The previous verses have defined the religion of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) and the essence of Islam. Now, these two verses bring before us another aspect of the question. Call it the religion of Sayyidna Ibrahim or Islam, it is in any case meant for the whole world. Then why have the descendants of Sayyidna Ibrahim and Sayyidna Ya` qub (علیہم السلام) been specifically mentioned here, and why should have these two great prophets been so particular in giving this counsel to their sons? We shall say that these specifications show that love for one&s progeny and solicitude for their well-being is in no way incompatible with the station of prophethood or even with that of |"the Friend of Allah|". For, Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) ، who was, on one occasion, not only willing but happy to be sacrificing his son in obedience to the commandment of Allah, did on a different occasion pray for the well-being of his progeny in this world and the other, and wished, while departing from this world, to offer them what was the greatest blessing in his eyes - namely, Islam. Verses 132 and 133 suggest this very principle. So, even prophets love their children, the only difference being that while ordinary men consider the good things of this world alone to be worthwhile and wish to leave to their children as much of these as they can, in the eyes of the prophets and their genuine followers the only thing that counts is Iman ایمان (faith) and good deeds - in one word, Islam - and it is this eternal wealth which they wish and strive to transmit wholly to their descendants. This practice of the prophets provides a special guidance to parents: just as they are keen to secure the worldly comfort and happiness of their children, they should pay equal, if not greater, attention to the discipline of their external and internal behaviour according to the requirements of the Shari&ah. Is it at all reasonable that one should strain every nerve to protect one&s children from the heat of the sun, but leave them exposed to the fire of Hell? From this example of the prophets we also learn that it is the duty of the parents and the right of the children that one should first of all take care of the spiritual health of one&s own children, and worry about others only afterwards. This principle rests on three considerations. Firstly, one&s children are, on account of the special relationship with the parents, likely to accept the counsel more easily and thoroughly than others, and may later on be of great help in the efforts which one makes in the service of Islam. Secondly, the easiest and the most effective way of transmitting the Truth to a whole people is that the head of each family should take upon himself the responsibility of teaching and training the members of his family. Employing a current and popular term, we may say that this localized and decentralized method distributes the responsibility over a large number of individuals, and teaching the families separate¬ly amounts finally to teaching the society, as a whole. The Holy Qur&an itself has laid down the principle: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا : |"0 be¬lievers, guard yourselves and your families against a Fire.|" (66:6) In fact, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) himself who is the Messenger of Allah for the whole of humanity and whose guidance shall remain valid upto the last day of the world, was commanded to convey the Truth first of all to the members of his family. Thus, the Holy Qurian says: وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ : |"And warn your clan, your nearest kin.|" (26:214) and وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا “ And bid your familyto offer Salah, and be regular in them yourself”. (20:132) And the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) always fulfilled these commandments. Thirdly, one can observe for oneself that if the close relations or the members of his family do not support a man in what he wishes to teach, or do not seem to be acting upon it, his teachings do not succeed so well with others. When the Holy Prophet took upon himself the prophetic function, the usual reply of his listeners was that he should first convince his own clan, the Quraysh, before turning to others. But when his own clan accepted Islam and the process had been completed at the time of the conquest of Makkah, the world saw, as the Holy Qur&an reports يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّـهِ أَفْوَاجًا |"People entering Allah&s religion in throngs.|" (110:2) The main reason for the ignorance and the indifference towards Islam which is wide-spread among the Muslims today, is that even when the parents themselves are good Muslims in every way, they leave their children to themselves and let the social environment mould them in its own fashion. Their only worry is to see their children doing well in this world, and they never think of what will happen to them in the next. Let us pray that Allah, in His mercy, grant all of us the solicitude for the other world, and help us to make a genuine effort for acquiring the only wealth that can ever be: faith and rectitude! Injunctions and related considerations Verse 133 reports that the sons of Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) (Jacob) promised to worship اِلٰہ اٰباءک ابراہیم و اسماعیل و اسحٰق :|"The God of your father, Ibrahim and Ismail and-Ishaq .|" This phrase indicates that the term |"father|" includes the grand-father as well. The blessed Companion ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) has deduced from this verse the rule that in matters of inheritance the grandfather shall be treated like the father.
خلاصہ تفسیر : کیا (تم لوگ کسی معتبر صحیح نقل سے دعویٰ مذکورہ کرتے ہو) یا تم خود (اس وقت) موجود تھے جس وقت یعقوب (علیہ السلام) کا آخری وقت آیا (اور) جس وقت انہوں نے اپنے بیٹے سے (تجدید معاہدہ کے لئے) پوچھا کہ تم لوگ میرے (مرنے کے) بعد کس چیز کی پرستش کرو گے انہوں نے (بالاتفاق) جواب دیا کہ ہم اس (ذات پاک) کی پرستش کریں گے جس کی آپ اور آپ کے بزرگ (حضرات) ابراہیم واسمٰعیل واسحٰق (علیہم السلام) پرستش کرتے آئے ہیں یعنی وہی معبود جو وحدہ لا شریک ہے اور ہم (احکام میں) اسی کی اطاعت پر (قائم) رہیں گے یہ (ان بزرگوں کی) ایک جماعت تھی جو (اپنے زمانہ میں) گذر چکی ان کے کام ان کا کیا ہوا آئے گا اور تمہارے کام تمہارا کیا ہوا آئے گا اور تم سے ان کے کئے ہوئے کی پوچھ بھی تو نہ ہوگی (اور خالی تذکرہ بھی تو نہ ہوگا رہا اس سے تم کو نفع پہنچنا یہ تو بڑی دور ہے) معارف و مسائل : سابقہ آیات میں ملت ابراہیم (علیہ السلام) اور اسلام کی حقیقت کا بیان تھا اب آیات مذکورہ میں ایک اور اصولی بات قابل نظر ہے کہ ملت ابراہیم (علیہ السلام) کہئے یا اسلام یہ پوری قوم بلکہ ساری دنیا کے لئے ہدایت نامہ ہے پھر اس میں اولاد ابراہیم و یعقوب (علیہم السلام) کی کیا خصوصیت ہے کہ آیات مذکورہ میں ان کو خاص خطاب فرمایا گیا اور اللہ تعالیٰ کے ان دونوں برگزیدہ پیغمبروں نے اپنی اولاد کو بطور وصیت خاص اس کی ہدایت فرمائی، اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ اولاد کی محبت اور اس کی بھلائی کی فکر مقام رسالت ونبوت بلکہ مقام خلت کے بھی منافی نہیں اللہ تعالیٰ کا وہ خلیل جو ایک وقت اپنے رب کا اشارہ پاکر اپنے چہیتے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے کمر بستہ نظر آتا ہے وہی دوسرے وقت اپنی اولاد کی دینی اور دنیوی آسائش اور بھلائی کے لئے اپنے رب سے دعائیں بھی کرتا ہے دنیا سے رخصت ہونے کے وقت اپنی اولاد کو وہ چیز دے کر جانا چاہتا ہے جو اس کی نظر میں سب سے بڑی نعمت ہے یعنی اسلام آیت مذکورہ وَوَصّٰى بِهَآ اِبْرٰھٖمُ بَنِيْهِ وَيَعْقُوْبُ کا یہی مطلب ہے اور آیت اِذْ حَضَرَ يَعْقُوْبَ الْمَوْتُ ۙ اِذْ قَالَ لِبَنِيْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْۢ بَعْدِيْ کا یہی حاصل ہے فرق اتنا ہے کہ عام انسانوں کی نظروں میں نعمت و دولت دنیا کی فانی اور ذلیل چیزیں ہیں ان کی نظر اور حوصلہ بلند ہے ان کے نزدیک اصلی دولت ایمان اور عمل صالح یا اسلام ہے، جس طرح عام انسان اپنی موت کے وقت یہ چاہتے ہیں کہ جو بڑی سے بڑی دولت ان کے پاس ہے وہ اولاد کو دے جائیں ایک سرمایہ دار تاجر کی آجکل یہ خواہش ہوتی ہے کہ میری اولاد ملوں اور فیکڑیوں کی مالک ہو ان کو امپورٹ اور ایکسپورٹ کے بڑے بڑے لائسنس ملیں، لاکھوں اور کروڑوں کا بینک بیلنس ہو یا ایک سروس والا انسان یہ چاہتا ہے کہ میری اولاد کو اونچے عہدے اور بڑی تنخواہیں ملیں یا ایک صنعت پیشہ آدمی کو یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد اس کی صنعت میں کمال حاصل کرے، اس کو اس کے اپنی عمر بھر کے گر بتلا دے، اسی طرح انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے متبعین اولیاء کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ جس چیز کو وہ اصلی اور دائمی لازوال دولت سمجھتے ہیں وہ ان کی اولاد کو پوری پوری مل جائے اس کے لئے دعائیں کرتے ہیں اور کوششیں بھی، آخر وقت میں وصیت اسی کی کرتے ہیں جیسا کہ آیات مذکورہ سے واضح ہے، اولاد کے لئے کوئی دولت دین و اخلاق سکھانے کے برابر نہیں : انبیاء (علیہم السلام) کے اس طرز خاص میں عام انسانوں کے لئے بھی یہ ہدایت ہے کہ وہ جس طرح ان کی دنیوی پرورش اور ان کے دنیوی آرام و راحت کا انتظام کرتے ہیں اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ ان پر لازم ہے کہ اولاد کی نظری عملی اور اخلاقی تربیت کریں برے راستوں اور برے اعمال و اخلاق سے ان کو بچانے میں سعی بلیغ کریں کہ اولاد کی سچی محبت اور اصلی خیر خواہی یہی ہے یہ کوئی عقل کی بات نہیں کہ ایک انسان اپنے بچہ کو دھوپ کی گرمی سے بچانے کے لئے تو ساری توانائی خرچ کرے اور دائمی آگ سے اور عذاب سے بچانے کے لئے کوئی دھیان نہ دے اس کے بدن سے پھانس نکالنے میں تو سارے ذرائع اور وسائل استعمال کرے اور بندوق کی گولی کا نشانہ بننے سے اس کو نہ بچائے، انبیاء (علیہم السلام) کے اس طرز عمل سے ایک اصولی بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ والدین کا فرض اور اولاد کا حق ہے کہ سب سے پہلے ان کی صلاح و فلاح کی فکر کی جائے ان کے بعد دوسروں کی طرف توجہ کی جائے جس میں دو حکمتیں ہیں، اول یہ کہ طبعی اور جسمی تعلق کی بناء پر وہ نصیحت کا اثر زیادہ جلد اور آسانی سے قبول کرسکیں گے اور پھر وہ ان کی تحریک اور اصلاحی کوشش میں ان کے دست وبازو بن کر اشاعتِ حق میں ان کے معین ہوں گے، دوسرے اشاعت حق کا اس سے زیادہ سہل اور مفید راستہ کوئی نہیں کہ ہر گھر کا ذمہ دار آدمی اپنے اہل و عیال کو حق بات سکھانے اور اس پر عمل کرانے کی سعی میں دل وجان سے لگ جائے کہ اس طرح تبلیغ وتعلیم اور اصلاح و تربیت کا دائرہ عمل سمٹ کر صرف گھروں کے ذمہ داروں تک آجاتا ہے ان کو سکھلانا پوری قوم کو سکھانے کے ہم معنی ہوجاتا ہے قرآن کریم نے اسی تنظیمی اصول کے پیش نظر ارشاد فرمایا ہے ، يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا (٦: ٦٦) اے ایمان والوں بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو بڑی آگ سے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو ساری دنیا کے رسول ہیں اور جن کی ہدایت قیامت تک آنے والی نسلوں کے لئے عام ہے آپ کو بھی سب سے پہلے اس کا حکم دیا گیا کہ : وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ (٢١٤: ٢٦) اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیے، اور ارشاد ہوا، وَاْمُرْ اَهْلَكَ بالصَّلٰوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا (١٣٢: ٢٠) یعنی اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم کیجئے اور خود بھی اس کے پابند رہئے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیشہ اس کی تعمیل فرمائی، ایک تیسری حکمت یہ بھی ہے کہ جب تک کسی شخص کے اہل و عیال اور قریبی خاندان اس کے نظریات اور عملی پروگرام میں اس کا ساتھی اور ہم رنگ نہیں ہوتا تو اس کی تعلیم و تبلیغ دوسروں پر اتنی مؤ ثر نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تبلیغ کے جواب میں ابتداء اسلام کے وقت عام لوگوں کا یہ جواب ہوتا تھا کہ پہلے اپنے خاندان قریش کو تو آپ درست کرلیں پھر ہماری خبر لیں اور جب خاندان میں اسلام پھیل گیا اور فتح مکہ کے وقت اس کی تکمیل ہوئی تو اس کا نتیجہ قرآن کے الفاظ میں یہ ظاہر ہوا کہ، يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا (٢: ١١٠) یعنی لوگ اللہ کے دین میں فوج درفوج ہو کر داخل ہوں گے، آج کل مسلمانوں میں بےعلمی اور بےدینی پھیلنے کی بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ والدین اگر خود دین سے واقف اور دیندار بھی ہیں تو اس کی فکر نہیں کرتے کہ ہماری اولاد بھی دیندار ہو کر دائمی راحت کی مستحق ہو عام طور پر ہماری نظریں صرف اولاد کی دنیوی اور چند روزہ راحت پر رہتی ہیں اسی کے لئے انتظامات کرتے رہتے ہیں، دولت لازوال کی طرف توجہ نہیں دیتے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمادیں کہ آخرت کی فکر میں لگ جائیں اور اپنے لئے اور اپنی اولاد کیلئے سب سے بڑا سرمایہ ایمان اور عمل صالح کو سمجھ کر اس کی کوشش کریں، بعض مسائل متعلقہ مسئلہ توریث الجد : اس آیت میں حضرت یعقوب کی اولاد کی طرف سے جو جواب نقل کیا گیا ہے اس میں اِلٰهَ اٰبَاۗىِٕكَ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ فرما کر اس طرف اشارہ کردیا گیا ہے کہ دادا بھی باپ ہی کہلاتا ہے اور باپ ہی کے حکم میں ہے اس لئے حضرت عبداللہ بن عباس نے اس آیت سے استدلال کرکے فرمایا کہ میراث میں دادا کا بھی وہی حکم ہے جو باپ کا ہے،