Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 95

سورة البقرة

وَ لَنۡ یَّتَمَنَّوۡہُ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالظّٰلِمِیۡنَ ﴿۹۵﴾

But they will never wish for it, ever, because of what their hands have put forth. And Allah is Knowing of the wrongdoers.

لیکن اپنی کرتوتوں کو دیکھتے ہوئے کبھی بھی موت نہیں مانگیں گے اللہ تعالٰی ظالموں کو خوب جانتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

But they will never long for it because of what their hands have sent before them (i.e. what they have done). And Allah is Aware of the Zalimin (polytheists and wrongdoers). meaning, "Since they know that they recognize you, and yet disbelieve in you." Had they wished death that day, no Jew would have remained alive on the face of the earth. Moreover, Ad-Dahhak said that Ibn Abbas said that, فَتَمَنَّوُاْ الْمَوْتَ (Then long for death), means, "Invoke (Allah) for death." Also, Abdur-Razzaq narrated that Ikrimah said that Ibn Abbas commented, فَتَمَنَّوُاْ الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ (Then long for death if you are truthful), "Had the Jews invoked Allah for death, they would have perished." Also, Ibn Abi Hatim recorded Sa`id bin Jubayr saying that Ibn Abbas said, "Had the Jews asked for death, one of them would have choked on his own saliva." These statements have authentic chains of narration up to Ibn Abbas. Further, Ibn Jarir said in his Tafsir, "We were told that the Prophet said, لَوْ أَنَّ الْيَهُودَ تَمَنَّوُا الْمَوْتَ لَمَاتُوا وَلَرَأَوْا مَقَاعِدَهُمْ مِنَ النَّارِ وَلَوْ خَرَجَ الَّذِينَ يُبَاهِلُونَ رَسُولَ اللهِصلى الله عليه وسلّم لَرَجَعُوا لاَ يَجِدُونَ أَهْلً وَلاَ مَالاً Had the Jews wished for death, they would have died and seen their seats in the Fire. And, those who invoked such curse against Allah's Messenger would have found no families or property had they returned to their homes." Similar to this Ayah is Allah's statement in Surah Al-Jumuah, قُلْ يأَيُّهَا الَّذِينَ هَادُواْ إِن زَعمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَأءُ لِلَّهِ مِن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُاْ الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَـدِقِينَ وَلاَ يَتَمَنَّونَهُ أَبَداً بِمَا قَدَّمَتْ أَيْديهِمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّـلِمِينَ قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِى تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلَـقِيكُمْ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَـدَةِ فَيُنَبِّيُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ (Say (O Muhammad ): "O you Jews! If you pretend that you are friends of Allah, to the exclusion of (all) other mankind, then long for death if you are truthful. "But they will never long for it (death), because of what (deeds) their hands have sent before them! And Allah knows well the Zalimin. Say (to them): "Verily, the death from which you flee will surely meet you, then you will be sent back to (Allah) the Knower of the unseen and the seen, and He will tell you what you used to do." (62:6-8) So they claimed that they are Allah's sons and loved ones and said, "Only those who are Christian or Jews shall enter Paradise." Therefore, they were called to invoke Allah to destroy the lying group, be it them or the Muslims. When the Jews declined, every one was sure of their wrong, for had they been sure of their claims, then they would have accepted the proposal. Their lies were thus exposed after they declined the offer to invoke the curse. Similarly, the Messenger of Allah called a delegation of Najran's Christians to curse after he refuted them in a debate in which they demonstrated stubbornness and defiance. Allah said, فَمَنْ حَأجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَأءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَأءَنَا وَأَبْنَأءَكُمْ وَنِسَأءَنَا وَنِسَأءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتُ اللَّهِ عَلَى الْكَـذِبِينَ Then whoever disputes with you concerning him (`Isa) after (all this) knowledge that has come to you (i.e. `Isa) being a servant of Allah, and having no share in divinity), say (O Muhammad): "Come, let us call our sons and your sons, our women and your women, ourselves and yourselves ـ then we pray and invoke (sincerely) the curse of Allah upon those who lie." (3:61) When the Christians heard this challenge, some of them said to each other, "By Allah! If you do such with this Prophet, none of you will have an eye that blinks." This is when they resorted to peace and gave the Jizyah (tax) in disgrace. The Prophet accepted the Jizyah from them and sent Abu Ubaydah bin Al-Jarrah with them as a trustee. Similar to this meaning is Allah's command to His Prophet to proclaim to the polytheists: قُلْ مَن كَانَ فِى الضَّلَـلَةِ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمَـنُ مَدّاً Say (O Muhammad ) whoever is in error, the Most Gracious (Allah) will prolong him (in it). (19:75) meaning, "Whoever among us has deviated, may Allah increase and prolong his deviation." We will mention this subject later, Allah willing. The Mubahalah (invocation to Allah to destroy the liars) was called a `wish' here, because every just person wishes that Allah destroy the unjust opponent who is debating with him, especially when the just person has a clear, apparent proof for the truth he is calling to. Also, the Mubahalah involves invoking Allah for death of the unjust group, because to disbelievers, life is the biggest prize, especially when they know the evil destination they will meet after death. Disbelievers wish They could live longer This is why Allah said next, وَلَن يَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ وَاللّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

95۔ 1 حضرت ابن عباس نے یہودیوں کو کہا اگر تم نبوت محمدیہ کے انکار اور اللہ سے محبوبیت کے دعوے میں سچے ہو تو مباہلہ کرلو یعنی اللہ کی بارگاہ میں مسلمان اور یہودی دونوں ملکر یہ عرض کریں یا اللہ دونوں میں سے جو جھوٹا ہے اسے موت سے ہمکنار کر دے یہی دعوت انہیں سورت جمعہ میں بھی دی گئی ہے۔ نجران کے عیسائیوں کو بھی دعوت مباہلہ دی گئی تھی جیسا کہ ال عمران میں ہے۔ لیکن چونکہ یہودی بھی عیسائیوں کی طرح جھوٹے تھے اس لئے عیسائیوں ہی کی طرح یہودیوں کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ ہرگز موت کی آرزو (یعنی مباہلہ) نہیں کریں گے۔ حافظ ابن کثیر نے اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے (تفسیر ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر : اور (وہ لوگ موت کی تمنا کیا خاک کرتے) آپ (تو) ان کو حیات (دنیویہ) کا حریص (اور عام) آدمیوں سے (بھی) بڑھ کر پائیں گے اور (اوروں کا تو کیا ذکر حیرت تو یہ ہے کہ بعض) مشرکین سے بھی (بڑھ کر آپ ان کو حیات کا حریص دیکھیں گے اور ان کی یہ کیفیت ہے کہ) ان میں ایک ایک (شخص) اس ہوس میں ہے کہ اس کی عمر ہزار برس کی ہوجائے اور (بھلا بالفرض اگر اتنی عمر ہو بھی گئی تو کیا) یہ امر عذاب سے تو بچا نہیں سکتا کہ (کسی کی بڑی) عمر ہوجائے اور حق تعالیٰ کے سب پیش نظر ہیں ان کے اعمال (بد جس پر ان کو عذاب ہونے والا ہے) فائدہ : اس میں حیرت استبعاد کی وجہ یہ ہے کہ مشرکین عرب تو آخرت کے منکر تھے ان کی بہار اور عیش تو جو کچھ ہے دنیا ہی ہے اس لئے وہ اگر طول عمر کی تمنا کریں تو چنداں عجیب نہیں مگر یہود تو آخرت کے قائل اور بزعم خود آخرت کی نعمتوں کا اپنے آپ ہی کو مستحق کہتے تھے پھر بھی وہ دنیا میں رہنے کی تمنا کریں یہ ہے حیرت وتعجب کی بات۔ پس باوجود اعتقاد آخرت کے طول عمر کی تمنا کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ نعمت اخروی کا اپنے آپ کو مستحق سمجھنے کا دعویٰ صرف دعویٰ ہی ہے حقیقت جو ہے اس کو یہ بھی خوب جانتے ہیں کہ وہاں پہنچ کر جہنم ہی ٹھکانا بنے گا اس لئے جب تک بچے رہیں تب تک ہی سہی،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَنْ يَّـتَمَنَّوْہُ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْہِمْ۝ ٠ ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِالظّٰلِــمِيْنَ۝ ٩٥ ابد قال تعالی: خالِدِينَ فِيها أَبَداً [ النساء/ 122] . الأبد : عبارة عن مدّة الزمان الممتد الذي لا يتجزأ كما يتجرأ الزمان، وذلک أنه يقال : زمان کذا، ولا يقال : أبد کذا . وكان حقه ألا يثنی ولا يجمع إذ لا يتصور حصول أبدٍ آخر يضم إليه فيثنّى به، لکن قيل : آباد، وذلک علی حسب تخصیصه في بعض ما يتناوله، کتخصیص اسم الجنس في بعضه، ثم يثنّى ويجمع، علی أنه ذکر بعض الناس أنّ آباداً مولّد ولیس من کلام العرب العرباء . وقیل : أبد آبد وأبيد أي : دائم «2» ، وذلک علی التأكيد . وتأبّد الشیء : بقي أبداً ، ويعبّر به عما يبقی مدة طویلة . والآبدة : البقرة الوحشية، والأوابد : الوحشیات، وتأبّد البعیر : توحّش، فصار کالأوابد، وتأبّد وجه فلان : توحّش، وأبد کذلک، وقد فسّر بغضب . اب د ( الابد) :۔ ایسے زمانہ دراز کے پھیلاؤ کو کہتے ہیں ۔ جس کے لفظ زمان کی طرح ٹکڑے نہ کئے جاسکیں ۔ یعنی جس طرح زمان کذا ( فلا زمانہ ) کہا جا سکتا ہے ابدکذا نہیں بولتے ، اس لحاظ سے اس کا تنبیہ اور جمع نہیں بننا چا ہیئے ۔ اس لئے کہ ابد تو ایک ہی مسلسل جاری رہنے والی مدت کا نام ہے جس کے متوازی اس کی جیسی کسی مدت کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔ کہ اسے ملاکر اس کا تثنیہ بنا یا جائے قرآن میں ہے { خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا } [ النساء : 57] وہ ابدالاباد ان میں رہیں گے ۔ لیکن بعض اوقات اسے ایک خاص مدت کے معنی میں لے کر آباد اس کی جمع بنا لیتے ہیں جیسا کہ اسم جنس کو بعض افراد کے لئے مختص کر کے اس کا تثنیہ اور جمع بنا لیتا جاتا ہے بعض علمائے لغت کا خیال ہے کہ اباد جمع مولّدہے ۔ خالص عرب کے کلام میں اس کا نشان نہیں ملتا اور ابدابد وابدابید ( ہمیشہ ) ہمیشہ کے لئے ) میں دوسرا لفظ محض تاکید کے لئے لایا جاتا ہے تابدالشئی کے اصل معنی تو کسی چیز کے ہمیشہ رہنے کے ہیں مگر کبھی عرصہ درازتک باقی رہنا مراد ہوتا ہے ۔ الابدۃ وحشی گائے ۔ والجمع اوابد وحشی جانور) وتأبّد البعیر) اونٹ بدک کر وحشی جانور کی طرح بھاگ گیا ۔ تأبّد وجه فلان وأبد ( اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے ) بعض کے نزدیک اس کے معنی غضب ناک ہونا بھی آتے ہیں ۔ قدم وأكثر ما يستعمل القدیم باعتبار الزمان نحو : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس/ 39] ، وقوله : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس/ 2] ، أي : سابقة فضیلة، وهو اسم مصدر، وقَدَّمْتُ كذا، قال : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة/ 13] وقوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات/ 1] ، قيل : معناه لا تَتَقَدَّمُوهُ. وتحقیقه : لا تسبقوه بالقول والحکم بل افعلوا ما يرسمه لکم كما يفعله العباد المکرمون، وهم الملائكة حيث قال : لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ [ الأنبیاء/ 27] ( ق د م ) القدم عموما القدیم کا لفظ قدم باعتبار زمانہ یعنی پرانی چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس/ 39] کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ۔ اور آیت کریمہ : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس/ 2] ان کے پروردگار کے ہاں ان کا سچا درجہ ہے ۔ میں قدم صدق سے سابقہ فضیلت مراد ہے ۔ اور یہ اسم مصدر ہے اور قدمت کذا کے معنی پہلے کسی کوئی کام کرچکنے یا بھیجنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة/ 13] کیا تم اس سے کہ پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہنے سے پہلے خیرات دیا کرو، ڈرگئے ہو اور آیت کریمہ : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات/ 1] خدا اور اس کے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لاتقدموا بمعنی لاتتقدموا کے ہے اور اس کے اصل معنی یہ ہیں ۔ کہ قول وحکم میں پیغمبر سے سبقت نہ کرو بلکہ وہی کام کرو جس کا تمہیں حکم دیتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ کے مکرم بندوں یعنی فرشتوں کا کردار بیان کرتے ہوئے فرمایا : لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ [ الأنبیاء/ 27] اس کے آگے بڑھ کر بول نہیں سکتے۔ يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٥) کیوں کہ انہوں نے یہودیت کے زمانہ میں بہت کارگزاریاں کی ہیں، اس لیے یہ موت کی تمنا کبھی بھی نہیں کریں گے، اور اللہ تعالیٰ ان یہودیوں کو زیادہ جانتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٥ (وَلَنْ یَّتَمَنَّوْہُ اَبَدًا) (بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ ط) ہر شخص کو خود معلوم ہے کہ میں نے کیا کمائی کی ہے ‘ کیا آگے بھیجی ہے۔ (وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بالظّٰلِمِیْنَ ) ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

