب و بزرگ حضرت حافظ غلام مرتضیٰ صاحب پانی پتی رحمة اللہ علیہ نے تجویز فرمایا تھا۔ أپ کالقب ” حکیم الامت “ ہے، جسے عرصہ دراز سے حق تعالیٰ نے خواص و عوام میں القا فرمادیا ہے اور جو بلاد و اَمصار میں عام طور پر شائع و ذائع ہے۔
شرف نسب
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ والد کی طرف سے فاروقی اور والدہ کی طرف سے علوی النسب ہونے کا شرف رکھتے ہیں۔ والد ماجد کا نام ” عبدالحق “ تھا، آپ قصبہ تھا نہ بھون ضلع مظفر نگر کے ایک مقتدر رئیس ، صاحب نقد و جائیدا د تھے۔ حضرت رحمة اللہ علیہ کی والدہ صاحبہ محترمہ بھی ایک باخدا اور صاحب نسبت بی بی تھیں، نیز ان کی عقل و فراست اور فہم و بصیرت کی تصدیق حضرت حافظ غلام مرتضیٰ صاحب مجذوب رحمة اللہ علیہ نے بھی فرمائی۔
وطن مالوف
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ کا وطن مالوف قصبہ تھا نہ بھون ہے، جو ضلع مظفر نگر ہندوستان میں واقع ہے، اس کا اصل نام ” تھا نہ بھیم “ تھا، کیوں کہ یہ کسی زمانہ میں راجا بھیم کا تھا نہ تھا، کثرت استعمال سے تھا نہ بھون ہوگیا، البتہ جب مسلمان یہاں آکر آباد ہوئے تو شرفائے قصبہ کے بعض اجداد نے اپنے ایک فرزند ” فتح محمد “ کے نام سے اس کا نام ” محمد پور “ رکھا، جو کاغذات شاہی میں بھی پایا جاتا ہے، لیکن عام طور پر پرانا نام ” تھا نہ بھون “ ہی مشہور ہے۔
ولادت باسعادت
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ کی ولادت باسعادت 15 ربیع الثانی 1280 ھجری کو چار شنبہ کے دن بوقت صبح صادق ہوئی۔
بچپن کے حالات
حضرت رحمة اللہ علیہ بچپن ہی سے اعزہ و اقارب ، اپنوں اور بیگانوں سب میں محبوب رہے، بچپن میں شوخیاں بہت فرمائیں، مگر ایسی کوئی شرارت نہیں کی جس سے دوسروں کو تکلیف وایذا پہنچے ، شروع ہی سے نماز کا بہت شوق تھا، فرائض کے اہتمام کے علاوہ صرف 13-12 برس ہی کی عمر سے رات تہجد میں اٹھتے اور نوافل و وظائف پڑھا کرتے تھے۔
تحصیل علوم
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ نے قرآن شریف زیادہ تر دہلی کے حافظ حسین علی رحمة اللہ علیہ سے حفظ کیا، البتہ شروع کے چند پارے ضلع میرٹھ کے آخون جی صاحب رحمة اللہ علیہ سے پڑھے تھے۔
ابتدائی فارسی میرٹھ میں مختلف استادوں سے پڑھی، پھر تھا نہ بھون میں فارسی کی متوسطات حضرت مولانافتح محمد صاحب رحمة اللہ علیہ سے پڑھیں اور انتہائی کتب اپنے ماموں واحد علی صاحب رحمة اللہ علیہ سے پڑھیں، جو ادب فارسی کے استاد کامل تھے۔ تحصیل عربی کے لیے دیوبند تشریف لیے گئے، وہاں بقیہ کتب فارسی مولانا منفعت علی صاحب دیوبندی رحمة اللہ علیہ سے پڑھیں۔ عربی کی پوری تکمیل دیوبند ہی میں فرمائی اور صرف 19 یا 20 سال کی عمر میں بفضلہ تعالیٰ فارغ التحصیل ہوگئے ۔
اساتذہ کرام
آپ کے تمام اساتذہ ہر فن ماہر ہونے کے ساتھ بڑے صاحب باطن اور کامل بھی تھے ، گویا ان میں ہر ایک غزالی اور رازی وقت تھا۔ اساتذہ کرام میں حضرت مولانا یعقوب صاحب، مولانا سید احمد صاحب، مولانا محمود صاحب، مولانا عبدالعلی صاحب اور حضرت شیخ الہند محمود حسن صاحب رحمھم اللہ شامل ہیں۔ قراءت کی مشق شہرہ آفاق قاری ، جناب قاری محمد عبداللہ صاحب مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ سے بمقام مکہ معظمہ فرمائی۔
درس و تدریس
مروجہ علوم سے فراغت کے بعد حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ صفر 1301 ھ سے 1315 ھ تقریبا 14 سال تک کان پور میں مدرسہ فیض عام میں درس و تدریس میں مشغول رہے اور اپنے مواعظ حسنہ اور تصانیف مفیدہ سے وہاں کے مسلمانوں کو مستفید فرماتے رہے، علاوہ بریں افتاء کا کام بھی اپنے ذمہ لے رکھا تھا، 14 سال کے بعد اپنے پیرو مرشد کے حکم سے دوبارہ اپنے وطن تھا نہ بھون میں قیام پذیر ہوگئے۔
تلامذہ
قیام کان پور کے زمانہ میں نزدیک و دور کے صدہا طلبہ نے حضرت رحمة اللہ علیہ سے علوم فاضلہ حاصل کیے ، سب کا استقصا تو ممکن نہیں ، البتہ چند مخصوص حضرات قابل ذکر یہ ہیں : مولانا قاری محمد اسحاق صاحب برودانی، مولانا محمد رشید صاحب کان پوری ، مولانا احمد علی صاحب فتح پوری، مولانا صادق الیقین صاحب کرسوی، مولانا فضل حق صاحب الہ آبادی ، مولانا شاہ لطف رسول صاحب فتح پوری، مولانا حکیم محمد مصطفیٰ صاحب بجنوری، مولانا اسحاق علی صاحب کان پوری ، مولانامظہر الحق چاٹ گامی، مولانا سعید احمد اٹاوی ، حضرت مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی ، مولانا سعید صاحب، مولانا مظہر علی صاحب تھانوی وغیرہ رحمھم اللہ کے علاوہ پاک ہند کے بیشمار حضرات نے حضرت رحمة اللہ علیہ سے فیض پایا ہے۔
حضرت حاجی صاحب سے بیعت اور خلافت و اجازت
1301 ھ میں حضرت حج کے لیے تشریف لیے گئے تو آپ کو حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ سے بیعت ہونے کا شرف حاصل ہوا، 1310 ھجری میں دوسری بار حج کے لیے تشریف لے گئے اور اپنی طلب صادق اور حضرت شیخ کی منشا اور ان کی خواہش کے مطابق وہاں چھ ماہ قیام فرمایا۔ حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ نہایت شفقت و محبت کے ساتھ اپنے مرید صادق کی تربیت باطنی کی طرف متوجہ ہوگئے اور وہ تمام علوم باطنی اور اسرار و رموز روحانی جو اللہ تعالیٰ نے ان کے قلب پاک پر وارد و القا فرمائے تھے حضرت کے قلب مصفیٰ میں منتقل فرماتے رہے ؛نتیجہ یہ ہوا کہ قلیل عرصہ میں حضرت شیخ کی توجہات خاص سے حضرت کا سینہ مبارک معارف و حقائق باطنی کا خزینہ اور انوار وتجلیات روحانی کا آئینہ بن گیا اور محبت حق سبحانہ وتعالیٰ اور محبت نبی الرحمہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوزو گداز رگ و پے میں سرایت کرگئے۔
بالآخر ہر صورت سے مطمئن ہو کر حضرت حاجی صاحب نے خلعت خلافت اور منصب ارشاد و ہدایت سے سرفراز فرمایا اور خلق اللہ کی راہ نمائی کے لیے تعلیم و تلقین کی اجازت مرحمت فرمائی اور فرمایا : ” میاں اشرف علی ! میں دیکھتا ہوں کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے تم کو تمام معاصرین پر خاص فضیلت عطا فرمائی ہی “ ،” ذلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشآء “․
تھانہ بھون میں مستقل قیام
1310 ھجری میں کان پور سے سبک دوشی اختیار کرکے اپنے وطن تھا نہ بھون تشریف لائے اور اپنے شیخ کو اطلاع دی ، تو انہوں نے جواب میں فرمایا : ” بہتر ہوا آپ تھا نہ بھون تشریف لیے گئے ، امید ہے کہ آپ سے خلق کثیر کو فائدہ ظاہری و باطنی ہوگا اور آپ ہمارے مدرسہ اور خانقاہ کو ازسر نو آباد کریں گے، میں ہر وقت آپ کے حق میں دعا کرتا ہوں اور آپ کا مجھے خیال رہتا ہے “۔
چناں چہ حضرت رحمة اللہ علیہ نے حضرت حافظ محمد ضامن صاحب شہید، حضرت مولانا شیخ محمد صاحب اور حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمھم اللہ کی خانقاہ میں مستقل سکونت اختیار کی اور خلق خدا کو مستفید فرمانے لگے۔
حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ کے چند مشہور خلفاء
(1) حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی رحمة اللہ علیہ (2) حضرت ڈاکٹر عبدالحئ صاحب عارفی رحمة اللہ علیہ (3) حضرت مولانا فقیر محمد صاحب رحمة اللہ علیہ (4) حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب رحمة اللہ علیہ (5) مولانا ولی محمد صاحب بٹالوی رحمة اللہ علیہ (6) مولانا ابرارالحق صاحب حقی رحمة اللہ علیہ (7) حضرت مولانا رسول خان صاحب رحمة اللہ علیہ (8) حضرت مولانا کفایت اللہ شاہ جہان پوری رحمة اللہ علیہ (9) حضرت مولاناشیر محمد صاحب مہاجر مدنی رحمة اللہ علیہ (10) حضرت مولانا شاہ وصی اللہ رحمة اللہ علیہ (11) حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ (12) حضرت مولانا علامہ سید سلیمان ندوی رحمة اللہ علیہ (13) حضرت مولانا عبدالغنی پھول پوری رحمة اللہ علیہ (14) حضرت مولانا محمد انوار الحسن صاحب کا کو روی رحمة اللہ علیہ (15) حضرت مولانا محمد موسیٰ سرحدی رحمة اللہ علیہ (16) حضرت مولانا سید مرتضیٰ حسن صاحب چاندپوری رحمة اللہ علیہ (17) حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب کیمبل پوری رحمة اللہ علیہ (18) حضرت مولانا عبدالرحمن کان پوری رحمة اللہ علیہ (19) حضرت مولانا عبدالکریم گھمتھلوی رحمة اللہ علیہ (20) حضرت مولانا عبدالباری ندوی رحمة اللہ علیہ (21 ) حضرت خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب رحمة اللہ علیہ۔
علوم دینیہ میں خدمات اور تصانیف
علوم دینیہ سے متعلق قرآن مجید کی تفاسیر میں احادیث سے استنباط میں، فقہ کی توجیہات میں، تصوف کی غایات میں ، جہاں عوام و خواص غلط فہمیوں اور غلط کاریوں میں مبتلا ہوگئے تھے، وہاں اس مجدّد عصر کی نظر اصلاح کار فرما نظر آتی ہے اور ان علوم کے ہر باب میں مفصل تصانیف موجود ہیں۔
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ کی تصانیف کی تعداد تقریباً ایک ہزار سے متجاوز ہے، حضرت رحمة اللہ علیہ کی تمام تصانیف و تالیفات ، تمام مواعظ و ملفوظات ، تحریری و تقریری کارناموں کو ملاحظہ کیا جائے تو یہ بات نمایاں طور سے آشکار ا ہوتی ہے کہ دین مبین کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو حکیم الامت ، مصلح شریعت و طریقت کی اصلاحی و تجدید ی جدوجہد کے احاطہ میں نہ آیا ہو۔
وفات وتدفین
آخر عمر میں کئی ماہ علیل رہ کر 16 رجب المرجب 1362 بمطابق 20 جو لاائی 1943 ء کی شب آپ رحلت فرماگئے اور تھا نہ بھون میں آپ ہی کی وقف کردہ زمین ” قبرستان عشق بازاں “ میں آپ کی تدفین ہوئی۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون !
فہم القرآن ربط سورة : فاتحہ دعا ہے اور قرآن اس کا جواب، فاتحہ خلاصہ ہے اور قرآن اس کی تفصیل۔ اپنے حجم اور مضامین کے لحاظ سے یہ فرقان حمید کی سب سے بڑی سورت ہے۔ ا آآ حروف مقطعات ہیں جن کے مفسرین نے اپنی اپنی فہم و دانش کے مطابق کئی معانی لکھے اور بتلائے ہیں جن کی تفصیل مختلف تفاسیر میں موجود ہے۔ جن ... میں سے چند ایک یہ ہیں۔ عبدالرحمن بن زید بن اسلم (رض) فرماتے ہیں یہ سورتوں کے نام ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی قسموں میں سے قسمیں ہیں۔ دوسری جگہ فرماتے ہیں ” ا ل م ر “ اللہ تعالیٰ کے اسمائے اعظم میں سے ہے۔ جب کہ کچھ لوگ کہتے ہیں یہ قرآن کے اعجازکا نمونہ ہیں۔ لیکن اس بات پر تمام اہل علم متفق ہیں کہ یہ حروف مقطعات ہیں ان کا کوئی معنٰی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں البتہ جو مفہوم عقل کے قریب تر نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ اس زمانے میں اہل زبان حروف مقطعات کا استعمال کرنے کے بعد اپنی فصیح اللسانی اور شستہ کلامی کا مظاہرہ کرتے اور سامعین ان حروف کا معنٰی پوچھنے کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے۔ گویا کہ صاحب زبان ایسے الفاظ طرح مصرعہ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اسی وجہ سے صحابہ کرام (رض) نے نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان حروف کا معنٰی پوچھنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ کیونکہ ان کا شریعت کے مسائل اور معاملات سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا امت کا اتفاق ہے کہ ان حروف کا معنٰی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ البتہ یہ قرآن مجید کا حصہ ہیں۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) یَقُوْلُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِّنْ کِتَاب اللّٰہِ فَلَہٗ بِہٖ حَسَنَۃٌ وَالْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ أَمْثَالِھَا لَآ أَقُوْلُ الم حَرْفٌ وَلٰکِنْ أَلْفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِیْمٌ حَرْفٌ) (رواہ الترمذی : کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء فیمن قرأ حرفا من القرآن مالہ من الأجر) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے اللہ کی کتاب کا ایک حرف پڑھا اسے اس کے بدلے ایک نیکی ملے گی اور ہر نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ میں یہ نہیں کہتا کہ ” الم “ ایک حرف ہے بلکہ ” الف “ ایک حرف ہے اور ” لام “ ایک حرف ہے ” اور ” میم “ ایک حرف ہے۔ “ ” ا آآ “ چھ سورتوں کی ابتدا میں استعمال ہوا ہے۔ البقرۃ، آل عمران، العنکبوت، الروم، لقمان، السجدۃ۔ Show more
فہم القرآن
ہمارے سوفٹ وئیر میں ایک تفسیر " فہم القرآن " بھی شامل ہے جو ابوہریرہ اکیڈمی 37 ۔ کمرشل کریم بلاک اقبال ٹاؤن لاہور والوں کی شائع کردہ ہے اور اس کے مصنف میاں محمد جمیل بن میاں محمد ابراہیم ہیں۔ تفسیر کا مختصر تعارف پیش ہے۔۔
مصنف تفسیر کے آغاز میں " فہم القران اور اعتراف حقیقت " کے عنوان کے تحت رقمطراز ہیں :
رسولِ محترم e کی بعثت کے مقاصد میں سے مرکزی مقصد یہ بھی تھا کہ آپ قرآن کے مطابق لوگوں کے سامنے عملی نمونہ پیش کریں اور اپنی زبان اطہر سے قرآن مجید کی تشریح اور تفسیر فرمائیں۔ جس کو صحابہ کرام y نے آپ سے براہ راست سیکھا ‘ سمجھا اور اس پر عمل کیا۔ جہاں تک تفسیر قرآن کا تعلق ہے آپ نے حضرت عبداللہ بن عباس w کو قرآن فہمی کی دعا سے سرفراز فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن عباس w اور صحابہ کرام y نے اپنی اولاد اور شاگردوں کو قرآن پڑھایا اور سمجھایا۔ اس طرح قرآن مجید کی تبلیغ تحریر ، تقریر اور تدریس کے ذریعے نسل در نسل جاری رہی تاآنکہ 270 ہجری میں جامع البیان کے نام پر علامہ ابو جعفر بن جریر طبری نے چالیس سال کی جدوجہد سے کتبات ‘ مسوّدات اور مختلف اہل علم سے استفادہ فرما کر تیس جلدوں پر محیط تفسیر جامع البیان لکھی جو تفسیر ابن جریر کے نام سے معروف ہے۔ ان کے بعد حافظ عماد الدین ابو الفداء اسمعیل بن کثیر المعروف امام ابن کثیر نے تفسیر ابن کثیر رقم فرمائی جو تمام مسالک کے نزدیک ممتاز اور منفرد تفسیر سمجھی جاتی ہے۔ بعد ازاں ہر دور اور ہر زبان میں قرآن مجید کی تفاسیر لکھی گئی ہیں۔ یہاں تک کہ برصغیر میں انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کی ابتدا میں تراجم اور تفاسیر کا بیشمار ذخیرہ اردو زبان میں پیش کیا گیا جو علمی اور اسنادی اعتبار سے عربی کے سوا تمام زبانوں میں لکھی جانے والی تفاسیر پر حاوی ہے۔ ماضی قریب میں تفہیم القرآن ‘ تدبر قرآن ‘ معارف القرآن ‘ تفسیر ثنائی ‘ تیسیرالقرآن ‘ ضیاء القرآن کے مؤلفین نے اپنے اپنے انداز اور نقطۂ نگاہ سے فرقانِ حمید کی تفسیریں لکھیں جو اردو زبان میں ممتاز تفاسیر شمار ہوتی ہیں۔
فہم القرآن اور اعترافِ حقیقت
تفسیر کا نام سورة الانبیاء کی آیت 79{ فَفَھَّمْنٰـھَا سُلَیْمٰنَ } سے لیا گیا ہے ۔ میں اس سچائی کا محض روایتی اور عاجزانہ نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ اعتراف کرتا ہوں کہ خدمت قرآن کی چودہ سو سالہ تاریخ میں مجھ سے کم علم آدمی کوئی نہیں گزرا ہوگا کہ جس نے قرآن مجدی کے کسی پہلو پر قلم اٹھایا ہو۔ میں نے بزرگوں کی خوشہ چینی کے سوا کچھ نہیں کیا۔ میرے کام میں حسن و خوبی کا کوئی پہلو دکھائی دے تو وہ اللہ کے فضل و کرم کا نتیجہ اور متقدمین کی پر خلوص کوششوں کا ثمرہ ہے۔ کوتاہی اور کمزوری کو میری کم علمی اور کوتاہ فہمی تصور کرتے ہوئے آگاہ کیا جائے تاکہ اس کی تصحیح کی جائے ۔ اپنے مختصر تدریسی تجربہ اور تفاسیر کا مطالعہ کرتے ہوئے چند باتوں کی ضرورت محسوس کی جس بنا پر ضروری سمجھا کہ اگر درج ذیل باتیں تفسیر میں جمع کردی جائیں تو عوام الناس ‘ طلبہ اور مبتدی خطباء کے لیے نہایت مفید اور بہتر ہوگا۔
(١) ۔ لفظی اور بامحاورہ ترجمہ (٢) ربطِ کلام (٣) ۔ ہر آیت کے الگ الگ مسائل کا بیان
(٤) ۔ تفسیر بالقرآن کے حوالے سے ہر آیت کے مرکزی مضمون سے متعلقہ چند آیات جمع کرنا۔
اللہ تعالیٰ اسے قبولیت کے شرف سے نوازے اور تعاون کرنے والوں کے لیے توشۂ آخرت بنائے۔ آمین یا رب العٰلمین۔
نوٹ : (قاری حضرات سے گزارش ہے کہ وہ لفظی ترجمہ کی بجائے رواں ترجمہ سے استفادہ کریں کیونکہ لفظی ترجمہ میں باہم ربط نہ ہونے کی وجہ سے الجھن پیش آسکتی ہے ۔ لفظی ترجمہ تعلیم و تعلم کے لیے زیادہ مفید ہوتا ہے ۔ )
مفسّر کا تعارف
میاں محمد جمیل بن میاں محمد ابراہیم گوہڑ چک 8 پتو کی (قصور) اپریل 1947 ء آرائیں فیملی میں پیدا ہوئے۔ حفظِ قرآن اور سکول کی تعلیم اپنے گائوں میں حاصل کی۔ تجویدِ قرآن جامعہ محمدیہ اور درس نظامی کی تعلیم جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ سے پائی بعد ازاں وفاق المدارس کیا اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ ایم۔ اے اسلامیات اور فاضل اردو کی ڈگریاں حاصل کیں۔ فراغت ِ تعلیم کے بعد لاہور میں کاروبار کرنے کے ساتھ ساتھ جون 1986 ء میں جامع مسجد ابوہریرہ (رض) کی بنیاد کریم بلاک اقبال ٹائون میں رکھی اور اعزازی خطابت کی ذمہ داری سنبھالی۔ 1997 ء میں ابوہریرہ (رض) شریعہ کالج کا آغاز کیا جو اب تک ملک میں واحد ادارہ ہے جس میں طلبہ کو چار سال میں درس نظامی اور بی ۔ اے (Compulsoy) کروایا جاتا ہے۔ 1987 ء میں مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے سیکرٹری اطلاعات اور 1996 ء سے لے کر 2002 تک مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سیکرٹری جنرل رہے۔ سیکرٹری شپ کا دوسرا ٹینور پورا ہونے پر آئندہ ذمہ داری سنبھالنے سے معذرت کی اور اپنے آپ کو تعلیم و تصنیف کے لیے وقف کیا۔ دیگر کتب تحریک کے بارے میں تالیف کرنے کے بعد 2005 ء میں تفسیر فہم القرآن لکھنے کا آغاز کیا۔ ہر سال پانچ پاروں پر مشتمل منظر عام پر منظر عام پر آتی رہی اور الحمدللہ 6 سال کے عرصہ میں مکمل ہوئی اور زیور طباعت سے آراستہ ہوئی ۔ اس تفسیر کی اہم خصوصیات یہ ہیں۔
١۔ تفسیر رازی، ابن کثیر ، تفہیم القرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اس کے علاوہ دیگر عربی تفاسیر کے اہم نکات پر مشتمل ہے۔
٢۔ لفظی ترجمہ کے ساتھ ساتھ سلیس بامحاورہ ترجمہ جو دل میں اتر جائے۔
٣۔ علم وادب کا مرقع اور ہر آیت کی تفسیر حدیث رسول e کے ساتھ ہے۔
٤۔ ہر آیت کے الگ الگ مسائل کی نشاندہی جو ذہن پر منقش ہوجائیں۔
٥۔ آیت کے مرکزی مضمون کی تفسیر دیگر آیات کے ساتھ ایک مکمل تقریر جو علماء اور لیکچرار حضرات کے لیے عظیم تحفہ ہے۔
تفسیر آیت ١ تا ٥ مومنین کی یہ صفات بیان کرنے کے بعد سیاق کلام میں متصلاً کفار کی صفات کا بیان آجاتا ہے ۔ اگرچہ علی العموم ان صفات کا تعلق بھی تمام کفار سے ہے لیکن ان کا سب سے پہلامصداق وہ کفار بنے جو اس وقت دعوت اسلامی کی راہ روکے کھڑے تھے ۔ خواہ وہ مکی کفار ہوں یا ان کا تعلق مدینہ اور اس کے ماحول ... سے ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :•إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ ءَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ (٦) خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (٧) ” جن لوگوں نے ان باتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ، ان کے لئے یکساں ہے ، خواہ تم انہیں خبردارکرو یا نہ کرو ، بہرحال وہ ماننے والے نہیں ہیں ۔ اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑگیا ہے ۔ وہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔ ان دوگروہوں کے علاوہ منافقین کا ایک تیسرا گروہ بھی موجود تھا جیسا کہ ہم نے بالتفصیل بتایا ، جن حالات میں نبیeمدینہ طیبہ کی طرف ہجرت فرمائی تھی ، ان کا قدرتی نتیجہ یہ تھا کہ ہجرت کی تکمیل کے فوراً بعد ہی وہ گروہ پیدا ہوگیا ۔ مکہ میں اس گروہ کا وجود نہ تھا۔ کیونکہ وہاں اسلام کی پشت پر کوئی قوت اور حکومت نہ تھی اور نہ کوئی ایسی قومی جماعت تھی جس سے ڈر کر قریش اسلام کے بارے میں کوئی منافقانہ رویہ اختیار کرتے بلکہ اس کے برعکس مکہ میں اسلام کمزور تھا۔ دعوت ہر قسم کے خطرات میں گھری ہوئی تھی ۔ صرف مخلصین ہی تھے جو اس دور میں دعوت اسلامی کی صفوں میں شامل ہونے کی جراءت کرسکتے تھے ، جو اس کی راہ میں ہر قسم کے مصائب جھیلنے کے لئے تیار تھے اور اس کے لئے سب کچھ لٹانے پر تلے ہوتے تھے لیکن یثرب ....(جو پہلے ہی دن سے مدینہ الرسول کے نام سے مشہور ہوگیا) میں حالات کا رخ یکلخت بدل گیا تھا۔ اسلام ایک ایسی قوت بن گیا تھا جسے ہر شخص محسوس کرنے لگا تھا اور ہر کوئی مجبور تھا کہ وہ اس قوت سے تھوڑا بہت بنائے رکھے ۔ بالخصوص جنگ بدر کی عظیم کامیابی کے بعد تو بڑوں بڑوں کی گردنیں جھک گئی تھیں ۔ جو لوگ روش نفاق پر مجبور تھے ان میں بعض کبرائے یثرب بھی تھے ۔ ان کے خاندان اور قبیلے کے لوگ اسلام میں داخل ہوگئے تھے ۔ اس لئے یہ کبراء بھی اپنی سابقہ پوزیشن کو بحال رکھنے کے لئے اور اپنے مخصوص مصالح کی خاطر بظاہر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے تھے ۔ ایسے لوگوں میں عبداللہ بن ابی ابن سلول کا نام سرفہرست تھا۔ کیونکہ مسلمانوں کی ہجرت سے کچھ قبل ہی اس کی قوم نے یہ پروگرام بنایا تھا کہ اسے بادشاہ بنادیں ۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اس کی قوم اس کے لئے ہار اور تاج تیار کررہی تھی ۔ سورة بقرہ کی ابتداء میں بالتفصیل ان منافقین کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض فقروں سے یہ معلوم ہوتا ہے اکثر وبیشتر فقروں کا مصداق یہی بڑے لوگ ہیں جنہوں نے حالات سے مجبور ہوکر اپنے آپ کو دائرہ اسلام میں داخل کردیا تھا۔ لیکن وہ اب بھی عوام الناس پر اپنی لیڈر شپ قائم رکھنے کے خواب دیکھ رہے تھے ۔ اور عام طور پر ایسے متکبرین اکابرین جس طرح ، عوام کے بارے میں رائے رکھتے ہیں اسی طرح یہ لوگ اسلام قبول کرنے والوں کو ” بیوقوف “ لوگ کہہ کر پکارتے تھے چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ” بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ہیں ، حالانکہ درحقیقت وہ مومن نہیں ہیں ۔ وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کررہے ہیں ۔ مگر دراصل وہ اپنے آپ کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔ ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھادیا اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں اس کی پاداش میں ان کے لئے دردناک سزا ہے ۔ جب کبھی ان سے کہا گیا کہ زمین میں فساد برپانہ کرو ” تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں ۔ خبردار ! حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں مگر انہیں شعور نہیں ہے اور جب ان سے کہا گیا کہ جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں ، اسی طرح تم بھی ایمان لے آؤ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم بیوقوں کی طرح ایمان لائیں ؟ ، اور جب علیحدگی میں اپنے شیطانوں سے ملتے ہیں ، تو کہتے ہیں کہ اصل میں تو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ان لوگوں سے محض مذاق کررہے ہیں .... اللہ ان سے مذاق کررہا ہے ، وہ ان کی رسی دراز کئے جاتا ہے ، اور یہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹکے چکے جاتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے ، مگر یہ سودا ان کے نفع بخش نہیں ہے اور یہ ہرگز صحیح راستے پر نہیں ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی اور جب سارا ماحول چمک اٹھا تو اللہ نے ان کا نور بصارت سلب کرلیا اور انہیں اس حال پرچھوڑدیا کہ تاریکیوں میں انہیں کچھ نظر نہیں آتا ۔ یہ بہرے ہیں ، گونگے ہیں ، اندھے ہیں ۔ یہ اب نہ پلٹیں گے یاپھران کی مثال یوں سمجھو کہ آسمان سے زور کی بارش ہورہی ہے۔ اور اس کے ساتھ اندھیری گھٹا اور کڑک چمک بھی ہے ۔ یہ بجلی کے کڑاکے سن کر اپنی جانوں کے خوف سے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں اور اللہ ان منکرین حق کو ہر طرف سے گھیرے میں لئے ہوئے ہے ۔ چمک سے ان کی یہ حالت ہورہی ہے کہ گویا عنقریب بجلی ان کی بصارت اچک لے جائے گی ۔ جب ذرا کچھ روشنی انہیں محسوس ہوتی ہے تو اس میں کچھ دور چل لیتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اللہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل ہی سلب کرلیتا یقینا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ مریض دل منافقین پر اس بھرپور وار کے دوران ، ان کے شیاطین کی طرف اشارے ملتے ہیں ۔ اس سورت کے سیاق وسباق اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت طیبہ کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد یہود ہیں ۔ کیونکہ اس سورت میں ان کے کردارپر بھرپور تنقید کی گئی ہے ۔ دعوت اسلامی کے بارے میں یہودیوں نے جو طرزعمل اختیار کیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مدینہ طیبہ میں یہود وہ پہلا طبقہ تھا جس نے تحریک اسلامی سے ٹکر لی اور اس ٹکراؤ اور تصادم کے متعدداسباب تھے ۔ وہ اوس خزرج جیسی امی اقوام کے مقابلے میں ، اہل کتاب ہونے کی وجہ سے ایک ممتاز مقام رکھتے تھے ۔ مشرکین عرب میں اگرچہ یہود کی طرف میلان کم پایا جاتا تھا لیکن وہ آسمانی کتاب وہدایت رکھنے کی وجہ سے یہودیوں کے لئے مفید طلب تھیں ۔ فتنہ و فساد اور تشتت وافتراق وہ میدان ہے جس میں یہودی زیادہ چابکدستی سے کام کرتے ہیں ، لیکن جب اسلام آیاتو یہودیوں کے ان تمام مفادات پر زد پڑی ۔ وہ ایک ایسی کتاب لے کر آیاجو سابقہ کتب کی تصدیق کرتی تھی اور ان کی تعلیمات کی محافظ تھی ۔ پھر اسلام نے اوس اور خزرج کے اختلافات کو بھی ختم کردیا ، جن کے ذریعے یہودی اپنے مکروفریب کا جال بچھاتے تھے اور مالی مفادات حاصل کرتے تھے ۔ اوس اور خزرج کے باہم دست گریبان لوگ اسلامی صفوں میں آکر ایک دوسرے سے گلے مل گئے اور اوس اور خزرج کے بجائے وہ دونوں مہاجرین کی نصرت کی وجہ سے انصار کہلانے لگے ۔ اور ان سب عناصر کو ملاکر اسلام نے وہ بےنظیر اور نیا اسلامی معاشرہ تیار کیا جس کے تمام افراد متحد اور متفق تھے ، یوں کہ گویا وہ تمام ایک ہی جسم کے مختلف اعضاء ہیں اور جس کی مثال نہ اس سے پہلے کبھی تاریخ میں پائی گئی اور نہ اس کے بعد آج تک وجود میں آسکی ۔ یہودی اپنے آپ کو اللہ کی مختار اور برگزیدہ قوم سمجھتے تھے ۔ ان میں بیشمار رسول اور نبی مبعوث ہوئے تھے اور وہ متعدد کتابوں کے حامل تھے ۔ وہ ہمیشہ اس کی توقع رکھتے تھے اور شدت سے منتظر بھی تھے کہ نبی آخرالزماں خود ان کے ہاں مبعوث ہوگا لیکن جب وہ عربوں میں مبعوث ہوا تو پھر انہوں نے یہ توقعات باندھ لیں کہ شاید نیا نبی ان کو اپنے دائر دعوت سے باہر رکھے گا اور اپنی دعوت کو ان پڑھ عربوں تک ہی محدودرکھے گا ۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ وہ سب سے پہلے اہل کتاب کو اللہ کی اس آخری کتاب کی دعوت دے رہا ہے اور اس بات پر وہ دلیل یہ پیش کرتا ہے کہ وہ عربوں کی نسبت زیادہ ذی علم ہیں اور ان کا یہ فرض ہے کہ وہ مشرکین سے بھی پہلے اس دعوت حق پر لبیک کہیں تو ان کے غرورنفس نے انہیں نافرمانی پر آمادہ کرلیا اور انہوں نے اسے اپنے لئے اہانت سمجھا اور اپنے مذہب کے خلاف اس نئی دعوت کو دست درازی تصور کرنے لگے ۔ اب یہودی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف شدید حسد وبغض میں مبتلا ہوگئے ۔ ایک تو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی آخرالزماں کے منصب کے لئے آپ کو منتخب فرمایا اور آپ کو کتاب دی جس کی صداقت میں یہودیوں کو ذرہ بھر بھی شبہ نہ تھا۔ دوسرے اس لئے کہ ظہور نبوت کے ساتھ ساتھ آپ کو اس نئے ماحول میں برق رفتار کامیابی حاصل ہوگئی ، ان اسباب کے علاوہ اس حسد وبغض ، تحریک اسلامی سے عداوت اور اس کے خلاف ہر قسم کے اوچھے ہتھیار استعمال کرنے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ یہودی اس بات کا پختہ شعور رکھتے تھے کہ نئے حالات میں یا تو انہیں اس نئے معاشرے سے پوری طرح کٹ جانا ہوگا اور اس صورت میں ان کی فکری قیادت ، تجارت اور سودی کاروبار کے تمام مفادات ختم ہوجائیں گے اور یا پھر انہیں پوری طرح اس نئے معاشرے میں ضم ہوکر گم ہوجانا ہوگا اور یہ دونوں گولیاں ایسی ہیں کہ جو کسی قیمت پر بھی ، ایک یہودی کے حلق سے نیچے نہیں اترسکتیں ۔ یہ تھے وہ وجوہات جن کی بناپر یہود ان مدینہ نے تحریک اسلامی کے مقابلے میں وہ سخت رویہ اختیار کیا ، جس کی تفصیل سورة بقرہ اور دوسری سورتوں میں بیان کی گئی ہے ۔ ہم یہاں ایسی چند آیات نقل کررہے ہیں جن میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ” اے بنی اسرائیل ! ذرا خیال کرو اس نعمت کا جو میں نے تم کو عطا کی تھی ، میرے ساتھ تمہارا جو عہد تھا ، اسے پورا کرو ، تو میرا جو عہد تمہارے ساتھ ہے اسے میں پورا کروں گا ، اور مجھ ہی سے ڈرو ، اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے ، اس پر ایمان لاؤ ۔ یہ اس کتاب کی تائید میں ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی، لہٰذاسب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جاؤ۔ تھوڑی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو۔ اور مرے غضب سے بچو ! باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو ، نماز قائم کرو زکوٰة دو ، اور جو لوگ میرے آگے جھک رہے ہیں ان کے ساتھ تم بھی جھک جاؤ، تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لئے کہتے ہو مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ، حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو ؟ کیا تم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے ؟ “ ایک دوسری جگہ تفصیل سے وہ رویہ اور طرز عمل بیان کیا گیا ہے جو بنی اسرائیل نے اپنے رسول حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ اختیار کیا تھا کہ کس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کے انعامات کا کفران کیا ۔ کس طرح انہوں نے کتاب اللہ اور شریعت کے بارے میں بےعملی کا مظاہرہ کیا اور باربار اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کو توڑا۔ یہ کچھ بالتفصیل بیان کرکے قرآن مجید مسلمانوں کو متنبہ کرتا ہے ۔ اے مسلمانو ! اب کیا ان لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمہاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے ؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی ۔ محمد رسول اللہ کو ماننے والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی انہیں مانتے ہیں اور جب آپس ایک دوسرے سے تخلئے کی بات چیت ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ بیوقوف ہوگئے ہو ؟ ان لوگوں کو وہ باتیں بتاتے ہو ، جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں تاکہ تمہارے رب کے پاس تمہارے مقابلے میں انہیں حجت میں پیش کریں ۔ “ (البقرہ :72:2) ” وہ کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چھونے والی نہیں ہے ۔ الا یہ کہ چند روز کی سزا مل جائے ، تو مل جائے ان سے پوچھو ، کیا تم نے اللہ کے سے کوئی عہد لے لیا ہے ، جس کی خلاف ورزی وہ نہیں کرسکتا ؟ یا یہ بات ہے کہ تم اللہ کے ذمے ڈال کر ایسی بات کہہ دیتے ہو ، جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ اس نے ان کا ذمہ لیا ہے۔ “ (البقرہ :80:2) ” اور اب جو ایک کتاب اللہ کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے ۔ اس کے ساتھ ان کا کیا برتاؤ ہے ؟ باوجودیکہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو ان کے پاس پہلے سے موجود تھی ، باوجودیکہ اس کی آمد سے قبل وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح ونصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے ، مگر جب وہ چیز آگئی ، جسے وہ پہچان بھی گئے ، تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا ۔ اللہ کی لعنت ان منکرین پر۔ “ (89:2) ” جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے ، اس پر ایمان لاؤ تو کہتے ہیں ” ہم تو صرف اس چیز پر ایمان لاتے ہیں جو ہمارے ہاں یعنی نسل بنی اسرائیل میں اتری ہے۔ اس دائرے کے باہر جو کچھ آیا ہے اسے ماننے سے وہ انکار کرتے ہیں ، حالانکہ وہ حق ہے اور اس تعلیم کی تصدیق وتائید کررہا ہے ، جو ان کے پاس پہلے سے موجود ہے۔ “ (91:2) ” اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی رسول اس کتاب کی تائید وتصدیق کرتا ہوا آیا ، جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی ، تو ان اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کتاب اللہ کو ، اس طرح پس پشت ڈالا ، گویا کہ وہ کچھ جانتے ہی نہیں ۔ “ (101:2) ” یہ لوگ جنہوں نے دعوت حق کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرک ہوں ، ہرگز یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی نازل ہو۔ “ (15:2) ” اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر کفر کی طرف پلٹالے جائیں ۔ اگرچہ حق ان پر ظاہر ہوچکا مگر اپنے نفس کی حسد کی بناپر تمہارے لئے ان کی یہ خواہش ہے ۔ “ (109:2) ” ان کا کہنا ہے کوئی شخص جنت میں نہ جائے گا جب تک وہ یہودی نہ ہو یا (عیسائیوں کے خیال کے مطابق) عیسائی نہ ہو۔ یہ ان کی تمنائیں ہیں ۔ “ (111:2) ” یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے ، جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو۔ “ (120:2) یہ قرآن مجید کا زندہ جاوید معجزہ ہے کہ قرآن نے ان یہودیوں کو جس صفت سے موصوف کیا وہ صفت آج تک ان کے ساتھ چپکی ہوئی ہے اور یہ صفت ہے جو ان کی ہرنسل میں ان کے ساتھ لازم رہی ہے ۔ خواہ وہ نسل قبل اسلام گزری ہو یا اسلام کے بعد آج تک کسی دور میں رہی ہو ۔ قرآن کریم ان کو یوں خطاب کرتا ہے گویا یہود ان یثرب بذات خود حضرت موسیٰ اور آپ کے بعد آنے والے انبیاء (علیہم السلام) کے ادوار میں موجود تھے۔ کیونکہ اول روز سے بنی اسرائیل کی یہی فطرت رہی ہے ۔ ان کے اوصاف وہی ہیں ۔ ان کا طرزعمل وہی ہے اور حق وصداقت کے ساتھ وہ ہر دور اور ہر زمانے میں ایک ہی برتاؤ کرتے چلے آئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دوران کلام قوم موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد آنے والی اسرائیلی نسلوں کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں ۔ اور قرآن مجید کے یہ زندہ کلمات آج بھی امت مسلمہ اور یہودیوں کے باہم تعلق اور موقف کو ظاہر کررہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ یہودی دعوت اسلامی اور امت مسلمہ کے مقابلے میں آج بھی وہی طرز عمل اختیار کررہے ہیں جو انہوں نے آج سے صدیوں قبل اختیار کیا اور یہی ان کا طرزعمل مستقبل میں بھی ہوگا۔ یہ قرآنی آیات اس وقت امت مسلمہ کے لئے ایک دائمی ہدایت اور تنبیہ کی حیثیت رکھتی تھیں اور آج بھی وہ یہی بتارہی ہیں کہ اعداء اسلام نے ہمارے اسلاف کے ساتھ جو رویہ روا رکھا تھا وہی پالیسی وہ آج بھی اختیار کریں گے ۔ آج بھی ان کی ریشہ دوانیاں اور مکر و فریب ویسے ہی ہیں جیسے یثرب میں تھے ۔ وہ ہر دور میں اسلام کے خلاف مختلف اور متنوع طریقوں سے برسرپیکار ہے ۔ لیکن اس جنگ کی حقیقت صرف ایک رہی یعنی اسلام دشمنی ۔ غرض اس صورت میں جہاں یہودیوں کے یہ اوصاف بیان ہوئے ہیں اور مسلمانوں کو ان کی سازشوں سے متنبہ کیا گیا ، وہاں اسلامی جماعت کی تشکیل اور اس دنیا میں اسلامی نظریہ حیات کی امانت کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لئے ، اسے تیار کرنے اور اس کی تربیت کرنے کے طریقے بھی بتائے گئے ہیں ، جبکہ بنی اسرائیل ایک زمانے سے اس امانت کی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہوچکے تھے اور آخر میں انہوں نے اس نظریہ حیات کے بارے میں یہ معاندانہ رویہ اختیار کرلیا تھا۔ جیسا کہ ہم پہلے کہہ آئے ہیں سورت کا آغاز ان طبقات کے ذکر سے ہوتا ہے جنہوں نے ہجرت کے متصلاً بعد تحریک اسلامی کے بارے میں مختلف طرز ہائے عمل اختیار کر رکھے تھے ۔ ان طبقات میں شیاطین بنی اسرائیل کی طرف مخصوص اشارے بھی تھے ۔ جن کا ذکر بعد میں مفصل ہوا۔ اس سورت کے آغاز میں جن طبقات کا ذکر ہوا ہے ان کی نوعیت ایسی ہے کہ ہر دور اور ہر زمانے میں دعوت اسلامی کے مقابلے میں لوگوں نے ایسے ہی طرز عمل اختیار کئے ۔ اس کے بعد پوری سورت کے مباحث اپنے انہی متوازی خطوط پر چل رہے ہیں جن میں اس وحدت ویگانت کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ جس سے اس سورت کی خاص شخصیت کا ظہور ہورہا ہے ، حالانکہ اس کے موضوعات سخن میں کافی تنوع پایا جاتا ہے۔ کافرین اور منافقین کے تین طبقات کے ذکر اور شیاطین یہود کی طرف اشارات کے بعد اب تمام انساں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ صرف ایک اللہ کی بندگی کریں اور اللہ نے اپنے بندے پر جو کتاب نازل کی ہے ، اس پر ایمان لے آئیں ۔ کافروں کو چیلنج دیا جاتا ہے کہ اگر وہ کتاب کی صداقت میں شک کرتے ہیں تو پھر اس جیسی کوئی ایک سورت لے آئیں ، کافروں کو آگ سے ڈرایا جاتا ہے اور مومنین کو جنتوں کی خوشخبری دی جاتی ہے ۔ اس کے بعد کافروں کو غور وفکر کی دعوت دی جاتی ہے اور متعجبانہ انداز میں ان کے کفر کی تردید کی جاتی ہے ۔ ” تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو ؟ حالانکہ تم بےجان تھے ، اس نے تمہیں زندگی عطا کی ، پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے ۔ وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں ۔ پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کئے اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ۔ “ (29:2) اس حقیقت کی طرف اشارے کے بعد ، کہ زمین کی تمام مخلوقات کو انسان کے لئے پیدا کیا گیا ہے ، حضرت آدم (علیہ السلام) کی خلافت فی الارض کا بیان شروع ہوجاتا ہے۔ ” پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو ، جب اس کے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ۔ “ اس کے بعد قصے کی تفصیلات بیان ہوتی ہیں ۔ آدم وابلیس کا معرکہ پیش آتا ہے اور آخرکار آدم (علیہ السلام) کا نزول ہوتا ہے اور زمین کے اندر ” عہد خلافت آدم “ کا آغاز ہوتا ہے ۔ جو دراصل دور ایمان ہے۔ ہم نے کہا ” تم سب یہاں سے اتر جاؤ۔ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے تو یہ لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ، ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے ، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں ، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ “ (39:2) اس کے بعد بنی اسرائیل کی تاریخ پر طویل ترین تبصرہ شروع ہوتا ہے جس کے چند فقرے ہم اسے پہلے نقل کر آئے ہیں ۔ اس تبصرے اور تنقید کے درمیان جگہ جگہ انہیں دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اسلامی نظام حیات کو اپنالیں اور اس کتاب پر ایمان لے آئیں جو ان کتابوں کی تصدیق کررہی ہے جن کے حامل وہ خود ہیں ۔ ساتھ ساتھ انہیں یہ تنبیہ کی جارہی ہے کہ انہوں نے کیا کیا کو تاہیاں کیں۔ کس طرح وہ راہ راست سے بھٹکتے رہے اور حق و باطل کی آمیزش کرتے رہے ۔ بنی اسرائیل کے ساتھ بحث وتمحیص قرآن مجید کے پہلے پارے کے آخر تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس پوری بحث سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ بنی اسرائیل نے دین اسلام ، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن مجید کا استقبال کس طرح کیا ۔ سب سے پہلے انہوں نے کفر کارویہ اختیار کیا ۔ انہوں حق و باطل کی تلبیس کی ، وہ دوسرے لوگوں کو تو یہ مشورہ دیتے کہ وہ ایمان لے آئیں لیکن خود اپنے آپ کو بھول جاتے ۔ وہ کلام اللہ سنتے ، اچھی طرح سمجھتے لیکن اس کے بعد اس کو غلط معانی پہنا کر جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ۔ وہ پہلے ایمان کا اظہار کرتے اور پھر کفر کا اعلان کرکے مومنین صادقین کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے اور جب آپس میں اکھٹے ہوتے تو ایک دوسرے کو بتاکید یہ کہتے کہ ” خبردار ! وہ راز کی باتیں مسلمانوں کو نہ بتانا ، جو حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کتب سابقہ میں وارد ہیں اور جنہیں انہوں نے چھپا رکھا تھا۔ انہوں نے کوششیں کیں کہ کسی طرح مومنین کو دوبارہ کفر کی روش پر مجبور کردیں ۔ وہ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ صحیح اہل ہدایت ہیں ہی یہود ۔ جیسا کہ نصرانیوں کا خیال تھا کے روئے زمین پر اہل ہدایت صرف وہ ہیں وہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے محض اس لئے دشمن ہوگئے تھے کہ بقول ان کے انہوں نے ان کو چھوڑ کر پیغام خداوندی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچادیا ۔ وہ مسلمانوں کی ہر کامیابی پر متغیض ہوجاتے اور ان کی بربادی کے منتظر رہتے ، وہ ہر لحظہ یہ کوشش کرتے کہ وحی الٰہی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام واوامر میں شک پیدا کیا جائے ۔ اور تحویل قبلہ کے موقع پر تو ان کے پروپیگنڈے کی تو کوئی انتہانہ رہی ۔ منافقین کے ساتھ ربط وضبط رکھتے تھے اور ہر وقت ان کی راہنمائی کرتے تھے اور مشرکین کی حوصلہ افزائی کھل کر کرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورت میں ان کے کردار پر سخت ترین تنقید پائی جاتی ہے اور سورت انہیں یاددلاتی ہے کہ انہوں نے یہی طرز عمل خود اپنے نبی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں اختیار کیا تھا اور آپ کے بعد بھی انبیاء ورسل کے ساتھ یہ لوگ ایسا سلوک کرتے رہے ۔ نسلوں تک ان کا رویہ یہی رہا ۔ قرآن کریم انہیں اس طرح مخاطب کرتا ہے کہ بنی اسرائیل جہاں اور جس دور میں بھی ہوں گویا وہ ایک ہی گروہ ہے کیونکہ وہ ایک ہی فطرت اور جبلت رکھتے ہیں جس میں کبھی بھی تبدیلی نہیں ہوتی ۔ اس طویل ترین تنقید کے آخر میں مسلمانوں کو بنی اسرائیل کے ایمان سے مایوس کردیا جاتا ہے کیونکہ ان کی یہ خود غرضانہ ذہنیت اور مطلب پرستی اور سڑی ہوئی اور خبیث طبعیت ان کے ایمان کی راہ میں رکاوٹ ہے اور بالآخر یہ تقریر ان کے اس دعوے کی تردید پر ختم ہوتی ہے کہ ” صرف وہی ہدایت پر ہیں کیونکہ وہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وارث ہیں “ اور بتایا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صحیح وارث وہی لوگ ہیں جو سنت ابراہیمی پر چلتے ہیں اور اس عہد کی پابندی کرتے ہیں جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے رب کے ساتھ باندھا تھا لہٰذا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وراثت اور جانشینی گویا اب حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین کو حاصل ہوگئی ہے ، کیونکہ یہودی راہ راست سے بھٹک گئے ، اپنے دین کو تبدیل کردیا اور اب وہ اسلامی نظریہ حیات کی امانت کی حفاظت کے اہل اور اس زمین پر منصب خلافت الٰہی کے قابل نہیں رہے لہٰذا یہ ذمہ داری اب حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ پر ایمان لانے والوں نے اپنے کاندھوں پر لے لی ۔ خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھاتے وقت حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) نے جو دعا کی تھی امت مسلمہ کا برپا ہونا گویا اس دعا کی قبولیت کا مجسم ظہور تھا ، انہوں نے کہا تھا : ” اے رب ہم دونوں کو اپنا مطیع بنا ، ہماری نسل سے ایک ایسی امت اٹھا ، جو تیری مسلم ہو ، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہماری کوتاہیوں سے درگزرفرما ، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے اور اے رب ان لوگوں میں خود انہی کی قوم سے ایک ایسا رسول اٹھائیو جو انہیں تیری آیات سنائے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنواردے ۔ تو بڑامقتدر اور حکیم ہے۔ “ (129:2) اب یہاں سے قرآن مجید کا خطاب اور روئے سخن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے گرد جمع ہونے جماعت مسلمہ کی طرف پھرجاتا ہے اور وہ اصول وقواعد بیان کئے جاتے ہیں جن پر اس نئی جماعت کی تشکیل ہوئی ہے جو دعوت دین کا کام لے کر اٹھی ہے اور یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس جماعت کا ایک خاص مزاج ہے اور نظریہ وعمل میں وہ ایک مخصوص زاویہ نگاہ رکھتی ہے۔ امت مسلمہ کی خصوصیات کا بیان تحویل قبلہ سے شروع ہوجاتا ہے ۔ وہ سمت متعین ہوجاتی ہے جس کی امت مسلمہ کو متوجہ ہونا ہے ۔ یہ نیا قبلہ بیت الحرام ہے جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) نے اللہ کے خاص احکامات کے تحت تعمیر کیا تھا۔ اللہ نے انہیں حکم دیا تھا کہ وہ اسے تعمیر کریں اور پاک وصاف کریں تاکہ وہاں صرف ایک اللہ تعالیٰ کی پرستش کی جائے ۔ خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش یہی تھی کہ قبلہ بدل دیا جائے لیکن آپ نے کبھی اس کا اظہار نہ کیا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ” یہ تمہارے منہ کا باربار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں ۔ لو ہم اس قبلے کی طرف تمہیں پھیرے دیتے ہیں ، جسے تم پسند کرتے ہو۔ مسجد حرام کی طرف رخ پھیر دو اب جہاں کہیں تم ہو ، اس طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرو۔ “ (142:2) اس کے بعد اسلامی نظام حیات کی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں ، جس پر اس جماعت نے عمل پیرا ہونا ہے ۔ نظریہ حیات اور طریق عبادت اور سلوک ومعاملات کا بیان شروع ہوجاتا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ راہ حق میں جو لوگ جانیں دیتے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو وہ تو زندہ جاوید ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں خوف ، بھوک ، مالی نقصانات ، فصلوں اور پھلوں کی تباہی جیسی ابتلائیں محض اذیتیں نہیں ہوتیں بلکہ وہ آزمائشیں ہوتی ہیں ۔ اور یہ ہمیشہ ان لوگوں کی راہ میں آتی ہیں جو دعوت حق کو لے کر اٹھتے ہیں ۔ تنبیہ کی جاتی ہے کہ حق و باطل کی کشمکش میں شیطان تمہیں فقر ومسکنت سے ڈراتا ہے اور فحاشی اور بےحیائی پر آمادہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ تم سے یہ ہوتا ہے کہ وہ تمہیں بخش دے گا۔ اور تمہیں اپنے فضل سے نوازے گا ۔ یہ کہ اللہ تعالیٰ مومنین کا والی اور مددگار ہے اور وہ انہیں ان اندھیروں میں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے اور کافروں کے والی طاغوت ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں میں پھینک دیتے ہیں ۔ اس کے بعد کھانے پینے کی چیزوں میں حلال و حرام احکامات بیان کئے جاتے ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ نیکی کی حقیقت کیا ہے ۔ صرف ظاہری شکل و صورت ہی کو دیکھ کر نیک و بد کا فیصلہ نہ کرنا چاہئے ۔ پھر قتل میں قصاص کے احکام ، وصیت کے احکام روزے کے احکام ، جہاد کے احکام ، حج کے احکام اور نکاح و طلاق کے احکام بیان کئے جاتے ہیں ۔ اسلام کے عائلی نظام کی دقیق شیرازہ بندی کی جاتی ہے ۔ اور نظام معیشت میں زکوٰة ، ربا کی حرمت ، لین دین اور تجارت کے احکامات بیان ہوتے ہیں ۔ ان تمام موضوعات پر بحث کرتے ہوئے دوران گفتگو ، موقع ومحل کی مناسبت سے ، موسیٰ (علیہما السلام) کے بعد بنی اسرائیل کے حالات کی طرف اشارہ بھی کیا جاتا ہے ۔ اور حضرت ابراہیم (علیہما السلام) کی زندگی کے کچھ پہلو بھی بیان ہوتے ہیں ۔ لیکن پہلے پارے کے بعد پوری سورت میں روئے سخن مستقلاً اسلامی جماعت کی طرف پھرجاتا ہے ۔ اسے اسلامی نظام حیات کی ذمہ داریوں کو اٹھانے اور اللہ کی شریعت کے مطابق ، زمین میں نظام خلافت کے قیام کی ذمہ داریوں کے لئے تیار کیا جاتا ہے اور اس طرح امت مسلمہ کو تمام دوسری امتوں سے ممتاز کردیا جاتا ہے ۔ کیونکہ یہ امت خود اس کائنات اور رب کائنات (جس نے اس امت کو اس عظیم منصب کے لئے چنا ) کے درمیان ربط وتعلق کی نوعیت کے بارے میں ایک مخصوص نقطہ نظر رکھتی ہے۔ سورت کے آخر میں پہنچ کر ہم دیکھتے ہیں کہ کلام کے خاتمے میں سورت کے ابتدائیہ کو دہرایا جاتا ہے۔ ایمانی نظریہ حیات کی حقیقت کی وضاحت ہوتی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ امت مسلمہ تمام انبیاء پر ایمان رکھتی ہے ۔ نیز تمام کتب سماوی پر اس کا ایمان ہے اور وہ انبیاء کے بیان کردہ امور غیبیہ پر بھی یقین رکھتی ہے اور انبیاء کی تعلیمات کو مانتی ہے اور دل وجان سے مطیع فرمان ہے۔ فرمایا جاتا ہے : ” رسول اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اس رسول اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں ۔ اور ان کا قول یہ ہے کہ ” ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے ، ہم نے سنا اور اطاعت قبول کی ۔ مالک ! تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے ۔ اللہ کسی متنفس پر ، اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا ، ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے ، اس کا پھل اس کے لئے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے اس کا وبال اسی پر ہے ۔ (ایمان لانے والو ! تم یوں دعا کیا کرو) اے ہمارے رب ! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہوجائیں ، ان پر گرفت نہ کر ۔ مالک ! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے ۔ پروردگار ! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے ، وہ ہم پر نہ رکھ ۔ ہمارے ساتھ نرمی کر ، ہم سے درگذر فرما ، ہم پر رحم کر ، تو ہمارا مولیٰ ہے ، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔ “ اسی طرح آغاز و انجام کے درمیان پوری پوری یک رنگی پائی جاتی ہے اور سورت کے تمام موضوعات سخن مومنین صادقین کی صفات اور خصوصیات کے ان دوبیانوں کے درمیان سمٹ جاتے ہیں ۔ (بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں) Show more
مصنف کے حالات :
سید قطب 1902 ء میں مصر کے ایک صوبہ اسیوط کے ایک گاؤں موشاء میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام حاجی قطب ابراہیم اور والدہ کا نام فاطمہ حسین عثمان تھا۔ دونوں عربی النسل تھے۔ سید قطب اپنے والدین کے سب سے بڑے لڑکے تھے۔
آپ نے ثانوی تعلیم تجہیزیہ دار العلوم نامی ایک اسکول میں حاصل کی۔ اس اسکول میں طلباء کو دار العلوم میں داخلہ کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ وہاں سے فارغ ہوکر آپ 1929 میں قاہرہ کے دار العلوم میں داخل ہوئے۔ 1933 میں آپ نے بی۔ اے کی ڈگری اور ڈپلومہ ان ایجوکیشن حاصل کیا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے محکمہ تعلیم میں بحیثیت انسپکٹر تعلیم ملازمت اختیار کرلی اور 1952 ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اسی دوران 1954 ء میں آپ اخوان المسلمون سے متعارف ہوئے۔ اور 2 جولائی 1954 ء میں آپ کو اخوان کے شعبہ نشر و اشاعت نے اخبار الاخوان المسلمون کا ایڈیٹر مقرر کیا۔
شہید اسلام سید قطب 1954 سے لے کر 1964 تک جیل میں رہے اور اگست 1964 ء میں مرحوم عبدالسلام عارف صدر عراق کی کوششوں سے رہا ہوئے۔ رہا ہوتے ہی پوری دنیا کے نوجوانوں نے آپ کی طرف رجوع کیا اور آپ کا لٹریچر جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیلنے لگا۔ چناچہ لادین مغرب پرست کمیونسٹ اور سوشلسٹ عناصر چیخ اٹھے اور بیک وقت ماسکو اور واشنگٹن سے ان کے خلاف سازشیں ہونے لگیں۔ چناچہ آپ کو ایک سال بعد اگست 1965 ء میں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا اور ایک سال بعد 29 اگست 1966 ء میں آپ کو شہید کردیا گیا۔ اللہ آپ کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔
حروف مقطعات کی بحث الم : یہ حروف مقطعات میں سے ہے اور حروف مقطعات انتیس سورتوں کے شروع میں آئے ہیں اور وہ یہ ہیں : ا ل م۔ ا ل ر ۔ ا آمآآ۔ ا آمآرٰ ۔ حٰآ۔ حٰآآآآ۔ کھٰیٰعٓصٓ۔ طٰسٓ۔ طٰسٓمّٓ۔ طٰہٰ ۔ یٰسٓ۔ صٓ۔ قٓ۔ نٓ۔ ان میں ا ل م ر چھ جگہ ہے۔ اور ا ل ر پانچ جگہ ہے اور حٰمٓ چھ جگہ ہے اور طٰسٓمّٓ دو جگہ ... ہے۔ اور ان کے علاوہ باقی سب ایک ایک جگہ ہیں۔ کیونکہ یہ متشابہات میں سے ہیں۔ اس لیے مفسرین ان کے سامنے یوں لکھ دیتے ہیں۔ اللّٰہ اعلم بمرادہ بذلک۔ (اللہ کو اس کا معنی معلوم ہے) بہت سے اکابر جن میں خلفاء اربعہ اور ابن مسعود (رض) بھی ہیں ان کا موقف یہی ہے۔ جیسا کہ ابن کثیر نے نقل کیا ہے۔ بعض حضرات نے ان کے کچھ معانی بھی بتائے ہیں کسی نے کہا ہے کہ یہ ان سورتوں کے نام ہیں جن کے شروع میں آئے ہیں۔ حضرت مجاہد کا قول ہے کہ ا ل م ر قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ حضرت شعبی نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ ا ل م ر میں الف اللہ کا پہلا حرف ہے اور لام اللہ کے نام لطیف کا پہلا حرف ہے اور میم مجید کا پہلا حرف اور ایک قول یہ ہے، الف سے الاء اللہ یعنی اللہ کی نعمتیں اور لام سے لطف اللہ یعنی اللہ کی مہربانی اور میم سے مجد اللہ یعنی اللہ کی بزرگی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن اس میں سے کوئی بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول نہیں ہے۔ مفسرین نے حروف مقطعات کے ذریعہ سورتیں شروع کرنے کی یہ حکمت بھی لکھی ہے کہ اہل عرب کو یہ بتانا تھا کہ یہ کتاب جو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی ہے اس کے کلمات انہیں حروف سے مرکب ہیں جو تمہاری گفتگو اور محاورات میں استعمال ہوتے ہیں۔ تم فصیح وبلیغ ہو اس جیسی کتاب بنا کر لاؤ۔ جب ماہرین اس جیسی کتاب بنا کر نہیں لاسکتے تو ایک امی جس نے کسی سے کچھ نہیں پڑھا اس کے بارے میں کیسے کہتے ہو کہ اس نے اپنے پاس سے بنا لیا۔ اگر یہ کلام کسی غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو تم لوگ اس جیسا کلام بنانے سے کیوں عاجز رہ جاتے۔ اس کے علاوہ اور بھی حکمتیں بیان کی ہیں جو مفسر بیضاوی نے لکھی ہیں۔ ان حروف کو اس طرح الگ الگ پڑھا جاتا ہے ان میں تجوید کے قواعد کے مطابق مد بھی ہیں جو مدحرفی مثقل اور مد حرفی مخفف کے نام سے کتب تجوید میں بیان کیے گئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اللہ کی کتاب کا ایک حرف پڑھا تو اس کی وجہ سے اسے ایک نیکی ملے گی اور نیکی دس نیکیوں کے برابر ہوگی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے (بلکہ) الف ایک حرف ہے اور لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔ (رواہ الترمذی ص ٤١٣ وقال حدیث حسن صحیح) Show more
نام : انوار البیان فی کشف اسرار القرآن
مترجم و مفسر : حضرت مولانا مفتی محمد عاشق الہی مہاجر مدنی (رح)
ناشر : نوید احمد خاں۔ مکتبہ زکریا۔ رحمان پلازہ مچھلی منڈی اردو بازار لاہور۔
زیر نظر نسخہ : اشاعت اول۔ 2009 ء۔ 1430 ھ
کتاب کا مختصر تعارف :
" ایزی قرآن و حدیث " میں شامل چھ جلدوں پر مشتمل ایک اہم اردو تفسیر حضرت مولانا عاشق الہی بلند شہری (رح) کی بھی ہے۔ اس کا مختصر تعارف ، امتیازی خصوصیات اور سبب تالیف انہی کے اپنے الفاظ میں درج ذیل ہے :
" اما بعد ! 1374 ھ یا 1375 ھ کی بات ہے کہ راقم الحروف کلکتہ میں مقیم تھا۔ وہاں میعادی بخار میں مبتلا ہوگیا اور شدت تکلیف کے باعث ایک رات ایسی گزری کہ صبح تک زندہ رہ جانے کی امید نہ تھی، میں نے اللہ جل شانہ سے ناز کے انداز میں عرض کردیا کہ اے اللہ ! میں ابھی مر رہا ہوں حالانکہ میں نے ابھی تفسیر بھی نہیں لکھی، اللہ جل شانہ کا فضل ہوا کہ میں اچھا ہوگیا، اور اس کے بعد سے کبھی شدید بیماری میں بھی مبتلا نہیں ہوا، لیکن تدریسی مشاگل کے باعث اور دوسری چھوٹی موٹی تالیفات میں لگنے کی وجہ سے تفسیر لکھنے کا موقعہ نہیں آیا، اب جبکہ عمر ستر سال کے قریب پہنچ گئی تو موت کا ڈر لاحق ہوا، اور ساتھ یہ فکر دامنگیر ہوئی کہ تفسیر لکھنے کا وعدہ جو اللہ جل شانہ سے کیا تھا وہ پورا کرنا چاہیے، تفسیر لکھنا شروع کردیا، مجھے علم بھی زیادہ نہیں ہے، جگہ جگہ مشکلات پیش آئیں اللہ جل شانہ سے دعائیں کی، مشکلات حل ہوتی گئیں اور برابر شرح صدر ہوتا گیا اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ اردو میں اکابر کی متعدد تفسیریں موجود ہیں تجھے نئی تفسیر لکھنے کی کیا ضرورت تھی ؟ تو میں اس کا جواب دینے سے قاصر ہوں البتہ مجھے اپنے طور پر اس بات کی خوشی ہے کہ میری عمر کے آخری چند سال قرآن کریم کی خدمت میں خرچ ہوگئے، عام فہم اردو زبان میں شرح اور بسط کے ساتھ قرآن مجید کے معانی اور مطالب بیان کردئیے ہیں اور ساتھ ہی مسلمانوں کو جگہ جگہ جھنجھوڑا بھی ہے کہ قرآن مجید کا تم سے کیا مطالبہ ہے اور تمہاری اجتماعی وانفرادی زندگی کس رخ پر ہے، کوشش کی ہے کہ تفسیر و حدیث کے اصل ماخذ کی طرف رجوع کیا جائے، اور تفسیر القرآن بالقرآن، اور تفسیر القرآن بالحدیث کو اختیار کیا جائے۔ یہ تفسیر انشاء اللہ ہر طبقہ کے مسلمانوں کے لیے مفید ہوگی۔ لیکن خصوصیت کے ساتھ ترجمہ اور تفسیر پڑھنے والے طلبہ کی زیادہ رعایت کی گئی ہے۔ سبب نزول لکھنے کا خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ اور کوشش کی گئی ہے کہ ترجمہ تحت اللفظ ہو اور بامحاورہ بھی، میری کوشش انشاء اللہ تعالیٰ کامیاب ہے۔ اللہ جل شانہ سے امید کرتا ہوں کہ اس تفسیر کو شرف قبولیت بخشے، اور اپنے بندوں میں بھی قبولیت عامہ عطا فرمائے ۔ آمین
کچھ مصنف کے بارے میں
حضرت مولانا عاشق الہی بلند شہری مہاجر مدنی ، اتر پر دیش، انڈیا کے ایک شہر بلند شہر میں ، 1343 ھجری میں پیدا ہوئے ۔
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم مدرسہ امدادیہ مرادآباد اور جامی مسجد علی گڑھ میں مکمل کی۔
مکمل دینی تعلیم مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور سے حاصل کی۔
آپ نے مدرسہ حیات العلوم فیروز پور اور کلکتہ کے کئی مدارس میں تدریس کی خدمت سر انجام دی۔
بعد ازاں ، مفتی محمد شفیع (رح) کی درخواست پر دارالعلوم کراچی تشریف لے آئے ۔ اور یہاں کئی سال تک شیخ الحدیث ، شیخ التفسیر کے طور پر تدریس کی، اور دارالافتاء میں بھی نمایاں کام کیا۔
چند سال بعد آپ مدینہ منورہ منتقل ہوگئے جہاں آپ نے اپنی زندگی کے آخری 25 سال گزارے ۔
آپ کی وفات 1999 میں ہوئی اور آپ جنت البقیع میں مدفون ہیں۔
آپ کی متعدد تصانیف ہیں جن میں سے مشہور کتب ۔ انوار البیان، زاد الطالبین ، فوائد الثنیہ فی شرح علوم النبویہ اور تسہیل الضروری شرح قدوری ہیں۔
2 ۔ یہ حروف مقطعات میں سے ہیں جو قرآن مجید کی انیس سورتوں کی ابتداء میں آئے ہیں۔ مفسرین کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے ان حروف کے ان سورتوں کی ابتداء میں ذکر کرنے کی حکمتیں، ان کے ظاہری معانی اور ان کی تمثیلات بیان فرمائی ہیں۔ مفسرین کرام نے جو کچھ بیان کیا ہے اسے ان حروف مقطعات کے حقیقی معانی اور مرادات... الٰہی تو نہیں کہا جاسکتا زیادہ سے زیادہ انہیں فوائد سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ یہ حروف بےمعنی اور مہمل نہیں ہیں ان سے مراد خداوندی متعین ضرور ہیں لیکن اس کا بھید اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ ہذا علم مستور وسر محجوب استاثر اللہ تبارک وتعالیٰ بہ (تفسیر کبیر ص 227 ج 1، روح المعانی بمعناہ ص 82 ج 3) خلفائے راشدین اور حضرت ابن مسعود (رض) سے یہی منقول ہے۔ اسی طرح عامر شعبی، سفیان ثوری، ربیع بن خثیم، ابن حبان اور ابوبکر انباری رحمہم اللہ تعالیٰ بھی اسی کے قائل ہیں (قرطبی ص 154 ج 1، ابن کثیر ص 36 ج 1 بیضاوی ص 6) حضرت صدیق اکبر (رض) سے منقول ہے۔ لکل کتاب سر وسر القرآن اوائل السور (روح المعانی ص 100 ج 1 تفسیر کبیر ص 227 ج 1) یعنی ہر کتاب کا ایک بھید ہوتا ہے اور قرآن کا بھید سورتوں کے ابتدائی حصے یعنی حروف مقطعات ہیں۔ امام شعبی فرماتے ہیں۔ سر اللہ تعالیٰ فلا تطلبوہ (روح المعانی ص 100 ج 1، تفسیر کبیر ص 224 ج 1) یعنی یہ حروف مقطعات اللہ تعالیٰ کا بھید ہیں ان کے پیچھے مت پڑو۔ سورتوں کی ابتداء میں ان حروف کے ذکر کرنے میں جو حکمتیں مفسرین کرام نے بیان کی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اعمالِ شرعیہ کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جن کی حکمت اور علت ہماری سمجھ میں آسکے، جیسے نماز، روزہ اور زکوۃ۔ یہ بات بخوبی سمجھ میں آسکتی ہے کہ نماز میں قیام اور رکوع و سجود وغیرہ کے ذریعے اپنے مالک اور آقا کے سامنے انتہائی عاجزی اور بےچارگی کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔ روزہ سے شہواتِ نفسانیہ کو کمزور کر کے روحانی پاکیزگی حاصل کی جاتی ہے۔ بھوک کے تجربہ سے غریبوں اور بھوکوں کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور زکوۃ کے ذریعے ضرورت سے زائد دولت سوسائٹی کے معذور اور محتاج طبقہ میں تقسیم کر کے ان کی ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے۔ دوسری قسم ان اعمال کی ہے جن کی حکمت اور علت ہماری سمجھ سے بالا تر ہے مگر ہم ایسے اعمال بجا لانے کے مکلف ہیں جیسا کہ افعالِ حج ہیں۔ مثلاً صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا (دوڑنا) طواف میں رمل کرنا (کندھوں کو ہلا ہلا کر چلنا) اور جمرات پر سنگریزے پھینکنا۔ کمال انقیاد اور تسلیم اسی کا نام ہے کہ احکم الحاکمین کے ہر حکم کی تعمیل کی جائے خواہ اس کی علت سمجھ میں آئے یا نہ آئے بلکہ اطاعت کرنے کے لیے علت دریافت کرنا بےادبی میں داخل ہے۔ اعمالِ شرعیہ کی طرح اقوال کی بھی دو قسمیں ہیں ایک تو وہ ہیں جن کا مفہوم ہماری سمجھ میں آسکتا ہے۔ ایسے اقوال کے پڑھنے، ان کے معانی میں غور وفکر کرنے اور ان کے مطابق عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور کچھ اقوال ایسے ہیں جن کا مفہوم ہماری عقل وفہم سے ماوراء ہے مگر ہمیں ان کے بھی ماننے اور پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے (تفسیر کبیر، تفصیل ص 231 ج 1) سورة آل عمران کی اس آیت کا یہی مطلب ہے۔ ھُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ ۭ فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاۗءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاۗءَ تَاْوِيْلِهٖ څ وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ ڤ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ۚ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ (ترجمہ) وہ ایسا ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کا ایک حصہ وہ آیتیں ہیں جو محکم ہیں (یعنی ان کا مطلب واضح اور ظاہر ہے) یہی آیتیں (اس) کتاب کا اصلی مدار ہیں۔ اور اس میں کچھ آیتیں ایسی ہیں جن کی مراد مشتبہ ہے تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہیں وہ (دین میں) شورش ڈھونڈنے اور اس کا مطلب تلاش کرنے کی غرض سے اسی کے پیچھے ہولیتے ہیں جس کی مراد مشتبہ ہے حالانکہ اس کا مطلب بجز اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا۔ جو لوگ علم (دین) میں پختہ کار ہیں وہ یوں کہتے ہیں کہ ہم اس پر (اجمالاً ) یقین رکھتے ہیں کہ یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں اور نصیحت صرف وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو اہل عقل ہیں :۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوگیا کہ قرآن مجید کی آیتیں دو قسم کی ہیں۔ ایک محکمات یعنی وہ جن کا مطلب معلوم اور مراد متعین ہے۔ ان کا حکم یہ ہے کہ ان کے مطابق عمل کرنا واجب ہے۔ دوسری متشابہات یعنی وہ جن کی مراد مشتبہ ہے۔ اللہ کے سوا ان کی صحیح مراد کسی کو معلوم نہیں۔ علمائے ربانیین کا متشابہات کے متعلق یہ عقیدہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہیں لیکن ان کا اصل مقصد خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ متشابہات کی دو قسمیں ہیں۔ قسم اول حروف مقطعات جو بعض سورتوں کی ابتداء میں آئے ہیں۔ جیسے۔ الم۔ الرا۔ المرا۔ طہ حم۔ وغیرہ (ابن کثیر ص 345 ج 1، روح المعانی ص 82 ج 3، خازن ومعالم ص 22 ج 1 ص 269 ج 1، قرطبی ص 154 ج 1) اور قسم دوم وہ الفاظ ہیں جن کے ظاہری اور لغوی معانی تو معلوم ہوں لیکن ان کی اصل مراد سوا اللہ کے کسی کو معلوم نہ ہو جیسے اللہ کی طرف یَدٌ (ہاتھ) وَجْہٌ (چہرہ) وغیرہ کی اضافت جیسے فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِاور يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ ۔ (اس سورۃ کا تعارف پڑھنے کے لئے جواہرالقرآن کتابی نسخہ ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اسے یہاں نقل نہیں کیا جا رہا۔) Show more
حضرت مولانا غلام اللہ خان
حضرت مولانا غلام اللہ خان صاحب (رح)
خاندان : آپ 1909 ء کو جناب فیروزخان صاحب کے گھر ” وریہ “ متصل حضرو ضلع کمیلپور میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والدصاحب دیندار اورگاؤں کے نمبردار تھے ۔ قومیت کے لحاظ سے ” اعوان “ ہیں۔ تعلیم : حضروہائی سکول سے مڈل کا امتحان پاس کیا اور پھر دینی طلباء کو دیکھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کا شوق پیدا ہوا۔ پہلا سے ابتدائی فارسی اور صرف ونحو کی کتابیں پڑھیں ۔ پھر شاہ محمد ہری پور ہزارہ میں مولانا سکندر علی صاحب اور انکے بڑے بھائی مولانا محمداسماعیل صاحب ساکن کو کل ، ہزارہ سے مختلف کتب کا درس لے، فنون کی کتابیں مولانا عبداللہ پٹھو اورمولانا محمد دین صاحب سے پڑھیں، پھر انہی ضلع گجرات کے مولانا غلام رسول صاحب اور ان کے داماد مولانا ولی اللہ صاحب سے معقولات کی آخری کتابیں پڑھیں، مشکوٰۃ ، جلالین ، بیضاوی اور ترجمہ قرآن کریم بھی یہیں پڑھا۔ بعدا زاں حضرت مولانا حسین علی صاحب (رح) ساکن واں بچھراں ضلع میانوالی کی خدمت میں پہنچے ۔ ان سے تفسیر قرآن کریم کا درس لیا اور انہی کے ارشاد پر دارالعلوم دیوبند کیلئے رخت سفر باندھا۔ امتحان داخلہ حضرت مولانا رسول خان صاحب ہزاروی (رح) نے لیا۔ وہاں زیادہ تر علم ادب کی کتابیں پڑھیں ۔ پھر ڈابھیل پہنچے اور وہاں 1933 ء میں دورۂ حدیث پڑھ کر سند الفراغ حاصل کی، پھر حضرت علامہ محمدانور شاہ کشمیری (رح) کے ارشاد پر آپ وہاں ایک سال بطور معین درس پڑھاتے رہے ، اسی دوران اپنے شیخ حضرت مولانا حسین علی صاحب (رح) کے ارشاد پر واپس آگئے اور مدرسہ ” برکات الاسلام “ وزیر آباد میں تدریس پر مامور ہوئے اور ایک عرصہ تک معقولات و منقولات کی تدریس کرتے رہے۔ پھر شیخ عبدالغنی صاحب آپ کو 1939 ء میں وزیرآباد سے راولپنڈی لے آئے ۔ یہاں پانچ سات ماہ تک ہائی سکول میں کام کیا ، اسی دوران لوگوں کی استدعا پر پرانے قلعہ کی مسجد میں مشروط خطابت قبول کی کہ تنخواہ نہیں لوں گا ۔ سکول چھوڑ کر مسجد میں درس شروع کردیا اور مختلف جگہ تقاریر کے علاوہ درس قرآن کریم کا سلسلہ شروع کیا ۔ پہلی مرتبہ جب دورۂ تفسیر شروع کیا تو کل نو طالب علم تھے پھر رفتہ رفتہ حلقہ بڑھتا گیا اور اب تک پاکستان کے ممتاز دارالعلوم میں شمار ہے ۔
نام : کشف الرحمن فی تفسیر القرآن
مصنف : حضرت مولانا احمد سعید دہلوی (رح)
ناشر : مکتبہ رشیدیہ۔ کراچی
یہ تفسیر مصنف کی اٹھارہ سالہ محنت کا نتیجہ ہے۔ اس کے مصنف پاک و ہند کے مشہور عالم سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی (رح) ہیں۔ ترجمہ کا نام کشف الرحمن اور تفسیر کا نام تیسیر القرآن ہے۔ موصوف کی یہ تفسیر شستہ زبان، عام فہم طرز اداء اور اپنی خصوصیات کے اعتبار سے نہایت قابل قدر ہے، اور ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ مصنف نے اس ترجمہ اور تفسیر کی تالیف میں بہت محنت کی ہے اور بڑی بڑی معتبر کتابوں کی زمانہ دراز تک ورق گردانی کرکے یہ ذخیرہ جمع کیا ہے اور اس کو ایسے طریقے پر مرتب کیا ہے کہ ہر طقبہ کے لوگ اس سے مستفید ہوسکیں، یہ اہل علم کے لیے بھی مفید ہے اور عوام کے لیے بھی، بڑی خوبی اس میں یہ ہے کہ زبان کو آسان اور سہل کرنے کے ساتھ ساتھ سلفِ صالحین کے مسلک کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور زبان کی شگفتگی کو بھی برقرار رکھا۔
مصنف کا تعارف :
سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعید دہلوی ربیع الثانی 1306 ہجری بمطابق دسمبر 1888 ہجری میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم مولانا عبدالمجید مصطفیٰ آبادی مرحوم سے حاصل کی، اور تکمیل حفظِ قرآن کی دستار بندی مدرسہ حسینیہ دلی میں ہوئی۔
اعلی تعلیم مدرسہ امینیہ میں حاصل کی۔ اور اس کے بعد مدرسہ امینیہ میں کئی برس تک تدریس کی خدمات سر انجام دیں۔ اور دین کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں سر انجام دیے ۔
آپ جمعیت العلماء ہند کے صدر ، عالم دین اور ایک محب وطن شخصیت تھے۔
1920 ء سے قومی تحریکات میں حصہ لینا شروع کیا اور آٹھ مرتبہ جیل گئے۔ خوش بیان مقرر تھے اور سبحان الہند کہلاتے تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی کی وفات کے بعد جمعیت العلماء ہند کے صدر مقرر ہوئے۔ اس سے قبل آپ اس جماعت کے ناظم اعلٰی تھے۔ دینی اور علمی موضوعات پر تقریباً بیس کتابیں یادگار چھوڑیں۔
آپ کی تصنیفات و تالیفات میں ١۔ کشف الرحمن فی ترجمۃ القرآن۔ ٢۔ تقاریر سیرت۔ ٣۔ خدا کی باتیں۔ ٤۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں۔ ٥، معجزاتِ رسول۔ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔
آپ کو وفات 3 جمادی الثانی 1379 ہجری بمطابق دسمبر 1959 ء میں ہوئی۔