And if you fear (an enemy), (perform Salah) on foot or riding. And when you are in safety, then remember Allah (pray) in the manner He has taught you, which you knew not (before).
After Allah commanded His servants to perform the prayer perfectly and emphasized this commandment, He mentioned the situation where the person might not be able to perform the prayer perfectly, during battle and combat.
Allah said:
فَإنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً أَوْ رُكْبَانًا
(And if you fear (an enemy), perform Salah on foot or riding),
meaning, pray in the appropriate manner under these circumstances, whether on foot or riding and whether facing the Qiblah or otherwise.
Imam Malik reported that Nafi related that Ibn Umar used to describe the Fear prayer when he was asked about it and would then add,
"If there is intense fear, pray on foot, riding, facing the Qiblah and otherwise."
Nafi commented,
"I think that he related that to the Prophet."
Al-Bukhari and Muslim reported the Hadith.
Muslim, Abu Dawud, An-Nasa'i, Ibn Majah and Ibn Jarir reported that Ibn Abbas said,
"Allah has ordained the prayer by the words of your Prophet: four (Rak`ah) while residing, two Rak`ah while traveling and one Rak`ah during times of fear."
This is also the view of Al-Hasan Al-Basri, Qatadah, Ad-Dahhak, and others.
In addition, Al-Bukhari has entitled a Chapter: `Prayer while confronting the Forts and facing the Enemy'.
Al-Awza`i said,
"If the victory seems near and the Muslims are unable to perform the prayer (in the normal manner), they should pray by nodding each by himself. If they are unable to nod, they should delay the prayer until fighting is finished.
When they feel safe, they should pray two Rak`ah. If they are unable, they should then pray one Rak`ah that includes two prostrations.
If they are unable, then Takbir alone does not suffice, so they should delay the prayer until they are safe."
This is the same view that Makhul held.
Anas bin Malik said,
"I participated in the attack on the fort of Tastar, when the light of dawn started to become clear. Suddenly, the fighting raged and the Muslims were unable to pray until the light of day spread. We then prayed (the Dawn prayer) with Abu Musa and we became victorious.
I would not have been pleased if I were to gain in the life of this world and whatever is in it instead of that prayer."
This is the wording of Al-Bukhari.
Prayer during the Times of Peace is performed normally
Allah said:
...
فَإِذَا أَمِنتُمْ فَاذْكُرُواْ اللّهَ
...
And when you are in safety, then remember Allah (pray),
meaning, `Perform the prayer as I have commanded you by completing its bowing, prostration, standing, sitting, and with the required attention (in the heart) and supplication.'
Allah said:
...
كَمَا عَلَّمَكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ
in the manner He has taught you, which you knew not (before).
meaning, just as He has endowed you, guided you and taught you about what benefits you in this life and the Hereafter, so thank and remember Him.
Similarly, Allah said after He mentioned the prayer of Fear,
فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُواْ الصَّلَوةَ إِنَّ الصَّلَوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُوْمِنِينَ كِتَـباً مَّوْقُوتاً
...but when you are free from danger, perform As-Salah. Verily, As-Salah (the prayer) is enjoined on the believers at fixed hours. (4:103)
We will mention the Hadiths about the prayer of Fear and its description in Surah An-Nisa while mentioning Allah's statement:
وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَوةَ
When you (O Messenger Muhammad) are among them, and lead them in As-Salah(the prayer). (4:102)
مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے لوگ ضروری بات چیت بھی نماز میں کر لیا کرتے تھے ، جب یہ آیت اتری تو چپ رہنے کا حکم دے دیا گیا ، لیکن اس حدیث میں ایک اشکال یہ ہے کہ علماء کرام کی ایک جماعت کے نزدیک نماز میں بات چیت کرنے کی حرمت حبشہ کی ہجرت کے بعد اور مدینہ شریف کی ہجرت سے پہلے ہی مکہ شریف میں نازل ہو چکی تھی چنانچہ صحیح مسلم میں ہے حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ حبشہ کی ہجرت سے پہلے ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے تھے آپ نما میں ہوتے پھر بھی جواب دیتے ، جب حبشہ سے ہم واپس آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے آپ کی نماز کی حالت میں ہی سلام کیا آپ نے جواب نہ دیا ، اب میرے رنج و غم کا کچھ نہ پوچھئے نماز سے فارغ ہو کر آپ نے مجھے فرمایا عبداللہ اور کوئی بات نہیں میں نماز میں تھا اس وجہ سے میں نے جواب نہ دیا ، اللہ جو چاہے نیا حکم اتارے ، اس نے یہ نیا حکم نازل فرمایا ہے کہ نماز میں نہ بولا کرو ، پس یہ واقعہ ہجرت مدینہ سے پہلے کا ہے اور یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہے ، اب بعض تو کہتے ہیں کہ زید بن ارقم کے قول کا مطلب جنس کلام سے ہے اور اس کی حرمت پر اس آیت سے استدلال بھی خود ان کا فہم ہے واللہ اعلم ، بعض کہتے ہیں ممکن ہے دو دفعہ حلال ہوا ہو اور دو دفعہ ممانعت ہوئی ہو لیکن پہلا قول زیادہ ظاہر ہے ، حضرت ابن مسعود والی روایت جو ابو یعلی میں ہے اس میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب نہ دینے سے مجھے یہ خوف ہوا کہ شاید میرے بارے میں کوئی وحی نازل ہوئی ہے ۔ آپ نے مجھ سے فارغ ہو کر حدیث ( وعلیک اسلام ایھا المسلم و رحمتہ اللہ ) نماز میں جب تم ہو تو خاموش رہا کرو ، چونکہ نمازوں کی پوری حفاظت کرنے کا فرمان صادر ہو چکا تھا اس لئے اب اس حالت کو بیان فرمایا جاتا جس میں تمام ادب و آداب کی پوری رعایت عموماً نہیں رہ سکتی ، یعنی میدان جنگ میں جبکہ دشمن سر پر ہو تو فرمایا کہ جس طرح ممکن ہو سوار پیدل قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کر لیا کرو ، ابن عمر اس آیت کا یہی مطلب بیان کرتے ہیں بلکہ نافع فرماتے ہیں میں تو جانتا ہوں یہ مرفوع ہے ، مسلم شریف میں ہے سخت خوف کے وقت اشارے سے ہی نماز پڑھ لیا کرو ، گو سواری پر سوار ہو ، عبداللہ بن انیس کو جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن سفیان کے قتل کیلئے بھیجا تھا تو آپ نے اسی طرح نماز عصر اشارے سے ادا کی تھی ( ابو داؤد ) بپس اس میں جناب باری نے اپنے بندوں پر بہت آسانی کر دی اور بوجھ کو ہلکا کر دیا ، صلوۃ خوف ایک رکعت پڑھنی بھی آئی ہے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی حضر کی حالت میں چار رکعتیں فرض کی ہیں اور سفر کی حالت میں اور دو اور خوف کی حالت میں ایک ( مسلم ) امام احمد فرماتے ہیں یہ اس وقت ہے جب بہت زیادہ خوف ہو ، جابر بن عبداللہ اور بہت سے اور بزرگ صلوۃ خوف ایک رکعت بتاتے ہیں ، امام بخاری نے صحیح بخاری میں باب باندھا ہے کہ فتوحات قلعہ کے موقع پر اور دشمن کے مڈبھیڑ کے موقع پر نماز ادا کرنا اوزاعی فرماتے ہیں اگر فتح قریب آ گئی ہو اور نماز پڑھنے پر قدرت نہ ہو تو ہر شخص اپنے طور پر اشارے سے نماز پڑھ لے ، اگر اتنا وقت بھی نہ ملے تو تاخیر کریں یہاں تک کہ لڑائی ختم ہو جائے اور چین نصیب ہو تو دو رکعتیں ادا کرلیں ورنہ ایک رکعت کافی ہے لیکن صرف تکبیر کہہ لینا کافی نہیں بلکہ تاخیر کر دیں یہاں تک کہ امن ملے ، مکحول بھی یہی کہتے ہیں حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ تستر قلعہ کی لڑائی میں میں بھی فوج میں تھا ، صبح صادق کے وقت گھمسان کی لڑائی ہو رہی تھی ، ہمیں وقت ہی نہ ملا کہ نماز ادا کرتے ، خوب دن چڑھے اس دن ہم نے صبح کی نماز پڑھی ، اگر نماز کیلئے بدلے میں مجھے دنیا اور جو کچھ اس میں ہے مل جائے تاہم میں خوش نہیں ہوں ، بعد ازاں حضرت امام المحدثین نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں ہے کہ جنگ خندق میں سورج غروب ہو جانے تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز نہ پڑھ سکے ، پھر دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے جب اپنے صحابہ کو بنی قریظہ کی طرف بھیجا تو ان سے فرما دیا تھا کہ تم میں سے کوئی بھی بنی قریظہ سے درے نماز عصر نہ پڑھے ، اب جبکہ نماز عصر کا وقت آ گیا تو بعض نے تو وہیں پڑھی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا ، وہیں جا کر نماز پڑھی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے انہیں نہ ڈانٹا ۔ پس اس سے حضرت امام بخاری یہ مسئلہ ثابت کرتے ہیں گو جمہور اس کے مخالف ہیں وہ کہتے ہیں سورۃ نساء میں جو نماز خوف کا حکم ہے اور جس نماز کی مشروعیت اور طریقہ احادیث میں وارد ہوا ہے وہ جنگ خندق کے بعد کا ہے جیسا کہ ابو سعید وغیرہ کی روایت میں صراحتاً بیان ہے ، لیکن امام بخاری امام مکحول اور امام اوزاعی رحمھم اللہ کا جواب یہ ہے کہ اس کی مشروعیت بعد میں ہونا اس جواز کیخلاف نہیں ، ہو سکتا ہے کہ یہ بھی جائز ہو اور وہ بھی طریقہ ہو ، کیونکہ ایسی حالت میں شاذو نادر کبھی ہی ہوتی ہے اور خود صحابہ نے حضرت فاروق اعظم کے زمانے میں فتح تستر میں اس پر عمل کیا اور کسی نے انکار نہیں کیا واللہ اعلم ، پھر فرمان ہے کہ امن کی حالت میں بجاآوری کا پورا خیال رکھو ، جس طرح میں نے تمہیں ایمان کی راہ دکھائی اور جہل کے بعد علم دیا تو تمہیں بھی چاہئے کہ اس کے شکریہ میں ذکر اللہ باطمینان کیا کرو ، جیسا کہ نماز خوف کا بیان کر کے فرمایا جب اطمینان ہو جائے تو نمازوں کو اچھی طرح قائم کرو ، نماز مومنوں پر وقت مقررہ پر فرض ہے ، صلوۃ خوف کا پورا بیان سورۃ نساء کی آیت واذا ( کنت فیھم ) کی تفسیر میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