Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 46

سورة البقرة

الَّذِیۡنَ یَظُنُّوۡنَ اَنَّہُمۡ مُّلٰقُوۡا رَبِّہِمۡ وَ اَنَّہُمۡ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ﴿۴۶﴾٪  5 الرّبع

Who are certain that they will meet their Lord and that they will return to Him.

جو جانتے ہیں کہ بے شک وہ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے اور یقیناً اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They are those who are certain that they are going to meet their Lord, and that unto Him they are going to return. continues the subject that was started in the previous Ayah. Therefore, the prayer, or the advice to observe it is heavy, إِلاَّ عَلَى الْخَاشِعِينَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَقُو رَبِّهِمْ (except for Al-Khashi`in. (They are those) who are certain (Yazunnuna) that they are going to meet their Lord), meaning, they know that they will be gathered and face their Lord on the Day of Resurrection, وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (and that unto Him they are going to return), meaning, their affairs are all subject to His will and He justly decides what He wills. Since they are certain that they will be returned to Allah and be reckoned, it is easy for them to perform the acts of obedience and refrain from the prohibitions. Ibn Jarir commented on Allah's statement; يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَقُو رَبِّهِم (Yazunnuna that they are going to meet their Lord), Ibn Jarir said; "The Arabs call certainty as well as doubt, Zann. There are similar instances in the Arabic language where a subject as well as its opposite share the same name. For instance, Allah said, وَرَأَى الْمُجْرِمُونَ النَّارَ فَظَنُّواْ أَنَّهُمْ مُّوَاقِعُوهَا And the Mujrimun (criminals, polytheists, sinners), shall see the Fire and Zannu (apprehend) that they have to fall therein." (18:53) It is recorded in the Sahih that; on the Day of Resurrection, Allah will say to a servant, "Have I not allowed you to marry, honored you, made the horses and camels subservient to you and allowed you to become a chief and a master?" He will say, "Yes." Allah will say, "Did you have Zann (think) that you will meet Me?" He will say, "No." Allah will say, "This Day, I will forget you, just as you forgot Me." If Allah wills, we will further elaborate on this subject when we explain Allah's statement, نَسُواْ اللّهَ فَنَسِيَهُمْ (They have forgotten Allah, so He has forgotten them), (9:67).

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٥] یعنی جو لوگ مرنے کے بعد اپنے پروردگار سے ملنے اور اس کے حضور جواب دہی کا یقین رکھتے ہیں۔ ان کے لیے نماز کی ادائیگی کبھی مشکل نہیں ہوا کرتی بلکہ اگر کوئی نماز چھوٹ جائے یا نماز میں تاخیر ہوجائے تو ان کی طبیعت گراں بار ہوجاتی ہے اور جب تک وہ نماز ادا نہ کرلیں انہیں چین نہیں آتا اور جو لوگ روز آخرت پر پورا یقین نہیں رکھتے، ان کے لیے نماز ایک مصیبت اور مفت کی بیگار ہوتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

نماز کی پابندی ویسے تو ایک نہایت مشکل ذمہ داری ہے، مگر جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور آخرت کا یقین ہے ان پر یہ بھاری نہیں ہے۔ یہاں ظن سے مراد یقین ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَبِالْاٰخِرَةِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ ) [ البقرۃ : ٤ ] ” اور آخرت پر وہی یقین رکھتے ہیں۔ “ [ أضواء البیان ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّہِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ۝ ٤٦ ۧ ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٦۔ ٤٧) اے یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد ! میرے ان انعامات کو یاد رکھو جو میں نے تم پر کیے ہیں اور میں نے تمہیں کتاب، رسول اور اسلام کے ذریعے تمہارے زمانے کے جہان پر تمہیں فضیلت دی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٦ ( الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّہِمْ ) میں نے شروع میں (وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ ) کے ذیل میں توجہّ دلائی تھی کہ یہ ایمان بالآخرت ہی ہے جو انسان کو عمل کے میدان میں سیدھا رکھتا ہے۔ (وَاَنَّہُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ) انہیں اس کے روبروحاضر ہونا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

