The Jews and the Christians were hostile not only to the Muslims, but also to each other. They had forgotten the essence of religion --that is, adherence to the true and authentic doctrines, and performance of good deeds as laid down by the Shari&ah -- and had identified it with a mere affiliation to a racial or social community. Each of the two groups claimed that it had the exclusive right to go to the Paradise, without having any argument to substantiate the claim. The Jews read the Torah, while the Christians read the Evangel, and they could have easily seen that the two Books confirm each other. Each party used to assert, in its malice, that the religion of the other was baseless. This gave an excuse to the mushrikin (associators) who, in spite of their ignorance, began to say the same of both the religions. The Holy Qur&an dismisses these pretensions as mere fancy and self-delusion. It declares that other people too will go to Paradise who have, in their time, been following the Shari&ah of their own prophet, and who, now that the Holy Qur&an also has abrogated all the earlier Divine Books, follow the Islamic Shari&ah. Verse 112 lays down the general principle in this respect, which is accepted by the followers of all the Divine Books. The essence of religion, whether it be Islam or Christianity or Judaism, lies in two things. (1) One should obey Allah in one&s belief as well as in one&s actions. (2) This obedience should not arise from expediency, but one should surrender oneself to divine commandments in all sincerity. Moreover, it is not enough to be worthy of Paradise merely to have a sincere intention to obey Allah, and then to invent, according to one&s own fancy, the modes and forms of obedience, for it is absolutely essential that the forms of worship and the modes of obedience should be no other than those which Allah Himself has appointed through the agency of His prophets -- it goes without saying that since the revelation of the Holy Qur&an this can only mean accepting and following the Islamic Shari&ah. We may add that in connection with the first of these two principles, the Holy Qur&an employs the Arabic word اَسلمَ : Aslama which signifies total submission to Allah, and in connection with the second word Muhsin محسن ، which signifies |"one who performs good deeds|" according to the Shari&ah. The differences between the Jews and the Christians In so far as these verses deal with the claims of the Jews and the Christians, the point of the argument is this:- Having laid down the two principles the acceptance of which makes one worthy of Paradise, the Holy Qur&an suggests that they should now try to find out who is really acting upon them. Obviously, one who keeps following an injunction even after it has been abrogated cannot be described as obedi¬ent, and hence the Jews and the Christians no longer deserve this ti¬tle. After the abrogation of an injunction, obedience consists in acting upon the new injunction which has replaced the earlier one. This con¬dition is now being fulfilled only by the Muslims who have accepted the latest and the last Prophet (رض) and his Shari&ah. Hence, they alone shall now be considered worthy of Paradise. The condition of one&s be¬ing sincere in one&s obedience excludes the hypocrites too, for the Sha-ri` ah counts them among the infidels, and thus assigns them to Hell. Verse 112 also announces the reward of those who act upon these principles -- on the Day of Judgment, they shall have nothing to fear, nor shall they grieve, as angels will give them good tidings. As for the debates among the Jews, the Christians and the associators, Verse 113 declares that Allah will Himself decide the question finally on the Day of Judgment. In fact, the question has already been settled on the basis of what Allah has revealed in His Books as well as on the basis of rational argument; the final decision on the Day of Judgment will be of the visible kind -- those who follow the Truth will be sent to Paradise, while those who go after falsehood will be cast down in Hell. These verses provide a warning to the Muslims as well, lest they too should delude themselves like the Jews and the Christians, and suppose that merely because they belong to the social community of Muslims and can, as such, claim to be Muslims, whereby they can dis¬pense with the need to obey Allah and to follow the Shari` ah, and yet receive the rewards Allah has promised to give to true Muslims. Even Muslims have no right to hope for these rewards until and unless they submit themselves totally, in thought and deed both, to the command¬ments of Allah and His Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) .
خلاصہ تفسیر : اور یہود نصاریٰ (یوں) کہتے ہیں کہ بہشت میں ہرگز کوئی نہ جانے پاوے گا بجز ان لوگوں کے جو یہودی ہوں (یہ تو یہود کا قول ہے) یا ان لوگوں کے جو نصرانی ہوں (یہ نصاریٰ کا قول ہے حق تعالیٰ ان کی تردید فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ) یہ (خالی) دل بہلانے کی باتیں ہیں (اور حقیقت کچھ بھی نہیں) آپ (ان سے یہ تو) کہیے کہ (اچھا) اپنی دلیل لاؤ اگر تم (اس دعوے میں) سچے ہو (سو وہ تو کیا دلیل لاویں گے کیونکہ کوئی دلیل ہے ہی نہیں اب ہم اس کے خلاف پہلے تو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ) ضرور دوسرے لوگ (بھی جنت میں) جاویں گے (پھر اس پر دلیل لاتے ہیں کہ ہمارا قانون جو باتفاق سماوی ملتوں کے ماننے والوں کے پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے یہ ہے کہ) جو کوئی شخص بھی اپنا رخ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکا دے (یعنی اعمال و عقائد میں فرمانبرداری اختیار کرے) اور (اس کے ساتھ) وہ مخلص بھی ہو (کہ فرمانبرداری دلی طور پر اختیار کی ہو محض مصلحت سے ظاہر داری نہ ہو) تو ایسے شخص کو اس (کی فرمانبرداری) کا عوض ملتا ہے پروردگار کے پاس پہنچ کر اور ایسے لوگوں پر (قیامت میں) نہ کوئی اندیشہ (ناک واقعہ پڑنے والا) ہے اور نہ ایسے لوگ (اس روز) مغموم ہونے والے ہیں (کیونکہ فرشتے ان کو بشارتیں سنا کر بےفکر کردیں گے) حاصل استدلال کا یہ ہوا کہ جب یہ قانون مسلم ہے تو اب صرف یہ دیکھ لو کہ یہ بات کس پر صادق آتی ہے ؟ سو ظاہر ہے کہ کسی حکم سابق کے منسوخ ہوجانے کے بعد اس پر عمل کرنے والا کسی بھی طور پر فرمانبردار نہیں کہلا سکتا لہذا یہود و نصاریٰ فرمانبردار نہ ہوئے بلکہ حکم ثانی پر عمل کرنا فرمانبرداری سمجھی جائے گی اور یہ شان مسلمانوں کی ہے کہ نبوت و شریعت محمدیہ کو قبول کرلیا چناچہ یہی جنت میں داخل ہونے والے شمار ہوئے، اور مخلصین کی قید سے منافقین نکل گئے (کیونکہ وہ بھی شرعاً کفار ہی میں داخل اور مستحق جہنم ہیں) اور (ایک بار کچھ یہودی اور کچھ نصرانی جمع ہو کر مذہبی مباحثہ کرنے لگے تو یہود تو اپنے عقیدہ کے موافق نصاریٰ کے دین کو باطل بتاتے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت اور انجیل کے کتاب اللہ ہونے کا انکار کرتے تھے مگر نصاریٰ بھی ضد وتعصب میں آکر دین یہود کو بےاصل و باطل کہنے لگے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت اور توریت کے کتاب اللہ ہونے کا انکار کرنے لگے اللہ تعالیٰ اس قصہ کو نقل فرما کر بطور تردید فرماتے ہیں کہ) یہود کہنے لگے کہ نصاریٰ (کا مذہب) کسی بنیاد پر (قائم) نہیں (یعنی سرے سے غلط ہے) اور اسی طرح نصاریٰ کہنے لگے کہ یہود (کا مذہب) کسی بنیاد پر (قائم) نہیں (یعنی سرے سے غلط ہے) حالانکہ یہ سب (فریقین کے لوگ آسمانی) کتابیں بھی پڑھتے (پڑھاتے) ہیں (یعنی یہودی توریت کو اور عیسائی انجیل کو پڑہتے اور دیکھتے ہیں اور دونوں کتابوں میں دونوں رسولوں اور دونوں کتابوں کی تصدیق موجود ہے جو کہ دونوں مذہبوں کی اصل بنیاد ہے گو منسوخ ہوجانے کی بنا پر قابل عمل نہ ہو یہ اور بات ہے) (اور اہل کتاب تو ایسے دعوے کرتے ہی تھے ان کی دیکھا دیکھی مشرکین کو بھی جوش آیا اور) اسی طرح سے یہ لوگ (بھی) جو کہ (محض) بےعلم ہیں ان (ہی اہل کتاب) کا سا قول دھرانے لگے (کہ ان یہود و نصاریٰ سب کا دین بےبنیاد ہے حق پر بس ہم ہی ہیں) سو (یہاں سب اپنی اپنی ہانک لیں) اللہ تعالیٰ ان سب کے درمیان (عملی) فیصلہ کردیں گے قیامت کے دن ان تمام مقدمات میں جن میں وہ باہم اختلاف کررہے تھے (اور وہ عملی فیصلہ یہ ہوگا کہ اہل حق کو جنت میں اور اہل باطل کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا عملی فیصلہ کی قید اس لئے لگائی کہ قولی اور برہانی فیصلہ تو عقلی اور نقلی دلائل کے ذریعہ دنیا میں بھی ہوچکا ہے) معارف و مسائل : ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کے باہمی اختلافات اور ایک دوسرے پر رد کا ذکر فرما کر ان کی نادانی اور اس اختلاف کے مضر اثرات کا بیان پھر اصل حقیقت کا اظہار فرمایا ہے ان تمام واقعات میں مسلمانوں کے لئے بڑی اہم ہدایات ہیں جن کا بیان آگے آتا ہے، یہود و نصاریٰ دونوں نے دین کی اصل حقیقت کو فرمواش کرکے مذہب کے نام پر ایک قومیت بنالی تھی اور ان میں سے ہر ایک اپنی ہی قوم کے جنتی اور مقبول ہونے اور اپنے سوا تمام اقوام عالم کے دوزخی اور گمراہ ہونے کا معتقد تھا، اس نامعقول اختلافات کا نتیجہ یہ نکلا کہ مشرکین کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ عیسائیت بھی بےبنیاد اور یہودیت بھی بےاصل حق و صحیح بس ہماری بت پرستی ہے، حق تعالیٰ نے ان دونوں قوموں کی جہالت و گمراہی کے متعلق فرمایا کہ یہ دونوں قومیں جنت میں جانے کے اصل سبب سے غافل ہیں محض مذہب کے نام کی قومیت کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں حقیقت یہ ہے کہ مذہب یہود ہو یا نصاریٰ یا اسلام ان سب کی اصل روح دو چیزیں ہیں ؛ ایک یہ کہ بندہ دل وجان سے اپنے آپ کو خدا کے سپرد کردے اس کی اطاعت و فرمانبرداری کو اپنا عقیدہ و مذہب سمجھے چاہے یہ کسی مذہب میں حاصل ہو حقیقت دین و مذہب کو فراموش کرکے یا پس پشت ڈال کر یہودی یا نصرانی قومیت کو اپنا مقصد بنا لینا دین و مذہب سے ناواقفیت اور گمراہی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ جنت میں جانے کے لئے صرف یہ بھی کافی نہیں کہ کوئی آدمی اپنے دل سے خدا کی فرمانبرداری کا قصد تو درست کرلے مگر اطاعت فرمانبرداری اور عبادت کے طریقے اپنے ذہن و خیال کے مطابق خود گھڑلے بلکہ یہ ضروری ہے کہ عبادت و اطاعت اور امتثال امر کے طریقے بھی وہی اختیار کرے جو خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کے ذریعے بتائے اور متعین کئے ہوں، پہلی بات بَلٰي ۤمَنْ اَسْلَمَ کے ذریعے اور دوسری وَھُوَ مُحْسِنٌ کے ذریعے واضح کی گئی ہے جس سے معلوم ہوا کہ نجات اخروی اور دخول جنت کے لئے صرف اطاعت کافی نہیں بلکہ حسن عمل بھی ضروری ہے اور حسن عمل کا مصداق وہی تعلیم وطریقہ ہے جو قرآن اور سنت رسول خیر الانام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطابق ہو۔ نسلی مسلمان ہو یا یہودی و نصرانی اللہ کے یہاں اس کی کوئی قیمت نہیں اصل چیز ایمان اور عمل صالح ہے : جو شخص ان بنیادی اصولوں میں سے کسی بھی اصول کو چھوڑ دے خواہ یہودی ہو یا نصرانی یا مسلمان اور پھر محض نام کی قومیت کے زعم میں اپنے آپ کو جنت کا ٹھیکہ دار سمجھ لے تو یہ صرف اس کی خود فریبی ہے جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی بھی ان ناموں کا سہارا لے کر قریب نہیں ہوسکتا نہ مقبول بن سکتا ہے جب تک اس میں ایمان وعمل صالح کی روح موجود نہ ہو، پھر اصول ایمان تو ہر رسول اور ہر شریعت کے زمانے میں مشترک و یکساں رہے ہیں البتہ عمل صالح و مقبول کی شکلیں کچھ ادلتی بدلتی رہی ہیں تورات کے زمانے میں عمل صالح وہ سمجھا گیا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور جو تورات کی تعلیم کے مطابق تھا انجیل کے دور میں عمل صالح یقیناً وہی عمل تھا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور انجیل کی تعلیم کے مطابقت رکھتا تھا اور اب قرآن کے زمانے میں وہی عمل صالح کہے جانے کا مستحق ہوگا جو نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان اور ان کی لائی ہوئی اللہ کی کتاب قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق ہوگا، خلاصہ کلام یہ کہ یہود و نصاریٰ کے اس اختلاف کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ دونوں قومیں جہالت کی باتیں کر رہی ہیں دونوں میں سے کوئی بھی جنت کا ٹھیکہ دار نہیں اور نہ ہی دونوں کے مذہب بےبنیاد اور بےاصل ہیں بلکہ دونوں مذہبوں کی صحیح بنیاد موجود ہے غلط فہمی کا سبب اصلی یہ ہے کہ انہوں نے مذہب وملت کی اصل روح یعنی عقائد و اعمال اور نظریات کو چھوڑ کر نسلی یا وطنی بنیاد پر کسی قوم کو یہود ٹھہرا لیا اور کسی کو نصرانی سمجھ لیا، جو یہود کی نسل سے ہو یا یہود کے شہر میں بستا ہو یا مردم شماری میں اپنے آپ کو یہودی بتانا ہو اس کو یہود سمجھ لیا گیا اسی طرح نصرانیوں کی تشخیص و تعیین کی گئی حالانکہ اصول ایمان کو توڑ کر اور اعمال صالحہ سے منہ موڑ کر نہ کوئی یہودی رہتا ہے نہ نصرانی۔ قرآن کریم میں اس اختلاف اور اس فیصلہ کا ذکر مسلمانوں کو سنانے اور متنبہ کرنے کے لئے ہے کہ کہیں وہ بھی اس قسم کی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجائیں کہ ہم تو پشتی مسلمان ہیں ہر دفتر و رجسڑ میں ہمارا نام مسلمان کے خانے میں درج ہے اور ہم زبان سے بھی اپنے کو مسلمان ہی کہتے ہیں اس لئے جنت کے نیز ان تمام انعامی وعدوں کے ہم ہی مستحق ہیں جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے مسلمانوں سے کئے گئے، اس فیصلہ سے ان پر واضح ہوجانا چاہے کہ کوئی شخص نہ محض دعوے سے حقیقی مسلمان بنتا ہے نہ کہیں مسلمان نام درج کرانے یا مسلمان کی صلب سے یا ان کے شہر میں پیدائش ہونے کی وجہ سے بلکہ مسلمان ہونے کے لئے اول اسلام ضروری ہے اور اسلام کے معنی ہی اپنے آپ کو سپرد کرنے اور سونپ دینے کے ہیں دوسرے احسان عمل یعنی سنت کے مطابق عمل کو درست کرنا، لیکن قرآن کریم کی اس تنبیہ کے باوجود بہت سے مسلمان اسی یہودی اور نصرانی غلطی کا شکار ہوگئے کہ خدا و رسول اور آخرت و قیامت سے بالکل غافل رہ کر اپنا نسلی مسلمان ہونا مسلمان ہونے کے لئے کافی سمجھنے لگے اور قرآن و حدیث میں جو وعدے فلاح دنیا وآخرت کے مسلمانوں سے کئے گئے ہیں اپنے آپ کو ان کا مستحق سمجھ کر ان کے پورے ہونے کا انتظار کرنے لگے اور جب وہ پورے ہوتے نظر نہیں آتے تو قرآن و حدیث کے وعدوں میں شک کرنے لگے اس کو نہیں دیکھتے کہ قرآن نے محض نسلی مسلمانوں سے کوئی وعدہ نہیں کیا جب تک وہ اپنے تمام ارادوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع نہ کردیں اور ان کے بتلائے ہوئے طریقوں پر عمل صالح کے پابند نہ ہوں یہی خلاصہ ہے آیت مذکورہ بَلٰيۤ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَھُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗٓ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْن کا آج کل پوری دنیا کے مسلمان طرح طرح کے مصائب وآفات کا شکار ہیں اس کو دیکھ کر بہت سے ناواقف لوگوں کو یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ شاید ان آفات و مصائب کا سبب ہمارا اسلام ہی ہے لیکن مذکورہ تحریر سے واضح ہوگیا کہ اس کا اصلی سبب ہمارا اسلام نہیں بلکہ ترک اسلام ہے کہ ہم نے اسلام کو صرف نام باقی رکھا ہے نہ اس کے عقائد ہمارے اندر ہیں نہ اخلاق، نہ اعمال، گویا، وضع میں ہم ہیں نصاریٰ تو تمدن میں ہنود پھر ہمیں کیا حق ہے کہ اسلام اور مسلم کے لئے کئے ہوئے وعدوں اور انعاموں کا ہم انتظار کریں، البتہ یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ ہم کچھ بھی سہی نام تو اسلام کا لیتے ہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام لیوا تو ہیں اور جو کفار کھلے طور پر اللہ و رسول کی مخالفت کرتے ہیں اسلام کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتے وہ تو آج دنیا میں ہر طرح کی ترقی کررہے ہیں بڑی بڑی حکومتوں کے مالک بنے ہوئے ہیں دنیا کی صنعتوں اور تجارتوں کے ٹھیکہ دار بنے ہوئے ہیں اگر ہماری بدعملی کی ہمیں یہ سزا مل رہی ہے کہ ہم ہر جگہ پامال و پریشان ہیں تو کفار و فجار کو اس سے زیادہ سزا ملنی چاہیے لیکن اگر ذرا غور سے کام لیا جائے تو یہ شبہ خود بخود رفع ہوجائے گا، اول تو اس لئے کہ دوست اور دشمن کے ساتھ معاملہ یکساں نہیں ہوا کرتا دوست کو قدم قدم اور بات بات پر ٹوکا جاتا ہے اولاد اور شاگرد کو ذرا ذرا سی بات پر سزا دی جاتی ہے لیکن دشمن کے ساتھ یہ سلوک نہیں ہوتا اس کی ڈھیل دی جاتی ہے اور وقت آنے پر دفعۃ پکڑ لیا جاتا ہے، مسلمان جب تک ایمان واسلام کا نام لیتا ہے اور اللہ کی عظمت و محبت کا دم بھرتا ہے، وہ دوستوں کی فہرست میں داخل ہے اس کے برے اعمال کی سزا عموما دنیا ہی میں دے دیجاتی ہے تاکہ آخرت کا بار ہلکا ہوجائے بخلاف کافر کے کہ اس پر باغیوں اور دشمنوں کا قانون جاری ہے دنیا کی ہلکی ہلکی سزاؤں سے ان کا بار عذاب ہلکا نہیں کیا جاتا ان کو یک لخت عذاب میں پکڑا جائے گا، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد گرامی کا یہی مطلب ہے کہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے، دوسری اہم بات مسلمانوں کے تنزل اور پریشانی اور کفار کی ترقی و آرام کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر عمل کا جداگانہ خاصہ رکھا ہے ایک عمل کرنے سے دوسرے عمل کے خواص حاصل نہیں ہوسکتے مثلاً تجارت کا خاصہ ہے مال میں زیادتی دوا کا خاصہ ہے بدن کی صحت اب اگر کوئی شخص تجارت میں تو دن رات لگا رہے بیماری اور اس کے علاج کی طرف توجہ نہ دے تو محض تجارت کے سبب وہ بیماری سے نجات نہیں پاسکتا اسی طرح دوا دارو کا استعمال کرکے تجارت کا خاصہ یعنی مال کی زیادتی حاصل نہیں کرسکتا کفار کی دنیوی ترقی اور مال و دولت کی فراوانی ان کے کفر کا نتیجہ نہیں بلکہ کفار نے جب آخرت کی فکر چھوڑ دی اور پوری طرح دنیا کے مال و دولت اور عیش و آرام کی فکر میں لگ گئے تجارت، صنعت، زراعت اور حکومت وسیاست کے مفید راستوں کو اختیار کیا مضر طریقوں سے بچے تو دنیا میں ترقی حاصل کرلی اگر وہ بھی ہماری طرح صرف اپنے اپنے مذہب کا نام لے کر بیٹھ جاتے اور دنیوی ترقی کے لئے اس کے اصول کے مطابق جدوجہد نہ کرتے تو ان کا کفران کو مال و دولت یا حکومت کا مالک نہ بنا دیتا پھر ہم یہ کیسے سمجھ لیں کہ ہمارا سلام اور وہ بھی صرف نام کا ہماری ساری فتوحات کے دروازے کھول دے گا ؟ اسلام و ایمان اگر بالکل صحیح اصول پر بھی ہو تو اس کا اصلی خاصہ اور نتیجہ نجات آخرت اور جنت کی دائمی راحت ہے دنیا میں مال و دولت کی فراوانی یا عیش و آرام کی وسعت اس کے نتیجہ میں حاصل ہونا ضروری نہیں جب تک اس کے لئے اس کے مناسب جدوجہد نہ کی جائے، اور یہ بات تجربہ سے ثابت ہے کہ جہاں کہیں اور جب کوئی مسلمان تجارت وصنعت، حکومت وسیاست کے اصول صحیحہ کو سیکھ کر ان پر عمل پیرا ہوجاتا ہے تو وہ بھی ان دنیوی ثمرات و نتائج سے محروم نہیں رہتا جو کسی کافر کو حاصل ہورہے ہیں، اس سے واضح ہوا کہ دنیا میں ہمارا افلاس و احتیاج اور مصائب وآفات ہمارے اسلام کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک طرف اسلامی اخلاق و اعمال چھوڑنے کا اور دوسری طرف ان تمام کاموں سے منہ موڑنے کا نتیجہ ہے جن کے عمل میں لانے سے مال و دولت میں زیادتی ہوا کرتی ہے، افسوس ہے کہ ہمیں جب یورپ والوں کے ساتھ اختلاط کا اتفاق پیش آیا تو ہم نے ان سے صرف ان کا کفر اور آخرت سے غفلت اور بےحیائی وبداخلاقی تو سب سیکھ لی لیکن ان کے وہ اعمال نہ سیکھے جن کی وجہ سے وہ دنیا میں کامیاب نظر آتے ہیں جس مقصد کے لئے کھڑے ہوں اس کے پیچھے ان تھک کوشش معاملہ کی سچائی بات کی سچائی اور دنیا میں اثر رسوخ حاصل کرنے کے نئے نئے طریقے جو درحقیقت اسلام ہی کی اصلی تعلیمات ہیں ہم نے ان کو دیکھ کر بھی اس کی نقل اتارنے کی کوشش نہ کی تو یہ قصور ہمارے اسلام کا ہے یا ہمارا اپنا قصور ہے، الغرض قرآن کی ان آیات نے واضح کردیا کہ محض نسلی طور پر اسلام کا نام رکھ لینا کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا سکتا جب تک ایمان اور عمل صالح کو مکمل طور پر اختیار نہ کیا جائے،