Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 41

سورة البقرة

وَ اٰمِنُوۡا بِمَاۤ اَنۡزَلۡتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمۡ وَ لَا تَکُوۡنُوۡۤا اَوَّلَ کَافِرٍۭ بِہٖ ۪ وَ لَا تَشۡتَرُوۡا بِاٰیٰتِیۡ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ۫ وَ اِیَّایَ فَاتَّقُوۡنِ ﴿۴۱﴾

And believe in what I have sent down confirming that which is [already] with you, and be not the first to disbelieve in it. And do not exchange My signs for a small price, and fear [only] Me.

اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو میں نے تمہاری کتابوں کی تصدیق میں نازل فرمائی ہے اور اس کے ساتھ تم ہی پہلے کافر نہ بنو اور میری آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمتوں پر نہ فروخت کرو اور صرف مجھ ہی سے ڈرو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَامِنُواْ بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَكُمْ ... And believe in what I have sent down, confirming that which is with you (the Tawrah and the Injil), meaning, the Qur'an that Allah sent down to Muhammad, the unlettered Arab Prophet, as bringer of glad tidings, a warner and a light. The Qur'an contains the Truth from Allah and affirms what was revealed beforehand in the Tawrah and the Injil (the Gospel). Abu Al-Aliyah said that Allah's statement, "means, `O People of the Book! Believe in what I sent down that conforms to what you have.' This is because they find the description of Muhammad recorded in the Tawrah and the Injil." Similar statements were attributed to Mujahid, Ar-Rabi bin Anas and Qatadah. Allah said, ... وَلاَ تَكُونُواْ أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ ... and be not the first to disbelieve therein. Ibn Abbas commented, "Do not become the first to disbelieve in the Qur'an (or Muhammad), while you have more knowledge in it than other people." Abu Al-Aliyah commented, "`Do not become the first to disbelieve in Muhammad,' meaning from among the People of the Book, `after you hear that he was sent as a Prophet."' Similar statements were attributed to Al-Hasan, As-Suddi and Ar-Rabi bin Anas. Ibn Jarir stated that; the Ayah (disbelieve therein 2:41) refers to the Qur'an, mentioned earlier in the Ayah, بِمَا أَنزَلْتُ (in what I have sent down (this Qur'an). Both statements are correct because they are inter-related. For instance, whoever disbelieves in the Qur'an will have disbelieved in Muhammad, and whoever disbelieves in Muhammad will have disbelieved in the Qur'an. Allah's statement, أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ (the first to disbelieve therein) means, do not become the first among the Children of Israel to disbelieve in it, for there were people from Quraysh and the Arabs in general who rejected Muhammad before the People of the Book disbelieved in him. We should state here that the Ayah is talking about the Children of Israel in specific, because the Jews in Al-Madinah were the first among the Children of Israel to be addressed by the Qur'an. Hence, their disbelief in the Qur'an means that they were the first among the People of the Book to disbelieve in it. Allah's statement, ... وَلاَ تَشْتَرُواْ بِأيَاتِي ثَمَناً قَلِيلً ... and buy not with My verses a small price, means, "Do not substitute faith in My Ayat and belief in My Prophet with the life of this world and its lusts which are minute and bound to end." Allah said, ... وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ and have Taqwa of Me and Me alone. Ibn Abi Hatim reported that Talq bin Habib said, "Taqwa is to work in Allah's obedience, on a light from Allah, hoping in Allah's mercy, and to avoid Allah's disobedience, on a light from Allah, fearing Allah's punishment." Allah's statement, وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ (and fear Me and Me alone) means, that Allah warns the People of the Book against intentionally hiding the truth and spreading the opposite of it, as well as, against defying the Messenger.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 بِہِ کی ضمیر قرآن کی طرف یا حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہے۔ دونوں ہی قول صیح ہیں کیونکہ دونوں آپس میں لازم اور ملزوم ہیں، جس نے قرآن کے ساتھ کفر کیا اس نے محمد رسول اللہ کے ساتھ کفر کیا، جس نے قرآن کے ساتھ کفر کیا، اس نے محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساتھ کفر کیا (ابن کثیر) پہلے کافر نہ بنو کا مطلب ہے ایک تو تمہیں جو علم ہے دوسرے اس سے محروم ہیں، اس لئے تمہاری ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔ دوسرے مدینہ میں یہود کو سب سے پہلے دعوت ایمان دی گئی، ورنہ ہجرت سے پہلے بہت سے لوگ قبول اسلام کرچکے ہوتے، اس لئے انہیں تنبیہ کی جا رہی ہے کہ یہودیوں میں تم اولین کافر مت بنو۔ اگر ایسا کرو گے تو تمام یہودیوں کے کفر کا وبال تم پر ہوگا۔ 41۔ 2 تھوڑی قیمت پر فروخت نہ کرو : کا یہ مطلب نہیں کہ زیادہ معاوضہ مل جائے تو احکام الٰہی کا سودا کرلو۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ احکام الٰہی کے مقابلے میں دنیاوی مفادات کو اہمیت نہ دو ۔ احکام الٰہی تو اتنے قیمتی ہیں کہ ساری دنیا کا مال و متاع بھی ان کے مقابلے میں ہیچ اور قلیل ہے۔ آیت میں اصل مخاطب اگرچہ بنی اسرائیل ہیں، لیکن یہ حکم قیامت تک آنے والوں کے لئے ہے، جو بھی محض طلب دنیا کے لئے گریز کرے گا وہ اس وعید میں شامل ہوگا۔ (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦١] عقائد، اخبار انبیاء اور احوال آخرت تمام الہامی کتابوں میں تقریباً ایک ہی جیسے ہیں۔ فرق ہوتا ہے تو صرف بعض احکام میں جو احوال و ظروف کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے۔ لہذا قرآن جب تورات کی تصدیق کر رہا ہے تو اس کے پہلے منکر تم ہی نہ بن جاؤ۔ امی اہل عرب اور تمہاری اولاد تو تمہاری ہی روش پر چلیں گے۔ اس طرح سب کے گناہ کا حصہ تم پر بھی ہوگا۔ اور حدیث میں ہے کہ : اہل کتاب کے ایمان لانے پر دوہرا اجر :۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تین آدمیوں کے لیے دوہرا ثواب ہے ایک تو وہ اہل کتاب جو اپنے پیغمبر پر ایمان لایا، پھر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لایا۔ دوسرے وہ غلام جو اللہ کا بھی حق ادا کرے اور اپنے مالکوں کا بھی، تیسرے وہ شخص جس کے پاس ایک لونڈی ہو جس سے وہ محبت کرتا ہو اسے اچھی طرح ادب سکھائے پھر آزاد کر کے اس سے نکاح کرلے تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔ && عامر شعبی نے صالح سے کہا ہم نے یہ حدیث تمہیں مفت بتادی جبکہ لوگ اس سے کم درجہ کی حدیث کے لیے مدینہ جایا کرتے تھے۔ (بخاری، کتاب العلم، باب تعلیم الرجل امتہ واھلہ)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

