Surat ul Anbiya

The Prophets

Surah: 21

Verses: 112

Ruku: 7

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

صحیح بخاری شریف میں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سورۃ بنی اسرائیل ، سورۃ کہف ، سورۃ مریم ، سورۃ طہ اور سورۃ انبیا علیہ السلام عتاق اول سے ہیں اور یہی تلادی ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنبیاء نام : اس سورت کا نام کسی خاص آیت سے ماخوذ نہیں ہے ۔ چونکہ اس میں مسلسل بہت سے انبیاء کا ذکر آیا ہے ، اس لیے اس کا نام الانبیاء رکھ دیا گیا ۔ یہ بھی موضوع کے لحاظ سے سورۃ کا عنوان نہیں ہے بلکہ محض پہچاننے کے لیے ایک علامت ہے ۔ زمانہ نزول : مضمون اور انداز بیان ، دونوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا زمانہ نزول مکے کا دور متوسط یعنی ہماری تقسیم کے لحاظ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مکی زندگی کا تیسرا دور ہے ۔ اس کے پس منظر میں حالات کی وہ کیفیت نہیں پائی جاتی جو آخری دور کی سورتوں میں نمایاں طور پر محسوس ہوتی ہے ۔ موضوع و مضمون : اس سورہ میں ہو کشمکش زیر بحث ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور سرداران قریش کے درمیان برپا تھی ۔ وہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوائے رسالت اور آپ کی دعوت توحید و عقیدہ آخرت پر جو شکوک اور اعتراضات پیش کرتے تھے ان کا جواب دیا گیا ہے ۔ انکی طرف سے آپ کی مخالفت میں جو چالیں چلی جا رہی تھیں ان پر زجر و توبیخ کی گئی ہے اور ان حرکتوں کے برے نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے ۔ وہ جس غفلت اور بے پروائی سے آپ کی دعوت کا استقبال کر رہے تھے اس پر متنبہ کیا گیا ہے ۔ اور آخر میں ان کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ جس شخص کو تم اپنے لیے زحمت اور مصیبت سمجھ رہے ہو وہ دراصل تمہارے لیے رحمت بن کر آیا ہے ۔ دوران تقریر میں خاص طور پر جو امور زیر بحث آئے ہیں وہ یہ ہیں : 1 ) کفار مکہ کی یہ غلط فہمی کہ بشر کبھی رسول نہیں ہو سکتا اور اس بنا پر ان کا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو رسول ماننے سے انکار کرنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا بڑی تفصیل کے ساتھ رد کیا گیا ہے ۔ 2 ) ان کا آپ پر اور قرآن پر مختلف اور متضاد قسم کے اعتراضات کرنا اور کسی ایک بات پر نہ جمنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس پر مختصر مگر نہایت پر زور اور معنی خیز طریقے سے گرفت کی گئی ہے ۔ 3 ) ان کا یہ تصور کہ زندگی بس ایک کھیل ہے جسے چند روز کھیل کر یونہی ختم ہو جانا ہے ، اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ہے ، کسی حساب کتاب اور جزا و سزا سے سابقہ نہیں پیش آنا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ چیز چونکہ اس عجلت و بے اعتنائی کی اصل جڑ تھی جس کے ساتھ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا استقبال کر رہے تھے ، اس لیے بڑے ہی مؤثر انداز میں اس کا توڑ کیا گیا ہے ۔ 4 ) شرک پر ان کا اصرار اور توحید کے خلاف ان کا جاہلانہ تعصب جو ان کے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان اصل بنائے نزاع تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس اصلاح کے لیے شرک کے خلاف اور توحید کے حق میں مختصر مگر بہت وزنی اور دلنشین دلائل دیے گئے ہیں ۔ 