Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 1

سورة البقرة

الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾

Alif, Lam, Meem.

الؔم

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Discussion of the Individual Letters Allah, the Most Gracious, the Most Merciful says; الم Alif Lam Mim. The individual letters in the beginning of some Surahs are among those things whose knowledge Allah has kept only for Himself. This was reported from Abu Bakr, Umar, Uthman, Ali and Ibn Mas`ud. It was said that these letters are the names of some of the <... b>Surahs. It was also said that they are the beginnings that Allah chose to start the Surahs of the Qur'an with. Khasif stated that Mujahid said, "The beginnings of the Surahs, such as Qaf, Sad, Ta Sin Mim and Alif Lam Ra, are just some letters of the alphabet." Some linguists also stated that; they are letters of the alphabet and that Allah simply did not cite the entire alphabet of twenty-eight letters. For instance, they said, one might say, "My son recites Alif, Ba, Ta, Tha..." he means the entire alphabet although he stops before mentioning the rest of it. This opinion was mentioned by Ibn Jarir. The Letters at the Beginning of Surahs If one removes the repetitive letters, then the number of letters mentioned at the beginning of the Surahs is fourteen: Alif, Lam, Mim, Sad, Ra, Kaf, Ha, Ya, Ayn, Ta, Sin, Ha, Qaf, Nun. So glorious is He Who made everything subtly reflect His wisdom. Moreover, the scholars said, "There is no doubt that Allah did not reveal these letters for jest and play." Some ignorant people said that; some of the Qur'an does not mean anything, (meaning, such as these letters) thus committing a major mistake. On the contrary, these letters carry a specific meaning. Further, if we find an authentic narration leading to the Prophet that explains these letters, we will embrace the Prophet's statement. Otherwise, we will stop where we were made to stop and will proclaim, امَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا (We believe in it; all of it (clear and unclear verses) is from our Lord), (3:7). The scholars did not agree on one opinion or explanation regarding this subject. Therefore, whoever thinks that one scholar's opinion is correct, he is obliged to follow it, otherwise it is better to refrain from making any judgment on this matter. Allah knows best.   Show more

حروف مقطعات اور ان کے معنی الم جیسے حروف مقطعات ہیں جو سورتوں کے اول میں آئے ہیں ان کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے بعض تو کہتے ہیں ان کے معنی صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہیں اور کسی کو معلوم نہیں ۔ اس لئے وہ ان حروف کی کوئی تفسیر نہیں کرتے ۔ قرطبی نے حضرت ابو بکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان ، ... حضرت علی ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے ہی نقل کیا ہے ۔ عامر ، شعبی ، سفیان ثوری ، ربیع بن خیثم رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں ابو حاتم بن حبان کو بھی اسی سے اتفاق ہے بعض لوگ ان حروف کی تفسیر بھی کرتے ہیں لیکن ان کی تفسیر میں بہت کچھ اختلاف ہے ۔ عبدالرحمن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں یہ سورتوں کے نام ہیں ۔ علامہ ابو القاسم محمود بن عمر زمحشری اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں اکثر لوگوں کا اسی پر اتفاق ہے ۔ سیبویہ نے بھی یہی کہا ہے اور اس کی دلیل بخاری و مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن صبح کی نماز میں الم السجد اور ہل اتی علی الانسان پڑھتے تھے ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں الم اور حم اور المص اور ص یہ سب سورتوں کی ابتداء ہے جن سے یہ سورتیں شروع ہوتی ہیں ۔ انہی سے یہ بھی منقول ہے کہ الم قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ہے ۔ حضرت قتادہ اور حضرت زید بن اسلم کا قول بھی یہی ہے کہ اور شاید اس قول کا مطلب بھی وہی ہے جو حضرت عبدالرحمن بن زید اسلم فرماتے ہیں کہ یہ سورتوں کے نام ہیں اس لئے کہ ہر سورت کو قرآن کہہ سکتے ہیں اور یہ نہیں ہو سکتا کہ سارے قرآن کا نام المص ہو کیونکہ جب کوئی شخص کہے کہ میں نے سورۃ المص پڑھی تو ظاہر یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس نے سورۃ اعراف پڑھی نہ کہ پورا قرآن واللہ اعلم ۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نام ہیں ۔ حضرت شعب سالم بن عبداللہ اسماعیل بن عبدالرحمن سدی کبیر یہی کہتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ الم اللہ تعالیٰ کا بڑا نام ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ حم ، طس اور الم یہ سب اللہ تعالیٰ کے بڑے نام ہیں ۔ حضرت علی اور حضرت ابن عباس دونوں سے یہ مروی ہے ۔ ایک اور روایت میں ہے یہ اللہ تعالیٰ کی قسم ہے اور اس کا نام بھی ہے ۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں یہ قسم ہے ۔ ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ اس کے معنی انا اللہ اعلم ہیں یعنی میں ہی ہوں اللہ زیادہ جاننے والا ۔ حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے ۔ ابن عباس ، ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ سے روایت ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے الگ الگ حروف ہیں ۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں کہ یہ تین حرف الف اور لام اور میم انتیس حرفوں میں سے ہیں جو تمام زبانوں میں آتے ہیں ۔ ان میں سے ہر ہر حرف اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کی بلا کا ہے اور اس میں قوموں کی مدت اور ان کے وقت کا بیان ہے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تعجب کرنے پر کہا گیا تھا کہ وہ لوگ کیسے کفر کریں گے ان کی زبانوں پر اللہ تعالیٰ کے نام ہیں ۔ اس کی روزیوں پر وہ پلتے ہیں ۔ الف سے اللہ کا نام اللہ شروع ہوتا ہے اور لام سے اس کا نام لطیف شروع ہوتا ہے اور میم سے اس کا نام مجید شروع ہوتا ہے اور الف سے مراد آلا یعنی نعمتیں ہیں اور لام سے مراد اللہ تعالیٰ کا لطف ہے اور میم سے مراد اللہ تعالیٰ کا مجد یعنی بزرگی ہے ۔ الف سے مراد ایک سال ہے لام سے تیس سال اور میم سے چالیس سال ( ابن ابی حاتم ) امام ابن جریر نے ان سب مختلف اقوال میں تطبیق دی ہے یعنی ثابت کیا ہے کہ ان میں ایسا اختلاف نہیں جو ایک دوسرے کے خلاف ہو ۔ ہو سکتا ہے یہ سورتوں کے نام بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ کے نام بھی ، سورتوں کے شروع کے الفاظ بھی ہوں اور ان میں سے ہر ہر حرف سے اللہ تعالیٰ کے ایک ایک نام کی طرف اشارہ ، اور اس کی صفتوں کی طرف اور مدت وغیرہ کی طرف بھی ہو ۔ ایک ایک لفظ کئی کئی معنی میں آتا ہے ۔ جیسے لفظ امتہ کہ اس کے ایک معنی ہیں ۔ دین جیسے قرآن میں ہے آیت ( اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓي اُمَّةٍ وَّ اِنَّا عَلٰٓي اٰثٰرِهِمْ مُّهْتَدُوْنَ ) 43 ۔ الزخرف:22 ) ہم نے اپنے باپ دادوں کو اسی دین پر پایا ۔ دوسرے معنی ہیں ۔ اللہ کا اطاعت گزار بندہ ۔ جیسے فرمایا آیت ( اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا ) 16 ۔ النحل:120 ) یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے مطیع اور فرمانبردار اور مخلص بندے تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے ۔ تیسرے معنی ہیں جماعت ، جیسے فرمایا آیت ( وَجَدَ عَلَيْهِ اُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُوْنَ ) 28 ۔ القصص:23 ) یعنی ایک جماعت کو اس کنویں پر پانی پلاتے ہوئے پایا ۔ اور جگہ ہے آیت ( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا ) 16 ۔ النحل:36 ) یعنی ہم نے ہر جماعت میں کوئی رسول یقینا بھیجا ۔ چوتھے معنی ہیں مدت اور زمانہ ۔ فرمان ہے آیت ( وَادَّكَرَ بَعْدَ اُمَّةٍ ) 12 ۔ یوسف:45 ) یعنی ایک مدت کے بعد اسے یاد آیا ۔ پس جس طرح یہاں ایک لفظ کے کئی معنی ہوئے اسی طرح ممکن ہے کہ ان حروف مقطعہ کے بھی کئی معنی ہوں ۔ امام ابن جریر کے اس فرمان پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابو العالیہ نے جو تفسیر کی ہے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ یہ ایک لفظ ، ایک ساتھ ، ایک ہی جگہ ان سب معنی میں ہے اور لفظ امت وغیرہ جو کئی کئی معنی میں آئے ہیں جنہیں اصطلاح میں الفاظ مشترکہ کہتے ہیں ۔ ان کے معنی ہوتے ہیں جو عبارت کے قرینے سے معلوم ہو جاتے ہیں ایک ہی جگہ سب کے سب معنی مراد نہیں ہوتے اور سب کو ایک ہی جگہ محمول کرنے کے مسئلہ میں علماء اصول کا بڑا اختلاف ہے اور ہمارے تفسیری موضوع سے اس کا بیان خارج ہے واللہ اعلم ۔ دوسرے یہ کہ امت وغیرہ الفاظ کے معنی ہی بہت سارے ہیں اور یہ الفاظ اسی لئے بنائے گئے ہیں کہ بندش کلام اور نشست الفاظ سے ایک معنی ٹھیک بیٹھ جاتے ہیں ایک حرف کی دلالت ایک ایسے نام پر ممکن ہے جو دوسرے ایسے نام پر بھی دلالت کرتا ہو اور ایک کو دوسرے پر کوئی فضیلت نہ ہو تو مقدر ماننے سے نہ ضمیر دینے سے نہ وضع کے اعتبار سے اور نہ کسی اور اعتبار سے ایسی بات علمی طور پر تو نہیں سمجھی جا سکتی البتہ اگر منقول ہو تو اور بات ہے لیکن یہاں اختلاف ہے اجماع نہیں ہے اس لئے یہ فیصلہ قابل غور ہے ۔ اب بعض اشعار عرب کے جو اس بات کی دلیل میں پیش کئے جاتے ہیں ایک کلمہ کو بیان کرنے کے لئے صرف اس کا پہلا حرف بول دیتے ہیں ۔ یہ ٹھیک ہے لیکن ان شعروں میں خود عبارت ایسی ہوتی ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے ۔ ایک حرف کے بولتے ہی پورا کلمہ سمجھ میں آ جاتا ہے لیکن یہاں ایسا بھی نہیں واللہ اعلم قرطبی کہتے ہیں ایک حدیث میں ہے کہ جو مسلمان قتل پر آدھے کلمہ سے بھی مدد کرے مطلب یہ ہے کہ اقتل پورا نہ کہے بلکہ صرف اق کہے مجاہد کہتے ہیں ۔ سورتوں کے شروع میں جو حروف ہیں مثلاً ق ، ص ، حم ، طسم الر وغیرہ یہ سب حروف ہجا ہیں ۔ بعض عربی دان کہتے ہیں کہ یہ حروف الگ الگ جو اٹھائیس ہیں ان میں سے چند ذکر کر کے باقی کو چھوڑ دیا گیا ہے جیسے کوئی کہے کہ میرا بیٹا اب ت ث لکھتا ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ تمام اٹھائیس حروف لکھتا ہے لیکن ابتدا کے چند حروف ذکر کر دئیے اور باقی کو چھوڑ دیا ۔ سورتوں کے شروع میں اس طرح کے کل چودہ حروف آئے ہیں ۔ ا ل م ص و ک ہ ی ع ط س ح ق ن ان سب کو اگر ملا لیا جائے تو یہ عبارت بنتی ہے ۔ نص حکیم قاطع لہ سر تعداد کے لحاظ سے یہ حروف چودہ ہیں اور جملہ حروف اٹھائیس ہیں اس لئے یہ آدھے ہوئے بقیہ جن حروف کا ذکر نہیں کیا گیا ان کے مقابلہ میں یہ حروف ان سے زیادہ فضیلت والے ہیں اور یہ صناعت تصریف ہے ایک حکمت اس میں یہ بھی ہے کہ جتنی قسم کے حروف تھے اتنی قسمیں باعتبار اکثریت کے ان میں آ گئیں یعنی مہموسہ مجہورہ وغیرہ ۔ سبحان اللہ ہر چیز میں اس مالک کی حکمت نظر آتی ہے یہ یقینی بات ہے کہ اللہ کا کلام لغو ، بیہودہ ، بیکار ، بےمعنی الفاظ سے پاک ہے جو جاہل لوگ کہتے ہیں کہ سرے سے ان حروف کے کچھ معنی ہی نہیں وہ بالکل خطا پر ہیں ۔ اس کے کچھ نہ کچھ معنی یقیناً ہیں اگر نبی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے معنی کچھ ثابت ہوں تو ہم وہ معنی کریں گے اور سمجھیں گے ورنہ جہاں کہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ معنی بیان نہیں کئے ہم بھی نہ کریں گے اور ایمان لائیں گے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تو اس بارہ میں ہمیں کچھ نہیں ملا اور علماء کا بھی اس میں بیحد اختلاف ہے ۔ اگر کسی پر کسی قول کی دلیل کھل جائے تو خیر وہ اسے مان لے ورنہ بہتر یہ ہے کہ ان حروف کے کلام اللہ ہونے پر ایمان لائے اور یہ جانے کہ اس کے معنی ضرور ہیں جو اللہ ہی کو معلوم ہیں اور ہمیں معلوم نہیں ہوئے ۔ دوسری حکمت ان حروف کے لانے میں یہ بھی ہے کہ ان سے سورتوں کی ابتداء معلوم ہو جائے لیکن یہ وجہ ضعیف ہے اس لئے کہ اس کے بغیر ہی سورتوں کی جدائی معلوم ہو جاتی ہے جن سورتوں میں ایسے حروف ہی نہیں کیا ان کی ابتداء انتہا معلوم نہیں؟ پھر سورتوں سے پہلے بسم اللہ کا پڑھنے اور لکھنے کے اعتبار سے موجود ہونا کیا ایک سورت کو دوسری سے جدا نہیں کرتا ؟ امام ابن جریر نے اس کی حکمت یہ بھی بیان کی ہے کہ چونکہ مشرکین کتاب اللہ کو سنتے ہی نہ تھے اس لئے انہیں سنانے کے لئے ایسے حروف لائے گئے تاکہ جب ان کا دھیان کان لگ جائے تو باقاعدہ تلاوت شروع ہو لیکن یہ وجہ بھی بودی ہے اس لئے اگر ایسا ہوتا تو تمام سورتوں کی ابتدا انہی حروف سے کی جاتی حالانکہ ایسا نہیں ہوا ۔ بلکہ اکثر سورتیں اس سے خالی ہیں پھر جب کبھی مشرکین سے کلام شروع ہو یہی حروف چاہئیں ۔ نہ کہ صرف سورتوں کے شروع میں ہی یہ حروف ہوں ۔ پھر اس پر بھی غور کر لیجئے کہ یہ سورت یعنی سورۃ بقرہ اور اس کے بعد کی سورت یعنی سورۃ آل عمران یہ تو مدینہ شریف میں نازل ہوتی ہیں اور مشرکین مکہ ان کے اترنے کے وقت وہاں تھے ہی نہیں پھر ان میں یہ حروف کیوں آئے؟ ہاں یہاں پر ایک اور حکمت بھی بیان کی گئی ہے کہ ان حروف کے لانے میں قرآن کریم کا ایک معجزہ ہے جس سے تمام مخلوق عاجز ہے باوجود یہ کہ یہ حروف بھی روزمرہ کے استعمالی حروف کے لانے میں قرآن کریم کا ایک معجزہ ہے جس سے تمام مخلوق عاجز ہے باوجود یہ کہ یہ حروف بھی روزمرہ کے استعمالی حروف سے ترکیب دئیے گئے ہیں لیکن مخلوق کے کلام سے بالکل نرالے ہیں ۔ مبرد اور محققین کی ایک جماعت اور فراء اور قطرب سے بھی یہی منقول ہے زمخشری نے تفسیر کشاف میں اس قول کو نقل کر کے اس کی بہت کچھ تائید کی ہے ۔ شیخ امام علامہ ابو العباس حضرت ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ مجتہد ابو الحاج مزی نے بھی یہی حکمت بیان کی ہے ۔ زمحشری فرماتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام حروف اکٹھے نہیں آئے ہاں ان حروف کو مکرر لانے کی یہ وجہ ہے کہ بار بار مشرکین کو عاجز اور لاجواب کیا جائے اور انہیں ڈانٹا اور دھمکایا جائے جس طرح قرآن کریم میں اکثر قصے کئی کئی مرتبہ لائے گئے ہیں اور بار بار کھلے الفاظ میں بھی قرآن کے مثل لانے میں ان کی عاجزی کا بیان کیا گیا ہے ۔ بعض جگہ تو صرف ایک حرف آیا ہے جیسے ص ن ق کہیں دو حروف آئے ہیں جیسے حم کہیں تین حروف آئے ہیں جیسے الم کہیں چار آئے ہیں جیسے المر اور المص اور کہیں پانچ آئے ہیں جیسے کھیعص اور حمعسق اس لئے کہ کلمات عرب کے کل کے کل اسی طرح پر ہیں یا تو ان میں ایک حرفی لفظ ہیں یا دو حرفی یا سہ حرفی یا چار حرفی یا پانچ حرفی کے پانچ حرف سے زیادہ کے کلمات نہیں ۔ جب یہ بات ہے کہ یہ حروف قرآن شریف میں بطور معجزے کے آئے ہیں تو ضروری تھا کہ جن سورتوں کے شروع میں یہ حروف آئے ہیں وہاں ذکر بھی قرآن کریم کا ہو اور قرآن کی بزرگی اور بڑائی بیان ہو چنانچہ ایسا ہی انتیس سورتوں میں یہ واقع ہوا ہے سنئے فرمان ہے آیت ( الۗمّۗ Ǻ۝ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ Ą۝ ) 2 ۔ البقرۃ:2-1 ) یہاں بھی ان حروف کے بعد ذکر ہے کہ اس قرآن کے اللہ جل شانہ کا کلام ہونے میں کوئی شک نہیں اور جگہ فرمایا آیت ( الۗـۗمَّ Ǻ۝ۙ اللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ الْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ Ą۝ۭ نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَاَنْزَلَ التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ Ǽ۝ۙ ) 3 ۔ آل عمران:3-2-1 ) وہ اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ اور دائم قائم ہے جس نے تم پر حق کے ساتھ یہ کتاب تھوڑی تھوڑی نازل فرمائی ہے جو پہلے کی کتابوں کی بھی تصدیق کرتی ہے یہاں بھی ان حروف کے بعد قرآن کریم کی عظمت کا اظہار کیا گیا ۔ اور جگہ فرمایا آیت ( الۗمّۗصۗ Ǻ۝ۚ كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَيْكَ فَلَا يَكُنْ فِيْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنْذِرَ بِهٖ وَذِكْرٰي لِلْمُؤْمِنِيْنَ Ą۝ ) 7 ۔ الاعراف:2-1 ) یعنی یہ کتاب تیری طرف اتاری گئی ہے تو اپنا دل تنگ نہ رکھ اور جگہ فرمایا آیت ( الر کتاب انزلنا الیک ) الخ یہ کتاب ہم نے تیری طرف نازل کی تاکہ تو لوگوں کو اپنے رب کے حکم سے اندھیروں سے نکال کر اجالے میں لائے ۔ ارشاد ہوتا ہے آیت ( الۗمّۗ Ǻ۝ۚ تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ لَا رَيْبَ فِيْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ Ą۝ۭ ) 32 ۔ السجدہ:2-1 ) اس کتاب کے رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔ فرماتا ہے آیت ( حٰـمۗ Ǻ۝ۚ تَنْزِيْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ Ą۝ۚ ) 41 ۔ فصلت:2-1 ) بخششوں اور مہربانیوں والے اللہ نے اسے نازل فرمایا ہے آیت ( حمعسق کذلک یوحی الیک ) الخ یعنی اسی طرح وحی کرتا ہے اللہ تعالیٰ غالب حکمتوں والا تیری طرف اور ان نبیوں کی طرف جو تجھ سے پہلے تھے ، اسی طرح اور ایسی سورتوں کے شروع کو بہ غور دیکھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان حروف کے بعد کلام پاک کی عظمت و عزت کا ذکر ہے جس سے یہ بات قوی معلوم ہوتی ہے کہ یہ حروف اس لئے لائے گئے ہیں کہ لوگ اس کے لئے معارضے اور مقابلے میں عاجز ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان حروف سے مدت معلوم کرائی گئی ہے اور فتنوں لڑائیوں اور دوسرے ایسے ہی کاموں کے اوقات بتائے گئے ہیں ۔ لیکن یہ قول بھی بالکل ضعیف معلوم ہوتا ہے اس کی دلیل میں ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے ۔ لیکن اول تو وہ ضعیف ہے دوسرے اس حدیث سے اس قول کی پختگی کا ایک طرف اس کا باطل ہونا زیادہ ثابت ہوتا ہے ۔ وہ حدیث محمد بن اسحاق بن یسار نے نقل کی ہے جو تاریخ کے مصنف ہیں ۔ اس حدیث میں ہے کہ ابو یاسر بن اخطب یہودی اپنے چند ساتھیوں کو لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا آپ اس وقت سورۃ بقرہ کی شروع آیت ( الۗمّۗ Ǻ۝ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ ٻ فِيْهِ ڔ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ Ą۝ ) 2 ۔ البقرۃ:2-1 ) تلاوت فرما رہے تھے وہ اسے سن کر اپنے بھائی حی بن اخطب کے پاس آیا اور کہا میں نے آج حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے ۔ وہ پوچھتا ہے تو نے خود سنا ؟ اس نے کہا ہاں میں نے خود سنا ہے ۔ حی ان سب یہودیوں کو لے کر پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ سچ ہے کہ آپ اس آیت کو پڑھ رہے تھے ۔ آپ نے فرمایا ہاں سچ ہے ۔ اس نے کہا سنئے! آپ سے پہلے جتنے نبی آئے کسی کو بھی نہیں بتایا گیا تھا ۔ کہ اس کا ملک اور مذہب کب تک رہے گا لیکن آپ کو بتا دیا گیا پھر کھڑا ہو کر لوگوں سے کہنے لگا سنو! الف کا عدد ہوا ایک ، لام کے تیس ، میم کے چالیس ۔ کل اکہتر ہوئے ۔ کیا تم اس نبی کی تابعداری کرنا چاہتے ہو جس کے ملک اور امت کی مدت کل اکہتر سال ہو پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہو کر دریافت کیا کہ کیا کوئی اور آیت بھی ایسی ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں المص ۔ کہنے لگا یہ بڑی بھاری اور بہت لمبی ہے ۔ الف کا ایک ، لام کے تیس ، میم کے چالیس ، صواد کے نوے یہ سب ایک سو اکسٹھ سال ہوئے ۔ کہا اور کوئی بھی ایسی آیت ہے ۔ آپ نے فرمایا ہاں ۔ الر کہنے لگا یہ بھی بہت بھاری اور لمبی ہے ۔ الف کا ایک ، لام کے تیس اور رے کے دو سو ۔ جملہ دو سو اکتیس برس ہوئے ۔ کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی ایسی ہے ۔ آپ نے فرمایا المر ہے کہا یہ تو بہت ہی بھاری ہے الف کا ایک ، لام کے تیس ، میم کے چالیس ، رے کے دو سو ، سب مل کر دو سو اکہتر ہوگئے ۔ اب تو کام مشکل ہو گیا اور بات خلط ملط ہو گئی ۔ لوگو اٹھو ۔ ابو یاسر نے اپنے بھائی سے اور دوسرے علماء یہود سے کہا ۔ کیا عجب کہ ان سب حروف مجموعہ کی مدت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا ہو اکہتر ایک ، سو ایک ، سو اکتیس ایک ، دو سواکتیس ایک ، دو سو اکہتر ایک ، یہ سب مل کر سات سو چار برس ہوئے ۔ انہوں نے کہا اب کام خلط ملط ہو گیا ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آیتیں انہی لوگوں کے حق میں نازل ہوئیں آیت ( ھُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ ) 3 ۔ آل عمران:7 ) یعنی وہی اللہ جس نے تجھ پر یہ کتاب نازل فرمائی جس میں محکم آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور دوسری آیتیں مشابہت والی بھی ہیں ۔ اس حدیث کا دارومدار محمد بن سائب کلبی پر ہے اور جس حدیث کا یہ اکیلا راوی ہو محدثین اس سے حجت نہیں پکڑتے اور پھر اس طرح اگر مان لیا جائے اور ہر ایسے حرف کے عدد نکالے جائیں تو جن پر چودہ حروف کو ہم نے بیان کیا ان کے عدد بہت ہو جائیں گے اور جو حروف ان میں سے کئی کئی بار آئے ہیں اگر ان کے عدد کا شمار بھی کئی کئی بار لگایا جائے تو بہت ہی بڑی گنتی ہو جائے گی ۔ واللہ اعلم   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

ف 1 الف لام میم انہیں حروف مقطعات کہا جاتا ہے، یعنی علیحدہ علیحدہ پڑھے جانے والے حروف ان کے معنی کے بارے میں کوئی مستند روایت نہیں ہے (وَاللّہ العالِمُ بمرادہ) البتہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ضرور فرمایا ہے میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف، میم ایک حرف اور لام ایک حرف ہر ح... رف پر ایک نیکی اور ایک نیکی کا اجر دس گنا ہے۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] فضائل سورة البقرۃ :۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ & جس گھر میں سورة البقرہ پڑھی جائے، شیطان اس گھر سے نکل جاتا ہے۔ & (مسلم، کتاب صلوۃ المسافرین و قصرھا، باب استحباب الصلوۃ النافلۃ فی بیتہ۔۔ الخ) نیز آپ نے فرمایا : & الزھراوین (دو جگمگانے والی سورتیں یعنی البقرہ ا... ور آل عمران) پڑھا کرو۔ قیامت کے دن وہ اس حال میں آئیں گی جیسے وہ دو بادل یا دو سائبان یا پرندوں کے دو جھنڈ ہیں اور وہ اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے (مغفرت کے لیے) جھگڑا کریں گی (لہٰذا) سورة البقرہ پڑھا کرو۔ اسے حاصل کرنا برکت اور چھوڑ دینا حسرت ہے اور باطل قوتیں (جادو وغیرہ) اس کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ & (مسلم، کتاب فضائل القرآن و مایتعلق بہ باب فضل قراءۃ القرآن و سورة البقرۃ) زمانہ نزول اور شان نزول :۔ مدنی سورتوں میں سب سے پہلی سورت ہے۔ مکہ میں چھیاسی (٨٦) سورتیں نازل ہوئیں اور نزولی ترتیب کے لحاظ سے اس کا نمبر ٨٧ ہے، اگرچہ اس سورة کا بیشتر حصہ ابتدائی مدنی دور میں نازل ہوا تاہم اس کی کچھ آیات بہت مابعد کے دور میں نازل ہوئیں مثلاً حرمت سود کی آیات جو ١٠ ھ کے اواخر میں نازل ہوئیں۔ سورة بقرہ کے نزول کا پس منظر :۔ مدینہ پہنچ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلا کام جو کیا وہ مسجد نبوی کی تعمیر تھی تاکہ تمام مسلمان دن میں پانچ دفعہ اکٹھے ہو کر نماز ادا کریں اور اپنے مسائل پر غور کرسکیں۔ دوسرا اہم مسئلہ مہاجرین کی آباد کاری اور ان کے معاش کا تھا جس کے لیے آپ نے مہاجرین و انصار میں سلسلہ مواخات قائم فرمایا جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ تیسرا اہم مسئلہ مدینہ کی ایک چھوٹی سی نوخیز اسلامی ریاست کے دفاع کا تھا۔ کیونکہ اب مشرکین مکہ کے علاوہ دوسرے مشرک قبائل بھی مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلے ہوئے تھے۔ خود مدینہ میں یہود مسلمانوں کے اس لیے دشمن بن گئے تھے کہ آنے والا نبی سیدنا اسحاق کی اولاد کے بجائے سیدنا اسماعیل کی اولاد سے کیوں مبعوث ہوا ہے۔ یہود کے تین قبائل بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ مدینہ میں آباد تھے جو آپس میں پھٹے ہوئے تھے اور مدینہ کے مشرکوں کے دو مشہور قبائل اوس اور خزرج کے حلیف بن کر انہیں لڑاتے رہتے تھے۔ آپ نے سب سے پہلے یہودیوں کو ہی ایک مشترکہ مفاد کی طرف دعوت دی اور وہ مفاد تھا مدینہ کا دفاع۔ جس کی اہم دفعات یہ تھیں : (١) اگر مدینہ پر باہر سے حملہ ہوا تو مسلمان اور یہود مل کر دفاع کریں گے۔ (٢) مسلمان اور یہود دونوں حصہ رسدی اخراجات برداشت کریں گے۔ (٣) مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کسی طرح کے بھی جھگڑے کی صورت میں حکم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات ہوگی۔ یہود کے لیے بظاہر ایسی شرائط کو تسلیم کرلینا ناممکن نظر آ رہا تھا۔ کیونکہ وہ مدینہ کی معیشت اور سیاست پر پوری طرح چھائے ہوئے تھے، مگر یہ اللہ کی خاص مہربانی اور ان کی باہمی نااتفاقی کا نتیجہ تھا کہ یہودی قبائل باری باری اور مختلف اوقات میں اس معاہدہ کو تسلیم کرتے چلے گئے۔ اس طرح جب یہ ریاست اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی تو مسلمانوں اور کافروں کے علاوہ ایک تیسرا مفاد پرستوں کا طبقہ بھی معرض وجود میں آگیا۔ جنہیں منافقین کا نام دیا گیا۔ اس سورة کی ابتدا میں انہیں تین گروہوں (مسلمان، کافر اور منافقین) کا ذکر ہوا ہے اور یہی اس کا زمانہ نزول ہے۔ حروف مقطعات کی بحث :۔ قرآن کی ٢٩ سورتوں کی ابتدا میں ایسے حروف استعمال ہوئے ہیں، ان میں سے مندرجہ ذیل تین یک حرفی ہیں : (١) سورة ص والقرآن ٣٨ (٢) سورة ق والقرآن ٥٠ (٣) سورة ن والقلم ٦٨ اور ٩ دو حرفی ہیں جن میں سے (٤) المومن ٤٠، حم تنزیل الکتاب (٥، ) سورة حم السجدۃ ٤١ حم تنزیل من (٦) الزخرف ٤٣ حم والکتاب المبین (٧) الدخان ٤٤ حم والکتاب المبین (٨) الجاثیہ ٤٥ حم تنزیل الکتاب (٩) الاحقاف ٤٦ حم تنزیل الکتاب (١٠) طہ ٢٠ طہ ما انزلنا (١١) النمل ٢٧ طس تلک آیت (١٢) یس ٢٦ یس والقرآن اور ١٣ سہ حرفی ہیں جو یہ ہیں : (١٣) یونس ١٠ الر تلک آیات (١٤) ھود ١١ الر کتاب احکمت (١٥) یوسف ١٢ الر تلک آیات ١٠١، ابراہیم ١٤، الر کتاب انزلنا ١٧، حجر ١٥، الم تلک آیات (١٨) البقرۃ ٢ الم ذلک الکتاب (١٩) آل عمران ٣ الم اللہ لا الہ (٢٠) عنکبوت ٢٩ الم احسب الناس (٢١) الروم ٣٠ الم غلبت الروم (٢٢) لقمان ٣١ الم تلک آیات (٢٣) السجدہ ٣٢ الم تنزیل الکتاب (٢٤) شعراء ٢٦ طسم تلک آیات (٢٥) القصص ٢٨ طسم تلک آیات اور مندرجہ ذیل ٢ چار حرفی ہیں : (٢٦) الاعراف ٧ المص کتاب انزلنہ (٢٧) الرعد ١٣ المر تلک آیات اور مندرجہ ذیل ٢ پانچ حرفی ہیں : (٢٨) مریم ١٩ کھیعص ذکر رحمۃ (٢٩) الشوریٰ ٤٢ حم عسق کذلک یوحی الیک۔ مجموعہ احادیث میں سے کوئی بھی ایسی متصل اور صحیح حدیث مذکور نہیں جو ان حروف کے معانی و مفہوم پر روشنی ڈالتی ہو۔ لہذا انہیں (وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ ۝) 3 ۔ آل عمران :7) کے زمرہ میں شامل کرنا ہی سب سے انسب ہے۔ ان کے متعلق جو اقوال ملتے ہیں وہ درج ذیل ہیں : ١۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ مگر احادیث صحیحہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں اور جو نام ان میں مذکور ہیں ان میں ان حروف کا ذکر نہیں۔ ٢۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے ابتدائی حصے ہیں جن کو ملانے سے اللہ تعالیٰ کا کوئی نہ کوئی نام بن جاتا ہے۔ جیسے الٰر اور حم اور ن کو ملانے سے الرحمن بن جاتا ہے۔ یہ توجیہ بھی کچھ درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ الرحمن میں بھی م اور ن کے درمیان ایک الف ہے جس کو لکھتے وقت تو کھڑی زبر سے کام چلا کر حذف کیا جاسکتا ہے مگر تلفظ میں تو حذف نہیں ہوسکتا۔ علاوہ ازیں یہ ایک لفظ تو بن گیا اب اگر مزید کوشش کی جائے تو شاید ایک آدھ لفظ اور بن جائے، سارے حروف کو اس انداز سے ترکیب دینا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے نام بن جائیں ناممکن سی بات معلوم ہوتی ہے۔ ٣۔ ایک قول یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام ہیں، اور اس سلسلہ میں بالخصوص طہ اور یس کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ توجیہ اس لحاظ سے درست نہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود جو اپنے نام بتائے ہیں وہ یہ ہیں۔ محمد، احمد، ماحی (کفر کو مٹانے والا) حاشر اور عاقب۔ (بخاری، کتاب التفسیر، تفسیر سورة صف) نیز بخاری میں مذکور ہے کہ حبشی زبان میں طہ کے معنی & اے مرد &! ہیں یا ایسا آدمی جس کی زبان سے کوئی حرف نہ نکل سکے، وہ رک رک کر یا اٹک اٹک کر بات کرے اور یہ بات اس کی زبان میں گرہ کی وجہ سے ہو اور یہ تو واضح ہے کہ رسول نعوذ باللہ ایسے نہیں تھے۔ ٤۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف قرآن کے نام ہیں، جبکہ قرآن نے اپنے نام خود ہی بتا دیئے ہیں جو یہ ہیں۔ الکتاب، کتاب مبین، قرآن، قرآن مجید، قرآن کریم، قرآن عظیم، فرقان، ذکر، تذکرہ، حدیث اور احسن الحدیث ان ناموں کی موجودگی میں ایسے ناموں کی ضرورت ہی کب رہ جاتی ہے، جن کی سمجھ ہی نہ آتی ہو۔ ٥۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف سورتوں کے نام ہیں۔ یہ قول کسی حد تک درست ہے۔ مثلاً : ص، ق، طہ، یس سورتوں کے نام بھی ہیں۔ سورة القلم کو & ن & بھی کہا گیا ہے۔ حوامیم (جمع حم) کا ذکر بھی احادیث میں ملتا ہے۔ تاہم ان میں سے بھی بیشتر سورتیں دوسرے ناموں سے ہی مشہور ہوئیں۔ جن کا ان سورتوں میں امتیازاً ذکر آیا ہے۔ پھر یہ بھی ملحوظ رہے کہ کئی سورتوں کے دو دو نام بھی مشہور ہیں۔ ٦۔ ایک قول یہ ہے کہ الفاظ میں پورے نظام رسالت کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ مثلاً الم میں الف سے مراد اللہ، ل سے مراد جبریل اور م سے مراد محمد ہیں۔ یہ بھی ایسی توجیہ ہے جسے تمام حروف مقطعات پر لاگو نہیں کیا جاسکتا۔ ٧۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف کفار کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں کہ دیکھ لو کہ انہی مفرد حروف سے تم اپنے کلام کو ترکیب دیتے ہو، پھر تمہارے اور اللہ تعالیٰ کے کلام میں اتنا فرق ہے کہ تم سب مل کر بھی قرآن کے مقابلہ میں ایک سورت بھی اس جیسی پیش نہیں کرسکتے۔ یہ توجیہ اس لحاظ سے درست نہیں کہ جب ان الفاظ کا ٹھیک مفہوم متعین ہی نہیں تو پھر چیلنج کیسا ؟ ٨۔ ایک قول یہ ہے کہ بحساب جمل ان حروف کے عدد نکال کر جمع کرنے سے اس امت کی عمر یا قیامت کی آمد کی مدت کا اشارہ پایا جاتا ہے۔ یہ توجیہ انتہائی غیر معقول ہے۔ ایک تو جمل کے حساب کی شرعاً کچھ حیثیت نہیں۔ دوسرا انسان کے پاس کوئی ایسا علم یا ایسا ذریعہ موجود ہونا ناممکنات سے ہے۔ جس سے قیامت کی آمد کے مخصوص وقت کا حساب لگایا جاسکے۔ ٩۔ ایک قول یہ ہے کہ حروف طویل جملوں یا ناموں کے ابتدائی حروف یا مخففات ہیں اور ان کا مفہوم صرف رسول ہی جانتے تھے اور کوئی نہیں جان سکتا۔ گویا یہ عبد اور معبود کے درمیان راز و نیاز کی باتیں ہیں۔ یہ ایسی توجیہ ہے جس کے متعلق ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ واللہ اعلم بالصواب۔ ١٠۔ اور ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے سر بستہ راز ہیں جو اگرچہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں تاہم ان پر مطلع ہونا انسان کے بس کی بات نہیں۔ یہی وہ توجیہ ہے جس کی طرف ہم نے ابتدا میں اشارہ کردیا ہے اور یہی توجیہ سب سے انسب معلوم ہوتی ہے۔ ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی بعض ایسی صفات مذکور ہیں جن کا سمجھنا انسانی عقل کی بساط سے باہر ہے اور ان پر کسی عمل کی بنیاد بھی نہیں اٹھتی۔ رہی یہ بات کہ صحابہ کرام (رض) کو جس بات کی سمجھ نہیں آتی تھی تو فوراً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھ لیا کرتے تھے اور چونکہ صحابہ کرام (رض) نے ان حروف کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کبھی استفسار نہیں کیا لہذا معلوم ہوا کہ عربی زبان میں حروف مقطعات کا رواج عام تھا اور صحابہ کرام (رض) ان کے معانی بھی خوب جانتے تھے۔ پھر عربی ادب سے کچھ شاذ قسم کی مثالیں بھی پیش کی جاتی ہیں تو یہ خیال درست نہیں جب قرآنی آیات کی پوری تشریحات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صحابہ کرام (رض) کے ذریعہ ہم تک پوری صحت کے ساتھ پہنچ چکی ہیں تو پھر آخر ان حروف کی تشریح و تفسیر ہی ہم تک کیوں نہیں پہنچی۔ بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام (رض) خوب سمجھتے تھے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے ایسے راز یا صفات ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی جان نہیں سکتا۔ کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ کسی صحابی نے آپ سے یہ پوچھا ہو کہ اللہ تعالیٰ جب ہم میں سے ہر ایک کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے تو پھر وہ عرش پر کیسے متمکن ہے ؟ یا جب وہ بوقت سحر آسمان سے دنیا پر نزول فرماتا ہے تو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب کے کیا معنی ؟ ہرگز نہیں۔ بالکل یہی صورت ان حروف مقطعات کی بھی ہے۔ لہذا ان کے معانی و مفہوم نہ جاننے کے باوجود انہوں نے کبھی ان کے متعلق استفسار نہیں کیا تھا، کیونکہ یہ حروف متشابہات سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے لیے یہ بات ہی کافی ہے کہ اس بات پر ایمان لائیں کہ یہ بھی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں، نہ یہ مہمل ہیں، نہ زائد ہیں۔ بلکہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں۔ البتہ ان کے معانی و مفہوم جاننے کے نہ ہم مکلف ہیں اور نہ ہی ان پر کسی شرعی مسئلے کا دار و مدار ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

