Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 19

سورة الحج

ہٰذٰنِ خَصۡمٰنِ اخۡتَصَمُوۡا فِیۡ رَبِّہِمۡ ۫ فَالَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا قُطِّعَتۡ لَہُمۡ ثِیَابٌ مِّنۡ نَّارٍ ؕ یُصَبُّ مِنۡ فَوۡقِ رُءُوۡسِہِمُ الۡحَمِیۡمُ ﴿ۚ۱۹﴾

These are two adversaries who have disputed over their Lord. But those who disbelieved will have cut out for them garments of fire. Poured upon their heads will be scalding water

یہ دونوں اپنے رب کے بارے میں اختلاف کرنے والے ہیں پس کافروں کے لئے تو آگ کے کپڑےبیونت کر کاٹے جائیں گے ، اور ان کے سروں کے اوپر سے سخت کھولتا ہوا پانی بہایا جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Reason for Revelation Allah tells: هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ ... These two opponents dispute with each other about their Lord; It was recorded in the Two Sahihs that Abu Dharr swore that this Ayah -- هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ (These two opponents dispute with each other about their Lord;) was revealed concerning Ham... zah and his two companions, and Utbah and his two companions, on the day of Badr when they came forward to engage in single combat. This is the wording of Al-Bukhari in his Tafsir of this Ayah. Then Al-Bukhari recorded that Ali bin Abi Talib said, "I will be the first one to kneel down before the Most Merciful so that the dispute may be settled on the Day of Resurrection." Qays (sub-narrator) said, "Concerning them the Ayah was revealed: هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ (These two opponents dispute with each other about their Lord), He (Qays) said, "They are the ones who came forward (for single combat) on the day of Badr: Ali, Hamzah and Ubaydah vs., Shaybah bin Rabi`ah, Utbah bin Rabi`ah and Al-Walid bin `Utbah." This was reported only by Al-Bukhari. Ibn Abi Najih reported that Mujahid commented on this Ayah, "Such as the disbeliever and the believer disputing about the Resurrection." According to one report Mujahid and Ata' commented on this Ayah, "This refers to the believers and the disbelievers." The view of Mujahid and Ata' that this refers to the disbelievers and the believers, includes all opinions, the story of Badr as well as the others. For the believers want to support the religion of Allah, while the disbelievers want to extinguish the light of faith and to defeat the truth and cause falsehood to prevail. This was the view favored by Ibn Jarir, and it is good. The Punishment of the Disbelievers Allah says: ... فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّن نَّارٍ ... then as for those who disbelieved, garments of fire will be cut out for them, meaning, pieces of fire will be prepared for them. Sa`id bin Jubayr said: "Of copper, for it is the hottest of things when it is heated." ... يُصَبُّ مِن فَوْقِ رُوُوسِهِمُ الْحَمِيمُ يُصْهَرُ بِهِ مَا فِي بُطُونِهِمْ وَالْجُلُودُ   Show more

مومن وکافر کی مثال ۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قسم کھا کر فرماتے تھے کہ یہ آیت حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے مقابلے میں بدر کے دن جو دو کافر آئے تھے اور عتبہ اور اس کے دوساتھیوں کے بارے میں اتری ہے ۔ ( بخاری ومسلم ) صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ ع... نہ فرماتے ہیں قیامت کے دن میں سب سے پہلے اللہ کے سامنے اپنی حجت ثابت کرنے کے لئے گھٹنوں کے بل گرجاؤں گا حضرت قیس فرماتے ہیں انہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے بدر کے دن یہ لوگ ایک دوسرے کے سامنے آئے تھے علی اور حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبیدہ اور شیبہ اور عتبہ اور ولید ۔ اور قول ہے کہ مراد مسلمان اور اہل کتاب ہیں ۔ اہل کتاب کہتے تھے ہمارا نبی تمہارے نبی سے اور ہماری کتاب تمہاری کتاب سے پہلے ہے اس لئے ہم اللہ سے بہ نسبت تمہارے زیادہ قریب ہیں ۔ مسلمان کہتے تھے کہ ہماری کتاب تمہاری کتاب کا فیصلہ کرتی ہے اور ہمارے نبی خاتم الانبیاء ہیں اس لئے تم سے ہم اولی ہیں پس اللہ نے اسلام کو غالب کیا اور یہ آیت اتری ۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مراد اس سے سچا ماننے والے اور جھٹلانے والے ہیں ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس آیت میں مومن وکافر کی مثال ہے جو قیامت میں مختلف تھے ۔ عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مراد جنت دوزخ کا قول ہے دوزخ کی مانگ تھی کہ مجھے سزا کی چیز بنا ۔ اور جنت کی آرزو تھی کہ مجھے رحمت بنا ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کا قول ان تمام اقوال میں شامل ہے اور بدر کا واقعہ بھی اس کے ضمن میں آسکتا ہے مومن اللہ کے دین کا غلبہ چاہتے تھے اور کفار نور ایمان کے بجھانے حق کو پست کرنے اور باطل کے ابھارنے کی فکر میں تھے ۔ ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ بھی اس کو مختار بتلاتے ہیں اور یہ ہے بھی بہت اچھا چنانچہ اس کے بعد ہی ہے کہ کفار کے لئے آگ کے ٹکڑے الگ الگ مقرر کردئے جائیں گے ۔ یہ تانبے کی صورت ہوں گے جو بہت ہی حرارت پہنچاتا ہے پھر اوپر سے گرم ابلتے ہوئے پانی کا تریڑا ڈالا جائے گا ۔ جس سے ان کے آنتیں اور چربی گھل جائے گی اور کھال بھی جھلس کر جھڑجائے گی ۔ ترمذی میں ہے کہ اس گرم آگ جیسے پانی سے ان کی آنتیں وغیرہ پیٹ سے نکل کر پیروں پر گرپڑیں گی ۔ پھر جیسے تھے ویسے ہوجائیں گے پھر یہی ہوگا ۔ عبداللہ بن سری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں فرشتہ اس ڈولچے کو اس کے کڑوں سے تھام کرلائے گا اس کے منہ میں ڈالنا چاہے گا یہ گھبرا کر منہ پھیر لے گا ۔ تو فرشتہ اس کے ماتھے پر لوہے کا ہتھوڑا مارے گا جس سے اس کا سر پھٹ جائے گا وہیں سے اس گرم آگ پانی کو ڈالے گا جو سیدھا پیٹ میں پہنچے گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ان ہتھوڑوں میں جن سے دوزخیوں کی ٹھکائی ہوگی اگر ایک زمین پر لاکر رکھ دیا جائے تو تمام انسان اور جنات مل کر بھی اسے اٹھا نہیں سکتے ۔ ( مسند ) آپ فرماتے ہیں اگر وہ کسی بڑے پہاڑ پر مار دیا جائے تو وہ ریزہ ریزہ ہوجائے جہنمی اس سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے پھر جیسے تھے ویسے ہی کردئے جائیں گے اگر عساق کا جو جہنمیوں کی غذا ہے ایک ڈول دنیا میں بہا دیا جائے تو تمام اہل دنیا بدبو کے مارے ہلاک ہوجائیں ۔ ( مسند احمد ) ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے لگتے ہی ایک ایک عضو بدن جھڑ جائے گا اور ہائے وائے کا غل مچ جائے گا جب کبھی وہاں سے نکل جانا چاہیں گے وہیں لوٹا دیئے جائیں گے ۔ حضرت سلمان فرماتے ہیں جہنم کی آگ سخت سیاہ بہت اندھیرے والی ہے اس کے شعلے بھی روشن نہیں نہ اس کے انگارے روشنی والے ہیں پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ حضرت زید رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے جہنمی اس میں سانس بھی نہ لے سکیں گے ۔ حضرت فضیل بن عیاض رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں واللہ انہیں چھوٹنے کی تو آس ہی نہیں رہے گی پیروں میں بوجھل بیڑیاں ہیں ہاتھوں میں مضبوط ہتھکڑیاں ہیں آگ کے شعلے انہیں اس قدر اونچا کر دیتے ہیں کہ گویا باہر نکل جائیں گے لیکن پھر فرشتوں کے ہاتھوں سے گرز کھا کر تہ میں اتر جاتے ہیں ۔ ان سے کہا جائے گا کہ اب جلنے کا مزہ چکھو ۔ جیسے فرمان ہے ان سے کہا جائے گا اس آگ کا عذاب برداشت کرو جسے آج تک جھٹلاتے رہے ۔ زبانی بھی اور اپنے اعمال سے بھی ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 ھذان خصمن یہ دونوں تثنیہ کے صیغے ہیں بعض نے اس سے مراد مذکورہ گمراہ فرقے اور اس کے مقابلے میں دوسرا فرقہ مسلمان کو لیا ہے۔ یہ دونوں اپنے رب کے بارے میں جھگڑتے ہیں، مسلمان تو وحدانیت اور اس کی قدرت علی البعث کے قائل ہیں، جب کہ دوسرے اللہ کے بارے میں مختلف گمراہیوں میں مبتلا ہیں۔ اس ضمن میں جنگ ... بدر میں لڑنے والے مسلمان اور کافر بھی آجاتے ہیں، جس کے آغاز میں مسلمانوں میں ایک طرف حضرت حمزہ، حضرت علی اور حضرت عبیدۃ (رض) تھے اور دوسری طرف ان کے مقابلے میں کافروں میں عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ تھے (امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ دونوں ہی مفہوم صحیح اور آیت کے مطابق ہیں۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٦] یعنی جھگڑنے اور لڑائی کرنے والے دو فریقوں میں سے ایک فریق تو اللہ کے فرمانبرداروں اور مسلمانوں کا ہے اور دوسرا کافروں کا۔ اور اس کافروں کے فریق میں وہ سب گروہ شامل ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا یعنی یہودی، صابی، عیسائی، مجوس، مشرکین اور ان کے علاوہ وہ لوگ بھی جن کا اس آیت میں ذکر نہیں ہے جیسے ہندو، س... کھ، بدھ مت والے، اللہ کی ہستی کے منکر یعنی نیچری اور دہریے وغیرہ سب اس دوسرے فریق شامل ہیں۔ ان دونوں فریقوں میں باعث نزاع مسئلہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات ہیں۔ فریق اول تو اللہ کی صفات بالکل اسی طرح تسلیم کرتا ہے جس طرح اللہ نے خود بتلائی ہیں۔ پھر وہ اللہ کا فرمانبردار اور اس کے حضور سجدہ ریز بھی رہتا ہے۔ دوسرے فریق میں ہر طرح کے لوگ شامل ہوجاتے ہیں۔ اور کبھی یہ فریق اول کے مقابلہ میں گٹھ جوڑ بھی کرلیتے ہیں۔ پھر یہ فریق صرف بحث و مناظرہ میں ہی ایک دوسرے کے مدمقابل نہیں بنتے بلکہ میدان جہاد و قتال میں بھی ان کی یہی صورت ہوتی ہے اور حضرت علی (رض) تو یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ آیت اتری ہی ان لوگوں کے حق میں تھی۔ جو غزوہ بدر میں مقابلہ کے فریق بنے تھے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ قیس بن عباد کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا : && قیامت کے دن میں سب سے پہلے پروردگار کے سامنے دو زانو بیٹھ کر اپنا مقدمہ پیش کروں گا && قیس کہتے ہیں کہ یہ آیت ان لوگوں کے سلسلہ میں اتری۔ جو بدر کے دن مبارزت کے لئے نکلے تھے۔ یعنی (مسلمانوں کی طرف سے) علی، حمزہ اور عبیدہ بن حارث اور (کافروں کی طرف سے) شیبہ بن عتبہ، عتبہ بن ربیعہ، اور ولید بن عتبہ۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اس حدیث میں میدان بدر مبارزت کا اجمالی سا ذکر ہوا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ جب لشکر کفار کو اس بات کا علم ہوگیا کہ تجارتی قافلہ بخیریت مکہ پہنچ گیا ہے تو سرداران قریش میں سے ایک سنجیدہ طبقہ کی رائے یہ تھی کہ اب جنگ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ جس مقصد کے لئے ہم نکلے تھے وہ حاصل ہوچکا۔ عتبہ بن ربیعہ اور حکیم بن حزام ایسے لوگوں میں سے تھے۔ اس جنگ کا ایک سبب ایک حضرمی کا قتل بھی تھا۔ جو وادی نخلہ کے واقعہ مسلمانوں سے قتل ہوگیا تھا۔ حکیم بن حزام، عقبہ بن ربیعہ کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ میرے ذہن میں ایک تجویز آئی ہے۔ اگر تم چاہو تو لوگوں کو جنگ اور خونریزی سے بچا کر بہت بڑی نیکی کما سکتے ہو۔ عتبہ نے پوچھا وہ کیا تجویز ہے ؟ حکیم بن حزام (جو بعد میں اسلام لے آئے تھے اور جلیل القدر صحابی ہیں) نے کہا کہ اس حضرمی کی دیت تم خود ادا کردو۔ تو قصاص کا اضطراب جو لوگوں میں پھیلا ہوا ہے۔ از خود ختم ہوجائے گا۔ عتبہ نے اس تجویز کو بخوشی قبول کرلیا۔ پھر یہ دونوں حضرات جنگ بندی کے سلسلہ میں ابو جہل کے پاس گئے جو ایک متکبر، سرکش اور مشتعل مزاج سردار تھا۔ اسے یہ رائے قطعاً پسند نہ آئی۔ اس نے عتبہ کو کہا کہ تم اس لئے جنگ سے فرار چاہتے ہو کہ تمہارا ایک بیٹا مسلمان ہوچکا ہے اور تم اب بزدلی دکھا رہے ہو ؟ عتبہ یہ بزدلی کا طعنہ برداشت نہ کرسکا اور کہنے لگا کہ کل معلوم ہوجائے گا کہ بزدل کون ہے ؟ دوسری طرف ابو جہل نے حضرمی کے قبیلہ کو مشتعل کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لشکر کفار میں جنگ کی عمومی فضا پیدا ہوگئی اور جنگ نہ ہونے کا امکان ختم ہوگیا۔ دوسرے دن جب دونوں لشکر مقابلہ پر آگئے تو یہی عتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اور بیٹے ولید بن عتبہ کو لے کر نکلا اور ھل من مبارز (کوئی مقابلہ کے لئے سامنے آتا ہے ؟ ) کا نعرہ لگایا۔ مسلمانوں کے لشکر سے تین انصاری صحابہ مقابلہ کے لئے نکلے تو عتبہ نے چیخ کو پوچھا من انتم ؟ من القوم ؟ (یعنی تم کون لوگ اور کس قوم سے ہو ؟ ) انہوں نے اپنے نام بتلائے تو عتبہ نے کہا : تم ہمارے جوڑے نہیں ہو ہم تم سے لڑنے نہیں آئے۔ پھر چیخ کر پکارا : محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری توہین نہ کرو۔ ہم ان کاشت کاروں سے لڑنے نہیں آئے۔ ہمارے مقابلہ میں ان لوگوں کو بھیجو جو ہمارے ہمسر اور ہمارے جوڑ کے ہوں۔ اور ایک روایت میں آیا کہ اس موقع ہر عتبہ کے مسلمان بیٹے اور ابو حذیفہ نے اپنے باپ کے مقابلہ پر نکالنا چاہا لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں روک دیا۔ پھر حضرت حمزہ، حضرت علی (رض) اور حضرت عبیدہ بن حارث مقابلہ کے لئے نکلے۔ حضرت حمزہ نے عتبہ کو جلد ہی ٹھکانے لگا دیا اور حضرت علی (رض) نے شیبہ کو جہنم واصل کیا۔ لیکن حضرت ابو عبیدہ بن حارث کا ولید بن عتبہ سے شدید مقابلہ ہوا۔ دونوں کا بیک وقت ایک دوسرے پر کاری وار ہوا۔ حضرت ابو عبیدہ کی ٹانگیں کٹ گئیں اور وہ گرپڑے تو حضرت حمزہ اور حضرت علی (رض) آگے بڑھے اور ولید کا کام تمام کرکے ابو عبیدہ کو، جو دم توڑ رہے تھے، اٹھا کرلے آئے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے چلو وہاں پہنچ کر انہوں نے آپ سے پوچھا کہ میرے متعلق کیا ارشاد ہے ؟ آپ نے فرمایا تمہیں یقیناً جنت ملے گی && اس اطلاع پر ان کے چہرے پر بشاشت آگئی اور کہا : کاش آج ابو طالب زندہ ہوتے تو وہ دیکھ لیتے کہ میں نے اپنی بات سچ کر دکھائی ہے اور اپنی جان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نچھاور کردی ہے۔ [٢٧] یعنی فریق دوم کے لئے جنہوں نے کفر اور سرکشی کی راہ اختیار کی ان کے لباس میں کسی آتش گیر مادہ سے بنے ہوئے ہوں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر فرمایا : (سَرَابِيْلُهُمْ مِّنْ قَطِرَانٍ وَّتَغْشٰى وُجُوْهَهُمُ النَّارُ 50؀ۙ ) 14 ۔ ابراھیم :50) یہ لباس بھڑک کر ان کے جسموں سے چمٹ جائے گا اور سر کے اوپر سے کھولتا ہوا جو پانی ڈالا جائے گا وہ اس آگ کو بجھائے گا نہیں بلکہ مزید آگ کو بھڑکانے کا باعث بن جائے گا۔ اس سے ان کے چمڑے گل کر گرپڑیں گے تو فوراً نئی جلد پیدا کردی جائے گی۔ تاکہ ان کے عذاب میں کمی واقع نہ ہو۔ پھر یہی کھولتا ہوا پانی ان کے دماغ کی راہ سے جسم کے اندر پہنچے گا جس سے سب انتڑیاں کٹ جائیں گی۔ مسید برآن انھیں لوہے کے ہنٹروں سے پیٹا بھی جائے گا جب وہ دوزخ سے نکل بھاگنے کی کوشش کریں گے تو فرشتے انھیں ہنٹر مار مار کر پھر دوزخ میں دھکیل دیں گے اور ساتھ ہی انھیں یہ بتلاتے جائیں گے کہ یہ تمہارے ہی اعمال کا بدلہ ہے۔ اب بھاگتے کیوں ہو اور یہ دائمی عذاب کا مزا تمہیں چکھنا ہی پڑے گا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ڍھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِيْ رَبِّهِمْ : یہاں دو جھگڑنے والوں میں ایک فریق مسلمان اور دوسرا فریق وہ پانچوں گروہ ہیں جن کا پچھلی آیت میں ایمان والوں کے بعد ذکر ہوا ہے اور جنھیں اس آیت میں کافر قرار دیا گیا ہے۔ رب تعالیٰ کے بارے میں جھگڑنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اللہ کی توحید کے قائل ہیں اور یہ...  تمام لوگ توحید کے بارے میں طرح طرح کے خیالات رکھتے ہیں جو کفر ہی کی مختلف صورتیں ہیں۔ اس مخالفت کا لازمی نتیجہ مسلمانوں کی طرف سے جہاد ہے۔ پہلا غزوہ جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں دو بدو جنگ ہوئی غزوۂ بدر تھا، جس میں سب سے پہلے میدان میں نکلنے والے حمزہ بن عبد المطلب، عبیدہ بن حارث اور علی بن ابی طالب (رض) تھے، جو اپنے قریب ترین رشتہ داروں عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ کے مقابلے میں نکلے تھے۔ چناچہ اس آیت کا اولین مصداق یہی تین صحابہ کرام (رض) ہیں۔ ابوذر غفاری (رض) کے بارے میں آتا ہے : ( أَنَّہٗ کَانَ یُقْسِمُ قَسَمًا إِنَّ ھٰذِہِ الْآیَۃَ : (ڍھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِيْ رَبِّهِمْ ) نَزَلَتْ فِيْ حَمْزَۃَ وَصَاحِبَیْہِ وَعُتْبَۃَ وَصَاحِبَیْہِ یَوْمَ بَرَزُوْا فِيْ یَوْمِ بَدْرٍ ) [ بخاري، التفسیر، باب ( ھذان خصمان ۔۔ ): ٤٧٤٣۔ مسلم : ٣٠٣٣ ] ” وہ قسم کھا کر کہتے تھے کہ یہ آیت : (ڍھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِيْ رَبِّهِمْ ) ان چھ آدمیوں حمزہ اور ان کے دو ساتھی، عقبہ اور اس کے دو ساتھیوں کے بارے میں اتری تھی جو بدر کے دن ایک دوسرے کے مقابلے میں نکلے تھے۔ “ اور علی بن ابی طالب (رض) نے فرمایا : ” میں پہلا شخص ہوں جو قیامت کے دن اس جھگڑے کے لیے رحمٰن کے سامنے دونوں زانوؤں کے بل بیٹھوں گا اور اپنا مقدمہ پیش کروں گا۔ “ [ بخاري، التفسیر، باب ( ھٰذان خصمان اختصموا في ربھم ) : ٤٧٤٤ ] ان تینوں حضرات کے بعد قیامت تک آنے والے وہ تمام مجاہد بھی اس آیت میں شامل ہیں جنھوں نے توحید کی خاطر کفار سے جہاد کیا یا کریں گے۔ فَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّنْ نَّارٍ : یعنی کافروں کے لیے آگ کے کپڑے کاٹے جا چکے۔ یہاں قیامت کے دن ہونے والے کام کو ماضی کے لفظ کے ساتھ بیان فرمایا، یعنی یہ کام اتنا یقینی ہے کہ بس ہو ہی چکا۔ آگ کے یہ کپڑے قمیصوں کی صورت میں بھی ہوں گے، جیسا کہ فرمایا : (سَرَابِيْلُهُمْ مِّنْ قَطِرَانٍ ) [ إبراھیم : ٥٠ ] ” ان کی قمیصیں گندھک کی ہوں گی۔ “ اور نیچے اور اوپر والے بچھونوں اور لحافوں کی صورت میں بھی، جیسا کہ فرمایا : (لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَّمِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ ) [ الأعراف : ٤١ ] ” ان کے لیے جہنم ہی کا بچھونا اور ان کے اوپر کے لحاف ہوں گے۔ “ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِيْمُ : ” الْحَمِيم “ انتہائی گرم (کھولتا ہوا) پانی۔ مزید دیکھیے سورة دخان (٤٨) ۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary هَـٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا (These are two opponents who have disputed about their Lord - 22:19). This verse, with its general words, deals with two sets of people, namely the Muslims and the infidels whether they belong to the earliest times or to later ages. However, the particular event in the background of which it was revealed about two groups of men who faced each other in com... bat on the battleground of Badr. Sayyidna Hamzah and ` Ubaidah (رض) stepped out of the Muslim ranks, whereas ` Utbah bin Rabi&ah, his son Walid and his brother Shaibah came out to challenge them. In the ensuing fight the three unbelievers were slain, Sayyidna and Hamzah (رض) emerged unscathed, while Sayyidna ` Ubaidah (رض) was mortally wounded and expired at the feet of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . The revelation of this verse in relation to these warriors of the field of Badr is well established on the authority of traditions contained in Bukhari and Muslim, but it is evident that its message is not exclusive for them alone, but embraces the entire Muslim community of all times and ages.  Show more

خلاصہ تفسیر (جن کا ذکر اوپر آیت اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا میں ہوا ہے) یہ دو فریق ہیں (ایک مومن دوسرا کافر۔ پھر کافر گروہ کی کئی قسمیں ہیں۔ یہود، نصاریٰ ، صابئین، مجوس اور بت پرست) جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں (اعتقاد اور کبھی کبھی مباحثةً بھی) باہم اختلاف کیا (اس اختلاف کا فیصلہ قیامت میں اس طرح ... ہوگا کہ) جو لوگ کافر تھے ان کے (پہننے کے لئے) آگ کے کپڑے قطع کئے جاویں گے (یعنی آگ ان کے پورے بدن پر اس طرح محیط ہوگی جیسے لباس، اور ان کے سر کے اوپر سے تیز گرم پانی چھوڑا جاوے گا جس سے ان کے پیٹ کی چیزیں (یعنی آنتیں) اور کھالیں سب گل جاویں گی، (یعنی یہ کھولتا ہوا تیز پانی کچھ پیٹ کے اندر چلا جاوے گا جس سے آنتیں اور پیٹ کے اندر کے سب اجزاء اعضاء گل جاویں گے کچھ اوپر بہے گا جس سے کھال گل جاوے گی) اور ان کے (مارنے کے لئے) لوہے کے گرز ہوں گے (اور اس مصیبت سے کبھی نجات نہ ہوگی) وہ لوگ جب (دوزخ میں) گھٹے گھٹے (گھبرا جائیں گے اور) اس سے باہر نکلنا چاہیں گے تو پھر اسی میں دھکیل دیئے جاویں گے اور کہا جاوے گا کہ جلنے کا عذاب (ہمیشہ کے لئے) چکھتے رہو (کبھی نکلنا نصیب نہ ہوگا اور) اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے (بہشت کے) ایسے باغوں میں داخل کرے گا جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ان کو وہاں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جاویں گے اور پوشاک ان کی وہاں ریشم ہوگی اور (یہ سب انعام و اکرام ان کے لئے اس سبب سے ہے کہ دنیا میں ان کو) کلمہ طیب (کے اعتقاد) کی ہدایت ہوگئی تھی اور ان کو اس (خدا) کے رستہ کی ہدایت ہوگئی تھی جو لائق حمد ہے (وہ راستہ اسلام ہے) ۔ معارف و مسائل ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا، یہ دو فریق جن کا ذکر اس آیت میں ہے عام مومنین اور ان کے مقابلہ میں تمام گروہ کفار ہیں خواہ قرن اول کے ہوں یا قرون مابعد کے۔ البتہ نزول اس آیت کا ان دو فریق کے بارے میں ہوا ہے جو میدان بدر کے مبارزہ میں ایک دوسرے کے مقابل نبرد آزما ہوئے تھے مسلمانوں میں سے حضرت علی و حمزہ و عبیدہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور کفار میں سے عتبہ بن ربیعہ اور اس کا بیٹا ولید اور اس کا بھائی شیبہ تھے جن میں سے کفار تو تینوں مارے گئے اور مسلمانوں میں سے حضرت علی و حمزہ صحیح سالم واپس آئے اور عبیدہ شدید زخمی ہو کر آئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدموں میں پہنچ کر دم توڑ دیا۔ آیت کا نزول ان مبارزین بدر کے بارے میں ہونا بخاری و مسلم کی احادیث سے ثابت ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ یہ حکم ان کے ساتھ مخصوص نہیں پوری امت کیلئے عام ہے، کسی بھی زمانے میں ہو۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِيْ رَبِّہِمْ۝ ٠ۡفَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَہُمْ ثِيَابٌ مِّنْ نَّارٍ۝ ٠ۭ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِہِمُ الْحَمِيْمُ۝ ١٩ۚ خصم الخَصْمُ مصدر خَصَمْتُهُ ، أي : نازعته خَصْماً ، يقال : خاصمته وخَصَمْتُهُ مُخَاصَمَةً وخِصَاماً ، قال تعالی: وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصام... ِ [ البقرة/ 204] ، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] ، ثم سمّي المُخَاصِم خصما، واستعمل للواحد والجمع، وربّما ثنّي، وأصل المُخَاصَمَة : أن يتعلّق كلّ واحد بخصم الآخر، أي جانبه وأن يجذب کلّ واحد خصم الجوالق من جانب، وروي : ( نسیته في خصم فراشي) «1» والجمع خُصُوم وأخصام، وقوله : خَصْمانِ اخْتَصَمُوا [ الحج/ 19] ، أي : فریقان، ولذلک قال : اخْتَصَمُوا وقال : لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق/ 28] ، وقال : وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء/ 96] ، والخَصِيمُ : الكثير المخاصمة، قال : هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل/ 4] ، والخَصِمُ : المختصّ بالخصومة، قال : بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف/ 58] . ( خ ص م ) الخصم ۔ یہ خصمتہ کا مصدر ہے جس کے معنی جھگڑنے کے ہیں کہاجاتا ہے خصمتہ وخاصمتہ مخاصمۃ وخصاما کسی سے جھگڑا کر نا قرآن میں ہے :۔ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة/ 204] اور وہ حالانکہ سخت جھگڑا لو ہے ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] اور جھگڑنے کے وقت بات نہ کرسکے ۔ اور مخاصم کو خصم کہا جات ہے ، اور خصم کا لفظ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر کبھی تثنیہ بھی آجاتا ہے۔ اصل میں خصم کے معنی کنارہ کے ہیں ۔ اور مخاصمت کے معنی ایک دوسرے سے کو کنارہ سے پکڑنے کے ہیں ۔ اور بوری کو کونے سے پکڑکر کھینچنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے :۔ (114) نسی تھا فی خصم فراشی کہ میں اسے اپنے بسترہ کے کونے میں بھول آیا ہوں خصم کی جمع خصوم واخصام آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ اخْتَصَمُوا[ الحج/ 19] دوفریق جھگڑتے ہیں ۔ میں خصما ن سے دو فریق مراد ہیں اسی لئے اختصموا آیا ہے ۔ الاختصام ( افتعال ) ایک دوسرے سے جھگڑنا ۔ قرآن میں ہے :۔ لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق/ 28] ہمارے حضور رد کد نہ کرو ۔ وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء/ 96] ۔۔۔۔ وہ آپس میں جھگڑیں گے ۔ الخصیم ۔ جھگڑا لو بہت زیادہ جھگڑا کرنے والا جیسے فرمایا :۔ هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل/ 4] مگر وہ ( اس بارے میں ) علانیہ جھگڑنے لگا ۔ الخصم سخٹ جھگڑالو جس کا شیوہ ہ جھگڑنا ہو ۔ قرآن میں ہے :َ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف/ 58] حقیقت یہ ہے ۔ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑا لو، لو ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ قطع القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] ، ( ق ط ع ) القطع کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا ثوب أصل الثَّوْب : رجوع الشیء إلى حالته الأولی التي کان عليها، أو إلى الحالة المقدّرة المقصودة بالفکرة، وهي الحالة المشار إليها بقولهم : أوّل الفکرة آخر العمل «2» . فمن الرجوع إلى الحالة الأولی قولهم : ثَابَ فلان إلى داره، وثَابَتْ إِلَيَّ نفسي، وسمّي مکان المستسقي علی فم البئر مَثَابَة، ومن الرجوع إلى الحالة المقدرة المقصود بالفکرة الثوب، سمّي بذلک لرجوع الغزل إلى الحالة التي قدّرت له، وکذا ثواب العمل، وجمع الثوب أَثْوَاب وثِيَاب، وقوله تعالی: وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر/ 4] ( ث و ب ) ثوب کا اصل معنی کسی چیز کے اپنی اصلی جو حالت مقدمہ اور مقصود ہوتی ہے اس تک پہنچ جانا کے ہیں ۔ چناچہ حکماء کے اس قول اول الفکرۃ اٰخرالعمل میں اسی حالت کی طرف اشارہ ہے یعنی آغاز فکر ہی انجام عمل بنتا ہے ۔ چناچہ اول معنی کے لحاظ سے کہا جاتا ہے ۔ شاب فلان الی درہ ۔ فلاں اپنے گھر کو لوٹ آیا ثابت الی نفسی میری سانس میری طرف ہوئی ۔ اور کنوئیں کے منہ پر جو پانی پلانے کی جگہ بنائی جاتی ہے اسے مثابۃ کہا جاتا ہے اور غور و فکر سے حالت مقدرہ مقصود تک پہنچ جانے کے اعتبار سے کپڑے کو ثوب کہاجاتا ہے کیونکہ سوت کاتنے سے عرض کپڑا بننا ہوتا ہے لہذا کپڑا بن جانے پر گویا سوت اپنی حالت مقصود ہ کی طرف لوٹ آتا ہے یہی معنی ثواب العمل کا ہے ۔ اور ثوب کی جمع اثواب وثیاب آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر/ 4] اپنے کپڑوں کو پاک رکھو ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ صبب صَبُّ الماء : إراقته من أعلی، يقال : صَبَّهُ فَانْصَبَّ ، وصَبَبْتُهُ فَتَصَبَّبَ. قال تعالی: أَنَّا صَبَبْنَا الْماءَ صَبًّا [ عبس/ 25] ، فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذابٍ [ الفجر/ 13] ، يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج/ 19] ، وصبا إلى كذا صبابة : مالت نفسه نحوه محبّة له، وخصّ اسم الفاعل منه بِالصَّبِّ ، فقیل : فلان صَبٌّ بکذا، والصُّبَّةُ کالصرمة «1» ، والصَّبِيبُ : الْمَصْبُوبُ من المطر، ومن عصارة الشیء، ومن الدّم، والصُّبَابَةُ والصُّبَّةُ : البقيّة التي من شأنها أن تصبّ ، وتَصَابَبْتُ الإناء : شربت صُبَابَتَهُ ، وتَصَبْصَبَ : ذهبت صبابته . ( ص ب ب ) صب الماء کے معنی اوپر سے پانی گرانا کے ہیں محاورہ ہے صب الماء فانصب وصببتہ فتصب یعنی اس نے اوپر سے پانی گراناچنانچہ پانی گرگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ أَنَّا صَبَبْنَا الْماءَ صَبًّا [ عبس/ 25] بیشک ہم نے ہی ( اوپر سے ) پانی برسایافَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذابٍ [ الفجر/ 13] تو تمہارے پروردگار نے ان پر عذاب کا کوڑا برسایا ۔ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج/ 19] ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی گرایا جائیگا ۔ صب الیٰ کذا صبابۃ ۔ ع فوق فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة، وذلک أضرب : الأول : باعتبار العلوّ. نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] الثاني : باعتبار الصّعود والحدور . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] . الثالث : يقال في العدد . نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] . الرابع : في الکبر والصّغر مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] . الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة . نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] . السادس : باعتبار القهر والغلبة . نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] ( ف و ق ) فوق یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔ 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] کافروں پر فائق ۔ 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ اشق ہونا اور صفت کا صیغہ خاص کر صب ( بروزن فعل ) آنا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ فلان صب بکذا فلاں اس پر فریفتہ ہے ۔ اور صرمۃ کی طرح صبۃ کے معنی بھی جانوروں کی ٹکڑی یا جماعت کے ہیں الصبیب بارش کا پانی ۔ کسی چیز کا عصارہ ۔ بہایا ہوا خون الصبابۃ والصبۃ کسی چیز کا باقی ماندہ جو گرانے کے لائق ہو تصاببت الاناء ( تفاعل ) میں نے برتن سے باقی ماندہ پانی بھی پی لیا ۔ تصبصب ( تفعلل کسی چیز کا باقی ماندہ بھی ختم ہوجانا ۔ حم الحمیم : الماء الشدید الحرارة، قال تعالی: وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] ، إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ/ 25] ، وقال تعالی: وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [ الأنعام/ 70] ، وقال عزّ وجل : يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج/ 19] ، ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْها لَشَوْباً مِنْ حَمِيمٍ [ الصافات/ 67] ، هذا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ [ ص/ 57] ، وقیل للماء الحارّ في خروجه من منبعه : حَمَّة، وروي : «العالم کالحمّة يأتيها البعداء ويزهد فيها القرباء» «6» ، وسمي العَرَق حمیما علی التشبيه، واستحمّ الفرس : عرق، وسمي الحمّام حمّاما، إمّا لأنه يعرّق، وإمّا لما فيه من الماء الحارّ ، واستحمّ فلان : دخل الحمّام، وقوله عزّ وجل : فَما لَنا مِنْ شافِعِينَ وَلا صَدِيقٍ حَمِيمٍ [ الشعراء/ 100- 101] ، وقوله تعالی: وَلا يَسْئَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً [ المعارج/ 10] ، فهو القریب المشفق، فكأنّه الذي يحتدّ حماية لذويه، وقیل لخاصة الرّجل : حامّته، فقیل : الحامّة والعامّة، وذلک لما قلنا، ويدلّ علی ذلك أنه قيل للمشفقین من أقارب الإنسان حزانته أي : الذین يحزنون له، واحتمّ فلان لفلان : احتدّ وذلک أبلغ من اهتمّ لما فيه من معنی الاحتمام، وأحمّ الشّحم : أذابه، وصار کالحمیم، وقوله عزّ وجل : وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ [ الواقعة/ 43] ، للحمیم، فهو يفعول من ذلك، وقیل : أصله الدخان الشدید السّواد ، وتسمیته إمّا لما فيه من فرط الحرارة، كما فسّره في قوله : لا بارِدٍ وَلا كَرِيمٍ [ الواقعة/ 44] ، أو لما تصوّر فيه من لفظ الحممة فقد قيل للأسود يحموم، وهو من لفظ الحممة، وإليه أشير بقوله : لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ [ الزمر/ 16] ، وعبّر عن الموت بالحمام، کقولهم : حُمَّ كذا، أي : قدّر، والحُمَّى سمّيت بذلک إمّا لما فيها من الحرارة المفرطة، وعلی ذلک قوله صلّى اللہ عليه وسلم : «الحمّى من فيح جهنّم» «4» ، وإمّا لما يعرض فيها من الحمیم، أي : العرق، وإمّا لکونها من أمارات الحِمَام، لقولهم : «الحمّى برید الموت» «5» ، وقیل : «باب الموت» ، وسمّي حمّى البعیر حُمَاماً «6» بضمة الحاء، فجعل لفظه من لفظ الحمام لما قيل : إنه قلّما يبرأ البعیر من الحمّى. وقیل : حَمَّمَ الفرخ «7» : إذا اسودّ جلده من الریش، وحمّم ( ح م م ) الحمیم کے معنی سخت گرم پانی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا ۔ إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ/ 25] مگر گرم پانی اور یہی پیپ ۔ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [ الأنعام/ 70] اور جو کافر ہیں ان کے پینے کو نہایت گرم پانی ۔ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج/ 19]( اور ) ان کے سروں پر جلتا ہوا پانی دالا جائیگا ۔ ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْها لَشَوْباً مِنْ حَمِيمٍ [ الصافات/ 67] پھر اس ( کھانے ) کے ساتھ ان کو گرم پانی ملا کردیا جائے گا ۔ هذا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ [ ص/ 57] یہ گرم کھولتا ہوا پانی اور پیپ ( ہے ) اب اس کے مزے چکھیں ۔ اور گرم پانی کے چشمہ کو حمتہ کہا جاتا ہے ایک روایت میں ہے ۔ کہ عالم کی مثال گرم پانی کے چشمہ کی سی ہے جس ( میں نہانے ) کے لئے دور دور سے لوگ آتے ہیں ( اور شفایاب ہوکر لوٹتے ہیں ) اور قرب و جوار کے لوگ اس سے بےرغبتی کرتے ہیں ( اس لئے اس کے فیض سے محروم رہتے ہیں ) اور تشبیہ کے طور پر پسینہ کو بھی حمیم کہا جاتا ہے اسی سے استحم الفرس کا محاورہ ہے جس کے معنی گھوڑے کے پسینہ پسینہ ہونے کے ہیں اور حمام کو حمام یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ پسینہ آور ہوتا ہے اور یا اس لئے کہ اس میں گرم پانی موجود رہتا ہے ۔ استحم فلان ۔ حمام میں داخل ہونا ۔ پھر مجازا قریبی رشتہ دار کو بھی حمیم کہا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ انسان اپنے رشتہ داروں کی حمایت میں بھٹرک اٹھتا ہے اور کسی شخص کے اپنے خاص لوگوں کو حامتہ خاص وعام کا محاورہ ہے ۔ قرآن میں ہے : فَما لَنا مِنْ شافِعِينَ وَلا صَدِيقٍ حَمِيمٍ [ الشعراء/ 100- 101] تو ( آج ) نہ کوئی ہمارا سفارش کرنے والا ہے اور نہ گرم جوش دوست نیز فرمایا ۔ وَلا يَسْئَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً [ المعارج/ 10] اور کوئی دوست کسیز دوست کا پر سان نہ ہوگا ۔ اور اس کی دلیل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انسان کے قریبی مہر بانوں کو حزانتہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اس کے غم میں شریک رہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ احتم فلان لفلان فلاں اس کے لئے غمگین ہوا یا اس کی حمایت کے لئے جوش میں آگیا ۔ اس میں باعتبار معنی اھم سے زیادہ زور پایا جاتا ہے کیونکہ اس میں غم زدہ ہونے کے ساتھ ساتھ جوش اور گرمی کے معنی بھی پائے جاتے ہیں ۔ احم الشحم چربی پگھلا ۔ یہاں تک کہ وہ گرم پانی کی طرح ہوجائے اور آیت کریمہ : وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ [ الواقعة/ 43] اور سیاہ دھوئیں کے سایے میں ۔ میں یحموم حمیم سے یفعول کے وزن پر ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے اصل معنی سخت سیاہ دھوآں کے ہیں اور اسے یحموم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں شیت حرارت پائی جاتی ہے جیسا کہ بعد میں سے اس کی تفسیر کی ہے اور یا اس میں حممتہ یعنی کوئلے کی سی سیاہی کا تصور موجود ہے ۔ چناچہ سیاہ کو یحموم کہا جاتا ہے اور یہ حممتہ ( کوئلہ ) کے لفظ سے مشتق ہے چناچہ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ [ الزمر/ 16] ان کے اوپر تو اگ کے سائبان ہوں گے اور نیچے ( ان ) کے فرش پونگے اور حمام بمعنی موت بھی آجاتا ہے جیسا کہ کسی امر کے مقدر ہونے پر حم کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور بخار کو الحمی کہنا یا تو اس لئے ہے کہ اس میں حرارت تیز ہوجاتی ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا : کہ بخار جہنم کی شدت ست ہے اور یا بخار کو حمی اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں پسینہ اترتا ہے اور یا اس لئے کہ یہ موت کی علامات میں سے ایک علامت ہے ۔ جیسا کہ عرب لوگ کہتے ہیں الحمی بریدالموت ( کہ بخار موت کا پیغام پر ہے ) اور بعض اسے باب الموت یعنی موت کا دروازہ بھی کہتے ہیں اور اونٹوں کے بخار کو حمام کہا جاتا ہے یہ بھی حمام ( موت ) سے مشتق ہے کیونکہ اونٹ کو بخار ہوجائے تو وہ شازو نادر ہی شفایاب ہوتا ہے ۔ حمم الفرخ پرندے کے بچہ نے بال وپر نکال لئے کیونکہ اس سے اس کی جلد سیاہ ہوجاتی ہے ۔ حمم وجھہ اس کے چہرہ پر سبزہ نکل آیا یہ دونوں محاورے حممتہ سے موخوز ہیں ۔ اور حمحمت الفرس جس کے معنی گھوڑے کے ہنہنانے کے ہیں یہ اس باب سے نہیں ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩۔ ٢٠۔ ٢١) یہ دو دین والے فرقے ہیں یعنی مسلمان اور یہود و نصاری جنہوں نے اپنے پروردگار کے دین کے بارے میں اختلاف کیا ان میں سے ہر ایک نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے دین سے زیادہ واقف ہوں چناچہ اللہ تعالیٰ نے انکے درمیان اس طرح فیصلہ فرما دیا کہ جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ق... رآن کریم کے منکر تھے یعنی یہود و نصاری ان کے لیے آگ کے کرتے اور جبے تیار کیے جائیں گے اور ان کے سر کے اوپر سے تیز کھولتا ہوا گرم پانی ڈالا جائے گا۔ اس سے ان کے پیٹ کی چربی اور کھال وغیرہ سب گھل جائے گی اور ان کے مارنے کے لیے لوہے کے گرم گزر ہوں گے۔ شان نزول : ( آیت) ھذان خصمن “۔ (الخ) امام بخاری (رح) ومسلم (رح) نے حضرت ابوذر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ آیت مبارکہ حضرت حمزہ (رض) ، عبیدہ (رض) علی بن ابی طالب (رض) اور عتبہ، شیبہ، ولید بن عتبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اور امام حاکم (رح) نے حضرت علی (رض) سے روایت کیا فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے غزوہ بدر میں ہم نے جو مبارزت کی، نیز امام حاکم (رح) نے دوسرے طریقے سے حضرت علی (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت مبارکہ ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے بدر کے دن جنگ کی یعنی حضرت حمزہ (رض) ، حضرت علی (رض) ، حضرت عبیدہ (رض) اور عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، اور ابن جریر (رح) نے عوفی کے واسطہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ ہم تم سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہیں اور ہماری کتاب بھی مقدم ہے اور ہمارا نبی بھی تمہارے نبی سے مقدم ہے، مسلمانوں نے ان کے جواب میں کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے قرب کے زیادہ مستحق ہیں ہم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور تمہارے نبی پر اور اللہ تعالیٰ نے جو کتاب نازل کی ہے سب پر ایمان لائے ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ (ہٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّہِمْز) ” یہ سورت چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکی زندگی کے آخری دور میں نازل ہوئی تھی ‘ اس لیے ان گروہوں سے مکہ کے دو گروہ مراد ہیں۔ یعنی ایک مؤمنین کا گروہ جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لا چکا تھا اور دوسرا وہ گروہ جو اب ... تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت پر اڑا ہوا تھا۔ (قبل ازیں آیت ١١ کے ضمن میں وضاحت کی جا چکی ہے کہ سورة الحج مکی سورت ہے ‘ البتہ اس کی کچھ آیات ایسی ہیں جو سفر ہجرت کے دوران نازل ہوئیں تھیں۔ ) (فَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَہُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍ ط) ” کپڑے کو قطع کرنے کا ذکر کر کے لباس تیار کرنے کے عمل کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔ یعنی جس طرح درزی پہلے مطلوبہ ناپ کے مطابق کپڑے کو کاٹتا ہے اور پھر لباس تیار کرتا ہے اسی طرح منکرین حق کے لیے جہنم کی آگ سے لباس تیار کیے جائیں گے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

36. Here all the disputants about Allah have been divided into two main categories in spite of their large numbers. (1) Those who believe in the message of the Prophets and adopt the righteous way of life. (2) Those who reject their message and follow different ways of disbelief, though they may have countless differences and disputes among themselves. 37. See (Ayat 50 and E.N. 58 of Surah Ibra... him) for explanation.  Show more

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :36 یہاں خدا کے بارے میں جھگڑا کرنے والے تمام گروہوں کو ان کی کثرت کے باوجود دو فریقوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے ۔ ایک فریق وہ جو انبیاء کی بات مان کر خدا کی صحیح بندگی اختیار کرتا ہے ۔ دوسرا وہ جو ان کی بات نہیں مانتا ور کفر کی راہ اختیار کرتا ہے خواہ اس کے اندر آپس میں کتن... ے ہی اختلافات ہوں اور اس کے کفر نے کتنی ہی مختلف صورتیں اختیار کر لی ہوں ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :37 مستقبل میں جس چیز کا پیش آنا بالکل قطعی اور یقینی ہو اس کو زور دینے کے لیے اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ گویا وہ پیش آچکی ہے ۔ آگ کے کپڑوں سے مراد غالباً وہی چیز ہے جسے سورہ ابراہیم آیت 50 میں : سَرَابِیْلُھُمْ مِنْ قَطِرَانٍ فرمایا گیا ہے ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، ابراہیم ، حاشیہ 58 ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٩۔ ٢٤:۔ صحیحین ابوداؤد ‘ مستدرک حاکم وغیرہ میں حضرت علی (رض) اور ابوذر (رض) کی روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ بدر کی لڑائی میں مشرکین مکہ میں سے جس وقت یہ تین شخص شیبہ بن ربیعہ اور شیبہ کا بھائی عتبہ اور عتبہ کا بیٹا ولید مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے صف جنگ سے باہر ن... کلے تو ایک انصاری جوان نے ان کا مقابلہ کرنا چاہا انہوں نے کہا کہ ہم تم لوگوں سے لڑنا پسند نہیں کرتے بلکہ ہم کو تو اپنے ہم قوم قریش کے لوگوں سے مقابلہ کرنے کا شوق ہے یہ سن کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت امیر حمزہ (رض) اور حضرت علی (رض) اور عبیدہ بن حارث ان ان تینوں کو مشرکوں کے مقابلہ کرنے کا شوق ہے یہ سن کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت امیر حمزہ (رض) اور حضرت علی (رض) اور عبیدہ بن حارث ان تینوں کو مشرکوں کے مقابلہ کے لیے بھیجا ‘ ان ہی دو دو شخصوں کے مقابلہ کی شان میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے۔ تفسیر ابن جریر وغیرہ میں اس آیت کی شان نزول یہ جو بیان کی گئی ہے کہ یہود اور مسلمانوں میں ایک دن جھگڑا ہوا تھا۔ یہود نے اپنے دین کو اچھا بتلایا اور مسلمانوں نے اپنے دین کو اس پر یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ اس قول کا مقصد یہ ہے کہ اس قصہ پر بھی آیت کا مطلب صادق آتا ہے کیونکہ جس طرح اس مقابلہ میں ایک گروہ حق پر تھا اور دوسرا ناحق پر ‘ اسی طرح اس جھگڑے کا حال ہے ‘ غرض اصل شان نزول وہی ہے جو صحیحین کی روایت میں ہے کیونکہ ابوذر (رض) اس شان نزول کو قسم کھا کر روایت کیا کرتے تھے۔ اب آگے ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اس مقابلہ کا نتیجہ ذکر فرمایا ہے کہ اس مقابلہ میں ناحق پر جو لوگ مارے گئے دنیا میں تو ان کی جان گئی اور عقبیٰ میں لگے ہوئے تانبے کے کپڑے ان کو پہنائے جاویں گے ان کے سر پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا جس سے بدن کی کھالیں اور پیٹ کی انتڑیاں جل کر گر پڑیں گی۔ بھاری بھاری ہتھوڑوں سے سر کچلا جائے گا اسی طرح کے عذاب ہوں گے ان عذابوں سے گھبرا کر جب یہ لوگ دوزخ سے باہر بھاگنا چاہیں گے تو فرشتے پھر گھیر کر ان کو اندر کر دیویں گے اور کہیں گے جس عذاب کو تم جھٹلاتے تھے اب اس عذاب کا مزہ چکھو ‘ اکثر متقدمین مفسروں سے روایت ہے کہ جس طرح پانی میں کوئی ڈوب کر اوپر کو آتا ہے اسی طرح آگ کی لپٹ میں دوزخی جب اوپر کو آویں گے یہ اس وقت کا حال ہے ورنہ خود ان کو بھاگنے کا موقع نہ ملے گا کیونکہ ان کے ہاتھ ‘ پیر زنجیروں سے جکڑے ہوئے ہوں گے ان اہل دوزخ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کا ذکر فرمایا ہے کہ طرح طرح کے ریشمی کپڑے کے خلعت ان کو ملیں گے ‘ سونے اور موتیوں کے جڑاؤ کپڑے پہنائے جاویں گے ‘ فرشتے ان کو شادمانی کی مبارک باد دیویں گے سوا اس کے جنت کی تفصیلی نعمتیں جو ہیں صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت سے حدیث قدسی اس بات میں کئی جگہ گزر چکی ہے کہ وہ نعمتیں نہ کسی نے آنکھوں سے دیکھی ‘ نہ کانوں سے سنی ‘ نہ ان کا خیال کسی کے دل میں گزر سکتا ہے ‘ آخر کو فرمایا جنت کی یہ نعمتیں ان نیک لوگوں کو اس واسطے دی جاویں گی کہ دنیا میں یہ لوگ اللہ کی وحدانیت پر قائم رہ کر اللہ کی مرضی کے موافق کاموں میں لگے رہے اطیب من القول کا مطلب اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر قائم رہنے کا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اور انسان کی سب ضرورت کی چیزوں کو اس طرح پیدا کیا کہ اس میں کوئی اس کا شریک نہیں اس واسطے دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی ستھری بات نہیں کہ انسان خالص اللہ ہی کی ذات کو اپنا معبود قرار دیوے صراط الحمید اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے اس اللہ تعالیٰ کا راستہ اختیار کیا جس کے سب کام تعریف کے قابل ہیں مسند امام احمد اور ابوداؤد میں براء بن العازب سے صحیح روایت ١ ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ قابل عذاب لوگوں کے مارنے کے لیے جو ہتھوڑے فرشتوں کو دیئے گئے ہیں اگر ان میں کا ایک ہتھوڑا پہاڑ پر مارا جاوے تو پہاڑ خاک درخاک ہوجائے جن ہتھوڑوں کا ذکر آیتوں میں ہے ان کے بھاری پن کی تفسیر اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے۔ (١ ؎ مشکوٰۃ ص ٢٥۔ باب اثبات عذاب القبر۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:19) ھذان خصمن۔ یہ دو فریق۔ یعنی فریق المومنین وفریق لکفار۔ بعض نے حضرت ابو ذر کی روایت پر وہ لوگ مراد لئے ہیں جنہوں نے میدان بدر میں ایک دوسرے کو دعوت مبارزت دی۔ مسلمانوں کی طرف سے حضرت علی (رض)۔ حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ بن حارث (رض) اور کفار کی طرف سے عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن...  عتبہ تھے۔ اختصموا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ انہوں نے جھگڑا کیا ۔ اختصام (افتعال) مصدر جھگڑا کرنا۔ یہاں خصمن کے بعد جمع کا صیغہ تعداد افراد کی وجہ سے لایا گیا ہے۔ قطعت۔ ماضی مجہول۔ واحد مؤنث غائب تقطیع (تفعیل) مصدر ۔ پھاڑی جاتی ہے یا پھاڑی جائے گی۔ قطع کی جائے گی۔ قطعت ثیاب۔ کپڑے کاٹیں جائیں گے۔ یعنی ان کے ناپ کے مطابق آگ کے کپڑے بنائے جائیں گے۔ یعنی کپڑوں کی طرح آگ ان کے گرد لپیٹ دی جائے گی۔ ماضی بمعنی مضارع۔ یصب۔ مضارع مجہول واحد مذکر غائب۔ صب مصدر (باب نصر) بہایا جائے گا۔ انڈیلا جائے گا۔ گرایا جائے گا (پانی) ۔ الحمیم۔ نہایت گرم پانی۔ اسی اعتبار سے نہایت قریبی دوست کو بھی حمیم کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے دوست کی حمایت میں گرمی دکھاتا ہے۔ ولا یسئل حمیم حمیما (70:10) اور کوئی دوست کسی دوست کو نہ پوچھے گا۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ۔ یہاں کافروں سے مراد مسلموں کے علاوہ مذکورہ پانچ فرقے ہیں یہ سب ایک گروہ ہیں اور ان کے مقابلے میں مسلمان دوسرا گروہ، خدا کے بارے میں جھگڑنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان خدا کی توحید کے قائل ہیں اور یہ تمام لوگ اس کے بارے میں طرح طرح کے خیالات رکھتے ہیں جو کفر ہی کی مختلف صورتیں ہیں۔ (کبیر) تفاسیر می... ں لکھا ہے کہ بدر کے دن مسلمانوں کی طر سے حضرت حمزہ (رض) ، علی (رض) اور عبید (رض) بن حارث اور کفار مکہ کی طرف سے عقبہ، شیبہ اور ولید بن ربیعہ مبارزت کے لئے نکلے۔ انہی دو جماعتوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ چناچہ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں : انا اول من یحبثو بین یدی الرحمن المخومہ، یوم القامۃ، کہ قیامت کے دن خصومت کے لئے سب سے پہلے خدائے رحمن کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھوں گا۔ (ابن کثیر بحوالہ بخاری)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : عزت، ذلّت اور ہر قسم کا اختیار اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے مگر پھر بھی لوگ اس کے سوا دوسروں کے سامنے جھکنے اور انہیں ” اللہ “ کی ذات اور صفات میں شریک کرتے اور ان کے حق میں جھگڑتے ہیں، ایسے لوگوں کو آگ کا لباس اور جہنم کا کھولتا ہوا پانی ان کے سروں پر ڈالا جائے گا۔ کائنات کا ذر... ہ ذرہ اپنے خالق ومالک کی تابعداری اور اس کی حمد وثنا میں لگا ہوا ہے۔ مگر انسانوں میں کثیر تعداد ایسی ہے جو نہ صرف اپنے رب کے نافرمان اور ناقدر دان ہیں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں کچھ ان میں ذات کبریا کے منکر ہیں اور کچھ نے اس کی صفات میں دوسروں کو دخیل کر رکھا ہے۔ ظلم کی حد یہ ہے کہ وہ اپنے باطل عقیدہ پر اہل حق سے جھگڑتے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے ساڑھے نو سو سال جھگڑا کیا۔ نمرود نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بارے میں بحث و تکرار کی۔ فرعون اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی کشمکش سب کو معلوم ہے۔ اہل مکہ نے اسی باطل عقیدہ کی حمایت پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ دیے اور آپ کے خلاف بدر، احد اور خندق میں معرکہ آرائی کی۔ حق و باطل کی کشمکش اتنی طویل ہے کہ اس کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ جونہی قیامت برپا ہوگی اللہ تعالیٰ حق اور سچ کے ساتھ فیصلہ فرمائیں گے۔ جو لوگ باطل کی حمایت میں جھگڑتے رہے ان کو آگ کا لباس پہنایا جائے گا۔ ان کے سروں پر بےانتہا کھولتا ہوا پانی ڈالتے ہوئے انھیں اسے پینے کا حکم دیا جائے گا۔ جس سے ان کی آنتڑیاں اور جسم گل سڑ جائیں گے۔ ان کے سروں پر لوہے کے ہتھوڑے برسائے جائیں گے۔ ٹھیک ٹھیک سزا دینے کے لیے ان کے جسم مسلسل بدلے جائیں گے۔ جب یہ لوگ جہنم سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو فرشتے انھیں مار مار کر یہ کہتے ہوئے دھکیل دیں گے کہ اب تم نے اس جلا دینے والے عذاب میں ہمیشہ رہنا ہے۔ سر پر جہنم کا کھولتا ہوا پانی ڈالنے کی سزا کا اس لیے الگ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ شرک اور دیگر جرائم کی ابتداء بنیادی طور سوچ کی خرابی کے باعث ہوتی ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اِنَّ الْحَمِیمَ لَیُصَبُّ عَلَی رُءُ وسِہِمْ فَیَنْفُذُ الْحَمِیمُ حَتَّی یَخْلُصَ إِلَی جَوْفِہِ فَیَسْلِتَ مَا فِی جَوْفِہِ حَتَّی یَمْرُقَ مِنْ قَدَمَیْہِ وَہُوَ الصَّہْرُ ثُمَّ یُعَادُ کَمَا کَانَ ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ شَرَابِ أَہْلِ النَّارِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا بیشک گرم پانی جہنمیوں کے سروں میں ڈالا جائیگا۔ پانی ان کے سروں کو چھیدتے ہوئے انکے پیٹوں میں پہنچے گا تو ان کی آنتیں پگھل کرپاؤں کے راستے نکل جائیں گی پھر انہیں اسی طرح لوٹا دیاجائیگا۔ “ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَرَأَ ہَذِہِ الآیَۃَ (اتَّقُوا اللَّہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ) قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَوْ أَنَّ قَطْرَۃً مِنَ الزَّقُّومِ قُطِرَتْ فِی دَار الدُّنْیَا لأَفْسَدَتْ عَلَی أَہْلِ الدُّنْیَا مَعَایِشَہُمْ فَکَیْفَ بِمَنْ یَکُونُ طَعَامَہُ ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ شَرَابِ أَہْلِ النَّارِ ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی ” کہ اللہ سے ڈرو جس طرح اللہ سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت اسلام پر ہی آنی چاہیے “ آپ نے فرمایا اگر زقوم کا ایک قطرہ دنیا کے کسی گھر میں ڈال دیا جائے تو پوری دنیا کے لوگوں کا کھانا پینا خراب ہوجائے انکی کیا حالت ہوگی جن کا یہ کھانا ہوگا۔ “ ” حضرت نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ یقیناً دوزخیوں میں سب سے معمولی عذاب پانے والے کے پاؤں میں آگ کے جوتے ہوں گے۔ جس کی وجہ سے اس کا دماغ ہنڈیا کی طرح کھول رہا ہوگا۔ وہ خیال کرے گا کہ کسی دوسرے شخص کو اس سے زیادہ عذاب نہیں ہو رہا ‘ حالانکہ وہ سب سے ہلکے عذاب میں مبتلا ہوگا۔ “ [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب أھون أھل النار عذابا ] مسائل ١۔ جہنمیوں کو آگ کا لباس پہنایا جائے گا۔ ٢۔ جہنمیوں کو جہنم کا کھولتا ہوا پانی پینے کے لیے دیا جائے گا۔ ٣۔ جہنم کا کھولتا پانی جہنمیوں کے سر پر ڈالا جائے گا۔ ٤۔ جہنمیوں کے سروں پر لوہے کے بھاری ہتھوڑے برسائے جائیں گے۔ ٥۔ جہنمی جب جہنم سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو انھیں مار مار کر واپس لوٹا دیا جائے گا۔ ٦۔ جہنمیوں کے لیے جلا دینے والا ہمیشہ ہمیش کا عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں کی جہنم میں مختلف سزائیں : ١۔ اس دن ہم ان کا مال جہنم کی آگ میں گرم کریں گے اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں، کروٹوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ (التوبہ : ٣٥) ٢۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب آگ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اسے مزید بھڑکا دیں گے۔ (بنی اسرائیل : ٩٧) ٣۔ اس میں وہ کھولتا ہوا پانی پیئیں گے اور اس طرح پیئیں گے جس طرح پیا سا اونٹ پیتا ہے۔ (الواقعہ : ٥٤ تا ٥٥) ٤۔ ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کی ہے جو انہیں گھیرے ہوئے ہوگی اور انہیں پانی کی جگہ پگھلا ہو اتانبا دیا جائے گا جو ان کے چہروں کو جلا دے گا۔ (الکھف : ٢٩) ٥۔ ان کے پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی اور درد ناک عذاب ہوگا۔ (الانعام : ٧٠) ٦۔ کفار کے لئے اُبلتا ہوا پانی اور دردناک عذاب ہوگا۔ (یونس : ٤) ٧۔ تھور کا درخت گنہگاروں کا کھانا ہوگا۔ (الدخان : ٤٣) ٨۔ جہنمی گرم ہوا کی لپیٹ میں اور کھولتے ہوئے پانی میں ہوں گے۔ (الواقعۃ : ٤٢) ٩۔ ان کے لیے کھانے کی کوئی چیز نہیں ہوگی مگر ضریع ہے۔ جو ناموٹا کرے گا اور نہ بھوک میں کچھ کام آئے گا۔ (الغاشیۃ : ٦۔ ٧) ١٠۔ کھولتے ہوئے چشمے سے انھیں پانی پلایا جائے گا۔ (الغاشیۃ : ٥) ١١۔ جہنمیوں کو پیپ اور لہو پلایا جائے گا۔ (ابراہیم : ١٦)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ھذن خصمن ……فیھا حریر (٢٣) یہ ایک عجیب ، خوفناک اور چیخ و پکار سے بھرپر منظر ہے۔ حرکت سے بھرپور ۔ قرآن کریم کا بہترین طرز تعبیر ذہن کے اندر یہ طویل تخیلاتی منظر اس طرح پیدا کردیتا ہے کہ اسکرین پر واضح نظر آتا ہے۔ یہ منظر بار بار دامن خیال کو پکڑتا ہے اور خیال اس سے دامن نہیں چھڑا سکتا۔ آگ کے لباس ک... اٹے جا رہے ہیں ، جدا جدا ہر شخص کے لئے۔ دوزخیوں کے سروں پر سخت گرم پانی ڈالا جا رہا ہے۔ پانی ڈالتے ہی ان کے چمڑے بلکہ جسم کے اندر کے حصے بھی گل سڑ جاتے ہیں۔ لوہے کے کوڑے ہیں اور آگ میں گرم ہو رہے ہیں ۔ عذاب سخت سے سخت ہو رہا ہے۔ حد برداشت سے بڑھ جاتا ہے ۔ لوگ گھبرا رہے ہیں ، ، دوڑتے ہیں اور جہنم سے نکلنے کی سعی لاحاصل کر رہے ہیں لیکن سختی سے ان کو پھر اندر دھکیل دیا جاتا ہے۔ سختی سے ان کو ملامت کی جاتی ہے۔ وذوقوا عذاب الحریق (٢٢ : ٢٢) ” چکھو جلنے کا مزہ “۔ ان تمام مناظر کو خیال بار بار دہراتا ہے۔ یہاں تک کہ بھاگنے کی کوشش اور سختی کے ساتھ وہ لوگوں کا جہنم میں وبال کردیا جانا ، یہی خیال ذہن میں دوڑتا ہے کہ اچانک ایک دوسرا منظر آجاتا ہے ، وہ ہے دو رفیقوں میں سے دوسرے فریق کا منظر۔ ایک فریق کی حالت تو ابھی دیکھ چکے۔ اب اسکرین پر اہل جنت کا نقشہ آتا ہے۔ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ ان کے لباس آگ سے نہیں بلکہ ریشم سے سئے جا رہے ہیں۔ اس لباس کے ساتھ ساتھ ان کے جسم کو خوبصورت بنانے کے لئے زیورات بھی ہیں۔ سوین کے اور موتیوں کے۔ پھر لباس پر لباس اور وہ شیریں کلام ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے صراط مستقیم پر ہیں۔ نہ ان کی بات سخت ہے اور نہ ان کی راہ پر مشقت ہے۔ گویا شیریں کلامی اور حق گوئی اور راہ ربست پر ہونا جنت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ یہ اطمینان ، یسر اور توفیق ربانی کی نعمت ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوزخ میں کافروں کی سزا، آگ کے کپڑے پہننا سروں پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جانا، لوہے کے ہتھوڑوں سے پٹائی ہونا دو فریق یعنی مومنین اور کافرین نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا یعنی ایک جماعت وہ ہے جو اہل ایمان کی ہے اور ایک جماعت اہل کفر کی ہے دونوں جماعتوں میں اختلاف ہے اور اس اختلاف کی وجہ سے آپس میں ج... نگ بھی ہے جھگڑے بھی ہیں اور قتل و قتال بھی۔ دونوں جماعتوں کی باہمی دشمنی کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے مومنین تو اللہ تعالیٰ کے لیے لڑتے ہیں مشرکین اور کافرین جو کسی درجہ میں اللہ تعالیٰ کی خالقیت اور مالکیت کا اقرار کرتے ہیں وہ بھی اپنے خیال میں اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے لڑتے ہیں، کیونکہ وہ بھی اپنے دین کو جہالت اور سفاہت کی وجہ سے اللہ کا مقبول دین سمجھتے ہیں اس لیے دونوں جماعتوں کے لیے (اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّھِمْ ) فرمایا، اہل مکہ جب جنگ بدر کے لیے روانہ ہو رہے تھے تو انہوں نے یہ دعا کی تھی کہ اے اللہ ہم دونوں جماعتوں میں سے جو حق پر ہو اس کو فتح نصیب فرما، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی۔ غزوہ بدر کے موقعہ پر ایک یہ واقعہ پیش آیا کہ قریش مکہ کا مقابلہ کرنے کے لیے جو حضرات انصار آگے بڑھے تو قریشیوں نے کہا کہ ہم تم سے مقابلہ نہیں چاہتے ہم تو اپنے چچا کے لڑکوں سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں اس پر مسلمانوں کی طرف سے حضرت علی، حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ بن حارث میدان میں نکلے اور مشرکین مکہ کی طرف سے شیبہ بن ربیعہ اور عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ سامنے آئے حضرت حمزہ (رض) نے شیبہ کو اور حضرت علی (رض) نے ولید بن عتبہ کو قتل کردیا حضرت عبیدہ کا عتبہ سے مقابلہ ہوا اور ہر ایک ایک دوسرے کی تلوار سے نیم جان ہوگیا پھر حضرت حمزہ اور حضرت علی نے عتبہ پر حملہ کیا اور اسے بالکل ہی جان سے مار دیا اور حضرت عبیدہ کو اٹھا کرلے آئے پھر جب مدینہ کو واپس ہو رہے تھے تو مقام صفراء میں حضرت عبیدہ کی وفات ہوگئی، حضرت علی فرماتے تھے کہ یہ آیت ہماری ان دونوں جماعتوں کے بارے میں نازل ہوئی (صحیح بخاری ج ٢ ؍ ٥٦٥ البدایۃ و النھایہ والتفصیل فی القسطلانی) سبب نزول خواہ انہیں دونوں جماعتوں کا مقابلہ ہو جن کا ذکر اوپر گزرا جیسا کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا لیکن آیت کا عموم یہ بتارہا ہے کہ اہل ایمان اور اہل کفر کی دونوں جماعتیں آپس میں اپنے اپنے دین و ملت کے لیے لڑ رہی ہیں، بدر کا مذکورہ واقعہ بھی اسی دینی دشمنی کے سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ شانہٗ نے اہل کفر کی سزا اور اہل ایمان کی جزا بتائی، اہل کفر کے بارے میں فرمایا (فَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَھُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍ ) کہ ان کے لیے آگ کے کپڑے کاٹے جائیں گے یعنی جس طرح کپڑے کا تھان بیونت کر کاٹا جاتا ہے تاکہ پہننے کے لیے سیا جائے اسی طرح کافروں کے لیے آگ کے کپڑے کاٹ کر تیار کیے جائیں گے، یہ تو ان کا لباس ہوگا اس کے ساتھ دوسری سزائیں بھی دی جائیں گی جن میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے سروں پر گرم پانی ڈالا جائے گا۔ اسی کو فرمایا (یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِھِمُ الْحَمِیْمُ ) مزید فرمایا (یُصْھَرُ بِہٖ مَا فِیْ بُطُوْنِھِمْ وَ الْجُلُوْدُ ) اس کی تفسیر کرتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بیشک کھولتا ہوا پانی ضرور دوزخیوں کے سروں پر ڈالا جائے گا جو ان کے پیٹوں میں پہنچ کر ان تمام چیزوں کو کاٹ دے گا جو ان کے پیٹوں کے اندر ہیں اور آخر میں قدموں سے نکل جائے گا اس کے بعد پھر دوزخی کو ویسا ہی کردیا جائے گا جیسا تھا پھر ارشاد فرمایا کہ آیت میں جو لفظ یُصْھَرُ ہے اس کا یہی مطلب ہے (رواہ الترمذی) پھر دوزخیوں کے ایک اور عذاب کا تذکرہ فرمایا (وَ لَھُمْ مَّقَامِعُ مِنْ حَدِیْدٍ ) (اور ان کے لیے لوہے کے گرز ہوں گے) (کُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْھَا مِنْ غَمٍّ اُعِیْدُوْا فِیْھَا) (جب کبھی بھی وہ گھٹن کی وجہ سے اس میں سے نکلنے کا ارادہ کریں گے اس میں لوٹا دیئے جائیں گے) یعنی لوہے کے گرز مار کر انہیں اسی میں لوٹا دیا جائے گا (وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ ) (اور ان سے کہا جائے گا کہ جلنے کا عذاب چکھو) ۔ جن گرزوں سے مارنے کا ذکر ہے ان کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ دوزخ کا لوہے والا ایک گرز زمین پر رکھ دیا جائے اور اگر اس کو تمام جنات اور انسان مل کر اٹھانا چاہیں تو نہیں اٹھا سکتے اور ایک روایت میں ہے کہ جہنم کا لوہے والا گرز اگر پہاڑ پر مار دیا جائے تو یقیناً وہ ریزہ ریزہ ہو کر راکھ ہوجائے۔ (راجع الترغیب و الترہیب ص ٢٧٤ ج ٤)  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

31:۔ ” ھٰذَانِ خَصْمَانِ الخ “۔ جھگڑنے والے دو فریقوں سے مراد مومن اور کافر ہیں یعنی دلائل وبراہین سے مسئلہ توحید کے اس قدر واضح ہوجانے کے باوجود مشرکین مسلمانوں سے اپنے پروردگار کی توحید میں جھگڑتے ہیں حالانکہ یہ مسئلہ روز روشن کی طرح واضح ہوچکا ہے جب وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا خالق ومالک اور پروردگار ... مانتے ہیں تو پھر اس کی صفات کارساز میں کیوں غیروں کو شریک کرتے ہیں۔ 32:۔ ” فَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا “ تا ” ذُوْقُوْا عَذاَبَ الْحَرِیْق “ یہ تخویف اخروی ہے اللہ کی توحید میں مومنوں کے ساتھ جھگڑا کرنے والے فریق کا اخروی انجام یہ ہوگا کہ جہنم میں ان کو آگ کا لباس پہنایا جائیگا اور اوپر سے ان کے سروں پر سخت گرم کھولتا ہوا پانی ڈالا جائیگا جس سے ان کے بدن پگھل جائیں گے۔ ” وَ لَھُمْ مَّقَامِعُ مِنْ حَدِیْدٍ “ اور ان کے لیے لوہے کے ہتھوڑے یا کوڑے مراد ہوں گے جب وہ عذاب جہنم سے باہر نکلنے کی کوشش کریں گے تو فرشتے کوڑوں یا ہتھوڑوں سے مار کر انہیں واپس جہنم میں دھکیل دیں گے۔ ان جہنم لتجیش فتلقیھم الی اعلاھا فیریدون الخروج منھا فتضربھم الزبانیۃ بمقامع الھدید فیھو ون فیھا (خازن و معالم ج 5 ص 10) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(19) یہ دو فریق ہیں یعنی مومن اور کافرو منکر جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا ہے اور اختلاف کیا پس جو لوگ منکر ہیں ان کے لئے آگ کے کپڑے اور آگ کا لباس قطع کیا جائے گا ان کے سروں پر سخت کھولتا ہوا گرم پانی ڈالا جائے گا۔