Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 133

سورة البقرة

اَمۡ کُنۡتُمۡ شُہَدَآءَ اِذۡ حَضَرَ یَعۡقُوۡبَ الۡمَوۡتُ ۙ اِذۡ قَالَ لِبَنِیۡہِ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِیۡ ؕ قَالُوۡا نَعۡبُدُ اِلٰہَکَ وَ اِلٰـہَ اٰبَآئِکَ اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ اِلٰـہًا وَّاحِدًا ۚ ۖ وَّ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۳۳﴾

Or were you witnesses when death approached Jacob, when he said to his sons, "What will you worship after me?" They said, "We will worship your God and the God of your fathers, Abraham and Ishmael and Isaac - one God. And we are Muslims [in submission] to Him."

کیا ( حضرت ) یعقوب کے انتقال کے وقت تم موجود تھے؟ جب انہوں نے اپنی اولاد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آباؤ اجداد ابراہیم ( علیہ السلام ) اور اسماعیل ( علیہ السلام ) اور اسحاق علیہ السلام کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اُسی کے فرمانبردار رہیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Yaqub's Will and Testament to His Children upon His Death Allah tells; أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاء إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ ... Or were you witnesses when death approached Yaqub (Jacob) When he said unto his sons, "What will you worship after me?" This Ayah contains Allah's criticism of the Arab pagans among the offspring of Ismail as well as the disbelievers among the Children of Israel Jacob the son of Isaac, the son of Ibrahim. When death came to Jacob, he advised his children to worship Allah alone without partners. He said to them, ... مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُواْ نَعْبُدُ إِلَـهَكَ وَإِلَـهَ ابَايِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ ... "What will you worship after me" They said, "We shall worship your Ilah (God ـ Allah) the Ilah of your fathers, Ibrahim, Ismail, Ishaq," Mentioning Ismail here is a figure of speech, because Ismail is Jacob's uncle. An-Nahas said that the Arabs call the uncle a father, as Al-Qurtubi mentioned. This Ayah is used as evidence that; the grandfather is called a father and inherits, rather than the brothers (i.e. when his son dies), as Abu Bakr asserted, according to Al-Bukhari who narrated Abu Bakr's statement from Ibn Abbas and Ibn Az-Zubayr. Al-Bukhari then commented that there are no opposing opinions regarding this subject. This is also the opinion of Aishah the Mother of the believers, Al-Hasan Al-Basri, Tawus and Ata, Malik, Ash-Shafii and Ahmad said that the inheritance is divided between the grandfather and the brothers. It was reported that this was also the opinion of Umar, Uthman, Ali, bin Mas`ud, Zayd bin Thabit and several scholars among the Salaf and later generations. The statement, ... إِلَـهًا وَاحِدًا ... One Ilah (God), means, "We single Him out in divinity and do not associate anything or anyone with Him." ... وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ And to Him we submit, in obedience meaning, obedient and submissiveness. Similarly, Allah said, وَلَهُ أَسْلَمَ مَن فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَإِلَيْهِ يُرْجَعُونَ While to Him submitted all creatures in the heavens and the earth, willingly or unwillingly. And to Him shall they all be returned. (3:83) Indeed, Islam is the religion of all the Prophets, even if their respective laws differed. Allah said, وَمَأ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلاَّ نُوحِى إِلَيْهِ أَنَّهُ لا إِلَـهَ إِلاَّ أَنَاْ فَاعْبُدُونِ And We did not send any Messenger before you (O Muhammad) ﴿but We revealed to him (saying): La ilaha illa Ana (none has the right to be worshipped but I (Allah)), so worship Me (alone and none else). (21:25) There are many other Ayat - and Hadiths - on this subject. For instance, the Prophet said, نَحْنُ مَعْشَرَ الاَْنْبِيَاءِ أَوْلاَدُ عَلَّتٍ دِينُنا وَاحِد We, the Prophets, are brothers with different mothers, but the same religion. Allah said,

ازلی اور ابدی مستحق عبادت اللہ وحدہ لا شریک مشرکین عرب پر جو حضرت اسماعیل کی اولاد تھے اور کفار بنی اسرائیل پر جو حضرت یعقوب کی اولاد تھے دلیل لاتے ہوئے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ حضرت یعقوب نے تو اپنی اولاد کو اپنے آخری وقت میں اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کی وصیت کی تھی ان سے پہلے تو پوچھا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟ سب نے جواب دیا کہ آپ کے اور آپ کے بزرگوں بر حق کی ۔ حضرت یعقوب حضرت اسحٰق کے لڑکے اور حضرت اسحق حضرت ابراہیم کے ۔ حضرت اسماعیل کا نام باپ دادوں کے ذکر میں بطور تخطیب کے آ گیا ہے کیونکہ آپ چچا ہوتے ہیں اور یہ بھی واضح رہے کہ عرب میں چچا کو بھی باپ کہہ دیتے ہیں ۔ اس آیت سے استدلال کر کے دادا کو بھی باپ کے حکم میں رکھ کر دادا کی موجودگی میں بہن بھائی کو ورثہ سے محروم کیا ہے ۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فیصلہ یہی ہے جیسے کہ صحیح بخاری شریک میں موجود ہے ام المومنین حضرت عائشہ کا مذہب بھی یہی ہے ۔ امام مالک امام شافعی اور ایک مشہور روایت میں امام احمد سے منقول ہے کہ وہ بھائیوں بہنوں کو بھی وارث قرار دیتے ہیں ۔ حضرت عمر ، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت ابن مسعود ، حضرت زید بن ثابت اور سلف و خلف کا مذہب بھی یہی ہے ۔ امام مالک امام شافعی بصری طاؤس اور عطا بھی یہی کہتے ہیں ۔ امام ابو حنیفہ اور بہت سے سلف و خلف کا مذہب بھی یہی ہے ۔ قاضی ابو یوسف اور محمد بن حسن بھی یہی کہتے ہیں اور یہ دونوں امام ابو حنیفہ کے شاگرد رشید ہیں اس مسئلہ کی صفائی کا یہ مقام نہیں اور نہ تفسیر کا یہ موضوع ہے ۔ ان سب بچوں نے اقرار کیا کہ ہم ایک ہی معبود کی عبادت کریں گے یعنی اس اللہ کی الوہیت میں کسی کو شریک نہ کریں گے اور ہم اس کی اطاعت گزاری ، فرمانبرداری اور خشوع و خضوع میں مشغول رہا کریں گے ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( ولہ اسلم ) الخ زمین و آسمان کی ہر چیز خوشی اور ناخوشی سے اس کی مطیع ہے ، اس کی طرف تم سے لوٹائے جاؤ گے تمام انبیاء کا دین یہی اسلام رہا ہے اگرچہ احکام میں اختلاف رہا ہے ۔ جیسے فرمایا آیت ( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ) 21 ۔ الانبیآء:25 ) یعنی تجھ سے پہلے جتنے رسول ہم نے بھیجے سب کی طرف وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ، تم سب میری ہی عبادت کرتے رہو ۔ اور آیتیں بھی اس مضمون کی بہت سی ہیں اور احادیث میں بھی یہ مضمون بکثر وارد ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہم علاتی بھائی ہیں ، ہمارا دین ایک ہے پھر فرماتا ہے یہ امت جو گزر چکی تمہیں ان کی طرف نسبت نفع نہ دے گی ہاں اگر عمل ہوں تو اور بات ہے ، ان کے اعمال ان کے ساتھ اور تمہارے اعمال تمہارے ساتھ تم ان کے افعال کے بارے میں نہیں پوچھے جاؤ گے ۔ حدیث شریف میں ہے جس کا عمل اچھا نہ ہوگا اس کا نسب اسے کوئی فائدہ نہیں دے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

133۔ 1 یہود کو زجرو توبیخ کی جا رہی ہے تم یہ دعویٰ کرتے ہو کہ ابراہیم، یعقوب (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو یہودیت پر قائم رہنے کی وصیت فرمائی تھی، تو کیا تم وصیت کے وقت موجود تھے ؟ اگر وہ یہ کہیں کہ موجود تھے تو یہ جھوٹ اور بہتان ہوا اور اگر کہیں کہ حاضر نہیں تھے تو ان کا مزکورہ دعویٰ غلط ثابت ہوگیا کیونکہ انہوں نے جو وصیت کی وہ تو اسلام کی تھی نہ کہ یہودیت کی، یا عسائیت کی۔ تمام انبیاء کا دین اسلام ہی تھا اگرچہ شریعت اور طریقہ کار میں کچھ اختلاف رہا ہے، اس کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان الفاظ میں بیان فرمایا انبیاء کی جماعت اولاد علامات ہیں، ان کی مائیں مختلف (اور باپ ایک) ہے اور ان کا دین ایک ہی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦٥] ایک دفعہ یہود نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم نہیں کہ یعقوب (علیہ السلام) نے ہمیں یہودی رہنے کی وصیت کی تھی۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے یہود مدینہ سے پوچھا : جب یعقوب (علیہ السلام) مرنے کے قریب تھے تو کیا تم اس وقت موجود تھے جو اس وثوق سے کہتے ہو کہ یعقوب (علیہ السلام) نے یہودیت کی وصیت کی تھی ؟ پھر جو کچھ یعقوب (علیہ السلام) نے بوقت مرگ اپنے بیٹوں سے پوچھا اور جو بیٹوں نے جواب دیا اس کو اللہ تعالیٰ نے خود بیان کر کے یہود کے اس قول کی تردید فرما دی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ان آیات میں بھی یہود و نصاریٰ اور مشرکین مکہ کی تردید ہے جو اپنے آپ کو ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کی طرف منسوب کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ان کا دین بھی یہودیت، نصرانیت یا بت پرستی تھا۔ قرآن مجید نے بتایا کہ تم ان بزرگوں پر بہتان باندھ رہے ہو، ان کا دین بھی یہی اسلام تھا جس میں توحید اور اخلاص کی تعلیم دی گئی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The previous verses have defined the religion of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) and the essence of Islam. Now, these two verses bring before us another aspect of the question. Call it the religion of Sayyidna Ibrahim or Islam, it is in any case meant for the whole world. Then why have the descendants of Sayyidna Ibrahim and Sayyidna Ya` qub (علیہم السلام) been specifically mentioned here, and why should have these two great prophets been so particular in giving this counsel to their sons? We shall say that these specifications show that love for one&s progeny and solicitude for their well-being is in no way incompatible with the station of prophethood or even with that of |"the Friend of Allah|". For, Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) ، who was, on one occasion, not only willing but happy to be sacrificing his son in obedience to the commandment of Allah, did on a different occasion pray for the well-being of his progeny in this world and the other, and wished, while departing from this world, to offer them what was the greatest blessing in his eyes - namely, Islam. Verses 132 and 133 suggest this very principle. So, even prophets love their children, the only difference being that while ordinary men consider the good things of this world alone to be worthwhile and wish to leave to their children as much of these as they can, in the eyes of the prophets and their genuine followers the only thing that counts is Iman ایمان (faith) and good deeds - in one word, Islam - and it is this eternal wealth which they wish and strive to transmit wholly to their descendants. This practice of the prophets provides a special guidance to parents: just as they are keen to secure the worldly comfort and happiness of their children, they should pay equal, if not greater, attention to the discipline of their external and internal behaviour according to the requirements of the Shari&ah. Is it at all reasonable that one should strain every nerve to protect one&s children from the heat of the sun, but leave them exposed to the fire of Hell? From this example of the prophets we also learn that it is the duty of the parents and the right of the children that one should first of all take care of the spiritual health of one&s own children, and worry about others only afterwards. This principle rests on three considerations. Firstly, one&s children are, on account of the special relationship with the parents, likely to accept the counsel more easily and thoroughly than others, and may later on be of great help in the efforts which one makes in the service of Islam. Secondly, the easiest and the most effective way of transmitting the Truth to a whole people is that the head of each family should take upon himself the responsibility of teaching and training the members of his family. Employing a current and popular term, we may say that this localized and decentralized method distributes the responsibility over a large number of individuals, and teaching the families separate¬ly amounts finally to teaching the society, as a whole. The Holy Qur&an itself has laid down the principle: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارً‌ا : |"0 be¬lievers, guard yourselves and your families against a Fire.|" (66:6) In fact, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) himself who is the Messenger of Allah for the whole of humanity and whose guidance shall remain valid upto the last day of the world, was commanded to convey the Truth first of all to the members of his family. Thus, the Holy Qurian says: وَأَنذِرْ‌ عَشِيرَ‌تَكَ الْأَقْرَ‌بِينَ : |"And warn your clan, your nearest kin.|" (26:214) and وَأْمُرْ‌ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ‌ عَلَيْهَا “ And bid your familyto offer Salah, and be regular in them yourself”. (20:132) And the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) always fulfilled these commandments. Thirdly, one can observe for oneself that if the close relations or the members of his family do not support a man in what he wishes to teach, or do not seem to be acting upon it, his teachings do not succeed so well with others. When the Holy Prophet took upon himself the prophetic function, the usual reply of his listeners was that he should first convince his own clan, the Quraysh, before turning to others. But when his own clan accepted Islam and the process had been completed at the time of the conquest of Makkah, the world saw, as the Holy Qur&an reports يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّـهِ أَفْوَاجًا |"People entering Allah&s religion in throngs.|" (110:2) The main reason for the ignorance and the indifference towards Islam which is wide-spread among the Muslims today, is that even when the parents themselves are good Muslims in every way, they leave their children to themselves and let the social environment mould them in its own fashion. Their only worry is to see their children doing well in this world, and they never think of what will happen to them in the next. Let us pray that Allah, in His mercy, grant all of us the solicitude for the other world, and help us to make a genuine effort for acquiring the only wealth that can ever be: faith and rectitude! Injunctions and related considerations Verse 133 reports that the sons of Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) (Jacob) promised to worship اِلٰہ اٰباءک ابراہیم و اسماعیل و اسحٰق :|"The God of your father, Ibrahim and Ismail and-Ishaq .|" This phrase indicates that the term |"father|" includes the grand-father as well. The blessed Companion ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) has deduced from this verse the rule that in matters of inheritance the grandfather shall be treated like the father.

خلاصہ تفسیر : کیا (تم لوگ کسی معتبر صحیح نقل سے دعویٰ مذکورہ کرتے ہو) یا تم خود (اس وقت) موجود تھے جس وقت یعقوب (علیہ السلام) کا آخری وقت آیا (اور) جس وقت انہوں نے اپنے بیٹے سے (تجدید معاہدہ کے لئے) پوچھا کہ تم لوگ میرے (مرنے کے) بعد کس چیز کی پرستش کرو گے انہوں نے (بالاتفاق) جواب دیا کہ ہم اس (ذات پاک) کی پرستش کریں گے جس کی آپ اور آپ کے بزرگ (حضرات) ابراہیم واسمٰعیل واسحٰق (علیہم السلام) پرستش کرتے آئے ہیں یعنی وہی معبود جو وحدہ لا شریک ہے اور ہم (احکام میں) اسی کی اطاعت پر (قائم) رہیں گے یہ (ان بزرگوں کی) ایک جماعت تھی جو (اپنے زمانہ میں) گذر چکی ان کے کام ان کا کیا ہوا آئے گا اور تمہارے کام تمہارا کیا ہوا آئے گا اور تم سے ان کے کئے ہوئے کی پوچھ بھی تو نہ ہوگی (اور خالی تذکرہ بھی تو نہ ہوگا رہا اس سے تم کو نفع پہنچنا یہ تو بڑی دور ہے) معارف و مسائل : سابقہ آیات میں ملت ابراہیم (علیہ السلام) اور اسلام کی حقیقت کا بیان تھا اب آیات مذکورہ میں ایک اور اصولی بات قابل نظر ہے کہ ملت ابراہیم (علیہ السلام) کہئے یا اسلام یہ پوری قوم بلکہ ساری دنیا کے لئے ہدایت نامہ ہے پھر اس میں اولاد ابراہیم و یعقوب (علیہم السلام) کی کیا خصوصیت ہے کہ آیات مذکورہ میں ان کو خاص خطاب فرمایا گیا اور اللہ تعالیٰ کے ان دونوں برگزیدہ پیغمبروں نے اپنی اولاد کو بطور وصیت خاص اس کی ہدایت فرمائی، اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ اولاد کی محبت اور اس کی بھلائی کی فکر مقام رسالت ونبوت بلکہ مقام خلت کے بھی منافی نہیں اللہ تعالیٰ کا وہ خلیل جو ایک وقت اپنے رب کا اشارہ پاکر اپنے چہیتے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے کمر بستہ نظر آتا ہے وہی دوسرے وقت اپنی اولاد کی دینی اور دنیوی آسائش اور بھلائی کے لئے اپنے رب سے دعائیں بھی کرتا ہے دنیا سے رخصت ہونے کے وقت اپنی اولاد کو وہ چیز دے کر جانا چاہتا ہے جو اس کی نظر میں سب سے بڑی نعمت ہے یعنی اسلام آیت مذکورہ وَوَصّٰى بِهَآ اِبْرٰھٖمُ بَنِيْهِ وَيَعْقُوْبُ کا یہی مطلب ہے اور آیت اِذْ حَضَرَ يَعْقُوْبَ الْمَوْتُ ۙ اِذْ قَالَ لِبَنِيْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْۢ بَعْدِيْ کا یہی حاصل ہے فرق اتنا ہے کہ عام انسانوں کی نظروں میں نعمت و دولت دنیا کی فانی اور ذلیل چیزیں ہیں ان کی نظر اور حوصلہ بلند ہے ان کے نزدیک اصلی دولت ایمان اور عمل صالح یا اسلام ہے، جس طرح عام انسان اپنی موت کے وقت یہ چاہتے ہیں کہ جو بڑی سے بڑی دولت ان کے پاس ہے وہ اولاد کو دے جائیں ایک سرمایہ دار تاجر کی آجکل یہ خواہش ہوتی ہے کہ میری اولاد ملوں اور فیکڑیوں کی مالک ہو ان کو امپورٹ اور ایکسپورٹ کے بڑے بڑے لائسنس ملیں، لاکھوں اور کروڑوں کا بینک بیلنس ہو یا ایک سروس والا انسان یہ چاہتا ہے کہ میری اولاد کو اونچے عہدے اور بڑی تنخواہیں ملیں یا ایک صنعت پیشہ آدمی کو یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد اس کی صنعت میں کمال حاصل کرے، اس کو اس کے اپنی عمر بھر کے گر بتلا دے، اسی طرح انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے متبعین اولیاء کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ جس چیز کو وہ اصلی اور دائمی لازوال دولت سمجھتے ہیں وہ ان کی اولاد کو پوری پوری مل جائے اس کے لئے دعائیں کرتے ہیں اور کوششیں بھی، آخر وقت میں وصیت اسی کی کرتے ہیں جیسا کہ آیات مذکورہ سے واضح ہے، اولاد کے لئے کوئی دولت دین و اخلاق سکھانے کے برابر نہیں : انبیاء (علیہم السلام) کے اس طرز خاص میں عام انسانوں کے لئے بھی یہ ہدایت ہے کہ وہ جس طرح ان کی دنیوی پرورش اور ان کے دنیوی آرام و راحت کا انتظام کرتے ہیں اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ ان پر لازم ہے کہ اولاد کی نظری عملی اور اخلاقی تربیت کریں برے راستوں اور برے اعمال و اخلاق سے ان کو بچانے میں سعی بلیغ کریں کہ اولاد کی سچی محبت اور اصلی خیر خواہی یہی ہے یہ کوئی عقل کی بات نہیں کہ ایک انسان اپنے بچہ کو دھوپ کی گرمی سے بچانے کے لئے تو ساری توانائی خرچ کرے اور دائمی آگ سے اور عذاب سے بچانے کے لئے کوئی دھیان نہ دے اس کے بدن سے پھانس نکالنے میں تو سارے ذرائع اور وسائل استعمال کرے اور بندوق کی گولی کا نشانہ بننے سے اس کو نہ بچائے، انبیاء (علیہم السلام) کے اس طرز عمل سے ایک اصولی بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ والدین کا فرض اور اولاد کا حق ہے کہ سب سے پہلے ان کی صلاح و فلاح کی فکر کی جائے ان کے بعد دوسروں کی طرف توجہ کی جائے جس میں دو حکمتیں ہیں، اول یہ کہ طبعی اور جسمی تعلق کی بناء پر وہ نصیحت کا اثر زیادہ جلد اور آسانی سے قبول کرسکیں گے اور پھر وہ ان کی تحریک اور اصلاحی کوشش میں ان کے دست وبازو بن کر اشاعتِ حق میں ان کے معین ہوں گے، دوسرے اشاعت حق کا اس سے زیادہ سہل اور مفید راستہ کوئی نہیں کہ ہر گھر کا ذمہ دار آدمی اپنے اہل و عیال کو حق بات سکھانے اور اس پر عمل کرانے کی سعی میں دل وجان سے لگ جائے کہ اس طرح تبلیغ وتعلیم اور اصلاح و تربیت کا دائرہ عمل سمٹ کر صرف گھروں کے ذمہ داروں تک آجاتا ہے ان کو سکھلانا پوری قوم کو سکھانے کے ہم معنی ہوجاتا ہے قرآن کریم نے اسی تنظیمی اصول کے پیش نظر ارشاد فرمایا ہے ، يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا (٦: ٦٦) اے ایمان والوں بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو بڑی آگ سے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو ساری دنیا کے رسول ہیں اور جن کی ہدایت قیامت تک آنے والی نسلوں کے لئے عام ہے آپ کو بھی سب سے پہلے اس کا حکم دیا گیا کہ : وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ (٢١٤: ٢٦) اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیے، اور ارشاد ہوا، وَاْمُرْ اَهْلَكَ بالصَّلٰوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا (١٣٢: ٢٠) یعنی اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم کیجئے اور خود بھی اس کے پابند رہئے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیشہ اس کی تعمیل فرمائی، ایک تیسری حکمت یہ بھی ہے کہ جب تک کسی شخص کے اہل و عیال اور قریبی خاندان اس کے نظریات اور عملی پروگرام میں اس کا ساتھی اور ہم رنگ نہیں ہوتا تو اس کی تعلیم و تبلیغ دوسروں پر اتنی مؤ ثر نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تبلیغ کے جواب میں ابتداء اسلام کے وقت عام لوگوں کا یہ جواب ہوتا تھا کہ پہلے اپنے خاندان قریش کو تو آپ درست کرلیں پھر ہماری خبر لیں اور جب خاندان میں اسلام پھیل گیا اور فتح مکہ کے وقت اس کی تکمیل ہوئی تو اس کا نتیجہ قرآن کے الفاظ میں یہ ظاہر ہوا کہ، يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا (٢: ١١٠) یعنی لوگ اللہ کے دین میں فوج درفوج ہو کر داخل ہوں گے، آج کل مسلمانوں میں بےعلمی اور بےدینی پھیلنے کی بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ والدین اگر خود دین سے واقف اور دیندار بھی ہیں تو اس کی فکر نہیں کرتے کہ ہماری اولاد بھی دیندار ہو کر دائمی راحت کی مستحق ہو عام طور پر ہماری نظریں صرف اولاد کی دنیوی اور چند روزہ راحت پر رہتی ہیں اسی کے لئے انتظامات کرتے رہتے ہیں، دولت لازوال کی طرف توجہ نہیں دیتے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمادیں کہ آخرت کی فکر میں لگ جائیں اور اپنے لئے اور اپنی اولاد کیلئے سب سے بڑا سرمایہ ایمان اور عمل صالح کو سمجھ کر اس کی کوشش کریں، بعض مسائل متعلقہ مسئلہ توریث الجد : اس آیت میں حضرت یعقوب کی اولاد کی طرف سے جو جواب نقل کیا گیا ہے اس میں اِلٰهَ اٰبَاۗىِٕكَ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ فرما کر اس طرف اشارہ کردیا گیا ہے کہ دادا بھی باپ ہی کہلاتا ہے اور باپ ہی کے حکم میں ہے اس لئے حضرت عبداللہ بن عباس نے اس آیت سے استدلال کرکے فرمایا کہ میراث میں دادا کا بھی وہی حکم ہے جو باپ کا ہے،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ كُنْتُمْ شُہَدَاۗءَ اِذْ حَضَرَ يَعْقُوْبَ الْمَوْتُ۝ ٠ ۙ اِذْ قَالَ لِبَنِيْہِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْۢ بَعْدِيْ۝ ٠ ۭ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰہَكَ وَاِلٰہَ اٰبَاۗىِٕكَ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰــہًا وَّاحِدًا۝ ٠ ۚ ۖ وَّنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ۝ ١٣٣ شَّهِيدُ وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء/ 41] ، وقوله : أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، أي : يشهدون ما يسمعونه بقلوبهم علی ضدّ من قيل فيهم : أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ، وقوله : أَقِمِ الصَّلاةَ إلى قوله : مَشْهُوداً أي : يشهد صاحبه الشّفاء والرّحمة، والتّوفیق والسّكينات والأرواح المذکورة في قوله : وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء/ 82] ، وقوله : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة/ 23] ، فقد فسّر بكلّ ما يقتضيه معنی الشهادة، قال ابن عباس : معناه أعوانکم وقال مجاهد : الذین يشهدون لكم، وقال بعضهم : الذین يعتدّ بحضورهم ولم يکونوا کمن قيل فيهم شعر : مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وقد حمل علی هذه الوجوه قوله : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص/ 75] ، وقوله : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات/ 7] ، أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت/ 53] ، وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] ، فإشارة إلى قوله : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر/ 16] ، وقوله : يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] ، ونحو ذلک ممّا نبّه علی هذا النحو، والشَّهِيدُ : هو المحتضر، فتسمیته بذلک لحضور الملائكة إيّاه إشارة إلى ما قال : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت/ 30] ، قال : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید/ 19] ، أو لأنهم يَشْهَدُونَ في تلک الحالة ما أعدّ لهم من النّعيم، أو لأنهم تشهد أرواحهم عند اللہ كما قال : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران/ 169- 170] ، وعلی هذا دلّ قوله : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ، وقوله : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج/ 3] ، قيل : الْمَشْهُودُ يوم الجمعة وقیل : يوم عرفة، ويوم القیامة، وشَاهِدٌ: كلّ من شهده، وقوله : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود/ 103] ، أي : مشاهد تنبيها أن لا بدّ من وقوعه، والتَّشَهُّدُ هو أن يقول : أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أنّ محمدا رسول الله، وصار في التّعارف اسما للتّحيّات المقروءة في الصّلاة، وللذّكر الذي يقرأ ذلک فيه . شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء/ 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے اور آیت کریمہ ؛ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہوکر سنتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ جو کچھ سنتے ہیں ان کے دل اس کی شہادت دیتے ہیں ۔ بخلاف ان لوگوں کے جن کے متعلق فرمایا ہے ۔: أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ان کو ( گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَقِمِ الصَّلاةَ ۔۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا کیونکہ صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا موجب حضور ملائکہ ہے ۔ میں قرآن کے مشہود ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی قرات کرنے والے پر شفاء رحمت ، توفیق ، سکینت اور ارواح نازل ہوتی ہیں ۔ جن کا کہ آیت ؛ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء/ 82] اور ہم قرآن کے ذریعہ سے وہ کچھ نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے ۔ میں ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور آیت : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة/ 23] اور جو تمہارے مددگار ہیں ان کو بلا لو ۔ میں شھداء کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں جن پر معنی شہادت مشتمل ہے ۔ چناچہ ابن عباس نے اس کے معنی اعوان یعنی مددگار کے کئے ہیں اور مجاہدہ نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ جو تمہارے حق میں گواہی دیں ۔ اور بعض نے شہداء سے وہ لوگ مراد لئے ہیں ۔ جن کے موجود ہونے کو قابل قدر اور معتبر سمجھا جائے یعنی وہ ایسے لوگ نہ ہوں جن کے متعلق کہا گیا ہے ( البسیط) (269) مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وہ پیچھے رہتے ہیں اور لوگ اپنے معاملات کا فیصلہ کرلیتے ہیں وہ غیر حاضر اور بیخبر ہوتے ہیں اور ان کو اس بات کو علم تک نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص/ 75] اور ہم امت میں سے گواہ نکال لیں گے ۔ میں بھی شہید کا لفظ انہی معانی پر حمل کیا گیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات/ 7] اور وہ اس سے آگاہ بھی ہے ۔ أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت/ 53] کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے باخبر ہے ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] اور ( حق ظاہر کرنے کو ) خدا ہی کافی ہے ۔ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے ک حق تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر/ 16] اور کوئی چیز خدا سے مخفی نہیں رہے گی ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] وہ تو چھپے بھید اور پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ علی ہذالقیاس متعدد آیات ایسی ہیں جو اس معنی ( یعنی علم باری تعالیٰ کے محیط ہونے ) پر دال ہیں ۔ اور قریب المرگ شخص کو بھی شہید کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس فرشتے حاضر ہوتے ہیں چناچہ آیت کریمہ : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت/ 30] آلایۃ ان پر فرشتے اتریں گے اور کہیں گے کہ خوف نہ کرو ۔ میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ اور فرمایا ۔ وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید/ 19] اور اپنے پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ان کے لئے ان کے اعمال کا صلہ ہوگا ۔ اور شھداء کو شھداء یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حالت نزع میں ان نعمتوں کا مشاہدہ کرلیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تیار کی ہیں اور یا اس لئے کہ ان کے ارواح باری تعالیٰ کے ہاں حاضر کئے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ فرمایا : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران/ 169- 170] اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے اور ان کو مردہ مت سمجھنا اور آیت کریمہ : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْاور پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے اور آیت کریمہ : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج/ 3] اور حاضر ہونے والے کی اور جو اس کے پاس حاضر کیا جائے اس کی قسم۔ میں بعض نے کہا ہے کہ مشھود سے یوم جمعہ مراد ہے اور بعض نے یوم عرفہ مراد لیا ہے ۔ اور بعض نے یوم قیامت اور شاھد سے ہر وہ شخص مراد ہوسکتا ہے جو اس روز میں حاضر ہوگا اور آیت کریمہ : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود/ 103] اور یہی وہ دن ہے جس میں خدا کے روبرو حاضرکئے جائینگے ۔ میں مشھود بمعنی مشاھد ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ وہ دن ضرور آکر رہے گا ۔ التشھد کے معنی اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ پڑھنے کے ہیں اور عرف میں تشہد کے معنی التحیات اور ان اذکار کے ہیں جو حالت تشہد ( جلسہ ) میں پڑھے جاتے ہیں ۔ حضر الحَضَر : خلاف البدو، والحَضَارة والحِضَارَة : السکون بالحضر، کالبداوة والبداوة، ثمّ جعل ذلک اسما لشهادة مکان أو إنسان أو غيره، فقال تعالی: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] ، نحو : حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ الأنعام/ 61] ، وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] ، وقال تعالی: وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] ، عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير/ 14] ، وقال : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون/ 98] ، وذلک من باب الکناية، أي : أن يحضرني الجن، وكني عن المجنون بالمحتضر وعمّن حضره الموت بذلک، وذلک لما نبّه عليه قوله عزّ وجل : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] ، وقوله تعالی: يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آياتِ رَبِّكَ [ الأنعام/ 158] ، وقال تعالی: ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران/ 30] ، أي : مشاهدا معاینا في حکم الحاضر عنده، وقوله عزّ وجلّ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف/ 163] ، أي : قربه، وقوله : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة/ 282] ، أي : نقدا، وقوله تعالی: وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس/ 32] ، وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ/ 38] ، شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ، أي : يحضره أصحابه، والحُضْر : خصّ بما يحضر به الفرس إذا طلب جريه، يقال : أَحْضَرَ الفرس، واستحضرته : طلبت ما عنده من الحضر، وحاضرته مُحَاضَرَة وحِضَارا : إذا حاججته، من الحضور، كأنه يحضر کلّ واحد حجّته، أو من الحضر کقولک : جاریته، والحضیرة : جماعة من الناس يحضر بهم الغزو، وعبّر به عن حضور الماء، والمَحْضَر يكون مصدر حضرت، وموضع الحضور . ( ح ض ر ) الحضر یہ البدو کی ضد ہے اور الحضارۃ حاد کو فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ آتا ہے جیسا کہ بداوۃ وبداوۃ اس کے اصل شہر میں اقامت کے ہیں ۔ پھر کسی جگہ پر یا انسان وگیرہ کے پاس موجود ہونے پر حضارۃ کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے ۔ وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] اور جب تم میراث کی تقسیم کے وقت ۔۔۔ آمو جود ہوں ۔ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] اور طبائع میں بخل ودیعت کردیا گیا ہے ۔ عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير/ 14] تب ہر شخص معلوم کرلے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے اور آیت کریمہ : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون/ 98] میں کنایہ کہ اے پروردگار میں پناہ مانگتا ہوں کہ جن و شیاطین میرے پاس آھاضر ہوں ۔ اور بطور کنایہ مجنون اور قریب المرگ شخص کو محتضر کہا جاتا ہے جیسا کہ آیت : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] اور آیت کریمہ : یوم یاتی بعض ایات ربک میں اس معنی پر متنبہ کیا گیا ہے اور آیت کریمہ ۔ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران/ 30] کے معنی یہ ہیں کہ انسان جو نیکی بھی کرے گا ۔ قیامت کے دن اس کا اس طرح مشاہدہ اور معاینہ کرلے گا جیسا کہ کوئی شخص سامنے آموجود ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف/ 163] اور ان سے اس گاؤں کا حال پوچھ جواب دریا پر واقع تھا ۔ میں حاضرۃ البحر کے معنی دریا کے قریب یعنی ساحل کے ہیں اور آیت کریمہ : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة/ 282] میں حاضرۃ کے معنی نقد کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس/ 32] اور سب کے سب ہمارے روبرو حاضر کئے جائیں گے ۔ وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ/ 38] وی عذاب میں ڈالے جائیں گے ۔ اور آیت کریمہ : شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ، ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہئے میں بانی کی باری کے محتضر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ باڑی والے اس گھاٹ پر موجود ہوں ۔ الحضر ۔ خاص کر گھوڑے کی تیز دوڑے کو کہتے ہیں کہا جاتا ہے : احضر الفرس گھوڑا دوڑا استحضرتُ الفرس میں نے گھوڑے کو سرپٹ دوڑایا ۔ حاضرتہ محاضرۃ وحضارا باہم جھگڑنا ۔ مباحثہ کرنا ۔ یہ یا تو حضور سے ہے گویا ہر فریق اپنی دلیل حاضر کرتا ہے اور یا حضر سے ہے جس کے معنی تیز دوڑ کے ہوتے ہیں جیسا کہ ۔۔۔۔۔۔ جاریتہ کہا جاتا ہے ۔ الحضیرۃ ُ لوگوں کی جماعت جو جنگ میں حاضر کی جائے اور کبھی اس سے پانی پر حاضر ہونے والے لوگ بھی مراہ لئے جاتے ہیں ۔ المحضرُ ( اسم مکان ) حاضر ہونے کی جگہ اور حضرت ُ ( فعل ) کا مصدر بھی بن سکتا ہے ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینْ مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) أب الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] ( اب و ) الاب ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ { النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

