Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 118

سورة البقرة

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ لَوۡ لَا یُکَلِّمُنَا اللّٰہُ اَوۡ تَاۡتِیۡنَاۤ اٰیَۃٌ ؕ کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّثۡلَ قَوۡلِہِمۡ ؕ تَشَابَہَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ قَدۡ بَیَّنَّا الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یُّوۡقِنُوۡنَ ﴿۱۱۸﴾

Those who do not know say, "Why does Allah not speak to us or there come to us a sign?" Thus spoke those before them like their words. Their hearts resemble each other. We have shown clearly the signs to a people who are certain [in faith].

اسی طرح بے علم لوگوں نے بھی کہا کہ خود اللہ تعالٰی ہم سے باتیں کیوں نہیں کرتا ، یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی ؟اسی طرح ایسی ہی بات ان کے اگلوں نے بھی کہی تھی ، ان کے اور ان کے دل یکساں ہوگئے ۔ ہم نے تو یقین والوں کے لئے نشانیاں بیان کر دیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Muhammad bin Ishaq reported that Ibn Abbas said that; Rafi bin Huraymilah said to the Messenger of Allah, "O Muhammad! If you were truly a Messenger from Allah, as you claim, then ask Allah to speak to us directly, so that we hear His Speech." So Allah revealed, وَقَالَ الَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ لَوْلاَ يُكَلِّمُنَا اللّهُ أَوْ تَأْتِينَا ايَةٌ ... And those who have no knowledge say: "Why does not Allah speak to us (face to face) or why does not a sign come to us!" Abu Al-Aliyah, Ar-Rabi bin Anas, Qatadah and As-Suddi said that it was actually the statement of the Arab disbelievers: ... كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّثْلَ قَوْلِهِمْ ... So said the people before them words of similar import. He said, "These are the Jews and the Christians." What further proves that the Arab idolators said the statement mentioned in the Ayah is that Allah said, وَإِذَا جَأءَتْهُمْ ءَايَةٌ قَالُواْ لَن نُّوْمِنَ حَتَّى نُوْتَى مِثْلَ مَأ أُوتِىَ رُسُلُ اللَّهِ اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُواْ صَغَارٌ عِندَ اللَّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُواْ يَمْكُرُونَ And when there comes to them a sign (from Allah) they say: "We shall not believe until we receive the like of that which the Messengers of Allah had received." Allah knows best with whom to place His Message. Humiliation and disgrace from Allah and a severe torment will overtake the criminals (polytheists and sinners) for that which they used to plot. (6:124) and, وَقَالُواْ لَن نُّوْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الاَرْضِ يَنبُوعًا And they say: "We shall not believe in you (O Muhammad), until you cause a spring to gush forth from the earth for us, until, قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إَلاَّ بَشَرًا رَّسُولاً (Say (O Muhammad): "Glorified (and Exalted) be my Lord ((Allah) above all that evil they (polytheists) associate with Him)! Am I anything but a man, sent as a Messenger!" (17:90-93) and, وَقَالَ الَّذِينَ لاَ يَرْجُونَ لِقَأءَنَا لَوْلاَ أُنزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَـيِكَةُ أَوْ نَرَى رَبَّنَا And those who expect not a meeting with Us (i.e. those who deny the Day of Resurrection and the life of the Hereafter) said: "Why are not the angels sent down to us, or why do we not see our Lord!" (25:21) and, بَلْ يُرِيدُ كُلُّ امْرِىءٍ مِّنْهُمْ أَن يُوْتَى صُحُفاً مُّنَشَّرَةً Nay, everyone of them desires that he should be given pages spread out. (74:52) There are many other Ayat that testify to the disbelief of the Arab idolators, their transgression, stubbornness, and that they asked unnecessary questions out of disbelief and arrogance. The statements of the Arab idolators followed the statements of the nations of the People of the Two Scriptures and other religions before them. Allah said, يَسْأَلُكَ أَهْلُ الْكِتَـبِ أَن تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتَـباً مِّنَ السَّمَأءِ فَقَدْ سَأَلُواْ مُوسَى أَكْبَرَ مِن ذلِكَ فَقَالُواْ أَرِنَا اللَّهِ جَهْرَةً The People of the Scripture (Jews) ask you to cause a book to descend upon them from heaven. Indeed, they asked Musa (Moses) for even greater than that, when they said: "Show us Allah in public." (4:153) and, وَإِذْ قُلْتُمْ يَـمُوسَى لَن نُّوْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً And (remember) when you said: "O Musa! We shall never believe in you until we see Allah plainly." (2:55) Allah's statement, ... تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ ... Their hearts are alike. means, the hearts of the Arab idolators are just like the hearts of those before them, containing disbelief, stubbornness and injustice. Similarly, Allah said, كَذَلِكَ مَأ أَتَى الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ مِّن رَّسُولٍ إِلاَّ قَالُواْ سَـحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ أَتَوَاصَوْاْ بِهِ Likewise, no Messenger came to those before them but they said: "A sorcerer or a madman!" Have they (the people of the past) transmitted this saying to these (Quraysh pagans)! (51:52-53) Allah said next, ... قَدْ بَيَّنَّا الايَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ We have indeed made plain the signs for people who believe with certainty. meaning, We made the arguments clear, proving the truth of the Messengers, with no need of more questions or proofs for those who believe, follow the Messengers and comprehend what Allah sent them with. As for those whose hearts and hearing Allah has stamped and whose eyes have been sealed, Allah described them: إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لاَ يُوْمِنُونَ وَلَوْ جَأءَتْهُمْ كُلُّ ءايَةٍ حَتَّى يَرَوُاْ الْعَذَابَ الاٌّلِيمَ Truly, those, against whom the Word (wrath) of your Lord has been justified, will not believe. Even if every sign should come to them, until they see the painful torment. (10:96-97)

طلب نظارہ ۔ ایک حماقت رافع بن حریملہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ اگر آپ سچے ہیں تو اللہ تعالیٰ خود ہم سے کیوں نہیں کہتا ؟ ہم بھی تو خود اس سے اس کا کلام سنیں ، اس پر یہ آیت اتری مجاہد کہتے ہیں یہ بات نصرانیوں نے کہی تھی ، ابن جریر فرماتے ہیں یہی ٹھیک بھی معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ آیت انہی سے متعلق بیان کے دوران میں ہے لیکن یہ قول سوچنے کے قابل ہے قرطبی فرماتے ہیں کہ انہوں نے کہا تھا کہ آپ کی نبوت کی اطلاع خود جناب باری ہمیں کیوں نہیں دیتا ؟ یہی بات ٹھیک ہے واللہ اعلم ۔ بعض اور مفسر کہتے ہں یہ قول کفار عرب کا تھا اسی طرح بےعلم لوگوں نے بھی کہا تھا ان سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں ، قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت ( وَاِذَا جَاۗءَتْهُمْ اٰيَةٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰي نُؤْتٰى مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ رُسُلُ اللّٰهِ ۂاَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ) 6 ۔ الانعام:124 ) ان کے پاس جب کبھی کوئی نشانی آتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو نہیں مانیں گے جب تک ہم کو بھی وہ نہ دیا جائے جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا اور جگہ فرمایا آیت ( وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ يَنْۢبُوْعًا ) 17 ۔ الاسرآء:90 ) یعنی انہوں نے کہا کہ ہم آپ پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ آپ ہمارے لئے ان زمینوں میں چشمے جاری نہیں کر دیں اور جگہ فرمایا آیت ( وَقَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ نَرٰي رَبَّنَا ) 25 ۔ الفرقان:21 ) یعنی ہماری ملاقات کے منکر کہتے ہیں ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے جاتے اللہ تعالیٰ ہمارے سامنے کیوں نہیں آتا اور جگہ فرمایا آیت ( بَلْ يُرِيْدُ كُلُّ امْرِۍ مِّنْهُمْ اَنْ يُّؤْتٰى صُحُفًا مُّنَشَّرَةً ) 74 ۔ المدثر:52 ) ان میں سے ہر شخص چاہتا ہے کہ ہو خود کوئی کتاب دیا جائے وغیرہ وغیرہ آیتیں جو صاف بتاتی ہیں کہ مشرکین عرب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف تکبر و عناد کی بنا پر ایسی ہیں چیزیں طلب کیں اسی طرح یہ مطالبہ بھی انہی مشرکین کا تھا ، ان سے پہلے اہل کتاب نے بھی ایسے ہی بےمعنی سوالات کئے تھے ارشاد ہوتا ہے آیت ( يَسْــَٔــلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتٰبًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰٓى اَكْبَرَ مِنْ ذٰلِكَ ) 4 ۔ النسآء:153 ) اہل کتاب تم سے چاہتے ہیں کہ تم ان پر کوئی آسمانی کتاب اتارو اور حضرت موسیٰ سے انہوں نے اس سے بھی بڑا سوال کیا تھا ان سے تو کہا تھا کہ ہمیں اللہ کو ہماری آنکھوں سے دکھا اور جگہ فرمان ہے کہ جب تم نے کہا اے موسیٰ ہم تجھ پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک اپنے رب کو سامنے نہ دیکھ لیں پھر فرمایا ان کے اور ان کے دل یکساں اور مشابہ ہو گئے یعنی ان مشرکین کے دل سابقہ کفار جیسے ہو گئی اور جگہ فرمایا ہے کہ پہلے گزرنے والوں نے بھی اپنے انبیاء کو جادوگر اور دیوانہ کہا تھا انہوں نے بھی ان ہی باتوں کو دہرایا تھا ۔ پھر فرمایا ہم نے یقین والوں کے لئے اپنی آیتیں اسی طرح بیان کر دیں ہیں جن سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق عیاں ہے کسی اور چیز کی وضاحت باقی نہیں رہی یہی نشانیاں ایمان لانے کے لئے کافی ہیں ہاں جن کے دلوں پر مہر لگی ہوئی ہو انہیں کسی آیت سے کوئی فائدہ نہ ہو گا جیسے فرمایا آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ ) 10 ۔ یونس:96 ) جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ایمان نہ لائیں گے گو ان کے پاس تمام آیتیں آ جائیں جب تک کہ وہ درد ناک عذاب نہ دیکھ لیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

118۔ 1 اس سے مراد مشرکین عرب ہیں جنہوں نے یہودیوں کی طرح مطالبہ کیا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے براہ راست گفتگو کیوں نہیں کرتا، یا کوئی بڑی نشانی نہیں دکھا دیتا ؟ جسے دیکھ کر ہم مسلمان ہوجائیں جس طرح کہ (وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ يَنْۢبُوْعًا 90 ۝ ۙ اَوْ تَكُوْنَ لَكَ جَنَّةٌ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْهٰرَ خِلٰلَهَا تَفْجِيْرًا 91 ۝ ۙ اَوْ تُسْقِطَ السَّمَاۗءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِيَ باللّٰهِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ قَبِيْلًا 92 ۝ ۙ اَوْ يَكُوْنَ لَكَ بَيْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰى فِي السَّمَاۗءِ ۭ وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗ ۭ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا 93؀ۧ ) ، 093 017:090، میں اور دیگر مقامات پر بھی بیان کیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣٩] یعنی اس قسم کے مطالبات جاہل لوگ کیا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود ہمارے پاس آ کر بتائے کہ یہ واقعی میرا رسول ہے یا کوئی ایسی واضح علامت یا معجزہ ہمیں دکھلائے جس سے ہمیں یقین آجائے۔ اسی صورت میں ہم ایمان لاسکتے ہیں۔ یہ سب جہالت کی باتیں ان میں سے اکثر ناممکن العمل ہیں۔ پہلے لوگ بھی ایسے مطالبے کرتے رہے اور آج بھی جاہل لوگ اسی طرح کے مطالبے کر رہے ہیں۔ [ ١٤٠] یعنی مزاج کے لحاظ سے پہلے زمانہ کے گمراہوں اور ان گمراہوں میں کچھ فرق نہیں۔ ایسے جاہل لوگ ایک ہی قسم کے اعتراضات اور مطالبات پیش کرتے رہتے ہیں۔ [١٤١] اور جن لوگوں نے ایمان لانا ہو ان کے لیے تو ہماری نشانیوں کی کوئی کمی نہیں۔ ایک ایک آیت پر ان کا ایمان پختہ سے پختہ تر ہوتا جاتا ہے اور جو لوگ کفر پر اڑے رہنا چاہتے ہیں انہیں البتہ کوئی نشانی نظر نہیں آتی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اس سے مراد کفار عرب ہیں، جنھوں نے اپنے سے پہلے لوگوں یعنی یہود و نصاریٰ کی طرح یہ مطالبہ کیا۔ مزید دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٩٠ تا ٩٣) ، فرقان (٢١) اور سورة مدثر (٥٢) (ۭ تَشَابَهَتْ قُلُوْبُھُمْ ) یعنی ان سب کی سوچ ایک جیسی ہے اور فرمایا کہ قرآن کریم سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صدق واضح ہے، اگر یہ لوگ اہل یقین ہوتے تو یہی دلائل کافی تھے۔ (المنار)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Jews, the Christians and the mushrikin used to deny the prophethood of Sayyidna Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and some of them did so out of sheer malevolence. In order to feel triumphant in this obstinacy, they would make absurd and impossible demands, two of which have been mentioned here. To begin with, they insisted that Allah Himself should speak to them, either directly as He speaks to the angels, or through the angels as He speaks to the prophets, and that He should Himself proclaim his injunctions to them so as to make the intervention of a new prophet unnecessary, or should at least announce that He had sent Sayyidna Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as a prophet, thus making it easy for them to have faith in him and to follow his guidance. Should Allah choose not to accept this demand, they were ready with another -- that is, Allah should send them a sign or proof in confirmation of his prophethood. In reply to them, Allah puts this demand down as being no more than a foolish custom which has all along been unthinkingly practised by ignorant people even in the earlier ages. Then, the verse traces the origin of this demand to a distortion of the heart, in respect of which all the ignorant people, past or present, are alike, hence the parrot-like repetition of the same demand throughout the ages. The first of these demands was, on the face of it, silly enough, for, with all the grossness of their minds and hearts, they had the audacity to place themselves on the level of angels and prophets. So, the Holy Qur&an dismisses it as being unworthy of a reply. But in answer to the other demand, Allah reminds them that He has sent, not one, but a number of clear signs and proofs to confirm and establish the prophethood of Sayyidna Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . But these signs and proofs can be of help only to those who sincerely wish to know the truth and to attain certitude. As for those who are not in search of the truth, but enjoy being stuck in their malice and obstinacy, there is no help for them. At this point, we had better say a word to resolve a difficulty that is likely to arise. The Jews and the Christians were the People of the Book|", and some of them were men of learning, and yet Allah calls them ignorant. Why? The reason is that although Allah had sent such a large number of clear signs and definite proofs to establish the prophethood of Sayyidna Muhammad .i|" , yet they persisted in their denial. This is the mentality and the conduct of the ignorant.

خلاصہ تفسیر : اور (بعضے) جاہل (یہود و نصاریٰ اور مشرکین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ میں) یوں کہتے ہیں کہ (خود) اللہ تعالیٰ ہم سے کلام کیوں نہیں فرماتے (خواہ فرشتوں کے بغیر جیسے خود فرشتوں سے کلام فرماتے ہیں یا فرشتوں کے واسطے سے جیسے پیغمبروں سے بطور وحی بات کرتے ہیں اور اس کلام میں یا تو خود ہم کو احکام بتادیں کہ دوسرے رسول کی ہم کو ضرورت ہی نہ رہے یا کم از کم اتنا ہی کہہ دیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے رسول ہیں تو ہم ان کی ہی رسالت کے قائل ہو کر ان کی اطاعت کرنے لگیں) یا کلام نہیں کرتے تو) ہمارے پاس کوئی اور ہی دلیل (ثبوت رسالت کی) آجائے (حق تعالیٰ اولا اس بات کا جاہلانہ رسم ہونا بتلاتے ہیں کہ) اس طرح وہ (جاہل) لوگ بھی کہتے چلے آئے ہیں جو ان سے پہلے ہو گذرے ہیں ان ہی کا سا (جاہلانہ) قول (سو معلوم ہوا کہ یہ قول کوئی باوقعت اور باریک بینی پر مبنی نہیں یوں ہی ہانک دیا جاتا ہے پھر ثانیاً اس قول کا منشاء اور سبب بیان فرماتے ہیں کہ) ان سب (اگلے پچھلے جاہلوں) کے قلوب (کج فہمی میں) باہم ایک دوسرے کے مشابہ ہیں (اس لئے سب سے بات بھی ایک ہی سی پیدا ہوئی پھر ثالثا اس قول کا جواب دیتے ہیں اور چونکہ اس قول کا جزو اول حماقت محض تھا کہ اپنے کو اس لیاقت پر ہم پلہ ملائکہ اور انبیاء کا بنانا چاہتے تھے جو بالکل ہی بدیہی البطلان ہے اس لئے اس احمقانہ بات کو نظر انداز کرکے صرف دوسرے جز کا جواب ارشاد ہوتا ہے کہ تم ایک دلیل کو لئے پھرتے ہو) ہم نے تو بہت سی دلیلیں (رسالت محمدیہ کے ثبوت میں) صاف صاف بیان کردی ہیں (مگر وہ) ان لوگوں کے لئے (نافع و کافی ہوسکتی ہیں) جو یقین (اور اطمینان حاصل کرنا) چاہتے ہیں اور چونکہ معترضین کو محض ضد اور کدہی مقصود ہے اس لئے حق طلبی کی نظر سے ان کو تحقیق ہی منظور نہیں سو ایسوں کی تسلی وتشفی کا کون ذمہ دار بنے) فائدہ : یہود و نصاریٰ تو اہل کتاب تھے ان میں اہل علم بھی تھے اس کے باوجود جو ان کو اللہ تعالیٰ نے جاہل فرمایا تو اس لئے کہ باوجودیکہ قطعی اور قوی دلائل کثرت سے قائم کردئیے گئے تھے پھر بھی جو انکار کئے جارہے تھے تو جہالت نہیں تو اور کیا تھا اور یہ جاہلوں ہی کی سی بات کہلائے گی لہذا اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو جاہل فرمایا،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ لَوْ لَا يُكَلِّمُنَا اللہُ اَوْ تَاْتِيْنَآ اٰيَۃٌ۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّثْلَ قَوْلِہِمْ۝ ٠ ۭ تَشَابَہَتْ قُلُوْبُھُمْ۝ ٠ ۭ قَدْ بَيَّنَّا الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ۝ ١١٨ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا «لَوْلَا» يجيء علی وجهين : أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] . والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن . ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ كلم الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها، ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم/ 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] . ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : {إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا } [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ شبه الشِّبْهُ والشَّبَهُ والشَّبِيهُ : حقیقتها في المماثلة من جهة الكيفيّة، کاللّون والطّعم، وکالعدالة والظّلم، والشُّبْهَةُ : هو أن لا يتميّز أحد الشّيئين من الآخر لما بينهما من التّشابه، عينا کان أو معنی، قال : وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، أي : يشبه بعضه بعضا لونا لا طعما وحقیقة، ( ش ب ہ ) الشیبۃ والشبۃ کے اصل معنی مماثلت بلحاظ کیف کے ہیں مثلا لون اور طعم میں باہم مماثل ہونا یا عدل ظلم میں اور دو چیزوں کا معنوی لحاظ سے اس قدر مماثل ہونا کہ ایک دوسرے سے ممتاز نہ ہو سکیں شبھۃ کہلاتا ہے پس آیت کریمہ : ۔ وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے میں متشابھا کے معنی یہ ہیں کہ وہ میوے اصل اور مزہ میں مختلف ہونے کے باوجود رنگت میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوں گے قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] يقن اليَقِينُ من صفة العلم فوق المعرفة والدّراية وأخواتها، يقال : علم يَقِينٍ ، ولا يقال : معرفة يَقِينٍ ، وهو سکون الفهم مع ثبات الحکم، وقال : عِلْمَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 5] «2» ، وعَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 7] «3» وحَقُّ الْيَقِينِ [ الواقعة/ 95] وبینها فروق مذکورة في غير هذا الکتاب، يقال : اسْتَيْقَنَ وأَيْقَنَ ، قال تعالی: إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ، وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] ، لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] وقوله عزّ وجلّ : وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] أي : ما قتلوه قتلا تَيَقَّنُوهُ ، بل إنما حکموا تخمینا ووهما . ( ی ق ن ) الیقین کے معنی کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوات ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے : ۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا ۔ وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] یقین کرنے والوں کیلئے اور آیت کریمہ : ۔ وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا نہیں کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا حکم لگاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٨) جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سے واقف نہیں یعنی یہودی وہ اس بات کے دعویدار ہیں کہ اللہ تعالیٰ علانیہ ہم سے گفتگو کیوں نہیں کرتا، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے بارے میں کوئی دلیل واضح ہمارے پاس کیوں نہیں آئی، تاکہ ہم اس پر ایمان لے آئیں، اس سے پہلے ان کے باپ دادا بھی یہی کہتے چلے آئے ہیں ان سب کی باتیں ایک جیسی ہیں اور ان کے دل اپنے باپ دادا ہی کے طریقہ پر ہیں، ہم نے علامات اوامرو نواہی اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات کو توریت میں (ان سب چیزوں کو ایسی جماعت کے لیے جو کہ تصدیق کرے) بیان کردیا ہے۔ شان نزول : (آیت) ” وقال اللذین لایعلمون (الخ) ابن جریر (رح) اور ابن ابی حاتم (رح) نے سعید اور عکرمہ (رح) کے حوالہ سے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ رافع بن خزیمہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ، جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوی کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں تو اللہ تعالیٰ سے کہیے کہ وہ ہم سے بات کرے تاکہ ہم اس کی گفتگو کو سنیں اس پر یہ آیت اتری ہوئی (آیت) ” وقال الذین لا یعلمون (ا (رح) لخ) شان نزول : (آیت) انا ارسلنک بالحق “۔ (الخ) عبدالرزاق (رح) بواسطہ ثوری (رح) ، موسیٰ بن عبیدہ (رح) ، محمد بن کعب قرظی (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا، کاش مجھے معلوم ہو ہوجاتا کہ میرے والدین نے کیا کیا ہے اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (آیت) ” انا ارسلنک “۔ کہ ہم نے سچائی اور حق کے ساتھ آپ کو خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بھیجا ہے، اہل جہنم کے متعلق آپ سے کسی قسم کا کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔ چناچہ اس دارفانی سے رحلت فرمانے تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر والدین کا ذکر نہیں کیا، یہ حدیث مرسل ہے اور ابن جریر (رح) نے بواسطہ ابن جریج (رح) ، داؤد بن ابی عاصم (رح) سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے والدین کہاں ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی یہ حدیث بھی مرسل ہے (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح ) ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٨ (وَقَالَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ ) یہاں پر مشرکین مکہ کی طرف روئے سخن ہے۔ (لَوْلاَ یُکَلِّمُنَا اللّٰہُ اَوْ تَاْتِیْنَآ اٰیَۃٌ ط) مشرکین مکہ کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑی شدتّ کے ساتھ یہ مطالبہ تھا کہ آپ کوئی ایسے معجزات ہی دکھا دیں جیسے آپ کہتے ہیں کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) نے دکھائے تھے یا موسیٰ (علیہ السلام) نے دکھائے تھے۔ اگر آپ ہمارے یہ مطالبے پورے کردیں تو ہم آپ کو اللہ کا رسول مان لیں گے۔ یہ مضمون تفصیل کے ساتھ سورة الانعام میں اور پھر سورة بنی اسرائیل میں آئے گا۔ (کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّثْلَ قَوْلِہِمْ ط) ( تَشَابَہَتْ قُلُوْبُہُمْ ط) (قَدْ بَیَّنَّا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ )

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

117. What they meant was that God should either appear before them Himself, tell them plainly that the Qur'an was a revelation from Him, and proclaim His injunctions, or cause them to see some extraordinary sign that would convince them that whatever Muhammad (peace be on him) told them was from Him. 118. The fact is that the misguided people of the time of the revelation of the Qur'an did not raise any objection or make any demands essentially different from those of the misguided people of the past. From the remote past till today, error and misguidedness seem to have the same character, so the same doubts and objections are repeated over and over again. 119. The demand that God should speak to them directly was too absurd even to be answered. The question dealt with here concerns the demand for a sign that would convince them of the Truth. In response to this it is pointed out that many signs do exist, but all such signs are of profit only to those who are inclined to believe. As for those who are bent on disbelief, what sign can be shown to them, and to what avail?

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :117 اُن کا مطلب یہ تھا کہ خدا ، یا تو خود ہمارے سامنے آکر کہے کہ یہ میری کتاب ہے اور یہ میرے احکام ہیں ، تم لوگ ان کی پیروی کرو ، یا پھر ہمیں کوئی ایسی نشانی دکھائی جائے ، جس سے ہمیں یقین آجائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ خدا کی طرف سے ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :118 یعنی آج کے گمراہوں نے کو ئی اعتراض اور کوئی مطالبہ ایسا نہیں گھڑا ہے ، جو ان سے پہلے کے گمراہ پیش نہ کر چکے ہوں ۔ قدیم زمانے سے آج تک گمراہی کا ایک ہی مزاج ہے اور وہ بار بار ایک ہی قسم کے شہبات اور اعتراضات اور سوالات دُہراتی رہتی ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :119 یہ بات کہ خدا خود آکر ہم سے بات کیوں نہیں کرتا ، اس قدر مہمل تھی کہ اس کا جواب دینے کی حاجت نہ تھی ۔ جواب صرف اس بات کا دیا گیا ہے کہ ہمیں نشانی کیوں نہیں دکھائی جاتی ۔ اور جواب یہ ہے کہ نشانیاں تو بے شمار موجود ہیں ، مگر جو جاننا چاہتا ہی نہ ہو ، اسے آخر کونسی نشانی دکھائی جا سکتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

قتاوہ کے قول کے موافق یہ آیت مشرکین مکہ کی شان میں ہے اور آیت { وَقَالَ الَّذِیْنَ لاَ یَرْجُوْنَ لِقَائَ نَا لَوْ لاَ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰئِکَۃِاَوْ نَرٰی رَبَّنَا } (٢٥۔ ٢١) سے اس قول کی تائید بھی ہوتی ہے کیوون کہ اس مکی سورت سورة فرقان کی اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ مشرکین مکہ کو حشر کا اقرار امید نہیں ہے یہ کہتے ہیں کہ اے محمد تمہاری نبوت کی تصدیق کوئی فرشتہ یا خود خدا ہمارے پاس آ کر کیوں نہ کہہ دیتے۔ اس صورت میں ان سے اگلوں سے مراد اہل کتاب ہیں اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ مشرکین عرب اور اہل کتاب ان سب کا بہکانے والال ابلیس علیہ اللعنہ ہے جو ایک سی باتیں ان کے دلوں میں ڈالتا ہے اس لئے یہ سب ایک سی باتیں کرتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ ان کی یہ باتیں محض جہل اور عناد کے سبب سے ہیں ورنہ تصدیق رسول میں صاحب یقین کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں نشانیاں تو کافی بیان کردی ہیں۔ مثلاً قرآن کے کتاب الٰہی ہونے کی یہ نشانی ان سب کے لئے کیا کم ہے کہ قریش باوجود تقاضے کے ایسا کلام بنانے سے عاجز ہیں۔ اور اہل کتاب جن کتابوں کو کتاب الٰہی جانتے ہیں ان کی پوری تصدیق قرآن میں موجود ہے۔ اور ان نشانیوں سے قرآن جب کلام الٰہی ہے تو جس اللہ کے رسول پر یہ قرآن کی طرف سے نازل ہوتا ہے اس کے رسول برحق ہونے میں کوئی صاحب عقل شک و شبہ نہیں کرسکتا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:118) لولا۔ لو حرف شرط۔ اور لا نافیہ مرکب ہے۔ کیوں نہیں۔ کیوں نہ۔ یہ حروف التخصیص (کسی کو کسی کام کرنے پر ابھارنا۔ یا آمادہ کرنا) العرض (نرمی سے کسی کام کی طلب کرنا) میں سے ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو 6:43، یا لغات القرآن جلد پنجم۔ دیگر حروف التخصیص والعرض یہ ہیں۔ الا ۔ ہلا۔ لوما۔ یکلمنا۔ یکلم مضارع واحد مذکر غائب۔ وہ کلام کرتا ہے تکلیم (تفعیل) مصدر۔ فا ضمیر مفعول جمع متکلم وہ کیوں ہم سے کلام نہیں کرتا۔ تاتینا۔ مضارع واحد مؤنث غائب فا ضمیر جمع متکلم ایتان مصدر (باب ضرب) وہ ہمارے پاس آئے۔ وہ ہمارے پاس آتی ہے۔ او تاتینا ایۃ ای ولولا تاتینا ایۃ۔ یا کیوں نہیں آتی ہمارے پاس کوئی نشانی۔ تشابھت قلوبہم۔ مضارع واحد مؤنث غائب۔ وہ ایک جیسی ہوگئی۔ یہاں فعل قلوبہم کے لئے آیا ہے بمعنی ان کے دل ایک جیسے ہوگئے۔ یعنی عناد اور بینائی میں پہلے اور پچھلے لوگوں کے دل برابر ہیں۔ تشابہت کا فاعل قلوبھم ہے۔ قدبینا۔ قد ماضی پر داخل ہوکر تحقیق کے معنی دیتا ہے بینا۔ ماضی جمع متکلم۔ تبیین (تفعیل) مصدر سے واضح طور پر بیان کرنا۔ بیشک ہم واضح طور پر بیان کرچکے ہیں۔ یؤقنون ۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ ایقان (افعال) مصدر، وہ یقین کرتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ان فرق ثلاثہ عقیدہ توحید پر قدح کے بعد ان نبوت پر ان کا اعتراض نقل فرمایا ہے کے بےعلم لوگ اس قسم کے اعتراض کرتے ہیں چلے آرہے ہیں۔ یہ لوگ توحید و نبوت کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں تشا بھت قلو بھم۔ یعنی ان سب کی ذہن نتیں ایک جیسی ہیں اور فرمایا کہ قرآن کریم سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت رواضح ہے اگر یہ لوگ اہل یقین میں سے ہوتے تو یہی کافی تھے (المنار )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 118 تا 121 لو لا یکلمنا (ہم سے بات کیوں نہیں کرتا) ۔ تشابھت (ایک جیسے ہیں، ملتے جلتے ہیں ) ۔ قد بینا (یقیناً ہم نے بیان کیا، واضح کردیا) ۔ ارسلنک (ہم نے آپ کو بھیجا) ۔ لا تسئل (تو نہیں پوچھا جائے گا) ۔ اصحب الجحیم (دوزک والے) ۔ لن ترضی (وہ ہرگز خوشی نہ ہوں گے) ۔ حتی تتبع (جب تک تو پیروی نہ کرے) ۔ ملت (دین، طریقہ، مذہب) ھدی اللہ (اللہ کی ہدایت، اللہ کی رہنمائی) ۔ اتبعت (تو نے پیروی کی) ۔ اھواء (ھوا) خواہشات ، تمنائیں) ۔ ولی (حمایتی) نصیر (مددگار) ۔ حق تلاوتہ (اس کی تلاوت کا حق اداکرکے) ۔ تشریح : آیت نمبر 118 تا 121 جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیات نازل ہوتیں یا کوئی معجزہ سامنے آتا تو کفار کہا کرتے تھے کہ آخر اللہ ہم سے خود کلام کیوں نہیں کرتا یا ہمارے اوپر کوئی نشانی کیوں نازل نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آج جو بات یہ کہہ رہے ہیں کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں ہے اس سے پہلے کے لوگ بھی اپنے نبیوں سے یہ بات کہہ چکے ہیں کافرانہ ذہنیت کا مزاج ایک ہی ہوا کرتا ہے ۔ ان کے سامنے سینکڑوں کھلے ہوئے معجزات آئے لیکن ان کو دیکھ کر بھی وہ ایمان نہ لائے۔ جس کو ایمان لانا ہوتا ہے اس کو کسی معجزہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ فرمایا کہ اے ہمارے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کو خوشخبری دینے والا اور عذاب آخرت سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات خود ایک کھلی ہوئی دلیل ہے اور معجزہ ہے یہ آپ کو دیکھ کر ایمان نہیں لاتے آپ کی ذات کے بعد ان کے لئے اور کون سا معجزہ یا نشانی باقی رہ جاتی ہے۔ آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ان کے سامنے ہے، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ نے دنیا میں کسی انسان سے کوئی تعلیم حاصل نہیں کی لیکن آپ کی زبان مبارک سے اچانک وہ کلام ظاہر ہونے لگا جس کے سامنے تمام کفار، یہودی، نصاری اور منافق دم بخود ہیں جس قران کی ایک سورت بھی تمام مل کر بنا نہیں سکتے، تو اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کی ذات اور قرآن کریم سے بڑھ کر وہ لوگ اور کس معجزہ یا نشانی کا مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں۔ آخر میں تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ان کا یہ اعتراض برائے اعتراض ہے یہ اس وقت تک آپ سے خوش ہو ہی نہیں سکتے جب تک آپ ان ہی کے جیسے طریقوں کو اختیار نہ کرلیں۔ وہ طریقے جن پر چل کر کوئی بھی اللہ کی حمایت و نصرت کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ آپ ان کی پرواہ نہ کیجئے جن لوگوں نے ان قرآن کو پڑھا ہے وہ اس کو اس طرح پڑھتے ہیں کہ اس کی تلاوت کا حق ادا کردیتے ہیں لیکن وہ لوگ جو اس کا انکار کرتے ہیں وہ زبردست خسارہ اور نقصان اٹھانے والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یہود و نصاری کو باجود اہل کتاب واہل علم ہونے کے جاہل اس لیے کہہ دیا گیا کہ یہ بات جاہلوں کی سی کہی تھی کہ باوجود دلائل قویہ کثیرہ قائم ہوچکنے کے ابھی تک حجود کیے جاتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس طرح لوگوں کا اللہ تعالیٰ کی اولاد ٹھہرانا غلط ہے۔ اسی طرح ان کا براہ راست اللہ تعالیٰ کو دیکھنے یا اس سے براہ راست بات کرنے کا مطالبہ بھی غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ کی زیارت دنیا کی آنکھوں سے کرنا نا ممکنات میں سے ہے۔ اہل کفر کی ہمیشہ سے یہ عادت رہی ہے کہ جب بھی وہ انبیاء کے مقابلے میں لا جواب ہوئے تو یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جس خدا نے آپ کو نبی بنایا ہے وہ براہ راست ہمیں اپنے آپ پر ایمان لانے کا حکم کیوں نہیں دیتا ؟ یا پھر ہمارے پاس ایسے دلائل و معجزات کیوں نہیں آتے ؟ جن کو دیکھتے ہی ہم آپ کی رسالت اور خدا کی خدائی پر ایمان لانے کے لیے مجبور ہوجائیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہم کلامی کے مطالبہ کو اس لیے در خور اعتناء نہیں سمجھا گیا کیونکہ اس سے زیادہ جہالت پر مبنی کوئی مطالبہ نہیں ہوسکتا۔ مشرکین مکہ سے پہلے بنی اسرائیل نے مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے کوہ طور پر خدا کے نور کی ایک جھلک دیکھی تو سارے کے سارے بےہوش ہوگئے۔ قرآن مجید صاف ‘ صاف بتلاتا ہے کہ دنیا کی زندگی میں انسان کی آنکھ ربِّ کبریا کو نہیں دیکھ سکتی جب کہ اللہ تعالیٰ سب کو دیکھ رہا ہے۔ (الانعام : ١٠٣) اگر اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو براہ راست حکم دینا اور بات کرنی ہے اور ہر کوئی انبیاء کی طرح پاکباز اور با صلاحیت ہو تو پھر پیغمبروں کی آمد کا مقصد ہی باقی نہیں رہتا۔ اس بےہودہ سوال کا جواب دینے کی بجائے فقط اتنا فرمایا کہ ان کی زبان اور دل ان لوگوں کی طرح ہوچکے ہیں جنہوں نے ہمیشہ انکار اور تمرّد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ایسا مطالبہ کیا ہے۔ جہاں تک کھلے اور واضح دلائل اور معجزات کا تعلق ہے وہ اس سے زیادہ کیا ہوسکتے ہیں کہ ان کے سامنے چاند کا دو ٹکڑے ہونا ‘ آپ کا آسمانوں کی رفعتوں سے بلند سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا، قرآن مجید کی ایک ایک پیش گوئی کا حرف بحرف سچ ہونا، معجزات اور آیات کا نازل ہونا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی کی شکل میں ایک چلتا پھرتا معجزۂ مجسم بھی ان کے سامنے تھا۔ جس کی نظیر و مثال قیامت تک کوئی پیش نہیں کرسکتا اتنے واضح و بیّن براہین و دلائل پر ایمان تو وہی لوگ لاتے ہیں جو یقین و اعتماد کی صلاحیتوں سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ بلا شبہ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسی سچائی کے ساتھ جلوہ گر کیا ہے کہ جس پر ایمان لانے والوں کے لیے دنیا و آخرت کی بشارتیں اور منکروں کے لیے دنیا میں پریشانیاں اور آخرت میں پشیمانیاں ہوں گی۔ میرے نبی ! آپ اپنا کام کرتے جائیں۔ آپ برے کاموں پر انتباہ کرنے اور اچھے کاموں کی اچھی خوشخبری دینے والے ہیں۔ ہم قیامت کے دن یہ سوال نہیں کریں گے کہ آپ کے ہوتے ہوئے یہ جہنم کے سزا وار کیوں ٹھہرے ؟ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أُعْطِیْتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَھُنَّ نَبِيٌّ قَبْلِيْ وَلَا أَقُوْلُھُنَّ فَخْرًا بُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ کَافَّۃً الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ وَنُصِرْتُ بالرُّعْبِ مَسِیْرَۃَ شَھْرٍ وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَاءِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِيْ وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَھُوْرًا وَّأُعْطِیْتُ الشَّفَاعَۃَ فَأَخَّرْتُھَا لِأُمَّتِيْ فَھِيَ لِمَنْ لَّایُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا) [ مسند احمد : کتاب ومن مسند بنی ہاشم، باب بدایۃ مسند عبداللہ بن العباس ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے ایسی پانچ چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں اور میں ان کے بارے میں فخر سے بات نہیں کرتا میں تمام سرخ و سیاہ لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں اور ایک مہینے کی مسافت تک میری رعب کے ساتھ مدد کی گئی ہے اور میرے لیے غنیمت کا مال حلال قرار دیا گیا ہے جب کہ مجھ سے پہلے کسی امت کے لیے حلال نہ تھا اور میرے لیے زمین مسجد اور طہارت کا ذریعہ بنادی گئی ہے اور مجھے شفاعت عطا کی گئی میں نے اسے اپنی امت کے لیے مؤخر کردیا ہے اور وہ ہر اس شخص کی نجات کا ذریعہ بنے گی جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا۔ “ مسائل ١۔ جاہل اور کافر لوگ اللہ تعالیٰ کو براہ راست دیکھنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ ٢۔ انبیاء کا کام لوگوں کو جہنم سے کھینچنا نہیں بلکہ ان کو اچھے، برے سے آگاہ کرنا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوشخبری دینے اور انتباہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا : ١۔ بنی اسرائیل نے اللہ کو دیکھنے اور اس سے ہم کلامی کا مطالبہ کیا۔ (النساء : ١٥٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ براہ راست کسی سے کلام نہیں فرماتا۔ (الشورٰی : ٥١) ٣۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ پردے میں بات کرتا تھا۔ ( الشورٰی : ٥١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہاں آکر اہل کتاب کے قول ابنیت پر تبصرہ ہوجاتا ہے ۔ ان کے عقائد باطلہ کی تصحیح کے بعد ، اب مشرکین کے ان اقوال کو لیا جاتا ہے جو مقام الوہیت کے خلاف ہیں اور جو اہل کتاب کے عقائد واقوال سے ملتے جلتے ہیں ۔ وَقَالَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ لَوْلا يُكَلِّمُنَا اللَّهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ” نادان کہتے ہیں کہ اللہ خود ہم سے بات کیوں نہیں کرتا یا کوئی نشانی ہمارے پس کیوں نہیں آتی ؟ ایسی ہی باتیں ان سے پہلے لوگ بھی کیا کرتے تھے ۔ “ ” جو لوگ نہیں جانتے “ ان سے مراد ان پڑھ لوگ ہیں جو کتاب کے علم سے بےبہرہ ہیں اور وہ بالعموم مشرک تھے ۔ ان کے پاس کتاب الٰہی کا کوئی علم نہ تھا ۔ ان لوگوں نے بارہا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ آپ انہیں اللہ تعالیٰ سے ہمکلام کرائیں ۔ یا ان کے سامنے کوئی معجزہ پیش کریں ۔ یہاں ان لوگوں کے اس نامعقول مطالبے کا تذکرہ اس لئے ہوا تاکہ یہ بتایا جاسکے کہ ان سے پہلے کی اقوام یہود ونصاریٰ نے بھی اپنے انبیاء سے ایسے ہی مطا بےکئے تھے ۔ قوم موسیٰ (علیہ السلام) نے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو کھلا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ نیز انہوں نے مادی خوارق عادات اور معجزات کے مطالبے میں بھی بےحد غلو کیا تھا۔ مقصود یہ ہے کہ یہ مشرکین اور یہودی ایک ہی مزاج اور ایک ہی طرز فکر کے مالک ہیں ، اور یہ ایک ہی قسم کی کجروی میں مبتلا ہیں تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ ” ان سب کی ذہنیتیں ایک ہی جیسی ہیں ۔ “ لہٰذا یہودیوں کو مشرکین پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے ۔ یہ سب طرز فکر ، ہٹ دھرمی اور کجروی میں بالکل ہم مشرب ہیں قَدْ بَيَّنَّا الآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ ” یقین لانے والوں کے لئے تو ہم نشانیاں صاف صاف نمایاں کرچکے ہیں ۔ “ جن کے دل میں ذوق ایمان ہے ، وہ جب آیات الٰہی کا مطالعہ کرتا ہے تو اسے اپنے ایمان کا مصداق ان آیات میں نظر آتا ہے ۔ اور ان آیات میں اس کے ضمیر کے اطمینان کا سامان ہوتا ہے۔ غرض یہ آیات اور نشانیاں کسی کے اندر ایمان نہیں پیدا کرسکتیں بلکہ یہ ایمان ہے جس کی روشنی میں اللہ کی آیات اور نشانیوں کو سمجھا جاسکتا ہے ، اور اطمینان حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ اور اس طرح انسان کا دل و دماغ پیہم ہدایت حاصل کرسکتے ہیں ۔ ان کے اقوال کے اختتام ، ان کے افکار باطلہ کی تردید ، اور ان کے گمراہ کن پروپیگنڈے کے پس پردہ کارفرما مقاصد کی پردہ دری کے بعد اب روئے سخن حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف پھرجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کے فرائض بیان فرماتے ہیں ، آپ کے لئے مقاصد متعین کردئیے جاتے ہیں اور آپ کو یہ بتایا جاتا ہے کہ یہود ونصاریٰ اور آپ کے درمیان جو معرکہ بپا ہے ، اس کی نوعیت کیا ہے ؟ آپ اور ان لوگوں کے درمیان کتناگہرا اختلاف ہے اور یہ کہ ایک بھاری قیمت ادا کرکے ہی دور کیا جاسکتا ہے جبکہ آپ نہ تو وہ قیمت رکھتے ہیں اور نہ اسے ادا کرسکتے ہیں ۔ اور اگر (نعوذ باللہ ) ان لوگوں سے اتحاد کرنے کے لئے آپ یہ بھاری قیمت ادا کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں تو آپ اپنے آپ کو غضب الٰہی کا مورد ٹھہرائیں گے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جاہلوں کی باتیں کہ اللہ ہم سے بات کیوں نہیں کرتا ؟ حضرت انبیاء کرام (علیہ السلام) کی امتوں کا یہ طریقہ تھا کہ وہ سامنے صریح دلائل اور معجزات کے ہوتے ہوئے اپنے نبیوں کی نبوت کا انکار کرتے تھے اور اپنے پاس سے تجویز کر کے نبوت کی دلیلیں طلب کرتے تھے۔ انہیں میں سے ایک یہ مطالبہ بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے خود بات کرے تو ہم مانیں، اور کہتے تھے کہ ہم جو معجزہ چاہتے ہیں وہ ہمارے سامنے آنا چاہیے۔ اس آیت میں بقول بعض مفسرین مشرکین عرب کا یہی سوال نقل ١ ؂ فی روح المعانی أی ارادشیئا بقرینۃ قولہ تعالیٰ انما امرہ اذا ارادشیئا وَجاء القضاء علی وجوہ ترجع کلھا الی اتمام الشیء قولا أوفعلا واطلاقہ علی الارادۃ مجاز من استعمال اللفظ المسبب فی السبب فان الایجاد الذی ھو اتمام الشی مسبب عن تعلق الارادۃ لانہ یوجبہ۔ (ص ٣٦٨ ج ١) فرمایا ہے اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس سے یہود و نصاریٰ مراد ہیں۔ اگر مشرکین عرب مراد ہوں تو ان کے بارے میں (اَلَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ ) جو فرمایا ہے اس میں کوئی اشکال ہی نہیں۔ کیونکہ وہ عموماً ان پڑھ تھے اور کسی کتاب کے حامل بھی نہ تھے اور اگر یہود و نصاریٰ مراد ہوں ان کو لاَ یَعْلَمُوْنَ (نہیں جانتے) اس لیے فرمایا کہ انہوں نے جانتے ہوئے انجان ہونے کا کام کیا پھر فرمایا (کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ مِّثْلَ قَوْلِھِمْ تَشَابَھَتْ قُلُوْبُھُمْ ) (یعنی ان سے پہلے جو لوگ تھے جنہوں نے کفر وعناد اور سر کشی پر کمر باندھی ہوئی تھی انہوں نے بھی اسی طرح کی باتیں کہی تھیں ان کے قلوب اور ان کے قلوب ایک دوسرے کے مشابہ ہوگئے۔ کفرو عناد اور سرکشی میں، انکار حق میں یہ لوگ اور جو ان سے پہلے تھے، ایک ہی جیسے ہوگئے۔ پھر فرمایا (قَدْبَیَّنَّا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ ) (بےشک ہم نے دلائل بیان کردیے، ان لوگوں کے لیے جو یقین کرتے ہیں) ۔ تمام انبیاء سابقین کو معجزات دیے گئے۔ وہ ان کی نبوت اور رسالت ثابت کرنے کے لیے بالکل کافی و وافی تھے۔ اور نبی آخر الزماں حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر بھی بڑے بڑے معجزات اور دلائل واضحہ سامنے آ چکے ہیں۔ منکرین اور معاندین کو تو ماننا ہی نہیں ہے۔ جن کے دلوں میں اتباع حق کا جذبہ ہے اور جو حق سامنے آنے کے بعد حق کو تسلیم کرلیتے ہیں اور حق کو حق جان کر مان لیتے ہیں اور ایمان لے آتے ہیں۔ یہ دلائل انہیں کے لیے مفید ہوتے ہیں منکرین کا طریقہ یہ رہا ہے کہ جو بھی کوئی معجزہ ان کے سامنے آیا اس کو جادو بتادیا اور حق کو ٹھکرا دیا جس کو سورة قمر میں یوں بیان فرمایا کہ (وَاِِنْ یَرَوْا اٰیَۃً یُعْرِضُوْا وَیَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ) (اور اگر معجزہ دیکھتے ہیں تو اس سے اعراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جادو ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا) ۔ سورة انعام میں فرمایا : (وَ اَقْسَمُوْا باللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ لَءِنْ جَآءَْ ھُمْ اٰیَۃٌ لَّیُؤْمِنُنَّ بِھَا قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰہِ وَ مَا یُشْعِرُکُمْ اَنَّھَآ اِذَا جَآءَتْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ) (یعنی انہوں نے خوب زور دار قسمیں کھا کر کہا کہ اگر ہمارے پاس (ایسا) معجزہ آجائے (جس کی ہم فرمائش کرتے ہیں) تو ہم ضرور ضرور ایمان لے آئیں گے۔ آپ فرما دیجیے کہ سب نشانیاں اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ میں ہیں، پھر مسلمانوں سے خطاب فرمایا تم کو اس کی کیا خبر کہ نشانی فرمائش کے مطابق ظاہر ہوجائے تو یہ لوگ اس وقت بھی ایمان نہ لائیں گے ؟ ) اپنی طرف سے تجویز کرکے دلائل و معجزات طلب کرنا ایمان لانے کے لیے نہیں ہے بلکہ محض ضد اور عناد مقصود ہے اسی پر تلے ہوئے ہیں ایمان و یقین کا ارادہ ہی نہیں رکھتے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

224 ۔ پانچواں شکوہ۔ چوتھا شکوہ توحید میں گڑ بڑ کرنے سے متعلق تھا۔ اور یہ رسالت پر جرح وقدح سے متعلق ہے۔ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ۔ سے بعض نے مشرکین عرب مراد لیے ہیں اور بعض نے یہود ونصاریٰ لیکن بہتر یہ ہے کہ اس سے تینوں گروہ مراد ہوں کیونکہ بےجا اور معاندانہ سوال تینوں گروہوں سے ثابت ہیں۔ مشرکین نے مطالبہ کیا تھا۔ فَلْیَاتِنَا بِاٰ یَۃٍ کَمَا اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ (انبیا رکوع 1) اور یہود ونصاری کے متعلق ارشاد ہے۔ یَسْئَلُکَ اَھْلُ الْکِتَابِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْہِمْ کِتَاباً مِّنَ السَّمَا (نسا ع 22) باقی رہی یہ بات کہ مشرکین تو بےعلم ہوئے کیونکہ ان کے پاس اللہ کی کتاب نہیں تھی۔ اہل کتاب کیسے لا یعلمون کے تحت داخل ہوں گے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی جاہلانہ حرکات اور بدعملی کی بنا پر ان کے علم کی نفی کی گئی ہے۔ وعلی الاخیرین لتجاھلہم او لعدم علمھم بمقتضاہ (روح ص 370 ج 1) لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللّٰهُ ۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کلام کرتا ہے یا جس طرح انبیا کی طرف وحی بھیجتا ہے اس طرح وہ براہ راست یا بذریعہ وحی ہم سے کیوں ہمکلام نہیں ہوتا۔ اور براہ راست ہمیں ہی ہدایت نامہ کیوں نہیں دیدیتا۔ اَوْ تَاْتِيْنَآ اٰيَةٌ۔ آیت سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کی دلیل مراد ہے۔ یہ سوالات ان کی انتہائی سرکشی اور ضد وعناد کا نتیجہ تھے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کے واضح دلائل ان کے سامنے تھے۔ وہ کئی ایک معجزات بھی دیکھ چکے تھے۔ مگر اس کے باوجود مزید دلائل کا مطالبہ کرتے تھے۔ اس لیے کہ ماننا مقصود نہیں تھا۔ بلکہ محض ضد وعناد اور بغض وحسد کا اظہار مد نظر تھا۔225 یعنی یہ سرکشانہ اور معاندانہ رویہ کوئی ان کے ساتھ ہی مخصوص نہیں۔ ان سے پہلے ان کے آباؤ اجداد بھی ایسا ہی کرتے چلے آئے ہیں۔ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسیٰ اَکْبَرَ مِنْ ذَالِکَ (نسا ع 22) تَشَابَهَتْ قُلُوْبُھُمْ ۔ بےبصیرتی اور ضد وعناد میں ان کے اور ان کے بڑے بڑوں کے دل ملے ہوئے ہیں۔ نہ ان کے سوالات طلب حق پر مبنی تھے نہ ان کے مطالبات کسی نیک غرض پر مبنی ہیں۔ ای قلوب ھؤلا و من قبلھم فی العمی والعناد (روح ص 370 ج 1) ۭ قَدْ بَيَّنَّا الْاٰيٰتِ ۔ ان لوگوں کا مقصد محض سرکشی اور ضد ہے۔ ورنہ دلائل وآیات کو تو ہم کھول کھول کر بیان کرچکے ہیں۔ لِقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ ۔ جو لوگ صدق نیت کے ساتھ حق ویقین کی جستجو کرنے والے ہیں ان کے اطمینان کے لیے تو وہ آیات کافی وشافی ہیں۔ الطالبون معرفۃ حقائق الاشیا علی یقین وصحۃ (ابن جریر ص 388 ج 1) ای یطلبون الیقین (بیضاوی ص 36) البتہ ضدوعناد کا کوئی علاج نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 4 اور جو لوگ علم سے بےبہرہ ہیں وہ یوں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے بلا واسطہ کیوں کلام نہیں کرتا یا ہمارے پاس کوئی دلیل اور نشانی کیوں نہیں آجاتی جس پر اس پیغمبر کی نبوت ثابت ہوجائے جس طرح کی یہ باتیں کہہ رہے ہیں اسی طرح کی باتیں اور مطالبے وہ لوگ بھی کرچکے ہیں جو ان سے پہلے ہوئے ہیں ان پہلے اور پچھلے جاہلوں کے قلوب آپس میں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں۔ یقین جانو ! کہ ہم نے تو بہت سے دلائل رسالت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان لوگوں کیلئے واضح طور پر بیان کردئیے ہیں جو اطمینان و یقین حاصل کرنے کے طلب گار ہیں۔ (تیسیر) علم سے بےبہرہ ہیں یعنی جاہل جیسے کفار عرب یا جاہل اہل کتاب وہ اہل کتاب کے عالم ہو بےعمل ہیں اور وہ اپنے علم سے نفع اٹھانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ غرض ان سب جاہلوں کی یہ بات ہے ایۃ سے یہ مطلب ہے کہ کوئی معقول دلیل یا کوئی معجزہ اور یہ جو فرمایا قلوب ایک دوسرے کے مشابہ ہیں یہ اسی کافرانہ ذہنیت کی طرفاشارہ ہے جو عام طور سے کفار میں مساوی ہے کوئی کافر پہلی قوموں میں سے ہو یا ہمارے زمانے کا ہو سب کی ذہنیت اور سب کے اعتراضات ملتے جلتے ہوں گے اور یہ کفر کی آب و ہوا کا ہی اثر ہے ان کی ان باتوں کا جو جواب دیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اور کیا دلیل چاہتے ہیں دلائل تو ہم صاف صاف بیان کرچکے ہیں قرآن کی ہر آیت میں ایک مستقل دلیل ہے خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اپنی نبوت پر ایک مجسم دلیل ہے کائنات عالم کا ایک ایک ذرہ جس کی طرف قرآن توجہ دلاتا ہے وجود باری اور اسکی وحدانیت پر ایک روشن اور واضح دلیل ہے ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ تمام دلائل ان ہی لوگوں کے لئے ہیں جو ان سے نفع اٹھائیں اور وہ لوگ وہ ہیں جو یقین و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں ورنہ سرکش اور معاند کے لئے کوئی دلیل بھی مفید نہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اگلی امت جو یہود تھے وہ بھی اپنے نبی سے یہی کہتے تھے جو اب کے لوگ کہنے لگے۔ (موضح القرآن) شاہ صاحب (رح) نے یہاں بھی ایک قول اختیار کرلیا ہے۔ (تسہیل)