Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 35

سورة الأنبياء

کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ ؕ وَ نَبۡلُوۡکُمۡ بِالشَّرِّ وَ الۡخَیۡرِ فِتۡنَۃً ؕ وَ اِلَیۡنَا تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۳۵﴾

Every soul will taste death. And We test you with evil and with good as trial; and to Us you will be returned.

ہر جاندار موت کا مزہ چکھنے والا ہے ۔ ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہماری ہی طرف لوٹاۓ جاؤ گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

So Allah says: كُلُّ نَفْسٍ ذَايِقَةُ الْمَوْتِ ... Everyone is going to taste death, ... وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ... and We shall test you with evil and with good by way of trial. Meaning, "We shall test you, sometimes with difficulties and sometimes with ease, to see who will give thanks and who will be ungrateful, who will have patience and who will despair." Ali bin Abi Talhah reported from Ibn Abbas: وَنَبْلُوكُم (and We shall test you) means, We will test you, بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً (with evil and with good by way of trial) means, with difficulties and with times of prosperity, with health and sickness, with richness and poverty, with lawful and unlawful, obedience and sin, with guidance and misguidance. ... وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ And to Us you will be returned. means, and We will requite you according to your deeds.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

35۔ 1 یعنی کبھی مصائب و رنج و غم سے دو چار کرکے اور کبھی دنیا کے وسائل فراواں سے بہرور کر کے۔ کبھی صحت و فراخی کے ذریعے سے اور کبھی تنگی و بیماری کے ذریعے سے، کبھی تونگری دیکر اور کبھی فقرو فاقہ میں مبتلا کر کے ہم آزماتے ہیں۔ تاکہ ہم دیکھیں کہ شکر گزاری کون کرتا ہے اور ناشکری کون ؟ صبر کون کرتا ہے اور ناصبری کون ؟ شکر اور صبر، یہ رضائے الٰہی کا اور کفران نعمت اور ناصبری غضب الٰہی کا موجب ہے۔ 35۔ 2 وہاں تمہارے عملوں کے مطابق اچھی یا بری جزا دیں گے۔ اول الذکر لوگوں کے لئے بھلائی اور دوسروں کے لئے برائی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٣] فتنہ سے مراد ایسی آزمائش ہے جس کا انسان کو پتہ بھی نہ چلے اور وہ اندر ہی اندر اپنا کام کئے جارہی ہو۔ جیسے مال اور اولاد اور دوسری مرغوبات کی محبت انسان کے لئے فتنہ ثابت ہوتی ہے۔ اس آیت میں خیر سے مراد مالی دولت کی فراوانی اور خوشحالی کا زمانہ ہے اور شر سے مراد تنگ دستی اور بدحالی کا دور۔ اور اللہ تعالیٰ ہر حال میں ہی انسان کی آزمائش کرتا رہتا ہے۔ ایک مومن تو خوشحالی کے اوقات میں اللہ کا شکر ادا کرکے اور تنگ دستی کے دور میں مصائب پر صبر کرکے اس آزمائش میں کامیاب ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے دنیوی اور اخروی انعامات کا مستحق بن جاتا ہے۔ لیکن ایک دنیا دار پر جب مال و دولت کی فراوانی اور خوشحالی کا دور آتا ہے تو اس کا دماغ ہی درست نہیں رہتا اور اس میں فرعونیت اور تکبر آجاتا ہے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے اور اگر برے دن آجائیں تو صبر کرنے کی بجائے کفر و شرک راہوں۔۔ کرتا ہے اور در در پر اپنی ناک رگڑنے لگتا ہے۔ اس طرح وہ دنیا و آخرت میں اللہ کے غضب کا مستحق بن جاتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ : ” ذَاۗىِٕقَةُ “ ” ذَاقَ یَذُوْقُ “ (ن) سے اسم فاعل ہے، یعنی چکھنے والی۔ اس میں تمام بت پرستوں کی تردید ہے جو اپنے دیوی دیوتاؤں کے ہمیشہ زندہ رہنے کا عقیدہ رکھتے ہیں، اسی طرح ان قبر پرستوں کا بھی جو اپنے داتاؤں، حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں کے لیے موت کا لفظ گالی سمجھتے ہیں۔ چناچہ جب بھی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا کسی بزرگ کے بارے میں موت یا فوت کا لفظ آئے وہ اس کے بجائے انتقال (جگہ بدلنے) کا لفظ استعمال کریں گے، یا کہیں گے وہ پردے میں ہوگئے ہیں یا پردہ فرما گئے ہیں۔ اللہ کے بندے یہ نہیں سوچتے کہ موت تو مومن کا تحفہ ہے، جس کے بغیر اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور اس کا دیدار ممکن ہی نہیں۔ چناچہ ابن کثیر (رض) نے یہاں دو شعر نقل فرمائے ہیں جو امام شافعی (رض) نے ایسے ہی کسی موقع پر پڑھے ؂ تَمَنَّی رِجَالٌ أَنْ أَمُوْتَ وَ إِِنْ أَمُتْ فَتِلْکَ سَبِیْلٌ لَسْتُ فِیْھَا بِأَوْحَدٖ فَقُلْ لِلَّذِيْ یَبْغِيْ خلاَفَ الَّذِيْ مَضٰی تَھَیَّأْ لِأُخْرٰی مِثْلِھَا فَکَأَنْ قَدٖ ” کچھ لوگوں نے میری موت کی تمنا کی ہے اور اگر میں مرجاؤں تو یہ ایسا راستہ ہے جس میں میں اکیلا نہیں ہوں۔ سو اس شخص سے کہہ دو جو جانے والے کے بعد اس کی جگہ کا طلب گار ہے کہ تو بھی اس جیسی ایک اور (موت) کے لیے تیار ہوجا اور سمجھ لے کہ وہ بس آ ہی چکی۔ “ ایک فارسی شاعر نے خوب کہا ہے ؂ بے فنائے خود میسر نیست دیدار شما مے فروشد خویش را اول خریدار شما ” اپنے فنا ہونے کے بغیر تمہارا دیدار میسر نہیں ہوسکتا، اس لیے تمہارا خریدار پہلے اپنے آپ کو فروخت کرتا ہے۔ “ مزید دیکھیے سورة زمر (٣٠) ، آل عمران (١٨٥) ، عنکبوت (٥٦، ٥٧) اور نساء (٧٨) ۔ وَنَبْلُوْكُمْ بالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً :” نَبْلُوْكُمْ “ ” بَلَا یَبْلُوْ “ اور ” اِبْتَلٰی یَبْتَلِیْ “ کا معنی ایک ہی ہے، آزمانا، مبتلا کرنا۔ ” فِتْنَةً “ آزمائش۔ ” فِتْنَةً “ لفظ کی تبدیلی کے ساتھ ” نَبْلُوْكُمْ “ کا مفعول مطلق ہے، مفعول لہ بھی ہوسکتا ہے۔ ترجمہ مفعول لہ کی حیثیت سے کیا گیا ہے۔ شر سے مراد دنیا میں بدحالی اور سختی ہے اور خیر سے مراد خوشحالی اور آسانی ہے۔ یعنی ہم تمہیں کبھی سختی سے دوچار کرتے ہیں، کبھی نرمی کا سلوک کرتے ہیں۔ کبھی تم پر بیماری آتی ہے، کبھی صحت۔ کبھی دولت وافر ہوتی ہے کبھی فقیری، غرض ان تمام حالتوں سے مقصود تمہاری آزمائش ہے کہ تم نعمت پر شکر اور مصیبت پر صبر کرتے ہو یا نہیں۔ کافر اور فاسق خوشحالی میں بخل اور تکبر کرنے لگتا ہے اور مصیبت میں بےصبری اور جزع فزع۔ دیکھیے سورة معارج (١٩ تا ٢١) مومن کا حال اس کے برعکس ہوتا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہٗ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہٗ وَإِنْ أَصَابَتْہٗ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہٗ ) [ مسلم، الزھد، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر : ٢٩٩٩، عن صہیب۔ ]” مومن کا معاملہ عجیب ہے، کیونکہ اس کا سارا معاملہ ہی خیر ہے اور یہ چیز مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔ اگر اسے خوشی حاصل ہوتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے، سو وہ اس کے لیے بہتر ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے، وہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔ “ اللہ تعالیٰ کے اپنی مخلوق کو آزمانے کا ذکر کئی آیات میں آیا ہے، دیکھیے سورة اعراف (٩٤، ٩٥، ١٦٨) اور سورة انعام (٤٢ تا ٤٥) ۔ وَاِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ : ” اِلَيْنَا “ پہلے لانے سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا ہے، یعنی تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے، پھر ہم تمہیں تمہارے اعمال کے مطابق اچھی یا بری جزا دیں گے۔ ” لوٹائے جاؤ گے “ اس لیے فرمایا کہ ہمارے والد ماجد آدم (علیہ السلام) کو پیدا کرنے کے بعد جنت میں رکھا گیا، پھر ان کی خطا سے انھیں جنت سے نکالا گیا۔ معلوم ہوا ہمارا اصل وطن جنت ہے، آزمائش کے لیے کچھ مدت زمین پر گزارنے کے بعد ہمیں دوبارہ اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہوگا، اگر کامیاب ہوئے تو دوبارہ جنت ملے گی اور ناکام ہوئے تو جہنم۔ دیکھیے سورة بقرہ (٣٨، ٣٩) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

What is death? Allah has said كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ &Every soul has to taste death&. Here the word soul refers to the living things of the earth, who must all face death, but does not include the angels. There is a difference of opinion about whether the angels will also die or not on the Day of Judgment. Some say that every living thing will die, though momentarily, irrespective of whether they are of the earth or the skies. But others maintain that angels and hurs and ghilman of Paradise are excluded from this general rule. (Only God knows best) (Ruh ul-Ma` ani) Majority of the scholars believe that death is the departure of soul from the mortal human frame, while soul itself is a subtle ethereal living thing which is made of light and resides in human body just as fragrance resides in the rose. Ibn al-Qayyim has convincingly proved this point in his book. (Ruh ul-Ma` ani) The term ذَائِقَةُ الْمَوْتِ means that every individual will feel the pain of death - 21:35, because considering the manner in which body and soul are conjoined together their separation should obviously entail some pain. There are some saintly persons who regard death as a deliverance from the trials and tribulations of the worldly life and a means of bringing them closer to their Supreme love, that is Allah. This pleasure does not negate the agony of death, because where the reward is high, a little pain is easily tolerated. Worldly comforts and discomforts are a test وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ‌ وَالْخَيْرِ‌ فِتْنَةً And We test you all through bad and good (situations) with a trial. - 21:35 It means that man is tested both by good things and by bad things. شَر (bad) includes unpleasant things such as illness, grief, pain, poverty etc. while خَیر (good) means desirable things, like good health, happiness, comfort and abundance. Man is subjected to these conditions in this world for test and the test is that he should show patience and endurance in the face of adversity and should offer thanks to Allah when his life is peaceful and comfortable. Wise men have said that, it is more difficult to be steadfast and consistent in offering thanks to Allah for His gifts than to persevere and show patience in difficult circumstances. Sayyidna ` Umar (رض) is reported to have said: بُلینا بالضّراء فصبرنا و بلینا بالسّراء فلم نصبر (روح المعانی) |"We were tested by discomforts and We bore it with patience, but when we were tested by pleasures, we could not observe patience (i.e. we could not offer gratitude to Allah as was due) |". (Ruh ul-Ma&ani)

موت کیا چیز ہے : پھر ارشاد فرمایا كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ، یعنی ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے۔ یہاں مراد ہر نفس سے نفوس ارضیہ یعنی زمینی جاندار ہیں۔ ان سب کو موت آنا لازمی ہے نفوس ملائکہ اس میں داخل نہیں، اس میں اختلاف ہے کہ قیامت کے روز فرشتوں کو بھی موت آئے گی یا نہیں ؟ بعض حضرات نے فرمایا کہ ایک لحظہ کے لئے تو سب پر موت طاری ہوجاوے گی خواہ انسان اور نفوس ارضیہ ہوں یا فرشتے اور نفوس سماویہ، بعض حضرات نے فرمایا کہ فرشتے اور جنت کے حور و غلمان موت سے مستثنیٰ ہیں۔ واللہ اعلم (روح المعانی) اور موت کی حقیقت جمہور علماء کے نزدیک روح کا جسد عنصری سے نکل جانا ہے اور روح خود ایک جسم نورانی لطیف ذی حیات متحرک کا نام ہے جو انسان کے پورے بدن میں ایسا سمایا ہوا رہتا ہے جیسے عرق گلاب اس کے پھول میں ابن قیم نے روح کی حقیقت بیان کر کے اس کو سو دلائل سے ثابت کیا ہے۔ (روح المعانی) لفظ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ سے اشارہ اس طرف پایا جاتا ہے کہ ہر نفس موت کی خاص تکلیف محسوس کرے گا کیونکہ مزہ چکھنے کا محاورہ ایسے ہی مواقع میں استعمال ہوتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ روح کا جیسا اتصال بدن کے ساتھ ہے اس کے نکلنے کے وقت تکلیف اور الم کا احساس امر طبعی ہے، رہا بعض اہل اللہ کا یہ معاملہ کہ ان کو موت سے لذت و راحت حاصل ہوتی ہے کہ دنیا کی تنگیوں سے نجات ہوئی اور محبوب اکبر سے ملاقات کا وقت آ گیا، تو یہ ایک دوسری طرح کی لذت ہے جو مفارقت بدن کی طبعی تکلیف کے منافی نہیں کیونکہ جب کوئی بڑی راحت اور بڑا فائدہ سامنے ہوتا ہے تو اس کے لئے چھوٹی تکلیف برداشت کرنا آسان ہوجاتا ہے اس معنی کے لحاظ سے بعض اہل اللہ نے دنیا کے غم و رنج اور مصیبتوں کو بھی محبوب قرار دیا ہے کہ ” از محبت تلخہا شیریں شوند “ غم چہ استادہ تو بر در ما اندر آیار ما برادر ما اور مولانا رومی نے فرمایا : رنج راحت شد چو مطلب شد بزرگ گرد گلہ توتیائے چشم گرگ دنیا کی ہر تکلیف و راحت آزمائش ہے : وَنَبْلُوْكُمْ بالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ، یعنی ہم شر اور خیر دونوں کے ذریعہ انسان کی آزمائش کرتے ہیں۔ شر سے مراد ہر خلاف طبع چیز ہے جیسے بیماری، رنج و غم، فقر و فاقہ اور خیر سے اس کے بالمقابل ہر مرغوب طبع چیز ہے جیسے صحت و عافیت، خوشی و راحت، غناء و اسباب عیش وغیرہ۔ یہ دونوں طرح کی چیزیں اس دنیا میں انسان کی آزمائش کے لئے آتی ہیں کہ شر یعنی خلاف طبع امور پر صبر کر کے اس کا حق ادا کرنا اور خیر یعنی مرغوب خاطر چیزوں پر شکر کر کے اس کا حق ادا کرنا ہے آزمائش یہ ہے کہ کون اس پر ثابت قدم رہتا ہے کون نہیں رہتا اور بزرگوں نے فرمایا کہ حقوق شکر پر ثابت قدم رہنا بہ نسبت حقوق صبر کے مشکل ہے۔ انسان کو تکلیف پر صبر کرنا اتنا بھاری نہیں ہوتا جتنا عیش و عشرت اور آرام و راحت میں اس کے حق شکر ادا کرنے پر ثابت قدمی مشکل ہوتی ہے اسی بناء پر حضرت فاروق اعظم نے فرمایا : بلینا بالضراء فصبرنا و بلینا بالسراء فلم نصبر (روح المعانی) یعنی ہم تکلیفوں میں مبتلا کئے گئے اس پر تو ہم نے صبر کرلیا لیکن جب راحت و عیش میں مبتلا کئے گئے تو اس پر صبر نہ کرسکے یعنی اس کے حقوق ادا کرنے پر ثابت قدم نہ رہ سکے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ۝ ٠ۭ وَنَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَۃً۝ ٠ۭ وَاِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ۝ ٣٥ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ بلی يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي : أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس/ 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة/ 49] ( ب ل ی ) بلی الثوب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس/ 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہنچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو کھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة/ 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی دسخت آزمائش تھی ۔ شر الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف/ 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال/ 22] ( ش ر ر ) الشر وہ چیز ہے جس سے ہر ایک کراہت کرتا ہو جیسا کہ خیر اسے کہتے ہیں ۔ جو ہر ایک کو مرغوب ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَرٌّ مَکاناً [يوسف/ 77] کہ مکان کس کا برا ہے وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال/ 22] کچھ شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تمام جانداروں سے بدتر بہرے ہیں خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ فتن أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] ( ف ت ن ) الفتن دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٥) یہ آیت مبارکہ کفار کے جواب کے بارے میں نازل ہوئی ہے، وہ بدبخت آپ کے انقتال فرما جانے کے منتظر تھے اور اس کی خوشیاں مناتے تھے، موت تو ایسی چیز ہے کہ تم میں سے ہر جاندار موت کا مزہ چکھے گا اور ہم تمہیں سختی اور فراخی سے آزماتے ہیں، یہ دونوں باتیں اللہ کی طرف سے آزمایش ہیں اور مرنے کے بعد پھر تم سب ہماری طرف چلے آؤ گے اور ہم تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَنَبْلُوْکُمْ بالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً ط) ” اس دنیا میں تمہاری آزمائش کے لیے تم لوگوں کو ہم مختلف قسم کی کیفیات سے دو چار کرتے رہتے ہیں۔ خیر و شر اور خوشی و غم کے بارے میں تم لوگوں کے اپنے پیمانے اور اپنے معیار ات ہیں اور اسی مناسبت سے ان کیفیات کے بارے میں تمہارے منفی یا مثبت تاثرات ہوتے ہیں ‘ مگر ضروری نہیں کہ حقیقت بھی تمہارے ہی تاثرات کے مطابق ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم لوگ جسے شر سمجھتے ہو وہ حقیقت میں خیر ہو اور جو چیز تمہارے نقطہ نظر سے خیر ہے وہ اصل میں شر ہو ۔۔ سورة البقرۃ میں فرمایا گیا : (وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْءًا وَّہُوَخَیْرٌ لَّکُمْج وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْءًا وَّہُوَ شَرٌّ لَّکُمْ ط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ ) ” اور ہوسکتا ہے کہ تم کسی شے کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو۔ اور ہوسکتا ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو درآنحالیکہ وہی تمہارے لیے بری ہو۔ اور اللہ جانتا ہے ‘ تم نہیں جانتے “ ۔۔ بہر حال دنیا میں پیش آنے والے اچھے برے یہ حالات تمہاری آزمائش کے لیے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

37. This is a brief answer to all those warnings and curses with which the Prophet (peace be upon him) was being threatened and the conspiracies which the Quraish were hatching against him day and night. On the one hand, the women of the Quraish cursed him because according to them he had ruined their home life by enticing away their kith and kits. While on the other hand, the chiefs of the Quraish threatened him with horrible consequences for the propagation of Islam. After the emigration to Habash especially, which almost affected every home of Makkah, these curses and threats increased all the more. This verse is meant to comfort and console the Prophet (peace be upon him) as well so that he should continue his mission without any fear of their threats. 38. That is, Allah is always putting human beings to test and trial both through adversity and affluence. This is to judge whether prosperity makes them proud, cruel and slaves of their lusts or they become grateful to Allah. On the other hand, He inflicts adversity upon them in order to see whether they remain within the prescribed and lawful limits or become low-spirited and down-hearted. A sensible person therefore should not be deluded by prosperity and adversity, but should keep their trial element in view and try to pass through it gracefully.

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :37 مختصر جواب ہے ان ساری دھمکیوں اور بد دعاؤں اور کوسنوں اور قتل کی سازشوں کا جن سے ہر وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع کی جاتی تھی ۔ ایک طرف اکابر قریش تھے جو آئے دن آپ کو اس تبلیغ کے خوفناک نتائج کی دھمکیاں دیتے رہتے تھے ، اور ان میں سے بعض پرجوش مخالفین بیٹھ بیٹھ کر یہ تک سوچا کرتے تھے کہ کسی طرح آپ کا کام تمام کر دیں ۔ دوسری طرف ہر وہ گھر جس کا کوئی فرد اسلام قبول کر لیتا تھا ، آپ کا دشمن بن جاتا تھا ۔ اس کی عورتیں آپ کو کلپ کلپ کر کوسنے اور بد دعائیں دیتی تھیں اور اس کے مرد آپ کو ڈراوے دیتے پھرتے تھے ۔ خصوصاً ہجرت حبشہ کے بعد تو مکے بھر کے گھروں میں کہرام مچ گیا تھا ، کیونکہ مشکل ہی سے کوئی ایسا گھرانا بچا رہ گیا تھا جس کے کسی لڑکے یا لڑکی نے ہجرت نہ کی ہو ۔ یہ سب لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی دوہائیاں دیتے تھے کہ اس شخص نے ہمارے گھر برباد کیے ہیں ۔ ان ہی باتوں کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے ، اور ساتھ ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تلقین کی گئی ہے کہ تم ان کی پروا کیے بغیر ، بے خود اپنا کام کیے جاؤ ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :38 یعنی راحت اور رنج ، مفلسی اور امیری ، غلبہ اور مغلوبی ، قوت اور ضعف ، صحت اور بیماری ، غرض تمام مختلف حالات میں تم لوگوں کی آزمائش کی جا رہی ہے ، تاکہ دیکھیں تم اچھے حالات میں متکبر ، ظالم ، خدا فراموش ، بندہ نفس تو نہیں بن جاتے ، اور برے حالات میں کم ہمتی کے ساتھ پست اور ذلیل طریقے اور ناجائز راستے تو اختیار نہیں کرنے لگتے ۔ لہٰذا کسی صاحب عقل آدمی کو ان مختلف حالات کو سمجھنے میں غلطی نہیں کرنی چاہیے ۔ جو حالت بھی اسے پیش آئے ، اس کے امتحانی اور آزمائشی پہلو کو نگاہ میں رکھنا چاہیے اور اس سے بخیریت گزرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ یہ صرف ایک احمق اور کم طرف آدمی کا کام ہے کہ جب اچھے حالات آئیں تو فرعون بن جائے ، اور جب برے حالات پیش آ جائیں تو زمین پر ناک رگڑنے لگے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:35) نبلوکم۔ نبلوا مضارع جمع متکلم بلا یبلوا (نصر) بلو وبلاء بلو۔ بلیمادہ۔ نبلوا۔ ہم آزمائش میں ڈالتے ہیں۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ فتنۃ۔ آزمائش کے طور پر۔ ابتلاء مصدر ہے اس کو نبلوکم کے بعد تاکید کے لئے لایا گیا ہے (علی غیر لفظہ)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ضمناً ان لوگوں کی تردید بھی ہے جو یہ کہہ کر خوشی کا اظہار کرتے تھے۔ محمد (ﷺ) عنقریب مرجائیں گے تو ہمیں چھٹکارا حاصل ہوجائے گا۔ (طور 20) یا بعض اس خیال میں تھے کہ یہ پیغمبر ہمیشہ زندہ رہے گا تو اس پر متنبہ فرمایا کہ موت سے کوئی بشر محفوظ نہیں رہ رہ سکتا۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ مطلب یہ کہ زندگی اس لئے دے رکھی ہے کہ دیکھیں کیسے کیسے عمل کرتے ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آپ سے پہلے جو حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) تشریف لائے تھے وہ بھی تو وفات پا گئے لہٰذا اس انتظار میں رہنا کہ ان کی وفات ہوجائے تو ہم لوگوں کو یہ بتائیں گے کہ یہ نبی ہوتے تو وفات کیوں پاتے، ان کی ناسمجھی کی دلیل ہے۔ مزید فرمایا (وَ نَبْلُوْکُمْ بالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَۃً ) (ہم تمہیں بطور آزمائش شر اور خیر کے ساتھ جانچیں گے) یعنی تمہارا امتحان کریں گے اس زندگی میں اچھی حالت بھی پیش آئے گی (جیسے تندرستی، مالداری، خوشی اور ازواج اولاد کا موجود ہونا) اور بد حالی بھی پیش آئے گی (مثلاً رنجیدہ ہونا، مرض اور تنگدستی کا پیش آنا، اولاد کا مرنا وغیرہ وغیرہ) زندگی میں یہ سب چیزیں آزمائش کے طور پر پیش آتی ہیں۔ کون ایمان لاتا ہے اور اللہ کا فرمانبر دار ہوتا ہے، اور کون کفر اور نافرمانی کی زندگی گزارتا ہے، مختلف احوال سے اشخاص و افراد کو آزمایا جاتا ہے۔ اسی آزمائش میں یہ بھی ہے کہ بعض مرتبہ کافر دنیاوی احوال کے اعتبار سے آرام اور آسائش میں ہوتے ہیں اور اہل ایمان تنگدستی اور مشکل میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ان فقراء اور مساکین کو دیکھ کر اہل کفر یوں سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ کے محبوب بندے ہیں اور اس طرح آزمائش میں فیل ہوجاتے ہیں۔ اپنی آسائش اور خوشحالی کو کفر پر جمنے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں (العیاذ باللہ) (وَ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ ) (اور تم ہماری طرف لوٹائے جاؤ گے یعنی قیامت کے دن حاضر کیے جاؤ گے) اس دن حق اور ناحق کے فیصلے کردیئے جائیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

35 موت کا کوئی خاص تعلق پیغمبر ہی سے نہیں بلکہ ہر جاندار موت کا مزہ چکھنے والا ہے اور ہم تمہارے آزمانے اور تمہارے آزمائش کو تمہیں بھلائیا ور برائی کے ساتھ جا نچا کرتے ہیں اور تم سب کی بازگشت ہماری ہی طرف ہے اور تم سب ہماری لرف لوٹائے جائو گے۔ یعنی موت کا معاملہصرف پیغمبر ہی کے ساتھ نہیں بلکہ ہر جاندار کو مرنا اور موت کا مزہ چکھنا ہے اس زندگی میں جو اچھے اور برے حالات پیش آتی ہیں اس سے تم کو خوب آزمانا مقصود ہے کیوں کہ ہر شخص کی زندگی دو حال سے خالی نہیں یا پریشانی اور رنج و مصیبت یا راحت و آرام اور خوشی و مسرت پس یہ دونوں حالتیں آزمائش اور امتحان کے لئے ہیں تاکہ دیکھیں کہ نعمت پر شکر گزار کون ہے اور تکالیف پر صبر کرنے والا کون ہے۔ یہ دنیا دار الامتحان اور ایک کسوٹی اور محنت آباد ہے پھر تم سب کو ہماری طرف واپس آنا ہے تاکہ ہر شخص کو اس کے امحتان کے نتیجے سے باخبر کیا جائے اور ہر ایک کو اس کے اعمال کا صلہ عطا کیا جائے اور ہر ایک کو پاداش دی جائے۔ خوش بود گر محک تجربہ آید بمیاں تاسیہ رد شود ہر کہ دروغش باشد