Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 176

سورة البقرة

ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ نَزَّلَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِی الۡکِتٰبِ لَفِیۡ شِقَاقٍۭ بَعِیۡدٍ ﴿۱۷۶﴾٪  5 الرّبع

That is [deserved by them] because Allah has sent down the Book in truth. And indeed, those who differ over the Book are in extreme dissension.

ان عذابوں کا باعث یہی ہے کہ اللہ تعالٰی نے سچی کتاب اتاری اور اس کتاب میں اختلاف کرنے والے یقینًا دور کے خلاف میں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ذَلِكَ بِأَنَّ اللّهَ نَزَّلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ ... That is because Allah has sent down the Book (the Qur'an) in truth. means, they deserve this painful torment because Allah has revealed Books to His Messenger Muhammad, and the Prophets before him, and these revelations bring about truth and expose falsehood. Yet, they took Allah's signs for mockery. Their Books ordered them to announce the truth and to spread the knowledge, but instead, they defied the knowledge and rejected it. This Final Messenger ـ Muhammad ـ called them to Allah, commanded them to work righteousness and forbade them from committing evil. Yet, they rejected, denied and defied him and hid the truth that they knew about him. They, thus, mocked the Ayat that Allah revealed to His Messengers, and this is why they deserved the torment and the punishment. This is why Allah said here: ذَلِكَ بِأَنَّ اللّهَ نَزَّلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُواْ فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ That is because Allah has sent down the Book (the Qur'an) in truth. And verily, those who disputed about the Book are far away in opposition.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢٠] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک بہت بڑی حقیقت سے مطلع فرمایا ہے جو یہ ہے کہ جو لوگ اختلاف کرتے ہیں اور مختلف فرقوں میں بٹ جاتے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ حق ان پر مشتبہ ہوجاتا ہے بلکہ اس کی اصل وجہ ان کی باہمی ضد ہوتی ہے جس میں وہ دور تک چلے جاتے ہیں۔ چناچہ آپ خود ملاحظہ فرما لیجئے کہ اسلام میں جتنے فرقے پیدا ہوئے ہیں۔ سب اپنے حق میں کتاب و سنت سے ہی استدلال کرتے ہیں۔ یہ استدلال عموماً غلط ہوتا ہے اور کبھی صحیح بھی ہوتا ہے مگر استدلال کے اختلاف میں رواداری کے بجائے جب ضد پیدا ہوجائے اور استدلال کرنے والا اپنی بات پر اڑ جائے تو یہیں سے نئے فرقہ کی ابتدا شروع ہوجاتی ہے۔ جس کے لیے قرآن کریم میں بیشمار مقامات پر سخت وعید آئی ہے۔ واضح رہے کہ ہر گمراہ فرقے کی بنیاد یا تو کسی شرکیہ عقیدہ اور عمل پر استوار ہوتی ہے اور یا کسی بدعی عقیدہ و عمل پر۔ پھر اپنے اس بدعی عقیدہ کو کھینچ تان کر کتاب و سنت سے درست یا جائز ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جو شخص بدعی عقیدہ یا عمل رائج کرنا چاہتا ہے۔ اسے کوئی نہ کوئی روکنے اور ٹوکنے والا بھی ہوتا ہے۔ لیکن بدعی عقیدہ کا موجد اور اس کے متبعین کے لیے حق کو ماننے کے بجائے انا اور ضد کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس طرح ایک نیا فرقہ وجود میں آجاتا ہے اور اس حقیقت کو قرآن مجید نے چار مختلف مقامات پر ذکر کیا ہے۔ اور اس کی وجہ یہی (بَغْیًا بَیْنَھُمْ ٢١٣۔ ) 2 ۔ البقرة :213) ہی بتلائی ہے۔ یعنی اس کی وجہ یہ ہرگز نہیں ہوتی کہ کتاب و سنت میں اس کا واضح حل موجود نہیں ہوتا۔ (نیز دیکھئے اسی سورة کا حاشیہ نمبر ٢٨٢)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ نَزَّلَ الْكِتٰبَ بِالْحَـقِّ۝ ٠ ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِي الْكِتٰبِ لَفِيْ شِقَاقٍؚ بَعِيْدٍ۝ ١٧٦ ۧ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ الاختلافُ والمخالفة والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ شقاق والشِّقَاقُ : المخالفة، وکونک في شِقٍّ غير شِقِ صاحبک، أو مَن : شَقَّ العصا بينک وبینه . قال تعالی: وَإِنْ خِفْتُمْ شِقاقَ بَيْنِهِما[ النساء/ 35] ، فَإِنَّما هُمْ فِي شِقاقٍ [ البقرة/ 137] ، أي : مخالفة، لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي [هود/ 89] ، وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتابِ لَفِي شِقاقٍ بَعِيدٍ [ البقرة/ 176] ، مَنْ يُشاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ الأنفال/ 13] ، أي : صار في شقّ غير شقّ أولیائه، نحو : مَنْ يُحادِدِ اللَّهَ [ التوبة/ 63] ، ونحوه : وَمَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ [ النساء/ 115] ، ويقال : المال بينهما شقّ الشّعرة، وشَقَّ الإبلمة ، أي : مقسوم کقسمتهما، وفلان شِقُّ نفسي، وشَقِيقُ نفسي، أي : كأنه شقّ منّي لمشابهة بعضنا بعضا، وشَقَائِقُ النّعمان : نبت معروف . وشَقِيقَةُ الرّمل : ما يُشَقَّقُ ، والشَّقْشَقَةُ : لهاة البعیر لما فيه من الشّقّ ، وبیده شُقُوقٌ ، وبحافر الدّابّة شِقَاقٌ ، وفرس أَشَقُّ : إذا مال إلى أحد شِقَّيْهِ ، والشُّقَّةُ في الأصل نصف ثوب وإن کان قد يسمّى الثّوب کما هو شُقَّةً. ( ش ق ق ) الشق الشقاق ( مفاعلہ ) کے معنی مخالفت کے ہیں گویا ہر فریق جانب مخالف کو اختیار کرلیتا ہے ۔ اور یا یہ شق العصابینک وبینہ کے محاورہ سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی باہم افتراق پیدا کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِنْ خِفْتُمْ شِقاقَ بَيْنِهِما[ النساء/ 35] اگر تم کو معلوم ہو کہ میاں بیوی میں ان بن ہے ۔ فَإِنَّما هُمْ فِي شِقاقٍ [ البقرة/ 137] تو وہ تمہارے مخالف ہیں ۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي [هود/ 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کام نہ کرادے ۔ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتابِ لَفِي شِقاقٍ بَعِيدٍ [ البقرة/ 176] وہ ضد میں ( آکر نیگی سے ) دور ہوگئے ) ہیں ۔ مَنْ يُشاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ الأنفال/ 13] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے ۔ یعنی اس کے اولیاء کی صف کو چھوڑ کر ان کے مخالفین کے ساتھ مل جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : مَنْ يُحادِدِ اللَّهَ [ التوبة/ 63] یعنی جو شخص خدا اور رسول کا مقابلہ کرتا ہے ۔ وَمَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ [ النساء/ 115] اور جو شخص پیغمبر کی مخالفت کرے ۔ المال بیننا شق الشعرۃ اوشق الابلمۃ یعنی مال ہمارے درمیان برابر برابر ہے ۔ فلان شق نفسی اوشقیق نفسی یعنی وہ میرا بھائی ہے میرے ساتھ اسے گونہ مشابہت ہے ۔ شقائق النعمان گل لالہ یا اس کا پودا ۔ شقیقۃ الرمل ریت کا ٹکڑا ۔ الشقشقۃ اونٹ کا ریہ جو مستی کے وقت باہر نکالتا ہے اس میں چونکہ شگاف ہوتا ہے ۔ اس لئے اسے شقثقۃ کہتے ہیں ۔ بیدہ شقوق اس کے ہاتھ میں شگاف پڑگئے ہیں شقاق سم کا شگاف فوس اشق راستہ سے ایک جانب مائل ہوکر چلنے والا گھوڑا ۔ الشقۃ اصل میں کپڑے کے نصف حصہ کو کہتے ہیں ۔ اور مطلق کپڑے کو بھی شقۃ کہا جاتا ہے ۔ بعد البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء/ 167] ( ب ع د ) البعد کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧٦) یہ عذاب اس وجہ سے ہے کہ جبریل (علیہ السلام) اس کے ذریعہ سے قرآن کریم اور توریت کو حق اور باطل کو بیان کرنے کے لئے اتارا گیا، انہوں نے اس کا انکار کردیا۔ اور رسول اللہ اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جو اوصاف اور صفات توریت میں آئے تھے، اس کے اندر انہوں نے اختلاف کیا اور ان کو چھپایا یہ حق اور ہدایت سے بہت ہی دور جاپڑے ہوئے ہیں،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧٦ (ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ نَزَّلَ الْکِتٰبَ بالْحَقِّ ط) (وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِی الْْکِتٰبِ لَفِیْ شِقَاقٍم بَعِیْدٍ ) جن لوگوں نے اللہ کی کتاب اور شریعت میں اختلاف کی پگڈنڈیاں نکالیں وہ ضد ‘ ہٹ دھرمی ‘ شقاوت اور دشمنی میں مبتلا ہوگئے اور اس میں بہت دور نکل گئے۔ اعاذنَا اللّٰہ مِنْ ذٰلِکَ !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

ذلک۔ ای محبوع ما ذکر من اکل النار وعدم التکلیم والتزکیۃ والعذاب المرتب علی الکتمان ما انزل اللہ من الکتاب۔ یعنی ان کا اپنے پیٹوں کو دوزخ کی آگ سے بھرنا۔ خداوند کریم کا ناراضگی سے ان سے کلام تک نہ کرنا۔ اور نہ ہی ان کے گناہوں کی مغفرت کرکے ان کو پاک کرنا ۔ اور دردناک عذاب میں مبتلا کرنا سب ہی اس میں شامل ہیں۔ ذلک بان اللہ نزل الکتاب بالحق میں ب سببیہ ہے۔ ای ذلک العذاب ان بسبب ان اللہ نزل الکتب بالحق فرفضوہ بالتکذیب۔ یہ عذاب ان پر بدیں سبب نازل ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے تو کتاب کو حق کے ساتھ نازل کیا مگر انہوں نے اس کی تکذیب کرتے ہوئے اس کو چھوڑ دیا۔ الکتب سے مراد تو راۃ بھی ہوسکتی ہے اور القرآن بھی ۔ یا مطلق کتاب مراد ہے کہ جو توراۃ و قرآن و دیگر کتب سماویہ کو شامل ہے۔ فی الکتب میں الکتب میں الف لام یا تو جنس کا ہے اور اختلاف کے معنی یہ ہیں کہ کتاب کے بعض حصے پر تو ایمان لائے اور بعض کے ساتھ کفر کیا۔ یا الف لام عہد کا ہے۔ اور اس صورت میں اشارہ یا تو توراۃ کی جانب ہے اور یا القرآن کی طرف۔ لفی میں لام تاکید کا ہے۔ شقاق بعید موصوف، صفت، الشق شگاف کو کہتے ہیں۔ پھاڑ کر برابر دو ٹکڑوں میں کرنا۔ شققتہ بنصفین میں نے اسے برابر دو ٹکڑوں میں کاٹ ڈالا۔ چیرنا، پھاڑنا۔ جیسے ثم شققنا الارض شقا (80: 26) پھر ہم نے زمین کو چیرا پھاڑا۔ (باب انفعال) انشقاق لازم آتا ہے۔ اذالسماء الشقت (84:1) جب آسمان پھٹ جائے گا۔ باب فعال سے الشقاق اور باب مفاعلۃ سے مشاقۃ بمعنی مخالفت کرنا دشمنی کرنا ہے اس صورت میں شقاق بمعنی مخالفت ، باہم دشمنی، مقابلہ، باہم ضد بازی ہے۔ جملہ کا مطلب ہوگا کہ : وہ ضد میں آکر (نیکی سے) دور ہوگئے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے مخالفت میں دور نکل گئے ہیں ان کی باہمی مخالفت و عناد کا پاٹ طویل ہوگیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ آیات آئندہ میں کہ بقیہ نصف بقرہ ہے۔ زیادہ مقصود مسلمانوں کو بعض اصول و فروع کی تعلیم کرنا ہے گوضمنا غیر مسلمین کو کوئی خطاب ہوجائے اور یہ مضمون ختم سورت تک چلا گیا ہے جس کو شروع کیا گیا ہے ایک مجمل عنوان برّ سے جو کہ تمام طاعات ظاہری و باطنی کو عام ہے اور اول آیات میں الفاظ جامعہ سے ایک کلی تعلیم کی گئی ہے آگے اس بر کی تفصیل چلی ہے جس میں بہت سے احکام باقتضائے وقت ومقام بقدر ضرورت بیان فرما کر بشارت وعدہ رحمت و مغفرت پر ختم فرمادیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انہوں نے سخت گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا ہے اور یہ اس کی پوری سزا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے تو کتاب اس لئے بھیجی تھی کہ اسے لوگوں تک پہنچایا جائے ، اسے زمین پر نافذ کیا جائے ۔ اور وہ ان کا قانون ہو ، ان کا نظام زندگی ہو ، لیکن ان ظالموں نے اس کو چھپالیا ۔ اسے چھپا کر میدان عمل سے خارج کردیا ۔ حالانکہ وہ ایک ایسی سچائی تھی جس پر عمل کرنے کی غرض سے بھیجا گیا تھا۔ ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ نَزَّلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ ” یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ نے تو ٹھیک حق کے مطابق کتاب نازل کی تھی ۔ “ اور جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئے وہ ہدایت پر آگئے ، حق کے ساتھی بن گئے ، ان لوگوں کے ٹولے میں آگئے جو حق کے راہ یاب تھے ۔ انہوں نے فطرت کائنات کا ساتھ دیا اور فطرت کے حقیقی اصولوں پر آگئے ۔ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ ” مگر جن لوگوں نے کتاب میں اختلاف نکالے وہ اپنے جھگڑوں میں حق سے بہت دور نکل گئے۔ “ ایسے لوگ حق سے دور جاچکے ہیں ۔ وہ اصول فطرت سے بھی ٹکراتے ہیں ۔ وہ خود ایک دوسرے سے بلکہ خود اپنے نفس سے بھی ٹکراتے ہیں ۔ وہ اس طرح تھے اور اسی طرح رہیں گے ۔ یہی حال ہوگا ہر اس امت کا جو کتاب اللہ میں جھگڑے ڈالتی ہے ۔ کتاب الٰہی کو پورے طور قبول نہیں کرتی ۔ بلکہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتی ہے ۔ ہر دور اور ہر زمانے میں ، ہر امت اور ہر قوم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہی سلوک ہے ۔ جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں ، اس آیت کا مصداق ہمیں اچھی طرح نظر آرہا ہے ۔ سب سے آخر میں ایک اور صرف ایک آیت میں ایمانی تصور زندگی کے تمام اصول رکھ دیئے جاتے ہیں ۔ ایمانی طرز عمل کا معیار بیان کردیا جاتا ہے اور بتادیا جاتا ہے کہ قرآن کی رو سے نیک لوگوں کی صفات کیا ہیں ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

320 ذٰلِکَ سے مذکورہ عذاب کی طرف اشارہ ہے اور بان۔ لیستیقنوا محذوف کے متعلق ہے جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے ذٰلِکَ بِاَنَّ اللہ ھُوَ الْحَقُّ (حج ع 1) ای لتستیقنوا بان اللہ الخ اور ایک جگہ فرمایا۔ ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ شَاقُّوْا اللہ وَرَسُوْلَہ (انفال ع 2) اور اَلْکِتَاب سے جنس کتاب مراد ہے۔ الکتب جنس ہے۔ الحق سے مراد سچائی یا دلیل اور حجت ہے۔ بالحق ای بالصدق وقیل بالحجۃ (قرطبی ص 237 ج 2) اور بالحق میں با بمعنی لام ہے اور اس کے بعد مضاف محذوف ہے ای لاظہار الحق (مدارک) یعنی یہ عذاب اس لیے دیا جائے گا تاکہ ان کو یقین ہوجائے کہ اللہ نے ان پر اظہار حق کے للیے کتاب نازل فرمائی جس میں نیازات غیر اللہ کی حرمت کا بیان تھا مگر وہ باز نہ آئے کیونکہ وہ محض ضدی اور معاند تھے۔ 321 اب جن لوگوں نے ہماری کتابوں میں اختلاف پیدا کیا ہے اور ان کے تمام احکام کو قبول کرنے میں تامل کیا ہے ان لوگوں کے پاس نہ کوئی صحیح دلیل ہے اور نہ کوئی معقول عذر۔ انہوں نے محض شدید مخالفت کی بنا پر ایسا کیا ہے اور یہ مخالفت قبول حق سے بہت دور ہے اور ضد وعناد کی حد تک پہنچی ہوئی ہے تو جو لوگ محض ضد وعناد کی وجہ سے حق کو چھپائیں اور گمراہی کی راہ اختیار کریں۔ ان کی یہی سزا ہے۔ چناچہ یہودی علماء اور ان کے پیر جو اچھی طرح جانتے ہیں کہ نذر غیر اللہ کی حرمت ان کی تورات میں موجود ہے مگر اس کے باوجود وہ اس کو چھپاتے ہیں وہ محض ضد اور عناد کی بنا پر ایسا کر رہے ہیں اور اسی وجہ سے وہ اس عذاب شدید کے مستحق ٹھہرائے گئے ہیں۔ یہی حال بعض موجودہ پیروں اور گدی نشینوں کا ہے جو محض ضد وعناد کی وجہ سے گمراہ ہورہے ہیں۔ یہاں فرمایا کہ جنہوں نے اختلاف کیا ہے۔ انہوں نے محض ضدوعناد کی وجہ سے اختلاف کیا ہے اور دوسری جگہ فرمایا کہ اختلاف صرف بڑے بڑے عالموں اور پیروں نے کیا ہے۔ وَمَا اخْتَلَفَ فِيْهِ اِلَّا الَّذِيْنَ اُوْتُوْهُ ۔ (بقرہ :213) اور ایک اور جگہ فرمایا کہ ان علماء اہل کتاب نے اختلاف جان بوجھ کر کیا وَمَا اخْتَلَفَ فِيْهِ اِلَّا الَّذِيْنَ اُوْتُوْهُ مِنْ بَعْدِ مَاجَاءَھُمُ الْعِلْمُ (آل عمران ع 2)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 بلاشبہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب کے احکام چھپاتے ہیں اور اس کتمان احکام کے معاوضہ میں لوگوں سے ثمن قلیل اور معمولی اجرت وصول کرتے ہیں تو ان لوگوں کی حالت سوائے اس کے کچھ نہیں کہ وہ اپنے پیٹوں میں صرف آگ کے انگارے بھر رہے ہیں اور قیامت میں اللہ تعالیٰ ان سے نہ رخ دے کر بات کرے گا اور نہ ان کو گناہوں کی آلودگی سے پاک کرے گا اور ان کو درد ناک عذاب ہوگا۔ یہ احکام الٰہی میں خیانت کرنے والے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کو چھوڑ کر اس کی جگہ گمراہی اور مغفرت کو نظر انداز کرکے اس کی جگہ عذاب قبول کرلیا۔ تعجب ہے کہ ان لوگوں کو دوزخ کے عذاب کی کیسی برداشت ہے اور یہ آگ کی کیسے سہار کرنے والے ہیں ان کے لئے جس عذاب کا ذکر کیا گیا ہے اس عذا ب کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو کتاب کو صحیح مضامین و احکام کے ساتھ نازل کیا تھا اور جو لوگ ایسی ٹھیک اور صحیح نازل کی ہوئی کتاب میں اختلاف ڈالیں اور کج روی اختیار کریں تو یقینا وہ ایک ایسی ضد اور مخالفت میں مبتلا ہیں جو راہ حق سے بہت دور ہے۔ (تیسیر) کتاب سے مراد نوریت ہے اور اگر عام رکھاجائے تو ہر آسمانی کتاب مراد ہوگی یعنی جو لوگ آسمانی کتاب کے احکام کو دنیاوی نفع حاصل کرنی کی غرض سے چھپائیں۔ ان کی سزا یہ ہے ثمن قلیل کا استعمال مقابلہ کی وجہ سے کیا ہے ورنہ حقیقی خریدو فروخت نہیں ہے۔ دنیاوی فائدہ خواہ کتنا ہی زیادہ ہو وہ قلیل ہی ہے امر حق کو چھپا کر جو فائدہ حاصل کیا جائے اس کی ظاہری صورت کچھ بھی ہو لیکن اس کا کھانا ایسا ہے جیسے کوئی آگ سے پیٹ بھرے۔ حرام کے ذریعہ سے جو چیز حاصل کی جائے اس کا نتیجہ چونکہ عذاب کی شکل میں ظاہر ہوگا اس لئے وہ حرام کا مال آگ کے انگارے ہیں۔ قیامت میں اللہ تعالیٰ کے کلام نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مہربانی اور تلطف کے ساتھ کلام نہیں کرے گا اور نہ انکے گناہ معاف فرما کر ان کو گناہوں کی نجاست سے پاک کرے گا ہدایت و گمراہی اور عذاب و مغفرت میں چونکہ حقیقی بیع و شرا اور لین دین نہیں ہے اس لئے ہم نے ترجمہ میں اس کا لحاظ رکھا ہے کیونکہ مطلب یہ ہے کہ ہدایت قبول کرنی کی استعداد کو برباد کردیا اور گمراہی کی استعداد کو بڑھایا یہ تو دنیا میں کیا اور آخرت میں مغفرت سے محروم رہے اور مغفرت کی بجائے عذاب پلے بندھا اور یہ جانتے ہوئے کہ ہماری اس گمراہی کی جزا دوزخ کی آگ ہوگی پھر گمراہی پر اصرار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دوزخ کی آگ پر بڑے ہی صابر ہیں اسکو تعجب کے الفاظ سے ادا فرمایا کہ ان کی ہمت دیکھو اور دوزخ کی آگ برداشت کرنے کو دیکھو کہ کیسے اس پر آمادہ ہیں اور آگ کی سہار پر کیسے جری ہیں اور یہ واقعہ ہے کہ جو لوگ ایسی کتاب میں جو حق ہو اور منزل من اللہ ہو اس کے احکام کو بدلیں یا چھپائیں تو وہ سخت ضد اور ہٹ دھرمی میں مبتلا ہیں۔ شقاق کو ہم پہلے پارے میں بتا چکے ہیں کہ یہ شق سے مشتق ہے جس کے معنی پہلو کے ہیں چونکہ مخالف پہلو پھر کے بیٹھتا ہے اس لئے اب اس کے معنی ضد اور خلاف وغیرہ سے کئے جاتے ہیں اس آیت میں شقاق کے ساتھ بعید کی قید بھی لگائی تاکہ معلوم ہو کہ ان کی ضد اور ان کا شقاق راہ حق سے بہت دور ہے اور اسی وجہ سے یہ دین حق کے قریب نہیں آسکتے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہود نے اپنی کتاب میں سے پیغمبر آخر الزماں کی صفت چھپا ڈالی اور بہت آیتوں کے معنی بدل ڈالے غرض دنیا کے واسطے۔ (موضح القرآن) اب تک جو کچھ ذکر ہوا اس کا تعلق بڑی حد تک منکرین حق کے اعتراضات اور ان کے جوابات کے ساتھ تھا اور اسی سلسلے میں توحید و رسالت کا اثبات اور قرآن کریم کی حقانیت اور دین حق کے منکرین کا انجام وغیرہ مذکور تھا۔ درمیان میں قبلہ کی بحث آگئی اب آگے یہود کے ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے نیک اعمال کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور جس طرح اب تک روئے سخن منکروں کی جانب تھا اور کہیں کہیں مسلمانوں سے خطاب ہوجاتا تھا اسی طرح اب آخر سورت تک روئے سخن مسلمانوں کے ساتھ ہے اور درمیان میں کہیں کہیں کافروں کا ذکر بھی آجائیگا اور چونکہ بر یعنی بھلائی اور نیکی کی تفصیل میں جملہ اعتقادات اور معاملات کو دخل ہے خواہ وہ دینوی معاملات ہوں یا دینی اس لئے ان سب کا ذکر ہے مثلاً اعتقادات میں اللہ پر ایمان لانا اور قیامت پر ایمان رکھنا اور فرشتوں پر ایمان لانا وغیرہ اور احکام و معاملات میں ایفائے عہد نکاح، جہاد، قصاص، وصیت، صیام، حج، انفاق فی سبیل اللہ، حیض، ایلائ، طلاق، رضاعت، عدت، مہر، بیع وشرائ، سود کا لین دین، قرض اور رہن اور شہادت اور دستاویز کی کتابت وغیرہ یہ سب چیزیں بر میں داخل ہیں تو گویا باقی سور ت میں لفظ بر کی تشریح و تفصیل کا بیان ہے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت بخشش اور نصرت اور کفار کے مقابلے میں فتح کی دعا پر سورت کو ختم کیا گیا ہے ، یہود جب اپنے متعلق عذاب کا ذکر سنتے تو کہتے ہم جہنم میں کس طرح جاسکتے ہیں ہم میں تو بہت سی باتیں مغفرت کی موجود ہیں اور سب سے بڑی نیکی تو ہم میں یہی ہے کہ جس قبلہ کی طرف ہم کو منہ کرنے کا حکم ہوا ہے اسی طرف منہ کرکے اپنی عبادت کرتے ہیں یہ بھلائی کیا کم ہے یہی ہماری مغفرت اور بخشش کیلئے کافی ہے اس کا جواب فرمایا اور جواب کے ساتھ لفظ بر کی تفصیل شروع کدی اور چونکہ اعمال کو بجا لانے اور نیک باتوں پر عمل کرنے اور احکام شریعت کی تعمیل کرنے کے صرف مسلمان ہی اہل ہیں اس لئے ان کی ہی جانب روئے سخن ہے اور یہ کہ ضمنات کہیں کہیں منکرین حق کا ذکر بھی آگیا ہے۔ (تسہیل)