سب سے پہلے کافر بننے سے مراد یہ ہے کہ تم جانتے ہو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، تمہیں تو سب سے پہلے ایمان لانا چاہیے تھا۔ اس کے برعکس اگر تم ان کے ساتھ کفر کرتے ہو تو تم پہلے کافر ہوئے جو جانتے بوجھتے ہوئے کفر کر رہے ہو، اپنے آپ پر یہ ظلم نہ کرو۔ اس سے پہلے مشرکین مکہ نے جو کفر کیا تھا وہ جہالت کی وجہ سے تھا۔ اس لیے اشکال لازم نہیں آتا کہ کفار مکہ نے ان سے پہلے کفر کیا تھا۔ ( بیضاوی ) (وَلَا تَشْتَرُوْا) اس سے مراد دنیاوی مفاد کے لیے آیات الٰہی کو چھپانا ہے۔ یہ مسلم قاعدہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں۔ دوسرے مقامات پر اللہ کی آیات کے بدلے کم قیمت خریدنے کا ذکر جہاں آیا ہے اس کی وضاحت بھی موجود ہے کہ اس سے کیا مراد ہے، چناچہ سورة بقرہ میں فرمایا : (اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَيَشْتَرُوْنَ بِهٖ ثَـمَنًا قَلِيْلًا ۙ اُولٰۗىِٕكَ مَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِهِمْ اِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَلَا يُزَكِّيْهِمْ ښ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۔ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بالْهُدٰى وَالْعَذَاب بالْمَغْفِرَةِ ۚفَمَآ اَصْبَرَھُمْ عَلَي النَّارِ ) [ البقرۃ : ١٧٤، ١٧٥ ] ” بیشک جو لوگ چھپاتے ہیں جو اللہ نے کتاب میں سے اتارا ہے اور اس کے بدلے تھوڑی قیمت حاصل کرتے ہیں یہ لوگ اپنے پیٹوں میں آگ کے سوا کچھ نہیں کھا رہے اور نہ اللہ ان سے قیامت کے دن بات کرے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ یہی لوگ ہیں جنھوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلے اور عذاب کو بخشش کے بدلے خریدا، سو وہ آگ پر کس قدر صبر کرنے والے ہیں ؟ “ اور سورة آل عمران میں فرمایا : (وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهٗ للنَّاسِ وَلَاتَكْتُمُوْنَهٗ ۡ فَنَبَذُوْهُ وَرَاۗءَ ظُهُوْرِھِمْ وَاشْتَرَوْا بِهٖ ثَمَـــنًا قَلِيْلًا ۭ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُوْنَ ) [ آل عمران : ١٨٧ ] ” اور جب اللہ نے ان لوگوں سے پختہ عہد لیا جنھیں کتاب دی گئی کہ تم ہر صورت اسے لوگوں کے لیے صاف صاف بیان کرو گے اور اسے نہیں چھپاؤ گے تو انھوں نے اس کے بدلے تھوڑی قیمت لے لی سو برا ہے جو وہ خرید رہے ہیں۔ “ دنیا کی خاطر احکام الٰہی کو بدلنا بھی اس میں شامل ہے۔ وہ لوگ بھی اس میں داخل ہیں جو رشوت لے کر غلط فتویٰ دیتے ہیں۔ اس آیت کا تعلیم کتاب کی اجرت سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ یہ اجرت کسی غلط کام پر نہیں، بلکہ ایک نہایت پاکیزہ محنت پر ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَیْہِ أَجْرًا کِتَاب اللّٰہِ ) ” سب سے زیادہ حق چیز جس پر تم اجرت لو اللہ کی کتاب ہے۔ “ [ بخاری، کتاب الطب، باب الشروط فی الرقیۃ ۔۔ : ٥٧٣٧ ]” بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد صرف دم کی اجرت ہے مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چند سورتوں کی تعلیم کے بدلے ایک صحابی سے ایک خاتون کا نکاح کردیا تھا۔ [ بخاری، النکاح، باب التزویج علی القرآن ۔۔ : ٥١٤٩ عن سہل بن سعد (رض) ] وہاں دم کی تاویل کیسے ہوگی ؟ جن حضرات نے قرآن و حدیث کی تعلیم پر اجرت منع کی تھی، ان کے نام لیواؤں نے یہ کہہ کر تنخواہ لینا شروع کردی ہے کہ آج کل قرآن و حدیث کی تعلیم پر اجرت لینا جائز ہے، ورنہ مدارس اور مساجد ویران ہوجائیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کل ہی نہیں ہمیشہ سے یہ اجرت حلال تھی، بلکہ بہترین محنت اور بہترین اجرت تھی اور ہے، اس کا قرآن بیچنے سے کوئی تعلق نہیں۔ تھوڑی قیمت کا مطلب یہ نہیں کہ زیادہ قیمت لے لو، بلکہ مطلب یہ ہے کہ آیات الٰہی کے بدلے میں پوری دنیا بھی ملے تو متاع قلیل ہے، فرمایا : (قُلْ مَتَاع الدُّنْيَا قَلِيْلٌ) [ النساء : ٧٧ ] ” کہہ دو ، دنیا کا سامان بہت تھوڑا ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

(3) Verse 41 asks the Israelites not to be the first to deny the Holy Qur&an, although being a disbeliever is in itself the ultimate sin, whether one be the first or the last. The verse, in fact, suggests that the man who is the first to deny and disbelieve will not only incur the sin of his own denial but also bear the additional burden of the sin of misleading all those who follow his example; and will thus have to undergo a multiple punishment. It follows from here that the man who is in any way responsible for others falling into any kind of sin will have to bear the burden of this sin along with the sinners; similarly, the man who in some way helps others to do a good deed will receive a reward for it along with them. Several verses of the Holy Qur&an and the ahadith of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) repeatedly stress this point. (4) Verse 41 warns the Israelites against taking a paltry price for His signs or verses (the Arabic word, Ayat آیت has both the meanings). The context makes it clear that it is forbidden to take money from people by misinterpreting or concealing the verses of the Book of Allah in order to please them or to serve their worldly interests. There is an absolute consensus of the Ummah on this point. (5) As for the question of taking a wage for teaching the verses of the Holy Qur&an or for reporting them correctly, verse 41 is not concerned with the matter. But it is an important question in itself whether it is permissible to accept wages for teaching the Holy Qur&an. There is a divergence of views among the Fuqaha & (jurists) in this matter. Imam Malik, Imam al-Shafi` i and Imam Ahmad ibn Hanbal رحمہم اللہ ، consider such wages to be permissible, while the great Imam Abu Hanifah (رح) and some other jurists hold them to be impermissible, for the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) at has forbidden the use of the Holy Qur&an as a means of livelihood. But there has been a radical change in the circumstances since then. Formerly, those who taught the Holy Qur&an used to receive a subsistence allowance from the Baytul-Mal بیت المال ، or the public exchequer of the Islamic state. But since Islamic society fell into a disorder, 20 they lost their financial support. The teaching of the Holy Qur&an to children being a full-time job, the teachers could not turn to difficult professions without interrupting this essential chain of transmitting the Word of Allah from generation to generation. In view of this situation, the jurists of the Hanafi school declared it permissible to accept wages for teaching the Holy Qur&an. According to Hidayah, the famous book of Hanafi code, this should be the rule (fatwa) these days. Later jurists have extended the permission to similar duties like leading Salah (Imamah), calling for prayers (Adhan اذان ), teaching the Hadith and the Fiqh, etc., for they are related to the teaching of the Holy Qur&an, and the survival of Islam equally depends on them. (See al-Durr al-Mukhtar, al-Shami) 20. Through the onslaught of Western imperialism and other factors. (6) The famous Hanafi scholar Shami has, in his commentary on |"al-Durr al- Mukhar” and in his own book |"Shifal-` Alil|", explained in great detail and with convincing arguments that the later jurists have allowed the acceptance of wages for the teaching of the Holy Qur&an etc. Only in view of an essential religious need which must be fulfilled, or the whole Islamic order would be disturbed; hence the permission should be limited only to such essential needs. It logically follows from this principle that paying or receiving wages for the recitation of the Holy Qur&an for transmitting the reward to the dead or in the interest of some worldly purpose is forbidden, for it fulfils no essential religious need. Thus, the man who recites the Holy Qur&an for wages in this manner and the man who pays him for it both commit a sin. When there is no merit earned in such a recitation, how can it be transferred to the dead? Al-Shami refers to many authoritative works like |"Taj al-Shari` ah|", &Ayni&s commentary on Hidayah, the marginal notes by Khayr al-Din Al-Ramali on |"al-Bahr al-Ra&iq|", etc., and specially cites Al-Ramali to the effect that practices like paying for the recitation of the Holy Qur&an beside the grave of a dead man or elsewhere in order to transmit the reward to him, have never been reported from the blessed Companions or their immediate successors or from other great scholars of the early centuries of Islam, and are hence an innovation (Bid&ah) in religion.

(اَوَّلَ كَافِرٍۢ بِهٖ ) کافر ہونا خواہ سب سے پہلے ہو یا بعد میں بہرحال انتہائی ظلم اور جرم ہے مگر اس آیت میں یہ فرمایا کہ پہلے کافر نہ بنو اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ جو شخص اول کفر اختیار کرے گا تو بعد میں اس کو دیکھ کر جو بھی کفر میں مبتلا ہوگا اس کا وبال جو اس شخص پر پڑے گا اس پہلے کافر پر بھی اس کا وبال آئے گا اس طرح یہ پہلا کافر اپنے کفر کے علاوہ بعد کے لوگوں کے کفر کا سبب بن کر ان سب کے وبال کفر کا بھی ذمہ دار ٹھہرے گا اور اس کا عذاب چند ورچند ہوجائے گا۔ فائدہ : اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص دنیا میں دوسروں کے لئے کسی گناہ میں مبتلا ہونے کا سبب بنتا ہے تو جتنے آدمی اس کے سبب سے مبتلائے گناہ ہوں گے ان سب کا گناہ ان لوگوں کو بھی ہوگا اور اس شخص کو بھی اسی طرح جو شخص دوسروں کے لئے کسی نیکی کا سبب بن جائے تو جتنے آدمی اس کے سبب سے نیک عمل کریں گے اس کا ثواب جیسا ان لوگوں کو ملے گا ایسا ہی اس شخص کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جائے گا قرآن مجید کی متعدد آیات اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی متعدد احادیث میں یہ مضمون بار بار آیا ہے، (٤) وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِىْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی آیات کے بدلے میں قیمت لینے کی ممانعت کا مطلب وہ ہی ہے جو آیت کے سباق وسیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی مرضی اور ان کی اغراض کی خاطر اللہ تعالیٰ کی آیات کا مطلب غلط بتلا کر یا چھپا کر لوگوں سے پیسے لئے جائیں یہ فعل باجماع امت حرام ہے، (٥) تعلیم قرآن پر اجرت لینا جائز ہے : رہا یہ معاملہ کہ کسی کو اللہ تعالیٰ کی آیات صحیح صحیح بتلا کر یا پڑھا کر اس کی اجرت لینا کیسا ہے ؟ اس کا تعلق آیت مذکورہ سے نہیں، خود یہ مسئلہ اپنی جگہ قابل غور وبحث ہے کہ تعلیم قرآن پر اجرت و معاوضہ لینا جائز ہے یا نہیں فقہا امت کا اس میں اختلاف ہے امام مالک شافعی، احمد بن حنبل جائز قرار دیتے ہیں اور امام اعظم ابوحنیفہ اور بعض دوسرے ائمہ منع فرماتے ہیں کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کو ذریعہ کسب معاش کا بنانے سے منع فرمایا ہے ، لیکن متاخرین حنفیہ نے بھی جب ان حالات کا مشاہدہ کیا کہ قرآن مجید کے معلمین کو اسلامی بیت المال سے گذارہ ملا کرتا تھا اب ہر جگہ اسلامی نظام میں فتور کے سبب ان معلمین کو عموماً کچھ نہیں ملتا یہ اگر آپ نے معاش کے لئے کسی محنت مزدوری یا تجارت وغیرہ میں لگ جائیں تو بچوں کو تعلیم قرآن کا سلسلہ یکسر بند ہوجائے گا کیونکہ وہ دن بھر کا مشغلہ چاہتا ہے اس لئے تعلیم قرآن پر تنخواہ لینے کو بضرورت جائز قرار دیا جیسا کہ صاحب ہدایہ نے فرمایا ہے کہ آج کل اسی پر فتویٰ دینا چاہئے کہ تعلیم قرآن پر اجرت وتنخواہ لینا جائز ہے صاحب ھدایہ کے بعد آنے والے دوسرے فقہا نے بعض ایسے ہی دوسرے وظائف جن پر تعلیم قرآن کی طرح دین کی بقاء موقوف ہے مثلاً امامت و اذان اور تعلیم حدیث وفقہ وغیرہ کو تعلیم قرآن کے ساتھ ملحق کرکے ان کی بھی اجازت دی (درمختار، شامی) (٦) ایصال ثواب کے لئے ختم قرآن پر اجرت لینا باتفاق جائز نہیں : علامہ شامی نے درمختار کی شرح میں اور اپنے رسالہ شفاء العلیل میں بڑی تفصیل اور قوی دلائل کے ساتھ یہ بات واضح کردی ہے کہ تعلیم قرآن وغیرہ پر اجرت لینے کو جن متاخرین فقہاء نے جائز قرار دیا ہے اس کی علت ایک ایسی دینی ضرورت ہے جس میں خلل آنے سے دین کا پورا نظام مختل ہوجاتا ہے اس لئے اس کو ایسی ہی ضرورت کے مواقع میں محدود رکھنا ضروری ہے اس لئے مردوں کو ایصال ثواب کیلئے ختم قرآن کرانا یا کوئی دوسرا وظیفہ پڑھوانا اجرت کے ساتھ حرام ہے کیونکہ اس پر کسی عام دینی ضرورت کا مدار نہیں اور اجرت لے کر پڑہناحرام ہوا تو اس طرح پڑھنے والا اور پڑھوانے والا دونوں گناہگار ہوئے اور جب پڑھنے والے ہی کو کوئی ثواب نہ ملا تو میت کو وہ کیا پہنچائے گا علامہ شامی نے اس بات پر فقہاء کی بہت سی تصریحات تاج الشریعۃ، عینی شرح ہدایہ، حاشیہ خیر الدین بر بحر الرائق وغیرہ سے نقل کی ہیں اور خیر الدین رملی کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ ایصال ثواب کے لئے قبر پر قرآن پڑھوانا یا اجرت دے کر ختم قرآن کرانا صحابہ وتابعین اور اسلاف امت سے کہیں منقول نہیں اس لئے بدعت ہے (شامی ص ٤٧، ج ١)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُوْنُوْٓا اَوَّلَ كَافِرٍؚ بِہٖ۝ ٠ ۠ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰــتِىْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا۝ ٠ ۡ وَاِيَّاىَ فَاتَّقُوْنِ۝ ٤١ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ شری الشِّرَاءُ والبیع يتلازمان، فَالْمُشْتَرِي دافع الثّمن، وآخذ المثمن، والبائع دافع المثمن، وآخذ الثّمن . هذا إذا کانت المبایعة والْمُشَارَاةُ بناضّ وسلعة، فأمّا إذا کانت بيع سلعة بسلعة صحّ أن يتصور کلّ واحد منهما مُشْتَرِياً وبائعا، ومن هذا الوجه صار لفظ البیع والشّراء يستعمل کلّ واحد منهما في موضع الآخر . وشَرَيْتُ بمعنی بعت أكثر، وابتعت بمعنی اشْتَرَيْتُ أكثر، قال اللہ تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] ، أي : باعوه، ( ش ر ی ) شراء اور بیع دونوں لازم ملزوم ہیں ۔ کیونکہ مشتری کے معنی قیمت دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لینے والے کے ہیں ۔ اور بائع اسے کہتے ہیں جو چیز دے کہ قیمت لے اور یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب ایک طرف سے نقدی اور دوسری طرف سے سامان ہو لیکن جب خریدو فروخت جنس کے عوض جنس ہو ۔ تو دونوں میں سے ہر ایک کو بائع اور مشتری تصور کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بیع اور شراء کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں اور عام طور پر شربت بمعنی بعت اور ابتعت بمعنی اشتریت آتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ ڈالا ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ ثمن قوله تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] . الثَّمَنُ : اسم لما يأخذه البائع في مقابلة البیع، عينا کان أو سلعة . وکل ما يحصل عوضا عن شيء فهو ثمنه . قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمانِهِمْ ثَمَناً قَلِيلًا [ آل عمران/ 77] ، ( ث م ن ) الثمن اصل میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو فروخت کرنے والا اپنی چیز کے عوض خریدار سے وصول کرتا ہے خواہ وہ زر نقد ہو یا سامان ۔ قرآن میں ہے :۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] اور اسے تھوڑی سی قیمت یعنی چند درہموں پر بیچ ڈالا ۔ قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ تَّقْوَى والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا [ النحل/ 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور/ 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء/ 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل/ 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے : وامنوا بما انزلت مصدقاً لما معکم ولاتکونوا اول کافر بہ (اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پر ایمان لائو۔ یہ اس کتاب کی تائید میں ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود ہے، لہٰذا سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جائو) ایک قول کے مطابق قول باری : ولاتکونوا اول کافربہ کا فائدہ یہ ہے کہ اگرچہ سب سے پہلے اور سب سے آخر دونوں سے کفر کا صدور قبیح ہے اور سب کو اس سے روکا گیا ہے، تاہم کفر کے اندر سابق شخص کی پیروی دوسرے لوگ کریں گے جس کی بنا پر اس کا جرم اور گناہ دوسروں کے جرم اور گناہ سے بڑھ کر ہوگا۔ جس طرح یہ قول باری ہے : ولیحملن اثقالھم و اتقا لا مع اثقالھم (اور یہ لوگ ضرور اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائیں گے اور اپنے اس بوجھ کے ساتھ دیگر بوجھ بھی اٹھائیں گے) نیز : من جل ذلک کتبنا علی بنی اسرآئیل انہ من قتل نفساً بغیر نفس او فساد فی الارض فکا نما قتل الناس جمیعاً (اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آدم کے قاتل بیٹے پر ظلماً قتل ہونے والے ہر مقتول کے قاتل کے گناہ کا ایک حصہ ہ وگا کیونکہ وہ پہلا شخص تھا جس نے قتل کرنے کی رسم جاری کی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :” جو شخص نیکی کی کوئی رسم جاری رکے گا اسے اس کا اجر ملے گا، نیز ان تمام لوگوں کا بھی اجر اسے ملے گا جو قیامت تک اس پر عمل کرتے جائیں گے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤١) باطل کو حق کے ساتھ نہ ملاؤ کہ دجال کی صفت کو العیاذ باللہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت کے ساتھ مخلوط کرنے لگو اور تم اپنے پوشیدہ کرنے کو جانتے ہوئے حق بات کو مت چھپاؤ۔ (اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آؤ )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤١ (وَاٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَکُمْ ) ” ان الفاظ کے دو معنی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایمان لاؤ اس قرآن پر جو تصدیق کرتا ہے تورات کی اور انجیل کی۔ ازروئے الفاظ قرآنی : (اِنَّا اَنْزَلْنَا التَّوْرٰٹۃَ فِیْھَا ھُدًی وَّنُوْرٌ ج) (المائدۃ : ٤٤) ” ہم نے نازل کی تورات جس میں ہدایت اور روشنی تھی “۔ (وَاٰتَیْنٰہُ الْاِنْجِیْلَ فِیْہِ ھُدًی وَّنُوْرٌ) (المائدۃ : ٤٦) ” اور ہم نے اس (عیسیٰ ( (علیہ السلام) ) کو دی انجیل جس میں ہدایت اور روشنی تھی “۔ اور دوسرے یہ کہ قرآن اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پیشین گوئیوں کے مصداق بن کر آئے ہیں جو تورات میں تھیں۔ ورنہ وہ پیشین گوئیاں جھوٹی ثابت ہوتیں۔ (وَلاَ تَکُوْنُوْٓا اَوَّلَ کَافِرٍم بِہٖص) یعنی قرآن کی دیدہ و دانستہ تکذیب کرنے والوں میں اوّل مت ہو۔ تمہیں تو سب کچھ معلوم ہے۔ تم جانتے ہو کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور یہ کتاب اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ تم تو آخری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انتظار میں تھے اور ان کے حوالے سے دعائیں کیا کرتے تھے کہ اے اللہ ! اس نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطے سے ہماری مدد فرما اور کافروں کے مقابلے میں ہمیں فتح عطا فرما۔ (یہ مضمون آگے چل کر اسی سورة البقرۃ ہی میں آئے گا۔ ) لیکن اب تم ہی اس کے اوّلین منکر ہوگئے ہو اور تم ہی اس کے سب سے بڑھ کر دشمن ہوگئے ہو۔ (وَلاَ تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَناً قَلِیْلاً ز) یہ آیات الٰہیہ ہیں اور تم ان کو صرف اس لیے ردّ کر رہے ہو کہ کہیں تمہاری حیثیت ‘ تمہاری مسندوں اور تمہاری چودھراہٹوں پر کوئی آنچ نہ آجائے۔ یہ تو حقیر سی چیزیں ہیں۔ یہ صرف اس دنیا کا سامان ہیں ‘ اس کے سوا کچھ نہیں۔ (وَّاِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ ) ”

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

57. 'Trifling gain' refers to the worldly benefits for the sake of which they were rejecting God's directives. Whatever one may gain in exchange for the Truth, be it all the treasure in the world, is trifling; the Truth is of supreme value.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :57 تھوڑی قیمت سے مراد وہ دُنیوی فائدے ہیں جن کی خاطر یہ لوگ اللہ کے احکام اور اس کی ہدایات کو رد کر رہے تھے ۔ حق فروشی کے معاوضے میں خواہ انسان دنیا بھر کی دولت لے لے ، بہر حال وہ تھوڑی قیمت ہی ہے ، کیونکہ حق یقیناً اس سے گراں تر چیز ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

38: بنی اسرائیل کو یاد دلایاجارہا ہے کہ قرآنِ کریم وہی دعوت لے کر آیا ہے جو تورات اور انجیل کی دعوت تھی اور جن آسمانی کتابوں پر وہ ایمان رکھتے ہیں، قرآنِ کریم انہیں جھٹلانے کے بجائے دو طرح سے ان کی تصدیق کرتا ہے، ایک اس لحاظ سے کہ وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ یہ کتابیں اللہ ہی کی نازل کی ہوئی تھیں (یہ اور بات ہے کہ بعد کے لوگوں نے ان میں کافی رد وبدل کرڈالا جس کی حقیقت قرآن نے واضح فرمائی) اور دوسرے قرآن اس حیثیت سے ان کتابوں کی تصدیق کرتا ہے کہ ان کتابوں میں آخری نبی کی تشریف آوری کی جو پیشینگوئیاں کی گئی تھیں قرآنِ کریم نے انہیں سچا کردکھایا۔ اس کا تقاضا یہ تھا کہ بنی اسرائیل عرب کے بت پرستوں سے پہلے اس پر ایمان لاتے، لیکن ہویہ رہا ہے کہ جس تیز رفتاری سے بت پرست اسلام لارہے ہیں، اس رفتار سے یہودی ایمان نہیں لارہے ہیں اور اس طرح گویا بنی اسرائیل قرآن کی تکذیب کرنے میں پیش پیش ہیں ۔اسی لئے کہا گیا کہ: ’’تم ہی سب سے پہلے اس کے منکر نہ بن جاؤ‘‘ بعض یہودیوں کا طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ رِشوت لے کر تورات کی تشریح عام لوگوں کی خواہشات کے مطابق کردیا کرتے تھے، اور بعض اوقات اس کے احکام کو چھپالیتے تھے۔ ان کے اس طرز عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا: ’’میری آیتوں کو معمولی سی قیمت لے کر نہ بیچو… اور حق کو باطل کے ساتھ گڈمڈ نہ کرو، اور نہ حق بات کو چھپاؤ‘‘۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:41) ما انزلت ۔ ما موصولہ اور انزلت اس کا صلہ، اس کی تقدیر یوں ہے۔ بما انزلتہ جو میں نے نازل کیا ہے یعنی قرآن مجید۔ مصدقا۔ اسم فاعل واحد مذکر منصوب تصویق (تفعیل) مصدر سے ۔ سچا ماننے والا، سچا کہنے والا ۔ تصدیق کرنے والا۔ یہ حال مؤکد ہے حال محذوفہ سے جو کہ انزلت میں ہے ای انزلتہ مصدقا۔ ما معکم ، ما موصولہ معکم مضاف مضاف الیہ مل کر صلہ اپنے موصول کا۔ مراد اس سے تورات ہے۔ بہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع ما انزلتہ ہے، یعنی قرآن مجید۔ لاتشتروا۔ فعل نہی جمع مذکر حاضر۔ اشتراء (افتصال) مصدر۔ تم مت خریدو۔ تم مت مول لو ولا تشتروا بایتی ثمنا قلیلا اور میری آیات میں (تحریف کرکے) ان کے بدلے تھوڑی قیمت (یعنی دنیاوی منفعت) نہ حاصل کرو۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ زیادہ قیمت کے عوض ایسا کرنا روا ہے بلکہ اسی کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کرکے جو قیمت بھی وصول کرو گے وہ حقیر ہے۔ کیونکہ دنیا کا مال خواہ کتنا ہی ہو۔ ّخرت کی لذات کے مقابلہ میں وہ لاشی اور حقیر ہے۔ قرآن مجید میں ہے فلما متاع الحیوۃ الدنیا فی الاخرۃ الا قلیل (9:38) سو دنیا کی زندگی کا سامان آخرت کے مقابلہ میں تو بہت ہی قلیل ہے۔ وایای فاتقون۔ اور مجھ ہی سے ڈرتے رہا کرو (ملاحظہ ہو 2:40) پہلی آیت میں فارھبون فرمایا کیونکہ خطاب بنی اسرائیل کے لوگوں سے تھا۔ اور یہود میں جو خدا ترس تھے ان کو راہب کہتے تھے۔ بعد میں ایای فاتقون ۔ ارشاد ہوا کیونکہ جب وہ راہب ایمان لاکر امت محمدیہ میں داخل ہوجائیں گے تو امت محمدیہ میں خدا ترس کو متقی کہتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ۔ یعنی طلب دنیا کے لیے احکام الہی میں تبدل و تغیر نہ کرو، حسن بصری فرماتے ہیں آیات الہی کے بدلہ میں ساری دنیا بھی مل جائے تو متاع قلیل ہی ہے۔ ابن کثیر) اور ہر وہ شخص جو رشوت لے کر غلط فتوے دیتا ہے وہ بھی اس میں داخل ہے۔ (فتح البیان) اور اول کافر ہونے سے مرا یہ ہے کہ دیدہ و دانستہ پہلے کافر نہ ہو مشرکین مکہ نے جو اس سے پہلے کفر کیا تھا وہ ازر جہل تھا دانستہ نہ تھا لہذا اشکال لازم نہیں آتا (بیضاوی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی میرے احکام چھوڑ کر اور ان کو بدل کر اور چھپا کر عوام الناس سے دنیائے ذلیل و قلیل کو وصول مت کرو جیسا کہ ان کی عادت تھی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کو عظمت رفتہ کی یاد دہانی اور اللہ کا خوف دلانے کے بعد نصیحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو بلا چون و چرا تسلیم کرو اور دنیا کے مفاد کی خاطر ان سے روگردانی نہ کرو۔ سچائی کو قبول کرنے میں سب سے پہلے جو رکاوٹ پیش آیا کرتی ہے وہ دنیاوی مفاد، گروہی تعصبات اور آدمی کا قدیم رسومات ونظریات پر قائم رہنا ہے جنہیں چھوڑنا نہایت ہی مشکل ہوتا ہے۔ اس میں انسان کو وقتی مفادات، ماضی کے نظریات، آباء و اجداد کی روایات اور معاشرے کی فرسودہ رسومات کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ ان کو چھوڑنے سے کئی قسم کے الزامات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ آدمی ہمیشہ سے انہی زنجیروں میں جکڑا رہتا ہے۔ ان جکڑ بندیوں سے نجات پانا اور حقیقت کو قبول کرنا بڑی جرأت و جوا نمردی کا کام ہے۔ اہل کتاب کو دعوت دی جا رہی ہے کہ تمہیں سب لوگوں سے پہلے قرآن مجید پر ایمان لانا چاہیے کیونکہ قرآن کوئی نیا دین پیش نہیں کرتا یہ تو تمہاری بنیادی تعلیمات کی تائید کرتا ہے۔ لہٰذا رکاوٹ بننے کی بجائے ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے ہوئے آگے بڑھ کر قرآن کا پیغام سینے سے لگاؤ اور پرچم اسلام کو تھام لو۔ تمہیں وہ سب کچھ عزت کے ساتھ مل جائے گا جس کے چھن جانے کا تمہیں خوف ہے۔ لہٰذا دونوں آیات کے آخر میں تلقین کی گئی ہے کہ مفادات کے چھن جانے کا ڈر، لوگوں کا خوف اور مستقبل کے خدشات سے ڈرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے ڈرو کیونکہ دنیا کے مفادات وتحفظات اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے مقابلے میں نہایت ہی معمولی چیز ہیں۔ ” اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو تھوڑے داموں میں فروخت نہ کرو اور اگر منہ مانگے دام ملیں تو بیچ دو بلکہ مقصد یہ ہے کہ کسی قیمت پر حق کو نہ بیچو۔ کیونکہ ساری دنیا کے خزانے بھی اس کے مقابلے میں حقیر ترین معاوضہ ہیں۔ “ [ ضیاء القرآن ] بنی اسرائیل کو یہ کہہ کر سمجھایا جا رہا ہے کہ تمہیں میرے سوا کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اور تمہیں اس لیے بھی خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ قرآن تمہاری بنیادی اور صحیح باتوں کی تصدیق کرتا ہے اور اسے میں نے ہی اپنے بندے محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا ہے لہٰذا تمہارے لیے اس سے انکار کرنے کا کوئی علمی و اخلاقی جواز نہیں بنتا۔ اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بجائے آگے بڑھ کر اسے قبول کرو دنیا کے معمولی مفاد اور عارضی وقار کی خاطر میری آیات کے ساتھ سودے بازی نہ کرو کیونکہ میرے ارشادات کے مقابلے میں دنیا کی حیثیت ذرہ کے برابر بھی نہیں ہے۔ اس حقیقت کو نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک موقعہ پریوں بیان فرمایا ہے : (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَرَّ بالسُّوْقِ دَاخِلًا مِّنْ بَعْضِ الْعَالِیَۃِ وَالنَّاسُ کَنَفَتُہٗ فَمَرَّ بِجَدْيٍ أَسَکَّ مَیِّتٍ فَتَنَاوَلَہٗ فَأَخَذَ بِأُذُنِہٖ ثُمَّ قَالَ أَیُّکُمْ یُحِبُّ أَنَّ ھٰذَا لَہٗ بِدِرْھَمٍ فَقَالُوْا مَانُحِبُّ أَنَّہٗ لَنَا بِشَیْءٍ وَمَا نَصْنَعُ بِہٖ قَالَ أَتُحِبُّوْنَ أَنَّہٗ لَکُمْ قَالُوْا وَاللّٰہِ لَوْکَانَ حَیًّاکَانَ عَیْبًا فِیْہِ لِأَنَّہٗ أَسَکَّ فَکَیْفَ وَھُوَ مَیِّتٌ فَقَالَ فَوَاللّٰہِ لَلدُّنْیَا أَھْوَنُ عَلَی اللّٰہِ مِنْ ھٰذَا عَلَیْکُمْ ) (رواہ مسلم : کتاب الزھد والرقائق، باب ) ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بازار کی ایک جانب سے داخل ہوئے آپ کے ساتھ لوگ بھی تھے آپ ایک مردہ بکری کے بچے کے پاس سے گزرے آپ نے اس کے ایک کان کو پکڑ کر پوچھا کون اسے ایک درہم کے بدلے لینا پسند کرے گا ؟ صحابہ کرام (رض) نے کہا : ہم تو اسے کسی چیز کے بدلے بھی لینا نہیں چاہتے اور ہم اس کا کیا کریں گے ؟ آپ نے فرمایا : کیا تم اسے پسند کرتے ہو کہ یہ بکری کا بچہ تمہارا ہوتا ؟ صحابہ کرام (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو کان چھوٹے ہونے کی وجہ سے اسے قبول نہ کیا جاتا۔ اب یہ مرا ہوا ہے تو ہم کیسے اسے پسند کریں گے۔ آپ نے فرمایا : جیسے تمہارے نزدیک یہ بکری کا مردہ بچہ بڑا ہی حقیر ہے۔ اللہ کی قسم ! دنیا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیر اور ذلیل ہے۔ “ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّہٗ لَیَأْتِي الرَّجُلُ الْعَظِیْمُ السَّمِیْنُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَایَزِنُ عِنْدَ اللّٰہِ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ وَقَالَ اقْرَءُ وْا (فَلَا نُقِیْمُ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَزْنًا۔ ) (رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، باب أولئک الذین کفروا بآیات ربھم ولقاۂ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : یقینًا روز قیامت ایک بڑا اور موٹا آدمی لایا جائے گا اللہ کے ہاں اس کا مچھر کے پر کے برا بر بھی وزن نہ ہوگا اور فرمایا : یہ آیت پڑھو ( قیامت کے دن ہم ان کافروں کے لیے ترازوقائم نہیں کریں گے) ۔ “ پادریوں کی دنیا پرستی : جس تورات و انجیل کی قرآن نے تصدیق کی وہ وہی تھیں جو موسیٰ و عیسیٰ ( علیہ السلام) پر نازل ہوئیں۔ مگر نزول قرآن تک ان کتابوں کے کچھ حصے آمیزش اور تحریف و تناقص کا شکار ہوچکے تھے جبکہ بعض حصے بالکل ناپید ہوگئے تھے۔ لہٰذا قرآن نے جہاں ان کتابوں کی مجمل تصدیق کی ‘ وہاں یہ بھی بتایا کہ وہ تحریف اور تبدل کا شکار ہوچکی ہیں۔ گویا قرآن کے اپنے الفاظ میں اگر وہ ان کتابوں کا ” مصدق “ ہے تو وہ ان کا ” مہیمن “ بھی ہے۔ یعنی ان کی اصلی تعلیم کا محافظ و نگران اور اسے درست طور پر پیش کرنے والا (وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتَابِ وَمُہَیْمِنًا عَلَیْہِ ) ” قرآن کی عظمت یہ ہے کہ اس نے ان حقائق کا اعلان اس وقت کیا جب یہودی اور عیسائی انہیں کسی قیمت پر ماننے کو تیار نہ تھے۔ “ پاپاؤں اور کارڈینلوں کی ہوس زر ‘ دنیا طلبی اور عیش پرستیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے تاریخ پاپائیت کا مستند مورخ کریٹن پوپ بونی فیس نہم کے بارے میں لکھتا ہے : His ends were purely temporal and had no care for the higher intrests of the Church. (M.Creighton: History of the Papacy, vol. 1, p. 182, 183) ” اس کے مقاصد سراسر دنیاوی تھے اور اسے کلیسا کے اعلیٰ مفادات کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ “ حتیٰ کہ جب اس کے آخری وقت (last hour) پوچھا گیا کہ وہ کیسا ہے تو اس نے جواب دیا : If I had more money I should be wellenough. (M.Crieghton: History of the Papacy, vol. 1, p. 182, 183) ” اگر مجھے مزید دولت مل جائے تو میں (اب بھی) ٹھیک ٹھاک ہوسکتا ہوں۔ “ صلیبی جنگوں کا ایک اہم محرک بھی جلب زر اور حصول جاہ تھا۔ پوپ اربن دوم (١٠٨٨) ء نے پہلی صلیبی جنگ پر ابھارتے ہوئے مسیحی شہزادوں اور بہادروں کو کہا تھا : The wealth of our enemies will be yours and you will despoil them of their treasures. ” ہمارے دشمنوں کی دولت تمہاری ہوجائے گی ‘ اور تم انہیں ان کے خزانوں سے محروم کر دو گے۔ “ [ عیسائیت تجزیہ ومطالعہ از پروفیسر ساجد میر ] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو چھوڑ کر دنیا کمانا اس کی آیات کو معمولی قیمت پر فروخت کرنے کے مترادف ہے۔ ٢۔ اللہ کی کتابوں پر پورا یقین رکھنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ سے ہی ڈرتے رہنا چاہیے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

بنی اسرائیل کو دعوت دی جاتی ہے کہ ان معاہدوں کا تقاضا پورا کرتے ہوئے وہ اللہ کے نازل کردہ کلام پر ایمان لائیں ، جو ان کی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے جو ان کے پاس ہیں ، وہ اس کلام کا انکار کرنے اور کفر کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لیں ، کیونکہ ان کے لئے مناسب تو یہ تھا کہ وہ سب سے پہلے اس پر ایمان لاتے ۔ وَآمِنُوا بِمَا أَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ وَلا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ ” اور میں جو کتاب بھیجی ہے ، اس پر ایمان لاؤ۔ یہ اسی کتاب کی تائید میں ہے ، جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی ۔ لہٰذا سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جاؤ۔ “ اسلام ، جسے اب حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی آخری صورت میں لے کر آئے ہیں ، وہ وہی لازوال دین ہے جو ہمیشہ اللہ کی جانب سے آتا رہا ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وہ مسلسل پیغام ہے اور آغاز انسانیت سے یہ اللہ تعالیٰ کے درمیان ایک معاہدہ ہے ۔ اس سے پہلے بھی اس نے پوری انسانیت کو اپنے سایہ عاطفت میں لے لیا اور آئندہ بھی وہ انسانیت کا ہادی ورہبر ہوگا ۔ یہ دین عہد نامہ قدیم اور عہدنامہ جدید کو باہم ملاتا ہے ۔ اور مستقبل کی انسایت کے لئے اللہ تعالیٰ کو جو خیر اور بھلائی مطلوب تھی ، اس کا اضافہ کرتا ہے ۔ یہ دین اب پوری انسانیت کو ایک لڑی میں پروتا ہے اور انہیں باہم متعارف بھائی بھائی قرار دیتا ہے ۔ وہ انسانیت کو مختلف گروہوں ، جماعتوں ، نسلوں اور اقوام کی صورت میں تقسیم نہیں کرتا ، بلکہ وہ ان سب کو اللہ کے ایک ایسے بندوں کی صورت میں منظّم کرتا ہے جو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں جو فجر انسانیت سے آج تک ناقابل تغیر ہے ۔ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو اس بات سے رو کتے ہیں کہ وہ اس کتاب کا انکار محض دنیاوی مفادات کی خاطر نہ کریں جبکہ وہ ان تمام کتابوں کی تصدیق بھی کرتی ہے ، جو تمہارے پاس ہیں ۔ وہ زندگی کی تمام مصلحتوں اور ذاتی اغراض کی خاطر ، اس سچائی کو رد نہ کریں ، بالخصوص احبار اور مذہبی راہنما جو محض اسلام قبول کرنے سے ہچکچاتے تھے کہ انہیں معاشرے میں سیادت و قیادت کا جو مقام حاصل تھا ، وہ چلانہ جائے اور جو مالی مفادات وہ حاصل کررہے تھے ، وہ بند نہ ہوجائیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں نصیحت کرتا ہے کہ وہ اللہ کا خوف کریں ۔ ایسے برے اور گھٹیاں خیالات دل میں نہ لائیں وَلا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ تھوڑی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو اور میرے غضب سے بچو۔ “ دام و درہم ، مال و دولت اور دنیاوی مفادات کی بندگی یہود کا قدیم وصف ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ یہاں مالی مفادات سے یہودیوں کے مذہبی رہنماؤں کے وہ مفادات مراد ہوں جو وہ دینی خدمات ، جھوٹے فتو وں اور رؤسائے یہود کو شرعی سزاؤں سے بچانے کی خاطر ، آیات الٰہی میں تحریف کرنے کے عوض حاصل کرتے تھے ۔ جیسا کہ قرآن کریم کے دوسرے مقامات پر اس کی تفصیلات آئی ہیں ۔ ان تمام مفادات کی حفاظت کرنے کے لئے یہ لوگ اپنی قوم کو اسلام میں داخل ہونے سے روکتے تھے ، کیونکہ اس صورت میں اس بات کا خطرہ تھا کہ ان کے ہاتھ سے قیادت اور سرداری چلی جائے گی ۔ نیز جیسا کہ بعض صحابہ اور تابعین نے اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں تصریح کی ہے ، یہ دنیا پوری کی پوری ثمن قلیل ہے ۔ کیونکہ آیات الٰہی پر ایمان لے آنے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں قیامت کے دن اہل ایمان کو جو بہتر انجام ہونے والا ہے ، اس کے مقابلے میں اس پوری دنیا کی بلکہ اس پوری کائنات کی حقیقت ہی کیا ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بنی اسرائیل کو اسلام قبول کرنے کی دعوت بنی اسرائیل کو مزید خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تم اس کتاب پر ایمان لاؤ، جو میں نے نازل کی ہے یعنی قرآن مجید، اور یہ کتاب اس کتاب کے معارض نہیں ہے جو تم کو دی گئی تھی (یعنی توریت شریف) بلکہ یہ کتاب تو اس کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے۔ جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی جس کو تم جانتے ہو اور مانتے ہو۔ جو توریت و انجیل بزمانہ نزول قرآن اہل کتاب کے پاس تھیں اگرچہ ان لوگوں نے ان میں تحریفات کردی تھیں پھر بھی ان میں نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات موجود تھیں۔ سورة اعراف میں فرمایا : (الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰیۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ ) (الآیۃ) جب یہودیوں کو خاتم النّبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا علم ہوگیا اور یہ اہل علم تھے، اہل کتاب تھے حضرت خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی علامات اپنی کتاب میں پاتے تھے (اور پہچان بھی گئے کہ یہ وہی نبی ہیں جن کی بشارت پہلے سے دی گئی ہے اور ہم جن کے انتظار میں بر سہا برس سے مدینہ میں رہ رہے ہیں) تو ان کو سب سے پہلے ایمان لانا لازم تھا۔ اہل کتاب کا جو دوسرا فرقہ تھا یعنی نصاریٰ ان کے پاس سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کی خبر بہ نسبت یہودیوں کے بعد میں پہنچی مکہ معظمہ والے بےعلم تھے۔ مشرک تھے، اپنے کفر اور شرک پر اڑے رہے اور ضد اور عناد پر جمے رہے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا۔ لیکن یہود کے لیے انکار کا کیا مقام تھا ؟ اُں کو فوراً مان لینا تھا اور تصدیق کرنا تھا اور نصاریٰ سے آگے بڑھ کر اسلام قبول کرنا تھا لیکن بجائے اسلام میں آگے بڑھنے کے انہوں نے اسلام سے منحرف ہونے اور سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت کا انکار کرنے میں پہل کرلی۔ اسی کو فرمایا کہ تم اس کتاب کے انکار کرنے والوں میں پہل کرنے والے مت بنو۔ یہاں جو اشکال پیدا ہوتا ہے کہ انکار کرنے والوں میں اہل مکہ پہل کرچکے تھے پھر یہود کو ” اول کافر “ کیسے فرمایا، اس کا جواب یہ ہے کہ اہل کتاب میں سب سے پہلے منکر یہودی ہی بنے تھے۔ کیونکہ اہل کتاب کی دو جماعتیں تھیں۔ یہود و نصاریٰ ۔ ان دونوں میں سے یہود کو سب سے پہلے مسلمان ہونا لازم تھا۔ اوّل تو اس وجہ سے کہ دعوت ان کو پہلے پہنچی دوسرے اس وجہ سے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی علامات بخوبی پہچان لی تھیں اور بہ نسبت نصاریٰ کے یہ لوگ اہل علم تھے۔ اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ اے یہود مدینہ بنی اسرائیل میں سب سے پہلے کافر نہ بنو۔ کیونکہ بنی اسرائیل میں سب سے پہلے مخاطب یہود مدینہ ہی تھے۔ قال ابن عباس ولا تکونوا اوّل کافر بہ و عندکم فیہ من العلم ما لیس عند غیر کم، قال ابو العالیۃ ولا تکونوا اوّل من کفر بمحمّد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یعنی من جنسکم اھل الکتاب بعد سماعکم بمبعثہ و اما قولہ اول کافر بہٖ فیعنی بہ اوّل من کفربہ من بنی اسرائیل لانہ قد تقدمھم من کفار قریش و غیر ھم من العرب بشرکثیر۔ (تفیسر ابن کثیر ج اص ٨٣) پھر فرمایا : (وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمنًا قَلِیْلاً ) (اور میری آیات کے عوض حقیر معاوضہ مت حاصل کرو) مفسرین نے اس کا ایک مطلب یہ بیان کیا ہے کہ میری آیات پر ایمان لاؤ اور میرے تمام رسولوں کی تصدیق کرو (جس میں حضرت سیدنا محمد رسول اللہ خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق بھی شامل ہے) اور حقیر دنیا کے چلے جانے کی وجہ سے ایمان سے نہ رکو، اگر کفر اختیار کئے رہنے میں کچھ منافع نظر آتے ہیں تو ان کو چھوڑو۔ (ابن کثیر) ساری دنیا آخرت کے مقابلہ میں حقیر ہی ہے خواہ کتنی ہی زیادہ ہو۔ اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس کا یہ مطلب یہ ہے کہ میری آیات میں تبدیل اور تحریف نہ کرو اور کتمان حق نہ کرو۔ جیسا کہ اب تک کرتے رہے ہو اور اپنے عوام سے اس کے ذریعہ دنیاوی منافع حاصل کرتے ہو۔ وقیل کانوا یا کلون الرشی فیحرفون الحق و یکتمونہ۔ (من البیضاوی) ” بعض نے کہا وہ رشوت کھا کر حق میں تحریف کرتے اور اسے چھپاتے ہیں۔ “ پھر فرمایا (وَاِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ ) (کہ صرف مجھ ہی سے ڈرو) درحقیقت خوف خدا بہت بڑی چیز ہے کفر اور شرک اور ہر طرح معاصی چھڑانے میں اس کو سب سے بڑا دخل ہے۔ اس کی طرف دوبارہ توجہ دلائی اور بطور تاکید اس کا دوبارہ اعادہ فرمایا۔ مفسر بیضاوی فرماتے ہیں کہ رھب سے تقویٰ کی ابتدا ہوتی ہے۔ اور چونکہ ایمان کا حکم عوام و علماء سب کو ہے اس لیے پہلی آیت کے ختم پر فارْھَبُوْنِ فرمایا اور دوسری آیت میں جب علماء کو خصوصی خطاب ہوا تو فاتَّقُوْنِ فرمایا، کیونکہ تقویٰ خوف و خشیت اور رھبت کا منتہی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

98 ۔ یعنی جو کتاب میں نے اتاری ہے اور جو پیغمبر میں نے بھیجا ہے جن کا ذکر تورات اور انجیل میں موجود ہے ان پر ایمان لاؤ۔ یہ چوتھا امر ہے۔ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ ۔ اللہ تعالیٰ کا جو دین تورات کی صورت میں تمہارے پاس موجود ہے۔ قرآن اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ تصدیق کرنے سے مراد یہ ہے کہ توحید و رسالت اور دیگر عقائد جو تورات میں پیش کیے گئے تھے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی قرآن کے ذریعے وہی دعوت اور وہی عقائد پیش کیے ہیں۔ ای موافقا لما معکم من التورۃ فی التوحید والنبوۃ والاخبار ونعت النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (معالم ص 45 ج 1) اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعے بنی اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ وہ صرف اللہ ہی کو مالک ومختار اور متصرف و کارساز سمجھیں اور حاجات ومشکلات میں صرف اسے ہی نصرت ومدد کیلئے پکاریں چناچہ تورات کا یہ حوالہ خود قرآن نے پیش کیا۔ وَاٰتَيْنَا مُوْسَي الْكِتٰبَ وَجَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِيْ ‎وَكِيْلًا (بنی اسرائیل :2) تورات کے اس مضمون کی قرآن مجید نے کئی جگہ تصدیق کی ہے چناچہ سورة مزمل میں ارشاد ہے۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ فَاتَّخِذْہُ وَکِیْلاً ۔ یعنی اللہ کے سوا کوئی ہر قسم کی عبادت کے لائق نہیں، اس کے سوا حاجات ومشکلات میں کوئی ملجا وماوی نہیں لہذا اسے ہی پکارو، اسے ہی اپنا کارساز سمجھو، ضرورتوں اور مصیبتوں میں اسی ہی کی طرف رجوع کرو۔ 99 ۔ یہ پہلی نہی ہے۔ کَافِرٍ لفظاً مفرد ہے لیکن معنیً جمع ہے۔ معناہ اول من کفر بہ او اول فریق او فوج کافر بہ (کبیر ص 490 ج 1، قرطبی ص 233 ج 1) ان یہودیوں سے پہلے مشرکین عرب دعوت توحید کا انکار کرچکے تھے پھر انہیں سب سے پہلے انکار کرنے والے کیوں فرمایا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہودی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد اور آپ پر نزول قرآن کو اچھی طرح جانتے تھے۔ آپ کے اوصاف حمیدہ تورات میں مذکور تھے۔ آپ کی بعثت سے پہلے یہودی عالم آپ کے ظہور کی خوشخبری دیا کرتے تھے۔ اور ان کو تورات کی وہ آیتیں پڑھ کر سنایا کرتے تھے جن میں قرآن اور صاحب قرآن کا ذکر ہوتا تھا تو چاہئے تو یہ تھا کہ وہ بہت پہلے قرآنی دعوت کو قبول کرتے مگر اس کے برعکس انہوں نے جانتے پہچانتے اس کا انکار کردیا۔ اب ان کے مریدین اور مقتدین نیز ان کی اولاد ان کی دیکھا دیکھی کفر و انکار کرے گی۔ فان وظیفتکم ان تکونوا اول من اٰمن بہ لما انکم تعرفون حقیقۃ الامر (روح ص 224 ج 1) 100 ۔ یہ دوسری نہی ہے۔ یہودیوں کے علماء اور پیروں کی ساکھ اپنی قوم میں خاصی مضبوط تھی۔ عوام کو ان کے ساتھ گہری محبت اور عقیدت تھی۔ عوام ہمیشہ ان کی خوشنودی کے لیے انہیں نذریں نیازیں پیش کیا کرتے تھے۔ علمائے یہود کو یقین تھا کہ اگر ان کے عوام نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مان لیا تو ان کی ریاست اور شان و شوکت خاک میں مل جائیگی اور ان کی نذروشیرینی کا سلسلہ بند ہوجائے گا۔ چناچہ وہ تورات کی ان آیتوں کو اپنے عوام سے چھپانے لگے جن میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت اور آپ کی صفات و علامات بیان کی گئی تھیں۔ یہاں اسی کرتوت سے علماء یہود کو روکا گیا ہے اور لفظ اشتراء یہاں اپنے حقیقی معنوں میں نہیں ہے بلکہ اس سے مراد محض ترجیح اور استبدلال ہے۔ یعنی ایک چیز کی جگہ دوسری چیز کو اختیار کرنا۔ اس آیت میں دنیوی دولت اور فانی منافع کو اظہار حق پر ترجیح دینے کو اشتراء سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور ثَمَناً کے ساتھ لفظ قَلِیْلاً بڑھانے سے دولت دنیا کی حقارت کی طرف اشارہ ہے یعنی میری آیتوں کے عوض تم جو رقم وصول کرتے ہو، وہ میری آیتوں یا دولت آخرت کی نسبت نہایت قلیل اور حقیر ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا کی آیتوں کو تھوڑی رقم کے عوض بیچنا جائز نہیں ہے اور زیادہ رقم کے عوض جائز ہے۔ (من الکبیر ص 491 ج، والروح ص 245 ج 1 وغیرہما) حق چھپا کر پیٹ کا جہنم بھرنے کی یہ سنت آج بھی جاری ہے۔ یہودیوں کی طرح بہت سے مولوی اور پیر آپ کو ایسے نظر آئیں گے جو لوگوں کو گیارھویں شریف کی ترغیب تو دیتے ہوں گے۔ اپنے دادا کی قبر پر حاضر ہو کر چڑھا وے اور نذریں پیش کرنے کی تلقین کرتے ہوں گے۔ حاجتوں اور مصیبتوں میں اولیاء اللہ کی قبروں پر حاضری دیکر انہیں مدد کیلئے پکارنے کی تعلیم بھی دیتے ہونگے مگر اپنے مریدوں کے سامنے آپ نے انہیں قرآن مجید کی ان آیتوں کا وعظ کہتے ہوئے کبھی نہیں سنا ہوگا جن میں اللہ نے غیر اللہ کی نذرونیاز اور چڑھاوے کو حرام کہا ہے اور جن میں اللہ نے فرمایا ہے کہ میرے سوا کوئی حاجت روا اور مشکل کشا نہیں، میرے سوا کوئی عالم الغیب اور کارساز نہیں اس لیے میرے سوا حاجات ومشکلات میں کسی اور کو مت پکارو، کیونکہ ایسا کرنے سے یہودیوں کی طرح انہیں بھی یقین ہے کہ ان کی آمدنیاں بند ہوجائیں گی اور ان کا جھوٹا وقار ختم ہوجائے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 5۔ اور تم اس چیز پر جو میں نے نازل کی ہے جس کی حالت یہ یہ کہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرنیوالی ہے جو تمہارے پاس ہے ۔ ایمان لے آئو اور تم میری نازل کردہ چیز کے انکار کرنے میں پہل کرنے والے نہ بنو ، اور میری آیات و احکام کو تھوڑی اور معمولی قیمت پر فروخت نہ کرتے پھرو ، اور پھر صرف میری خفگی اور ناراضگی سے بچتے رہو۔ ( تیسیر) کتب سابقہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ آخر زمانے میں جو رسول آئے گا وہ تمہاری کتاب کو سچا بتانے والا ہوگا۔ یہ ایک علامت تھی تا کہ بنی اسرائیل اس علامت کو دیکھ کر اس پر ایمان لے آئیں ۔ بما انزلت سے مراد یا تو پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں اور یا قرآن ہے ، ہم نے دونوں احتمال کی رعایت رکھی ہے اور چونکہ توریت میں یہ علامت مذکور تھی اس لئے قرآن میں جا بجا فرمایا ہے۔ ولما جاء ھم کتاب من عند اللہ مصدق لما معھم اور فرمایا ولما جاء ھم رسول من عند اللہ مصدق لما معھم گویا اس رسول کا اور قرآن کا نام ہی مصدق لما معھم رکھ دیا یعنی وہ رسول جو توریت و انجیل کی تصدیق کرتا ہے یا وہ کتاب جو توریت و انجیل کی تصدیق کرنیوالی ہے اور جو کتاب تمہارے پاس ہے اس کو سچا بتاتی ہے۔ جیسا کہ آل عمران میں ہے۔ وانزل التورتہ والانجیل من قبل ھدی للناس۔ بہر حال تصدیق کا مطلب یہ ہے کہ پہلی کتابوں کو منزل من اللہ تسلیم کرتی ہے اگرچہ ان کے تمام احکام واجب التعمیل نہ ہوں اور خواہ ان میں کچھ تحریف و تبدیل ہوچکی ہو ، لیکن وہ کتابیں آسمان سے نازل شدہ ضرور ہیں ، لہٰذا جب اس رسول میں اور قرآن میں وہ نشانی موجود ہے ، جو تم کو بتائی گئی تھی پھر اس پر ایمان کیوں نہیں لاتے اور کفر میں پہل کیوں کرتے ہو ، جب تم ہی جانتے بوجھتے اور واقف و با خبر لوگ ایمان نہ لائو گے تو عوام بھی تمہاری دیکھا دیکھی ایمان لانے سیانکار کردیں گے اور ان کے کفر کا وبال بھی تم پر پڑے گا ۔ ان بنی اسرائیل کے علماء کی یہ حالت تھی کہ وہ محض لوگوں کے دبائو اور دنیوی لالچ اور اپنی عزت کے خیال سے احکام الٰہی کو بدل دیا کرتے تھے کہ ہماری ریاست اور وجاہت ختم ہو جائیگی اور یہی وہ حب جاہ اور حب مال ہے جس کے باعث وہ حسد اور کینہ جیسے مذموم امراض میں مبتلا تھے چناچہ فرمایا کہ میری آیات کے مقابلے میں معمولی معاوضہ حاصل نہ کرو اور میر ی گرفت سے بچتے رہو ۔ یعنی دنیا کا نفع خواہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو مگر وہ آخرت کے مقابلے میں بہر حال قلیل ہی ہے ۔ اوپر کی آیت میں فارھبون فرمایا اور یہاں فاتقون ارشاد ہوا رھب تو خوف کی ابتدائی حالت کو کہتے ہیں اور تقویٰ انتہائی اور کامل خوف کا نام ہے اس لئے دونوں میں فرق ہے یا اوپر کی آیت میں عدول حکمی سے ڈرانا تھا اور یہاں اپنے غصہ اور اپنے عذاب سے ڈرانا مقصود ہو ۔ واللہ اعلم۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ۔ توریت میں نشان بتایا تھا کہ جو کوئی نبی اٹھے اگر توریت کو سچا کہے تو جانوروہ سچا ہے تو جھوٹا ہے اور آیتوں پر تھوڑا موں یہ کہ دنیا کی محبت سے دین مت چھوڑو۔ ( موضح القرآن) فائدہ :۔ مصد قالما معھم کا ایک مطلب تو وہی ہے جو ہم نے عرض کیا اور ایک مطلب یہ بھی ہے کہ وہ پیغمبر یا وہ قرآن تمہاری کتاب کو سچا کرنے والا ہے۔ دونوں معنی میں فرق یہ ہے کہ پہلے معنی کا مطلب تو یہ ہے کہ یہ رسول یا یہ قرآن تمہاری کتابوں کو سچا بتاتا ہے اور ان کو سچا کہتا ہے ۔ اور دوسرے معنی کا مطلب یہ ہے کہ جو تمہاری کتابوں میں توحید اور احکام اور رسول کی اطاعت وغیرہ مذکور ہے۔ وہی باتیں یہ رسول بھی کہتا ہے اور وہی ملتے جلتے دلائل و احکام اس قرآن میں بھی ہیں ، لہٰذا یہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن تمہاری کتابوں کی سچائی اور صداقت کی تائید کرتا ہے۔ ( تسہیل)