Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 16

سورة الأنبياء

وَ مَا خَلَقۡنَا السَّمَآءَ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَا لٰعِبِیۡنَ ﴿۱۶﴾

And We did not create the heaven and earth and that between them in play.

ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو کھیلتے ہوئے نہیں بنایا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Creation was made with Justice and Wisdom Allah tells: وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاء وَالاَْرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لاَعِبِينَ We created not the heavens and the earth and all that is between them for play. Allah tells us that He created the heavens and the earth in truth, i.e. with justice. لِيَجْزِىَ الَّذِينَ أَسَاءُواْ بِمَا عَمِلُواْ وَيِجْزِى الَّذِينَ أَحْسَنُواْ بِالْحُسْنَى that He may requite those who do evil with that which they have done, and reward those who do good, with what is best. (53:31) He did not create all that in vain or for (mere) play: وَمَا خَلَقْنَا السَّمَأءَ وَالاٌّرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَـطِلً ذَلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُواْ مِنَ النَّارِ And We created not the heaven and the earth and all that is between them without purpose! That is the consideration of those who disbelieve! Then woe to those who disbelieve from the Fire! (38:27) لَوْ أَرَدْنَا أَن نَّتَّخِذَ لَهْوًا لاَّتَّخَذْنَاهُ مِن لَّدُنَّا إِن كُنَّا فَاعِلِينَ

آسمان وزمین کوئی کھیل تماشہ نہیں آسمان و زمین کو اللہ تعالیٰ نے عدل سے پیدا کیا ہے تاکہ بروں کو سزا اور نیکوں کو جزا دے ۔ اس نے انہیں بیکار اور کھیل تماشے کے طور پر پیدا نہیں کیا ۔ اور آیت میں اس مضمون کے ساتھ ہی بیان ہے کہ یہ گمان تو کفار کا ہے جن کے لئے جہنم کی آگ تیار ہے ۔ دوسری آیت کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اگر ہم کھیل تماشہ ہی چاہتے تو اسے بنالیتے ۔ ایک معنی یہ ہیں کہ اگر ہم عورت کرنا چاہتے ۔ لہو کے معنی اہل یمن کے نزدیک بیوی کے بھی آتے ہیں ۔ یعنی یہ دونوں معنے ہے اگر بیوی بنانا چاہتے تو حورعین میں سے جو ہمارے پاس ہے کسی کو بنا لیتے ۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اگر ہم اولاد چاہتے ۔ لیکن یہ دونوں معنی آپس میں لازم ملزوم ہیں ۔ بیوی کے ساتھ ہی اولاد ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( لَوْ اَرَادَ اللّٰهُ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰى مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۙ سُبْحٰنَهٗ ۭ هُوَ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ Ć۝ ) 39- الزمر:4 ) ، یعنی اگر اللہ کو یہی منظور ہوتا کہ اس کی اولاد ہو تو مخلوق میں کسی اعلیٰ درجے کی مخلوق کو یہ منصب عطا فرماتا لیکن وہ اس بات سے پاک اور بہت دور ہے ۔ اس کی توحید اور غلبہ کے خلاف ہے کہ اس کی اولاد ہو ۔ پس وہ مطلق اولاد سے پاک ہے نہ عیسیٰ اس کا بیٹا ہے نہ عزیر ۔ نہ فرشتے اس کی لڑکیاں ہیں ۔ ان عیسائیوں یہودیوں اور کفار مکہ کی لغویات اور تہمت سے اللہ واحد قہار پاک ہے اور بلند ہے ۔ آیت ( ان کنا فاعلین ) میں ان کو نافیہ کہا گیا ہے یعنی ہم یہ کرنے والے ہی نہ تھے ۔ بلکہ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ قرآن مجید میں ہر جگہ ان نفی کے لئے ہی ہے ۔ فرشتوں کا تذکرہ ہم حق کو واضح کرتے ہیں ، اسے کھول کر بیان کرتے ہیں جس سے باطل دب جاتا ہے ، ٹوٹ کر چورا ہوجاتا ہے اور فورا ہٹ جاتا ہے ۔ وہ ہے بھی لائق ، وہ ٹھہر نہیں سکتا نہ جم سکتا ہے نہ دیر تک قائم رہ سکتا ہے ۔ اللہ کے لئے جو لوگ اولادیں ٹھیرا رہے ہیں ان کے اس واہی قول کی وجہ سے ان کے لئے ویل ہے انہیں پوری خرابی ہے ۔ پھر ارشاد فرماتا ہے کہ جن فرشتوں کو تم اللہ کی لڑکیاں کہتے ہو ان کا حال سنو اور اللہ کی الوہیت کی عظمت دیکھو آسمان وزمین کی ہر چیز اسی کی ملکیت میں ہے ۔ فرشتے اس کی عبادت میں مشغول ہیں ۔ ناممکن ہے کہ کسی وقت سرکشی کریں نہ حضرت مسیح کو بندہ رب ہونے سے شرم ، نہ فرشتوں کو اللہ کی عبادت سے عار ، نہ ان میں سے کوئی تکبر کرے یا عبادت سے جی چرائے اور جو کوئی ایسا کرے تو ایک وقت آرہاہے کہ وہ اللہ کے سامنے میدان محشر میں سب کے ساتھ ہوگا اور اپنا کیا بھرے گا ۔ یہ بزرگ فرشتے اس کی عبادت سے تھکتے بھی نہیں ، گھبراتے بھی نہیں ، سستی اور کاہلی ان کے پاس بھی نہیں پھٹکتی ۔ دن رات اللہ کی فرماں برداری میں اس کی عبادت میں اس کی تسبیح واطاعت میں لگے ہوئے ہیں ۔ نیت اور عمل دونوں موجود ہیں ۔ اللہ کی کوئی نافرمانی نہیں کرتے نہ کسی فرمان کی تعمیل سے رکتے ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے مجمع میں تھے کہ فرمایا لوگو! جو میں سنتا ہوں کیا تم بھی سنتے ہو؟ سب نے جواب دیا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو کچھ بھی نہیں سن رہے ۔ آپ نے فرمایا میں آسمانوں کی چرچراہٹ سن رہا ہوں اور حق تو یہ ہے کہ اسے چرچرانا ہی چاہے اس لئے کہ اس میں ایک بالشت بھر جگہ ایسی نہیں جہاں کسی نہ کسی فرشتے کا سر سجدے میں نہ ہو ۔ عبداللہ حارث بن نوفل فرماتے ہیں میں حضرت کعب احبار رحمتہ اللہ علیہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس وقت میں چھوٹی عمر کا تھا میں نے ان سے اس آیت کا مطلب پوچھا کہ بولنا چالنا اللہ کا پیغام لے کر جانا عمل کرنا یہ بھی انہیں تسبیح سے نہیں روکتا ؟ میرے اس سوال پر چوکنے ہو کر آپ نے فرمایا یہ بچہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا بنوعبدالمطلب سے ہے آپ نے میری پیشانی چوم لی اور فرمایا پیارے بچے تسبیح ان فرشتوں کے لئے ایسی ہی ہے جیسے ہمارے لئے سانس لینا ۔ دیکھو چلتے پھرتے بولتے چالتے تمہارا سانس برابر آتا جاتا رہتا ہے ۔ اسی طرح فرشتوں کی تسبیح ہر وقت جاری رہتی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 بلکہ اس کے کئی مقاصد اور حکمتیں ہیں، مثلاً بندے میرا ذکر و شکر کریں، نیکوں کو نیکیوں کی جزا اور بدوں کو بدیوں کی سزا دی جائے۔ وغیرہ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] دنیا دار اور اللہ کی یاد سے غافل انسان ہمیشہ یہی سمجھتے رہے ہیں کہ یہ دنیا بس ایک کھیل تماشا ہے۔ ہم یہاں عیش و عشرت کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ اس لیے یہاں ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ جتنی عیش و عشرت اپنے لئے مہیا کرسکتا ہے اور جس طرح کرسکتا ہے، کرلے۔ گویا دنیا دار لوگوں کا منتہائے مقصود ہی یہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے بھی دنیا کو متعدد مقامات پر کھیل تماشا قرار دیا ہے مگر یہ بات صرف اس پہلو سے کہ یہ چند روزہ دنیا آخرت کے مقابلہ میں ایک کھیل تماشا کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ یہ تھوڑی مدت بعد فنا ہوجانے والی ہے اور آخرت کی زندگی دائمی اور پائیدار ہے لہذا تمہیں اپنی تمام تر توجہ دنیا پر مرکوز کرنے کے بجائے آخرت پر مرکوز کرنا چاہئے۔ یہاں اس مقام پر صرف دنیا کی زندگی پر نہیں بلکہ کائنات کے پورے نظام کے متعلق فرمایا جارہا ہے کہ یہ کچھ کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ جس میں اس دنیا کی زندگی بھی شامل ہے جو زمین و آسمان ہی کے سہارے قائم ہے۔ اور انسان کی تمام ضروریات زمین، ہوا، سورج اور بادلوں وغیرہ سے وابستہ ہیں۔ سمین میں اشرف المخلوقات یعنی انسان کو پیدا کیا تو صرف اس لئے نہیں کہ وہ اسے کھیل تماشا سمجھتے ہوئے جیسے چاہے یہاں زندگی گزار کر یہیں سے رخصت ہوجائے اور اس سے کچھ مواخذہ نہ ہو۔ خالق کائنات بسی یہی تماشا دیکھتا رہے کہ اس دنیا میں لوگ کیسے ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں اور وہ بس دیکھ کر اسے محض تفریح طبع کا ہی سامان سمجھتا رہے۔ جیسا کہ رومی اکھاڑے میں ہوتا تھا کہ انسانوں کا درندوں سے مقابلہ کرایا جاتا تھا اور درندے جس انداز سے انسانوں کو پھاڑ کھاتے تھے۔ بادشاہ اور اس کے درباری یہ منظر دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ اور یہ ان کی تفریح طبع کا سامان تھا۔ ایسی بات ہرگز نہیں۔ اگر اللہ کو محض تفریح طبع ہی منظور ہوتی تو اس کے کئی اور بھی طریقے ہوسکتے تھے جن میں ظلم و جور کا نام و نشان تک نہ ہوتا نہ ہی انسان جیسی کوئی ذی شعور اور صاحب ارادہ و اختیار کوئی مخلوق پیدا کرنے کی ضرورت تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ ۔۔ : پچھلی آیات میں ظالم بستیوں کو برباد کرنے کا ذکر فرمایا تھا، اب اس کی حکمت بیان فرمائی کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم نے اس زمین و آسمان کو کھیلتے ہوئے پیدا کردیا ہے کہ لوگ جیسے چاہیں ظلم و ستم کرتے پھریں اور ان سے کوئی باز پرس نہ ہو۔ بلکہ ان کے پیدا کرنے میں ہماری بیشمار حکمتیں اور مصلحتیں ہیں اور کائنات میں ہر عمل کی جزا یا سزا کا عمل جاری ہے۔ لہٰذا اگر ان ظالموں کو ہلاک کیا گیا تو یہ عدل و انصاف اور جزا و سزا کے قانون کے عین مطابق تھا۔ تمہیں چاہیے کہ آنے والی دوسری زندگی میں جو ابدہی کے لیے تیاری کرو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْ‌ضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ (And We did not create the heavens and the earth ... 21:16.) It means that we have not created the sky and the earth, and everything that lies in between them for mere amusement. In the preceding verses a reference has been made to the annihilation of certain settlements. In this verse there is a suggestion that just as the creation of the earth and the sky and all other created things was according to a set design, the destruction of the settlements was also the result of a definite purpose. Having witnessed the marvels and wonders of creation which are so abundantly spread all over, manifesting Allah&s omnipotence and omniscience, do they still think that all these things are futile and without significance? The word لَاعِبِينَ is taken from لِعَب (play), which means having no useful objective (Raghib) while لَھَو (pastime) means an act which has no purpose at all except to provide amusement in free time. The disbelievers who argue against the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the Holy Qur&an and reject the Oneness of Allah and deny His Power, despite its abundant manifestations, then it is apparent that they have a notion that all this creation is meant for amusement and pastime. The verse rejects this false view and says that Allah&s creation is not for fun and pastime. A little reflection will show that even the minutest particle of the universe has its utility and each and everything created by Allah has a purpose which speaks by itself for His omniscience and Oneness.

خلاصہ تفسیر اور (ہمارے یکتا ہونے پر ہماری مصنوعات دلالت کر رہی ہیں کیونکہ) ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے اس کو اس طور پر نہیں بنایا کہ ہم فعل عبث کرنے والے ہوں (بلکہ ان میں بہت سی حکمتیں ہیں جن میں بڑی حکمت توحید حق پر دلات ہے اور) اگر ہم کو (آسمان اور زمین کے بنانے سے کوئی حکمت مقصود نہ ہوتی بلکہ ان کو محض) مشغلہ ہی بنانا منظور ہوتا ( جس میں کوئی معتدبہ فائدہ مقصود نہیں ہوتا محض دل بہلانا منظور ہوتا ہے) تو ہم خاص اپنے پاس کی چیز کو مشغلہ بناتے (مثلاً اپنی صفات کمال کے مشاہدہ کو) اگر ہم کو یہ کرنا ہوتا (کیونکہ مشغلہ کو مشاغل کی شان سے مناسبت چاہئے تو کہاں ذات خالق کائنات اور کہاں یہ مصنوعات حادثہ البتہ صفات کو بوجہ قدیم اور لازم ذات ہونے کے باہم مناسبت سے سو جب بدلائل عقلیہ و اجماع اہل ملل اس کا بھی مشغلہ قرار دیا جانا محال ہے تو مصنوعات حادثہ میں تو کسی کو اس کا وہم بھی نہ ہونا چاہئے پس ثابت ہوا کہ ہم نے عبث یعنی فضول پیدا نہیں کیا) بلکہ اثبات حق اور ابطال باطل کے لئے پیدا کیا ہے اور) ہم (اس) حق بات کو (جس کے ثبوت پر مصنوعات دلالت کرتی ہیں اس) باطل بات پر (اس طرح غالب کردیتے ہیں جیسے یوں سمجھو کہ ہم اس کو اس پر) پھینک مارتے ہیں سو وہ (حق) اس (باطل) کا بھیجا نکال دیتا ہے (یعنی اس کو مغلوب کردیتا ہے) سو وہ (باطل مغلوب ہو کر) دفعتہ جاتا رہتا ہے (یعنی دلائل توحید جو ان مصنوعات سے حاصل ہوتے ہیں شرک کی بالکلیہ نفی کردیتے ہیں جس کی جانب مخالف کا احتمال ہی نہیں رہتا) اور (تم جو باوجود ان دلائل قاہرہ کے شرک کرتے ہو تو) تمہارے لئے اس بات سے بڑی خرابی ہے۔ جو تم (خلاف حق کے) گھڑتے ہو اور (حق تعالیٰ کی وہ شان ہے کہ) جتنے کچھ آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اسی کے (مملوک) ہیں اور (ان میں سے) جو اللہ کے نزدیک (بڑے مقبول و مقرب) ہیں ( ان کی بندگی کی یہ کیفیت ہے کہ) وہ اس کی عبادت سے عار نہیں کرتے اور نہ تھکتے ہیں (بلکہ) شب و روز (اللہ کی) تسبیح (و تقدیس) کرتے ہیں (کسی وقت) موقوف نہیں کرتے (جب ان کی یہ حالت ہے تو عام مخلوق تو کس شمار میں ہے پس لائق عبادت کے وہی ہے اور جب کوئی دوسرا ایسا نہیں تو پھر اس کا شریک سمجھنا کتنی بےعقلی ہے) کیا (باوجود ان دلائل توحید کے) ان لوگوں نے خدا کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں ( بالخصوص) زمین کی چیزوں میں سے (جو کہ اور بھی ادنی تر اور نازل تر ہیں جیسے پتھر یا معدنیات کے بت) جو کسی کو زندہ کرتے ہیں (یعنی جو جان بھی نہ ڈال سکتا ہو ایسا عاجز کب معبود ہونے کے قابل ہوگا اور) زمین (میں یا) آسمان میں اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور معبود (واجب الوجود) ہوتا تو دونوں (کبھی کے) درہم برہم ہوجاتے (کیونکہ عادة دونوں کے ارادوں اور افعال میں تزاحم ہوتا، ایک دوسرے سے ٹکراتے اور اس کے لئے فساد لازم ہے لیکن فساد واقع نہیں ہے اس لئے متعدد معبود بھی نہیں ہو سکتے) سو (ان تقریرات سے ثابت ہوا کہ) اللہ تعالیٰ جو کہ مالک ہے عرش کا ان امور سے پاک ہے جو کچھ یہ لوگ بیان کر رہے ہیں (کہ نعوذ باللہ اس کے اور شرکاء بھی ہیں حالانکہ اس کی ایسی عظمت ہے کہ) وہ جو کچھ کرتا ہے اس سے کوئی باز پرس نہیں کرسکتا اور اوروں سے باز پرس کی جاسکتی ہے (یعنی اللہ تعالیٰ باز پرس کرسکتا ہے پس کوئی عظمت میں اس کا شریک نہیں ہوا پھر معبودیت میں کوئی کیسے شریک ہوسکتا ہے، یہاں تک تو بطور ابطال اور نقص و استلزام محال کے کلام تھا آگے بطور سوال اور منع کے کلام ہے کہ) کیا خدا کو چھوڑ کر انہوں نے اور معبود بنا رکھے ہیں ( ان سے) کہئے کہ تم اپنی دلیل (اس دعویٰ پر) پیش کرو (یہاں تک تو سوال اور دلیل عقلی سے شرک کا ابطال تھا آگے دلیل نقلی سے استدلال ہے کہ) یہ میرے ساتھ والوں کی کتاب (یعنی قرآن) اور مجھ سے پہلے لوگوں کی کتابیں (یعنی توراة و انجیل و زبور) موجود ہیں ( جن کا صدق اور منزل من اللہ ہونا دلیل عقلی سے ثابت ہے اور اوروں میں گو تحریف ہوئی ہے مگر قرآن میں تحریف کا احتمال نہیں، پس جو مضمون ان کتب کا قرآن کے مطابق ہوگا وہ یقینا صحیح ہے اور ان سب دلائل مذکورہ کا مقتضا یہ تھا کہ یہ لوگ توحید کے قائل ہوجاتے لیکن پھر بھی قائل نہیں) بلکہ ان میں زیادہ وہی ہیں جو امر حق کا یقین نہیں کرتے سو (اس وجہ سے) وہ (اس کے قبول کرنے سے) اعراض کر رہے ہیں اور (یہ توحید کوئی جدید بات نہیں جس سے تو خوش ہو بلکہ شرع قدیم ہے چنانچہ) ہم نے آپ سے پہلے کوئی ایسا پیغمبر نہیں بھیجا جس کے پاس ہم نے یہ وحی نہ بھیجی ہو کہ میرے سوا کوئی معبود (ہونے کے لائق) نہیں پس میری (ہی) عبادت کیا کرو اور یہ (مشرک) لوگ (جو بیں ان میں بعضے) یوں کہتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ نے (فرشتوں کو) اولاد بنا رکھی ہے (توبہ توبہ) وہ (اللہ تعالیٰ اس سے) پاک ہے (اور وہ فرشتے اس کی اولاد نہیں ہیں) بلکہ (اس کے) بندے ہیں (ہاں) معزز (بندے ہیں اسی سے بےعقلوں کو اشتباہ ہوگیا اور ان کی عبدیت اور محکومیت اور ادب کی یہ کیفیت ہے کہ) وہ اس سے آگے بڑھ کر بات نہیں کرسکتے (بلکہ منتظر حکم رہتے ہیں) اور وہ اسی کے حکم کے موافق عمل کرتے ہیں (اس کے خلاف نہیں کرسکتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ) اللہ تعالیٰ ان کے اگلے پچھلے احوال کو (خوب) جانتا ہے (پس جو حکم ہوگا اور جب حکم ہوگا موافق حکمت کے ہوگا اس لئے نہ عملی مخالفت کرتے ہیں نہ قولی مسابقت کرتے ہیں) اور (ان کے ادب کی یہ کیفیت ہے کہ) وہ بجز اس (شخص) کے جس کے لئے (شفاعت کرنے کی) اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو اور کسی کی سفارش نہیں کرسکتے اور وہ سب اللہ تعالیٰ کی ہیبت سے ڈرتے رہتے ہیں اور (یہ تو بیان تھا ان کی مغلوبیت اور محکومیت کا آگے بیان ہے اللہ تعالیٰ کی غالبیت اور حاکمیت کا، گو حاصل دونوں کا متقارب ہے یعنی) ان میں سے جو شخص (بالفرض) یوں کہئے کہ (نعوذ باللہ) میں علاوہ خدا کے معبود ہوں سو ہم اس کو سزائے جہنم دیں گے (اور) ہم ظالموں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں (یعنی خدا کا ان پر پورا بس ہے جیسے اور مخلوقات پر، پھر وہ خدا کی اولاد جس کے لئے خدا ہونا ضروری ہے کیسے ہو سکتے ہیں۔ ) معارف ومسائل وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لٰعِبِيْنَ ، یعنی ہم نے آسمان اور زمین اور ان دونوں کے درمیان کی چیزوں کو لعب اور کھیل کے لئے نہیں بنایا۔ پچھلی آیتوں میں بعض بستیوں کو تباہ و ہلاک کرنے کا ذکر آیا تھا اس آیت میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ جس طرح زمین و آسمان اور ان کی تمام مخلوقات کی تخلیق بڑی بڑی اہم حکمتوں اور مصلحتوں پر مبنی ہے جن بستیوں کو تباہ کیا گیا ان کا تباہ کرنا بھی عین حکمت تھا، اس مضمون کو اس آیت میں تعبیر اس طرح کیا گیا کہ یہ توحید یا رسالت کے منکر کیا ہماری قدرت کاملہ اور علم و بصیرت کی ان نمایاں نشانیوں کو جو زمین و آسمان کی تخلیق میں اور تمام مخلوقات کی صنعت گری میں مشاہدہ کی جا رہی ہیں دیکھتے سمجھتے نہیں یا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے یہ سب چیزیں فضول ہی محض کھیل کے لئے پیدا کی ہیں۔ لٰعِبِيْنَ ، لعب سے مشتق ہے، لعب ایسے کام کو کہا جاتا ہے جس سے کوئی صحیح مقصد متعلق نہ ہو (راغب) اور لہو اس کام کو کہتے ہیں جس سے کوئی صحیح یا غلط مقصد ہی نہ ہو خالی وقت گزاری کا مشغلہ بنایا جائے منکرین اسلام جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن پر اعتراض اور توحید کا انکار کرتے ہیں، قدرت حق کی ان عظیم الشان نشانیوں کے باوجود نہیں مانتے تو ان کا یہ عمل گویا اس کا دعویٰ ہے کہ یہ سب چیزیں فضول ہی کھیل کے لئے بنائی گئی ہیں، ان کے جواب میں یہ ارشاد ہوا کہ یہ کھیل اور فضول نہیں ذرا بھی غور و فکر سے کام لو تو کائنات کے ایک ایک ذرہ میں اور قدرت کی ایک ایک صنعت میں ہزاروں حکمتیں ہیں اور سب کی سب معرفت حق سبحانہ اور اس کی توحید کے خاموش سبق ہیں۔ ہر گیا ہے کہ از زمین روید وحدہ لاشریک لہ گوید

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَہُمَا لٰعِبِيْنَ۝ ١٦ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے لعب أصل الکلمة اللُّعَابُ ، وهو البزاق السائل، وقد لَعَبَ يَلْعَبُ لَعْباً «1» : سال لُعَابُهُ ، ولَعِبَ فلان : إذا کان فعله غير قاصد به مقصدا صحیحا، يَلْعَبُ لَعِباً. قال : وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت/ 64] ، ( ل ع ب ) اللعب ۔ اس مادہ کی اصل لعاب ہے جس کے معنی منہ سے بہنے والی رال کے ہیں اور ننعب ( ف) یلعب لعبا کے معنی لعاب بہنے کے ہیں لیکن لعب ( س ) فلان یلعب لعبا کے معنی بغیر صحیح مقصد کے کوئی کام کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت/ 64]

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦) اور ہم نے زمین و آسمان اور تمام مخلوقات کو اس طرح نہیں بنایا کہ ہم فضول کام کرنے والے ہوں کہ اوامرو نواہی کی کوئی ضرورت نہ ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ (وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا لٰعِبِیْنَ ) ” یعنی ہم نے یہ دنیا کھیل تماشے اور شغل کے لیے نہیں بنائی ہے۔ ہماری ہر تخلیق بامقصد اور اٹل قوانین پر مبنی ہے۔ اسی طرح دنیا میں قوموں کے عروج وزوال کے بارے میں بھیُ ” سنتّ اللہ “ اور قواعد و ضوابط بالکل غیرمبدلّ اور ناقابل تغیر ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

15. This was to refute their entire conception of life which was based on the assumption that man was free to do whatever he liked, and there was none to call him to account or take him to task: that there was no life in the Hereafter where one’s good deeds would be rewarded and evil deeds punished. In other words, this meant that the whole universe had been created without any serious purpose and therefore there was no need to pay any heed to the message of the Prophet.

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :15 یہ تبصرہ ہے ان کے اس پورے نظریۂ حیات پر جس کی وجہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر توجہ نہ کرتے تھے ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ انسان دنیا میں بس یونہی آزاد چھوڑ دیا گیا ہے ۔ جو کچھ چاہے کرے اور جس طرح چاہے جیے ، کوئی باز پرس اس سے نہیں ہونی ہے ۔ کسی کو اسے حساب نہیں دینا ہے ۔ چند روز کی بھلی بری زندگی گزار کر سب کو بس یونہی فنا ہو جانا ہے ۔ کوئی دوسری زندگی نہیں ہے جس میں بھلائی کی جزا اور برائی کی سزا ہو ۔ یہ خیال درحقیقت اس بات کا ہم معنی تھا کہ کائنات کا یہ سارا نظام محض کسی کھلنڈڑے کا کھیل ہے جس کا کوئی سنجیدہ مقصد نہیں ہے ۔ اور یہ خیال دعوت پیغمبر سے ان کی بے اعتنائی کا اصل سبب تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: جو لوگ دنیا کے بعد آخرت کی زندگی کا انکار کرتے ہیں، در حقیقت ان کے دعوے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات یونہی کسی مقصد کے بغیر ایک کھیل بنا کر پیدا کردی ہے، اور جو کچھ اس دنیا میں ہو رہا ہے، اس کو کائی نتیجہ بعد میں ظاہر ہونے والا نہیں ہے، نہ کسی شخص کو اس کی نیکی کا کوئی صلہ ملے گا، اور نہ کسی ظالم اور بدکار کو اس کے گناہ کی سزا ملے گی۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی بات کی نسبت بہت بڑی گستاخی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٦۔ ١٨:۔ مشرکین مکہ نے جس طرح ملت ابراہیمی کی اور باتوں کو دل سے بھلا دیا تھا ‘ اسی طرح حشر اور قیامت کے مسئلہ کو بھی بھلا دیا تھا۔ اس لیے قرآن شریف میں حشر اور قیامت کی باتیں سن کر وہ طرح طرح کی عقبی بحث کرتے تھے ‘ چناچہ ایک شخص ابی بن خلف ایک روز ایک پرانی گلی ہوئی ہڈی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روبرو لایا اور اس ہڈی کو مل مل کر ہڈی کی راکھ ہوا میں اڑاتا جاتا تھا ‘ اور کہتا تھا ‘ کیا یہ راکھ محمد کا خدا پھر زندہ کرے گا ‘ اس قصہ کا ذکر مفصل سورة یس میں آوے گا اور اسی طرح کی بہت عقلی بحثیں ان لوگوں کی قرآن شریف میں کئی جگہ ہیں ‘ اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں اور بہت سی قرآن کی آیتوں میں ان کو قلی طور پر سمجھایا ہے کہ آسمان زمین اور جو کچھ دنیا کی چیزیں ہیں ‘ اللہ تعالیٰ نے انسان کی راحت اور آسائش اور رفع ضرورت کے لیے وہ سب پیدا کی ہیں ‘ آسمان سے مینہ کی ضرورت کے وقت مینہ برساتا ہے جس سے ہر طرح کی چیز زمین میں پیدا ہوتی ہیں ‘ دھوپ کے وقت دھوپ پڑتی ہے جس سے ہر طرح کی پیداوار پک کر تیار ہوجاتی ہے ‘ زمین میں ہر طرح کی پیداوار کی قوت اور تاثیر اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے جس سے انسان کے کھانے ‘ پینے ‘ اوڑھنے ‘ بچھانے ‘ پہننے ‘ مکان بنانے کی سب طرح کی ضرورتیں رفع ہوتی ہیں ‘ زمین کے جمنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے زمین کسی طرح کی ضرورت سے انسان کو جانا مشکل نہ ہو۔ غرض جس انسان کی ضرورت کے لیے یہ سب کچھ پیدا کیا گیا ہے باوجود عقل وتمیز کے کیا وہ انسان حیوانوں کی طرح عبث اور بےفائدہ پیدا ہوا ہے ‘ کہ جب تک جیئے کھائے پییٔے اور ایک دن مر کر خاک ہوجاوے ‘ بس پھر کچھ بھی نہیں ‘ ادنی سی عقل کا آدمی دنیا میں کوئی کام کرتا ہے تو کوئی مقصد اس کام کے کرنے سے اپنے دل میں ضرور ٹھان لیتا ہے مثلا کھیتی کرتا ہے ‘ تو اناج کے حاصل ہونے کے مقصد سے باغ لگاتا ہے تو میوہ کھانے کے مطلب سے ‘ مکان بناتا ہے تو رہنے کی نیت سے ‘ وہ خالق جس نے عقل اور عقل والوں سب کو پیدا کیا۔ اس کے دنیا کی پیدائش جیسے بڑے کام کو یہ لوگ کس سمجھ اور عقل سے بےفائدہ اور بےمقصد ٹھہراتے ہیں ‘ ذرا بھی یہ لوگ اپنی عقل کو کام میں لاویں گے تو ان کی سمجھ میں آجاوے گا کہ ان کا ان کی ضرورت کی چیزوں کا پیدا کرنے والا کوئی ہے اور اس کا احسان ان پر ایسا بڑا ہے کہ اس نے ان کو نیست سے ہست کردیا ‘ ان کی ہر طرح کی ضرورت کی چیزیں مہیا کیں اس قدر سمجھ جانے کے بعد خود ان کا دل گواہی دے گا کہ جس نے ان پر اتنا بڑا احسان کیا ہے اس کی فرمانبرداری اس کی نہایت درجہ کی تعظیم ان کے اوپر واجب اور ضرور ہے ‘ اس پہلی چیز عقل سے بھی دریافت ہوسکتی ہے ‘ دوسری اور تیسری چیز محض عقل سے نہیں معلوم ہوسکتی کیونکہ عقل میں اتنی قدرت اور طاقت نہیں ہے کہ وہ اپنی طرف سے فرمانبرداری اور تعظیم کے طریقے ایجاد کرلے جس کی فرمانبرداری اور جس کی تعظیم ہے جب تک وہ نہ بتادے کہ کون سی قسم کی فرمانبرداری اور کس قسم کی تعظیم اس کی مرضی کے موافق ہے۔ پرائی مرضی کا حال عقل کیا جان سکتی ہے ‘ غرض دوسری اور تیسری بات کے جان لینے کے لیے کسی راہبر کی ضرورت ہے ‘ ان ہی راہبروں کا نام پیغمبر ہے ‘ اور طریقہ راہبری کا نام شریعت ہے اب رہی یہ بات کہ جس خدا نے اپنی فرمانبرداری اور تعظیم سے پہلے انسان پر اس کی ضرورت کی چیزوں کے پیدا کرنے کا احسان کیا ہے جو شخص اس کی فرمانبرداری اور اس اس کی تعظیم کرے گا کیا اس سے وہ خوش ہو کر کچھ انعام اس کو نہ دے گا اور جو اس کی مرضی کے موافق کام نہ کرے گا اس کو وہ کچھ سزا نہ دے گا ‘ یہ عقلی تجربہ کے بالکل برخلاف ہے کیونکہ یہ بات ہر شخص کی آنکھوں کے روبرو ہے کہ کسی بادشاہ کے دربار میں فرمانبردار اور نافرمان رعیت کا ایک حال نہیں ہے فرمانبردار رعیت کو انعام اور خلعت ملتے ہیں نافرمان رعیت سے جیل خانے بھرے جاتے ہیں ‘ گردنیں ماری جاتی ہیں پھر خدا کی طرف کی جزا وسزا یہیں دنیا میں ہوجاتی تو دنیا کی زیست کو قیام نہیں ہوتا اس واسطے جزا وسزا کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے دوبارہ انسان کا پھر زندہ کرنا قرار دیا ہے ‘ اسی کا نام حشر ہے اور جس روز یہ جزا اللہ تعالیٰ تجویز فرماوے گا اس دن کا نام قیامت ہے اور جب اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے ایک دفعہ انسان کو پیدا کرچکا ہے تو دوسری دفعہ انسان کا پھر پیدا کرنا تجربہ عقلی سے اس کو سہل اور آسان ہے ‘ کوئی دلیل عقلی اس دوسری دفعہ پیدا کرنے کے ناممکن ہونے کی اب تک نہ قائم ہوئی ہے نہ آئندہ کوئی عقل مند قائم کرسکتا ہے ‘ یہ بہت سی ان آیتوں کا حاصل مطلب ہے جن آیتوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں جگہ جگہ مشرکین کی عقلی بحثوں کے جواب میں نازل فرمایا ہے اور اس حاصل مطلب سے توحید کی ضرورت ‘ نبوت کی ضرورت ‘ شریعت کی ضرورت ‘ حشر کی ضرورت ‘ قیامت ‘ سب کچھ اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ عقل کو بنظر انصاف کسی چیز کے انکار کی گنجائش کسی طرح باقی نہیں رہتی ‘ ان ہی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی غلطی کو بھی بیان فرمایا ہے ‘ جو حضرت عیسیٰ اور حضرت عزیر ( علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا اور فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے ‘ وہ بیان بھی ایسا ہے کہ کوئی عقلمند اس کے ماننے میں شبہ نہیں کرسکتا۔ مگر سورة المائدہ میں گزرا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کھایا کرتے تھے ‘ اب جس کی ذات میں اتنا تغیر ہو کہ ہر روز کی غذا سے اس کا خون ‘ گوشت سب کچھ بڑھتا رہے اسے اللہ تعالیٰ کی ذات سے کچھ مناسبت نہیں ‘ حالانکہ باپ بیٹے میں مناسبت ضرور ہے ‘ یہی حال عزیر (علیہ السلام) کا ہے ‘ اسی طرح اللہ کی عظمت کے آگے فرشتے عاجزی سے جس طرح ہر وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگے رہتے ہیں ‘ اس کا ذکر آگے آتا ہے ‘ پھر ان میں سے کسی کو اللہ کی اولاد کیوں کر ٹھہرایا جاسکتا ہے ’ علم کلام کی کتابوں میں جس کو ” علم عقائد “ کہتے ہیں ‘ یہ جو لکھا ہے کہ ہر ایک شخص پر دلیل عقلی سے خدا کا پہچاننا فرض ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ جو شخص ان قاعدوں کے موافق خدا کو نہ پہچانے جو قاعدے علم کلام والوں نے صفات الٰہی عین ذات ہیں یا غیر ہیں اور پھر وہ سب صفات ایک ہیں یا علیحدہ علیحدہ ہیں اور اس طرح اور پیچیدہ چند قاعدے جو ہیں ‘ ان قاعدوں کے سیکھنے اور جاننے تک آدمی کا ایمان صحیح نہیں ہوتا ‘ یہ علم کلام کی ایسی سب باتیں ابو ہاشم ١ ؎ معتزلی کی ایجاد کی ہوئی ہیں۔ عقل سے خدا کو پہچاننے کی چند آیتوں کا مطلب جو اوپر بیان ہوا ہے یا اس قسم کی حدیثیں جو کچھ ہیں وہ فقط ان مشرکوں کی عقلی حجتوں کے جواب میں ہیں جو شرک پر اڑے ہوئے تھے اور توحید کے ماننے میں طرح طرح کی عقلی حجتیں پیش کرتے تھے اب بھی کوئی ایسا حجتی ہو تو اس کو اس قسم کی آیتوں یا حدیثوں سے قائل کرنے کا مضائقہ نہیں مگر جس شخص نے بغیر حجت کے کلمہ شہادت ادا کرلیا ‘ اس کو بغیر ابوہاشم کی نکالی ہوئی باتوں کے سیکھنے کے ناقص الایمان کہنا بڑا ظلم ہے یوم المیثاق میں نہ خدا تعالیٰ نے ان علم کلام کی باتوں سے اپنی شناخت کرائی ‘ نہ حضرت جبرئیل جب ایک سائل بن کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لوگوں کو ایمان سکھانے آئے تو انہوں نے ان باتوں کا ذکر کیا ‘ نہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کے زمانہ میں یہ باتیں ایمان کی شرط قرار پائیں ‘ سینکڑوں ہزاروں دیہاتی عرب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کے زمانہ میں فقط کلمہ شہادت ادا کرکے اور کچھ معمولی نماز روزہ کے مسائل سیکھ کر اپنے اپنے گاؤں کو چلے جاتے تھے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ (رض) ان کو مسلمان گنتے تھے ‘ بعض اہل علم کلام والوں نے اس کا یہ جواب جو دیا ہے کہ زمانہ ابتدائے اسلام میں اس طرح کا معمولی ایمان جائز تھا اب جائز نہیں ہے ‘ یہ بالکل ایک غلط جواب ہے دین وہی ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ (رض) کے زمانہ میں اس کی ضرورت نہ تھی ‘ اب ضرورت ہے اسی کا نام بدعت ہے اور آنحضرت کے زمانہ میں جو لوگ ایمان لائے اور برکت صحبت رسول سے صحابیت کے درجے کو پہنچے ان کے ایمان کو ایک معمولی ایمان بتلانا اور اپنے ایمان کو درجہ معمولی سے بڑھ کر ایک اعلی درجہ کا ایمان شمار کرنا ایک بڑی جرأت کی بات ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جس طرح فقہ میں چار مذہب حنفی ‘ شافعی ‘ مالکی ‘ حنبلی مشہور ہیں اسی طرح عقائد میں تین مذہب حنابلہ ‘ اشاعرہ ‘ ماتریدیہ مشہور ہیں ‘ حنابلہ لوگوں کی نسبت امام احمد بن حنبل (رح) سے ہے ‘ اور اشاعرہ لوگوں کی نسبت ابوالحسن اشعری سے ہے ٢ ؎۔ جو ابو موسیٰ اشعری ایک مشہور صحابی کی اولاد میں ہیں اور ماتریدیہ لوگوں کی نسبت ابو المنصور ماتریدی ہے ٣ ؎۔ سلف کے قول سے زیادہ مطابقت حنابلہ لوگوں کے قاعدوں میں پائی جاتی ہے۔ سلف نے اس طرح کے عقلی علم عقائد کے پڑھنے لکھنے کو منع لکھا ہے اور یہ کہا ہے کہ اس طرح کے عقلی علم عقائد سے بجائے عقیدہ کے مضبوط ہونے کے آدمی کا اور شک بڑھ جاتا ہے اور سچ بھی ہے ‘ سب آدمیوں کا اور شک بڑھ جاتا ہے اور سچ بھی ہے ‘ سب آدمیوں کی عقل ایک سی نہیں ہوتی ‘ کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ اس لیے ہر عقلی بات شک سے خالی نہیں ہوتی ‘ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) سے اور صحیح مسلم میں حضرت عمر (رض) سے جو روایتیں ہیں ٤ ؎۔ ان کا حاصل یہ ہے کہ ایک دن ایک شخص آیا اور اس نے دین کی چند باتیں اللہ تعالیٰ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھیں ‘ جب اس شخص نے پوچھا کہ ایمان کیا چیز ہے تو اللہ کے رسول نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں کو دیکھ کر آدمی اللہ تعالیٰ کی ہستی کا یقین کرے اور جب ان چیزوں کے پیدا کرنے میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے تو خالص اسی کی عبادت انسان پر واجب ہے دین کی چند باتیں پوچھ کر جب وہ شخص چلا گیا تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ جبرئیل (علیہ السلام) تھے اللہ کے حکم سے تم لوگوں کو دین سکھانے آئے تھے ‘ اس صحیح حدیث کے ٹکڑے سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے کہ اللہ کے حکم سے جبرئیل (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی پہچان کا جو طریقہ صحابہ کو سکھایا ہے اور صحابہ (رض) کی روایتوں سے وہی طریقہ امت میں پھیلا ہے ‘ اس طریقہ میں علم کلام کے قاعدوں کا کچھ دخل نہیں ہے ٥ ؎۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت سے حدیث قدسی کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو لوگ اپنی پہلی پیدائش آنکھوں سے دیکھ کر دوسری دفعہ کی پیدائش سے منکر ہیں ‘ وہ نادانی سے اللہ کو جھٹلاتے ہیں اور جو لوگ اللہ کو صاحب اولاد ٹھہراتے ہیں ان کی جرأت گویا گالی دینے کے برابر ہے کیونکہ باپ اور اولاد میں جو مناسبت اور مشابہت ہوتی ہے خالق اور مخلوق میں وہ نہیں پائی جاتی ‘ پھر زبردستی اللہ کی ذات میں اس مناسبت کا پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کی ذات کو بٹہ لگانا ہے جو گالی کے برابر ہے ‘ اس حدیث سے منکرین حشر کی اور اللہ تعالیٰ کو صاحب اولاد ٹھہرانے والوں کی جرأت کی تفسیر اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے پھر فرمایا اگر اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسی کو اولاد ٹھہراتا تو فرشتوں میں سے ٹھہراتا جو کھانے پینے سے پاک اور پہلے صور تک زندہ رہنے والے ہیں ‘ اس کے بعد قرآن کی ان سچی باتوں کو ایک پہاڑ اور مشرکوں کی ان جھوٹی باتوں کو ایک شخص قرار دے کر فرمایا کہ ان سچی باتوں کے پہاڑ کو پھینک مارنے سے آخر ایک دن ان جھوٹی باتوں کا سر کچل جائے گا اور یہ جھوٹی باتیں مکہ میں باقی نہ رہیں گی اور جو لوگ مرتے دم تک ان جھوٹی باتوں سے باز نہ آویں گے مرنے کے بعد بڑی بڑی آفت اور برائی میں پڑجاویں گے ‘ صحیح بخاری کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود (رض) اور صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایتیں فتح مکہ کے قصہ میں کئی جگہ گزر چکی ہیں کہ اس وقت اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کے مشرکوں کے بتوں کو اپنے ہاتھ کی لکڑی سے مار مار کر گرایا اور فرمایا سچ آیا اور جھوٹ بھاگا آخری آیت میں جھوٹ کا سر پھوٹ جانے اور اس کے سٹک جانے کا جو وعدہ ہے اس کا ظہور ان حدیثوں سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کیونکہ اگر وہ بت انسان ہوتے تو لکڑیوں کی مار سے اور زمین پر پٹخے جانے سے ان کے سر کو صدمہ پہنچتا ٦ ؎۔ صحیح بخاری ومسلم میں نعمان بن بشیر (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ قیامت کے دن کم سے کم دوزخ کا عذاب یہ ہوگا کہ دوزخی شخص کے پاؤں میں آگ کی جوتیاں پہنا دی جاویں گی جس سے اس کا بھیجا کھل کر نکل پڑے گا ‘ آیتوں میں جس عذاب کو خرابی فرمایا ہے ‘ اس کا اندازہ اس حدیث سے کیا جاسکتا ہے۔ ١ ؎ ایک مشہور بدعتی فرقہ معتزلہ کا ایک ممتاز عالم عبدالسلام بن محمد متوفی ٣٢١ ھ ٢ ؎ امام علی بن اسمیٰعل الاشعری متوفی ٣٢٤ ھ ٣ ؎ محمد بن محمود ماتریدی متوفی ٣٣٣ ھ۔ ٤ ؎ مشکوٰۃ۔ کتاب الایمان ’ حدیث اول۔ ٥ ؎ مشکوٰۃ ص ١٢۔ کتاب الایمان۔ ٦ ؎ مشکوٰۃ ‘ باب صفۃ اہل النا رواہلہا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:16) لعبین۔ اسم فاعل جمع مذکر لاعب واحد۔ لعب لعب وتلعاب مصدر۔ کھیلنے والے۔ بیکار کام کرنے والے۔ لعب حاصل مصدر بھی ہے بمعنی کھیل۔ لعبۃ گڑیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 کہ لوگ جیسے چاہیں ظلم و ستم کرتے پھریں اور ان سے باز پرس نہ ہو بلکہ ان کے پیدا کرنے سے اللہ تعالیٰ کی گونا گوں مصلحتیں اور حکمتیں وابستہ ہیں اور دنیا میں قانون مکافات جاری ہے۔ لہٰذا ان ظالموں کو اگر ہلاک کیا گیا تو عین عدل و مجازات کے مطابق تھا۔ تمہیں چاہیے کہ دوسری آنے والی زندگی میں جوابدہی کے لئے تیاری کرو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ بلکہ ان میں بہت سی حکمتیں ہیں جن میں اعظم دلالت علی التوحید ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : پہلی اقوام کی تباہی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ہلاک ہونے والے سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو کھیل تماشا کے طور پر بنایا ہے اور دنیا ہمیشہ اس طرح ہی رہے گی۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا ہلاک ہونے والے لوگ فکری یا عملی طور پر سمجھتے تھے کہ اس دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی تفریح یا محض اپنی قدرت کے اظہار کے طور پر پیدا کیا ہے۔ دنیا کی تو کوئی انتہا نہیں اور نہ اس کا انجام۔ اسی اعتقاد کی وجہ سے وہ لوگ دنیا پر اس قدر راضی اور قانع ہوئے کہ انھوں نے اپنے اور زمین و آسمان کے خالق کو نا صرف یکسر طور پر فراموش کردیا بلکہ اس کی بغاوت کرنے میں انتہا کردی۔ جس کے نتیجہ میں انھیں اس دنیا میں ہی عبرت کا نشانہ بننا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے اعتقاد اور کردار کی نفی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم نے زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو کچھ پیدا کیا ہے اسے کھیل تماشہ کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ اگر ہماری منشاء یہ ہوتی تو ہم یہ تماشہ اپنے پاس عرش معلی پر کرتے۔ اس کائنات کو بنانے اور انسان کو پیدا کرنے کا مقصد تو یہ ہے کہ سچ اور جھوٹ، کھرے اور کھوٹے، حق اور باطل میں امتیاز ہوجائے۔ اسی لیے دنیا میں حق و باطل کے معرکے ہوئے اور قیامت تک برپا ہوتے رہیں گے۔ اس معرکہ آرائی میں حق پرست ثابت قدمی دکھائیں تو بالآخر حق کی فتح ہوتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ حق کو باطل پر غالب کرتا ہے۔ یہاں تک کہ باطل دب جاتا ہے۔ جو لوگ جھوٹ اور باطل کی حمایت کرتے ہیں ان کا انجام خرابی اور بربادی ہی ہوا کرتا ہے۔ حق و باطل کے معرکہ میں، حق کے غالب آنے کی جو گارنٹی دی گئی ہے اس کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ بیشک باطل بظاہر کتنے کروّفر کے ساتھ ترقی کر رہا ہو اور اس کے باوجود حق فکری عملی طور پر اپنا آپ منوا کر رہتا ہے۔ اس سلسلہ میں انبیائے کرام (علیہ السلام) کی مثال ہمارے سامنے ہے جو لوگ انبیاء کے جھوٹا ہونے کا پراپیگنڈہ کرتے تھے۔ نجی مجالس میں وہ بھی ان کی سچائی اور امانت کا اقرار کرتے تھے۔ جنھوں نے حق کو دبانے کی کوشش کی وہ بھی دلائل کی بنیاد پر حق کو جھوٹ ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو یوں بھی بیان فرمایا ہے کہ ” اللہ “ نے اپنے رسول کو دین اور ہدایت کے ساتھ اس لیے بھیجا تاکہ باطل ادیان پر اسے غالب کر دے۔ غلبہ سے حقیقی مراد دلائل کی بنیاد پر غلبہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دلیل کی بناء پر کوئی شخص دین کی کسی بات اور اصول کو ناقابل عمل یا غلط ثابت نہیں کرسکتا یہ اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے۔ بیشک کفار اور مشرکین کے لیے یہ بات کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔ (الصٰفٰت : ٨، ٩) جہاں تک حق کے غلبہ کا تعلق ہے تاریخ اسلام میں بدر و حنین کے معرکے اس بات کا واضح ثبوت ہیں۔ البتہ مسلمانوں کو اسی وقت ہی غلبہ نصیب ہوگا جب وہ اخلاص کے ساتھ اجتماعی طور پر اسلام کے ساتھ عملاً وابستہ ہوں گے۔ جس کے لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مسلمانوں بےدل نہ ہونا اور نہ غم کرنا اگر تم مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔ (آل عمران : ١٣٩) (اَلْاِسْلَامُ یَعْلُوْ وَلَا یُعْلٰیٰ ) [ ارواء الغلیل حدیث نمبر : ١٢٦٨] ” اسلام غالب آئے گا اور اس پر کوئی غالب نہیں آئے گا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسے کھیل تماشا کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ حق کو باطل پر غالب کرتا ہے۔ ٣۔ باطل کی حمایت کرنے والوں کے لیے بربادی ہے۔ تفسیر بالقرآن حق غالب رہنے کے لیے آیا ہے : ١۔ حق ہمیشہ غالب رہے گا۔ (الانبیاء : ١٨) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حق غالب رہنے کے لیے نازل کیا ہے۔ (الصّٰفّٰت : ٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ حق کو باطل پر مسلط کرتا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨١) ٤۔ مسلمان غالب ہوں گے بشرطیکہ ایماندار ہوں۔ (آل عمران : ١٣٩) ٥۔ اللہ تعالیٰ حق کو غالب کرنا چاہتا ہے۔ (الانفال : ٧) ٦۔ حق کے بعد گمراہی ہے۔ (یونس : ٣٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وما خلقنا السمآ ئ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مما تصفون (٦١ : ٨١) ” اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو ایک حکمت اور اسکیم کے مطابق پیدا کیا ہے ‘ اس کا ایک مقصد ہے ۔ یہ کائنات محض کھیل تماشے کے طور پر نہیں پیدا کی گئی۔ یہ ایک حکیمانہ فعل ہے ‘ محض اتفاقی عمل نہیں ہے۔ جس سنجیدگی ‘ سچائی اور مقصدیت کے ساتھ زمین و آسمان کو پیدا کیا گیا ہے ‘ اس کے ساتھ رسولوں کو بھی بھیجا گیا ہے۔ کتابیں نازل کی گئی ہیں ‘ فرائض منصبی مقرر ہوئے اور شریعت اور قانون بنائے گئے ہیں۔ لہٰذا مقصدیت اور سنجیدگی اس کائنات کی اساس ہے۔ اس کے چلانے کا بھی ایک مقصد ہے۔ اس میں انسانوں کو ایک نظریہ دینے میں بھی ایک مقصد ہے اور موت کے بعد حساب و کتاب میں بھی مقصدیت اور سنجیدگی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کوئی کھلونا بنانا چاہتا تو اپنے ہاں بنا لیتا۔ ایک ذاتی کھیل ہوتا اور اللہ کی دوسری مخلوقات سے اس کا کوئی تعلق نہ ہوتا۔ یہ محض الزامی اور جدلی فرض ہے۔ ” اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے اور بس یہی کچھ ہمیں کرنا ہوتا تو اپنے پاس ہی سے کرلیتے “۔ جس طرح نحوی لوگ کہتے ہیں کہ یہ صرف امتناع برائے امتناع ہے۔ یعنی ” لو “ کے بعد ایک فقرہ شرط ہوتا ہے اور دوسرا جواب شرط ۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان دونوں فقروں کا واقع ہونن ناممکن اور ممتنع ہے۔ چونکہ اللہ نے ارادہ ہی نہیں کیا اس لیے لہو و لعب ہوا ہی نہیں ہے۔ نہ اللہ کے ہاں کوئی لہو ہوا اور نہ خارج میں کسی معاملے میں ہوا۔ اور یہ لہو ولعب ممکن ہی نہیں اس لیے کہ اس کی طرف اللہ کا ارادہ متوجہ ہی نہیں ہوا۔ ان کنا فعلین (١٢ : ٧١) کے معنی ہیں ما کنا فعلین یعنی ہم نے ایسا کرنا ہی نہ تھا ‘ ایسا کرنے والے ہی نہ تھے۔ تو یہ ایک فرض ہے برائے مباحثہ اور اس سے یہ حقیقت ثابت کرنا ہے کہ اللہ کی ذات سے متعلق جو امور بھی ہیں وہ اللہ کی ذات کی طرح قدیم ہیں۔ دائمی ہیں ‘ فانی نہیں ہیں۔ اگر اللہ لہو کا ارادہ کرتا تو یہ لہو ایک نیا معاملہ نہ ہوتا۔ یہ بھی ذات باری کی طرح قدیم ہوتا۔ ازلی ہوتی اور ابدی ہوتا کیونکہ اس کا تعلق ذات ازلی اور باقی سے ہوتا ۔ اسی لیے ” من لدنا “ کا لفظ استعمال ہوا ” اپنے ہی پاس “ لیکن اللہ کا طے شدہ قانون تو یہ ہے کہ کوئی معاملہ کھیل کے طور پر نہ ہو ‘ بلکہ ہر معاملہ سنجیدگی اور سچائی کے ساتھ ہو۔ اور وہ حق ہو۔ یوں حق باطل پر غالب آتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:۔ توحید پر عقلی دلائل :۔ اس سورت میں توحید پر تین عقلی دلیلیں ذکر کی گئی ہیں۔ یہ پہلی عقلی دلیل ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ ہم نے زمین و آسمان اور ساری کائنات کو یونہی بےمقصد اور کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا اگر یہ سب کچھ محض کھیل ہوتا تو ہم اسے اپنے پاس رکھتے اور کسی کو اس کا علم تک نہ ہونے دیتے۔ اور نہ کسی کو دکھاتے۔ بلکہ ہم نے یہ ساری کائنات اظہار حق اور توحید پر استدلال کے لیے پیدا کی تاکہ بندے اس سے ہماری وحدانیت پر استدلال کرسکیں اور حق (توحید اور دین اسلام) باطل (کفر و شرک) پر غالب آسکے اس کائنات میں بندوں کے لیے عبرت و موعظت ہے کہ معبود برحق اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ جس نے ساری کائنات کو پیدا فرمایا۔ اور جن بندگانِ خدا کو تم نے خدا کے یہاں اپنے سفارشی بنا رکھا ہے۔ وہ ہرگز عبادت اور پکار کے مستحق نہیں ہیں۔ ” وَلَکُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ “ غیر اللہ کو عالم الغیب اور حاجت روا سمجھ کر غائبانہ پکارنے کی وجہ سے تمہارے لیے ہلاکت دینا ہی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

16 اور ہم نے آسمان و زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان کو اس طور پر نہیں بنایا کہ ہم کوئی بےکار اور عبث فعل کرنیوالے تھے۔ یعنی اوپر کی آیتوں میں رسالت کا اثبات تھا اب توحید کے دلائل کا ذکر ہے مطلب یہ ہے کہ آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے مابین ہم نے بنایا اور پیدا کیا ہے وہ کوئی بیکاری کا مشغلہ یا فعل عبث نہیں ہے بلکہ یہ تمام مصنوعات ہماری توحید اور وحدانیت پر دلالت کرنے والی ہیں یہ ہم نے کوئی کھیل کے طور پر نہیں بنائی ہیں۔