Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 45

سورة الأنبياء

قُلۡ اِنَّمَاۤ اُنۡذِرُکُمۡ بِالۡوَحۡیِ ۫ ۖوَ لَا یَسۡمَعُ الصُّمُّ الدُّعَآءَ اِذَا مَا یُنۡذَرُوۡنَ ﴿۴۵﴾

Say, "I only warn you by revelation." But the deaf do not hear the call when they are warned.

کہہ دیجئے! میں تو تمہیں اللہ کی وحی کے ذریعہ آگاہ کر رہا ہوں مگر بہرے لوگ بات نہیں سنتے جبکہ انہیں آگاہ کیا جائے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُلْ إِنَّمَا أُنذِرُكُم بِالْوَحْيِ ... Say: "I warn you only by the revelation." meaning, `I only convey to you the warning of Allah's punishment and vengeance, and this is no more than that which Allah reveals to me.' But this is of no benefit to the one whom Allah has made blind and has put a seal over his hearing and his heart. He says: ... وَلاَ يَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَاء إِذَا مَا يُنذَرُونَ But the deaf will not hear the call, (even) when they are warned. Allah says: وَلَيِن مَّسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ مِّنْ عَذَابِ رَبِّكَ لَيَقُولُنَّ يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

45۔ 1 یعنی قرآن سنا کر انھیں وعظ و نصیحت کر رہا ہوں اور یہی میری ذمہ داری ہے اور منصب ہے۔ لیکن جن لوگوں کے کانوں کو اللہ نے حق کے سننے سے بہرا کردیا، آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور دلوں پر مہر لگا دی، ان پر اس قرآن کا اور وعظ و نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤١] اصل بات یہ ہے کہ یہ ابھی تک اندھے اور بہرے بنے ہوئے ہیں۔ نہ وقت کی آواز کو سنتے ہیں اور نہ ہی وقت کی رفتار دیکھنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں اور اگر انھیں اللہ کا پیغام سنایا جائے اور اخروی انجام سے ڈرایا جائے تو سننے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتے۔ یہ لوگ دراصل لاتوں کے بھوت ہیں۔ جب تک انہوں نے اللہ کے عذاب کا مزا نہ چکھا، اپنی خواب غفلت سے کبھی بیدار نہ ہوں گے۔ اس وقت وہ اپنی خطاؤں اور کوتاہیوں کا اعتراف تو کرنے لگیں گے۔ مگر اس وقت ان کے اعتراف کا کچھ فائد نہ ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اِنَّمَآ اُنْذِرُكُمْ بالْوَحْيِ : یعنی آپ ان سے کہہ دیں کہ میرا کام تو وحی کے مطابق تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈرانا ہے، عذاب لانا نہیں۔ وہ صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور فوراً عذاب لانا اس کی کونی اور شرعی حکمتوں کے خلاف ہے، کیونکہ اس سے آزمائش کا مقصد فوت ہوتا ہے۔ وَلَا يَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَاۗءَ : بہروں سے مراد کفار ہیں جنھیں حق سنائی ہی نہیں دیتا۔ الف لام عہد کا ہے، اس لیے ترجمہ ” یہ بہرے “ کیا گیا ہے۔ آیت کے شروع میں کفار کو مخاطب فرمایا کہ ” میں تو تمہیں وحی کے ساتھ ڈراتا ہوں “ پھر فرمایا ” یہ بہرے پکار نہیں سنتے “ ، بعد میں انھیں غائب کے صیغے سے ذکر فرمایا کہ یہ لوگ مخاطب کرنے کے اہل ہی نہیں، یہ التفات ہے۔ اِذَا مَا يُنْذَرُوْنَ : ” جب ڈرائے جاتے ہیں “ کے الفاظ سے ان کے بہرے پن کی شدت بیان کرنا مقصود ہے، کیونکہ بہرہ تو کوئی بھی بات نہیں سنتا، خواہ ڈرانے کی ہو یا خوش خبری کی، مگر عام دستور ہے کہ ڈرانے کے وقت زیادہ سے زیادہ اونچی آواز کے ساتھ پکارا جاتا ہے۔ تو جو بہرہ اتنی بلند پکار نہ سنے وہ کوئی اور آواز کیا سنے گا ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اِنَّمَآ اُنْذِرُكُمْ بِالْوَحْيِ۝ ٠ۡۖ وَلَا يَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَاۗءَ اِذَا مَا يُنْذَرُوْنَ۝ ٤٥ نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے صمم الصَّمَمُ : فقدانُ حاسّة السّمع، وبه يوصف من لا يُصغِي إلى الحقّ ولا يقبله . قال تعالی: صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] ، ( ص م م ) الصمم کے معنی حاصہ سماعت ضائع ہوجانا کے ہیں ( مجاز) اس کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوتا ہے جو نہ تو حق کی آواز سنے اور نہ ہی اسے قبول کرے ( بلکہ اپنی مرضی کرتا چلا جائے ) قرآن میں ہے : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٥) آپ ان سے فرما دیجیے کہ میں تو صرف وحی یعنی قرآن کریم کے ذریعے سے تمہیں ڈراتا ہوں اور ان بہروں کو جس وقت حق کی دعوت دی جاتی ہے اور اس سے ان کو ڈرایا جاتا ہے تو یہ سنتے ہی نہیں یا یہ کہ آپ ان بہروں کو حق کی بات کہاں سنا سکتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَلَا یَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَآءَ اِذَا مَا یُنْذَرُوْنَ ) ” اگر آپ ایک بہرے کو چلا چلا کر خبردار کر رہے ہوں کہ تمہارے پیچھے سے ایک شیر تم پر حملہ آور ہونے جا رہا ہے تو وہ کہاں خود کو اس خطرے سے بچائے گا۔ یہی مثال ان منکرین کی ہے جو دعوت حق کی آواز سننے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:45) اذا ما۔ جب۔ جب کبھی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 ۔ یعنی میرا کام تو خدا کے حکم کے مطابق نہیں ہیں کہ عذاب سے متنبہ کرنا ہے۔ اگر تم میری بات نہیں سنو گے تو اس کا وبال تم پر ہوگا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ایک دفعہ پھر منکرین حق کو انتباہ کیا گیا ہے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے فرمائیں کہ میں تمہیں اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی وحی کے ذریعے ڈراتا ہوں۔ لیکن کانوں سے بہرے لوگ اس وحی کو ناسنتے ہیں اور نا ہی اس کے انتباہ سے ڈرتے ہیں۔ اگر انھیں ان کے رب کی طرف سے عذاب کا معمولی جھٹکا بھی آجائے تو یہ آہ وزاری اور اپنے آپ پر افسوس کا اظہار کرنے کے ساتھ اعتراف کریں گے کہ ہم ہی ظالم تھے۔ جب انسان مفاد کا بندہ اور تعصب کا غلام ہوجائے تو پھر نہ وہ حقیقت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، نہ اچھی بات کو سننا گوارا کرتا ہے اور نہ ہی کسی بات پر غور و فکر کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کے کان سننے کے قابل، آنکھیں دیکھنے اور عقل کے دریچے اس وقت کھلتے ہیں جب ان کے سروں پر عذاب منڈلانے لگتا ہے۔ ایسے لوگوں کی اسی حالت کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن اس وقت انھیں سننے اور دیکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ اپنی طرف سے ہمیں دھمکیاں دیتا ہے۔ اس کے جواب میں آپ کو حکم دیا گیا۔ کہ آپ وضاحت فرمائیں کہ میں اپنی طرف سے نہیں ” اللہ “ کی وحی کے مطابق تمہیں سمجھاتا اور تمہارے انجام سے ڈراتا ہوں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے عذاب کے وقت مجرموں کا اعتراف : ١۔ مجرم کہیں گے ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے۔ (الانعام : ١٣٠) ٢۔ اے ہمارے پروردگار ہماری بدبختی نے ہمیں گھیر لیا تھا اور ہم کافر ہوئے۔ (المومنون : ١٠٦) ٣۔ ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں کیا یہاں سے نکلنے کا راستہ ہے۔ (المومن : ١١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل انمآ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اذا ماینذرون (٥٤) ” لوگوخیال کرو ‘ کہیں تم بہرے تو نہیں ہو۔ تم کیوں نہیں سنتے۔ ورنہ تمہارے پیروں تلے سے زمین سرک جائے گی اور دست قدرت تمہیں سیکڑ کر رکھ دے گا۔ ان کو دولت کے گھمنڈ اور مالدری کی مستی سے ڈرایا جاتا ہے۔ سیاق کلام اپنی موثر بات مزید بڑھاتا ہے اور عذاب کے وقت خود ان کی تصویری حالت ان کو بتاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

31:۔ مشرکین عذاب اور قیامت کے جلدی آنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ آپ فرما دیں کہ میں وحی کے ذریعہ اسی عذاب اور قیامت سے تم کو ڈراتا ہوں۔ تاکہ تم ان کے لیے کچھ تیاری کرلو۔ مگر یہ لوگ ایسے بہرے بن چکے ہیں کہ جب انہیں عذاب الٰہی اور اہوال قیامت سے ڈرایا جاتا ہے تو وہ داعی کی آواز کو سن ہی نہیں پاتے۔ ” وَلَئِنْ مَّسَّتْھُمْ “ لیکن وہ جب عذاب موعود میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو چلا اٹھتے ہیں اے کاش ! ظالم ہم ہی تھے۔ اب اپنے قصور کا اعتراف کرتے ہیں مگر بےفائدہ۔ اخبر تعالیٰ ان ھؤلاء الذین صموا عن سماع ما انذروا بہ اذا ناالھم شیء مما انذروا بہ ولو کان یسیرا نادوا بالھلاک واقروا بانہم کانوا ظلمین (بحر ج 6 ص 316) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(45) اے پیغمبر ! آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میں تو صرف تم کو اللہ تعالیٰ کی وحی کے ذریعہ اور وحی الٰہی کے موافق اڑاتا ہوں اور جو لوگ بہرے ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ یہ بہرے جب ڈرائے جائیں تو کسی کی پکار کو نہیں سنا کرتے۔ یعنی عذاب میں جلدی کرنا یا تاخیر کرنا میرے بس میں نہیں ہے میں تو صرف وحی الٰہی کے مطابق نافرمانوں کو ڈراتا ہوں مگر جو لوگ صحیح آواز کو سننے سے بہرے ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ ان کو جب ڈرایا جائے اور ہوشیا کیا جائے تو وہ پکار کو سنتے ہی نہیں اس میں میرا کیا قصور ہے۔