Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 221

سورة البقرة

وَ لَا تَنۡکِحُوا الۡمُشۡرِکٰتِ حَتّٰی یُؤۡمِنَّ ؕ وَ لَاَمَۃٌ مُّؤۡمِنَۃٌ خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشۡرِکَۃٍ وَّ لَوۡ اَعۡجَبَتۡکُمۡ ۚ وَ لَا تُنۡکِحُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَتّٰی یُؤۡمِنُوۡا ؕ وَ لَعَبۡدٌ مُّؤۡمِنٌ خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشۡرِکٍ وَّ لَوۡ اَعۡجَبَکُمۡ ؕ اُولٰٓئِکَ یَدۡعُوۡنَ اِلَی النَّارِ ۚ ۖ وَ اللّٰہُ یَدۡعُوۡۤا اِلَی الۡجَنَّۃِ وَ الۡمَغۡفِرَۃِ بِاِذۡنِہٖ ۚ وَ یُبَیِّنُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ ﴿۲۲۱﴾٪  11

And do not marry polytheistic women until they believe. And a believing slave woman is better than a polytheist, even though she might please you. And do not marry polytheistic men [to your women] until they believe. And a believing slave is better than a polytheist, even though he might please you. Those invite [you] to the Fire, but Allah invites to Paradise and to forgiveness, by His permission. And He makes clear His verses to the people that perhaps they may remember.

اور شرک کرنے والی عورتوں سے تاوقتیکہ وہ ایمان نہ لائیں تم نکاح نہ کرو ایماندار لونڈی بھی شرک کرنے والی آزاد عورت سے بہتر ہے ، گو تمہیں مشرکہ ہی اچھی لگتی ہو اور نہ شرک کرنے والے مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو دو جب تک وہ ایمان نہ لائیں ، ایمان والا غلام آزاد مُشرک سے بہتر ہے ، گو مُشرک تمہیں اچھا لگے ، یہ لوگ جہنم کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ جنت کی طرف اور اپنی بخشش کی طرف اپنے حکم سے بلاتا ہے وہ اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان فرما رہا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Prohibition of marrying Mushrik Men and Women Allah says; وَلاَ تَنكِحُواْ الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُوْمِنَّ ... And do not marry Al-Mushrikat (idolatresses) till they believe (worship Allah Alone). Allah prohibited the believers from marrying Mushrik women who worship idols. Although the meaning is general and includes every Mushrik woman from among the idol worshippers and the People of the Scripture, Allah excluded the People of the Scripture from this ruling. Allah stated: مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَـبَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا ءَاتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ (Lawful to you in marriage) are chaste women from those who were given the Scripture (Jews and Christians) before your time when you have given their due dowry, desiring chastity (i.e., taking them in legal wedlock) not committing illegal sexual intercourse. (5:5) Ali bin Abu Talhah said that Ibn Abbas said about what Allah said: وَلاَ تَنكِحُواْ الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُوْمِنَّ (And do not marry Al-Mushrikat (female idolators) till they believe (worship Allah Alone). "Allah has excluded the women of the People of the Scripture." This is also the explanation of Mujahid, `Ikrimah, Sa`id bin Jubayr, Makhul, Al-Hasan, Ad-Dahhak, Zayd bin Aslam and Ar-Rabi` bin Anas and others. Some scholars said that; the Ayah is exclusively talking about idol worshippers and not the People of the Scripture, and this meaning is similar to the first meaning we mentioned. Allah knows best. Abu Jafar bin Jarir (At-Tabari) said, after mentioning that there is Ijma that marrying women from the People of the Scripture is allowed, "Umar disliked this practice so that the Muslims do not refrain from marrying Muslim women, or for similar reasons." An authentic chain of narrators stated that Shaqiq said: Once Hudhayfah married a Jewish woman and Umar wrote to him, "Divorce her." He wrote back, "Do you claim that she is not allowed for me so that I divorce her?" He said, "No. But, I fear that you might marry the whores from among them." Ibn Jarir related that Zayd bin Wahb said that; Umar bin Khattab said, "The Muslim man marries the Christian woman, but the Christian man does not marry the Muslim woman." This Hadith has a stronger, authentic chain of narrators than the previous Hadith. Ibn Abu Hatim said that; Ibn Umar disliked marrying the women from the People of the Scripture. He relied on his own explanation for the Ayah: وَلاَ تَنكِحُواْ الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُوْمِنَّ (And do not marry Al-Mushrikat (female idolators) till they believe (worship Allah Alone). Al-Bukhari also reported that Ibn Umar said, "I do not know of a bigger Shirk than her saying that Jesus is her Lord!" Allah said: ... وَلاَمَةٌ مُّوْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ... And indeed a slave woman who believes is better than a (free) Mushrikah (female idolators), even though she pleases you. It is recorded in the Two Sahihs that Abu Hurayrah narrated that the Prophet said: تُنْـكَحُ الْمَرْأَةُ لاَِرْبَعٍ لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَلِجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاك A woman is chosen for marriage for four reasons: her wealth, social status, beauty, and religion. So, marry the religious woman, may your hands be filled with sand (a statement of encouragement). Muslim reported this Hadith from Jabir. Muslim also reported that Ibn Amr said that Allah's Messenger said: الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَة The life of this world is but a delight, and the best of the delights of this earthly life is the righteous wife. Allah then said: ... وَلاَ تُنكِحُواْ الْمُشِرِكِينَ حَتَّى يُوْمِنُواْ ... And give not (your daughters) in marriage to Al-Mushrikin till they believe (in Allah Alone). meaning, do not marry Mushrik men to believing women. This statement is similar to Allah's statement: لااَ هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلااَ هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ They are not lawful (wives) for them, nor are they lawful (husbands) for them. (60:10) Next, Allah said: ... وَلَعَبْدٌ مُّوْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ ... ...and verily, a believing servant is better than a (free) Mushrik (idolator), even though he pleases you. This Ayah indicates that a believing man, even an Abyssinian servant, is better than a Mushrik man, even if he was a rich master. ... أُوْلَـيِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ ... Those (Al-Mushrikun) invite you to the Fire, meaning, associating and mingling with the disbelievers makes one love this life and prefer it over the Hereafter, leading to the severest repercussions. Allah said: ... وَاللّهُ يَدْعُوَ إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ ... ...but Allah invites (you) to Paradise and forgiveness by His leave, meaning, by His Law, commandments and prohibitions. Allah said: ...and makes His Ayat clear to mankind that they may remember.

پاک دامن عورتیں بت پرست مشرکہ عورتوں سے نکاح کی حرمت بیان ہو رہی ہے ، گو آیت کا عموم تو ہر ایک مشرکہ عورت سے نکاح کرنے کی ممانعت پر ہی دلالت کرتا ہے لیکن دوسری جگہ فرمان ہے آیت ( وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ اِذَآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ مُحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ وَلَا مُتَّخِذِيْٓ اَخْدَانٍ ) 5 ۔ المائدہ:5 ) یعنی تم سے پہلے جو لوگ کتاب اللہ دئیے گئے ہیں ان کی پاکدامن عورتوں سے بھی جو زنا کاری سے بچنے والی ہوں ان کے مہر ادا کر کے ان سے نکاح کرنا تمہارے لئے حلال ہے ، حضرت ابن عباس کا قول بھی یہی ہے کہ ان مشرکہ عورتوں میں سے اہل کتاب عورتیں مخصوص ہیں ، مجاہد عکرمہ ، سعید بن جبیر ، مکحول ، حسن ، ضحاک ، قتادہ زید بن اسلم اور ربیع بن انس رحمہم اللہ کا بھی یہی فرمان ہے ، بعض کہتے ہیں یہ آیت صرف بت پرست مشرکہ عورتوں ہی کے لئے نازل ہوئی ہے یوں کہہ لو یا وُوں مطلب دونوں کا ایک ہی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ ابن جریر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی قسم کی عورتوں سے نکاح کرنے کو ناجائز قرار دیا سوائے ایمان دار ، ہجرت کر کے آنے والی عورتوں کے خصوصا ان عورتوں سے جو کسی دوسرے مذہب کی پابند ہوں ۔ قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت ( ۭوَمَنْ يَّكْفُرْ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ ۡ وَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ) 5 ۔ المائدہ:5 ) یعنی کافروں کے اعمال برباد ہیں ایک روایت میں ہے کہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سخت ناراض ہوئے یہاں تک کہ قریب تھا کہ انہیں کوڑے لگائیں ، ان دونوں بزرگوں نے کہا اے امیرالمونین آپ ناراض نہ ہوں ہم انہیں طلاق دے دیتے ہیں آپ نے فرمایا اگر طلاق دینی حلال ہے تو پھر نکاح بھی حلال ہونا چاہئے میں انہیں تم سے چھین لوں گا اور اس ذلت کے ساتھ انہیں الگ کروں گا ، لیکن یہ حدیث نہایت غریب ہے اور حضرت عمر سے بالکل ہی غریب ہے ، امام ابن جریر نے اہل کتاب عورتوں سے نکاح کر کے حلال ہونے پر اجماع نقل کیا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس اثر کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ یہ صرف سیاسی مصلحت کی بناء پر تھا تاکہ مسلمان عورتوں سے بےرغبتی نہ کریں یا اور کوئی حکمت عملی اس فرمان میں تھی چنانچہ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جب حضرت حذیفہ کو یہ فرمان ملا تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ کیا آپ اسے حرام کہتے ہیں ، خلیفۃ المسلمین نے جواب دیا کہ حرام تو نہیں کہتا مگر مجھے خوف ہے کہیں تم مومن عورتوں سے نکاح نہ کرو؟ اس روایت کی اسناد بھی صحیح ہے ، ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مسلمان مرد نصرانی عورت سے نکاح کر سکتا ہے لیکن نصرانی مرد کا نکاح مسلمان عورت سے نہیں ہو سکتا اس روایت کی سند پہلی روایت سے زیادہ صحیح ہے ، ابن جریر میں تو ایک مرفوع حدیث بھی باسناد مروی ہے کہ ہم اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کرلیں لیکن اہل کتاب مرد مسلمان عورتوں سے نکاح نہیں کر سکتے لیکن اس کی سند میں کچھ کمزوری ہے مگر امت کا اجماع اسی پر ہے ، ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ حضرت فاروق نے اہل کتاب کے نکاح کو ناپسند کیا اور اس آیت کی تلاوت فرما دی ، امام بخاری حضرت عمر کا یہ قول بھی نقل فرماتے ہیں کہ میں کسی شرک کو اس شرک سے بڑھ کر نہیں پاتا کہ وہ عورت کہتی ہے کہ عیسیٰ اس کے اللہ ہیں حضرت امام احمد سے اس آیت کا مطلب پوچھا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں مراد اس سے عرب کی وہ مشرکہ عورتیں ہیں جو بت پرست تھیں ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ایمان والی لونڈی شرک کرنے والی آزاد عورت سے اچھی ہے یہ فرمان عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوتا ہے ، ان کی ایک سیاہ رنگ لونڈی تھی ایک مرتبہ غصہ میں آکر اسے تھپڑ مار دیا تھا پھر گھبرائے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور واقعہ عرض کیا آپ نے پوچھا اس کا کیا خیال کہا حضور! وہ روزے رکھتی ہے نماز پڑھتی ہے اچھی طرح وضو کرتی ہے اللہ کی وحدانیت اور آپ کی رسالت کی گواہی دیتی ہے ۔ آپ نے فرمایا اے ابو عبداللہ پھر تو وہ ایماندار ہے کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! قسم اس اللہ کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اسے آزاد کر دوں گا اور اتنا ہی نہیں بلکہ اس سے نکاح بھی کر لوں گا چنانچہ یہی کیا جس پر بعض مسلمانوں نے انہیں طعنہ دیا ، وہ چاہتے تھے کہ مشرکوں میں ان کا نکاح کرا دیں اور انہیں اپنی لڑکیاں بھی دیں تاکہ شرافت نسب قائم رہے اس پر یہ فرمان نازل ہوا کہ مشرک آزاد عورتوں سے تو مسلمان لونڈی ہزارہا درجہ بہتر ہے اور اسی طرح مشرک آزاد مرد سے مسلم غلام بھی بڑھ چڑھ کر ہے ، مسند عبد بن حمید میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا عورتوں کے محض حسن پر فریفتہ ہو کر ان سے نکاح نہ کر لیا کرو ، ممکن ہے ان کا حسن انہیں مغرور کر دے عورتوں کے مال کے پیچھے ان سے نکاح نہ کر لیا کرو ممکن ہے مال انہیں سرکش کر دے نکاح کرو تو دینداری دیکھا کرو بدصورت سیاہ فام لونڈی بھی اگر دیندار ہو تو بہت افضل ہے ، لیکن اس حدیث کے راویوں میں افریقی ضعیف ہے ، بخاری مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا چار باتیں دیکھ کر عورتوں سے نکاح کیا جاتا ہے ایک تو مال دوسرے حسب نسب تیسرے جمال وخوبصورتی چوتھے دین ، تم دینداری ٹٹولو ، مسلم شریف میں ہے دنیا کل کی کل ایک متاع ہے ، متاع دنیا میں سب سے افضل چیز نیک بخت عورت ہے ۔ پھر فرمان ہے کہ مشرک مردوں کے نکاح میں مسلمان عورتیں بھی نہ دو جیسے اور جگہ ہے ۔ آیت ( لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّوْنَ لَهُنَّ ) 60 ۔ الممتحنہ:10 ) نہ کافر عورتیں مسلمان مردوں کے لئے حلال نہ مسلمان مرد کافر عورتوں کے لئے حلال ۔ پھر فرمان ہے کہ مومن مرد گو چاہے حبشی غلام ہو پھر بھی رئیس اور سردار آزاد کافر سے بہتر ہے ۔ ان لوگوں کا میل جول ان کی صحبت ، محبت دنیا حفاظ دنیا اور دنیا طلبی اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دینی سکھاتی ہیں جس کا انجام جہنم ہے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان کی پابندی اس کے حکموں کی تعمیل جنت کی رہبری کرتی ہے گناہوں کی مغفرت کا باعث بنتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے وعظ ونصیحت اور پند وعبرت کے لئے اپنی آیتیں واضح طور پر بیان فرما دیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

221۔ 1 مشرکہ عورتوں سے مراد بتوں کی پجاری عورتیں ہیں اہل کتاب (یہودی یا عیسائی) عورتوں سے نکاح کی اجازت قرآن نے دی ہے۔ البتہ کسی مسلمان عورت کا نکاح کسی اہل کتاب مرد سے نہیں ہوسکتا۔ تاہم حضرت عمر (رض) نے مصلحتاً اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کو ناپسند کیا (ابن کثیر) آیت میں اہل ایمان کو ایمان دار مردوں اور عورتوں سے نکاح کی تاکید کی گئی ہے اور دین کو نظر انداز کر کے محض حسن وجمال کی بنیاد پر نکاح کرنے کو آخرت کی بربادی قرار دیا گیا جس طرح حدیث میں بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عورت سے چار وجہوں سے نکاح کیا جاتا ہے مال، حسب نسب، حسن وجمال یا دین کی وجہ سے۔ تم دین دار عورت کا انتخاب کرو (صحیح بخاری) اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نیک عورت کو دنیا کی سب سے بہتر متاع قرار دیا ہے فرمایا خیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ (صحیح مسلم) ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٩٤] کیونکہ مرد اور عورت کے درمیان نکاح کا تعلق محض شہوانی تعلق ہی نہیں جیسا کہ بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے بلکہ اس تعلق کے اثرات بڑے دور رس ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے دماغ اخلاق اور تمدن پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ مثلاً ایک مومن ایک مشرکہ سے نکاح کرتا ہے تو اگر وہ مومن اپنے ایمان میں پختہ، علم میں بیوی سے فائق تر اور عزم کا پکا ہوگا تو اس صورت میں وہ اپنی بیوی کی اور کسی حد تک اپنے سسرال والوں کی اصلاح کرسکتا ہے۔ ورنہ عموماً یوں ہوتا ہے کہ مرد مغلوب اور عورت اس کے افکار پر غالب آجاتی ہے اور اگر دونوں اپنی اپنی جگہ پکے ہوں تو ان میں ہر وقت معرکہ آرائی ہوتی رہے گی اور اگر دونوں ڈھیلے ہوں تو وہ دونوں شرک اور توحید کے درمیان سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوں گے اور یہ صورت اسلامی نقطہ نظر سے قطعاً گوارا نہیں اور ایسی صورت کو بھی شرک ہی قرار دیا گیا ہے اور اگر مرد مشرک اور بیوی موحد ہو تو شرک کے خطرات مزید بڑھ سکتے ہیں۔ لہذا نقصان کے احتمالات زیادہ ہونے کی بنا پر ایسے نکاح کو ناجائز قرار دیا گیا اور فرمایا کہ ظاہری کمال و محاسن دیکھنے کی بجائے صرف ایمان ہی کو شرط نکاح قرار دیا جائے ضمناً اس سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ نکاح کے بعد کوئی ایک فریق مشرک ہوجائے تو سابقہ نکاح از خود ٹوٹ جائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ : پہلے مسلمان اور کافر میں رشتہ ناتا جاری تھا، اس آیت سے حرام ٹھہرا۔ اگر مرد یا عورت نے شرک کیا، اس کا نکاح ٹوٹ گیا۔ شرک یہ کہ اللہ کی صفت کسی اور میں جانے، مثلاً کسی کو سمجھے کہ اس کو ہر بات معلوم ہے، یا وہ جو چاہے سو کرسکتا ہے، یا ہمارا بھلا یا برا کرنا اس کے اختیار میں ہے اور یہ کہ اللہ کی تعظیم کسی اور پر خرچ کرے، مثلاً کسی چیز کو سجدہ کرے اور اس کو مختار جان کر اس سے حاجت طلب کرے۔ باقی یہود و نصاریٰ کی عورتوں سے نکاح درست ہے، ان کو مشرک نہیں فرمایا۔ (موضح) شاہ صاحب کے آخری جملہ میں کچھ تفصیل کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر اہل کتاب کو مشرکین کے مقابلے میں ذکر فرمایا ہے، وہاں مشرکین سے مراد بت پرست ہیں، یہود و نصاریٰ نہیں، چناچہ فرمایا : (لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ مُنْفَكِّيْنَ ) [ البینۃ : ١ ] ” وہ لوگ جنھوں نے اہل کتاب اور مشرکین میں سے کفر کیا، باز آنے والے نہ تھے۔ “ یہ اور دوسری وہ آیات جن میں اہل کتاب اور مشرکین کو الگ الگ بیان کیا ہے، مثلاً سورة بقرہ (١٠٥) اور حج (١٧) اور بعض مقامات پر یہود و نصاریٰ کو بھی شرک کرنے والے قرار دیا ہے، جیسے فرمایا : (وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُۨ ابْنُ اللّٰهِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللّٰهِ ۭ ۔۔ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ) [ التوبۃ : ٣٠، ٣١ ] ” اور یہودیوں نے کہا، عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے ۔۔ وہ اس سے پاک ہے جو وہ شریک بناتے ہیں۔ “ (مزید دیکھیے مائدہ : ٧٢) چناچہ بعض صحابہ اہل کتاب میں سے شرک کرنے والی عورتوں سے نکاح کو درست نہیں سمجھتے۔ چناچہ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا : ” میں اس سے بڑا شرک نہیں جانتا کہ کوئی عورت کہتی ہو میرا رب عیسیٰ ہے، حالانکہ وہ اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ ہے۔ “ [ بخاری، الطلاق، باب قولہ : ( ولا تنکحوا المشرکات ۔۔ ) : ٥٢٨٥ ] امام بخاری (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں صرف یہی قول ذکر کیا ہے۔ اس کے مطابق اہل کتاب کی صرف موحد عورتوں سے نکاح درست ہوگا، مگر اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کا شرک خود ذکر کرنے کے باوجود ان کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دی ہے، تو اس کے جائز ہونے میں کوئی شک نہیں۔ امیر المومنین عمر بن خطاب، عثمان بن عفان (رض) اور دوسرے کبار صحابہ کا یہی فتویٰ ہے، چناچہ فرمایا : ( وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ ) [ المائدۃ : ٥ ] ” تم سے پہلے جنھیں کتاب دی گئی ان کی پاک دامن عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں۔ “ خلاصہ یہ کہ مسلمان کے لیے کسی ہندو یا بت پرست، کمیونسٹ یا آتش پرست مشرکہ عورت سے نکاح کرنا حرام ہے، البتہ اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح میں اگرچہ ایمان کا خطرہ ہے، اس لیے کراہت کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة مائدہ (٥) ۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ بت پرست، دہریے اور آتش پرست کسی آسمانی تعلیم کو نہ مانتے ہیں نہ اس کے پابند ہیں، جب کہ اہل کتاب عورتوں کو ان کی کتاب کے حوالے سے توحید و رسالت کی دعوت دی جاسکتی ہے، جیسا کہ فرمایا : (قُلْ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَاۗءٍۢ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ ) [ آل عمران : ٦٤ ] ” کہہ دے اے اہل کتاب ! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے درمیان اور تمہارے درمیان برابر ہے۔ “ اور مرد کے غالب ہونے کی وجہ سے ان کے توحید قبول کرنے کی بھی قوی امید ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب اہل کتاب کی عورتوں سے جو شرک کی مرتکب ہوں، نکاح جائز ہے تو مسلمان عورتیں، جو شرک کرتی ہوں، ان سے بھی نکاح جائز ہے۔ کیونکہ وہ قرآن و حدیث کو مانتی ہیں اور انھیں اس کے حوالے سے توحید و سنت کا قائل کیا جاسکتا ہے۔ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا : اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان عورت آزاد ہو یا غلام، اسے مشرک کے نکاح میں دینا جائز نہیں، پھر مشرک خواہ بت پرست ہو یا یہودی یا عیسائی یا مجوسی یا دہریہ، کسی بھی غیر مسلم سے مسلم عورت کا نکاح جائز نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مشرک عورتوں سے نکاح حرام کرنے کے بعد سورة مائدہ (٥) میں اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دی، مگر مشرک مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو دینے سے منع کرنے کے بعد کسی غیر مسلم سے نکاح کی اجازت نہیں دی۔ قرطبی نے اس بات پر امت کا اجماع نقل فرمایا ہے کہ مسلمان عورت کا نکاح کسی بھی غیر مسلم سے نہیں ہوسکتا (کیونکہ یہ اسلام کی سربلندی کے خلاف ہے) ۔ تنبیہ : جس طرح کسی بھی مشرک سے مسلمان عورت کا نکاح جائز نہیں، خواہ یہودی ہو یا عیسائی، اسی طرح اگر کوئی کلمہ گو مسلمان بھی شرک کا مرتکب ہو، جیسا کہ اس حاشیے کے شروع میں شاہ عبد القادر (رض) نے وضاحت فرمائی ہے تو اس سے کسی مسلمان موحدہ عورت کا نکاح جائز نہیں۔ کیونکہ مرد کے غالب ہونے کی وجہ سے اس موحدہ عورت کو شرک پر مجبور کیے جانے کا خطرہ ہے۔ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ : یہ جملہ واضح دلیل ہے کہ عورت اپنا نکاح خود نہیں کرسکتی، بلکہ اس کا ولی اس کا نکاح کرکے دے گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واضح الفاظ میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح سے منع فرمایا، دیکھیے صحیح بخاری جس میں امام بخاری (رض) نے زیر تفسیر آیت اور دو مزید آیات اور احادیث سے یہ مسئلہ ثابت فرمایا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Verse 221 carries an injunction relating to marriage with Mushrikin (those who associate partners with Allah). The commentary which follows explains the injunction in some detail. Inter-Marriage between Muslims and Kafirs is Prohibited In the verses under discussion an important ruling has been given. It states that the marriage of Muslim males with Kafir کافر (disbelieving in Islam) females and the marriage of Kafir کافر females with Muslim males is not permissible. The reason is: Kafir کافر males and females become the cause that leads man into the Hell. Marital relations demand mutual love and harmony and without these the real purpose behind such relationship remains unrealized. If such close relations of love and affection are established with Mushrikin مشرکین or disbelievers, the inevitable effect will be that Muslims may emotionally tilt towards Kufr کُفُر and Shirk or, in a lesser degree, the very abhorrence of Kufr کُفُر and Shirk may just not remain there in their hearts. Consequently, they too, may get involved with Kufr کُفُر and Shirk and thereby end up in Hell. Therefore, it was said that these people call everyone to come to Hell while Allah Almighty calls man to Paradise and to His forgiveness and, for this purpose, states His injunctions openly and clearly so that people follow the wise counsel. Let us consider a few points at this stage: 1. If the word, Mushrik مشرک in this verse is taken to mean non-Muslims as a whole it would be necessary to exempt non-Muslim women of the Ahl al-Kitab اھل الکتاب (the people of the Book) from the purview of this injunction, because it is expressly stated in another verse that: وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ And good women from among those given the Book before you (marriage with whom is lawful for you). (5:5) But if the word Mushrik is taken to mean specially those non-Muslims who are not from amongst the Ahl al-Kitab اھل الکتاب (People of the Book i.e. the Jews and the Christians), this verse needs no exception, because it covers only those non-Muslims who do not believe in any prophet and scripture. 2. Let us take the second important point. The Qur&an forbids marital relations between Muslims and disbelievers for the reason that such close relations could become the source of involvement in Kufr کُفُر and Shirk شرک . Now this is apparently true of all non-Muslim groups. Why then, the women from amongst the Ahl al-Kitab اھل الکتاب (the Jews and the Christians) have been excluded? The answer is obvious. The difference the people of the Book have with Islam is relatively lesser and lighter as compared with other non-Muslims. Islamic belief is tri-polar, that is, Tauhid توحید (Oneness of God), Akhirah (Hereafter) and Risalah (Prophethood). Out of these, if we consider the belief in Akhirah آخرت ، even the Jews and Christians from amongst the people of the Book agree with Muslims in accordance with their original faith, wherein, very similarly, it is kufr کُفُر (infidelity) even in their original faith to attribute partners with God. That the Christians, in their love for Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) ، and in their over-enthusiasm towards respecting him, entered the borders of Shirk شرک ، is a different matter. Now the basic difference that remains is that they do not believe in Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as His Messenger . In Islam, this belief is cardinal. Without it, no one can become a true Muslim. However, the fact remains that the difference the people of the Book have is lesser and lighter as compared with other non-Muslim groups. Therefore, the danger of corruptibility is not that great here۔ 3. A question may be raised here that the difference between the people of the Book having been declared lighter, it was made permissible for Muslim men to marry their women. So the converse of this proposition, that is, the marriage of Muslim women with non-Muslim people of the Book, should also be permissible. But a little reflection will be sufficient to establish the basic difference between the two situations. Women are somewhat weaker by nature. Then the husband has been given a controlling and care-taking role. So the likelihood of a woman being impressed by his beliefs and views is not that remote. Therefore, should a Muslim woman stay in a marriage relationship with a non-Muslim Kitabi, (Christian or Jew) the chances of her belief being spoiled are strong. Contrary to this, should a non-Muslim Kitabi woman (Jew or Christian) live married to a Muslim man, it is unlikely in principle that her ideas will impress the husband. Is someone takes to a converse position in total disregard of the normal principles and falls prey to his wife&s instigation, it will be because of his own fault. 4. Let us clarify another doubt which may be raised here. The marital relations may influence both the parties equally. Therefore, if there is an apprehension that a Muslim spouse will be influenced by his or her counterpart in the matter of faith, there is also a counter possibility that the non-Muslim spouse will be influenced by his or her Muslim spouse, whereupon he or she will embrace Islam. Both possibilities being equally open, the marital relations between Muslims and non-Muslims should not have been prohibited. But the wisdom behind this prohibition is that where the danger of a harm and the hope of a benefit are equally applicable, then the rea¬sonable attitude will be to pay more attention to preventing harm than to seeking benefit. There is a well-known Persian saying: عقلمند تریاق بیقین وزھر بگمانخورد . A wise man does not eat the antidote with certainty and the poison with doubt. On the basis of this principle, the hope of the non-Muslim spouse embracing Islam has been ignored, and the ap¬prehension of a Muslim spouse being impressed by the anti-Islamic faith or behaviour has been effectively taken care of. 5. The fifth point worth considering is that the meaning of the permission to Muslim men to marry Jewish and Christian women under formal Nikah (marriage contract) is simply to state that such Nikah if made, will become valid and the children born out of this wedlock will be ligitimate. But there are statements in ahadith which prove that even this Nikah is not viewed with favour. The Holy Prophet has said that a Muslim should seek to marry a woman who fully observes Islamic faith and conduct -- so that she becomes for him a source of strength in their joint pursuit of their faith, and their progeny may have the opportunity to grow up under their care as practising Muslims. When marriage with a non-practising Muslim woman was not looked at with favour, how would it become favourable in the case of some non-Muslim woman? This is why Sayyidna ` Umar al-Faruq (رض) ، on learning that such marriages are finding alarming cur¬rency in Iraq and Syria, stopped these with an executive order which pointed out that such marital relations cause corruption in Muslim families both religiously and politically. (Kitab al-Athar-lil-Imam Mu¬hammad). The effect of such marriages in contemporary times when non-Muslim people of the Book, the Jews and the Christians, have a record of political deception, political marriages, entry into Muslim families with persuasion techniques and spying objectives is too obvi¬ous and has been admitted by Christian writers themselves as report¬ed in some details by Major General Akbar in his book, حدیثِ دفاع Hadith-e-Difa`, Specially in our days, there is another important reason for avoiding marital relations with the People of the Book. If the lives of a majority of contemporary Europeans (and Americans), who are called Jews and Christians, and are registered as such in their census records, were researched it will be discovered that an enormous lot of them have nothing to do with Christianity or Judaism. They are atheistically irreligious. They do not believe in Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) or in the Bible. They do not believe in Sayyidna Musa (علیہ السلام) or in the Torah -- not even in God or a Day of Judgment. It is obvious that such people do not come under the purview of the Qur&anic injunction permitting marriage (with the people of the Book). Nikah (marriage) with their women is absolutely haram (unlawful). It is clear that such people do not qualify for the exception given in the Qur&anic verse: وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ And good women from among those given the Book before you (marriage with whom is lawful for you). Therefore, Nikah (marriage) with their women, like those of other non-Muslims, is absolutely haram (unlawful). Special notes from Bayern al-Qur&an by Maulana Ashraf Thanavi 1. It is not correct to marry women from among the group of people who, on the basis of their name and identity, are considered from among the people of the Book but are not proved to be so after a scrutiny of beliefs. For instance, common people these days take white westerners to be generally Christians although some of their beliefs have turned out to be totally atheistic under critical observation. How can people who do not believe in God, in the prophethood of Jesus Christ and in the Bible as revealed scripture be Christians? Marrying a woman from such a group of people is not correct. Those who marry women from the West without finding out what is involved therein make a gross mistake. 2. Similarly, it is not correct to give a Muslim woman in marriage to a man who, in his outward status, is supposed to be a Muslim but whose beliefs are identical with those of a non-Muslim. And should such corruption of beliefs occur after having been married, the nikah or the marriage-contract breaks ipso facto. For instance, a large number of Muslims, in ignorance of their religion and under the influence of the so-called ` modern thinking&, ruin their beliefs. It is, therefore, obligatory for the guardians of a girl that they should first investigate into the beliefs of the proposer before they accept the proposal.

اٹھارہواں حکم مناکحت کفار : اور نکاح مت کرو کافر عورتوں کے ساتھ جب تک وہ مسلمان نہ ہوجاویں اور مسلمان عورت (چاہے) لونڈی (کیوں نہ ہو وہ ہزار درجہ) بہتر ہے کافر عورت سے (چاہے وہ آزاد بی بی ہی کیوں نہ) گو وہ (کافر عورت بوجہ مال یا جمال کے) تم کو اچھی معلوم ہو (مگر پھر بھی واقع میں مسلمان عورت ہی اس سے اچھی ہے) اور (اسی طرح اپنے اختیار کی) عورتوں کو کافر مردوں کے نکاح میں مت دو جب تک یہ مسلمان نہ ہوجاویں اور مسلمان مرد (چاہے) غلام (ہی کیوں نہ ہو وہ ہزار درجہ) بہتر ہے کافر مرد سے (چاہے وہ آزاد ہی کیوں نہ ہو) گو وہ (کافر مرد بوجہ مال یا جاہ کے) تم کو اچھا ہی معلوم ہو (مگر پھر بھی واقع میں مسلمان ہی اس سے اچھا ہے اور وجہ ان کافروں کے برا ہونے کی اور وہی اصل سبب ان سے ممانعت نکاح کا ہے یہ ہے کہ) یہ (کافر) لوگ دوزخ (میں جانے) کی تحریک دیتے ہیں (کیونکہ کفر کی تحریک کرتے ہیں اور اس کا انجام جہنم ہے) اور اللہ تعالیٰ جنت اور مغفرت (کے حاصل کرنے) کی تحریک کرتے ہیں اپنے حکم سے ( اور اس حکم کا ظہور اس طرح ہوا کہ کفار کے متعلق یہ حکم صادر فرما دیا کہ ان سے نکاح نہ کیا جائے تاکہ ان کی تحریک کے اثر سے پوری حفاظت رہ سکے اور اس سے محفوظ رہ کر جنت اور مغفرت حاصل ہوجاوے) اللہ تعالیٰ اس واسطے اپنے احکام بتلا دیتے ہیں تاکہ وہ لوگ نصیحت پر عمل کریں (اور مستحق جنت و مغفرت ہوجاویں) فوائد از بیان القرآن : مسئلہ : جو قوم اپنی وضع اور طرز سے اہل کتاب سمجھے جاتے ہوں لیکن عقائد کی تحقیق کرنے سے کتابی ثابت نہ ہوں اور قوم کی عورتوں سے نکاح درست نہیں جیسے آجکل عموماً انگریزوں کو عام لوگ عیسائی سمجھتے ہیں حالانکہ تحقیق سے ان کے بعض عقائد بالکل ملحدانہ ثابت ہوئے کہ نہ خدا کے قائل نہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کے معتقد نہ انجیل کی نسبت آسمانی کتاب ہونے کا اعتقاد، سو ایسے لوگ عیسائی نہیں ایسی جماعت میں جو عورت ہو اس سے نکاح درست نہیں لوگ بڑی غلطی کرتے ہیں کہ بلا تحقیق یورپ کی عورتیں بیاہ لاتے ہیں۔ مسئلہ : اس طرح جو مرد ظاہری حالت سے مسلمان سمجھا جائے لیکن عقائد اس کے کفر تک پہنچے ہوں اس سے مسلمان عورت کا نکاح درست نہیں اور اگر نکاح ہوجانے کے بعد ایسے عقائد خراب ہوجاویں تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے جیسے آج کل بہت سے آدمی اپنے مذہب سے ناواقف سائنس کے اثر سے اپنے عقائد تباہ کرلیتے ہیں لڑکی والوں پر واجب ہے کہ پیام آنے کے وقت اول عقائد کی تحقیق کرلیا کریں تب زبان دیں۔ معارف و مسائل : مسلم و کافر کا باہمی ازدواج ممنوع ہے : آیات مذکورہ میں ایک اہم مسئلہ یہ بیان فرمایا گیا کہ مسلمان مردوں کا نکاح کافر عورتوں سے اور کافر مردوں کا نکاح مسلمان عورتوں سے جائز نہیں وجہ یہ ہے کہ کافر مرد اور عورتیں انسان کو جہنم کی طرف لے جانے کے سبب بنتے ہیں کیونکہ ازدواجی تعلقات آپس کی محبت ومودت اور یگانگت کو چاہتے ہیں اور بغیر اس کے ان تعلقات کا اصلی مقصد پورا نہیں ہوتا اور مشرکین کے ساتھ اس قسم کے تعلقات قریبہ محبت ومودت کا لازمی اثر یہ ہے کہ ان کے دل میں بھی کفر و شرک کی طرف میلان پیدا ہو یا کم ازکم شرک سے نفرت ان کے دلوں سے نکل جائے اور اس کا انجام یہ ہے کہ یہ بھی کفر و شرک میں مبتلا ہوجائیں اور اس کا نتیجہ جہنم ہے اس لئے فرمایا گیا کہ یہ لوگ جہنم کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انسان کو جنت اور مغفرت کی طرف دعوت دیتا ہے اور صاف صاف اپنے احکام بیان فرما دیتا ہے تاکہ لوگ نصیحت پر عمل کریں اس جگہ چند باتیں قابل غور ہیں۔ اول : یہ کہ اس آیت میں لفظ مشرک سے اگر مطلقا غیر مسلم مراد ہوں تو قرآن کریم کی ایک دوسری آیت کی بنا پر اہل کتاب کی غیر مسلم عورتیں اس حکم سے مستثنیٰ ہیں جس میں ارشاد فرمایا گیا ہے : وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ اور اگر مشرک سے خاص وہ غیر مسلم مراد ہیں جو اہل کتاب نہیں تو یہ آیت اپنی جگہ عام ہے تمام ان غیر مسلموں کو جو کسی پیغمبر اور آسمانی کتاب پر ایمان نہیں رکھتے۔ دوسری بات : قابل غور یہ ہے کہ مسلم و کافر کے درمیان ازدواجی تعلقات کو حرام قرار دینے کی جو وجہ قرآن کریم میں بیان فرمائی گئی ہے کہ ان کے ساتھ ایسے تعلقات قریبہ کفر و شرک میں مبتلا ہوجانے کا سبب بن سکتے ہیں یہ بات تو بظاہر تمام غیرمسلم فرقوں میں مساوی ہے پھر اہل کتاب کی عورتوں کی متثنی کرنے کی کیا وجہ ہے ؟ جواب ظاہر ہے کہ اہل کتاب کا اختلاف اسلام کے ساتھ بہ نسبت دوسرے غیر مسلموں کے کم اور ہلکا ہے کیونکہ عقائد اسلام کے تین عمود ہیں، توحید، آخرت، رسالت، ان میں سے عقیدہ آخرت میں تو اہل کتاب یہود و نصاریٰ بھی اپنے اصل مذہب کے اعتبار سے مسلمانوں کے ساتھ متفق ہیں اسی طرح خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا خود ان کے اصل مذہب میں بھی کفر ہے یہ دوسری بات ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عظمت و محبت کے غلو میں شرک تک جاپہنچے۔ اب بنیادی اختلاف صرف یہ رہ جاتا ہے کہ وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول نہیں مانتے اور اسلام میں یہ عقیدہ بھی بنیادی عقیدہ ہے اس کے بغیر کوئی انسان مومن نہیں ہوسکتا بہرحال دوسرے غیرمسلم فرقوں کی نسبت سے اہل کتاب کا اختلاف ہلکا اور کم ہے اس لئے اس میں مفسدہ کا خطرہ زیادہ نہیں۔ تیسری بات : قابل غور یہ ہے کہ جب اہل کتاب کا اختلاف ہلکا قرار دے کر ان کی عورتوں سے نکاح مسلمان کا جائز ہوا تو اس کے برعکس مسلمان عورتوں کا نکاح بھی غیر مسلم اہل کتاب سے جائز ہوجانا چاہئے مگر ذرا غور کرنے سے فرق واضح ہوجاتا ہے کہ عورت کچھ فطرۃ ضعیف ہے اور پھر شوہر اس پر حاکم اور نگران بنایا گیا ہے اس کے عقائد ونظریات سے عورت کا متأثر ہوجانا مستبعد نہیں اس لئے اگر مسلمان عورت غیر مسلم کتابی کے نکاح میں رہے تو اس کے عقائد خراب ہوجانے کا قوی اندیشہ ہے بخلاف اس کے کہ غیرمسلم کتابی عورت مسلمان کے نکاح میں رہے تو اس کے خیالات کا اثر شوہر پر پڑنا اصولاً مستبعد ہے کوئی بےاصول اور افراط کا شکار ہوجائے یہ اس کا اپنا قصور ہے۔ چوتھی بات : قابل غور یہ ہے کہ ازدواجی تعلقات میں جو کچھ اثر ہوتا ہے وہ طرفین پر یکساں ہوتا ہے اس لئے جیسے یہ اندیشہ ہے کہ مسلمان کے عقائد غیرمسلم سے متاثر ہوجائیں اسی طرح یہ بھی تو احتمال ہے کہ معاملہ برعکس ہو غیرمسلم کے عقائد مسلمان سے متأثر ہوں اور وہ ہی اسلام قبول کرلے تو اس کا متقضا یہ ہے کہ مسلم وغیرمسلم کے ازدواجی تعلقات کو ممنوع نہ کیا جائے۔ لیکن یہاں حکمت کی بات یہ ہے کہ جب کسی چیز میں ایک نفع کی امید بھی ہو اور کسی ضرر کا خطرہ بھی ہو تو عقل سلیم کا تقاضا یہ ہے کہ ضرر سے بچنے کا اہتمام نفع کی فکر سے زیادہ ضروری ہے فارسی کا ایک حکیمانہ مقولہ مشہور ہے کہ |" عقلمند تریاق بیقین وزہر بگماں نخورد |" اس لئے اس نفع کی امید کو نظر انداز کیا گیا کہ شاید وہ غیرمسلم متاثر ہو کر اسلام قبول کرلے اہتمام اس کا کیا گیا کہ مسلمان متاثر ہو کر کفر میں مبتلا نہ ہوجائے۔ پانچویں بات : قابل غور یہ ہے کہ اہل کتاب یہود و نصاریٰ کی عورتوں سے مسلمان مردوں کو نکاح کی اجازت کے بھی معنی یہ ہیں کہ اگر نکاح کرلیا جائے تو نکاح صحیح ہوجائے گا اولاد ثابت النسب ہوگی لیکن روایات حدیث اس پر شاہد ہیں کہ یہ نکاح بھی پسندیدہ نہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مسلمان کو اپنے نکاح کے لئے دیندار صالح عورت تلاش کرنا چاہئے تاکہ خود اس کے لئے بھی دین میں معین ثابت ہو اور اس کی اولاد کو بھی دیندار ہونے کا موقع میسر آئے اور جب غیر متدین مسلمان عورت سے نکاح پسند نہیں کیا گیا تو کسی غیرمسلم سے کیسے پسند کیا جاتا یہی وجہ ہے کہ حضرت فاروق اعظم کو جب خبر پہنچی کہ عراق وشام کے مسلمانوں میں کچھ ایسے ازدواج کی کثرت ہونے لگی تو بذریعہ فرمان ان کو اس سے روک دیا گیا اور اس پر توجہ دلائی گئی کہ یہ ازدواجی تعلق دیانۃً بھی مسلم گھرانوں کے لئے خرابی کا سبب ہے اور سیاسۃ بھی (کتاب الآثار للامام محمد) اور آج کے غیرمسلم اہل کتاب یہود و نصاریٰ اور ان کے سیاسی مکر و فریب اور سیاسی شادیاں اور مسلم گھرانوں میں داخل ہو کر ان کو اپنی طرف مائل کرنا اور ان کے راز حاصل کرنا وغیرہ جس کا اقرار خود بعض مسیحی مصنفین کی کتابوں میں میجر جنرل اکبر کی کتاب حدیث دفاع میں اس کی کچھ تفصیلات حوالوں کے ساتھ مذکور ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فاروق اعظم کی دوربیں نظریں ان واقعات کو دیکھ رہی تھیں خصوصاً اس زمانہ کے یورپ کے اکثر وہ لوگ جو عیسائی یا یہودی کہلائے جاتے ہیں اور مردم شماری کے رجسٹروں میں ان کی قومیت عیسائی یا یہودی لکھی جاتی ہے اگر ان کے حالات کی تحقیق کی جائے تو ان میں بکثرت ایسے لوگ ملیں گے جن کو عیسائیت اور یہودیت سے کوئی تعلق نہیں وہ بالکل ملحد بےدین ہیں نہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو مانتے ہیں، یہ نہ انجیل کو نہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان ہے نہ تورات پر نہ خدا تعالیٰ پر نہ آخرت پر ظاہر ہے کہ حلت نکاح کا قرآنی حکم ایسے لوگوں کو شامل نہیں ان کی عورتوں سے نکاح قطعاً حرام ہے ایسے لوگ ظاہر ہے کہ آیت قرآن والْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ کے استثناء میں داخل نہیں ہوتے غیر مسلموں کی طرح ان کی عورتوں کے ساتھ نکاح بھی قطعاً حرام ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ۝ ٠ ۭ وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَۃٍ وَّلَوْ اَعْجَبَـتْكُمْ۝ ٠ ۚ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا۝ ٠ ۭ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكُمْ۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ يَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ۝ ٠ ۚۖ وَاللہُ يَدْعُوْٓا اِلَى الْجَنَّۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ بِـاِذْنِہٖ۝ ٠ ۚ وَيُبَيِّنُ اٰيٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَــتَذَكَّرُوْنَ۝ ٢٢١ ۧ نكح أصل النِّكَاحُ للعَقْدِ ، ثم استُعِيرَ للجِماع، ومُحالٌ أن يكونَ في الأصلِ للجِمَاعِ ، ثمّ استعیر للعَقْد، لأَنَّ أسماءَ الجِمَاعِ كلَّهَا كِنَايَاتٌ لاسْتِقْبَاحِهِمْ ذكرَهُ كاسْتِقْبَاحِ تَعَاطِيهِ ، ومحال أن يَسْتَعِيرَ منَ لا يَقْصِدُ فحْشاً اسمَ ما يَسْتَفْظِعُونَهُ لما يَسْتَحْسِنُونَهُ. قال تعالی: وَأَنْكِحُوا الْأَيامی [ النور/ 32] ، إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب/ 49] ، فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ [ النساء/ 25] إلى غير ذلک من الآیات . ( ن ک ح ) اصل میں نکاح بمعنی عقد آتا ہے اور بطور استعارہ جماع کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے یہ ناممکن ہے کہ یہ اصل میں بمعنی جماع ہو اور پھر عقد میں بطور استعارہ استعمال ہوا ہو کیوں کہ عربی زبان میں جماع کے معنی میں تمام الفاظ کنائی ہیں ۔ کیونکہ نفس فعل کی طرح صراحتا اس کا تذکرہ بھی مکروہ سمجھا جاتا ہے لہذا یہ نہیں ہوسکتا کہ زبان ذکر فحش سے اس قدر گریزا ہو وہ ایک مستحن امر کے لئے قبیح لفظ استعمال کرے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَنْكِحُوا الْأَيامی[ النور/ 32] اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کردیا کرو ۔ إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب/ 49] جب تم مومن عورتوں سے نکاح کر کے فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ [ النساء/ 25] تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کر کے نکاح کرلو ۔ علٰی ہذا لقیاس متعد آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ حَتَّى حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] . ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع، وفي كلّ واحد وجهان : فأحد وجهي النصب : إلى أن . والثاني : كي . وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي : مشیت فدخلت البصرة . والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي : «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ عجب العَجَبُ والتَّعَجُّبُ : حالةٌ تعرض للإنسان عند الجهل بسبب الشیء، ولهذا قال بعض الحکماء : العَجَبُ ما لا يُعرف سببه، ولهذا قيل : لا يصحّ علی اللہ التَّعَجُّبُ ، إذ هو علّام الغیوب لا تخفی عليه خافية . يقال : عَجِبْتُ عَجَباً ، ويقال للشیء الذي يُتَعَجَّبُ منه : عَجَبٌ ، ولما لم يعهد مثله عَجِيبٌ. قال تعالی: أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا [يونس/ 2] ، تنبيها أنهم قد عهدوا مثل ذلک قبله، وقوله : بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق/ 2] ، وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد/ 5] ، ( ع ج ب ) العجب اور التعجب اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے اسی بنا پر حکماء نے کہا ہے کہ عجب اس حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق جائز نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس بنا پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے عجبت عجبا ( س ) میں نے تعجب کیا عجب ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہوا اور جس جیسی چیز عام طور نہ دیکھی جاتی ہوا ہے عجیب کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا[يونس/ 2] کیا لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ آنحضرت کی طرف وحی بھیجنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ پہلے سے سلسلہ وحی کو جانتے ہیں نیز فرمایا : ۔ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق/ 2] بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا ہے کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا ۔ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد/ 5] اور اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے ۔ عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح قول باری ہے ولاتنکحوا المشرکات حتی یومن، مشرک عورتیں جب تک ایمان نہ لے آئیں انکے ساتھ نکاح نہ کرو) ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے حدیث بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے ، انہیں ابوعبید نے، انہیں عبداللہ بن صالح نے معاویہ بن صالح سے، انہوں نے ابوطلحہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ولاتنکحوا المشرکات حتی یومن۔ پھر اہل کتاب کو اس سے مستثنیٰ کردیا۔ چناچہ فرمایا والمحصنات من الذین ادتوا الکتاب من قبلکم اذا تیتموھن اجودھن محصنین غیر مسافحین ولامتخذی اخدان۔ اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لئے حلال ہیں جو ان قوموں میں سے ہوں جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی بشرطیکہ تم ان کے مہر ادا کر کے نکاح میں ان کے محافظ بنو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں کرو) ۔ حضرت ابن عباس (رض) نے محصنات کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ پاکدامن ہوں بدکار نہ ہوں۔ یہ کہہ کر حضرت ابن عباس (رض) نے بتادیا کہ قول باری ولاتنکحوا المشرکات حتی یومن ۔ قول باری والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم۔ پر مرتب ہے اور کتابی عورتیں ان سے مستثنیٰ ہیں۔ حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ یہ آیت کتابی اور غیر کتابی تمام عورتوں کو عام ہے۔ ہمیں جعفر بن محمد نے ، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابوعبید، انہیں یحییٰ بن سعید نے عبید اللہ بن نافع سے، انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت بیان کی کہ آپ اہل کتاب کے طعام میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے لیکن ان کی عورتوں سے نکاح کو مکروہ خیال کرتے تھے۔ ابوعبید کہتے ہیں کہ ہمیں عبداللہ بن صالح نے، انہیں لیث نے، انہیں نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی جب آپ سے یہودی یا نصرانی عورت سے نکاح کے بارے میں پوچھا جاتا تو آپ فرماتے کہ اللہ تعالیٰ نے مشرک عورتوں کو مسلمانوں پر حرام کردیا ہے۔ آپ یہ بھی فرماتے کہ ” مجھے کسی ایسے شرک کا علم نہیں جو اس بات سے بڑھ کر ہو۔۔۔ یا یوں فرماتے، اس سے زیادہ عظیم ہو۔۔۔ کہ کوئی عورت یہ کہے کہ میرا رب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یا اللہ کے بندوں میں سے کوئی بندہ ہے “۔ حضرت ابن عمر (رض) نے پہلی روایت میں کتابی عورت سے نکاح کو مکروہ کہا ہے لیکن تحریم کا ذکر نہیں کیا جبکہ دوسری روایت میں صرف آیت کی تلاوت کی لیکن قطعی طور پر کوئی بات نہیں کی اور یہ بتایا کہ عیسائیوں کا مذہب شرک ہے۔ ہمیں ابوعبید نے روایت کی ، انہیں علی بن سعد نے ابواللیح سے، انہوں نے میمون بن مہران سے کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے کہا کہ ہم ایسی سرزمین میں رہتے ہیں جہاں ہمارے ساتھ اہل کتاب بھی بستے ہیں، ہم ان کے ساتھ شادی بیاہ بھی کرتے ہیں اور ان کا کھانا بھی کھالیتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت ابن عمر (رض) نے کہا میرے سامنے آیت تحلیل اور آیت تحریم دونوں تلاوت کردیں میں نے پھر کہا کہ یہ آیتیں تو میں بھی پڑھتا ہوں لیکن ہم ان کی عورتوں سے نکاح کرتے اور ان کا کھانا کھاتے ہیں یہ سن کر حضرت ابن عمر (رض) نے دوبارہ آیت تحلیل اور آیت تحریم کی تلاوت کردی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) کا اباحت یا ممانعت کے جواب سے پہلو تہی کر کے آیت کی تلاوت کردینا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کو اس کے حکم کے متعلق توقف تھا یعنی اس حکم کے متعلق آپ کوئی قطعی رائے نہیں رکھتے تھے کراہت کی جو روایت آپ سے منقول ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کے نزدیک یہ کراہت تحریم کی بنا پر نہیں تھی جس طرح کہ ایسی کتابی عورتوں سے نکاح کرنا جن کا تعلق اہل حرب سے ہو یعنی ایسے لوگوں سے ہو جو مسلمانوں سے پر سرپیکار ہوں۔ یہ کراہت بھی تحریم کی بنا پر نہیں ہوتی۔ کتابی عورتوں سے نکاح پر صحابہ کا تعامل۔۔۔ صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت سے کتابی عورتوں سے نکاح کی اباحت منقول ہے ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے ، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابوعبید نے، انہیں سعید بن ابی مریم نے یحییٰ بن ایوب اور نافع بن یزید سے، انہوں نے عفرہ کے آزاد کردہ غلام عمر سے روایت کی۔ عمر کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن علی بن السائب کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ حضرت عثمان (رض) نے نائیلہ بنت الفرافصہ الکلبیہ سے نکاح کرلیا۔ نائلہ عیسائی تھیں، حضرت عثمان (رض) نے بیویوں کی موجودگی میں ان سے نکاح کیا تھا۔ اسی سند سے راوی نافع کے ذکر کے بغیر یہ مروی ہے کہ حضرت طلحہ (رض) بن عبیداللہ نے شام کی رہنے والی ایک یہودی عورت سے نکاح کیا تھا۔ حضرت حذیفہ (رض) کے متعلق یہ روایت ہے کہ آپ نے ایک یہودی عورت سے نکاح کرلیا حضرت عمر (رض) کو جب پتہ چلا تو آپ نے حضرت حذیفہ (رض) کو لکھا کہ وہ اس عورت کو چھوڑ دیں۔ حضرت حذیفہ (رض) نے جواب میں لکھا کہ مجھے بتایا جائے کہ آیا یہ عورت میرے لئے حرام ہے ؟ حضرت عمر (رض) نے جواب دیا کہ ” حرام تو نہیں ہے لیکن مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم لوگ اس طرح بدکار یہودی عورتوں سے ازدواجی تعلقات نہ قائم کرلو “۔ تابعین کی ایک جماعت سے بھی کتابی عورتوں سے نکاح کی اباحت منقول ہے ، ان میں حسن بصری، ابراہیم نخعی اور شعبی شامل ہیں۔ ہمیں اس کا علم نہیں ہے کہ کسی صحابی یا تابعی نے ان سے نکاح کی تحریم کا فتوی دیا ہو۔ حضرت ابن عمر (رض) سے جو روایت ہے وہ تحریم پر دلالت نہیں کرتی اس سے تو صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ اسے پسند نہیں کرتے تھے جس طرح کہ حضرت عمر (رض) سے کراہت کی روایت ہے کہ آپ نے حضرت حذیفہ (رض) کے نکاح کو پسند نہیں کیا تھا جو انہوں نے ایک کتابی عورت سے کیا تھا۔ دوسری طرف حضرت عثمان (رض) ، حضرت طلحہ (رض) اور حضرت حذیفہ (رض) نے کتابی عورتوں سے نکاح کیا تھا اگر یہ نکاح صحابہ کرام کے ہاں حرام ہوتا تو اس پر سب نکیر کرتے اور اس کے مخالف ہوجاتے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس نکاح کے جواز پر سب کا اتفاق تھا۔ قول باری ولاتنکحوا المشرکات حتی یومن) کتابی عورتوں سے نکاح کی حرمت کو واجب نہیں کرتا۔ اس کی دو وجہیں ہیں۔ اول یہ کہ لفظ المشرکات کا ظاہر اطلاق کی صورت میں بت پرستوں کو شامل ہوتا ہے اور اس میں کتابی عورتیں داخل نہیں ہوتیں۔ اگر ان کے دخول کے لئے کوئی دلالت موجود ہو تو پھر وہ اس کے ذیل میں آتی ہیں۔ آپ یہ قول باری نہیں دیکھتے مایودالذین کفروامن اھل الکتب ولاالمشرکین ان ینزل علیکم من خیر من ربکم۔ یہ لوگ جنہوں نے دعوت حق کو قبول کرنے سے انکار کردیا خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرک، ہرگز یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی نازل ہو) نیزقول باری لم یکن الذین کفروا من اھل الکتاب والمشرکین منفکین، جو لوگ کافر تھے اہل کتاب میں سے وہ باز آنے والے نہ تھے) ۔ ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب اور مشرکین کے درمیان لفظی طور پر فرق رکھا ہے۔ اس کا ظاہر یہ تقاضا کرتا ہے کہ معطوف معطوف علیہ کا غیر ہو الایہ کہ کوئی ایسی دلالت قائم ہوجائے جو یہ ثابت کر دے کہ اسم سب کو شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے الگ سے ان کا ذکر کیا اس میں ایک قسم کی تعظیم یا تاکید پائی جاتی ہے۔ جس طرح کہ یہ قول باری ہے من کان عدواللہ وملائکتہ ورسلہ و جبریل ومیگال، جو شخص اللہ اس کے فرشتوں اس کے پیغمبروں اور جبریل ومیکائیل کا دشمن ہو۔۔۔ آیت میں حضرت جبریل اور حضرت میکائیل کا الگ سے ذکر ہوا حالانکہ یہ دونوں لفظ ملائکتہ میں داخل ہیں اس کا مقصد ان دونوں کی عظمت شان بیان کرنا ہے۔ زیادہ ظاہر بات جو ہے وہ یہ ہے کہ معطوف، معطوف علیہ کا غیر ہوتا ہے الا یہ کہ ایسی دلیل موجود ہو جو یہ ثابت کر دے کہ معطوف معطوف علیہ کے جنس میں سے ہے۔ اب یہاں اہل کتاب پر مشرکین کو عطف کرنا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ مشرکین اور اہل کتاب ایک دوسرے کے غیر ہیں۔ اور نکاح کی حرمت بت پرست مشرکین تک محدود ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر یہ حکم سب کے لئے عام ہوتا یعنی اس میں اہل کتاب اور مشرکین دونوں شامل ہوتے تو اس صورت میں یہ ضروری تھا کہ یہ عموم قول باری والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم۔ کے حکم پر مرتب ہو۔ اور جہاں تک ان دونوں آیتوں پر عمل ممکن ہو تاہم ایک کو دوسری کی وجہ سے منسوخ قرار نہ دیتے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم۔ میں وہ کتابی عورتیں مراد ہیں جو اسلام لے آئی تھیں۔ ارشاد باری ہے وان من اھل الکتاب لمن یومن باللہ وماانزل الیکم۔ اہل کتاب میں سے ایسے بھی ہیں جو اللہ پر اور اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے) ۔ اسی طرح قول باری ہے من اھل الکتب امۃ قائمۃ یتلون ایات اللہ اناء اللیل و ھم یسجدون۔ اہل کتاب میں سے ایک گروہ ایسا بھی ہے جو راہ راست پر قائم ہے۔ راتوں کو اللہ کی آیات تلاوت کرتے اور اس کے آگے سجدہ ریز ہوجاتے) ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات تو خلاف مفروض ہے جو قائل اور استدلال کرنے والے کی غباوت ذہنی کا پتہ دیتی ہے۔ اس استدلال کے بطلان کی دو وجہیں ہیں۔ اول یہ کہ اہل کتاب کے اسم کا جب بھی اطلاق کیا جاتا ہے وہ ان کے کافروں کو شامل ہوتا ہے جیسا کہ قول باری ہے من الذین اوتوا الکتاب حتی یعطوالجزیۃ عن ید۔ ان اہل کتاب سے لڑو یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں) ۔ اسی طرح قول باری ہے ومن اھل الکتاب من ان تامنہ بقظار یودہ الیک۔ اور اہل کتاب میں سے ایسا بھی ہے کہ اگر تم اس کے اعتماد پر مال و دولت کا ایک ڈھیر بھی اسے دے دو تو وہ تمہیں ادا کرے دے گا) اسی طرح کی اور آیات جن میں اہل کتاب کا لفظہ بغیر کسی قید کے علی الاطلاق استعمال کیا گیا ہے۔ یہ لفظ یہود و نصاریٰ دونوں کو شامل ہے۔ اس سے ایسے افراد سمجھ میں نہیں آتے جو پہلے اہل کتاب تھے اور پھر مسلمان ہوگئے۔ البتہ یہ بات اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب یہ ایمان کے ذکر کے ساتھ مقیدہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ان لوگوں کا ارادہ کیا جو اسلام لے آئے تھے تو اس ذکر کے ساتھ کہ یہ اہل کتاب ہیں ان کے اسلام کا بھی ذکر کیا۔ چناچہ قول باری ہے لیسواسوائً من اھل الکتاب امۃ قائمۃ یتلون ایات اللہ اناء اللیل ولعم یسجدون۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آیت میں مومنات کا ذکر ہے یہ ان مومنات کو بھی شامل ہے جو پہلے اہل کتاب تھیں اور پھر مسلمان ہوگئیں اور ان کو بھی جو پہلے ہی مومنات تھیں۔ اس لئے کہ قول باری ہے والمحصنات من المومنات والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم۔ اب یہ کیسے درست ہوسکتا ہے کہ والمحصنات من الذین اوتوالکتاب۔ سے مراد وہی مومنات ہوں جن کا ابتداء میں ذکر ہوچکا ہے۔ اس قول کے قائلین بعض دفعہ اس روایت سے استدلال کرتے ہیں جو علی بن ابی طلحہ (رض) سے مروی ہے۔ وہ کہتے ہیں کعب (رض) بن مالک نے ایک کتابی عورت سے نکاح کا ارادہ کیا۔ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا انھالاتحصنک یہ تمہارے اندر صفت احصان یعنی پاک دامنی پیدا نہیں کرے گی) اس قول میں نہی کے ظاہر الفاظ یہ مفہوم ادا کرتے ہیں کہ ایسا کرنے میں خرابی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس سند سے یہ حدیث مقطوع ہے اور اس جیسی حدیث کے ذریعے ظاہر قرآن پرا عتراض نہیں کیا جاسکتا جو اس کی منسوخیت پر دلالت کرتا ہے اور اس کی تخصیص نہیں کرتا۔ اگر یہ روایت ثابت بھی ہوجائے تو یہ کراہت پر محمول کیا جائے گا جس طرح کہ حضرت عمر (رض) سے منقول ہے کہ آپ نے حضرت حذیفہ (رض) کے ایک یہودی عورت سے نکاح کو ناپسند کیا تھا لیکن حرام نہیں سمجھا تھا۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد انھالاتحصنک دلالت کرتا ہے کیونکہ تحصین، یعنی محصن بنانے کی نفی نکاح کے فاسد ہونے پر دلالت نہیں کرتی جس طرح کہ نابالغ لڑکی یا لونڈی کے ساتھ نکاح سے انسان محصن نہیں ہوتا لیکن پھر بھی ان کے ساتھ نکاح جائز ہوتا ہے۔ ایسی کتابی عورت جو حربی بھی ہو اس کے ساتھ نکاح میں اختلاف ہے۔ ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے روایت سنائی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابوعبید نے، انہیں عباد بن العوام نے سفیان بن حسین سے ، انہوں نے الحکم سے، انہوں نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے آپ نے فرمایا کہ اہل کتاب جب ہم سے برسرپیکار ہوں تو ان کی عورتیں حلال نہیں ہیں پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی قاتلوا الذین لایومنون باللہ۔ تا وھم صاغرون۔ الحکم کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم سے اس کا ذکر کیا تو انہیں یہ بات بہت اچھی لگی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے اس بات کو کراہت کی بنا پر ایسا سمجھا ہو۔ ہمارے اصحاب بھی اسے مکروہ سمجھتے ہیں لیکن تحریم میں قائل نہیں ہیں۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ آپ نے حربی اہل کتاب کی عورتوں کو مکروہ سمجھا ہے قول باری والمحصنات من الذین اوتوالکتاب نے حربی اور غیر حربی یعنی ذمی کتابی عورتوں میں فرق نہیں کیا اور دلالت کے بغیر اس معموم میں تخصیص بھی نہیں ہوسکتی۔ رہ گیا قول باری قاتلوا الذین لایومنون باللہ تا آخر آیت۔ تو اس کا نکاح کے جواز یا فساد سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر وجوب قتال نکاح کے فساد کے علت ہوتا تو پھر ضروری ہوتا کہ خوارج اور اسلامی حکومت کے باغیوں کی عورتوں سے بھی نکاح جائز نہ ہو کیونکہ قول باری ہے فقاتلوا التی تبغی و حتی تفی الی امر اللہ، پس اس گروہ سے جنگ کرو جو بغاوت کرے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے) ۔ ہمارے اس بیان سے یہ واضح ہوگیا کہ وجوب قتال کا نکاح کو فاسد کردینے میں کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ہمارے اصحاب نے اسے اس قول باری کی بنا پر مکروہ سمجھا ہے۔ لاتجدقوماً یومنون باللہ والیوم الاخر یعادون من حاد اللہ ورسولہ ولوکانوا اباء ھم او ابناء ھم اواخوانھم اوعشیرتھم تم ایسی کوئی قوم نہیں پائو گے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والی ہو اور پھر وہ ان لوگوں سے دوستی کرے جو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ دشمنی کرتے ہوں خواہ وہ ان کے آبائو یا اولاد یا بھائی کیوں نہ ہوں) اور نکاح سے مودت و محبت پیدا ہوتی ہے۔ قول باری ہے وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ۔ اللہ نے تمہارے درمیان اسے یعنی نکاح کو محبت اور رحمت کا سبب بنادیا) جب اللہ نے یہ بتادیا کہ نکاح مودت اور محبت کا سبب ہے اور اس نے اہل حرب سے دوستی کا نٹھنے سے منع فرمایا تو ہمارے اصحاب نے اہل حرب کی عورتوں سے نکاح کو مکروہ سمجھا ۔ قول باری یوادون من حاد اللہ ورسولہ۔ اہل حرب کے متعلق ہے اہل ذمہ سے اس کا تعلق نہیں ہے،۔ اس لئے کہ لفظ حاد اس معنی کے لئے مشتق ہے کہ وہ ایک حد یعنی کنارے پر ہیں۔ اور ہم ایک حد یعنی کنارے پر “۔ جس طرح کہ لفظ المشاقۃ کا مفہوم یہ ہے کہ وہ ایک شق یعنی کنارے پر اور ہم ایک شق پر “۔ یہ اہل حرب کی خصوصیت ہوتی ہے اہل ذمہ کی نہیں ہوتی۔ اسی بنا پر اہل حرب کی عورتوں سے نکاح کو مکروہ سمجھا گیا ہے۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ اس کا بچہ دارالحرب میں پرورش پائے گا اور اس میں حربیوں والے اخلاق و صفات پیدا ہوں گے اس سے ہمیں روکا گیا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول ہے انا بری من کل مسلم بین ظھرانی المشرکین۔ میں ہر اس مسلمان سے برات کا اظہار کرتا ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا بستا ہو۔ ) اگر یہ کہا جائے کہ ہم نے اس سے انکار تو نہیں کیا کہ قول باری لاتجدقوما یومنون باللہ والیوم الاخر یوادون من حاد اللہ و رسولہ۔ اس قول باری والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم۔ کی تخصیص کرتا اور اس کے حکم کو ذمی عورتوں تک محدود رکھتا ہے حربی عورتیں اس میں داخل نہیں ہوتیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آیت کا اقتضاء صرف یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی رکھنے والوں کے ساتھ محبت و مودت کا رشتہ قائم نہ ہو۔ آیت میں اس سے روکا گیا ہے جہاں تک نکاح وغیرہ کا تعلق ہے آیت اس پر مشتمل نہیں ہے۔ اگرچہ یہ نکاح باہمی محبت و مودت کا ذریعہ بن جاتا ہے نفس نکاح اس کا سبب نہیں ہوتا اگرچہ اس کے نتیجیمیں یہ چیز پیدا ہوجاتی ہے۔ اس لئے فقہائے نے ایسی عورتوں کے مقابلے میں دوسری عورتوں سے نکاح کو پسند کیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح کی تحریم کے معاً بعد قول باری ہے اولئک یدعون الی النار۔ یہ لوگ آگ یعنی جہنم کی طرف بلاتے ہیں) اس سے یہ معلوم ہوا کہ ان کی یہی خاصیت ان کے ساتھ نکاح کی حرمت کی علت ہے۔ اب یہی علت کتابی عورتوں میں پائی جاتی ہے خواہ وہ ذمی عورتیں ہوں یا حربی۔ اس بنا پر ان سے بھی اس علت کی وجہ سے اسی طرح نکاح حرام ہونا چاہیے جس طرح مشرک عورتوں سے حرام ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ تحریم نکاح کے لئے یہ علت موجب نہیں ہے کیونکہ اگر بات ایسی ہوتی تو مشرک عورتوں سے کسی بھی صورت میں نکاح کی اباحت نہیں ہوتی حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ ابتدائے ا سلام میں اس کی اباحت تھی حتی کہ اس کی حرمت نازل ہوگئی۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ بات ایسی نہیں ہے کہ جو تحریم نکاح کے لئے علت موجبہ ہو جبکہ حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیویاں کافر تھیں اور اللہ کے دو نبیوں کے نکاح می تھیں۔ چناچہ ارشاد باری ہے ضرب اللہ مثلاً للذین کفو وا امراۃ نوح مراۃ لوط کانتا تحت عبدین من عبادنا صالحین فخانت ھما فلم یغنیا عنھما من اللہ شیئاً و قیل ادخلا النار مع الداخلین، اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لئے نوح اور لوط کی بیویوں کی مثال بیان کی ہے یہ دونوں عورتیں ہمارے دو نیک بندوں کے عقد میں تھیں، پھر ان دونوں عورتوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی اور ان کے شوہر اللہ کے مقابلے میں ان عورتوں کے کچھ کام نہ آئے ان عورتوں سے کہا گیا کہ جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہو جائو) ۔ اللہ تعالیٰ نے کفر کے وجود کے ساتھ ان کے نکاح کی صحت کی خبر دی جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ کفر تحریم نکاح کے لئے علت موجبہ نہیں ہے اگرچہ اللہ تعالیٰ نے مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح کے سیاق میں ضرور فرمایا ہے کہ اولئک یدعون الی النار۔ اس بات کو اللہ نے بطلان نکاح کی ایک نشانی قرار دیا اور ایسی باتیں جو علل شرعیہ جیسی خصوصیت رکھتی ہوں ان کے ذریعے اسم سے متعلق ہونے والے حکم کی تاکید نہیں ہوتی۔ اور اسم کی تخصیص کی طرح اس حکم کی بھی تخصیص جائز ہوتی ہے۔ جب قول باری والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب۔ میں اس تحریم کی تخصیص جائز ہے جس کا تعلق اسم یعنی اہل کتاب سے ہے تو اس حکم کی تخصیص بھی جائز ہے جو اس مفہوم پر عائد ہو رہا ہے جس میں علل شرعیہ کا رنگ اور ان جیسی خصوصیت پائی جا رہی ہے۔ اس کی نظیر یہ قول ہے انما یریدالشیطان ان یوفع بینکم العداوۃ والبغضاء فی الخمروالمیسر ویصدکم عن ذکر اللہ، شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور قمار کے ذریعے تمہارے درمیان بعض و عداوت پیدا کر دے اور تمہیں اللہ کی یاد سے روک دے) ۔ اللہ تعالیٰ نے شراب کی بنا پر پیدا ہونے والے ممنوعات کا ذکر کر کے انہیں علت کا رنگ دے دیا حالانکہ ان ممنوعات کو ان کے معلولات میں جاری کرنا واجب نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو بیع و شراء اور شادی بیاہ کے تمام معاملات اور لین دین کی تمام صورتیں حرام ہوجاتیں اس لئے کہ شیطان ان تمام باتوں کے ذریعے ہمارے درمیان بغض و عداوت پیدا کرنا چاہتا ہے اور ہمیں اللہ کی یاد سے روکتا ہے۔ اب جبکہ مذکورہ تمام باتوں میں اس مفہوم (شیطان کا بغض و عداوت پیدا کرنے کا ارادہ اور یا دالٰہی سے باز رکھنے کی کوشش) کا اعتبار کرنا واجب نہیں ہوا باوجودیکہ یہ مفہوم ان تمام امور میں پایا جاتا ہے بلکہ اس کا حکم صرف دو باتوں یعنی خمر اور میسر تک محدود رہا دوسرے امور تک متعدی نہیں ہوا تو اسی طرح ان تمام علل شرعیہ کا حکم ہے خواہ وہ منصوص ہوں یا ان کا اقتضاء ہو یا بطریق استدلال انہیں ثابت کیا گیا ہو ۔ یہ وہ بنیاد ہے جس پر علل شرعیہ کی تخصیص کے سلسلے میں استدلال کیا گیا ہے۔ ہمارے اس بیان سے یہ بات واجب ہوگئی کہ تحریم نکاح کا حکم صرف مشرک عورتوں تک محدود رہے اور ان کے سوا دوسری عورتیں مثلاً ذمی یا حربی اس میں داخل نہ ہوں اور قول باری اولئک یدعون الی النار۔ مشرک عورتوں سے نکاح کے امتناعی حکم کی تاکید بن جائے اور دوسری عورتوں تک یہ حکم متعدی نہ ہو۔ اس لئے کہ شرک اور جہنم کی آگ کی طرف بلاوایہ دونوں باتیں تحریم نکاح کی علامتیں ہیں اور یہ کتابی عورتوں میں موجود نہیں ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ حکم مشرکین عرب کے متعلق ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان کے خلاف برسرپیکار تھے۔ مسلمانوں کو ان کی عورتوں سے نکاح کرنے سے روک دیا گیا تاکہ یہ عورتیں اپنے اہل خاندان کے مشرکین کے ساتھ مسلمانوں کی مودت و الفت کا وسیلہ نہ بن جائیں اور اس طرح ان کے خلاف جنگ کرنے میں مسلمانوں کے اندر کوتاہی نہ پیدا ہوجائے۔ اس حکم کا تعلق اہل ذمہ کے ساتھ نہیں ہے جو مسلمانوں سے دوستی رکھتے تھے اور جن کے خلاف ہمیں جنگ نہ کرنے کا حکم ملا تھا۔ الایہ کہ دشمنی کی یہی کیفیت ان ذمیوں میں بھی پیدا ہوجائے تو اس صورت میں برسرپیکار ذمی عورتوں سے نکاح کی حرمت ہوجائے گی اور ہمارے لئے اس علت کے معلول کے حکم کی طرف رجوع کرنا ضروری ہوجائیگا۔ قول باری ولامۃ مومنۃ خیر من مشرکۃ اور ایک مومن لونڈی ایک مشرک عورت سے بہتر ہے) اس پر دلالت کر رہا ہے کہ آزاد عورت سے نکاح کی استطاعت کے باوجود لونڈی سے نکاح کرلینا جائز ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ آزاد مشرک عورت سے نکاح کی بجائے جو انہیں اچھی بھی لگے اور اس سے نکاح کرنے کی ان میں استطاعت بھی ہو مومن لونڈی سے نکاح کرلیں۔ اب ظاہر ہے کہ جو شخص آزاد مشرک عورت سے نکاح کرنے کی استطاعت رکھتا ہوگا اسے آزاد مسلمان عورت سے نکاح کرنے کی بھی استطاعت ہوگی۔ اس لئے کہ رواج کے مطابق ان دونوں کے مہر کی رقموں میں کوئی فرق نہیں ہوتا ہے۔ جب یہ صورتحال ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ قول باری بھی ہے کہ ولامۃ مومنۃ خیر من مشرکۃ ولواعجبتکم) پھر آزاد مشرک عورت سے نکاح کرنے کی بجائے مومن لونڈی سے نکاح کرنے کی ترغیب اسی وقت درست ہوگی جبکہ وہ آزاد مسلمان خاتون سے نکاح کرنے کی قدرت رکھتا ہوگا تو ان تمام باتوں کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ زیر بحث آیت آزاد عورت سے نکاح کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود لونڈی سے نکاح کے جواز کو متضمن ہے۔ ایک اور پہلو سے بھی اس پر دلالت ہو رہی ہے وہ یہ کہ مشرک عورتوں سے نکاح کی ممانعت عام ہے اس میں استطاعت رکھنے والا مال دار اور عدم استطاعت کا حامل فقیر دونوں شامل ہیں پھر اس حکم کے فورا بعد یہ قول باری ہے ولامۃ مومنۃ خیر من مشرکۃ اس میں ان لوگوں کے لئے لونڈی کے ساتھ نکاح کرنے کی اباحت ہے جنہیں مشرک عورت کے نکاح گئی تھی اس بنا پر یہ حکم اباحت غنی اور فقیر دونوں کے لئے عام ہوگا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٢١) مرثد بن ابی مرثد غنوی نامی ایک مسلمان نے اس بات کا ارادہ کیا تھا کہ عناق نامی ایک مشرکہ عورت سے شادی کرے، اللہ تعالیٰ نے اس کو اس سے منع فرمادیا کہ مشرک عورتیں جب تک ایمان نہ لائیں ان سے نکاح نہ کرو، مسلمان باندی سے شادی کرنا آزاد مشرک عورت سے شادی کرنے سے بہتر ہے اگرچہ اس کا حسن و جمال تمہیں پسند ہو، اور اسی طرح مشرک مردوں سے جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں، شادی نہ کرو اور مسلمان غلام سے شادی کرنا آزاد مشرک مرد سے شادی کرنے سے بہتر ہے اگرچہ اس کی قوت وبدن تمہیں اچھا لگے یہ کافر کفر اور دوزخیوں کے کاموں کی طرف بلاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ توحید اور توبہ کی طرف اپنے حکم سے تحیریک دیتے ہیں اور شادی کے بارے میں احکام الہی کو بیان فرماتے ہیں تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں اور ناجائز طریقہ پر شادی کرنے سے پرہیز کریں۔ شان نزول : (آیت) ” ولا تنکحوالمشرکات “۔ (الخ) ابن منذر (رح) اور ابن ابی حاتم (رح) اور واحدی (رح) نے مقاتل (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ ابن مرثد غنوی کے متعلق نازل ہوئی ہے، اس نے ایک حسین و جمیل مشرکہ عناق نامی عورت سے شادی کرنے کے بارے میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت مانگی تھی۔ اور فرمان الہی (آیت) ” ولا مۃ مومن ۃ (الخ) واحدی نے بواسطہ سدی (رح) ، ابومالک (رح) ، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ آیت مبارکہ حضرت عبداللہ بن رواحہ کے بارے میں اتری ہے، ان کی ایک سیاہ باندی تھی، غصہ میں ایک مرتبہ اسے تھپڑ مار دیا پھر اس بات سے گھبرا کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے واقعہ بیان کیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اولا اسے آزاد کردو اور پھر اس سے شادی کرلو چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، اس پر لوگوں نے انھیں طعنے دینے شروع کیے کہ باندی سے شادی کی ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ مومن باندی مشرک عورت سے بہتر ہے اور اسی روایت کو ابن جریر (رح) نے سدی (رح) سے منقطع سند سے روایت کیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢١ (وَلاَ تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ ط) (وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکَۃٍ وَّلَوْ اَعْجَبَتْکُمْ ج) (وَلاَ تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا ط) (وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ وَّلَوْ اَعْجَبَکُمْ ط) ۔ خواہ وہ صاحب حیثیت اور مال دار ہو ‘ لیکن دولت ایمان سے محروم ہو تو تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنی بہن یا بیٹی اس کے نکاح میں دے دو ۔ (اُولٰٓءِکَ یَدْعُوْنَ اِلَی النَّارِج ) ۔ اگر ان سے رشتے ناتے جوڑو گے تو وہ تمہیں بھی جہنم میں لے جائیں گے اور تمہاری اولاد کو بھی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

237. This is the reason for, and the wisdom underlying the injunction mentioned above prohibiting marriage links with polytheists. Marriage does not consist merely of sexual relations between a man and a woman. It is a relationship which has deep social, moral and emotional implications. If established between a believer and a polytheist, this kind of relationship has many possible outcomes. On the one hand, it is possible that because of the influence of the believing spouse, the other partner, the family and the future generations may become receptive to Islamic beliefs and to the Islamic wav of life. On the other hand, it is also possible that the spouse who is a polytheist may influence the thinking and mode of living of the believing spouse, the family and the future generations. Moreover this relationship may promote in that family a hotch-potch of Islam, downright atheism, and polytheism which, however welcome to non-Muslims, is in no way acceptable to Islam. No true believer can run the risk that either the ideas and life-styles which are organically related to atheism and polytheism may flourish among the members of his family, or that some aspect of his own life may bear the impress of atheism or polytheism.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :237 یہ ہے علت و مصلحت اس حکم کی جو مشرکین کے ساتھ شادی بیاہ کا تعلق نہ رکھنے کے متعلق اوپر بیان ہوا تھا ۔ عورت اور مرد کے درمیان نکاح کا تعلق محض ایک شہوانی تعلق نہیں ہے ، بلکہ وہ ایک گہرا تمدنی ، اخلاقی اور قلبی تعلق ہے ۔ مومن اور مشرک کے درمیان اگر یہ قلبی تعلق ہو ، تو جہاں اس امر کا امکان ہے کہ مومن شوہر یا بیوی کے اثر سے مشرک شوہر یا بیوی پر اور اس کے خاندان اور آئندہ نسل پر اسلام کے عقائد اور طرز زندگی کا نقش ثبت ہو گا ، وہیں اس امر کا بھی امکان ہے کہ مشرک شوہر یا بیوی کے خیالات اور طور طریقوں سے نہ صرف مومن شوہر یا بیوی بلکہ اس کا خاندان اور دونوں کی نسل تک متاثر ہو جائے گی ، اور غالب امکان اس امر کا ہے کہ ایسے ازدواج سے اسلام اور کفر و شرک کی ایک ایسی معجون مرکب اس گھر اور اس خاندان میں پرورش پائے گی ، جس کو غیر مسلم خواہ کتنا ہی ناپسند کریں ، مگر اسلام کسی طرح پسند کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ جو شخص صحیح معنوں میں مومن ہو وہ محض اپنے جذبات شہوانی کی تسکین کے لیے کبھی یہ خطرہ مول نہیں لے سکتا کہ اس کے گھر اور اس کے خاندان میں کافرانہ و مشرکانہ خیالات اور طور طریقے پرورش پائیں اور وہ خود بھی نادانستہ اپنی زندگی کے کسی پہلو میں کفر و شرک سے متاثر ہو جائے ۔ اگر بالفرض ایک فرد مومن کسی فرد مشرک کے عشق میں بھی مبتلا ہو جائے ، تب بھی اس کے ایمان کا اقتضا یہی ہے کہ وہ اپنے خاندان ، اپنی نسل اور خود اپنے دین و اخلاق پر اپنے شخصی جذبات قربان کر دے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

فتح مکہ سے پہلے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک صحابی کو چن لیا جن کی کنیت اب مرتد (رض) ہے مکہ کو اس غرض سے بھیجا تھا کہ مکہ میں جو لوگ مسلمان ہیں ان کو مخفی طور پر مدینہ میں لے آئیں جب ابو مرتد (رض) مکہ کو پہنچے تو ایک عورت مشرکہ نے جس کا نام عناق تھا ابو مرتد (رض) سے نکاح کی خواہش کی ابو مرتد (رض) نے کہا کہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھ لوں تو پھر اس کا جواب دوں گا جب ابو مرتد (رض) مدینہ میں واپس آئے تو انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عناق کی خواہش کا ذکر کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور فرما دیا کہ مسلمان مرد کو مشرک عورت سے اس وقت تک نکاح نہیں کرنا چاہیے جب تک وہ عورت مسلمان نہ ہوجائے اور مشرک عورت سے مراد اس آیت میں بت پرست یا آتش پرست عورتیں ہیں اہل کتاب عورتیں نہیں ہیں اس لئے کہ اہل کتاب عورتوں سے مسلمان مرد کو نکاح کرنا جائز ہے چناچہ اس کا ذکر سورة مائدہ میں آئے گا۔ حضرت عمر (رض) کی یہ حکایت جو مشہور ہے کہ آپ کو جب خبر ہوتی تھی کہ کسی مسلمان مرد اہل کتاب عورت سے شادی کرلی ہے تو فورًا ان دونوں میں تفریق کر اد یتے تھے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حضرت عمر (رض) اہل کتاب عورتوں کا نکاح حرام جانتے تھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عمر (رض) کو یہ خیال تھ کہ اہل کتاب عورتوں کے نکاح کے مسلمانوں میں زیادہ رواج پا جانے سے مسلمان عورت سے کسی مسلمان کا نکاح پسند نہیں فرماتے تھے چناچہ ابن جریر نے اپنی تفسیر میں شقیق ابن سلمہ سے روایت کی ہے کہ حضرت حذیفہ (رض) صحابی نے ایک یہودیہ عورت سے نکاح کرلیا تھا۔ حضرت عمر (رض) نے ان سے ناراضی ظاہر کی اور اس عورت کے چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ حضرت حذیفہ (رض) نے حضرت عمر (رض) سے پوچھا کہ کیا آپ اہل کتاب عورتوں سے نکاح حرام جانتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا نہیں حرام تو نہیں جانتا مگر یہ خیال گذرتا ہے کہ رفتہ رفتہ کہیں مسلمان عورتوں کی ناقدری نہ ہوجائے ١۔ اور بعض مفسروں نے حضرت عمر (رض) کے اس عمل در آمد کی تائید میں یہ جو کہا ہے کہ سورة مائدہ کی آیت اس آیت سے منسوخ ہے یہ قول ضعیف ہے کیونکہ سورة بقرہ پہلے نازل ہوئی اور سورة مائدہ بعد۔ عبد اللہ بن ررواحہ (رض) ایک صحابی تھے ان کے گھر میں ایک حبشی لونڈی تھی ایک روز انہوں نے غصہ میں اس لونڈی کے ایک طمانچہ مار دیا پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس واقعہ کا ذکر کیا آپ نے فرمایا وہ لونڈی کیسی ہے۔ حضرت عبد اللہ (رض) نے جواب دیا کلمہ پڑھتی ہے نماز روزہ سے بھی واقف ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو وہ مسلمان ہے عبد اللہ (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قسم کھا کر وعدہ کیا کہ میں اس لونڈی کو آزاد کرتا ہوں اور اس سے نکاح بھی کرلوں گا۔ چناچہ پھر انہوں نے اپنے وعدے کے موافق اس سے نکاح بھی کرلیا عبد اللہ (رض) کے چند دوستوں نے ان کو اولادہنا اور ایک مشرک آزاد عورت کا حوالہ دے کر کہا کہ لونڈی کی بہ نسبت تو وہ اچھی تھی اس پر اللہ تعالیٰ نے اس آیت کا یہ دوسرا ٹکڑا نازل فرمایا کہ مسلمان لونڈی آزاد سے بہتر ہے۔ ٢۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:221) لاتنکحوا۔ فعل نہی جمع مذکر حاضر۔ نکال (باب ضرب، نصر) مصدر۔ تم نکاح مت کرو۔ تم عقد نہ کرو۔ المشرکت۔ مشرک عورتوں کے ساتھ۔ یؤمن۔ مضارع جمع مؤنث غائب۔ ایمان (افعال) مصدر۔ یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں ۔ ولامۃ۔ لام تحقیق کے معنوں میں ہے۔ امۃ۔ لونڈی، باندی، اسم ہے علامہ بیضاوی کے نزدیک امۃ سے مراد عورت ہے خواہ حرہ ہو خواہ لونڈی ہو۔ کیونکہ سب مرد و عورت اللہ تعالیٰ کے غلام اور باندیاں ہیں والامۃ۔ ای والمرأۃ المؤمنۃ حرۃ کانت او مملوکۃ فان الناس کلہم عبید اللہ واماء ہ۔ ولو اعجبتکم۔ واؤ حالیہ ہے لو بمعنی اگرچہ ۔ عبارت کچھ یوں ہوگی۔ ولو کان الحال ان المشرکۃ تعجبکم و تحبو تھا اگرچہ حال یہ ہو کہ مشرکہ عورت تمہیں بھلی لگے اور تم اسے چاہتے ہو۔ اعجبتکم ماضی واحد مؤنث غائب کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ اعجاب (افعال) مصدر۔ وہ تم کو بھلی لگی۔ اعجب کے اصل معنی Toexcite. wonder to کے ہیں۔ دوسرے میں پسند اور کشش کے جذبات ابھارنا۔ یعنی اگرچہ وہ عورت تم میں پسند اور کشش کے جذبات کے موجب ہو۔ پکھٹال نے اس کا انگریزی میں ترجمہ یہ کیا ہے Thogh she please you اور عبد اللہ یوسف علی اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں Even though she allure you ولا تنکحوا۔ واؤ عاطفہ لاتنکحوا فعل نہی جمع مذکر حاضر۔ انکاح (افعال) مصدر۔ تم نکاح نہ کردو۔ تم عقد کرادو۔ المشکرین یہ لا تنکحوا کا مفعول ہے جملہ میں ایک مفعول محذوف ہے تقدیر کلام ہے ولا تنکحوا المشرکین اور تم اپنی مومن عورتوں کا عقد مشرکین سے کراؤ۔ ولواعجبکم : اگرچہ حال یہ ہو کہ مشرک تمہیں بھلا لگے۔ پسند آئے۔ اولئک۔ المشرکین والمشرکت کی طرف اشارہ ہے۔ اولئک ۔۔ الخ علت بیان کی گئی ہے مندرجہ بالا حکم کی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 حضرت حذیفہ یا عبداللہ بن رواحہ کے گھر میں ایک سیاہ فام لونڈی تھی۔ انہوں نے اسے آزاد کر کے نکاح کرلیا ان کے دوستوں نے اس نکاح کر پسند کہ کیا اور ایک مشرکہ کا نام لے کر انہیں پیش کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (شو کانی۔ ابن کثیر) بعض نے لکھا ہے کہ ابو مرثد الغنوی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے اس نے مکہ کی ایک مشرکہ عورت " غناق " سے نکاح کا ارادہ کیا جس سے جاہلیت میں اس کے تعلقات تھے چناچہ اس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا تو یہ آیت نازل ہوئی (قرطبی) آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرک عورت سے مسلمان مرد نکاح کرنا حرام ہے اسی طرح مومن عورت کا مشرک مرد سے نکاح حرام ہے۔ ہاں کتابیہ عورت سے نکاح جائز ہے۔ دیکھئے سورت المائدہ آیت 5) حدیث میں ہے کہ عورت سے نکاح کے وقت چار باتیں مد نظر ہوتی ہیں مال دار حسب خوبصورتی اور دینداری کو دوسری باتوں پر ترجیح دو (صحیحین )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 221 لا تنکحوا (تم نکاح نہ کرو) ۔ المشرکت (مشرک عورتیں) ۔ حتی یؤمن (جب تک وہ ایمان نہ لائیں) ۔ امۃ مؤ منۃ (مومن لونڈی (غلام عورت) ۔ اعجبت (پسند ہو) ۔ عبد مؤمن (مومن غلام) ۔ یدعون (وہ بلاتے ہیں) ۔ تشریح : آیت نمبر 221 زندگی کے بنیادی معاملات میں انسان کو بہت سنجیدگی سے سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہئے کیونکہ جو لوگ زندگی کے معاملات میں بےسوچے سمجھے جذباتی انداز سے قدم اٹھا لیتے ہیں پھر وہ زندگی بھر پچھتاتے ہیں۔ خاص طور سے شادی بیاہ جیسے معاملات میں تو بہت ہی احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ یہ زندگی بھر کا ساتھ ہے اس میں غلط اور بےجوڑ ساتھی اکثر زندگی کو تلخ کردینے کا سبب بن جایا کرتا ہے۔ ایک شخص ظاہری حسن و خوبی سے متاثر ہو کر شادی کرلیا ہے لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد جب زندگی کا یہ جذباتی طوفان تھمنے لگتا ہے تو خاندان اور اولاد کے بڑے مسائل پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں جو کبھی کبھی خاندان کے مسائل میں بڑے بڑے الجھاؤ کا سبب بن جایا کرتے ہیں اسی لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان کو اپنے نکاح کے لئے دین دار اور صالح عورت کو تلاش کرنا چاہئے تا کہ خود اس کے لئے بھی وہ عورت دینی معاملات میں مدد گار ثابت ہو اور اس کی اولاد کو بھی دین دار ہونے کا موقع مل سکے۔ اس حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب بےدین عورت سے نکاح کو پسند نہیں کیا گیا تو کسی غیر مسلم عورت سے نکاح کو کیسے پسند کیا جاسکتا ہے ۔ حضرت عمر فاروق (رض) کے دور میں جب آپ کو خبر پہنچی کہ عراق اور شام کے مسلمان کچھ اہل کتاب کی لڑکیوں سے شادیاں کر رہے ہیں تو آپ نے حکماً ایسی شادیوں کو روک دیا اور فرمایا کہ یہ شادیاں مسلم گھرانوں کے لئے بڑی خرابیوں کا سبب بن جائیں گی اور مصلحت کے بھی خلاف ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاروق اعظم (رض) کی دور بین نگاہوں نے ان شادیوں کے پس منظر اور ان کے بھیانک نتائج کا اچھی طرح اندازہ کرلیا تھا کہ اس کا بالاخر نتیجہ کیا ہوگا۔ ان آیتوں میں بنی اسماعیل کے مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کے متعلق یہ وضاحت کی جا رہی ہے کہ ان عورتوں کو نہ تو اپنے نکاح میں لینا جائز ہے اور نہ اپنی لڑکیاں ان کے نکاح میں دینا جائز ہے۔ فرمایا کہ ایک مومن لونڈی ایک آزاد مشرک عورت سے لاکھ درجہ زیادہ بہتر ہے اگرچہ وہ مشرک عورت تمہیں کتنی ہی دلکش کیوں نہ لگتی ہو۔ اسی طرح ایک مومن غلام ایک آزاد مشرک مرد سے کہیں بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں کتنا ہی بھلا کیوں نہ لگتاہو۔ اس کی وجہ بتائی گئی ہے کہ ایمان اور عمل صالح ہی وہ بنیاد ہے جو تمہیں رشتے ، ناتے، ذات برادری سے ممتاز کرنے والی چیز ہے اس میں پسند اور ناپسند کا معیار نہ حسب نسب ہے اور نہ شکل و صورت بلکہ صرف اور صرف ایمان اور عمل صالح ہے۔ رشتے ناتے کے اثرات زندگی پر وقتی اور سطحی نہیں پڑتے بلکہ بڑے گہرے ہوتے ہیں ۔ اگر ایک شخص ان چیزوں میں عقائد ایمان اور عمل صالح کو کوئی اہمیت نہ دے صرف مال، حسن، خاندان یا مصلحت ہی کو سامنے رکھے تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ہی خرچ پر اپنے گھر میں ایک ایسی مصبیت کو دعوت دے ڈالے جو صرف اس کے لئے نہیں بلکہ آئندہ نسلوں کے لئے بھی ایک وبال جان بن جائے۔ بنی اسرائیل کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ ان کے اندر بیشمار عقائد کی گمراہیاں ان عورتوں کے ذریعہ پھیلیں جو وہ دوسری بت پرست قوموں سے بیاہ کر لائے تھے۔ اسی طرح ہمارے مغل بادشاہوں نے ہندوراجاؤں کے ساتھ جو سیاسی مصلحتوں کی بناء پر شادیاں کی تھیں تو ان کی لڑکیوں کے ساتھ ساتھ ان کے عقائد، اوہام پرستی، رسمیں اور عبادت کے بھونڈے طریقے بھی ہمارے اندر گھس آئے۔ خلاصہ یہ ہے کہ زندگی کے اس معاملہ میں قرآن ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ شادی بیاہ کے معاملات میں آدمی کو انتہائی سنجیدہ ہو کر وہ قدم اٹھانا چاہئے جو خود اس کے لئے اور آئندہ نسلوں کے لئے کسی بےدینی کا سبب نہ بن جائے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اس آیت میں دو حکم ہیں ایک یہ کہ کافروں مردوں سے مسلمان عورت کا نکاح نہ کیا جاوے سو حکم یہ کہ مسلمان مرد کا کافر عورت سے نکاح نہ کیا جائے اس حکم میں دو جزو ہیں ایک جزویہ کہ وہ کافر عورت کتابی یعنی یہودی یا نصرانی نہ ہو اور کوئی مذہب کفر کا رکھتی ہو اس جزو میں بھی اس آیت کا حکم باقی ہے چناچہ ہندو عورت یا آتش پرست عورت سے نکاح مسلمان کا نہیں ہوسکتا دوسرا جزو یہ کہ عورت کتابیہ ہو یعنی یہود و نصاری اس خاص جزو میں اس آیت کا حکم باقی نہیں بلکہ ایک آیت سورة مائدہ میں اس مضمون کی ہے کہ کتابی عورتوں سے نکاح درست ہے سو اس آیت سے اس آیت کا یہ خاص جزو منسوخ ہوگیا چناچہ یہود و نصاری سے نکاح درست ہے لیکن اچھا نہیں حدیث میں دین دار عورت کے حاسل کرنے کا حکم ہے تو بددین عورت کا حاصل کرنا اس درجہ میں ناپسندیدہ ہوگا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سورة کے مرکزی مضمون سے وابستہ احکام۔ معاشرتی اور عائلی مسائل کے سلسلہ میں اب ایک اہم اور بنیادی مسئلے کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے۔ کیونکہ جوں جوں اسلام پھیل رہا تھا اس کے ساتھ ہی معاشرہ میں نئے نئے مسائل پیدا ہورہے تھے۔ ان میں سے اہم ترین مسئلہ یہ تھا کہ ایک آدمی مسلمان ہوجاتا ہے اور اس کی بیوی کفر و شرک کی حالت پر قائم رہتی ہے۔ اسی طرح اس کے برعکس صورت بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ یا دوسری صورت میں ایک مسلمان کو ازدواجی زندگی اپناتے ہوئے کون سے بنیادی اصولوں کا خیال رکھنا چاہیے ؟ اس کے بارے میں بنیادی اصول یہ قرار پایا کہ ” آج کے بعد کوئی مرد کافرہ اور مشرکہ کے ساتھ اور کوئی مومن خاتون کسی کافر اور مشرک کے ساتھ نکاح نہیں کرسکتی۔ چاہے جمال و کمال کے اعتبار سے وہ مرد اور عورت کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں ؟ یہاں تک کہ وہ حلقۂ اسلام میں داخل ہوجائیں۔ ان کے مقابلے میں ایک غلام مسلمان عورت ہو یا مرد کہیں بہتر ہیں۔ حالانکہ معاشرتی طور پر آزاد کے مقابلے میں غلام مرد ہو یا عورت اس کی حیثیت آزاد کے برابر نہیں ہوسکتی۔ خاص کر عرب معاشرے میں غلاموں کی حیثیت ایک زرخرید جانور سے زیادہ نہیں تھی۔ لیکن شرک اور کفر ایسے جرم ہیں جن سے آدمی کی حیثیت حقیقی طور پر ایک غلام سے بھی زیادہ ابتر ہوجاتی ہے۔ اس کے نقصانات دینی اور سماجی اعتبار سے اتنے زیادہ ہیں جن پر کنٹرول کرنا کسی کے بس کا روگ نہیں رہتا۔ کفریہ اور شرکیہ عقیدہ رکھنے والا مردہویا عورت درحقیقت وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار اور اس کے ساتھ شرک کرکے عملًا اس سے بغاوت کا اقرار کرتا ہے۔ کوئی ایمانی غیرت رکھنے والا شخص ایسے باغی کے ساتھ زندگی کا بندھن قائم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتا۔ سماجی لحاظ سے وہ ایک ایسی ذہنی کش مکش میں مبتلا ہوتا ہے جس سے چھٹکارا پانا ناممکنات میں سے ہے۔ کیونکہ ایماندار خاوند اپنی اولاد کو ایمان اور جنت کی ہی دعوت دے گا۔ جب کہ اس کی مشرک بیوی اولاد کو اپنے عقیدے کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے گی جو سراسر خدا سے بغاوت اور جہنم کے راستے پرچلنے، چلانے کے مترادف ہے۔ یہی صورت ایک مومنہ بیوی کی مشرک اور کافر خاوند کے ساتھ پیدا ہوگی۔ ایسی صورت میں اولاد، خاندان اور معاشرے پر کس قدر منفی اور باہمی کش مکش کے اثرات مرتب ہوں گے ؟ اگر مسلمانوں کو کفرو شرک کے اختلاط سے منع نہ کیا جائے تو امت کا اپنا تشخص کس طرح قائم ہوسکتا ہے ؟ اس لیے ارشاد ہوتا ہے کہ یہ لوگ تمہیں جہنم کی آگ کی دعوت دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بنا کر تمہیں اپنی بخشش اور جنت کے راستے کی رہنمائی کی ہے تاکہ ان حقائق کو سامنے رکھ کر تم نصیحت حاصل کرو۔ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ لِأَرْبَعٍ لِمَالِھَا وَلِحَسَبِھَا وَلِجَمَالِھَا وَلِدِیْنِھَا فَاظْفُرْ بِذَات الدِّیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ ) [ رواہ البخاری : کتاب النکاح، باب الأکفاء فی الدین ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عورت سے چار وجوہات کی بنیاد پر شادی کی جاتی ہے۔ مال کی وجہ سے، حسب ونسب کی بناء پر، اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی بنیاد پر۔ پس تم دین دار کو پسند کرو تاکہ تم کامیاب اور تروتازہ رہو۔ “ اہل کتاب کے ساتھ نکاح کرنے کا مسئلہ (المائدہ :5) چھٹے پارے میں بیان ہوگا۔ ان شاء اللہ مسائل ١۔ مشرک مرد اور عورت سے نکاح جائز نہیں۔ ٢۔ مومن غلام اور کنیز آزاد مشرک مردوزن سے بہتر ہیں۔ ٣۔ مشرک جہنم کی طرف بلانے والے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ اپنی بخشش اور جنت کی دعوت دیتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے احکام نصیحت حاصل کرنے کے لیے ہیں۔ تفسیر بالقرآن کن عورتوں سے نکاح جائز نہیں ؟ ١۔ مشرکہ اور کفار عورتوں سے نکاح جائز نہیں۔ (البقرۃ : ٢٢١۔ الممتحنۃ : ١٠) ٢۔ زانیہ سے نکاح جائز نہیں۔ (النور : ٣) ٣۔ محرمات سے نکاح جائز نہیں۔ (النساء : ٢٣، ٢٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس ١٥ ایک نظر میں یہ سبق گویا عائلی قوانین پر مشتمل ایک ضابطہ ہے ۔ اس میں خاندانی نظام کی شیرازہ بندی کی گئی ہے ۔ خاندان تحریک اسلامی کی تنظیم کی اساس ہے ۔ خشت اول ہے ۔ اس اساس کو اسلام نے ہر پہلو سے مضبوط کیا ہے ۔ اس پر بےحد توجہ دی گئی ہے ۔ اسے بڑی تفصیل سے منظم کیا ہے ۔ اسے ہر طرح سے بچاکررکھا گیا ہے۔ اسے دور جاہلیت کی انارکی سے پاک کیا گیا ہے ۔ اس سلسلے میں اتنی کوشش کی گئی ہے کہ قرآن مجید کی مختلف سورتوں میں جگہ جگہ اس سلسلے میں ہدایات دی گئی ہیں اور ان میں وہ تمام بنیادیں فراہم کردی گئی ہیں جو تحریک اسلامی کی تنظیم کے ابتدائی حلقے کی تنظیم اور تعمیر کے لئے ضروری تھیں ۔ اسلام کا اجتماعی نظام ایک قسم کا خاندانی نظام ہے ۔ اس کی اساس خاندان پر ہے ۔ اس لئے کہ انسان کے لئے اس کے رب کا تجویز کردہ نظام ہے ۔ اس میں انسان کی فطرت کی تمام ضروریات ، تمام خصوصیات اور تمام بنیادی باتوں کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔ خاندانی نظام کی جڑیں ابتداً تخلیق تک جاپہنچتی ہیں ۔ اس کی کونپلیں شاخ فطرت سے پھوٹتی ہیں ۔ انسان بلکہ تمام حیوانات کی تخلیق ہی خاندانی نظام پر ہے ۔ قرآن مجید سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ” اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں ۔ شاید کے تم اس سے سبق لو۔ “ ایک دوسری آیت میں فرماتے ہیں سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الأزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنْبِتُ الأرْضُ وَمِنْ أَنْفُسِهِمْ وَمِمَّا لا يَعْلَمُونَ ” پاک ہے وہ ذات جس نے تمام جوڑوں کو پیدا کیا ، ان تمام چیزوں سے سے جو زمین اگاتی ہے ۔ انسانی نفوس سے اور ان تمام دوسری چیزوں سے جو وہ نہیں جانتے۔ “ اب انسان کا مزید نقطہ نظر سے جائزہ لیا جاتا ہے اور اسے وہ پہلا انسان یاد دلایا جاتا ہے جس کے واسطہ سے یہاں انسانوں کی بستی کا آغاز ہوا ۔ پہلی انسانی آبادی ایک جوڑا تھا ۔ پھر اس کی اولاد پیداہوئی ، پھر اس سے انسانیت اور انسانی آبادی پھیل گئی ۔ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ” لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلادیئے۔ اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو ، اور رشتہ وقربت کے تعلقات بگاڑنے سے پرہیز کرو ۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے ۔ “ دوسری جگہ ہے يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ” لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ “ پھر بتایا جاتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان ایک فطری جاذبیت ہے ۔ اس لئے نہیں کہ مرد و عورت علی الاطلاق اکٹھے ہوں ، بلکہ ان کے درمیان انس و محبت کا نتیجہ پیدا ہونا چاہئے کہ وہ خاندان کی بنیاد ڈالیں اور گھرانے تعمیر ہوں : وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً ” اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ “ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُم وَاَنتُم لِبَاسٌ لَّھُنَّ ” وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو۔ “ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ وَقَدِّمُوا لأنْفُسِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ ” تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں تمہیں اختیار ہے ۔ جس طرح چاہو اپنی کھیتی میں جاؤمگر اپنے مستقبل کی فکر کرو اور اللہ کی ناراضگی سے بچو ۔ خوب جان لو کہ تمہیں ایک دن اس سے ملنا ہے ۔ “ واللّٰہ جعل لکم من بیوتکم سکنا ” حقیقت ہے کہ اللہ نے تمہارے گھروں کو تمہارے لئے جائے سکون بنایا ہے۔ “ یہ فطرت ہے کہ جو اپنا کام کرتی ہے اور یہ خاندان ہی ہے جو ابتدائی تخلیق اور پھر انسان کی تعمیر وتربیت میں فطرت عمیق مقاصد کی بجا آوری کے لئے لبیک کہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظام زندگی میں خاندانی نظام ایک فطری اور طبعی نظام ہے جس کا سر چشمہ انسان کی تخلیق کے آغاز سے پھوٹا ہے ۔ (آدم وحوا سے ) اگر گہرامطالعہ کیا جائے تو کائنات کی تمام اشیاء کا آغاز تخلیق بھی اسی نظام کے مطابق ہوا ہے ۔ اس طرح اسلام نے فطرت کے منہاج کو اپنایا ہے ، جس طرح اس کائنات کی دوسری اشیاء کی تخلیق خاندانی نظام کے اسلوب پر ہوتی ہے ۔ اسی طرح نظام کی اساس بھی خاندان کو قرار دیا گیا کیونکہ انسان بھی بہرحال اس کائنات کا ایک جزء ہے ۔ خاندان دراصل ایک قدرتی نرسری ہے ۔ جہاں چھوٹے بچوں کی صحیح دیکھ بھال اور تربیت ہوسکتی ہے ۔ صرف اس نرسری میں وہ صحیح طرح روحانی ، عقلی اور جسمانی نشوونما پاسکتے ہیں ۔ خاندان کے سایہ میں بچے میں محبت ، شفقت اور اجتماعی ذمہ داری (Reciprocal Responsibility) کا شعور پیدا ہوتا ہے ۔ اور اس نرسری میں اس پر جو رنگ چڑھتا ہے ، وہ پوری زندگی میں قائم رہتا ہے۔ بچے کو خاندان کی نرسری میں جو سبق ملتا ہے اسی کی روشنی میں وہ زندگی ۔ عملی زندگی کے لئے آنکھیں کھولتا ہے ، اسی کی روشنی میں وہ حقائق حیات کی تشریح کرتا ہے اور اسی کی روشنی میں زندگی میں عمل پیرا ہوتا ہے۔ تمام زندہ مخلوقات میں طفل آدم کی طفولیت سب سے طویل ہوتی ہے ۔ تمام زندہ چیزوں سے زیادہ ۔ وجہ یہ ہے کہ ہر زندہ ذی روح کا عہد طفولیت دراصل باقی زندگی کے لئے تیاری ، تربیت اور ٹریننگ کا زمانہ ہوتا ہے ۔ اس میں بچے کو اس رول کے لئے تیار کیا جاتا ہے جو اس نے باقی زندگی میں ادا کرنا ہوتا ہے ۔ چونکہ دنیا میں انسان نے جو فرائض سر انجام دینے ہیں وہ عظیم فرائض ہیں ۔ جو رول زمین پر انسان نے ادا کرنا ہوتا ہے وہ ایک عظیم رول ہے ، اس لئے اس کا عہد طفولیت بھی نسبتاً لمبا رکھا گیا ہے تاکہ اسے مستقبل کی ذمہ داریوں کے لئے بطریق احسن تیار کیا جاسکے اور اسے اچھی طرح ٹریننگ دی جاسکے ۔ اس لئے دوسرے حیوانات کے مقابلے میں وہ والدین کے ساتھ رہنے کے لئے زیادہ محتاج ہے لہٰذا ایک پرسکون خاندانی ماحول ، مستقل خاندانی نرسری انسانی نظام زندگی کے لئے لازمی ہے۔ انسانی فطرت کے زیادہ قریب اور اس کی تشکیل اور نشوونما اور اس کی زندگی میں اس کے کردار کے لئے موزوں تر ہے۔ دور جدید کے تجربات نے اس بات کو یقین تک پہنچادیا ہے کہ خاندانی گہوارے کے مقابلے میں لوگوں نے بچوں کی نگہداشت کے جو انتظامات بھی کئے وہ سب کے سب ناقص رہے اور وہ خاندان کے نعم البدل ثابت نہیں ہوسکے ۔ بلکہ ان انتظامات میں سے کوئی انتظام بھی ایسا نہیں ہے جس میں بچے کی نشوونما کے لئے مضر پہلو نہ ہوں یا جس میں اس کی معیاری تربیت ممکن ہوسکے ۔ خصوصاً اجتماعی نرسری کا وہ نظام جسے دور جدید کے بعض مصنوعی اور جابرانہ نظام ہائے حیات نے محض اس لئے قائم کیا کہ وہ اللہ کے قائم کردہ مضبوط فطری اور صالح خاندانی نظام کی جگہ لے سکے ۔ محض اس لئے کہ یہ لوگ دین کی دشمنی میں مبتلا ہوگئے اور دین پر اندھا دھند حملے کرکے اس کی ہر چیز کے خلاف ہوگئے۔ اس لئے خاندانی نظام کو جبراً ختم کرکے اس کی جگہ بچوں کے لئے نرسریاں قائم کردیں۔ اگرچہ بعض اوقات ایسی نرسریاں حکومت کے تحت بھی قائم ہوئیں مثلاً دینی حدود وقیود سے آزاد مغربی ممالک نے ماضی قریب میں جو وحشیانہ جنگیں لڑیں ۔ وہ سب کے سامنے ہیں ۔ ان جنگوں میں وحشیوں نے لڑنے والوں اور پر امن شہریوں میں کوئی تمیز نہ کی ، اس کے نتیجے میں لاتعداد لاوارث بچے ماں باپ کے سایہ کے بغیر رہ گئے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ کی بعض حکومتیں ان بچوں کے لئے اجتماعی نرسریاں قائم کرنے پر مجبور ہوگئیں۔ علاوہ ازیں مغرب کے جاہلی تصور حیات کے نتیجہ میں وہاں کے انسان کے لئے مناسب اجتماعی اور اقتصادی نظام کے مقابلے میں بدشکل اقتصادی اور معاشرتی نظام وجود میں آیا اور جس میں نوزائیدہ بچوں کی مائیں اس پر مجبور ہوگئیں کہ وہ اپنے لئے خود کمائیں اور مجبوراً بتقاضائے ضروریات بچوں کی اجتماعی نرسریاں وجود میں آئیں ۔ یہ نظام نہ تھا بلکہ ایک لعنت تھی ۔ اس نے بچوں کو ماؤں کی مامتا اور خاندان کے زیرسایہ ان کی تربیت سے محروم کردیا ، بیماروں کو نرسری میں پھینک دیا گیا ، نرسری کا نظام بچوں کی فطرت اور ان کے نفسیاتی ساخت سے متصادم تھا اس لئے نتیجہ یہ نکلا کہ اس قسم کے بچے ذہنی الجھنوں کا شکار ہوگئے اور انہیں بیشمار نفسیاتی پریشانیاں لاحق ہوگئیں۔ تعجب انگیز بات یہ ہے کہ ہمارے بعض معاصرین ان حقائق کے باوجود اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عورت کے لئے ملازمت کا اختیار کرنا ترقی اور آزادی کی علامت ہے ۔ اور اس بات کا ثبوت ہے معاشرہ رجعت پسندی سے آزاد ہوگیا ہے۔ آپ نے دیکھا ! ان لوگوں کے نزدیک آزادی اور ترقی اس لعنت کا نام ہے جس کی وجہ سے اس دنیا میں انسان کی سب سے قیمتی ذخیرہ یعنی بچوں کی نفسیاتی صحت اور ان کی اخلاقی ترقی تو ختم ہوکر رہ گئی ہے ۔ حالانکہ بچے انسانیت کے مستقبل کا سرمایہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس قیمتی سرمایہ کو ضائع کرکے انسان کیا فائدہ حاصل کرتا ہے ؟ صرف یہ خاندان کی آمدنی میں حقیر سا اضافہ ہوجاتا ہے بجائے اس کے کہ وہ اپنی اولاد کی کفالت کرے ۔ یہ صورتحال اس لئے پیش آئی کہ مغربی جاہلیت اور جدید مشرقی جاہلیت اور اس کے فاسد اجتماعی نظام نے بچوں کے لئے والدہ کی کفالت کی خاطر والدہ کی ملازمت کی حوصلہ شکنی کرنے سے انکار کیا ۔ اور صورت یہ ہوگئی کہ اگر کوئی عورت ملازمت نہیں کرتی تو اس کے ساتھ رشتہ کرنے کے لئے بھی کوئی تیار نہ ہوتا۔ حالانکہ ملازمت سے وہ جو کچھ کماتی وہ اس عظیم سرمایہ کی تربیت اور نگہداشت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ۔ اس لئے بچے انسانیت کا نہایت ہی قیمتی اور نایاب سرمایہ ہیں ۔ نرسریوں کے تجربات سے سب سے پہلے جو چیز ثابت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے دو سال کے عرصہ میں بچہ فطری اور نفسیاتی طور پر اس بات کا محتاج ہوتا ہے کہ اسے مستقلاً والدین کی گود میں ہونا چاہئے۔ بالخصوص والدہ کے معاملے میں تو اس کی ضرورت یہ ہے کہ والدہ مستقلاً صرف اس کی خدمت گزار ہو اور اس کے ساتھ اس میں کوئی دوسرا بچہ بھی شریک نہ ہو۔ اس کے بعد ایک عرصہ تک پھر اسے یہ ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے ماں اور باپ ہوں اور اس کی نسبت ان کی طرف ہو۔ پہلی ضرورت نرسری کے سلسلہ میں ممکن نہیں ہے اور دوسری صورت سوائے اس کے کہ خاندانی نظام موجود ہو ممکن الحصول نہیں ہے۔ جو بچہ ان دوسہولتوں سے محروم رہے وہ توانائی اور نفسیاتی لحاظ سے ناقص رہے گا ۔ ایسے بچے لازماً کسی نہ کسی نفسیاتی الجھن کا شکار ہوتے ہیں ۔ اگر کسی کو کوئی ایسا حادثہ پیش آجائے اور وہ ان دونوں سہولتوں میں سے کسی ایک سے محروم ہوجائے تو یہ حادثہ اس بچے کے لئے تباہ کن ہوتا ہے لیکن ہمیں تعجب ہے کہ ہم کدہر جارہے ہیں ؟ ذرا اس غافل اور بیخبر جاہلیت پر غور کریں ، جس کی کوشش یہ ہے کہ نرسری کا نظام عام کردیا جائے اور زیادہ سے زیادہ بچوں کو ایسے تباہ کن حادثوں سے دوچار کیا جائے اور پھر جاہلیت کے بعض وہ تماشائی جو اسلام کی عطا کردہ امن وسلامتی سے محروم ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہلاکت ، چھوٹے چھوٹے بچوں کی ہلاکت وتباہی ترقی اور آزادی ہے ۔ ثقافت وتہذیب ہے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے اسلامی نظام حیات نے ، اپنے اجتماعی نظام کی بنیاد ” خاندان “ پر رکھی ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا یہ تھی کہ مسلمان امن سلامتی کے دائرے میں داخل ہوجائیں ۔ اور اسلام کے زیر سایہ سلامتی اور چین کی زندگی بسر کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے خاندانی نظام کے استحکام پر بہت زیادہ توجہ کی ہے۔ اس لئے کہ اسلام کے اجتماعی نظام میں خاندان بنیادی یونٹ قرار پانے والا تھا ۔ چناچہ قرآن مجید کی مختلف سورتوں میں خاندانی نظام کے استحکام کے لئے ، اس کے مختلف پہلوؤں کو منظم کیا گیا ہے اور اس کے لئے بنیادی مواد فراہم کیا گیا ہے ۔ چناچہ سورة بقرہ ان سورتوں میں سے ایک ہے ۔ اس سورت میں خاندانی نظام کے سلسلے میں جو آیات نازل ہوئی ہیں ان میں نکاح ، معاشرت ، ایلا ، طلاق ، نفقہ ، متعہ ، رضاعت اور حضانت کے اہم مسائل بیان کئے گئے ہیں ، لیکن یہاں ان احکام کو خاص احکام کی شکل میں بیان نہیں کیا گیا جیسا کہ عام طور پر قانون کی کتابیں پڑھنے والے کتب قانون میں مجرد دفعات اور احکام پاتے ہیں۔ ہرگز نہیں ! یہ احکام ایسی فضا میں وارد ہوتے ہیں کہ انسان کا دل و دماغ اسے بحیثیت ایک عظیم اصول کے لیتے ہیں ۔ انسانی زندگی کے لئے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام زندگی کا ایک عظیم اصول اور اس نظریہ حیات کا عظیم اصول جس سے اسلامی نظام زندگی کی کونپلیں پھوٹتی ہیں ۔ اور یہ کہ اس اصول اور اس قانون کا تعلق براہ راست اللہ تبارک وتعالیٰ سے ہے۔ یہ قانون اس کے ارادے ، اس کی حکمت ، اس کی مشیئت سے ملا ہوا ہے ۔ اور یہ اصول اس نظام زندگی کا ایک اہم حصہ ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پسند کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ساتھ اللہ کی رضا وغضب ، ثواب و عقاب وابستہ ہوتے ہیں اور ان احکام کا تعلق اسلامی نظریہ حیات سے ہوتا ہے ۔ اگر کوئی ان پر عمل کرے گا ، تو وہ شخص مسلم کہلائے گا ۔ اگر عمل نہ کرے گا تو مسلم نہ کہلائے گا۔ انسان پہلی ہی نظر میں اس معاملے کی نزاکت اور اہمیت کو سمجھ لیتا ہے ۔ اسی طرح یہ بات بھی اس کی سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس نظام کا ہر جز خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو اہمیت کا حامل ہے ۔ خود اللہ تعالیٰ اس نظام کا نگران ہے اور اس طرف اس کی خاص توجہ ہے ۔ اور یہ کہ اس نظام کی ہر چھوٹی اور بڑی بات مقصد بالذات ہے اور اللہ کے ہاں ایک عظیم مقصد کے لئے اسے رکھا گیا ہے ۔ اور یہ کہ اس انسان کی ذات کی نگرانی خود اللہ تعالیٰ کرتا ہے ۔ پھر تحریک کی تعمیر وتربیت کا کام بھی خودذات باری اپنی نگرانی میں فرماتی ہے اور اس تعمیر اور نشوونما اور ٹریننگ کی غرض صرف یہ ہے کہ تحریک اسلامی کو اس عظیم رول کے لئے تیار کرنا ہے ، جو اس نے اس کائنات میں ادا کرنا ہے ، پھر انسان یہ محسوس کرلیتا ہے کہ اس نظام زندگی کے کسی حصے پر عمل نہ کرنا ، اسے کمزور کرنا ، اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینا ہے ۔ ایسے افراد شدید غضب کے مستحق ہوجاتے ہیں۔ پھر یہ احکام بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کئے جاتے ہیں ، جب تک ایک حکم ختم نہیں ہوجاتا ، اس کے مالہ وماعلیہ بیان نہیں کردیئے جاتے ، اس وقت تک دوسرے حکم کا آغاز نہیں کیا جاتا ۔ پھر ہر حکم کے بعد تعقیبات اختتامیہ تبصرے اور نتائج بیان کئے جاتے ہیں ۔ بعض اوقات تو یہ تعقیبات اور تنبیہات بیان احکام کے درمیان ہی آجاتی ہیں ، جن سے مقصود یہ بتلانا ہوتا ہے کہ یہ معاملہ اہمیت کا حامل ہے ۔ بالخصوص وہ تعقیبات ، جن کا تعلق ضمیر و احساس اور دل کے تقویٰ سے ہوتا ہے کیونکہ یہ بیدار تقویٰ ، احساس اطاعت اور ضمیر کی نگرانی کے بغیر نہیں ہوسکتا کہ ان احکام کے بجالانے میں حیلہ سازی سے کام لیاجائے۔ پہلا حکم یہ ہے کہ مسلمان مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کریں نہ اپنی عورتوں کا نکاح کرکے مشرک کے حوالہ کریں ۔ اس کی وجوہات یہ بتائی گئی ہیںأُولَئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ” یہ لوگ تمہیں آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے اذن سے تم کو جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے اور وہ اپنے احکام واضح طور پر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے ، توقع ہے کہ وہ سبق لیں گے اور نصیحت قبول کریں گے۔ “ دوسرا حکم حیض کے دوران عورتوں سے مباشرت کرنے کے مسئلے کے متعلق ہے ۔ اس پر جو تعلیق وتبصرہ ہے ، اس میں اس فعل کو محض قضائے شہوت کے چند جسمانی منٹ کے تلذذ سے بلند کرکے ، اعلیٰ مقاصد اور انسانی فریضے کے اعلیٰ مقام تک بلند کیا جاتا ہے۔ بلکہ بتایا گیا ہے کہ یہ انسان کے ذاتی اور نجی فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے اور اس کا تعلق خالق تعالیٰ کی اس اسکیم سے ہے کہ اس کی مخلوق اس کی عبادت اور اس کے ڈر کی وجہ سے پاک وصاف ہوجائے۔ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (٢٢٢) نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ وَقَدِّمُوا لأنْفُسِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ ” پھر جب وہ پاک ہوجائیں ، تو ان کے پاس جاؤ اس طرح جیسا کہ اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے ، اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے ، جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں ۔ تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں ۔ تمہیں اختیار ہے ، جس طرح چاہو ، اپنی کھیتی میں جاؤ مگر اپنے مستقبل کی فکر کرو اور اللہ کی ناراضی سے بچو ۔ خوب جان لو کہ تمہیں ایک دن اس سے ملنا ہے ۔ اور اے نبی جو تمہاری ہدایات لیں انہیں خوشخبری دے۔ “ تیسرے حکم میں قسموں کے بارے میں احکام ہیں بعد میں چونکہ ایلا اور طلاق کے احکام بیان ہوں گے ۔ اس لئے یہاں بطور تمہید قسموں کے بارے میں عمومی حکم دے دیا۔ اللہ کے نام کی قسمیں کھانے کا ربط بھی ، اللہ پر پختہ یقین اور اللہ خوفی سے قائم کردیا گیا ہے ۔ ایک جگہ کہا گیا وَاللّٰہُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ” اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ “ اور دوسری جگہ ہے وَاللّٰہ غَفُورٌ حَلِیمٌ” اللہ بہت درگزر کرنے والا بردبار ہے۔ “ چوتھا حکم ایلا کا ہے اور اس کے آخر میں یہ تعقیب ہے فَإِنْ فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (٢٢٦) وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ” اگر انہوں نے رجوع کرلیا تو اللہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے ۔ اور اگر انہوں نے طلاق ہی کی ٹھان لی ہو تو جانے رہیں کہ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ “ پانچواں حکم مطلقہ عورت کی عدت کے بارے میں ہے ۔ اور اس حکم کے ساتھ بھی متعدد تعقیبات پیوستہ ہیں ۔ لا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ” اور ان کے لئے یہ جائز نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو کچھ خلق فرمایا ہو ، اسے چھپائیں ، انہیں ہرگز ایسا نہ کرنا چاہئے اگر وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہیں۔ “ اور چھٹا حکم طلاقوں کی تعداد کے بارے میں ہے اور طلاق کی حالت میں مہر اور نفقہ واپس لینے کے احکام ہیں ۔ ان احکام کے بعد بھی یہ تعقیبات وارد ہیں ۔ وَلا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلا أَنْ يَخَافَا أَلا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ” اور تمہارے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو ، اس میں سے کچھ واپس لے لو ، البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو ، ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے تو ان کے دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہوجانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرے ۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجاوز کریں وہی ظالم ہیں۔ “ اور یہ کہ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ” اور یہ دوسرا شخص بھی اسے طلاق دے دے تب اگر پہلا شوہر اور یہ عورت دونوں یہ خیال کریں کہ حدود الٰہی پر قائم رہیں گے ، تو ان کے لئے ایک دوسرے کی طرف رجوع کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ، جنہیں وہ ان لوگوں کی ہدایت کے لئے واضح کررہا ہے ، جو (ان حدود کو توڑنے کا انجام) جانتے ہیں۔ “ ساتواں حکم یہ ہے کہ اگر تم عورت کو طلاق دو تو یا پھر صحیح طرح اسے الگ کردو اور یا صحیح طرح اسے اچھے طریقے سے رخصت کردو اور اس حکم پر اللہ تعالیٰ کا تبصرہ یہ ہے ۔................................................ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ وَلا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُمْ بِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ” یابھلے طریقے سے انہیں روکو یا بھلے طریقے سے رخصت کرو۔ محض ستانے کی خاطر انہیں نہ روکے رکھنا کہ یہ زیادتی ہوگی اور جو ایسا کرے گا ، وہ درحقیقت آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرے گا ۔ اللہ کی آیات کا کھیل نہ بناؤ۔ بھول نہ جاؤ کہ اللہ نے کس نعمت عظمیٰ سے تمہیں سرفراز کیا ہے ۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ جو کتاب اور حکم اس نے تم پر نازل کی ہے اس کا احترام ملحوظ رکھو۔ اللہ سے ڈرو اور خوب جان لو کہ اللہ کو ہر بات کی خبر ہے ۔ “ دوسری ہدایت یہ ہے : ذَلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ ” یہ تمہیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت نہ کرنا ، اگر تم اللہ اور آخر پر ایمان لانے والے ہو ، تمہارے لئے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے باز رہو ۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔ “ آٹھواں حکم رضاعت اور اجرت پر دودھ پلانے اور اس کی اجرت کے متعلق ہے ۔ اور مفصل احکام بیان کرنے کے بعد اس پر یہ نصیحت کی جاتی ہے وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ” اللہ سے ڈر و اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو ، سب اللہ کی نظر میں ہے۔ “ نواں حکم اس عورت کی عدت کے بارے میں ہے جس کا خاوند فوت ہوگیا ہو ، اس پر یہ تعقیب باپروانہ آزادی فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ” پھر جب ان کی عدت پوری ہوجائے تو انہیں اختیار ہے کہ اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے ، جو چاہیں فیصلہ کریں ، تم پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اللہ تم سب کے اعمال سے باخبر ہے۔ “ دسواں حکم دوران عدت عورت کو اشارۃً نکاح دینے کے بارے میں ہے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ تعقیب وتبصرہ آتا ہے۔ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ سَتَذْكُرُونَهُنَّ وَلَكِنْ لا تُوَاعِدُوهُنَّ سِرًّا إِلا أَنْ تَقُولُوا قَوْلا مَعْرُوفًا وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ” اللہ جانتا ہے کہ ان کا خیال تمہارے دل میں تو آئے گا ہی مگر دیکھو ، خفیہ عہدوپیمان نہ کرنا ، اگر کوئی بات کرنی ہے تو معروف طریقے سے کرو۔ اور عقد نکاح باندھنے کا فیصلہ اس وقت تک نہ کرو جب تک کہ عدت پوری نہ ہوجائے۔ خوب سمجھ لو کہ اللہ تمہارے دلوں کا حال تک جانتا ہے ۔ لہٰذا اس سے ڈرو اور یہ بھی جان لو کہ اللہ بردبار ہے ۔ (چھوٹی چھوٹی باتوں سے) درگذر فرماتا ہے۔ “ گیارہواں حکم اس مطلقہ عورت کے بارے میں ہے ، جس کے ساتھ مباشرت نہ ہوئی ہو ، ایسی عورت کا مہر مقررنہ کیا گیا ہو تو حکم یا ادا کردیا ہو تو حکم ۔ اس پر یہ وجدانی تبصرہ دیکھئے۔ وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَلا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ” اور اگر تم (مرد) نرمی سے کام لو ، تو یہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو ۔ تمہارے اعمال کو اللہ دیکھ رہا ہے۔ “ بارہواں حکم مطلقہ عورتوں کے بارے میں اور جس کا خاوند فوت ہوچکا ہے۔ اس کے بارے میں ہے کہ ایک سال تک نان ونفقہ دو ۔ اس حکم پر آخر میں حکم ہوتا ہے وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ” اور مطلقہ عورتوں کا حق ہے کہ انہیں مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے ۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر ۔ “ اب ان سب احکام کے بیان کرنے کے بعد ان سب پر ایک جامع تبصرہ کیا جاتا ہے : كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ” اس طرح اللہ اپنے احکام تمہیں صاف صاف بتاتا ہے ۔ امید ہے کہ تم سمجھ بوجھ کر کام کروگے ۔ “ یہ سب احکام عبادت ہیں ۔ نکاح میں اللہ کی بندگی ہے ۔ مباشرت اور اضافہ نسل میں اللہ کی بندگی ہے ۔ طلاق اور جدائی بھی اللہ کی غلامی اور بندگی ہے۔ عدت اور دوران عدت طلاق سے رجوع بھی بندگی ہے ، نفقہ اور رخصتی کا سازوسامان بھی اللہ کی بندگی ہے ۔ معروف طریقے سے عورت کو روک کر بیوی بنالینا بھی بندگی ہے ۔ ورنہ اچھے طریقہ سے ہمیشہ کے لئے رخصت کردینا بھی اللہ کی بندگی ، فدیہ دینا بھی بندگی ہے۔ عوض دینا بھی بندگی دودھ پلانا بھی بندگی ہے اور دودھ سے چھڑانا بھی اللہ کی بندگی اور اطاعت ہے۔ غرض ہر حرکت اور ہر پیش آمد واقعہ میں ایک مسلمان کا طرز عمل اگر خدائی ہدایات کے مطابق ہے تو بندگی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان احکام کے عین وسط میں اچانک نماز کا حکم بھی آجاتا ہے ۔ یعنی خوف میں بھی نماز اور امن میں بھی نماز فرماتے ہیں حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ (٢٣٨) فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالا أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ ” اپنی نمازوں کی نگہداشت رکھو ، خصوصاً ایسی نماز کی جو محاسن صلوٰۃ کی جامع ہو ۔ (یابیچ والی نماز) اللہ کے آگے اس طرح کھڑے ہو ، جیسے فرمانبردار غلام کھڑے ہوتے ہیں ، بدامنی کی حالت ہو تو خواہ پیدل ہو ، خواہ سوار جس طرح ممکن ہو ، نماز پڑھو اور جب امن میسر آجائے تو اللہ کو اس طریقے سے یاد کرو جو اس نے تمہیں سکھایا ہے ، جس سے پہلے تم ناواقف تھے۔ “ آپ دیکھیں نماز کا یہ حکم عائلی احکام کے درمیان واقعہ ہے ۔ ابھی عائلی احکام ختم نہ ہوئے تھے کہ درمیان میں نماز کا ذکر آگیا ۔ تاکہ نماز کی عبادت کا حکم دوسری عبادات زندگی کے درمیان خلط ہوجائے ۔ یہ خلط اس لئے ہوا کہ یہ اسلام کے مزاج کے عین مطابق ہے ۔ اور اسلامی نظریہ حیات کی رو سے یہ کلی بندگی اور ہر کام میں عبادت وجود انسان کی اصل غرض وغایت ہے ۔ اس پورے سبق کا انداز بیان ، اس طرف بہت ہی لطیف انداز میں اشارہ کرتا ہے ۔ یہ کہ یہ سب چیزیں عبادت ہیں ، جس طرح نماز کے معاملے میں احکام الٰہی کی اطاعت عبادت ہے ، اسی طرح ان دوسرے عائلی معاملات میں بھی احکام الٰہی کی اطاعت عبادت ہے ۔ زندگی ایک اکائی ہے اور عبادات سب کی سب ایک ہی نوعیت کی ہیں ۔ تو احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور یہ سب احکام ہی زندگی کا وہ نظام ہیں جو اللہ تعالیٰ نے تجویز کیا ہے ۔ ان تمام احکام میں ، جس طرح اللہ کی عبادت اور بندگی کا ماحول ، اللہ کی اطاعت و عبادت کا رنگ ہے اور اللہ کی غلامی کا پرسکون سایہ ہے ، اسی طرح ان میں واقعی زندگی کے ماحول کو بھی نظرانداز نہیں کیا گیا ۔ انسان کی طبعی ساخت اور اس کی فطری خواہشات سے بھی قطع نظر نہیں کی گئی اور اس کرہ ارض پر انسانوں کی انسانی ضروریات کو بھی اچھی طرح پورا کیا گیا ہے۔ اسلام جو قانون بناتا ہے وہ انسانوں کے ایک گروہ کے لئے بنارہا ہے ، وہ یہ قانون بہرحال فرشتوں کے لئے نہیں بنارہا ہے ۔ نہ اڑتے ہوئے تخیلات کے عالم میں کسی فرضی مخلوق کے لئے ۔ اس لئے عام ہدایات اور قانون سازی یا شرعی احکام کے ذریعے ، جب اسلام انہیں اللہ کی بندگی کی فضاتک بلند کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ حقیقت اچھی طرح اس کے سامنے ہوتی ہے کہ وہ سب کچھ ایک انسان کے لئے کررہا ہے ۔ یہ کہ بندگی ایک بشر نے کرنی ہے اور انسانوں میں انسانی جذبات ومیلانات پائے جاتے ہیں ۔ ان میں ضعف ہے اور کئی قسم کی کمزوریاں ہیں ۔ ان کو ضروریات لاحق ہوتی ہیں اور ماحول سے متاثر ہوتے ہیں ، وہ جذبات رکھتے ہیں اور باشعور مخلوق ہیں ۔ ایک طرف ان میں روحانی اشراق ہے تو دوسری طرف انسانی کثافتیں بھی ہیں اور اسلامی نظام زندگی میں ایک ایسا نظام ہے جوان سب امور کا خیال رکھتا ہے ۔ اور ان کے باوجود انسان کو ایک پاک بندگی کی راہ پر لگا دیتا ہے ۔ ایک روشن چراغ انہیں دکھاتا ہے ۔ ہدایت کا روشن چراغ ۔ لیکن بغیر کسی جبر کے ، بغیر کسی مصنوعی ذریعہ کے ، وہ اپنے تمام نظام زندگی کی بنیاد اس پر قائم کرتا ہے کہ یہ انسان بہر حال انسان ہے ! یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ایلا کو جائز قرار دیا ۔ یعنی ایک مرد کے جائز ہے کہ وہ ایک مقررہ وقت تک عورت کے ساتھ مباشرت نہ کرنے کی قسم کھالے ۔ لیکن شرط یہ ہے یہ قسم چار ماہ سے زیادہ نہ ہوگی۔ پھر اسلام طلاق کی گنجائش رکھتا ہے ۔ اور اس کے باقاعدہ قانون سازی کرتا ہے۔ اس کے احکام اور نتائج کو بھی منظم طریقے سے قانونی ضابطہ کا پابند کردیتا ہے۔ ایسے حالات میں ازروئے قانون طلاق کی گنجائش رکھی گئی ہے ، جبکہ دوسری طرف خاندانی نظام کی بنیادوں کو پوری طرح مستحکم کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی ہے ۔ خاندانی تعلقات کو مزید پختہ کرنے کی سعی کی گئی ہے اور افراد خاندان کے باہمی ربط کو محض معاشرتی فائدوں سے بلند کرکے اسے اطاعت خداوندی اور عبادت رب کا بلند تصور دے دیا گیا ہے ۔ یہ وہ توازن ہے جو اسلامی نظام زندگی کے عملی پہلوؤں کو واقعی بہت ہی بلند اور ایک حقیقی مثالی نظام کردیتا ہے۔ جو مثالی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی طاقت اور وسعت کے دائرے کے اندر بھی رہتا ہے ۔ اور یوں لگتا ہے کہ یہی نظام ہے جو فی الواقعہ ایک عام انسان کے لئے بنایا گیا ہے۔ نظام کیا ہے فطرت کی سہولتیں ہی سہولتیں ہیں ۔ مرد اور عورت دونوں کے لئے حکیمانہ سہولیات ہیں ۔ اگر ایک تشکیل شدہ خاندان ، جس کی بنیاد مرد و عورت کے نکاح سے پڑی تھی کامیاب نہیں ہوتا ، اس ابتدائی انسانی خلیہ (Cell) میں امن و سکون قائم نہیں ہوسکتا تو اللہ وہ ذات ہے جو جاننے والا خبردار ہے ، وہ لوگوں کے بارے میں وہ کچھ جانتا ہے ، جو وہ خود بھی نہیں جانتے ۔ اس لئے ذات باری نے یہ نہ چاہا کہ وہ مرد و عورت کے رابطہ نکاح کو ناقابل انفکاک بنادے اور اس طرح ابتدائی انسانی جوڑے کو انس و محبت کے گہوارے کے بجائے ایک قید خانہ بنادے ۔ میاں بیوی ایک دوسرے کو دیکھنا چاہتے ہوں مگر جدائی محال ہو ، ان کے دلوں میں سب شکوک و شبہات سیلابی شکل اختیار کرگئے ہیں لیکن بچنے کی کوئی صورت نہ ہو ۔ میاں بیوی کے تعلقات شبہات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں دب کر ررہ گئے ہوں لیکن روشنی کی طرف نکل آنے کی کوئی صورت نہ ہو ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تومیاں بیوی کے جوڑ اور اس چھوٹے خاندان کو اس لئے بنایا تھا کہ وہ دارالسکون ہو ، دارالامن ہو۔ اگر اس سے یہ مقصد پورا نہ ہورہا ہو اور اس لئے نہ ہورہا ہو کہ فریقین کی فطرت اور طبائع میں اختلاف ہو ، تو پھر ایسی صورت میں بہتر یہی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان جدائی ہوجائے اور اس بیمار خاندان کو ختم کردیا جائے اور وہ دوبارہ کوشش کریں کہ جڑسکیں لیکن جدائی کا فیصلہ بھی محض سرسری اختلافات کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ اس خاندان کو بچانے کے لئے تمام وسائل کام میں لائے جاتے ہیں ۔ اس لئے کہ اسلامی نظام زندگی میں انسانی اجتماع میں خاندان مقدس ترین اکٹھ ہے ۔ لیکن جدائی کی صورت میں بھی ایسے احکام دیئے گئے ہیں کہ نہ خاوند کو نقصان پہنچے نہ بیوی کو ۔ نہ بچے کو اور نہ ہی جنین کو ۔ یہ ہے وہ ربانی نظام زندگی ، جسے اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے تشکیل دیا۔ جب انسان اس نظام کی بنیاد وں پر غور کرتا ہے ، جسے اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے تجویز کیا ہے اور پھر اس نظام کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اس معاشرے ، پاک معاشرے پر نگاہ ڈالتا ہے جس میں امن وسلامتی کا دور دورہ ہوتا ہے اور پھر اس کے مقابلے میں اس نظام زندگی کا مطالعہ کرتا ہے ، جو اس وقت فعلاً انسانی زندگی میں قائم ورائج تھا ۔ تو نظر آتا ہے کہ دونوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ اور اسلامی معاشرہ ایک مثالی معاشرہ ہے ۔ اور اگر اسلامی معاشرے کا مقابلہ مشرق ومغرب میں آج کے جدید جاہلی معاشروں سے کیا جائے تو بھی یہ مثالی معاشرہ ایک اونچے مقام پر نظر آتا ہے ، حالانکہ ان جدید جاہلی معاشروں کے حامی اپنے آپ کو بڑا ترقی یافتہ معاشرہ سمجھتے ہیں ۔ اس تقابلی مطالعہ کے نتیجے میں اچھی طرح احساس ہوجاتا ہے کہ اسلام نے شرافت ، پاکیزگی اور امن و سکون کا اونچا معیار قائم کیا ہے ۔ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اس اونچے مقام تک انسانوں کو پہچانے کے لئے قانون بنایا ۔ خصوصاً عورت کو تو اس نظام میں خصوصی رعایتیں دی گئیں ہیں ۔ بہت بڑی حرمت اور شرافت اسے عطاکردی گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جو مستقیم الفطرت عورت بھی ان خصوصی رعایتوں پر غور کرے ، جو اللہ نے اسلامی نظام میں عورتوں کو دی ہیں ، وہ بےاختیار اللہ تعالیٰ کے ساتھ بےپناہ محبت کرنے لگے گی ، بشرطیکہ وہ استقامت فکر سے غور کرے ۔ (بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرک مردوں اور عورتوں سے نکاح کرنے کی ممانعت اس آیت شریفہ میں مسلمانوں کو اس بات سے منع فرمایا ہے کہ مشرک عورتوں سے نکاح کریں، ہاں اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو ان سے نکاح کرنا جائز ہوگا مشرک عورتیں بعض مرتبہ حسن و جمال یا اموال کے اعتبار سے اچھی معلوم ہوتی ہیں اور ان سے نکاح کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ اس کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ تم مشرکہ سے نکاح نہ کرو، اگر کوئی باایمان لونڈی مل جائے تو اس سے نکاح کرلو۔ وہ تمہارے لیے مشرک عورت سے بہتر ہے۔ پھر دوسرا حکم ارشاد فرمایا کہ مشرکوں سے اپنی عورتوں کا نکاح نہ کرو، مشرک کی نسبت مومن غلام بہتر ہے (تم اس سے اپنی عورتوں کا نکاح کرو) ہاں اگر کوئی مشرک مسلمان ہوجائے تو وہ تمہارا دینی بھائی ہوگیا اس سے اپنی عورتوں کا نکاح کرسکتے ہو۔ آخر میں مشرکوں سے بچنے اور ان سے ازدواجی تعلقات قائم نہ کرنے کی علت بتادی کہ مشرکین دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، مشرکین سے مردہوں یا عورت ازدواجی میل جول رکھنے میں خطرہ ہے کہ مسلمان مرد ہو یا عورت خدانخواستہ ان کے عقائد سے متاثر ہوجائے اور کسی دن ایمان کھو بیٹھے اور مستحق دوزخ ہوجائے، پھر مسئلہ اولاد کا بھی پیدا ہوگا مرد مشرک ہو یا عورت وہ اولاد کو ضرور اپنے دین پر لگائیں گے۔ اگر اولاد مشرک ہوگئی تو دوزخی ہوگی۔ لامحالہ مؤمن مردو عورت مشرک مرد و عورت سے بہتر ہے چاہے وہ مومن غلام یا باندی ہی ہو، چونکہ نہ تو وہ اپنے جوڑے کو دوزخ کی دعوت دیتا ہے اور نہ اولاد کو دوزخ کے راستہ پر ڈالتا ہے۔ فائدہ : آیت کے عموم الفاظ سے ظاہر ہے کہ کسی مومن عورت کا کسی مشرک مرد سے اور کسی مومن مرد کا کسی مشرک عورت سے نکاح درست نہیں ہے اور اس عموم میں ہر طرح کے کافر داخل ہیں۔ ملحد زندیق دہرئیے بھی اسی حکم میں آجاتے ہیں۔ ایسے مردوں اور عورتوں سے کسی مرد مومن اور عورت مومنہ کا نکاح درست نہیں اگر نکاح کرلیا تو وہ نکاح شرعی نکاح نہ ہوگا اور اس کی بنیاد پر ازدواجی تعلقات حرام ہوں گے، البتہ کتابی عورت (یہودیہ ہو یا نصرانیہ) سے مسلمان مرد کا نکاح درست ہے اور اس کا جواز سورة مائدہ کے پہلے رکوع میں بیان فرما دیا ہے، اس کے بعض احکام ہم وہیں بیان کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ ، یہاں اتنا سمجھ لینا چاہیے کہ اگرچہ یہودیہ و نصرانیہ عورت سے مسلمان کا نکاح درست ہے لیکن ان سے بچنا افضل ہے خاص کر اس زمانہ میں جبکہ یہ عورتیں مسلمانوں سے نکاح کرتی ہی اس لیے ہیں کہ مسلمانوں کو اپنے دین پر لے آئیں اور اولاد کو بھی اپنے دین پر ڈال دیں، اور مسلمانوں کی اندرونی خبریں دشمنان اسلام کو پہنچایا کریں۔ حضرت عمر (رض) نے اپنے زمانے میں اس نزاکت کو بھانپ لیا تھا اور اپنے عہد خلافت میں صحابہ (رض) کو اس سے روکتے تھے۔ (کما فی کتاب الآثار لامام محمد بن الحسن الشیبانی ص ٨٩) بہت سے ممالک میں جہاں مسلمان مل جل کر رہتے ہیں اور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہر مذہب اور مسلک کے لڑکے لڑکیاں یکجا جمع ہو کر کلاسوں میں بیٹھتے ہیں وہاں ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں کہ مسلمان لڑکے اور لڑکیاں مقامی حکومت کے قانون کے مطابق کو رٹ میں جا کر نکاح کرلیتے ہیں، اگر لڑکا مسلمان ہو اور لڑکی کتابی ہو تو نکاح منعقد ہوجاتا ہے بشرطیکہ ایجاب و قبول گواہوں کے سامنے ہوا ہو اور اگر لڑکی کتابی نہیں، ہندو، سکھ، بدھسٹ، آتش پرست ہو تو یہ نکاح ہونے ہی کا نہیں، اور کسی مسلمان عورت کا نکاح کسی بھی کافر سے نہیں ہوسکتا اگرچہ وہ کافر یہودی و نصرانی ہو۔ بہت سے فرقے ایسے بھی ہیں جو اپنے کو مسلمان کہتے ہیں لیکن وہ اپنے عقائد کی وجہ سے کافر ہیں۔ مثلاً وہ لوگ جو ختم نبوت کے منکر ہیں اور وہ لوگ جو تحریف قرآن کے قائل ہیں اور وہ لوگ جو اپنے امام کے اندر خدائے پاک کا حلول مانتے ہیں یہ سب لوگ بھی کافر ہیں ان سے کسی مسلمان لڑکی کا نکاح نہیں ہوسکتا اور نہ کسی مسلمان مرد کا اس طرح کی کسی عورت سے نکاح ہوسکتا ہے۔ سبب نزول بیان کرتے ہوئے اسباب النزول ص ٦٦ میں لکھا ہے کہ ابو مرثد غنوی صحابی (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عناق نامی عورت سے نکاح کرنے کی اجازت چاہی، یہ عورت قریشیہ تھی اور حسن و جمال میں بڑھ کر تھی لیکن وہ مشرکہ تھی اور ابو مرثد مسلمان تھے، ابو مرثد نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ میرے دل کو بھاتی ہے، اس پر آیت (وَ لَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ ) نازل ہوئی اور یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) کی ایک سیاہ فام باندی تھی انہوں نے غصہ میں اس کو ایک طمانچہ مار دیا پھر گھبرائے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا واقعہ سنایا، آپ نے فرمایا اے عبداللہ وہ کیسی عورت ہے ؟ عرض کیا یا رسول اللہ وہ روزہ رکھتی ہے نماز پڑھتی ہے۔ اور اچھی طرح وضو کرتی ہے اور اللہ کی توحید کی اور آپ کی رسالت کی گواہی دیتی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے عبداللہ وہ مومنہ ہے، انہوں نے عرض کیا قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں ضرور اس کو آزاد کر دوں گا اور اس سے نکاح کرلوں گا۔ چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، اس پر بعض مسلمانوں نے ان پر طعن کیا اور کہا کہ اس نے باندی سے نکاح کرلیا، جو لوگ چاہتے تھے کہ مشرکین سے مناکحت ہوتی رہے (کیونکہ ان لوگوں میں کچھ مال و جمال نظر آتا تھا) ان کی تردید میں اللہ تعالیٰ شانہ نے آیت (وَ لَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکَۃٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَتْکُمْ ) نازل فرمائی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

431 چوتھا مسئلہ۔ یہاں ایک طرف تو حسن و جمال اور دنیوی مال و دولت ہے اور دوسری طرف مشرک یا مشرکہ کی رفاقت سے اپنے دین کی بربادی کا خطرہ ہے۔ دوسری جہت کو ترجیح دے کر مشرک مرد سے مومنہ کا اور مشرک عورت سے مومن مرد کا نکاح حرام قرار دیدیا۔ وَّلَوْ اَعْجَبَـتْكُمْ ۔ حسن و جمال اور دنیوی مال دین اور ایمان کے مقابلہ میں بےحقیقت ہیں اس لیے ایمان دار لونڈی جو ظاہری حسن اور دنیوی مال سے محروم ہو اس آزاد عورت سے بہتر ہے جو حسینہ وجمیلہ ہونے کے ساتھ دولتمند بھی ہو مگر مشرکہ ہو۔ حسن اور دنیوی مال کو شرک کے مقابلہ میں ٹھکر ادو اور مشرکین سے رشتہ نکاح مت جوڑو۔ 432 جس طرح مومن مرد کا نکاح مشرک عورت سے جائز نہیں ہے۔ اسی طرح مومن عورت کا نکاح مشرک مرد سے جائز نہیں۔ حضرت مولانا شاہ عبدالقادر محدث دہلوی اس آیت کے تحت فرماتے ہیں " اگر مرد یا عورت نے شرک کیا ان کا نکاح ٹوٹ گیا۔۔ شرک یہ کہ اللہ کی صفت غیر میں جانے۔ مثلاً کسی کو سمجھے کہ اس کو ہر بات معلوم ہے وہ جو چاہے کرسکتا ہے یا ہمارا بھلا برا کرنا اس کے اختیار میں ہے اور یہ کہ اللہ تعظیم غیر پر خرچ کرے مثلا کسی چیز کو سجدہ کرے اور اس سے حاجت مانگے اس کو مختار جان کر۔ 433 مشرک مرد اور مشرک عورتیں باہمی میل جول اور رہن سہن کے ذریعے شرک اور کفر کی طرف بلاتے ہیں۔ جس کا انجام جہنم کا عذاب ہے۔ ای الی الاعمال الموجبۃ للنار (قرطبی ص 80 ج 3) اس لیے ان کے ساتھ رشتہ ناطہ مت کرو۔ وَاللّٰهُ يَدْعُوْٓا اِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ ۔ اور اللہ تعالیٰ ایمان والوں کی صحبت ورفاقت اور ان کے میل جول کے ذریعے اعتقاد حق اور عمل صالح کی دعوت دیتا ہے جن کا ثمرہ اور نتیجہ اللہ کی بخشش اور جنت ہے ای الی اعتقاد الحق والعلمل الصالح الموصلین الیھما (روح ص 130 ج 2) ۔ بِاِذْنِہٖ ای بتوفیقہ الذی من جملتہ ارشاد لمؤمنین لمقاربھم الی الخیر (روح ص 120 ج 2) یہ محض اللہ کی توفیق سے ہوتا ہے کہ وہ ایمان والوں کے ذریعے ان کے متعلقین کو سیدھی راہ دکھا دیتا ہے اس لیے مسلمانوں کو رشتہ ناطہ کرتے وقت ہمیشہ ایمان اور عمل صالح کو معیار قرار دینا چاہئے نہ کہ ظاہری شان و شوکت اور مال و دولت کو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اور مسلمانو ! تم شرک کرنے والی عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہوجائیں اور یہ امر یقینی ہے کہ ایک مسلمان عورت خواہ وہ باندی ہی کیوں نہ ہو ایک شرک کرنیوالی عورت سے بدرجہا بہتر ہے خواہ وہ مشرکہ آزاد بیوی کیوں نہ ہو اگرچہ وہ مشرکہ تم کو اپنے مال اور حسن و جمال اور اپنے خاندان کی وجہ سے اچھی ہی کیوں نہ معلوم ہو اور جن مسلمان عورتوں کے نکاح کا تم کو اختیار حاصل ہے ان کو اس وقت تک شرک کرنیوالے مردوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ مشرک مسلمان نہ ہوجائیں اور یہ یقینی بات ہے کہ ایک مسلمان مرد خواہ وہ غلام ہی کیوں نہ ہو ایک مشرک مرد سے بدرجہا بہتر ہے خواہ وہ مشرک مرد آزاد ہی کیوں نہ ہو اور اگرچہ وہ مشرک مرد اپنے مال اور اپنے خاندان کی وجہ سے تم کو بھلا ہی کیوں نہ معلوم ہوتا ہو اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ یہ مشرک جہنم کی طرف بلاتے ہیں اور ایسے اعمال و عقائد کی ترغیب دیتے ہیں جو جہنم میں لے جانے کا موجب ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی دعوت دیتا ہے اور ایسے اعمال و عقائد کی ترغیب دیتا ہے جو مغفرت کا موجب اور دخول جنت کا ذریعہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے احکام لوگوں کے لئے اس واسطے صاف اور واضح طورپر بیان فرماتا ہے۔ تاکہ وہ لوگ نصیحت قبول کریں اور ان احکام پر عمل پیرا ہوکر جنت اور مغفرت کے مستحق ہوجائیں (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ مسلمان کسی مشترکہ سے نکاح نہیں کرسکتا خواہ وہ بت پرست ہو یا کواکب پرست ہو یا کسی اور مخلوق کو پوجتی ہو۔ اسی طرح مسلمان عورت کسی مشرک اور کافر کے نکاح میں نہیں دی جاسکتی خواہ وہ بت پرست ہو یا کواکب پرست ہو یا کسی اور مخلوق کو پوجتا ہو۔ اور خوا ہ وہ کافر اہل کتاب ہو البتہ مسلمان ایک کتابیہ سے نکاح کرسکتا ہے جیسا کہ سورة مائدہ میں آجائے گا۔ غرض یہ چار صورتیں ہیں۔ (1) مرد مسلمان ہو اور عورت مشرکہ ہو۔ (2) مرد مسلمان ہو اور عورت کتابیہ ہو۔ مثلاً یہودیہ ہو یا نصرانیہ ہو۔ (3) عورت مسلمان ہو اور مرد مشرک ہو۔ (4) عورت مسلمان ہو اور مرد کتابی یعنی یہودی یا نصرانی ہو ان چاروں صورتوں میں صرف دوسری صورت جائز ہے باقی تینوں صورتیں حرام ہیں دوسری صورت جو جائز ہے اس میں اس امر کی پابندی ضروری ہے کہ وہ کتابیہ صحیح معنی میں کتابیہ ہو ایسا نہ ہو کہ نہ وہ خدا کی قائد ہو نہ حضرت عیسیٰ کو مانتی ہو نو انجیل پر ایمان رکھتی ہو۔ جیسا کہ آج کل ہمارے تعلیم یافتہ حضرات یورپ اور امریکہ کی عورتوں سے نکاح کرلیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ اہل کتاب ہیں حالانکہ وہ نہ عیسائی ہوتی ہیں اور نہ صحیح معنی میں یہودی ہوتی ہیں اس لئے بغیر تحقیق کے ان کا مذہب معلوم کئے بغیر ان سے نکاح کرنا نہیں چاہئے۔ اسی طرح بعضے مسلمان بھی آج کل نئے نئے عقائد اختیار کر رہے ہیں اور عقائد اعمال میں یورپین اقوام کے نقش قدم پر چل رہے ہیں نکاح سے پہلے ان کے بھی خیالات و عقائد کی خوب تحقیق کر لینی چاہئے اور شرک کی بھی حالت یہی ہے اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے علم یا قدرت میں یا اور دوسری صفت خداوندی میں کسی کو اللہ تعالیٰ کا مماثل سمجھتا ہو تو وہ مشرک ہے خواہ وہ اپنے مسلمان ہونے کا مدعی کیوں نہ ہو۔ نکاح کا معاملہ چونکہ اہم ہے اس لئے نکاح سے پہلے ان امور کی تحقیق ضروری ہے۔ اور یہ جو فرمایا کہ مسلمان باندی مشترکہ بیوی سے اور مومن غلام مشرک آزاد سے بہتر ہیں ہم نے اس کو تیسیر میں خلاصہ کردیا ہے اور یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ شرافت اسلامی کفر کی تمام شرافتوں سے اعلیٰ اور برگزیدہ ہے کافر خواہ کسی جہت سے بھی اچھا کیوں نہ ہو لیکن بہر حال وہ ایک مسلمان سے کمتر ہے اور یہ جو فرمایا کہ مشرک آگ کی طرف بلاتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ نکاح کی وجہ سے کو مخالطت اور مقارنت حاصل ہوگی وہ محرک ہوگی کفر اور شرک کی اور کفرو شرک و خول نار کے موجب ہیں اگرچہ یہ احتمال کتابیہ عورت میں بھی تھا لیکن اول تو کتابیہ کا ضرر مشرکہ سے کم ہے پھر بیوی بجائے اس کے کہ مرد پر اثر اندازز ہو مرد کے خیالات سے خود متاثر ہوجاتی ہے اور اگر کہیں ایسا ہو کہ مرد کے عیسائی یا یہودی ہوجانے کا احتمال قوی ہو مثلاً ایک ایسی کتابیہ ہو جو پہلے مسلمان خاوندوں کو عیسائی یا یہودی بنا چکی ہو اور اس امر کا ظن غالب ہو کہ یہ عورت اگر نکاح میں آئی تو اس مسلمان کو بھی عیسائی یا یہودی کرلے گی تو ایسی حالت میں ممانعت کی جاسکتی ہے۔ مسلمانوں میں جو فرق ضالہ ہیں ان کا بھی عام طور سے یہی حکم ہے کہ ان کی لڑکیوں سے نکاح کیا جاسکتا ہے مگر مسلمان اپنی لڑکیاں ان کے نکاح میں نہیں دے سکتے جس کتابیہ سے نکاح کرنا جائز ہے وہ کتابیہ ہے جو مسلمان سے عیسائی نہ ہوئی ہو یعنی پہلے مسلمان تھی پھر عیسائی ہوگئی ایسی نصرانیہ یا یہودیہ سے نکاح جائز نہیں ہے بلکہ اس کی کتابیہ سے نکاح کی اجازت ہے جو پہلے ہی سے اہل کتاب ہو۔ بہر حال سوائے اہل کتاب عورت کے کسی اور غیر مسلم سے نکاح کا تعلق قائم نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسلام کی حالت میں جو نکاح ہوا ہو پھر ان مسلمان میاں بیوی سے کوئی کفر اختیار کرلے تب بھی وہ نکاح ٹوٹ جائے گا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ کتابیہ عورت سے اگرچہ نکاح کرنا مباح ہے لیکن مسلمان عورت کو چھوڑ کر کسی نصرانیہ یا یہودیہ سے نکاح کرنا پسندیدہ نہیں ہے۔ حضرت عمر بن الخطاب (رض) نہایت سختی سے جھڑکا کرتے تھے ابن کثیر اور ابن جریر نے حضرت عمر (رض) سے بہت سے آثار نقل کئے ہیں جس میں سے بعض کی سند ضعیف اور بعض کی صحیح ہے ۔ طلحہ بن عبداللہ اور حذیفہ بن الیمان کے واقعہ میں سخت غصہ کا اظہار کیا۔ حضرت حذیفہ نے ایک نصرانی عورت سے نکاح کرلیا تھا حضرت عمر (رض) نے ان کو لکھا کہ تم اس نصرانیہ کو چھوڑ دو اس پر انہوں نے دریافت کیا کہ امیر المومنین کیا کتابیہ عورت سے نکاح کرنا حرام ہے۔ اس پر حضرت عمر (رض) نے جواب دیا کہ میں حرام تو خیال نہیں کرتا لیکن مجھ کو ڈر ہے کہ تم اس طرح کہیں مسلمان عورتوں کو معطل نہ کردو۔ حضرت ابن عباس سے ابن جریر نے بھی اس قسم کی روایت نقل کی ہے کہ مومنات سے نکاح کرو اور دین دار عورتوں سے نکاح کیا کرو ان سب اقوال کا ماحصل یہ ہے کہ گویا کتابیات سے نکاح مباح ہے لیکن مسلمان عورتوں کو بہر حال ترجیح ہے کیونکہ کفر کا اثر کتنا ہی ضعیف اور کمزور کیوں نہ ہو لیکن پھر بھی اس کے اختلاط سے جو خطرات ہیں ان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور اسلامی تمدن اور معاشرت کے تحفظ کا بہترین طریقہ بھی یہ ہے کہ مسلمان کے بچوں کی پہلی معلمہ اور استانی مسلمان ہی ہو کیونکہ ہمارا عام تجربہ یہی ہے کہ آج کل جن کے گھروں میں کتابی عورتیں ہیں ان کی نرینہ اولاد تو اسلام پر قائد ہے لیکن ان لڑکیاں عام طور سے ماں کی وجہ سے عیسائی ہیں یہی حالت ان گھرانوں کی ہیں جن میں شیعہ عورتیں ہیں جو لوگ شیعہ عورتوں سے نکاح کرتے ہیں ان کے ہاں بھی یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ ان کے لڑکے سنی اور ان کی لڑکیاں شیعہ ہوتی ہیں۔ بالخصوص ایسے دور میں جب کہ مسلمان کفار کے زیر اقتدار ہوں اور اسلامی اقتدار مسلمانوں کے ہاتھوں میں نہ ہو اس قسم کے معاملات میں اور بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) کا مسلک بھی یہی ہے بخاری نے ان کا قول نقل کیا ہے وہ فرمایا کرتے تھے اس سے بڑھ کر اور شرک کیا ہوگا کہ وہ کہے عیسیٰ (علیہ السلام) میرے رب ہیں یعنی وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو رب ماننے والی عورتوں کو مشرکات میں داخل کرتے تھے۔ (واللہ اعلم) حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں پہلے مسلمان اور کافر میں نسبت ناتا جاری تھا اس آیت سے حرام ٹھہرا۔ اگر مرد نے یا عورت نے شرک کیا اس کا نکاح ٹوٹ گیا۔ شرک یہ کہ اللہ کی صفت کسی اور میں جانے مثلاً کسی کو سمجھے کہ اس کو ہر بات معلوم ہے یا وہ جو چاہے کرسکتا ہے یا ہمارا بھلا یا برا کرنا اس کے اختیار میں ہے اور یہ کہ اللہ کی تعظیم کسی اور پر خرچ کرے مثلاً کسی چیز کو سجدہ کرے اور اس سے حاجت مانگے اس کو مختار جان کر باقی یہود اور نصاریٰ کی عورت سے نکاح درست ہے ان کو مشرک نہیں فرمایا (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) کی عبارت کسی تفصیل کی محتاج نہیں ہے شرک کی جو تفصیل حضرت شاہ صاحب (رح) نے فرمائی ہے وہ ہر مسلمان کے لئے قابل توجہ ہے مسلمان اس کو پڑھیں اور غور کریں کہ وہ شرک سے کہاں تک محفوظ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عبداللہ ابن رواحہ (رض) کے پاس ایک کالی اور سیاہ فام لونڈی تھی انہوں نے ایک دن غصہ میں آکر اس کو ایک طمانچہ ماردیا پھر گھبرائے ہوئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس لونڈی کا حال کیا ہے۔ عبداللہ بن رواحہ (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ! روزہ رکھتی ہے، نماز پڑھتی ہے اچھی طرح وضو کرتی ہے اللہ تعالیٰ کی توحید اور آپ کی رسالت کی گواہی دیتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ تو مومنہ ہے۔ عبداللہ بن رواحہ (رض) نے کہا خدا کی قسم میں اس کو آزاد کرکے اس سے نکاح کرلوں گا۔ چناچہ جب انہوں نے اس سے نکاح کیا تو لوگ منہ جوڑنے لگے۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں کہ ایک مومنہ لونڈی مشرکہ بیوی سے بدرجہا بہتر ہے اب آگے عورتوں کے بارے میں اور چند مسائل کا ذکر ہے۔