64: یہ بھی قرآن کریم کی طرف سے ایک چیلنج تھا جسے قبول کرلینا ان کے لئے کچھ بھی مشکل نہ تھا وہ بآسانی کم از کم زبان سے علی الاعلان موت کی تمنا کرکے دکھاسکتے تھے لیکن چونکہ وہ جانتے تھے تھے کہ یہ خدائی چیلنج ہے اس لئے ایسی تمنا کا اظہار انہیں فوراً قبر میں پہنچادے گا اس لئے کسی نے ایسی جرات نہیں کی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

ولن یتمنوہ۔ مضارع نفی تاکید بلن۔ یتمنوا اصل میں یتمنون تھا۔ نون اعرابی لن کی وجہ سے ساقط ہوگیا۔ ہ ضمیر مفعول واحد ذکر غائب ۔ جس کا مرجع الموت ہے۔ ابدا۔ ہمیشہ ، زمانہ مستقبل غیر محدود۔ کسی بھی۔ بما۔ میں ب سببیہ ہے اور فاء موصولہ۔ قدمت۔ ماضی واحد مؤنث غائب ۔ تقدیم (تفعیل) مصدر ۔ پہلے بھیج چکے۔ پہلے کرچکے (جو ان کے ہاتھوں نے کرکے بھیجے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اگر یہو ددی ایک دن بھی یہ آرزو کرتے تو روئے زمین پر کوئی یہو دی باقی نہ رہتا، یہ ویسی ہی بات ہے جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وفد نجران پر حجت قائم کرنے کے بعد جب انہیں دعوت مبادلہ دی تو انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اگر تم نے اس نبی سے مباہلہ کیا تو تم میں سے کوئی شخص بھی زندہ نہ بچ سکے گا۔ چناچہ انہوں نے جزیہ پر صلح کرلی (ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

185 یہودیوں کو اپنی سابقہ بد اعمالیوں کی بنا پر اس بات کا یقین ہے کہ وہ اپنے اس دعویٰ میں جھوٹ ہیں اس لیے وہ مباہلہ پر کبھی تیار نہ ہوں گے اور نہ ہی موت کی آرزو کریں گے۔ انھم فی دعواھم کاذبون (معالم ص 71 ج 1، قرطبی ص 33 ج 2) وَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِالظّٰلِمِيْنَ ۔ اللہ تعالیٰ ان ظالموں کو اچھی طرح جانتا ہے اور ان کی تدبیروں اور ہتھکنڈوں سے خوب واقف ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi