Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 100

سورة الأنبياء

لَہُمۡ فِیۡہَا زَفِیۡرٌ وَّ ہُمۡ فِیۡہَا لَا یَسۡمَعُوۡنَ ﴿۱۰۰﴾

For them therein is heavy sighing, and they therein will not hear.

وہ وہاں چلا رہے ہونگے اور وہاں کچھ بھی نہ سن سکیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ ... Therein they will be breathing out with deep sighs and roaring, This is like the Ayah: لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ they will have (in the Fire), Zafir and Shahiq. (11:106) Zafir refers to their exhalation, and Shahiq refers to their inhalation. ... وَهُمْ فِيهَا لاَ يَسْمَعُونَ and therein they will hear not. The State of the Blessed Here Allah tells:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

100۔ 1 یعنی سارے کے سارے شدت غم و الم سے چیخ اور چلا رہے ہونگے، جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کی آواز بھی نہیں سن سکیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَهُمْ فِيْهَا زَفِيْرٌ : ” زَفِيْرٌ“ کے معنی کے لیے دیکھیے سورة ہود (١٠٦) ۔ وَّهُمْ فِيْهَا لَا يَسْمَعُوْن : اس کی ایک تفسیر یہ ہے کہ وہ اتنی اونچی آواز سے گدھے کی طرح رینگیں گے کہ اپنے چیخ پکار کے شور میں کوئی بات نہیں سنیں گے۔ دوسری تفسیر عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمائی کہ جب وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جنھیں ہمیشہ آگ میں رکھا جائے گا، تو انھیں آگ کے تابوتوں میں ڈال دیا جائے گا، جن میں آگ کی میخیں ہوں گی، تو ان میں سے کسی کو نظر نہیں آئے گا کہ اس کے سوا کسی کو عذاب ہو رہا ہے۔ پھر عبد اللہ (رض) نے یہ آیت پڑھی : (لَهُمْ فِيْهَا زَفِيْرٌ وَّهُمْ فِيْهَا لَا يَسْمَعُوْنَ ) ابن کثیر بحوالہ ابن ابی حاتم، دکتور حکمت بن بشیر نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ گویا آگ کے عذاب کے ساتھ تنہائی کا شدید عذاب مزید ہوگا کہ نہ کسی کو دیکھیں گے اور نہ کوئی آواز سنیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَہُمْ فِيْہَا زَفِيْرٌ وَّہُمْ فِيْہَا لَا يَسْمَعُوْنَ۝ ١٠٠ زفر قال : لَهُمْ فِيها زَفِيرٌ [ الأنبیاء/ 100] ، فَالزَّفِيرُ : تردّد النّفس حتی تنتفخ الضّلوع منه، وازْدَفَرَ فلان کذا : إذا تحمّله بمشقّة، فتردّد فيه نفسه، وقیل للإماء الحاملات للماء : زَوَافِرُ. ( ز ف ر ) الزفیر اس کے اصل معنی سانس کی اس قدر تیزی سے آمد وشد کے ہیں کہ اس سے سینہ پھول جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَهُمْ فِيها زَفِيرٌ [ الأنبیاء/ 100] ان کے لئے اس میں چیخنا ہے ۔ ازد فر ( افتعال ) فلان کذا کسی چیز کو مشقت سے اٹھانا جس سے سانس پھول جائے ۔ اس لئے پانی لانے والی لونڈ یوں کو زوافر کہا جاتا ہے ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٠) اور ان کا دوزخ میں شور و غل اور گدھے جیسی آوازیں ہوں گی (معاذ اللہ) اور وہ دوزخی رحمت وشفاعت دوزخ سے نکلنے اور نرمی کی کوئی بات بھی نہ سنیں گے اور نہ وہاں دیکھیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٠ (لَہُمْ فِیْہَا زَفِیْرٌ وَّہُمْ فِیْہَا لَا یَسْمَعُوْنَ ) ” ان کے معبود جو ان کے ساتھ ہی جل رہے ہوں گے ‘ وہ ان کی اس چیخ و پکار کو سن نہیں پائیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

96. The Arabic word zafeer means hard breathing because of excessive heat, hard work and weariness.

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :96 اصل میں لفظ زَفِیْر استعمال ہوا ہے ، سخت گرمی ، محنت اور تکان کی حالت میں جب آدمی لمبا سانس لے کر اس کو ایک پھنکار کی شکل میں نکالتا ہے تو اسے عربی میں زفیر کہتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٠۔ ١٠٣:۔ اوپر ذکر تھا کہ مشرکوں اور ان کے جھوٹے معبودوں کو ہمیشہ دوزخ میں رہنے کا حکم سنا دیا جائے گا اور قائل کرنے کے لیے ان مشرکوں سے یہ کہا جائے گا کہ دنیا میں جن تبوں کو تم اپنا معبود جانتے تھے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر ان بتوں میں معبود ہونے کی صلاحیت ہوتی تو آج ان کو دوزخ کا ایندھن نہ بنایا جاتا ‘ ان آیتوں میں فرمایا ‘ دوزخ میں ہمیشہ رہنے کا حکم سن کر یہ لوگ روئیں گے چلاویں گے اور ان میں کا ہر ایک شخص اپنے اپنے عذاب کی تکلیف میں ایسا بدحواس ہوگا کہ ایک شخص دوسرے کے رونے اور چلانے کی آواز بھی نہ سنے گا ١ ؎‘ ترمذی میں ابودرداء (رض) سے اور مستدرک حاکم ‘ بیہقی کی بعث ونشور وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عباس سے جو روایتیں ہیں ٢ ؎ ان کا حاصل یہ ہے کہ جب یہ دوزخی لوگ دوزخ کے عذاب کی تکلیف سے بہت گھبرا جاویں گے تو لوگ دوزخ کے داروغہ سے التجا کریں گے کہ مالک ان لوگوں کی موت کی اللہ تعالیٰ سے دعا کرے ہزار برس تک تو ان لوگوں کی التجا کا کچھ جواب نہ ملے گا پھر ہزار برس کے بعد یہ جواب ملے گا کہ دنیا میں تم لوگوں نے اس عذاب کو جھٹلایا اس لیے اب تمہاری یہی سزا ہے کہ تم ہمیشہ اس عذاب میں گرفتار رہو گے اس حکم کو سن کر یہ لوگ اور بھی زیادہ چیخنا اور چلانا شروع کردیں گے۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی اس روایت کو حاکم نے صحیح کہا ہے ٣ ؎، اور ترمذی کی ابودرداء (رض) کی حدیث کی سند میں قطبۃ بن عبدالعزیز روای کو اگرچہ بعض علماء نے لائق اعتراض قرار دیا ہے لیکن اکثر اہل حدیث نے قطبۃ بن عبد العزیز کو ثقہ کہا ہے ٤ ؎، ابن ماجہ میں انس بن مالک سے روایت ہے ٥ ؎۔ کہ دوزخ میں دوزخی یہاں تک روئیں گے کہ ان کے آنسوؤں میں کشتی چلاؤ تو چل نکلے اس حدیث کی سند میں ایک روای یزید الرقاشی کو اگرچہ بعض علماء نے قابل اعتراض ٹھہرایا ہے لیکن ابن معین اور ابن عدی نے یزید الرقاشی کو ثقہ قرار دیا ہے ٦ ؎، جن لوگوں کا ذکر پہلی آیت میں ہے ان روایتوں سے ان کے رونے اور چلانے کی تفسیر اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے ‘ مشرکین مکہ جو یہ کہتے تھے کہ اگر ہمارے بت دوزخ کا ایندھن ٹھہریں گے تو فرشتوں کو عزیر (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی لوگ اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں پھر ان کا کیا حاصل ہوگا ‘ اس کے جواب میں فرمایا دوزخ کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں جو لوگ اللہ کی رحمت اور ہمیشہ کی جنت کے عیش کے قابل ٹھہر چکے ہیں ‘ ان کے کانوں میں دوزخ کے شوروغل کی آواز تک بھی نہ جائے گی بلکہ دوسرے صور کے بعد جب سب لوگ قبروں سے اٹھیں گے اور اس دن کی آفتوں کو دیکھ کر گنہگار لوگوں کے دل پر گھبراہٹ چھا جائے گی ‘ ان نیک لوگوں کو اسی وقت اللہ کے نہ رہے گی ‘ مسند امام احمد کے حوالہ سے حضرت عائشہ (رض) کی صحیح حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ منکر نکیر کے سوال جواب کے بعد اللہ کے فرشتے اللہ کے حکم سے نیک لوگوں کو ان کا جنت کا ٹھکانا دکھا کر یہ وعدہ خوشخبری کے طور پر سنا دیتے ہیں کہ اسی ٹھکانے میں ہمیشہ رہنے کے لیے تم کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ یہ حدیث آخری آیت کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قبر میں رکھتے ہی اللہ کے حکم سے فرشتوں نے جو خوشخبری نیک لوگوں کو وعدہ الٰہی کے موافق سنائی تھی قبر سے اٹھتے ہی وہ خوشخبری کا وعدہ ان لوگوں کو اللہ کے فرشتے پھر یاد دلا دیں گے یہ حدیث صحیح بخاری میں بھی انس بن مالک کی روایت سے آئی ہے ٧ ؎۔ ١ ؎ الترغیب والترہیب ص ٤٨١ ج ٤ طبع مصر۔ فصل فی طعام اہل النار۔ ٢ ؎ ایضاص ٤٩٢ فصل فی بکا ہم وشہیقہم ٣ ؎ مستدرک حاکم ص ٤٤٨ ج ٢ ٤ ؎ الترغیب والترہیب ص ٤٨٢ ج ٤ ٥ ؎ ایضا ص ٤٩٣ ٦ ؎ ایضا ص ٥٨٠ ٧ ؎ مشکوٰۃ ص ٢٥ باب اثبات عذاب القبر

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:100) زفیر۔ الزفیر کے اصل معنی سانس کے اس قدر تیزی سے آمد وشد کے ہیں کہ اس سے سینہ پھول جائے۔ یہ زفر یزفر (حسب یحسب) کا مصدر ہے۔ زفیر سانس کھینچ کر اس کو سینہ سے نکالنا ہے اور شھیق سینہ کی طرف سانس کا لوٹانا ہے۔ ضحاک اور مقاتل کا بیان ہے کہ زفیر گدھے کی پہلی آواز ہے اور شھیق اس کی آخری جب کہ وہ اس کو سینہ کی طرف لوٹاتا ہے۔ دونوں کا ترجمہ چیخنا چلانا ہے۔ لہم فیھا زفیر وہ جہنم میں اشدت عذاب سے) چیخیں گے اور چلائیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 ۔ یعنی ان کی چیخ پکار اتنی زیادہ ہوگی کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے گی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(100) دوزخ میں ان سب کو رونے او چیخنے سے کام ہوگا اور وہاں اس چیخ و پکار میں کسی کی کوئی بات نہ سن سکیں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اپنے چلانے کے شور سے۔ 12 خلاصہ ! یہ کہ وہاں اس قدر غل و شور ہوگا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے گی۔