Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 112

سورة البقرة

بَلٰی ٭ مَنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ فَلَہٗۤ اَجۡرُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ۪ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۱۱۲﴾٪  13

Yes [on the contrary], whoever submits his face in Islam to Allah while being a doer of good will have his reward with his Lord. And no fear will there be concerning them, nor will they grieve.

سنو !جو بھی اپنے آپ کو خلوص کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکا دے ۔ بیشک اسے اس کا رب پورا بدلہ دے گا ، اس پر نہ تو کوئی خوف ہوگا ، نہ غم اور اداسی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ ... Yes! But whoever submits his face (himself) to Allah (i.e. follows Allah's religion of Islamic Monotheism) and he is a Muhsin. meaning, "Whoever performs deeds in sincerity, for Allah alone without partners." In a similar statement, Allah said, فَإنْ حَأجُّوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِىَ للَّهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ So if they dispute with you (Muhammad) say: "I have submitted myself to Allah (in Islam), and (so have) those who follow me." (3:20) Abu Al-Aliyah and Ar-Rabi said that, بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلّهِ (Yes! But whoever submits his face (himself) to Allah) means, "Whoever is sincere with Allah." Also, Sa`id bin Jubayr said that, بَلَى مَنْ أَسْلَمَ (Yes! But whoever submits) means, he is sincere. وَجْهَهُ (his face (himself)) meaning, in his religion. وَهُوَ مُحْسِنٌ (and he is a Muhsin) following the Messenger. For there are two conditions for deeds to be accepted; the deed must be performed for Allah's sake alone and conform to the Shariah. When the deed is sincere, but does not conform to the Shariah, then it will not be accepted. The Messenger of Allah said, مَنْ عَمِلَ عَمَلً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَد Whoever performs a deed that does not conform with our matter (religion), then it will be rejected. This Hadith was recorded by Muslim. Therefore, the good deeds of the priests and rabbis will not be accepted, even if they are sincerely for Allah alone, because these deeds do not conform with the method of the Messenger, who was sent for all mankind. Allah said regarding such cases, وَقَدِمْنَأ إِلَى مَا عَمِلُواْ مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَأءً مَّنثُوراً And We shall turn to whatever deeds they (disbelievers, polytheists, sinners) did, and We shall make such deeds as scattered floating particles of dust. (25:23) وَالَّذِينَ كَفَرُواْ أَعْمَـلُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْأنُ مَأءً حَتَّى إِذَا جَأءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْياً As for those who disbelieved, their deeds are like a mirage in a desert. The thirsty one thinks it to be water, until he comes up to it, he finds it to be nothing. (24:39) and, وُجُوهٌ يَوْمَيِذٍ خَـشِعَةٌ عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ تَصْلَى نَاراً حَامِيَةً تُسْقَى مِنْ عَيْنٍ ءَانِيَةٍ Some faces, that Day will be humiliated. Laboring, weary. They will enter in the hot blazing Fire. They will be given to drink from a boiling spring. (88:2-5) When the deed conforms to the Shariah outwardly, but the person did not perform it sincerely for Allah alone, the deed will also be rejected, as in the case of the hypocrites and those who do their deeds to show off. Similarly, Allah said, إِنَّ الْمُنَـفِقِينَ يُخَـدِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُواْ إِلَى الصَّلَوةِ قَامُواْ كُسَالَى يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلاَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلاَّ قَلِيلً Verily, the hypocrites seek to deceive Allah, but it is He Who deceives them. And when they stand up for As-Salah (the prayer), they stand with laziness to be seen by people, and they do not remember Allah but little. (4:142) and, وَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَـتِهِمْ سَاهُونَ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ So woe unto those performers of Salah (prayers) (hypocrites). Those who delay their Salah (from their stated fixed times). Those who do good deeds only to be seen (of men). And withhold Al-Ma`un (small kindnesses). (107:4-7) This is why Allah said, فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَأءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلً صَـلِحاً وَلاَ يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدَا So whoever hopes for the meeting with his Lord, let him work righteousness and associate none as a partner in the worship of his Lord. (18:110) He also said in this Ayah, بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ ... Yes, but whoever submits his face (himself) to Allah (follows Allah's religion of Islamic Monotheism) and he is a Muhsin. Allah's statement, ... فَلَهُ أَجْرُهُ عِندَ رَبِّهِ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ Shall have their reward with their Lord, on them shall be no fear, nor shall they grieve, guaranteed them the rewards and safety from what they fear and should avoid. وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ (There shall be no fear on them) in the future, وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ (nor shall they grieve) about what they abandoned in the past. Moreover, Sa`id bin Jubayr said, وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ " (There shall be no fear on them) in the Hereafter, and وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ (nor shall they grieve) about their imminent death." The Jews and Christians dispute among Themselves out of Disbelief and Stubbornness Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

112۔ 1 (اَسْلَمَ وَ جْھَہ لِلّٰہِ ) 002:112 کا مطلب ہے محض اللہ کی رضا کے لئے کام کرے اور (وَ ھُوَ مُحْسِنُ ) کا مطلب ہے اخلاص کے ساتھ پیغمبر آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے مطابق۔ قبولیت عمل کے لئے یہ دو بنیادی اصول ہیں اور نجات اخروی انہی اصولوں کے مطابق کئے گئے اعمال صالحہ پر مبنی ہے نہ کہ محض آرزو وں پر۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣٠] یہاں سابق مضمون کو ہی دہرایا جا رہا ہے۔ یعنی زبانی دعوے اور جھوٹی آرزوئیں بیکار چیزیں ہیں یہ خواہ یہود کی ہوں یا نصاریٰ کی یا مسلمانوں کی یا کسی اور کی۔ اخروی نجات کے لیے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس ایمان کے تقاضوں کے مطابق صالح اعمال بجا لانا ضروری ہے چناچہ : ١۔ حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا ہے کہ && جب کوئی شخص اسلام لائے اور ٹھیک طور پر لائے تو اس کی سابقہ تمام برائیاں دور کردی جاتی ہیں اور اس کے بعد جو حساب شروع ہوگا وہ یوں ہوگا ہر نیکی کے عوض دس سے لے کر سات سو تک نیکیاں (لکھی جائیں گی) اور برائی کے عوض ویسی ہی ایک برائی لکھی جائے گی۔ الا یہ کہ اللہ وہ بھی معاف کر دے۔ (بخاری۔ کتاب الایمان، باب حسن اسلام المرئ) ٢۔ حکیم بن حزام (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بھلا دیکھیے جو کام میں نے جاہلیت کے زمانہ میں کئے تھے۔ جیسے صدق یا غلام آزاد کرنا یا صلہ رحمی وغیرہ ان کا مجھے ثواب ملے گا ؟ آپ نے فرمایا تو اسلام لایا ہی اس شرط پر ہے کہ تیری سابق نیکیاں بحال رہیں۔ میں نے کہا && یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ کی قسم ! میں نے جتنے کام جاہلیت میں کئے ہیں۔ ان میں سے کوئی کام نہ چھوڑوں گا۔ اتنے ہی سب کام اسلام کی حالت میں بھی کرتا رہوں گا۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب بیان حکم عمل الکافر إذا أسلم بعدہ) ٣۔ عروہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ حکیم بن حزام (رض) نے جاہلیت کے زمانے میں سو غلام آزاد کئے تھے اور سو اونٹ سواری کے لیے اللہ کی راہ میں دیئے تھے۔ پھر انہوں نے اسلام کی حالت میں بھی سو غلام آزاد کئے اور سو اونٹ اللہ کی راہ میں سواری کے لیے دیئے۔ (مسلم : حوالہ ایضاً )

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یعنی جنت میں جانے کے لیے کسی گروہ کا فرد ہونا کافی نہیں، بلکہ اس کے لیے دو شرطیں ہیں، ایک یہ کہ اپنا چہرہ اللہ کے تابع کر دے، چہرہ تابع ہوگیا تو پورا جسم تابع ہوگیا، پھر جو عمل کرے اسی کے لیے کرے، کسی دوسرے کا اس میں دخل نہ ہو۔ دوسری یہ کہ وہ عمل حسن (یعنی نیک) ہو، اس کی طرف اشارہ ” وَھُوَ مُحْسِنٌ“ کے ساتھ ہے۔ نیک عمل وہی ہے جو قرآن وسنت کے مطابق ہو۔ پہلی شرط نہ ہوگی تو منافقت اور ریا کاری ہے، دوسری نہ ہوگی تو بدعت اور گمراہی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

بَلٰي۝ ٠ ۤ مَنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلہِ وَھُوَمُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ۝ ٠ ۠ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝ ١١٢ ۧ سلم والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین : أحدهما : دون الإيمان، وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] . والثاني : فوق الإيمان، وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] ، ( س ل م ) السلم والسلامۃ الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔ وجه أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] ( و ج ہ ) الوجہ کے اصل معیج چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔ أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت/ 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف/ 57] . والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء/ 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری/ 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان/ 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء/ 93] . يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص/ 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ . والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی: اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص/ 26] . ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ { وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ } [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا } [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : { وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ } [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا { لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ } [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ { فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ } ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ { وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا } [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ { فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ } ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ { عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ } [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : { اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ } [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ حزن الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] ( ح ز ن ) الحزن والحزن کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٢) بلکہ جس شخص نے اپنا دین اور عمل خالص اللہ تعالیٰ ہی کی رضا مندی کے لیے کیا اور اپنے قول وفعل میں وہ نیکوکار رہا تو بالیقین ایسے شخص کا انجام کار جنت میں داخلہ ہے، ایسے لوگوں پر نہ دوزخ میں ہمیشہ رہنے کا خوف ہوگا اور نہ جنت ہاتھ سے چلی جانے کا افسوس ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٢ (بَلٰی ق مَنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلّٰہِ وَہُوَ مُحْسِنٌ) اس کا سر تسلیم خم کردینے کا رویہ صدق و سچائی اور حسن کردار پر مبنی ہو۔ سر کا جھکانا منافقانہ انداز میں نہ ہو ‘ اس کی اطاعت جزوی نہ ہو کہ کچھ مانا کچھ نہیں مانا۔ َ ّ (فَلَہٗ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖص) تو اس کے لیے اس کا اجر محفوظ ہے اس کے رب کے پاس۔ (وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ) ۔ یہ دوسری آیت ہے کہ جس سے کچھ لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ نجات اخروی کے ‘ لیے ایمان بالرسالت ضروری نہیں ہے۔ اس کا جواب پہلے عرض کیا جا چکا ہے۔ مختصراً یہ کہ : اوّلًا قرآن حکیم میں ہر مقام پر ساری چیزیں بیان نہیں کی جاتیں۔ کوئی شے ایک جگہ بیان کی گئی ہے تو کوئی کہیں دوسری جگہ بیان کی گئی ہے۔ اس سے ہدایت حاصل کرنی ہے تو اس کو پورے کا پورا ایک کتاب کی حیثیت سے لینا ہوگا۔ ثانیاً یہ سارا سلسلۂ کلام دو بریکٹوں کے درمیان آ رہا ہے اور اس سے پہلے یہ الفاظ واضح طور پر آ چکے ہیں : (وَاٰمِنُوْا بِمَا اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ وَلَا تَکُوْنُوْٓا اَوَّلَ کَافِرٍ بِہٖ ص) چناچہ یہ عبارت ضرب کھا رہی ہے اس پورے کے پورے سلسلۂ مضامین سے جو ان دو بریکٹوں کے درمیان آ رہا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:112) بلی۔ حرف ایجاب ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو 3:76 ۔ من شرطیہ ہے۔ جس کسی نے۔ اسلم۔ ماضی واحد مذکر غائب ۔ وہ اسلام لایا۔ وہ تابعدار ہوا۔ وہ مسلمان ہوا۔ اسلام کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جس سے انسان کی جان و مال محفوظ ہوجائے۔ یعنی اسلام کا صرف زبان سے اقرار ہو۔ خواہ اعتقاد ہو یا نہ ہو۔ اس کا درجہ ایمان سے نیچے ہے۔ قرآن مجید میں آیا ہے قالت الاعراب امنا ط قل لم تؤمنوا ولکن قولوا اسلمنا ولما یدخل الایمان فی قلوبکم (49:14) اعراب (گنوار) کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ تو۔ کہہ کہ تم ایمان نہیں لائے۔ پر کہو ہم مسلمان ہوئے۔ اس آیت میں یہی اسلام مراد ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ زبان سے اعتراف کے ساتھ ساتھ دل سے بھی اعتقاد ہو۔ عمل سے پورا کرے اور قضاء وقد الٰہی کے آگے سر جھکادے۔ اسلام کے اس معنی میں ارشاد باری باری تعالیٰ ہے من یؤمن بایتنا۔ فھم مسلمون ۔ (27:81) جو یقین رکھتا ہے ہماری آیات پر سو وہ حکم بردار ہیں۔ من اسلم وجھہ للہ۔ جس کسی نے اللہ کے سامنے اپنا چہرہ (یعنی اپنی گردن) کو جھکادیا۔ وھو محسن۔ حال ہے (درآنحال یہ کہ وہ نیکی کرنے والا بھی ہو) یہ سارا جملہ شرط ہے۔ فلہ اجرہ۔۔ الخ جواب شرط ہے۔ فاء جواب شرط کے لئے ۔ لہ اور اجرہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب من کی طرف راجع ہے۔ ولا یحزنون۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب حزن (باب نصر) مصدر سے نہ وہ غمگین ہوں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 بلی یعنی ان کا یہ دعوی جھوٹا ہے اخروی نجات کے لیے تو اخلاص وعمل شرط ہے من اسلم وجھہ اللہ اخلاص کی طرف اشارہ یت اور وھو محسن کے معنی یہ ہیں کہ عمل سنت کے مطابق ہو ورنہ وہ عمل بدعت اور مردود ہے (ابن کثیر) اور اخلاص نہ ہوگا تو ریا کاری اور منافقت ہے ( دیکھئے آیت :28 ۔ 