Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 56

سورة الأنبياء

قَالَ بَلۡ رَّبُّکُمۡ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ الَّذِیۡ فَطَرَہُنَّ ۫ ۖوَ اَنَا عَلٰی ذٰلِکُمۡ مِّنَ الشّٰہِدِیۡنَ ﴿۵۶﴾

He said, "[No], rather, your Lord is the Lord of the heavens and the earth who created them, and I, to that, am of those who testify.

آپ نے فرمایا نہیں درحقیقت تم سب کا پروردگار تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے جس نے انہیں پیدا کیا ہے میں تو اسی بات کا گواہ اور قائل ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ بَل رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالاْاَرْضِ الَّذِي فَطَرَهُنَّ ... He said: "Nay, your Lord is the Lord of the heavens and the earth, Who created them..." meaning, your Lord, beside Whom there is no other god, is the One Who created the heavens and the earth and all that they contain; He is the One Who initiated their creation; He is the Creator of all things. ... وَأَنَا عَلَى ذَلِكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ and to that I am one of the witnesses. means, and I bear witness that there is no God other than Him and no Lord except Him.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

56۔ 1 یعنی میں مذاق نہیں کر رہا، بلکہ ایک ایسی چیز پیش کر رہا ہوں جس کا علم و یقین (مشاہدہ) مجھے حاصل ہے اور وہ یہ کہ تمہارا معبود مورتیاں نہیں، بلکہ وہ رب ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک اور ان کا پیدا کرنے والا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٠] حضرت ابراہیم نے جواب دیا کہ یہ دل لگی کی بات نہیں بلکہ میں فی الواقعہ یہی کچھ سمجھتا ہوں کہ یہ پتھر کے بت جو اپنے بھی نفع و نقصان کے مالک نہیں وہ تمہارے نفع و نقصان کے مالک کیسے بن سکتے ہیں۔ اور میں تو اپنے نفع و نقصان کا مالک صرف اپنے اس پروردگار کو سمجھتا ہوں جس نے ہم سب کو بھی اور زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے اور ان پر پورے اختیار کے ساتھ حکمرانی کر رہا ہے اور میں یہ بات محض وہم و گمان کی بنا پر نہیں بلکہ پورے وثوق کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ بَلْ رَّبُّكُمْ ۔۔ : ” بَلْ “ (بلکہ) سے پہلے کلام کا کچھ حصہ محذوف ہے جو خود بخود سمجھ میں آ رہا ہے، یعنی میں یہ بات مذاق سے نہیں بلکہ پوری سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں کہ یہ مورتیاں اور مجسّمے رب نہیں ہیں بلکہ تمہارا رب صرف وہ ہے جو تمام آسمانوں کا اور زمین کا رب ہے۔” رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ “ مبتدا اور خبر دونوں کے معرفہ ہونے سے حصر کا معنی پیدا ہو رہا ہے۔ وَاَنَا عَلٰي ذٰلِكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِيْنَ : یعنی میں یہ بات دلیل سے ثابت کرسکتا ہوں، تمہاری طرح نہیں کہ آبا و اجداد کی تقلید کے سوا میرے پاس کوئی دلیل ہی نہ ہو (کیونکہ شہادت اسی بات کی دی جاتی ہے جس کا انسان کو یقینی علم ہو، جب کہ تقلید اور علم ایک دوسرے کے منافی ہیں) ۔ (رازی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ بَلْ رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الَّذِيْ فَطَرَہُنَّ۝ ٠ۡۖ وَاَنَا عَلٰي ذٰلِكُمْ مِّنَ الشّٰہِدِيْنَ۝ ٥٦ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ فطر أصل الفَطْرِ : الشّقُّ طولا، وفِطْرَةُ اللہ : هي ما رکز فيه من قوّته علی معرفة الإيمان، وهو المشار إليه بقوله : وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ [ الزخرف/ 87] ، وقال : الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر/ 1] ( ف ط ر ) الفطر ( ن ض ) اس کے اصل معنی کسی چیز کو ( پہلی مرتبہ ) طول میں پھاڑنے کے ہیں ۔ اسی سے فطرت ہے جس کے معنی تخلیق کے ہیں اور فطر اللہ الخلق کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی تخلیق اسطرح کی ہے کہ اس میں کچھ کرنے کی استعداد موجود ہے پس آیت کریمہ ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر/ 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ۔ الَّذِي فَطَرَهُنَّ [ الأنبیاء/ 56] جس نے ان کو پیدا کیا شهد وشَهِدْتُ يقال علی ضربین : أحدهما جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول : أشهد . والثاني يجري مجری القسم، فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٦) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا بلکہ تمہارا حقیقی پروردگار وہی ہے جو آسمان و زمین کا پروردگار اور ان کا خالق ہے اور میں جو تم سے کہہ رہا ہوں، اس پر دلیل بھی رکھتا ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَاَنَا عَلٰی ذٰلِکُمْ مِّنَ الشّٰہِدِیْنَ ) ” حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ میں علیٰ وجہ البصیرت یہ بات کہہ رہا ہوں ‘ مجھے اس میں ذرا بھی شک نہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اپنی دعوت کے سلسلے میں بالکل اسی طرح قطعی الفاظ میں اعلان کرنے کا حکم دیا گیا : (قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلِیْ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِقف عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ ط) ( یوسف : ١٠٨) ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ کہہ دیجیے کہ یہ میرا راستہ ہے ‘ میں اللہ کی طرف بلا رہا ہوں پوری بصیرت کے ساتھ ‘ میں خود بھی اور وہ بھی جو میری پیروی کر رہے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:56) فطرہن۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ ھن ضمیر مفعول جمع مؤنث غائب (جس کا مرجع السموت والارض ہے) اس نے ان کو پیدا کیا۔ فاطرپیدا کرنے والا۔ لغوی معنی کے لحاظ سے فطر کے مفہوم میں پھاڑنے کے معنی ضرور ہونے چاہئیں۔ پیدا کرنے کے معنی میں بھی یہ مفہوم موجود ہے کیونکہ پیدا کرنا بمعنی عدم کے پردے کو پھاڑ کر وجود میں لانا ہے۔ قرآن مجید میں آیا ہے ھل تری من فطور (37 :3) کیا تجھ کو کوئی پھٹ (شگاف) نظر آتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قال بل۔۔۔۔۔۔۔ من الشھدین (٦٥) ‘۔ اللہ تو رب واحد ہے۔ وہی آسمانوں اور زمین کا رب ہے ‘ اور وہ اس لیے رب ہے کہ وہ ان کا پیدا کرنے والا ہے یعنی وہ الہٰ واحد ہے۔ دو صفات کی وجہ سے اور ان میں جدائی ممکن نہیں ہے۔ ایک یہ کہ وہ زمین و آسمان کا رب ہے۔ ان کو چلانے والا ہے اور دوسری صفت یہ ہے کہ ان کو پیدا بھی اس نے کیا۔ یہ تو درست عقیدہ ہے لیکن مشرکین عرب کا عقیدہ نہایت ہی معقول ہے کہ وہ اپنے بتوں کو رب تو مانتے تھے لیکن خالق نہ مانتے تھے۔ خالق وہ بھی صرف اللہ کو مانتے تھے۔ لیکن یہ جانتے ہوئے کہ دوسرے الہوں نے کسی چیز کی تخلیق نہیں کی پھر بھی ان کی پوجا کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایک ایسے گواہ کی طرح گواہی دیتے ہیں جس کوئی شک نہیں ہوتا۔ وانا علی ذلکم من الشھدین (١٢ : ٦٥) ” اس پر میں تمہارے سامنے گواہی دیتا ہوں “۔ زمین و آسمان کی تخلیق کے وقت حضرت ابراہیم موجود نہ تھے۔ نہ وہ اپنے نفس اور اپنی قوم کی تخلیق پر چشم دید گواہ تھے۔ لیکن یہ معاملہ اس قدر واضح ‘ ثابت شدہ ہے کہ ایک مومن اس پر چشم دید گواہ کی طرح گواہی دے سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز وحدت خالق پر ناطق ہے۔ انسانی شخصیت کے جو جو کمالات ہیں ‘ جسمانی و ذہنی وہ سب کے سب برہان ناطق ہیں کہ خالق ایک ہے اور وہی مدبر ہے۔ وہ قانون قدرت بھی ایک ہی ہے جو اس پوری کائنات کو مع انسان کے چلا رہا ہے اور اس میں متصرف ہے ‘ جس طرح چاہیے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم سے جو شخص یہ گفتگو کررہا تھا ‘ اس سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہہ دیا کہ ان کے بتوں کے بارے میں میں نے ایک فیصلہ کرلیا ہے۔ اس پر ضرور عمل ہوگا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

56) ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا دل لگی اور خوش طبعی نہیں بلکہ تمہارا پروردگار وہ ہے جو تمام آسمانوں کا اور زمین کا پروردگار ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے اور میں اس بات پر پوری بصیرت کے ساتھ شہادت دیتا ہوں اور میں اس دعوے پر دلیل رکھتا ہوں۔ یعنی میرا یہ دعویٰ کہ سب کا پروردگار وہی ہے جو تمام آسمان و زمین کو ترتیب دینے والا اور پیدا کرنے والا ہے میں اس دعوے پر حجت وبراہین رکھتا ہوں میں اسی کا قائل ہوں اور میں پوری بصیرت کے ساتھ اس دعوے پر شہادت دیتا ہوں۔