5 ) ان کی یہ غلط فہمی کہ نبی کو بار بار جھٹلانے کے باوجود جب ان پر کوئی عذاب نہیں آتا تو ضرور نبی جھوٹا ہے اور عذاب الٰہی کی وہ وعیدیں جو وہ خدا کی طرف سے ہمیں سناتا ہے محض خالی خولی دھمکیاں ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کو استدلال اور نصیحت ، دونوں طریقوں سے رفع کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس کے بعد انبیاء علیہم السلام کی سیرتوں کے اہم واقعات سے چند نظیریں پیش کی گئی ہیں جن سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ تمام وہ پیغمبر جو انسانی تاریخ کے دوران میں خدا کی طرف سے آئے تھے ، انسان تھے اور نبوت کے امتیازی وصف کو چھوڑ کر دوسری صفات میں وہ ویسے ہی انسان ہوتے تھے جیسے دنیا کے عام انسان ہوا کرتے ہیں ۔ الوہیت اور خدائی کا ان میں شائبہ تک نہ تھا بلکہ اپنی ہر ضرورت کے لیے وہ خود خدا کے آگے ہاتھ پھیلاتے تھے ۔ اس کے ساتھ انہی تاریخی نظیروں سے دو باتیں اور بھی واضح کی گئی ہیں ۔ ایک یہ کہ انبیاء پر طرح طرح کے مصائب آئے ہیں ، اور ان کے مخالفین نے بھی ان کو برباد کرنے کی کوششیں کی ہیں ، مگر آخر کار اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیر معمولی طریقوں پر ان کی نصرت فرمائی گئی ہے ۔ دوسرے یہ کہ تمام انبیاء کا دین ایک تھا اور وہ وہی دین تھا جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیش کر رہے ہیں ۔ نوع انسانی کا اصل دین یہی ہے ، اور باقی جتنے مذاہب دنیا میں بنے ہیں وہ محض گمراہ انسانوں کے ڈالے ہوئے تفرقے ہیں ۔ آخر میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کی نجات کا انحصار اسی دین کی پیروی اختیار کرنے پر ہے ۔ جو لوگ اسے قبول کریں گے وہی خدا کی آخری عدالت سے کامیاب نکلیں گے ور زمین کے وارث ہوں گے ۔ اور جو لوگ اسے رد کر دیں گے وہ آخرت میں بد ترین انجام سے دوچار ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ کی یہ بڑی مہربانی ہے کہ وہ فیصلے کے وقت سے پہلے اپنے نبی کے ذریعہ سے لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ کر رہا ہے ۔ نادان ہیں وہ لوگ جو نبی کی آمد کو اپنے لیے رحمت کے بجائے زحمت سمجھ رہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

سورۃ الانبیاء تعارف اس سورت کا بنیادی مقصد اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کا اثبات ہے، اور ان عقائد کے خلاف کفار مکہ جو اعتراضات اٹھایا کرتے تھے، سورت میں ان کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ان لوگوں کا ایک اعتراض یہ تھا کہ ایک ہم جیسے انسان کو پیغمبر بنا کر کیوں بھیجا گیا ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ انسانوں کے پاس انسان ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجنا مناسب تھا، اور اس ضمن میں بہت سے پچھلے پیغمبروں کا حوالہ دیا گیا ہے کہ وہ سب انسان ہی تھے، اور انہوں نے اپنی اپنی قوموں کو انہی عقائد کی تعلیم دی تھی جو حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عقائد ہیں۔ انبیائے کرام کے اسی حوالے کی بنا پر اس سورت کا نام سورۃ الانبیاء رکھا گیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سورة نمبر 21 کل رکوع 7 آیات 112 الفاظ وکلمات 1187 حروف 5154 مکہ مکرمہ کے دور متوسط میں سورة الانبیاء نازل کی گئی۔ چونکہ اس سورة میں سترہ انبیاء کرام کا ذکر ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سورت کا نام ” الانبیاء “ رکھا ہے۔ بد عملی اور کفر و شرک میں مبتلا لوگوں کو ایک دفعہ پھر جھنجھوڑا گیا ہے کہ قیامت قریب آگئی ہے۔ حساب کتاب کی گھڑی سر پر کھڑی ہے لیکن یہ لوگ اپنی غفلت اور جہالت کی روش کو بدلنے کے لئے تیار نہیں ہیں حالانکہ وہ وقت بہت دور نہیں ہے جب ان کے سامنے ان کی زندگی بھر کے اعمال پیش کئے جائیں گے۔ جس کا وہ انکار نہ کرسکیں گے۔ غفلت کا اندازہ اختیار کر کے جس طرح وہ لاپرواہی برت رہے ہیں اور ٹہلانے کی کوشش کر رہے ہیں ان کو بتایا گیا ہے کہ وہ اللہ کے سامنے جواب دینے سے بچ نہ سکیں گے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی دونوں انگلیوں کو ملا کر فرمایا کہ اس طرح میرا آنا اور قیامت کا آنا ملا ہوا ہے یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اس بات کی علامت ہے کہ انسانی تاریخ اب اپنے آخری دور میں داخل ہوچکی ہے۔ اس سورة میں کفار و مشرکین کی اس غلط فہمی کو بڑی شدت سے دور کیا گیا ہے کہ ایک بشر نبی کیسے ہو سکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جتنے بھی انبیاء کرام تشریف لائے ہیں وہ سب کے سب بشر ہی تھے کوئی اور مخلوق نہ تھے۔ انبیاء کرام کی بشریت سے انکار کو جہالت اور نادانی قرار دیا گیا ہے۔ بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) کو نبی بنا کر بھیجا اور سب سے آخر میں حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا آخری نبی اور آخری رسول بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔ ارشاد ہے کہ وہ ہزاروں انبیاء جو دنیا میں تشریف لائے ہیں ان سب کا دین ایک ہی تھا۔ اسی دین کی تکمیل حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کی گئی ہے۔ اب آپ کے بعد نہ کسی نئے نبی اور رسول کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی کتاب ہدایت کی۔ جو لوگ اس سچائی کو تسلیم کریں گے دنیا اور آخرت کی کامیابی ان ہی لوگوں کا نصیب ہوگی۔ جو منہ سورۃ الانبیاء میں سترہ انبیاء کرام کا ذکر مبارک ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا نام سورة الانبیاء رکھا۔ مکی سورتوں کی طرح اس سورة میں بھی توحید و رسالت، شان نبوت، اللہ کا ذکر اور فکر آخرت کی تعلیم دی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دین کو لے کر تشریف لائے ہیں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے انبیاء کرام لے کر تشریف لائے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اس تعلیم کو پھیلا رہے ہیں جو انبیاء کرام کا مقصد اور مشن تھا۔ فرمایا گیا کہ اگر کفار مکہ ایمان نہ لائے تو ان کا حشر بھی ان لوگوں سے مختلف نہ ہوگا۔ جو نافرمانیاں کر کے اپنی آخرت کو برباد کر بیٹھے تھے۔ سنبھلنے اور سمجھنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ پھیریں گے ان کو دنیا اور آخرت میں سوائے حسرتوں کے اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔ ۔ فرمایا کہ انسان کی زندگی کا جو بھی لمحہ گذر رہا ہے وہ اس کو موت سے اتنا ہی قریب کر رہا ہے۔ ہر انسان کو اور ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہی ہے۔ یہ وہ دروازہ ہے جس سے ہر انسان کو یہاں تک کہ تمام انبیاء کرام کو بھی گزرنا ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ سب کو موت آئے گی اور اسے موت نہ آئے گی۔ فرمایا کہ ہر انسان کو اپنی آخرت کی فکر کرنا چاہئے۔ اگر اس سلسلہ میں غفلت اور لاپرواہی کا طریقہ اختیار کیا گیا تو یہ زندگی کے لمحے اس کے لئے حسرتوں اور ناکامیوں کا سبب بن جائیں گے۔ فرمایا کہ جتنے بھی انبیاء کرام تشریف لائے سب سے پہلے ان کی تعلیمات کو جھٹلایا گیا، ان کو ہر طرح کی اذیتیں اور تکلیفیں پہنچائی گئیں۔ ان کا مذاق اڑایا گیا اگر اللہ چاہتا تو ان پر اپنا عذاب بھیج سکتا تھا مگر اس کے ہر فیصلے پر اس کی صفت رحم اور صفت حلم و برداشت غالب ہے۔ وہ اپنے فیصلوں میں جلدی نہیں کرتا لیکن جب وہ کسی قوم کی مسلسل نافرمانیوں کی وجہ سے تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے تو پھر کسی کا اقتدار، فوج، دولت، بلند عمارتیں اور شان و شوکت اس کا راستہ نہیں روک سکتے۔ اس سورة میں اللہ تعالیٰ نے کفار و مشرکین کے ان تمام اعتراضات کا جواب بھی دیا ہے جو وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کیا کرتے تھے۔ فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساری انسانیت کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں جو لوگ ان کی اطاعت و فرمانبرداری کریں گے وہی کامیاب و بامراد ہوں گے لیکن جنہوں نے ان کے راستے کو چھوڑ دیا وہ کبھی کامیاب نہ ہوں گے۔ اللہ نے اپنا آخری نبی بھیج دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی سختی سے تردید فرمائی ہے کہ اللہ نے کسی کو اپنا بیٹا بنا اپنی ہے۔ فرمایا کہ اللہ ان رشتے اور تعلقات سے بلندو برتر ہے۔ اس کی طاقت وق درت ایسی ہے کہ جب کسی چیز کو وجود عطا کرنا چاہتا ہے تو وہ اسباب اور ذرائع کا محتاج نہیں ہوتا۔ وہ کن (ہوجا) کہتا ہے اور وہ چیز موجود ہوجاتی ہے اسے اپنا بیٹا بیٹی یا بیوی بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے یہ محتاجی انسانوں کو ہوتی ہے اللہ اس طرح کی ہر احتیاج ، محتاجی اور ضرورت سے بلندو برتر اور بےعیب ذات ہے۔ وہ کسی کا محتاج نہیں لیکن کائنات میں ہر چیز اس کی محتاج ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

سورة الانبیاء کا تعارف ربط سورة : سورة طٰہٰ ان الفاظ پر ختم ہوئی ہے کہ اگر یہ لوگ حقائق ماننے کے لیے تیار نہیں تو اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ انہیں فرمادیں کہ میں بھی انتظار کرتا ہوں اور تم بھی انتظار کرو کہ کون سیدھے راستے پر ہے اور کس کا انجام اچھا ہوتا اور کون ” اللہ “ کی گرفت میں آتا ہے۔ سورة الانبیاء کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ یہ لوگ برے انجام کے منتظر ہیں تو انہیں فرما دیں کہ ممکن ہے کہ دنیا میں تمہیں پوری زندگی ڈھیل مل جائے لیکن قیامت تو قریب آن پہنچی ہے مگر ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے حساب و کتاب کے بارے میں غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ سورۃ الانبیاء مکی سورة ہے اس کے 7 رکوع اور 112 آیات ہیں۔ اس سورة مبارکہ میں بڑے بڑے انبیاء کا ذکر ہوا ہے اس لیے اس کا نام سورة الانبیاء رکھا گیا ہے ان کے پاس جب بھی کوئی نئی نصیحت آتی ہے تو یہ اسے شغل کے طور پر لیتے اور کہتے ہیں یہ تو پراگندہ خیالات ہیں جنہیں جوڑ جاڑ کر ایک عنوان اور کہانی کی شکل دی جاتی ہے۔ بلکہ یہ شاعرانہ تخیّلات ہیں، جسے ہمارے جیسا آدمی بنا کر پیش کرتا ہے۔ بھلا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انسان، رب ذوالجلال جیسی ہستی سے ہم کلام ہوا۔ ان کی غلط فہمی اور کج بحثی کا جواب یہ کہہ کردیا گیا ہے جن لوگوں سے تم مختلف قسم کے اعتراض سیکھتے ہو انہی سے پوچھ لو کہ پہلے انبیاء کرام انسان تھے یا کوئی اور مخلوق تھے ؟ وہ تو کھانے پینے والے انسان تھے ان کے مخالفوں نے بشریت کی بنا پر انبیاء کی تکذیب کی جس کے نتیجہ میں انہیں گلی کے تنکوں سے بھی حقیر کردیا گیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو کھیل تماشا کے طور پر پیدا کیا ہے۔ کیا انہیں ہوش نہیں کہ اگر ہم دنیا کو کھیل تماشا اور اپنی دل لگی کے لیے پیدا کرتے تو یہ تماشا ہمیں اپنے پاس کرنا چاہیے تھا یا زمین پر ؟ انہیں پیدا کرنے اور انبیاء بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں پر حق واضح کر دیاجائے۔ سب سے بڑا حق یہ ہے کہ ” اللہ “ اکیلا ہی معبود برحق ہے اس کے سوا کوئی خالق ومالک، رازق اور عبادت کے لائق نہیں اگر اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہوتا تو ان کا آپس میں دنگا و فساد ہوجاتا۔ اس کے بعد زمین و آسمانوں کی تخلیق اور لیل ونہار کی گردش کے حوالے سے ” اللہ “ نے اپنے وحدہ لا شریک ہونے کے ثبوت دئیے ہیں۔ اے نبی آپ کے رب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا رسول منتخب کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو بتلائیں اور سمجھائیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق، حاجت روا اور مشکل کشا نہیں۔ اس کا فرمان ہے کہ صرف میری ہی عبادت کی جائے۔ اسی ذات نے زمین و آسمانوں کو ایک دوسرے سے الگ کیا جو پہلے باہم ملے ہوئے تھے اور اسی نے ہر جاندار کی زندگی کا دارومدار پانی پر قائم فرمایا۔ اسی نے ہر نفس کے لیے موت کا ایک وقت مقرر کیا ہے اس نے کسی بشر کو ہمیشہ رہنے کے لیے پیدا نہیں کیا۔ کیا آپ کو موت آئے گی اور آپ کے مخالف ہمیشہ رہیں گے ؟ ہرگز نہیں بلکہ ہر شخص نے اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے اور وہی اس کا حساب لے گا۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے جس کے رد عمل میں انہیں آگ میں جھونکا گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے آگ کو گلزار بنا دیا۔ نہ صرف ان کے لیے آگ جائے آرام اور پناہ بن گئی بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ظالموں سے بچا کر بابرکت زمین یعنی فلسطین میں قیام اور مقام عنایت فرمایا اور ان کی دعوت میں برکت دی۔ انہیں اسحاق اور یعقوب (علیہ السلام) جیسی عظیم المرتبت اولاد سے سرفراز فرمایا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) کی مشکلات کا ذکر کیا جو بالآخر اپنے رب کی مدد سے منکرین حق پر غالب آئے۔ ان کے بعد حضرت داؤد حضرت سلیمان کے اقتدار اور اختیار کا ذکر کیا گیا جس میں یہ اشارہ ہے کہ اقتدار اور اختیار حاصل ہونے کے باوجود کوئی آدمی کسی کے دل میں ہدایت داخل نہیں کرسکتا۔ ورنہ ان کی وفات کے بعد جنّات بغاوت نہ کرتے۔ پھر حضرت ایوب (علیہ السلام) کی جسمانی تکلیف کا ذکر کیا ہے تاکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلّی ہو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو صحت اور جسمانی توانائی سے نوازا ہے۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) نہ صرف جسمانی تکلیف میں مبتلا تھے بلکہ مال، اولاد ختم ہونے کی وجہ سے انتہا درجے کی روحانی پریشانی سے بھی مدت تک آزمائے گئے مگر انہوں نے صبر کیا جس کے صلہ میں انہیں دنیا میں ہی نعمتوں سے نوازا گیا۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کے بعد حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ، حضرت ادریس (علیہ السلام) ، حضرت ذالکفل (علیہ السلام) ، حضرت یونس (علیہ السلام) ، حضرت زکریا (علیہ السلام) کا ذکر گرامی ہوا۔ ان سب کو ایک امت قرار دیا گیا ہے جو صرف ایک ہی رب کی عبادت کرنے والے اور اسی کی طرف بلانے والے تھے۔ اس سورة کے آخر میں قرب قیامت اور اس کے برپا ہونے کے وقت زمینوں و آسمانوں کی جو حالت ہوگی اس کا ہلکا سا ایک منظر پیش کیا ہے۔ دوسرے انبیاء کے ذکر کے بعد حضرت داؤد (علیہ السلام) کے حوالے سے فرمایا ہے کہ ہم نے زبور میں لکھ دیا تھا کہ زمین میں اقتدار صالح لوگوں کو دیا جائے گا۔ سورة کے آخر میں نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رحمۃ العالمین کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ اور آپ کو یہ تعلیم دی گئی کہ لوگوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ ہی آپ کی مدد کرنے والا ہے۔ لہٰذا اسی پر توکل رکھو۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورة الانبیاء -21 سورة الانبیاء ایک نظر میں یہ مکی سورة ہے اور اس کا موضوع سخن بھی مکی سورتوں کا موضوع ہے یعنی اسلامی نظریہ حیات یہ اس کے بڑے بڑے موضوعات کو لیتی ہے یعنی عقیدہ توحید ، عقیدہ رسالت اور عقیدہ بعث بعد الموت۔ لیکن اس سورة نے ان موضوعات کے بیان کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ اس کائنات میں جاری قوانین قدرت کو بیان کر کے اسلامی نظریہ حیات کو ان کے ساتھ جوڑا جائے۔ یہ اس لئے کہ اسلامی نظریہ حیات بھی اس کائنات ہی کا ایک حصہ ہے اور یہ نظریہ قوانین قدرت اور نوامیس فطرت کے مطابق اپنا کام کرتا ہے۔ اسلامی نظریہ حیات بھی دراصل اس ” حق “ پر قائم ہے جس پر یہ پوری کائنات قائم ہے اور ارض و سما اس پر قائم ہیں۔ یہی وجہ ہی کہ یہ کائنات عبث نہیں اور نہ باطل ہے اور نہ اس کے اندر پیدا شدہ مخلوق عبث اور باطل ہے۔ وما خلقنا السمآء والارض وما بینھما لعبین (١٢ : ٦١) ” ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ بھی ان میں ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا۔ “ یہی وجہ ہے کہ یہ سورة انسان کو اور اس کے فکر و نظر کو اس پوری کائنات کی سیر کرتی ہے۔ زمین و آسمان ، دشت و جبل ، روز و شب اور شمس و قمر کا مشاہدہ کرتای ہے۔ ان کو متوجہ کرتی ہے کہ جو قوانین قدرت اور نوامیس فطرت اس پوری کائنات کو چلا رہے ہیں ، وہ بتاتے ہیں کہ ان کے اندر ایک وحدت ہے اور یہ وحد دلالت کرتی ہے ، وحدت خالق اور وحدت مدبر پر ایک ایسے مقتدر اعلیٰ پر جس کے ساتھ اس تدبیر میں کوئی شریک نہیں ہے ، لہٰذا جس طرح خلق میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے اسی طرح امر میں بھی اس کے ساتھ کوئی شریک نہ ہونا چاہئے۔ لو کان فیھما الھۃ الا اللہ لفسدتا (١٢ : ٢٢) ” اگر آسمان و زمین میں ایک اللہ کے سوا کوئی دوسرا خدا بھی ہوا تو دونوں کا نظام بگڑ جاتا۔ “ پھر یہ سورة انسانی قوت مدرکہ کو اس طرف متوجہ کرتی ہے ہے کہ اس کائنات کے اندر ” حیات “ جن قوانین قدرت اور نوامیس فطرت کے مطابق چل رہی ہے اور اس حیات کے جو مصادر ہیں وہ اس ارشاد خداوندی کے مطابق ہیں۔ وجعلنا من المآء کل شی حی (١٢ : ٠٣) ” اور پانی سے ہم نے ہر زندہ چیز پیدا کی۔ “ اور تمام زندہ چیزیں اسی قانون فطرت کے مطابق ایک متعین انجام کی طرف جا رہی ہیں۔ کل نفس ذائقۃ الموت (١٢ : ٥٣) ” ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ “ اور ان کے لوٹنے کی جگہ بھی ایک ہے۔ الینا ترجعون (٢١ : ٥٣) ” آخر کار تمہیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے۔ “ یہ کہ اسلامی نظریہ حیات ان قوانین قدرت کے ساتھ گہرا ربط رکھتا ہے ، کیونکہ طویل ترین انسانی تاریخ اور متعدد انبیاء و رسول اور مختلف اقوام و زمان کے باوجود یہ عقیدہ ایک ہی رہا ہے۔ وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فاعبدون (١٢ : ٥٢) ” ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے اس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو “ اور اللہ کی مشیت یہ بھی رہی ہے کہ تمام رسول بشر رہے ہیں۔ وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ (١٢ : ٥٢) ” ہم نے آپ سے قبل جن کو بھیجا وہ بھی بشر ہی تھے جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے۔ “ اسلامی نظریہ حیات اگرچہ ان قوانین فطرت سے منسلک ہے جن کے مطابق یہ عظیم کائنات چلتی ہے ، لیکن اس نظریہ کا عملی ظہور اس کرہ ارض پر انسانوں کی عملی زندگی میں ہی ہوگا۔ کیونکہ اس عقیدے کے بارے میں سنت الہیہ یہ ہے کہ یہ حق ہے اور جس طرح اس کائنات پر یہ حق غالب ہے اس کرہ ارض پر بھی اسی کو غالب ہونا ہے کیونکہ یہ سوچ ہے۔ اس پر پوری کائنات قائم ہے ، لہٰذا حق کا غلبہ سنت الہیہ میں بھی ہغے۔ بل نقذف بالحق ……زاھق (١٢ : ٨١) ” مگر ہم باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے مٹ جاتا ہے۔ “ یعنی ظالم جھٹلان والے ہلاک ہوں گے اور رسل اور مومنین فلاح پائیں گے۔ “ ثم صدقنھم الوعدفانجینھم ومن نشآء و اھلکنا المسرفین (١٢ : ٩) ” پھر دیکھ کہ آخر کار ہم نے ان کے ساتھ اپنے وعدے پورے کئے اور انہیں اور جس جس کو ہم نے چاہا بچا لیا اور حد سے گزر جاننے والوں کو ہلاک کردیا۔ “ مطلب یہ ہوا کہ میرے صالح بندے ہی زمین کے اقتدار اعلیٰ کے وارث ہوں گے۔ ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصلحون (١٢ : ٥٠١) ” اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔ “ یہی وجہ ہے کہ یہ سورة رسولوں کے گروہ پر ایک سرسری نظر ڈالتی ہے ، یوں کہ یہ ایک ہی گروہ ہے اور ان کی رسالت بھی ایک ہے۔ بعض کے بارے میں بحث ذرا طویل ہے مثلاً ابراہیم (علیہ السلام) اور دائود (علیہ السلام) اور باقی رسولوں نوح ، موسیٰ ، ہارون ، لوط ، اسماعیل ، ادریس ، ذی الکفل ، ذولنون ، زکریا ، یحییٰ اور عیسیٰ علہ السلام کے بارے میں نہایت اختصار سے تبصرہ ہوا۔ ان تمام قصص میں رسولوں اور داعیوں کی زندگی کے واقعات کی شکل میں ، دعوت کے اصول عامہ کی شکل میں اور اس کائنات کے قوانین قدرت کی شکل میں وہ تمام معانی اور حقائق واضح طور پر نظر آت یہیں جو اس سورة کا موضوع ہیں۔ اس سورة میں بھی قیامت کے بعض مناظر پیش کئے گئے ہیں اور یہ معانی اور مضامین اور اصول ، واقعات قیامت کی روشنی میں واضح ہیں۔ ان تمام واقعات کو جس طرح بیان کیا گیا ہے اور سورة میں فکر و نظر کی تاروں کو جس طرح چھیڑا گیا ہے ، اس کے پیش نظر صرف ایک ہی ہدف ہے کہ لوگ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین اور نظریہ حیات کو اپنی قوت مدرکہ اور اپنے فہم کے مطابق اپنی گرفت میں لے لیں اور ان معانی ، مضامین اور حقائق پر سے ایک غافل اور لاپرواہ شخص کی طرح نہ گزر جائیں جس طرح آغاز سورة میں اشارہ کیا گیا۔ اقترب للناس حسابھم و ھم فی غفلۃ معرضون (١٢ : ١) مایاتیھم من ذکر من ربھم محدث الا استمعوہ وھم یلعبون (١٢ : ٢) لاھیۃ قلوبھم (١٢٣) ” قریب آگیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس جو تازہ نصیحت بھی ان کے رب کی طرف سے آتی ہے اس کو بت کل سنتے ہیں اور کھیل میں پڑے رہتے ہیں۔ دل ان کے دوسری ہی فکر میں منہمک ہیں۔ “ رسالت تمام رسولوں کی رسالت ، ایک عظیم سچائی ہے اور موجود ہے ، جس طر یہ کائنات ایک عظیم سچائی ہے اور موجود ہے۔ لہٰذا اس عظیم سچائی کو کھیل کے طور پر نہیں لینا چاہئے ، یہاں پیغمبر سے معجزے طلبک رنے کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ یہ پوری کانت اور اس کے قوانین قدرت اور نوامیس فطرت پکار رہے ہیں کہ اس کا ایک واحد قادر مطلق خالق ہے اور تمام انبیاء کا پیغام بھی ایک واحد حق پیغام ہے۔ سورة انبیاء میں الفاظ کی شوکت اور ان کا صوتی ترنم بھی قابل تو جہ ہے۔ انداز بیانیہ ہے جو موضوع سخن کے ساتھ مناسب ہے اور سورة کی فضا اور موضوعات اور مضامین کے ساتھ لگا کھاتا ہے۔ اس سورة کے انداز بیان اور موضوع سخن کو سورة مریم اور طہ کے ساتھ مقابلہ کر کے فرق کو اچھی طرح سرجھایا جاسکتا ہے۔ ان دونوں سورتوں میں موضوع سخن اور فضا ، نرم و لطیف ، رحمت و محبت کی تھی تو الفاظ بھی نرم و ناک اور دھیمی ترنم والے تھے۔ لیکن یہاں قدرے ٹھوس انداز ہے جو سورة کے موضوعات سے جوڑ کھاتا ہے۔ اگر دونوں جگہ قصہ ابراہیم (علیہ السلام) کا باہم موازنہ کیا جائے تو ہماری بات اچھی طرح سمجھ میں آجائے گی۔ سورة مریم میں اس قصے کی جو کڑی لی گئی ہے اور یہاں جو کڑی لی گئی ہے ان میں فرق ہے۔ وہاں ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنے والد کے ساتھ احترام و محبت سے بھرپور گفتگو ہے ، نرم و نازک الفاظ میں لیکن یہاں اس قصے میں بت شکنی اور کلہاڑا لیا گیا ہے ، پھر ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینکنے کا خوفناک قصہ ، لہٰذا اس کے لئے ٹھوس دو ٹوک اور قدرے سخت الفاظ کی ضرورت تھی تاکہ انداز کلام موضوع سخن اور حالات اور فضا کے مطابق ہوجائے۔ اس سورة کو کئی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے : ١۔ پہلا حصہ آغاز ہی سے جھنجھوڑنے والا ہے۔ اس میں فکر و نظر کی تاروں پر سخت ضربات لگائی گئی ہیں اور لوگوں کو قریب آنے والے خطرات سے آگاہ کیا گیا ہے۔ لوگو ! بیدار ہو جائو غفلت چہ معنی وارد ؟ اقترب للناس حسابھم وھم فی غفلۃ معرضون…(١٢ : ١) ” قریب آگیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت اور وہ غفلت میں منہ موڑے ہیں۔ ‘ پھر تاریخ انسانی کے غافل ولگوں کی ہلاکتوں کی طرف اشارہ کر کے ، دوبارہ لوگوں کو متوجہ کیا گیا ہے کہ ظلم و ستم اور عیش و طرب کے بھیانک انجام کی طرف بھی توجہ کرو۔ وکم قصمنا ……خمدین (١٢ : ٥١) ، (١٢ : ١١ تا ٥١) ” کتنی ہی ظالم بستیاں ہیں جن کو ہم نے پیس کر رکھ دیا اور ان کے بعد دوسری کسی قوم کو اٹھایا۔ جب ان کو ہمارا عذاب محسوس ہوا تو لگے وہاں سے بھاگنے ، ” بھاگو نہیں ، جائو اپنے انہی گھروں اور عیش کے سامانوں میں جن کے اندر تم چین کر رہے تھے ، شاید کہ تم سے پوچھا جائے گا۔ “ کہنے لگے ہائے ہماری کم بختی ، بیشک ہم خطا وار تھے۔ “ وہ یہی پکارتے رہے یہاں تک کہ ہم نے ان کو کھلیان کردیا۔ زندگی کا ایک شرارہ بھی ان میں نہ رہا۔ “ اس کے بعد دعوت اسلامی کی ٹھوس سچائی ، اور نظام کائنات میں موجود ٹھوس سچائی کو باہم جوڑا گیا ہے۔ عالم نظریات میں عقیدہ توحید اور قوانین قدرت کی توحید ، خالق مدبر کی وحدت تدبیر اور تمام رسولوں کی وحدت رسالت کی توحید کے درمیان ربط پیدا کر کے بتایا گیا ہے کہ زندگی کا سرچشمہ بھی اللہ ہے اور اس کی انتہا بھی اللہ کی طرف ہے اور اسی کی طرف رجوع ہے۔ ٢۔ دوسرے حصے میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو اس عظیم رسول اور عظیم رسالت کے پیغام کے ساتھ مذاق کرتے ہیں اور اسے ہلکا لیتے ہیں ، حالانکہ یہ تو ٹھوس اور بھاری حق ہے۔ ان کا ماحول اور دنیا کے حالات تقاضا کرتے ہیں کہا نسان بیدار ہو۔ یہ لوگ غافل ہیں اور عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ وہ ان کی دہلیز پر ہے۔ اس موقعہ پر قیامت کا ایک نہایت ہی موثر منظر پیش کردیا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ رسولوں کے ساتھ مذاق کرنے والے کا انجام تاریخ میں کیا ہوا ہے ۔ اللہ کے سوا پھر ان کو بچانے والا تو کوئی ہوتا نہیں۔ کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ان کے اردگرد ان کے پائوں تلے سے زمین نکلی جا رہی ہے لیکن یہ اپنی دولت کے نشے میں مست ہیں۔ رسول اللہ کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ ان لوگوں کے مذاق کو نظر انداز کرتے ہوئے آپ اپنا کام کریں اور کہہ دیں۔ انما انذرکم بالوحی (١٢ : ٣٥) ” میں تو تمہیں وحی سے ڈراتا ہوں۔ “ تم غفلت میں ہو اور خطرہ تمہارے سروں پر منڈلا رہا ہے لیکن تمہاری حالت یہ ہے۔ ولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماینذرون (١٢ : ٥٤) ” مگر بہرے پکار نہیں سنا کرتے جبکہ انہیں خبردار کیا جائے “۔ یہ لوگ ایسے ہی حالات میں ہوں گے کہ میزان نصب ہوجائے گی۔ ٢۔ تیسرے حصے میں نبیوں کے گروہ پر ایک نظر ہے ثابت یہ کرن مقصود ہے کہ ان کی رسالت اور نظریہ حیات ایک ہی رہا ہے۔ الہ کارویہ اپنے بندوں سے بھی ہمیشہ ایک جیسا رہا ہے۔ یہ کہ وہ ہمیشہ مکذبین کو پکڑ تا رہا ہے۔ ٤۔ چوتھے حصے میں انجام اور نتائج بتائے گئے ہیں اور یہ انجام اور نتائج قیامت کے مناظر میں سے ایک منظر کی صورت میں ‘ نہایت ہی موئر ہیں جبکہ سورة کا خاتمہ بھی آغاز کی طرح کا ہے۔ انسانی سوچ کی تاروں پر ایک جھنجھوڑنے والی ضرب لگائی گئی ہے۔ صاف صاف الفاظ میں ڈر اور فریضہ رسالت کی ادائیگی کے بعد لوگوں کو کلا چھوڑ دیا گیا ہے کہ اب جو انجام چاہو ‘ منتخب کرلو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi