What is death? Allah has said كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ &Every soul has to taste death&. Here the word soul refers to the living things of the earth, who must all face death, but does not include the angels. There is a difference of opinion about whether the angels will also die or not on the Day of Judgment. Some say that every living thing will die, though momentarily, irrespective of whether they are of the earth or the skies. But others maintain that angels and hurs and ghilman of Paradise are excluded from this general rule. (Only God knows best) (Ruh ul-Ma` ani) Majority of the scholars believe that death is the departure of soul from the mortal human frame, while soul itself is a subtle ethereal living thing which is made of light and resides in human body just as fragrance resides in the rose. Ibn al-Qayyim has convincingly proved this point in his book. (Ruh ul-Ma` ani) The term ذَائِقَةُ الْمَوْتِ means that every individual will feel the pain of death - 21:35, because considering the manner in which body and soul are conjoined together their separation should obviously entail some pain. There are some saintly persons who regard death as a deliverance from the trials and tribulations of the worldly life and a means of bringing them closer to their Supreme love, that is Allah. This pleasure does not negate the agony of death, because where the reward is high, a little pain is easily tolerated. Worldly comforts and discomforts are a test وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً And We test you all through bad and good (situations) with a trial. - 21:35 It means that man is tested both by good things and by bad things. شَر (bad) includes unpleasant things such as illness, grief, pain, poverty etc. while خَیر (good) means desirable things, like good health, happiness, comfort and abundance. Man is subjected to these conditions in this world for test and the test is that he should show patience and endurance in the face of adversity and should offer thanks to Allah when his life is peaceful and comfortable. Wise men have said that, it is more difficult to be steadfast and consistent in offering thanks to Allah for His gifts than to persevere and show patience in difficult circumstances. Sayyidna ` Umar (رض) is reported to have said: بُلینا بالضّراء فصبرنا و بلینا بالسّراء فلم نصبر (روح المعانی) |"We were tested by discomforts and We bore it with patience, but when we were tested by pleasures, we could not observe patience (i.e. we could not offer gratitude to Allah as was due) |". (Ruh ul-Ma&ani)
موت کیا چیز ہے : پھر ارشاد فرمایا كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ، یعنی ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے۔ یہاں مراد ہر نفس سے نفوس ارضیہ یعنی زمینی جاندار ہیں۔ ان سب کو موت آنا لازمی ہے نفوس ملائکہ اس میں داخل نہیں، اس میں اختلاف ہے کہ قیامت کے روز فرشتوں کو بھی موت آئے گی یا نہیں ؟ بعض حضرات نے فرمایا کہ ایک لحظہ کے لئے تو سب پر موت طاری ہوجاوے گی خواہ انسان اور نفوس ارضیہ ہوں یا فرشتے اور نفوس سماویہ، بعض حضرات نے فرمایا کہ فرشتے اور جنت کے حور و غلمان موت سے مستثنیٰ ہیں۔ واللہ اعلم (روح المعانی) اور موت کی حقیقت جمہور علماء کے نزدیک روح کا جسد عنصری سے نکل جانا ہے اور روح خود ایک جسم نورانی لطیف ذی حیات متحرک کا نام ہے جو انسان کے پورے بدن میں ایسا سمایا ہوا رہتا ہے جیسے عرق گلاب اس کے پھول میں ابن قیم نے روح کی حقیقت بیان کر کے اس کو سو دلائل سے ثابت کیا ہے۔ (روح المعانی) لفظ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ سے اشارہ اس طرف پایا جاتا ہے کہ ہر نفس موت کی خاص تکلیف محسوس کرے گا کیونکہ مزہ چکھنے کا محاورہ ایسے ہی مواقع میں استعمال ہوتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ روح کا جیسا اتصال بدن کے ساتھ ہے اس کے نکلنے کے وقت تکلیف اور الم کا احساس امر طبعی ہے، رہا بعض اہل اللہ کا یہ معاملہ کہ ان کو موت سے لذت و راحت حاصل ہوتی ہے کہ دنیا کی تنگیوں سے نجات ہوئی اور محبوب اکبر سے ملاقات کا وقت آ گیا، تو یہ ایک دوسری طرح کی لذت ہے جو مفارقت بدن کی طبعی تکلیف کے منافی نہیں کیونکہ جب کوئی بڑی راحت اور بڑا فائدہ سامنے ہوتا ہے تو اس کے لئے چھوٹی تکلیف برداشت کرنا آسان ہوجاتا ہے اس معنی کے لحاظ سے بعض اہل اللہ نے دنیا کے غم و رنج اور مصیبتوں کو بھی محبوب قرار دیا ہے کہ ” از محبت تلخہا شیریں شوند “ غم چہ استادہ تو بر در ما اندر آیار ما برادر ما اور مولانا رومی نے فرمایا : رنج راحت شد چو مطلب شد بزرگ گرد گلہ توتیائے چشم گرگ دنیا کی ہر تکلیف و راحت آزمائش ہے : وَنَبْلُوْكُمْ بالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ، یعنی ہم شر اور خیر دونوں کے ذریعہ انسان کی آزمائش کرتے ہیں۔ شر سے مراد ہر خلاف طبع چیز ہے جیسے بیماری، رنج و غم، فقر و فاقہ اور خیر سے اس کے بالمقابل ہر مرغوب طبع چیز ہے جیسے صحت و عافیت، خوشی و راحت، غناء و اسباب عیش وغیرہ۔ یہ دونوں طرح کی چیزیں اس دنیا میں انسان کی آزمائش کے لئے آتی ہیں کہ شر یعنی خلاف طبع امور پر صبر کر کے اس کا حق ادا کرنا اور خیر یعنی مرغوب خاطر چیزوں پر شکر کر کے اس کا حق ادا کرنا ہے آزمائش یہ ہے کہ کون اس پر ثابت قدم رہتا ہے کون نہیں رہتا اور بزرگوں نے فرمایا کہ حقوق شکر پر ثابت قدم رہنا بہ نسبت حقوق صبر کے مشکل ہے۔ انسان کو تکلیف پر صبر کرنا اتنا بھاری نہیں ہوتا جتنا عیش و عشرت اور آرام و راحت میں اس کے حق شکر ادا کرنے پر ثابت قدمی مشکل ہوتی ہے اسی بناء پر حضرت فاروق اعظم نے فرمایا : بلینا بالضراء فصبرنا و بلینا بالسراء فلم نصبر (روح المعانی) یعنی ہم تکلیفوں میں مبتلا کئے گئے اس پر تو ہم نے صبر کرلیا لیکن جب راحت و عیش میں مبتلا کئے گئے تو اس پر صبر نہ کرسکے یعنی اس کے حقوق ادا کرنے پر ثابت قدم نہ رہ سکے۔