Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 10

سورة الأنبياء

لَقَدۡ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ کِتٰبًا فِیۡہِ ذِکۡرُکُمۡ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۱۰﴾٪  1

We have certainly sent down to you a Book in which is your mention. Then will you not reason?

یقیناً ہم نے تمہاری جانب کتاب نازل فرمائی ہے جس میں تمہارے لئے ذکر ہےکیا پھر بھی تم عقل نہیں رکھتے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Virtue of the Qur'an Here Allah points out the noble status of the Qur'an and urges them to recognize its worth: لَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ ... Indeed, We have sent down for you a Book in which there is Dhikrukum. Ibn Abbas said: "Honor for you." ... أَفَلَ تَعْقِلُونَ Will you not then understand! means, will you not understand this blessing, and accept it! This is like the Ayah: وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ وَسَوْفَ تُسْـَلُونَ And verily, this is indeed a Reminder for you and your people, and you will be questioned. (43:44) How the Evildoers were destroyed Allah tells:

قدر ناشناس لوگ اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک کی فضیلت بیان کرتے ہوئے اس کی قدر ومنزلت پر رغبت دلانے کے لئے فرماتا ہے کہ ہم نے یہ کتاب تمہاری طرف اتاری ہے جس میں تمہاری بزرگی ہے ، تمہارا دین ، تمہاری شریعت اور تمہاری باتیں ہیں ۔ پھر تعجب ہے کہ تم اس اہم نعمت کی قدر نہیں کرتے؟ اور اس اتنی بڑی شرافت والی کتاب سے غفلت برت رہے ہو؟ جیسے اور آیت میں ہے ( وَاِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ ۚ وَسَوْفَ تُسْـَٔــلُوْنَ 44؀ ) 43- الزخرف:44 ) تیرے لئے اور تیری قوم کے لئے یہ نصیحت ہے اور تم اس کے بارے میں ابھی ابھی سوال کئے جاؤگے ۔ پھر فرماتا ہے ہم نے بہت سی بستیوں کے ظالموں کو پیس کر رکھ دیا ہے ۔ اور آیت میں ہے ہم نے نوح علیہ السلام کے بعد بھی بہت سی بستیاں ہلاک کردیں ۔ اور آیت میں ہے کتنی ایک بستیاں ہیں جو پہلے بہت عروج پر اور انتہائی رونق پر تھیں لیکن پھر وہاں کے لوگوں کے ظلم کی بنا پر ہم نے ان کا چورا کردیا ، بھس اڑا دیا ، آبادی ویرانی سے اور رونق سنسان سناٹے میں بدل گئی ۔ ان کے ہلاکت کے بعد اور لوگوں کو ان کا جانشین بنا دیا ایک قوم کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری یونہی آتی رہیں ۔ جب ان لوگوں نے عذابوں کو آتا دیکھ لیا یقین ہو گیا کہ اللہ کے نبی علیہ السلام کے فرمان کے مطابق اللہ کے عذاب آگئے ۔ تو اس وقت گھبرا کر راہ فرار ڈھونڈنے لگے ۔ لگے ادھر ادھر دوڑ دھوپ کرنے ۔ اب بھاگو دوڑو نہیں بلکہ اپنے محلات میں اور عیش وعشرت کے سامانوں میں پھر آجاؤ تاکہ تم سے سوال جواب تو ہو جائے کہ تم نے اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا بھی کیا یا نہیں؟ یہ فرمان بطور ڈانٹ ڈپٹ کے اور انہیں ذلیل وحقیر کرنے کے ہوگا ۔ اس وقت یہ اپنے گناہوں کا اقرار کریں گے صاف کہیں گے کہ بیشک ہم ظالم تھے لیکن اس وقت کا اقرار بالکل بےنفع ہے ۔ پھر تو یہ اقراری ہی رہیں گے یہاں تک کہ ان کا ناس ہوجائے اور ان کی آواز دبا دی جائے اور یہ مسل دیئے جائیں ۔ ان کا چلنا پھرنا آنا جانا بولنا چالنا سب ایک قلم بند ہوجائے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠] یعنی اس میں کوئی نرالی داستانیں اور عجیب و غریب ملک کے حالات نہیں ہیں بلکہ تم ہی جیسے لوگوں کے حالات مذکور ہیں۔ تمہارا اپنا ہی حال بیان کیا گیا ہے۔ تمہارے ہی نفسیات اور تمہارے ہی معاملات زندگی زیربحث ہیں۔ تمہاری ہی فطرت اور ساخت، آغاز اور انجام پر گفتگو ہے۔ تمہارے ہی اخلاقی اوصاف میں سے اچھے اور برے اخلاق کے فرق کو نمایاں کرکے دکھایا جارہا ہے اس کتاب میں کوئی ایسی چیز نہیں جسے سمجھنے سے تمہاری عقل عاجز ہو۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے کہ اگر تم کچھ بھی غور و فکر کرو تو اس میں تمہارے لئے نصیحت اور تمہارا بھلا ہی بھلا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا ۔۔ : اس آیت میں کفار کی ان تمام پریشان کن باتوں کا اکٹھا جواب ہے جو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کے متعلق کہتے تھے کہ یہ خوابوں کی پراگندہ باتیں ہیں، یا من گھڑت باتیں ہیں، یا جادو ہے، یا شاعری ہے، تو فرمایا کہ قرآن کا ان میں سے کسی بات سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ ہم نے تو تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے، تمہارے ہی حالات اور زندگی کے معاملات پر بحث کی گئی ہے اور انھی کے متعلق تمہاری راہنمائی کی گئی ہے۔ اس میں خواب، جادو یا شاعری کی کون سی بات ہے، تو کیا تم سمجھتے نہیں ؟ ” فِيْهِ ذِكْرُكُمْ “ کا ایک معنی یہ ہے کہ ایمان لانے کی صورت میں یہ کتاب ساری دنیا میں تمہاری ناموری، شہرت اور عز و شرف کا باعث ہے، جیسا کہ دوسری جگہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرکے فرمایا : (وَاِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ ) [ الزخرف : ٤٤ ] یعنی بیشک یہ قرآن تیرے لیے اور تیری قوم کے لیے عز و شرف کا باعث ہے۔ ذکر کا ایک معنی نصیحت بھی ہے، جیسے فرمایا : (وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ ) [ الذاریات : ٥٥ ] ” اور نصیحت کر، کیونکہ یقیناً نصیحت ایمان والوں کو نفع دیتی ہے۔ “ تو آیت کا ترجمہ یہ ہوگا ” بلاشبہ یقیناً ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہاری نصیحت کا سامان ہے۔ “ آیت میں ذکر کے تینوں معنی بیک وقت مراد ہوسکتے ہیں، کیونکہ ان میں کوئی باہمی تعارض نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Holy Qur&an is an honour and pride for the Arabs كِتَابًا فِيهِ ذِكْرُ‌كُمْ (a book having a good name for you - 21:10): The word (Book) is meant for Qur&an and ذکر (name) is used here for honour, excellence and fame. Thus what is meant here is that the revelation of Qur&an in Arabic language is a great honour and everlasting fame for the Arabs and they should value it as such. History has proved that by Allah&s Mercy and by the blessings of Qur&an Arabs have dominated the world and ruled over it for a long time. This is also a fact of life that Arabs gained dominance over the world not because of any tribal or linguistic supremacy but because of Qur&an. If there was no Qur&an, probably no one would have known about the Arabs at all.

