Surat ul Hajj

The Pilgrimage

Surah: 22

Verses: 78

Ruku: 10

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الْحَجّ نام : چوتھے رکوع کی دوسری آیت وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ سے ماخوذ ہے ۔ زمانۂ نزول : اس سورے میں مکی اور مدنی سورتوں کی خصوصیات ملی جلی پائی جاتی ہیں ۔ اسی وجہ سے مفسریں میں اس امر پر اختلاف ہوا ہے کہ یہ مکی ہے کہ مدنی ۔ لیکن ہمارے نزدیک اس کے مضامین اور انداز بیان کا یہ رنگ اس وجہ سے ہے کہ اس کا ایک حصہ مکی دور کے آخر میں اور دوسرا حصہ مدنی دور کے آغاز میں نازل ہوا ہے ۔ اس لیے دونوں ادوار کی خصوصیات اس میں جمع ہو گئی ہیں ۔ ابتدائی حصے کا مضمون اور انداز بیان صاف بتاتا ہے کہ یہ مکہ میں نازل ہوا ہے اور اغلب یہ ہے کہ مکی زندگی کے آخری دور میں ہجرت سے کچھ پہلے نازل ہوا ہو ۔ یہ حصہ آیت 24 ( وَھُدُوْآ اِلَی الظَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَھُدُوْٓا اِلیٰ صِرَاطِ الْحَمِیْدِ ) پر ختم ہوتا ہے ۔ اس کے بعد : اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ سے یک لخت مضمون کا رنگ بدل جاتا ہے اور صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں سے آخر تک کا حصہ مدینہ طیبہ میں نازل ہوا ہے ۔ بعید نہیں کہ یہ ہجرت کے بعد پہلے ہی سال ذی الحجہ میں نازل ہوا ہو ، کیونکہ آیت 25 سے 41 تک کا مضمون اسی بات کی نشان دہی کرتا ہے ، اور آیت 39 ۔ 40 کی شان نزول بھی اس کی مؤید ہے ۔ اس وقت مہاجرین ابھی تازہ تازہ ہی اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینے میں آئے تھے ۔ حج کے زمانے میں ان کو اپنا شہر اور حج کا اجتماع یاد آ رہا ہو گا اور یہ بات بری طرح کھل رہی ہو گی کہ مشرکین قریش نے ان پر مسجد حرام کا راستہ تک بند کر دیا ہے ۔ اس زمانے میں وہ اس بات کے بھی منتظر ہوں گے کہ جن ظالموں نے ان کو گھروں سے نکالا ، مسجد حرام کی زیارت سے محروم کیا ، اور خدا کا راستہ اختیار کرنے پر ان کی زندگی تک دشوار کر دی ، ان کے خلاف جنگ کرنے کی اجازت مل جائے ۔ یہ ٹھیک نفسیاتی موقع تھا ان آیات کے نزول کا ۔ ان میں پہلے تو حج کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ مسجد حرام اس لیے بنائی گئی تھی اور یہ حج کا طریقہ اس لیے شروع کیا گیا تھا کہ دنیا میں خدائے واحد کی بندگی کی جائے ، مگر آج وہاں شرک ہو رہا ہے اور خدائے واحد کی بندگی کرنے والوں کے لیے اس کے راستے بند کر دیے گئے ہیں ۔ اس کے بعد مسلمانوں کو اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ ان ظالموں کے خلاف جنگ کریں اور انہیں بے دخل کر کے ملک میں وہ نظام صالح قائم کریں جس میں برائیاں دبیں اور نیکیاں فروغ پائیں ۔ ابن عباس ، مجاہد ، عَرْوَہ بن زُبَیر ، زید بن اسلم ، مقاتل بن حیان ، قتادہ اور دوسرے اکابر مفسرین کا بیان ہے کہ یہ پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی گئی ۔ اور حدیث و سیرت کی روایات سے ثابت ہے کہ اس اجازت کے بعد فوراً ہی قریش کے خلاف عملی سرگرمیاں شروع کر دی گئیں اور پہلی مہم صفر 2 ھ میں ساحل بحر احمر کی طرف روانہ ہوئی جو غزوہ ودان یا غزوہ اَبَواء کے نام سے مشہور ہے ۔ موضوع و مبحث : اس سورہ میں تین گروہ مخاطب ہیں ۔ مشرکین مکہ ، مذبذب اور متردد مسلمان ، اور مومنین صادقین ۔ مشرکین سے خطاب کی ابتدا مکے میں کی گئی اور مدینے میں اس کا سلسلہ پورا کیا گیا ۔ اس خطاب میں ان کو پورے زور کے ساتھ متنبہ کیا گیا ہے کہ تم نے ضد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ اپنے بے بنیاد جاہلانہ خیالات پر اصرار کیا ، خدا کو چھوڑ کر ان معبودوں پر اعتماد کیا جن کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے ، اور خدا کے رسول کو جھٹلا دیا ۔ اب تمہارا انجام وہی کچھ ہو کر رہے گا جو تم سے پہلے اس روش پر چلنے والوں کا ہو چکا ہے ۔ نبی کو جھٹلا کر اور اپنی قوم کے صالح ترین عنصر کو نشانہ ستم بنا کر تم نے اپنا ہی کچھ بگاڑا ہے ۔ اس کے نتیجے میں خدا کا جو غضب تم پر نازل ہو گا اس سے تمہارے بناوٹی معبود تمہیں نہ بچا سکیں گے ۔ اس تنبیہ و انذار کے ساتھ افہام و تفہیم کا پہلو بالکل خالی نہیں چھوڑ دیا گیا ہے ۔ پوری سورۃ میں جگہ جگہ تذکیر اور نصیحت بھی ہے اور شرک کے خلاف اور توحید و آخرت کے حق میں مؤثر دلائل بھی پیش کیے گئے ہیں ۔ مذبذب مسلمان ، جو خدا کی بندگی قبول تو کر چکے تھے مگر اس راہ میں کوئی خطرہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے ، ان کو خطاب کرتے ہوئے سخت سرزنش کی گئی ہے ۔ ان سے کہا گیا ہے کہ یہ آخر کیسا ایمان ہے کہ راحت ، مسرت ، عیش نصیب ہو تو خدا تمہارا خدا اور تم اس کے بندے ۔ مگر جہاں خدا کی راہ میں مصیبت آئی اور سختیاں جھیلنی پڑیں ، پھر نہ خدا تمہارا خدا رہا اور نہ تم اس کے بندے رہے ۔ حالانکہ تم اپنی اس روش سے کسی ایسی مصیبت اور نقصان اور تکلیف کو نہیں ٹال سکتے جو خدا نے تمہارے نصیب میں لکھ دی ہو ۔ اہل ایمان سے خطاب دو طریقوں پر کیا گیا ہے ۔ ایک خطاب ایسا ہے جس میں وہ خود بھی مخاطب ہیں اور عرب کی رائے عام بھی ۔ اور دوسرے خطاب میں صرف اہل ایمان مخاطب ہیں ۔ پہلے خطاب میں مشرکین مکہ کی اس روش پر گرفت کی گئی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے لیے مسجد حرام کا راستہ بند کر دیا ہے ، حالانکہ مسجد حرام ان کی ذاتی جائیداد نہیں ہے اور وہ کسی کو حج سے روکنے کا حق نہیں رکھتے ۔ یہ اعتراض نہ صرف یہ کہ بجائے خود حق بجانب تھا ، بلکہ سیاسی حیثیت سے یہ قریش کے خلاف ایک بہت بڑا حربہ بھی تھا ۔ اس سے عرب کے تمام دوسرے قبائل کے ذہن میں یہ سوال پیدا کر دیا گیا کہ قریش حرم کے مجاور ہیں یا مالک ؟ اگر آج اپنی ذاتی دشمنی کی بنا پر وہ ایک گروہ کو حج سے روک دیتے ہیں اور اس کو برداشت کر لیا جاتا ہے تو کیا بعید ہے کہ کل جس سے بھی ان کے تعلقات خراب ہوں اس کو وہ حدود حرم میں داخل ہونے سے روک دیں اور اس کا عمرہ و حج بند کر دیں ۔ اس سلسلے میں مسجد حرام کی تاریخ بیان کرتے ہوئے ایک طرف یہ بتایا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے جب خدا کے حکم سے اس کو تعمیر کیا تھا تو سب لوگوں کو حج کا اذن عام دیا تھا ، اور وہاں اول روز سے مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق یکساں قرار دیے گئے تھے ۔ دوسری طرف یہ بتایا گیا ہے کہ گھر شرک کے لیے نہیں بلکہ خدائے واحد کی بندگی کے لیے تعمیر ہوا تھا ۔ اب یہ کیا غضب ہے کہ وہاں ایک خدا کی بندگی تو ہو ممنوع اور بتوں کی پرستش کے لیے ہو پوری آزادی ۔ دوسرے خطاب میں مسلمانوں کو قریش کے ظلم کا جواب طاقت سے دینے کی اجازت عطا کی گئی ہے اور ساتھ ساتھ ان کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب تمہیں اقتدار حاصل ہو تو تمہاری روش کیا ہونی چاہیے اور اپنی حکومت میں تم کو کس مقصد کے لیے کام کرنا چاہیے ۔ یہ مضمون سورہ کے وسط میں بھی ہے اور آخر میں بھی ۔ آخر میں گروہ اہل ایمان کے لیے مسلم‘’‘ کے نام کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے یہ فرمایا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے اصل جانشین تم لوگ ہو ، تمہیں اس خدمت کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے کہ دنیا میں شہادت علی الناس کے مقام پر کھڑے ہو ، اب تمہیں اقامت صلوٰۃ ، ایتائے زکوٰۃ اور فعل الخیرات سے اپنی زندگی کو بہترین نمونے کی زندگی بنانا چاہیے ۔ اس موقعہ پر سورہ بقرہ اور سورہ انفال کے دیباچوں پر بھی نگاہ ڈال لی جائے تو سمجھنے میں زیادہ سہولت ہو گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

سورۃ الحج تعارف اس سورت کا کچھ حصہ مدنی ہے، اور کچھ مکی۔ مطلب یہ ہے کہ اس سورت کا نزول مکہ مکرمہ میں ہجرت سے پہلے شروع ہوچکا تھا، اور تکمیل ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں ہوئی۔ اسی سورت میں یہ بتایا گیا ہے کہ حج کی عبادت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے میں کس طرح شرو ع ہوئی، اور اس کے بنیادی ارکان کیا ہیں؟ اسی وجہ سے اس کا نام سورۃ حج ہے۔ مکہ مکرمہ میں مشرکین نے مسلمانوں کو طرح طرح کے ظلم کا نشانہ بنایا تھا، وہاں مسلمانوں کو صبر کی تلقین کی جاتی تھی، لیکن مدینہ منورہ آنے کے بعد اسی سورت میں پہلی بار مسلمانوں کو کفار کے ظلم و ستم کے مقابلے میں جہاد کی اجازت دی گئی، اور فرمایا گیا کہ جن کافروں نے مسلمانوں پر ظلم کر کے انہیں اپنا وطن اور گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا ہے، اب مسلمان ان کے خلاف تلوار اٹھا سکتے ہیں۔ اس طرح جہاد کو ایک عبادت قرار دے کر یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ نہ صرف اس کا ثواب آخرت میں ملے گا، بلکہ دنیا میں بھی مسلمانوں کو ان شاء اللہ فتح نصیب ہوگی۔ اس کے علاوہ اسلام کے بنیادی عقائد بھی بیان کیے گئے ہیں۔ چنانچہ سورت کا آغاز آخرت کے بیان سے ہوا ہے جس میں قیامت کا ہولناک منظر بڑے موثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

