Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 262

سورة البقرة

اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ثُمَّ لَا یُتۡبِعُوۡنَ مَاۤ اَنۡفَقُوۡا مَنًّا وَّ لَاۤ اَذًی ۙ لَّہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۚ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۲۶۲﴾

Those who spend their wealth in the way of Allah and then do not follow up what they have spent with reminders [of it] or [other] injury will have their reward with their Lord, and there will be no fear concerning them, nor will they grieve.

جو لوگ اپنا مال اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں اور نہ ایذا دیتے ہیں ، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے ان پر نہ تو کچھ خوف ہے نہ وہ اداس ہونگے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

To Remind About Charity Given is Forbidden Allah says; الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ ثُمَّ لاَ يُتْبِعُونَ مَا أَنفَقُواُ مَنًّا وَلاَ أَذًى لَّهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ ... Those who spend their wealth in the cause of Allah, and do not follow up their gifts with reminders of their generosity or with injury, their reward is with their Lord. Allah praises those who spend from their money in His cause, and then refrain from reminding those who received the charity of that fact, whether these hints take the form of words or actions. Allah's statement, وَلاَ أَذًى (or with injury), indicates that they do not cause harm to those whom they gave the charity to, for this harm will only annul the charity. Allah next promised them the best rewards for this good deed, لَّهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ (their reward is with their Lord), indicating that Allah Himself will reward them for these righteous actions. Further, ... وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ ... On them shall be no fear, regarding the horrors of the Day of Resurrection, ... وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ nor shall they grieve. regarding the offspring that they leave behind and the adornment and delights of this world. They will not feel sorry for this, because they will acquire what is far better for them. Allah then said,

مخیر حضرات کی تعریف اور ہدایات اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے ان بندوں کی مدح و تعریف کرتا ہے جو خیرات و صدقات کرتے ہیں اور پھر جسے دیتے ہیں اس پر احسان نہیں جتاتے اور نہ اپنی زبان سے یا اپنے کسی فعل سے اس شخص کو کوئی نقصان پہنچاتے ہیں ، ان سے ایسے جزائے خیر کا وعدہ فرماتا ہے کہ ان کا اجر و ثواب رب دو عالم کے ذمہ ہے ۔ ان پر قیامت کے دن کوئی ہول اور خوف و خطر نہ ہوگا اور نہ دنیا اور بال بچے چھوٹ جانے کا انہیں کوئی غم و رنج ہوگا ، اس لئے کہ وہاں پہنچ کر اس سے بہتر چیزیں انہیں مل چکی ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ کلمہ خیر زبان سے نکالنا ، کسی مسلمان بھائی کیلئے دعا کرنا ، درگزر کرنا ، خطاوار کو معاف کر دینا اس صدقے سے بہتر ہے جس کی تہہ میں ایذاء دہی ہو ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کوئی صدقہ نیک کام سے افضل نہیں ۔ کیا تم نے فرمان باری ( قول معروف الخ ) نہیں سنا ؟ اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق سے بےنیاز ہے اور ساری مخلوق اس کی محتاج ہے ، وہ حلیم اور بردبار ہے ، گناہوں کو دیکھتا ہے اور حلم و کرم کرتا ہے بلکہ معاف فرما دیتا ہے ، تجاوز کر لیتا ہے اور بخش دیتا ہے صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات چیت نہ کرے گا نہ ان کی طرف نظرِ رحمت سے دیکھے گا نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کیلئے دردناک عذاب ہیں ، ایک تو دے کر احسان جتانے والا ، دوسرا ٹخنوں سے نیچے پاجامہ اور تہبند لٹکانے والا ، تیسرا اپنے سودے کو جھوٹی قسم کھا کر بیچنے والا ۔ ابن ماجہ وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ ماں باپ کا نافرمان خیرات صدقہ کرکے احسان جتانے والا شرابی اور تقدیر کو جھٹلانے والا جنت میں داخل نہ ہوگا ، نسائی میں ہے تین شخوں کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دیکھے گا بھی نہیں ، ماں باپ کا نافرمان ، شراب کا عادی اور دے کر احسان جتانے والا ، نسائی کی اور حدیث میں ہے یہ تینوں شخص جنت میں داخل نہ ہوں گے ، اسی لئے اس آیت میں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ اپنے صدقات و خیرات کو منت سماجت و احسان رکھ کر اور تکلیف پہنچا کر برباد نہ کرو ، اس احسان کے جتانے اور تکلیف کے پہنچانے کا گناہ صدقہ اور خیرات کا ثواب باقی نہیں رکھا ۔ پھر مثال دی کہ احسان اور تکلیف دہی کے صدقے کے غارت ہو جانے کی مثال اس صدقہ جیسی ہے جو ریاکاری کے طور پر لوگوں کو دکھاوے کیلئے دیا جائے ۔ اپنی سخاوت اور فیاضی اور نیکی کی شہرت مدنظر ہو ، لوگوں میں تعریف و ستائش کی چاہت ہو صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب نہ ہو نہ اس کے ثواب پر نظر ہو ، اسی لئے اس جملے کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہ ہو تو اس ریاکارانہ صدقے کی اور اس احسان جتانے اور تکلیف پہنچانے کے صدقہ کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی صاف چٹیل پتھر کی چٹان ہو جس پر مٹی بھی پڑی ہوئی ہو ، پھر سخت شدت کی بارش ہو تو جس طرح اس پتھر کی تمام مٹی دُھل جاتی ہے اور کچھ بھی باقی نہیں رہتی ، اسی طرح ان دونوں قسم کے لوگوں کے خرچ کی کیفیت ہے کہ گو لوگ سمجھتے ہوں کہ اس کے صدقہ کی نیکی اس کے پاس ہے جس طرح بظاہر پتھر پر مٹی نظر آتی ہے لیکن جیسے کہ بارش سے وہ مٹی جاتی رہی اسی طرح اس کے احسان جتانے یا تکلیف پہچانے یا ریاکاری کرنے سے وہ ثواب بھی جاتا رہا اور اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچے گا تو کچھ بھی جزا نہ پائے گا ، اپنے اعمال میں سے کسی چیز پر قدرت نہ رکھے گا ، اللہ تعالیٰ کافر گروہ کی راہِ راست کی طرف رہبری نہیں کرتا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

262۔ 1 انفاق فی سبیل اللہ کی مذکورہ فضیلت صرف اس شخص کو حاصل ہوگی جو مال خرچ کر کے احسان نہیں جتلاتا نہ زبان سے ایسا کلمہ تحقیر ادا کرتا ہے جس سے کسی غریب، محتاج کی عزت نفس مجروح ہو اور وہ تکلیف محسوس کرے کیونکہ یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے۔ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے کلام نہیں فرمائے گا، ان میں سے ایک احسان جتلانے والا ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان باب غلظ تحریم اسبال الازار والمن بالعطیۃ)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٧٨] آپ نے فرمایا : تین آدمی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ کلام کرے گا نہ ان کی طرف نظر رحمت کرے گا اور نہ ہی ان کو پاک کرے گا۔ ایک منان (احسان جتلانے والا) دوسرا تہبند نیچے لٹکانے والا اور تیسرا جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال فروخت کرنے والا۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم اسبال الازار والمن بالعطیہ٫ تنقیق السلعہ بالحلف الخ) اور فقہاء نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ جن افعال و اعمال کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے کلام نہیں کرے گا یا نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا، یا پاک نہیں کرے گا۔ تو ایسے افعال کبیرہ گناہ ہوتے ہیں۔ گویا صدقہ کرنے کے بعد احسان جتلانے والے کا صرف صدقہ ہی ضائع نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک کبیرہ گناہ کا بوجھ بھی اپنے سر پر لاد لیتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ ۔۔ : یعنی یہ ثواب صرف ان لوگوں کو حاصل ہوگا جو رضائے الٰہی کے لیے خرچ کرتے ہیں اور خرچ کرنے کے بعد نہ کسی پر احسان جتلاتے ہیں اور نہ زبان و عمل سے کوئی تکلیف دیتے ہیں، کسی کو کچھ دے کر احسان جتلانا کبیرہ گناہ ہے۔ ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” تین آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے قیامت کے دن نہ کلام کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کے لیے عذاب الیم ہے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین دفعہ یہ فرمایا۔ ابوذر (رض) نے عرض کیا : ” وہ تو ناکام و نامراد ہوگئے، یا رسول اللہ ! وہ کون ہیں ؟ “ آپ نے فرمایا : ” کپڑا لٹکانے والا، احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کے ساتھ اپنا مال فروخت کرنے والا۔ “ [ مسلم، الإیمان، باب بیان غلظ تحریم إسبال ۔۔ : ١٠٦ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Conditions that make charity go in vain Two negative conditions governing the acceptance of sadaqah صدقہ have been stated in this verse: 1. Do not publicise your favour after spending. 2. Do not consider the receiver practically disgraced, and do nothing to cause him insult or pain.

دوسری آیت میں صدقہ کرنے کے صحیح اور مسنون طریقہ کا بیان اس طرح فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتاتے ہیں اور نہ جن کو دیا گیا ہے ان کو کوئی ایذاء پہنچاتے ہیں ان کا ثواب ان کے رب کے پاس محفوظ ہے نہ ان پر آئندہ کے لئے کوئی خطرہ ہے اور نہ گذشتہ پر کوئی رنج وغم۔ قبولیت صدقہ کی منفی شرائط : اس آیت میں صدقہ کے قبول ہونے کی دو منفی شرطیں بیان فرمائی گئی ہیں ایک یہ کہ دے کر احسان نہ جتائیں دوسرے یہ کہ جس کو دیں اس کو عملاً ذلیل و خوار نہ سمجھیں اور کوئی ایسا برتاؤ نہ کریں جس سے وہ اپنی حقارت وذلت محسوس کرے یا اس کو ایذاء پہنچے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُوْنَ مَآ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّلَآ اَذًى۝ ٠ ۙ لَّھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝ ٠ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝ ٢٦٢ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے منن والمِنَّةُ : النّعمة الثّقيلة، ويقال ذلک علی وجهين : أحدهما : أن يكون ذلک بالفعل، فيقال : منَّ فلان علی فلان : إذا أثقله بالنّعمة، وعلی ذلک قوله : لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 164] والثاني : أن يكون ذلک بالقول، وذلک مستقبح فيما بين الناس إلّا عند کفران النّعمة، ولقبح ذلک قيل : المِنَّةُ تهدم الصّنيعة «4» ، ولحسن ذكرها عند الکفران قيل : إذا کفرت النّعمة حسنت المنّة . وقوله : يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات/ 17] فالمنّة منهم بالقول، ومنّة اللہ عليهم بالفعل، وهو هدایته إيّاهم كما ذكر، ( م ن ن ) المن المن کے معنی بھاری احسان کے ہیں اور یہ دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ایک منت بالفعل جیسے من فلان علیٰ فلان یعنی فلاں نے اس پر گرا انبار احسان کیا ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 164] خدا نے مومنوں پر بڑا احسان گیا ہے ۔ اور دوسرے معنی منۃ بالقول یعنی احسان جتلانا گو انسانی معاشرہ میں معیوب سمجھا جاتا ہے مگر جب کفران نعمت ہو رہا ہو تو اس کے اظہار میں کچھ قباحت نہیں ہے اور چونکہ ( بلاوجہ اس کا اظہار معیوب ہے اس لئے مشہور ہے ، المنۃ تھدم الصنیعۃ منت یعنی احسان رکھنا احسان کو بر باد کردیتا ہے اور کفران نعمت کے وقت چونکہ اس کا تذکرہ مستحن ہوتا ہے اس لئے کسی نے کہا ہے : جب نعمت کی ناشکری ہو تو احسان رکھنا ہیں مستحن ہے اور آیت کریمہ : ۔ يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات/ 17] یہ لوگ تم احسان رکھتے ہیں ۔ کہ مسلمان ہوگئے ہیں ، کہدو کہ اپنے مسلمان ہونے کا مجھ پر احسان نہ رکھو ۔ بلکہ خدا تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا رستہ دکھایا ۔ میں ان کی طرف سے منت بالقوم یعنی احسان جتلانا مراد ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے منت بالفعل یعنی انہیں ایمان کی نعمت سے نواز نامراد ہے۔ أذي الأذى: ما يصل إلى الحیوان من الضرر إمّا في نفسه أو جسمه أو تبعاته دنیویاً کان أو أخرویاً ، قال تعالی: لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذى [ البقرة/ 264] ( ا ذ ی ) الاذیٰ ۔ ہرا س ضرر کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو پہنچتا ہے وہ ضرر جسمانی ہو یا نفسانی یا اس کے متعلقات سے ہو اور پھر وہ ضرر دینوی ہو یا اخروی چناچہ قرآن میں ہے : ۔ { لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى } ( سورة البقرة 264) اپنے صدقات ( و خیرات ) کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو ۔ أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت/ 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف/ 57] . والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء/ 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری/ 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان/ 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء/ 93] . يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص/ 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ . والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی: اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص/ 26] . ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ { وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ } [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا } [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : { وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ } [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا { لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ } [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ { فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ } ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ { وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا } [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ { فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ } ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ { عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ } [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : { اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ } [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ حزن الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] ( ح ز ن ) الحزن والحزن کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

صدقہ دے کر احسان جتلانا قول باری ہے (الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اللہ ثم لایتبعون ما انفقوا منا ولا اذی لھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون، (a) جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں پھر احسان نہیں جتاتے نہ دکھ دیتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لئے کسی رنج اور خوف کا موقع نہیں) ۔ اسی طرح قول باری ہے (یآیھا الذین اٰمنوا لا تبطلوا صدقاتکم بالمن والاذیٰ کالذی ینفق مالہ رئا الناس ولایومن باللہ والیوم الاٰخر، (a) اے ایمان والو ! اپنے صدقات کو احسان جتاکر اور دکھ دے کر اس شخص کی طرح خاک میں نہ ملادو جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے، نہ آخرت پر) ۔ اسی طرح قول باری ہے (قول معروف ومغفرۃ خیر من صدقۃ یتبعھا اذی، (a) ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو) ایک جگہ ارشاد ہے (وما اتیتم من ربا لیربو فی اموال الناس فلا یربو عند اللہ وما اٰتیتم من زکوۃ تریدون وجہ اللہ فائولئک ھم المضعفون (a) اور جو سود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہوکر وہ بڑھ جائے اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا۔ اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو اسی کے دینے والے درحقیقت اپنا مال بڑھاتے ہیں) ۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں یہ بتلادیا ہے کہ صدقات اگر خالصۃً اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں ہوں گے نیز احسان جتلانے اور اذیت پہنچانے سے مبرا نہ ہوں گے تو وہ درحقیقت صدقات ہی نہیں ہوں گے کیونکہ ان کے اجر اور ثواب کے حبط ہوجانے کی وجہ سے یہ باطل ہوجائیں گے اور صدقہ دینے والے کی حیثیت یہ ہوجائے گی کہ گویا اس نے صدقہ دیا ہی نہیں ہے۔ اسی طرح وہ تمام کی تمام عبادات ہیں جو تقرب الیٰ اللہ کی خاطر کی جاتی ہیں۔ ان میں ریاکاری یا اللہ کی خوشنودی کے علاوہ کسی اور عنصر کا شامل ہوجانا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ چیز اس عبادت کو باطل کردیتی ہے۔ قول باری ہے (ولا تبطلوا اعمالکم، (a) اور تم اپنے اعمال باطل نہ کرو) ۔ نیز ارشاد ہے (وما امروا الا لیعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین حنفآء، (a) انہیں صرف اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں۔ اطاعت اور فرمانبرداری کو اسی کے لئے خالص کرکے اور تمام باطل طریقوں سے منہ موڑ کر) ۔ اس لئے جس عبادت میں اللہ کے لئے خالص فرمانبرداری نہیں پائی جائے گی اس پر اس کے فاعل کو کوئی ثواب نہیں ملے گا۔ اس کی نظیر یہ قول باری ہے (من کان یرید حوث الاٰخرۃ نخلہ فی حرثہ ومن کان یرید حرث الدنیا نوتہ منھا وما لہ فی الاٰخرۃ من نصیب، (a) جو شخص آخرت کی کھیتی طلب کرے گا ہم اس کی کھیتی میں اور اضافہ کردیں گے اور جو شخص دنیا کی کھیتی چاہے گا ہم اسے دنیا میں سے دیں گے لیکن آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا) ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ حج کرنے، نماز ادا کرنے ، قرآن کی تعلیم دینے اور ایسے تمام افعال میں کسی کو کرایہ پر رکھنا جائز نہیں ہے جو تقرب الٰہی اور اس کی خوشنودی کی خاطر سرانجام دیئے جائیں کیونکہ ان پر اجرت لینا انہیں قربت یعنی تقرب الٰہی کا ذریعہ بننے کے دائرے سے خارج کردیتا ہے۔ درج بالا آیات اس استدلال کی بنیاد ہیں۔ نیز ان آیات کے نظائر سے بھی اس دعوے کی تائید ہوتی ہے۔ عمرو نے حسن بصری سے آیت (لاتبطلوا صدقاتکم بالمن والاذیٰ ) (a) کے سلسلے میں روایت کی ہے کہ اس سے مراد ایسا صدقہ ہے جس پر انسان جتایا جائے اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمادیا۔ حسن بصری نے مزید کہا کہ صدقہ کرنے والے کو اللہ کی حمدو ثناء کرنی چاہیے کہ اس نے اسے صدقہ کرنے کی راہ دکھلائی اور توفیق عطاء کی۔ قول باری (مثلو الذین ینفقون اموالھم ابتغاء موضات اللہ وتثبیتاً من انفسھم، (a) ان لوگوں کی مثال جو اپنے اموال اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دل کے پورے ثبات و قرار کے ساتھ خرچ کرتے ہیں۔۔۔ ) کی تفسیر میں حسن بصری سے مروی ہے کہ یہ لوگ تحقیق و جستجو کرتے ہیں کہ صدقات کہاں دیئے جائیں۔ شعبی سے مروی ہے کہ دل کے ثبات اور یقین کے ساتھ اپنے اموال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ قتادہ کا قول ہے کہ پورے اعتماد کے ساتھ، صدقہ میں احسان جتلانے کی صورت یہ ہے کہ صدقہ کرنے والا یوں کہے کہ ” میں نے فلاں کے ساتھ احسان کیا ہے۔ “ یا ” میں نے اسے خوش حال کردیا ہے “۔ یا ” میں نے فلاں کو مال دار بنادیا ہے۔ “ وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے ان باتوں سے صدقہ لینے والے کو اذیت ہوگی اور اسے بڑی ناگواری ہوگی۔ صدقہ میں اذی یعنی دکھ پہنچانے کی صورت یہ ہے کہ صدقہ دینے والا صدقہ لینے والے سے کہے کہ ” تو تو ہمیشہ فقیر ہی رہتا ہے۔ “ یا ” میں تو تیری وجہ سے مصیبت میں پھنس گیا ہوں “۔ یا ” اللہ تعالیٰ تجھ سے میری جان چھڑا دے۔ “ وغیرہ۔ ایسے اقوال جن میں صدقہ لینے والے کی فقیری اور تنگ دستی کا ذکر بطور طنز و استحقار کیا جائے۔ قول باری ہے (قول معروف ومغفرۃ خیر من صدقۃ یتبعھا اذی) (a) یعنی واللہ اعلم۔۔۔ اچھے الفاظ سے اسے ٹال دینا۔ لفظ (مغفرۃ) (a) کی تفسیر میں کہا گیا ہے کہ سائل کے سامنے اپنی ضرورت مندی کی پردہ پوشی کرنا، ایک قول ہے کہ ظالم کو اس کے ظلم کی معافی دے دینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ پہنچانا ہو۔ کیونکہ صدقہ کرنے والا احسان جتاکر اور دکھ پہنچا کر گناہ کا مستحق ٹھہرتا ہے اور سائل کو بھلے الفاظ کے ذریعے ٹال دینے میں اللہ کی نافرمانی میں بچائو ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ اچھے الفاظ کو ٹال کر صدقہ نہ دینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد احسان جتانا اور دکھ پہنچانا آجائے۔ اس کی نظیر یہ قول باری ہے (واما تعرضن عنھم ابتغآء رحمۃ من ربک ترجوھا فقل لھم قولاً میسوراً ۔ (a) اگر ان سے یعنی حاجت مند رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں سے تمہیں کترانا ہو اس بنا پر کہ ابھی تم اللہ کی اس رحمت کو جس کے تم امیدوار ہو تلاش کررہے ہو تو انہیں نرم جواب دے دو ) ۔ واللہ تعالیٰ الموفق۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٦٢) اگلی آیت میں حضرت عثمان بن عفان (رض) اور حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو لوگ خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتلاتے ہیں اور نہ جس کو دیا ہے اسے کسی قسم کی کوئی تکلیف پہنچا تے ہیں ، ان کو اس کا جنت میں ثواب ملے گا جہاں نہ آئندہ کسی قسم کے عذاب کا خوف ہوگا اور اپنے بعد جو چھوڑگئے ہیں نہ ہی اس کا غم ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦٢ (اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) (ثُمَّ لاَ یُتْبِعُوْنَ مَآ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّلَآ اَذًی لا) ان کا طرز عمل یہ نہیں ہوتا کہ دیکھئے جی ‘ میں نے اس وقت اتنا چندہ دیا تھا ‘ معلوم ہوا کہ میرا حق زیادہ ہے ‘ ہم چندے زیادہ دیتے ہیں تو پھر بات بھی تو ہماری مانی جانی چاہیے ! یا اگر کوئی شخص اللہ کے دین کے کام میں لگا ہوا ہے اور آپ اس کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں تاکہ وہ فکر معاش سے آزاد ہو کر اپنا پورا وقت دین کی خدمت میں لگائے ‘ لیکن اگر کہیں آپ نے اس کو جتا بھی دیا ‘ اس پر احسان بھی رکھ دیا ‘ کوئی تکلیف دہ کلمہ کہہ دیا ‘ کوئی دلآزاری کی بات کہہ دی تو آپ کا جو اجر وثواب تھا وہ صفر ہوجائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

301. They need not fear that they will not be amply rewarded or that they will have any reason to feel remorse for spending in the way of God.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :301 یعنی نہ تو ان کے لیے اس بات کا کوئی خطرہ ہے کہ ان کا اجر ضائع ہو جائے گا اور نہ کبھی یہ نوبت آئے گی کہ وہ اپنے اس خرچ پر پشیمان ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(262 ۔ 264) ۔ غزوہ تبوک میں حضرت عثمان (رض) نے ایک ہزار اونٹ مع سامان اور عبد الرحمن بن عوف (رض) نے چار ہزار درہم بطور خیرات کے دیے تھے اس پر یہ آیت اتری ١۔ اور آیت کے اول حصہ میں لوگوں نے عام طور پر ان لوگوں کی تعریف فرمائی ہے جو خیرات کے بعد اپنے دیے کا کسی پر احسان نہیں رکھتے نہ اپنے دیے کو جتلا کر کسی کو شرمندگی اٹھانے کی ایذا و تکلیف دیتے ہیں بلکہ وہ جو کچھ عقبیٰ کے اجر کی نیت سے دیتے ہیں اس سے نہ کسی پر احسان جتانے کی ان کی نیت ہے نہ کسی کو شرمندہ کر کے ایذا دینے کی پھر آیت کے دوسرے حصہ میں ان لوگوں کو ہوشیار کیا ہے جن کی عادت اس کے برخلاف ہے اور فرمایا ہے کہ جو لوگ دنیا کے دکھاوے کو کچھ دیتے ہیں اور ان کا وہ دینا اکارت جاتا ہے اسی طرح ان کا دینا بھی اکارت ہے جو دیے کے بعد لوگوں پر احسان کا بوجھ رکھتے ہیں یا دیے کے بعد لوگوں کو یہاں تک جتلاتے ہیں کہ لینے والے کو شرمندگی اٹھانے کی ایذا پہنچتی ہے پھر فرمایا کہ یہ عادتیں تو ان لوگوں کی ہیں جن کو عقبٰی میں اجر کا یقین نہیں ہے۔ ایمان دار آدمی میں اس طرح کی عادت ہرگز نہیں ہونی چاہیے پھر ایک مثال بیان فرمائی کہ اس طرح کی عادت والوں کا دینا ایسا ہے جیسے کوئی ایک پتھر پر تھوڑی سی مٹی دیکھ کر کھیتی کرے اور زور کا مینہ برس جانے سے وہ مٹی مع کھیتی کے دھل دھلا کر صفا چٹ پتھر نکل آئے اور اس کھیتی کی پیداوار کھیتی کرنے والے کے ہاتھ کچھ بھی نہ لگے اسی طرح بظاہر دنیا میں تو یہ لوگ خیرات کرتے ہیں مگر عقبیٰ میں ان کو اس خیرات کا اجر کچھ نہیں ملنے والا بلکہ اس کھیتی والے کی طرح وہاں یہ لوگ بالکل خالی ہاتھ رہ جائیں گے۔ صحیح مسلم ‘ ترمذی نسائی وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن بہت سے شہیدوں سے یہ کہا جائے گا کہ دنیا میں بہت مشہور ہونے کے لئے تم نے اپنی جان دی ہے اس لئے آج تم کو کچھ اجر شہادت کا نہیں مل سکتا اور پھر اسی طرح نیک عملوں کا بھی جواب ملے گا ١۔ اس سے معلوم ہوا کہ عبادت خواہ مالی ہو خواہ بدنی۔ جس عبادت میں آدمی کی عقبیٰ کے اجر کی نیت خالص نہ ہوگی وہ عبادت قیامت میں رائگاں جائے گی۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:262) الذین۔ اسم موصول بمعنہ اپنے صلہ کے مبتداء اور لہم اجرھم ۔۔ الخ اس کی خبر۔ ثم۔ یہاں تراخی فی المرتبہ (تفاوت مرتبہ) کے لئے ہے۔ یعنی انفاق اور ترک المن والاذی کے درمیان تفاوت کے اظہار کے لئے۔ دوسرے لفظوں میں نفس الانفاق اپنی جگہ پر ٹھیک ہے لیکن بعد میں احسان نہ جتانا اور اپنی فوقیت کا اظہار نہ کرنا اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا فلا خوف علیہم ولا ہم یحزنون (46:13) جن لوگوں نے کہا کہ خدا ہمارا پروردگار ہے۔ پھر وہ اس پر قائم رہے تو ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہوں گے۔ مطلب یہ کہ ایمان لانے سے ایمان پر استقامت بڑھ کر نیکی۔ نیز ملاحظہ ہو 2:28 ۔ لا یتبعون۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب اتباع (افعال) مصدر۔ وہ (اس کے) پیچھے نہیں کرتے۔ ما انفقوا۔ ما موصولہ۔ انفقوا۔ (ماضی کا صیغہ جمع مزکر غائب) صلہ اپنے موصول کا ۔ موصول و صلہ مل کر مفعول اپنے فعل لا یتبعون کا ۔ ما انفقوا ای انفاقہم۔ منا۔ من یمن (باب نصر) من ومنہ مصدر المنۃ کے معنی بھاری احسان کے ہیں۔ اور یہ دو طرح پر ہوتا ہے : (1) ایک منت بالفعل جیسے لقد من اللہ علی المؤمنین (3:164) خدا نے مؤمنوں پر بڑا احسان کیا ہے اور یہ منت بالفعل درحقیقت اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ (2) منت بالقول۔ یعنی احسان جتانا۔ گو انسانی معاشرہ میں احسان جتلانا معیوب سمجھا جاتا ہے مگر جب کفران نعمت ہو رہا ہو تو اس کے اظہار میں کچھ قباحت نہیں ہے کسی نے کہا ہے اذا کفرت النعسۃ حسنت المنۃ۔ جب نعمت کی ناشکری ہو رہی ہو تو احسان جتلانا ہی مستحسن ہے ۔ قرآن مجید میں اور جگہ آیا ہے یمنون علیک ان اسلموا قل لا تمنوا علی اسلامکم بل اللہ یمن علیکم ان ھدکم ۔۔ للایمان (49:17) یہ لوگ تم پر احسان رکھتے ہیں کہ مسلمان ہوگئے ہیں کہہ دو کہ اپنے مسلمان ہونے کا مجھ پر احسان نہ رکھو۔ بلکہ خدا نے تم پر بڑابڑا احسان کیا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا راستہ دکھایا۔ اس میں ان کی طرف سے منت بالقول یعنی احسان جتلانا مراد ہے اور اللہ کی طرف سے منت بالفعل یعنی انہیں ایمان کی نعمت سے نوازنا مراد ہے۔ یہاں منا احسان جتلانا مراد ہے منصوب بوجہ مفعول کے ہے۔ اذی (باب سمع) تکلیف پانا۔ اور اذی یؤذی ایذاء (باب افعال) بمعنی کسی کو تکلیف دینا۔ منصوب بوجہ مفعول ہے۔ ترجمہ : جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ اور جو کچھ خرچ کرچکے ہیں اس کے عقب میں نہ تو احسان جتلاتے ہیں اور نہ اذیت پہنچاتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی یہ ثواب صر ان لوگوں کو حاصل ہوگا جو رضائے الہی کے لیے خرچ کرتے ہیں اور خرچ کرنے کے بعد نہ کسی پر احسان جتلاتے ہیں اور نہ زبان وعمل سے کوئی تکلیف دیتے ہیں کسی کو کچھ دے کر احسان جتلا نا گناہ کبیرہ ہے۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ احسان جتلانے والا ان تین شخصوں میں سے ایک ہوگا جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے دیکھے گا نہ ان کا تزکیہ کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ ( فتح البیان)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ برتاو سے آزار پہنچانا یہ کہ مثلا اپنے احسان کی بناء پر اس کے ساتھ تحقیر سے پیش آوے اس سے دوسرا آزار پاتا ہے اور آزار پہنچانا حرام ہے اور موجب عذاب ہے احسان جتلانا بھی اس میں آگیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : انفاق فی سبیل اللہ سے ثواب میں اضافہ تب ہی ہوگا جب احسان جتلانے اور تکلیف دینے سے صدقہ پاک ہوگا۔ احسان جتلانے اور تکلیف سے بہتر ہے کہ آدمی دوسرے سے معذرت ہی کرلے۔ صدقہ کا بھاری اور بےانتہا اجر انہیں موصول ہوگا۔ جنہوں نے حالت ایمان میں انفاق فی سبیل اللہ کی شرائط پوری کرتے ہوئے اپنے صدقہ کو ایذاء اور احسان سے محفوظ رکھا ہو۔ ضروری نہیں کہ احسان اور تکلیف زبان سے ہی دی جائے۔ بسا اوقات صدقہ کرنے والا اپنے ملازم سے اس لیے زیادہ کام لیتا ہے کہ تنخواہ کے علاوہ بھی اسے کچھ دیتا ہے۔ اپنا اعزہ و اقرباء پر خرچ کرنے والے اکثر لوگ ان سے خدمت اور غیر معمولی احترام کی توقع کرتے ہیں۔ اسی طرح مسجد، مدرسہ اور کسی رفاعی ادارے پر خرچ کرنے کے بعد ریا کار اور کم ظرف لوگ ایسے اداروں کے خدمت گاروں اور علماء کو ملازم اور اپنا احسان مند رکھنے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ جس سے ملازم، رشتہ دار اور دین کی خدمت کرنے والوں کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے اور بسا اوقات اس قسم کے مخیر اور شہرت کے خواہش مند لوگ حکومت کے اداروں میں خرچ کرنے کے بعد سرکاری افسران سے مفادات اٹھاتے ہیں۔ جس سے صدقہ کرنے والے کے ثواب میں کمی اور صدقہ ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ جس نے اپنے صدقے کو ان کمزوریوں سے بچا لیا اس کے لیے اس کے رب کے ہاں بےانتہا اجر ہے اور اسے کوئی خوف و خطر نہیں ہوگا۔ ایسا صدقہ جو اخلاقی بیماریوں سے محفوظ ہو۔ وہ دنیا میں بھی آدمی کو بیشمار نقصانات اور آزمائشوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس سے نیک نامی ‘ دل میں سکون اور باہمی محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہاں صدقہ کرنے والے کو عاجزی اختیار کرنے اور گفتگو کا طریقہ بتلایا گیا ہے بالخصوص اس وقت جب آدمی کے پاس سائل کو دینے کے لیے کچھ نہ ہو توسائل کو ڈانٹنے کے بجائے اچھے طریقے سے ٹالنا اور معذرت کرنا چاہیے۔ یہ انداز اس صدقے سے کہیں بہتر ہے جس صدقہ کے بعد مستحق کو احسان جتلا کر یا کسی اور طریقے سے اذیت پہنچائی جائے۔ صدقہ دینے والے کو ایسا اس لیے بھی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے کہ اس نے اس کو اس قابل بنایا کہ اس کے سامنے دوسرے لوگ محتاج بن کر حاضر ہوتے ہیں۔ صاحب ثروت کو ہر دم یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہمیشہ دینے والی اللہ کی ذات ہے۔ وہ آدمی کی کمزوریوں سے صرف نظر فرما کر اپنی عطاؤں سے نوازتا ہے۔ لہٰذا آدمی کو بھی برد باری اور سخاوت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ البتہ جو شخص صحت مند اور حقیقتاً محتاج نہ ہو اسے دینے کے بجائے سمجھانا چاہیے۔ اگر وہ پھر بھی مانگنے سے باز نہ آئے تو اسے ڈانٹنے کی گنجائش ہے جیسا کہ امیر المومنین حضرت عمر (رض) نے ایسے مانگت سے مانگا ہوا اس کی ضرورت سے زائد مال چھین کر آئندہ گداگری سے منع کردیا۔ [ سیرت فاروق ] (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ قَال النَّبِيُِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَایَزَال الرَّجُلُ یَسْأَلُ النَّاسَ حَتّٰی یَأْتِيَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَیْسَ فِيْ وَجْھِہٖ مُزْعَۃُ لَحْمٍ ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب من سأل الناس تکثرا ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدمی ہمیشہ لوگوں سے مانگتا رہتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہیں ہوگا۔ “ (عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ ثَلَاثَۃٌ لَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا یَنْظُرُ إلَیْھِمْ وَلَا یُزَکِّیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ قَالَ فَقَرَأَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثَلَاثَ مِرَارٍ قَالَ أَبُوْ ذَرٍّ (رض) خَابُوْا وَخَسِرُوْامَنْ ھُمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْمُسْبِلُ وَالْمَنَّانُ وَالْمُنْفِقُ سِلْعَتَہٗ بالْحَلْفِ الْکَاذِبِ ) [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب بیان غلظ تحریم إسبال الإزار والمن بالعطیۃ ] ” حضرت ابوذر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا قیامت کے دن تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ نہ کلام کرے گا نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا اور نہ ہی ان کو گناہوں سے پاک کرے گا۔ ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔ ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔ ابوذر (رض) نے عرض کی یارسول اللہ ! وہ کون لوگ ہیں ؟ وہ تو ناکام ونامراد ہوگئے۔ آپ نے فرمایا : 1 اپنا ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا 2 احسان جتلانے والا 3 جھوٹی قسمیں اٹھا کر اپنا مال فروخت کرنے والا۔ “ مسائل ١۔ احسان جتلانے اور تکلیف دینے سے بچنے والا دنیا و آخرت میں بےخوف و خطر ہوگا۔ ٢۔ معذرت کرنا تکلیف دینے اور احسان جتلانے سے بہتر ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

احسان جتلانا ایک مکروہ ، ناپسندیدہ اور گھٹیا درجے کی حرکت ہے ۔ یہ ایک ایسا شعور ہے جو نہایت ہی پست ہے ۔ نفس انسانی صرف اس صورت میں احسان جتلاتا ہے جب وہ جھوٹے احساس برتری میں مبتلاہو اور اسے تعلی کا روگ لگا ہو۔ یا وہ گیرندہ کو ذلیل کرنا چاہتا ہو ، یا وہ دل میں یہ خواہش رکھتا ہو کہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں اور اس کے اس فعل انفاق کو پسندیدہ نظروں سے دیکھیں ۔ اس صورت میں بھی مطمح نظر لوگ ہیں ۔ اللہ کی ذات نہیں ہے ۔ یہ تمام جذبات ایسے ہیں جو کبھی ایک پاکیزہ دل میں پروان نہیں چڑھ سکتے ۔ اور نہ ایسے جذبات ایک سچے مومن کے دل میں پیدا ہوتے ہیں ۔ پس احسان جتلانا بیک وقت ایک دہندہ کے لئے اور گیرندہ کے لئے موجب اذیت ہے ۔ دہندہ کے لئے اذیت ہے کہ اس کے دل میں کبر و غرور پیدا ہوتا ہے ۔ اس کے دل میں یہ خیال اور یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ایک بھائی اس کے سامنے ذلیل اور شکستہ حال صورت میں ظاہر ہو ۔ اور خود دہندہ کے دل میں نفاق ، ریا کاری اور اللہ سے دوری کے جذبات پیدا ہوں گے اور گیرندہ کے لئے اذیت یوں ہے کہ وہ اپنے آپ کو کمتر اور شکستہ حال تصور کرتا ہے اور پھر اس کے دل میں حقارت اور انتقام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔ انفاق فی سبیل اللہ سے اسلام کی غرض صرف یہ نہیں ہے کہ ایک خلا کو پر کردیاجائے ، کسی کی حاجت پوری ہو اور بھوکا پیٹ بھر جائے ۔ صرف یہ غرض ہرگز نہیں ہے ۔ اس سے اسلام ایک طرف تو عطا کنندہ کی اخلاقی تطہیر کا بندوبست کرتا ہے اس کے نفس کو پاک کرتا ہے ۔ اس کے اندر ہمدردی کے جذبات کو ابھارتا ہے ۔ اور ایک مسلم بھائی اور بھائی کے درمیان رابطہ پیدا کرکے بحیثیت انسان اور مسلمان صرف رضائے الٰہی کے لئے اسے ایک فقیر کی امداد پر آمادہ کرتا ہے ۔ اسلام ایک دہندہ کو یہ یاد دلاتا ہے کہ اس پر اللہ کا فضل ہے اور اس نے اس فضل کے بارے میں اللہ سے ایک عہد بھی کررکھا ہے ۔ اور وہ عہد یہ ہے کہ وہ اس فضل ونعمت سے بغیر اسراف کے بقدر ضرورت کھائے بھی اور اس سے فی سبیل اللہ خرچ بھی کرے ۔ یعنی بغیر کسی رکاوٹ اور احسان جتلانے کے ۔ دوسری جانب اس سے اللہ تعالیٰ گیرندہ کی دلجوئی اور رضامندی کا سامان بھی کرتے ہیں ۔ اور ایک انسان اور ایک انسان اور ایک مومن اور مومن کے درمیان اچھے تعلقات قائم ہوجاتے ہیں ۔ اور اسلامی معاشرہ میں یہ خطرہ بھی نہیں رہتا کہ اس کے درمیان تعاون وتکافل نہ ہو ۔ یوں ایک اسلامی معاشرہ کی تعمیر وحدت ، اس کے رجحانات میں یکسوئی ، اس کے فرائض وذمہ داریوں میں ہم آہنگی پیدا ہوجاتی ہے ۔ لیکن احسان جتلانے سے یہ تمام فائدے ختم ہوجاتے ہیں اور انفاق فی سبیل اللہ زہر اور آگ بن جاتا ہے ۔ اگرچہ انسان کے ہاتھ اور اس کی زبان سے کسی گیرندہ کو کوئی اذیت نہ پہنچی ہو لیکن مجرد احسان جتلانا ہی بہت بڑی اذیت ہے ۔ یہ بذات خود مجسم اذیت ہے ۔ اس سے انفاق بےاثر ہوجاتا ہے ۔ معاشرہ کے اندر تفرقہ پیدا ہوتا ہے اور افراد معاشرہ کے درمیان دشمنیاں اور نفرتیں پیدا ہوتی ہیں ۔ جدید علوم نفسیات کے ماہرین اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ احسان جتلانے یا احسان کرنے کے نتیجے میں بالآخر محسن اور وہ شخص جس کے ساتھ احسان کیا گیا ، کے درمیان کسی نہ کسی وقت دشمنی ضرور پیدا ہوجاتی ہے ۔ وہ اس سلسلے میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ ایک گیرندہ اپنے دل ہی دل میں احساس کمتری اور معطی کے سامنے اپنے ضعف جذبات اپنے دل میں پیدا کرلیتا ہے ۔ اور یہ شعور ہر وقت اس کے دل میں چبھتا رہتا ہے ۔ اور ایک احسان مند شخص اس شعور پر غلبہ پانے کے لئے ردعمل میں خود احسان کنندہ پر حملہ آور ہوجاتا ہے اور اپنے دل میں اس کی دشمنی کو چھپالیتا ہے ۔ اس لئے کہ احسان کنندہ کی نسبت سے وہ ہمیشہ اپنے آپ کو کمتر سمجھتا ہے اور خود احسان کنندہ بھی یہ شعور اپنے اندر پیدا کرلیتا ہے کہ وہ اس شخص کے مقابلے میں برتر ہے ۔ اور یوں یہ شعور یعنی ایک جانب احساس برتری اور دوسری جانب احساس کمتری ایک دوسرے کی دشمنی میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ بیشک ماہرین نفسیات کا یہ تجربہ بعض اوقات جاہلی اور غیر اسلامی معاشروں کے درمیان بالکل درست نکلتا ہے ۔ یہ جاہلی معاشرے ایسے ہوتے ہیں ۔ جن میں نہ اسلامی روح ہوتی ہے نہ اس میں اسلامی افکار کی حکمرانی ہوتی ہے ۔ لیکن اسلامی نظام زندگی نے اس مسئلے کو بالکل ایک نئے انداز میں حل کیا ہے ۔ وہ یوں کہ اسلام تمام لوگوں کے دل و دماغ میں یہ حقیقت بٹھاتا ہے کہ مال و دولت دراصل اللہ کی ملکیت ہے جو رزق اور دولت اہل ثروت کے ہاتھوں میں ہے وہ اس کے امین ومحافظ ہیں ۔ اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکارجاہل سے جاہل شخص بھی نہیں کرسکتا ۔ اس لئے کہ دولت و ثروت کے قریبی اور دور کے اسباب اللہ کے پیدا کردہ ہیں ۔ ان اسباب میں سے کوئی سبب بھی انسان کے دائرہ قدرت میں نہیں ہے ۔ یہ سب کچھ اللہ کا دیا ہوا ہے ۔ گندم کا ایک دانہ لیجئے ۔ اس کی پیدائش میں اس کائنات کی کئی قوتیں شریک ہوتی ہیں ۔ سورج سے لے کر زمین تک اور پانی سے لے کر ہواتک ۔ ان میں سے کوئی قوت بھی انسان کے دائرہ قدرت میں نہیں ہے ۔ گندم کے ایک دانے پر تمام دوسری اشیاء کو قیاس کیا جاسکتا ہے ۔ چاہے وہ کپڑے کا ایک ریشہ ہو یا کوئی اور چیز ہو ۔ یوں اس تصور کے ساتھ اگر کوئی صاحب ثروت اگر کوئی چیز خرچ کرتا ہے تو گویا وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی چیز خرچ کرتا ہے ۔ نیز اس تصور کے مطابق اگر کوئی شخص کوئی نیکی کرکے اپنی آخرت کے لئے جمع کرتا ہے تو گویا وہ اللہ تعالیٰ کو قرض دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اس کا کئی گنا اجر دے گا ۔ البتہ یہ نادار شخص اس مالدار شخص کے اخروی اجر کا ایک سبب بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اخذوعطا کے لئے ایسے آداب مقرر فرمائے ہیں جن کو یہاں ہم بیان کررہے ہیں۔ یہ آداب انسانی دل و دماغ میں یہ تصور راسخ کرتے ہیں کہ کوئی دینے والا تعلی نہ کرے اور نہ کوئی لینے والا احساس کمتری کا شکار ہو اور دونوں ان آداب و اصول کا لحاظ رکھیں جو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے لئے وضع فرمائے ہیں ۔ اور ان عہدوں کی پوری پوری پابندی کریں جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لئے ہیں ۔ فرماتے ہیں وَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ................ ” ان کے لئے کسی خوف کا موقعہ نہ ہوگا۔ “ یعنی ان کے لئے نہ یہ خطرہ ہے کہ ان کے ساتھ دشمنی ہوگی ، نہ یہ خطرہ ہے کہ وہ غریب ہوجائیں گے اور نہ یہ خطرہ ہے کہ ان کا کوئی اجر ضائع ہوگا۔ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ................ ” اور نہ ان کے لئے رنج وملال کا موقع ہوگا۔ “ یعنی دنیا میں بھی ان کے لئے کوئی رنج نہ ہوگا۔ اور نہ آخرت میں انجام بد سے دوچار ہوکر وہ پریشان ہوں گے ۔ بذل ونفاق کی مذکورہ بالا حکمت کی تائید مزید کے لئے اور اس بات کی مزید وضاحت کے لئے انفاق فی سبیل اللہ سے اصل غرض وغایت تہذیب نفس اور اصلاح القلوب ہے ۔ اور عطاکنندہ اور گیرندہ کے درمیان محض دینی محبت کا قیام ہے ، اگلی آیت میں کہا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فی سبیل اللہ خرچ کرنے کے آداب اور ریا کاروں کے صدقات کی مثال ان آیات میں اول تو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی فضیلت بتائی ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے لیے اجر وثواب ہے نہ ان پر کوئی خوف ہے نہ وہ رنجیدہ ہوں گے، اور ساتھ ہی دو باتوں پر تنبیہ فرمائی ہے، اول یہ کہ جس کسی کو مال دیں اس پر احسان نہ دھریں اور اسے تکلیف نہ پہنچائیں، ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ صدقہ دینے کے بعد احسان جتانے اور تکلیف پہنچانے سے صدقہ باطل ہوجاتا ہے، بہت سے لوگوں کی جو یہ عادت ہوتی ہے کہ تھوڑا بہت صدقہ دے کر ان لوگوں پر احسان دھرتے ہیں جن لوگوں کو کچھ دیا۔ اور خاص کر ان لوگوں پر جو رشتہ دار ہیں یا اپنے شہر کے رہنے والے ہیں ایسے لوگ احسان دھرنے سے اپناثواب باطل کردیتے ہیں جس پر احسان دھرا جائے اسے احسان کے الفاظ سننے سے یا احسان دھرنے کی طرح برتاؤ کرنے سے تکلیف ہوتی ہی ہے اور بعض مرتبہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں یا ان پر خرچ کرنے کی وجہ سے بیگاریں لیتے ہیں، اس لیے لفظ مَنّ (احسان جتانے) سے ساتھ لفظ اَذٰی بھی ذکر فرمایا کہ اللہ کے لیے خرچ کریں اور احسان بھی نہ دھریں اور کسی قسم کی کوئی تکلیف بھی نہ پہنچائیں تب ثواب کے مستحق ہوں گے، اگر کسی نے سوال کیا اور اسے نہ دیا اور خوبصورتی کے ساتھ اچھے الفاظ میں جواب دے دیا اور سائل کی بد تمیزی پر اور تنگ کرنے پر جو غصہ آیا اس سے درگزر کردیا تو یہ اس سے بہتر ہے کہ کچھ دیدے پھر احسان دھرے یا کسی طرح سے تکلیف پہنچائے۔ اس کو فرمایا (قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَۃٍ یَّتْبَعُھَآ اَذًی) جو لوگ صدقہ کرکے احسان جتاتے ہیں یا ایذاء پہنچاتے ہیں ان کے بارے میں فرمایا کہ ان لوگوں کا ایسا حال ہے جیسے کوئی شخص لوگوں کو دکھانے کے لیے مال خرچ کرے اور اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان نہ رکھتا ہو ایسے شخص کے خرچ کرنے کی مثال دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جیسے کوئی چکنا پتھر ہو اس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو اور اوپر سے زور دار بارش پڑجائے جو اس ذرا سی مٹی کو بہا کرلے جائے اور پتھر کو بالکل چکنا سپاٹ چھوڑ دے، اول تو پتھر چکنا پھر اس پر مٹی بھی ذرا سی اور جو بارش برسی تو وہ بھی زور دار، ظاہر ہے کہ اس حالت میں پتھر صاف ہو کر چکنا نہ رہ جائے گا تو اور کیا ہوگا۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ منافق کے خرچ کرنے کی مثال ہے کیونکہ وہ اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔ مسلمانوں میں شریک ہو کر جو کسی نیک کام میں تھوڑا بہت خرچ کیا تو ایسا ہوا جیسے چکنے پتھر پر ذرا سی مٹی آجائے اور چونکہ اس خرچ کا اسے کوئی ثواب نہ ملے گا اس لیے یہ خرچ کرنا اس کے حق میں بالکل ہی بےفائدہ ہے جیسا کہ اس ذرا سی مٹی پر خوب تیز بارش برس جائے اور اسے دھو ڈالے۔ یہ لوگ اپنی کمائی پر ذرا بھی قادر نہ ہوں گے کیونکہ انہوں نے جو کچھ کمایا اور خرچ کیا حالت فکر میں تھا اور دکھاوے کے لیے تھا اس کا ثواب انہیں ذرا نہ ملے گا، آخرت میں ان کا کمانا بھی ضائع ہے اور خرچ کرنا بھی، اور جب ایمان نہیں اور اخلاص نہیں تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انہیں جنت کا راستہ بھی نہ دکھائے گا۔ اوپر منافق ریا کار کا ذکر ہے جو مومن مخلص کے مقابلہ میں آیا ہے۔ اگر کوئی شخص مسلمان ہو اور ریا کاری سے کوئی ایسا کام کرے جو فی نفسہ نیک ہو، خواہ مالی عبادت ہو یا جانی عبادت، ریا کاری کی وجہ سے وہ بھی ثواب سے محروم رہے گا بلکہ ریا کاری اس کے لیے و بال ہوگی اور آخرت میں مستحق عذاب ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ سب سے پہلے جن لوگوں کے بارے میں سزا کا فیصلہ ہوگا ان میں ایک شخص وہ ہوگا جو بظاہر شہید ہوگیا تھا لیکن اس کی نیت یہ تھی کہ بہادری میں اس کا نام ہو، اور ایک وہ شخص ہوگا جس نے علم پڑھا اور پڑھایا اور قرآن شریف پڑھا۔ علم حاصل کرنے سے اس کی نیت یہ تھی کہ اس کو عالم کہا جائے اور قرآن پڑھنے سے اس کی نیت یہ تھی کہ اس کو قاری کہا جائے۔ اور ایک وہ شخص ہوگا جسے اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کا مال دیا تھا وہ اللہ پاک کے حضور میں کہے گا کہ جو بھی کوئی خرچ کرنے کی سبیل مجھے ملی جس میں خرچ کرنا آپ کے نزدیک مجبوب تھا اس میں میں نے آپ کے لیے خرچ کیا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ تو جھوٹ کہتا ہے تو نے یہ اس لیے کیا کہ تجھے سخی کہا جائے۔ تینوں آدمیوں سے اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تمہاری جو خواہش تھی وہ پوری ہوچکی اور جو تم چاہتے تھے وہ کہا جا چکا لہٰذا ان تینوں کو منہ کے بل گھسیٹ کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ جن کے ذریعہ سب سے پہلے دوزخ کو دھکا یا جائے گا یہ تین آدمی ہوں گے۔ (الترغیب و الترہیب ص ٦٢ ج ١) حضرت شداد بن اوس (رض) نے بیان کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ جس نے ریا کاری کرتے ہوئے نماز پڑھی اس نے شرک کیا، اور جس نے روزہ رکھ کر ریا کاری کی اس نے شرک کیا اور جس نے صدقہ دے کر ریا کاری کی اس نے شرک کیا۔ (مشکوٰۃ ص ٤٥٥ ج ٣)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

520 خرچ کرنے کی ترغیب اور خرچ کا ثواب بیان کرنے کے بعد اب ان امور کو بیان کیا جاتا ہے جو مذکورہ بالا ثواب کے استحقاق کے لیے ضروری ہیں۔ مَنٌّ کے معنی احسان جتلانے کے ہیں اور اذی کے معنی تکلیف دینے کے ہیں اور اس سے مراد ہر وہ قول وفعل ہے۔ جس سے متصدق علیہ (جس کو خیرات دی جائے) کو تکلیف پہنچے۔ مثلاً اسے یہ کہے کہ " یار بڑا جھگڑالو ہے، چمٹ ہی گیا ہے چھوڑتا ہی نہیں "۔ " کیسا ہٹہ کٹہ ہے کماتا کیوں نہیں "۔ صدقہ کرنے کے بعد لینے والے سے کام کرانا بھی اذی میں داخل ہے۔ اس لحاظ سے احسان جتلانا بھی اذی میں داخل ہے مگر احسان جتلانے کی بیماری چونکہ عام تھی۔ اس لیے اسے علیحدہ ذکر کیا۔ لھم اجرھم عند ربھم۔ یعنی جو لوگ صدقہ کرنے کے بعد نہ احسان جتلاتے ہیں اور نہ ہی کسی اور طریقے سے سائل کو تکلیف دیتے ہیں صدقہ و خیرات کا ثواب صرف انہیں لوگوں کو ملتا ہے۔ کیوں کہ من اور اذی دونوں ایسی برائیاں ہیں کہ ان کی وجہ سے صدقہ اللہ کی رضا کے لیے نہیں رہتا۔ اس لیے صدقہ باطل ہوجاتا ہے اور اللہ کے یہاں سے اس کا کوئی اجر وثواب نہیں ملتا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi