Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 29

سورة الحج

ثُمَّ لۡیَقۡضُوۡا تَفَثَہُمۡ وَ لۡیُوۡفُوۡا نُذُوۡرَہُمۡ وَ لۡیَطَّوَّفُوۡا بِالۡبَیۡتِ الۡعَتِیۡقِ ﴿۲۹﴾

Then let them end their untidiness and fulfill their vows and perform Tawaf around the ancient House."

پھر وہ اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور اللہ کے قدیم گھر کا طواف کریں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ ... Then let them complete their prescribed duties, Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said, "This means ending Ihram by shaving one's head, putting on one's ordinary clothes, trimming one's nails and so on." This was also reported from him by Ata' and Mujahid. This was also the view of Ikrimah and Muhammad bin Ka`b Al-Qurazi. ... وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ ... and perform their vows, Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said, this means any vows made about sacrificing a camel. ... وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ and circumambulate the `Atiq House. Mujahid said, "This means the Tawaf which is obligatory on the day of Sacrifice." Ibn Abi Hatim recorded that Abu Hamzah said, "Ibn Abbas said to me: `Have you read in Surah Al-Hajj where Allah says: وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ (and circumambulate the `Atiq House). The end of rituals is the Tawaf around the `Atiq House."' I say, this is what the Messenger of Allah did. When he came back from Mina on the day of Sacrifice, he began with stoning the Jamrah, stoning it with seven pebbles, then he offered his sacrifice and shaved his head, then he departed and circumambulated the House." In the Two Sahihs it was recorded that Ibn Abbas said, "The people were commanded to end their visit to the Ka`bah by circumambulating the House, but menstruating women are exempt from this. بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ (the `Atiq House) the area from behind Al-Hijr, because this was originally part of the Ka`bah built by Ibrahim, but the Quraysh excluded it from the House (when they had to rebuild it) because they were short of funds. The Messenger of Allah included it in his Tawaf and said that it is part of the House. He did not acknowledge the two Shami corners, because they were not built precisely upon the original foundations of Ibrahim. Qatadah narrated that Al-Hasan Al-Basri commented on the Ayah, وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ (and circumambulate the `Atiq House), "Because it is the first House established for mankind." This was also the view of Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam. It was recorded that Ikrimah said, "It was called Al-Bayt Al-`Atiq because it survived (U`tiqa) from the flood at the time of Nuh." Khusayf said, "It was called Al-Bayt Al-`Atiq because it was never conquered by any tyrant."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

29۔ 1 یعنی 10 ذوالحجہ کو جمرہ کبریٰ (یا عقبہ) کو کنکریاں مارنے کے بعد حاجی تحلل اول (یا اصغر) حاصل ہوجاتا ہے، جس کے بعد وہ احرام کھول دیتا ہے اور بیوی سے مباشرت کے سوا، دیگر وہ تمام کام اس کے لئے جائز ہوجاتے ہیں، جو حالت احرام میں ممنوع ہوتے ہیں۔ میل کچیل دور کرنے کا مطلب یہی ہے کہ پھر وہ بالو، ناخنوں وغیرہ کو صاف کرلے، تیل خوشبو استعمال کرے اور سلے ہوئے کپڑے پہن لے وغیرہ۔ 29۔ 2 اگر کوئی مانی ہوئی ہو، جیسے لوگ مان لیتے ہیں کہ اگر اللہ نے ہمیں اپنے مقدس گھر کی زیارت نصیب فرمائی، تو ہم فلاں نیکی کا کام کریں گے۔ 29۔ 3 عتیق کے معنی قدیم کے ہیں مراد خانہ کعبہ ہے کہ حلق یا تقصیر کے بعد افاضہ کرلے، جسے طواف زیارت بھی کہتے ہیں، اور یہ حج کا رکن ہے جو وقوف عرفہ اور جمرہ عقبہ (یا کبرٰی) کو کنکریاں مارنے کے بعد کیا جاتا ہے۔ جب کہ طواف قدوم بعض کے نزدیک واجب اور بعض کے نزدیک سنت ہے اور طواف وداع سنت مؤکدہ (یا واجب) ہے۔ جو اکثر اہل علم کے نزدیک عذر سے ساقط ہوجاتا ہے، جیسے حائضہ عورت سے بالاتفاق ساقط ہوجاتا ہے (ایسر التفاسیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤١] یعنی دس ذی الحجہ کو قربانی کرنے کے بعد حج کرنے والے حضرات حجامت بنوائیں، ناخن کٹوائیں، نہائیں دھوئیں، اور راستے کی گرد اور میل کچیل دور کریں۔ اور احرام کھول کر عام لباس پہن لیں۔ اس سلسلہ میں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ احرام کھولنے کے بعد احرام کی دوسری پابندیاں تو ختم ہوجاتی ہیں مگر اپنی بیوی کے پاس جانا اس وقت تک جائز نہیں ہوتا جب آدمی طواف افاضہ نہ کرلے۔ جس کا ذکر اسی آیت کے آخری جملہ میں ہے۔ [٤٢] یعنی جو بھی نذر کسی حاجی نے اس موقع کے لئے مانی ہو۔ اور بعض کے نزدیک نذر سے مراد وہی قربانی یا قربانیاں ہیں جن کا حاجی نے ارادہ کر رکھا ہو۔ [٤٣] عتیق کا ایک معنی && آزاد && ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس گھر پر کسی ظالم اور جابر بادشاہ کا قبضہ نہیں ہوسکتا اور ایسے حملہ آوروں کا وہی حشر ہوگا جو اصحاب الفیل کا ہوا تھا۔ حتیٰ کہ یاجوج ماجوج کی یورش کے بعد بھی تاقیامت بیت اللہ کا طواف اور حج آزادانہ طور پر ہوتا رہے گا۔ چناچہ حضرت عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : && بیت اللہ کا نام بیت العتیق اس لئے ہوا کہ اس پر کبھی کوئی ظالم غالب نہیں ہوا && (ترمذی، ابو اب التفسیر) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آپ نے فرمایا : && کہ (قیامت کے قریب) ایک لشکر کعبہ پر چڑھ آئے گا۔ جب وہ بیداء کے کھلے میدان میں پہنچیں گے تو سب کے سب اول سے آخر تک زمین میں دھنسا دیئے جائیں گے && (بخاری۔ کتاب البیوع۔ باب ماللہ کر فی الاسواق) البتہ قیامت کے بالکل نزدیک ایک چھوٹی پنڈلیوں والا کالا حبشی کعبہ کو گرانے آئے گا اور وہ اسے گرا دے گا۔ آپ نے فرمایا : گویا میں کعبہ کے گرانے والے کو دیکھ رہا ہوں، ایک کالا پھڈا اس کا ایک ایک پتھر اکھیڑ رہا ہے && (بخاری، کتاب المناسک، باب حرم الکعبہ~ن)~ اور عتیق کا دوسرا معنی ہر وہ چیز ہے جس کے قدیم ہونے کے باوجود اس کی شرافت، نجابت اور احترام میں کوئی فرق نہ آئے۔ زندہ جاوید۔ اسی لحاظ سے کعبہ کو بیت العتیق کہتے ہیں۔ دس ذی الحجہ کو رمی الحجار، قربانی، غسل اور احرام کھولنے کے بعد بیت اللہ کا طواف کرنا ضروری ہے اور اس طواف کو طواف افاضہ یا طواف زیارت کہتے ہیں اور یہ طواف حج کا رکن ہے اور واجب ہے۔ احرام کی پوری پابندیاں اس طواف کے بعد ہی ختم ہوتی ہیں۔ اور اگر طواف کرنے والا۔۔ یا لاغر ہو تو سوار ہو کر بھی طواف کیا جاسکتا ہے چناچہ حج اور قربانی کے کچھ احکام تو سابقہ چار آیات میں مذکور ہوچکے اور کچھ آئندہ آیات میں بتلائے جارہے ہیں اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے۔ کہ یہاں کچھ متعلقہ مسائل اور احادیث بھی درج کردی جائیں اور وہ حسب ذیل ہیں : ١۔ براء بن عازب کہتے ہیں کہ آپ نے عید الضحیٰ کے دن خطبہ کے دوران فرمایا : && آج کے دن ہمیں پہلے نماز ادا کرنا چاہئے۔ پھر واپس جاکر قربانی کرنا چاہئے۔ جس نے اس طرح کیا وہ ہماری سنت پر چلا اور جس نے قربان (نماز سے پہلے) کرلی۔ اس کی قربانی ادا نہیں ہوئی بلکہ اس نے اپنے گھر والوں کے لئے گوشت کی خاطر بکری کاٹی && اس پر ابو بردہ نے عرض کیا : && یارسول اللہ ! میں نے تو نماز سے پہلے ہی ذبح کرلیا اور اب میرے پاس کوئی بکری نہیں) صرف ایک جذعہ (ہٹھیا) ہے جو مسنہ (دوندی یا دو سال کی) بہتر ہے && آپ نے فرمایا : && اچھا اب وہ قربانی کرلو اور تمہارے بعد کسی کو ایسا کرنا کافی اور درست نہ ہوگا && (بخاری۔ کتاب الاضاحی۔ باب الذبح بعدالصلوۃ) اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ قربانی نماز عید کے بعد ہی ہوسکتی ہے۔ دوسرے اگر بکری قربانی دینا ہو تو اس کا مسنہ ہونا ضروری ہے۔ ٢۔ حضرت یونس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو چتکبرے مینڈھے قربانی کئے۔ میں نے دیکھا۔ آپ اپنا پاؤں ان کے منہ کے ایک جانب رکھے ہوئے بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر اپنے ہاتھ سے ذبح کر رہے تھے۔ (بخاری۔ کتاب الاضاحی۔ باب من ذبح الاضاحی بیدہ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ (١) قربانی کا جانور خوبصورت اور موٹا تازہ ہونا چاہئے (٢) ایک شخص ایک سے زیادہ قربانیاں بھی دے سکتا ہے۔ (٣) جانور کو لٹا کر اور اسے خوب قابو کرکے ذبح کرنا چاہئے۔ (٤) ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا ضروری ہے۔ (٥) اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے کرنا افضل ہے۔ ٣۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ : ہم منیٰ میں تھے کہ گائے کا گوشت لایا گیا، میں نے پوچھا : && یہ کہاں سے آیا ہے && صحابہ نے عرض کیا : && رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیبیوں کی طرف سے ایک گائے قربانی کی ہے && (بخاری۔ کتاب الاضاحی۔ باب الاضحیہ~ن~ للمسافرو النسائ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ (١) صاحب استطاعت کو اپنے گھر والوں کی طرف سے الگ قربانی دینا سنت ہے۔ (٢) حج کرنے والوں کو قربانی منیٰ کے مقام پر کرنا چاہئے۔ ٤۔ حضرت نافع کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) اسی مذبح میں قربانی ذبح کیا کرتے تھے جہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا کرتے تھے (بخاری۔ کتاب الاضاحی۔ باب الاضحیٰ والمخر بالمصلی) یعنی منیٰ بھی سارے کا سارا علاقہ مذبح نہیں۔ بلکہ قربانی مذبح خانہ میں جاکر کرنا چاہئے۔ ٥۔ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج (١٠ ھ) کی کیفیت بیان کرتے ہوئے بتلاتے ہیں کہ : && ایک نحر کی جگہ آئے تو ٹریسٹھ (٦٣) اونٹ اپنے دست مبارک سے ذبح کئے باقی سینتیس (٣٧) حضرت علی (رض) کو دیئے جو انہوں نے نحر کئے۔ اور ان کو اپنی قربانی میں شریک کیا && (مسلم۔ کتاب الحج۔ باب۔۔ النبی )~ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ (١) دو آدمی مل کر بھی قربانی کرسکتے ہیں۔ (٢) قربانی جتنی زیادہ سے زیادہ کوئی دے سکتا ہو ١، دینا چاہئے۔ ٦۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آپ نے فرمایا : && قربانی کے دن اللہ تعالیٰ کو انسان کے عملوں میں خون بہانے سے بڑھ کر کوئی عمل محبوب نہیں ہے && (ترمذی۔ مع تحفہ~ن~الاحوذی ج ٢ ص ٣٥٢) ٧۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں دس سال رہے اور ہمیشہ قربانی کرتے رہے && (ترمذی حوالہ ایضاً ) ٨۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : && جو شخص استطاعت رکھتا ہو۔ پھر قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے && (ابن ماجہ، کتاب الاضاحی۔ اردو ص ٣٨١ مطبوعہ مکتبہ سعودیہ، کراچی) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی اگرچہ ہر مسلمان پر واجب نہیں تاہم صاحب استطاعت کے لئے سنت موکدہ ضرور ہے۔ ٩۔ حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : مسنہ (بکری وغیرہ جو ایک سال کی ہو کر دوسرے میں لگی ہو) کی قربانی کرو۔ البتہ جب ایسا جانور نہ مل رہا ہو۔ تو جذعہ دنبہ (جو چھ ماہ کا ہو کر ساتویں میں لگا ہو) کرلو && (مسلم۔ کتاب الاضاحی۔ باب سن الاضحیہ) ١٠۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (حجہ~ن~ الوداع) میں سو اونٹ قربانی کئے اور مجھے حکم دیا کہ ان کا گوشت بانٹ دوں۔ میں نے سارا گوشت بانٹ دیا۔ پھر آپ نے فرمایا : ان کی۔۔ بھی بانٹ دو میں نے وہ بھی بانٹ دیں۔ پھر آپ نے ان کی کھالیں بانٹنے کا حکم فرمایا، میں نے وہ بھی بانٹ دیں۔ نیز آپ نے فرمایا کہ ان میں سے کوئی بھی چیز قصاب کو مزدوری میں نہ دو && (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب لایعطی الجزار من الہدی شیأا) ١١۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ عیدالضحیٰ کے دن عید میں شریک ہونے کے لئے دیہات سے (محتاج) لوگ آگئے۔ تو آپ نے فرمایا : && قربانی کے گوشت سے تین دن تک کے لئے رکھ لو۔ باقی خیرات کردو۔ (تاکہ محتاجوں کو بھی کھانے کو گوشت مل جائے) بعد میں لوگوں نے عرض کیا کہ : ہم اپنی قربانیوں کی کھالوں سے مشکیں بناتے تھے اور ان میں چربی پگھلاتے تھے && آپ نے پوچھا : && تو اب کیا ہوا ؟ && صحابہ نے عرض کیا : آپ نے تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا && آپ نے فرمایا : && میں نے تمہیں ان محتاجوں سے منع کیا تھا جو اس وقت موقع پر آگئے تھے۔ اب تم کھاؤ بھی، صدقہ بھی کرو اور رکھ بھی سکتے ہو && (مسلم۔ کتاب الاضاحی۔ باب النبی عن اکل لحوم الاضاحی بعد ثلاث و نسخہ) ١٢۔ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں قربانی کا گوشت توشہ کرکے مدینہ تک آئے۔ ابو سفیان نے کہا اس حدیث میں قربانی سے مراد ہدی (مکہ میں کی ہوئی قربانی) ہے۔ (بخاری، کتاب الاضاحی۔ باب اکل من لحوم الاضاحی وما یستو ود منہا) ١٣۔ زیاد بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) کو دیکھا۔ وہ ایک شخص کے پاس آئے جس نے نحر کرنے کے لئے اپنا اونٹ بٹھایا تھا۔ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا : اس اونٹ کو کھڑا کر اور پاؤں باندھ دے (پھرنحر کر) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہی سنت ہے۔ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ نحرالابل مقیدۃ) ١٤۔ حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حج کا احرام باندھ کر نکلے تو آپ نے ہمیں حکم دیا کہ اونٹ اور گائے (کی قربانی) میں سات سات آدمی شریک ہوجائیں && (مسلم۔ کتاب الحج باب جواز الاشتراک فی الحج) ١٥۔ حضرت رائع بن خدیج کہتے ہیں کہ ہم تہامہ کے علاقہ میں ذوالحلیفہ کے مقام پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے۔ وہاں ہمیں بکریاں اور اونٹ ملے ہم نے جلدی کرکے گوشت کاٹ کر ہنڈیاں چرھا دیں۔ آپ نے ہمیں وہ ہنڈیاں اوندھ دینے کا حکم دیا۔ پھر آپ نے دس بکریاں ایک اونٹ کے برابر رکھیں۔ (مسلم۔ کتاب الاضاحی۔ جواز الاذبح بکل ما انہر الام) اس حدیث کو امام مسلم، کتاب الاضاحی میں درج کرکے یہ اجتہاد کیا ہے کہ اونٹ کی قربانی میں دس آدمی تک شریک ہوسکتے ہیں جبکہ گائے، بیل میں صرف سات آدمی ہی شریک ہوسکتے ہیں۔ ١٦۔ عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص حالت احرام میں۔۔ کرے اور اسے اس کا بدلہ کے جانور یا نذر کے جانور میں سے کچھ نہ کھائے۔ باقی سب میں سے کھا سکتا ہے۔ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب ما یا کل من ائبدن۔۔ ) ١٧۔ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو دیکھا جو قربانی کا اونٹ ہانک رہا تھا (اور خود پیدل چل رہا تھا) آپ نے اسے فرمایا &&: اسپر سوار ہوجا && وہ کہنے لگا : && یہ قربانی کا جانور ہے && آپ نے دوبارہ فرمایا : && اس پر سوار ہوجا && وہ پھر کہنے لگا : && یہ قربانی کا جانور ہے && آپ نے تیسری بار اسے فرمایا : ارے کم بخت اس پر سوار ہوجا && (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب رکوب البدن۔۔ ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت قربانی کے جانور پر سوار ہونا شعائر اللہ کی تعظیم کے منافی نہیں۔ ١٨۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک بوڑھے کو دیکھا جو اپنے دونوں بیٹوں کا سہارا لئے چل رہا ہے۔ آپ نے پوچھا : && اسے کیا ہوا ہے ؟ && لوگوں نے کہا : && اس نے پیدل کعبہ کو جانے کی منت مانی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ && اللہ کو اس بات کی حاجت نہیں کہ وہ اپنے آپ کو تکلیف دے && اور اسے حکم دیا کہ وہ سوار ہوجائے۔ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ جواب من نذر المشیہ~ن~ الی الکبعہ~ن)~ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پیدل سفر حج کار ثواب نہیں بلکہ مکروہ کام ہے اور اگر کسی نے ایسی نیت کی بھی ہو تو اسے پورا نہ کرنا چاہئے۔ ١٩۔ حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ آپ جب مزدلفہ سے منیٰ میں آئے تو پہلے جمرہ عقبہ پر گئے اور کنکریاں ماریں۔ پھر اپنی قیام گاہ پر تشریف لائے۔ پھر قربانی کی۔ پھر حجام سے سر مونڈنے کو کہا پہلے داہنی طرف سے پھر بائیں سے پھر وہ بال آپ نے صحابہ کو دے دیئے۔ (مسلم۔ کتاب الحج۔ باب ان السنہ یوم النحران برمیثم ینحر) یوم النحر کے کاموں کی از روئے سنت ترتیب یہ ہے پہلے رمی (٢) بعد میں قربانی (٣) پر حجامت اور احرام کھولنا۔ (٣) پر حجامت اور احرام کھولنا اور (٤) طواف افاضہ یا طوائف الزیادۃ تاہم ان کاموں میں تقدیم و تاخیر ہوجائے تو کچھ حرج نہیں، جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : ٢٠۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : میں نے رمی سے پہلے طواف الزیارۃ کرلیا۔ آپ نے فرمایا کہ حرج نہیں اور ایک شخص نے کہا میں نے شام ہوجانے کے بعد رمی کی آپ نے فرمایا : کچھ حرج نہیں ایک نے کہا : میں نے قربانی سے پہلے سر منڈالیا۔ آپ نے فرمایا : حرج نہیں۔ (بخاری۔ کتاب المناسک، باب الذبح قبل الحلق) ٢١۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : یا اللہ سر منڈانے والوں کو بخش دے && لوگوں نے عرض کیا : && اور بال کترانے والوں کو ؟ && آپ نے دوبارہ فرمایا : && یا اللہ بال منڈانے والوں کو بخش دے && لوگوں نے پھر کہا، اور بال کترانے والوں کو ؟ && غرض آپ نے تین بار سر منڈانے والوں کے لئے بخشش طلب فرمائی اور چوتھی بار فرمایا اور بال کترانے والوں کو بھی && (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب الحلق والتقصیر عندالاحلال) ٢٢۔ حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ && جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اسے چاہئے کہ (قربانی کرنے تک) نہ حجامت بنائے اور نہ ناخن کاٹے && (مسلم۔ کتاب الاضاحی۔ باب النہی من دخل علیہم شر ذی الحجہ۔۔ ) ٢٣۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حج کیا اور دسویں تاریخ کو ہی طواف الزیارۃ کرلیا۔ پھر ام المومنین حضرت صفیہ کو حیض آگیا۔ آپ نے ان سے صحبت کرنا چاہی۔ تو میں نے عرض کیا && یارسول اللہ ! وہ تو حائضہ ہیں && آپ نے فرمایا : && گویا اس نے ہمیں یہاں روک دیا ؟ && لوگوں نے کہا && وہ دسویں تاریخ کو طواف الزیارۃ کرچکی ہیں && آپ نے فرمایا : && پھر کیا ہے چلو نکلو && (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب الزیارۃ یوم النحر) اس حدیث سے طوائف الزیارۃ کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ جب تک حاجی طواف الزیارۃ نہ کرلے اس کا حج مکمل نہیں ہوتا۔ نہ وہاں مکہ سے رخصت ہوسکتا ہے۔ ٢٤۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ نے خطبہ کے دوران ارشاد فرمایا : && لوگو ! تم پر حج فرض ہے۔ لہذا حج کرو && ایک شخص (اقرع بن حابس) کہنے لگا : کیا ہر سال یارسول اللہ ! ؟ آپ خاموش رہے۔ اس شخص نے تین بار یہی سوال کیا پھر آپ نے فرمایا : && اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر ہر سال حج فرض ہوجاتا اور تم یہ کم بجا نہ لاسکتے۔ لہذا مجھے وہاں چھوڑ دو جہاں میں تم کو چھوڑ دوں (بات کرنا بند کردوں) کیونکہ تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ جنہوں نے اپنے نبیوں سے بہت سوال کئے اور ان سے بہت اختلاف کرتے رہے۔ تو جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو جتنا ہوسکے اسے بجا لاوو۔ اور جب میں کسی بات سے منع کروں تو اس سے رک جاؤ && (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب کراھہ اکثار السوال من غیر ضرورۃ، ابن ماجہ باب اتباع السنہ آخری حدیث) حج اور بالخصوص قربانی کے مسائل کی یہ تفصیل اس لیے دینا پڑی کہ مسلمانوں میں سے ہی کچھ لوگ ایسے پیدا ہوچکے ہیں۔ جو کہ قربانی کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ کبھی وہ یہ کہتے ہیں کہ قربانی صرف مکہ میں ہے اور حاجیوں کے لئے ہے اور ہم لوگ جو ہر شہر اور ہر بستی میں قربانیاں کرتے ہیں ان کا کوئی حکم نہیں۔ کہیں وہ اسے گوشت اور مالی ضیاع سے تعبیر کرتے ہیں اور کبھی یہ درد اٹھنے لگتا ہے کہ جتنی رقم قربانیوں پر خرچ کی جاتی ہے اتنی رقم سے محتاجوں کے لئے کئی رہائشی منصوبے بنائے جاسکتے ہیں۔ اور کبھی کہتے ہیں کہ جتنی رسم کسی قربانی پر صرف ہوتی ہے اتنی رقم صدقہ میں صرف کردی جائے تو بہتر ہے۔ مندرجہ بالا احادیث میں ان کی ان سب باتوں کا جواب اور تردید موجود ہے۔ ایسے لوگ دراصل مغربیت اور مغربی تہذیب سے مرعوب، اس کے شیدائی اور کھاتے پیتے لوگ ہوتے ہیں۔ وہ اگر قربانی سے دگنی رقم۔۔ اور اپنی عیاشیوں پر خرچ کردیں تو وہ ان کے نزدیک مالی ضیاع نہیں ہوتا۔ لیکن قربانی میں انھیں کئی طرح کے نقصانات نظر آنے لگتے ہیں۔ بہرحال ان کے سب اقوال && خوئے بدرا بہانہ بسیار، کا مصداق ہوتے ہیں۔ انھیں محتاجوں اور فقیروں سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی اور اگر بالفرض حکومت کوئی ایسا منصوبہ بنا بھی لے تو وہ خود کبھی اس فنڈ میں کچھ دینا گوارا نہ کریں گے۔ ان کی اصل غرض صرف یہ ہوتی ہے کہ قربانی نہ کرنے کے باوجود بھی وہ مسلمانوں کی نظروں میں بخیل اور && چور && نہ سمجھے جائیں۔ (ایسے لوگوں کے دلائل کی تفصیل اور ان کی تردید کے لئے دیکھئے میری تصنیف آئینہ پرویزیت حصہ سوم)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ لْيَقْضُوْا تَفَثَهُمْ : ” تَفَثٌ“ کے دو معنی کیے گئے ہیں، ایک میل کچیل اور دوسرا مناسک حج۔ پہلے معنی کے مطابق ترجمہ ہوگا ” پھر وہ اپنا میل کچیل دور کریں۔ “ اس کا مطلب یہ ہے کہ احرام باندھنے کے ساتھ ہی سلے ہوئے کپڑے پہننا، بال یا ناخن کٹوانا اور خوشبو لگانا حرام ہوجاتا ہے۔ صرف دو چادریں ہوتی ہیں، سر ننگا ہوتا ہے اور زیادہ مل مل کر غسل نہیں کرنا ہوتا، اس مسافرانہ اور فقیرانہ حالت میں بدن پر میل کچیل چڑھ جاتا ہے۔ دس محرم کو جمرہ عقبہ کو کنکر مارنے کے بعد بیوی سے مباشرت کے سوا احرام کی تمام پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ میل کچیل دور کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پھر وہ سر کے بال منڈوائیں یا کتروائیں اور ناخن وغیرہ صاف کریں، پھر غسل کرکے سلے ہوئے کپڑے پہن لیں۔ اگر کسی نے قربانی کرنی ہو تو بہتر ہے احرام کھولنے سے پہلے کرلے، اگر احرام کھول کر قربانی کرے تب بھی کوئی حرج نہیں۔ احرام کھول کر، سلے ہوئے کپڑے پہن کر بیت اللہ کے طواف کے لیے روانہ ہوجائیں۔ اس طواف کا نام طواف زیارت اور طواف افاضہ ہے، یہ حج کا رکن ہے اور اس کے بغیر حج مکمل نہیں ہوتا۔ اس طواف کے بعد احرام کی آخری پابندی بھی ختم ہوجاتی ہے اور بیوی سے مباشرت حلال ہوجاتی ہے۔ دوسرے معنی کے مطابق ترجمہ ہوگا ” پھر وہ اپنے حج کے اعمال پورے کریں اور اپنی نذریں پوری کریں۔ “ وَلْيُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ : یعنی فریضۂ حج کے اعمال سے زائد کسی عمل کی نذر مانی ہو تو وہ پوری کریں، مثلاً زائد طواف یا مسجد حرام میں اعتکاف یا زائد قربانی یا نفل نماز یا صدقہ یا قرآن کی تلاوت وغیرہ۔ وَلْيَطَّوَّفُوْا بالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ : ” طَافَ یَطُوْفُ طَوَافًا “ (ن) کسی چیز کے گرد پھرنا، چکر لگانا۔ ” وَلْيَطَّوَّفُوْا “ باب تفعل سے ہے جو اصل میں ” لِیَتَطَوَّفُوْا “ تھا، حروف کے اضافے سے معنی میں اضافہ ہوگیا، یعنی بیت اللہ کا خوب طواف کریں، فرض طواف کے علاوہ نفل طواف بھی کثرت سے کریں۔ یا باب تفعل سے طواف کی مشکل کی طرف اشارہ ہے، جو اس دن حاجیوں کے بےپناہ ہجوم کی وجہ سے پیش آتی ہے کہ اسے برداشت کرتے ہوئے کعبۃ اللہ کا طواف کریں۔ بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ : عتیق کا معنی قدیم ہے۔ زمین پر اللہ کا پہلا تعمیر کیا جانے والا گھر ہونے کی وجہ سے اس کا نام ” اَلْبَیْتُ الْعَتِیْقُ “ ہے۔ عتیق کا دوسرا معنی آزاد ہے، یعنی اللہ کے سوا اس کا مالک کوئی نہیں جو اس میں آنے سے کسی کو روک سکے۔ یہ ہر آقا کے تسلط سے آزاد ہے۔ یہ مشرکین کا ظلم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے آنے والے مسلمانوں کو اس سے روکتے ہیں۔ آزاد کا ایک مطلب یہ ہے کہ اس پر کبھی کوئی جابر مسلط نہیں ہوسکا، جیسا کہ اصحاب الفیل کا واقعہ معروف ہے۔ جو ظالم بھی اس گھر پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرے گا اس کا یہی حال ہوگا۔ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یَغْزُوْ جَیْشٌ الْکَعْبَۃَ فَإِذَا کَانُوْا بِبَیْدَاءَ مِنَ الْأَرْضِ یُخْسَفُ بِأَوَّلِھِمْ وَآخِرِھِمْ ) [ بخاري، البیوع، باب ما ذکر في الأسواق : ٢١١٨ ] ” ایک لشکر کعبہ سے جنگ کے لیے آئے گا، جب وہ بیداء (مکہ کے باہر کھلے میدان) میں پہنچیں گے تو سب کے سب اول سے آخر تک زمین میں دھنسا دیے جائیں گے۔ “ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَیُحَجَّنَّ الْبَیْتُ وَلَیُعْتَمَرَنَّ بَعْدَ خُرُوْجِ یَأْجُوْجَ وَمَأْجُوْجَ ) [ بخاري، الحج، باب قول اللّٰہ تعالیٰ : ( جعل اللّٰہ الکعبۃ۔۔ ) : ١٥٩٣ ] ” یاجوج ماجوج کے خروج کے بعد بھی بیت اللہ کا حج اور عمرہ جاری رہے گا۔ “ علامات قیامت بیان کرتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یُخَرِّبُ الْکَعْبَۃَ ذو السُّوَیْقَتَیْنِ مِنَ الْحَبَشَۃِ ) [ بخاري، الحج، باب قول اللّٰہ تعالیٰ : ( جعل اللّٰہ الکعبۃ۔۔ ) : ١٥٩١ ] ”(قیامت کے قریب) ایک پتلی پنڈلیوں والا حبشی بیت اللہ کو گرا دے گا۔ “ مزید فرمایا : (کَأَنِّيْ بِہِ أَفْحَجَ یَقْلُعُہَا حَجَرًا حَجَرًا ) [ بخاري، الحج، باب ھدم الکعبۃ : ١٥٩٥ ] ” گویا میں وہ دیکھ رہا ہوں، کالا ٹیڑھے پاؤں والا ہے، اسے ایک ایک پتھر کر کے اکھیڑ رہا ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

ثُمَّ لْيَقْضُوا (Then, they must remove their dirt - 22:29) The word تَفَث means dirt, which gathers on human body. While a person is in the state of ihram, he cannot shave, trim or pluck his hair, nor can he pare his nails, nor use perfume, and it is quite natural that dirt should collect under his hair and nails and on his body. This verse requires of the pilgrims that after they have performed the sacrifice, they should remove this dirt, meaning thereby that they should now remove the ihram, (and wear their normal clothes) shave their heads and pare their nails. This verse mentions sacrifice first and then refers to the removal of the dirt, which suggests that these two acts must be performed in that order. It is forbidden to shave one&s head or pare nails before the obligatory sacrifice. Anyone who does so must slaughter an animal as دَم dam (to atone for his sin). Observance of the correct sequence in the performance of various acts related to Hajj The observance of various functions of Hajj in the same order in which they are mentioned in the Qur&an and hadith, and which have been codified by the jurists is, by consensus, a sunnah. However, opinions differ whether it is obligatory as well. Imam Abu Hanifah (رح) and Imam Malik (رح) hold the view that the observance of the sequence is obligatory and any deviation from it must be atoned for by دَم dam, while according to Imam Shafi&i (رح) it is only sunnah and a deviation from it reduces the reward to be gained by performing Hajj but does not make it obligatory to sacrifice an animal. There is also a ruling of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) مَن قَدَّم شیٔاً من نسکہ او اخّرہ فلیھرق دما (He who alters the sequence of the rites during Hajj must slaughter an animal). (Mazhari) Tahawi has also reported this tradition through different versions. In addition Sayyidna Said Ibn Jubair (رض) ، Qatadah, Nakha` i and Hasan al-Basri also support the view that any alteration in the sequence of the rites of Hajj makes the sacrifice of an animal obligatory. Fuller details on the subject are discussed in the Tafsir Mazhari. وَلْيُوفُوا نُذُورَ‌هُمْ (And fulfill their vows - 22:29) نُذُور is the plural of the word نَذَر ، which means a ` vow&. When a person commits himself verbally to do an act, in order to win the goodwill of Allah Ta’ ala, (which is not otherwise obligatory on him) it becomes a vow (nadhr) and its performance becomes obligatory for him by consensus of Ummah, provided that the act itself is not sinful or forbidden. If a person makes a vow to do something which is sinful, then he is not bound to fulfill the vow, rather it is impermissible to act upon it, but he must make atonement for the unfulfilled vow. According to Abu Hanifah (رح) and other religious jurists the vow must be of an act which is an act of a direct worship (` ibadah maqsudah) in some manner. So, if someone makes a nadhr (vow) for voluntary prayers, fasting, sadaqah, sacrifice, of animals etc. all these vows must be fulfilled in all circumstances. The present verse emphasizes on this very issue. Ruling It must be remembered that a resolve made in one&s heart to do something does not become a nadhr (vow) unless it is pronounced with the tongue. Tafsfr Mazhari has elaborated the rules of nadhr in great detail. A question and its answer One may question the relevance of nadhr in the context of Hajj. Obviously the preceding sentences speak of the rules of Hajj, like sacrifice, removing ihram etc. Similarly, the following sentence relates to the tawaf of ziyarah. Why the injunction to fulfill vows has been inserted between the rules of Hajj, while the rules governing vows have an independent status which are to be fulfilled at all times and at every place and not during Hajj only? A possible explanation for this is that when a person sets out with the intention of performing Hajj, his heart prompts him to do the maximum number of good deeds and to spend the maximum time in prayers, and so he makes many vows, specially it was a common practice to make vows for sacrificing additional animals during Hajj. According to Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) the word nadhr in this context means a vow to sacrifice an animal. One relevance of nadhr (vow) appearing with the rites of pilgrimage is that just as vow makes many things obligatory which are not so otherwise and makes many things unlawful for him which are not originally forbidden, similarly the state of ihram, during a pilgrimage makes certain things unlawful for him which are permitted at other times. Instances of these are: wearing stitched clothes, use of perfume, shaving of hair or paring nails. Therefore, Sayyidna ` Ikrimah (رض) has interpreted nadhr in this verse to mean those acts and duties which have become obligatory during the course of Hajj. وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ (And they should make tawaf of the ancient House - 22:29) Here the word tawaf refers to tawaf-uz-ziyarah, which is performed on the 10th day of the month of Zil Hijj after casting stones and making the sacrifice. It is the second obligatory ritual of Hajj, the first being wuquf-ul-` Arafat, which is performed earlier. After this tawaf the state of ihram is fully terminated and all restrictions are removed. (Rah ul-Ma ani) The word الْبَيْتِ الْعَتِيقِ lexically means &liberated house& Baitullah is called الْبَيْتِ الْعَتِيقِ , because according to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) it has been liberated from the control and domination of the infidels and tyrants and it will never again be ruled by them. (رواہ الترمذی وحسنہ والحاکم وصححہ وابن جریر والطبرانی۔Ruh ul-Ma&ani). It is evident by the episode of the People of Elephant who, with all their might, were frustrated in their attempt to establish their dominion over Makkah.1 1. The other meaning of the word عَتِیق is &ancient& which is adopted in the translation of the text. (Editor)

ثُمَّ لْيَقْضُوْا تَفَثَهُمْ ، تفث کے لغوی معنے میل کچیل کے ہیں جو انسان کے بدن پر جمع ہوجاتا ہے حالت احرام میں چونکہ بالوں کا مونڈنا، کاٹنا، نوچنا اسی طرح ناخن تراشنا، خوشبو لگانا یہ سب چیزیں حرام ہوتی ہیں تو ان کے نیچے میل کچیل جمع ہونا طبعی امر ہے اس آیت میں یہ فرمایا کہ جب حج میں قربانی سے فارغ ہوجاؤ تو اس میل کچیل کو دور کرو مطلب یہ ہے کہ اب احرام کھول ڈالو اور سر منڈا لو ناخن تراشو۔ زیر ناف کے بال صاف کرلو۔ آیت مذکورہ میں پہلے قربانی کرنے کا ذکر آیا اس کے بعد احرام کھولنے کا اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ اسی ترتیب سے کام کرنا چاہئے قربانی سے پہلے حلق کرنا یا ناخن کاٹنا وغیرہ ممنوع ہے اور جو ایسا کرے گا اس پر دم جنایت واجب ہوگا۔ افعال حج میں ترتیب کا درجہ : جو ترتیب افعال حج کی قرآن و حدیث میں آئی اور فقہاء نے اس کو منضبط کیا اسی ترتیب سے افعال حج ادا کرنا باتفاق امت کم از کم سنت ضرور ہے واجب ہونے میں اختلاف ہے امام اعظم ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک واجب ہے جس کے خلاف کرنے سے ایک دم جنایت لازم ہوتا ہے۔ امام شافعی کے نزدیک سنت ہے اس لئے اس کے خلاف کرنے سے ثواب میں کمی آتی ہے مگر دم لازم نہیں ہوتا۔ حضرت ابن عباس کی حدیث میں ہے من قدم شیئاً من نسکہ او اخرہ فلیھرق دما رواہ ابن ابی شیبة موقوفا و ھو فی حکم المرفوع (مظھری) یعنی جس شخص نے افعال حج میں سے کسی کو مقدم یا موخر کردیا اس پر لازم ہے کہ ایک دم دے۔ یہ روایت طحاوی نے بھی مختلف طرق سے نقل کی ہے اور حضرت سعید بن جبیر، قتادہ، نخفی، حسن بصری رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے کہ خلاف ترتیب کرنے والے پر دم لازم کرتے ہیں۔ تفسیر مظہری میں اس جگہ اس مسئلہ کی پوری تفصیل و تحقیق مذکور ہے۔ نیز دوسرے مسائل حج بھی مفصل لکھے ہیں۔ وَلْيُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ ، نذور، نذر کی جمع ہے جس کو اردو میں منت کہا جاتا ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ جو کام شرعاً کسی شخص پر لازم، واجب نہیں تھا اگر وہ زبان سے یہ نذر کرلے اور منت مان لے کہ میں یہ کام کروں گا یا اللہ کے لئے مجھ پر لازم ہے کہ فلاں کام کروں تو یہ نذر ہوجاتی ہے۔ جس کا حکم یہ ہے کہ اس کا پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے اگرچہ اصل سے واجب نہیں تھا مگر اس کے واجب ہوجانے کے لئے یہ شرط تو باتفاق امت ہے کہ وہ کام شرعاً گناہ اور ناجائز نہ ہو۔ اگر کسی شخص نے گناہ کے کام کی نذر مان لی تو اس پر وہ گناہ کرنا اس سے لازم نہیں ہوجاتا ہے بلکہ اس کے خلاف کرنا واجب ہے البتہ اس پر کفارہ قسم لازم ہوجائے گا۔ اور ابوحنیفہ وغیرہ ائمہ فقہاء کے نزدیک یہ بھی شرط ہے کہ وہ کام ایسا ہو جس کی جنس میں کوئی عبادت مقصودہ شرعیہ پائی جاتی ہو جیسے نماز، روزہ، صدقہ، قربانی وغیرہ کہ ان کی جنس میں کچھ شرعی واجبات اور عبادت مقصودہ ہیں۔ تو اگر کوئی شخص نفلی نماز روزے صدقہ وغیرہ کی نذر مان لے تو وہ نفل اس کے ذمہ واجب ہوجاتی ہے اس کا پورا کرنا اس کے ذمہ لازم و واجب ہے۔ آیت مذکورہ سے یہی حکم ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس میں نذر کے ایفاء یعنی پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مسئلہ : یہ یاد رہے کہ صرف دل میں کسی کام کے کرنے کا ارادہ کرنے سے نذر نہیں ہوتی جب تک زبان سے الفاظ نذر ادا نہ کرے۔ تفسیر مظہری میں اس جگہ نذر اور منت کے احکام و مسائل بڑی تفصیل سے جمع کردیئے ہیں جو اپنی جگہ بہت اہم ہیں مگر یہاں ان کی گنجائش نہیں۔ ایک سوال اور جواب : اس آیت سے پہلے بھی اعمال حج قربانی اور احرام کھولنے وغیرہ کا ذکر ہوا ہے اور آگے بھی طواف زیارت کا بیان ہے درمیان میں ایفاء نذر کا ذکر کس مناسبت سے ہوا جبکہ ایفائے نذر ایک مستقل حکم ہے حج میں ہو یا حج کے بغیر اور حرم شریف میں ہو یا باہر کسی ملک میں۔ جواب یہ ہے کہ اگرچہ ایفاء نذر ایک مستقل حکم شرعی ہے ایام حج اور افعال حج یا حرم کے ساتھ مخصوص نہیں لیکن اس کا ذکر یہاں افعال حج کے ضمن میں شاید اس وجہ سے ہے کہ انسان جب حج کے لئے نکلتا ہے تو دل کا داعیہ ہوتا ہے کہ اس سفر میں زیادہ سے زیادہ نیک کام اور عبادات ادا کرے اس میں بہت سی چیزوں کی نذر بھی کرلیتا ہے خصوصاً جانوروں کی قربانی کی نذر کرنے کا تو عام رواج ہے۔ حضرت ابن عباس نے یہاں نذر سے مراد قربانی ہی کی نذر قرار دی ہے۔ اور ایک مناسبت نذر کی احکام حج سے یہ بھی ہے کہ جس طرح نذر اور قسم سے انسان پر بہت سی چیزیں جو اصل شرع کی رو سے واجب نہیں تھیں واجب ہوجاتی ہیں۔ اور بہت سی چیزیں جو اصل احکام کی رو سے حرام ناجائز نہیں تھیں وہ اس شخص پر ناجائز و حرام ہوجاتی ہیں۔ احرام کے تمام احکام تقریباً ایسے ہی ہیں کہ سلے ہوئے کپڑے، خوشبو کا استعمال بال مونڈنا، ناخن تراشنا وغیرہ فی نفسہ کوئی ناجائز کام نہ تھے مگر اس نے احرام باندھ کر یہ سب کام اپنے اوپر حرام کر لئے۔ اسی طرح حج کے دوسرے اعمال و افعال جو فرض تو عمر میں ایک ہی مرتبہ ہوتے ہیں مگر بعد میں حج وعمرہ کے لئے احرام باندھ کر یہ سب کام اس کے لئے فرض ہوجاتے ہیں۔ اسی لئے حضرت عکرمہ نے اس جگہ نذور کی تفسیر میں یہی فرمایا کہ اس سے مواجب حج مراد ہیں جو حج کی وجہ سے اس پر لازم ہوگئے ہیں۔ وَلْيَطَّوَّفُوْا بالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ ، یہاں طواف سے مراد طواف زیارت ہے جو دسویں تاریخ ذی الحجہ کو رمی جمرہ اور قربانی کے بعد کیا جاتا ہے یہ طواف حج کا دوسرا رکن اور فرض ہے پہلا رکن وقوف عرفات ہے جو اس سے پہلے ادا ہوجاتا ہے۔ طواف زیارت پر احرام کے سب احکام مکمل ہو کر پورا احرام کھل جاتا ہے (روی ذلک عن ابن عباس و مجاہد و الضحاک و جماعة بل قال الطبری و ان لم یسلم لہ لا خلاف بین المتاولین فی انہ طواف الافاضہ و یکون ذلک یوم النحر از روح المعانی) بیت عتیق، بیت اللہ کا نام بیت عتیق اس لئے ہے کہ عتیق کے معنے آزاد کے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ نے اپنے گھر کا نام بیت عتیق اس لئے رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کفار و جبابرہ کے غلبہ اور قبضہ سے آزاد کردیا ہے (رواہ الترمذی و حسنہ و الحاکم و صححہ و ابن جریر و الطبرانی وغیرھم از روح المعانی) کسی کافر کی مجال نہیں کہ اس پر قبضہ یا غلبہ کرسکے۔ اصحاب فیل کا واقعہ اس پر شاہد ہے واللہ اعلم۔ تفسیر مظہری میں اس موقع پر طواف کے مفصل احکام و مسائل جمع کردیئے ہیں جو بہت اہم قابل دید ہیں۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ لْيَقْضُوْا تَفَثَہُمْ وَلْيُوْفُوْا نُذُوْرَہُمْ وَلْيَطَّوَّفُوْا بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ۝ ٢٩ قضی الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی: وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] أي : أمر بذلک، ( ق ض ی ) القضاء کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ تفث قال تعالی: ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ [ الحج/ 29] ، أي : يزيلوا وسخهم . يقال : قضی الشیء يقضي : إذا قطعه وأزاله . وأصل التَّفْث : وسخ الظفر وغیر ذلك، مما شابه أن يزال عن البدن . قال أعرابيّ : ما أَتْفَثَكَ وأدرنک . ( ت ف ث ) التفث کے معنی ناخن وغیرہ کی میل کچیل کے ہیں جسے بدن سے دور کیا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ [ الحج/ 29] پھر چاہیئے کہ اپنا میل کچیل دور کریں ۔ یہاں سے ہے جس کے معنی کسی چیز کو قطع اور زائل کرنے کے ہیں ایک اعرابی کا قول ہے تو کس قدر میلا کچیلا ہے ۔ وفی پورا الوَافِي : الذي بلغ التّمام . يقال : درهم وَافٍ ، وكيل وَافٍ ، وأَوْفَيْتُ الكيلَ والوزنَ. قال تعالی: وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء/ 35] ( و ف ی) الوافی ۔ مکمل اور پوری چیز کو کہتے ہیں جیسے : درھم واف کیل واف وغیرہ ذالک اوفیت الکیل والوزن میں نے ناپ یا تول کر پورا پورا دیا ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء/ 35] اور جب کوئی چیز ناپ کردینے لگو تو پیمانہ پورا پھرا کرو ۔ نذر ( منت) النّذر : أن تُوجِب علی نفسک ما ليس بواجب لحدوثِ أمر، يقال : نَذَرْتُ لله أمراً ، قال تعالی:إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً [ مریم/ 26] ، وقال : وَما أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ [ البقرة/ 270] ( ن ذ ر ) النذر : کے معنی کسیحادثہ کی وجہ سے غیر واجب چیز کو اپنے اوپر واجب کرلینے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ نذرت للہ نذر ا : میں نے اللہ کے لئے نذر مانی قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً [ مریم/ 26] میں نے خدا کے لئے روزے کی نذر مانی ہے ۔ وَما أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ [ البقرة/ 270] اور تم خدا کی راہ میں جس میں طرح کا خرچ کردیا کر دیا کوئی نذر مانو ۔ طوف الطَّوْفُ : المشيُ حولَ الشیءِ ، ومنه : الطَّائِفُ لمن يدور حول البیوت حافظا . يقال : طَافَ به يَطُوفُ. قال تعالی: يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدانٌ [ الواقعة/ 17] ، قال : فَلا جُناحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِما[ البقرة/ 158] ، ومنه استعیر الطَّائِفُ من الجنّ ، والخیال، والحادثة وغیرها . قال : إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ [ الأعراف/ 201] ، وهو الذي يدور علی الإنسان من الشّيطان يريد اقتناصه، وقد قرئ : طيف «4» وهو خَيالُ الشیء وصورته المترائي له في المنام أو الیقظة . ومنه قيل للخیال : طَيْفٌ. قال تعالی: فَطافَ عَلَيْها طائِفٌ [ القلم/ 19] ، تعریضا بما نالهم من النّائبة، وقوله : أَنْ طَهِّرا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ [ البقرة/ 125] ، أي : لقصّاده الذین يَطُوفُونَ به، والطَّوَّافُونَ في قوله : طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلى بَعْضٍ [ النور/ 58] عبارة عن الخدم، وعلی هذا الوجه قال عليه السلام في الهرّة : (إنّها من الطَّوَّافِينَ عليكم والطَّوَّافَاتِ ) «5» . وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی: فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا «1» ، وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك . والطُّوفَانُ : كلُّ حادثة تحیط بالإنسان، وعلی ذلک قوله : فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف/ 133] ، وصار متعارفا في الماء المتناهي في الکثرة لأجل أنّ الحادثة التي نالت قوم نوح کانت ماء . قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت/ 14] ، وطَائِفُ القوسِ : ما يلي أبهرها «2» ، والطَّوْفُ كُنِيَ به عن العَذْرَةِ. ( ط و ف ) الطوف ( ن ) کے معنی کسی چیز کے گرد چکر لگانے اور گھومنے کے ہیں ۔ الطائف چوکیدار جو رات کو حفاظت کے لئے چکر لگائے اور پہرہ دے طاف بہ یطوف کسی چیز کے گرد چکر لگانا گھومنا ۔ قرآن میں ہے : يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدانٌ [ الواقعة/ 17] نوجوان خدمت گزار جو ہمیشہ ایک ہی حالت میں رہیں گے ان کے آس پاس پھیریں گے ۔ فَلا جُناحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِما[ البقرة/ 158] اس پر کچھ گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف کرے ۔ اور اسی سے بطور استعارہ جن خیال ، حادثہ وغیرہ کو بھی طائف کہاجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ [ الأعراف/ 201] جب ان کو شیطان کیطرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہوتا ہے ۔ میں طائف سے وہ شیطان مراد ہے جو انسان کا شکار کرنے کے لئے اس کے گرد چکر کاٹتا رہتا ہے ایک قرآت میں طیف ہے ، جس کے معنی کسی چیز کا خیال اور اس صورت کے ہے جو خواب یابیداری میں نظر آتی ہے اسی سے خیال کو طیف کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ : فَطافَ عَلَيْها طائِفٌ [ القلم/ 19] کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے ( راتوں رات ) اس پر ایک آفت پھر گئی ۔ میں طائف سے وہ آفت یا حادثہ مراد ہے جو انہیں پہنچا تھا ۔ اور آیت کریمہ : أَنْ طَهِّرا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ [ البقرة/ 125] طواف کرنے والوں ۔۔۔ کے لئے میرے گھر کو صاف رکھا کرو۔ میں طائفین سے مراد وہ لوگ ہیں جو حج یا عمرہ کرنے کے لئے ) بیت اللہ کا قصد کرتے اور اس کا طواف کرتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلى بَعْضٍ [ النور/ 58] اور نہ ان پر جو کام کے لئے تمہارے اردگرد پھرتے پھراتے رہتے ہیں ۔ میں طوافون سے نوکر چاکر مراد ہیں ( جنہیں خدمت گزاری کے لئے اندروں خانہ آنا جا نا پڑتا ہے ) اسی بنا پر بلی کے متعلق حدیث میں آیا ہے (33) انما من الطوافین علیکم والطوافات ۔ کہ یہ بھی ان میں داخل ہے جو تمہارے گرد پھرتے پھراتے رہتے ہیں ۔ الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو ) الطوفان وہ مصیبت یا حادثہ جو انسان کو چاروں طرف سے گھیرے اس بنا پر آیت کریمہ ؛فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف/ 133] تو ہم ان پر طوفان ( وغیرہ کتنی کھلی ہوئی نشانیاں بھیجیں ۔ میں طوفان بمعنی سیلاب بھی ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ نوح (علیہ السلام) کی قوم پر جو عذاب آیا تھا ۔ وہ پانی کی صورت میں ہی تھا اور دوسری جگہ فرمایا : فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت/ 14] پھر ان کو طوفان کے عذاب ) نے آپکڑا ۔ طائف القوس خانہ کمان جو گوشہ اور ابہر کے درمیان ہوتا ہے ۔ الطوف ( کنایہ ) پلیدی ۔ عتق العَتِيقُ : المتقدّم في الزمان، أو المکان، أو الرّتبة، ولذلک قيل للقدیم : عَتِيقٌ ، وللکريم عَتِيقٌ ، ولمن خلا عن الرّقّ : عَتِيقٌ. قال تعالی: وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج/ 29] ، قيل : وصفه بذلک لأنه لم يزل مُعْتَقاً أن تسومه الجبابرة صغارا «4» . والعَاتِقَانِ : ما بين المنکبين، وذلک لکونه مرتفعا عن سائر الجسد، والعَاتِقُ : الجارية التي عُتِقَتْ عن الزّوج، لأنّ المتزوّجة مملوکة . وعَتَقَ الفرسُ : تقدّم بسبقه، وعَتَقَ منّي يمينٌ: تقدّمت، قال الشاعر : 309- عليّ أليّة عَتُقَتْ قدیما ... فلیس لها وإن طلبت مرام ( ع ت ق ) العتیق کے معنی المتقدم یعنی پیش روکے ہیں خواہ اس کا تقدم زبان کے اعتبار سے ہو خواہ مکان یارتبہ کے اعتبار سے اس لحاظ سے العتیق کے معنی کہنہ نجیب اور آزاد شدہ غلام بھی آجاتے ہیں ۔ لہذا آیت کریمہ : ۔ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج/ 29] اور خانہ قدیم ( یعنی بیت اللہ ) کا طواف کریں ۔ میں خانہ کعبہ کو العتیق کہنے کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ جبابرۃ کے پنجہ ستم سے ہمیشہ آزاد رہا ہے اور جابر سے جابر بادشاہ بھی اس کے مرتبہ کو پست نہیں کرسکا العاتقان دونوں طرف سے کندھوں اور گردن کے درمیانی حصے کو کہتے ہیں کیونکہ بدن کا یہ حصہ بھی باقی جسم سے بلند ہوتا ہے عاتق اس عورت کو بھی کہا جاتا ہے جو حبالہ نکاح سے آزاد ہو کیونکہ شادی شدہ عورت ایک طرح سے خاوند کی ملک میں ہوتی ہے عتق الفرس گھوڑے کا دوڑ میں آگے بڑھ جانا عتق منی یمین ۔ قسم کا واجب ہونا شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 301 ) علی الیہ عتقت قدیما ولیس لھا وان طلیت مرام مجھ پر عرصہ قدیم سے قسم واجب ہوچکی ہے اور اسے پورا کرنے سے چارہ کار نہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

حج کے بعد میل کچیل دور کرنا۔ قول باری ہے (ثم لیقضوا تفثھم ولیوفوا نذورھم پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں) عبدالملک نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ تفث قربانی کا جانور ذبح کرنے، سر مونڈنے، سر کے بال کٹوانے، ناخن اتارنے اور مونچیں کتروانے نیز بغل کے بال صاف کرنے کو کہتے ہیں۔ عثمان بن الاسود نے مجاہد سے بھی اسی قسم کی روایت کی ہے حسن اور ابو عبیدہ سے بھی یہی روایت ہے ۔ حضرت ابن عمر اور سعید بن جبیر سے قول باری (تفثھم ) کی تفسیر میں ” اپنے مناسک “ مقنول ہے۔ اشعت نے حسن بصری سے روایت کی ہے کہ ” وہ اپنے نسک ادا کریں۔ “ حماد بن مسلمہ نے قیس سے اور انہوں نے عطاء سے روایت کی ہے کہ قول باری (ثم لیقضوا تفثھم ) کا مفہوم ہے کہ اپنے بال اور ناخن صاف کرائیں ۔ ایک قول کے مطابق تفث سر مونڈانے اور غسل وغیرہ کرنے کے ذریعے احرام کے میل کچیل کو دور کرنے کا نام ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب تفث دور کرنے کے سلف نے وہ معافی بیان کئے جن کا ہم نے ابھی ذکر کیا ہے تو یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس میں سر مونڈنا بھی داخل ہے اس لئے کہ سلف نے اس کی یہ تاویل کی ہے اگر تفث اس معنی پر دلالت کرنے والا اسم نہ ہوتا تو سلف اس سے ہرگز یہ معنی نہ لیتے اس لئے کہ لفظ سے وہ معنی لینا ہرگز درست نہیں ہوتا جس کی لفظ تعبیر نہ کرتا ہو۔ یہ چیز حلق یعنی سرمونڈنے کے وجوب کی دلیل ہے اس لئے کہ امر کو وجوب پر محمول کیا جاتا ہے۔ اس لئے ان لوگوں کا یہ قول باطل ہوگیا جو کہتے ہیں کہ حلق احرام کے تحت آنے والی عبادتوں میں داخل نہیں ہے۔ بعض لوگوں کا یہ حال ہے کہ اس امر کے ذریعے ممانعت کو رفع کردیا گیا ہے کیونکہ احرام کھولنے سے پہلے ان باتوں کی ممانعت تھی جس طرح یہ قول باری ہے (واذا حللتم فاصطادوا اور جب احرام کھول دو تو شکار کرو) نیز فرمایا (فاذا فضیت الصلوۃ فانتشروا فی الارض اور جب جمعہ کی نماز پڑھ کی جائے تو تم زمین پر پھیل جائو) لیکن پہلی بات زیادہ صحیح ہے۔ اس لئے کہ تفث دور کرنے کا حکم تمام مناسک کو شامل ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر اور سلف کے ان حضرات سے منقول ہے جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ تمام مناسک کی ادائیگی اباحت کے طور پر نہیں ہوتی بلکہ وجوب کے طور پر ہوتی ہے۔ حلق کی کیفیت بھی یہی ہے اس لئے کہ یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ تفث دو ر کرنے کے حکم میں حلق کے سوا دوسرے افعال کے سلسلے میں ایجاب مراد ہے اسی طرح حلق کے سلسلے میں بھی ایجاب مراد ہوگا۔ نحر کی نذر پوری کریں قول باری ہے (ولیوفوا نذورھم اور اپنی نذریں پوری کریں) حضرت ابن عباس کا ول ہے کہ جن اونٹوں کو نحر کرنے کی انہوں نے نذریں مانی تھیں انہیں نحر یعنی ذبح کریں۔ مجاہد کا قول ہے کہ حج کے سلسلے میں جو نذیرں مانی گئی تھیں انہیں پوری کریں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اگر آیت سے نذر والے اونٹوں کا نحر مراد لیا جائے تو قول باری (علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام) میں وہ اونٹ اور جانور مراد نہیں ہوں گے جن کے نحر کی نذر مانی گئی ہو۔ اس لئے کہ اگر یہ مراد ہوتے تو جانوروں کو ذبح کرنے اور ان کا گوشت کھانے کا ہمیں حکم دینے کے بعد ان کا ذکر نہ کرتا اس لئے درج بالا آیت ان جانوروں کے بارے میں ہوگی جن کی نذر نہ مانی گئی ہو اور یہ نفلی طور پر نیز حج تمتع اور حج قران کی بنا پر ذبح کئے جانے والے جانور ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے نذر کے طور پر قربان کئے جانے والے جانور مراد نہیں لئے ہیں۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ نذر کی قربانی کا گوشت کھایا نہیں جاتا جب کہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں مذکورہ جانوروں کا گوشت کھانے کا حکم دیا ہے۔ یہ بات اس پ دلالت کرتی ہے کہ آیت میں نذر مراد نہیں ہے۔ نذر کا نئے سرے سے ذکر کر کے اس کے ذریعے کئی احکام بیان کئے ہیں اول تو یہ کہ ان کا گوشت نہیں کھایا جائے گا دوم یہ کہ نذر کے جانوروں کی ان ایام میں قربانی دوسرے ایام کی بہ نسبت افضل ہوتی ہے۔ سوم یہ کہ جس چیز کی نذر مانی گئی ہے اسے پورا کرنا واجب ہے اس کے بدلے قسم کا کفارہ ادا کرنا واجب نہیں ۔ یہ کہنا بھی درست ہے کہ حج کی ساری نذریں مراد ہوں خواہ وہ صدقہ ہو یا طواف یا اس قسم کی کوئی اور عبادت۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ اس سے مراد ہر وہ نذر ہے ۔ جو ایک مدت تک کے لئے مانی گئی ہو۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ زیر بحث آیت میں نذر پوری کرنے کے لزوم پر دلالت موجود ہے کیونکہ قول باری ہے (ولیوفوا نذورھم ) اور امر و جوب پر محمول ہوتا ہے اور یہ امام شافعی کے اس قول کے بطلان پر دلالت کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص حج یا عمرہ کرنے یا اونٹ کی قربانی کی یا اس جیسی کوئی نذر مانے تو اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا۔ اس قول کے بطلان کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نفس نذر پوری کرنے کا حکم دیا ہے۔ طواف زیارت کا بیان قول باری ہے صولیطو فوا بالبیت العتیق اور پرانے گھر کا طواف کریں) حسن سے روایت ہے کہ یہ طوف زیارت ہے۔ مجاہد کا قول ہے کہ یہ واجب طواف ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت وجوب کا مقتضی ہے۔ اس لئے کہ یہ امر ہے اور امر و جوب پر محمول ہتا ہے۔ اسے قضائے تفث یعنی میل کچیل دور کرنے کے حکم پر معطوف کیا گیا ہے جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ طواف کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ یو م النحر یعنی دسویں تاریخ کو ذبح کے بعد طواف زیارت کے سوا اور کوئی طواف نہیں ہوتا جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس سے طواف زیارت مراد ہے اور یہ واجب طواف ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس میں طواف قدوم کا احتمال ہے جسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام نے مکہ مکرمہ پہنچ کر ادا کیا تھا اور اس کی ادائیگی کے بعد حج کا احرام کھو لدیا تھا اور اسے عمرہ قرار دیا تھا البتہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احرام نہیں کھولا تھا۔ اس لئے کہ آپ اپنے ساتھ قربانی کے جانور بھی لائے تھے جو احرام کھولنے میں آپ کے لئے مانع بن گیا اور پھر آپ نے حج ادا کرنے تک اپنا احرام قائم رکھا تھا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ کئی وجوہ کی بنا پر اس سے طواف قدوم مراد لینا درست نہیں ہے۔ اول یہ کہ ذبح کے فوراً بعد اس طواف کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے اور جانوروں کا ذبح یوم النحر کو ہوتا ہے اس لئے کہ ارشاد باری ہے (ویذکروا اسم اللہ فی ایام معلومات علی مانذقھم من بھیمۃ الا نعام فکلوا منھا واطعموا البائس الفقیر ثم لیقضوا تفثھم ولیوفوا نذورھم ولیطوفوا بالبیت العتیق اور مقررہ دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں، ان میں سے خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور پرانے گھر کا طواف کریں) حرف ثم کے حقیقی معنی تراخی یعنی وقفہ ڈال کر کام سر انجام دینے کے ہیں جبکہ طواف قدوم یوم النحر سے پہلے ادا کیا جاتا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت میں طواف قدوم مراد نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قول باری (ولیطوفوا بالبیت العتیق) امر کا صیغہ ہے اور امر وجوب پر محمول ہوتا ہے الا یہ کہ ندب اور استحباب کی کوئی دلالت قائم جائے طواف قدوم واجب نہیں ہے اگر اس سے طواف قدوم مراد لیا جائے گا تو کلام کو اس کے حقیقی معنی سے ہٹانا لازم آئے گا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ اگر اس سے وہ طواف مراد ہوتا جس کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام کو حکم دیا گیا تھا جب یہ حضرات مکہ پہنچے تھے تو یہ منسوخ ہوتا اس لئے کہ انہیں حج فسخ کرنے کے لئے اس طواف کا حکم دیا گیا تھا۔ حج فسخ کرنے کا یہ حکم قول باری (واتموا الحج و العمرۃ للہ اللہ کے لئے حج اور عمرے کی تکمیل کرو) کی وجہ سے منسوخ ہوچکا ہے۔ یہ حکم اس روایت کی بنا پر بھی منسوخ ہوچکا ہے جسے ربیعہ نے حارث بن بلال بن حارث سے اور انہوں نے اپنے والد سے نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا۔” اللہ کے رسول ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کیا خیال ہے کہ ہمارا یہ حج خاص طور پر ہمارے لئے فسخ کردیا گیا ہے یا تمام لوگوں کے لئے ؟ “ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا ” خاص طور پر تمہارے لئے۔ “ حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت ابو ذر وغیرہم سے بھی اسی طرح کی روایت ہے۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے۔ حج پر آنے والا شخص طواف قدوم نہیں کرے گا۔ اگر اس نے عرفات میں جانے سے پہلے یہ طواف کرلیا تو اس کا حج عمرہ بن جائے گا۔ “ حضرت ابن عباس اپنے اس قول کے حق میں آیت (ثم محلھا الی البیت العتیق پھر ان (کے قربان کرنے) کی جگہ اسی قدیم گھر کے پاس ہے) سے استدلال کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس نے یہ مسلک اختیار کیا کہ ایسا شخص طواف کی وجہ سے احرام کھول دے گا خواہ اس نے یہ طواف عرفات میں جانے سے پہلے کیا ہو یا بعد میں۔ حضرت ابن عباس کا مسلک یہ تھا کہ یہ حکم بحالہ باقی ہے منسوخ نہیں ہوا۔ نیز یہ کہ حج کی تکمیل سے پہلے اس کا فسخ جائز ہے وہ اس طرح کہ ایسا شخص وقوف عرفہ سہے پہلے طواف کرلے اس کا حج عمرہ میں تبدیل ہوجائے گا۔ تاہم ظاہر قول باری (واتموا الحج والعمرۃ للہ) سے اس حکم کا نسخ ثابت ہوچکا ہے۔ حضرت عمر نے بھی اس کے یہی معنی لئے تھے جب آپ نے یہ فرمایا تھا۔” حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں جاری دو طرح کے متعہ سے اب میں لوگوں کو روکتا اور اس پر انہیں سزا دیتا ہوں۔ عورتوں کے ساتھ مقعہ اور حج کا مقعہ۔ “ حج کے متعہ یعنی حج کا احرام باندھ کر وقوف عرفہ سے پہلے طواف کر کے احرام کھول کر اسے عمرہ بنا دینے کے سلسلے میں حضرت عمر نے ممانعت کا جو حکم جاری کیا تھا اس کے لئے آپ کا ذہن درج بالا آیت کے ظاہری معنی کی طرف گیا تھا نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے صحابہ کرام کو جو بتادیا گیا تھا کہ فسخ حج کا یہ حکم صرف ان کے لئے خاص تھا۔ تمام لوگوں کے لئے نہیں تھا۔ حضرت عمر کا ذہن اس توقیف کی طرف بھی گیا تھا۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے تو اب قول باری (ولیطوفوا بالبیت لعتیق ) سے یہ معنی لینا درست نہیں رہا۔ ہماری اس وضاحت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت میں طواف سے ، طواف زیارت مراد ہے۔ آی ت میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ ایام نحر کے گزر جانے سے پہلے پہلے طواف زیارت کرلینا واجب ہے۔ اس لئے امر پر فی الفور عمل درآمد کرنا ضروری ہوتا ہے الا یہ کہ تاخیر کے جواز پر کوئی دلیل قائم ہوجائے۔ تاہم ایام النحر کے آخر تک اس کی تاخیر کی اباحت میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ سفیان ثوری وغیرہ نے افلح بن حمید سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ انہوں نے چند صحابہ کرام کی معیت میں حج کیا تھا۔ ان میں حضرت ابو ایوب انصاری بھی شامل تھے۔ جب دسویں تاریخ ہوئی تو ان میں سے کوئی بھی بیت اللہ کی زیارت کو نہیں گیا یہاں تک کہ یوم النفر یعنی واپسی کا دن آگیا۔ ان میں سے صرف وہی لوگ طواف زیارت کے لئے گئے اور اس میں جلدی کی جن کے ساتھ عورتیں تھیں روایت میں یوم النفر کا ذکر ہے ہمارے نزدیک اس سے نفر اول یعنی پہلی واپسی مراد ہے جو ایام نحر کے تیسرے دن یعنی بارہویں ذی الحجہ کو ہوتی ہے۔ اگر ہم ظاہر آیت کو اس کے اصل مفہوم کے اعتبار سے لیں تو اس میں طاف زیارت کو یوم النحر سے مئوخر کرنے کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی تاہم جب سلف اور فقہاء ، مصار ، ایام نحر کے تیسرے روز تک اس کی تاخیر کی اباحت پر متفق ہوگئے تو ہم نے بھی اسے جائز قرار دیا۔ لیکن ایام تشریق یعنی تیرہویں تاریخ کے آخر تک طواف زیارت کو مئوخر کردیا اس پر دم واجب ہوجائے گا یعنی جرمانے کے طور پر ایک جانور کی قربانی دینی ہوگی۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ اس پر کوئی جرمانہ عائد نہیں ہوگا۔ طواف کو مئوخر نہ کرنے کا حکم اگر یہ کہا جائے کہ جب حرف ثم تراخی کا مقتضی ہے تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ طواف کرنے والا جب تک طواف میں تاخیر کرنا چاہے اسے تاخیر کی اجازت ہونی چاہیے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس پر طواف زیارت میں تاخیر واجب نہیں ہے۔ دوسری طرف ظاہر لفظ اس کی تاخیر کے ایجاب کا مقتضی ہے اگر اسے اس کے حقیقی معنوں پر محمول کیا جائے۔ جب تاخیر واجب نہیں اور طواف کرنا لامحالہ واجب ہے تو یہ چیز اس امر کی مقتضی ہے کہ کسی تاخیر کے بغیر یوم النحر کو اس کی ادائیگی لازم ہے۔ یہی وہ وقت ہے جس میں میل کچیل دور کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس لئے معترض نے ظاہر لفظ سے ہمیشہ اس کی تاخیر کے جواز پر جو استدلال کیا ہے وہ درست نہیں ہے بجہ یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ اس مقام میں حرف ثم سے اس کے حقیقی معنی مراد نہیں ہیں۔ یعنی یہ بات نہیں ہے کہ تراخی کے ساتھ طواف زیارت کرنا واجب ہے۔ اسی بن اپر امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ جس شخص نے ایام تشریق کے آخر تک حلق مئوخر کردیا اس پر دم واجب ہوگا اس لئے کہ قو ل باری (ثم لیقضوا تفثھم) اس امر کا مقتضی ہے کہ یوم النحر کو فی الفور حلق کرایا جائے اور ایام نحر کے آخر تک بالاتفاق اس کی تاخیر کو مباح کردیا ہے لیکن اس سے زائد تاخیر کو مباح نہیں کیا۔ امام ابوحنیفہ کے اس مسلک کے حق میں اس بات سے استدلال کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایام تشریق کے دوسرے دن جو ایام النحر کا تیسرا دن ہے، نفر یعنی واپسی کو مباح کردیا ہے چناچہ ارشاد ہے (واذکروا اللہ فی ایام معدودات فمن تعجل فی یومین فلا اثم علیہ اور چند گنتی کے دنوں میں اللہ کا ذک کرو، جو شخص دو دنوں میں جلدی کرے) اس پر کوئی گناہ نہیں) لیکن طوف زیارت کے بغیر واپسی کی اباحت ممتنع ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اسے نفر اول یعنی ایام الخ کیت یسرے دن سے پہلے طواف زیارت کرنے کا حکم ہے۔ جب آیت نفر اول کی اباحت کو متضمن ہے تو ایسے شخص کا طواف ایام النحر کے اندر ہی مکمل ہوجائے گا۔ اس لئے اسے لامحالہ طواف میں تاخیر کرنے سے روکا گیا ہے اس لئے اگر وہ اس میں تاخیر کرے گا تو کوتاہی کی تلافی کے لئے اس پر ایک دم لازم ہوجائے گا۔ قول باری (ولیطوفوا بالبیت العتیق) کے الفاظ کے معانی واضح اور ان کی مرادظاہر ہے اس لئے یہ طواف کے جواز کا مقتضی ہے چاہے یہ طواف حدث یا خیابت کی حالت میں یا برہنہ ہو کر یا سر کے بل یا گھسٹ گھسٹ کر کیوں نہ کیا گیا ہو اس لئے کہ آیت میں یہ کوئی ذکر نہیں ہے کہ طہارت وغیرہ اس میں شرط ہے اگر ہم اس میں طہارت وغیرہ کی شرط لاگئیں گے تو نص میں ایک ایسی چیز کا اضافہ کردیں گے جو اس میں داخل نہیں ہے جبکہ نص میں اضافہ جائز نہیں ہوتا الایہ کہ اس جیسا کوئی نص ہو جس کے ذریعے اس نص کا نسخ جائز ہوسکتا ہو۔ اس لئے آیت کی اس امر پر دلالت ہو رہی ہے کہ ایک انسان اگر درج بالا ممنوعہ صورتوں میں سے کسی صورت میں طواف کرے گا تو بھی اس پر جواز کا حکم لگ جائے گا۔ قول باری (ثم لیقضوا تفثھم ولیو فوانذور ھم و لیطوفوا بالبیت العتیق) اس امر کا بھی مقتضی ہے کہ آیت میں مذکورہ افعال کی اس ترتیب سے ہٹ کر کوئی شخص اگر انہیں ادا کرے گا تو ایسا کرنا اس کے لئے جائز ہوگا۔ اس لئے کہ آیت میں ترتیب پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس لئے اگر کسی نے میل کچیل دور کرنے سے پہلے طواف زیارت کرلیا یا میل کچیل دور کرنے کے بعد طواف کیا تو آیت کا مقتضی یہ ہے کہ ہر صورت میں ان مناسک کی ادائیگی ہوجائے گی اس لئے حرف وائو ترتیب کا موجب نہیں ہوتا۔ فقہاء نے بھی بالا تفاق طواف زیارت سے پہلے حلق اور سلے ہوئے کپڑے پہن لینے کی اباحت کردی ہے۔ اسی طرح طواف زیارت سے پہلے بیوی کے ساتھ ہمبستری پر پابندی اور ممانعت کے مسئلے میں بھی ان میں اتفاق رائے ہے۔ البتہ خوشبو لگانے اور شکار کرنے کی اباحت کے مسئلے میں ان کے مابین اختلاف رائے پیدا ہوگیا ہے۔ کچھ حضرات کا قول ہے کہ طواف زیارت سے پہلے یہ دونوں امور مباح ہیں۔ ہمارے اصحاب اور عامتہ الفقہاء کی یہی رائے ہے ۔ حضرت عائشہ اور سلف میں سے دوسرے حضرات کا بھی یہی قول ہے حضرت عمر اور حضرت ابن عمر کا قول ہے کہ جب تک طواف زیارت نہیں کرے گا اس وقت تک اس کے لئے بیوی، خوشبو اور شکار کی حلت نہیں ہوگی۔ کچھ فقہاء کا یہی قول ہے۔ سفیان بن عینیہ نے عبدالرحمٰن بن القاسم سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو احرام باندھتے وقت خوشبو لگائی تھی اور بیت اللہ کے طواف سے پہلے احرام کھولنے پر خوشبو لگائی تھی۔ نظر اور قیاس کی جہت سے بھی اس پر دلالت ہو رہی ہے وہ اس طرح کہ تمام حضرات طواف زیارت سے پہلے سلے ہوئے کپڑے پہن لینے اور حلق کی اباحت پر متفق ہیں حالانکہ ان دونوں چیزوں کو احرام فاسد کرنے میں کوئی دخل نہیں ہوتا اس بنا پر یہ ضروری ہے کہ خوشبو اور شکار کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہو۔ بیت العتیق قول باری (بالبیت العتیق ) کی تفسیر میں معمر نے زہری سے اور انہوں نے حضرت ابن الزبیر سے روایت کی ہے کہ بیت اللہ کو بیت عتیق کے نام سے اس لئے موسوم کیا ہے کہ اسے جابر لوگوں کی گرفت سے آزاد کردیا ہے ۔ مجاہد کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس گھر کو جابر حکمرانوں کے قبضہ میں آنے سے آزاد رکھا ہے۔ ایک قول کے مطابق دنیا کے بتکدے میں یہ خدا کا پہلا گھر تھا اس کی بنیاد حضرت آدم (علیہ السلام) نے رکھی، پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھوں اس کی تجدید ہوئی۔ اس بنا پر یہ قدیم ترین گھر ہے اور اسی لئے اس کا نام بیت عتیق رکھا گیا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٩) پھر قربانی کے بعد لوگوں کو ارکان حج پورے کردینے چاہئیں یعنی سرمنڈوا ڈالیں اور ناخن اور لب بنوالیں اور رمی جمار کریں اور جو چیزیں انہوں نے اپنے اوپر واجب کرلی ہیں ان کو پورا کریں اور اس کے محفوظ گھر یعنی خانہ کعبہ کا ان ہی دنوں میں طواف کریں جو کہ فرض ہے اس گھر کو عتیق اس معنی کے اعتبار سے کہا کہ یہ ہر ایک ظالم و جابر کے ظلم سے آزاد ہے یا یہ کہ حضرت نوح کے زمانہ میں جو طوفان آیا تھا اس سے اللہ تعالیٰ نے اس کو محفوظ فرما لیا تھا یا یہ کہ (عتیق کے معنے قدیم کے ہیں) اور یہ سب سے پہلا گھر ہے یہ کہ جو اس کے گرد طواف کرتا ہے وہ گناہوں سے پاک وآزاد ہوجاتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ (ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَہُمْ ) ” اس سے احرام کھول کر نہانا دھونا مراد ہے۔ حج کرنے والوں کے لیے ١٠ ذو الحجہ کے دن چار افعال ضروری ہیں ‘ یعنی رمی ‘ نحر ‘ حلق اور طواف۔ نحر اور حلق کے بعد احرام کھولو ‘ پھر نہا دھو کر صاف لباس پہنو اور طواف زیارت کے لیے جاؤ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

51. It means that after performing the essential Hajj rites, one should put off Ihram, have a shave, bath, etc. for one is free from the restrictions of Ihram after Hajj. However, one is not allowed to have sexual relations with his wife till one has performed the Tawaf of Ziyarah or Ifadah. 52. That is, the vow one has made for that occasion. 53. The Arabic word Atiq, which has been used for the Kabah, is very meaningful for it implies. (1) Ancient. (2) Free from the sovereignty and ownership of anyone. (3) Honored and revered. I am of the opinion that here the word Tawaf refers to the circumambulation performed on the tenth day of Zil-Hajj after setting aside Ihram, as the last ritual of Hajj, and is called Tawaf of Ifadah or Ziyarah (visit).

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :51 یعنی یوم النحر ( 10 ذی الحج ) کو قربانی سے فارغ ہو کر احرام کھول دیں ، حجامت کرائیں ، نہائیں ، دھوئیں اور وہ پابندیاں ختم کر دیں جو احرام کی حالت میں عائد ہو گئی تھیں ۔ لغت میں تَفَث کے اصل معنی اس غبار اور میل کچیل کے ہیں جو سفر میں آدمی پر چڑھ جاتا ہے ۔ مگر حج کے سلسلے میں جب میل کچیل دور کرنے کا ذکر کیا گیا ہے تو اس کا مطلب وہی لیا جائے گا جو اوپر بیان ہوا ہے ۔ کیونکہ حاجی جب تک مناسک حج اور قربانی سے فارغ نہ ہو جائے ، وہ نہ بال ترشوا سکتا ہے ، نہ ناخن کٹوا سکتا ہے ، اور نہ جسم کی دوسری صفائی کر سکتا ہے ۔ ( اس سلسلہ میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ قربانی سے فراغت کے بعد دوسری تمام پابندیاں تو ختم ہو جاتی ہیں ، مگر بیوی کے پاس جانا اس وقت تک جائز نہیں ہوتا جب تک آدمی طواف افاضہ نہ کر لے ) ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :52 یعنی جو نذر بھی کسی نے اس موقع کے لیے مانی ہو ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :53 کعبہ کے لیے بیت عتیق کا لفظ بہت معنی خیز ہے عتیق عربی زبان میں تین معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ ایک ، قدیم ۔ دوسرے آزاد ، جس پر کسی کی ملکیت نہ ہو ۔ تیسرے ، مکرم اور معزز ۔ یہ تینوں ہی معنی اس پاک گھر پر صادق آتے ہیں ۔ طواف سے مراد طواف زیارت ہے جو یوم النحر کو قربانی کرنے اور احرام کھول دینے کے بعد کیا جاتا ہے ۔ یہ ارکان حج میں سے ہے ۔ اور چونکہ قضائے تَفَث کے حکم سے متصل اس کا ذکر کیا گیا ہے اس لیے یہ ارشاد اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ طواف قربانی کرنے اور احرام کھول کر نہا دھو لینے کے بعد کیا جانا چاہیے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

16: حج کے دوران انسان احرام میں ہوتا ہے تو اس کے لیے بال کاٹنا اور ناخن تراشنا جائز نہیں رہتا۔ یہ پابندیاں اس وقت ختم ہوتی ہیں جب وہ حج کی قربانی سے فارغ ہوجائے۔ چنانچہ یہاں میل کچیل دور کرنے کا مطلب یہ ہے کہ حج کرنے والے قربانی کے بعد جسم کے بال اور ناخن کاٹ سکتے ہیں۔ اور منتیں پوری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ واجب قربانی کے علاوہ بہت سے حضرات یہ منتیں مان لیا کرتے تھے کہ حج کے موقع پر ہم اپنی طرف سے بھی قربانی کریں گے۔ اس کے بعد بیت اللہ شریف کے جس طواف کا ذکر ہے، اس سے مراد طواف زیارت ہے۔ یہ طواف عام طور پر قربانی اور سر منڈانے کے بعد کیا جاتا ہے اور حج کا اہم رکن ہے۔ بیت اللہ کو یہاں بیت عتیق کہا گیا ہے۔ اس کے ایک معنی تو قدیم کے ہیں۔ یعنی یہ اس معنی میں قدیم ترین گھر ہے کہ دنیا میں سب سے پہلا گھر ہے جو عبادت کے لیے تعمیر کیا گیا۔ اور اس کے ایک معنی ’’ آزاد‘‘ کے بھی ہیں۔ اور ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے آزاد کہنے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ظالموں کے قبضہ کرلینے سے آزاد رکھا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:29) اس کا عطف یذکروا پر ہے۔ ثم۔ پھر۔ یعنی جب تم جانور کی قربانی سے فارغ ہو چکو۔ لیقضوا۔ فعل امر جمع مذکر غائب تو انہین چاہیے کہ دور کریں۔ القضاء کے معنی قولا یا عملا کسی کام کا فیصلہ کردینا۔ قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں ۔ (1) قضاء الٰہی ۔ (2) قضاء بشری۔ (1) قضاء الٰہی قضاء قولی کی مثال۔ وقضی ربک ان لا تعبدوا ایاہ (17:23) پھر دو دن میں سات آسمان بنا دئیے۔ (2) (1) قضاء بشری۔ قولی کی مثال۔ قضی الحاکم بکذاحاکم نے فلاں فیصلہ کیا (کیونکہ حاکم ہمیشہ زبان کے ساتھ فیصلہ دیتا ہے (2) قضاء بشری کی عملی کی مثال : فاذا قضیتم مناسککم (2:200) پھر جب تم حج کے تمام ارکان پورے کر چکو۔ آیت ہذا میں قضاء بشری عملی کی مثال ہے ۔ ثم لیقضوا تفثہم میں تفثہم کا مضاف محذوف ہے عبارت یوں ہے۔ ثم لیقضوا ازالۃ تفثہم۔ پھر انہیں چاہیے کہ اپنی میل کچیل پوری طرح دور کریں۔ تفثہم۔ مضاف، مضاف الیہ ۔ ان کا میل کچیل۔ تفث کے اصل معنی اس غبار اور میل کچیل کے ہیں جو سفر میں آدمی پر چڑھ جاتا ہے لیکن حج کے بیان میں اس سے مراد احرام کھولنا حجامت بنانا۔ نہانا وغیرہ کے ہیں وہ پابندیاں جو کہ احرام کی حالت میں عائد کی گئی تھیں جن سے بدن پر میل کچیل آجانا ایک قدرتی امر ہے۔ لیوفوا۔ فعل امر جمع مذکر غائب ایفاء (افعال) مصدر سے۔ چاہیے کہ وہ پوری کریں۔ نذورہم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان کی نذریں۔ اپنی نذریں۔ اپنی منتیں۔ ولیطوفوا۔ فعل امر۔ جمع مذکر غائب تطوف (تفعل) مصدر چاہیے کہ وہ طواف کریں (طواف زیارت یعنی طواف افاضہ کی طرف اشارہ ہے) ۔ عتیق۔ پرانا ۔ قدیم۔ دشمنوں سے محفوظ کہ اس پر کسی جابر کا قبضہ نہیں ہوا۔ عزت وشرف والا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

9 ۔ یعنی حجامت بنوائیں اور نہائیں دھوئیں اور جمرہ عقبہ کی رمی کر کے احرام کھول دیں۔ 10 ۔ مراد ہے طواف افاضہ جسے طواف زیارت بھی کہتے ہیں۔ اس پر تمام علما کا اجماع ہے کہ یہ طواف حج کا رکن ہے۔ اس سے مناسک حج کی تکمیل ہوتی ہے اور حاجی سے احرام کے سلسلے کی تمام پابندیاں اٹھ جاتی ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یہ طواف زیارت کہلاتا ہے جو کہ فرض ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَھُمْ ) (پھر اپنے میل کچیل کو دور کریں) دس تاریخ کی صبح کو مزدلفہ سے آتے ہیں اس روز منیٰ میں قربانیاں کی جاتی ہیں جس شخص نے صرف حج افراد کیا ہو وہ مزدلفہ سے آکر پہلے جمرہ عقبہ کی رمی کرے پھر حلق کرائے پھر سر منڈوائے اور اگر حج کی قربانی بھی کرنی ہو (جو اس کے لیے مستحب ہے) تو افضل یہ ہے کہ رمی کرنے کے بعد پہلے قربانی کرے پھر حلق کرائے اور جس شخص نے تمتع یا قرآن کیا ہو وہ منیٰ میں اولاً جمرہ عقبہ کی رمی کرے اس کے بعد قربانی کرے اس کے بعد حلق کرنے کے بعد ناخن وغیرہ کاٹے جائیں اسی کو فرمایا کہ پھر میل کچیل کو دور کرلیں، بالوں کو قصر کرنے یعنی کاٹنے سے بھی احرام سے نکل جاتا ہے لیکن حلق کرنا افضل ہے اور عورت کے لیے قصر ہی متعین ہے کیونکہ اس کو سر منڈانا منع ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حلق کرانے والوں کے لیے تین بار اور قصر کرنے والوں کے لیے ایک بار رحمت کی دعا دی پورے سر کا حلق یا قصر کیا جائے اگر سر نہ منڈائے اور قصر یعنی بال کٹانے کو اختیار کرے تو اس میں بھی پورے سر کے بالوں کو کاٹ دے اور یہ کاٹ دینا اس وقت معتبر ہے جبکہ بال بڑے بڑے ہوں اور بقدر ایک پورے کے پورے سر کے یا کم از کم چوتھائی سر کے بال کٹ جائیں اگر اتنے بڑے بال نہ ہوں جو ایک پورے کی لمبائی کے بقدر کٹ سکیں تو پھر حلق ہی متعین ہوگا۔ حج کے احرام سے نکلنے والے کے لیے افضل ہے کہ منیٰ میں حلق یا قصر کرے اگرچہ حدود حرم میں کسی بھی جگہ حلق یا قصر کرنا درست ہے اور یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ کچھ سر مونڈ دینا اور کچھ چھوڑ دینا منع ہے۔ تنبیہہ : لوگوں نے یہ طریقہ اختیار کر رکھا ہے کہ حج یا عمرہ کے احرام سے نکلنے کے لیے دو چار جگہ سے چند بال کٹوا لیتے ہیں یہ طریقہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اور آپ کے صحابہ سے ثابت نہیں ہے اس طرح کرنے سے احرام سے نہیں نکلتا پورے سر کا حلق کرے یا کم از کم چوتھائی سر سے ایک پورے کے برابر لمبائی میں بال کاٹ دے، اگر ایسا نہ کیا تو برابر احرام ہی میں رہے گا۔ اور چونکہ ایسے شخص کا احرام بدستور باقی رہے گا اس لیے سلے ہوئے کپڑے پہن لینا یا خوشبو لگانا یا ناخن کاٹنا یا سر کے علاوہ کسی اور جگہ کے بال مونڈنا یا کاٹنا احرام کی جنایات میں شمار ہوگا۔ (وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَھُمْ ) (اور اپنی نذروں کو پوری کریں) اس میں نذریں پوری کرنے کا حکم فرمایا ہے جس کسی عبادت کی نذر مان لی جائے اس کا پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے نماز کی، روزے کی، حج کی، عمرہ کی، صدقہ کرنے کی، قربانی کی، جو بھی نذر مان لے اسے پوری کرے۔ سورة (ھَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ ) میں ابرار یعنی نیک بندوں کی جو تعریف فرمائی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ (یُوْفُوْنَ بالنَّدْرٍ وَ یَخَافُوْنَ یَوْمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسْتَطِیْرًا) (وہ نذروں کو پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن کی سختی عام ہوگی) جو لوگ حج کو جاتے ہیں ان میں سے بعض کا تو حج وہی ہوتا ہے جو حج کی نذر کر کے واجب کرلیا تھا اور بعض لوگ عمرے کرنے کی نذریں مان لیتے ہیں بعض لوگ منیٰ میں یا مکہ میں قربانی کرنے کی نذر مانتے ہیں اس لیے احکام حج کے ذیل میں ایفائے نذر یعنی نذر پوری کرنے کا بھی حکم فرما دیا۔ (وَ لْیَطَّوَّفُوْا بالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ ) (اور بیت عتیق کا طواف کریں) بیت عتیق کعبہ شریف کے ناموں میں سے ایک نام ہے سنن ترمذی میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) نے آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشادنقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کعبہ شریف کا نام عتیق یعنی آزاد اس لیے رکھا ہے کہ اسے بڑے بڑے سر کشوں سے محفوظ فرمایا ہے کوئی جابر اور ظالم اس پر غالب نہیں ہوسکتا یہ تو حدیث مرفوع ہے نیز حضرت ابن عباس اور حضرت مجاہد سے بھی ایسا ہی منقول ہے، حج میں تین فرائض ہیں اول حج کا احرام باندھنا دوسرے حج کا احرام باندھ کر ذوالحجہ کی نویں تاریخ کو زوال کے بعد سے لے کر صبح صادق سے پہلے پہلے کسی بھی وقت عرفات میں موجود ہونا، جسے وقوف عرفات کہا جاتا ہے، تیسرے وقوف عرفات کے بعد طواف کرنا جسے طواف افاضہ، طواف زیارۃ، طواف رکن، اور طواف فرض بھی کہا جاتا ہے، مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت میں طواف زیارت ادا کرنے کا حکم ہے کیونکہ میل کچیل دور کرنے کا حکم دینے کے بعد طواف کرنے کا حکم دیا ہے یہ طواف ترتیب مسنون کے مطابق دسویں ذی الحجہ کو جمرہ عقبہ کی رمی اور پھر قربانی پھر حلق کے بعد کرنا چاہئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا ہی کیا تھا لیکن اگر کوئی شخص مزدلفہ سے سیدھا مکہ مکرمہ چلا جائے اور پہلے طواف زیارت کرلے پھر منیٰ میں آکر رمی اور ذبح اور حلق کرے تو یہ بھی جائز ہے یعنی اس سے کوئی دم واجب نہیں ہوتا اگرچہ افضلیت کے خلاف ہے، یہ طواف دس گیارہ بارہ ذی الحجہ تینوں تاریخوں میں سے کسی بھی تاریخ میں رات میں یا دن میں ادا کرلیا جائے۔ اگر کسی مجبوری کے بغیر بارہ تاریخ کا سورج غروب ہونے کے بعد کیا جو مجبوری شرعاً معتبر ہے تو دم واجب ہوگا لیکن ادا پھر بھی ہوجائے گا۔ طواف زیارت چھوڑنے یا چھوٹنے کی تلافی کسی بھی بدل یا دم سے نہیں ہوسکتی، ہاں اگر کوئی شخص وقوف عرفات کے بعد مرگیا اور مرنے سے پہلے اس نے وصیت کردی کہ میرا حج پورا کردیا جائے تو طواف زیارت کے بدلے پورا ایک بدنہ یعنی ایک سالم اونٹ یا ایک سالم گائے ذبح کر کے مسکینوں کو دے دیں۔ حج میں ایک طواف مسنون ہے اور وہ طواف قدوم ہے جو میقات کے باہر سے آنے والوں کے لیے سنت ہے اور ایک طواف واجب ہے وہ طواف و داع ہے جو طواف زیارت کرنے کے بعد مکہ معظمہ سے روانگی کے وقت کیا جاتا ہے یہ طواف ان لوگوں پر واجب ہے جو حرم اور حل سے باہر رہتے ہیں، ان طوافوں کے علاوہ جتنے چاہے نفلی طواف کرے، البتہ اگر کسی نے طواف کی نذر مان لی تھی تو نذر پورا کرنا واجب ہوجائے گا، ہر طواف میں سات ہی چکر ہیں ہر چکر حجرا سود سے شروع کرے اور اسی پر ختم کرے، تفصیلی مسائل حج کی کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں۔ فائدہ : طواف زیارت اگر بارہ تاریخ کے اندر اندر ادا نہیں کیا تو زندگی میں جب کبھی بھی ادا کرے گا ادا ہوجائے گا۔ جب تک طواف نہ کرے گا بیوی سے میل ملاپ حرام رہے گا اگر کوئی ایسی حرکت کرلی جو میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہے تو جنایت شمار ہوگی اور بعض صورتوں میں بکری اور بعض صورتوں میں بدنہ واجب ہوگا اگر حلق کرنے کے بعد طواف کرنے سے پہلے ایک ہی مجلس میں متعدد مرتبہ جماع کیا تو ایک ہی دم واجب ہوگا اور اگر متعدد مجلسوں میں جماع کیا تو ہر مجلس کے جماع پر علیحدہ علیحدہ دم ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(29) پھر قربانی کے بعد لوگوں کو چاہئے کہ اپنا میل کچیل اتار دیں اور اپنی نذریں اور منتیں پوری کریں اور اس قدیم گھر کا طواف کریں یعنی جمرئہ عقبہ کی رمی اور قربانی سے فارغ ہونے کے بعد پھر احرام کھول دیں اور سر منڈائی یا بال کتروائیں جسم پر احرام کے زمانے کا جو گردوغبار اور میل ہو اس کو صاف کریں اور نہا دھوکر سلے ہوئے کپڑے پہن لیں۔ نذور سے مراد یہ ہے کہ کوئی قربانی واجب کرلی ہو یا واجبات حج مراد ہوں یا کوئی اور منت وغیرہ جو اللہ کے لئے مانی ہو۔ قدیم گھر سے مراد کعبۃ اللہ ہے یعنی وہ طواف جس کو طوافِ زیارت کہتے ہیں اور اس کے بعد سب چیزیں حلال ہوجاتی ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جہاں سے لبیک شروع کرتے ہیں اور حجامت اور ناخن نہیں لیتے بالوں میں تیل نہیں ڈالتے بدن سے ننگے رہتے ہیں اب دسویں تاریخ سب تمام کرتے ہیں حجامت کر کر غسل کر کر کپڑے پہن کر طواف کو جاتے ہیں جس کو ذبح کرنا ہے پہلے ذبح کرلیتا ہے اور منتیں اپنی مرادوں کے واسطے جو مانا ہو وہ ادا کریں اصل منت اللہ کی ہے اور کسی کی نہیں۔ 12