سورة نمبر 22 کل رکوع 10 آیات 78 الفاظ و کلمات 1283 حروف 5432 سورۃ الحج کی ابتدائی آیات مکہ مکرمہ میں اور کچھ آیات مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں چونکہ مدینہ منورہ میں نازل ہونے والی آیات حاص طور پر کفار کے خلاف جہاد کی اجازت وغیرہ کے لیے ہیں اس لیے اس سورة کو مدنی سورة شمار کیا گیا ہے۔ تعارف سورة الحج بسم اللہ الرحمن الرحیم اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ الصلوۃ والسلام) نے تعمیر بیت اللہ کے وقت تمام دنیا کے انسانوں کو حج کے لیے اذن عام دیا تھا۔ باہر سے زیارت کے لیے آنے والوں اور مکہ کے رہنے والوں کو حقوق میں برابر قرار دیا تھا۔ باہر سے زیارت کے لیے آنے والوں اور مکہ کے رہنے والوں کو حقوق میں برابر قرار دیا تھا۔ لیکن ان کفار نے اس مقدس و محترم سرزمین کو اپنی ذاتی جاگیر بنا لیا تھا۔ اللہ کا وہ گھر جو اس کی عبادت و بندگی کے لیے بنا یا گیا تھا اس میں تین سو ساٹھ بن رکھ کر غیر اللہ کی عبادت و بندگی کی جارہی تھی اور جس طرح تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) نے اپنی ہر حاجت کو اللہ کے سامنے پیش کر کے اس سے مدد مانگی تھی یہ لوگ ابراہیمی ہونے کے دعویدارہونے کے باوجود غیر اللہ سے اپنی حاجتیں مانگا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ کفار کے غلبہ اور قوت و طاقت سے نہ گھبرائیں وہ وقت دور نہیں جب ان کفار کو کمر ٹوٹ جائے گی اور اللہ کا گھر قیامت تک صرف اسی کی عبادت و بندگی کے لیے مخصوص ہوجائے گا اور جہاد کے ذریعہ اہل ایمان کو ان کفار پر غلبہ حاصل ہوجائے گا۔ فتح و نصرت ان کے قدم چومے گی اور آج جو لوگ اہل ایمان کے راستے کا پتھر بن گئے ہیں وہ سخت ناکام ہوں گے اور ان کی اجارہ داری ٹوٹ کر رہ جائے گی۔ مکہ مکرمہ میں تیرہ سال تک جس طرح اہل ایمان پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ ان کو اس زمانہ میں اور مدینہ منورہ کے ابتدائی دو سالوں میں اس بات کا حکم تھا کہ وہ ہر طرح کے مظالم برداشت کرتے رہیں اور طاقت ہونے کے باوجود اس کا کوئی جواب نہ دیں لیکن اس سورة اہل ایمان کو مسلم کالقب عطا کرکے دنیا بھر میں امن و سلامتی کا پیکر بنا گیا ہے اور انہیں حکم دیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں امن و سلامتی کے راستے میں یہ کفار و مشرکین آڑے آئیں تو ان کے خلاف طاقت استعمال کی جائے اور جہاد کیا جائے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ قرآن کریم میں پہلی مرتبہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے اور جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ٭اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک شدید زلزلے کے نتیجے میں یہ ساری کائنات درہم برہم کردی جائے گی ہر چیز ختم ہوجائے گی۔ انسان دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔ قیامت کا وہ دن بڑا دہشت ناک اور ہولناک ہوگا۔ جس میں ہر شخص پر ایک زبردست خوف طاری ہوجائے گا۔ فرمایا کہ ہر شخص کو اس دن کی فکر ہونا چاہیے۔ کسی کو اس دنیا میں ہمیشہ نہیں رہنا ہے ایک وقت وہ آنے والا ہے جہاں ہر انسان کو اپنے ایک ایک لمحہ کا حساب دینا ہے۔ پھر کوئی شخص جزا اور سزا سے بچ نہیں سکتا۔ قیامت کا آنا برحق ہے اس میں شک کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورة کی آیات میں کفار و مشرکین کو سیدھے راستے پرچلنے کی تاکید فرمائی ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ اگر ان لوگوں نے کفر وشرک ‘ ضد ‘ ہٹ دھرمی اور ظلم و ستم کا راستہ تبدیل نہیں کیا اور وہ اپنی حرکتوں سے باز نہآئے تو ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ ان کا انجام بہت قریب ہے اور ان کا انجام دوسری بد عمل اور بدکردار قوموں سے مختلف نہ ہوگا۔ منافقین سے کہا گیا ہے کہ ابھی وقت ہے کہ وہ اپنی منافقانہ روش کو چھوڑ کر حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت و فرمانبرداری قبول کرلیں۔ اگر یہ وقت نکل گیا تو پھر ان کو مہالت اور ڈھیل نہیں دی جائے گی۔ جن لوگوں نے ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا تھا ان کو نصیحت کی جارہی ہے کہ وہ بھی اپنے ظلم و زیادتی اور زور زبردستی کے طریقوں کو چھوڑ کر راہ راست اختیار کرلیں۔ قیامت کے ہولناک اور دہشت ناک منظر کو پیش کر کے فرمایا گیا ہے کہ وہ ایسا خوفناک دن ہوگا۔ جب دودھ پلانے والی مائیں اپنے دودھ پیتے بچوں کو بھول جائیں گی۔ حاملہ عورتوں کے حمل ضائع ہوجائیں گے اور ہر شخص اس دہشت سے ایسا محسو کرے گا جیسے وہ کسی نشہ میں ہے حالانکہ یہ سب کچھ نشہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ کے عذاب اور اس دن کی دہشت سے ہوگا۔ فرمایا کہ اس سخت ترین دن کے آنے سے پہلے پہلے اگر توبہ کرلی جائے تو اسی میں ان کے لیے بہتری ہے۔ کفار مکہ کو سمجھا یا گیا ہے کہ وہ جس طرح نبی آخر الزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لائے ہوئے سچے دین کو جھٹلا رہے ہیں۔ اہل ایمان پر مکہ کی زمین تنگ کر رہے ہیں اور دین کے راستے میں رکاوٹ بن رہے ہیں ابھی وقت ہے کہ وہ اپنے طرز عمل کو بدل ڈالیں ورنہ وہ وقت دور نہیں ہے جب ان کفار و مشرکین کو دنیا میں بھی ذلت و رسوائی ملے گی اور آخرت میں ان کا بھیانک انجام ہوگا۔ اور وہ ہر طرح کی خیر و فلاح سے محروم رہیں گے۔ فرمیا گیا کہ تم نے جن بتوں کو اپنا معبود بنا رکھا ہے تم ان کی عبادت و پرستش کرتے ہو ان سے اپنی مرادیں مانگتے ہو اور یہ سمجھتے ہو کہ یہ تمہارے خالق ومالک ہیں اور تمہاری ہر ضرورت کو پورا کردیں گے یہ خیال غلط ہے کیونکہ ان بتوں میں کوئی طاقت نہیں ہے۔ ان کی کمزوری اور بےبسی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے وجود کے لیے بھی تمہارے ہاتھوں کے محتاج ہیں۔ وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے بلکہ اگر اللہ کی پیدا کی ہوئی ایک مکھی بھی ان کی ناک پر بیٹھ جائے تو وہ اس مکھی کو اپنے بدن سے اڑا نہیں سکتے۔ وہ مکھی اگر ان کی کوئی چیز لے کر بھاگ جائے تو اس سے واپس نہیں لے سکتے۔ جو اپنے نفع نقصان اور اختیار کے مالک نہیں ہیں وہ تمہارے نفع نقصان کے کیسے مالک ہو سکتے ہیں ؟ فرمایا کہ تمہارا خالق صرف ایک اللہ ہے وہی ہر طرح کی عبادت کا مستحق ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت و بندگی کے لائق نہیں ہے۔ فرمایا کہ وہ اللہ ہی تمہارا خالق اور پوری کائنات کا مالک ہے۔ ساری قدرت اسی ایک اللہ کی ہے۔ اس نے تمہارے ماں باپ اور تمہیں پیدا کیا ہے۔ اسی نے کائنات کو وجود بخشا ہے وہی اس کے نظام کو چلارہا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس نظام کے چلانے میں کسی کا محتاج ہے۔ وہی اللہ ہے جو اس سارے نظام کائنات کو لپیٹ کر رکھ دے گا تمہیں دوبارہ پیدا کرے گا اور پھر تم سے ایک ایک لمحہ کا حساب لے گا۔ اہل ایمان سے فرمایا جارہا ہے کہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) نے تمہارا نام ” مسلم “ رکھا ہے ۔ تم مسلم ہو۔ ساری دنیا میں امن و سلامتی قائم کرنا تمہاری ذمہ داری ہے۔ اب ان کفار و مشرکین سے اقتدار چھین کر تمہارے حوالے کرنے کا وقت آگیا ہے۔ جب حکومت ‘ اقتدار اور مال و دولت تمہارے حصے میں آئے تو تم اس نظام زندگی کو قائم کر کے دکھا دینا جس میں نمازوں کے قیام اور زکوۃ کی پابندی سے تمام انسانوں کے لیے خیر و فلاح کے راستے کھل جائیں گے۔ ہر نیکی کو قائم کرنا اور دنیا سے ہر برائی کو مٹا کر انسانوں کی فلاح بہبود کے لیے جدوجہد کرنے کو عبادت سمجھنا تاکہ دنیا ظالموں کے پنجوں سے نجات پا کر صالح انسانوں کی قیادت میں آجائے۔ اہل ایمان سے یہ بھی فرمایا جارہا ہے کہ وہ دنیا میں زندگی گزارنے کا سلیقہ اور طریقہ اللہ کے سچے رسول آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سکیں جن کی زندگی کو اللہ نے ایک بےمثال نمونہ زندگی بنایا ہے۔ فرمایا کہ انسانیت کی نجات کا یہی ایک راستہ ہے اور اسی میں ان کی کامیابیاں پوشیدہ ہیں۔ اہل ایمان سے فرمایا جارہا ہے کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت و بندگی کریں جس نے اس ساری کائنات کو پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ ایمان اور عمل صالح اختیار کریں گے تو دین و دنیا کی ساری بھلائیاں اور کامیابیاں ان کو عطا کی جائیں گی۔ قیامت میں انہیں راحت بھری جنتیں دی جائیں گی جہاں ہر طرح سلامتی ہی سلامتی ہوگی اور ان میں ہر طرح کی نعمتیں ہوں گی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

سورة حج کا تعارف ربط سورة : سورة الانبیاء کا اختتامی مضمون قیامت کی ہولناکیاں تھا جن سے بچنے کے لیے توحید و رسالت کے تقاضے پورے کرنا لازم ہے۔ سورة حج میں اسی مضمون کو قدرے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس سورة میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ذریعے حج کا اعلان ہوا جس بنا ہر اس کا نام الحج ہے جو آیت ٢٧ سے لیا گیا ہے۔ اس کے 10 رکوع 78 آیات ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے اے لوگو ! قیامت کے دن سے ڈرو جس دن عظیم زلزلہ برپا ہوگا۔ حالت یہ ہوگی کہ لوگ مدہوش دکھائی دیں گے اور حاملہ اپنا حمل پھینک دے گی۔ حالانکہ لوگوں نے کوئی نشہ نہیں پیا ہوگا۔ یہ صرف اس بنا پر ہوگا کہ اس دن ” اللہ “ کی گرفت بہت سخت ہوگی۔ جو لوگ قیامت کے دن جی اٹھنے کا انکار کرتے ہیں انہیں اس دن کے عذاب سے ڈرنا چاہیے۔ جہاں تک جی اٹھنے کا تعلق ہے انسان اخلاص کے ساتھ اپنی پیدائش کے مختلف مراحل پر غور کرے تو اسے یقین ہوجائے گا کہ جس طرح مجھے عدم سے وجود بخشا گیا ہے اسی طرح مجھے مٹی سے نکال لیا جائے گا۔ پھر انسان اپنے آس پاس پھیلی ہوئی خشک اور سخت زمین پر غور کرے کہ اللہ تعالیٰ بارش کے بعد اس میں کس طرح سبزہ پیدا کرتا ہے۔ جس طرح مٹی میں پڑے ہوئے بیج کو کونپل کی شکل میں نکال لیا جاتا ہے، اسی طرح انسان کو قبر سے اٹھایا جائے گا۔ جو انسان قیامت کے دن کا انکار کرتا ہے دراصل وہ اپنے رب سے جھگڑتا ہے۔ جھگڑنے کا معنٰی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت قائم ہوگی وہ کہتا ہے کہ قیامت قائم نہیں ہوگی۔ ایسے لوگ محض دنیا کے فائدے کی خاطر اپنے رب کی عبادت اور نیکی کے کام کرتے ہیں۔ فائدہ ہو تو رب کی عبادت میں لگے رہے اور اسلام، اسلام کہنا شروع کردیا۔ آزمائش آئی تو بھاگ کھڑے ہوئے یہ لوگ ناقابل تلافی نقصان پائیں گے۔ یہ بھی وضاحت کردی گئی کہ لوگ اپنے رب کی بندگی کریں یا نہ کریں۔ اسے بندوں کی عبادت کی کوئی پروا نہیں کیونکہ زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے وہ سب کے سب اپنے رب کی بندگی میں لگے ہوئے اور اس کے حضور سر بسجود ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی بتلا دی گئی کہ رب کی عبادت سے انکار کرنے والوں کو جہنم میں جھونکا جائے گا اور عبادت گزاروں کو جنت میں قیام بخشا جائے گا۔ اہل مکہ بیت اللہ کے پڑوسی ہونے کے باوجود اپنے رب کی وحدت اور عبادت کے منکر ہیں۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ مکہ کا قیام، مقام اور آرام تو بیت اللہ کا مرہون منت ہے۔ جسے ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے رب کی عبادت کرنے اور اس کی وحدت کے پرچار کے لیے بنایا تھا۔ اسی لیے انہوں نے اپنے رب کے حضور قربانی پیش کی تھی۔ اے مکہ کے باسیو ! تم دین ابراہیم کا دعویٰ کرنے کے باوجود رب کی توحید کا انکار کرتے ہو ذرا سوچو اور غور کرو۔ اے اہل مکہ تمہاری حالت یہ ہے کہ تم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں پر اس لیے ظلم پر ظلم کیے جا رہے ہو کہ یہ تمہیں اس گھر کے رب کی طرف بلاتے ہیں۔ تم حقیقت تسلیم کرنے کی بجائے لڑنے مرنے پر تیار ہوچکے ہو۔ لہٰذا اب مسلمانوں کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ تمہارے مقابلے میں قتال کے لیے کھڑے ہوجائیں یہ اجازت اس لیے دی گئی ہے کہ اگر ظالموں کے مقابلے میں مسلمانوں اور مظلوموں کو اجازت نہ دی جاتی تو دنیا کا نظام ختم ہو کر رہے جائے۔ سورۃ کے آخر میں توحید کے ٹھوس دلائل دئیے گئے ہیں اور دو ٹوک انداز میں بتلایا گیا ہے کہ ہر چیز کا اللہ ہی خالق اور مالک ہے، وہی موت وحیات پر اختیار رکھنے والا ہے۔ جو لوگ اس کے سوا دوسروں کا حکم مانتے اور ان کی بندگی کرتے ہیں۔ ان کے پاس اس فکر وعمل کی کوئی دلیل موجود نہیں۔ ان کا عقیدہ ظلم پر مبنی ہے جس کا یہ لوگ پرچار کرتے ہیں۔ قیامت کے دن ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ اے لوگو ! تمہارے سامنے ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے پوری توجہ سے سنو۔ جنہیں تم ” اللہ “ کے سوا پکارتے ہو وہ سب کے سب جمع ہو کر ایک مکھی پیدا نہیں کرسکتے۔ مکھی پیدا کرنا تو درکنار اگر مکھی کوئی چیز اٹھا کرلے جائے تو یہ اس سے واپس نہیں لے سکتے۔ پکارنے والے اور جنہیں پکارا جاتا ہے سب کے سب کمزور ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کفار اور مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی اس طرح قدر نہیں کی جس طرح ” اللہ “ کی قدر کرنے کا حق تھا۔ آخر میں مومنوں کو ہدایات دی گئی ہیں کہ اپنے رب کے حضور رکوع و سجود کرو اور اس کی بندگی میں لگے رہو، اور اس کے راستے میں جس طرح جہاد کرنے کا حق ہے جہاد جاری رکھو۔ اس نے تمہارے دین میں کوئی نقص نہیں چھوڑا یہی ملت ابراہیم ہے۔” اللہ “ نے پہلی کتب اور اس قرآن میں تمہارا نام مسلم رکھا ہے، تمہیں اور الرّسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں پر گواہ ٹھہرایا ہے۔ بس نماز قائم رکھنا، زکوٰۃ ادا کرتے رہنا۔ اپنے ” اللہ “ کے ساتھ وابستہ رہنا، وہی تمہارا خیر خواہ اور کار ساز ہے۔ اس سے بہتر کوئی تمہاری مدد کرنے والا اور کار ساز نہیں ہوگا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

پارہ ……17 سورة الحج -٢٢ آیات ١…تا ٧٨ سورة الحج ایک نظر میں یہ سورة مکی بھی ہے اور مدنی بھی۔ اس کی بعض آیات کے مطالعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ مدنی ہے۔ خصوصاً اس آیت سے جس میں قتال کی اجازت دی گئی ہے۔ (٣٨ تا ٤١) اور پھر ان آیات سے جن میں بدلہ لینے (٦٠) کی اجازت دی گئی ہے۔ ان آیات سے یہ قطعی طور پر مدنی معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے کہ مسلمانوں کو جنگ اور قصاص کی اجازت صرف ہجرت کے بعد دی گئی تھی جب مدینہ میں ایک اسلامی مملکت قائم ہوگئی تھی۔ اس سے قبل ان باتوں کی اجازت نہ تھی۔ جب اہل یثرب نے آپ کی بیعت کے بعد انہوں نے یہ اجازت چاہی کہ ابھی ہم منیٰ میں کفار مکہ پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور انہیں ختم کر کے رکھ دیتے ہیں ، تو آپ نے فرمایا مجھے تو ابھی اس کی اجازت یا حکم نہیں دیا گیا لیکن جب مدینہ دارالاسلام بن گیا تو اللہ نے قتال کی اجازت دے دی تاکہ مسلمانوں کو کافر جو اذیتیں دیتے تھے اس سے ان کو بچایا جائے ، ملک کے اندر آزادی رائے کا حق قائم کیا جائے اور اہل ایمان آزادنہ اللہ کی بندگی کرسکیں۔ موضوعات کے اعتبار سے یہ سورة ایسی ہے کہ اس کے موضوعات مکی ہیں اور فضا بھی ایسی ہے جیسے مکی سورتوں کی عمومی فضا ہوتی ہے۔ توحید ، آخرت کا خوف ، بعث بعد الموت کا اثبات ، شرک کی تردید ، یا مت کے مناظر اور اس کائنات میں پھیلے ہوئے نشانات اور آیات الہیہ جیسے موضوعات واضح طور پر اس سورة پر چھائے ہوئے ہیں۔ جبکہ مدنی موضوعات بھی اس میں موجود ہیں مثلاً مشرکین سے لڑنے کی اجازت ، اسلامی شعائر کے بچانے کا حکم اور ایسے لوگوں کے ساتھ خدا کی نصرت کا وعدہ جن پر ظلم کیا گیا ہو اور وہ اس ظلم کی مدانعت کر رہے ہوں اور جہاد فی سبیل اللہ کا حکم ، یہ مدنی موضوعات ہیں۔ اس سورة پر قوت ، شدت ، سختی ، ڈر اوے ، ترہیب ، تقویٰ کے شعور کی بیداری ، خدا کا خوف اور اس کے آگے سر تسلیم خم کرنا عموماً سایہ لگن ہے۔ یہ پر تو اور یہ فضا مناظر اور امثال کی صورت میں ہیں۔ مثلاً بعث بعد الموت کا منظر نہایت ہی خوفناک اور زلزلہ خیز ہے۔ یایھا الناس ……شدید (٢) (٢٢ : ١-٢) ” لوگو ، اپنے رب کے غضب سے بچو ، حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑی (ہولناک) چیز ہے۔ جس روز تم اسے دیکھو گے ، حال یہ ہوگا کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہوجائے گی ، ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا اور لوگ تم کو مدہوش نظر آئیں گے ، حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے ، بلکہ اللہ کا عذاب ہی کچھ ایسا سخت ہوگا۔ “ عذاب آخرت کا منظر یوں ہے : فالذین کفروا قطعت ………عذاب الحریق (٢٢) (٢٢ : ١٩-٢٢) ” وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ان کے لئے آگ کے لباس کاٹے جا چکے ہیں ، ان کے سروں کو کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا جس سے ان کی کھالیں ہی نہیں پیٹ کے اندر کے حصے تک گل جائیں گے ، اور ان کی خبر لینے کے لئے لوہے کے گرز ہوں گے۔ جب کبھی وہ گھبرا کر جہنم سے نکلنے کی کوشش کریں گے پھر اسی میں دھکیل دیئے جائیں گے کہ چکھو اب جلنے کی سزا کا مزہ۔ “ اور مشرکین کی مثال و من یشرک باللہ فکانما خرمن السمآء فتخطفہ الطیر اوتھوی الریح فی مکان سحیق (٢٢ : ٣١) ” اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے گا تو گویا وہ آسمان سے گر گیا۔ اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا اسے ایسی جگہ لے جا کر پھینک دے گی جہاں اس کے چیتھڑے اڑ جائیں گے۔ “ اور جو شخص اللہ کی نصرت سے مایوس ہوا اس کا حال یوں ہوگا۔ من کان ……مایغیظ (٢٢ : ١٥) ” جو شخص یہ گمان رکھتا ہو کہ اللہ دنیا اور آخرت میں اس کی کوئی مدد نہ کرے گا ، اسے چاہئے کہ ایک رسی کے ذریعے آسمان تک پہنچ کر شگاف لگائے پھر دیکھ لے کہ آیا اس کی تدبیر کسی ایسی چیز کو رد کرسکتی ہے جو اس کو ناگوار ہے۔ “ اور ایسے شہروں کا نقشہ یوں ہے جنہیں ظلم کی وجہ سے ہلاک کیا گیا۔ فکای من قریۃ اھلکنھا وھی ظالمۃ فھی خاویۃ علی عروشھا وبشر معطلۃ ، قصر مشید (٢٢ : ٣٥) ” کتنی ہی خطا کار بستیاں ہیں جن کو ہم نے تباہ کیا ہے اور آج وہ اپنی چھتوں پر الٹی پڑی ہیں کتنے ہی کنوئیں بےکار اور کتنے ہی قصر کھنڈر بنے ہوئے ہیں۔ “ ان سخت اور خوفناک مناظر کے نتیجے میں احکام اور فرائض نازل ہوتے ہیں اور اس بات کی اجازت دی جاتی ہے کہ ظلم کی مدافعت قوت سے بھی کی جاسکتی ہے اور ایسے حالات میں اللہ کی نصرت تمہارے ساتھ ہوگی۔ یہ اس طرح کہ کافر جن انہوں کے لئے لڑ رہے ہیں وہ کمزور ہیں اور تم جس خدا کی راہ میں لڑ رہے ہو وہ اس پوری کائنات کو چلا رہا ہے۔ احکام و فرائض کے سلسلے میں کیا گیا ہے۔ اذن للذین ………عاقبۃ الامور (٣١) (٢٢ : ٣٩-٣١) ” اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے ، صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب اللہ ہے ، اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں جن میں اللہ کثرت سے یاد کیا جاتا ہے سب مسمار کر ڈالی جائیں اور اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے ، اللہ بڑا طاقتور اور زبردست ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر انہیں ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں ، زکوۃ دیں نیکی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ “ اور دوسرے مسئلے میں کہ مشرکین کے الہ کچھ بھی طاقت نہیں رکھتے کہا جاتا ہے۔ یایھا الناس ……لقوی عزیز (٨٣) (٢٢ : ٨٣-٨٣) ” لوگو ، ایکمثال دی جاتی ہے ، غور سے سنو۔ جن معبودوں کو تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے ، بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین کرلے جائے تو وہ اسے چھڑا بھی نہیں سکتے۔ مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور۔ ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ پہچانی جیسا کہ اس کی قدر پہچاننے کا حق ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ قوت اور عزت والا تو اللہ ہی ہے۔ “ ان دو باتوں کے علاوہ یہ دعوت دی جاتی ہے کہ خدا کا خوف اختیار کرو ، ہر وقت اس سے ڈرتے رہو اور اللہ کے سامنے جھک کر سرتسلیم خم کرو۔ ایسے ہی موضعات سے سورة کا آغاز ہوتا ہے اور اس کے درمیان میں بھی تقویٰ اور خدا خوفی کے مضامین جا بجا لائے جاتے ہیں۔ یایھا الناس اتقوا ربکم ان زلزلۃ الساعۃ شی عظیم (٢٢ : ١) ” لوگو اپنے رب کے غضب سے بچو ، حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑی چیز ہے۔ “ اور دوسری جگہ فرمایا ذلک ومن یعظم شعائر اللہ فانھا من نقوی القلوب (٢٢ : ٣٢) (٢٢) ” یہ ہے اصل معاملہ ، اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔ “ اور دوسری جگہ فرمایا فالھکم الہ واحد فلہ اسلموا و بشر المخبتین (٣٣) الذین اذا ذکر اللہ و جلت قلوبھم (٢٢ : ٣٥) (٢٢ : ٣٣-٣٥) (٢٤) ” پس تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے پس اس کے مطیع فرمان بنو ، اور اے نبی بشارت دے دو عاجزانہ روش اختیار کرنے والوں کو جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کا ذکر سنتے ہیں تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ “ اور دوسری جگہ ہے۔ لن ینال اللہ لحومھا ولادمآئوھا ولکن ینالہ التقویٰ منکم ” نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ “ اس کے ساتھ ساتھ اس کائنات کے مناظر بھی پیشکئے جاتے ہیں اور قیامت کے مشاہد بھی۔ ان لوگوں کے کھنڈرات بھی جو ہلاک کئے گئے اور عبرت کی تاریخی مثالیں بھی اور ایسی تصویر کشی جس کے ذریعے غور و فکر ، ایمان وتقویٰ کا شعور ، عاجزانہ روش اور اللہ کے حکم کے آگے جھک جانے کی روش بیدار کی جاتی ہے۔ یہ چیزیں اس سورة کے عمومی مقاصد ہیں اور یہی فضا سورة کے زیادہ تر مضامین کی ہے۔ اس سورة کے چار حصے کئے جاسکتے ہیں۔ ١۔ پہلے حصے میں ایک عام پکار ہے کہ لوگو ، خدا کا خوف اختیار کرو ، قیامت کا زلزلہ ایک عظیم اور خوفناک چیز ہے اور اس کے اندر پائے جانے والے خوف و ہراس کی تصویر کشی کی گئی ہے اور متصلاً کہا گیا ہے کہ جو خد اس قدر ہولناک مناظر پیدا کرے گا اس کے بارے میں لوگ بغیر علم کے مباحثے کرتے ہیں اور شیطان کی پیروی کرتے ہیں جو حتماً مردود ہے۔ پھر بتایا جاتا ہے کہ انسان کی تخلیق ایک جنین سے کہاں تک ہوئی اور نباتات میں کیا کیا کرشمے ہیں ، لوگوں کے درمیان سوشل زندگی اور اخوت اور محبت یہ سب باتیں اس حقیقت پر دلیل ہیں کہ اللہ حق ہے ، مردوں کو زندہ کرے گا اور کرسکتا ہے بلکہ سب کچھ کرسکتا ہے ، بعث بعد الموت حق ہے اور قیامت آنے والی ہے اور اگر اس کائنات میں جاری نوامیس فطرت پر غور کیا جئے تو یہ سب امور راز خود ثابت شدہ معلوم ہوتے ہیں ، حالانکہ اللہ اور اللہ کی ہدایات کے بارے میں لوگ بغیر علم کے بات کرتے ہیں۔ اگر وہ صرف اس کائنات کی تہہ تک ہی پہنچ جائیں تو ان کو اللہ کی قدرت معلوم ہوجائے۔ یہ لوگ حقیقت کو نظریہ افادیت اور نفع و خسارہ کے پیمانوں سے معلوم کرتے ہیں جو غلط ہے۔ پھر جو لوگ مصیبت میں غیر اللہ کو پکارتے ہیں اور اللہ کی نصرت پر ان کو یقین نہیں ، حالانکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہدایت و ضلالت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اس کا فیصلہ وہ جلد ہی میدان حشر میں کر دے گا اور پھر وہاں کا منظر خوفناک اور مومنین کا انجام ان کے اعمال صالحہ کے مطابق دل خوش کن ہوگا۔ ٢۔ دوسرے حصے کا آغاز اس سے ہوتا ہے کہ کفار اب لوگوں کو مسجد حرام سے روکنے لگے ہیں حالانکہ اللہ نے اسے سب کے لئے دار امن بنایا ہے۔ یہ جگہ مقیم لوگوں کے لئے بھی ہے اور باہر سے آنے والوں کے لیء بھی ہے۔ اس کی تعمیر کا قصہ یہ ہے کہ ابراہیم نے تو اسے دار توحید بنایا تھا۔ لیکن تم نے اس میں بت رکھ کر بت پرستی کرتے ہو۔ بات شعائر حج اور تقویٰ پیدا کرنے تک جا نکلتی ہے۔ جو اس گھر کے بنانے کا اصل مقصد ہے۔ اس حصے کے آخر میں مسلمانوں کو اجازت دی جاتی ہے کہ اب وہ ہتھیار اٹھائیں کہ کفار خانہ کعبہ پر بھی پابندی لگاتے ہیں اور لوگوں کو محض اس لئے گھروں سے نکال رہے ہیں کہ وہ اللہ کو ایک مانتے ہیں۔ ٣۔ تیسرے حصے میں مکذبین کے جھٹلانے کے نمونے اور تاریخ میں مکذبین اور ظالمین کی ہلاکتوں کے مناظر و واقعات پیش کئے گئے ہیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ ظالموں کی نسبت اللہ کا قانون کیا ہے۔ تکذیب کی وجہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو دکھ ہوتا تھا اس پر تسلی ، مسلمانوں کو تسلی کہ ان کا انجام اچھا ہونے والا ہے۔ ہر دور میں دعوت اسلامی کے خلاف شیطان کی تدابیر ہوتی رہی ہیں لیکن اللہ کی دعوت کی مضبوطی اور اللہ کے دلائل کی مضبوطی کی وجہ سے اہل ایمان پختہ یقین کرتے ہیں اور ضعیف یقین والے مستکبرین کی آزمائش ہوتی ہے۔ ٤۔ آخری حصے میں اللہ کا یہ وعدہ کہ مظلوم جب اپنی مدافعت کرتا ہے تو اللہ کی مدد اس کے ساتھ ہوتی ہے اور اس پر دلیل یہ ہے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس کی قدرت کے کرشمے اس کائنات میں نظر آتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اہل ایمان اس خدا کے بندے ہیں اور اس کے مقابلے میں مشرکین جن خدائوں کے لئے لڑتے ہیں ان کی حالت بہت ہی پتلی ہے۔ لہٰذا اہل ایمان کو چاہئے کہ وہ صرف اللہ کی بندگی کریں ، اللہ کے لئے جہاد کریں ، اللہ پر اعتماد کریں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وقتوں سے جو عقیدہ توحید لے کر وہ چلے ہیں اور اس کی ذمہ داریاں پوری کریں۔ یوں اس سورة کے تمام مضامین ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں اور ایک دور سے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi