Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 76

سورة الأنبياء

وَ نُوۡحًا اِذۡ نَادٰی مِنۡ قَبۡلُ فَاسۡتَجَبۡنَا لَہٗ فَنَجَّیۡنٰہُ وَ اَہۡلَہٗ مِنَ الۡکَرۡبِ الۡعَظِیۡمِ ﴿ۚ۷۶﴾

And [mention] Noah, when he called [to Allah ] before [that time], so We responded to him and saved him and his family from the great flood.

نوح کے اس وقت کو یاد کیجئے جبکہ اس نے اس سے پہلے دعا کی ہم نے اس کی دعا قبول فرمائی اور اسے اور اس کے گھر والوں کو بڑے کرب سے نجات دی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Nuh and His People Allah tells us how He responded to His servant and Messenger Nuh, peace be upon him, when he prayed to Him against his people for their disbelief in him: فَدَعَا رَبَّهُ أَنُّى مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ Then he invoked his Lord (saying): "I have been overcome, so help (me)!" (54:10) وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لاَ تَذَرْ عَلَى الاٌّرْضِ مِنَ الْكَـفِرِينَ دَيَّاراً إِنَّكَ إِن تَذَرْهُمْ يُضِلُّواْ عِبَادَكَ وَلاَ يَلِدُواْ إِلاَّ فَاجِراً كَفَّاراً And Nuh said: "My Lord! Leave not any inhabitant of the disbelievers on the earth! If You leave them, they will mislead Your servants, and they will beget none but wicked disbelievers. (71:26-27) So Allah says here, وَنُوحًا إِذْ نَادَى مِن قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ ... And (remember) Nuh, when he cried (to Us) aforetime. We answered to his invocation and saved him and his family, meaning, those who believed with him, as Allah says elsewhere: وَأَهْلَكَ إِلاَّ مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ ءَامَنَ وَمَأ ءَامَنَ مَعَهُ إِلاَّ قَلِيلٌ ...and your family -- except him against whom the Word has already gone forth -- and those who believe. And none believed with him, except a few. (11: 40) ... مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ from the great distress. meaning, from difficulty, rejection and harm. For he remained among them for one thousand years less fifty, calling them to Allah, and no one had believed in him except for a few. His people were plotting against him and advising one another century after century, generation after generation, to oppose him.

نوح علیہ السلام کی دعا نوح نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کی قوم نے ستایا تکلیفیں دیں تو آپ نے اللہ کو پکارا کہ باری تعالیٰ میں عاجز آگیا ہوں تو میری مدد فرما ۔ زمین پر ان کافروں میں کسی ایک کو بھی باقی نہ رکھ ورنہ یہ تیرے بندوں کو بہکائیں گے ۔ اور ان کی اولادیں بھی ایسی ہی فاجر کافر ہوں گی ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی دعا قبول فرمائی اور آپ کو اور مومنوں کو نجات دی اور آپ کے اہل کو بھی سوائے ان کے جن کے نام برباد ہونے والوں میں آگئے تھے ۔ آپ پر ایمان لانے والوں کی بہت ہی کم مقدار تھی ۔ قوم کی سختی ، ایذاء دہی ، اور تکلیف سے اللہ عالم نے اپنے نبی کو بچالیا ۔ ساڑھے نوسو سال تک آپ ان میں رہے اور انہیں دین اسلام کی طرف بلاتے رہے مگر سوائے چند لوگوں کے اور سب اپنے شرک وکفر سے باز نہ آئے بلکہ آپ کو سخت ایذائیں دیں اور ایک دوسرے کو اذیت دینے کے لیے بھڑکاتے رہے ۔ ہم نے ان کی مدد فرمائی اور عزت آبرو کے ساتھ کفار کی ایذاء رسانیوں سے چھٹکارا دیا اور ان برے لوگوں کوٹھکانے لگادیا ۔ اور نوح علیہ السلام کی دعا کے مطابق روئے زمین پر ایک بھی کافر نہ بچا سب ڈبودئے گئے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٣] حضرت نوح (علیہ السلام) کا قصہ بھی سورة اعراف اور سورة ہود میں گزر چکا ہے وہ حواشی بھی سامنے رکھے جائیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ سے نجات دینے کے بعد نوح (علیہ السلام) کو پانی کے طوفان سے نجات دینے کا ذکر فرمایا۔ وَنُوْحًا اِذْ نَادٰي مِنْ قَبْلُ ۔۔ : نوح (علیہ السلام) کی اس دعا کا ذکر سورة نوح (٢٦ تا ٢٨) میں تفصیل سے مذکور ہے، اسی طرح سورة قمر میں ہے : (فَدَعَا رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ ) [ القمر : ١٠] ” تو اس نے اپنے رب کو پکارا کہ میں مغلوب ہوں سو تو بدلہ لے۔ “ فَنَجَّيْنٰهُ وَاَهْلَهٗ : ” اَهْلَهٗ “ سے مراد ان کے مشرک بیٹے اور بیوی کے سوا باقی گھر والے ہیں۔ بیٹے کے متعلق دیکھیے سورة ہود (٤٠ تا ٤٣) اور بیوی کے متعلق سورة تحریم (١٠) ۔ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيْمِ : ” الْكَرْبِ “ کا معنی ہے ” أَقْصَی الْغَمِّ “ یعنی آخری حد کو پہنچا ہوا غم۔ ” الْكَرْبِ الْعَظِيْمِ “ سے مراد کفار کی نوح (علیہ السلام) سے ساڑھے نو سو برس کی مسلسل مخالفت، بدسلوکی، ایذا رسانی، استہزا اور سنگسار کرنے کی دھمکیاں بھی ہیں، جن کا شکوہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور کیا، جو سورة نوح کی آیت (٥) سے آیت (٢٤) تک میں مذکور ہے اور جن کا ذکر سورة ہود (٣٨) اور شعراء (١١٦) میں ہے۔ پہاڑوں جیسی موجوں والا طوفان بھی مراد ہے، جس نے اللہ کے حکم سے زمین پر بسنے والا ایک مشرک بھی باقی نہ چھوڑا۔ فَاَغْرَقْنٰهُمْ اَجْمَعِيْنَ : اس کی تفصیل سورة ہود (٣٧ تا ٤٩) میں ملاحظہ فرمائیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary وَنُوحًا إِذْ نَادَىٰ مِن قَبْلُ And (remember) Nuh, when he called (for help) earlier - 21:76 Here مِن قَبْلُ (earlier) means before the time of Sayyidna Ibrahim and Sayyidna Lut (علیہما السلام) ، whose account has just preceded in previous verses. As for the prayer of Nuh علیہ السلام which is referred to here briefly, the version given in Surah Nuh is that Sayyidna Nuh (علیہ السلام) had cursed his people, رَّ‌بِّ لَا تَذَرْ‌ عَلَى الْأَرْ‌ضِ مِنَ الْكَافِرِ‌ينَ دَيَّارً‌ا (My Lord, leave not upon the earth of the unbelievers even one - 71:26). It is reported at another place that when the people of Nuh (علیہ السلام) did not listen to him at all, he prayed to Allah Ta` ala أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ‌ (I am vanquished; do Thou succour me! - 54:10) so You take revenge from them. فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْ‌بِ الْعَظِيمِ (So, We responded to him and saved him and his family from the terrible agony - 21:76) Here the expression &terrible agony& either refers to the drowning in the deluge which annihilated the entire people or the torture which he and his followers suffered at the hands of those people.

خلاصہ تفسیر اور نوح (علیہ السلام کے قصہ) کا تذکرہ کیجئے جبکہ اس (زمانہ ابراہیمی) سے پہلے انہوں نے (اللہ تعالیٰ سے) دعا کی ( کہ ان کافروں سے میرا بدلہ لے لیجئے) سو ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ان کو اور ان کے متبعین کو بڑے بھاری غم سے نجات دی (یہ غم کفار کی تکذیب اور اس کے ساتھ طرح طرح کی اذائیں پہنچانے پیش آتا تھا) اور (نجات اس طرح دی کہ) ہم نے ایسے لوگوں سے ان کا بدلہ لیا جنہوں نے ہمارے حکموں کو (جو کہ حضرت نوح (علیہ السلام) لائے تھے) جھوٹا بتلایا تھا بلاشبہ وہ لوگ بہت برے تھے اس لئے ہم نے ان سب کو غرق کردیا۔ معارف و مسائل وَنُوْحًا اِذْ نَادٰي مِنْ قَبْلُ ، من قبل سے مراد ابراہیم و لوط (علیہما السلام) سے پہلے ہونا ہے۔ جن کا ذکر اوپر کی آیات میں آیا ہے اور نوح (علیہ السلام) کی جس نداء کا ذکر اس جگہ مجملاً آیا ہے اس کا بیان سورة نوح میں یہ ہے کہ نوح (علیہ السلام) نے قوم کے لئے بد دعا کی رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَي الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا یعنی اے پروردگار روئے زمین پر کافروں میں کسی بسنے والے کو نہ چھوڑ اور ایک جگہ یہ ہے کہ جب نوح (علیہ السلام) کی قوم نے کسی طرح ان کا کہنا نہ مانا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا، اَنِّىْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ ، یعنی میں مغلوب اور عاجز ہوچکا ہوں آپ ہی ان لوگوں سے انتقام لے لیجئے۔ فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَنَجَّيْنٰهُ وَاَهْلَهٗ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيْمِ ، کرب عظیم سے مراد یا تو طوفان میں غرق ہونا ہے جس میں پوری قوم مبتلا ہوئی، یا اس قوم کی ایذائیں مراد ہیں جو وہ طوفان سے پہلے حضرت نوح اور ان کے خاندان کو پہنچاتے تھے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَنُوْحًا اِذْ نَادٰي مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ فَنَجَّيْنٰہُ وَاَہْلَہٗ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيْمِ۝ ٧٦ۚ نوح نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس . ( ن و ح ) نوح ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔ استجاب والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] ، وقال : ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر/ 60] ، فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة/ 186] ، فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران/ 195] ، وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری/ 26] وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری/ 38] ، وقال تعالی: وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي[ البقرة/ 186] ، الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران/ 172] . ( ج و ب ) الجوب الاستحابتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر/ 60] کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری ( دعا ) قبول کرونگا ۔ فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران/ 195] تو ان کے پرور گار نے ان کی دعا قبول کرلی ۔ وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری/ 26] اور جو ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کی ( دعا) قبول فرماتا وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری/ 38] اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة/ 186] اور اے پیغمبر جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو ( کہہ دو کہ ) میں تو ( تمہارے پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہیئے کہ میرے حکموں کو مانیں ۔ الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران/ 172] جنهوں نے باوجود زخم کھانے کے خدا اور رسول کے حکم کو قبول کیا ۔ نجو أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] ( ن ج و ) اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔ أهل أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل : أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب/ 33] ( ا ھ ل ) اھل الرجل ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ { إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ } ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔ كرب الكَرْبُ : الغمّ الشّديد . قال تعالی: فَنَجَّيْناهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ [ الأنبیاء/ 76] . والکُرْبَةُ کا لغمّة، وأصل ذلک من : كَرْبِ الأرض، وهو قَلْبُها بالحفر، فالغمّ يثير النّفس إثارة ذلك، وقیل في مَثَلٍ : الكِرَابُ علی البقر «1» ، ولیس ذلک من قولهم : ( الکلاب علی البقر) في شيء . ويصحّ أن يكون الكَرْبُ من : كَرَبَتِ الشمس : إذا دنت للمغیب . وقولهم : إناء كَرْبَانُ ، أي : قریب . نحو : قَرْبانَ ، أي : قریب من الملء، أو من الكَرَبِ ، وهو عقد غلیظ في رشا الدّلو، وقد يوصف الغمّ بأنه عقدة علی القلب، يقال : أَكْرَبْتُ الدّلوَ.( ک ر ب ) الکرب ۔ کے ہم معنی سخت غم کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَنَجَّيْناهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ [ الأنبیاء/ 76] تو ان کو اور ان کے ساتھیوں کو بڑی گھبراہٹ سے نجات دی ۔ اور کر بۃ عمۃ کی طرح ہے یہ اصل میں کرب الارض سے مشتق ہے جس کے معنی زمین میں قلبہ رانی کے ہیں ۔ اور غم سے بھی چونکہ طبیعت الٹ پلٹ جاتی ہے ۔ اس لئے اسے کرب کہاجاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ الکراب علی البقر یعنی ہر آدمی کو اس کا کام کرنے دو اور یہ الکلاب علی ا لبقر کے قبیل سے نہیں ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کر اب ( سخت غم ) کر بت الشمس سے ماخوذ ہو ۔ جس کے معنی ہیں سورج غروب ہونا کے قریب ہوگیا ۔ اور اناء کر بان میں کر بان بمعنی قربان ہے ۔ یعنی تقریبا بھرا ہوا برتن اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کرب ( غم ) الکرب سے مشتق ہو جس کے معنی سخت گرہ کے ہیں جو ڈول کے ساتھ رسی میں لگی رہتی ہے ۔ اور تم بھی دل پ ربمنزلہ گرہ کے بیٹھ جاتا ہے ۔ اس لئے اسے کرب کہاجاتا ہو ۔ اکربت الدلول ڈول کے دستہ میں چھوٹی سی رسی باندھنا ۔ عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٦) اور حضرت نوح (علیہ السلام) کو بھی ہم نے نبوت کے ساتھ سرفراز فرمایا ان کا وہ واقعہ بھی بیان کیجیے جب کہ انہوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کے زمانہ سے پہلے اپنی قوم کی ہلاکت کے لیے اپنے رب سے دعا کی، سو ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ان کو اور ان پر ایمان لانے والوں کو غرق ہونے سے نجات دی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٦ (وَنُوْحًا اِذْ نَادٰی مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ ) ” یہ اس دعا کی طرف اشارہ ہے جو سورة القمر میں نقل ہوئی ہے : (فَدَعَا رَبَّہٗٓ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ ) کہ پروردگار میں تو مغلوب ہوگیا ہوں ‘ اب تو میری مدد فرما اور تو ہی ان کافروں سے انتقام لے۔ آپ ( علیہ السلام) کی یہ دعا قبول فرمائی گئی اور اس نافرمان قوم کو غرق کردیا گیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

68. This refers to Prophet Noah’s (peace be upon him) prayer which he at last made after having tried his utmost to reform his people: Lord, help me for I have been overpowered. (Surah Al-Qamar, Ayat 10), and Lord, do not leave even a single disbeliever on the earth. (Surah Nooh, Ayat 26). 69. “Great affliction” may either refer to living a miserable life among the wicked people, or to the flood. (For the story of Prophet Noah, see (Surah Al-Aaraf, Ayats: 59-64); (Surah Younus, Ayats 72-74); (Surah Houd, Ayats 25-48), and( Surah Al-Isra, Ayat 3) and the E.N.s thereof).

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :68 اشارہ ہے حضرت نوح کی اس دعا کی طرف جو ایک مدت دراز تک اپنی قوم کی اصلاح کے لیے مسلسل کوشش کرتے رہنے کے بعد آخر کار تھک کر انہوں نے مانگی تھی : اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانتَصِرْ ، پروردگار ، میں مغلوب ہو گیا ہوں ، اب میری مدد کو پہنچ ( القمر ۔ آیت 10 ) ۔ اور : رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْ ض مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّاراً ہ پرور دگار ، زمین پر ایک کافر باشندہ بھی نہ چھوڑ ( نوح ۔ آیت 26 ) ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :69 کرب عظیم سے مراد یاتو ایک بد کردار قوم کے درمیان زندگی بسر کرنے کی مصیبت ہے ، یا پھر طوفان ۔ حضرت نوح کے قصے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو ۔ الاعراف ، آیات 59 تا 64 ۔ یونس ، آیات 71 تا 73 ۔ ھود ۔ آیات 25 تا 48 ، بنی اسرائیل ، آیت 3 ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٦۔ ٧٧:۔ سب انبیاء میں نوح (علیہ السلام) پہلے صاحب شریعت نبی ہیں ‘ چناچہ صحیح بخاری ومسلم کی ابوہریرہ (رض) کی شفاعت کی بہت بڑی حدیث میں اس کا ذکر تفصیل سے ہے ‘ سورة قمر اور سورة نوح میں آوے گا کہ ساڑھے نو سو برس نصیحت کر کے جب نوح (علیہ السلام) قوم کے لوگوں کی سرکشی سے تنگ آگئے تو انہوں نے قوم کے لوگوں پر عذاب نازل ہونے کی بددعا کی اس کو فرمایا اے رسول اللہ کے ابراہیم اور لوط (علیہ السلام) کے زمانہ سے پہلے جب نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے حق میں بددعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بددعا سن لی اور نوح (علیہ السلام) کو مع ان کے ساتھیوں کے طوفان کے عذاب سے بچا کر باقی قوم کو طوفان کے عذاب سے ہلاک کردیا جس کا قصہ تفصیل سے سورة ہود میں گزر چکا ہے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعوری (رض) کی اور انس بن مالک کی روایتیں جو اوپر گزرچکی ہیں ‘ وہی روایتیں ان آیتوں کی بھی تفسیر ہیں حاصل جس کا وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:76) نوحا۔ فعل مقدرہ اذکر کا مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ای اذکر نوحا اذ نادی من قبل۔ نادی۔ ماضی واحد مذکر غائب نداء مصدر (باب مفاعلہ) اس نے پکارا (ہم کو) حضرت نوح کی ندائ (پکار) اس آیت میں مذکور ہے۔ فدعا ربہ انی مغلوب فانتصر (54:10) اس نے اپنے رب کو پکارا میں درماندہ ہوں سو تو بدلہ لے لے۔ الکرب العظیم۔ موصوف صفت۔ الکرب اسم مصدر معرفہ۔ بڑی مصیبت۔ الکرب العظیم بہت بڑی مصیبت۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) کا ذکر سورة نوح رکوع 2 میں تفصیل سے مذکور ہے۔ سورة قمر میں ہے : ” انی مغلوب فالتصر “ کہ (اے میرے رب) میں مغلوب ہوں، تو ہی ان سے بدلہ لے۔ (آیت :1) 2 ۔ بڑی مصیبت سے مراد کا فردل کی ایذارسانی ہے یا طوفان کی تباہ کاری۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٦) اسرارومعارف ایسے ہی نوح (علیہ السلام) کی مثال ہے جب کفار کی ایذا اور مسلسل انکار کے باعث انہوں نے دعا کی تو کفار تباہ وبرباد ہوگئے ، سارا عالم غرق ہوا مگر وہ ان کے ماننے والے اس بہت بڑے دکھ سے بھی محفوظ رہے نیز کفار کی ایذا سے بھی ہمیشہ کے لیے بچا لیے گئے کہ کفار غرق ہو کر اپنے انجام کو پہنچے نیز ہم نے کفار سے اپنی آیات کے انکار اور نبی کی نافرمانی کا خوب خوب بدلہ لیا کہ وہ بھی بہت برے لوگ تھے اور جب اللہ جل جلالہ کی نافرمانی اور نبی کی دشمنی میں حد سے بڑھے تو ہم نے سب کو ڈبو دیا اور غرق کر کے تباہ کردیا ۔ (نبی کی اطاعت میں آخرت بھی اور دنیا کا فائدہ بھی نصیب ہوتا ہے) نیز داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) کے واقعات سنائیے کہ جہاں نبی سے دشمنی بربادی کا سبب ہے وہاں نبی کی اطاعت میں آخرت بھی سنورتی ہے اور دنیا کا فائدہ بھی نصیب ہوتا ہے جیسے انہوں نے کھیتی کے اجڑنے کا فیصلہ سنایا تھا جب ایک شخص کی بکریوں نے دوسرے کی کھیتی چر لی تھی ، ان کا فیصلہ ہمارے سامنے تھا اور حق تھا جو داؤد (علیہ السلام) نے کیا مگر ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کو اس کی ایک بہتر صورت القا کردی کہ جس میں صرف فیصلہ ہی نہ تھا ان دونوں فریقوں کا دنیا کا فائدہ بھی تھا مفسرین کرام نے واقعہ اس طرح نقل فرمایا ہے کہ ایک شخص کی بکریاں دوسرے کی کھیتی چر گئیں ، اور کھیتی کا نقصان اسی قدر ہوگیا جس قدر بکریوں کی قیمت تھی اور حضرت داؤد (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے آپ نے سارا معاملہ دیکھ کر اور ثبوت پا کر حکم دیا کہ نقصان پورا کرنے کے لیے بکریاں کھیت کے مالک کو دے دی جائیں اور یہ فیصلہ حق تھا جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے کہ ان کا فیصلہ ہمارے روبرو تھا جب انہوں نے فیصلہ قبول کرلیا تو اللہ جل جلالہ نے سلیمان (علیہ السلام) کے دل میں بات ڈال دی جنہوں نے عرض کیا کہ والد گرامی آپ کو فیصلہ درست مگر اس سے بہتر صورت بھی ہے پوچھا وہ کیا فرمایا بکریاں کھیتی والے کو دیں اور وہ ان سے فائدہ اٹھائے مگر تب تک کھیتی بکریوں کے مالک کو دی جائے تاکہ وہ اس میں محنت کرے اور جب پہلے کی طرح سرسبز ہوجائے تو کھیتی کا مالک کھیتی لے کر بکریاں واپس کر دے تو دونوں کو دنیا کا فائدہ بھی مل جائے گا چناچہ اس پر انہوں نے یہ فیصلہ قبول کر کے صلح کرلی ۔ (کیا فیصلہ تبدیل کیا جاسکتا ہے ؟ اور اپیل درست ہے) اس بارہ میں تفاسیر میں بہت لمبی بحثیں کی گئیں ہیں کہ کیا پہلا فیصلہ درست نہ تھا یا اگر درست تھا تو تبدیل کیوں ہوا ، درحقیقت یہاں دونوں فیصلے درست تھے پہلا قانونی فیصلہ تھا اور حق تھا ، دوسرا فیصلہ ان کی باہمی رضا مندی سے تھا اور ایک طرح کی صلح تھی نیز اسلام میں بھی اگر فریقین صلح کریں تو اسے اولیت حاصل ہے اگر کوئی فریق نہ مانے تو قانونی فیصلہ نافذ کیا جاتا ہے جیسا کہ سیدنا عمر (رض) کا ارشاد ہے کہ قانونی فیصلہ سے ایک فریق دب جاتا ہے مگر دل سے راضی نہیں ہوتا جبکہ صلح سے دل صاف ہوجاتے ہیں نیز یہ ارشاد بھی موجود ہے کہ اگر فیصلہ کر چکنے کے بعد خود قاضی کو بہتر صورت نظر آئے تو اس فیصلہ کو بدل دے یعنی نظر ثانی کرنا درست ہے اور یہ بھی درست ہے کہ اس سے اوپر کی عدالت مزید چھان پھٹک کر کے دیکھ لے وہی فیصلہ بحال رکھے یا اس کی بہتر صورت نافذ کردے ، دونوں فیصلے حق پر مبنی تھے لہذا ارشاد ہوا کہ ہم نے دونوں کو حکم اور علم عطا فرمایا تھا سلطنت بھی دی تھی اور نبوت بھی عطا کی گئی ،۔ (ذکر اور اس کی برکات) داؤد (علیہ السلام) کی شان تو یہ تھی کہ پہاڑ اور فضائی پرندے ان کے ساتھ اللہ جل جلالہ کا ذکر کیا کرتے اور اس کی پاکی زبان قال سے بیان کیا کرتے ، اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ یہ کام ہماری قدرت سے ہوتا ہے اور ہم قادر ہیں جو چاہیں کریں اگر یہاں یہ ذکر زبان حال سے کہا جائے تو داؤد (علیہ السلام) کی تخصیص نہیں رہتی وہ تو ہر شے ہر حال میں کرتی ہے لہذا یہاں زبان قال سے ہی مراد ہے اور یہ فضیلت بعض اہل اللہ کو باتباع نبی نصیب ہوتی ہے کہ پہاڑ ، پتھر ، درخت ان سے کلام کرتے ہیں ، ایسے طبیب گذرے ہیں جو جڑی بوٹیوں سے ان کی تاثیر دریافت کرلیا کرتے تھے حتی کہ ذکر کی برکات اس سے بھی بہت زیادہ ہیں نیز انبیاء کرام (علیہ السلام) دنیا کے علوم کا خزینہ بھی ہوتے ہیں اور اللہ جل جلالہ کی طرف سے انہیں یہ علوم سکھائے جاتے ہیں ۔ (صنعت اور اسلام) جیسے ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو لوہے کی زرہ بنانا سکھا دیا جس نے لڑائی کی شدت میں لوگوں کی حفاظت کا حق ادا کیا ، لوگوں تمہیں ان نعمتوں کا شکریہ ادا کرنا چاہئے یعنی صنعت اور ٹیکنا لوجی نہ صرف سیکھنا ضروری ہے بلکہ یہ اللہ جل جلالہ کی بہت بڑی نعمت ہے اور جس قدر حاصل ہو سکے کی جائے اور اس پر اللہ جل جلالہ کا شکر ادا کیا جائے کہ بندہ ٹیکنالوجی بھی سیکھے اور دین بھی جانتا ہو ، ایسے ہی ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کو ہوا پر اختیار دے دیا جو ان کے حکم سے چلتی اور بابرکت زمین اور ان کی سلطنت میں انہیں اڑائے پھرتی ، ہماری ذات ہر شے سے واقف ہے مفسرین کرام کے مطابق سلیمان (علیہ السلام) اپنے اہل دربار سمیت بہت بڑے تخت پر کرسیاں سجا لیتے اور جہاں چاہتے مہینوں کی مسافت پر ہوا انہیں گھنٹوں میں لے جاتی ، یہ اللہ جل جلالہ کی عطا تھی کہ انسانی ذہن بالآخر ایسی مشین بنانے میں کامیاب ہوگیا جس کی ساری تکنیک ہوا کو تیزی سے پیچھے دھکیل کر انسانوں سمیت ایک ہوائی جہاز کو اڑا لے جانا ہے ، اسی لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ” الحکمۃ ضالۃ المومن “۔ کہ صنعت اور دانائی کی بات مومن ہی کی گم شدہ دولت ہے جہاں ملے حاصل کرلی جائے ۔ (جنات کا وجود بھی ہے اور بطور کرامت ولی کا ان پر اختیار ہونا ممکن ہے) نیز سلیمان (علیہ السلام) کو تو ہم نے جنات پر بھی حکومت بخشی کہ وہ ان کی خدمت اور اطاعت کرتے تھے ، بعض سمندروں سے موتی نکال کر لاتے تو کچھ دوسری خدمات انجام دیتے ، یہاں بھی ثابت ہے کہ جنات اللہ جل جلالہ کی مخلوق ہے اور زمین پر آباد ہے جو ایمان لانے کے مکلف ہیں جو کفر کرتے ہیں وہ شیطان کے پیروکار ہو کر شیاطین ہی کہلاتے ہیں اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا حکم ان پر بھی تھا ورنہ ایمان دار تو اطاعت کرنا ویسے ہی سعادت جانتے ہیں نیز یہ ممکن ہے کہ ولی اللہ کو بغیر کسی چلہ کشی اور عمل کے محض کرامت کے طور پر جنات پر اختیار حاصل ہو ۔ اور ایسے ہی عجائبات ایوب (علیہ السلام) کے واقعہ میں ہیں کہ جب ان پر بیماری بہت بڑھ گئی تو انہوں نے دعا فرمائی کہ میرے پروردگار میں سخت تکلیف میں ہوں اور آپ سب سے بڑے رحم کرنے والے ہیں چناچہ ہم نے ان کی درخواست قبول فرما کر ان سے نہ صرف بیماری دور کردی بلکہ انھیں ان کا گھر بار اور خاندان بھی عطا کردیا اور اتنا اور بھی دے دیا جس قدر مال اور اولاد پہلے ان کی تھی حضرت ایوب (علیہ السلام) بھی اللہ کے نبی تھے اور بہت مالدار بھی تھے صاحب اولاد بھی مگر اللہ جل جلالہ کی طرف سے آزمائش آئی مال بھی کھو گیا ، خاندان بھی مرکھپ گیا ، اور خود سخت بیمار ہو کر ایسے پھوڑے میں مبتلا ہوئے کہ سارا بدن ایک پھوڑا بن گیا ، صرف ایک بیوی ساتھ رہ گئیں جو یوسف (علیہ السلام) کی پوتی تھیں جن کا نام لیا بنت منشا بن یوسف تھا ، لوگوں نے شہر سے نکال کر باہر پھینک دیا ، اس حال میں بھی اللہ جل جلالہ کا شکر ادا کیا کرتے ، جب اللہ جل جلالہ کو منظور ہوا تو دعا فرمائی ، اللہ کریم نے زمین پر پاؤں مارنے کا حکم دیا جس سے شفاف چشمہ پھوٹ پڑا اور اس میں غسل کر کے صحت یاب ہوگئے ، رب جلیل نے اولاد اور مال ومنال بھی عطا فرمایا اگر وہی مرنے والے زندہ کر دے تو قادر ہے کہ حضرت عزیز (علیہ السلام) کی طرح دنیا اور برزخ کے درمیان ہی رکھا ہو اور پھر سے لوٹا دیا ہو یا نئی اولاد دے دی تو بھی اس کی قدرت سے کچھ بعید نہیں ، یہ سب حالات ان لوگوں کے لیے تو بہت بڑی نصیحت ہیں جو میری عبادت کرتے ہیں ، ایسے ہی اسمعیل (علیہ السلام) اور حضرت ادریس (علیہ السلام) اور ذوالکفل یہ سب لوگ صبر کرنے والے تھے یعنی دین پر عمل کا راستہ ایسا ہے کہ اس میں ہمیشہ مشکلات پیش آتی ہیں اور اللہ جل جلالہ سے ایمان کا تقاضا ہے کہ صبر وشکر سے برداشت کیا جائے پھر اللہ کریم آسانی میں بھی بدل دیتے ہیں کہ ان سب کو انجام کار ہم نے اپنی رحمت سے نوازا کہ یہ سب نیک اور صالح لوگ تھے ۔ (دین پر عمل کے راستہ میں ہمیشہ مشکلات آتی ہیں) ایسا ہی عجیب و غریب واقعہ مچھلی والے نبی یعنی حضرت یونس (علیہ السلام) کا ہے کہ جب وہ قوم خفا ہو کر چل دیئے اور ان کے خیال میں یہ کوئی جرم نہ تھا کہ اس پر گرفت ہو مگر وہ اندھیروں میں پھنس کر رہ گئے اور وہاں بھی اللہ ہی کو پکارا کہ اے اللہ تو ہی واحد اور بغیر کسی شریک کے حکمران ہے اور ہر عجیب سے پاک ہے بیشک میں قصور وار ہوں اس واقعہ بھی مقصود اسی موضوع کی تائید ہے کہ نافرمانی ہمیشہ عذاب ہی کا سبب بنتی ہے اور بھلائی کا راستہ توبہ کا راستہ اور اطاعت کا راستہ ہے ۔ (یونس (علیہ السلام) کا واقعہ) مفسرین نے بہت طویل بیان کیا ہے جس میں بڑی حد تک اسرائیلی روایات بھی آگئی ہیں جو اعتبار کے قابل نہیں ہوتیں قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ سے صاف واقعہ اس طرح سے ملتا ہے کہ موصل کے علاقہ میں نینوا نامی شہر کے لوگوں کی طرف مبعوث فرمائے گئے بہت محنت کے بعد بھی قوم نے آپ کی بات ماننے سے انکار ہی کیا تو اللہ جل جلالہ کی طرف سے عذاب کی وعید ملی جو انہوں نے قوم کو سنا دی کہ اب تین روز کے اندر اندر اللہ جل جلالہ کا عذاب تمہیں اپنی گرفت میں لینے والا ہے اور قوم کی اس بےحسی پر کہ کسی ایک آدمی نے بھی ایمان قبول نہ کیا بہت ناراض ہوئے ” ذھب مغاضبا “ ۔ سے اللہ جل جلالہ ہی کے لیے ناراض ہونا مقصود ہے اور اسی ناراضگی میں انہیں چھوڑ کر چل دیئے ، اگرچہ عذاب کا وعدہ بھی اللہ جل جلالہ کا تھا مگر تاحال توبہ کا دروازہ تو بند نہ ہوا تھا نیز اللہ جل جلالہ کے نبی کو جانے کے لیے بھی وحی کا انتظار کرنا اولی تھا اگرچہ عذاب کی وعید کے بعد آپ کا یہ اجتہاد کہ اب انہیں اس مقام سے چلے جانا چاہئے درست تھا کہ میرے چلے جانے سے کوئی گرفت نہ ہوگی مگر ہوا یہ کہ قوم نے توبہ کرلی ، جب انہوں نے دیکھا کہ یونس (علیہ السلام) تو چلے گئے اور عذاب کے بعض اثرات ظاہر ہونے لگے تو سب نے خوب الحاح وزاری سے دعا کی حتی کہ سب آبادیوں سے نکل گئے ، ماؤں نے بچوں کو دودھ دینا بند کردیا ، جانوروں کے بچے الگ کردیے اور یوں سب گڑ گڑا کر دعا کرنے لگے بچوں نے الگ رو رو کر شور کیا جانور اور ان کے بچے اپنی اپنی جگہ چلانے لگے تو اللہ جل جلالہ نے ان کی توبہ قبول فرما کر عذاب روک دیا ادھر حضرت یونس (علیہ السلام) چلتے ہوئے دریا پر پہنچے اور کشتی میں سوار ہوئے تو دریا کے درمیان کشتی رک گئی ، ان لوگوں نے کہا کہ شاید کوئی بھاگا ہوا غلام کشتی میں ہے حضرت یونس (علیہ السلام) کو تب احساس ہوا اور فرمایا میں ہوں مجھے دریا میں ڈال دیا جائے مگر اہل کشتی نہ مانے اور قرعہ ڈالا وہ بھی آپ ہی کے نام نکلا تو آپ کو دریا میں ڈال دیا جہاں فورا ایک مچھلی نے نگل لیا ، مگر اللہ جل جلالہ نے آپ کو مچھلی کی غذا نہ بننے دیا نہ اس حال میں آپ کو کوئی گزند پہنچا بلکہ مچھلی کے پیٹ کے اندر بھی آپ اللہ جل جلالہ کا ذکر کر رہے تھے گویا اپنے حواس میں تھے اور وہاں ہی دعا کی کہ اللہ جل جلالہ تو پاک ہے اور مجھ سے خطا سرزد ہوئی ، چناچہ ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے ان کی دعاقبول فرمائی اور انھیں اس مصیبت سے بچا لیا یعنی مچھلی نے کنارے پر اگل دیا اور پھر واپس اپنی زندگی میں لوٹ گئے ، ایسے ہی ہر ایمان والے کو ہم غموں سے بچا لیتے ہیں اور اس کی دعائیں قبول فرما کر اس کی دستگیری فرماتے ہیں ۔ یہی مثال حضرت زکریا (علیہ السلام) کے واقعہ میں موجود ہے جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا دعا کی بار الہا مجھے دنیا میں تنہا مت چھوڑ کر میرا کوئی وارث نہیں اور سب سے بہتر وارث تو تیری ہی ذات ہے کہ اولاد بھی دنیا سے چلی ہی جائے گی مگر میری تمنا ہے کہ میری اولاد ہو جو میری جگہ لے سکے اور میرے بعددین کی خادم ہو کہ انبیاء کرام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وراثت دین کا علم ہی ہوتی ہے تو ان کی دعا قبول ہوتی ، حضرت یحیٰ (علیہ السلام) جیسا عظیم فرزند عطا فرمایا جو نبوت سے سرفراز ہو کر حقیقی وارث ثابت ہوئے اور صرف یہی نہیں کہ ایک عظیم فرزند عطا فرمایا بلکہ ان کی اہلیہ جو بانجھ تھیں اور اولاد کے لائق نہ تھیں انہیں صحت مند اور قابل اولاد بنا دیا اس لیے کہ یہ میرے بندے نیکی اور بھلائی کی طرف لپکنے والے تھے کبھی نیکی میں تاخیر نہ کرتے اور ہر حال میں مجھے یاد کرتے ، دکھ ہو یا تکلیف آرام ہو یا راحت ہمیشہ مجھے ہی پکارتے تھے اور انہیں میرے مقابل اپنے عجز کا اور بندہ ہونے کا پوری طرح احساس تھا ، پھر حضرت مریم (علیہا السلام) کی مثال لیجئے جنھوں نے اپنی آبرو کو مرد سے محفوظ رکھا حتی کہ مرد سے نکاح کے راستے جائز اور حلال طور پر بھی نہ ملیں اور ہم نے ان میں اپنی روح پھونک دی جبرائیل (علیہ السلام) کو دم کرنے کا حکم دیا مگر جو پھونک انہوں نے ماری دراصل وہ ہمارا ہی فعل تھا اور انہیں بغیر شوہر کے فرزند عطا فرمایا اور ان کی ذات کو اور ان کے بیٹے کو ایک جہان کے لیے اپنی عظمت کا نشان بنا دیا ۔ (کیا شادی نہ کرنا باعث فضیلت ہے) مریم (علیہا السلام) کے واقعہ میں حضرت یحیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں بھی ان کے جنسی ملاپ سے الگ رہنے کی تعریف کی گئی ہے انہیں ” حصورا “ بھی کہا گیا ہے جس سے مراد ان کا جنس مخالف سے الگ رہنا ہے تو بظاہر لگتا ہے کہ شادی نہ کرنے پر تعریف ہے مگر یہ بات قابل توجہ ہے کہ اگر شادی نہ کرنا باعث فضیلت ہوتا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی شادی نہ کرتے حالانکہ آپ نے نہ صرف نکاح فرمائے بلکہ نکاح کو اپنی اہم سنت قرار دے کر نکاح کرنے کی تاکید فرمائی ، ہاں اس حال میں کہ اگر شادی نہ ہو سکے تو پھر کسی بھی طرح ناموس پہ حرف نہ آئے قابل تعریف ہے نیز شادی اور جنسی ملاپ میں ایک اثر ہے کہ دنیا کا کوئی کام اگر سب سے زیادہ توجہ کو جذب کرتا ہے تو وہ جنسی اختلاط ہے اور وہ چند لمحے آدمی اگر فنا فی اللہ والا بھی ہو تو اس کی توجہ متاثر ہوتی ہے لہذا اس بات کو بھی شمار کیا جائے گا کہ جو بندہ زندگی بھر اس میں مبتلا ہی نہ ہوا ہو وہ کس قدر مکمل طور پر متوجہ الی اللہ رہا ، سیرت میں موجود ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی لخت جگر کو قبر میں اتارنے کے لیے حکم دیا تھا کہ ایسے دو بندے آئیں جنہوں نے رات اہلیہ سے مباشرت نہ کی ہو حالانکہ مباشرت کرنا گناہ نہیں تھا بلکہ زوجین کے حقوق میں ہے مگر نہ کرنے والا شب بھر زیادہ متوجہ الی اللہ رہا ، لہذا اس کام کے لیے اسے ترجیح دی گئی ، (واللہ اعلم) ہاں یہ درست ہے کہ اگر ممکن ہو تو نکاح ضرور کیا جائے اور آج کل تو دو تین چار نکاح کرے اگر اللہ جل جلالہ ہمت دیں تو یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں میں کفار کا اثر پھیل رہا ہے اور نکاح ثانی کو برا سمجھا جانے لگا ہے تو لوگو متذکرہ بالا سب لوگ جن کی نبوت وصداقت کو ماننے کا دعوی تم بھی رکھتے ہو ، یہودی ، عیسائی تو خیر عرب کے مشرک بھی خود کو دین ابراہیمی کا پیرو کار کہتے ہیں مگر یہ تو دیکھو کہ سب ایک جماعت ہیں ، عقائد میں کوئی اختلاف نہیں ۔ اللہ جل جلالہ کی ذات اور صفات آخرت ، حشر نشر عذاب وثواب اور فرشتوں کے وجود کی سب نے خبر دی ہے اور خصوصا سب نے اپنی بعثت کا بھی اور زندگی کا بھی مقصد یہی قرار دیا کہ اللہ جل جلالہ واحد ہے اور صرف اور صرف وہی اکیلا عبادت کے لائق ہے لہذا میں ہی تمہارا پروردگار ہوں میری ہی عبادت کیا کرو مگر لوگ اغراض کے بندے بن گئے اور وہی کتابیں پڑھ کر بھی خود کو تقسیم کرلیا ، اپنی اپنی غرض پوری کرنے کے لیے الگ مذاہب گھڑ لیے اور فرقے بنا لیے مگر یہ جان رکھو کہ آخر کب تک ! آخر کو تو سب کو ہماری ہی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 76 تا 93 الکرب العظیم بہت بڑی بےچینی۔ قوم سوء برے لوگ۔ یحکمان فیصلہ کرنے لگے۔ الحرث کھیتی، کھیت۔ نفثت چر گئیں۔ غنم بکریاں۔ فھمنا ہم نے سمجھ عطا کی۔ الطیر پرندے۔ صنعۃ بنانا۔ لبوس لباس۔ تحصن تمہیں بچاتی ہے۔ باس سختی، جنگ۔ عاصفۃ تیز ہوا، آندھی۔ یعوضون غوطہ لگاتے ہیں۔ مسنی مجھے پہنچا۔ کشفنا ہم نے کھول دیا۔ مغاضباً غصہ میں بھرا ہوا۔ لاتذرنی تو مجھے نہ چھوڑنا۔ فرد تنہا۔ اصلحنا ہم نے درست کردیا۔ یسرعون دوڑتے ہیں۔ رغب امید۔ رھب ڈر۔ خوف۔ خاشعین ڈرنے والے۔ احصنت اس نے حفاظت کی۔ نفخنا ہم نے پھونک ماری۔ تشریح :- آیت نمبر 76 تا 93 سورۃ الانبیاء کی ان آیت میں گیارہ نبیوں اور رسولوں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ حضرت نوح، حضرت داؤد، حضرت سلیمان حضرت ایوب، حضرت ادریس، حضرت ذوالکفل، حضرت ذوالنون، صحضرت یونس) حضرت زکریا، حضرت یحییٰ اور ابن مریم حضرت عیسیٰ (علیہم السلام) اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور رسولوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس نے دنیا بھر کے سرکشوں نافرمانوں اورف سادیوں اور ظالموں کو راہ راست پر لانے کے لئے اپنے پاکیزہ نفوس انبیاء کرام کو اس اصولی اور بنیادی نصیحت کے ساتھ بھیجا ہے کہ اگر انہوں نے گناہوں کو نہ چھوڑا تو ان کو عذاب الٰہی سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔ اللہ کا ہمیشہ سے یہی دستور رہا ہے کہ اس نے اپنے خاص بندوں کو تو بچا لیا لیکن ظالموں کو ان کی تہذیب کو ان کی ترقیات کو اس طرح ملیا میٹ کردیا کہ آج ان کی عمارتوں کے کھنڈرات عبرت و نصیحت کا نشان بنے ہوئے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) جنہوں نے ساڑھے نو سو سال تک امت کی رہنمائی فرمائی لیکن جب پوری قوم نے (کئی اور نسلوں نے) ان کی نصیحت کو نہیں سنا اور ہمیشہ ان کی مخالفت کرتی رہی تب حضرت نوح (علیہ السلام) نے یہ دعا فرمائی کہ الٰہی یہ لوگ میری بات اور نصیحت کو سننے کے لئے تیار نہیں ہیں اب یہ ایسے گلے سڑے بازو یا جسم کی طرح ہوچکے ہیں جس کو کاٹ کر پھینک دینا ہی بہتر ہے ان کی اصلاح ممکن نہیں ہے اے اللہ ان کو اور ان کے گھروں کو ویران کر دے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا کو قبول کر کے ان کے ماننے والوں اور اہل خانہ (سوائے ان کے بیٹے کے) کو اس کشتی کے ذریعہ بچا لیا جو انہوں نے اللہ کے حکم سے تیار کی تھی بقیہ ساری قوم پر پانی کا اتنا زبردست طوفان مسلط کیا گیا کہ اس میں ہر شخص ڈوب کر ختم ہوگیا صرف اہل سفینہ یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی والے بچ گئے اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے پیغمبر جو اپنی امت اور ساری انسانیت کے سب سے بڑے مخلص ہوتے ہیں اگر وہ اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا کر اللہ سے کوئی درخواست کرتے ہیں تو ان کی پکار کو اللہ تعالیٰ رد نہیں فرماتے۔ ان آیات میں کفار مکہ سے بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے جاں نثاروں کو اتنا نہ ستائیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل سے کوئی آہ نکل جائے اور وہ کفار تباہ اور برباد ہو کر رہ جائیں۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہ ال سلام کا ذکر فرمایا ہے حضرت سلیمان (علیہ السلام) اگرچہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے صاحبزادے تھے۔ جب حضرت داؤد نے ایک فیصلہ سنایا اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے دوسرا فیصلہ کیا اس معقول فیصلے کو سن کر حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اپنا فیصلہ بدل لیا اور اپنے فیصلے پر ضد اور بڑائی کا انداز اختیار نہیں کیا۔ وہ واقعہ یہ تھا کہ ایک مرتبہ کسی شخص کی بکریاں کسی دوسرے کے کھیت میں گھس آئیں اور انہوں نے بھرے کھیت کو اجاڑکر رکھ دیا۔ کھیت والے نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے دربار میں عدل و انصاف کی فریاد پیش کی۔ حضرت دئاود (علیہ السلام) نے ظاہری صورت حال کو دیکھ کر یہ فیصلہ فرما دیا کہ جس کا کھیت برباد ہوا ہے وہ ان ساری بکریوں کو لے کر ان سے فائدہ اٹھائے۔ یہی فریاد جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے کی گئی تو انہوں نے اللہ کے حکم سے نہایت ذہانت کا یہ فیصلہ فرما دیا کہ کھیت والا ساری بکریاں اپنے پاس رکھے۔ ان سے فائدہ اٹھائے۔ پھر بکریوں والے سے کہا کہ وہ اس کا اجڑا ہوا کھیت دوبارہ آباد رکے۔ جب کھیت تیار ہوجائے تو وہ اپنی بکریاں واپس لے جائے اور کھیت اس کے مالک کے حوالے کر دے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ حضرت داؤد حضرت سلیمان کے والد محترم ہیں۔ وقت کے بادشاہ ، ذہین ترین نبی اور رسول ہیں جب وہ زبور کی آیات تلاوت فرماتے تھے پہاڑ اور پرندے ان کے ساتھ جھومنے لگتے تھے اور اللہ کی تسبیح کرتے تھے۔ اتنی خوبصورت پر تاثیر آواز کے مالک تھے کہ ان کے پڑھنے کو لحن داؤدی کہتے ہیں اللہ نے ان کے لئے لوہے کو موم کی طرح نرم کردیا تھا جس سے وہ جنگ کی حالت میں استعمال کئے جانے والے لوہے کا لباس تیار کرتے تھے جس کو زرہ کہتے ہیں۔ اللہ نے ان کو فہم و فراست اور علم و حکمت سے بھی نوازا تاکہ اتنے عظیم انسان اور پیغمبر کے سامنے جب ان کے بیٹے کا بہتر فیصلہ آیا تو انہوں نے فوراً ہی اپنا فیصلہ واپس لے لیا اور کسی طرح اس کو اپنی انا یا ضد کا مسئلہ نہیں بنایا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اللہ کے نبی ہیں اور رسول نہیں ہیں اور اللہ نے ان کو بھی بہت سی وہ عظمتیں عطا فرمائی تھیں جو لائق ذکر ہیں۔ اللہ نے ان کو علم و حکمت، ذہانت اور بات کی تہہ تک پہنچنے کی بڑی زبردست صلاحیتیں عطا کی تھیں ہوا کو اس طرح ان کے تابع کردیا تھا کہ اس کو جاں اور جیسے حکم دیتے ہوا وہی کرتی تھی، چرند، پرند، درند، جنات اور طاقتور انسان ہر وقت ان کے دربار میں حاضر رہتے تھے ان کے ہر حکم کی تعمیل کرتے تھے۔ چونکہ حضرت داؤد عل یہ السلام اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا مقصد عدل و انصاف کے نظام کو قائم کرنا تھا اس لئے اس میں اپنی ذاتی انا اور ضد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ درحقیقت کفار مکہ کو شرم دلائی جا رہی ہے کہ یہ دونوں باپ بیٹے وقت کے عظیم پیغمبر اور بہت زیادہ قوت اور طاقت کے مالک تھے مگر وہ ہر سچائی کو ہر وقت قبول کرنے کے لئے تیار رہتے تھے اور کفار مکہ کا یہ حال ہے کہ معمولی معمولی سرداریوں کو لئے بیٹھے ہیں اور غرور وتکبر کے پیکر بنے ہوئے ہیں اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس سچایء اور عدل و انصاف کی تعلیمات کو لے کر آئے ہیں ان سے منہ پھیر رہے ہیں۔ صبر و شکر کے پیکر حضرت ایوب (علیہ السلام) کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب اللہ نے ان کو ہر طرح کی نعمتوں سے نواز رکھا تھا وہ ہر وقت اللہ کے سامنے شکر گزاری کے جذبے کے ساتھ جھکے رہتے تھے اور جب ان کو ایسی شدیدبیماری اور تکلیف سے واسطہ پڑا کہ ان کی بیوی کے علاوہ ہر شخص ان کے قریب جاتا ہوا گھبراتا تھا۔ فرمایا کہ اس حال میں وہ انتہائی صبر سے کام لیتے تھے۔ ایک مرتبہ جب ان کی بیماری اس درجے کو پہنچ گئی جہاں ان سے وہ برداشت نہ ہو کسی تو انہوں نے اپنے اللہ کو آواز دی۔ الٰہی میری تکلیف اور بیماری حد درجہ بڑھ گئی ہے اور تمام رحم کرنے والوں میں آپ ہی سب سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی فریاد کو سنا اور ان کو نہ صرف شدید بیماری اور تکلیف سے نجات عطا فرما دی بلکہ پہلے سے بھی زیادہ اچھی صحت، مال و اہل اور اولاد کی نعمتوں سے ان کو نواز دیا۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کا صبر و شکر ایک بہترین مثال ہے دوسری بات یہ ہے کہ اللہ کو جب بھی دل سے پکارا جاتا ہے وہ ایسا مہربان اور کریم ہے کہ وہ ہر شخص کی فریاد کو سنتا ہے اور اس کو ہر طرح کی تکلیفوں سے نجات عطا کردیتا ہے۔ حضرت نوح، حضرت داؤد، حضرت سلیمان اور حضرت ایوب (علیہ السلام) کے ذکر کے بعد حضرت اسماعیل حضرت ادریس، حضرت ذوالکفل ، حضرت ذوالنون، (مچھلی والے) کے متعلق فرمایا کہ یہ سب کے سب انتہائی نیک صالح اور پرہیزگار تھے جنہیں اللہ نے اپنی بہت سی نعمتوں سے نوازا تھا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کا نام لئے بغیر ان کو ” ذوالنون “ فرمایا یعنی وہ جو مچھلی کے پیٹ میں بھی زندہ رہے تھے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) نینوا اور بابل کے نافرمانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے مبعوث فرمائے گئے تھے۔ وہ پانی قوم کو ہر طرح سمجھاتے تھے مگر وہ راہ ہدایت پر نہ آتے تھے۔ آخر ایک دن ان نافرمانوں سے مایوس ہو کر یہ دعا فرمائی الٰہی یہ قوم سدھرنے والی نہیں ہے اب آپ ان کا فیصلہ فرما دیجیے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) یہ سوچ کر کہ اللہ اپنے نبی کی دعا کو ضرور سنتا ہے اللہ کی طرف سے فیصلے کا انتظار کئے بغیر وہاں سے کسی دوسرے ملک کے لئے بیوی بچوں کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ چونکہ اللہ کے نبی بڑی شان والے ہوتے ہیں اور وہ ہر شخص کے لئے ایک مثال ہوتے ہیں اس لئے ان کی ذرا سی بات پر بھی گرفت ہوجاتی ہے۔ اللہ نے ان کی بیوی اور بچوں کو ان سے کسی طرح جدا کردیا ۔ وہ تنہا ایک کشتی میں سوار ہوئے۔ وہ کشتی ایک بھنور اور طوفان میں پھنس گئی سب لوگوں کے ڈوبنے کا اندیشہ تھا۔ کسی نے کہا کہ ہم میں ضرور کوئی ایسا غلام ہے جو اپنے اقٓا کی رضا اور مرضی کے بغیر بھاگا ہوا ہے۔ قرعہ اندازی کی گئی ہر مرتبہ حضرت یونس کا نام نکلا حضرت یونس (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ وہ بھاگا ہوا غلام میں ہی ہوں۔ حضرت یونس کو پانی میں پھینکا گیا ایک بہت بڑی مچھلی جو منہ کھولے تیار تھی یہ اس مچھلی کے پیٹ میں پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ملہ سے (مچھلی کے پیٹ میں) اس اندھیری کوٹھری میں بھی ان کو زندہ رکھا۔ پھر حضرت یونس (علیہ السلام) کو اندازہ ہوا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ، اس لئے یہ سزا دی گئی۔ انہوں نے اسی وقت اللہ کی بارگاہ میں ندامت و شرمندگی کے ساتھ کہا الٰہی آپ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ آپ کی ذات ہر عیب سے پاک ہے، بیشک مجھ سے زیادتی ہوگئی ہے۔ اللہ نے ان کو معاف فرما دیا عرصہ تک مچھلی کے پیٹ میں رہے اور صحیح سالم اس مچھلی نے ان کو دریا کے کنارے اگل دیا۔ اللہ نے وہاں بھی ان کی صحت و عافیت اور رزق کا انتظام فرما دیا۔ ادھر جب پوری قوم یونس (علیہ السلام) نے دیکھا کہ حضرت یونس اس شہر سے چلے گئے ہیں اور انہوں نے عذاب الٰہی کے آثار بھی دیکھے تو پوری قوم نے اللہ سے اپنے کفر و شرک سے پناہ مانگی جن کو معاف کردیا گیا ۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ عذاب کے آثار آنے کے بعد اگر کسی قوم کو معاف کیا گیا ہے تو وہ صرف قوم یونس تھی۔ اللہ کے حکم سے حضرت یونس (علیہ السلام) بھی اپنی قوم میں واپس آ گئیا ور ان کے بیوی بچے اور سب کچھ بلکہ اس سے بھی زیادہ ان کو عطا کردیا گیا۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے بڑھاپے کی انتہائی عمر اور بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود جب اللہ تعالیٰ سے بیٹے کی تمنا کی اور اللہ کا پکارا تو اللہ نے ان کی اہلیہ کو بھی اولاد کے لئے صلاحیت عطا کر کے ان کو ماں بنا دیا اور اس طرح حضرت یحییٰ (علیہ السلام) جیسا نیک، پاکباز اور نبی صالح عطا فرمایا۔ ان کو اس نعمت کے عطا کرنے کی وجہ یہ فرمائی گئی کہ وہ ہر ایک کا بھلا چاہتے تھے اور نیکی و پرہیز گاری میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ بتانا یہ ہے کہ اللہ اپنی قدرت کاملہ سے جس طرح اور جب بھی کسیک ام کو کرنا چاہتا ہے تو اس کو اسباب کی ضرورت نہیں پڑتی اور اللہ اپنے بندوں کی ہر پکار کو سن کر ان کو وہ سب کچھ عطا فرماتا ہے جو ایک بندے کی خواہش ہوتی ہے آخر میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر ایک نئے انداز سے فرمایا۔ ارشاد ہوا کہ وہ (مریم) جو پاکیزگی، عفت و عصمت کی پیکر تھیں جو اپنی آبرو کی حفاظت کرنے والی تھیں اللہ نے اپنی قدرت سے ان کے رحم میں روح کو پھونکا اور ساری دنیا کو اپنی قدرت کا یہ کمال دکھا دیا کہ وہ اللہ ایسی قدرت والا ہے کہ جس طرح بغیر ماں باپ کے حضرت آدم اور حضرت حوا کو پیدا فرما دیا۔ ایک سو دس سال کی عمر میں حضرت زکریا (علیہ السلام) کو ایک بیٹا عطا فرما دیا اور اسی طرح بغیر باپ کے حضرت عیسیٰ ابن مریم کو پیدا فرما دیا۔ کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں ہے۔ ان آیات میں گیارہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کے تذکرے کے بعد ارشاد فرمایا کہ اللہ کی نظر میں سارے انسان برابر ہیں وہ ہر ایک کی فریاد سنتا اور اس کی تمنا کو پورا کرتا ہے۔ فرمایا کہ اللہ نے ساری دنیا کے لوگوں کو ایک ہی امت اور جماعت بنایا تھا اور وہ ان کی رہبری اور رہنمائی کے لئے اپنے نبیوں اور رسولوں کو بھیجتا رہا جو ان کو بھٹکنے سے بچانے کی جدوجہد کرتے تھے۔ فرمایا کہ اب خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تشریف لا چکے ہیں۔ ساری دنیا کے انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے ان کو بھیجا گیا ہے اب آپ کے آنے کے بعد قیامت تو آئے گی لیکن کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا۔ لہٰذا ساری دنیا کے انسان نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کریں گے تو ان کو اس دنیا کی اور آخرت کی ساری کامیابیاں اور عظمتیں عطا کی جائیں گی۔ دوسری بات یہ ارشاد فرما دی گئی کہ اس اللہ کو جب بھی اور جس جگہ بھی پکارا جاتا ہے تو وہ اللہ فریاد کرنے والے کی فریاد کو سنتا ہے۔ سارے نبیوں نے ہر مشکل کے وقت صرف اللہ ہی کو پکارا۔ اس نے ان کی فریاد کو سنا اور ان کی ہر خواہش کو پورا کیا۔ کیونکہ اللہ کا ہر نبی اور رسول اس بات کو جانتا ہے کہ مشکل کشا صرف اللہ کی ذات ہے۔ وہی ہر ایک کی فریاد سن کر اس کی مشکلات کو دور کرتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ بھاری غم جو تکذیب اور ایذا کفر کی وجہ سے ان کو پیش آیا تھا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے حضرت لوط (علیہ السلام) کو اس کی قوم سے نجات دی اور قوم کو نیست و نابود کیا۔ اسی طرح ” اللہ “ نے اپنی رحمت سے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو سیلاب سے بچایا۔ قوم کو غرق کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو اس وقت نبوت سے سرفراز فرمایا جب ان کی قوم کے لوگ مجسموں کے پجاری بن چکے تھے۔ سورة العنکبوت آیت ١٤ میں بیان کیا گیا ہے کہ نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال قوم کی اصلاح کرنے میں صرف فرمائے۔ سورة نوح میں یہ وضاحت فرمائی کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ فریاد کی کہ میرے رب میں نے اپنی قوم کو رات اور دن، انفرادی اور اجتماعی طور پر سمجھانے کی کوشش کی لیکن میری بھرپور کوشش کے باوجود یہ قوم شرک اور برائی میں بڑھتی ہی چلی گئی۔ قوم نہ صرف جرائم میں آگے بڑھتی گئی بلکہ الٹا انھوں نے نوح (علیہ السلام) کے خلاف گمراہ ہونے کا پراپیگنڈہ کرنے کے ساتھ ان سے بار بار مطالبہ کیا کہ اے نوح ! اگر تو واقعی اللہ کا سچا نبی ہے تو ہمارے لیے عبرت ناک عذاب کی بددعا کیجیے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے نہایت ہی مجبور ہو کر ان کے لیے بد دعا کی ” اے میرے رب میں ان کے مقابلے میں بالکل بےبس اور مغلوب ہوچکا ہوں بس تو میری مدد فرما۔ “ (القمر : ١٠) ” حضرت نوح (علیہ السلام) نے بد دعا کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور یہ بھی درخواست کی کہ میرے رب اب زمین پر کافروں کا ایک شخص بھی نہیں بچنا چاہیے کیونکہ ان میں سے جو بھی پیدا ہوگا وہ فاسق اور کافر ہی پیدا ہوگا۔ “ ( نوح ٢٥ تا ٢٧) اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی بد دعا قبول کرتے ہوئے انھیں حکم دیا کہ آپ میرے سامنے ایک کشتی بنائیں جب نوح (علیہ السلام) کشتی بنا رہے تھے تو ان کی قوم نے ان کو بار بار تمسخر کا نشانہ بنایا۔ جس کے جواب میں نوح (علیہ السلام) فقط انھیں یہی فرماتے آج تم مجھے استہزاء کا نشانہ اور تماشا بنا رہے ہو لیکن کل تم ہمیشہ کے لیے مذاق اور عبرت کا نشان بن جاؤ گے۔ ( ھود آیت ٣٧ تا ٣٩) قوم نوح پر اللہ تعالیٰ نے پانی کا ایسا عذاب نازل فرمایا کہ جس کے بارے میں سورة القمر آیت ١١، ١٢ اور سورة المؤمنون، آیت ٢٧ میں بیان ہوا ہے کہ آسمان کے دروازے کھل گئے زمین سے چشمے پھوٹ نکلے یہاں تک کہ تنور پھٹ پڑا۔ اس طرح نوح (علیہ السلام) کے نافرمان بیٹے سمیت ان کی قوم کو پانی میں ڈبکیاں دے دے کر ختم کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کا اس قوم پر اس قدر غضب ہوا کہ جب نوح (علیہ السلام) کا بیٹا پانی میں ڈبکیاں لے رہا تھا تو حضرت نوح (علیہ السلام) کو بحیثیت باپ ترس آیا انھوں نے اللہ تعالیٰ سے اس کے حق میں دعا کرتے ہوئے کہا، میرے رب میرا بیٹا بھی ڈوب رہا ہے حالانکہ تیرا فرمان تھا کہ میں تیرے اہل کو بچا لوں گا۔ الٰہی تیرا وعدہ برحق ہے۔ جواب آیا اے نوح تیرا بیٹا صالح نہ ہونے کی وجہ سے تیرے اہل میں شمار نہیں۔ اب مجھ سے ایسا سوال نہ کرنا۔ ورنہ تجھے جاہلوں میں شمار کروں گا۔ اس پر حضرت نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہوئے معافی طلب کی اور درخواست کی مجھ پر مہربانی کی جائے ورنہ میں بھی نقصان پانے والوں میں سے ہوجاؤں گا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والے سلامت اور محفوظ رہے اور باقی قوم کو غرقاب کردیا گیا۔ کیونکہ ان کی قوم کفر و شرک میں اندھی ہوچکی تھی۔ ( ھود : ٤٥ تا ٤٨) عذاب کی کیفیت : قوم نوح پر چالیس دن مسلسل دن، رات بےانتہا بارش برستی رہی یہاں تک کہ جگہ جگہ زمین سے چشمے پھوٹ پڑے۔ حتٰی کہ تنور پھٹ پڑا اللہ تعالیٰ نے طوفان کے آغاز میں حضرت نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ اللہ کا نام لے کر کشتی میں سوار ہوجائیں اور اپنے ساتھ ہر جاندار کا جوڑا جوڑا یعنی نر اور مادہ دو دو کشتی میں اپنے ساتھ سوار کرلیں۔ البتہ کسی کافر اور مشرک کو کشتی میں سوار نہ کیا جائے۔ (ہود : ٤٠ تا ٤٢) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی فریاد قبول کی انھیں اور ان کے ساتھیوں کو عظیم غم سے نجات عطا کی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی مدد فرمائی اور ان کی قوم کو غرق کردیا۔ تفسیر بالقرآن نوح (علیہ السلام) کی قوم کی تباہی کا منظر : ١۔ قوم نوح نے جب رسولوں کی تکذیب کی تو ہم نے انھیں غرق کردیا اور لوگوں کے لیے باعث عبرت بنا دیا۔ (الفرقان : ٣٧) ٢۔ ہم نے نوح (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور تکذیب کرنے والوں کو غرق کردیا۔ (الاعراف : ٦٤) ٣۔ قوم نے نوح (علیہ السلام) کی بات نہ مانی تو ہم نے انھیں غرق کردیا۔ (یونس : ٧٣) ٤۔ ہم نے نوح (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور بقیہ کو غرق کردیا۔ (الشعراء : ١١٩۔ ١٢٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اسی طرح یہاں حضرت نوح کی طرف بھی ایک سرسری اشارہ کردیا جاتا ہے۔ ونوحا اذ نادی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اجمعین (٦٧ : ٧٧) ” حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرف بھی یہ مختصر اشارہ ہے ‘ جس میں کوئی تفصیل نہیں ہے۔ نوح (علیہ السلام) نے رب کو پکارا اور رب نے ان کی دعا کو قبول کیا یہاں ” من قبل “۔ کا لفظ آیا ہے یعنی ” سب سے پہلے “ اس سے مراد یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور لوط (علیہما السلام) سے ان کا دور پہلے گزرا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کے ہل و عیال کو بچالیا اور ان کی پوری قوم نذر طوفان ہوگئی کرب عظیم سے مراد وہ مشکلات ہیں جو ان کو پیش آئیں۔ سورة ہود میں تفصیلات موجود ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا، اللہ تعالیٰ کی مدد اور قوم کی غرقابی ان دونوں آیتوں میں حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا تذکرہ فرمایا ہے۔ جب انہوں نے اپنی قوم کو توحید کی تعلیم دی۔ استغفار کی طرف بلایا اور ایک مدت دراز تک اس بارے میں اپنی جان کھپائی تو ان میں سے معدودے چند افراد ہی مسلمان ہوئے اور باقی لوگ کہتے رہے کہ ہمیں توحید اختیار نہیں کرنی، ہمیں اپنے بتوں پر جمے رہنا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں اپنی معروض پیش کی اور عرض کیا (رَبِّ لاَ تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّارًا) (کہ اے پروردگار روئے زمین پر کافروں میں سے کسی بسنے والے کو نہ چھوڑ) اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی۔ بہت بڑا طوفان آیا، آسمان سے بھی پانی برسا اور زمین سے بھی پانی ابلا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اپنے اہل و عیال اور دیگر اہل ایمان کو لے کر کشتی میں سوار ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو طوفان سے نجات دی اور باقی ساری قوم غرق ہوگئی۔ ان کا ایک بیٹا جو کافر تھا وہ بھی انہیں ڈوبنے والوں میں شامل کردیا گیا۔ ان کی بیوی بھی کافرہ تھی وہ بھی آتش دوزخ کی مستحق ہوگئی۔ سورة نوح میں فرمایا (مِمَّا خَطِیْءَاتِھِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا) (اپنی خطاؤں کی وجہ سے وہ لوگ غرق کر دئیے گئے پھر آگ میں داخل کر دئیے گئے) حضرت نوح (علیہ السلام) کی نجات اور ان کی قوم کی بربادی کا واقعہ بھی سورة اعراف اور سورة ہود میں گزر چکا ہے اور سورة نوح میں بھی مذکور ہے۔ (فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ فَنَجَّیْنٰہُ وَ اَھْلَہٗ مِنَ الْکَرْبِ الْعَظِیْمِ ) اس میں کرب عظیم سے طوفان میں غرق ہونا بھی مراد ہوسکتا ہے اور قوم کی ایذائیں بھی مراد ہوسکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں قسم کی اور بےچینی سے ان کو نجات عطا فرمائی۔ (انوار البیان، جلد دوم)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

53:۔ ” وَنُوْحًا اِذْ نَادٰی الخ “ یہ چوتھی تفصیل نقلی دلیل ہے۔ دیکھو بوقت طوفان نوح (علیہ السلام) نے بھی ہمیں پکارا تو ہم نے اس ہولناک طوفان سے ان کے اہل ایمان ساتھیوں کو بچالیا اور ظالم اور ستمگر مشرکین کے شر و فساد اور ان کی تکلیف و ایذاء سے ان کو نجات دی اور طالم و فاسق قوم کو غرق کردیا۔ ” فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ “ ان کی دعا ہم ہی نے قبول کی۔ ” فَنَجَّیْنٰهُ “ ان کو عذاب سے ہم ہی نے بچایا۔ ” وَنَصَرْنٰهُ “ اور مشرکین پر ہم ہی نے ان کو غلبہ دیا۔ ” فَاَغْرَقْنٰھُمْ “ اور مشرکین کو ہم ہی نے غرق کیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(76) اور اے پیغمبر ! آپ نوح (علیہ السلام) کا تذکرہ بھی کیجئے جب کہ اس نے ان واقعات ابراہیمی سے بہت پہلے دعا کی پھر ہم نے اس کی دعا قبول کرلی اور ہم نے اس کی پکار سن لی اور ہم نے اس کو اور اس کے متعلقین اور متبعین کو بڑے بھاری غم سے نجات دی۔ یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) کا بھی ذکر کیجئے اور ان کا تذکرہ بھی سنائیے خاص کر وہ وقت جب کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ شاید یہ دعا ہوگی۔ ربہ انی مغلوب فانتصر یعنی اے میرے پروردگار میں دب گیا۔ میرا بدلہ لیجئے چناچہ ان کی دعا کو قبول کیا اور ان کو ان کے تابعین کے ساتھ ان کے دشمنوں سے نجات عطا فرمائی۔