61. This means that Prayer is an insufferable encumbrance and affliction for the man who tends not to want to obey, God and to believe in the After-life. For the man who, of his own voilation, has to stand before God after death, it is failure to perform the Prayer, rather than its performance, that becomes intolerable

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :61 یعنی جو شخص خدا کا فرماں بردار نہ ہو اور آخرت کا عقیدہ نہ رکھتا ہو ، اس کے لیے تو نماز کی پابندی ایک ایسی مصیبت ہے ، جسے وہ کبھی گوارا ہی نہیں کر سکتا ۔ مگر جو برضا و رغبت خدا کے آگے سرِ اطاعت خم کر چکا ہو اور جسے یہ خیال ہو کہ کبھی مر کر اپنے خدا کے سامنے جانا بھی ہے ، اس کے لیے نماز ادا کرنا نہیں ، بلکہ نماز کا چھوڑنا مشکل ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے یہود کو ان کی چند بری خصلتوں سے روکا تھا۔ اب اس آیت میں عام طور پر ارشاد ہے کہ انسان کو اپنی بری خصلتوں سے باز رہنے کے لئے دو چیزوں سے مدد لینی چاہیے۔ اول تو صبر یعنی شریعت میں جو باتیں منع ہیں ان کے کرنے سے سے اپنے جی کو روکنا۔ دوسری چیز نماز ہے کہ آدمی کی بری خصلتیں چھڑا دیتی ہے۔ دل کی پریشانی دور کردیتی ہے۔ مسند امام احمد میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک شخص کا ذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روبرو اس طرح پر آیا کہ وہ رات کو تو نماز پڑہتا ہے اور دن کو چوری کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس کی نماز اس کی چوری کی عادت چھوڑا دیوے گی ١۔ مسند امام احمد اور ابو داؤد میں حذیفہ سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دل جب کسی بات سے پریشان ہوتا تو آپ نماز پڑھا کرتے تھے۔ ٢۔ پھر فرمایا کہ اس طرح کی نماز جس سے بری خصلت چھوٹ جاوے اور دل کی پریشان رفع ہوجاوے ان ہی لوگوں کی ہے جو نماز پڑہتے وقت خدا کا خوف دل میں رکھتے ہیں اور یہ اعتقاد ان کے دل میں جما ہوا ہوتا ہے کہ ان کو ایک روز خدا کے رو برو جانا ہے اور یہ نماز ان کے نامہ اعمال میں لکھی جا کر اس روز خدا کے روبرو تولی جاوے گی جس تول میں اس کا عیب و صواب سب کھل جاوے گا۔ اور جو لوگ اوپر دل سے نماز پڑھتے ہیں۔ ان کی نماز میں یہ خصلتیں تو کجا ان پر تو نماز بار ہوجاتی ہے۔ نہ وقت کی پابندی ان سے ہوسکتی ہے نہ رکوع سجود کے لئے ان کو وقت ملتا ہے۔ اور نہ ایسی نماز سے ان کو کچھ فائدہ ہے۔ صحابہ کا قول ہے کہ جس شخص کی نماز اس کو بدی سے نہ روکے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایسے شخص نے گویا نماز ہی نہیں پڑھی کیوں کہ بجائے قربت الٰہی کے ایسی نماز کے سبب سے ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ سے اور دوری نصیب ہوگی۔ اور ایسے ثواب عذاب کے مسئلہ میں صحابہ نے جو کچھ کہا ہے وہ اللہ کے رسول سے سن کر کہا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:46) الذین ۔۔ الیہ راجعون ۔ اپنی جملہ تراکیب نحوی کے ساتھ صفت ہے اپنے موصوف الخشعین کی۔ ملاقوا ربھم۔ ملاقوا اسم فاعل جمع مذکر مضاف، ربھم مضاف مضاف الیہ مل کر مضاف الیہ (اضافت کی وجہ سے ملاقون کا نون جمع گرگیا ہے) اپنے رب کو پہنچنے والے، اپنے رب کو پانے والے۔ راجعون اسم فاعل جمع مذکر رجوع مصدر راجع واحد، لوٹنے والے۔ پھر آنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

(فتح القدیر) نماز کی پابندی ویسے تو ایک نہایت مشکل ذمہ داری ہے مگر جن کے دو لوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور آخرت کا یقین ہے ان پر یہ بھا ری نہیں ہے۔ (وحیدی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

104 ۔ لفظِ ظن عربی زبان میں شک اور یقین دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ الظن من الاضداد یکون شکا ویقیناً (معالم ص 47 ج 1) العرب قد تسمی الیقین ظنا والشک ظنا (ابن جریر ص 200 ج 1) یہاں یقین کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یظنون یستیقنون (ابن جریر ص 271 ج 1) والظن ھنا فی قول الجمہور بمعنی الیقین (قرطبی ص 375 ج 1) یعنی وہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں کسی کام پر آمادہ کرنے کے لیے دو ہی چیزیں محرک ہوسکتی ہیں۔ یعنی " امید " اور خوف۔ مُلٰقُوا رَبِّھِمْ میں صفت ربوبیت کی صراحت سے اشارہ فرمایا ہے کہ وہ اپنے مہربان رب کے پاس جائیں گے جس سے ان کی تمام امیدیں وابستہ ہیں۔ وَاَنَّھُمْ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ ۔ خدا کی طرف واپسی سے فوراً ذہن یوم آخرت کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ اور اس کا نقشہ سامنے آجاتا ہے جس میں اللہ کے سوا کسی کی حکومت اور عدالت نہیں ہوگی۔ اس سے ترہیب کا پہلو نکلتا ہے اور ان کے خوف آخرت کی طرف اشارہ ہے۔ قال الشیخ (رح) تعالیٰ ثبت من ھذہ القصۃ ان لا تعبدوا من ھو عدو لکم واتبعوا ھدی الانبیاء علیھم السلام الذی اخذ علیکم العھد باتباعہ حین الاخذ علی ادم (علیہ السلام) حیث قال فمن تبع ھدای فلاخوف علیھم ولا ھم یحزنون فلما عمم الخطاب اولا یقول یَا اَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکم الایۃ فالان خص الخطاب باھل الکتاب بقولہ ۧيٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اذْكُرُوْاالخ۔ ونفی فی ضمنہ عبادۃ الانبیاء علیہم السلام۔ یعنی قصہ آدم وابلیس سے ثابت ہوا کہ ابلیس، آدم (علیہ السلام) اور اولاد آدم کا سخت دشمن ہے اس لیے اس کی عبادت مت کرو اور انبیاء (علیہم السلام) کی لائی ہوئی ہدایت کی پیروی کرو کیونکہ اتباع ہدی کا تم سے عہد لیا جاچکا ہے۔ پہلے اللہ تعالیٰ نے یا ایہا الناس الخ میں خطاب عام کے ذریعے مسئلہ توحید ماننے کی تمام بنی آدم کو دعوت دی اس کے بعد یبنی اسرائیل اذکروا الخ سے خاص اہل کتاب کو اس مسئلہ کی طرف متوجہ کیا عوام ہمیشہ تین گروہوں کے تابع ہوتے ہیں۔ عالموں کے، پیروں اور گدی نشینوں کے اور سوم نوابوں کے بنی اسرائیل کا خطاب عام سب کو شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب کو خطاب کر کے فرمایا کہ میری نعمتوں کو یاد کرو اور میرے احکام کی پیروی کا تم نے جو میرے ساتھ عہد کیا تھا اسے پورا کرو۔ ان دونوں باتوں کا تقاضا یہ ہے کہ مسئلہ توحید کی مخالفت نہ کرو بلکہ اسے مان لو۔ اس کے عوض میں تم کو مزید نعمتیں دونگا اور دنیا وآخرت میں تم کو اجر عظیم عطا کروں گا۔ وَاٰمِنُوْا بِمَا اَنْزَلْتُ الخ مسئلہ توحید جو میں نے قرآن میں نازل کیا ہے اس کو مان لو یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ تمہاری کتاب تورات میں بھی موجود ہے اگر تم اس مسئلہ کا انکار کرو گے تو تمہاری دیکھا دیکھی تمہارے مرید اور تمہاری رعیت بھی اس کا انکار کرے گی۔ اور اس کا گناہ اور وبال بھی تمہارے سر ہوگا۔ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰ یَتِیْ الخ چند روزہ اور حقیر دنیوی منافع، مذہبی اور خانقاہی ریاست کے بدلے مسئلہ توحید کو نہ چھوڑووَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِل ِالخ۔ نہ بیخبر لوگوں سے مسئلہ توحید کو چھپاؤ اور جن کو اس کا تھوڑا بہت علم ہے ان پر اس کو گڈ مڈ نہ کرو۔ وَلَا تَشْتَرُوْا باٰیٰتِیْ امر مصلح ہے ہے۔ شرک کو چھوڑ کر مسئلہ توحید کو مان کر نماز قائم کرو۔ یہودیوں کے مولویوں، ان کے پیروں اور گدی نشینوں کا جو اقتدار ان کے عوام کے دلوں میں جما ہوا تھا ان کی مذہبی آمریت اور ریاست، عوام سے حاصل ہونے والے مالی اور دنیوی فوائد ان تمام چیزوں کو یکدم چھوڑنا نہایت مشکل کام تھا اور مسئلہ توحید کو ماننے سے یہ سب کچھ چھوڑنا پڑتا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نماز قائم کرنے اور زکوۃ دینے کا حکم فرمایا۔ کیونکہ نماز سے ظاہری اور باطنی طہارت حاصل ہوتی ہے اور زکوۃ دینے سے ایثار کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور حب جاہ ومال میں کمی واقع ہوتی ہے۔ وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ ۔ اور جب تم مسئلہ توحید کو مان لو گے تو ظاہر ہے کہ تمہاری نذر ونیاز کی تمام آمدنیاں بند ہوجائیں گی۔ اور بہت سے تمہارے مرید اور نیاز مند بھی تم سے منحرف ہوجائیں گے۔ اس لیے اس نقصان کی تلافی کے لیے نیز اس صدمہ کو بردارشت کرنے کے لیے تم صبر اور نماز سے کام لو۔ ۧيٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اذْكُرُوْاتک اجمال کے بعد تفصیل ہے اور اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَاور وَاِيَّاىَ فَارْھَبُوْنِ ہی کا تفصیلی بیان ہے۔ بنی اسرائیل ایک ایسی قوم تھی جسے اللہ تعالیٰ نے مسئلہ توحید ماننے کی وجہ سے اپنی گوناگوں نعمتوں سے سرفراز فرمایا تھا لیکن جب اس قوم نے توحید کو چھوڑ کر شرک کرنا شروع کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے عذاب و عتاب کا نشانہ بنایا۔ اس اجمال کی تفصیل کو آگے پانچ انواع میں بیان کیا گیا ہے۔ نوع اول۔ یہ ترغیب وترہیب پر مشتمل ہے اس میں یہود کے آباء و اجداد پر آٹھ نعمتوں اور دو نقمتوں کا ذکر ہے۔ شروع میں اجمالی طور پر ترغیب وترہیب کا اعادہ ہے اور پھر تفصیل ہے۔ یہ نوع گویا کہ اذکروا نعمتی اور ایای فارھبون کی تشریح و توضیح اور تفصیل ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2۔ اور تم لوگ محنت برداشت کرنے اور نماز پڑھنے سے قوت حاصل کرو اور مدد لو ۔ اس میں شک نہیں کہ نماز شاق اور دشوار ضرور ہے مگر ان لوگوں پر نہیں جن کے قلوب خشوع و خضوع کے خوگر ہیں اور یہ خاشعین وہ لوگ ہیں جو اس بات کو جانتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کرنیوالے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ ( تیسیر) پڑھا کرو، پہلی آیت میں پیغمبر (علیہ السلام) اور قرآن پر ایمان لانے کا حکم دیا تھا اور اس آیت میں اعمال کی پابندی کے لئے تاکید کی گئی تاکہ ایمان کامل ہوجائے اور یہ ظاہر ہے کہ اعتقاد اور اعمال کی جس قدر اصلاح ہوگی اسی قدر سیئات اور بد اعمالیوں سے نفرت بڑھے گی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وارکعوا معر الراکعین کے معنی یہ ہوں کہ عاجزی اور انکساری کو خو اختیار کرو اور عاجزی کرنیوالوں کے ساتھ عاجزی اختیار کرو تاکہ اپنے کو بڑا سمجھنے کی بیماری کم ہو اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کی طرف رغبت ہو، واللہ علم آگے ان کی ایک مذموم حرکت پر ان کو تنبیہ فرماتے ہیں کیونکہ ان کا یہ بھی شیوہ تھا کہ اگر کوئی یہودیوں میں سے اسلام قبول کرلیتا تھا اور ان سے دریافت کرتا تھا کہ ہمارا یہ فعل کیسا ہے تو اس کی تحسین کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ پیغمبر واقعی وہی نبی آخر الزماں ہے جس کی تعریف توریت میں کی گئی اور اسی طرح اپنے احباب کی خاص مجالس میں بھی اس کا اظہار کرتے تھے اور جب کوئی بھی ان سے کہتا تھا کہ آئو پھر ہم تم سب اس نبی کی اطاعت قبول کرلیں اور اس پر ایمان لے آئیں تو یہ کم بخت خود تیار نہ ہوتے تھے اور دوسروں سے کہہ دیا کرتے تھے کہ تم چاہو تو مسلمان ہو جائو تم کو اختیار ہے ہم ایسا نہیں کرسکتے اس کو فرمایا کہ دوسروں کو تو بھلی بات کا حکم کرتے ہو اور خود اپنے کو فراموش کئے ہوئے ہو حالانکہ تم توریت پڑھتے ہو تو کیا تم کو یہ مسئلہ نہیں معلوم کہ تمہاری کتاب میں بےعمل واعظوں کی کیسی وعید آئی ہے اور یہ کتنا بڑا گناہ ہے کہ دوسروں کو تو نصیحت کرو اور خود عمل نہ کر اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی عام عادت خود توفسق و فجور کی ہو رشوت اور سود کھاتے ہوں جھوٹ بولتے ہوں لیکن جب ہیکل میں تقریر کرتے ہوں تو ان سب باتوں کو حرام کہتے ہوں اس پر تنبیہہ فرمائی ہو بہرحال آیت میں بےعمل عالموں کی مذمت ہے احادییث صحیحہ میں ایسے بےعمل لوگوں کی سخت مذمت اور وعید موجود ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی بےعمل اور فاسق کسی کو نصیحت ہی نہ کرے اگر کوئی بھلی بات کسی کو معلوم ہو خواہ وہ خود بےعمل ہی کیوں نہ ہو مگر دوسرے کو بتاسکتا اور سمجھا سکتا ہے غرض ایک بےعمل عالم کو وعظ اور پند و نصیحت کا حق باقی رہتا ہے آگے کی آیت میں ان کے مرض کا علاج فرماتے ہیں کیونکہ اسلام قبول کرنے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت سے روکنے کے دو سبب تھے ایک حب جاہ اور ایک حب مال اور انہی دو بیماریوں سے ان میں حسد بھی پیدا ہوگیا تھا وہ کہتے تھے کہ اگر ہم مسلمان ہوگئے اور نبی آخر الزماں کے فرمانبردار ہوگئے تو ہمارے نذرانے اور رشوتیں سب بند ہوجائیں گی اور ہمیں مالی نقصان پہنچے گا۔ پھر اس وقت جو لوگ ہمارے مطیع اور فرمانبردار ہیں اور جن پر ہم حکمرانی کر رہے ہیں وہ بھی سب ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ اگر وہ سب مسلمان ہوگئے تب بھی ہم سے گئے اور اگر وہ یہودی رہے تب بھی وہ ہمارے نہ رہیں گے ان ہی دو بیماریوں کا آگے کی آیت میں علاج مذکور ہے۔ (تسہیل)