Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 215

سورة البقرة

یَسۡئَلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ ؕ قُلۡ مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ فَلِلۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ ابۡنِ‌السَّبِیۡلِ ؕ وَ مَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ ﴿۲۱۵﴾

They ask you, [O Muhammad], what they should spend. Say, "Whatever you spend of good is [to be] for parents and relatives and orphans and the needy and the traveler. And whatever you do of good - indeed, Allah is Knowing of it."

آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں؟ آپ کہہ دیجئے جو مال تم خرچ کرو وہ ماں باپ کے لئے ہے اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے اور تم جو کچھ بھلائی کرو گے اللہ تعالٰی کو اس کا علم ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Who deserves the Nafaqah (Spending or Charity) Allah says; يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ ... They ask you (O Muhammad) what they should spend. Muqatil bin Hayyan said that; this Ayah was revealed about the voluntary charity. Ibn Abbas and Mujahid have stated that the Ayah means, `They ask you (O Muhammad) how they should spend.' So, Allah explained it for them, saying: ... قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالاَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ... Say: "Whatever you spend of good must be for parents and kindred and orphans and Al-Masakin and the wayfarer," meaning, spend it on these categories or areas. Similarly, a Hadith states that; those who deserve one's generosity the most, are: أُمَّكَ وَأَبَاكَ وَأُخْتَكَ وَأَخَاكَ ثُمَّ أَدْنَاكَ أَدْنَاك Your mother, father, sister, brother, the closest and then the farthest (relatives). Maymun bin Mihran once recited this Ayah and commented, "These are the areas of spending. Allah did not mention among them the drums, pipe, wooden pictures, or the curtains that cover the walls." Next, Allah said: ... وَمَا تَفْعَلُواْ مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيمٌ ...and whatever you do of good deeds, truly, Allah knows it well. meaning, whatever you perform of good works, Allah knows them and He will reward you for them in the best manner, no one will be dealt with unjustly, even the weight of an atom.

نفلی خیرات مقاتل فرماتے ہیں یہ آیت نفلی خیرات کے بارے میں ہے ، سدی کہتے ہیں اسے آیت زکوٰۃ نے منسوخ کر دیا ۔ لیکن یہ قول ذرا غور طلب ہے ، مطلب آیت کا یہ ہے کہ اے نبی لوگ تم سے سوال کرتے ہیں کہ وہ کس طرح خرچ کریں تم انہیں کہدو کہ ان لوگوں سے سلوک کریں جن کا بیان ہوا ۔ حدیث میں ہے کہ اپنی ماں سے سلوک کر اور اپنے باپ اور اپنی بہن سے اور اپنے بھائی سے پھر اور قریبی اور قریبی لوگوں سے یہ حدیث بیان فرما کر حضرت میمون بن مہران نے اس آیت کی تلاوت کیا اور فرمایا یہ ہیں جن کے ساتھ مالی سلوک کیا جائے اور ان پر مال خرچ کیا جائے نہ کہ طبلوں باجوں تصویروں اور دیواروں پر کپڑا چسپاں کرنے میں ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے تم جو بھی نیک کام کرو اس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے اور وہ اس پر بہترین بدلہ عطا فرمائے گا وہ ذرے برابر بھی ظلم نہیں کرتا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

215۔ 1 بعض صحابہ کرام کے استفسار پر مال خرچ کرنے کے اولین مصارف بیان کئے جا رہے ہیں یعنی یہ سب سے زیادہ تمہارے مالی تعاون کے مستحق ہیں۔ اس لئے معلوم ہوا کہ نفاق کا یہ حکم صدقات نافلہ سے متعلق ہے زکوٰۃ سے متعلق نہیں کیونکہ ماں باپ پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنی جائز نہیں ہے حضرت میمون بن مہران نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا مال خرچ کرنے کی ان جگہوں میں نہ طبلہ سارنگی کا ذکر ہے اور نہ چوبی تصویروں اور دیواروں پر لٹکائے جانے والے آرائشی پردوں کا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں پر مال خرچ کرنا ناپسندیدہ اور اسراف ہے افسوس ہے کہ آج یہ مسرفانہ اور ناپسندیدہ اخراجات ہماری زندگی کا اس طرح لازمی حصہ بن گئے کہ اس میں کراہت کا کوئی پہلو ہی ہماری نظروں میں نہیں رہا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧٤] یعنی اسکا پندار نفس یا انا اسے غرور وتکبر ہی کی راہ دکھلاتا ہے اور متکبرین کا ٹھکانا جہنم ہے۔ جیسا درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پروردگار کے سامنے جنت اور دوزخ میں جھگڑا ہوا۔ جنت کہنے لگی، پروردگار ! میرا تو یہ حال ہے کہ مجھ میں تو وہی لوگ آ رہے ہیں جو دنیا میں ناتواں اور حقیر تھے اور دوزخ کہنے لگی کہ مجھ میں وہ لوگ آ رہے ہیں جو دنیا میں متکبر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا تو میری رحمت ہے اور دوزخ سے فرمایا تو میرا عذاب ہے۔ (بخاری کتاب التوحید، باب ماجاء فی قول اللہ ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین) اور ایک دفعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، کہ میں تمہیں بتلاؤں کہ بہشتی کون ہیں اور دوزخی کون ؟ جنتی ہر وہ کمزور اور منکسر المزاج ہے کہ اگر وہ اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ اسے سچا کر دے اور دوزخی ہر موٹا، بدمزاج اور متکبر آدمی ہوتا ہے۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب قول اللہ تعالیٰ اقسموا باللہ جھد ایمانہم)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے لیے حیات دنیا کے مزین کیے جانے کا ذکر فرمایا، بنی اسرائیل کے باہمی اختلاف کا باعث بھی حسد، ضد اور سرکشی بیان فرمایا، جو عموماً مال سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس پر صحابہ کرام (رض) کے سوال کا ذکر فرمایا کہ وہ (اس فتنے سے بچنے کے لیے ) کیا خرچ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب بھی دیا اور یہ بھی بتادیا کہ کہاں خرچ کریں، کیونکہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے، حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ خرچ کرنے کی جگہیں بھی بتائی جائیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ صفراء (گرمی) کا کوئی مریض کسی مہربان طبیب سے پوچھے کہ میں شہد پی لوں تو وہ جواب میں کہے، پی لو، مگر سرکہ ملا کر، کیونکہ سرکہ اس کی گرمی کو کم کر دے گا۔ ان کے سوال کا جواب یہ ہے کہ ” تم خیر میں سے جو بھی خرچ کرو “ یعنی جو چاہو خرچ کرو، مگر وہ مال حلال طریقے سے حاصل ہوا ہو، کیونکہ حرام کو خیر نہیں کہہ سکتے۔ (طنطاوی) خرچ کرنے کی جگہوں میں سے سب سے پہلے والدین کا ذکر کیا، تاکہ ان کے جنم دینے اور پرورش کرنے کا کچھ حق ادا ہوجائے، پھر زیادہ قرابت والے، تاکہ قرابت اور رشتہ داری کا حق ادا ہو، پھر یتامیٰ ، کیونکہ وہ مہربان باپ کے سائے سے محروم ہوچکے ہیں، پھر مساکین، ان کے فقر و احتیاج کی وجہ سے، پھر مسافر، کیونکہ وہ اپنے شہر سے دور ہونے کی وجہ سے ایک طرح سے محتاج ہیں۔ رازی نے فرمایا، خرچ کرنے کی جگہوں میں یہ ترتیب ہی صحیح ترتیب ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے تفصیل کے بعد خلاصہ بیان فرمایا کہ تم خیر میں سے جو عمل بھی کرو گے تو بیشک اللہ تعالیٰ اسے خوب جاننے والا ہے۔ اس میں وہ کام اور وہ جگہیں بھی آگئیں جن کا یہاں ذکر نہیں ہوا، مثلاً سائلین اور غارمین وغیرہ، بشرطیکہ وہ کام اور وہ جگہیں خیر ہوں، کیونکہ غلط جگہ خرچ کرنا فعل خیر نہیں۔ میمون بن مہران اس آیت کو پڑھ کر کہنے لگے کہ یہ ہیں مسلمان کے خرچ کرنے کی جگہیں، ان میں طبلہ، سارنگی، لکڑی کی تصویروں اور گھر کی آرائش کا ذکر نہیں ہے۔ (ابن کثیر) اس آیت میں زکوٰۃ کے علاوہ خرچ کا ذکر ہے جو نفل ہو، یا بعض اوقات فرض، کیونکہ ماں باپ کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ دیکھیے سورة توبہ (٦٠) ۔ ایک روایت میں یہ سوال کرنے والا عمرو بن جموح کو بتایا گیا ہے، مگر وہ روایت موضوع ہے، اس میں کلبی اور ابو صالح متہم بالکذب ہیں۔ (الاستیعاب فی بیان الاسباب)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Imperatives such as - &leave disbelief and hypocrisy and enter Islam completely&, &listen to none when it comes to obeying the command of Allah&, &spend your wealth and give your life to seek the pleasure of Allah& and &show fortitude against all sorts of hardships and sufferings& - have been emphatically mentioned in previous verses. Now, from this point onwards, there appear some details concerning this obedience which relate to one&s wealth, life and other matters of marriage and divorce. All these form part of the general theme of righteousness which continues. This statement of details is very special as these come in answer to questions raised by the noble Companions before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . The answer to questions asked came directly from Allah through the medium of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . If this were to be said in other words, one could say that the Fatwa فتوٰی (religious ruling) was given by Allah Almighty Himself. This too , is correct because Allah Almighty has, in the Qur&nic verse, قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ : Say: |"Allah decides for you concerning them,,,, & (4:127) attributed the act of giving Fatwa to Himself. Therefore, there is nothing strange about this attribution. It is also possible to say that these fatawa فتاوٰی (plural of fatwa) come from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) which have been communicated to him through revelation. Anyway, what has to be realized is that the religious injunctions described in this section as answers to some questions asked by the noble Companions carry a significance of their own. Throughout the Holy Qur&an, such special injunctions in the form of questions and answers appear at nearly seventeen places. Seven out of these happen to be right here in the Surah al-Baqarah, one in Surah al-Ma&idah and one in Surah al-Anfal. These nine questions are from the noble Companions. Then come two questions in Surah al-A` raf and one each in Surah Ban& Isra&il, Surah al-Kahf, Surah Ta-Ha and Surah al-Nazi` at making a total of six questions, which were asked by the disbelievers. All these have been answered in the Holy Qur&an. The blessed Companion and commentator of the Holy Qur&an, ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) has said: &I have not seen a set of people better than the Companions of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) who, (despite their great attachment to matters of Faith and their deep love for and close relationship with the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) asked very few questions.& The questions asked relate to a total of thirteen problems only, which have been answered in the Holy Qur&an because these noble souls never asked a question unless absolutely necessary (Qurtubi). In the present verse (215), the istifta& or questions asked by the noble Companions has been reported in the words, يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ &They ask you as to what they should spend&. The same question has been repeated in verse 219 in the same words يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ : but the answer to this one question has been given differently in the present verse (215) and later on, in verse 219. Therefore, it is necessary to first understand the wisdom behind the two answers to one single question. This wisdom becomes clear by looking at the background in which these verses were revealed. For instance, the present verse was revealed in a particular situation when the Companion, ` Amr ibn Jamuh (رض) had asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) the question: ما ننفق من اموالنا واین نضعھا ؟ (Ibn al-Mundhir - Mazhari) that is, &what do we spend from our wealth, and where?& According to a narration reported by Ibn Jarir (رض) ، this question was not that of Ibn Jamuh alone, rather, it was from Muslims in general. The question has two parts, that is, what and how much should be spent, and where should it go or who should be the recipients. Let us now look at the second verse (219) which begins with the same question. The background of its revelation as narrated by Ibn Abi Hatim (رض) is as follows. When the Holy Qur&an commanded Muslims to spend in the way of Allah, some Companions (رض) came to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and requested an elaboration of the injunction. They wished to find out what &money& or which &thing& they should spend in the way of Allah. This question has one simple unit of inquiry, that is, what should they spend. Thus, the two questions somewhat differ in their approach. The first question consisted of the &what& and &where’ of spending. The second question is restricted to what& only. The Qur&anic answer to the first question shows that the second part of the question, that is, where should they spend, has been given more importance and answered frontally and clearly. However, the first part of the question, that is, what should they spend, was answered as a corollary, and considered sufficient. Now let us go back to the two parts as they appear in the words of the Holy Qur&an. About the first part, that is, where should they spend, it has been said: مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ‌ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَ‌بِينَ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ Whatever good you spend is for parents, kins, orphans, the needy and the wayfarer. Then, the other part of the question, that is, what should they spend, was answered as a corollary through the words, وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ‌ فَإِنَّ اللَّـهَ بِهِ عَلِيمٌ &And whatever good you do, Allah is all-aware of that&. The hint is that Allah Almighty has not placed any restriction on you as to the amount of what you should spend. The fact is whatever you spend in accordance with your capability will become deserving of a matching reward with Allah. In short, the considered explanation of the heads of expenditure was given in the first verse (215), perhaps, in view of the real concern of the questioner about where to spend. Then, the question, what should they spend, was answered as a corollary and considered sufficient. The later verse (219) where the question was limited to what &money& or what &thing& should they spend was answered by saying: قُلِ الْعَفْوَ (Say: |"The surplus|" ). These two verses yield some rules of guidance about spending in the way of Allah. Rulings 1. These two verses are not concerned with the obligatory zakah زکاۃ because the threshold of holdings for the obligatory Zakah زکاۃ is fixed, and the obligatory ratio of spending under it has also been fully determined through the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . None of these two have been specified in the verses under discussion. This tells us that the two verses refer to voluntary charities (al-Sadagat al-nafilah الصدقۃ النافلہ ). This also removes the doubt about the inclusion of parents as recepients of spending under verse 215, although, giving Zakah زکاۃ to parents is not permissible under the teaching of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . The reason is simple. These two verses have nothing to do with the obligation of Zakah زکاۃ . 2. Another rule of conduct which emerges from this verse is that even the gift given or food served to parents and other near of kin, if the intention is to obey Allah Almighty in doing so, will be included under spending in the way of Allah and will deserve reward with Him. 3. Consideration should be given, while making voluntary charities, to spending only what is extra to personal needs. Spending while hurting one&s own family, over-riding their due rights and subjecting them to straightened circumstances is no act of merit. Similarly, one who does not pay back his debt yet goes on squandering money in voluntary charities is not liked in the sight of Allah. The statement about spending the surplus& العفو (al-&afw), that which is extra to needs, has been interpreted as an obligatory injunction by the blessed Companion Abu Dharr al-Ghifari and others (رض) . According to them, it is not permissible to hold in one&s possession any money or materials surplus to needs even after paying of zakah and fulfilling all rights due; it is necessary (wajib) to give everything extra to needs as charity (sadaqah). However, the majority of Companions, their successors (the Tabi` in) and the great imams of the Faith interpret the Qur&anic verses in question to mean that whatever has to be spent in the way of Allah should be surplus to needs. It does not mean that one has to give in charity (sadaqah) everything surplus to need as something necessary or wajib. Moreover, this later position is what the consistent practice of the blessed Companions proves.

خلاصہ تفسیر : بارہواں حکم صدقہ کے مصارف : لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ (ثواب کے واسطے) کیا چیز خرچ کیا کریں (اور کس موقع پر صرف کیا کریں) آپ فرما دیجئے کہ جو مال تم کو صرف کرنا ہو سو (اس کی تعیین تو تمہاری ہمت پر ہے مگر ہاں موقع ہم بتلائے دیتے ہیں کہ) ماں باپ کا حق ہے اور قرابت داروں اور بےباپ کے بچوں کا اور محتاجوں کا اور مسافر کا اور جونسا نیک کام کرو گے (خواہ راہ خدا میں خرچ کرنا ہو یا اور کچھ ہو) سو اللہ تعالیٰ کو اس کی خوب خبر ہے (وہ اس پر ثواب دیں گے) معارف و مسائل : اس سے پہلی آیتوں میں مجموعی حیثیت سے یہ مضمون بہت تاکید کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ کفر ونفاق کو چھوڑو اور اسلام میں پوری طرح داخل ہوجاؤ حکم الہیٰ کے مقابل میں کسی کی بات مت سنو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جان اور مال خرچ کیا کرو اور ہر طرح کی شدت اور تکلیف پر تحمل کرو اب یہاں سے اسی اطاعت و فرمانبرداری اور اللہ کی راہ میں جان ومال خرچ کرنے کے متعلق کچھ جزئیات کی تفصیل بیان ہوتی ہے جو کہ مال اور جان اور دیگر معاملات مثل نکاح و طلاق وغیرہ کے متعلق ہیں اور اوپر سے جو سلسلہ احکام ابواب البر کا جاری ہے اس میں داخل ہیں اور ان جزئیات کا بیان بھی ایک خاص نوعیت رکھتا ہے کہ اکثر ان میں سے وہ ہیں جن کے متعلق صحابہ کرام (رض) اجمعین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا ان کے استفتاء اور سوالات کا جواب براہ راست عرش رحمٰن سے بواسطہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیا گیا اس کو اگر یوں سمجھا جائے کہ حق تعالیٰ نے خود فتویٰ دیا تو یہ بھی صحیح ہے اور قرآن کریم کی آیت قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيْكُمْ فِيْهِنَّ (١٢٧: ٤) میں صراحۃ حق تعالیٰ نے فتویٰ دینے کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے، اس لئے اس نسبت میں کوئی استبعاد بھی نہیں۔ اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ فتاوٰی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہیں جو آپ کو بذریعہ وحی تلقین کئے گئے ہیں بہرحال اس رکوع میں جو احکام شرعیہ صحابہ کرام (رض) اجمعین کے چند سوالات کے جواب میں بیان ہوئے ہیں وہ ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں پورے قرآن میں اس طرح سوال و جواب کے انداز سے خاص احکام تقریباً سترہ جگہ میں آئے ہیں جن میں سے سات تو اسی جگہ سورة بقرہ میں ہیں ایک سورة مائدہ میں ایک سورة انفال میں، یہ نو سوالات تو صحابہ کرام کی طرف سے ہیں سورة اعراف میں دو اور سورة بنی اسرائیل، سورة کہف، سورة طٰہ، سورة نازعات میں ایک ایک، یہ کل چھ سوال کفار کی طرف سے ہیں جن کا جواب قرآن میں جواب کے عنوان سے دیا گیا ہے۔ مفسر القرآن حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ میں نے کوئی جماعت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام سے بہتر نہیں دیکھی کہ دین کے ساتھ انتہائی شغف اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ انتہائی محبت وتعلق کے باوجود انہوں نے سوالات بہت کم کئے کل تیرہ مسائل میں سوال کیا ہے جن کا جواب قرآن میں دیا گیا ہے کیونکہ یہ حضرات بےضرورت سوال نہ کرتے تھے (قرطبی) متذکرہ بالا آیات میں سے پہلی آیت میں صحابہ کرام (رض) اجمعین کا استفتاء یعنی سوال ان الفاظ سے نقل فرمایا گیا ہے يَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ یعنی لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں یہی سوال اس رکوع میں تین آیتوں کے بعد پھر انہی الفاظ کے ساتھ دہرایا گیا وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ لیکن اس ایک ہی سوال کا جواب آیت متذکرہ میں کچھ اور دیا گیا ہے اور تین آیتوں کے بعد آنے والے سوال کا جواب اور ہے۔ اس لئے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ایک ہی سوال کے دو مختلف جواب کس حکمت پر مبنی ہیں یہ حکمت ان حالات و واقعات میں غور کرنے سے واضح ہوجاتی ہے جن میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں مثلا آیت متذکرہ کا شان نزول یہ ہے کہ عمرو بن جموح نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کیا تھا کہ ما ننفق من اموالنا واین نضعھا۔ (اخرجہ ابن المنذر مظہری) یعنی ہم اپنے اموال میں سے کیا خرچ کریں اور کہاں خرچ کریں اور ابن جریر کی روایت کے موافق یہ سوال تنہا عمرو ابن جموح کا نہیں تھا بلکہ عام مسلمانوں کا سوال تھا اس سوال کے دو جزو ہیں ایک یہ کہ مال میں سے کیا اور کتنا خرچ کریں دوسرے یہ کہ اس کا مصرف کیا ہو کن لوگوں کو دیں۔ اور دوسری آیت جو دو آیتوں کے بعد اسی سوال پر مشتمل ہے اس کا شان نزول بروایت ابن ابی حاتم یہ ہے کہ جب قرآن میں مسلمانوں کو اس کا حکم دیا گیا کہ اپنے مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کریں تو چند صحابہ کرام آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ انفاق فی سبیل اللہ کا جو حکم ہمیں ملا ہے ہم اس کی وضاحت چاہتے ہیں کہ کیا مال اور کونسی چیز اللہ کی راہ میں خرچ کیا کریں اس سوال میں صرف ایک ہی جزء ہے یعنی کیا خرچ کریں اور کہاں خرچ کریں کا سوال تھا اور دوسرے میں صرف کیا خرچ کریں کا سوال ہے اور پہلے سوال کے جواب میں جو کچھ قرآن میں ارشاد فرمایا گیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سوال کے دوسرے جزء کو یعنی کہاں خرچ کریں زیادہ اہمیت دے کر اس کا جواب تو صریح طور پر دیا گیا اور پہلے جزء یعنی کیا خرچ کریں کا جواب ضمنی طور پر دے دینا کافی سمجھا گیا اب الفاظ قرآنی میں دونوں اجزاء پر نظر فرمائیں، پہلے جز یعنی کہاں خرچ کریں کے متعلق ارشاد ہوتا ہے، قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ یعنی جو کچھ بھی تم کو اللہ کے لئے خرچ کرنا ہو اس کے مستحق ماں باپ اور رشتہ دار اور بےباپ کے بچے اور مساکین اور مسافر ہیں۔ اور دوسرے جزء یعنی کیا خرچ کریں کا جواب ضمنی طور پر ان الفاظ سے دیا گیا وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيْمٌ یعنی تم جو کچھ بھلائی کرو گے اللہ تعالیٰ کو اس کی خوب خبر ہے، اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر کوئی تحدید اور پابندی نہیں کہ مال کی اتنی ہی مقدار صرف کرو بلکہ جو کچھ بھی اپنی استطاعت کے موافق خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ کے پاس اس کا اجر وثواب پاؤ گے۔ الغرض پہلی آیت میں شاید سوال کرنے والوں کے پیش نظر زیادہ اہمیت اسی سوال کی ہو کہ ہم جو مال خرچ کریں اس کا مصرف کیا ہو کہاں خرچ کریں، اسی لئے اس کے جواب میں اہمیت کے ساتھ مصارف بیان فرمائے گئے، اور کیا خرچ کریں اس سوال کا جواب ضمنی طور پر دے دینا کافی سمجھا گیا، اور بعد والی آیت میں سوال صرف اتنا ہی تھا کہ ہم کیا چیز اور کیا مال خرچ کریں اس لئے اس کا جواب ارشاد ہوا قُلِ الْعَفْوَ یعنی آپ فرمادیں کہ جو کچھ بچے اپنی ضرورت سے وہ خرچ کیا کریں ان دونوں آیتوں سے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کرنے کے متعلق چند ہدایات و مسائل معلوم ہوئے۔ مسئلہ : اول یہ کہ دونوں آیتیں زکوٰۃ فرض کے متعلق نہیں کیونکہ زکوۃٰ فرض کے لئے تو نصاب مال بھی مقرر ہے اور اس میں جتنی مقدار خرچ کرنا فرض ہے وہ بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ پوری طرح متعین ومقرر فرمادی گئی ہے ان دونوں آیتوں میں نہ کسی نصاب مال کی قید ہے نہ خرچ کرنے کی مقدار بتلائی گئی ہے اس سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں آیتیں صدقات نافلہ کے متعلق ہیں اس سے یہ شبہ بھی رفع ہوگیا کہ پہلی آیت میں خرچ کا مصرف والدین کو بھی قرار دیا گیا ہے حالانکہ ماں باپ کو زکوٰۃ دینا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم کے مطابق جائز نہیں کیونکہ ان آیتوں کا تعلق فریضہ زکوٰۃ سے ہے ہی نہیں۔ مسئلہ : دوسری ہدایت اس آیت سے یہ حاصل ہوئی کہ ماں باپ اور دوسرے اعزاء و اقرباء کو جو کچھ بطور ہدیہ دیا یا کھلایا جاتا ہے اگر اس میں بھی اللہ تعالیٰ کا حکم بجا لانے کی نیت ہو تو وہ بھی موجب اجر وثواب اور انفاق فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔ مسئلہ : تیسری ہدایت یہ حاصل ہوئی کہ نفلی صدقات میں اس کی رعایت ضروری ہے کہ جو مال اپنی ضروریات سے زائد ہو وہی خرچ کیا جائے اپنے اہل و عیال کو تنگی میں ڈال کر اور ان کے حقوق کو تلف کرکے خرچ کرنا ثواب نہیں اسی طرح جس کے ذمہ کسی کا قرض ہے قرض خواہ کو ادا نہ کرے اور نفلی صدقات و خیرات میں اڑائے یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ نہیں پھر ضرورت سے زائد مال کے خرچ کرنے کا جو ارشاد اس آیت میں ہے اس کو حضرت ابوذر غفاری اور بعض دوسرے حضرات نے حکم وجوبی قرار دیا کہ اپنی ضروریات سے زائد جو کچھ ہے سب کا صدقہ کردینا واجب ہے مگر جمہور صحابہ کرام وتابعین اور ائمہ دین اس پر ہیں کہ ارشاد قرآنی کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہو وہ ضروریات سے زائد ہونا چاہئے یہ نہیں کہ ضرورت سے زائد جو کچھ ہو اس کو صدقہ کردینا ضروری یا واجب ہے صحابہ کرام کے تعامل سے یہی ثابت ہوتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ۝ ٠ۥۭ قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۝ ٠ ۭ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِيْمٌ۝ ٢١٥ ( ماذا) يستعمل علی وجهين : أحدهما . أن يكون ( ما) مع ( ذا) بمنزلة اسم واحد، والآخر : أن يكون ( ذا) بمنزلة ( الذي) ، فالأوّل نحو قولهم : عمّا ذا تسأل ؟ فلم تحذف الألف منه لمّا لم يكن ما بنفسه للاستفهام، بل کان مع ذا اسما واحدا، وعلی هذا قول الشاعر : دعي ماذا علمت سأتّقيه أي : دعي شيئا علمته . وقوله تعالی: وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 219] ، فإنّ من قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالنّصب فإنّه جعل الاسمین بمنزلة اسم واحد، كأنّه قال : أيّ شيء ينفقون ؟ ومن قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالرّفع، فإنّ ( ذا) بمنزلة الذي، وما للاستفهام أي : ما الذي ينفقون ؟ وعلی هذا قوله تعالی: ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] ، و (أساطیر) بالرّفع والنصب ( ماذا ) اور ماذا ، ، بھی دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ اول یہ کہ ، ، مازا کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا لذی کے ہو ( ما بمعنی اول یہ کہ ماذا ، ، کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا بمنزلہ الذی کے ہو ( ما بمعنی ای شئی کے ہو پہلی قسم کی مثال جیسے : عما ذا تسال کہ کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے ہو اس صورت میں چونکہ ، ، ماذا اکیلا ، ، استفہام کے لئے نہیں ہے بلکہ ، ، ذا کے ساتھ مل کر ایک اسم بنتا ہے اس لئے ، ، ما ، ، کے الف کو حزف نہیں کیا گیا ۔ اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے یعنی جو چیز تجھے معلوم ہے اسے چھوڑ دے میں اس سے بچنے کی کوشش کرونگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 219] اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ کہ ( خدا کی راہ میں ) کونسا مال خرچ مال کریں ۔ میں جو لوگ کو منصوب پڑھتے ہیں ۔ وہ ماذا کو بمنزلہ ایک اسم کے مانتے ہیں کونسی چیز صرف کریں مگر جن کے نزدیک ہے اور ما استفہا میہ ہے یعنی وہ کونسی چیز ہے جسے خرچ کریں ۔ اس بنا پر آیت کریمہ : ۔ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہی تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں ۔ میں اساطیر رفع اور نصب دونوں جائز ہیں ۔ نفق نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] ( ن ف ق ) نفق ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ يتم اليُتْمُ : انقطاع الصَّبيِّ عن أبيه قبل بلوغه، وفي سائر الحیوانات من قِبَلِ أمّه . قال تعالی: أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی/ 6] ، وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان/ 8] وجمعه : يَتَامَى. قال تعالی: وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء/ 2] ، إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء/ 10] ، وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة/ 220] وكلُّ منفردٍ يَتِيمٌ ، يقال : دُرَّةٌ يَتِيمَةٌ ، تنبيها علی أنّه انقطع مادّتها التي خرجت منها، وقیل : بَيْتٌ يَتِيمٌ تشبيها بالدّرّة اليَتِيمَةِ. ( ی ت م ) الیتم کے معنی نا بالغ بچہ کے تحت شفقت پدری سے محروم ہوجانے کے ہیں ۔ انسان کے علاوہ دیگر حیوانات میں یتم کا اعتبار ماں کیطرف سے ہوتا ہے اور جانور کے چھوٹے بچے کے بن ماں کے رہ جانے کو یتم کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی/ 6] بھلا اس نے تمہیں یتیم پاکر جگہ نہیں دی ۔ وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان/ 8] یتیموں اور قیدیوں کو یتیم کی جمع یتامیٰ ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء/ 2] اور یتیموں کا مال ( جو تمہاری تحویل میں ہو ) ان کے حوالے کردو ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء/ 10] جو لوگ یتیموں کا مال ( ناجائز طور پر ) کھاتے ہیں ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة/ 220] اور تم سے یتیموں کے بارے میں دریاقت کرتے ہیں ۔ مجازا ہر یکتا اور بےملي چیز کو عربی میں یتیم کہاجاتا ہے ۔ جیسا کہ گوہر یکتا درۃ یتیمۃ کہہ دیتے ہیں ۔ اور اس میں اس کے مادہ کے منقطع ہونے پر تنبیہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور درۃ کے ساتھ تشبیہ دے کر یکتا مکان کو بھی یتیم کہہ دیا جاتا ہے ۔ مِسْكِينُ قيل : هو الذي لا شيء له، وهو أبلغ من الفقیر، وقوله تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف/ 79] ، فإنه جعلهم مساکين بعد ذهاب السّفينة، أو لأنّ سفینتهم غير معتدّ بها في جنب ما کان لهم من المسکنة، وقوله : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] ، فالمیم في ذلک زائدة في أصحّ القولین . المسکین المسکین بعض نے اس کی تفسیر ( یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ) کے ساتھ کی ہے اور یہ فقر سے ابلغ ہے ( یعنی بنسبت فقر کے زیادہ تا دار ہوتا ہے ) لیکن آیت : أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف/ 79] اور کشتی غریب لوگوں کی تھی ۔ میں باوجود کشتی کا مالک ہونے کے انہیں مسکن قرار دینا مایؤؤل کے لحاظ سے ہے یعنی کشتی کے چلے جانے کے بعد کی حالت کے لحاظ سے انہیں مسکن کہا گیا ہے ۔ یا اس لئے کہ ان کی احتیاط اور مسکنت کے مقابلہ میں کشتی کی کچھ بھی حیثیت نہ تھی ۔ اور آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] اور اخر کا ر ذلت روسوائی اور محتاجی ( اور بےنوائی ) ان سے چمٹا دی گئی ۔ میں اصح قول کے لحاظ سے مسکنتہ کی میم زائد ہے ( اور یہ سکون سے ہے ۔ ) علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

خرچ کی ابتداء کس سے کی جائے قول باری ہے (لیسئلونک ماذا ینفقون قل ما انفقتم من خیر خلق الدین و الاقربین والیتامی والمساکین و ابن السبیل، وما تفعلوا من خیر فان اللہ بہ علیم۔ لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں۔ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتے داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کرو گے اللہ اس سے باخبر ہوگا۔ ) ۔ سوال کے ذریعے خرچ کی مقدار پوچھی گئی ہے اور جواب میں کہا گیا ہے کہ جو کچھ تم خرچ کرو گے خواہ اس کی مقدار تھوڑی ہو یا بہت۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بیان کردیا گیا ہے کہ کن لوگوں پر خرچ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا قل ماانفقتم من خیر یہ فقرہ قلیل اور کثیر دونوں کو شامل ہے اس لئے کہ خیر کا لفظ انفاق یعنی خرچ کی ان تمام صورتوں کو شامل ہے جو رضائے الٰہی حاصل کرنے کے لئے کی جاتی ہیں۔ پھر یہ بتادیا کہ کن لوگوں پر خرچ کیا جائے فللوالدین ولاقربین یعنی والدین اور رشتہ دار اور وہ تمام لوگ جن کا اس آیت میں ذکرہوا ہے لیکن والدین اور رشتے داران دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ حق دار ہیں جو قرابت اور تنگدستی میں ان کے ہم پلہ نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں مال کے اس حصے کی نشاندہی فرما دی ہے جس میں سے خرچ کرنا واجب ہے۔ قول باری ہے ویسئلونک ماذا ینفقون قل العفو۔ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ہم راہ خدا میں کیا خرچ کریں کہو جو کچھ ضرورت سے زیادہ ہو۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ جو کچھ تمہارے اہل و عیال کے خرچ سے بچ جائے۔ قتادہ کا قول ہے کہ العفو سے مراد الفضل ہے یعنی بچ رہنے والا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خبر دی ہے کہ انسان کی اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کے اخراجات سے جو بچ رہے اس سے نفقہ کیا جائے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول کے بھی یہی معنی ہیں خیرالصدقۃ ماکان عن ظھر غنی بہترین صدقہ وہ ہے جو غنی یعنی فراخی کی حالت کی موجودگی میں کیا جائے۔ ایک اور روایت میں ہے خیرالصدقۃ ماایقت غنی وابدا بمن تعول۔ بہترین صدقہ وہ ہے جو فراخی کو باقی رہنے دے اور خرچ کی ابتدا اس سے کرو جس کے نان و نفقہ کی ذمہ داری تم پر ہے۔ ان احادیث میں مندرجہ مضمون اس قول باری کے مطابق ہے ویسئلونک ماذا ینفقون قل العفو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی مروی ہے الیدالعلیاخیرمن الیدالسفلی وابداء بمن تعول امک وابوک اختک ماخوک دادناک فادناک۔ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔ خرچ کی ابتدا ان لوگوں سے کرو جن کے نان و نفقہ کی ذمہ داری تم پر ہے۔ یعنی تمہاری ماں، تمہارا باپ، تمہاری بہن، تمہارا بھائی اور تمہارا قریبی اور اس کے بعد کا قریبی اور اسی طرح آگے تک۔ ثغلبہ بن زہدم اور طارق نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی قسم کی روایت کی ہے۔ یہ حدیث اس آیت کے معنی پر دلالت کر رہی ہے کہ قل ما انفقتم من خیر فللوالدین والاقربین۔ اس سے مراد یہ ہے کہ زیادہ قریبی کو مقدم کیا جائے پھر اس کے بعد کے قریبی کو اور اسی طرح آگے تک۔ حسن بصری سے روایت ہے کہ آیت زکوۃ اور تطوع یعنی خیرات و صدقات سب کے متعلق ہے۔ اس کا حکم باقی ہے اور یہ منسوخ نہیں ہوئی۔ سدی کا قول ہے کہ یہ آیت زکوۃ کی فرضیت کے ساتھ منسوخ ہوگئی ہے۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی بلکہ یہ زکواۃ یعنی فرض اور تطوع دونوں کو عام ہے۔ جہاں تک فرض یعنی زکواۃ کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں والدین اور ولد نیچے تک مراد نہیں ہیں اس لئے کہ انہیں زکواۃ دینے کے متعلق دلیل موجود ہے۔ رہ گیا تطوع یعنی نفلی اخراجات تو یہ سب کے لئے عام ہے۔ پھر جب ہمارے لئے فرضیت زکواۃ کے باوجود ان دونوں صورتوں پر عمل ممکن ہے تو اس آیت پر منسوخ ہونے کا حکم لگانا درست نہیں ہے۔ یہی حکم تمام آیات کا ہے کہ جب ان کے احکام پر کسی ایک کی منسوخیت کے اثبات کے بغیر عمل کرنا ممکن ہو تو اسی صورت میں ہمارے لئے جائز نہیں ہوگا کہ کسی پر نسخ کا حکم لگا دیں۔ آیت سے یہ مراد لینے میں بھی کوئی امتناع نہیں کہ والدین اور رشتہ داروں پر خرچ کیا جائے جبکہ وہ محتاج ہوں اور خرچ کرنے والا خوشحال ہو۔ اس لئے کہ لفظ قل العفو کی اس پر دلالت ہو رہی ہے کہ ایک شخص پر اس کے زائد مال میں نفقہ واجب ہے۔ جب وہ اور اس کے اہل و عیال محتاج ہوں گے تو اس کے پاس زائد کوئی مال نہیں بچے گا اس لئے اس پر نفقہ واجب نہیں ہوگا۔ اس آیت کی کئی اور معانی پر بھی دلالت ہو رہی ہے۔ ایک یہ کہ جو شخص تھوڑا یا بہت خرچ کرے گا وہ اللہ کے ہاں ثواب کا مستحق ہوگا بشرطیکہ اس کا مقصد رضائے الٰہی ہو۔ اس میں نفلی صدقات اور فرض سب شامل ہیں۔ دوسرا یہ کہ زیادہ قریبی اپنی اپنی ترتیب کے لحاظ سے اس نفقہ کے زیادہ حق دار ہیں۔ اس لئے کہ قول باری ہے فللوالدین والاقربین۔ اس کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس سلسلے میں وضاحت موجود ہے۔ آپ نے فرمایا ابداء بمن تعول امک و اباک واختک واخاک وادناک فادناک۔ اس میں والدین اور رشتہ داروں کی کفالت کے وجوب پر بھی دلالت ہو رہی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس پر مساکین اور مسافروں اور ان تمام کی کفالت بھی واجب ہے جن کا ذکر آیت میں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ظاہر آیت تو اسی کا تقاضا کرتا ہے لیکن ہم نے اس نفقہ سے ان کی تخصیص کردی ہے جس کے اقارب مستحق ہیں اور یہ تخصیص ہم نے اور دلیل کی بنا پر کی ہے۔ یہ لوگ زکواۃ اور نفلی طور پر کئے جانے والے اخراجات میں داخل ہیں۔ ہمیں عبدالباتی بن القانع نے، انہیں معاذ بن المثنیٰ نے، انہیں محمد بن البکر نے، انہیں سفیان نے مزاحم بن زفر سے، انہوں نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا ” ایک دینار تم اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہو، ایک مسکین کو دیتے ہو، ایک غلام آزاد کرانے کی خاطر خرچ کرتے ہو اور ایک تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے ہو۔ ان میں سے سب سے زیادہ اس دینار کے خرچ کرنے کا ثواب ملے گا جو تم اپنے اہل و عیال پر صرف کرتے ہو “۔ یہی روایت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرفوعاً بھی بیان ہوئی ہے ہمیں عبدالباتی نے، انہیں محمد بن یحییٰ المروزی نے، انہیں عاصم بن علی نے، انہیں المسعودی نے مزاحم بن زفر سے ، انہوں نے مجاہد سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی قسم کی روایت کی۔ ہمیں عبدالباقی نے، انہیں معاذ بن المثنیٰ نے، انہیں محمد بن کثیر نے، انہیں شعبہ نے عدی بن ثابت سے، انہوں نے عبداللہ بن زید سے، انہوں نے حضرت ابن مسعود (رض) سے، آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی کہ ان المسلم اذا نفق نفقۃ علی اھلہ کانت لہ صدقۃ جب کوئی مسلمان اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے تو یہ نفقہ اس کے لئے صدقہ بن جاتا ہے۔ یہ تمام روایات قول باری ویسئلونک ماذا ینفقون قل العفو۔ کے مضمون سے مطابقت رکھتی ہیں۔ آیت میں لفظ العفو سے مراد کے متعلق اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ کا قول ہے کہ اس سے مراد فراخی سے زائد مال حسن اور عطا بن ابی رباح کا قول ہے کہ اسراف کے بغیر میانہ روی۔ مجاہد کا قول ہے اس سے مراد مفروض صدقہ ہے۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ جب العفو کا معنیٰ جو کچھ بچ رہے، کے ہیں تو اس سے زکواۃ بھی مراد لینا جائز ہے اس لئے کہ زکواۃ اسی مال پر واجب ہوتی ہے جو ضروریات سے زائد ہو اور جس سے فراخی حاصل ہوتی ہو یہی صورتحال تمام واجب صدقات کی ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ اس سے نفلی صدقات مراد ہوں۔ اس صورت میں اس حکم کے ضمن میں اپنی ذات، اپنے اہل و عیال اور اپنے اقارب پر خرچ کرنے کی تمام صورتیں آجائیں گی۔ اس کے بعد جو بچ رہے اسے غیروں میں صرف کر دے۔ اس آیت سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ فقیر پر صدقہ فطر اور دوسرے تمام صدقات واجب نہیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے بچ رہنے والے اور فراخی سے زائد مال کو خرچ کرنے کا حکم دیا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢١٥) یہ سوال میراث کی آیتوں کے اترانے سے پہلے کا ہے یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ سے پوچھتے ہیں کہ صدقہ کسے دیں آپ فرما دیجعے کہ اپنا مال، والدین اور رشتہ داروں (مگر اس کے بعد میراث کی آیت سے والدین کو صدقہ دینا منسوخ ہوگیا) یتیموں، مسکینوں اور نووارد لوگوں پر خرچ کرو اور تم جو کچھ ان لوگوں پر خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ اس کو اور تمہاری نیتوں کو خوب جاننے والا ہے اور تمہیں اس کا بدلہ دینے والا ہے۔ شان نزول : یسئلونک ماذا ینفقون “۔ (الخ) ابن جریر (رح) نے ابن جریج (رض) سے روایت کیا ہے کہ مسلمانوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ ہم اپنا مال کہاں کرچ کریں، اس پر یہ آیت مبارکہ اتری اور ابن منذر (رح) نے ابوحبان (رح) سے روایت کیا ہے کہ عمرو بن جموع (رض) نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ ہم اپنا مال کس طرح خرچ کریں اس پر یہ آیت اتری۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١٥ (یَسْءَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط) یعنی انفاق کے لیے جو کہا جا رہا ہے تو ہم کیا خرچ کریں ؟ کتنا خرچ کریں ؟ انسان بھلائی کے لیے جو بھی خرچ کرے تو اس میں سب سے پہلا حق کن کا ہے ؟ (قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ ) (فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ ط) سب سے پہلا حق والدین کا ہے ‘ اس کے بعد درجہ بدرجہ قرابت داروں ‘ یتیموں ‘ مسکینوں اور مسافروں کا حق ہے۔ (وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ ) تم جو بھی اچھا کام کرو گے تو جان لو کہ وہ اللہ کے علم میں ہے۔ ضرورت نہیں ہے کہ دنیا اس سے واقف ہو ‘ تمہیں اگر اللہ سے اجر لینا ہے تو وہ تورات کے اندھیرے میں بھی دیکھ رہا ہے۔ اگر تمہارے دائیں ہاتھ نے دیا ہے اور بائیں کو پتا نہیں چلا تو اللہ کو تو پھر بھی پتا چل گیا ہے۔ تو تم خاطر جمع رکھو ‘ تمہاری ہر نیکی اللہ کے علم میں ہے اور وہ اسے ضائع نہیں کرے گا۔ اب اگلی آیت میں قتال کے مضمون کا تسلسل ہے۔ میں نے سورة البقرۃ کے نصف آخر کے مضامین کو چار مختلف رنگوں کی لڑیوں سے تشبیہہ دی تھی ‘ جن کو باہم بٹ لیا جائے تو چاروں رنگ کٹے پھٹے نظر آتے ہیں اور اگر انہیں کھول دیا جائے تو ہر رنگ مسلسل نظر آتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

ابن جریر ١۔ نے اپنی تفسیر میں ابن جریج سے روایت کی ہے کہ بعض صحابہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نفل صدقہ کے خرچ کا محل اور موقع دریافت کیا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اس صورت میں جب کہ نزول اس آیت کا خود نفلی صدقہ کے حکم میں ہے تو زکوٰۃ کی آیت سے اس آیت کو منسوخ ٹھہرانے کی ضرورت نہیں زکوٰۃ کا حکم اور زکوٰۃ کے خرچ کا محل موقع جدا ہے اور اس آیت میں نفلی صدقہ کا حکم اور اس کے خرچ کے محل کا موقع بیان ہوا ہے جو زکوٰۃ سے بالکل جدا ہے خرچ کے محل و موقعوں میں سے ایک موقع جہاد کا بھی ہے کس لئے کہ جہاد میں ہتھیار سواری وغیرہ ضروریات کے لئے خرچ درکار ہوتا ہے اس لئے اسی ذیل میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کا بھی ذکر فرمادیا۔ ہے جمہور علماء کے نزدیک جہاد فرض کفایہ ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:215) ماذا۔ کیا چیز ہے، کیا ہے، ما حرف استفہام ہے اور ذا فصل کے لئے آیا ہے تاکہ ما نافیہ اور ما استفہامیہ میں تمیز ہوسکے۔ یا ما استفہامیہ ہے اور ذا موصولہ ہے۔ یا ما استفہامیہ ہے اور ذا زائد ہے۔ ینفقون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ وہ خرچ کرتے ہیں۔ وہ خرچ کریں۔ انفاق (افعال) مصدر ما انفقتم۔ میں ما موصولہ ہے بمعنی الذی۔ من خیر۔ ای من مال۔ خیر کے معنی بہتر، بھلائی۔ نیکی، نیک کام۔ پسندیدہ چیز ۔ شر کی ضد ہے۔ خیر بمعنی مال قرآن مجید میں اور جگہ بھی آیا ہے جیسے ان ترک خیران الوصیۃ (2:18) (جب تم میں سے کسی پر موت کا وقت آجائے اور) اگر وہ کچھ مال چھوڑ جانیوالا ہو تو تم پر دستور کے مطابق والدین اور اقرباء کے لئے وصیت کرنا فرض ہے خدا سے ڈرنے والوں پر یہ ایک حق ہے۔ یا وانہ لحب الخیر لشدید (100:8) اور وہ مال کی سخت محبت کرنے والا ہے۔ فللوالدین۔ ای فانفقو علی الوالدین۔ ابن السبیل۔ سافر۔ لفظی معنی ہیں راستہ کا بیٹا۔ چونکہ مسافر راہ نور دی کرتا ہے اس لئے اسے ابن السبیل کہتے ہیں۔ وما تفعلوا من خیر۔ میں ما موصولہ ہے اور خیر سے مراد نیکی (کوئی بھی ہو کسی بھی صورت میں ہو) ہے۔ یہ جمہ شرط کے معنوں میں ہے اور فان اللہ بہ علیم جواب شرط ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ایک شخص عمر و بن جمبوح بہت مالدار تھا اس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ ہم کیا خرچ کریں اور کن لوگوں پر خرز کریں اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور بتایا کہ خرچ تو ہر آدمی اپنی طاقت کے مطابق کرے مگر ترتیب کے ساتھ خرچ کے مصارف بتا دیئے۔ میمون مہران اس آیت کو پڑھ کر کہنے لگے یہ ہیں مسلمان کے خرچ کرنے کی جگہیں۔ ان میں طلبہ۔ سارنگی۔ ، چوبی تصویروں اور گھر کی آرائش کا ذکر نہیں ہے ، (ابن کثیر، رازی) معلوم ہوا کہ اس قسم کے تمام فضول مصارف باطل اور اسراف میں داخل ہیں۔ آخر میں بتایا کہ جو خرچ نیک راہ میں ہوگا اللہ تعالیٰ اس کی قدر دانی ضرور فرمائے گا اور اس کا پورا بدلہ دے گا۔ مسئلہ آیت میں صدقہ تطوع کا بیان ہے ورنہ ماں باپ کو زکوہ دینا جائز نہیں ہے۔ دیکھئے سورت توبہ آیت 60)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 215 ماذا (کیا) ۔ ینفقون (وہ خرچ کریں گے) ۔ ما تفعلوا (جو کچھ تم کرتے ہو) ۔ من خیر (بھلائی (کے جذبے) سے) ۔ تشریح : آیت نمبر 215 اس آیت میں یہ ارشاد کیا گیا ہے کہ انسان جو بھی نیکی یا بھلائی کا کام کرتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں جاتا، نہ وہ اللہ کے علم سے باہر ہے نہ وہ کسی چیز کو فراموش کرتا ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ عظیم اجر ہے جو دس درجوں سے لے کر سات سو درجوں تک ہوتا ہے۔ مکہ مکرمہ کے مشرکین نے بےبس مسلمانوں پر جو ظلم ڈھا رکھے تھے ان کا سلسلہ مدینہ منورہ جا کر بھی ختم نہیں ہوا لہٰذا جہاد فرض ہونے کے بعد ان کی پوری توجہ مکہ کو مشرکین کے قبضہ سے آزاد کرانا تھا اس لئے مسلمانوں کی پوری پوری توجہ اس طرف تھی۔ اس توجہ کی وجہ سے والدین، رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں کے حقوق متاثر ہونے لگے تھے اس لئے یہ سوال کیا گیا ۔ جواب میں فرمایا کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں اور جدو جہد کرنے میں اعتدال و تو از کو قائم رکھو کہ جس طرح تم اللہ کی راہوں میں جدو جہد کرتے ہو وہ ضرور کرو لیکن اس کا خیال رہے کہ والدین ، رشتہ داروں ، کمزوروں ، بےبسوں اور مسکینوں کے حقوق بھی متاثر نہ ہونے پائیں جو تمہاری امداد اور تعاون کے مستحق ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ ماں باپ کو زکوة اور دوسرے صدقات واجبہ دنیا درست نہیں اس آیت میں نفلی خیرات کا بیان ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس سوال کا جواب یہاں اس لیے دیا گیا ہے کہ لوگو ! مشکلات اور مصائب میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو۔ کیونکہ صدقہ رد بلا ہوتا ہے۔ اللہ کی رضا کے طالب عسر و یسر میں خرچ کرتے ہیں۔ یہ مومنوں کی صفت ہے۔ یہاں پے در پے چھ سوالات کے جواب دیئے جارہے ہیں۔ جب کہ دو سوالوں کے جواب دعا اور چاند کے متعلق دیئے جاچکے ہیں۔ قرآن مجیدنے زیادہ سوالات کرنے کی حوصلہ شکنی کی ہے لیکن اس کا یہ معنی نہیں کہ ضرورت کے تحت بھی سوال نہ کیا جائے۔ بعض سوال اس قدر ناگزیرہوتے ہیں جن کے بغیر سامعین حقیقت حال کو پوری طرح سمجھ نہیں سکتے۔ لہٰذا جائز سوال کرنے کی اجازت ہی نہیں بلکہ حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کا تفصیل کے ساتھ جواب دیتے ہوئے ضمنی وضاحتیں بھی کردی گئیں۔ چناچہ آیت ٢١٥ سے ٢٢٣ تک یہی اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ پہلا سوال یہ تھا کہ کیا خرچ کریں ؟ فرمایا : اپنے مال سے خرچ کرو۔ یہاں مال کو خیر قرار دیتے ہوئے فرمایا تم جو بھی کروگے اللہ تعالیٰ اسے اچھی طرح جانتا ہے پھر اس کی مدّات کی تفصیل پیش فرمائی کہ سب سے پہلے والدین کی خدمت، دلجوئی اور ان کے ساتھ احسان سے پیش آیاجائے۔ کیونکہ ہر والدین حسب استطاعت پہلے اپنی اولاد پر خرچ کرتے ہیں لہٰذا جب اولاد اس قابل ہو تو انہیں بھی والدین کو اولیّت دینی چاہیے۔ ان کے بعد مستحق رشتہ داروں کی باری آتی ہے۔ پھر معاشرہ کے نہایت ہی پسماندہ طبقہ یتیموں کا حق ہے اور ان کے بعد مساکین اور غریب الوطن لوگوں کا استحقاق بنتا ہے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس ضمن میں سوال ہوا تو ارشاد فرمایا : والدین میں ماں کی خدمت کیجیے ! تین دفعہ یہی ارشاد فرمانے کے بعد والد کا نام لیا اور پھر فرمایا کہ (ثم الاقرب فالأقرب) پھر جو ان کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ [ رواہ أبو داوٗد : کتاب الأدب، باب فی بر الوالدین ] یہ ترتیب ایسی ہے جس کے لیے بڑے بڑے رجسٹروں اور دفاتر کی ضرورت نہیں۔ شہری ہو یا دیہاتی ہر کوئی اپنے رشتہ داروں کو جانتا ہے۔ کون ان میں ضرورت مند اور کون سا شخص صدقات سے مستغنی ہے ؟ پھر دنیا میں شاید ہی کوئی بد قسمت ہوگا جس کا کوئی بھی قریبی نہ ہو۔ خدانخواستہ اگر کوئی بالکل لاوارث ہے تو بیت المال اس کی کفالت کرے گا۔ یہ ایسا فطری اور جانا پہچانا نظم ہے کہ جس سے کوئی بھی غریب اور مسکین محروم نہیں رہ سکتا لیکن افسوس ! مسلمانوں نے جس طرح شریعت کے دوسرے احکامات کا حلیہ بگاڑا ہے۔ ایسے ہی اس فطری فہرست اور نظم کو توڑ کر گدا گری میں اضافہ کیا ہے۔ جس سے گداگر تو کئی جگہوں سے تعاون حاصل کرلیتے ہیں لیکن سفید پوش حضرات غربت کی چکّی میں اسی طرح پستے رہتے ہیں۔ اگر مسلمان مالدار منہ ملاحظوں اور خوشامدوں سے پرہیز کرتے تو نظم قائم رہنے کے ساتھ باہمی محبتیں بھی برقرار رہتیں۔ یہاں صدقہ سے مراد فرضی صدقات نہیں۔ کیونکہ زکوٰۃ والدین پر خرچ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ یاد رہے کہ عام صدقات انفرادی طور پر خرچ کرنا بہتر ہیں اور زکوٰۃ اجتماعی طور پر صرف کرنا افضل ہے۔ ابن السبیل : جہاں تک مسافر کے ساتھ تعاون کا تعلق ہے۔ آپ نے مسافر کی پریشانی کو اس قدر اہمیت دی اور ارشاد فرمایا : (لِلسَّاءِلِ حَقٌّ وَإِنْ جَاءَ عَلٰی فَرَسٍ ) [ رواہ أبو داوٗد : کتاب الزکوٰۃ، باب حق السائل ] ” اگر سائل گھوڑے پر سوار ہو کر کسی کے ہاں آکر سوال کرے تو اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ “ نامعلوم وہ کس حادثے کا شکار ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے بظاہر خوشحال دکھائی دیتے ہوئے بھی سوال کرنے پر مجبور ہے۔ مسائل ١۔ رزق خیر ہے۔ ٢۔ تعاون کے پہلے مستحق والدین ہیں۔ ٣۔ والدین کے بعد رشتہ دار ‘ یتیم ‘ مسکین اور ضرورت مند مسافر۔ ٤۔ صدقہ کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہر نیکی کو جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن انفاق فی سبیل اللہ کا نظام : ١۔ وہ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ کس طرح مال خرچ کریں ؟ کہہ دو جو مال خرچ کرنا چاہو وہ والدین، قریبی رشتہ داروں یتیم، مساکین اور مسافروں پر خرچ کرو۔ (البقرۃ : ٢١٥) ٢۔ صدقات مفلسوں، محتاجوں، عاملین، تالیف قلب، غلاموں کی آزادی، قرض داروں، اللہ کی راہ اور مسافروں کے لیے ہیں۔ (التوبۃ : ٦٠) ٣۔ اپنے صدقات ان فقرأ پر خرچ کرو جو اللہ کی راہ میں محبوس کردیے گئے ہیں۔ (البقرہ : ٢٧٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

جیسا کہ واضح ہے ، سورت کے اس حصے میں احکام کے سوال و جواب کی فضا ہے ۔ جیسا کہ ہم آیت یسئلونک عن الاھلۃ کی تفسیر میں بیان کر آئے ہیں کہ یہ ایک ایسا منظر ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اسلامی نظریہ حیات کس قدر بیدار تھا ، جماعت کے افراد کے دلوں پر کس طرح چھایا ہوا تھا اور یہ کہ مسلمان اپنی روزمرہ کی زندگی کے ہر معاملے میں اپنے نظریے کا حکم معلوم کرنے کے لئے کس قدر بےتاب تھے تاکہ ان کا طرز عمل ان کے نظریہ حیات کے مطابق ہو اور یہ ایک صحیح مسلمان کی پختہ علامت ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں اسلام کا حکم معلوم کرنے کی کوشش کرے ۔ اور وہ اس وقت تک عملی قدم نہ اٹھائے جب تک یہ معلوم نہ کرلے کہ اس بارے میں اسلام کا کیا حکم ہے ؟ جس چیز کو اسلام برقرار رکھے وہ اس کا دستور اور قانون بن جائے اور جسے اسلام ترک کردے وہ اس کے لئے ممنوع اور حرام ہوجائے ۔ یہ حساسیت دراصل اس نظریہ حیات پر پختہ ایمان کی علامت ہے۔ یہودیوں ، منافقین اور مشرکین نے ، اسلام کی بعض اصلاحات کے خلاف جو اعتراضات شروع کر رکھے تھے وہ اس سلسلے میں وہ سازش کے طور پر حملے کررہے تھے ، ان سے متاثر ہوکر یا ان کی اصل حقیقت اور حکمت معلوم کرنے کی خاطر بعض مسلمان بھی سوالات اٹھا رہے تھے ۔ ان اصلاحات کے خلاف یہودی سخت زہریلا پروپیگنڈا کرتے تھے اور بعض مسلمان اس سے متاثر بھی ہوجاتے ۔ ایسے مواقع پر قرآن مجید کا کوئی حصہ نازل ہوتا اور مسئلہ زیر بحث کا فیصلہ کردیتا ۔ مسلمان یقین حاصل کرلیتے ، سازشیں ختم ہوجاتیں ۔ فتنے اپنی موت آپ مرجاتے اور سازشیوں کی سازش خود ان کے گلے پڑجاتی ۔ ان سوالات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں قرآن مجید چومکھی فکری جنگ لڑرہا تھا ، کبھی یہ معرکہ خود مسلمانوں کے دل و دماغ میں برپا ہے۔ کبھی مسلمانوں کی صفوں میں اور کبھی ان دشمنان اسلام کے خلاف ہے جو اسلام سے برسر پیکار تھے اور اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ یہ سبق بھی اس فکری جنگ کا حصہ ہے اور اس میں بعض سوالات کے جوابات دیئے گئے ہیں ۔ مثلاً انفاق ، اس کی مقدار ، اس کے مصرف اور مال کی قسم جس سے انفاق کیا جائے ، کے بارے میں سوال ، حرام مہینوں میں لڑنے کے بارے میں سوال ، شراب اور جوئے کے بارے میں سوال ، یتیموں کے بارے میں سوال ، ان سب سوالات کے اسباب وہی تھے جن کا ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں اور آیات پر بحث کے وقت تفصیلات عرض ہوں گی انشاء اللہ ! اس سوال سے پہلے انفاق فی سبیل اللہ کے بارے میں متعدد آیات نازل ہوچکی تھیں ۔ جن حالات میں تحریک اسلامی کا آغاز ہوا ، ایسے حالات میں انفاق فی سبیل اللہ نہایت ضروری ہوتا ہے ، تاکہ اسلامی جماعت مصائب ومشکلات اور ان جنگی معرکوں میں دشمنوں کا مقابلہ کرسکے ، جو اسے درپیش آنے والے تھے ۔ انفاق کی اہمیت ایک دوسری وجہ سے بھی اس دور میں زیادہ ہوگئی تھی ، مثلاً یہ کہ تحریک اسلامی میں ساتھیوں کے درمیان اجتماعی تکافل کے قیام کی بھی اشد ضرورت تھی ۔ افراد جماعت کے مابین ظاہری امتیازات کو ختم کرنے کی ضرورت تھی ، تاکہ ہر فرد یہ سمجھے کہ وہ ایک جسم کا عضو ہے اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے اور نہ کوئی چیز ان سے روکی جاتی ہے ۔ شعوری طور پر ایک جماعت کے قیام کے لئے اجتماعی تکافل اور انفاق کا نظام قائم کرنا بہت ضروری ہے ۔ افراد جماعت کی کارکردگی میں اضافہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی ضروریات کا لحاظ رکھا جائے ۔ ایسے حالات میں بعض مسلمانوں نے سوال کیا تھا کہ وہ کیا خرچ کریں ؟ سوال تو یہ تھا کہ وہ کیا خرچ کریں ؟ نوعیت انفاق کیا ہو ؟ جواب میں انفاق کی صفت اور انفاق کے مصارف بیان کئے گئے : قُلْ مَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ ” جو مال بھی تم خرچ کرو “ اس تعبیر میں دواشارے ہیں ۔ ایک یہ کہ جو چیز بھی تم خرچ کرو اسے خیر ہونا چاہئے ۔ دینے والے کے لئے بھی خیر ہو ، لینے والے کے لئے بھی ۔ اس معاشرے کے لئے بھی جس میں یہ لین دین ہورہا ہے اور اپنی ذات میں بھی وہ خیر ہو ۔ اس طرح ہو کہ عمل بھی پاک ۔ تحفہ بھی پاک ۔ چیز بھی پاک۔ دوسرا اشارہ یہ ہے کہ خراچ کرنے والے کو اچھی طرح سوچ کر اپنے مال سے اعلیٰ تر چیز خرچ کرنی چاہئے ۔ اس کے پاس جو بہترین چیزیں ہوں انہیں خرچ کرے ۔ اس میں دوسروں کو شریک کرے ۔ انفاق سے دل پاک ہوجاتا ہے ۔ نفس کا تزکیہ ہوتا ہے اور دوسروں کا فائدہ ہوتا ہے ۔ ان کی اعانت ہوجاتی ہے ۔ پھر تلاش کرکے اپنے مال میں سے بہتر چیز خرچ کرنا ایک ایسا اقدام ہے جس سے دل میں طہارت آجاتی ہے ۔ نفس انسانی پاک وصاف ہوجاتا ہے اور انفاق کو اپنانے کا اعلیٰ مفہوم سامنے آتا ہے۔ لیکن یہ محض اشارہ ہے اور اسے لازم اور فرض قرار نہیں دیا گیا ۔ جبکہ دوسری آیت میں اس کی وضاحت کردی گئی ہے ۔ اس سلسلے میں مناسب ہے کہ اوسط درجے کا مال اللہ کی راہ میں دیا جائے ۔ نہ بہت قیمتی ہو اور نہ بالکل ردی ہو ، البتہ آیت میں یہ اشارہ ہے کہ نفس پر قابو پانے کے لئے بہتر مال خرچ کیا جائے اور اہل ایمان کو اس پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یہی قرآن کریم کا انداز تربیت ہے یعنی بذریعہ ترغیب اور آمادگی اصلاح کی جاتی ہے ۔ انفاق کا طریقہ اور مصرف کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالأقْرَبِينَ وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ” اپنے والدین رشتے داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو۔ “ انفاق کرنے والے اور ان لوگوں کے درمیان مخصوص روابط ہیں ۔ بعض افراد اور انفاق کرنے کے درمیان نسبتی رشتہ ہے ۔ بعض کے درمیان رحم کے رشتے ہیں ۔ بعض کے ساتھ محض رحم و شفقت کا رشتہ ہے اور بعض کے ساتھ نظریات کے وسیع حدود میں صرف انسانی ہمدردی کا تعلق ہے ۔ اور سب کو ایک ہی آیت میں سمودیا گیا ہے ۔ والدین ، اقربین ، یتامی ، مساکین ، مسافر ، ان سب کو اسلامی نظریہ ٔ حیات کے وسیع دائرے میں ضروریات اور بوقت ضرورت معاونت کی گارنٹی حاصل ہے ۔ انفاق کے مصارف میں وہی ترتیب ہے جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے ۔ نیز بعض دوسری آیات میں بھی اس کی وضاحت کی گئی اور بعض احادیث میں اس کی مزید تفصیل اور تشریح کا ذکر ہے ۔ صحیح مسلم میں ایک روایت ہے جس میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص سے کہا :” پہلے اپنے نفس سے آغاز کرو اور اس پر صدقہ کرو۔ اس سے زیادہ ہو تو اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو ، اگر پھر بھی کچھ بچ جائے تو رشتے داروں پر خرچ کرو ، اگر ان سے بھی بچ جائے .......“ مصارف کی اس ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے نفس انسانی کی تربیت اور اس کی قیادت اور راہنمائی کے لئے کیا حکیمانہ اور سادہ انداز اختیار کیا ہے۔ اسلام انسان کے ساتھ اس کی حقیقت کے مطابق معاملہ کرتا ہے ۔ اس کی فطرت ۔ اس کے میلانات اور اس کے رجحانات کے عین مطابق۔ اسلام انسان کو ساتھ لے کر اس طرح چلتا ہے جس طرح بچہ پیدا ہوتا ہے پھر وہ کھڑا ہوجاتا ہے اور ایک متعین مقام پر ہوتا ہے ۔ اسلام اس کا ہاتھ پکڑ کر قدم بقدم اسے لے کر چلتا ہے ۔ آہستہ آہستہ اس کی یہ رفتار اس کی فطرت ، اس کے رجحانات اور اس کی استعداد کے تقاضوں کے مطابق ہوتی ہے ۔ وہ تدریج کے ساتھ اپنے ساتھ پوری زندگی کو نشوونما اور ترقی دیتا جاتا ہے ۔ وہ بلندی کی طرف جارہا ہوتا ہے۔ لیکن تنگی اور تھکاوٹ کا اسے احساس تک نہیں ہوتا ۔ اسلام کی ترقی کا انداز یہ نہیں ہے کہ کسی کو بیڑیاں اور ہتھکڑیاں پہناکر اور اسے گھسیٹ کر بلندیوں تک لے جایا جائے ۔ نہ ہی اس کی فطری قوتوں اور فطری رجحانات کو دبایا جاتا ہے کہ وہ ایک پرندے کی طرح پنجرے میں بند ہوجائے اور پھڑپھڑائے اسے راہ ترقی پر اس طرح نہ لے جایا جائے کہ ترقی نہ رہے بلکہ ظلم بن جائے ۔ یا اسے ٹیلوں اور پہاڑیوں سے اڑاتے ہوئے لے جایاجائے ۔ بلکہ اسے آہستگی اور نرمی سے اوپر کی طرف لے جایاجائے ۔ قدم زمین پر ہوں ، آنکھیں آسمان پر ہوں اور دل افق کے ساتھ لٹکا ہوا ہو اور اس کی روح عرش کی بلندیوں میں واصل باللہ ہو۔ یہ بات تو اللہ کے علم میں تھی کہ انسان میں حب ذات کا داعیہ ہے ۔ اس لئے اللہ نے حکم دیا کہ پہلے اپنی ذات کے لئے بقدر کفایت سامان مہیا کرو۔ ذات کے بعد پھر دوسرے رشتہ داروں پر انفاق کا حکم دیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے کھانے پینے کی پاک چیزوں کو جائز قرار دیا ۔ اسے ترغیب دی کہ وہ ان حلال چیزوں سے لطف اٹھا ٤ ے ۔ البتہ یہ پابندی لگادی کہ عیاشی اور غرور سے دور رہے ۔ انفاق و صدقہ تو تب شروع ہوتا ہے جب انسان بقدر کفایت خود اپنی ضروریات پوری کرلے ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں :” بہترین صدقہ تو وہ ہے جو ضروریات پورا کرکے دیا جائے اور اوپر کا ہاتھ نچلے ہاتھ سے زیادہ بہتر ہے اور شروع اپنے خاندان سے کرو۔ “ حضرت جابر (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں :” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک شخص ایک انڈے کے برابر سونا لے کر حاضر ہوا۔ اس نے عرض کیا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ مجھے کان سے ملا ہے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے لے لیں ۔ یہ صدقہ ہے اور اس کے سوا میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منہ پھیرلیا۔ وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے داہنے جانب سے لے آیا اور وہی بات دہرائی ، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر منہ پھیرلیا۔ پھر بائیں جانب سے آیا اور وہی بات دہرائی ۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر منہ پھیرلیا۔ پھر وہ پیچھے کی طرف سے آیا اور وہی بات دہرائی ۔ اس پر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سونے کو لے لیا اور اسے اس پر دے مارا۔ اگر اسے لگی ہو تو یاد رکھنا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” تم میں ایک صاحب میرے پاس وہ سب کچھ لے کر آجاتا ہے جو اس کے پاس ہوتا ہے اور کہتا ہے یہ صدقہ ہے ، اور پھر بیٹھ جاتا ہے لوگوں سے بھیک مانگنے ۔ بہترین صدقہ وہ ہے جو غنا پر کیا جائے۔ “ یہ حقیقت اللہ تعالیٰ کے علم میں تھی کہ انسان سب سے پہلے اپنے قریبی افراد خاندان سے محبت کرتا ہے ، اپنی اولاد سے اور اپنے والدین سے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کی ذات کے بعد انفاق کے لئے ان افراد کو مستحق قرار دیا تاکہ وہ اپنی دولت کا کچھ حصہ ان پر خوشی ورضا کے ساتھ خرچ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں انسان کے اس فطری میلانات کا لحاظ رکھا ہے ، جو بےضرر ہیں ، بلکہ ان کا لحاظ رکھنے میں بھلائی اور حکمت پوشیدہ ہے ۔ اور اس حکمت کے ساتھ ساتھ بعض ایسے افراد کی کفالت بھی ہوجاتی ہے جو صدقہ دینے والے کے قریبی رشتہ دار بھی ہیں اور خود امت مسلمہ کے بھی افراد ہیں ۔ اگر ان حضرات کی اعانت ان کے اس قریبی رشتہ دار نے نہ کی تو وہ محتاج ہوں گے ۔ ان کے لئے اپنے اس قریب رشتہ دار سے امداد حاصل کرنا زیادہ بہتر ہے ، بہ نسبت اس کے کہ وہ کسی دور کے شناسا یا غیر شناسا شخص سے امداد لینے پر مجبور ہوجائیں ۔ پھر یہ فائدہ مزید ہے کہ اس کے ذریعہ انسان کی پہلی تربیت گاہ یعنی خاندان کے اندر امن و محبت میں اضافہ ہوگا اور افراد خاندان کے درمیان روابط مضبوط ہوں گے جو ایک عظیم انسانیت کی تعمیر میں خشت اول کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اپنے قریبی رشتہ داروں کے بعد انسان فطرتاً اپنے جملہ رشتہ داروں کو درجہ بدرجہ اور تعلقات ورابط کے مطابق ترجیح دیتا ہے اور خالق فطرت اس بات سے خوب واقف ہے ۔ اور یہ کوئی بری بات بھی نہیں ہے کیونکہ یہ رشتہ دار بھی بہرحال امت کا ایک حصہ ہیں اور اسلامی معاشرے کے اجزاء ہیں ۔ چناچہ ایک دولت مند مسلمان اپنے قریبی رشتے داروں کے دائرہ سے ایک قدم اور باہر نکل آتا ہے ۔ اس کی پیش رفت بدستور اس کے فطری رجحانات اور میلانات کی سمت میں ہے اور ان کے دور کے رشتے داروں کی ضرورت بھی پوری ہو رہی ہے اور دور کے رشتے داروں کے ساتھ محبت اور رشتے کے تعلقات بھی استوار ہورہے ہیں ۔ یوں اسلامی جماعت کی ابتدائی یونٹ کے باہم تعلقات مربوط ہوجاتے ہیں اور روابط قوی ہوجاتے ہیں۔ اپنی ذات اور قریب وبعید رشتے کے لوگوں پر خرچ کرنے کے بعد بھی اگر کچھ بچ رہتا ہے تو پھر اسلام کا حکم یہ ہے کہ معاشرے کے ان ضعفاء پر خرچ کرو جنہیں دیکھ کر ہی ایک آدمی شرافت ، جذبہ رحمت اور جذبہ اشتراک میں جوش میں آجاتا ہے اور ایک شریف انسان ایسے کمزور لوگوں کی امداد کے تیار ہوجاتا ہے ۔ ایسے لوگوں میں یتیم سب سے پہلے درجے میں آتے ہیں جو چھوٹے بھی ہوتے ہیں اور کمزور بھی ۔ پھر ان مساکین کا درجہ ہے جن کے پاس اخراجات کے لئے کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ لیکن وہ اپنی شرافت اور سفید پوشی کی وجہ سے ۔ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے ۔ پھر مسافروں کا نمبر آتا ہے جن کے پاس اگر مال و دولت ہوتا ہے لیکن ان سے دور گھر میں اور اس کے حصول میں رکاوٹیں ہوتی ہیں۔ ابتدائی دور میں تحریک اسلامی میں ایسے لوگوں کی کثرت تھی ۔ یہ لوگ اپنی دولت مکہ مکرمہ میں چھوڑ کر ہجرت کر آئے تھے ، اور اب یہ لوگ اسلامی معاشرے کے افراد تھے ۔ اسلام تحریک اسلامی کے خوش حال لوگوں کی راہنمائی کرتا ہے کہ وہ ایسے نادار لوگوں پر خرچ کریں ۔ اس سلسلے میں اسلام ان لوگوں کے پاک فطری رجحانات کو ابھارتا ہے اور ان کی تطہیر کرتا ہے اور بڑی نرمی اور تدریج کے ساتھ ان لوگوں کو نصب العین تک پہنچا دیتا ہے۔ پہلے ان خوش حال لوگوں کے نفوس کا تزکیہ کیا جاتا ہے ۔ اور وہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں وہ طیب نفس کے ساتھ خرچ کرتے ہیں ، خرچ پر راضی ہوتے ہیں ۔ بغیر کسی تنگی اور بغیر کسی جبر کے ، اپنے اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ معاشرے کے ضعیف اور محتاج لوگوں کو ان کی ضروریات مل جاتی ہیں ۔ دوسرے یہ کہ تمام افراد معاشرہ باہم پیوست ہوجاتے ہیں ۔ ایک دوسرے کے کفیل اور مددگاربن جاتے ہیں لیکن اس اجتماعی کفالت میں نہ جبر ہے اور نہ کسی کا نقصان ہے ۔ اسلام کی یہ راہنمائی نہایت ہی لطیف ۔ نہایت ہی خوشگوار اور نہایت ہی دوررس ہے ۔ اس میں بھلائی ہی بھلائی ہے ۔ یہ راہنمائی نہ جابرانہ ہے ، نہ مصنوعی ہے اور نہ اس میں کسی قسم کا تشدد ہے ۔ انفاق فی سبیل اللہ کے اس کفالتی انتظام کا سررشتہ بھی افق اعلیٰ سے ملادیا جاتا ہے ۔ اس لئے انفاق کرکے دل مومن میں تعلق باللہ کا ایک جوش پیدا ہوجاتا ہے ۔ اس کی دادودہش میں ، اس کے قول وفعل میں ، اس کے ضمیر ونیت میں اور اس کے فہم و شعور میں ، غرض اس کی پر چیز میں تعلق باللہ پیدا ہوجاتا ہے وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ” اور جو بھی بھلائی تم کروگے ، اللہ اس سے باخبر ہوگا۔ “ اللہ تعالیٰ اس انفاق سے بھی باخبر ہے ۔ اس کی غایت سے بھی خبردار ہے ، اس کے پس منظر میں جو نیت ہے اس کا بھی اسے علم ہے ۔ اس لئے یہ انفاق ہرگز ضائع نہیں ہوسکتا ۔ وہ اللہ کے کھاتے میں لکھا گیا ہے اور اس کھاتے میں کوئی چیزضائع نہیں ہوتی ۔ وہ لوگوں کے حقوق میں کوئی کمی نہیں کرتا اور نہ ان پر کسی قسم کا ظلم کرتا ہے ، لیکن اس پر ریاکاری کا کچھ اثر ہوتا ہے نہ دھوکہ بازی اس کے ہاں چل سکتی ہے ۔ یوں قرآن کی یہ راہنمائی دلوں کو لے کر افق اعلیٰ کی بلندیوں تک جاپہنچتی ہے ۔ یہ دل صاف و شفاف ہوجاتے ہیں ، یکسو ہوجاتے ہیں اور صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہوجاتے ہیں ، لیکن بڑی نرمی کے ساتھ ، بڑی دھیمی رفتار کے ساتھ ، بغیر کسی مصنوعی طریقے کے ، بغیر کسی جابرانہ ذریعے کے ۔ یہ ہے وہ نظام تربیت جسے اللہ تعالیٰ نے وضع کیا ہے جو علیم بھی ہے اور خبیر بھی ہے ۔ اور اس نظام تربیت کے اصولوں کے مطابق اسلامی نظام زندگی تیار ہوتا ہے۔ یہ نظام انسان کی نکیل اپنے ہاتھ میں لے کر ایک عام انسان کی قیادت سنبھالتا ہے ۔ وہ جہاں بھی ہو وہاں سے اس کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے اور اسے عروج و کمال کے اس مقام بلند تک لے جاتا ہے جہاں تک یہ انسانیت اسلام سے قبل اپنی پوری تاریخ میں پہنچ سکی ہوتی ۔ ہاں انسانیت نے یہ مقام بلند اگر کبھی حاصل کیا ہے تو وہ صرف اسلامی نظام زندگی کے سایہ میں ، اسلام کے صراط مستقیم پر چل کر ۔ انفاق فی سبیل اللہ کے بعد ، جہاد فی سبیل اللہ کا حکم آجاتا ہے اور اس میں بھی اسلام نے وہی منہاج تربیت اختیار کیا ہے جو انفاق کے سلسلے میں اختیار کیا گیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کن مواقع میں مال خرچ کیا جائے اسباب النزول ص ٦٠ میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت عمرو بن جموح انصاری (رض) کے بارے میں نازل ہوئی، وہ بوڑھے آدمی تھے اور بہت مال والے تھے، انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم کیا صدقہ کریں اور کس پر خرچ کریں ؟ اس پر آیت نازل ہوئی، تفسیر درمنثور ص ٢٤٣ ج ١ میں ابن جریج سے نقل کیا ہے کہ اس آیت میں نفلی صدقات کا ذکر ہے اور زکوٰۃ اس کے علاوہ ہے۔ سبب نزول کے بارے میں جو روایت نقل کی گئی ہے اس سے معلوم ہوا کہ دو باتوں کا سوال کیا گیا تھا، اول یہ کہ کیا خرچ کریں، دوم یہ کہ کس پر خرچ کریں، اللہ جل شانہ نے اولاً دوسرے سوال کا جواب دیا کہ والدین پر اور دیگر رشتہ داروں پر، یتیموں اور مسکینوں پر خرچ کرو۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپنے نفس پر اور بیوی بچوں پر چونکہ انسان اپنے ذاتی تقاضے سے خرچ کرتا ہے اس لیے سوال ان کے علاوہ دوسروں پر خرچ کرنے کے متعلق تھا۔ لہٰذا اخراجات کی تفصیل بتاتے ہوئے پہلے والدین کا ذکر فرمایا پھر ماں باپ کے بعد دوسرے رشتہ داروں کا اجمالی ذکر فرمایا جو اپنے کنبہ کے لوگ ہیں۔ پھر یتیموں اور مسکینوں کا ذکر فرمایا جو رشتہ داروں میں ہوتے ہیں اور رشتہ داروں کے علاوہ دوسرے خاندانوں میں بھی ہوتے ہیں۔ سنن ابی داؤد ص ٣٤٣ ج ٢ میں ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں کس کے ساتھ حسن سلوک کروں ؟ فرمایا، اپنی ماں کے ساتھ ! عرض کیا پھر کس کے ساتھ ؟ فرمایا اپنے باپ کے ساتھ، پھر جو تجھ سے زیادہ قریب ہو، پھر اس کے بعد جو تجھ سے زیادہ قریب ہو۔ پھر (وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ) فرما کر پہلے سوال کا جواب دیدیا کہ جو مال بھی تھوڑا یا بہت خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ کو اس کا خوب علم ہے وہ اس سب کی جزا عطا فرماوے گا اور مال کو جو خیر سے تعبیر فرمایا اس میں یہ بتادیا کہ مال حلال ہو (کیونکہ مال حرام خیر نہیں ہے) اور رضائے الٰہی کے لیے خرچ ہو (کیونکہ جس خرچہ سے ریا کاری اور شہرت مقصود ہو وہ خیر نہیں ہے) ۔ مفسرین نے فرمایا ہے کہ دوسرے سوال کے جواب کو اس لیے اہمیت دی گئی کہ کوئی شخص کتنا ہی مال خرچ کرے جب تک صحیح مصرف میں خرچ نہ ہو ثواب کا استحقاق نہ ہوگا۔ یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی فضیلت سے متعلق بعض روایات حدیث آیت کریمہ (لَیْسَ الْبِِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ ) کے ذیل میں گزر چکی ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

413 مضمون انفاق کا دوسری بار بیان۔ آیت سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ سوال منفَق کے متعلق ہے یعنی کیا اور کس قدر خرچ کریں اور جواب میں خرچ کے مصارف بیان کیے گئے ہیں۔ اس سے اس طرف اشارہ ہے کہ اس بات کو چھوڑو کہ کیا اور کتنا خرچ کرنا چاہیے۔ اصل چیز تو مصرف ہے۔ اس لیے تم جو کچھ بھی خرچ کرو خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ وہ صحیح مصرف میں خرچ ہو۔ ظاھر الایۃ انہ سئل عن المنفق فاجاب ببیان المصرف صریحا لانہ اھم فان اعتداد النفقۃ باعتبارہ (روح ص 105 ج 2) حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ سوال یہ تھا کہ کتنا خرچ کریں تو جواب ملا کہ جتنا چاہے خرچ کرو مجھے تو کچھ نہیں دینا بلکہ اپنے والدین وغیرہ ہی کو دینا ہے۔414414 ان الفاظ کی تفصیل پہلے گذر چکی ہے اور ابن السبیل کے عموم میں جہاد فی سبیل اللہ کا مسافر بھی شامل ہے۔ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ نیکی خواہ کوئی ہو مالی ہو یا بدنی، چھوٹی ہو یا بڑی اللہ کے علم سے باہر نہیں ہے۔ اس لیے وہ ہر نیکی کی پوری پوری جزا دے گا۔ یہاں تک انفاق کا ذکر تھا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! لوگ آپ سے دریافت کرتے ہیں کیا چیز خرچ کریں اور کیا چیز خیرات کیا کریں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہہ دیجئے مال میں سے جو کچھ بھی خیرات کرو تمہاری مرضی اور تمہاری استطاعت پر موقوف ہے لیکن یہ سن لو کہ وہ ماں باپ کے لئے حق ہے اور قرابت داروں کا حق ہے اور یتامی اور مساکین کا حق ہے اور مسافر کا حق ہے اور تم جو نیک کام بھی کرو خواہ خیرات ہو یا خیرات کے علاوہ کوئی اور نیک کام ہو بہرحال اللہ تعالیٰ اس سے واقف اور با خبر ہے (تیسیر) شان نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ اور خیرات کے فضائل بیان فرمائے تھے اس پر ایک صاحب جن کا نام عمرو بن الجموح ہے انہوں نے دریافت کیا یا رسول اللہ ہم اپنے اموال میں سے کیا خرچ کریں اور کہاں خرچ کریں اس پر یہ آیت نازل ہوئی انفاق کے معنی تو اصل میں خرچ کرنے کے ہیں جہاں بھی کوئی خرچ کرے لیکن قرآن شریف میں چونکہ عام طور سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے یہ لفظ بولا جاتا ہے اس لئے ہم نے تیسیر میں خیرات کردیا ہے اور جہاں اس قسم کا موقع ہوتا ہے وہاں ہم اکثر جگہ خیرات ہی کرتے ہیں اس کو یاد رکھناچاہئے تاکہ کوئی شبہ نہ ہو اگر سائل کے سوال یہ بھی ہے کہ کہاں خرچ کریں تب تو جواب بالکل سوال کے مطابق ہے اور اگر شان نزول کی رعایت نہ کی جائے تب جواب میں مصارف خیرات کا ذکر کرنا بطور اتمام کے ہوگا اور یہ ایک خوبی ہوگی کہ جواب میں اور زائد بات بھی بتادی جائے۔ مطلب یہ ہوگا کہ خرچ کو دریافت کرتے ہو تو خرچ کو کیا ہے جو توفیق ہو خرچ کرو لیکن مصارف اور خرچ کے مواقع زیادہ اہم ہیں وہی خرچ اور خیرات موجب ثواب ہوں گے جو اپنے موقع اور مصرف میں خرچ کئے جائیں اس لئے جواب کے ساتھ مصارف خیر بھی بیان فرما دئیے۔ مال کو اس آیت میں خیر فرمایا کیونکہ مال اگر صحیح مصرف میں خرچ کیا جائے تو وہ یقینا نیک اور بھلائی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اس لئے اس کو خیر فرمادیا۔ اور مصارف خیر میں ماں باپ کا ذکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں صدقات نافلہ مراد ہیں زکوۃ مراد نہیں ہے اس لئے کہ زکوۃ ماں باپ کو دینے کا حکم نہیں۔ آخر میں یہ فرما دیا کہ جو نیک کام بھی کرو یہ سمجھ کر کرو کہ اللہ تعالیٰ نے اس نیکی سے باخبر اور واقف ہے اس سے دو باتیں ہوں گی ایک تو نیت میں اخلاص ہوگا کہ جب اللہ تعالیٰ ملاحظہ فرما رہے ہیں تو نیک کام نیک نیتی سے کرنا چاہئے دوسرے یہ کہ ثواب کی طرف سے اطمینان ہوگا کہ جب آقا ہمارے کام کو خود ملاحظہ کر رہا ہے تو اجر وثواب کے ملنے میں کوئی اندیشہ نہیں بلکہ وہ ضرور اجر عنایت فرمائے گا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں لوگوں نے پوچھا تھا کہ مالوں میں کس مال کا خرچ کرنا بہت ثوا ب ہے جواب میں فرمایا کہ مال کوئی ہو لیکن جس قدر ٹھکانے پر خرچ ہو ثواب زیادہ ہے۔ (موضح القرآن) اب آگے احکام کے سلسلے میں جہاد کے وجوب کا اعلان فرماتے ہیں اور اسی میں ایک لطیف پیرایہ کے ساتھ اس امر کی طرف بھی اشارہ فرماتے ہیں کہ احکام کی مصالح اور حکمتوں کے درپے نہ ہوا کرو بلکہ احکام کی تعمیل پر دھیان رکھا کرو۔ (تسہیل)