38، )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ حاصل استدلال کا یہ ہوا کہ جب یہ قانون مسلم ہے تو اب صرف یہ دیکھ لو کہ یہ مضمون کس پر صادق آتا ہے سو ظاہر ہے کہ بعد منسوخ ہوجانے کسی حکم سابق کے اس پر چلنے والاکسی طرح فرماں بردار نہیں کہا جاسکتا پس یہودی نصرانی کسی طرح فرماں بردار نہ ہوئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب قرآن کے منکر ‘ مسلمانوں کے دشمن اور ایک دوسرے کو کافر کہنے کے باوجود جنت کے ٹھیکیدار بنتے تھے۔ یہاں ان کے دعوے کی قلعی کھولتے ہوئے ایک اصول بیان کیا گیا ہے کہ نیک اور جنت کا وارث وہ ہے جس نے اپنے آپ کو اللہ کے حکم کے تابع کردیا۔ انبیاء کے نافرمان اور نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گستاخ اللہ تعالیٰ کے اختیارات پر اعتراضات کرنے والے حسد و بغض کے پیکر یہود و نصاریٰ مسلمانوں کو دولت ایمان سے محروم کرنے کی سازشیں کرنے اور صلوٰۃ و زکوٰۃ سے عملاً انحراف کرنے کے باوجود سمجھتے ہیں کہ ہم ہی جنت کے مالک ہوں گے۔ حالانکہ ” اللہ “ کی جنت اتنی ارزاں اور کم حیثیت نہیں کہ جو چاہے اپنے من ساختہ تصورات، دعوؤں اور نعروں کی بنیاد پر اسے حاصل کرلے یہ تو ایمان، اخلاص کی دولت اور اعمال کی گراں قدر قیمت پیش کرنے سے ہی مل سکے گی۔ لہٰذا اگر تم جنت کے حقدار ہو تو اس کے لیے کوئی ثبوت اور سرمایۂ عمل پیش کرو۔ ہاں جنت میں وہ شخص ضرور جائے گا جس نے اپنے چہرے اور عمل کو اپنے رب کے لیے حوالے کردیا ہے۔ چہرہ حوالے کرنے سے مراد کلی طور پر تابع فرمان ہونا ہے۔ جس میں یہ امر بھی لازم ہے کہ اس کے عمل پر خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی مہر لگی ہوئی ہو۔ یہودی عیسائی گٹھ جوڑ : 1492 ء تک سارے مغرب میں یہودیوں کا داخلہ بند تھا۔ یہودیوں کے بارے میں عیسائی یہ یقین رکھتے تھے کہ اللہ کی پیدا کردہ مخلوقات میں سب سے بدترین اور شریر ترین مخلوق یہودی ہیں۔ یہودیوں پر سب سے زیادہ تشدد اور ظلم عیسائیوں ہی نے کیا ہے عیسائی انہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قاتل سمجھتے تھے یہ دور یہودیوں پر عیسائیوں کے بدترین تشدد کا دور تھا۔ ان کے لیے دنیا میں کوئی جائے پناہ نہ تھی۔ لیکن عجیب اتفاق ہے کہ 1948 ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد عیسائیوں کی یہود دشمنی آہستہ آہستہ ختم ہونے لگی۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر وہ یہودیوں سے بھی زیادہ اسرائیل کی توسیع اور استحکام کے وکیل بنے ہوئے ہیں۔ ان کے بڑے بڑے مبلّغین مثلاً جیری فال ویل اور جمی سوا گراٹ جنہیں امریکہ کی بہت بڑی اکثریت انتہائی انہماک سے سنتی ہے امریکی اسے اپنا مذہبی راہنما قرار دیتے ہیں۔ یہودیوں کی وکالت کر رہے ہیں سابق صدر جمی کارٹر کا کہنا ہے کہ ” اسرائیل کا قیام بائبل کی پیشین گوئی کی تکمیل ہے۔ “ اسی طرح سابق صدر رونالڈ ریگن نے بھی کہا تھا کہ ” عنقریب دنیا فنا ہوجائے گی۔ “ (صرف عیسائی اور یہودی زندہ رہیں گے) حالانکہ حیرت انگیز طور پر صدر کینیڈی تک امریکہ کے بیشتر صدور اسرائیل اور یہودیوں کے سخت ترین مخالف تھے۔ صدر آئزن ہ اور یہودیوں کی توسیع پسندی کے سخت دشمن تھے۔ امریکہ کے ایک صدر جارج بش واشنگٹن نے اپنے عوام کو متنبہ کیا تھا کہ ” یہودی خون چوسنے والی چمگادڑیں ہیں اور اگر تم نے انہیں امریکہ بدر نہ کیا تو دس سال سے بھی کم عرصہ میں یہ تمہارے ملک پر حکمرانی کرنے لگیں گے اور تمہاری آزادی کو سلب کرلیں گے۔ “ (بیان ایمسٹرڈم چیمبر 22-9-1654) خوش قسمتی سے اسی زمانے میں کو لمبس نے امریکہ دریافت کیا تھا۔ چناچہ یہودیوں نے خود کو محفوظ رکھنے کی خاطر امریکہ کو اپنا وطن بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ انہوں نے دور اندیشی کی بنیاد پر نیویارک کی بندرگاہوں کو اپنے لیے منتخب کیا تاکہ سمندری و تجارتی راستے سے وہ پہلے امریکہ اور پھر ساری دنیا پر قبضہ کرسکیں۔ ان کے اسی فیصلے کے بعد آج نیو یارک کو جیویارک بھی کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف پروٹسٹنٹ عیسائی بھی امریکہ چلے گئے۔ اس طرح امریکہ میں آج تک یہی فرقہ اکثریت میں موجود رہا۔ یہ پروٹسٹنٹ عیسائی ہی تھے جنہوں نے یہودیوں کے لیے عیسائیوں کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا کیا اور ان کی حمایت کی۔ ان کے اثرات ہی کی وجہ سے عیسائیوں کی بڑی آبادی اس بات کی قائل ہوئی کہ فلسطین کو یہودیوں کی سرزمین قرار دیا جائے۔ یہودیوں کے ساتھ ان کی ہمدردی کا یہ حال تھا کہ صیہونی (اسرائیلی) تحریک سے پہلے قیام اسرائیل کا مطالبہ کرنے والے یہودی نہیں بلکہ خود عیسائی تھے۔ عیسائیوں کا کہنا تھا کہ ارض مقدس میں یہودیوں کی واپسی نزول مسیح کا پیش خیمہ ہے۔ عیسائیوں کو یہودیوں سے اس لیے بھی ہمدردی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی آمد کے بعد تمام یہودی آخر کار عیسائیت اختیار کرلیں گے۔ مسائل ١۔ یہود و نصاریٰ ایمان و عمل کے بغیر جنت میں جانے کے دعوے دار بنتے ہیں۔ ٢۔ جنت میں جانے کے لیے نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان اور عمل صالح کی ضرورت ہے۔ تفسیر بالقرآن جنت کے تقاضے : ا۔ جنت دعو وں اور نعروں کی بنیاد پر نہیں ملے گی۔ (البقرۃ : ١١١) ٢۔ جنت مشکلات برداشت کئے بغیر نہیں ملے گی۔ (البقرۃ : ٢١٤) ٣۔ ایمان اور عمل صالح کی بنیاد پر جنت الفردوس حاصل ہوگی۔ (الکہف : ١٠٧) ٤۔ جنت آزمائش میں گزرے بغیر حاصل نہیں ہوگی۔ (العنکبوت : ٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ ” حق یہ ہے کہ جو بھی اپنی ہستی کو اللہ کی اطاعت میں سونپ دے اور عملاًنیک روش پر چلے ، اس کے لئے اس کے رب کے پاس اجر ہے اور ایسے لوگوں کے لئے کسی خوف یا رنج کا موقع نہیں ہے۔ “ اس سے قبل ایک جگہ یہودیوں کے اس دعوے پر کہ ” انہیں آگ نہیں چھوئے گی مگر چند دن “ کی تردید کرتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں سزا کا یہ عام اصول بیان کیا تھا۔” ہاں جو بھی برائی کمائے گا اور اس کی برائیاں اسے گھیر لیں گی وہ لوگ جہنمی ہوں گے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ۔ “ یعنی خطیئات کے مرتکب لوگوں کو سزا محض اس لئے ہوگی کہ انہوں نے خطیئات کا ارتکاب کیا ۔ اس کے علاوہ کوئی نقطہ نظر یا کوئی پہلو اس کا باعث نہ ہوگا کہ انہیں سزا دی جائے ۔ غرض نیکی اور بدی میں اللہ کے ہاں جزاوسزا کا یہی ایک اصول ہے ۔ بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ جو اپنی ہستی کو اللہ کی اطاعت میں سونپ دے اور عملاً نیک روش پر چلے ” یعنی اپنی پوری ذات کو اللہ کے مختص کردے ۔ اپنے پورے شعور کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوجائے اور جس طرح پہلا شخص خالصتاً برائی میں گرفتار ہوگیا تھا ۔۔ یہ ہمہ تن اللہ کے لئے ہوجائے ۔ “ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ ” جو اپنی ذات کو پوری طرح اللہ کی اطاعت میں سونپ دے۔ “ اس فقرے میں اسلام کی اہم ترین خصوصیت اور واضح علامت کو بیان کیا گیا ہے ۔ یعنی ایک انسان پوری طرح اللہ کی طرف منہ کرلے ۔ یعنی ہمہ تن متوجہ ہوجائے اور مکمل انقیاد اور اطاعت اختیار کرلے یعنی معنوی طور پر اللہ کے آگے جھک جائے اور عملاً بھی اس کا مطیع فرمان ہوجائے اور چونکہ معنوی رضاوتسلیم کے لئے ظاہری دلیل عملاً اطاعت حکم ہوا کرتی ہے ، اس لئے کہا گیا اور عملاً نیک روش اختیار کرے ۔ اسلام کی اہم ترین خصوصیات اور نشانیوں میں سے ایک یہ امر ہے کہ انسان کا شعور اور روش اس کا عقیدہ اور عمل ، اس کا قلبی ایمان اور عملی روش کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور تب ایک بندہ مومن اس عطاء الٰہی کا مستحق قرار پاتا ہے۔ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ ” ان کے لئے ان کے رب کے پاس اجر ہے اور ایسے لوگوں کے لئے کسی خوف یا رنج کا کوئی موقع نہیں۔ “ ان کا اجر محفوظ اور ان کے رب کے پاس ہے ۔ امن و طمانیت کی ایک عظیم دنیا جس میں رنج والم کا شائبہ تک نہیں ، ان کے لئے منتظر ہے ۔ فرحت و سرور کا ایک عالم ہے جس میں حزن وملال کا کوئی لمحہ نہیں ۔ ان کے لئے تیار ہے ۔ جزا کا یہ اصول عامہ ہے اور تمام لوگ اس میں برابر ہیں ۔ اللہ کے ہاں کسی کی رو رعایت یا کسی کی کوئی شان محبوبیت نہیں ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

عنداللہ جنتی کون ہے : یہود و نصاریٰ کے دعویٰ کی تردید کرنے اور ان سے دلیل طلب کرنے کے بعد حق تعالیٰ شانہٗ نے ارشاد فرمایا : (بَلٰی مَن اَسْلَمَ وَ جْھَہٗ لِلّٰہِ ) (الایۃ) یعنی دوسرے لوگ کیوں جنت میں داخل نہ ہوں گے ؟ اللہ تعالیٰ کا قانون تو یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہو اور اپنی ذات کو اللہ کے احکام کی تعمیل میں جھکادے اور وہ صفت احسان سے متصف بھی ہو تو اس کا اجر اس کے رب کے پاس ضرور ملے گا۔ جو جنت کے داخلے کی صورت میں ہوگا۔ ان لوگوں کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ غمگین ہونے کا کوئی موقعہ ہے یہ عمومی قانون ہے جو بھی اس پر عمل کرے گا داخلہ جنگ کا مستحق ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے کسی کی قرابت رشتہ داری نہیں ہے اور نہ کوئی خواہ مخواہ محبوب اور مقرب بن جاتا ہے۔ ایمان پر دخول جنت کا مدار ہے۔ لفظ محسن لفظ احسان سے مشتق ہے جو حسن سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے اچھے طریقے سے کام کرنا اور عمدگی کے ساتھ انجام دینا اس میں احسان عقیدہ اور احسان عمل سب کچھ داخل ہے۔ بعض مفسرین نے محسن کا ترجمہ مخلص سے کیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عقیدہ بھی صحیح ہونا لازم ہے اور عمل بھی صحیح ہونا ضروری ہے۔ جس کا عقیدہ رسول اکرم خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتائے ہوئے عقیدوں کے خلاف ہو، وہ عقیدہ میں محسن نہیں ہے لہٰذا اس کی نجات نہیں ہے۔ اس نے اپنی ذات کو اللہ کے لیے نہیں جھکایا وہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسول کی تکذیب کرتا ہے۔ لہٰذا مستحق نجات نہیں، اور جس شخص کا عمل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمل کے موافق نہیں ہے یا نیت میں اخلاص نہیں یعنی اللہ کی رضا مطلوب نہیں اس کا وہ عمل مردود ہے۔ اللہ کی محبت کا دعویٰ ہو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع نہ ہو تو یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔ عقیدہ اور عمل دونوں میں اخلاص ضروری ہے منافق عقیدہ میں مخلص نہ تھے اور جو لوگ عقیدہ ٹھیک رکھتے ہیں لیکن عمل اللہ کی رضا کے لیے نہیں کرتے دکھاوے کے لیے اور دنیاوی جاہ و عزت حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں ان کے عمل کا آخرت میں کوئی ثواب نہیں۔ سورة کہف کے آخر میں فرمایا : (فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا) ” سو جو شخص اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہے اسے چاہیے کہ عمل صالح کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے “ کافروں اور مشرکوں میں جو لوگ کوئی عمل کرتے ہیں اگر ان میں اللہ کی رضا مقصود رکھتے ہوں تب بھی وہ معتبر نہیں اور آخرت میں اس کا کوئی ثواب نہیں۔ کیونکہ عقیدہ کے اعتبار سے گمراہ ہیں اور اللہ کے دین پر نہیں ہیں ان کے لیے سورة فرقان میں فرمایا : (وَقَدِمْنَآ اِِلٰی مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰہُ ھَبَآءً مَّنْثُوْرًا) ” اور ہم ان کے کاموں کی طرف جو وہ کرچکے تھے متوجہ ہوں گے سوا ان کو ایسا کردیں گے جیسے پریشان غبار “ شاید کوئی شخص اپنی جہالت سے یہ سوال کرے کہ آیت میں مسلمان ہونے کی شرط نہیں ہے پھر یہ شرط کہاں سے آگئی اس کا جواب یہ ہے کہ (اَسْلَمَ وَجْھَہٗ اور وَھُوَ مُحْسِنٌ) سے ہی یہ قید ثابت ہوتی ہے اور دوسری آیات بھی پیش نظر رکھنا لازم ہے۔ سورة آل عمران کی آیت (وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ) کو پیش نظر رکھیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

213 بلی یہود و نصاری کے دعویٰ کی تردید وتکذیب کے لیے لایا گیا ہے۔ وجہ کے معنی چہرہ کے ہیں لیکن یہاں مجازاً اس سے مراد ذات یا ارادہ اور قصد ہے۔ یعنی اس نے اپنی ذات کو خدا کے سپرد کردیا۔ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا۔ اخلص لہ نفسہ او قصدہ فلم یشرک بہ تعالیٰ غیرہ او لم یقصد سواہ۔ (روح ص 360 ج 1) وَھُوَ مُحْسِنٌ۔ اَسْلَمَ کے فاعل سے حال ہے۔ جب یہود اور نصاریٰ نے دعویٰ کیا کہ ان کے سوا کوئی جنت میں نہیں جائے گا تو اس کا جواب دیا گیا کیوں نہیں۔ جس نے بھی اپنے آپ کو خدا کے سپرد کردیا اور صرف اسی کا ہو کر رہ گیا اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ کیا۔ اور ہر کام میں صرف اللہ کی رضا کو مد نظر رکھا تو اس کا اجر ہرگز ضائع نہیں ہوگا بلکہ خدا کے یہاں محفوظ رہیگا۔ تو معلوم ہو اجنت میں صرف وہ جائے گا۔ جو شرک نہ کرے لہذا یہود ونصاریٰ کا دعویٰ غلط ہے کہ ان کے سوا جنت میں کوئی نہیں جائے گا۔ کیونکہ وہ تو حضرت عزیر اور حضرت مسیح کی عبادت کرتے اور ان کو پکارتے ہیں۔214 اس جملے کی تینوں ضمیریں مَنْ کی طرف راجع ہیں کیونکہ وہ معنیً جمع ہے یعنی ان لوگوں کو آخرت میں نہ گذشتہ زمانہ پر افسوس ہوگا نہ آئندہ کا غم ستائے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اور یہ یہود و نصاریٰ یوں کہتے ہیں کہ جنت میں ہرگز کوئی شخص سوائے ان لوگوں کے جو یہود ہوئے یا سوائے ان لوگوں کے جو نصاریٰ ہوئے داخل نہ ہو سکے گا یہ ان کی باتیں ہی باتیں ہیں جو دلیل سے خالی ہیں آپ ان سے فرمائیے اگر تم لوگ اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو اس دعویٰ پر دلیل پیش کرو واقعہ یہ ہے کہ دوسرے لوگ ضرور جنت میں جائینگے کیونکہ آئین اور قاعدہ یہ ہے کہ جو شخص اپنا رخ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکا دے اور وہ خلوص کے ساتھ نیک روش کا پابند ہے تو ایسے لوگوں کا اجر وثواب ان کے مالک کے پاس موجود و محفوظ ہے اور ایسے لوگوں پر نہ کسی قسم کا خوف اندیشہ ہے اور نہ وہ کبھی غمگین ہونگے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ یہودی تو الگ اس کے مدعی ہیں کہ ہمارے سوا کوئی جنت میں نہ جانے پائے گا اور نصاریٰ الگ اس کے مدعی ہیں کہ ہمارے سوا اور کوئی نہیں جائے گا تو گویا جنت بس ان دونوں کے حصہ میں آگئی کہ یا فقط یہود جائیں گے یا صرف نصاریٰ جائیں گے چونکہ دونوں کا یہ دعویٰ اپنی اپنی جگہ بلا دلیل و سند کے ہے اس لئے دلیل کا مطالبہ فرمایا امانی امنیۃ کی جمع ہے جس کے معنی خواہش اور تمنا کے ہیں عرب امانی ایسے کلام پر بولا کرتے ہیں جو عاری عن الدلیل ہو آگے ضابطہ فرما دیا کہ جنت ایسی چیز نہیں جو کسی خاص فرقہ کا حصہ ہو بلکہ ہمارا قانون یہ ہے کہ جو دل سے مسلمان ہو اور نیکیوں کا پابند رہے تو اس کو اس کے رب کے پاس اجر ملتا ہے۔ اسلم وجھہ للہ کا مطلب یہ ہے کہ جس نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا اور سالم اللہ تعالیٰ ہی کا ہوگیا۔ جیسے فرمایا رجلا سلما لرجل یعنی ایک شئے اس طور پر کسی کی کردی جائے کہ دوسرا کوئی اس میں شریک نہ ہو ہرچند کہ وجھہہ کے معنی چہرے کے ہیں لیکن وجہ بول کر ذات مراد لیا کرتے ہیں۔ ہم نے ترجمہ میں دونوں کی رعایت کی ہے مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو خالص اللہ تعالیٰ کے لئے کردیا اور فرمانبرداری اور اطاعت گذاری کے لئے اس کے قدموں پر منہ رکھ دیا۔ قرآن میں یہ کلمات چند جگہ آئے ہیں اردو میں ایسا کوئی ایک لفظ ہم کو نہیں مل سکا جس سے اس کا ترجمہ کیا جائے۔ احسان کے معنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان تعبداللہ کانک تراۃ سے کئے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی اس طور پر عبادت کیا کہ گویا تو اس کو دیکھ رہا ہے مراد اخلاص ہے خلاصہ یہ ہے کہ جس کا اعتقاد پختہ ہوگا اور اس کے اعمال میں اخلاص ہوگا وہی اللہ تعالیٰ کے دربار میں اجر وثواب پائے گا اور ہر قسم کے خون و حزن سے مامون رہے گا جنت کسی خاص شخص یا خاص فرقہ کی میراث نہیں ہے کہ اس کو ملے دوسرے کو نہ ملے۔ (تسہیل)