Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 134

سورة البقرة

تِلۡکَ اُمَّۃٌ قَدۡ خَلَتۡ ۚ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ لَکُمۡ مَّا کَسَبۡتُمۡ ۚ وَ لَا تُسۡئَلُوۡنَ عَمَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۳۴﴾

That was a nation which has passed on. It will have [the consequence of] what it earned, and you will have what you have earned. And you will not be asked about what they used to do.

یہ جماعت تو گزر چکی جو انہوں نے کیا وہ ان کے لئے ہے اور جو تم کرو گے تمہارے لئے ہے ۔ ان کے اعمال کے بارے میں تم نہیں پوچھے جاؤ گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ... That was a nation who has passed away, meaning, existed before your time. ... لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ... They shall receive the reward of what they earned and you of what you earn. This Ayah proclaims, Your relationship to the Prophets or righteous people among your ancestors will not benefit you, unless you perform good deeds that bring about you religious benefit. They have their deeds and you have yours. ... وَلاَ تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ And you will not be asked of what they used to do. This is why a Hadith proclaims, مَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُه Whoever was slowed on account of his deeds will not get any faster on account of his family lineage.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

134۔ 1 یہ بھی یہود کو کہا جا رہا ہے کہ تمہارے آباواجداد جو انبیاء و صالحین ہو گزرے ہیں، ان کی طرف نسبت کا کوئی فائدہ نہیں۔ انہوں نے جو کچھ کیا ہے، اس کا صلہ انہیں ہی ملے گا، تمہیں نہیں، تمہیں تو وہی کچھ ملے گا جو تم کماؤ گے۔ اصل چیز ایمان اور عمل صالح ہی ہے جو پچھلے صالحین کا بھی سرمایا تھا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کی نجات کا بھی واحد ذریعہ ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦٦] یعنی انبیاء کی اور ان کے متبعین کی جماعت۔ اگرچہ اے یہود ! تم ان کی اولاد ہو مگر ان کے اعمال تمہارے کچھ کام نہیں آسکتے۔ تمہارے لیے تو وہی کچھ ہوگا جو تم خود کر رہے ہو۔ تم سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ تمہارے آباؤ اجداد کیا کرتے تھے بلکہ یہ پوچھا جائے گا کہ تم خود کیا کرتے رہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یہود کو تنبیہ ہے کہ وہ انبیاء اور صلحاء کی طرف اپنی نسبت پر مغرور نہ ہوں، یہ نسبت تمہارے کچھ کام نہ آسکے گی، بلکہ نجات کا دارو مدار انسان کے اپنے اعمال پر ہے ان کے اعمال ان کے ساتھ گئے اور تمہارے اعمال تمہارے ساتھ ہوں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Verse 134 tells us that the good deeds of one&s forefathers shall not suffice one, if one has not been performing good deeds oneself, and that, similarly, one shall not have to suffer for the misdeeds of one&s forefathers, if one&s own account is clean. It follows upon this principle that children of mushrikin مشرکین (associators) and Kafirin کافرین (infidels), if they die before having come of age, shall not be punished in the other world on account of the disbelief of their parents. The verse also refutes the claim of the Jews that irrespective of what they had been doing they would go to Paradise on account of the good deeds of their forefathers. Let this be a warning to those Muslims who, being the descendants of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) or of a saint, delude themselves with the hope that their sins would go unpunished in consideration of this privileged position. In fact, the Holy Qur&an is very explicit and very insistent on this point. For example: وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ‌ وَازِرَ‌ةٌ وِزْرَ‌ أُخْرَ‌ىٰ |"Each man shall reap the fruits of his own deeds, and no one shall bear the burden of another|" (6:164). Addressing his own clan, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"Beware, 0 Banu Hashim, let it not be that on the Day of Judgment while others bring their good deeds with them, you on your part, having neglected good deeds, bring with you only the trust in being my relations, and so I have to tell you that on that day, I cannot save you from the wrath of Allah.|" Another hadith says: من بطابہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ :|"He who has been pulled back by his deeds cannot be pushed forward by his ancestry.|"

آباء و اجداد کے اعمال کی جزا سزا اولاد پر نہیں ہوگی : لَهَا مَا كَسَبَتْ لآیۃ، اس آیت سے معلوم ہوا کہ باپ دادا کے نیک اعمال اولاد کے لئے کافی ہوں گے جب تک وہ خود اپنے اعمال کو درست نہ کریں اسی طرح باپ دادا کے برے اعمال کا عذاب بھی اولاد پر نہ پڑے گا جب کہ یہ اعمال صالحہ کے پابند ہوں اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مشرکین کی اولاد جو بلوغ سے پہلے مرجائے ان کو اپنے ماں باپ کے کفر و شرک کی وجہ سے عذاب نہیں ہوگا اور اس سے یہود کے اس عقیدے کی بھی تردید ہوگئی کہ ہم جو چاہیں عمل کرتے رہیں ہماری مغفرت تو ہمارے آباء و اجداد کے اعمال سے ہوجائے گی اسی طرح آجکل کے بعض سید خاندان کے لوگ اس خیال میں رہتے ہیں کہ ہم اولاد رسول ہیں ہم جو چاہیں گناہ کرتے رہیں ہماری مغفرت ہی ہوگی، قرآن کریم نے اس مضمون کو بار بار مختلف عنوانات سے بیان فرمایا ہے وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَيْهَ آ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰي (١٦٤: ٦) وغیرہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اے بنی ہاشم ایسا نہ ہو کہ قیامت کے روز اور لوگ تو اپنے اپنے اعمال صالحہ لے کر آئیں اور تم اعمال صالحہ سے غفلت برتو اور صرف میرے نسب کا بھروسہ لے کر آؤ اور میں اس روز تم سے یہ کہوں کہ میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا، اور دوسری حدیث میں ارشاد ہے : مَن بطأ بہ عملہ لم یسرع بہٖ نسبُہ : یعنی جس شخص کو اس کے عمل نے پیچھے ڈالا اس کو اس کا نسب آگے نہیں بڑھا سکتا،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

تِلْكَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ۝ ٠ ۚ لَہَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ۝ ٠ ۚ وَلَا تُسْـــَٔــلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝ ١٣٤ الأُمّة : كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام/ 38] الامۃ ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ } ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ خلا الخلاء : المکان الذي لا ساتر فيه من بناء ومساکن وغیرهما، والخلوّ يستعمل في الزمان والمکان، لکن لما تصوّر في الزمان المضيّ فسّر أهل اللغة : خلا الزمان، بقولهم : مضی الزمان وذهب، قال تعالی: وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلاتُ [ الرعد/ 6] ، تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ [ البقرة/ 141] ، قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ [ آل عمران/ 137] ، إِلَّا خَلا فِيها نَذِيرٌ [ فاطر/ 24] ، مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ [ البقرة/ 214] ، وَإِذا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنامِلَ مِنَ الْغَيْظِ [ آل عمران/ 119] ، وقوله : يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ [يوسف/ 9] ، أي : تحصل لکم مودّة أبيكم وإقباله عليكم . وخَلَا الإنسان : صار خَالِياً ، وخَلَا فلان بفلان : صار معه في خَلَاءٍ ، وخَلَا إليه : انتهى إليه في خلوة، قال تعالی: وَإِذا خَلَوْا إِلى شَياطِينِهِمْ [ البقرة/ 14] ، وخلّيت فلانا : تركته في خَلَاءٍ ، ثم يقال لكلّ ترک تخلية، نحو : فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ [ التوبة/ 5] ، وناقة خَلِيَّة : مُخْلَاة عن الحلب، وامرأة خَلِيَّة : مخلاة عن الزّوج، وقیل للسّفينة المتروکة بلا ربّان خَلِيَّة، والخَلِيُّ : من خلّاه الهمّ ، نحو المطلّقة في قول الشاعر : مطلّقة طورا وطورا تراجع والخلَاءُ : الحشیش المتروک حتّى ييبس، ويقال : خَلَيْتُ الخَلَاءَ : جززته، وخَلَيْتُ الدّابة : جززت لها، ومنه استعیر : سيف يَخْتَلِي، أي : يقطع ما يضرب به قطعه للخلا . ( خ ل و ) الخلاء ۔ خالی جگہ جہاں عمارت و مکان وغیرہ نہ ہو اور الخلو کا لفظ زمان و مکان دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چونکہ زمانہ میں مضی ( گذرنا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے اہل لغت خلاالزفان کے معنی زمانہ گزر گیا کرلیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تو صرف ( خدا کے ) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہوگزرے ہیں ۔ وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلاتُ [ الرعد/ 6] حالانکہ اس سے پہلے عذاب ( واقع ) ہوچکے ہیں ۔ تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ [ البقرة/ 141] یہ جماعت گزر چگی ۔ تم لوگوں سے پہلے بھی بہت سے واقعات گزر چکے ہیں ۔ إِلَّا خَلا فِيها نَذِيرٌ [ فاطر/ 24] مگر اس میں ہدایت کرنے والا گزر چکا ہے ۔ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ [ البقرة/ 214] تم کو پہلے لوگوں کی سی ۔ وَإِذا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنامِلَ مِنَ الْغَيْظِ [ آل عمران/ 119] اور جب الگ ہوتے ہیں تو تم پر غصے کے سبب انگلیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ [يوسف/ 9] پھر ابا کی توجہ تمہاری طرف ہوجائے گی ۔ کے معنی یہ ہیں کہ پھر تمہارے ابا کی محبت اور توجہ صرف تمہارے ہی لئے ۔ رہ جائے گی ۔ خلا الانسان ۔ تنہا ہونا ۔ خلافلان بفلان کسی کے ساتھ تنہا ہونا ۔ خلا الیہ کسی کے پاس خلوت میں پہنچنا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَإِذا خَلَوْا إِلى شَياطِينِهِمْ [ البقرة/ 14] اور جب اپنے شیطانوں میں جاتے ہیں ۔ خلت فلانا کے اصل معنی کسی کو خالی جگہ میں چھوڑ دینے کے ہیں ۔ پھر عام چھوڑ دینے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ فرمایا :۔ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ [ التوبة/ 5] تو ان کی راہ چھوڑ دو ۔ ناقۃ خلیۃ ۔ اونٹنی کو دودھ دوہنے سے آزاد چھوڑ دینا ۔ امراءۃ خلیۃ مطلقہ عورت جو خاوند کی طرف سے آزاد چھوڑ دی اور جو کشتی ملاحوں کے بغیر چل رہی ہو اسے بھی خلیۃ کہا جاتا ہے ۔ الخلی جو غم سے خالی ہو ۔ جیسا کہ مطلقۃ کا لفظ سکون و اطمینان کے معنی میں آجاتا ہے ۔ چناچہ شاعر نے ( طویل ) (146) تطلقۃ طورا طورا تراجع میں ( کسی اسے سکون ہوجاتا ہے اور کبھی وہ دو ( عود کر آتی ہے ) میں تطلقۃ کا لفظ اسی معنی میں استعمال کیا ہے ۔ الخلاء ۔ خشک گھاس ۔ کہاجاتا ہے :۔ خلیت الخلاء ۔ میں نے خشک گھاس کاٹی ۔ خلیت الدابۃ ۔ جانور کو خشک گھاس ڈالی ۔ سیف یختلی ۔ تیز تلوار جو گھاس کی طرح ہر چیز کو کاٹ ڈالے ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے : تلک امۃ قد خلت لھا ما کسبت ولکم ما کسبتم ولا تسئلون عما کانو ا یعملون ( وہ کچھ لوگ تھے جو گزر گئے ، جو کچھ انہوں نے کیا یا وہ ان کے لیے ہے اور جو کچھ تم کمائو گے وہ تمہارے لیے ہے، تم سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے) یہ آیت تین معانی پر دلالت کرتی ہے۔ اول یہ کہ آباء کی اطاعت پر ابناء ( بیٹوں) کو ثواب نہیں ملے گا اور آباء کے گناہوں کی سزا بیٹوں کو نہیں دی جائے گی۔ اس میں ان لوگوں کے مسلک کا ابطال ہے جو مشرکین کی اولاد کی ان کے آباء کے گناہوں کی بنا پر تعذیب کو جائز قرار دیتے ہیں، نیز اس سے یہود کا یہ زعم بھی باطل قرار پاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے آباء کی نیکیوں کی بنا پر ان کے گناہ معاف کردے گا۔ اللہ تعالیٰ نے دیگر آیات میں بھی اس مضمون کو بیا ن فرمایا ہے، چناچہ ارشاد ہے ( ولا تکسب کل نفس الا علیھا (اور ہر شخص کی کمائی اس کے ہی ذمے ہوگی) نیز : ولا تزرو ازرۃ وزراخری ( اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی اور کا بوجھ نہیں اٹھائے گا) نیز : فان تولو فانما علیہ ما حمل وعلیکم ما حملتہ (لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھ کر رسول پر جس فرض کا بار رکھا گیا ہے اس کا ذمہ وہ ہے اور تم پر جس فرض کا بار رکھا گیا ہے اس کے ذمہ دار تم ہو) اس مضمون کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارشاد کے ذریعے واضح فرما دیا ہے۔ آپ نے ابو رمثہ کے ساتھ ان کے بیٹے کو دیکھ کر پوچھا کہ : یہ تمہارا بیٹا ہے ؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سنو ! اس کے جرم کی نسبت تمہاری طرف نہیں ہوگی اور تمہارے جرم کی نسبت اس کی طرف نہیں ہوگی۔ اسی طرح بنو ہاشم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : اے بنی ہاشم، ایسا نہ ہو کہ لوگ میرے پاس اپنے اچھے اچھے اعمال لے کر آئیں اور تم میرے پاس اپنے انساب ( حسب نسب) لے کر آئو اور پھر میں تم میں سے کہہ دوں کہ میں اللہ کے سامنے تمہارے کسی کام نہیں آسکتا۔ نیز آپ نے فرمایا : جس شخص کو اس کا عمل سست کردے اسے اس کا نسب تیز نہیں کرسکتا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣٤) یہ ایک جماعت تھی جو گزر گئی اس نے جو نیکیاں کی ہیں وہ اس کے لیے خاص ہیں اور جو تم اچھے کام کرتے ہو وہ تمہارے لیے ہیں اور قیامت کے دن تم سے ان لوگوں کے اعمال اوراقوال کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٤ ( تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ ج) یہ آیت اس رکوع میں دو مرتبہ آئی ہے۔ یہ انسانوں کا ایک گروہ تھا جو گزر گیا۔ ابراہیم ‘ اسماعیل ‘ اسحاق ‘ یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی اولاد سب گزر چکے۔ (لَھَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ ج) یہاں پدرم سلطان بود کا دعویٰ کوئی مقام نہیں رکھتا۔ ہر شخص کے لیے اپنا ایمان ‘ اپنا عمل اور اپنی کمائی ہی کام آئے گی۔ (وَلاَ تُسْءَلُوْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) تم سے تو یہی پوچھا جائے گا کہ تم کیا کر کے لائے ہو ؟ تمہارا باپ سلطان ہوگا ‘ لیکن تم اپنی بات کرو کہ تم کیا ہو ؟ اس پس منظر میں اب یہود کی خباثت کو نمایاں کیا جا رہا ہے کہ ابراہیم اور یعقوب ( علیہ السلام) کی وصیت تو یہ تھی ‘ مگر اس وقت کے یہود و نصاریٰ کا کیا رویہ ہے۔ انہوں نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف متحدہ محاذ بنا رکھا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

134. What is being said here is that even though they might be their offspring in terms of blood - relationship they had, in fact, no true relationship with them. What right did they have to pretend to belong to them when they had departed far from their way? For God would not ask people what their forefathers did; it was rather about their own conduct and action that they would be questioned. ' Theirs is what they have earned ' is a characteristically Qur'anic expression. What we ordinarily characterize as either 'action' or 'doing' is termed by the Qur'an as 'earning'. The reason is that each and every human action has its ultimate effect, whether or not it is good, and will have its manifestation in God's approval or disapproval. It is this ultimate effect which is a man's earning. Since the Qur'an considers this to be of paramount importance, it characterizes man's actions as his 'earning'.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :134 یعنی اگرچہ تم ان کی اولاد سہی ، مگر حقیقت میں تمہیں ان سے کوئی واسطہ نہیں ۔ ان کا نام لینے کا تمہیں کیا حق ہے جبکہ تم ان کے طریقے سے پھر گئے ۔ اللہ کے ہاں تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے ، بلکہ یہ پوچھا جائے گا کہ تم خود کیا کرتے رہے ۔ اور یہ جو فرمایا کہ ”جو کچھ انہوں نے کمایا ، وہ ان کے لیے ہے اور جو کچھ تم کماؤ گے ، وہ تمہارے لیے ہے ، “ یہ قرآن کا خاص اندازِ بیان ہے ۔ ہم جس چیز کو فعل یا عمل کہتے ہیں ، قرآن اپنی زبان میں اسے کسب یا کمائی کہتا ہے ۔ ہمارا ہر عمل اپنا ایک اچھا یا بُرا نتیجہ رکھتا ہے ، جو خدا کی خوشنودی یا ناراضِ کی صورت میں ظاہر ہو گا ۔ وہی نتیجہ ہماری کمائی ہے ۔ چونکہ قرآن کی نگاہ میں اصل اہمیّت اسی نتیجے کی ہے ، اس لیے اکثر وہ ہمارے کاموں کو عمل وفعل کے الفاظ سے تعبیر کرنے کے بجائے ”کسب“ کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:134) تلک امۃ۔ اسم اشارہ بعید واحد مؤنث۔ اس کا اشارہ حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد کی طرف ہے۔ امۃ۔ جماعت۔ امت۔ ہر وہ جماعت جس میں کوئی رابطہ اشتراک موجود ہو اسے امت کہا جاتا ہے۔ خواہ یہ اتحاد مذہبی وحدت پر ہو یا جغرافیائی یا عصری وحدت کی وجہ سے ہو۔ ام یئم سے مشتق ہے جس کا معنی ہے قصد کرنا۔ امہ بمعنی مقصود ہوا۔ جماعت کو امت اس لئے کہنے لگے ۔ کہ جس طرح جماعت ہوتی ہے لوگ اسی کا قصد کرتے ہیں (مظہری) نیز ملاحظہ ہو 2:124 ۔ لفظ اماما کے محاذ۔ کسبت۔ ماضی واحد مؤنث غائب۔ اس نے کمایا۔ اچھا یا برا کوئی کام کیا۔ لہا۔ لکم۔ میں لام منفعت کے لئے ہے یعنی اس اچھے یا برے کام کی جزاوسزا اس کے کرنے والے کے لئے ہے۔ لاتسلون۔ مضارع منفی مجہول ۔ جمع مذکر حاضر، تم سوال نہیں کئے جاؤ گے۔ تم سے سوال نہیں ہوگا۔ تم سے پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی۔ عما۔ مرکب ہے عن حرف جار اور ما موصولہ سے۔ کانوا یعلمون۔ جملہ فعلیہ ہوکر صلہ ہے ما موصولہ کا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یہود کو تنبیہ کی ہے کہ وہ انبیا اور صلحاء کی طرف انتساب سے مغرور نہ ہوں یہ انتساب تمہارے کچھ کام نہیں آسکے گا بلکہ نجات کا مداد انسان کے خود اپنے اعمال پر ہے ان کے اعمال ان کے ساتھ گئے اور تمہارے اعمال تمہارے ساتھ ہوں گے سلسلہ بیان کے لیے دیکھئے آیت 141)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ہر شخص اپنا حساب خود دے گا ۔ ہر ایک کا اپنا راستہ ہے ، ہر ایک کا ایک عنوان ہے اور ہر کسی کی اپنی خصوصیات ہیں ۔ وہ ایک مومن جماعت تھی جس کا بعد میں آنے والے اس کے فاسق جانشینوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ بعد میں آنے والے ناخلف اور نالائقوں کا ان پاک بازوں سے کیا واسطہ ؟ وہ ایک علیحدہ جماعت تھے اور یہ ایک علیحدہ جماعت ہیں ۔ ان کا جھنڈا علیحدہ تھا اور ان کا جھنڈا جدا ہے ۔ ان کا تصور حیات ایک ایمانی تصور حیات تھا اور ان نالائقوں کا تصور حیات بالکل جاہل تصور ہے ۔ جاہلی تصور حیات میں ایک جماعت اور دوسری جماعت اور ایک دور ایک دوسرے دور میں فرق نہیں کیا جاتا کیونکہ اس کے تصور کے مطابق اگر دو معاشروں کے درمیان اگر خون اور نسب کا اتحاد ہے تو گویا دونوں معاشرے ایک ہی ہیں لیکن ایمانی تصورحیات میں ایک مومن معاشرے اور ایک فاسق معاشرے کے درمیان امتیاز ہوتا ہے۔ ان کے درمیان کوئی رشتہ داری نہیں ہوتی ۔ کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ یہ دونوں معاشرے ایک امت بن سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ دونوں علیحدہ امتیں ہیں ۔ اس لئے مومنین کی اقدار حیات کے مطابق بھی یہ دونوں مختلف اور متضاد ہیں ۔ اسلامی تصور حیات کے مطابق ایک امت صرف وہ ہوتی ہے ، جو صرف ایک نظریہ حیات اور عقیدہ پر ایمان رکھتی ہو ، چاہے جسمانی تعلق کے لحاظ اور رنگ نسل کے اعتبار سے اس کا تعلق مختلف علاقوں سے ہو۔ اسلامی جماعت کا تعلق کسی زمین کسی علاقے یا کسی رنگ ونسل سے نہیں ہوتا ، یہ وہ تصور حیات ہے جو شرف انسایت کے زیادہ مناسب ہے ۔ جس کی اساس بلند اور عالم بالا کی روحانیت پر ہے اور اس کی بنیاد خاکی اور سفلی تعلقات پر نہیں ہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دور کے تاریخی واقعات کے اس تفصیلی بیان کے ضمن میں مسلمانوں کے بیت الحرام اور کعبہ کی تاریخ کے بیان کے ضمن میں اور اسلامی نظام زندگی کی حقیقت اور موروثی تصورات کی حقیقت کے بیان کے ضمن میں ، اب قرآن کریم معاصر اہل کتاب کے بوگس دعوؤں کی طرف متوجہ ہوتا ہے ۔ اور ان کے غلط۔ خیالات ، بےبنیاد دلائل اور غیر معقول مباحث کی تردید کرتا ہے ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سب تصورات دلائل کے اعتبار سے اور بحث وجدال کے میدان میں پائے چوبین ہیں ۔ اور محض ضد ، عناد پر مبنی ہیں اور ان کے ان مزعومات کے حق میں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ۔ یوں قرآن مجید یہ ثابت کرتا ہے کہ اسلامی نظریات و عقائد دراصل معقول اور فطری عقائد ہیں ۔ اور ان سے انحراف صرف وہ شخص کرسکتا ہے جو صرف ضدی اور معاند ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہودیوں کے اس غرور کا جواب کہ ہم نبیوں کی اولاد ہیں یہودیوں کو اس بات پر غرور تھا اور اب بھی ہے کہ ہم نبیوں کی اولاد ہیں اور ان کے نسل اور نسب میں ہونے کی وجہ سے ہم عذاب سے بچ جائیں گے۔ اس آیت میں صاف صاف اس بات کی تصریح فرما دی کہ وہ حضرات اپنے اپنے عقائد اور اعمال لے کر دنیا سے چلے گئے انہوں نے جو کچھ کیا وہ ان کے ساتھ ہے ان کے اعمال صالحہ ان کے کام آئیں گے اور تم نے جو کچھ کیا وہ تمہارے ساتھ ہے ان کے اعمال میں سے کوئی حصہ تمہیں نہ ملے گا۔ دوسروں کے اعمال کی وجہ سے خواہ مخواہ آس لگائے بیٹھے ہو جبکہ یہ آس اور امید قانون خداوندی کے خلاف ہے، تم اپنے عقائد اور اعمال اور کفر و ایمان کو دیکھو تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ ملے گا۔ حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرتے ہو انجیل اور قرآن کو نہیں مانتے پھر بھی نجات کی امید لگائے ہوئے ہو۔ یہ بہت بڑی جہالت ہے وہ حضرات سابقین جن سے تم انتساب رکھتے ہو ان کے اعمال کی تم سے پوچھ تک نہ ہوگی اور نہ ان کا ذکر تمہارے سامنے آئے گا ان کے اعمال کا تمہیں نفع پہنچنا تو دور کی بات ہے۔ امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والتحیۃ میں بھی بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو سید زادے، پیر زادے ہونے پر گھمنڈ کیے ہوئے ہیں تارک فرائض ہیں۔ مرتکب منہیات و محرمات ہیں۔ بڑے بڑے گناہوں میں مبتلا ہیں لیکن وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ہم کسی کی نسل اور نسب میں ہونے کی وجہ سے بخش دیئے جائیں گے اور بہت سے جعلی جھوٹے دنیا دار پیروں نے اپنے عوام کو یہ دھوکہ دے رکھا ہے کہ تم ہمارے جھنڈے کے نیچے ہو گے جس نے ہم سے بیعت کرلی بس وہ بخشا بخشایا ہے یہ سب فریب ہے گمراہی ہے۔ قرآن و حدیث کی تصریحات کے خلاف ہے۔ (صحیح بخاری ص ٧٠٢ ج ٢) میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوہ صفا پر چڑھ کر قریش کو اور اپنے اعزہ و اقربا کو پکارا۔ سب کو حق کی دعوت دی اور عمومی اور خصوصی خطاب فرمایا اس خطاب میں یہ بھی تھا کہ اے عباس بن عبدالمطلب میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا، اور اے صفیہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپھی میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا اور اے فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے مال سے جو چاہو سوال کرو میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ مطلب یہ ہے کہ اپنا دین و ایمان اور عمل صالح اللہ کے ہاں کام آئے گا۔ جو مومن نہ ہوگا اس کو میری رشتہ داری کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی رشتہ داری کے بارے میں ایسا فرما دیا تو دوسروں کی کیا مجال ہے کہ وہ نسب کی بنیاد پر بخشے جانے کی امید رکھیں۔ صحیح مسلم میں ہے کہ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : من بطأبہ عملہ لم یسرع بہٖ نسبہ۔ یعنی جس کا عمل دیر لگائے گا اس کا نسب جلدی کر کے آگے نہیں بڑھا دے گا۔ (ص ٣٤٥)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

255 تِلْکَ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کی طرف اشارہ ہے۔ یہود ونصاریٰ اور مشرکین کو اپنے بزرگوں پر ناز تھا اور وہ اپنی صاحبزادگی کے غرور میں مسرور تھے اور کہتے تھے کہ اچھا اگر ہم بدکار ہیں تو کیا ہوا ہمارے آباء و اجداد تو نیک اور توحید پرست تھے جب وہ جنت میں جائیں گے تو ہم بھی ان کے طفیل بخش دئیے جائیں گے اور ہمیں بھی جنت میں جگہ مل جائے گی تو اللہ تعالیٰ نے اس کا غرور شکن جواب دیا کہ وہ جماعت تو گذر چکی اور ان کے کمالات بھی ان کے ساتھ ہی گئے۔ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ ۔ ان کا کیا ان کے آگے آئے گا اور تمہارا کیا تمہارے آگے۔ لہذا دل سے یہ بات نکال ڈالو کہ ان کے نیک اعمال کی بدولت تم بھی جنت میں چلے جآگے۔ محض اس انتساب سے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ البتہ ان جیسے اعمال کروگے تو اس سے یقیناً نفع پاؤگے۔ بعینہ یہی حال آج کل کے بعض گدی نشینوں کا ہے کہ وہ اپنے مریدوں کے سامنے فخر کرتے ہیں اور ناز سے کہتے ہیں کہ ہمارے آباء و اجداد بہت نیک اور اللہ کے پیارے تھے۔ وَلَا تُسْـــَٔــلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ۔ اور تم سے ان کے اعمال کا حساب نہیں مانگا جائے گا۔ بلکہ تم سے تمہارے اپنے اعمال کی پرسش ہوگی۔ توحید و رسالت کو دلائل سے مدلل اور واضح کرنے کے بعد یہود ونصاریٰ کے بعض غلط نظریات کی تردید کی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اور وہ ابراہیم (علیہ السلام) اسی بات کی اپنے بیٹوں کو وصیت فرما گئے اور حکم دے گئے اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) بھی اپنے بیٹوں کو یہی حکم دے گئے اور وہ حکم یہ تھا کہ اے میرے بیٹو ! اللہ نے اس دین اسلام کو تمہارے لئے منتخب فرمایا ہے لہٰذا تم مرتے دم تک اس پر قائم رہنا اور تم بجز اسلام کے اور کسی حالت میں نہ مرنا کیا جب حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی موت کا وقت قریب آیا تو تم خود وہاں موجود تھے جبکہ اس نے اپنے بیٹوں سے یہ دریافت کیا کہ تم میرے مرنے کے بعد کس کی پرستش کرو گے تو ان سب نے جواب دیا کہ ہم اس کی پرستش و عبادت کریں گے جو آپ کا اور آپ کے باپ دادا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) اور اسحق (علیہ السلام) کا معبود ہے آپ اور آپ کے بڑے جس معبود برحق کی عبادت کرتے رہے ہیں اسی کی ہم عبادت کرتے رہیں گے وہی معبود برحق جو یکتا اور وحدہ لا شریک ہے اور ہم اس کے مطیع و فرمانبردار رہیں گے۔ وہ ایک جماعت تھی جو اپنے زمانے میں گذر چکی جو کچھ انہوں نے کمایا اور کسب کیا وہ ان کے کام آئے گا اور جو کچھ تم کمائو گے اور کسب کرو گے وہ تمہارے کام آئیگا اور ابن کے اعمال کی تم سے کوئی باز پرس اور پوچھ کھ نہ کی جائیگی۔ (تیسیر) وصیت کسی اچھی چیز اور کسی بھلے کام کی خواہ وہ دینی ہو یا دنیوی ہو آگے بڑھانے اور دوسرے تک پہنچانے کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ مشرکین عرب اور یہود و نصاری جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نام تو احترام کے ساتھ لیتے تھے اور ان کی تعریف بھی بہت کرتے تھے مگر اس کے ساتھ ہی ان کو یہودی یا نصرانی یا مشرک کہتے تھے۔ ان سب لوگوں کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عقائد و اعمال سے آگاہ فرمایا اور یہ بتایا کہ تم لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق جو کہتے ہو انکی وصیت اور ان کے اعمال اور ان کے اقوال تمہارے دعوے کے خلاف ہیں۔ چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو جو حکم دیا اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے بھی جو حکم دیا وہ تو یہ تھا کہ اسلام پر قائم رہنا اور اسلام ہی پر مرنا کیونکہ یہی دین اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے پسند فرمایا ہے اور بنی اسرائیل حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی طرف چونکہ خاص طورپر نسبت کرتے تھے کہ وہ تو مرتے وقت اپنی اولاد کو یہودی اور نصرانی رہنے کا حکم دے گئے تھے اس لئے فرمایا کہ تمہارے اس دعوے پر یا تو کوئی صحیح نقل اور معتبر روایت ہو یا تم نے خود ان سے مرتے وقت یہ حکم اور یہوصیت سنی ہو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی موت کے وقت جو صحیح معاملہ پیش آیا تھا اس کو بیان فرمایا کہ اس نے تو جب اپنے بیٹوں سے دریافت کیا تو انہوں نے یہ جواب دیا کہ ہم تو آپ کے اور آپکے بڑوں کی توحید پر قائم رہیں گے اور باپ دادوں کے ذکر میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا نام بھی لیا یہ اس لئے کہ چچا بھی باپ کے قائم مقام ہوتا ہے جیسے خالہ بمنزلہ ماں کے ہوتی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنے چچا حضرت عباس (رض) کے متعلق یہ قول مشہور ہے کہ اکرمو العباس فانہ بقیہ ابائی یا عمر اما شعرت ان عم الرجل منوابیہ۔ ( (متفق علیہ) یعنی عباس (رض) کا ادب و احترام کیا کرو وہ میرے باپ دادوں میں سے باقی رہ گیا ہے بہر حال جب یہ معلوم ہوگئی کہ بنی اسرائیل کے پاس نہ کوئی صحیح نقل ہے اور نہ اپنامشاہدہ ہے تو معلوم ہوا کہ ان کا دعویٰ غلط اور بےبنیاد ہے اور یہ لوگ ان بزرگوں کے ہم عقیدہ اور ہم مذہب نہیں ہیں اور ان کا نام لینا ان بزرگوں کی اولاد ہونا یان کی محبت کا دعویٰ کرنا ان کے حق میں کچھ مفید اور نافع نہ ہوگا اس لئے فرمایا کہ تم سے تو ان کا کوئی ذکر بھی نہیں کیا جائیگا نہ تم سے ان کے اعمال و افعال وغیرہ کی کوئی باز پرس ہوگی تو ایسی حالت میں تمہارے محض دعویٰ سے تم کو کیا نفع پہونچ سکتا ہے۔ ہاں ! اگر ان کے نام لیوا اور ان کی اولاد ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی اتباع بھی کرتے اور انکی محبت کے دعویٰ کے ساتھ ان کے مسلک اور ان کے دین پر بھی چلتے اور ان کی صحیح اطاعت کرتے تو بیشک ان حضرا ت کی نسبت تمہارے لئے مفید اور نفع ہوتی ام کنتم کا خطاب ہوسکتا ہے کہ یہود کو ہو اور ہوسکتا ہے کہ نصاریٰ کو ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں کو ہو۔ واللہ اعلم۔ اب آگے ان کی یہودیت اور نصرانیت کی تبلیغ اور دعوت کا رد فرماتے ہیں (تسہیل)