Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 111

سورة البقرة

وَ قَالُوۡا لَنۡ یَّدۡخُلَ الۡجَنَّۃَ اِلَّا مَنۡ کَانَ ہُوۡدًا اَوۡ نَصٰرٰی ؕ تِلۡکَ اَمَانِیُّہُمۡ ؕ قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۱۱﴾

And they say, "None will enter Paradise except one who is a Jew or a Christian." That is [merely] their wishful thinking, Say, "Produce your proof, if you should be truthful."

یہ کہتے ہیں کہ جنت میں یہود و نصاریٰ کے سوا اور کوئی نہ جائے گا ، یہ صرف ان کی آرزوئیں ہیں ان سے کہو کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل تو پیش کرو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Hopes of the People of the Book Allah tells; وَقَالُواْ لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلاَّ مَن كَانَ هُوداً أَوْ نَصَارَى تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ ... And they say, "None shall enter Paradise unless he be a Jew or a Christian." These are their own desires. Allah made the confusion of the Jews and the Christians clear, since they claim that no one will enter Paradise, unless he is a Jew or a Christian. Similarly, Allah mentioned their claims in Surah Al-Ma'idah: نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاوُهُ We are the children of Allah and His loved ones. (5:18) Allah refuted this false claim and informed them that they will be punished because of their sins. Previously we mentioned their claim that the Fire would not touch them for more than a few days, after which they would be put in Paradise. Allah rebuked this claim, and He said about this baseless claim, تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ (These are their own desires). Abu Al-Aliyah commented, "These are wishes that they wished Allah would answer, without basis." Similar was stated by Qatadah and Ar-Rabi bin Anas. Allah then said, ... قُلْ ... Say, meaning, "Say O Muhammad:" ... هَاتُواْ بُرْهَانَكُمْ ... "Produce your Burhan..." Abu Al-Aliyah, Mujahid, As-Suddi and Ar-Rabi bin Anas stated, meaning, "Your proof." Qatadah said that the Ayah means, "Bring the evidence that supports your statement. ... إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ if you are truthful, (in your claim)." Allah then said,

شیطان صفت مغرور یہودی یہاں پر یہودیوں اور نصرانیوں کے غرور کا بیان ہو رہا ہے کہ وہ اپنے سوا کسی کو کچھ بھی نہیں سمجھتے اور صاف کہتے ہیں کہ ہمارے سوا جنت میں کوئی نہیں جائے گا سورۃ مائدہ میں ان کا ایک قول یہ بھی بیان ہوا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اولاد اور اس کے محبوب ہیں جس کے جواب میں قرآن نے کہا کہ پھر تم پر قیامت کے دن عذاب کیوں ہو گا ؟ اسی طرح کے مفہوم کا بیان پہلے بھی گزرا ہے کہ ان کا دعویٰ یہ بھی تھا کہ ہم چند دن جہنم میں رہیں گے جس کے جواب میں ارشاد باری ہوا کہ یہ دعویٰ بھی محض بےدلیل ہے اسی طرح یہاں ان کے ایک دعویٰ کی تردید کی اور کہا کہ لاؤ دلیل پیش کرو ، انہیں عاجز ثابت کر کے پھر فرمایا کہ ہاں جو کوئی بھی اللہ کا فرمانبردار ہو جائے اور خلوص و توحید کے ساتھ نیک عمل کرے اسے پورا پورا اجر و ثواب ملے گا ، جیسے اور جگہ فرمایا کہ یہ اگر جھگڑیں تو ان سے کہ دو کہ میں اور میرے ماننے والوں نے اپنے چہرے اللہ کے سامنے متوجہ کر دیئے ہیں ۔ غرض یہ ہے کہ اخلاص اور مطابقت سنت ہر عمل کی قبولیت کے لئے شرط ہے تو اسلم وجھہ سے مراد خلوص اور وھو محسن سے مراد اتباع سنت ہے نرا خلوص بھی عمل کو قمبول نہیں کرا سکتا جب تک سنت کی تابعداری نہ ہو حدیث شریف میں ہے جو شخص ایسا عمل کرے جس پر ہمارا حکم نہ ہو وہ مردود ہے ( مسلم ) پس رہبانیت کا عمل گو خلوص پر مبنی ہو لیکن تاہم اتباع سنت نہ ہونے کی وجہ سے وہ مردود ہے ایسے ہی اعمال کی نسبت قرآن کریم کا ارشاد ہے آیت ( وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰهُ هَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا ) 25 ۔ الفرقان:23 ) یعنی انہوں نے جو اعمال کئے تھے ہم نے سب رد کر دیئے دوسری جگہ فرمایا کافروں کے اعمال ریت کے چمکیلے تودوں کی طرح ہیں جنہیں پیاسا پانی سمجھتا ہے لیکن جب اس کے پاس جاتا ہے تو کچھ نہیں پاتا اور جگہ ہے کہ قیامت کے دن بہت سے چہروں پر ذلت برستی ہو گی جو عمل کرنے والے تکلیفیں اٹھانے والے ہوں گے اور بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے اور گرم کھولتا ہوا پانی انہیں پلایا جائے گا ۔ حضرت امیر المومنین عمر بن خطاب نے اس آیت کی تفسیر میں مراد یہود و نصاریٰ کے علماء اور عابد لئے ہیں یہ بھی یاد رہے کہ کوئی عمل گو بظاہر سنت کے مطابق ہو لیکن عمل میں اخلاص نہ ہو مقصود اللہ کی خوشنودی نہ ہو تو وہ عمل بھی مردود ہے ریا کار اور منافق لوگوں کے اعمال کا بھی یہی حال ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ منافق اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں اور وہ انہیں دھوکہ دیتا ہے اور نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سستی سے کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے عمل کرتے ہیں اور اللہ کا ذکر بہت ہی کم کرتے ہیں اور فرمایا آیت ( فویل للمصلین ) ان نمازیوں کے لئے ویل ہے جو اپنی نماز سے غافل ہیں جو ریاکاری کرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی روکتے پھرتے ہیں اور جگہ ارشاد ہے آیت ( فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖٓ اَحَدًا ) 18 ۔ الکہف:110 ) جو شخص اپنے رب کی ملاقات کا آرزو مند ہو اسے نیک عمل کرنا چاہئے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا چاہئے پھر فرمایا انہیں ان کا رب اجر دے گا اور ڈر خوف سے بچائے گا آخرت میں انہیں ڈر نہیں اور دنیا کے چھوڑنے کا ملال نہیں ۔ پھر یہود و نصاریٰ کی آپس کی بغض و عداوت کا ذکر فرمایا ، نجران کے نصرانیوں کا وفد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو ان کے پاس یہودیوں کے علماء بھی آئے اس وقت ان لوگوں نے انہیں اور انہوں نے ان کو گمراہ بتایا حالانکہ دونوں اہل کتاب ہیں توراۃ میں انجیل کی تصدیق اور انجیل میں توراۃ کی تصدیق موجود ہے پھر ان کا یہ قول کس قدر لغو ہے ، اگلے یہود و نصاریٰ دین حق پر قائم تھے لیکن پھر بدعتوں اور فتنہ پردازیوں کی وجہ سے دین ان سے چھن گیا اب نہ یہود ہدایت پر تھے نہ نصرانی پھر فرمایا کہ نہ جاننے والوں نے بھی اسی طرح کہا اس میں بھی اشارہ انہی کی طرف ہے اور بعض نے کہا مراد اس سے یہود و نصاریٰ سے پہلے کے لوگ ہیں ۔ بعض کہتے ہیں عرب لوگ مراد ہیں امام ابن جریر اس سے عام لوگ مراد لیتے ہیں گویا سب شامل ہیں اور یہی ٹھیک بھی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ پھر فرمایا کہ اختلاف کا فیصلہ قیامت کو خود اللہ تعالیٰ کرے گا جس دن کوئی ظلم و زور نہیں ہو گا اور یہی مضمون دوسری جگہ بھی آیا ہے سورۃ حج میں ارشاد ہے آیت ( اِنَّ اللّٰهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ) 22 ۔ الحج:17 ) یعنی مومنوں اور یہودیوں اور صابیوں اور نصرانیوں اور مجوسیوں اور مشرکوں میں قیامت کے دن اللہ فیصلہ فرمائے گا اللہ تعالیٰ ہر چیز پر گواہ اور موجود ہے اور جگہ ارشاد ہے آیت ( قُلْ يَجْمَعُ بَيْـنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَـحُ بَيْـنَنَا بِالْحَقِّ ۭ وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِـيْمُ ) 34 ۔ سبأ:26 ) کہہ دے کر ہمارا رب ہمیں جمع کرے گا پھر حق کے ساتھ فیصلہ کرے گا وہ باخبر فیصلے کرنے والا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

111۔ 1 یہاں اہل کتاب کے اس غرور اور فریب نفس کو پھر بیان کیا جا رہا ہے جس میں وہ مبتلا تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ محض ان کی آرزوئیں ہیں جن کے لئے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

آیت میں ایک لمبی بات مختصر کردی گئی ہے، یعنی یہودیوں نے کہا جنت میں ہرگز داخل نہیں ہوں گے مگر جو یہودی ہوں گے اور نصاریٰ نے کہا کہ جنت میں ہرگز داخل نہیں ہوں گے مگر جو نصاریٰ ہوں گے، کیونکہ ان میں سے کوئی فریق بھی دوسرے کے جنت میں جانے کا عقیدہ نہیں رکھتا تھا۔ فرمایا، یہ ان کی آرزوئیں ہی ہیں، حقیقت سے ان کا کچھ تعلق نہیں۔ اگر یہ سچے ہیں تو اپنی دلیل پیش کریں۔ رازی (رض) نے فرمایا، اس آیت سے ثابت ہوا کہ کوئی بھی دعویٰ کرنے والا، خواہ نفی کا دعویٰ کرے یا اثبات کا، اس پر دلیل اور برہان پیش کرنا لازم ہے اور یہ تقلیداً کہی ہوئی بات کے باطل ہونے کی سب سے سچی اور پکی دلیل ہے۔ (کیونکہ تقلید نام ہی کسی بات کو بلا دلیل قبول کرنے کا ہے) ۔ (اَمَانِيُّھُمْ ) خبر معرفہ ہونے کی وجہ سے ترجمے میں ” ہی “ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ آج کل مسلمان بھی محض آرزوؤں اور خوش فہمیوں میں مبتلا ہیں، حالانکہ نام کا اسلام نہ دنیا میں عزت کا ضامن ہے نہ آخرت میں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Jews and the Christians were hostile not only to the Muslims, but also to each other. They had forgotten the essence of religion --that is, adherence to the true and authentic doctrines, and performance of good deeds as laid down by the Shari&ah -- and had identified it with a mere affiliation to a racial or social community. Each of the two groups claimed that it had the exclusive right to go to the Paradise, without having any argument to substantiate the claim. The Jews read the Torah, while the Christians read the Evangel, and they could have easily seen that the two Books confirm each other. Each party used to assert, in its malice, that the religion of the other was baseless. This gave an excuse to the mushrikin (associators) who, in spite of their ignorance, began to say the same of both the religions. The Holy Qur&an dismisses these pretensions as mere fancy and self-delusion. It declares that other people too will go to Paradise who have, in their time, been following the Shari&ah of their own prophet, and who, now that the Holy Qur&an also has abrogated all the earlier Divine Books, follow the Islamic Shari&ah. Verse 112 lays down the general principle in this respect, which is accepted by the followers of all the Divine Books. The essence of religion, whether it be Islam or Christianity or Judaism, lies in two things. (1) One should obey Allah in one&s belief as well as in one&s actions. (2) This obedience should not arise from expediency, but one should surrender oneself to divine commandments in all sincerity. Moreover, it is not enough to be worthy of Paradise merely to have a sincere intention to obey Allah, and then to invent, according to one&s own fancy, the modes and forms of obedience, for it is absolutely essential that the forms of worship and the modes of obedience should be no other than those which Allah Himself has appointed through the agency of His prophets -- it goes without saying that since the revelation of the Holy Qur&an this can only mean accepting and following the Islamic Shari&ah. We may add that in connection with the first of these two principles, the Holy Qur&an employs the Arabic word اَسلمَ : Aslama which signifies total submission to Allah, and in connection with the second word Muhsin محسن ، which signifies |"one who performs good deeds|" according to the Shari&ah. The differences between the Jews and the Christians In so far as these verses deal with the claims of the Jews and the Christians, the point of the argument is this:- Having laid down the two principles the acceptance of which makes one worthy of Paradise, the Holy Qur&an suggests that they should now try to find out who is really acting upon them. Obviously, one who keeps following an injunction even after it has been abrogated cannot be described as obedi¬ent, and hence the Jews and the Christians no longer deserve this ti¬tle. After the abrogation of an injunction, obedience consists in acting upon the new injunction which has replaced the earlier one. This con¬dition is now being fulfilled only by the Muslims who have accepted the latest and the last Prophet (رض) and his Shari&ah. Hence, they alone shall now be considered worthy of Paradise. The condition of one&s be¬ing sincere in one&s obedience excludes the hypocrites too, for the Sha-ri` ah counts them among the infidels, and thus assigns them to Hell. Verse 112 also announces the reward of those who act upon these principles -- on the Day of Judgment, they shall have nothing to fear, nor shall they grieve, as angels will give them good tidings. As for the debates among the Jews, the Christians and the associators, Verse 113 declares that Allah will Himself decide the question finally on the Day of Judgment. In fact, the question has already been settled on the basis of what Allah has revealed in His Books as well as on the basis of rational argument; the final decision on the Day of Judgment will be of the visible kind -- those who follow the Truth will be sent to Paradise, while those who go after falsehood will be cast down in Hell. These verses provide a warning to the Muslims as well, lest they too should delude themselves like the Jews and the Christians, and suppose that merely because they belong to the social community of Muslims and can, as such, claim to be Muslims, whereby they can dis¬pense with the need to obey Allah and to follow the Shari` ah, and yet receive the rewards Allah has promised to give to true Muslims. Even Muslims have no right to hope for these rewards until and unless they submit themselves totally, in thought and deed both, to the command¬ments of Allah and His Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) .

خلاصہ تفسیر : اور یہود نصاریٰ (یوں) کہتے ہیں کہ بہشت میں ہرگز کوئی نہ جانے پاوے گا بجز ان لوگوں کے جو یہودی ہوں (یہ تو یہود کا قول ہے) یا ان لوگوں کے جو نصرانی ہوں (یہ نصاریٰ کا قول ہے حق تعالیٰ ان کی تردید فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ) یہ (خالی) دل بہلانے کی باتیں ہیں (اور حقیقت کچھ بھی نہیں) آپ (ان سے یہ تو) کہیے کہ (اچھا) اپنی دلیل لاؤ اگر تم (اس دعوے میں) سچے ہو (سو وہ تو کیا دلیل لاویں گے کیونکہ کوئی دلیل ہے ہی نہیں اب ہم اس کے خلاف پہلے تو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ) ضرور دوسرے لوگ (بھی جنت میں) جاویں گے (پھر اس پر دلیل لاتے ہیں کہ ہمارا قانون جو باتفاق سماوی ملتوں کے ماننے والوں کے پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے یہ ہے کہ) جو کوئی شخص بھی اپنا رخ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکا دے (یعنی اعمال و عقائد میں فرمانبرداری اختیار کرے) اور (اس کے ساتھ) وہ مخلص بھی ہو (کہ فرمانبرداری دلی طور پر اختیار کی ہو محض مصلحت سے ظاہر داری نہ ہو) تو ایسے شخص کو اس (کی فرمانبرداری) کا عوض ملتا ہے پروردگار کے پاس پہنچ کر اور ایسے لوگوں پر (قیامت میں) نہ کوئی اندیشہ (ناک واقعہ پڑنے والا) ہے اور نہ ایسے لوگ (اس روز) مغموم ہونے والے ہیں (کیونکہ فرشتے ان کو بشارتیں سنا کر بےفکر کردیں گے) حاصل استدلال کا یہ ہوا کہ جب یہ قانون مسلم ہے تو اب صرف یہ دیکھ لو کہ یہ بات کس پر صادق آتی ہے ؟ سو ظاہر ہے کہ کسی حکم سابق کے منسوخ ہوجانے کے بعد اس پر عمل کرنے والا کسی بھی طور پر فرمانبردار نہیں کہلا سکتا لہذا یہود و نصاریٰ فرمانبردار نہ ہوئے بلکہ حکم ثانی پر عمل کرنا فرمانبرداری سمجھی جائے گی اور یہ شان مسلمانوں کی ہے کہ نبوت و شریعت محمدیہ کو قبول کرلیا چناچہ یہی جنت میں داخل ہونے والے شمار ہوئے، اور مخلصین کی قید سے منافقین نکل گئے (کیونکہ وہ بھی شرعاً کفار ہی میں داخل اور مستحق جہنم ہیں) اور (ایک بار کچھ یہودی اور کچھ نصرانی جمع ہو کر مذہبی مباحثہ کرنے لگے تو یہود تو اپنے عقیدہ کے موافق نصاریٰ کے دین کو باطل بتاتے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت اور انجیل کے کتاب اللہ ہونے کا انکار کرتے تھے مگر نصاریٰ بھی ضد وتعصب میں آکر دین یہود کو بےاصل و باطل کہنے لگے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت اور توریت کے کتاب اللہ ہونے کا انکار کرنے لگے اللہ تعالیٰ اس قصہ کو نقل فرما کر بطور تردید فرماتے ہیں کہ) یہود کہنے لگے کہ نصاریٰ (کا مذہب) کسی بنیاد پر (قائم) نہیں (یعنی سرے سے غلط ہے) اور اسی طرح نصاریٰ کہنے لگے کہ یہود (کا مذہب) کسی بنیاد پر (قائم) نہیں (یعنی سرے سے غلط ہے) حالانکہ یہ سب (فریقین کے لوگ آسمانی) کتابیں بھی پڑھتے (پڑھاتے) ہیں (یعنی یہودی توریت کو اور عیسائی انجیل کو پڑہتے اور دیکھتے ہیں اور دونوں کتابوں میں دونوں رسولوں اور دونوں کتابوں کی تصدیق موجود ہے جو کہ دونوں مذہبوں کی اصل بنیاد ہے گو منسوخ ہوجانے کی بنا پر قابل عمل نہ ہو یہ اور بات ہے) (اور اہل کتاب تو ایسے دعوے کرتے ہی تھے ان کی دیکھا دیکھی مشرکین کو بھی جوش آیا اور) اسی طرح سے یہ لوگ (بھی) جو کہ (محض) بےعلم ہیں ان (ہی اہل کتاب) کا سا قول دھرانے لگے (کہ ان یہود و نصاریٰ سب کا دین بےبنیاد ہے حق پر بس ہم ہی ہیں) سو (یہاں سب اپنی اپنی ہانک لیں) اللہ تعالیٰ ان سب کے درمیان (عملی) فیصلہ کردیں گے قیامت کے دن ان تمام مقدمات میں جن میں وہ باہم اختلاف کررہے تھے (اور وہ عملی فیصلہ یہ ہوگا کہ اہل حق کو جنت میں اور اہل باطل کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا عملی فیصلہ کی قید اس لئے لگائی کہ قولی اور برہانی فیصلہ تو عقلی اور نقلی دلائل کے ذریعہ دنیا میں بھی ہوچکا ہے) معارف و مسائل : ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کے باہمی اختلافات اور ایک دوسرے پر رد کا ذکر فرما کر ان کی نادانی اور اس اختلاف کے مضر اثرات کا بیان پھر اصل حقیقت کا اظہار فرمایا ہے ان تمام واقعات میں مسلمانوں کے لئے بڑی اہم ہدایات ہیں جن کا بیان آگے آتا ہے، یہود و نصاریٰ دونوں نے دین کی اصل حقیقت کو فرمواش کرکے مذہب کے نام پر ایک قومیت بنالی تھی اور ان میں سے ہر ایک اپنی ہی قوم کے جنتی اور مقبول ہونے اور اپنے سوا تمام اقوام عالم کے دوزخی اور گمراہ ہونے کا معتقد تھا، اس نامعقول اختلافات کا نتیجہ یہ نکلا کہ مشرکین کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ عیسائیت بھی بےبنیاد اور یہودیت بھی بےاصل حق و صحیح بس ہماری بت پرستی ہے، حق تعالیٰ نے ان دونوں قوموں کی جہالت و گمراہی کے متعلق فرمایا کہ یہ دونوں قومیں جنت میں جانے کے اصل سبب سے غافل ہیں محض مذہب کے نام کی قومیت کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں حقیقت یہ ہے کہ مذہب یہود ہو یا نصاریٰ یا اسلام ان سب کی اصل روح دو چیزیں ہیں ؛ ایک یہ کہ بندہ دل وجان سے اپنے آپ کو خدا کے سپرد کردے اس کی اطاعت و فرمانبرداری کو اپنا عقیدہ و مذہب سمجھے چاہے یہ کسی مذہب میں حاصل ہو حقیقت دین و مذہب کو فراموش کرکے یا پس پشت ڈال کر یہودی یا نصرانی قومیت کو اپنا مقصد بنا لینا دین و مذہب سے ناواقفیت اور گمراہی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ جنت میں جانے کے لئے صرف یہ بھی کافی نہیں کہ کوئی آدمی اپنے دل سے خدا کی فرمانبرداری کا قصد تو درست کرلے مگر اطاعت فرمانبرداری اور عبادت کے طریقے اپنے ذہن و خیال کے مطابق خود گھڑلے بلکہ یہ ضروری ہے کہ عبادت و اطاعت اور امتثال امر کے طریقے بھی وہی اختیار کرے جو خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کے ذریعے بتائے اور متعین کئے ہوں، پہلی بات بَلٰي ۤمَنْ اَسْلَمَ کے ذریعے اور دوسری وَھُوَ مُحْسِنٌ کے ذریعے واضح کی گئی ہے جس سے معلوم ہوا کہ نجات اخروی اور دخول جنت کے لئے صرف اطاعت کافی نہیں بلکہ حسن عمل بھی ضروری ہے اور حسن عمل کا مصداق وہی تعلیم وطریقہ ہے جو قرآن اور سنت رسول خیر الانام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطابق ہو۔ نسلی مسلمان ہو یا یہودی و نصرانی اللہ کے یہاں اس کی کوئی قیمت نہیں اصل چیز ایمان اور عمل صالح ہے : جو شخص ان بنیادی اصولوں میں سے کسی بھی اصول کو چھوڑ دے خواہ یہودی ہو یا نصرانی یا مسلمان اور پھر محض نام کی قومیت کے زعم میں اپنے آپ کو جنت کا ٹھیکہ دار سمجھ لے تو یہ صرف اس کی خود فریبی ہے جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی بھی ان ناموں کا سہارا لے کر قریب نہیں ہوسکتا نہ مقبول بن سکتا ہے جب تک اس میں ایمان وعمل صالح کی روح موجود نہ ہو، پھر اصول ایمان تو ہر رسول اور ہر شریعت کے زمانے میں مشترک و یکساں رہے ہیں البتہ عمل صالح و مقبول کی شکلیں کچھ ادلتی بدلتی رہی ہیں تورات کے زمانے میں عمل صالح وہ سمجھا گیا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور جو تورات کی تعلیم کے مطابق تھا انجیل کے دور میں عمل صالح یقیناً وہی عمل تھا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور انجیل کی تعلیم کے مطابقت رکھتا تھا اور اب قرآن کے زمانے میں وہی عمل صالح کہے جانے کا مستحق ہوگا جو نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان اور ان کی لائی ہوئی اللہ کی کتاب قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق ہوگا، خلاصہ کلام یہ کہ یہود و نصاریٰ کے اس اختلاف کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ دونوں قومیں جہالت کی باتیں کر رہی ہیں دونوں میں سے کوئی بھی جنت کا ٹھیکہ دار نہیں اور نہ ہی دونوں کے مذہب بےبنیاد اور بےاصل ہیں بلکہ دونوں مذہبوں کی صحیح بنیاد موجود ہے غلط فہمی کا سبب اصلی یہ ہے کہ انہوں نے مذہب وملت کی اصل روح یعنی عقائد و اعمال اور نظریات کو چھوڑ کر نسلی یا وطنی بنیاد پر کسی قوم کو یہود ٹھہرا لیا اور کسی کو نصرانی سمجھ لیا، جو یہود کی نسل سے ہو یا یہود کے شہر میں بستا ہو یا مردم شماری میں اپنے آپ کو یہودی بتانا ہو اس کو یہود سمجھ لیا گیا اسی طرح نصرانیوں کی تشخیص و تعیین کی گئی حالانکہ اصول ایمان کو توڑ کر اور اعمال صالحہ سے منہ موڑ کر نہ کوئی یہودی رہتا ہے نہ نصرانی۔ قرآن کریم میں اس اختلاف اور اس فیصلہ کا ذکر مسلمانوں کو سنانے اور متنبہ کرنے کے لئے ہے کہ کہیں وہ بھی اس قسم کی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجائیں کہ ہم تو پشتی مسلمان ہیں ہر دفتر و رجسڑ میں ہمارا نام مسلمان کے خانے میں درج ہے اور ہم زبان سے بھی اپنے کو مسلمان ہی کہتے ہیں اس لئے جنت کے نیز ان تمام انعامی وعدوں کے ہم ہی مستحق ہیں جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے مسلمانوں سے کئے گئے، اس فیصلہ سے ان پر واضح ہوجانا چاہے کہ کوئی شخص نہ محض دعوے سے حقیقی مسلمان بنتا ہے نہ کہیں مسلمان نام درج کرانے یا مسلمان کی صلب سے یا ان کے شہر میں پیدائش ہونے کی وجہ سے بلکہ مسلمان ہونے کے لئے اول اسلام ضروری ہے اور اسلام کے معنی ہی اپنے آپ کو سپرد کرنے اور سونپ دینے کے ہیں دوسرے احسان عمل یعنی سنت کے مطابق عمل کو درست کرنا، لیکن قرآن کریم کی اس تنبیہ کے باوجود بہت سے مسلمان اسی یہودی اور نصرانی غلطی کا شکار ہوگئے کہ خدا و رسول اور آخرت و قیامت سے بالکل غافل رہ کر اپنا نسلی مسلمان ہونا مسلمان ہونے کے لئے کافی سمجھنے لگے اور قرآن و حدیث میں جو وعدے فلاح دنیا وآخرت کے مسلمانوں سے کئے گئے ہیں اپنے آپ کو ان کا مستحق سمجھ کر ان کے پورے ہونے کا انتظار کرنے لگے اور جب وہ پورے ہوتے نظر نہیں آتے تو قرآن و حدیث کے وعدوں میں شک کرنے لگے اس کو نہیں دیکھتے کہ قرآن نے محض نسلی مسلمانوں سے کوئی وعدہ نہیں کیا جب تک وہ اپنے تمام ارادوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع نہ کردیں اور ان کے بتلائے ہوئے طریقوں پر عمل صالح کے پابند نہ ہوں یہی خلاصہ ہے آیت مذکورہ بَلٰيۤ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَھُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗٓ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْن کا آج کل پوری دنیا کے مسلمان طرح طرح کے مصائب وآفات کا شکار ہیں اس کو دیکھ کر بہت سے ناواقف لوگوں کو یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ شاید ان آفات و مصائب کا سبب ہمارا اسلام ہی ہے لیکن مذکورہ تحریر سے واضح ہوگیا کہ اس کا اصلی سبب ہمارا اسلام نہیں بلکہ ترک اسلام ہے کہ ہم نے اسلام کو صرف نام باقی رکھا ہے نہ اس کے عقائد ہمارے اندر ہیں نہ اخلاق، نہ اعمال، گویا، وضع میں ہم ہیں نصاریٰ تو تمدن میں ہنود پھر ہمیں کیا حق ہے کہ اسلام اور مسلم کے لئے کئے ہوئے وعدوں اور انعاموں کا ہم انتظار کریں، البتہ یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ ہم کچھ بھی سہی نام تو اسلام کا لیتے ہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام لیوا تو ہیں اور جو کفار کھلے طور پر اللہ و رسول کی مخالفت کرتے ہیں اسلام کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتے وہ تو آج دنیا میں ہر طرح کی ترقی کررہے ہیں بڑی بڑی حکومتوں کے مالک بنے ہوئے ہیں دنیا کی صنعتوں اور تجارتوں کے ٹھیکہ دار بنے ہوئے ہیں اگر ہماری بدعملی کی ہمیں یہ سزا مل رہی ہے کہ ہم ہر جگہ پامال و پریشان ہیں تو کفار و فجار کو اس سے زیادہ سزا ملنی چاہیے لیکن اگر ذرا غور سے کام لیا جائے تو یہ شبہ خود بخود رفع ہوجائے گا، اول تو اس لئے کہ دوست اور دشمن کے ساتھ معاملہ یکساں نہیں ہوا کرتا دوست کو قدم قدم اور بات بات پر ٹوکا جاتا ہے اولاد اور شاگرد کو ذرا ذرا سی بات پر سزا دی جاتی ہے لیکن دشمن کے ساتھ یہ سلوک نہیں ہوتا اس کی ڈھیل دی جاتی ہے اور وقت آنے پر دفعۃ پکڑ لیا جاتا ہے، مسلمان جب تک ایمان واسلام کا نام لیتا ہے اور اللہ کی عظمت و محبت کا دم بھرتا ہے، وہ دوستوں کی فہرست میں داخل ہے اس کے برے اعمال کی سزا عموما دنیا ہی میں دے دیجاتی ہے تاکہ آخرت کا بار ہلکا ہوجائے بخلاف کافر کے کہ اس پر باغیوں اور دشمنوں کا قانون جاری ہے دنیا کی ہلکی ہلکی سزاؤں سے ان کا بار عذاب ہلکا نہیں کیا جاتا ان کو یک لخت عذاب میں پکڑا جائے گا، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد گرامی کا یہی مطلب ہے کہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے، دوسری اہم بات مسلمانوں کے تنزل اور پریشانی اور کفار کی ترقی و آرام کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر عمل کا جداگانہ خاصہ رکھا ہے ایک عمل کرنے سے دوسرے عمل کے خواص حاصل نہیں ہوسکتے مثلاً تجارت کا خاصہ ہے مال میں زیادتی دوا کا خاصہ ہے بدن کی صحت اب اگر کوئی شخص تجارت میں تو دن رات لگا رہے بیماری اور اس کے علاج کی طرف توجہ نہ دے تو محض تجارت کے سبب وہ بیماری سے نجات نہیں پاسکتا اسی طرح دوا دارو کا استعمال کرکے تجارت کا خاصہ یعنی مال کی زیادتی حاصل نہیں کرسکتا کفار کی دنیوی ترقی اور مال و دولت کی فراوانی ان کے کفر کا نتیجہ نہیں بلکہ کفار نے جب آخرت کی فکر چھوڑ دی اور پوری طرح دنیا کے مال و دولت اور عیش و آرام کی فکر میں لگ گئے تجارت، صنعت، زراعت اور حکومت وسیاست کے مفید راستوں کو اختیار کیا مضر طریقوں سے بچے تو دنیا میں ترقی حاصل کرلی اگر وہ بھی ہماری طرح صرف اپنے اپنے مذہب کا نام لے کر بیٹھ جاتے اور دنیوی ترقی کے لئے اس کے اصول کے مطابق جدوجہد نہ کرتے تو ان کا کفران کو مال و دولت یا حکومت کا مالک نہ بنا دیتا پھر ہم یہ کیسے سمجھ لیں کہ ہمارا سلام اور وہ بھی صرف نام کا ہماری ساری فتوحات کے دروازے کھول دے گا ؟ اسلام و ایمان اگر بالکل صحیح اصول پر بھی ہو تو اس کا اصلی خاصہ اور نتیجہ نجات آخرت اور جنت کی دائمی راحت ہے دنیا میں مال و دولت کی فراوانی یا عیش و آرام کی وسعت اس کے نتیجہ میں حاصل ہونا ضروری نہیں جب تک اس کے لئے اس کے مناسب جدوجہد نہ کی جائے، اور یہ بات تجربہ سے ثابت ہے کہ جہاں کہیں اور جب کوئی مسلمان تجارت وصنعت، حکومت وسیاست کے اصول صحیحہ کو سیکھ کر ان پر عمل پیرا ہوجاتا ہے تو وہ بھی ان دنیوی ثمرات و نتائج سے محروم نہیں رہتا جو کسی کافر کو حاصل ہورہے ہیں، اس سے واضح ہوا کہ دنیا میں ہمارا افلاس و احتیاج اور مصائب وآفات ہمارے اسلام کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک طرف اسلامی اخلاق و اعمال چھوڑنے کا اور دوسری طرف ان تمام کاموں سے منہ موڑنے کا نتیجہ ہے جن کے عمل میں لانے سے مال و دولت میں زیادتی ہوا کرتی ہے، افسوس ہے کہ ہمیں جب یورپ والوں کے ساتھ اختلاط کا اتفاق پیش آیا تو ہم نے ان سے صرف ان کا کفر اور آخرت سے غفلت اور بےحیائی وبداخلاقی تو سب سیکھ لی لیکن ان کے وہ اعمال نہ سیکھے جن کی وجہ سے وہ دنیا میں کامیاب نظر آتے ہیں جس مقصد کے لئے کھڑے ہوں اس کے پیچھے ان تھک کوشش معاملہ کی سچائی بات کی سچائی اور دنیا میں اثر رسوخ حاصل کرنے کے نئے نئے طریقے جو درحقیقت اسلام ہی کی اصلی تعلیمات ہیں ہم نے ان کو دیکھ کر بھی اس کی نقل اتارنے کی کوشش نہ کی تو یہ قصور ہمارے اسلام کا ہے یا ہمارا اپنا قصور ہے، الغرض قرآن کی ان آیات نے واضح کردیا کہ محض نسلی طور پر اسلام کا نام رکھ لینا کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا سکتا جب تک ایمان اور عمل صالح کو مکمل طور پر اختیار نہ کیا جائے،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْا لَنْ يَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ كَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى۝ ٠ ۭ تِلْكَ اَمَانِيُّھُمْ۝ ٠ ۭ قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝ ١١١ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ هَادَ ( یہودی) فلان : إذا تحرّى طریقة الْيَهُودِ في الدّين، قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا [ البقرة/ 62] والاسم العلم قد يتصوّر منه معنی ما يتعاطاه المسمّى به . أي : المنسوب إليه، ثم يشتقّ منه . نحو : قولهم تفرعن فلان، وتطفّل : إذا فعل فعل فرعون في الجور، وفعل طفیل في إتيان الدّعوات من غير استدعاء، وتَهَوَّدَ في مشيه : إذا مشی مشیا رفیقا تشبيها باليهود في حركتهم عند القراءة، وکذا : هَوَّدَ الرّائض الدابّة : سيّرها برفق، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام . الھود کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرنا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا[ البقرة/ 62] ہم تیری طرف رجوع ہوچکے بعض نے کہا ہے لفظ یہود بھی سے ماخوذ ہے یہ اصل میں ان کا تعریفی لقب تھا لیکن ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد ان پر بطور علم جنس کے بولا جاتا ہے نہ کہ تعریف کے لئے جیسا کہ لفظ نصارٰی اصل میں سے ماخوذ ہے پھر ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد انہیں اسی نام سے اب تک پکارا جاتا ہے ھاد فلان کے معنی یہودی ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانْهارَ بِهِ فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة/ 109] جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی کیونکہ کبھی اسم علم سے بھی مسمی ٰ کے اخلاق و عادات کا لحاظ کر کے فعل کا اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا ایک شخص فرعون کی طرح ظلم وتعدی کرتا ہے تو اس کے کے متعلق تفر عن فلان کہ فلان فرعون بنا ہوا ہے کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اسہ طرح تطفل فلان کے معنی طفیلی یعنی طفیل نامی شخص کی طرح بن بلائے کسی کا مہمان بننے کے ہیں ۔ تھودا فی مشیہ کے معنی نرم رفتاری سے چلنے کے ہیں اور یہود کے تو راۃ کی تلاوت کے وقت آہستہ آہستہ جھومنے سے یہ معنی لئے کئے ہیں ۔ ھو دا لرائض الدبۃ رائض کا سواری کو نر می سے چلانا ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔ نَّصَارَى وَالنَّصَارَى قيل : سُمُّوا بذلک لقوله : كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف/ 14] ، وقیل : سُمُّوا بذلک انتسابا إلى قرية يقال لها : نَصْرَانَةُ ، فيقال : نَصْرَانِيٌّ ، وجمْعُه نَصَارَى، قال : وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاری الآية [ البقرة/ 113] ، ونُصِرَ أرضُ بني فلان . أي : مُطِرَ «1» ، وذلک أنَّ المطَرَ هو نصرةُ الأرضِ ، ونَصَرْتُ فلاناً : أعطیتُه، إمّا مُسْتعارٌ من نَصْرِ الأرض، أو من العَوْن . اور بعض کے نزدیک عیسائیوں کو بھی نصاری اس لئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے نحن انصار اللہ کا نعرہ لگا دیا تھا ۔ چناچہ قران میں ہے : ۔ كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف/ 14] جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) بن مر یم نے حواریوں سے کہا بھلا کون ہے جو خدا کی طرف بلانے میں میرے مددگار ہوں تو حوراریوں نے کہا ہم خدا کے مددگار ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ نصرانی کی جمع ہے جو نصران ( قریہ کا نام ) کی طرف منسوب ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاریالآية [ البقرة/ 113] یہود کہتے ہیں کہ عیسائی رستے پر نہیں ۔ نصر ارض بنی فلان کے معنی بارش بر سنے کے ہیں کیونکہ بارش سے بھی زمین کی مدد ہوتی ہے اور نصرت فلانا جس کے معنی کسی کو کچھ دینے کے ہیں یہ یا تو نصر الارض سے مشتق ہے اور یا نصر بمعنی عون سے ۔ تَّمَنِّي : تقدیر شيء في النّفس وتصویره فيها، وذلک قد يكون عن تخمین وظنّ ، ويكون عن رويّة وبناء علی أصل، لکن لمّا کان أكثره عن تخمین صار الکذب له أملك، فأكثر التّمنّي تصوّر ما لا حقیقة له . قال تعالی: أَمْ لِلْإِنْسانِ ما تَمَنَّى [ النجم/ 24] ، فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ [ البقرة/ 94] ، وَلا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَداً [ الجمعة/ 7] والأُمْنِيَّةُ : الصّورة الحاصلة في النّفس من تمنّي الشیء، ولمّا کان الکذب تصوّر ما لا حقیقة له وإيراده باللفظ صار التّمنّي کالمبدإ للکذب، فصحّ أن يعبّر عن الکذب بالتّمنّي، وعلی ذلک ما روي عن عثمان رضي اللہ عنه :( ما تغنّيت ولا تَمَنَّيْتُ منذ أسلمت) «1» ، وقوله تعالی: وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتابَ إِلَّا أَمانِيَّ [ البقرة/ 78] قال مجاهد : معناه : إلّا کذبا «2» ، وقال غيره إلّا تلاوة مجرّدة عن المعرفة . من حيث إنّ التّلاوة بلا معرفة المعنی تجري عند صاحبها مجری أمنيّة تمنیتها علی التّخمین، وقوله : وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلَّا إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ [ الحج/ 52] أي : في تلاوته، فقد تقدم أنّ التّمنّي كما يكون عن تخمین وظنّ فقد يكون عن رويّة وبناء علی أصل، ولمّا کان النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم کثيرا ما کان يبادر إلى ما نزل به الرّوح الأمين علی قلبه حتی قيل له : لا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ [ طه/ 114] ، ولا تُحَرِّكْ بِهِ لِسانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ [ القیامة/ 16] سمّى تلاوته علی ذلک تمنّيا، ونبّه أنّ للشیطان تسلّطا علی مثله في أمنيّته، وذلک من حيث بيّن أنّ «العجلة من الشّيطان» «3» . وَمَنَّيْتَني كذا : جعلت لي أُمْنِيَّةً بما شبّهت لي، قال تعالیٰ مخبرا عنه : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] . ۔ التمنی کے معنی دل میں کسی خیال کے باندھے اور اس کی تصویرکھنیچ لینے کے ہیں پھر کبھی یہ تقدیر محض ظن وتخمین پر مبنی بر حقیقت مگر عام طور پر تمنی کی بنا چونکہ ظن وتحمین پر ہی ہوتی ہے اس لئے ا س پر جھوٹ کا رنگ غالب ہوتا ہے ۔ کیونکہ اکثر طور پر تمنی کا لفظ دل میں غلط آرزو میں قائم کرلینے پر بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لِلْإِنْسانِ ما تَمَنَّى [ النجم/ 24] کیا جس چیز کی انسان آرزو کرتا ہے وہ اسے ضرور ملتی ہے ۔ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ [ البقرة/ 94] تو موت کی آرزو تو کرو ۔ وَلا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَداً [ الجمعة/ 7] اور یہ ہر گز نہیں کریں گے ۔ الامنیۃ کسی چیز کی تمنا سے جو صورت ذہن میں حاصل ہوتی ہے اسے امنیۃ کہا جاتا ہے ۔ اور کزب چونکہ کسی وغیرہ واقعی چیز کا تصور کر کے اسے لفظوں میں بیان کردینے کو کہتے ہیں تو گویا تمنی جھوت کا مبدء ہے مہذا جھوٹ کو تمنی سے تعبیر کر نا بھی صحیح ہے اسی معنی میں حضرت عثمان (رض) کا قول ہے ۔ ماتغنیت ولا منذ اسلمت کہ میں جب سے مسلمان ہوا ہوں نہ راگ گایا ہے اور نہ جھوٹ بولا ہے اور امنیۃ کی جمع امانی آتی ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتابَ إِلَّا أَمانِيَّ [ البقرة/ 78] اور بعض ان میں ان پڑھ ہیں کہ اپنے خیالات باطل کے سوا ( خدا کی ) کتاب سے واقف نہیں ہیں ۔ مجاہد نے الا امانی کے معنی الا کذبا یعنی جھوٹ کئے ہیں اور دوسروں نے امانی سے بےسوچے سمجھے تلاوت کرنا مراد لیا ہے کیونکہ اس قسم کی تلاوت بھی اس منیۃ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی ہے جس کی بنا تخمینہ پر ہوتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلَّا إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ [ الحج/ 52] اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر اس کا یہ حال تھا کہ ) جب وہ کوئی آرزو کرتا تھا تو شیطان اس کی آروزو میں ( وسوسہ ) ڈال دیتا تھا ۔ میں امنیۃ کے معنی تلاوت کے ہیں اور پہلے بیان ہوچکا ہے کہ تمنی ظن وتخمین سے بھی ہوتی ہے ۔ اور مبنی بر حقیقت بھی ۔ اور چونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک پر روح الامین جو وحی لے کر اترتے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی تلاوت کے لئے مبا ورت کرتے تھے حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آیت لا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ [ طه/ 114] اور ولا تُحَرِّكْ بِهِ لِسانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ [ القیامة/ 16] کے ذریعہ منع فرما دیا گیا ۔ الغرض اس وجہ سے آپ کی تلاوت کو تمنی سے موسوم کیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ ایسی تلاوت میں شیطان کا دخل غالب ہوجاتا ہے اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا ہے ان العا جلۃ من الشیطان کہ جلد بازی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے منیتی کذا کے معنی فریب وہی سے جھوٹی امید دلانے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن نے شیطان کے قول کی حکایت کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] اور ان کو گمراہ کرتا ۔ اور امید دلاتا رہوں گا ۔ هيت هَيْتَ : قریب من هلمّ ، وقرئ : هَيْتَ لَكَ : أي : تهيّأت لك، ويقال : هَيْتَ به وتَهَيَّتْ : إذا قالت : هَيْتَ لك . قال اللہ تعالی: وَقالَتْ هَيْتَ لَكَ [يوسف/ 23] . يقال : هَاتِ ، وهَاتِيَا، وهَاتُوا . قال تعالی: قُلْ هاتُوا بُرْهانَكُمْ [ البقرة/ 111] قال الفرّاء : ليس في کلامهم هاتیت، وإنما ذلک في ألسن الحیرةقال : ولا يقال لا تهات . وقال الخلیل : المُهَاتَاةُ والهتاءُ مصدر هات . ( ھ ی ت ) ھیت ( ھ ی ت ) ھیت اور ھلم کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں اور آیت وقالتْ هَيْتَ لَكَ [يوسف/ 23] کہنے لگی ( یوسف ) چلاآؤ ۔ میں ایک قرات ھیت لک بھی ہے جس کے معنی تھیات لک کے ہیں ییعنی میں تیرے لئے تیار ہوں اور ھیت بہ وتھیت کے معنی ھیت لک کہنے کے ہیں ھات ( اسم فعل ) لاؤ تثنیہ اور جمع کے لئے ھائتا وھا تو ا ۔ آتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ قُلْ هاتُوا بُرْهانَكُمْ [ البقرة/ 111]( اے پیغمبر ) ان سے تم کہدو کہ ۔۔۔۔۔ دلیل پیش کرو ۔ افتراء کا کہنا ہے کہ کلام عرب میں ھاتیت مستعمل نہیں ہے یہ صرف اہل حیرہ کی لغت ہے اور اس سے لالھات ( فعل نہیں ) استعمال نہیں ہوتا ۔ خلیل نے کہا ہے کہ المھاتاہ والھتاء ( مفاعلہ سے ) سات صیغہ امر ہے ۔ ھیھات یہ کلمہ کسی چیز کے بعید ازقیاس ہو نیکو کو بتانے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس میں ھیھات ھیھات اور ھیھاتا تین لغت ہیں اور اسی سے قرآن پاک میں ہے : ۔ هَيْهاتَ هَيْهاتَ لِما تُوعَدُونَ [ المؤمنون/ 36] جس بات کا تم وعدہ کیا جاتا ہے ( بہت ) لبیدا اور ( بہت ) بعید ہے ۔ زجاج نے ھیھات کے معنی البعد کئے ہیں دوسرے اہل لغت نے کہا ہے کہ زجاج کو ( لما ) کے لام کی وجہ سے غلط فہمی ہوئی ہے کیونکہ اس کی اصل بعد الامر وا الوعد لما توعدون ہے اور اس میں ایک لغت ھیھات بھی ہے ۔ الفسوی نے کہا ہے کہ ھیھات کسرہ تا کے ساتھ ھیھات ( بفتح تاء ) کی جمع ہے ۔ بره البُرْهَان : بيان للحجة، وهو فعلان مثل : الرّجحان والثنیان، وقال بعضهم : هو مصدر بَرِهَ يَبْرَهُ : إذا ابیضّ ، ورجل أَبْرَهُ وامرأة بَرْهَاءُ ، وقوم بُرْهٌ ، وبَرَهْرَهَة «1» : شابة بيضاء . والبُرْهَة : مدة من الزمان، فالبُرْهَان أوكد الأدلّة، وهو الذي يقتضي الصدق أبدا لا محالة، وذلک أنّ الأدلة خمسة أضرب : - دلالة تقتضي الصدق أبدا . - ودلالة تقتضي الکذب أبدا . - ودلالة إلى الصدق أقرب . - ودلالة إلى الکذب أقرب . - ودلالة هي إليهما سواء . قال تعالی: قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ [ البقرة/ 111] ، قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ [ الأنبیاء/ 24] ، قَدْ جاءَكُمْ بُرْهانٌ مِنْ رَبِّكُمْ [ النساء/ 174] . ( ب ر ہ ) البرھان کے معنی دلیل اور حجت کے ہیں اور یہ ( رحجان وثنیان کی طرح فعلان کے وزن پر ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ برہ یبرہ کا مصدر ہے جس کے معنی سفید اور چمکنے کے ہیں صفت ابرہ مونث برھاء ج برۃ اور نوجوان سپید رنگ حسینہ کو برھۃ کہا جاتا ہے البرھۃ وقت کا کچھ حصہ لیکن برھان دلیل قاطع کو کہتے ہیں جو تمام دلائل سے زدر دار ہو اور ہر حال میں ہمیشہ سچی ہو اس لئے کہ دلیل کی پانچ قسمیں ہیں ۔ ( 1 ) وہ جو شخص صدق کی مقتضی ہو ( 2 ) وہ جو ہمیشہ کذب کی مقتضی ہو ۔ ( 3) وہ جو اقرب الی الصدق ہو ( 4 ) جو کذب کے زیادہ قریب ہو ( 5 ) وہ جو اقتضاء صدق وکذب میں مساوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ [ البقرة/ 111] اے پیغمبر ان سے ) کہدو کہ اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو ۔ قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ [ الأنبیاء/ 24] کہو کہ اس بات پر ) اپنی دلیل پیش کرویہ ( میری اور ) میرے ساتھ والوں کی کتاب بھی ہے صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١١) یہودی اور اسی طرح نصاری (عیسائی) اپنے خیال میں کہتے ہیں کہ جو یہودیت (یانصرانیت) پر مرے گا وہ ہی جنت میں داخل ہوگا یہ تو صرف ان کی خوابی تمنائیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں انہوں نے قائم کر رکھی ہیں، جس کا ان کی کتابوں میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان دونوں جماعتوں سے فرما دیجئے کہ اگر اپنی افسانہ پردازی میں سچے ہو تو اپنی کتابوں سے ثبوت لاؤ مگر حقیقت تمہاری باتوں کے مطابق نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١١ (وَقَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ الاَّ مَنْ کَانَ ہُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی ط) جب یہ نئی امت مسلمہ تشکیل پا رہی تھی تو یہودی اور نصرانی ‘ جو ایک دوسرے کے دشمن تھے ‘ مسلمانوں کے مقابلے میں جمع ہوگئے۔ انہوں نے مل کر یہ کہنا شروع کیا کہ جنت میں کوئی ہرگز نہیں داخل ہوگا سوائے اس کے جو یا تو یہودی ہو یا نصرانی ہو۔ اس طرح کی مذہبی جتھے بندیاں ہمارے ہاں بھی بن جاتی ہیں۔ مثلاً اہل حدیث کے مقابلے میں بریلوی اور دیوبندی جمع ہوجائیں گے ‘ اگرچہ ان کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بیر اپنی جگہ ہے۔ جب ایک مشترکہ دشمن نظرآتا ہے تو پھر وہ لوگ جن کے اپنے اندر بڑے اختلافات ہوتے ہیں وہ بھی ایک متحدہّ محاذ بنا لیتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ کے اس مشترکہ بیان کے جواب میں فرمایا : (تِلْکَ اَمَانِیُّہُمْ ط) یہ ان کی خواہشات ہیں ‘ من گھڑت خیالات ہیں ‘ خوش نما آرزوئیں (wishful thinkings) ہیں۔ (قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ) ۔ کسی آسمانی کتاب سے دلیل لاؤ۔ کہیں تورات میں لکھا ہو یا انجیل میں لکھا ہو تو ہمیں دکھا دو ! اب یہاں پر پھر ایک عالمگیر صداقت (universal truth) بیان ہو رہی ہے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

112. That is, all this is merely wishful thinking, even though they express thoughts as if they were really going to happen.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :112 یعنی دراصل یہ ہیں تو محض ان کے دل کی خواہشیں اور آرزوئیں ، مگر وہ انہیں بیان اس طرح کر رہے ہیں کہ گویا فی الواقع یہی کچھ ہونے والا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

73: یعنی یہودی کہتے ہیں کہ صرف یہودی جنت میں جائیں گے اور عیسائی کہتے ہیں کہ صرف عیسائی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(111 ۔ 112) ۔ باوجود طرح طرح کی نافرمانیوں میں گرفتار ہونے کے اہل کتاب کا یہ دعویٰ تھا کہ اپنے آپ کو جنتی اور سب کو دوزخی کہتے تھے۔ اور یہی دعویٰ نصرانیوں کا اپنی قوم کے حق میں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے غلط دعوے کو بےسند قرار دے کر فرمایا کہ جنت میں جانے اور حشر کے دغدغہ سے بےخوف رہنے کے قابل وہی شخص ہے جس کا عمل حکم الٰہی کے موافق اور خالص لوجہ اللہ ہوگا جس کے عمل میں یہ دو شرطیں نہیں وہ جنت میں کیا جاسکتا ہے۔ جنت خدا کی ہے کسی کی میراث نہیں کہ بغیر مرضی خدا کے زبر دستی جنت میں گھس جاوے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:111) لن یدخل الجنۃ۔ لن یدخل۔ مضارع معروف نفی تاکید بلن صیغہ واحد مذکر غائب فعل مضارع منصوب بوجہ عمل لن ہے۔ الجنۃ۔ مفعول ہے فعل لن یدخل کا۔ امانیہم۔ مضاف مضاف الیہ ۔ ان کی (جھوٹی) تمنائیں ۔ امنیۃ کی جمع۔ ھاتوا۔ اسم فعل ۔ یعنی اسم بمعنی فعل امر جمع مذکر حاضر ہے۔ لاؤ۔ یہ اصل میں ایتاء (افعال) سے فعل امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ اتوا تھا۔ ہمزہ کو ھاء سے بدل کر ھاتوا کرلیا۔ مھاتاۃ۔ کوئی چیز کسی کو دینا۔ ا ت ی اور ھ ت ی حرف مادہ ہیں ہر دو صورت میں فعل امر کی گردان یوں آئے گی۔ ھات ماتیا ھانوا ۔۔ الخ۔ برھانکم۔ مضاف مضاف الیہ ۔ تمہاری دلیل۔ برھان واحد براھین جمع ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یہود ہر آن اس کوشش میں رہتے کہ مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کردیا جائے کبھی کہتے کہ جنت صرف یہودیوں کے لیے ہے اور نصاری صرف اپنے آپ کو جنت کا حقدار ظاہر کرتے قرآن نے بتایا کہ یہ جھوٹے دغا باز ہیں اور ان کی یہ جھوٹی اور بےبنیاد قسم کی آرزوئیں ہیں جن کے صحیح ہونے کی سندان کے پاس نہیں ہے۔ فتح القدیر) نیز دیکھے (آیت :80) آجکل مسلمان بھی محض آوزؤں میں مبتلا ہیں اولیاء اللہ اور بندگوں کے نام کا ختم پڑھنے یا ان کے مقبروں پر پھول چڑھادینے کو نجات کے لے کافی سمجھتے ہیں حدیث میں العاجزمن اتبع جفسہ وتمنی علی اللہ لا مانی (رازی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

مدینہ طیبہ میں جو لوگ مسلمانوں کے مقابلے میں اترے ہوئے تھے وہ یہودی تھے کیونکہ وہاں نصرانیوں کا کوئی ایسا منظم گروہ موجود نہ تھا جو یہودیوں کی طرح اسلام دشمنی میں مبتلا ہوتا لیکن آیت میں انداز بیان کو عام رکھا گیا ہے ۔ یہاں آیات الٰہی دونوں گروہوں کے اقوال کی تردید کرتی ہے ۔ اور ایک دوسرے کے بارے میں یہو و ونصاریٰ دونوں کے اقوال نقل کرکے آخرت میں ان دونوں کے بارے میں مشرکین عرب کے خیالات نقل کردیئے جاتے ہیں وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى” ان کا کہنا ہے کہ کوئی شخص جنت میں نہ جائے گا جب تک وہ یہودی نہ ہو یا عیسائی نہ ہو۔ “ یہاں ان دونوں فرقوں کے دعوؤں کو یکجا کرکے بیان کیا گیا ورنہ ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ مدعی تھا ۔ یہودی کہتے تھے کہ جنت میں صرف وہ شخص داخل ہوگا جو یہودی ہو اور نصرانی کہتے تھے کہ جنت میں صرف وہ شخص داخل ہوگا جو نصرانی ہو ۔ ان دونوں کے یہ لمبے چوڑے دعوے محض ادعائی تھے ۔ ان کی پشت پر کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہ تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو یہ تلقین کرتے ہیں کہ وہ انہیں ان کے دعوؤں کی دلیل پیش کرنے کا چیلنج کریں۔ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ” ان سے کہو اپنی دلیل پیش کرو اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔ “ یہاں اللہ تعالیٰ موقع کی مناسبت سے مکافات عمل کے بارے میں اسلامی نظریہ حیات کا ایک اہم اصول بیان کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس معاملے میں کسی امت کسی گروہ یا کسی فرد کی کوئی رورعایت نہ کی جائے گی ۔ اللہ کے ہاں جس چیز کی قدر ہے وہ نیکی اور مکمل بندگی اور تسلیم ورضا ہے ۔ یہاں محض نام اور عنوان کو دیکھ کر فیصلے نہیں ہوتے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہود و نصاریٰ کا قول کہ جنت میں ہم ہی جائیں گے اور اس کی تردید اس آیت شریفہ میں یہود و نصاریٰ کا یہ دعویٰ ذکر فرمایا ہے کہ جنت میں یہود و نصاریٰ کے علاوہ ہرگز کوئی داخل نہ ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ یہودیوں نے اپنے بارے میں یہ کہا کہ صرف ہم جنتی ہیں اور نصاریٰ نے اپنے بارے میں یہی کہا دونوں فریق باوجودیکہ اللہ تعالیٰ کی کتابوں میں تحریف کر بیٹھے اور اللہ کے رسول حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دین میں شرک داخل کردیا۔ اس سب کے باوجود دونوں جماعتوں کو یہ غرور تھا اور اب بھی ہے کہ صرف ہم ہی جنتی ہیں۔ کفر اختیار کریں پھر بھی جنتی ہوں یہ ان کی سراپا جہالت حماقت اور سفاہت ہے۔ اور ان کا یہ دعویٰ بالکل بےبنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ (تِلْکَ اَمَانِیُّھُمْ ) کہ یہ ان کی آرزوئیں ہیں۔ صرف آرزو سے کچھ نہیں ہوتا جب تک ایمان نہ ہو نجات نہیں ہوسکتی۔ پھر فرمایا (قُلْ ھَا تُوْا بُرْھَا نَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ) ” آپ ان سے فرما دیجیے کہ اگر اپنی آرزوؤں میں سچے ہو تو اس کی دلیل پیش کرو۔ “ دعویٰ بلا دلیل، بلا سند، بلا حجت کیسے مانا جائے گا ؟ یہود و نصاریٰ کو بڑا غرور تھا وہ سمجھتے تھے کہ ہم مقربان الٰہی ہیں سورة مائدۃ میں ہے کہ انہوں نے کہا :۔ (نَحْنُ اَبْنَآء اللّٰہِ وَ اَحِبَّاءُہٗ ) ” کہ ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اس کے محبوب ہیں۔ “ اولاد تو اس کی ہے ہی نہیں، یہ عقیدہ شرکیہ ہے کہ اس کی اولاد ہو، شرکیہ عقیدہ رکھنے والا اور اللہ کے رسولوں کو جھٹلانے والا اللہ تعالیٰ کا محبوب اور مقرب کیسے ہوسکتا ہے ؟ اپنی حماقت سے اور اپنے مذہبی پیشواؤں کے بہکانے سے وہ یہ باطل خیال جمائے ہوئے ہیں کہ صرف ہماری ہی نجات ہوگی اور صرف ہم ہی جنتی ہیں، یہودیوں کا دین تو خاندانی دین ہے وہ اپنے خاص خاندان کے باہر اپنے دین کی تبلیغ کرتے ہی نہیں اس کا معنی یہ ہے کہ ان کے نزدیک ساری دنیائے انسانیت کے لیے اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا کوئی دین نہیں ہے صرف اپنے خیال سے اپنی نجات کا یقین کر بیٹھنا اور یہ سمجھ لینا کہ ہم ہی جنتی ہیں اور باقی سارے انسانوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ ان کے لیے خالق ومالک کی طرف سے کوئی ہدایت نہیں، جسے اختیار کر کے وہ مستحق جنت بنیں، سرا سر خود فریبی ہے۔ نصاریٰ سیدنا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والے سمجھے جاتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ ہم جس دین پر ہیں وہ دین نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دے کر بھیجا تھا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ فرمایا ہو کہ میں اللہ کا بیٹا ہوں یا یہ فرمایا ہو کہ میری اور میری والدہ کی عبادت کرو، یا یہ فرمایا ہو کہ لوگ مجھے قتل کردیں گے اور میرے قتل کے بعد جو شخص یہ عقیدہ رکھے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بیٹے کو قتل کرا کر ان سب لوگوں کے گناہوں کا کفارہ کردیا جو ان کو اللہ کا بیٹا مانیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ سب باتیں نصاریٰ کی خودتراشیدہ ہیں سیدنا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان میں سے کوئی بات بھی نہیں فرمائی انہوں نے تو صرف اللہ کی عبادت کرنے کی تبلیغ کی اور نصاریٰ جو کچھ کہتے ہیں ان کے پاس اس امر کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ باتیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بتائی ہیں۔ یہ باتیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آسمان پر تشریف لے جانے کے بعد ان کے جھوٹے ماننے والوں نے کئی سو سال کے بعد تجویز کیں کیونکہ اس میں تن آسانی ہے اور پورے گناہ کرتے ہوئے مغفرت اور نجات کی گارنٹی ہے اس لیے نصاریٰ نے ان باتوں کو بغیر تحقیق کے قبول کر رکھا ہے اتوار کے دن پادری کہہ دیتا ہے کہ میں نے اس ہفتہ کے سب گناہ معاف کردیے۔ یہ کیسی خلاف عقل بات ہے کہ نافرمانی کی ہے خدائے پاک کی اور معاف کر رہی ہے مخلوق۔ ان پادریوں کو گناہ کے معاف کرنے میں خداوند تعالیٰ کا نائب مانتے ہیں۔ ان کو یہ نیابت کہاں سے ملی کس نے ان کو نائب بنایا ؟ ہر عقلمند کے سامنے یہ سوالات آتے ہیں۔ یہ سب کچھ نصاریٰ کا اپنا بنایا ہوا دین ہے، اور اوپر سے اس دھوکہ اور آرزو میں پڑے ہوئے ہیں کہ صرف ہماری ہی نجات ہوگی اور ہم ہی جنتی ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ کوئی بات بلا دلیل قبول نہیں ہوتی اور دنیا میں سب اسی قانون پر چلتے ہیں، لیکن آخرت کے بارے میں جہاں دوزخ کے دائمی عذاب سے نجات پانے کی ضرورت ہوگی۔ صرف خوش فہمی اور گمان اور خیالات اور اوھام اور آرزوؤں پر اکتفاء کئے ہوئے ہیں۔ ھد اھم اللہ تعالیٰ ۔ یہود و نصاریٰ کے علاوہ کفار کی دوسری قومیں بھی اپنے بارے میں خوش فہمیوں میں مبتلا ہیں اور ان سب نے محض جھوٹی آرزوؤں کا سہارا لے رکھا ہے۔ ان کے پاس ان کے دین کے حق ہونے کی اور اس بات کی کہ ان کا دین یوم آخرت میں ذریعہ نجات بنے گا کوئی دلیل نہیں ہے اور مشرکوں کی بیوقوفی دیکھو کہ پیدا کیا اللہ نے اور کھانے کو وہی دیتا ہے اور انسانوں کی ضرورت کا ہر سامان اسی نے پیدا فرمایا ہے لیکن پر ستش اور پوجا اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی کرتے ہیں اور اس میں نجات سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو سمجھ دے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

212 پانچ شکوے ۔ پہلا شکوہ یہودیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ آخرت میں نجات صرف یہودیوں کی ہوگی اور عیسائیوں کا عقیدہ تھا کہ ان کے بغیر جنت میں کوئی نہیں جائے گا۔ عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے گناہوں کا کفارہ اور نجات دہندہ سمجھتے تھے۔ اور یہودی حضرت عزیر (علیہ السلام) کو۔ دونوں گروہوں میں سے ہر ایک کا دعویٰ تھا کہ وہ پیر زادے اور پیغمبر زادے ہیں۔ اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں۔ اس لیے جنت صرف انہی کے لیے ہے۔ درحقیقت یہود ونصاری اس دعویٰ سے اسلام پر ضرب لگانا چاہتے تھے اور لوگوں کے دلوں میں اسلام سے برگشتگی پیدا کرنا چاہتے تھے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ نجات تو صرف ان کے دین سے وابستہ ہے۔ لہذا ان کے دین کی موجودگی میں دین اسلام کی کیا ضرورت ہے۔ آگے اس دعویٰ کی تردید ہے۔ تِلْكَ اَمَانِيُّھُمْ ۔ امانی کی تحقیق پہلے گذر چکی ہے کہ اس سے مراد ان کی باطل اور جھوٹی خواہشات ہیں اور ان کی حقیقت کچھ بھی نہیں ای شھواتھم الباطلۃ التی تمنوھا (معالم و خازن ص 83 ج 1) یعنی یہ محض آرزوئیں ہی آرزوئیں ہیں قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ۔ یہود ونصاری کی تبکیت اور انہیں لاجواب کرنے کے لیے ان سے ان کے دعویٰ پر دلیل کا مطالبہ کیا گیا ہے یعنی اگر تم اپنے مذکورہ دعویٰ میں سچے ہو تو اس پر کوئی دلیل پر یش کرو۔ اس کے بعد نجات اخروی کا اصل قانون بیان فرمایا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi