Commentary وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ (And We did not create the heavens and the earth ... 21:16.) It means that we have not created the sky and the earth, and everything that lies in between them for mere amusement. In the preceding verses a reference has been made to the annihilation of certain settlements. In this verse there is a suggestion that just as the creation of the earth and the sky and all other created things was according to a set design, the destruction of the settlements was also the result of a definite purpose. Having witnessed the marvels and wonders of creation which are so abundantly spread all over, manifesting Allah&s omnipotence and omniscience, do they still think that all these things are futile and without significance? The word لَاعِبِينَ is taken from لِعَب (play), which means having no useful objective (Raghib) while لَھَو (pastime) means an act which has no purpose at all except to provide amusement in free time. The disbelievers who argue against the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the Holy Qur&an and reject the Oneness of Allah and deny His Power, despite its abundant manifestations, then it is apparent that they have a notion that all this creation is meant for amusement and pastime. The verse rejects this false view and says that Allah&s creation is not for fun and pastime. A little reflection will show that even the minutest particle of the universe has its utility and each and everything created by Allah has a purpose which speaks by itself for His omniscience and Oneness.
خلاصہ تفسیر اور (ہمارے یکتا ہونے پر ہماری مصنوعات دلالت کر رہی ہیں کیونکہ) ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے اس کو اس طور پر نہیں بنایا کہ ہم فعل عبث کرنے والے ہوں (بلکہ ان میں بہت سی حکمتیں ہیں جن میں بڑی حکمت توحید حق پر دلات ہے اور) اگر ہم کو (آسمان اور زمین کے بنانے سے کوئی حکمت مقصود نہ ہوتی بلکہ ان کو محض) مشغلہ ہی بنانا منظور ہوتا ( جس میں کوئی معتدبہ فائدہ مقصود نہیں ہوتا محض دل بہلانا منظور ہوتا ہے) تو ہم خاص اپنے پاس کی چیز کو مشغلہ بناتے (مثلاً اپنی صفات کمال کے مشاہدہ کو) اگر ہم کو یہ کرنا ہوتا (کیونکہ مشغلہ کو مشاغل کی شان سے مناسبت چاہئے تو کہاں ذات خالق کائنات اور کہاں یہ مصنوعات حادثہ البتہ صفات کو بوجہ قدیم اور لازم ذات ہونے کے باہم مناسبت سے سو جب بدلائل عقلیہ و اجماع اہل ملل اس کا بھی مشغلہ قرار دیا جانا محال ہے تو مصنوعات حادثہ میں تو کسی کو اس کا وہم بھی نہ ہونا چاہئے پس ثابت ہوا کہ ہم نے عبث یعنی فضول پیدا نہیں کیا) بلکہ اثبات حق اور ابطال باطل کے لئے پیدا کیا ہے اور) ہم (اس) حق بات کو (جس کے ثبوت پر مصنوعات دلالت کرتی ہیں اس) باطل بات پر (اس طرح غالب کردیتے ہیں جیسے یوں سمجھو کہ ہم اس کو اس پر) پھینک مارتے ہیں سو وہ (حق) اس (باطل) کا بھیجا نکال دیتا ہے (یعنی اس کو مغلوب کردیتا ہے) سو وہ (باطل مغلوب ہو کر) دفعتہ جاتا رہتا ہے (یعنی دلائل توحید جو ان مصنوعات سے حاصل ہوتے ہیں شرک کی بالکلیہ نفی کردیتے ہیں جس کی جانب مخالف کا احتمال ہی نہیں رہتا) اور (تم جو باوجود ان دلائل قاہرہ کے شرک کرتے ہو تو) تمہارے لئے اس بات سے بڑی خرابی ہے۔ جو تم (خلاف حق کے) گھڑتے ہو اور (حق تعالیٰ کی وہ شان ہے کہ) جتنے کچھ آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اسی کے (مملوک) ہیں اور (ان میں سے) جو اللہ کے نزدیک (بڑے مقبول و مقرب) ہیں ( ان کی بندگی کی یہ کیفیت ہے کہ) وہ اس کی عبادت سے عار نہیں کرتے اور نہ تھکتے ہیں (بلکہ) شب و روز (اللہ کی) تسبیح (و تقدیس) کرتے ہیں (کسی وقت) موقوف نہیں کرتے (جب ان کی یہ حالت ہے تو عام مخلوق تو کس شمار میں ہے پس لائق عبادت کے وہی ہے اور جب کوئی دوسرا ایسا نہیں تو پھر اس کا شریک سمجھنا کتنی بےعقلی ہے) کیا (باوجود ان دلائل توحید کے) ان لوگوں نے خدا کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں ( بالخصوص) زمین کی چیزوں میں سے (جو کہ اور بھی ادنی تر اور نازل تر ہیں جیسے پتھر یا معدنیات کے بت) جو کسی کو زندہ کرتے ہیں (یعنی جو جان بھی نہ ڈال سکتا ہو ایسا عاجز کب معبود ہونے کے قابل ہوگا اور) زمین (میں یا) آسمان میں اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور معبود (واجب الوجود) ہوتا تو دونوں (کبھی کے) درہم برہم ہوجاتے (کیونکہ عادة دونوں کے ارادوں اور افعال میں تزاحم ہوتا، ایک دوسرے سے ٹکراتے اور اس کے لئے فساد لازم ہے لیکن فساد واقع نہیں ہے اس لئے متعدد معبود بھی نہیں ہو سکتے) سو (ان تقریرات سے ثابت ہوا کہ) اللہ تعالیٰ جو کہ مالک ہے عرش کا ان امور سے پاک ہے جو کچھ یہ لوگ بیان کر رہے ہیں (کہ نعوذ باللہ اس کے اور شرکاء بھی ہیں حالانکہ اس کی ایسی عظمت ہے کہ) وہ جو کچھ کرتا ہے اس سے کوئی باز پرس نہیں کرسکتا اور اوروں سے باز پرس کی جاسکتی ہے (یعنی اللہ تعالیٰ باز پرس کرسکتا ہے پس کوئی عظمت میں اس کا شریک نہیں ہوا پھر معبودیت میں کوئی کیسے شریک ہوسکتا ہے، یہاں تک تو بطور ابطال اور نقص و استلزام محال کے کلام تھا آگے بطور سوال اور منع کے کلام ہے کہ) کیا خدا کو چھوڑ کر انہوں نے اور معبود بنا رکھے ہیں ( ان سے) کہئے کہ تم اپنی دلیل (اس دعویٰ پر) پیش کرو (یہاں تک تو سوال اور دلیل عقلی سے شرک کا ابطال تھا آگے دلیل نقلی سے استدلال ہے کہ) یہ میرے ساتھ والوں کی کتاب (یعنی قرآن) اور مجھ سے پہلے لوگوں کی کتابیں (یعنی توراة و انجیل و زبور) موجود ہیں ( جن کا صدق اور منزل من اللہ ہونا دلیل عقلی سے ثابت ہے اور اوروں میں گو تحریف ہوئی ہے مگر قرآن میں تحریف کا احتمال نہیں، پس جو مضمون ان کتب کا قرآن کے مطابق ہوگا وہ یقینا صحیح ہے اور ان سب دلائل مذکورہ کا مقتضا یہ تھا کہ یہ لوگ توحید کے قائل ہوجاتے لیکن پھر بھی قائل نہیں) بلکہ ان میں زیادہ وہی ہیں جو امر حق کا یقین نہیں کرتے سو (اس وجہ سے) وہ (اس کے قبول کرنے سے) اعراض کر رہے ہیں اور (یہ توحید کوئی جدید بات نہیں جس سے تو خوش ہو بلکہ شرع قدیم ہے چنانچہ) ہم نے آپ سے پہلے کوئی ایسا پیغمبر نہیں بھیجا جس کے پاس ہم نے یہ وحی نہ بھیجی ہو کہ میرے سوا کوئی معبود (ہونے کے لائق) نہیں پس میری (ہی) عبادت کیا کرو اور یہ (مشرک) لوگ (جو بیں ان میں بعضے) یوں کہتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ نے (فرشتوں کو) اولاد بنا رکھی ہے (توبہ توبہ) وہ (اللہ تعالیٰ اس سے) پاک ہے (اور وہ فرشتے اس کی اولاد نہیں ہیں) بلکہ (اس کے) بندے ہیں (ہاں) معزز (بندے ہیں اسی سے بےعقلوں کو اشتباہ ہوگیا اور ان کی عبدیت اور محکومیت اور ادب کی یہ کیفیت ہے کہ) وہ اس سے آگے بڑھ کر بات نہیں کرسکتے (بلکہ منتظر حکم رہتے ہیں) اور وہ اسی کے حکم کے موافق عمل کرتے ہیں (اس کے خلاف نہیں کرسکتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ) اللہ تعالیٰ ان کے اگلے پچھلے احوال کو (خوب) جانتا ہے (پس جو حکم ہوگا اور جب حکم ہوگا موافق حکمت کے ہوگا اس لئے نہ عملی مخالفت کرتے ہیں نہ قولی مسابقت کرتے ہیں) اور (ان کے ادب کی یہ کیفیت ہے کہ) وہ بجز اس (شخص) کے جس کے لئے (شفاعت کرنے کی) اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو اور کسی کی سفارش نہیں کرسکتے اور وہ سب اللہ تعالیٰ کی ہیبت سے ڈرتے رہتے ہیں اور (یہ تو بیان تھا ان کی مغلوبیت اور محکومیت کا آگے بیان ہے اللہ تعالیٰ کی غالبیت اور حاکمیت کا، گو حاصل دونوں کا متقارب ہے یعنی) ان میں سے جو شخص (بالفرض) یوں کہئے کہ (نعوذ باللہ) میں علاوہ خدا کے معبود ہوں سو ہم اس کو سزائے جہنم دیں گے (اور) ہم ظالموں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں (یعنی خدا کا ان پر پورا بس ہے جیسے اور مخلوقات پر، پھر وہ خدا کی اولاد جس کے لئے خدا ہونا ضروری ہے کیسے ہو سکتے ہیں۔ ) معارف ومسائل وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لٰعِبِيْنَ ، یعنی ہم نے آسمان اور زمین اور ان دونوں کے درمیان کی چیزوں کو لعب اور کھیل کے لئے نہیں بنایا۔ پچھلی آیتوں میں بعض بستیوں کو تباہ و ہلاک کرنے کا ذکر آیا تھا اس آیت میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ جس طرح زمین و آسمان اور ان کی تمام مخلوقات کی تخلیق بڑی بڑی اہم حکمتوں اور مصلحتوں پر مبنی ہے جن بستیوں کو تباہ کیا گیا ان کا تباہ کرنا بھی عین حکمت تھا، اس مضمون کو اس آیت میں تعبیر اس طرح کیا گیا کہ یہ توحید یا رسالت کے منکر کیا ہماری قدرت کاملہ اور علم و بصیرت کی ان نمایاں نشانیوں کو جو زمین و آسمان کی تخلیق میں اور تمام مخلوقات کی صنعت گری میں مشاہدہ کی جا رہی ہیں دیکھتے سمجھتے نہیں یا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے یہ سب چیزیں فضول ہی محض کھیل کے لئے پیدا کی ہیں۔ لٰعِبِيْنَ ، لعب سے مشتق ہے، لعب ایسے کام کو کہا جاتا ہے جس سے کوئی صحیح مقصد متعلق نہ ہو (راغب) اور لہو اس کام کو کہتے ہیں جس سے کوئی صحیح یا غلط مقصد ہی نہ ہو خالی وقت گزاری کا مشغلہ بنایا جائے منکرین اسلام جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن پر اعتراض اور توحید کا انکار کرتے ہیں، قدرت حق کی ان عظیم الشان نشانیوں کے باوجود نہیں مانتے تو ان کا یہ عمل گویا اس کا دعویٰ ہے کہ یہ سب چیزیں فضول ہی کھیل کے لئے بنائی گئی ہیں، ان کے جواب میں یہ ارشاد ہوا کہ یہ کھیل اور فضول نہیں ذرا بھی غور و فکر سے کام لو تو کائنات کے ایک ایک ذرہ میں اور قدرت کی ایک ایک صنعت میں ہزاروں حکمتیں ہیں اور سب کی سب معرفت حق سبحانہ اور اس کی توحید کے خاموش سبق ہیں۔ ہر گیا ہے کہ از زمین روید وحدہ لاشریک لہ گوید