Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 108

سورة الأنبياء

قُلۡ اِنَّمَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ فَہَلۡ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۰۸﴾

Say, "It is only revealed to me that your god is but one God; so will you be Muslims [in submission to Him]?"

کہہ دیجئے! میرے پاس تو پس وحی کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود ایک ہی ہے تو کیا تم بھی اس کی فرمانبرداری کرنے والے ہو؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The main Objective of Revelation is that Allah be worshipped Allah commands His Messenger: قُلْ ... Say: i.e. say to the idolators: ... إِنَّمَا يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَهَلْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ "It is revealed to me that your God is only one God. Will you then be Muslims!" meaning, will you then follow that and submit to it!

جلد یابدیر حق غالب ہوگا اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ آپ مشرکوں سے فرمادیں کہ میری جانب یہی وحی کی جاتی ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے تم سب بھی اسے تسلیم کرلو ۔ اور اگر تم میری بات پہ یقین نہیں کرتے تو ہم تم جدا ہیں تم ہمارے دشمن ہو ہم تمہارے ۔ جیسے آیت میں ہے کہ اگر یہ جھٹلائیں تو کہہ دے کہ میرے لئے میرا عمل ہے اور تمہارے لئے تمہارا عمل ہے تم میرے اعمال سے بری ہو اور میں تمہارے کرتوتوں سے بیزار ہوں ۔ اور آیت میں ہے ( وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةً فَانْۢبِذْ اِلَيْهِمْ عَلٰي سَوَاۗءٍ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْخَاۗىِٕنِيْنَ 58؀ۧ ) 8- الانفال:58 ) یعنی اگر تجھے کسی قوم سے خیانت وبدعہدی کا اندیشہ ہو تو عہد توڑ دینے کی انہیں فورا خبردے دو ۔ اسی طرح یہاں بھی ہے کہ اگر تم علیحدگی اختیار کرو تو ہمارے تمہارے تعلقات منقطع ہیں ۔ یقین مانو کہ جو وعدہ تم سے کیا جاتا ہے وہ پورا ہونے والا تو ضرور ہے اب خواہ ابھی ہو خواہ دیر سے اس کا خود مجھے علم نہیں ۔ ظاہرباطن کا عالم اللہ ہی ہے جو تم ظاہر کرو اور جو چھپاؤ اسے سب کا علم ہے ۔ بندوں کے کل اعمال ظاہر اور پوشیدہ اس پر آشکارا ہیں ۔ چھوٹا بڑا کھلا عمل چھپا سب کچھ وہ جانتا ہے ۔ ممکن ہے اس کی تاخیر بھی تمہاری آزمائش ہو اور تمہیں تمہاری زندگانی تک نفع دینا ہو انبیاء علیہم السلام کو جو دعا تعلیم ہوئی تھی کہ اے اللہ ہم میں اور ہماری قوم میں تو سچا فیصلہ کر اور توہی بہتر فیصلہ کرنے والاہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی قسم کی دعا کا حکم ہوا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی کسی غزوے میں جاتے تو دعا کرتے کہ میرے رب تو سچا فیصلہ فرما ۔ ہم اپنے مہربان رب سے ہی مدد طلب کرتے ہیں کہ وہ تمہارے جھوٹ افتراؤں کو ہم سے ٹالے اس میں ہمارا مددگار وہی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

108۔ 1 اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اصل رحمت توحید کو اپنا لینا اور شرک سے بچ جانا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٦] جہاں والوں کے لئے آپ کے رحمت ہونے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ لوگوں کو زندگی بھر تکلیفیں سہہ سہہ کر بحکم الٰہی خالص توحید کی دعوت دیتے رہے۔ اور موحد کے لئے اللہ کا وعدہ یہ ہے کہ اسے آخرت میں ایک نہ ایک ضرور دوزخ کے عذاب سے نجات مل جائے گی خواہ وہ کتنا ہی گہنگار ہو۔ درج ذیل حدیث اسی آیت کی وضاحت کرتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : && میری اور لوگوں کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے آگ روشن کی اور جب اس کی روشنی ارد گرد پھیل گئی تو کیڑے اور پتنگے اس آگ میں گرنے لگے۔ اب وہ شخص انھیں آگ سے دور ہٹانے لگا (تاکہ جلنے سے بچ جائیں) مگر وہ مانتے ہی نہیں اور اس آگ میں گھستے، گرتے اور مرتے جاتے ہیں۔ اسی طرح میں تمہیں تمہاری کمروں سے پکڑ کر تمہیں آگ سے دور کھینچتا ہوں اور کہتا ہوں کہ دوزخ سے بچ جاؤ لیکن لوگ ہیں کہ سنتے ہی نہیں اور اس میں گرے پڑتے ہیں (&& بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب الانتباء عن العاصی)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اِنَّمَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّـمَآ اِلٰــهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۔۔ : اس آیت میں ” اِنَّمَا “ کلمۂ حصر دو دفعہ آیا ہے۔ فرمایا، آپ کہہ دیں کہ میری طرف صرف یہ وحی ہوتی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک معبود ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تو اس کے علاوہ بھی بہت سی وحی آتی تھی، مثلاً رسالت، قیامت، نماز، روزہ اور دوسرے احکام، تو یہ کیوں فرمایا کہ میری طرف صرف ایک وحی آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک ہے ؟ جواب یہ ہے کہ پوری شریعت کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارا کام صرف ایک معبود کی عبادت یعنی ایک مالک کی غلامی ہے۔ وہ جو حکم دے اسے کرنا ہے، جس سے منع کرے اس سے باز رہنا ہے۔ اپنی ہر ضرورت اسی سے مانگنی ہے، کیونکہ اسے وہی پورا کرسکتا ہے، یہ تمام انبیاء کی دعوت ہے، فرمایا : (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ) [ الأنبیاء : ٢٥ ] ” اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، سو میری عبادت کرو۔ “ یہی ملت ابراہیم ہے، فرمایا : (اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗٓ اَسْلِمْ ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ) [ البقرۃ : ١٣١ ] ” جب اس سے اس کے رب نے کہا، فرماں بردار ہوجا، اس نے کہا، میں جہانوں کے رب کے لیے فرماں بردار ہوگیا۔ “ شریعت کے تمام احکام اس مالک کی بندگی بجا لانے کی مختلف صورتیں ہیں اور سب ” اَنَّـمَآ اِلٰــهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ“ کی تفصیل ہیں۔ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؂ داستان حسن جب پھیلی تو لامحدود تھی اور جب سمٹی تو تیرا نام بن کر رہ گئی اس لیے یہاں جب اس حقیقت کے اعلان کا حکم دیا کہ میری طرف صرف یہ وحی ہوتی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک معبود ہے اور تمہارا کام اسی کی عبادت یعنی اس سے انتہا درجے کی محبت اور اس کے لیے انتہا درجے کی عاجزی کے ساتھ پوری طرح اس کا بندہ اور غلام بن جانا اور اسلام یعنی اپنے آپ کو مکمل طور پر اس کے سپرد کردینا اور اپنی مرضی چھوڑ کر صرف اس کی مرضی پر چلنا ہے۔ تو آخر میں انھیں ایک اللہ کی عبادت اور اپنے آپ کو مکمل طور پر اس کے حوالے کرنے کا حکم دینے کے لیے استفہام کا طریقہ اختیار فرمایا کہ جب مجھے یہی وحی ہوتی ہے تو کیا اس کے مطابق تم اس کے لیے مسلم یعنی اس کے سپرد ہونے والے اور مکمل فرماں بردار بننے والے ہو ؟ مقصد یہ ہے کہ ضرور بننا چاہیے، چناچہ ہمارے نبی کو حکم ہوا : (قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ) [ الأنعام : ١٦٢، ١٦٣ ] ” کہہ دے بیشک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے، جو جہانوں کا رب ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں حکم ماننے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اِنَّمَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّـمَآ اِلٰــہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۝ ٠ۚ فَہَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۝ ١٠٨ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٨۔ ١١١:۔ اللہ تعالیٰ نے اس قرآن شریف میں اپنی مرضی اور نامرضی کی سب باتیں پوری طور پر جتلا دی ہیں ان آیتوں میں فرمایا کہ قرآن شریف کی نصیحت سے اگرچہ ان ہی لوگوں کو نیک ہدایت ہوتی ہے جو اللہ کے علم غیب میں نیک ٹھہر چکے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کو ہر شخص کے انجانی کا عذر رفع کردینا بہت پسند ہے اس واسطے اے رسول اللہ کے تم ان مکہ کے مشرکوں سے کہہ دو مجھ کو حکم ہے کہ جس اللہ نے انسان کو اور انسان کی سب ضرورت کی چیزوں کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ اس میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے تو انسان پر اللہ تعالیٰ کا یہ حق ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں انسان کسی کو شریک نہ کرے ‘ اس حق کے ادا ہونے کے بعد انسان کا اللہ تعالیٰ پر یہ حق ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اس حق ادا کرنے اور نہ ادا کرنے دونوں باتوں کا انجام تم لوگوں کو جتلا دیا ہے اور یہ مجھ کو معلوم نہیں کہ قرآن کی نصیحت کو ٹالنے والوں پر دیر سویر کب عذاب آجائے۔ پھر فرمایا یہ بھی کہہ دیا جائے کہ ان لوگوں کے دل میں جو شرک کا عقیدہ ہے وہ اور ان کے ہاتھ پیروں کے شرک کے کام اللہ تعالیٰ کو سب معلوم ہیں ‘ اس پر بھی عذاب کے آنے میں جو دیر لگ رہی ہے تو مجھ کو یہ معلوم نہیں کہ اس مہلت میں راہ راست پر آنے کی جانچ ہے یا وقت مقررہ کا انتظار ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے مغیرہ بن شعبہ کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو لوگوں کی انجانی کے عذر کا رفع کردینا بہت پسند ہے ‘ اسی واسطے اس نے آسمانی کتابیں دے کر رسول بھیجے ‘ صحیح مسلم و بخاری کے حوالہ سے معاذ بن جبل کی یہ حدیث بھی کئی جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کریں اس حق کو جو لوگ پورا ادا کریں گے ان کا حق اللہ تعالیٰ پر یہ ہوگا کہ وہ ان کو دوزخ کے عذاب سے بچاوے آیتوں کی تفسیر میں جو مطلب اوپر بیان کیا گیا ہے وہ ان صحیح حدیثوں کا خلاصہ ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:108) فھل انتم مسلمون۔ سو کیا (اب بھی) تم مانتے ہو ؟ (کہ نہیں) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ یعنی تو حیدر ہی میری ساری وحی کا خلاصہ اور اصل الاصول ہے اور اس میں شرک کا شائبہ تک نہیں۔ (وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کو رحمت عالم قرار دینے کے بعد آپ کی آمد کا بنیادی اور مرکزی مقصدبیان کیا گیا ہے۔ اسی سورة کی آیت ” ٢٥“ میں یہ ذکر ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے انبیاء (علیہ السلام) مبعوث فرمائے۔ انھیں یہی حکم صادر فرمایا تھا کہ وہ لوگوں کو بتلائیں اور سمجھائیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ یہاں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو براہ راست یہ حکم دیا ہے کہ آپ لوگوں کو بتلائیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی کے ذریعے حکم دیا ہے کہ میں لوگوں کو بتلاؤں اور سمجھاؤں کہ لوگو ! تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے کیا تم اس کے تابعدار ہونے کے لیے تیار ہو ؟ اگر تم عقیدہ توحید ماننے اور اللہ تعالیٰ کی تابعداری سے انکار کرتے ہو تو پھر جان لو کہ میں نے تمہیں پوری طرح آگاہ کردیا ہے۔ ہاں جس عذاب اور قیامت کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے وہ قریب ہے یا دور۔ اللہ تعالیٰ اس کی آمد کو اچھی طرح جانتا ہے وہ یہ بھی جانتا ہے جو بات سر عام کرتے ہو یا جس کو تم چھپاتے ہو۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رحمت عالم قرار دینے کے بعد عقیدہ توحید کا اس لیے ذکر کیا گیا کہ لوگوں کو یہ بتلایا جائے کہ بیشک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رحمت عالم ہیں لیکن آپ کی نبوت کے حوالے سے رب کریم کی رحمت کا وہی شخص مستحق ہوگا جو آپ کی دعوت یعنی عقیدہ توحید کو قبول کرکے عملاً اللہ تعالیٰ کی تابعداری کرے گا۔ آپ کی نبوت اسی باعث ہی جہانوں کے لیے حقیقی اور دائمی رحمت ہے اور یہی آپ کی نبوت کا پیغام ہے اور یہی آپ سے پہلے انبیاء (علیہ السلام) کی دعوت ہوا کرتی تھی۔ اسی دعوت کی کفار مخالفت کیا کرتے تھے۔ آپ نے لوگوں کو اسی بات کا احساس دلایا اگر تم نے اللہ کی توحید اور میری اطاعت کا انکار کیا تو قیامت کے دن ہر صورت پکڑے جاؤ گے۔ کفار اس بات کو مثبت انداز میں لینے کی بجائے منفی طور پر لیتے اور آپ کو طعنہ کے طور پر کہتے جس عذاب اور قیامت سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے وہ کب آئے گی ؟ اس سوال کے قرآن مجید میں مختلف جواب دیے گئے ہیں۔ یہاں فقط یہ جواب دیا ہے کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ عذاب اور قیامت کب آئے گی۔ جو کچھ تم کہتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو اسے بھی اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ یہاں تک قیامت یا عذاب کا معاملہ ہے اس کے بارے میں میں نہیں جانتا کہ قیامت یا عذاب کب آئے گا تاہم یہ حقیقت ہے کہ حق کی مخالفت میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو مہلت دے رکھی ہے وہ تمہارے لیے ایک آزمائش کی حیثیت رکھتی ہے۔ تم اس وقت تک ہی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو جب تک اس کا حکم صادر نہیں ہوتا۔ اس جواب کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے یہ دعا سکھلائی گئی کہ اے نبی آپ اور اپنے ساتھیوں کے لیے ان الفاظ میں اپنے رب کی نصرت مانگتے رہیں کہ اے ہمارے رب جو کچھ لوگ حق اور ہمارے بارے میں کہتے ہیں اس پر ہماری مدد فرما۔ ہمارے اور ہمارے مخالفوں کے درمیان حق اور سچ کے ساتھ فیصلہ فرما کیونکہ تو مظلوموں پر شفقت کرنے والا اور کمزوروں کی مدد کرنے والا ہے۔ طائف میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان الفاظ میں دعا کی : (اَللَّہُمَّ إلَیْکَ أشْکُوْ ضَعْفِ قُوَّتِیْ ، وَقِلَّۃِ حِیْلَتِیْ ، وَہَوَإنِیْ عَلَیْ النَّاسِ ، یَا أرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ، أنْتَ رَبِّ المُسْتَضْعَفِیْنَ ، وَأنْتَ رَبِّیْ ، إلیٰ مَنْ تَکِلُنِیْ ؟ إلیٰ بَعِیْد یَتَجَہَّمُنِیْ ؟ أمْ إلیٰ عَدُوِّ مَلَکْتَہٗ أمْرِیْ ؟ إنْ لَّمْ یَکُنْ بِکَ عَلیَّ غَضَب فَلَا أُبَالِیْ ، وَلٰکِنْ عَافِیَتُکَ ہِیَ أوْسَعُ لِیْ ، أعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْہِکَ الَّذِیْ أشْرَقْتَ لَہٗ الظُّلُمَاتِ ، وَصَلِّحْ عَلَیْہِ أَمْرَ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃُ مَنْ أنْ تُنَزِّلَ بِیْ غَضْبُکَ ، أوْ یَحِلُّ عَلَیَّ سَخَطُکَ ، لَکَ العُتْبَی حَتّٰی تَرْضٰی، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إلَّا بکَ ) [ الرحیق المختوم ] ” اے اللہ میں اپنی کمزوری، وسائل کی کمی کا اور لوگوں کے مقابلے میں کمزور ہونے کی تیرے حضور فریاد کرتا ہوں۔ اے رحم کرنے والے، آپ کمزوروں کے رب ہیں اور آپ میرے بھی رب ہیں تو مجھے کس کے سپرد کرتا ہے دوری کی طرف جو مجھے غصہ میں مبتلا کر دے یا دشمن کی طرف جس کو تو نے میرے معاملے کا مالک بنایا اگر تو مجھ پر ناراض نہیں تو مجھے کسی کی پروا نہیں لیکن تیری عافیت مجھے درکار ہے میں پناہ چاہتا ہوں تیرے چہرے کے نور سے جس کے ساتھ تو نے اندھیروں کو جلا بخشی اور اسی کے ساتھ دنیا اور آخرت کا معاملہ درست ہوا۔ اس چیز سے کہ مجھ پر تیرا غضب نازل ہو۔ یا تیری مجھ پر ناراضگی حلال ہو۔ تیرے ہی لیے دونوں جانب ہیں یہاں تک کہ تو راضی ہوجائے تیری توفیق کے بغیر نیکی کی طاقت اور گناہوں سے بچا نہیں جاسکتا۔ “ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا مقصد اللہ کی توحید سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے۔ ٢۔ نبی کا کام لوگوں کو اچھے برے انجام سے آگاہ کرنا ہے۔ ٣۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی معلوم نہ تھا کہ قیامت کب آئے گی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر کھلی اور چھپی بات کو جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ غائب اور حاضر کو جانتا ہے اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا : ١۔ اللہ ظاہر اور غائب کو جانتا ہے۔ (التوبۃ : ٩٤) ٢۔ اللہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتے ہو۔ (النحل : ١٩) ٣۔ تم اپنی بات کو پوشیدہ رکھو یا ظاہر کرو اللہ سینوں کے بھید جانتا ہے۔ (الملک : ١٣) ٤۔ اللہ کے لیے برابر ہے جو انسان چھپاتے اور جو ظاہر کرتے ہیں۔ (الرعد : ١٠) ٥۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ غائب اور حاضر کو جانتا ہے۔ (الحشر : ٢٢) ٦۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے ؟ (البقرۃ : ٧٧) ٧۔ اللہ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔ ( الانعام : ٥٩) ٨۔ اللہ آسمانوں و زمین کے رازوں سے واقف ہے۔ (الفرقان : ٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل انما یوحی الی انما الھکم الہ واحد فھل انتم مسلمون (٢١ : ١٠٨) ترجمہ :۔ ” ان سے کہو ، میریپ اس جو وحی آتی ہے وہ یہ ہے کہ تمہارا خدا صرف ایک خدا ہے ، پھر کیا تم سر اطاعت جھکاتے ہو ؟ “ اس رسالت میں رحمت ہونے کا حقیقی عنصر ہی یہ کلمہ ہے۔ عقیدہ توحید جو انسانیتک و جاہلیت کے ادہام ، بت پرستی کے بوجھ اور خرافات اور رسومات کے بوجھ سے نجات دلاتا ہے۔ اس رسالت میں پوری زندگی کو اس مضبوط عقیدے کی بنیاد پر استوار کیا جاتا ہے۔ یوں یہ زندگی اس پوری کائنات سے ہم آہنگ ہوجاتی ہے۔ انسانیت اپنی زندگی انہی فطری قوانین پر استوار کرتی ہے جو ایک طرف اس کائنات میں جاری وساری ہیں اور دوسری طرف اسلامی نظام اور رسالت رحمت میں جاری ہیں۔ اس نظام کی روشنی میں ہر انسان کے لئے یہ موقع ہے کہ وہ اس کرہ ارض پر سر اٹھا کے چلے۔ اگر اس کا سر جھکے تو صرف خدائے واحد قہار و جبار کے آگے۔ نہ دنیا کے کسی قہار کے آگے۔ یہی ہے صحیح طریق زندگی۔ فھل انتم مسلمون (٢١ : ١٠٨) ” کیا تم سر تسلیم خم کرتے ہو۔ “ یہی ایک سوال ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مذاق کرنے والے مکذبین سے کرتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

توحید کی دعوت اور رو گردانی پر عذاب کی وعید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان رحمۃ للعالمین بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا کہ آپ ان لوگوں سے فرما دیں کہ میری طرف یہ وحی بھیجی گئی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک ہی ہے۔ یعنی صرف اللہ تعالیٰ ہی حقیقی اور واقعی معبود ہے۔ اس کے سوا کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ جو کوئی شخص توحید والے دین پر ہوگا جسے رحمۃ للعالمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارحم الراحمین جل مجدہ کی طرف سے لائے ہیں وہ دنیا و آخرت میں مورد الطاف ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں سے نوازا جائے گا۔ (فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ) (کیا تم ماننے والے ہو) یعنی تم اس بات کو مان لو تمہارا اسی میں بھلا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

86:۔ ” قُلْ اِنَّمَا یُوْحی الخ “ یہ توحید پر دلیل وحی ہے انبیاء (علیہم السلام) سے دلائل نقلیہ کے بعد دلیل وحی ذکر کی گئی۔ جس طرح انبیاء سابقین تمام مصائب و بلیات کے وقت صرف اللہ تعالیٰ ہی کو متصرف و کارساز سمجھتے اور صرف اسی کو پکارتے تھے سی طرح میری طرف بھی یہی وحی بھیجی گئی ہے کہ میرا اور تم سب کا معبود اور کارساز اور حاجت روا بھی اللہ ہی ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں جب میرا اور مجھ سے پہلے تمام انبیاء (علیہم السلام) کا یہی عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود اور کارساز نہیں اور اس کے سوا کوئی حاجت روا اور پکاریں سننے والا نہیں تو کیا اب بھی تم مانو گے یا نہیں ؟ استفہام سے مقصود طلب فعل ہے ای منقادون لتوحید اللہ تعالیٰ : ای فاسلموا کقولہ تعالیٰ ” فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ “ ای انتھوا (قرطبی ج 11 ص 350) ۔ استفہام یتضمن الامر باخلاص التوحید والانقیاد الی اللہ تعالیٰ (بحر ج 6 ص 344) ۔ تمام انبیاء (علیہم السلام) دعوت توحید اور رد شرک پر متفق ہیں اور انبیاء (علیہم السلام) کا اس پر اتفاق و اجماع اس کے حق ہونے پر بہت بڑی دلیل ہے۔ قال فی شرح المقاصد ان بعثۃ الانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام و صدقھم لا یتوقف علی الوحدانیۃ فیجور التمسک بالادلۃ السمیعۃ کا جماع الانبیاء (علیہم السلام) علی الدعوۃ الی التوحید ونفی الشریک وکالنصوص القطعیۃ من کتاب اللہ تعالیٰ علی ذلک (روح ج 17 ص 107) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(108) اے پیغمبر آپ فرما دیجئے کہ میری جانب تو صرف یہی وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود حقیقی صرف ایک ہی معبود ہے سو کیا تم بھی اس حکم کو مانتے ہو اور اس حکم کے فرمانبردار بنتے ہو ؟ یعنی جب اللہ تعالیٰ کی جانب سے حکم یہی آتا ہے اور اسلام کا منشاء اور دعویٰ یہی ہے کہ صرف ایک معبود حقیقی ہی کی پرستش کی جائے تو بتائو اب تم بھی توحید الٰہی کے قائل ہوکر اسلام کے پابند ہوتے ہو یا نہیں ؟ مطلب استفہام کا یہ ہے کہ اسلام لے آئو۔