دادا کی میراث قول باری ہے : ام کنتم شھدآء اذ حضر یعقوب الموت اذ قال لبنیہ ما تعبدون من بعدی قالوا نعبد الھلک والہ والہ آبآئک ابراھیم و اسمعیل فراسحق الھا واحدا (پھر کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب اس دنیا سے رخصت ہو رہا تھا ؟ اس نے وفات کے وقت اپنے بیٹوں سے پوچا۔ بچو، میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے ؟ ان سب نے جواب دیا : ہم اسی ایک خدا کی بندگی کریں گے جسے آپ نے اور آپ کے بزرگ ابراہیم، اسمعیل اور اسحاق نے مانا ہے) یہاں دادا اور چچا کو باپ کا نام دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا : واتبعت ملۃ ابائی ابراھیم و اسحق ویعقوبا میں نے اپنے بزرگوں ابراہیم، اسحق اور یعقوب کا طریقہ اختیار کیا ہے) حضرت ابن عباس نے میت کے دادا اور بھائیوں کی موجودگی میں بھائیوں کے بجائے دادا کو وارث قرار دینے کے لئے ان آیات سے استدلال کیا ہے۔ الحجاج نے عطا سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : جو شخص چاہے میں اس کے ساتھ حجر اسود کے پاس جا کر اس بات پر لعان کرسکتا ہوں کہ دادا باپ ہے، بخدا ، اللہ نے دادا اور دادی کا ذکر آباء کے الفاظ میں کیا ہے : واتبعت ملۃ ابائی ابراہیم و اسحق و یعقوب ۔ بھائیوں کے بجائے دادا کو وارث قرار دینے اور باپ کی عدم موجودگی میں دادا کو باپ کا درجہ دینے کے سلسلے میں حضرت ابن عباس کا استدلال اس امر کا مقتضی ہے کہ قول باری : وورثہ ابواہ فلامہ الثلث (اور اس کے ابوین اس کے وارث ہوں : تو اس کی ماں کے لئے تہائی حصہ ہے) کے ظاہر سے اس امر پر استدلال جائز ہے کہ بھائیوں کے بجائے میت کا دادا دو تہائی ترکے کا مستحق ہوگا، جس طرح میت کا باپ میت کے بھائیوں کے بجائے اس کا مستحق ہوتا ہے، اگر وہ زندہ ہو۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ باپ کے اسم کا اطلاق دادا کو شامل ہوتا ہے اور اس امر کا مقتضی ہے کہ میراث کے اندر باپ کی عدم موجودگی میں دادا اور باپ کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ حضرت ابوبکر اور دیگر صحابہ کرام کا یہی مسلک ہے۔ حضرت عثمان نے فرمایا : ابوبکر نے فیصلہ دیا تھا کہ دادا باپ ہے، اور انہوں نے دادا پر باپ ہونے کے اسم کا اطلاق کیا تھا۔ امام ابوحنیفہ کا یہی قول ہے۔ امام ابو یوسف، امام محمد، امام مالک اور امام شافعی نے دادا کے بارے میں حضرت زید بن ثابت کا قول اختیار کیا ہے کہ دادا اس وقت تک بھائیوں کی طرح شمار ہوگیا جب تک مقاسمہ کے طور پر اسے ملنے والا حصہ کل ترکہ کے تہائی سے کم نہ ہو۔ اگر کم ہوگا تو اسے ترکہ کا تہائی حصہ دیا جائے گا اور اس کا حصہ تہائی حصے سے کم ہونے نہیں دیا جائے گا (مقاسمہ اسے کہتے ہیں کہ دادا کو ایک بھائی فرض کر کے اسے میت کے دیگر موجود بھائیوں کے برابر حصہ دے دیا جائے۔ مترجم) قاضی ابن ابی لیلیٰ نے دادا کے بارے میں حضرت علی کا قول اختیار کیا ہے کہ دادا اس وقت تک بھائیوں کی طرح شمار ہوگا جب تک مقاسمہ کے طور پر اسے ملنے والا حصہ کل ترکہ کے چھٹے حصے سے کم نہ ہو۔ اگر کم ہوگا تو اسے ترکہ کا چھٹا حصہ دیا جائے گا۔ ہم نے مختصر الطحاوی “ کی شرح میں دادا کی میراث کے سلسلے میں صحابہ کرام کے اختلاف اور ان کے دلائل کا ذکر کردیا ہے، البتہ زیر حث آیت سے اس سلسلے میں دو طریقفوں سے استدلال کیا گیا ہے۔ اول یہ کہ آیت کا ظاہر اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ اللہ سبحانہ نے دادا کو باپ کے نام سے ذکر کیا ہے۔ دوم یہ کہ حضرت ابن عباس نے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے دادا پر باپ کا اطلاق کیا ہے۔ حضرت ابوبکر نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ یہ دونوں حضرات چونکہ اہل زبان تھے اس لئے ان سے لغت کے اعتبار سے اسماء کا حکم مخفی نہیں رہ سکتا۔ اگر ان حضرات نے شرعی طور پر اس کا اطلاق کیا ہے تو بھی ان کی حجت ثابت ہوجائے گی کیونکہ شرعی ور پر اسماء کا استعمال توقیف کے طریقے پر ہوتا ہے۔ یعنی ایک اسم کے متعلق جب شریعت کی طرف سے رہنمائی کردی جاتی ہے تو پھر شرعی طور پر اس کا استعمال درست ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص آیت کے ظاہر سے مذکورہ بالا استدلال کو رد کرنا چاہے، تو وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ زیر بحث آیت میں اللہ سبحانہ نے چچا کو باپ کا نام دیا ہے کیونکہ آیت میں حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کا ذکر ہے جو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے چچا تھے اور ظاہر ہے کہ چچا باپ کے قائم مقام نہیں ہوتا، نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : میرے باپ کو میرے پاس واپس لائو، یعنی حضرت عباس کو اور حضرت عباس آپ کے چچا تھے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ دادا کو باپ قرار دینے کے گزشتہ استدلال پر اس جہت سے بھی اعتراض ہوسکتا ہے کہ دادا کو بطریق مجاز باپ کہا جاتا ہے دادا سے باپ کے اسم کا انتفاء جائز ہے اس لیے کہ اگر آپ دادا کے بارے میں یہ کہیں کہ وہ باپ نہیں ہے تو یہ نفی درست ہوگی جبکہ اسمائقے حقائق کسی بھی حال میں اپنے مسمیات سے منتفی نہیں ہوتے۔ اعتراض کی ایک اور جہت بھی دیکھے، دادا کا تقید کے ساتھ باپ کا نام دیاجاتا ہے اور باپ کے اسم کا علی الاطلاق ذکر دادا کو شامل نہیں ہوتا اس لیے آیت میں لفظ ابوین کے عموم سے اس سلسلے میں استدلال درست نہیں ہے نیز اعتراض کی ایک جہت یہ بھی ہے کہ ارشاد ربانی : ورثہ ابواہ میں میت کا قریب ترین باپ، یعنی حقیقی باپ مراد ہے، اس لیے اس سے جد مراد لیناجائز نہیں ہے کیونکہ وہ مجاز ہے اور طلاق میں ایک ہی لفظ کے اندر حقیقت اور مجاز شامل نہیں ہوتا۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ دادا کو باپ ثابت کرنے کے لیے اب یعنی باپ کے لفظ کے عموم سے کیے گئے استدلال کو جو یہ کہہ کر رد کیا گیا ہے کہ آیت میں چچا کو باپ کا نام دیا گیا ہے حالانکہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ چچا کسی بھی حال میں باپ کا قائم مقام نہیں ہوتا، تو اس رد پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کہ باپ کے اسم کا اطلاق اگر نعت اور شرع کے اعتبار سے دادا اور چچا دونوں کو شامل ہے تو پھر ان تمام صورتوں میں اس لفظ کے عموم کا اعتبار جائز ہوگا، جن میں اس کا اطلاق ہوا ہے ۔ ایسی صورت میں اگر چچا ایک کے حکم کے ساتھ خاص ہو، اور اس میں دادا شامل نہ ہو تو یہ بات دادا کے اندر عموم کے حکم کی بقا کے لیے مانع نہیں بنے گی۔ چچا اور دادا معنی کے اعتبار سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں کیونکہ باپ کو باپ کے نام سے اس لیے موسوم کیا جاتا ہے کہ بیٹا ولادت کے واسطے سے اس کی طرف منسوب ہوتا ہے اور یہی معنی داد ا کے اندر بھی موجود ہوتا ہے۔ اگرچہ باپ اور دادا میں اس اعتبار سے فرق ہے کہ دادا اور پوتے کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہوتا، تاہم دادا والا مذکورہ بالا مرتبہ چچا کو حاصل نہیں ہوتا کیونکہ چچا اور بھتیجے کے درمیان ولادت کا کوئی رشتہ اور واسطہ نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ داد ا خواہ معنی کے اعتبار سے بعید ہی کیوں نہ ہو لیکن باپ کی عدم موجودگی میں اسم کے اطلاق اور حکم دونوں اعتبار سے اس میں قریب کا معنی پایاجاتا ہے۔ اس طرح دادا کو ایک گونہ اختصاص حاصل ہوتا ہے چناچہ یہ جائز ہے کہ باپ کے اسم کا اطلاق اسے بھی شامل ہوجائے۔ چچا کو چونکہ یہ مزیت حاصل نہیں ہوتی اس لیے علی الاطلاق چچا کو باپ کا نام نہیں دیا جاسکتا اور باپ کے لفظ سے تقلید کے بغیر چچا کا مفہوم اخذ نہیں ہوتا۔ دادا چونکہ توالد کے معنی میں باپ کے مساوی ہوتا ہے اس لیے باپ کے اسم کا دادا کو شامل ہوناجائز ہے، نیز باپ کی عدم موجودگی میں دادا کا حکم باپ کے حکم کی طرح ہوجاتا ہے۔ جن حضرات نے داد ا کو باپ قرار دینے کے سلسلے میں کیے گئے زیر بحث استدلال کو یہ کہہ کر رد کیا ہے کہ دادا کو باپ کا نام دینا بطور مجاز ہے، نیز یہ کہ آیت میں میت کا قریب ترین باپ یعنی حقیقی باپ مراد ہے۔ اس لیے آیت کے لفظ سے دادا امر لینا اس بنا پر جائز نہیں ہے کہ ایک ہی اسم کا حقیقت اور مجاز دونوں ہونا منتفی ہوتا ہے، تو ان حضرات کی یہ بات اس بنا پر پکی اور ٹھوس نہیں ہے کہ جس معنی کی بنا پر باپ کو باپ کا نام دیا جاتا ہے یعنی بیٹے کی طرف والد کے واسطے سے اس کی نسبت ہو تو یہ معنی داد ا میں بھی موجود ہے اور اس معنی میں کوئی فرق نہیں ہے جس کی وجہ سے ان دونوں میں ہر ایک کو باپ کا نام دیا گیا ہے۔ اس لیے باپ کے اسم کا اطلاق ان دونوں پر جائز ہے۔ اگرچہ ان میں سے ایک دوسرے کی بہ نسبت اخص ہے جس طرح لفظ اخوت ( بھائی) تمام بھائیوں کو شامل ہوتا ہے، خواہ وہ سگے ہوں یا ان کا باپ ایک ہو اور مائیں مختلف ہوں، البتہ سگا بھائی میراث تمام دیگر احکام میں علاتی یعنی باپ شریک بھائیوں سے اولیٰ ہوتا ہے لیکن اخوۃ کا اسم دونوں قسم کے بھائیوں میں بطور حقیقت استعمال ہوتا ہے اور اس میں کوئی امتناع نہیں کہ ایک ہی اسم دو معنوں میں بطور حقیقت استعمال کیا جائے۔ اگرچہ اسم کا علی الاطلاق ذکران میں سے صرف ایک معنی کو شامل ہوتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ نجم کا اسم آسمان کے تمام ستاروں میں سے ہر ایک ستارے پر حقیقی طورپر واقع ہوتا ہے، جبکہ عربوں کے نزدیک اس اسم کا علی الاطلاق ذکر صرف اس ستارے کو شامل ہوتا ہے جسے ثریا کے نام سے پکاراجاتا ہے۔ ایک عرب جب یہ کہتا ہے :” کہ میں نے فلاں فلاں کام کیا اور نجم سر کے اوپر تھا “ تو اس کی مراد ثریا ستارہ ہوتا ہے۔ اسی طرح جب یہ کہاجاتا ہے کہ ” طلع النجم ( نجم طلوع ہوگیا) تو اس اطلاق سے عرب کے لوگ ثریا ستارے کے سوا کوئی اور مفہوم اخذ نہیں کرتے۔ حالانکہ انہوں نے آسمان کے تمام ستاروں کو بطورحقیقت یہی نام دیا ہے۔ اسی طرح باپ کے اسم کا بھی زیربحث استدلال کے مستدلین کے نزدیک حقیقی طورپر باپ اور دادا دونوں کو شامل ہونا ممتنع نہیں ہے۔ اگرچہ بعض احوال میں سے اس اسم کے ساتھ باپ مختص ہوتا ہے اور نہ ہی باپ کے اسم کا حقیقی باپ اور دادا دونوں کے لئے استعمال ایک لفظ کو بیک وقت حقیقت اور مجاز دونوں پر محمول کرنے کا موجب بنتا ہے۔ اگر یہاں یہ کہاجائے کہ جب تولید کی نسبت کے اعتبار سے باپ کا اسم مختص ہوتا ہے تو پھر یہ اسم ماں کو بھی لاحق ہونا چاہیے کیونکہ ماں کے اندر بھی توالدکا مفہوم پایاجاتا ہے اس لیے یہ واجب ہوجائے گا کہ ماں کو بھی باپ کا نام دیاجائے اور اس بنا پر ماں دادا اور باپ کی بہ نسبت اولیٰ قرار پائے کیونکہ بچہ پیدا کرنے کا کام حقیقی طورپر ماں سر انجام دیتی ہے ؟ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ یہ بات ضروری نہیں ہے اس لیے کہ عربوں نے ماں کو باپ کے اسم کے سوا ایک اور نام یعنی لفظ ام کے ساتھ خاص کردیا ہے، تاکہ دو مختلف ناموں کے ذریعے ماں اور باپ کے درمیان فرق کیا جاسکے ، اگرچہ ولد ولادت کی نسبت سے ان میں سے ہر ایک طرف منسوب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کو بھی باپ کا نام دیا ہے اور دونوں کو مجموعی طورپر ابوین کے لفظ سے یاد کیا ہے۔ چناچہ ارشاد ہے : (اور میت کے ابوین، یعنی ماں باپ میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے) حضرت ابوبکر (رض) اور ان کے ہم خیال حضرات کے حق میں یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ دادا کے اندر میت کی طرف نسبت اور تعصب دونوں کی بنا پر ترکہ کا استحقاق اکٹھا ہوجاتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص ایک بیٹی اور دادا پنے پیچھے چھوڑ کر وفات پا جائے تو اس صورت میں بیٹی کو ترکے کا نصف حصہ۔ دادا کو چھٹا حصہ اور عصیہ ہونے کی بنا پر باقی ماندہ تیرا حصہ بھی مل جائے گا جس طرح اگر مرنے والا اپنے پیچھے ایک بیٹی اور باپ چھوڑ کر مرجائے تو باپ ایک ہی حالت کے اندر میت کی طرف نسبت اور تعصیب دونوں کی بنا پر ترکہ کا مستحق ہوگا۔ یہ واجب ہے کہ دادا کو میراث کے استحقاق کے اندر باپ کی طرح قرار دیاجائے اور میت کے بھائی بہنوں کو محروم رکھاجائے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ دادا ازروئے تولید عصیہ بننے کا مستحق ہوتا ہے، اس بنا پر یہ واجب ہے کہ بھائی بہنوں کے ساتھ عدم مشارکت کے اندر دادا کو باپ جیسا قرار دیاجائے کیونکہ بھائی بہن صرف عصبہ ہونے کی بنا پر ترکہ کے مستحق ہوتے ہیں اور میت کے ساتھ ان کا توالدی رشتہ نہیں ہوتا۔ بھائیوں اور دادا کے درمیان مقاسم کے طورپر مشارکت کی نفی کی ایک دلیل یہ ہے کہ دادا میت کے بیٹے کی موجودگی میں ترکہ کے چھٹے حصے کا مستحق ہوتا ہے جس طرح میت کا باپ میت کے بیٹے کی موجودگی میں مذکورہ حصے کا حقدار قرار پاتا ہے۔ جب اسے علت کی بنا پر باپ کی موجودگی میں میت کے بھائی بہن ترکہ کے مستحق نہیں ہوتے تو پھر ضروری ہے کہ دادا کی موجودگی میں ان کے لیے ترکے میں کوئی استحقاق واجب نہ ہو۔ اگر یہاں کہا جائے کہ ماں میت کے بیٹے کی موجودگی میں چھٹے حصے کی حقدار ہوتی ہے لیکن یہ بات ماں کی موجودگی میں میت کے بھائی بہنوں کے وارث بننے کی نفی نہیں کرتی تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم مذکورہ بالا علت کا ذکر بھائیوں کے ساتھ بطور مقاسمہ دادا کی مشارکت کی نفی کے لیے کرتے ہیں۔ اس لیے جس مقاسمہ کے اندر بھائیوں کے ساتھ دادا کی مشارکت منتفی ہوجائے گی جبکہ دادا کے ساتھ صرف بھائی بہن ہوں تو میراث کا سقوط ہوجائے گا۔ اس لیے کہ جب دادا کے ساتھ صرف یہی ہوں اور دیگر ورثا نہ ہوں تو اس صورت میں ان میں سے ہر ایک اپنے اور دادا کے درمیان تہائی یا چھٹے حصے کو تقسیم کرلے گا۔ مقاسمہ کی صورت میں تہائی یا چھٹے حصے کے سلسلے میں سلف کے دو اقوال اوپر گزر چکے ہیں۔ جہاں تک ماں کا تعلق ہے تو میت کے بھائی بہنوں کے ساتھ کسی بھی صورت میں اس کا مقاسمہ نہیں ہوتا۔ تقسیم کی نفی سے میراث کی نفی لازم نہیں ہوتی، لیکن اگر دادا کے ساتھ بھائی بہنوں کے مقاسمے کی نفی ہوجائے جبکہ دیگر ورثاء نہ ہوں تو یہ بات دادا کے ساتھ ان کی میراث کے اسقاط کی موجب بن جاتی ہے کیونکہ جو حضرات دادا کے ساتھ بھائی بہنوں کو وارث قرار دیتے ہیں وہ مقاسمہ کی صورت کے تحت نیز ان کے اور دادا کے درمیان مشارکت کے ایجاب کے تحت وارث بناتے ہیں۔ اس لیے جب ہماری ذکر کردہ باتوں کی بنا پر مقاسمہ ساقط ہوجائے گا تودادا کے ساتھ ان کی میراث بھی ساقط ہوجائے گی۔ اس لیے کہ دادا کے ساتھ بھائی بہنوں کے وارث ہونے کے متعلق صرف دو ہی اقوال ہیں۔ ایک قو ل تو ان لوگوں کا ہے جو دادا کی موجودگی میں بھائی بہنوں کو سرے سے وارث قرار نہیں دیتے اور ان کی میراث ساقط کردیتے ہیں۔ دوسرا قول ان حضرات کا ہے جو مقاسمہ واجب کرتے ہیں اس لیے جب ہماری ذکر کردہ باتوں کی بنا پر مقاسمہ باطل ہوجائے گا تو دادا کے ساتھ بھائی بہنوں کی میراث کا سقوط بھی ثابت ہوجائے گا۔ یہاں اگر کوئی یہ کہے کہ میت کی طرف دادا کی نسبت اپنے بیٹے یعنی میت کے باپ کے واسطے سے ہوتی ہے اور بھائی کی نسبت بھی میت کے باپ کے واسطے سے ہوتی ہے، اس لیے دونوں میں مشارکت واجب ہوجانی چاہیے جس طرح ایک شخص باپ اور ایک بیٹا چھوڑکر مرجائے تو ترکہ میں دونوں شریک ہوتے ہیں اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ یہ اعتراض دو وجوہ سے غلط ہے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اگر مذکورہ اعتبار کو درست تسلیم کرلیاجائے تو پھر دادا اور بھائی کے درمیان مقاسمہ واجب ہی نہ ہوگا بلکہ یہ بات واجب ہوگی کہ دادا کو چھٹا حصہ مل جائے اور بھائی کو باقی ماندہ ترکہ دے دیاجائے جس طرح اس صورت میں ہوتا ہے۔ جب ایک شخص باپ اور ایک بیٹا چھوڑ کر مرجائے تو باپ کو چھٹا حصہ مل جاتا ہے اور باقی ماندہ ترکہ بیٹے کے ہاتھ آجاتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ درج بالا اعتبار اس امر کو واجب کردیتا ہے کہ اگر میت ایک چچا اور ایک پڑدادا ( باپ کا دادا) چھوڑ کر مرجائے توچچا اس کے ساتھ مقاسمہ کرے، اس لیے کہ باپ کا داد امیت کی طرف قریب ترین عزیز ، دادا کے ذریعے نسبت رکھتا ہے اور چچا بھی اس کے ذریعے ہی اس کی طرف نسبت رکھتا ہے، کیونکہ چچا میت کے اس قریب ترین دادا کا بیٹا ہوتا ہے لیکن جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ باپ کے داد ا کی موجودگی میں چچا کی میراث ساقط ہوجاتی ہے حالانکہ وہ علط موجود ہوتی ہے جس کا اوپر بیان ہوا ہے تو یہ امر اس علت کے فساد اور اس کے انتقاض پر دلالت بن جائے گا اور اس علت کے بیان سے معترض پر یہ بھی لازم آ جائے گا کہ بھائی کا بیٹا بھی میراث میں دادا کا شریک بن جائے، اس لیے کہ معترض یہ کہتا ہے کہ میت کا بھتیجا باپ کے بیٹے کا بیٹا ہے اور میت کا دادا باپ کا باپ ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص باپ اور ایک توپا چھوڑ کر وفات پا جائے تو باپ کو چھٹا حصہ اور باقی ماندہ ترکہ پوتے کو مل جائے گا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣٣) دین ابراہیمی کے ساتھ یہودیوں نے جو جھگڑا کیا اب اللہ تعالیٰ اس کا ذکر فرماتے ہیں کہ اے یہودیوں کی جماعت جب حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو موت آئی کیا تم اس وقت موجود تھے کہ کس چیز کے متعلق حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو وصیت کی یہودیت کے بارے میں یا دین اسلام کے بارے میں ؟ چناچہ انہوں نے کہا کہ میرے مرنے کے بعد کس کی عبادت کرو گے، ان کی اولاد نے کہا اسی ایک معبود حقیقی کی عبادت کریں گے جس کی آپ عبادت کررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی توحید کے لیے ہم دل وجان سے وعدہ کررہے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٣ (اَمْ کُنْتُمْ شُہَدَآءَ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُ لا) یعنی جب یعقوب (علیہ السلام) کی موت کا وقت آیا۔ اس وقت حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور ان کے سب بیٹے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے ذریعے مصر میں پہنچ چکے تھے۔ یہ سارا واقعہ سورة یوسف میں بیان ہوا ہے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا انتقال مصر میں ہوا۔ دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے انہوں نے اپنے بارہ کے بارہ بیٹوں کو جمع کیا۔ (اِذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْم بَعْدِیْ ط) کس کی پوجا کرو گے ؟ کس کی پرستش کروگے ؟ یہ بات نہیں تھی کہ انہیں معلوم نہ تھا کہ انہیں کس کی عبادت کرنی ہے ‘ بلکہ آپ ( علیہ السلام) نے قول وقرار کو مزید پختہ کرنے کے لیے یہ انداز اختیار فرمایا۔ (قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰہَکَ وَاِلٰہَ اٰبَآءِکَ اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ ) (اِلٰہًا وَّاحِدًا ج) (وَّنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ ) ہم اسی کے سامنے سرجھکاتے ہیں اور اسی کی فرماں برداری کا اقرار کرتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

133. In the Bible the events connected with the death of Jacob (peace be on him) are narrated in detail. It is amazing that this narrative makes no reference to his testament. However, the contents of the detailed testament embodied in the Talmud greatly resemble the Qur'anic version. The Talmudic version reads as follows: 'Serve the Lord your God, and He will deliver ye from all trouble, even as He delivered your fathers.' ' . . . Teach your children to love God, and observe His commandments, in order that their days may be prolonged, for God will guard those who do justly and walk in righteousness through all His ways.' And the sons of Jacob responded, 'All that you have commanded us, our father, we will do. May God be with us!' And Jacob answered: 'The Lord will be with you if ye depart not from His ways to the right hand or to the left.' (The Talmud Selections by H. Polano, London, Frederick Warne & Co., [1877], pp. 113-14.)

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :133 بائیبل میں حضرت یعقوب ؑ کی وفات کا حال بڑی تفصیل سے لکھا گیا ہے ، مگر حیرت ہے کہ اس وصیّت کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ البتہ تَلْموُد میں جو مفصّل وصیّت درج ہے ، اس کا مضمون قرآن کے بیان سے بہت مشابہ ہے ۔ اس میں حضرت یعقوب ؑ کے یہ الفاظ ہمیں ملتے ہیں: ”خداوند اپنے خدا کی بندگی کرتے رہنا ، وہ تمہیں اسی طرح تمام آفات سے بچائے گا ، جس طرح تمہارے آباؤ اجداد کو بچاتا رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے بچوں کو خدا سے محبت کرنے اور اس کے احکام بجا لانے کی تعلیم دینا تاکہ ان کی مُہلتِ زندگی دراز ہو ، کیوں کہ خدا ان لوگوں کی حفاظت کرتا ہے ، جو حق کے ساتھ کام کرتے ہیں ، اور اس کی راہوں پر ٹھیک ٹھیک چلتے ہیں ۔ “ جواب میں ان کے لڑکوں نے کہا:”جو کچھ آپ نے ہدایت فرمائی ہے ہم اس کے مطابق عمل کریں گے ۔ خدا ہمارے ساتھ ہو!“ تب یعقوب ؑ نے کہا”اگر تم خدا کی سیدھی راہ سے دائیں یا بائیں نہ مڑو گے ، تو خدا ضرور تمہارے ساتھ رہے گا ۔ “

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

86: بعض یہودیوں نے کہا تھا کہ حضرت یعقوب (اسرائیل) (علیہ السلام) نے اپنے انتقال کے وقت اپنے بیٹوں کو وصیت کی تھی کہ وہ یہودیت کے دین پر رہیں، یہ آیت اس کا جواب ہے۔ اس آٰیت کو سورۃ آل عمران کی آیت 65 کے ساتھ ملاکر پڑھا جائے تو بات اور زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(133 ۔ 134) ۔ اوپر کی آیت میں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی وصیت کا ذکر ہے تھا اور اس آیت میں حضرت یعقوب ( علیہ السلام) نے اپنے آخری وقت پر اپنی اولاد سے توحید پر رہنے کا اقرار جو بطور وصیت کے لیا تھا اور اس اقرار میں حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کے چچا حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے اسی توحید پر قائم رہنے کا ذکر ہے جس سے اولاد یعقوب ( علیہ السلام) اور اولاد اسماعیل ( علیہ السلام) دونوں کو ذکر کرنا مقصود ہے کہ ان دونوں میں سے ایک بھی اپنے بڑوں پر نہیں ہے اور جب یہ لوگ اپنے بڑوں کے طریقہ پر نہ ہوں قیامت کے دن بڑوں کے نیک عمل ان کے کام نہیں آسکتے اس دن تو ہر ایک کو اپنے اپنے عمل کے جدا جدا جواب دہی کرنی پڑے گی۔ چناچہ معاذ بن جبل سے ترمذی وغیرہ میں معتر سند سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ چار باتوں کی جواب دہی کے لئے ہر ایک شخص کو قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے رو برو ضرور کھڑا رہنا پڑے گا ایک تو یہ کہ نیک عمل دنیا میں کیا کیا دوسرے یہ کہ عمر کن کن کاموں میں صرف کی۔ تیسرے جوانی میں کیا کیا۔ چوتھے روپیہ پیسہ کس کس طریقہ سے کمایا اور کہاں کہاں خرچ کیا ١۔ یہود نے ایک دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا کہ یعقوب (علیہ السلام) نے ہم کو یہودیت پر قائم رہنے کی وصیت کی ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور آیت کے مضمون سے اہل مکہ اہل کتاب دونوں کو قائل کیا عرب میں چچا کو باپ کہنے کا دستور ہے۔ اس لئے حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کی اولاد نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو اپنا باپ کہا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:133) ام۔ منقطعہ ہے۔ یہاں اضراب کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اور اس معنی کے ساتھ ساتھ استفہام انکاری کے معنی کو بھی شامل ہے۔ مطلب یہ کہ حقیقت یہ نہیں ہے جو تم کہتے ہو :۔ مامات بنی الا علی الیہودیۃ وغیرہ۔ بلکہ حقیقت تو وہ ہے جو آگے بیان ہو رہی ہے اور تم تو اس وقت موجود ہی نہ تھے جب حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو موت آپہنچی۔ نیز ملاحظہ ہو (18:9) شھدائ۔ شھید کی جمع ہے۔ شہید شرع میں وہ شخص ہے۔ جو اللہ کی راہ میں قتل کیا گیا ہو شھید بروزن فعیل بمعنی فاعل ہے۔ یعنی شاھد۔ مشاہدہ کرنے والا۔ گواہ۔ وہ شخص جو جائے وقوعہ پر موجود ہو اور مشاہدہ کرنے والا ہو۔ شھدائ۔ اس کی جمع ۔ موقعہ پر موجود لوگ۔ موقعہ مشاہدہ کرنے والے لوگ۔ گواہ (جمع) ام کنتم شھدائ۔ کیا تم موجود تھے۔ (استفہام انکاری ہے) یعنی تم اس وقت موجود نہ تھے۔ اذحضر۔ میں اذ ظرف زمان ہے۔ جب حاضر آہوئی۔ جب قریب آگئی۔ اذقال۔ اذحضر سے بدل ہے۔ جس وقت (اس نے) کہا ۔ یا جس وقت اس نے پوچھا۔ ما تعبدون۔ ما بمعنی من استفہامیہ ہے۔ تم کس کی عبادت کروگے ؟ ابراہیم واسماعیل واسحق۔ بدل ہے اباء سے یعنی آپ کے بزرگ اجداد ابراہیم واسماعیل و اسحاق (علیہم السلام) ۔ الھا واحدا۔ موصوف و صفت مل کر بدل ہے۔ الہک اور الہ ابائک میں الہ کا۔ ونحن لہ مسلمون اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے۔ یہ جملہ حال ہے فاعل نعبد سے یا یہ جمل معطوف ہے جس کا عطف جملہ سابقہ نعبد الہک ۔۔ الخ پر ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : پہلی آیات میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وصیتکا بیان تھا۔ جس کا اہل کتاب انکار کرتے ہیں۔ لہٰذا ان سے سوال کیا گیا ہے کہ کیا تم ان کی وفات کے وقت موجود تھے کہ انہوں نے یہ نصیحت نہیں کی تھی ؟ انبیائے عظام کے ذمہ قوموں کی رہنمائی کا فریضہ ہوا کرتا ہے۔ اس جان کٹھن اور ہمہ وقت بھاری ذمہ داری کے باوجود انبیاء اپنے اہل خانہ کی ذمہ داریوں سے لمحہ بھر کے لیے غافل نہیں ہوا کرتے تھے۔ ان کی کوشش ہوتی کہ ان کی ذات اہل خانہ اور لوگوں کے لیے بہترین نمونہ ثابت ہوں۔ اس بارے میں وہ اس قدر فکر مند ہوتے تھے کہ جب موت کا فرشتہ سرہانے کھڑا جان قبض کرنے کی اجازت لے رہا ہوتا۔ جن نازک لمحات میں انسان کی نگاہیں دنیا کی بجائے اگلی منزل پر مرکوز ہوتی ہیں دوسری کوئی چیز سوجھائی نہیں دیتی۔ انبیاء اس وقت بھی اپنی ذمہ داری کے بارے میں فکر مند ہوتے تھے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) اسی فکر مندی میں اپنے بیٹوں کو وصیت کرتے ہوئے ایک عہد لے رہے ہیں کہ جان پدر ! میرے چل چلاؤ کا وقت آن پہنچا ہے۔ لیکن میں اس اطمینان اور تسلی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہونا چاہتا ہوں وعدہ کیجیے کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے ؟ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی دعاؤں اور کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ان کی اولاد بیک زبان عرض کرتی ہے ہم آپ کے معبود اور اپنے عظیم آباء حضرت ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق (علیہ السلام) کے معبود کی عبادت کیا کریں گے۔ ان سب کا ایک ہی معبود تھا لہٰذا ہم ایک ہی الٰہ کے تابع فرمان اور اس کی عبادت کریں گے۔ اس واقعہ میں بتلایا جا رہا ہے کہ والدین کو اپنی ذمہ داریوں کا کس قدر خیال رکھنا چاہیے۔ ساتھ ہی اہل کتاب کو باور کروایا گیا ہے کہ اگر تم واقعی اپنے آپ کو اس عظیم خاندان کا وارث سمجھتے ہو تو تمہیں صالح اولاد کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے باپ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی وصیت اور عہد کا خیال رکھنا چاہیے۔ ان کا عقیدہ توحید پر مبنی اور کردار اللہ تعالیٰ کے فرمان کے تابع تھا۔ اگر تم نے اپنے عقیدہ اور کردار کو ان جیسا بنانے کی کوشش نہ کی اور آخرالزمان نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لائے تو قیامت کے دن محض عقیدت اور نسبت کچھ کام نہ آسکے گی اور دنیا میں بھی کوئی قوم صرف حسب ونسب کی بنیاد پر عزت و رفعت حاصل نہیں کرسکتی۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس اصول کا اس طرح تذکرہ فرمایا ہے۔ (۔۔ مَنْ بَطَّأَ بِہٖ عَمَلُہٗ لَمْ یُسْرِعْ بِہٖ نَسَبُہٗ ) [ رواہ مسلم : کتاب الذکر والدعاء ] ” جو اعمال کی وجہ سے پیچھے رہ گیا اسے حسب ونسب کام نہیں دے گا۔ “ اس کے ساتھ یہ اصول بھی بیان فرما دیا گیا کہ کوئی کسی کے اعمال کی وجہ سے نہ پکڑا جائے گا اور نہ بخشا جائے گا اور یہی اصول اسلامی حکومت کے لیے لازم قرار پایا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : ” باپ کے بدلے بیٹا نہیں پکڑا جاسکتا۔ “ [ مسند احمد : کتاب مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ ] مسائل ١۔ ماں باپ کو اپنی اولاد سے توحید اور خدا کی عبادت کا عہد لینا چاہیے۔ ٢۔ تمام انبیاء ایک اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے۔ ٣۔ لوگوں کو قیامت کے دن ان کے اپنے اپنے اعمال کے بارے میں سوال ہوگا۔ تفسیر بالقرآن اللہ کا پسندیدہ دین اسلام ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو پسند فرمایا ہے۔ (المائدۃ : ٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ اسلام کی دعوت دیتا ہے۔ (یونس : ٢٥) ٣۔ اسلام فرمانبرداری کا نام ہے۔ (آل عمران : ٨٣) ٤۔ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہونا چاہیے۔ (البقرۃ : ٢٠٨) ٥۔ اسلام پر ہی مرمٹنا چاہیے۔ (آل عمران : ١٠٢) ٦۔ یوسف (علیہ السلام) بھی یہی دعا کرتے تھے۔ ( یوسف : ١٠١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سکرات الموت کے وقت حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور آپ کے بیٹوں کا یہ منظر ایک عظیم منظر ہے ۔ یہ منظر ایک نہایت ہی نصیحت آموز ، سبق آموز اور پر تاثیر منظر ہے ایک شخص موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہے اور ان لمحات میں اس کے دل و دماغ پر کیا چھایا ہوا ہے ؟ وہ کیا دلچسپی ہے جس میں اس کا دل و دماغ مشغول ہے حالانکہ وہ زندگی کے آخری لمحات میں ہے۔ اس وقت وہ کس عظیم الشان معاملے میں بات کرکے اس کے بارے میں اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ اپنی اولاد کے لئے کیا ترکہ چھوڑ رہے ہیں اور تاکید کرتے ہیں کہ وہ اس ترکہ کی آخردم تک حفاظت کریں اور وہ آخری ہچکیوں میں اسے اولاد کے حوالے کررہے ہیں اور اس پر بڑی تفصیل سے بات کرتے ہیں ۔ یہ ترکہ نظریہ حیات اور عقیدے کا ترکہ ہے ۔ یہی وہ دولت ہے جسے وہ بیٹوں کے حوالے کرتے ہیں اور یہی وہ اہم مسئلہ ہے جس میں وہ بےحد دلچسپی لے رہے ہیں ۔ یہ ہے وہ عظیم الشان مسئلہ جس میں وہ بےحد دلچسپی لے رہے ہیں ۔ یہ ہے وہ عظیم الشان معاملہ جو آخری لمحات میں بھی انہیں یاد ہے مَا تَعبُدُونَ مِن بِعدِی تم میرے بعد کس کی بندگی کروگے ۔ “ یہ ہے وہ عظیم معاملہ جس کے لئے تمہیں بلایا ہے ۔ اور اس اہم معاملے میں ، میں چاہتا ہوں کہ تم اسے اطمینان حاصل کرلوں ۔ یہ میری دولت ہے ، میرا ترکہ ہے اور وہ اہم امانت ہے جو میں تمہارے سپرد کررہا ہوں قَالُوا نَعْبُدُ إِلَهَكَ وَإِلَهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ” ان سب نے کہا ! ہم اس ایک اللہ کی بندگی کریں گے جسے آپ نے ، آپ کے بزرگوں ابراہیم اور اسماعیل (علیہم السلام) نے اللہ مانا۔ اور ہم اس کے مسلم ہیں۔ “ یوں وہ اپنے دین کو دین کو پہچان لیتے ہیں ۔ اسے یاد کرلیتے ہیں ۔ اس ورثے کو وہ قبول کرتے ہیں ۔ اور اس کی حفاظت کا مصمم ارادہ کرلیتے ہیں اور یوں وہ اپنے والد محترم کو مطمئن کردیتے ہیں جو اپنی زندگی کے آخری لمحات میں ہے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد نے آخر تم تک ہمیشہ اس وصیت کا خیال رکھا اور وہ ہمیشہ اس بات کے معترف رہے کہ وہ مسلم ہیں ۔ اس موقع پر قرآن مجید بنی اسرائیل سے یہ سوال کرتا ہے۔ أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ ” کیا تم موجود تھے جب حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے سامنے موت آگئی۔ “ ہاں یہ واقعہ ہوا تھا ، قرآن مجید اس کی گواہی دیتا ہے ، اس کی تائید کرتا ہے۔ یوں قرآن مجید ان لوگوں کے مکر و فریب کا پردہ چاک کردیتا ہے اور یہ فیصلہ کردیتا ہے کہ بنی اسرائیل کا اب اپنے جد امجد اسرائیل کے ساتھ کوئی نظریاتی یا روحانی تعلق نہیں ہے ۔ ” اس بیان کی روشنی میں وہ فرق و امتیاز کھل کر سامنے آجاتا ہے جو دور رفتہ کی امت مسلمہ اور تحریک اسلامی کے مزاحم بنی اسرائیل کے درمیان پایا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ دور رفتہ کی اس امت مسلمہ اور اب کے نام نہاد جانشینوں کے درمیان کوئی تعلق کوئی وراثت اور کوئی روحانی وراثت کا تعلق نہیں ہے۔ “

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

252 یہودیوں نے حضور علیہ الصلوہ والسلام سے کہا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے تو اپنی اولاد کو یہودیت پر رہنے کی وصیت فرمائی تھی اس لیے ہم ان کی وصیت کو چھوڑ کر دین اسلام کو کس طرح قبول کریں۔ قالوا للنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الست تعلم ان یعقبو لما مات اوصی بنیہ بالیھودیۃ (روح ص 390 ج 1، جامع ص 21) تو ان یہودیوں کے کذب وافترا کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی۔ یہاں اَمْ منقطعہ ہے بمعنی بل اضرابیہ و استفہام انکاری۔ مطلب یہ تم جھوٹ کہتے ہو کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے یہودیت پر قائم رہنے کی وصیت کی تھی کیونکہ اس وقت وہاں موجود ہی نہ تھے جب ان کی وفات کا وقت قریب تھا اور وہ اپنی اولاد کو وصیت کر رہے تھے ای ماکنتم حاضرین حین احتضارہ الموت (علیہ الصلوۃ والسلام) وسؤالہ بنیہ عن الدین فلم تدعون ما تدعون (روح ص 390 ج 1) اور ہوسکتا ہے کہ اَمْ متصلہ ہو اور استفہام تقریری ہو اور مطلب یہ ہو کہ تمہارے اسلاف تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی وفات کے وقت ان کے پاس موجود تھے جب وہ اپنی اولاد کو اسلام اور توحید پر قائم رہنے کی وصیت کر رہے تھے اور انہیں بخوبی معلوم تھا اور ان کی وساطت سے تم بھی جانتے ہو کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے یہودیت کی کوئی وصیت نہیں کی تھی پھر کیوں جان بوجھ کر ان پر الزام لگاتے ہو۔ ولک ان تجعل الاستفہام للتقریر ای کانت اوائلکم حاضرین حین وصی بنیہ (علیہ الصلوۃ والسلام) بالاسلام والتوحید وانتم عالمون بذلک فما لکم تدعون علیہ خلاف ماتعلمون (روح ص 390 ج 1) اِذْ حَضَرَ میں اِذْ ، شُھَدَاءَ سے متعلق ہے۔253 اِذْ قَالَ ، اِذْ حَضَرَ سے بدل ہے۔ والعامل فی اذا الاولی معنی الشھادۃ واذا الثانیۃ بدل من الاولی۔ (قرطبی ص 137 ج 2) یعنی کیا تم اس وقت موجود تھے جب حضرت یعقوب بوقت وفات اپنی اولاد سے امتحانا پوچھ رہے تھے کہ تم میری موت کے بعد کس کی پوجا کرو گے۔254 ۔ اِلٰھاً وَاحِداً ۔ اِلٰھَکَ سے بدل ہے جو تاکید اور احتمال العدد کو قطع کرنے کے لیے لایا گیا ہے تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے سعادت مند فرزندوں نے بیک زبان جواب دیا کہ ہم تو اسی خدائے واحد کی عبادت کریں گے جو آپ کا معبود ہے اور جو آپ کے ا آبائے کرام حضرت ابراہیم، اسمعیل اور حضرت اسحاق (علیہم السلام) کا معبود ہے۔ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ ۔ اور ہم مرتے دم تک اسی کے مطیع فرمان اور منقاد رہیں گے اور اسی کی خالص عبادت کرینگے اور اس کی عبادت اور پکار میں، اس کی نذرومنت میں کسی کو اس کا شریک نہیں بنائیں گے۔ یہودیو ! اب بتاؤ تم تو کہتے تھے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے یہودیت کی وصیت کی تھی حالانکہ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ انہوں نے مرتے وقت اپنی اولاد سے اسلام اور توحید پر قائم رہنے کا عہد واقرار لیا تھا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi