The Reason for Revelation
Allah tells:
هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ
...
These two opponents dispute with each other about their Lord;
It was recorded in the Two Sahihs that Abu Dharr swore that this Ayah --
هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ
(These two opponents dispute with each other about their Lord;)
was revealed concerning Ham... zah and his two companions, and Utbah and his two companions, on the day of Badr when they came forward to engage in single combat.
This is the wording of Al-Bukhari in his Tafsir of this Ayah.
Then Al-Bukhari recorded that Ali bin Abi Talib said,
"I will be the first one to kneel down before the Most Merciful so that the dispute may be settled on the Day of Resurrection."
Qays (sub-narrator) said, "Concerning them the Ayah was revealed:
هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ
(These two opponents dispute with each other about their Lord),
He (Qays) said,
"They are the ones who came forward (for single combat) on the day of Badr:
Ali, Hamzah and Ubaydah
vs.,
Shaybah bin Rabi`ah, Utbah bin Rabi`ah and Al-Walid bin `Utbah."
This was reported only by Al-Bukhari.
Ibn Abi Najih reported that Mujahid commented on this Ayah,
"Such as the disbeliever and the believer disputing about the Resurrection."
According to one report Mujahid and Ata' commented on this Ayah,
"This refers to the believers and the disbelievers."
The view of Mujahid and Ata' that this refers to the disbelievers and the believers, includes all opinions, the story of Badr as well as the others. For the believers want to support the religion of Allah, while the disbelievers want to extinguish the light of faith and to defeat the truth and cause falsehood to prevail.
This was the view favored by Ibn Jarir, and it is good.
The Punishment of the Disbelievers
Allah says:
...
فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّن نَّارٍ
...
then as for those who disbelieved, garments of fire will be cut out for them,
meaning, pieces of fire will be prepared for them.
Sa`id bin Jubayr said:
"Of copper, for it is the hottest of things when it is heated."
...
يُصَبُّ مِن فَوْقِ رُوُوسِهِمُ الْحَمِيمُ
يُصْهَرُ بِهِ مَا فِي بُطُونِهِمْ وَالْجُلُودُ
Show more
مومن وکافر کی مثال ۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قسم کھا کر فرماتے تھے کہ یہ آیت حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے مقابلے میں بدر کے دن جو دو کافر آئے تھے اور عتبہ اور اس کے دوساتھیوں کے بارے میں اتری ہے ۔ ( بخاری ومسلم ) صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ ع... نہ فرماتے ہیں قیامت کے دن میں سب سے پہلے اللہ کے سامنے اپنی حجت ثابت کرنے کے لئے گھٹنوں کے بل گرجاؤں گا حضرت قیس فرماتے ہیں انہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے بدر کے دن یہ لوگ ایک دوسرے کے سامنے آئے تھے علی اور حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبیدہ اور شیبہ اور عتبہ اور ولید ۔ اور قول ہے کہ مراد مسلمان اور اہل کتاب ہیں ۔ اہل کتاب کہتے تھے ہمارا نبی تمہارے نبی سے اور ہماری کتاب تمہاری کتاب سے پہلے ہے اس لئے ہم اللہ سے بہ نسبت تمہارے زیادہ قریب ہیں ۔ مسلمان کہتے تھے کہ ہماری کتاب تمہاری کتاب کا فیصلہ کرتی ہے اور ہمارے نبی خاتم الانبیاء ہیں اس لئے تم سے ہم اولی ہیں پس اللہ نے اسلام کو غالب کیا اور یہ آیت اتری ۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مراد اس سے سچا ماننے والے اور جھٹلانے والے ہیں ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس آیت میں مومن وکافر کی مثال ہے جو قیامت میں مختلف تھے ۔ عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مراد جنت دوزخ کا قول ہے دوزخ کی مانگ تھی کہ مجھے سزا کی چیز بنا ۔ اور جنت کی آرزو تھی کہ مجھے رحمت بنا ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کا قول ان تمام اقوال میں شامل ہے اور بدر کا واقعہ بھی اس کے ضمن میں آسکتا ہے مومن اللہ کے دین کا غلبہ چاہتے تھے اور کفار نور ایمان کے بجھانے حق کو پست کرنے اور باطل کے ابھارنے کی فکر میں تھے ۔ ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ بھی اس کو مختار بتلاتے ہیں اور یہ ہے بھی بہت اچھا چنانچہ اس کے بعد ہی ہے کہ کفار کے لئے آگ کے ٹکڑے الگ الگ مقرر کردئے جائیں گے ۔ یہ تانبے کی صورت ہوں گے جو بہت ہی حرارت پہنچاتا ہے پھر اوپر سے گرم ابلتے ہوئے پانی کا تریڑا ڈالا جائے گا ۔ جس سے ان کے آنتیں اور چربی گھل جائے گی اور کھال بھی جھلس کر جھڑجائے گی ۔ ترمذی میں ہے کہ اس گرم آگ جیسے پانی سے ان کی آنتیں وغیرہ پیٹ سے نکل کر پیروں پر گرپڑیں گی ۔ پھر جیسے تھے ویسے ہوجائیں گے پھر یہی ہوگا ۔ عبداللہ بن سری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں فرشتہ اس ڈولچے کو اس کے کڑوں سے تھام کرلائے گا اس کے منہ میں ڈالنا چاہے گا یہ گھبرا کر منہ پھیر لے گا ۔ تو فرشتہ اس کے ماتھے پر لوہے کا ہتھوڑا مارے گا جس سے اس کا سر پھٹ جائے گا وہیں سے اس گرم آگ پانی کو ڈالے گا جو سیدھا پیٹ میں پہنچے گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ان ہتھوڑوں میں جن سے دوزخیوں کی ٹھکائی ہوگی اگر ایک زمین پر لاکر رکھ دیا جائے تو تمام انسان اور جنات مل کر بھی اسے اٹھا نہیں سکتے ۔ ( مسند ) آپ فرماتے ہیں اگر وہ کسی بڑے پہاڑ پر مار دیا جائے تو وہ ریزہ ریزہ ہوجائے جہنمی اس سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے پھر جیسے تھے ویسے ہی کردئے جائیں گے اگر عساق کا جو جہنمیوں کی غذا ہے ایک ڈول دنیا میں بہا دیا جائے تو تمام اہل دنیا بدبو کے مارے ہلاک ہوجائیں ۔ ( مسند احمد ) ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے لگتے ہی ایک ایک عضو بدن جھڑ جائے گا اور ہائے وائے کا غل مچ جائے گا جب کبھی وہاں سے نکل جانا چاہیں گے وہیں لوٹا دیئے جائیں گے ۔ حضرت سلمان فرماتے ہیں جہنم کی آگ سخت سیاہ بہت اندھیرے والی ہے اس کے شعلے بھی روشن نہیں نہ اس کے انگارے روشنی والے ہیں پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ حضرت زید رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے جہنمی اس میں سانس بھی نہ لے سکیں گے ۔ حضرت فضیل بن عیاض رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں واللہ انہیں چھوٹنے کی تو آس ہی نہیں رہے گی پیروں میں بوجھل بیڑیاں ہیں ہاتھوں میں مضبوط ہتھکڑیاں ہیں آگ کے شعلے انہیں اس قدر اونچا کر دیتے ہیں کہ گویا باہر نکل جائیں گے لیکن پھر فرشتوں کے ہاتھوں سے گرز کھا کر تہ میں اتر جاتے ہیں ۔ ان سے کہا جائے گا کہ اب جلنے کا مزہ چکھو ۔ جیسے فرمان ہے ان سے کہا جائے گا اس آگ کا عذاب برداشت کرو جسے آج تک جھٹلاتے رہے ۔ زبانی بھی اور اپنے اعمال سے بھی ۔ Show more