Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 50

سورة الأنبياء

وَ ہٰذَا ذِکۡرٌ مُّبٰرَکٌ اَنۡزَلۡنٰہُ ؕ اَفَاَنۡتُمۡ لَہٗ مُنۡکِرُوۡنَ ﴿۵۰﴾٪  4 الرّبع

And this [Qur'an] is a blessed message which We have sent down. Then are you with it unacquainted?

اور یہ نصیحت و برکت والا قرآن بھی ہم نے نازل فرمایا ہے کیا پھر بھی تم اس کے منکر ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَهَذَا ذِكْرٌ مُّبَارَكٌ أَنزَلْنَاهُ ... And this is a blessed Reminder which We have sent down; means, the Magnificent Qur'an, which falsehood cannot approach, from before it or behind it, revealed by the All-Wise, Worthy of all praise. ... أَفَأَنتُمْ لَهُ مُنكِرُونَ will you then deny it! means, will you deny it when it is the utmost in clarity and truth!

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

50۔ 1 یہ قرآن، جو یاد دہانی حاصل کرنے والے کے لئے ذکر اور نصیحت اور خیر و برکت کا حامل ہے، اسے بھی ہم نے ہی اتارا ہے۔ تم اس کے مُنَزَّل مِّنَ اللّٰہِ ہونے سے کیوں انکار کرتے ہو، جب کہ تمہیں اعتراف ہے کہ تورات اللہ کی طرف سے ہی نازل کردہ کتاب ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٥] اور یہ قرآن جسے ہم نے اے قریشیو ! تمہاری طرف نازل کیا ہے یہ تورات سے بھی زیادہ بابرکت ہے۔ جس میں سابقہ تمام آسمانی کتب کی خوبیاں بھی موجود ہیں اور ان سب کا خلاصہ بھی اس میں آگیا ہے۔ علاوہ ازیں اس میں انسان کی ہدایت سے متعلق ہر چیز کو پوری تفصیل سے بیان کردیا گیا ہے۔ گویا یہ قرآن فرقان بھی ہے، ... صفیاء اور نور بھی ہے، ذکر اور تذکرہ بھی ہے اور قیامت تک کے لوگوں کے لئے رحمت اور باعث رحمت بھی ہے۔ پھر بھی اگر تم ایسی بابرکت کتاب کا انکار کرتے ہو تو تمہاری بدبختی میں کیا شبہ ہوسکتا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَھٰذَا ذِكْرٌ مُّبٰرَكٌ اَنْزَلْنٰهُ ۭ : ” ھٰذَا “ (یہ) سے مراد قرآن مجید ہے، سامعین کے ذہن میں حاضر ہونے کی وجہ سے اس کی طرف ” ھٰذَا “ کے ساتھ اشارہ فرمایا ہے۔ ” ھٰذَا “ یعنی یہ نصیحت ہے اور یاد دہانی بھی۔ ” ذِكْرٌ“ جس میں بہت برکت، یعنی بیشمار بھلائیاں ہیں اور ہم نے (اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت کے ا... ظہار کے لیے جمع متکلم کا صیغہ استعمال فرمایا ہے) اسے نازل کیا ہے۔ اَفَاَنْتُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَ : ہم نے موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کو تورات اور معجزات عطا کیے، تم لوگ انھیں مانتے ہو تو یہ بابرکت ذکر یعنی قرآن بھی ہم نے ہی نازل کیا ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ تم اسے نہیں مانتے ؟  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَھٰذَا ذِكْرٌ مُّبٰرَكٌ اَنْزَلْنٰہُ۝ ٠ۭ اَفَاَنْتُمْ لَہٗ مُنْكِرُوْنَ۝ ٥٠ۧ ذكر الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک...  قيل : الذّكر ذکران : ذكر بالقلب . وذکر باللّسان . وكلّ واحد منهما ضربان : ذكر عن نسیان . وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ، ( ذک ر ) الذکر ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ برك أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء . قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] ( ب رک ) البرک اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا نكر الإِنْكَارُ : ضِدُّ العِرْفَانِ. يقال : أَنْكَرْتُ كذا، ونَكَرْتُ ، وأصلُه أن يَرِدَ علی القَلْبِ ما لا يتصوَّره، وذلک ضَرْبٌ من الجَهْلِ. قال تعالی: فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود/ 70] ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] وقد يُستعمَلُ ذلک فيما يُنْكَرُ باللّسانِ ، وسَبَبُ الإِنْكَارِ باللّسانِ هو الإِنْكَارُ بالقلبِ لکن ربّما يُنْكِرُ اللّسانُ الشیءَ وصورتُه في القلب حاصلةٌ ، ويكون في ذلک کاذباً. وعلی ذلک قوله تعالی: يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل/ 83] ، فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ ( ن ک ر ) الانکار ضد عرفان اور انکرت کذا کے معنی کسی چیز کی عدم معرفت کے ہیں اس کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو لہذا یہ ایک درجہ جہالت ہی ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود/ 70] جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہین جاتے ( یعنی وہ کھانا نہین کھاتے ۔ تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا ۔ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] تو یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچان سکے ۔ اور کبھی یہ دل سے انکار کرنے پر بولا جاتا ہے اور انکار لسانی کا اصل سبب گو انکار قلب ہی ہوتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات انسان ایسی چیز کا بھی انکار کردیتا ہے جسے دل میں ٹھیک سمجھتا ہے ۔ ایسے انکار کو کذب کہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ۔ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل/ 83] یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر ان سے انکار کرتے ہیں ۔ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [ المؤمنون/ 69] اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٠) اسی طرح یہ قرآن کریم بھی ایک کثیر الفائدہ نصیحت کی کتاب ہے جو اس پر ایمان لائے یہ اس کے لیے باعث رحمت و مغفرت ہے جس کو ہم نے بذریعہ جبریل امین نازل کیا ہے پھر بھی مکہ والو تم اس کے منکر ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠ (وَہٰذَا ذِکْرٌ مُّبٰرَکٌ اَنْزَلْنٰہُ ط) ” اس سے پہلے ہم نے تورات نازل کی جو حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والی تھی ‘ اس میں مؤمنین متقین کے لیے روشنی اور نصیحت بھی تھی ‘ اور اب ہم نے اپنا بابرکت کلام قرآن کی صورت میں نازل کیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:50) ھذا۔ ای القران۔ ذکر مبارک بڑی برکت والی نصیحت۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قرآن مجید کے بارے میں فرمایا (وَ ھٰذَا ذِکْرٌ مُّبٰرَکٌ اَنْزَلْنٰہُ اَفَاَنْتُمْ لَہٗ مُنْکِرُوْنَ ) (یہ قرآن نصیحت ہے بہت بابرکت ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے (پہلے سے تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے بھی کتابیں نازل فرمائی ہیں) پھر اس کے نازل ہونے کا انکار کیوں کرتے ہو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

34:۔ ترغیب الی القرآن ہے۔ یہ برکت والا ذکر یعنی قرآن بھی وہی دعوائے توحید پیش کررہا ہے جو کتب سابقہ نے پیش کیا پھر اس کا انکار کیوں ؟

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(50) اور یہ قرآن کریم بھی ایک بڑی بابرکت اور کثیر الفائدہ نصیحت ہے جس کو ہم نے اتارا اور نازل کیا ہے سو کیا پھر تم اس نصیحت کو قبول کرنے اور ماننے سے انکار کرتے ہو۔ … یعنی اس نصیحت نامہ کے فوائد اور اس کی روشنی تو توریت سے بڑھی ہوئی ہے تو کیا تم اس قرآن کریم کو ماننے اور قبول کرنے سے انکار کرتے ہو۔