الۗمّ : کچھ سورتوں کے شروع میں جو حروف آئے ہیں انھیں مقطعات کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ الگ الگ کر کے پڑھے جاتے ہیں، ان کا معنی تو صاف ظاہر ہے کہ یہ حروف تہجی کے نام ہیں، اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ قرآن مجید میں ایسے الفاظ بھی ہیں جن کا کوئی معنی ہی نہیں، مگر یہ حروف سورتوں کے شروع میں کیوں لائے گئے ہی... ں، اس کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) سے صحیح سند کے ساتھ کوئی بات منقول نہیں۔ قرطبی (رض) نے خلفائے اربعہ اور عبداللہ بن مسعود (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ یہ حروف سر الٰہی ہیں جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، مگر اس کی سند نہ قرطبی نے ذکر کی ہے نہ کہیں اور مل سکی ہے۔ عبداللہ بن عباس اور بعض تابعین سے اس کی تاویل میں مختلف اقوال مروی ہیں، مگر صحت سند کے ساتھ ثابت نہیں۔ بعض علماء نے ان کی تفسیر میں اپنی طرف سے کچھ نکات بیان کیے ہیں، مگر وہ محض فنی کاوش ہیں، حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ سب سے قریب بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان حروف کے ذکر سے تمام دنیا کو چیلنج کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید انھی حروف تہجی میں اتارا ہے، اگر تمہیں اس کے منزل من اللہ ہونے میں شک ہے تو حروف تہجی تمہارے بھی علم اور استعمال میں ہیں تم بھی اس جیسی کوئی سورت بنا کرلے آؤ۔ اس کا قرینہ یہ ہے کہ عموماً یہ حروف جہاں بھی آئے ہیں ان کے بعد قرآن مجید، کتاب یا وحی کا ذکر آیا ہے، ابن کثیر نے فراء، مبرد، زمخشری اور دوسرے علماء کے علاوہ ابن تیمیہ کا یہی قول ذکر کیا ہے، مگر یہ بات پھر بھی باقی رہ جاتی ہے کہ کسی سورت کے شروع میں جو حروف آئے ہیں اس کے ساتھ ان کا خاص تعلق ہے، مثلاً کچھ سورتوں کے شروع میں الۗمّ “ ہے تو دوسری سورتوں کے شروع میں ” الر “ یا ” طسٓ“ وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی حکمت تک رسائی ہمارے بس سے باہر ہے اور یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ یہ ان متشابہات سے ہیں جن کی حقیقی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Surah begins with the Arabic letters Alif, Lam and Mim (equivalents of A, L and M). Several Surahs begin with a similar combination of letters, for example, Ha, Mim, or Alif, Lam, Mim, Sad. Each of these letters is pronounced separately without the addition of a vowel sound after it. So, the technical term for them is مقطعات (Mugatta` at: isolated letters). According to certain commentators, ... the isolated letters are the names of the Surahs at the beginning of which they occur. According to others, they are the symbols of the Divine Names. But the majority of the blessed Companions (رض) and the generation next to them, the تابعین Tabi’ in, and also the later authoritative scholars have preferred the view that the isolated letters are symbols or mysteries, the meaning of which is known to Allah alone or may have been entrusted as a special secret to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) not to be communicated to anyone else. That is why no commentary or explanation of these letters has at all been reported from him. The great commentator Al-Qurtubi has adopted this view of the matter, which is summarized below: |"According to ` Amir Al-Sha&bi, Sufyan Al-Thawri and many masters of the science of Hadith, every revealed book contains certain secret signs and symbols and mysteries of Allah; the isolated letters too are the secrets of Allah in the Holy Qur&an, and hence they are among the مشتبہات (Mutashabihat: of hidden meaning), the meaning of which is known to Allah alone, and it is not permissible for us even to enter into any discussion with regard to them. The isolated letters are not, however, without some benefit to us. Firstly, to believe in them and to recite them is in itself a great merit. Secondly, in reciting them we receive spiritual blessings from the unseen world, even if we are not aware of the fact. AI-Qurtubi (رح) adds: |"The Blessed Caliphs Abu Bakr, ` Umar, ` Uthman and ` Ali (رض) and most of the Companions like ` Abdullah ibn Mas&ud (رض) firmly held the view that these letters are the secrets of Allah, that we should believe in them as having descended from Allah and recite them exactly in the form in which they have descended, but should not be inquisitive about their meanings, which would be improper|". Citing Al-Qurtubi and others, Ibn Kathir too prefers this view. On the other hand, interpretations of the isolated letters have been reported from great and authentic scholars. Their purpose, however, was only to provide symbolical interpretation, or to awaken the minds of the readers to the indefinite possibilities of meanings that lie hidden in the Holy Qur&an, or just to simplify things; they never wished to claim that these were the meanings intended by Allah Himself. Therefore, it would not be justifiable to challenge such efforts at interpretation since it would go against the considered judgment of veritable scholars.  Show more

سورة البقرہ نام اور تعداد آیات : اس سورت کا نام سورة بقرہ ہے اور اسی نام سے حدیث اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے جس روایت میں سورة بقرہ کہنے کو منع کیا ہے وہ صحیح نہیں (ابن کثیر) تعداد آیات دو سو چھیاسی ہے اور کلمات چھ ہزار دو سو اکیس اور حروف پچیس ہزار پانسو ہیں (ابن کثیر) زمانہ نزول : یہ...  سورت مدنی ہے، یعنی ہجرت مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی اگرچہ اس کی بعض آیات مکہ مکرمہ میں حج کے وقت نازل ہوئی ہیں مگر وہ بھی باصطلاح مفسرین مدنی کہلاتی ہیں، سورة بقرہ قرآن کریم کی سب سے بڑی سورت اور مدینہ طیبہ میں سب سے پہلے اس کا نزول شروع ہوا اور مختلف زمانوں میں مختلف آیتیں نازل ہوتی رہیں یہاں تک کہ ربا یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں اور اس کی ایک آیت واتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللّٰهِ (٢٨١: ٢) تو قرآن کی بالکل آخری آیت ہے جو ١٠ ھ ذی الحجہ کو منیٰ کے مقام پر نازل ہوئی جبکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے (قرطبی) اور اس کے اسّی نوّے دن کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی اور وحی الہی کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا، فضائل سورة بقرہ : یہ قرآن کریم کی سب سے بڑی سورت اور بہت سے احکام پر مشتمل ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ سورة ٔ بقرہ کو پڑھا کرو کیونکہ اس کا پڑھنا برکت ہے، اور اس کا چھوڑنا حسرت اور بدنصیبی ہے، اور اہل باطل اس پر قابو نہیں پاسکتے، قرطبی نے حضرت معاویہ سے نقل کیا ہے کہ اس جگہ اہل باطل سے مراد جادوگر ہیں مراد یہ ہے کہ اس سورت کے پڑھنے والے پر کسی کا جادو نہ چلے گا (قرطبی از مسلم بروایت ابوامامہ باہلی) اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس گھر میں سورة بقرہ پڑھی جائے شیطان وہاں سے بھاگ جاتا ہے (ابن کثیر از حاکم) اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سورة بقرہ سنام القرآن اور ذروۃ القرآن ہے سنام اور ذروہ ہر چیز کے اعلیٰ و افضل حصہ کو کہا جاتا ہے، اس کی ہر آیت کے نزول کے وقت اسی فرشتے اس کے جلو میں نازل ہوئے ہیں، (ابن کثیر از مسند احمد) اور حضرت ابوہریرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ اس سورت میں ایک آیۃ ایسی ہے جو تمام آیات قرآن میں اشرف و افضل ہے اور وہ آیت الکرسی ہے (ابن کثیر از ترمذی) حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ سورة بقرہ کی دس آیتیں ایسی ہیں کہ اگر کوئی شخص ان کو رات میں پڑھ لے تو اس رات کو جن شیطان گھر میں داخل نہ ہوگا اور اس کو اور اس کے اہل عیال کو اس رات میں کوئی آفت، بیماری رنج وغم وغیرہ ناگوار چیز پیش نہ آئے گی اور اگر یہ آیتیں کسی مجنون پر پڑھی جائیں تو اس کو افاقہ ہوجائے وہ دس آیتیں یہ ہیں چار آیتیں شروع سورة بقرہ کی پھر تین آیتیں درمیانی یعنی آیۃ الکرسی اور اس کے بعد کی دو آیتیں، پھر آخر سورة بقرہ کی تین آیتیں۔ احکام و مسائل مضامین و مسائل کے اعتبار سے بھی سورة بقرہ کو ایک خاص امتیاز حاصل ہے ابن عربی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ سورة بقرہ میں ایک ہزار امر اور ایک ہزار نہی اور ایک ہزار حکمتیں ایک ہزار خبر اور قصص ہیں (قرطبی وابن کثیر) یہی وجہ ہے کہ حضرت فاروق اعظم نے جب سورة بقرہ کو تفسیر کے ساتھ پڑھا تو اس کی تعلیم میں بارہ سال خرچ ہوئے اور حضرت عبداللہ بن عمر نے یہ سورت آ ٹھ سال میں پڑھی (قرطبی) سورة فاتحہ درحقیقت پورے قرآن کا خلاصہ ہے اس کے بنیادی مضامین تین ہیں اوّل اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، یعنی پروردگار عالم ہونے کا بیان دوسرے اس کا مستحق عبادت ہونا اور اس کے سوا کسی کا لائق عبادت نہ ہونا تیسرے طلب ہدایت سورة فاتحہ کا آخری مضمون صراط مستقیم کی ہدایت طلب کرنا ہے اور درحقیقت پورا قرآن اس کے جواب میں ہے کہ جو شخص صراط مستقیم چاہتا ہے قرآن ہی میں ملے گا، اسی لئے فاتحہ کے بعد پہلی سورت سورة بقرہ رکھی گئی اور اس کو ذلک الکتٰب سے شروع کرکے اس طرف اشارہ کردیا گیا کہ جس صراط مستقیم کو تم ڈھونڈہتے ہو وہ یہ کتاب ہے، اس کے بعد اس سورت میں اول ایمان کے بنیادی اصول توحید، رسالت، آخرت اجمالی طور پر اور آخر سورت میں ایمان مفصل بیان فرمایا گیا ہے اور درمیان میں ہر شعبہ زندگی، عبادات، معاملات، معاشرت، اخلاق، اصلاح، ظاہر و باطن کے متعلق ہدایات کے بنیادی اصول اور ان کے ساتھ بہت سی جزئیات بیان ہوئی ہیں، خلاصہ تفسیر، یہ کتاب ایسی ہے جس میں کوئی شبہ نہیں (یعنی قرآن کے منجانب اللہ ہونے میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں اگرچہ کوئی نافہم اس میں شبہ رکھتا ہو کیونکہ یقینی بات کسی کے شبہ کرنے میں بھی حقیقت میں یقینی ہی رہتی ہے) راہ بتلانے والی ہے خدا سے ڈرنے والوں کو جو یقین لاتے ہیں چھپی ہوئی چیزوں پر (یعنی جو چیزیں ان کے حواس وعقل سے پوشیدہ ہیں صرف اللہ و رسول کے فرمانے سے ان کو صحیح مان لیتے ہیں) اور قائم رکھتے ہیں نماز کو (قائم رکھنا یہ ہے کہ اس کو اس پابندی کے ساتھ اس کے وقت میں پورے شرائط وارکان کے ساتھ ادا کریں) اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں (یعنی نیک کاموں میں) اور وہ لوگ ایسے ہیں کہ یقین رکھتے ہیں اس کتاب پر بھی جو آپ کی طرف اتاری گئی ہے اور ان کتابوں پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری جاچکی ہیں (مطلب یہ ہے کہ ان کا ایمان قرآن پر بھی ہے اور پہلی کتابوں پر بھی اور ایمان سچا سمجھنے کو کہتے ہیں عمل کرنا دوسری بات ہے جتنی کتابیں اللہ نے پہلے انبیاء پر نازل فرمائی ہیں ان کو سچا سمجھنا فرض اور شرط ایمان ہے یعنی یہ سمجھے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی تھیں وہ صحیح ہیں خود غرض لوگوں نے جو اس میں تبدیل و تحریف کی ہے وہ غلط ہے رہ گیا عمل سو وہ صرف قرآن پر ہوگا پہلی کتابیں سب منسوخ ہوگئیں ان پر عمل جائز نہیں) اور آخرت پر بھی وہ لوگ یقین رکھتے ہیں بس یہ لوگ ہیں ٹھیک راہ پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ملی ہے اور یہ لوگ ہیں پورے کامیاب (یعنی ایسے لوگوں کو دنیا میں تو یہ نعمت ملی کہ راہ حق ملی اور آخرت میں ہر طرح کی کامیابی ان کے لیے ہے) ، حل لغات : ذٰلِكَ کسی دور کی چیز کی طرف اشارہ کے لئے استعمال ہوتا ہے، رَيْبٌ شک وشبہ، ھُدًى ہدایت سے بنا ہے اور ہدایت کے معنی رہنمائی مُتَّقِيْنَ جن میں صفت تقویٰ ہو، تقویٰ کے لفظی معنی بچنے کے ہیں مراد اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنا ہے غَيْبِ لفظی معنی ہر وہ چیز جو انسان کی نظر اور دوسرے حواس سماعت وغیرہ سے باہر ہو يـقِيْمُوْنَ اقامت سے بنا ہے جس کے معنی سیدھا کرنے کے ہیں اور نماز کا سیدھا کرنا یہ کہ آداب اور خشوع خضوع کے ساتھ ادا کی جائے رَزَقْنٰھُمْ رزق سے بنا ہے جس کے معنی ہیں روزی اور گذارے کا سامان دینا يُنْفِقُوْنَ انفاق سے بنا ہے خرچ کرنے کے معنی میں آتا ہے اٰخِرَةُ لغت میں مؤ خر اور بعد میں آنے والی چیز کو آخرہ کہا جاتا ہے اس جگہ عالم دنیا کے مقابلے میں عالم آخرت بولا گیا يُوْقِنُوْنَ ایقان سے ہے اور وہ یقین سے بنا ہے اور یقین اس کو کہتے ہیں جس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہ ہو مُفْلِحُوْنَ افلاح سے اور وہ فلاح سے بنا ہے فلاح کے معنی پوری کامیابی۔ معارف و مسائل حروف مقطعہ جو بہت سی سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کی تحقیق : بہت سی سورتوں کے شروع میں چند حرفوں سے مرکب ایک کلمہ لایا گیا ہے جیسے الۗمّۗ، حٓمٓ، الۗمٓصٓ وغیرہ ان کو اصطلاح میں حروف مقطعہ کہا جاتا ہے ان میں سے ہر حرف جدا جدا ساکن پڑھا جاتا ہے، الف، لام، میم، حروف مقطعہ جو اوائل سورة میں آئے ہیں ان کے متعلق بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ ان سورتوں کے نام ہیں بعض حضرات نے فرمایا کہ اسماء الہیہ کے رموز ہیں مگر جمہور صحابہ وتابعین اور علماء امت کے نزدیک راجح یہ ہے کہ یہ حروف رموز اور اسرار ہیں جس کا علم سوائے خدا تعالیٰ کے کسی کو نہیں اور ہوسکتا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا علم بطور ایک راز کے دیا گیا ہو جس کی تبلیغ امت کے لئے روک دی گئی ہو اسی لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان حروف کی تفسیر و تشریح میں کچھ منقول نہیں امام تفسیر قرطبی نے اپنی تفسیر میں اسی کو اختیار فرمایا ہے ان کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ ؛ عامر شعبی، سفیان ثوری اور ایک جماعت محدّثین نے فرمایا ہے کہ ہر آسمانی کتاب میں اللہ تعالیٰ کے کچھ خاص رموز و اسرار ہوتے ہیں اسی طرح یہ حروف مقطعہ قرآن میں حق تعالیٰ کا راز ہے اس لئے یہ ان متشابہات میں سے ہیں جن کا علم صرف حق تعالیٰ ہی کو ہے ہمارے لئے ان میں بحث و گفتگو بھی جائز نہیں مگر اس کے باوجود ہمارے فائدے سے خالی نہیں اول تو ان پر ایمان لانا پھر ان کا پڑھنا ہمارے لئے ثواب عظیم ہے دوسرے ان کے پڑھنے کے معنوی فوائد و برکات ہیں جو اگرچہ ہمیں معلوم نہ ہوں مگر غیب سے وہ ہمیں پہنچتے ہیں، پھر فرمایا : حضرت صدیق اکبر، فاروق اعظم، عثمان غنی، علی مرتضیٰ ، عبداللہ بن مسعود وغیرہ جمہور صحابہ کا ان حروف کے متعلق یہی عقیدہ تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اسرار ہیں، ہمیں ان پر ایمان لانا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں اور جس طرح آئے ہیں ان کی تلاوت کرنا چاہئے مگر معنی معلوم کرنے کی فکر میں پڑنا درست نہیں، ابن کثیر نے بھی قرطبی وغیرہ سے نقل کرکے اسی مضمون کو ترجیح دی ہے اور بعض اکابر علماء سے جو ان حروف کے معنی منقول ہیں اس سے صرف تمثیل و تنبیہ اور تسہیل مقصود ہے یہ نہیں کہ امر وحق تعالیٰ یہ ہے اس لئے اس کو بھی غلط کہنا تحقیق علماء کے خلاف ہے،   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

شان نزول : (آیت) ” الم (١) ذلک الکتاب لا ریب فیہ “۔ ابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ سورة بقرہ کی پہلی چار آیات مومنوں سے بارے میں اتری ہیں، اور اس کے بعد کی دو آیتیں کافروں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور تیرہ آیات منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علام... ہ سیوطی (رح ) (١) الم (ال م) کے بارے میں عبداللہ بن مبارک، علی بن اسحاق سمرقندی، محمد بن مروان، کلبی، ابوصالح کی سند سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے کہ الف سے اللہ، لام سے جبریل اور میم سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں، دوم : الف سے اللہ تعالیٰ کی نعمتیں، لام سے اس کا لطف، میم سے اس کا ملک وبادشاہت مراد ہے، سوم : الف سے اللہ تعالیٰ کے نام کی ابتدا اللہ، لام سے لطیف، میم سے مجید مراد ہے، جہارم : اللہ اعلم سے بھی اس کی تفسیر کی گئی ہے، پنجم : یہ قسم کے الفاظ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے کہ یہ کتاب قرآن جس کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے سامنے پیش کرتے ہیں اس میں کسی قسم کے کوئی شبہ کی گنجایش نہیں ہے، کیوں کہ یہ میری کتاب ہے، اگر تم اس کتاب پر ایمان لاؤ گے تو تمہیں ہدایت دوں گا اور اگر اس پر ایمان نہیں لاؤ گے تو میں تمہیں عذاب دوں گا۔ کتاب سے مراد لوح محفوظ بھی ہے کتاب کی تفسیر اس وعدہ کے ساتھ بھی ہے جو کہ عہد میثاق میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا گیا تھا کہ میں آپ پر وحی بھیجوں گا، کتاب سے تورات وانجیل بھی مراد ہے، اس میں بھی کسی شک وشبہ کی گنجایش نہیں ہے، ان دونوں کتابوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف و توصیف مذکور ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

یہ حروف مقطعاتّ ہیں جن کے بارے میں یہ جان لیجیے کہ ان کے حقیقی ‘ حتمی اور یقینی مفہوم کو کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ اور اس کے رسول کے۔ یہ ایک راز ہے اللہ اور اس کے رسول کے مابین۔ حروف مقطعات کے بارے میں اگرچہ بہت سی آراء ظاہر کی گئی ہیں ‘ لیکن ان میں سے کوئی شے رسول اللہ سے منقول نہیں ہے۔ البتہ یہ ... بات ثابت ہے کہ اس طرح کے حروف مقطعات کا کلام میں استعمال عرب میں معروف تھا ‘ اس لیے کسی نے ان پر اعتراض نہیں کیا۔ قرآن مجید کی ١١٤ میں سے ٢٩ سورتیں ایسی ہیں جن کا آغاز حروف مقطعات سے ہوا ہے۔ سورة قٓ‘ سورة القلم اور سورة صٓ کے آغاز میں ایک ایک حرف ہے۔ حٰمٓ‘ طٰہٰ اور یٰسٓ دو دو حرف ہیں۔ ا ل م اور ا ل ر تین تین حروف ہیں جو کئی سورتوں کے آغاز میں آئے ہیں۔ الم اور الر چار چار حروف ہیں۔ حروف مقطعات میں زیادہ سے زیادہ پانچ حروف یکجا آتے ہیں۔ چناچہ کٓھٰیٰعٓصٓ سورة مریم کے آغاز میں اور حٰمٓ عٓسٓقٓ سورة الشوریٰ کے آغاز میں آئے ہیں۔ ان کے بارے میں اس وقت مجھے اس سے زائد کچھ عرض نہیں کرنا ہے۔ اپنے مفصل درس قرآن میں میں نے ان پر تفصیل سے بحثیں کی ہیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1. The names of letters of the Arabic alphabet, called huruf muqatta'at, occur at the beginning of several surahs of the Qur'an. At the time of the Qur'anic revelation the use of such letters was a well-known literary device, used by both poets and orators, and we find several instances in the pre-Islamic Arabic literature that has come down to us. Since the muqatta'at were commonly used the Arab... s of that period generally knew what they meant and so they did not present a puzzle. We do not notice, therefore, any contemporaries of the Prophet (peace be on him) raising objections against the Qur'an on the ground that the letters at the beginning of some of its surahs were absurd. For the same reason no Tradition has come down to us of any Companion asking the Prophet about the significance of the muqatta'at. Later on this literary device gradually fell into disuse and hence it became difficult for commentators to determine their precise meanings. It is obvious, however, that deriving right guidance from the Qur'an does not depend on grasping the meaning of these vocables, and that anyone who fails to understand them may still live a righteous life and attain salvation. The ordinary reader, therefore, need not delve too deeply into this matter.  Show more

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :1 یہ حُرُوفِ مُقَطعَات قرآن مجید کی بعض سورتوں کے آغاز میں پائے جاتے ہیں ۔ جس زمانے میں قرآن مجید نازل ہوا ہے اس دَور کے اسالیب بیان میں اس طرح کے حُرُوفِ مُقطعات کا استعمال عام طور پر معروف تھا ۔ خطیب اور شعراء دونوں اس اُسْلوب سے کام لیتے تھے ۔ چنانچہ اب بھی کلام ج... اہلیّت کے جو نمونے محفوظ ہیں ان میں اس کی مثالیں ہمیں ملتی ہیں ۔ اس استعمال عام کی وجہ سے یہ مُقطعات کوئی چیستاں نہ تھےجس کو بولنے والے کے سوا کوئی نہ سمجھتا ہو ، بلکہ سامعین بالعموم جانتے تھے کہ ان سے مراد کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے خلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر مخالفین میں سے کسی نے بھی یہ اعتراض کبھی نہیں کیا کہ یہ بے معنی حرُوف کیسے ہیں جو تم بعض سورتوں کی ابتداء میں بولتے ہو ۔ اور یہی وجہ ہے کہ صحابہء کرام سے بھی ایسی کوئی روایت منقول نہیں ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے معنی پوچھے ہوں ۔ بعد میں اُسلوب عربی زبان میں متروک ہوتا چلا گیا اور اس بنا پر مفسّرین کے لیے ان کے معانی متعیّن کرنا مشکل ہوگیا ۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ نہ تو ان حُرُوف کا مفہُوم سمجھنے پر قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کا انحصار ہے ۔ اور نہ یہ بات ہے کہ اگر کوئی شخص ان کے معنی نہ جانے گا تو اس کے راہِ راست پانے میں کوئی نقص رہ جائے گا ۔ لہٰذا ایک عام ناظر کے لیے کچھ ضروری نہیں ہے کہ وہ ان کی تحقیق میں سرگرداں ہو ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

١) مختلف سورتوں کے شروع میں یہ حروف اسی طرح الگ الگ نازل ہوئے تھے، ان کو حروف مقطعات کہتے ہیں اور صحیح بات یہ ہے کہ ان کا ٹھیک ٹھیک مطلب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کا ایک راز ہے جس کی تحقیق میں پڑنے کی ضرورت نہیں اور عقیدے یا عمل کا کوئی مسئلہ ان کے سمجھنے پر موقوف ... نہیں۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(1 ۔ 2) ۔ ١۔ ٢۔ ق ن ص الم طس حم یہ سب حروف مقطعات کہلاتے ہیں ان کی تفسیروں میں خلفاء اربعہ اور سلف کا یہی قول ہے کہ مثل آیات متشابہات کے ہیں جن کا ذکر آگے آوے گا ان حروف مقطعات کے معنی اور نازل فرمانے کا مطلب خدا ہی کو خوب معلوم ہے نماز روزہ۔ حج زکوٰۃ اور احکام کی آیتوں معنی صاف ہیں۔ لیکن یہ متشابہا... ت آیتیں احکام کی آیتوں کے علاوہ ہیں مشرکین مکہ ان متشابہات آیتوں کے معنی بتانے سے بھی باوجود اہل زبان ہونے کے عاجز آگئے۔ اس لئے یہ بھی قرآن شریف کا ایک معجزہ ہے۔ ان آیتوں کا ذکر سورة آل عمران میں تفصیل سے آوے گا۔ غرض حروف مقطعات آیات متشابہات عبادات حج میں شیطانوں کو کنکریاں مارنا وغیرہ دین میں اطاعت الٰہی آزمانے کی باتیں ہیں مسلمان آدمی کو ان میں سوائے اطاعت الٰہی بجا لانے کے زیادہ بحث کی کیا ضرورت ہے۔ ہجرت سے پہلے قرآن شریف کا جو حصہ مکہ میں نازل ہوا اس کی فصاحت و بلا غت نے اہل مکہ کو قائل کردیا۔ دس برس تک ایک چھوٹی سی سورت بھی قرآن کے مقابلہ میں بنا کر وہ پیش نہ کرسکے اور تورات و انجیل کے تو اکثر مضمون قرآن شریف میں موجود ہیں۔ اور قرآن شریف کے اکثر مضمون ان کتابوں میں جس کا مطلب یہ ہوا کہ کتاب لٰہی ہونے میں ایک دوسرے کا گواہ ہے اسی واسطے اہل مکہ اور اہل کتاب سب کو مخاطب کر کے خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ان دونوں گروہ میں سے کسی شخص کو اس بات میں شک و شبہ کرنے کا کوئی موقع باقی نہیں ہے۔ کہ یہ قرآن شریف کتاب الٰہی ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی آخر الزماں ہیں کیونکہ نبی امی پر یہ قرآن نازل ہوا ہے اور باتیں اس قرآن میں وہ ہیں کہ امی شخص تو درکنار اہل کتاب بھی بغیر وحی آسمانی کی مدد کے ہرگز وہ باتیں نہیں کہہ سکتے۔ تو اب اس میں کیا شک باقی رہا کہ قرآن شریف معجزہ نبوی ہے۔ اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی ہیں۔ بخاری میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہر ایک نبی کی امت کے ایمان لانے کے موافق ہر نبی کو معجزہ خدا تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے اور مجھ کو قرآن شریف کا ایک معجزہ ایسا دیا گیا ہے کہ جس سے مجھے کو امید ہے کہ قیامت کے دن میری پیروی کرنے والے سب سے زیادہ ہوں گے۔ الغرض انسان تو انسان جنات کا اس قرآن کو سن کر { اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا یَھْدِیْ اِلَی الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ } (٧٢: ٢) ہم نے سنا ہے کہ ایک قرآن عجب سمجھتا ہے نیک راہ ہم اس پر یقین لائے، کہنا اور حکم جہاد کے نازل ہونے سے پہلے ایک جماعت عظیم کا مسلمان ہوجانا حال کے ضعف اسلام کے زمانہ میں غیر قوم کے لوگوں کا مسلمان ہونا واقعی یہ قرآن کا معجزہ ہے اور یہی صاحب معجزہ کے نبی برحق ہونے کی پوری دلیل ہے ھدی للمتقین۔ متقی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی ہر طرح کی نافرمانی سے بچتے ہیں۔ اور اس کی ہر طرح کی اطاعت بجا لاتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابی بن کعب (رض) سے ایک دن پوچھا کہ تقویٰ کے کیا معنی ہیں انہوں نے جواب دیا کہ کبھی تمہارا گذر ایسے راستہ سے ہوا ہے جس میں ہر طرف کثرت سے خاردار درخت ہوں۔ حضرت عمر (رض) نے کہا ہاں ابی بن کعب (رض) نے کہا پھر تم نے وہاں کیا کیا۔ حضرت عمر (رض) نے کہا ہر طرف سے اپنے دامن سمیٹ کر اپنے کپڑوں کا کانٹوں سے بچایا۔ ابی بن کعب (رض) نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے اسی طرح بچنے کو تقویٰ کہتے ہیں۔ ترمذی ابن ماجہ میں عطیہ سعدی سے روایت ہے جس کا اصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کوئی شخص متقیوں کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا۔ جب بےڈر چیز کو ڈر کی چیز دہشت سے نہ چھوڑ دیوے ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2) سورة البقرۃ مدنیہ (87) 2:1 ۔ الۗمّۗ‘ الف، لام، میم۔ ان کو حروف مفطعات کہتے ہیں۔ ان کی تفسیر میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔ بعض کے نزدیک ان کے معانی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی کو معلوم ہیں۔ ھذا سر بین اللہ وبین الرسول (یہ ایک بھید ہے مابین اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم (صلی ال... لہ علیہ وآلہ وسلم) کے) ۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ ان حروف مقطعات اور متشابہات (3:7) کا علم نہ صرف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلکہ آپ کے اتباع کاملین کو بھی تھا۔ چناچہ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ میں راسخین فی العلم ۔ (3:7) میں سے ہوں اور جو لوگ متشابہات اور مقطعات کی تفسیر کے عالم ہیں ان میں سے ایک میں بھی ہوں حروف مقطعات کا استعمال عربی کلام میں پایا جاتا ہے لیکن بہت کم ، مثلاً الراجز کا شعر ہے : قلت لہا قفی فقالت قاف لا تحسبی انا نسینا الا یجاف اس میں قاف سے وقفت۔ ہے۔ لو میں ٹھیر گئی۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

(2) سورتوں کے شروع میں جو حروف آئے ہیں ان کو مقطعا کہا جاتا ہے کیونکہ یہ الگ الگ کرکے پڑھے جاتے ہیں خلفاء اربعہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود اور دیگر اکا بر صحا بہ کا خیال ہے کہ یہ حروف راز خداوندی ہیں جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ان حروف کی تفسیر میں...  کوئی بات ثابت نہیں ہے مگر بعض صحابہ مثلا عبداللہ بن عباس اور بعض تابعین سے اس کی تاویل میں مختلف اقوال مروی ہیں مگر صحت سند کے ساتھ ثابت نہیں ہیں صرف ایک قول عبد الر حمن بن زید سے ثابت ہے کہ انہوں نے ان حروف کو اسمائے سورة قرار دیا ہے وکھوا لصحیح ( کشاف رازی۔ متآ خرین علماء نے ان حروف کو کو لطا ئف دقائق بیان کئے ہیں مگر یہ سب فنی کاوش الغازو تعمیہ کی حثیت رکھتی ہیں ایک احتمال کچھ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کہ اوائل سورة میں ان کے نزول سے تحدی مقصود ہو۔ اور عرب کے فصحا اور بلغا کو دعوت معارضہ دی گئی ہو کہ قرآن ان حروف تہجی سے مرکب ہے جن سے تم اپنا کلام ترکیب دیتے ہو اگر یہ اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہے تو تم بھی اس اس جیسا کلام بنا لاؤ ورنہ سمجھ لو کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے لیکن اس بارے میں تو قف اور سکوت بہتر ہے علامہ شوکانی فرماتے ہیں۔ ہر اس شخص کے لیے جو نجات کا خواہاں اور سلف صالحین کی پیروی کا خواہشمند ہے اتان جان لینا کافی ہے کہ ان حروف کے اتار نے میں کوئی ایسی حکمت ہے جس تک ہماری رسارئی ممکن نہیں ہے پس اس سے زیادہ گہرائی میں جانے کی سعی کرنا لا حا صل ہے۔ (فتح القدیر )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

اسرار ومعارف الم ذلک الکتاب لاریب فیہ الم حروف مقطعات ہیں جو اکثر مذکور ہوئے ہیں جن پر ایمان لانا ضروری ہے اور معانی میں الجھنا غیر ضروری۔ انھا سرابین اللہ رسولہ۔ یہ اللہ اور اس کے رسول کے درمیان راز ہیں مومن کو معنی جانے بغیر بھی ان کا فائدہ مل جاتا ہے ۔ یہ ایسی کتاب ہے جس میں ادنیٰ درجے کے شبہ ک... ی بھی گنجائش نہیں یعنی ، اس کتاب سے جو جواب دعا ہے استفادہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اے مخاطب ! تو اس کے کسی مضمون یا کسی خبر کو جو گذشتہ یا آئندہ کے بارے ہو یا کسی بھی بیان میں ادنیٰ سا شبہ بھی نہ رکھے کہ واقعتا کسی شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ اکثر کتابیں جو ایسے مضامین پر مشتمل ہوں اور ماورا الطبیعاتی یا ایسے حقائق پر مبنی ہوں جو حواس کے ادراک سے بالا تر ہوں تو خود ان کے مصنفین کو بھی یقین کامل حاصل نہیں ہوتا کہ ساری بات کی بنیاد گمان پر ہوتی ہے مگر اس کتاب کا نازل کرنے والا اللہ ہے جس کا علم قدیم ہے ازلی اور ابدی ہے کامل ومکمل ہے۔ لہٰذا اس کی بیان کردہ حقیقتیں شک وشبہ کی رسائی سے بہت بالا تر ہیں پھر اس رفع شک کے لئے اللہ کریم نے ان تمام واسطوں اور ذریعوں کی صداقت وامانت کی گواہی دی ہے جو انسانوں تک اس کے پہنچنے کا سبب ہیں۔ خالق کا کلام بندے تک پہنچنے کے ذرائع : سب سے پہلا واسطہ اور سبب وہ فرشتہ ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک اس کے پہنچانے کا ذریعہ ہے اللہ کریم نے فرمایا ذی قوۃ عندذی العرش مکین مطاع ثم امین کہ وہ بہت طاقتور اللہ کے نزدیک بہت معزز اور تمام فرشتوں کا سردار اور بہت امانت دار ہے ایسا طاقتور کہ کوئی بھی اپنی طاقت کے ساتھ اس سے وحی چین نہیں سکتا یا جبراً اس کو اس بات پر مجبور نہیں کرسکتا کہ اس میں کسی طرح کی آمیزش کرے اور اگرچہ فرشتے نوری مخلوق ہیں مگر ان فرشتوں کا سردار اور عنداللہ بہت معزز اور بزرگی کا حامل ہے پھر ایسا امانت دار کہ جس کی دیانت امانت پر اللہ خود گواہ ہے یعنی اللہ کی کتاب کو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچانے کا ذریعہ ایک ایسا فرشتہ ہے جو انتہائی قوی ، معزز اور امین ہے۔ دوسرا واسطہ اللہ سے مخلوق تک اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے جو صدق مجسم ہے جن کی صداقت پر نہ صرف قرآن گواہ ہے بلکہ جس کی امانت پر اس کے بدترین دشمن یعنی کفار مکہ بھی گواہ ہیں جو اسے ” صادق وامین “ کے نام سے پکارتے ہیں اور جس کی بےداغ زندگی اس کی نبوت پر بہت بڑی شہادت ہے۔ جہاں معجزات قاہرہ اور دلائل باہرہ اس کی نبوت کا ثبوت میں وہاں اس کی قبل بعثت کی زندگی میں اتنی طبیب و طاہر اور پاک وصاف ہے کہ کبھی کسی بھی طرح کا جھوٹ یا غلط بیانی نہیں پائی جاسکتی بلکہ اس حیات مبارکہ کو سب دلائل نبوت پر ایک تفوق حاصل ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں بعثت فیکم عمراً من قبلہ یعنی میں نے تمہارے درمیان ایک حیات بسر کی ہے کہ تم مجھ پر غلط بیانی کا الزام لگا سکتے ہو ؟ حتیٰ کہ اس حیات طیبہ کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے لعرک یعنی تیری زندگی کی قسم ! تیری زندگی گواہ ہے۔ سبحان اللہ ! اور فرمایا وانک لعلی خلق عظیم ، تیرے اخلاق ان بلندیوں کو چھو رہے ہیں جو بشر کی رسائی کی حد ہے تو گویا اللہ سچا ہے اس کا پیغام لانے والا فرشتہ شک سے بالا تر اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صادق ومصدق ، یہ ساری بنیاد راستی سچائی اور حق ہے لاریب فیہ ہے مگر کیا کیا جائے کہ ساری مخلوق کو یہ واسطہ بھی براہ راست نصیب نہیں بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور امت درمیان ایک پورے طبقہ کا واسطہ ہے جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے براہ راست کلام باری کو سنا ، سمجھا سیکھا اور ساری خدائی تک پہنچایا۔ عدالت صحابہ (رض) کا ثبوت : اگر خدانخواستہ یہ واسطہ اور ذریعہ ہی مجروح قرار پائے تو پھر ثابت نہ ہوسکے گا۔ نیز فرشتہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کسی کو حملہ کرنے کی جرات کم ہوگی مگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین ، چونکہ وہ درجہ معصومیت نہیں رکھتے تو معترضین کیو ہاں حملہ کرنا زیادہ آسان ہوگا اور اگر کوئی اعتراض نہ بھی کرے مگر واقعتا وہ لوگ غلط بیان کر جائیں تو کیا ہو۔ یہی کہ دین کی ساری عمارت مشکوک قرار پائے تو اللہ پاک نے سب سے زیادہ احوال ان حضرات کے ارشاد فرمائے قرآن کریم کی جگہ جگہ ان کی مدح سے مزین فرمایا۔ یہاں تک ان کا ایمان مثالی ایمان فان امنوا بمثل ما امنتم فقہ اھتدوا اور ان کے قلوب مثالی قلوب یعنی اولئک الذین امتحن اللہ قلو بھم لاتقویٰ اور ان کی صداقت مثالی صداقت یعنی اولئک ھم الصائقون۔ اور ان کی زندگی قابل اتباع اور واجب الاتباع قرار دے دی والذین اتبعو ھم باحسان۔ یہ نہ صرف ان کے حالات کا مشاہد قرار دیا بلکہ فرمایا میرے علم ازل میں یہ بات موجود تھی اور میں نے ان کو پیدائش سے بیشتر تورات واناجیل میں ان کے اوصاف ارشاد فرمادیئے تھے کہ یہ میری مثالی مخلوق ہوگی اور انبیاء کے بعد ان کی مثل نہ چشم فلک ان سے پلے پائے گی نہ بعد میں دیکھ سکے گی اور واقعی یہ ضروری تھا کہ قیامت تک باقی رہنے والے دین کو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لے کر اقوام عالم بلکہ ساری انسانیت کہ پہنچانے والے لوگ ایسے ہی مثالی کردار کے حامل ہوتے جن کی ہر کوشش دین کے لئے اور ہر محنت دین کی خاطر ہو اور حق تو یہ کہ نہ صرف مکہ ومدینہ منورہ کی زندگی میں روم وایران کی جنگوں اور قیصروکسریٰ کے مقابلے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دین کی حفاظت کا حق ادا فرمایا بلکہ آج بھی ان کی ذوات مقدسہ اس بارگاہ کی پہردار ہیں اور آج بھی اگر ان کو ہٹا دیا جائے تو دین مخلوق تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔ وہ لسان نبوت ہیں ترجمان نبوت میں۔ انہوں نے قرآن کو براہ راست حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ، سیکھا ، سمجھا اور پھر آپ کے سامنے اس پر عمل کرکے اپنے عمل کی صحت کی سند حاصل کی۔ صدیاں بیت گئیں کفر کے ظلمت کدے سے اٹھنے والی ہر لہر ان ہی سے جاٹکرائی مگر ہمیشہ کی طرح اپنا پاش پاش سرے کر پھر اسی اندھیروں میں گم ہوگئی بلکہ بعض نادان ودوستوں نے بھی ان مقدس بستیوں پر مقدمہ چلانا چاہا ذرا غور تو فرمائیں کہ طبری اور کلبی گواہ ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین معاذ اللہ ملزم اور آج کے محققین منصف ، سبحان اللہ ! پنجابی کی ایک مثال ہے ” ذات دی کوڑ کرلی ، شتیراں نوں جھپے “ مگر اس سب کے باوجود ان کی شان ویسی کی ویسی ہے بےداغ ہے کہ خود قرآن کریم کی لازوال شہادتیں کسی کا کچھ بس نہیں چلنے دیتیں۔ جب یہاں تک بات درست ہوگئی تو اب بیشک ثابت ہوا لاریب فیہ۔ عظمت صحابہ پر یہ لاریب گواہ ہے اور اس بات کا واضح ثبوت کہ مقام صحابیت خودایک خصوصیت کا حامل ہے جو بجز صحبت رسول نصیب نہیں ہوسکتی۔ یہ کہنا کہ الصحابہ کلم عدول کا کلیہ صرف ہکام دین پہنچانے کی حد تک درست ہے ذاتی زندگی میں ان کا صالح ہونا اس سے ثابت نہیں۔ یہ ایسی بات ہے جسے عقل تسلیم نہیں کرتی کہ ایک شخص بیک وقت بدکار بھی ہو اور راست باز بھی۔ پھر راست باز بھی ایسا کہ اللہ کا آخری کلام ، اللہ کی مخلوق تک پہنچانے کا سبب اور ذمہ دار قرار پائے۔ معترضین کو حضرت ماعزرضی اللہ عنہ کی حکایت بطور ثبوت مل گئی مگر کاش اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تنقید کی بجائے ان کی مثال کو توبہ کے حوالے سے مدح صحابہ میں بیان کیا جاتا جو اس کا اصلی مقام تھا۔ اور ایسے واقعات کی فہرست میں بھی تریسٹھ برسوں میں صرف دو واقعات ملتے ہیں لہٰذا دین اور حقانیت دین کے زندہ ثبوت یہی معزز مقدس اور بزرگ ہستیاں ہیں۔ ھدی للمتقین ، یہ رہبری کرتا ہے ان لوگوں کی جو متقی ہوں ہدایت رہنمائی کے معنوں میں ساری انسانیت کے لئے ہے دعوت الی الحق تو سب کے لئے ہے مگر رہبری صرف ایسے لوگوں کے لئے جو اپنے میں اس کے ساتھ چلنے کی استقامت پیدا کرلیں۔ یہ قوت ہے تقویٰ ۔ جس کا اردو ترجمہ ” ڈر “ لکھا ہوتا ہے۔ مگر یہ لفظ یہاں اس کی مراد بیان کرنے سے قاصر ہے اس کا اصل مقصد ایک خاص ڈر ہے جو کسی محبوب ہستی کی ناراضگی کا ڈر ہو۔ جو کسی کے روٹھ جانے کا اندیشہ ہو ، جو ہر حال میں کسی پر نثار ہونے کی تمنا ہو۔ یہ وہ جذبہ ہے جو تمام خواہشات اور ارادوں کو تمام آرا۔ اور مشوروں کو صرف اس وجہ سے روک دے کہ ایسا کرنے سے میرا رب مجھ سے خفا نہ ہوجائے اور اگر بتقضائے بشریت غلطی صادر ہو بھی جائے تو احساس گناہ دل میں کانٹے کی طرح چبھتا اور توبہ پر مجبور کردیتا ہو یہ تقویٰ ہے۔ ولم یصروا علی مافعلوا حصول تقویٰ کے لئے کون سا راستہ ہے اور متقیوں میں کیا اوصاف پائے جاتے ہیں ؟  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

سورة البقرۃ لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 5 (لا ریب): شک نہیں ہے۔ یعنی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ (ھدی): ہدایت ہے۔ راستہ دکھانے اور منزل تک پہنچانے کو بھی ہدایت کہتے ہیں۔ (تقویٰ ): بچنا، ڈرنا، خوف۔ (اللہ سے اس طرح ڈرنا کہ اس میں اس کی رحمت پر بھی یقین ہو) ۔ (ایمان): زبان سے اقرار اور دل سے یقین کرنا... ۔ (غیب): انسان کے پانچوں حواس سے باہر جس کو صرف اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی اس کی مرضی سے بتا سکتے ہیں۔ (صلوٰۃ): اللہ کی عبادت کرنے کا وہ مخصوص طریقہ جس کو جیسے رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتایا اس کو اسی طرح ادا کرنا۔ اسی کو عرف عام میں “ نماز ” کہتے ہیں۔ (انفاق): خرچ کرنا اپنے مال اور صلاحیتوں کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکامات کے مطابق خرچ کرنا اور اس میں کنجوسی سے کام نہ لینا۔ (اخرۃ): اس دنیا کی عارضی زندگی کے بعد ہمیشہ رہنے والی زندگی کو آخرت کہا جاتا ہے۔ (فلاح): کامیاب، کامیابی، اہل ایمان کی خصوصیت۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 5 الف، لام، میم ۔ ۔۔ ۔ ان کو اور ان جیسے حروف کو “ حروف مقطعات ” کہتے ہیں یعنی الگ الگ کر کے پڑھے جانے والے۔ معنی سے کٹے ہوئے۔ ایسے حروف جن کے معنی کے متعلق اتنا کہہ دینا کافی ہے “ کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ ان کے کیا معنی ہیں ” اگر ان کے معنی جاننا ضروری ہوتا تو صحابہ کرام نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ضرور پوچھتے کہ ان کے معنی کیا ہیں۔ اس کی دو وجہ ہو سکتی ہیں (1) صحابہ کرام کے لئے یہ کوئی ایسی انوکھی اور نئی بات نہ تھی، جس کو پوچھنا ضروری ہوتا (2) دوسرے یہ کہ وہ جانتے تھے کہ یہ ان آیات میں سے ہیں جن کو قرآن حکیم نے “ متشابہات ” فرمایا ہے جن کے معنی کا علم اللہ کو ہے۔ اور ہو سکتا ہے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بطور ایک راز کے دیا گیا ہو، جس کی تبلیغ امت کے لئے روک دی گئی ہو اسی لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان حروف کی تفسیر و تشریح میں کچھ منقول نہیں۔ عام طور پر مفسرین بھی ان ہی دو باتوں کی طرف گئے ہیں۔ کسی نے یہ کہا ہے کہ عرب کے شاعروں اور ادبی حلقوں میں اس طرح کے الفاظ کا استعمال عام سی بات تھی اور اس کے لئے وہ ان شاعروں کے کلام اور اشعار کو پیش کرتے ہیں۔ ۔۔ ۔ اور یہ کہتے ہیں کہ جن لوگوں کی نظر عربوں کی روایات اور لٹریچر پر ہے وہ جانتے ہیں کہ عرب والے نہ صرف اس طرح کے ناموں سے اچھی طرح واقف تھے بلکہ وہ خود بھی اپنی بہت سی پسندیدہ چیزوں جیسے گھوڑے، جھنڈے، تلواریں، قصیدے اور خطبات کے نام ان ہی سے ملتے جلتے ناموں پر رکھتے تھے۔ قدیم زمانہ کے شاعروں کے کلام میں اس طرح کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عربوں کے لئے حروف مقطعات کا استعمال کوئی نئی اور انوکھی بات نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس بات کو نہ صحابہ کرام (رض) نے دریافت کیا اور نہ ان اسلام کے دشمنوں نے پوچھا جن کا کام ہی اسلام کی ہر بات کا مذاق اڑانا اور قرآن سے دشمنی کرنا تھا۔ بعض علماء نے یہ فرمایا ہے کہ یہ حروف “ آیات متشابہات ” میں سے ہیں جن کے معنی اللہ ہی جانتا ہے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ ہر کتاب کی ایک خصوصیت ہوتی ہے اور حروف مقطعات قرآن مجید کی ایک بہت بڑی خصوصیت ہے۔ بعض علما نے فرمایا کہ یہ ان سورتوں کے نام ہیں جن کی ابتداء میں یہ حروف آئے ہیں۔ تمام مفسرین نے اپنے اپنے علم و فضل کے مطابق ان حروف کی وضاحت فرمائی ہے لیکن ایک بات پر سب متفق ہیں کہ “ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان حروف سے کیا مراد ہے ؟”  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ ان حروف کے معانی سے عوام کو اطلاع نہیں دی گئی۔ شاید حامل وحی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلا دیا گیا ہو کیونکہ اللہ اور اس کے رسول نے اہتمام کے ساتھ وہی باتیں بتلائی ہیں جن کے نہ جاننے سے دین میں کوئی جرح اور نقصان لازم آتا تھا لیکن ان حروف کا مفہوم نہ جاننے سے کوئی حرج نہ تھا اس لیے ہم کو بھی ... ایسے امور کی تفتیش نہ چاہیے۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورة : فاتحہ دعا ہے اور قرآن اس کا جواب، فاتحہ خلاصہ ہے اور قرآن اس کی تفصیل۔ اپنے حجم اور مضامین کے لحاظ سے یہ فرقان حمید کی سب سے بڑی سورت ہے۔ ا آآ حروف مقطعات ہیں جن کے مفسرین نے اپنی اپنی فہم و دانش کے مطابق کئی معانی لکھے اور بتلائے ہیں جن کی تفصیل مختلف تفاسیر میں موجود ہے۔ جن ... میں سے چند ایک یہ ہیں۔ عبدالرحمن بن زید بن اسلم (رض) فرماتے ہیں یہ سورتوں کے نام ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی قسموں میں سے قسمیں ہیں۔ دوسری جگہ فرماتے ہیں ” ا ل م ر “ اللہ تعالیٰ کے اسمائے اعظم میں سے ہے۔ جب کہ کچھ لوگ کہتے ہیں یہ قرآن کے اعجازکا نمونہ ہیں۔ لیکن اس بات پر تمام اہل علم متفق ہیں کہ یہ حروف مقطعات ہیں ان کا کوئی معنٰی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں البتہ جو مفہوم عقل کے قریب تر نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ اس زمانے میں اہل زبان حروف مقطعات کا استعمال کرنے کے بعد اپنی فصیح اللسانی اور شستہ کلامی کا مظاہرہ کرتے اور سامعین ان حروف کا معنٰی پوچھنے کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے۔ گویا کہ صاحب زبان ایسے الفاظ طرح مصرعہ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اسی وجہ سے صحابہ کرام (رض) نے نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان حروف کا معنٰی پوچھنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ کیونکہ ان کا شریعت کے مسائل اور معاملات سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا امت کا اتفاق ہے کہ ان حروف کا معنٰی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ البتہ یہ قرآن مجید کا حصہ ہیں۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) یَقُوْلُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِّنْ کِتَاب اللّٰہِ فَلَہٗ بِہٖ حَسَنَۃٌ وَالْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ أَمْثَالِھَا لَآ أَقُوْلُ الم حَرْفٌ وَلٰکِنْ أَلْفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِیْمٌ حَرْفٌ) (رواہ الترمذی : کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء فیمن قرأ حرفا من القرآن مالہ من الأجر) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے اللہ کی کتاب کا ایک حرف پڑھا اسے اس کے بدلے ایک نیکی ملے گی اور ہر نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ میں یہ نہیں کہتا کہ ” الم “ ایک حرف ہے بلکہ ” الف “ ایک حرف ہے اور ” لام “ ایک حرف ہے ” اور ” میم “ ایک حرف ہے۔ “ ” ا آآ “ چھ سورتوں کی ابتدا میں استعمال ہوا ہے۔ البقرۃ، آل عمران، العنکبوت، الروم، لقمان، السجدۃ۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

تفسیر آیت ١ تا ٥ مومنین کی یہ صفات بیان کرنے کے بعد سیاق کلام میں متصلاً کفار کی صفات کا بیان آجاتا ہے ۔ اگرچہ علی العموم ان صفات کا تعلق بھی تمام کفار سے ہے لیکن ان کا سب سے پہلامصداق وہ کفار بنے جو اس وقت دعوت اسلامی کی راہ روکے کھڑے تھے ۔ خواہ وہ مکی کفار ہوں یا ان کا تعلق مدینہ اور اس کے ماحول ... سے ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :•إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ ءَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ (٦) خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (٧) ” جن لوگوں نے ان باتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ، ان کے لئے یکساں ہے ، خواہ تم انہیں خبردارکرو یا نہ کرو ، بہرحال وہ ماننے والے نہیں ہیں ۔ اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑگیا ہے ۔ وہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔ ان دوگروہوں کے علاوہ منافقین کا ایک تیسرا گروہ بھی موجود تھا جیسا کہ ہم نے بالتفصیل بتایا ، جن حالات میں نبیeمدینہ طیبہ کی طرف ہجرت فرمائی تھی ، ان کا قدرتی نتیجہ یہ تھا کہ ہجرت کی تکمیل کے فوراً بعد ہی وہ گروہ پیدا ہوگیا ۔ مکہ میں اس گروہ کا وجود نہ تھا۔ کیونکہ وہاں اسلام کی پشت پر کوئی قوت اور حکومت نہ تھی اور نہ کوئی ایسی قومی جماعت تھی جس سے ڈر کر قریش اسلام کے بارے میں کوئی منافقانہ رویہ اختیار کرتے بلکہ اس کے برعکس مکہ میں اسلام کمزور تھا۔ دعوت ہر قسم کے خطرات میں گھری ہوئی تھی ۔ صرف مخلصین ہی تھے جو اس دور میں دعوت اسلامی کی صفوں میں شامل ہونے کی جراءت کرسکتے تھے ، جو اس کی راہ میں ہر قسم کے مصائب جھیلنے کے لئے تیار تھے اور اس کے لئے سب کچھ لٹانے پر تلے ہوتے تھے لیکن یثرب ....(جو پہلے ہی دن سے مدینہ الرسول کے نام سے مشہور ہوگیا) میں حالات کا رخ یکلخت بدل گیا تھا۔ اسلام ایک ایسی قوت بن گیا تھا جسے ہر شخص محسوس کرنے لگا تھا اور ہر کوئی مجبور تھا کہ وہ اس قوت سے تھوڑا بہت بنائے رکھے ۔ بالخصوص جنگ بدر کی عظیم کامیابی کے بعد تو بڑوں بڑوں کی گردنیں جھک گئی تھیں ۔ جو لوگ روش نفاق پر مجبور تھے ان میں بعض کبرائے یثرب بھی تھے ۔ ان کے خاندان اور قبیلے کے لوگ اسلام میں داخل ہوگئے تھے ۔ اس لئے یہ کبراء بھی اپنی سابقہ پوزیشن کو بحال رکھنے کے لئے اور اپنے مخصوص مصالح کی خاطر بظاہر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے تھے ۔ ایسے لوگوں میں عبداللہ بن ابی ابن سلول کا نام سرفہرست تھا۔ کیونکہ مسلمانوں کی ہجرت سے کچھ قبل ہی اس کی قوم نے یہ پروگرام بنایا تھا کہ اسے بادشاہ بنادیں ۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اس کی قوم اس کے لئے ہار اور تاج تیار کررہی تھی ۔ سورة بقرہ کی ابتداء میں بالتفصیل ان منافقین کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض فقروں سے یہ معلوم ہوتا ہے اکثر وبیشتر فقروں کا مصداق یہی بڑے لوگ ہیں جنہوں نے حالات سے مجبور ہوکر اپنے آپ کو دائرہ اسلام میں داخل کردیا تھا۔ لیکن وہ اب بھی عوام الناس پر اپنی لیڈر شپ قائم رکھنے کے خواب دیکھ رہے تھے ۔ اور عام طور پر ایسے متکبرین اکابرین جس طرح ، عوام کے بارے میں رائے رکھتے ہیں اسی طرح یہ لوگ اسلام قبول کرنے والوں کو ” بیوقوف “ لوگ کہہ کر پکارتے تھے چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ” بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ہیں ، حالانکہ درحقیقت وہ مومن نہیں ہیں ۔ وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کررہے ہیں ۔ مگر دراصل وہ اپنے آپ کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔ ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھادیا اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں اس کی پاداش میں ان کے لئے دردناک سزا ہے ۔ جب کبھی ان سے کہا گیا کہ زمین میں فساد برپانہ کرو ” تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں ۔ خبردار ! حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں مگر انہیں شعور نہیں ہے اور جب ان سے کہا گیا کہ جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں ، اسی طرح تم بھی ایمان لے آؤ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم بیوقوں کی طرح ایمان لائیں ؟ ، اور جب علیحدگی میں اپنے شیطانوں سے ملتے ہیں ، تو کہتے ہیں کہ اصل میں تو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ان لوگوں سے محض مذاق کررہے ہیں .... اللہ ان سے مذاق کررہا ہے ، وہ ان کی رسی دراز کئے جاتا ہے ، اور یہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹکے چکے جاتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے ، مگر یہ سودا ان کے نفع بخش نہیں ہے اور یہ ہرگز صحیح راستے پر نہیں ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی اور جب سارا ماحول چمک اٹھا تو اللہ نے ان کا نور بصارت سلب کرلیا اور انہیں اس حال پرچھوڑدیا کہ تاریکیوں میں انہیں کچھ نظر نہیں آتا ۔ یہ بہرے ہیں ، گونگے ہیں ، اندھے ہیں ۔ یہ اب نہ پلٹیں گے یاپھران کی مثال یوں سمجھو کہ آسمان سے زور کی بارش ہورہی ہے۔ اور اس کے ساتھ اندھیری گھٹا اور کڑک چمک بھی ہے ۔ یہ بجلی کے کڑاکے سن کر اپنی جانوں کے خوف سے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں اور اللہ ان منکرین حق کو ہر طرف سے گھیرے میں لئے ہوئے ہے ۔ چمک سے ان کی یہ حالت ہورہی ہے کہ گویا عنقریب بجلی ان کی بصارت اچک لے جائے گی ۔ جب ذرا کچھ روشنی انہیں محسوس ہوتی ہے تو اس میں کچھ دور چل لیتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اللہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل ہی سلب کرلیتا یقینا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ مریض دل منافقین پر اس بھرپور وار کے دوران ، ان کے شیاطین کی طرف اشارے ملتے ہیں ۔ اس سورت کے سیاق وسباق اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت طیبہ کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد یہود ہیں ۔ کیونکہ اس سورت میں ان کے کردارپر بھرپور تنقید کی گئی ہے ۔ دعوت اسلامی کے بارے میں یہودیوں نے جو طرزعمل اختیار کیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مدینہ طیبہ میں یہود وہ پہلا طبقہ تھا جس نے تحریک اسلامی سے ٹکر لی اور اس ٹکراؤ اور تصادم کے متعدداسباب تھے ۔ وہ اوس خزرج جیسی امی اقوام کے مقابلے میں ، اہل کتاب ہونے کی وجہ سے ایک ممتاز مقام رکھتے تھے ۔ مشرکین عرب میں اگرچہ یہود کی طرف میلان کم پایا جاتا تھا لیکن وہ آسمانی کتاب وہدایت رکھنے کی وجہ سے یہودیوں کے لئے مفید طلب تھیں ۔ فتنہ و فساد اور تشتت وافتراق وہ میدان ہے جس میں یہودی زیادہ چابکدستی سے کام کرتے ہیں ، لیکن جب اسلام آیاتو یہودیوں کے ان تمام مفادات پر زد پڑی ۔ وہ ایک ایسی کتاب لے کر آیاجو سابقہ کتب کی تصدیق کرتی تھی اور ان کی تعلیمات کی محافظ تھی ۔ پھر اسلام نے اوس اور خزرج کے اختلافات کو بھی ختم کردیا ، جن کے ذریعے یہودی اپنے مکروفریب کا جال بچھاتے تھے اور مالی مفادات حاصل کرتے تھے ۔ اوس اور خزرج کے باہم دست گریبان لوگ اسلامی صفوں میں آکر ایک دوسرے سے گلے مل گئے اور اوس اور خزرج کے بجائے وہ دونوں مہاجرین کی نصرت کی وجہ سے انصار کہلانے لگے ۔ اور ان سب عناصر کو ملاکر اسلام نے وہ بےنظیر اور نیا اسلامی معاشرہ تیار کیا جس کے تمام افراد متحد اور متفق تھے ، یوں کہ گویا وہ تمام ایک ہی جسم کے مختلف اعضاء ہیں اور جس کی مثال نہ اس سے پہلے کبھی تاریخ میں پائی گئی اور نہ اس کے بعد آج تک وجود میں آسکی ۔ یہودی اپنے آپ کو اللہ کی مختار اور برگزیدہ قوم سمجھتے تھے ۔ ان میں بیشمار رسول اور نبی مبعوث ہوئے تھے اور وہ متعدد کتابوں کے حامل تھے ۔ وہ ہمیشہ اس کی توقع رکھتے تھے اور شدت سے منتظر بھی تھے کہ نبی آخرالزماں خود ان کے ہاں مبعوث ہوگا لیکن جب وہ عربوں میں مبعوث ہوا تو پھر انہوں نے یہ توقعات باندھ لیں کہ شاید نیا نبی ان کو اپنے دائر دعوت سے باہر رکھے گا اور اپنی دعوت کو ان پڑھ عربوں تک ہی محدودرکھے گا ۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ وہ سب سے پہلے اہل کتاب کو اللہ کی اس آخری کتاب کی دعوت دے رہا ہے اور اس بات پر وہ دلیل یہ پیش کرتا ہے کہ وہ عربوں کی نسبت زیادہ ذی علم ہیں اور ان کا یہ فرض ہے کہ وہ مشرکین سے بھی پہلے اس دعوت حق پر لبیک کہیں تو ان کے غرورنفس نے انہیں نافرمانی پر آمادہ کرلیا اور انہوں نے اسے اپنے لئے اہانت سمجھا اور اپنے مذہب کے خلاف اس نئی دعوت کو دست درازی تصور کرنے لگے ۔ اب یہودی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف شدید حسد وبغض میں مبتلا ہوگئے ۔ ایک تو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی آخرالزماں کے منصب کے لئے آپ کو منتخب فرمایا اور آپ کو کتاب دی جس کی صداقت میں یہودیوں کو ذرہ بھر بھی شبہ نہ تھا۔ دوسرے اس لئے کہ ظہور نبوت کے ساتھ ساتھ آپ کو اس نئے ماحول میں برق رفتار کامیابی حاصل ہوگئی ، ان اسباب کے علاوہ اس حسد وبغض ، تحریک اسلامی سے عداوت اور اس کے خلاف ہر قسم کے اوچھے ہتھیار استعمال کرنے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ یہودی اس بات کا پختہ شعور رکھتے تھے کہ نئے حالات میں یا تو انہیں اس نئے معاشرے سے پوری طرح کٹ جانا ہوگا اور اس صورت میں ان کی فکری قیادت ، تجارت اور سودی کاروبار کے تمام مفادات ختم ہوجائیں گے اور یا پھر انہیں پوری طرح اس نئے معاشرے میں ضم ہوکر گم ہوجانا ہوگا اور یہ دونوں گولیاں ایسی ہیں کہ جو کسی قیمت پر بھی ، ایک یہودی کے حلق سے نیچے نہیں اترسکتیں ۔ یہ تھے وہ وجوہات جن کی بناپر یہود ان مدینہ نے تحریک اسلامی کے مقابلے میں وہ سخت رویہ اختیار کیا ، جس کی تفصیل سورة بقرہ اور دوسری سورتوں میں بیان کی گئی ہے ۔ ہم یہاں ایسی چند آیات نقل کررہے ہیں جن میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ” اے بنی اسرائیل ! ذرا خیال کرو اس نعمت کا جو میں نے تم کو عطا کی تھی ، میرے ساتھ تمہارا جو عہد تھا ، اسے پورا کرو ، تو میرا جو عہد تمہارے ساتھ ہے اسے میں پورا کروں گا ، اور مجھ ہی سے ڈرو ، اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے ، اس پر ایمان لاؤ ۔ یہ اس کتاب کی تائید میں ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی، لہٰذاسب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جاؤ۔ تھوڑی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو۔ اور مرے غضب سے بچو ! باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو ، نماز قائم کرو زکوٰة دو ، اور جو لوگ میرے آگے جھک رہے ہیں ان کے ساتھ تم بھی جھک جاؤ، تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لئے کہتے ہو مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ، حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو ؟ کیا تم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے ؟ “ ایک دوسری جگہ تفصیل سے وہ رویہ اور طرز عمل بیان کیا گیا ہے جو بنی اسرائیل نے اپنے رسول حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ اختیار کیا تھا کہ کس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کے انعامات کا کفران کیا ۔ کس طرح انہوں نے کتاب اللہ اور شریعت کے بارے میں بےعملی کا مظاہرہ کیا اور باربار اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کو توڑا۔ یہ کچھ بالتفصیل بیان کرکے قرآن مجید مسلمانوں کو متنبہ کرتا ہے ۔ اے مسلمانو ! اب کیا ان لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمہاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے ؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی ۔ محمد رسول اللہ کو ماننے والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی انہیں مانتے ہیں اور جب آپس ایک دوسرے سے تخلئے کی بات چیت ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ بیوقوف ہوگئے ہو ؟ ان لوگوں کو وہ باتیں بتاتے ہو ، جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں تاکہ تمہارے رب کے پاس تمہارے مقابلے میں انہیں حجت میں پیش کریں ۔ “ (البقرہ :72:2) ” وہ کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چھونے والی نہیں ہے ۔ الا یہ کہ چند روز کی سزا مل جائے ، تو مل جائے ان سے پوچھو ، کیا تم نے اللہ کے سے کوئی عہد لے لیا ہے ، جس کی خلاف ورزی وہ نہیں کرسکتا ؟ یا یہ بات ہے کہ تم اللہ کے ذمے ڈال کر ایسی بات کہہ دیتے ہو ، جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ اس نے ان کا ذمہ لیا ہے۔ “ (البقرہ :80:2) ” اور اب جو ایک کتاب اللہ کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے ۔ اس کے ساتھ ان کا کیا برتاؤ ہے ؟ باوجودیکہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو ان کے پاس پہلے سے موجود تھی ، باوجودیکہ اس کی آمد سے قبل وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح ونصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے ، مگر جب وہ چیز آگئی ، جسے وہ پہچان بھی گئے ، تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا ۔ اللہ کی لعنت ان منکرین پر۔ “ (89:2) ” جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے ، اس پر ایمان لاؤ تو کہتے ہیں ” ہم تو صرف اس چیز پر ایمان لاتے ہیں جو ہمارے ہاں یعنی نسل بنی اسرائیل میں اتری ہے۔ اس دائرے کے باہر جو کچھ آیا ہے اسے ماننے سے وہ انکار کرتے ہیں ، حالانکہ وہ حق ہے اور اس تعلیم کی تصدیق وتائید کررہا ہے ، جو ان کے پاس پہلے سے موجود ہے۔ “ (91:2) ” اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی رسول اس کتاب کی تائید وتصدیق کرتا ہوا آیا ، جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی ، تو ان اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کتاب اللہ کو ، اس طرح پس پشت ڈالا ، گویا کہ وہ کچھ جانتے ہی نہیں ۔ “ (101:2) ” یہ لوگ جنہوں نے دعوت حق کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرک ہوں ، ہرگز یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی نازل ہو۔ “ (15:2) ” اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر کفر کی طرف پلٹالے جائیں ۔ اگرچہ حق ان پر ظاہر ہوچکا مگر اپنے نفس کی حسد کی بناپر تمہارے لئے ان کی یہ خواہش ہے ۔ “ (109:2) ” ان کا کہنا ہے کوئی شخص جنت میں نہ جائے گا جب تک وہ یہودی نہ ہو یا (عیسائیوں کے خیال کے مطابق) عیسائی نہ ہو۔ یہ ان کی تمنائیں ہیں ۔ “ (111:2) ” یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے ، جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو۔ “ (120:2) یہ قرآن مجید کا زندہ جاوید معجزہ ہے کہ قرآن نے ان یہودیوں کو جس صفت سے موصوف کیا وہ صفت آج تک ان کے ساتھ چپکی ہوئی ہے اور یہ صفت ہے جو ان کی ہرنسل میں ان کے ساتھ لازم رہی ہے ۔ خواہ وہ نسل قبل اسلام گزری ہو یا اسلام کے بعد آج تک کسی دور میں رہی ہو ۔ قرآن کریم ان کو یوں خطاب کرتا ہے گویا یہود ان یثرب بذات خود حضرت موسیٰ اور آپ کے بعد آنے والے انبیاء (علیہم السلام) کے ادوار میں موجود تھے۔ کیونکہ اول روز سے بنی اسرائیل کی یہی فطرت رہی ہے ۔ ان کے اوصاف وہی ہیں ۔ ان کا طرزعمل وہی ہے اور حق وصداقت کے ساتھ وہ ہر دور اور ہر زمانے میں ایک ہی برتاؤ کرتے چلے آئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دوران کلام قوم موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد آنے والی اسرائیلی نسلوں کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں ۔ اور قرآن مجید کے یہ زندہ کلمات آج بھی امت مسلمہ اور یہودیوں کے باہم تعلق اور موقف کو ظاہر کررہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ یہودی دعوت اسلامی اور امت مسلمہ کے مقابلے میں آج بھی وہی طرز عمل اختیار کررہے ہیں جو انہوں نے آج سے صدیوں قبل اختیار کیا اور یہی ان کا طرزعمل مستقبل میں بھی ہوگا۔ یہ قرآنی آیات اس وقت امت مسلمہ کے لئے ایک دائمی ہدایت اور تنبیہ کی حیثیت رکھتی تھیں اور آج بھی وہ یہی بتارہی ہیں کہ اعداء اسلام نے ہمارے اسلاف کے ساتھ جو رویہ روا رکھا تھا وہی پالیسی وہ آج بھی اختیار کریں گے ۔ آج بھی ان کی ریشہ دوانیاں اور مکر و فریب ویسے ہی ہیں جیسے یثرب میں تھے ۔ وہ ہر دور میں اسلام کے خلاف مختلف اور متنوع طریقوں سے برسرپیکار ہے ۔ لیکن اس جنگ کی حقیقت صرف ایک رہی یعنی اسلام دشمنی ۔ غرض اس صورت میں جہاں یہودیوں کے یہ اوصاف بیان ہوئے ہیں اور مسلمانوں کو ان کی سازشوں سے متنبہ کیا گیا ، وہاں اسلامی جماعت کی تشکیل اور اس دنیا میں اسلامی نظریہ حیات کی امانت کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لئے ، اسے تیار کرنے اور اس کی تربیت کرنے کے طریقے بھی بتائے گئے ہیں ، جبکہ بنی اسرائیل ایک زمانے سے اس امانت کی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہوچکے تھے اور آخر میں انہوں نے اس نظریہ حیات کے بارے میں یہ معاندانہ رویہ اختیار کرلیا تھا۔ جیسا کہ ہم پہلے کہہ آئے ہیں سورت کا آغاز ان طبقات کے ذکر سے ہوتا ہے جنہوں نے ہجرت کے متصلاً بعد تحریک اسلامی کے بارے میں مختلف طرز ہائے عمل اختیار کر رکھے تھے ۔ ان طبقات میں شیاطین بنی اسرائیل کی طرف مخصوص اشارے بھی تھے ۔ جن کا ذکر بعد میں مفصل ہوا۔ اس سورت کے آغاز میں جن طبقات کا ذکر ہوا ہے ان کی نوعیت ایسی ہے کہ ہر دور اور ہر زمانے میں دعوت اسلامی کے مقابلے میں لوگوں نے ایسے ہی طرز عمل اختیار کئے ۔ اس کے بعد پوری سورت کے مباحث اپنے انہی متوازی خطوط پر چل رہے ہیں جن میں اس وحدت ویگانت کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ جس سے اس سورت کی خاص شخصیت کا ظہور ہورہا ہے ، حالانکہ اس کے موضوعات سخن میں کافی تنوع پایا جاتا ہے۔ کافرین اور منافقین کے تین طبقات کے ذکر اور شیاطین یہود کی طرف اشارات کے بعد اب تمام انساں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ صرف ایک اللہ کی بندگی کریں اور اللہ نے اپنے بندے پر جو کتاب نازل کی ہے ، اس پر ایمان لے آئیں ۔ کافروں کو چیلنج دیا جاتا ہے کہ اگر وہ کتاب کی صداقت میں شک کرتے ہیں تو پھر اس جیسی کوئی ایک سورت لے آئیں ، کافروں کو آگ سے ڈرایا جاتا ہے اور مومنین کو جنتوں کی خوشخبری دی جاتی ہے ۔ اس کے بعد کافروں کو غور وفکر کی دعوت دی جاتی ہے اور متعجبانہ انداز میں ان کے کفر کی تردید کی جاتی ہے ۔ ” تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو ؟ حالانکہ تم بےجان تھے ، اس نے تمہیں زندگی عطا کی ، پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے ۔ وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں ۔ پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کئے اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ۔ “ (29:2) اس حقیقت کی طرف اشارے کے بعد ، کہ زمین کی تمام مخلوقات کو انسان کے لئے پیدا کیا گیا ہے ، حضرت آدم (علیہ السلام) کی خلافت فی الارض کا بیان شروع ہوجاتا ہے۔ ” پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو ، جب اس کے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ۔ “ اس کے بعد قصے کی تفصیلات بیان ہوتی ہیں ۔ آدم وابلیس کا معرکہ پیش آتا ہے اور آخرکار آدم (علیہ السلام) کا نزول ہوتا ہے اور زمین کے اندر ” عہد خلافت آدم “ کا آغاز ہوتا ہے ۔ جو دراصل دور ایمان ہے۔ ہم نے کہا ” تم سب یہاں سے اتر جاؤ۔ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے تو یہ لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ، ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے ، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں ، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ “ (39:2) اس کے بعد بنی اسرائیل کی تاریخ پر طویل ترین تبصرہ شروع ہوتا ہے جس کے چند فقرے ہم اسے پہلے نقل کر آئے ہیں ۔ اس تبصرے اور تنقید کے درمیان جگہ جگہ انہیں دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اسلامی نظام حیات کو اپنالیں اور اس کتاب پر ایمان لے آئیں جو ان کتابوں کی تصدیق کررہی ہے جن کے حامل وہ خود ہیں ۔ ساتھ ساتھ انہیں یہ تنبیہ کی جارہی ہے کہ انہوں نے کیا کیا کو تاہیاں کیں۔ کس طرح وہ راہ راست سے بھٹکتے رہے اور حق و باطل کی آمیزش کرتے رہے ۔ بنی اسرائیل کے ساتھ بحث وتمحیص قرآن مجید کے پہلے پارے کے آخر تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس پوری بحث سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ بنی اسرائیل نے دین اسلام ، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن مجید کا استقبال کس طرح کیا ۔ سب سے پہلے انہوں نے کفر کارویہ اختیار کیا ۔ انہوں حق و باطل کی تلبیس کی ، وہ دوسرے لوگوں کو تو یہ مشورہ دیتے کہ وہ ایمان لے آئیں لیکن خود اپنے آپ کو بھول جاتے ۔ وہ کلام اللہ سنتے ، اچھی طرح سمجھتے لیکن اس کے بعد اس کو غلط معانی پہنا کر جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ۔ وہ پہلے ایمان کا اظہار کرتے اور پھر کفر کا اعلان کرکے مومنین صادقین کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے اور جب آپس میں اکھٹے ہوتے تو ایک دوسرے کو بتاکید یہ کہتے کہ ” خبردار ! وہ راز کی باتیں مسلمانوں کو نہ بتانا ، جو حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کتب سابقہ میں وارد ہیں اور جنہیں انہوں نے چھپا رکھا تھا۔ انہوں نے کوششیں کیں کہ کسی طرح مومنین کو دوبارہ کفر کی روش پر مجبور کردیں ۔ وہ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ صحیح اہل ہدایت ہیں ہی یہود ۔ جیسا کہ نصرانیوں کا خیال تھا کے روئے زمین پر اہل ہدایت صرف وہ ہیں وہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے محض اس لئے دشمن ہوگئے تھے کہ بقول ان کے انہوں نے ان کو چھوڑ کر پیغام خداوندی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچادیا ۔ وہ مسلمانوں کی ہر کامیابی پر متغیض ہوجاتے اور ان کی بربادی کے منتظر رہتے ، وہ ہر لحظہ یہ کوشش کرتے کہ وحی الٰہی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام واوامر میں شک پیدا کیا جائے ۔ اور تحویل قبلہ کے موقع پر تو ان کے پروپیگنڈے کی تو کوئی انتہانہ رہی ۔ منافقین کے ساتھ ربط وضبط رکھتے تھے اور ہر وقت ان کی راہنمائی کرتے تھے اور مشرکین کی حوصلہ افزائی کھل کر کرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورت میں ان کے کردار پر سخت ترین تنقید پائی جاتی ہے اور سورت انہیں یاددلاتی ہے کہ انہوں نے یہی طرز عمل خود اپنے نبی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں اختیار کیا تھا اور آپ کے بعد بھی انبیاء ورسل کے ساتھ یہ لوگ ایسا سلوک کرتے رہے ۔ نسلوں تک ان کا رویہ یہی رہا ۔ قرآن کریم انہیں اس طرح مخاطب کرتا ہے کہ بنی اسرائیل جہاں اور جس دور میں بھی ہوں گویا وہ ایک ہی گروہ ہے کیونکہ وہ ایک ہی فطرت اور جبلت رکھتے ہیں جس میں کبھی بھی تبدیلی نہیں ہوتی ۔ اس طویل ترین تنقید کے آخر میں مسلمانوں کو بنی اسرائیل کے ایمان سے مایوس کردیا جاتا ہے کیونکہ ان کی یہ خود غرضانہ ذہنیت اور مطلب پرستی اور سڑی ہوئی اور خبیث طبعیت ان کے ایمان کی راہ میں رکاوٹ ہے اور بالآخر یہ تقریر ان کے اس دعوے کی تردید پر ختم ہوتی ہے کہ ” صرف وہی ہدایت پر ہیں کیونکہ وہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وارث ہیں “ اور بتایا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صحیح وارث وہی لوگ ہیں جو سنت ابراہیمی پر چلتے ہیں اور اس عہد کی پابندی کرتے ہیں جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے رب کے ساتھ باندھا تھا لہٰذا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وراثت اور جانشینی گویا اب حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین کو حاصل ہوگئی ہے ، کیونکہ یہودی راہ راست سے بھٹک گئے ، اپنے دین کو تبدیل کردیا اور اب وہ اسلامی نظریہ حیات کی امانت کی حفاظت کے اہل اور اس زمین پر منصب خلافت الٰہی کے قابل نہیں رہے لہٰذا یہ ذمہ داری اب حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ پر ایمان لانے والوں نے اپنے کاندھوں پر لے لی ۔ خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھاتے وقت حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) نے جو دعا کی تھی امت مسلمہ کا برپا ہونا گویا اس دعا کی قبولیت کا مجسم ظہور تھا ، انہوں نے کہا تھا : ” اے رب ہم دونوں کو اپنا مطیع بنا ، ہماری نسل سے ایک ایسی امت اٹھا ، جو تیری مسلم ہو ، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہماری کوتاہیوں سے درگزرفرما ، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے اور اے رب ان لوگوں میں خود انہی کی قوم سے ایک ایسا رسول اٹھائیو جو انہیں تیری آیات سنائے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنواردے ۔ تو بڑامقتدر اور حکیم ہے۔ “ (129:2) اب یہاں سے قرآن مجید کا خطاب اور روئے سخن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے گرد جمع ہونے جماعت مسلمہ کی طرف پھرجاتا ہے اور وہ اصول وقواعد بیان کئے جاتے ہیں جن پر اس نئی جماعت کی تشکیل ہوئی ہے جو دعوت دین کا کام لے کر اٹھی ہے اور یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس جماعت کا ایک خاص مزاج ہے اور نظریہ وعمل میں وہ ایک مخصوص زاویہ نگاہ رکھتی ہے۔ امت مسلمہ کی خصوصیات کا بیان تحویل قبلہ سے شروع ہوجاتا ہے ۔ وہ سمت متعین ہوجاتی ہے جس کی امت مسلمہ کو متوجہ ہونا ہے ۔ یہ نیا قبلہ بیت الحرام ہے جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) نے اللہ کے خاص احکامات کے تحت تعمیر کیا تھا۔ اللہ نے انہیں حکم دیا تھا کہ وہ اسے تعمیر کریں اور پاک وصاف کریں تاکہ وہاں صرف ایک اللہ تعالیٰ کی پرستش کی جائے ۔ خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش یہی تھی کہ قبلہ بدل دیا جائے لیکن آپ نے کبھی اس کا اظہار نہ کیا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ” یہ تمہارے منہ کا باربار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں ۔ لو ہم اس قبلے کی طرف تمہیں پھیرے دیتے ہیں ، جسے تم پسند کرتے ہو۔ مسجد حرام کی طرف رخ پھیر دو اب جہاں کہیں تم ہو ، اس طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرو۔ “ (142:2) اس کے بعد اسلامی نظام حیات کی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں ، جس پر اس جماعت نے عمل پیرا ہونا ہے ۔ نظریہ حیات اور طریق عبادت اور سلوک ومعاملات کا بیان شروع ہوجاتا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ راہ حق میں جو لوگ جانیں دیتے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو وہ تو زندہ جاوید ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں خوف ، بھوک ، مالی نقصانات ، فصلوں اور پھلوں کی تباہی جیسی ابتلائیں محض اذیتیں نہیں ہوتیں بلکہ وہ آزمائشیں ہوتی ہیں ۔ اور یہ ہمیشہ ان لوگوں کی راہ میں آتی ہیں جو دعوت حق کو لے کر اٹھتے ہیں ۔ تنبیہ کی جاتی ہے کہ حق و باطل کی کشمکش میں شیطان تمہیں فقر ومسکنت سے ڈراتا ہے اور فحاشی اور بےحیائی پر آمادہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ تم سے یہ ہوتا ہے کہ وہ تمہیں بخش دے گا۔ اور تمہیں اپنے فضل سے نوازے گا ۔ یہ کہ اللہ تعالیٰ مومنین کا والی اور مددگار ہے اور وہ انہیں ان اندھیروں میں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے اور کافروں کے والی طاغوت ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں میں پھینک دیتے ہیں ۔ اس کے بعد کھانے پینے کی چیزوں میں حلال و حرام احکامات بیان کئے جاتے ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ نیکی کی حقیقت کیا ہے ۔ صرف ظاہری شکل و صورت ہی کو دیکھ کر نیک و بد کا فیصلہ نہ کرنا چاہئے ۔ پھر قتل میں قصاص کے احکام ، وصیت کے احکام روزے کے احکام ، جہاد کے احکام ، حج کے احکام اور نکاح و طلاق کے احکام بیان کئے جاتے ہیں ۔ اسلام کے عائلی نظام کی دقیق شیرازہ بندی کی جاتی ہے ۔ اور نظام معیشت میں زکوٰة ، ربا کی حرمت ، لین دین اور تجارت کے احکامات بیان ہوتے ہیں ۔ ان تمام موضوعات پر بحث کرتے ہوئے دوران گفتگو ، موقع ومحل کی مناسبت سے ، موسیٰ (علیہما السلام) کے بعد بنی اسرائیل کے حالات کی طرف اشارہ بھی کیا جاتا ہے ۔ اور حضرت ابراہیم (علیہما السلام) کی زندگی کے کچھ پہلو بھی بیان ہوتے ہیں ۔ لیکن پہلے پارے کے بعد پوری سورت میں روئے سخن مستقلاً اسلامی جماعت کی طرف پھرجاتا ہے ۔ اسے اسلامی نظام حیات کی ذمہ داریوں کو اٹھانے اور اللہ کی شریعت کے مطابق ، زمین میں نظام خلافت کے قیام کی ذمہ داریوں کے لئے تیار کیا جاتا ہے اور اس طرح امت مسلمہ کو تمام دوسری امتوں سے ممتاز کردیا جاتا ہے ۔ کیونکہ یہ امت خود اس کائنات اور رب کائنات (جس نے اس امت کو اس عظیم منصب کے لئے چنا ) کے درمیان ربط وتعلق کی نوعیت کے بارے میں ایک مخصوص نقطہ نظر رکھتی ہے۔ سورت کے آخر میں پہنچ کر ہم دیکھتے ہیں کہ کلام کے خاتمے میں سورت کے ابتدائیہ کو دہرایا جاتا ہے۔ ایمانی نظریہ حیات کی حقیقت کی وضاحت ہوتی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ امت مسلمہ تمام انبیاء پر ایمان رکھتی ہے ۔ نیز تمام کتب سماوی پر اس کا ایمان ہے اور وہ انبیاء کے بیان کردہ امور غیبیہ پر بھی یقین رکھتی ہے اور انبیاء کی تعلیمات کو مانتی ہے اور دل وجان سے مطیع فرمان ہے۔ فرمایا جاتا ہے : ” رسول اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اس رسول اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں ۔ اور ان کا قول یہ ہے کہ ” ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے ، ہم نے سنا اور اطاعت قبول کی ۔ مالک ! تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے ۔ اللہ کسی متنفس پر ، اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا ، ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے ، اس کا پھل اس کے لئے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے اس کا وبال اسی پر ہے ۔ (ایمان لانے والو ! تم یوں دعا کیا کرو) اے ہمارے رب ! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہوجائیں ، ان پر گرفت نہ کر ۔ مالک ! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے ۔ پروردگار ! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے ، وہ ہم پر نہ رکھ ۔ ہمارے ساتھ نرمی کر ، ہم سے درگذر فرما ، ہم پر رحم کر ، تو ہمارا مولیٰ ہے ، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔ “ اسی طرح آغاز و انجام کے درمیان پوری پوری یک رنگی پائی جاتی ہے اور سورت کے تمام موضوعات سخن مومنین صادقین کی صفات اور خصوصیات کے ان دوبیانوں کے درمیان سمٹ جاتے ہیں ۔ (بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حروف مقطعات کی بحث الم : یہ حروف مقطعات میں سے ہے اور حروف مقطعات انتیس سورتوں کے شروع میں آئے ہیں اور وہ یہ ہیں : ا ل م۔ ا ل ر ۔ ا آمآآ۔ ا آمآرٰ ۔ حٰآ۔ حٰآآآآ۔ کھٰیٰعٓصٓ۔ طٰسٓ۔ طٰسٓمّٓ۔ طٰہٰ ۔ یٰسٓ۔ صٓ۔ قٓ۔ نٓ۔ ان میں ا ل م ر چھ جگہ ہے۔ اور ا ل ر پانچ جگہ ہے اور حٰمٓ چھ جگہ ہے اور طٰسٓمّٓ دو جگہ ... ہے۔ اور ان کے علاوہ باقی سب ایک ایک جگہ ہیں۔ کیونکہ یہ متشابہات میں سے ہیں۔ اس لیے مفسرین ان کے سامنے یوں لکھ دیتے ہیں۔ اللّٰہ اعلم بمرادہ بذلک۔ (اللہ کو اس کا معنی معلوم ہے) بہت سے اکابر جن میں خلفاء اربعہ اور ابن مسعود (رض) بھی ہیں ان کا موقف یہی ہے۔ جیسا کہ ابن کثیر نے نقل کیا ہے۔ بعض حضرات نے ان کے کچھ معانی بھی بتائے ہیں کسی نے کہا ہے کہ یہ ان سورتوں کے نام ہیں جن کے شروع میں آئے ہیں۔ حضرت مجاہد کا قول ہے کہ ا ل م ر قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ حضرت شعبی نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ ا ل م ر میں الف اللہ کا پہلا حرف ہے اور لام اللہ کے نام لطیف کا پہلا حرف ہے اور میم مجید کا پہلا حرف اور ایک قول یہ ہے، الف سے الاء اللہ یعنی اللہ کی نعمتیں اور لام سے لطف اللہ یعنی اللہ کی مہربانی اور میم سے مجد اللہ یعنی اللہ کی بزرگی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن اس میں سے کوئی بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول نہیں ہے۔ مفسرین نے حروف مقطعات کے ذریعہ سورتیں شروع کرنے کی یہ حکمت بھی لکھی ہے کہ اہل عرب کو یہ بتانا تھا کہ یہ کتاب جو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی ہے اس کے کلمات انہیں حروف سے مرکب ہیں جو تمہاری گفتگو اور محاورات میں استعمال ہوتے ہیں۔ تم فصیح وبلیغ ہو اس جیسی کتاب بنا کر لاؤ۔ جب ماہرین اس جیسی کتاب بنا کر نہیں لاسکتے تو ایک امی جس نے کسی سے کچھ نہیں پڑھا اس کے بارے میں کیسے کہتے ہو کہ اس نے اپنے پاس سے بنا لیا۔ اگر یہ کلام کسی غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو تم لوگ اس جیسا کلام بنانے سے کیوں عاجز رہ جاتے۔ اس کے علاوہ اور بھی حکمتیں بیان کی ہیں جو مفسر بیضاوی نے لکھی ہیں۔ ان حروف کو اس طرح الگ الگ پڑھا جاتا ہے ان میں تجوید کے قواعد کے مطابق مد بھی ہیں جو مدحرفی مثقل اور مد حرفی مخفف کے نام سے کتب تجوید میں بیان کیے گئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اللہ کی کتاب کا ایک حرف پڑھا تو اس کی وجہ سے اسے ایک نیکی ملے گی اور نیکی دس نیکیوں کے برابر ہوگی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے (بلکہ) الف ایک حرف ہے اور لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔ (رواہ الترمذی ص ٤١٣ وقال حدیث حسن صحیح)  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2 ۔ یہ حروف مقطعات میں سے ہیں جو قرآن مجید کی انیس سورتوں کی ابتداء میں آئے ہیں۔ مفسرین کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے ان حروف کے ان سورتوں کی ابتداء میں ذکر کرنے کی حکمتیں، ان کے ظاہری معانی اور ان کی تمثیلات بیان فرمائی ہیں۔ مفسرین کرام نے جو کچھ بیان کیا ہے اسے ان حروف مقطعات کے حقیقی معانی اور مرادات...  الٰہی تو نہیں کہا جاسکتا زیادہ سے زیادہ انہیں فوائد سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ یہ حروف بےمعنی اور مہمل نہیں ہیں ان سے مراد خداوندی متعین ضرور ہیں لیکن اس کا بھید اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ ہذا علم مستور وسر محجوب استاثر اللہ تبارک وتعالیٰ بہ (تفسیر کبیر ص 227 ج 1، روح المعانی بمعناہ ص 82 ج 3) خلفائے راشدین اور حضرت ابن مسعود (رض) سے یہی منقول ہے۔ اسی طرح عامر شعبی، سفیان ثوری، ربیع بن خثیم، ابن حبان اور ابوبکر انباری رحمہم اللہ تعالیٰ بھی اسی کے قائل ہیں (قرطبی ص 154 ج 1، ابن کثیر ص 36 ج 1 بیضاوی ص 6) حضرت صدیق اکبر (رض) سے منقول ہے۔ لکل کتاب سر وسر القرآن اوائل السور (روح المعانی ص 100 ج 1 تفسیر کبیر ص 227 ج 1) یعنی ہر کتاب کا ایک بھید ہوتا ہے اور قرآن کا بھید سورتوں کے ابتدائی حصے یعنی حروف مقطعات ہیں۔ امام شعبی فرماتے ہیں۔ سر اللہ تعالیٰ فلا تطلبوہ (روح المعانی ص 100 ج 1، تفسیر کبیر ص 224 ج 1) یعنی یہ حروف مقطعات اللہ تعالیٰ کا بھید ہیں ان کے پیچھے مت پڑو۔ سورتوں کی ابتداء میں ان حروف کے ذکر کرنے میں جو حکمتیں مفسرین کرام نے بیان کی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اعمالِ شرعیہ کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جن کی حکمت اور علت ہماری سمجھ میں آسکے، جیسے نماز، روزہ اور زکوۃ۔ یہ بات بخوبی سمجھ میں آسکتی ہے کہ نماز میں قیام اور رکوع و سجود وغیرہ کے ذریعے اپنے مالک اور آقا کے سامنے انتہائی عاجزی اور بےچارگی کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔ روزہ سے شہواتِ نفسانیہ کو کمزور کر کے روحانی پاکیزگی حاصل کی جاتی ہے۔ بھوک کے تجربہ سے غریبوں اور بھوکوں کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور زکوۃ کے ذریعے ضرورت سے زائد دولت سوسائٹی کے معذور اور محتاج طبقہ میں تقسیم کر کے ان کی ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے۔ دوسری قسم ان اعمال کی ہے جن کی حکمت اور علت ہماری سمجھ سے بالا تر ہے مگر ہم ایسے اعمال بجا لانے کے مکلف ہیں جیسا کہ افعالِ حج ہیں۔ مثلاً صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا (دوڑنا) طواف میں رمل کرنا (کندھوں کو ہلا ہلا کر چلنا) اور جمرات پر سنگریزے پھینکنا۔ کمال انقیاد اور تسلیم اسی کا نام ہے کہ احکم الحاکمین کے ہر حکم کی تعمیل کی جائے خواہ اس کی علت سمجھ میں آئے یا نہ آئے بلکہ اطاعت کرنے کے لیے علت دریافت کرنا بےادبی میں داخل ہے۔ اعمالِ شرعیہ کی طرح اقوال کی بھی دو قسمیں ہیں ایک تو وہ ہیں جن کا مفہوم ہماری سمجھ میں آسکتا ہے۔ ایسے اقوال کے پڑھنے، ان کے معانی میں غور وفکر کرنے اور ان کے مطابق عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور کچھ اقوال ایسے ہیں جن کا مفہوم ہماری عقل وفہم سے ماوراء ہے مگر ہمیں ان کے بھی ماننے اور پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے (تفسیر کبیر، تفصیل ص 231 ج 1) سورة آل عمران کی اس آیت کا یہی مطلب ہے۔ ھُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ ۭ فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاۗءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاۗءَ تَاْوِيْلِهٖ څ وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ ڤ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ۚ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ (ترجمہ) وہ ایسا ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کا ایک حصہ وہ آیتیں ہیں جو محکم ہیں (یعنی ان کا مطلب واضح اور ظاہر ہے) یہی آیتیں (اس) کتاب کا اصلی مدار ہیں۔ اور اس میں کچھ آیتیں ایسی ہیں جن کی مراد مشتبہ ہے تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہیں وہ (دین میں) شورش ڈھونڈنے اور اس کا مطلب تلاش کرنے کی غرض سے اسی کے پیچھے ہولیتے ہیں جس کی مراد مشتبہ ہے حالانکہ اس کا مطلب بجز اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا۔ جو لوگ علم (دین) میں پختہ کار ہیں وہ یوں کہتے ہیں کہ ہم اس پر (اجمالاً ) یقین رکھتے ہیں کہ یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں اور نصیحت صرف وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو اہل عقل ہیں :۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوگیا کہ قرآن مجید کی آیتیں دو قسم کی ہیں۔ ایک محکمات یعنی وہ جن کا مطلب معلوم اور مراد متعین ہے۔ ان کا حکم یہ ہے کہ ان کے مطابق عمل کرنا واجب ہے۔ دوسری متشابہات یعنی وہ جن کی مراد مشتبہ ہے۔ اللہ کے سوا ان کی صحیح مراد کسی کو معلوم نہیں۔ علمائے ربانیین کا متشابہات کے متعلق یہ عقیدہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہیں لیکن ان کا اصل مقصد خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ متشابہات کی دو قسمیں ہیں۔ قسم اول حروف مقطعات جو بعض سورتوں کی ابتداء میں آئے ہیں۔ جیسے۔ الم۔ الرا۔ المرا۔ طہ حم۔ وغیرہ (ابن کثیر ص 345 ج 1، روح المعانی ص 82 ج 3، خازن ومعالم ص 22 ج 1 ص 269 ج 1، قرطبی ص 154 ج 1) اور قسم دوم وہ الفاظ ہیں جن کے ظاہری اور لغوی معانی تو معلوم ہوں لیکن ان کی اصل مراد سوا اللہ کے کسی کو معلوم نہ ہو جیسے اللہ کی طرف یَدٌ (ہاتھ) وَجْہٌ (چہرہ) وغیرہ کی اضافت جیسے فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِاور يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ ۔ (اس سورۃ کا تعارف پڑھنے کے لئے جواہرالقرآن کتابی نسخہ ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اسے یہاں نقل نہیں کیا جا رہا۔)  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi