Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 9

سورة الأنبياء

ثُمَّ صَدَقۡنٰہُمُ الۡوَعۡدَ فَاَنۡجَیۡنٰہُمۡ وَ مَنۡ نَّشَآءُ وَ اَہۡلَکۡنَا الۡمُسۡرِفِیۡنَ ﴿۹﴾

Then We fulfilled for them the promise, and We saved them and whom We willed and destroyed the transgressors.

پھر ہم نے ان سے کئے ہوئے سب وعدے سچے کئے انہیں اور جن جن کو ہم نے چاہا نجات عطا فرمائی اور حد سے نکل جانے والوں کو غارت کر دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ثُمَّ صَدَقْنَاهُمُ الْوَعْدَ ... Then We fulfilled to them the promise. the promise that their Lord made to destroy the evildoers. Allah fulfilled His promise and did that. He says: ... فَأَنجَيْنَاهُمْ وَمَن نَّشَاء ... So We saved them and those whom We willed, meaning, their followers among the believers, ... وَأَهْلَكْنَا الْمُسْرِفِينَ but We destroyed Al-Musrifin. meaning, those who disbelieved the Message brought by the Messengers.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 یعنی وعدے کے مطابق نبیوں کو اور اہل ایمان کو نجات عطا کی اور حد سے تجاوز کرنے والے یعنی کفار و مشرکین کو ہم نے ہلاک کردیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] البتہ یہ بات ہر نبی سے پیش آتی رہی کہ اس کی دعوت پر کچھ لوگوں نے لبیک کہی اور زیادہ قرآن کے مخالف بن گئے۔ پھر ہم نے اپنے انبیاء اور مومنوں سے فتح و نصرت کے جو وعدے کئے تھے وہ سب پورے کردیئے اور ایسے لوگوں کو ہم نے بروقت اپنے عذاب سے بچا بھی لیا تھا۔ لیکن جن لوگوں نے سرکشی کی راہ اختیار کی تھی۔ ان سب کو ہلاک کر ڈالا تھا۔ یہ بات بھی تم اے قریش مکہ ! ان اہل کتاب سے پوچھ سکتے ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ صَدَقْنٰهُمُ الْوَعْدَ ۔۔ : ” صَدَقَ یَصْدُقُ “ لازم بھی آتا ہے، یعنی سچ کہنا اور متعدی بھی، یعنی سچا کردکھانا، ” پھر ہم نے ان سے وعدہ سچا کردیا۔ “ ” ثُمَّ “ (پھر) کا لفظ یہ بتانے کے لیے ہے کہ رسولوں کی مخالفت ہوئی، انھیں ستایا گیا، جنگیں بھی ہوئیں مگر پھر آخر کار ہم نے ان سے مدد کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کیا، سو ہم نے رسولوں کو نجات دی اور ان کو بھی جنھیں ہم چاہتے تھے۔ اس میں رسولوں کے پیروکار بھی شامل ہیں اور کفار میں سے وہ بھی جنھیں آئندہ ایمان لانا تھا، یا جن کی اولاد کو ایمان کی توفیق ملنا تھی۔ عربوں پر سب کو ہلاک کرنے والا عذاب نہ آنے میں یہی حکمت تھی۔ ” اور حد سے بڑھنے والوں کو ہلاک کردیا “ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے پیروکاروں کے لیے خوش خبری ہے اور کفار کے لیے وعید۔ رسولوں سے کیے گئے مدد کے وعدے اور اسے پورا کرنے کے ذکر پر مشتمل آیات سورة مجادلہ (٢١) ، صافات (٧١ تا ٧٣) ، ابراہیم (١٣، ١٤) اور یوسف (١١٠) میں ملاحظہ فرمائیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ صَدَقْنٰہُمُ الْوَعْدَ فَاَنْجَيْنٰہُمْ وَمَنْ نَّشَاۗءُ وَاَہْلَكْنَا الْمُسْرِفِيْنَ۝ ٩ صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ نجو أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] ( ن ج و ) اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔ شاء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . وعند بعضهم : الشَّيْءُ عبارة عن الموجود «2» ، وأصله : مصدر شَاءَ ، وإذا وصف به تعالیٰ فمعناه : شَاءَ ، وإذا وصف به غيره فمعناه الْمَشِيءُ ، وعلی الثاني قوله تعالی: قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ [ الرعد/ 16] ، فهذا علی العموم بلا مثنويّة إذ کان الشیء هاهنا مصدرا في معنی المفعول . وقوله : قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام/ 19] ، فهو بمعنی الفاعل کقوله : فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون/ 14] . والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) «3» ، والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادة الإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» ، وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترک ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ما سوی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجودات اور معدومات سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، بعض نے کہا ہے کہ شے صرف موجود چیز کو کہتے ہیں ۔ یہ اصل میں شاء کا مصدر ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق شے کا لفظ استعمال ہو تو یہ بمعنی شاء یعنی اسم فاعل کے ہوتا ہے ۔ اور غیر اللہ پر بولا جائے تو مشیء ( اسم مفعول ) کے معنی میں ہوتا ہے ۔ پس آیت کریمہ : ۔ قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ [ الرعد/ 16] خدا ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے ۔ میں لفظ شی چونکہ دوسرے معنی ( اسم مفعول ) میں استعمال ہوا ہے اس لئے یہ عموم پر محمول ہوگا اور اس سے کسی قسم کا استثناء نہیں کیا جائیگا کیونکہ شی مصدر بمعنی المفعول ہے مگر آیت کریمہ : ۔/ قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام/ 19] ان سے پوچھو کہ سب سے بڑھ کر ( قرین انصاف ) کس کی شہادت ہے میں شے بمعنی اسم فاعل ہے اور اللہ تعالیٰ کو اکبر شھادۃ کہنا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری ایت ۔ فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون/ 14] ( تو خدا جو سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے ) میں ذات باری تعالیٰ کو احسن الخالقین کہا گیا ہے ۔ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔ سرف السَّرَفُ : تجاوز الحدّ في كلّ فعل يفعله الإنسان، وإن کان ذلک في الإنفاق أشهر . قال تعالی: وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان/ 67] ، وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء/ 6] ، ويقال تارة اعتبارا بالقدر، وتارة بالکيفيّة، ولهذا قال سفیان : ( ما أنفقت في غير طاعة اللہ فهو سَرَفٌ ، وإن کان قلیلا) قال اللہ تعالی: وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام/ 141] ، وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر/ 43] ، أي : المتجاوزین الحدّ في أمورهم، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر/ 28] ، وسمّي قوم لوط مسرفین من حيث إنهم تعدّوا في وضع البذر في الحرث المخصوص له المعنيّ بقوله : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة/ 223] ، وقوله : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر/ 53] ، فتناول الإسراف في المال، وفي غيره . وقوله في القصاص : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء/ 33] ، فسرفه أن يقتل غير قاتله، إمّا بالعدول عنه إلى من هو أشرف منه، أو بتجاوز قتل القاتل إلى غيره حسبما کانت الجاهلية تفعله، وقولهم : مررت بکم فَسَرِفْتُكُمْ أي : جهلتكم، من هذا، وذاک أنه تجاوز ما لم يكن حقّه أن يتجاوز فجهل، فلذلک فسّر به، والسُّرْفَةُ : دویبّة تأكل الورق، وسمّي بذلک لتصوّر معنی الإسراف منه، يقال : سُرِفَتِ الشجرةُ فهي مسروفة . ( س ر ف ) السرف کے معنی انسان کے کسی کام میں حد اعتدال سے تجاوز کر جانے کے ہیں مگر عام طور پر استعمال اتفاق یعنی خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرجانے پر ہوتا پے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان/ 67] اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بیچا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں ۔ وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء/ 6] اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے ( یعنی بڑی ہو کہ تم سے اپنا کا مال واپس لے لیں گے ) اسے فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا ۔ اور یہ یعنی بےجا سرف کرنا مقدار اور کیفیت دونوں کے لحاظ سے بولاجاتا ہے چناچہ حضرت سفیان ( ثوری ) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی میں ایک حبہ بھی صرف کیا جائے تو وہ اسراف میں داخل ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام/ 141] اور بےجانہ اڑان کہ خدا بےجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر/ 43] اور حد سے نکل جانے والے دوزخی ہیں ۔ یعنی جو اپنے امور میں احد اعتدال سے تجاوز کرتے ہیں إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر/ 28] بیشک خدا اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جا حد سے نکل جانے والا ( اور ) جھوٹا ہے ۔ اور قوم لوط (علیہ السلام) کو بھی مسرفین ( حد سے تجاوز کرنے والے ) کیا گیا ۔ کیونکہ وہ بھی خلاف فطرف فعل کا ارتکاب کرکے جائز حدود سے تجاوز کرتے تھے اور عورت جسے آیت : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة/ 223] تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں ۔ میں حرث قرار دیا گیا ہے ۔ میں بیچ بونے کی بجائے اسے بےمحل ضائع کر ہے تھے اور آیت : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر/ 53] ( اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو کہدد کہ ) اے میرے بندو جہنوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی میں اسرفوا کا لفظ مال وغیرہ ہر قسم کے اسراف کو شامل ہے اور قصاص کے متعلق آیت : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء/ 33] تو اس کا چاہئے کہ قتل ( کے قصاص ) میں زیادتی نہ کرے ۔ میں اسراف فی القتل یہ ہے کہ غیر قاتل کو قتل کرے اس کی دو صورتیں ہی ۔ مقتول سے بڑھ کر باشرف آدمی کو قتل کرنے کی کوشش کرے ۔ یا قاتل کے علاوہ دوسروں کو بھی قتل کرے جیسا کہ جاہلیت میں رواج تھا ۔ عام محاورہ ہے ۔ کہ تمہارے پاس سے بیخبر ی میں گزر گیا ۔ تو یہاں سرفت بمعنی جھلت کے ہے یعنی اس نے بیخبر ی میں اس حد سے تجاوز کیا جس سے اسے تجاوز نہیں کرنا چاہئے تھا اور یہی معنی جہالت کے ہیں ۔ السرفتہ ایک چھوٹا سا کیڑا جو درخت کے پتے کھا جاتا ہے ۔ اس میں اسراف کو تصور کر کے اسے سرفتہ کہا جاتا ہے پھر اس سے اشتقاق کر کے کہا جاتا ہے ۔ سرفت الشجرۃ درخت کرم خور دہ ہوگیا ۔ اور ایسے درخت کو سرقتہ ( کرم خوردہ ) کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩) پھر ہم نے ان انبیاء کرام سے جو نجات کا وعدہ کیا تھا اس کو پورا کیا یعنی انبیاء کرام کو اور جو انبیاء کرام پر ایمان لائے ان کو اس نجات دی اور مشرکین کو ہلاک کردیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩ (ثُمَّ صَدَقْنٰہُمُ الْوَعْدَ فَاَنْجَیْنٰہُمْ وَمَنْ نَّشَآءُ ) ” ہم نے نوح (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والوں کو سیلاب کی آفت سے محفوظ رکھا۔ ہود (علیہ السلام) اور ان کے پیروکاروں کو امان بخشی۔ صالح (علیہ السلام) اور ان پر ایمان والوں کو نجات دی۔ شعیب (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو بچایا۔ لوط (علیہ السلام) اور ان کی بیٹیوں کو مغضوب و معتوب بستیوں سے بحفاظت نکالا اور موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ بنی اسرائیل کو سمندر میں سے بچ نکلنے کا راستہ دیا۔ یوں ہم نے ہر مرتبہ اپنے رسولوں اور اہل ایمان کے ساتھ کیے گئے وعدے کو نبھایا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11. History not only tells us that the former Messengers were human beings but it also contains a lesson that they all received Allah’s succor as promised by Him and their enemies were completely destroyed. Therefore you should seriously consider the goal for which you are heading.

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :11 یعنی پچھلی تاریخ کا سبق صرف اتنا ہی نہیں بتاتا کہ پہلے جو رسول بھیجے گئے تھے وہ انسان ہی تھے ، بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ان کی نصرت و تائید کے ، اور ان کی مخالفت کر نے والوں کو ہلاک کر دینے کے ، جتنے وعدے اللہ نے ان سے کیے تھے وہ سب پورے ہوئے اور ہر وہ قوم برباد ہوئی جس نے انکو نیچا دکھانے کی کوشش کی ۔ اب تم اپنا انجام خود سوچ لو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:9) المسرفین۔ اسراف (افعال) سے اسم فاعل جمع مذکر حد اعتدال یا حد مقررہ سے آگے بڑھنے والے۔ حد حلال سے حرام کی طرف بڑھنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی یہ قرآن جادو یا شعر نہیں ہے بلکہ یہ وہ کتاب ہے جس سے تمہاری ناموری ساری دنیا میں ہوگی یا جس تمہارے لئے نصیحت ہے اور مکارم اخلاق اور دینی احکام کا بیان ہے۔ مفسرین نے لفظ ” ذکر “ کے یہ سبھی معنی بیان کئے (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حق کا انکار کرنے والوں کو انبیائے کرام عذاب الٰہی کی وعید سناتے۔ جسے منکرین جھوٹ قرار دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف اقوام پر عذاب نازل کرکے انبیاء کے وعدہ کو سچ کر دکھایا۔ اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھیوں کو عذاب سے نجات دی اور منکرین حق کو تباہ کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے جو کتاب نازل کی ہے اس میں عبرت کے طور پر پہلی اقوام کی بربادی اور انبیائے کرام (علیہ السلام) کی کامیابی کا ذکر موجود ہے بشرطیکہ لوگ عقل سے کام لیں۔ اگر لوگ عقل استعمال کریں گے تو یقیناً نصیحت پاجائیں گے۔ کچھ مفسرین نے ” ذِکْرِکُمْ “ کا یہ معنیٰ بھی لیا ہے کہ یہاں ذکر سے مراد لوگوں کے مسائل کا حل ہے تاکہ وہ قرآن مجید کی رہنمائی میں اپنے مسائل کا حل کرسکیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہ السلام) سے اپنا وعدہ پورا فرمایا۔ ٢۔ قرآن مجید عقلمند لوگوں کے لیے نصیحت ہے۔ ٣۔ قرآن مجید لوگوں کے مسائل کا حل بتلاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے نزدیک عقل و فکر کی اہمیّت : ١۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے پیغام ہے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں عقلمند ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (ابراہیم : ٥٢) ٢۔ نصیحت تو بس عقل والے ہی قبول کرتے ہیں۔ (آل عمران : ٧) ٣۔ جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر نہیں ہوسکتے عقلمند ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (الزمر : ٩) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے جو آپ کی طرف نازل فرمایا ہے وہ حق ہے عقلمند ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (الرعد : ١٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(ثُمَّ صَدَقْنٰھُمُ الْوَعْدَ فَاَنْجَیْنٰھُمْ وَ مَنْ نَّشَآءُ ) پھر ہم نے انبیاء کرام سے جو وعدہ کیا تھا اسے سچ کر دکھایا یعنی ان کو اور ان کے علاوہ جس جس کو چاہا (جو اہل ایمان تھے) نجات دے دی (وَ اَھْلَکْنَا الْمُسْرِفِیْنَ ) اور حد سے آگے بڑھ جانے والوں کو ہلاک کردیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

9 پھر ہم نے جو وعدہ ان رسولوں سے کیا تھا اس کو سچا کردیا سو ان رسولوں کو اور جن جن کو ہم نے چاہا عذاب موعود سے بچا لیا اور حد اطاعت و عبودیت سے گزر جانے والوں کو ہم نے ہالک کردیا۔ یعنی جو وعدے ان پیغمبروں سے کئے تھے وہ یہی کہ تمہاری تکذیب کرنے والوں اور معاندوں کو ہلاک کر دوں گا اور تم کو اور تمہارے ساتھ جس کو چاہوں گا بچا لوں گا۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ میں نے معاندین اور سرکشوں کو حد سے گزر گئے تھے ہلاک کردیا اور انبیاء (علیہم السلام) کو اور ان کے ہمراہ جن جن کو چاہا بچا لیا ایسا ہی ایک دن اس پیغمبر یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفوں اور معاندوں کے ساتھ بھی ہوگا کہ حد سے نکلنے والے ہلاک ہوں گے اور پیغمبر اور اس کے متبعین کو بچا لیا جائے گا۔