قرآن کریم عربوں کے لئے عزت و فخر ہے : كِتٰبًا فِيْهِ ذِكْرُكُمْ ، کتاب سے مراد قرآن ہے اور ذکر اس جگہ بمعنے شرف و فضیلت اور شہرت کے ہے۔ مراد یہ ہے کہ یہ قرآن جو تمہاری زبان عربی میں نازل ہوا تمہارے لئے ایک بڑی عزت اور دائمی شہرت کی چیز ہے تمہیں اس کی قدر کرنا چاہئے جیسا کہ دنیا نے دیکھ لیا کہ اہل عرب کو حق تعالیٰ نے قرآن کی برکت سے ساری دنیا پر غالب اور فاتح بنادیا اور پورے عالم میں ان کی عزت و شہرت کا ڈنکا بجا اور یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ یہ عربوں کی مقامی یا قبائلی یا لسانی خصوصیت کی بناء پر نہیں بلکہ صرف قرآن کی بدولت ہوا۔ اگر قرآن نہ ہوتا تو شاید آج کوئی عرب قوم کا نام لینے والا بھی نہ ہوتا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْہِ ذِكْرُكُمْ۝ ٠ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝ ١٠ۧ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو عقل العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] ، ( ع ق ل ) العقل اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠) اور ہم تمہارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ایسی کتاب بھیج چکے ہیں کہ اگر تم اس پر ایمان لے آؤ تو اس میں تمہاری عزت و شرافت ہے کیا پھر بھی اپنی عزت و شرافت کی تصدیق نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠ (لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ) ” ( یہاں ” ذِکْرُکُمْ “ کے دو ترجمے ہوسکتے ہیں ‘ ایک تو یہ کہ اس میں تمہارے حصے کی نصیحت اور تعلیم ہے (یعنی ذکرٌ لکم) اور دوسرا یہ کہ ” اس میں تمہارا اپنا ذکر بھی موجود ہے “۔ اس دوسرے مفہوم کی وضاحت ایک حدیث سے ملتی ہے ‘ جس کے راوی حضرت علی (رض) ہیں۔ آپ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (أَلَا اِنَّھَا سَتَکُوْنُ فِتْنَۃٌ) ” آگاہ ہوجاؤ ! عنقریب ایک بہت بڑا فتنہ رونما ہوگا “ فَقُلْتُ : مَا الْمَخْرَجُ مِنْھَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ ” تو میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے نکلنے کا راستہ کون سا ہوگا ؟ “ یعنی اس فتنے سے بچنے کی سبیل کیا ہوگی ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (کِتَاب اللّٰہِ ، فِیْہِ نَبَأُ مَا کَانَ قَبْلَکُمْ وَخَبَرُ مَا بَعْدَکُمْ وَحُکْمُ مَا بَیْنَکُمْ ) (١) ” للہ کی کتاب ! اس میں تم سے پہلے لوگوں کی خبریں بھی ہیں ‘ تمہارے بعد آنے والوں کے احوال بھی ہیں اور تمہارے باہمی مسائل و اختلافات کا حل بھی ہے “۔ ان معانی میں یہاں ذِکْرُکُمْ سے مراد یہی ہے کہ تمہارے ہر دور کے تمام مسائل کا حل اس کتاب کے اندر موجود ہے۔ میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ آج بھی ہمیں ہر قسم کی صورت حال میں قرآن مجید سے راہنمائی مل سکتی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12. This is a comprehensive answer to the various objections which were being raised in desperation by the disbelievers of Makkah against the Quran and the Prophet (peace be upon him), as if to say: What is there in this Book that you cannot understand? Why don’t you consider it in the right spirit? There is nothing contradictory in it. It discusses you and your own problems and affairs of life. It describes your own nature, origin and end. It discriminates between good and evil and presents high moral qualities which your own consciences endorse and confirm. Why don’t you, then, use your minds to understand this simple and easy thing?

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :12 یہ اکٹھا جواب ہے کفار مکہ کے ان مضطرب اقوال کا جو وہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہتے تھے کہ یہ شاعری ہے ، یہ ساحری ہے یہ پراگندہ خواب ہیں ، یہ من گھڑت افسانے ہیں ، وغیرہ ۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ اس کتاب میں آخر وہ کونسی نرالی بات ہے جو تمہاری سمجھ میں نہ آتی ہو ، جس کی وجہ سے اس کے متعلق تم اتنی متضاد راہیں قائم کر رہے ہو ۔ اس میں تو تمہارا اپنا ہی حال بیان کیا گیا ہے ۔ تمہارے ہی نفسیات اور تمہارے ہی معاملات زندگی زیر بحث ہیں ۔ تمہاری ہی فطرت اور ساخت اور آغاز و انجام پر گفتگو ہے ۔ تمہارے ہی ماحول سے وہ نشانیاں چن چن کر پیش کی گئی ہیں جو حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہیں ۔ اور تمہارے ہی اخلاقی اوصاف میں سے فضائل اور قبائح کا فرق نمایاں کر کے دکھایا جا رہا ہے جس کے صحیح ہونے پر تمہارے اپنے ضمیر گواہی دیتے ہیں ۔ ان سب باتوں میں کیا چیز ایسی گنجلک اور پیچیدہ ہے کہ اس کو سمجھنے سے تمہاری عقل عاجز ہو ؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: اس آیت کا ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم نے تمہارے پاس ایک ایسی کتاب اتاری ہے جس میں تمہارے ہی ذکر خیر کا سامان ہے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ یہ کتاب عربی زبان میں نازل کی گئی ہے جس کے براہ راست کا مخاطب تم عرب لوگ ہو، اور یہ تمہارے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا آخر کلام تم پر تمہاری زبان میں نازل فرمایا، اور اس سے رہتی دنیا تک دنیا کی ساری قوموں میں تمہارا ذکر خیر جاری رہے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:10) ذکر کم۔ ای ذکر لکم۔ تمہارے لئے نصیحت۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لقد انزلنآ۔۔۔۔۔۔۔۔ افلا تعقلون ( ” ۔ قرآن ایک ایسا معجزہ ہے کہ یہ تمام نسلوں کے لی کھلا معجزہ ہے۔ یہ ایسا معجزہ نہیں ہے کہ ایک ہی نسل میں اس کا مظاہرہ ہو ‘ لوگ اس سے متاثر ہوں اور وہ ختم ہوجائے۔ یہ ایک دائم وقائم معجزہ ہے۔ قرآن کریم کے ذریعہ عربوں کو بھی بڑی شہرت ملی جب وہ قرآن کے پیغام کو لے کر مشرق و مغرب تک جا پہنچے۔ اس سے پہلے وہ کوئی قابل ذکر لوگ نہ تھے۔ نہ ان کے پاس انسانیت کو دینے کے لیے کوئی قابل ذکر چیز تھی۔ جب تک عربوں نے اس کتاب کو مضبوطی سے پکڑے رکھا انہوں نے اس کے ذریعہ پوری انسانیت کی راہنمائی کی ‘ تو وہ بھی کامیاب رہے اور اس کی وجہ سے پوری انسانیت کو بھی کامیابی اور خوسحالی نصیب ہوئی ‘ جب عربوں نے اس کتاب کو چھوڑا تو انسانیت نے بھی انہیں چھوڑ دیا اور لوگوں کے اندر عربوں کا ذکر ختم ہونے لگا۔ یہ لوگ قافلہ انسانیت کے دم چھلا بن گئے اور انسانوں میں سے جو چاہے ‘ انہیں اچک لیتا ہے لیکن جب یہ کتاب انہوں نے مضبوطی سے تھام رکھی تھی تو لوگ ان کے ماحول میں اچک لیے جاتے تھے اور یہ محفوظ تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ عرب قرآن کے سوا انسانیت کو کیا تحفہ دے سکتے ہیں ؟ قرآن کے سوا ان کے پاس اور ہے کیا ؟ ان کے پاس قرآنی فکر کے سوا انسانیت کے سامنے پیش کرنے کے لیے کوئی اور فکر نہیں ہے۔ اگر وہ انسانیت کے سامنے یہ کساب پیش کریں گے تو انسانیت ان کو پہچان لے گی۔ ان کا ذکر کرے گی اور ان کو سروں پر اٹھائے گی کیونکہ اسے عربوں سے ایک نفع بخش پیغام ملے گا۔ لیکن اگر وہ انسانوں کے سامنے محض عربوں کو بحیثیت ایک قوم پیش کریں گے تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی حیثیت کیا ہے اور وہ کیا ہیں ؟ اس کتاب کے سوا ان کے اس نسب نامے کی کیا وقعت ہے۔ انسانیت نے عربوں کو اس کتاب کے ذریعے ‘ اسلامی نظریہ حیات کے ذریعے اور اس کتاب سے اخذ کردہ نظام حیات کے ذریعے پہچانا تھا۔ انسانیت میں ان کو جو مقام حاصل ہوا تھا وہ اس لیے نہ تھا کہ وہ عرب ہیں۔ کیونکہ صرف عرب ہونا تاریخ انسانیت میں کوئی چیز نہیں ہے اور تہذیب کی ڈکشنری میں لفظ عرب کا کوئی مقام نہیں ہے۔ عربوں کی پہچان اسلامی تہذیب و تمدن سے تھی اور ہے۔ اسلامی تہذیب اور اسلامی فکر ‘ اسلامی فلسفہ اور اسلامی تمدن کے تو تمدن کی ڈکشنری میں نام ملیں گے لیکن عرب کا اس میں کوئی نام نہیں ہے۔ اسی حقیقت کی طرف قرآن کریم یہاں ارشارہ کررہا ہے۔ مشرکین کو مخاطب کر کے کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب تمہاری پہچان ہے۔ لیکن تم اس کتاب میں آنے والی نئی تعلیمات کا استقبال غفلت ‘ اعراض اور تکذیب اور مذاق کے ساتھ کرتے تھے۔ لقد انزلنآ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ افلا تعقلون (١٢ : ٠١) ” لوگو ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے ‘ کیا تم سمجھتے نہیں ہو “۔ عرب مشرکین پر اللہ کا کرم تھا کہ ان کے سامنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ کوئی خارق عادت معجزہ پیش نہ کیا گیا ‘ ورنہ وہ انکار کرتے اور ان کی بیح گنی اسی طرح سنت الہیہ کے مطابق ہوجاتی جس طرح تاریخ میں کئی اقوام اور کئی بستیوں کی ہوئی۔ یہاں اللہ تعالیٰ ایک زندہ منظر کی شکل میں ایسی اقوام کے استیصال اور تباہی و بربادی کو دکھاتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں فرمایا (لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ) (اور ہم نے تمہاری طرف کتاب نازل کی جس میں تمہاری نصیحت ہے کیا تم نہیں سمجھتے) بعض حضرات نے ذکر کم کا مطلب یہ بتایا ہے کہ قرآن عربی زبان میں ہے اس کی وجہ سے عرب کی عزت ہے اور دائمی شہرت ہے۔ قرآن کی برکت سے ان لوگوں کو عروج ہوا۔ عرب و عجم کے فاتح بنے۔ قرآن مجید نازل ہونے سے پہلے دنیا میں عرب کی کوئی بھی حیثیت نہ تھی۔ قرآن کی وجہ سے انہیں بلندی ملی۔ اب اس بلندی کی لاج رکھنا ان کا اپنا کام ہے۔ یہ معنی لیا جائے تو الفاظ قرآنیہ کے مناسب ہے۔ (فَسْءَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ) یہ حکم سورة نحل میں بھی گزر چکا ہے۔ اس میں حکم ہے کہ جسے معلوم نہیں وہ اہل علم سے پوچھ لے۔ اسی وجہ سے علماء نے فرمایا کہ ہر وہ آدمی جسے احکام شریعت معلوم نہیں اس پر واجب ہے کہ اہل علم کی تقلید کرے اور جو مسئلہ معلوم نہ ہو اس کے لیے علماء سے رجوع کرے۔ جاہل رہنا عذر شرعی نہیں ہے۔ خلاف شرع کام کرے اور پھر یوں کہہ دے کہ مجھے پتہ نہ تھا اس سے دنیا میں یا آخرت میں چھٹکارا نہ ہوگا۔ بہت سے لوگ قصداً و عمداً علم دین حاصل نہیں کرتے اور اپنی اولاد کو بھی نہیں پڑھاتے اور اپنے حالات و معاملات میں احکام شرعیہ کی خلاف ورزی کرتے رہتے ہیں۔ اور جب کوئی ٹوکتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہمیں پتہ نہ تھا۔ پتہ کے پاؤں تو نہیں ہیں کہ خود سے چل کر آئے۔ پتہ کرنا پڑتا ہے۔ علماء کے پاس جانا پڑتا ہے۔ علم سے دور رہنا اور بیزار رہنا اور جہالت کو عذر بنانا شریعت کے بھی خلاف ہے اور عقل کے بھی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11:۔ یہ ترغیب الی القرآن ہے۔ ” ذکر “ سے مسئلہ توحید، دیگر امور دین اور احکام شریعت کا ذکر مراد ہے۔ ای ذکر دینکم و احکام شرعکم الخ (قرطبی ج 11 ص 273) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

10 بلاشبہ ہم نے تمہارے لئے ایک ایسی کتاب اتاری ہے جس میں تمہاری نصیحت اور خیر خواہی کا کافی سامان موجود ہے کیا پھر بھی تم نہیں سمجھتے۔ یعنی ہم نے تمہارے لئے ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارے لئے کافی نصیحت ہے اور جس میں تمہارا ذکر بھی ہے اور اس میں تمہاری عزت اور شرف بھی ہے اور تمہارے لئے موجب فخر بھی ہے اور تمہارے دین اور دنیا کی حفاظت کا سامان بھی ہے اگر تم اس پر ایمان لے آئو تو یہ سب باتیں تم کو میسر ہوجائیں کیا اب بھی تم سمجھ سے کام نہیں لو گے۔ ذکرکم کی تفسیر کئی طرح بیان کی گئی ہے ہم نے تیسیر میں تمام اقوال کو جمع کردیا ہے۔