Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 34

سورة الحج

وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَکًا لِّیَذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ ؕ فَاِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗۤ اَسۡلِمُوۡا ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُخۡبِتِیۡنَ ﴿ۙ۳۴﴾

And for all religion We have appointed a rite [of sacrifice] that they may mention the name of Allah over what He has provided for them of [sacrificial] animals. For your god is one God, so to Him submit. And, [O Muhammad], give good tidings to the humble [before their Lord]

اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ اِن چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں سمجھ لو کہ تم سب کا معبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہو جاؤ عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے!

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Rites of Sacrifice have been prescribed for every Nation in the World Allah tells: وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا ... And for every nation We have appointed religious ceremonies, Allah tells us that sacrifice and shedding blood in the Name of Allah has been prescribed for all nations. Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said, وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَ... كًا (And for every nation We have appointed religious ceremonies), "Festivals." Ikrimah said, "Sacrifices." وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا ... And for every nation We have appointed religious ceremonies, Zayd bin Aslam said, "This means Makkah; Allah did not appoint religious ceremonies anywhere else for any nation." ... لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الاَْنْعَامِ ... that they may mention the Name of Allah over the beast of cattle that He has given them for food. It was recorded in the Two Sahihs that Anas said, "The Messenger of Allah brought two fat, horned rams; he said Bismillah and Allahu Akbar, then he put his foot on their necks." ... فَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا ... And your God is One God, so you must submit to Him Alone. Your God is One, even though the Laws of the Prophets may vary and may abrogate one another. All of the Prophets called mankind to worship Allah Alone with no partner or associate. وَمَأ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلاَّ نُوحِى إِلَيْهِ أَنَّهُ لا إِلَـهَ إِلاَّ أَنَاْ فَاعْبُدُونِ And We did not send any Messenger before you but We revealed to him (saying): None has the right to be worshipped but I, so worship Me. (21:25) Allah says: فَلَهُ أَسْلِمُوا (so you must submit to Him Alone), meaning, submit to His commands and obey Him in all sincerity. ... وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ And give glad tidings to the Mukhbitin. Mujahid said about Mukhbitin, "Those who find contentment in their faith." Ath-Thawri said, "Those who find contentment in their faith and who accept the decree of Allah and submit to Him." It is better to interpret it by what comes next, which is:   Show more

قربانی ہر امت پر فرض قرار دی گئی فرمان ہے کہ کل امتوں میں ہر مذہب میں ہر گروہ کو ہم نے قربانی کا حکم دیا تھا ۔ ان کے لئے ایک دن عید کا مقرر تھا ۔ وہ بھی اللہ کے نام ذبیحہ کرتے تھے ۔ سب کے سب مکے شریف میں اپنی قربانیاں بھیجتے تھے ۔ تاکہ قربانی کے چوپائے جانوروں کے ذبح کرنے کے وقت اللہ کا نام ذ... کر کریں ۔ حضور علیہ السلام کے پاس دو مینڈھے چت کبرے بڑے بڑے سینگوں والے لائے گئے آپ نے انہیں لٹا کر ان کی گردن پر پاؤں رکھ کر بسم اللہ واللہ اکبر پڑھ کر ذبح کیا ۔ مسند احمد میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ نے جواب دیا تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ۔ پوچھا ہمیں اس میں کیا ملتا ہے ؟ فرمایا ہربال کے بدلے ایک نیکی ۔ دریافت کیا اور اون کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا ان کے روئیں کے بدلے ایک نیکی ۔ اسے امام ابن جریر رحمتہ اللہ بھی لائے ہیں ۔ تم سب کا اللہ ایک ہے گو شریعت کے بعض احکام ادل بدل ہوتے رہے لیکن توحید میں ، اللہ کی یگانگت میں ، کسی رسول کو کسی نیک امت کو اختلاف نہیں ہوا ۔ سب اللہ کی توحید ، اسی کی عبادت کی طرف تمام جہان کو بلاتے رہے ۔ سب پر اول وحی یہی نازل ہوتی رہی ۔ پس تم سب اس کی طرف جھک جاؤ ، اس کے ہوکر رہو ، اس کے احکام کی پابندی کرو ، اس کی اطاعت میں استحکام کرو ۔ جو لوگ مطمئن ہیں ، جو متواضع ہیں ، جو تقوے والے ہیں ، جو ظلم سے بیزار ہیں ، مظلومی کی حالت میں بدلہ لینے کے خوگر نہیں ، مرضی مولا ، رضائے رب پر راضی ہیں انہیں خوشخبریاں سنادیں ، وہ مبارکباد کے قابل ہیں ۔ جو ذکر الٰہی سنتے ہیں دل نرم ، اور خوف الٰہی سے پر کرکے رب کی طرف جھک جاتے ہیں ، کٹھن کاموں پر صبر کرتے ہیں ، مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں ۔ امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں واللہ اگر تم نے صبر وبرداشت کی عادت نہ ڈالی تو تم برباد کردیئے جاؤگے ولامقیمی کی قرأت اضافت کے ساتھ تو جمہور کی ہے ۔ لیکن ابن سمیفع نے والمقیمین پڑھا ہے اور الصلوۃ کا زبر پڑھا ہے ۔ امام حسن نے پڑھا تو ہے نون کے حذف اور اضافت کے ساتھ لیکن الصلوۃ کا زبر پڑھا ہے اور فرماتے ہیں کہ نون کا حذف یہاں پر بوجہ تخفیف کے ہے کیونکہ اگر بوجہ اضافت مانا جائے تو اس کا زبر لازم ہے ۔ اور ہوسکتا ہے کہ بوجہ قرب کے ہو ۔ مطلب یہ ہے کہ فریضہ الٰہی کے پابند ہیں اور اللہ کا حق ادا کرنے والے ہیں اور اللہ کا دیا ہوا دیتے رہتے ہیں ، اپنے گھرانے کے لوگوں کو ، فقیروں محتاجوں کو اور تمام مخلوق کو جو بھی ضرورت مند ہوں سب کے ساتھ سلوک واحسان سے پیش آتے ہیں ۔ اللہ کی حدود کی حفاظت کرتے ہیں منافقوں کی طرح نہیں کہ ایک کام کریں تو ایک کو چھوڑیں ۔ سورۃ براۃ میں بھی یہی صفتیں بیان فرمائی ہیں اور وہیں پوری تفسیر بھی بحمد اللہ ہم کر آئے ہیں   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

34۔ 1 منسک۔ نسک ینسک کا مصدر ہے معنی ہیں اللہ کے تقرب کے لیے قربانی کرنا ذبیحۃ (ذبح شدہ جانور) کو بھی نسیکۃ کہا جاتا ہے جس کی جمع نسک ہے اس کے معنی اطاعت و عبادت کے بھی ہیں کیونکہ رضائے الٰہی کے لئے جانور کی قربانی کرنا عبادت ہے۔ اسی لئے غیر اللہ کے نام پر یا ان کی خوشنودی کے لئے جانور ذبح کرنا غیر ... اللہ کی عبادت ہے، جہاں حج کے اعمال و ارکان ادا کئے جاتے ہیں، جیسے عرفات، مزدلفہ، منٰی اور مکہ۔ مطلق ارکان و اعمال حج کو بھی مناسک کہہ لیا جاتا ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ ہم پہلے بھی ہر مذہب والوں کے لئے ذبح کا یا عبادت کا یہ طریقہ مقرر کرتے آئے ہیں تاکہ وہ اس کے ذریعے سے اللہ کا قرب حاصل کرتے رہیں۔ اور اس میں حکمت یہ ہے کہ ہمارا نام لیں۔ یعنی بسم اللہ واللہ اکبر کہہ کر ذبح کریں یا ہمیں یاد رکھیں۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٢] اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام انبیاء کی شریعتوں میں اللہ کے حضور قربانی پیش کرنا ایک لازمی جزو رہا ہے۔ اگرچہ اس قربانی کی تفصیلات اور جزئیات میں اختلاف رہا ہے۔ اب اگر کوئی شخص اللہ کے علاوہ کسی دوسری چیز کے سامنے یا دوسری چیز کے لئے قربانی پیش کرے گا۔ یہ تو شرک فی العبادت ہے کیونکہ قربانی اور نذر و...  نیاز سب مالی عبادتیں ہیں۔ لہذا یہ عبادات کسی دوسرے کے لئے بجا لانا یا ان میں کسی دوسرے کو شریک کرنا عین شرک ہے۔ اسی لئے ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ تمہارا الٰہ تو صرف ایک ہی الٰہ ہے۔ پھر دوسروں کو اس کی عبادت میں کیوں شریک بناتے ہو ؟[٥٣] یہاں لفظ مخبتین استعمال ہوا ہے۔ اور خبت النار بمعنی آگ کا شعلہ ختم ہوجانا اور کوئلہ یا انگارہ پر ساکھ کا پردہ چڑھ جاتا ہے۔ (مفردات القرآن) اور مخبت سے مراد ایسا شخص ہے جس نے اللہ کے احکام کے سامنے اپنے پندار نفس اور خواہشات نفس کو ختم کردیا ہو۔ نیز اس کے معنوں میں عاجزی اور نرمی اور تواضع سب کچھ شامل ہوتا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا : ” مَنْسَكًا “ کے تین معنی ہوسکتے ہیں، عبادت، عبادت کی جگہ اور قربانی۔ یہاں آخری معنی زیادہ موزوں ہے، کیونکہ آگے جانوروں پر اللہ کا نام لینے کا ذکر آ رہا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے بطور نیاز قربانی کرنا تمام آسمانی شریعتوں کے نظام عبادت کا لازمی جز رہا ہے۔ اسل... ام میں بھی یہ بطور عبادت مقرر کی گئی ہے، اس میں حاجی، غیر حاجی کی کوئی قید نہیں ہے۔ چناچہ انس (رض) بیان کرتے ہیں : ( ضَحَّی النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ 8 بِکَبْشَیْنِ أَمْلَحَیْنِ فَرَأَیْتُہُ وَاضِعًا قَدَمَہُ عَلٰی صِفَاحِھِمَا یُسَمِّيْ وَیُکَبِّرُ فَذَبَحَھُمَا بِیَدِہٖ ) [ بخاري، الأضاحی، باب من ذبح الأضاحي بیدہ : ٥٥٥٨۔ مسلم : ١٩٦٦ ] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سینگوں والے دو چتکبرے مینڈھے قربانی کیے، میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے پہلوؤں پر اپنا پاؤں رکھا اور ” بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ “ پڑھ کر ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔ “ یاد رہے مکہ میں حج یا عمرہ پر کی جانے والی قربانی کو ہدی اور دوسرے مقامات پر کی جانے والی قربانی کو اضحیہ کہا جاتا ہے۔ 3 تفسیر ثنائی میں ہے : ” قرآن مجید کے اس دعویٰ (کہ ہر قوم میں قربانی کا حکم ہے) کا ثبوت آج بھی مذہبی کتب میں ملتا ہے۔ عیسائیوں کی بائبل تو قربانی کے احکام سے بھری پڑی ہے۔ تورات کی دوسری کتاب سفر خروج میں عموماً یہی احکام ہیں۔ تعجب تو یہ ہے کہ ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔ ہندوؤں اور آریوں کے مسلمہ پیشوا منوجی کہتے ہیں : ” یگیہ (قربانی) کے واسطے اور نوکروں کے کھانے کے واسطے اچھے ہرن اور پرند مارنا چاہیے۔ اگلے زمانے میں رشیوں نے یگیہ کے لیے کھانے کے لائق ہرن اور پکشیوں کو مارا ہے۔ شری برہماجی نے آپ سے آپ یگیہ (قربانی) کے واسطے پشو (حیوانوں) کو پیدا کیا۔ اس سے یگیہ جو قتل ہوتا ہے وہ بدھ نہیں کہلاتا۔ حیوان، پرند، کچھوا وغیرہ، یہ سب یگیہ کے واسطے مارے جانے سے اعلیٰ ذات کو دوسرے جنم میں پاتے ہیں۔ “ [ اوہیائے : ٥۔ شلوک : ٢٢، ٢٣، ٣٩، ٤٠ ] گو آج کل کے ہندو یا آریہ ایسے مقامات کی تاویل یا تردید کریں مگر صاف الفاظ کے ہوتے ہوئے ان کی تاویل کون سنتا ہے۔ اس جگہ ہم نے صرف یہ دکھانا تھا کہ قرآن شریف نے جو دعویٰ کیا ہے وہ بحمد اللہ اپنا ثبوت رکھتا ہے، باقی قربانی کی علت اور وجہ کے لیے ہماری کتب مباحثہ، حق پر کاش، ترک اسلام وغیرہ ملاحظہ ہوں۔ “ لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ ۔۔ : یعنی ہم نے ہر امت کے لیے ایک قربانی مقرر کی ہے، تاکہ وہ ہمارے عطا کردہ پالتو چوپاؤں پر اللہ کا نام لے کر انھیں قربان کریں، نہ کہ کفار کی طرح ہمارے عطا کردہ چوپاؤں کو بتوں اور غیر اللہ کے آستانوں پر انھیں خوش کرنے کی نیت سے ذبح کریں۔ فَاِلٰـهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗٓ اَسْلِمُوْا : پہلی امتوں پر قربانی مقرر کرنے کے ذکر کے بعد اب ہماری امت کو خطاب ہے کہ پہلی امتوں کا الٰہ اور تمہارا الٰہ ایک ہی الٰہ ہے، سو تم بھی پوری طرح اسی کے فرماں بردار ہوجاؤ اور اپنے آپ کو پوری طرح اس کے سپرد کر دو اور اپنی ہر عبادت، جس میں قربانی بھی ہے، صرف اسی کے لیے کرو۔ اگر کسی اور کے لیے کرو گے تو اس کی عبادت میں شرک کے مجرم ٹھہرو گے۔ مگر اب بعض مسلمان کہلانے والوں کا یہ حال ہوگیا ہے کہ عید الاضحی پر قربانی کو بھی عبد القادر جیلانی کی گیا رھویں قرار دے کر ان کے نام کا ختم دیتے ہیں، اس سے بڑھ کر شرک کیا ہوگا ؟ ۭ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ :” الْمُخْبِتِيْنَ “ باب افعال ( إِخْبَاتٌ ) سے اسم فاعل ہے۔ ” خَبْتٌ“ نیچی جگہ کو کہتے ہیں۔ ” مُخْبِتٌ“ کا معنی نیچی جگہ میں چلنے والا ہے، پھر یہ لفظ استعارہ کے طور پر تواضع اور عاجزی کرنے والے کے لیے استعمال ہونے لگا۔ بعض حضرات نے اسے ” خَبَتِ النَّارُ “ (آگ بجھ گئی) سے مشتق مانا ہے، حالانکہ اس کا اصل ” خ ب و “ ہے، جبکہ ” الْمُخْبِتِيْنَ “ کا اصل ” خ ب ت “ ہے۔ یعنی ان عاجزی کرنے والوں کو بشارت دے دے کہ جن کے ہاں اللہ کے حضور عاجزی ہی عاجزی ہے اور ذرہ بھر تکبر نہیں۔ یہاں مراد حج و عمرہ کے لیے آنے والے ہیں کہ ان کی کفن جیسی ان سلی چادروں، ننگے سروں، ان کی وضع قطع، ان کی لبیک کی صداؤں، منیٰ ، مزدلفہ اور عرفات میں وقوف، ان کے طواف، سعی اور ان کی قربانیوں، غرض ہر چیز سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے سامنے پامال ہوچکے ہیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا (And for every Ummah We prescribed the act of sacrifice 22:34) The words مَنسَكً and نسَكً means several things in Arabic such as sacrifice of animals, the rites of pilgrimage, and also worship of Allah Ta’ ala. This word has been used in the Qur&an at several places and conveys one of the three meanings. In the present context, the word can carr... y all the three meanings. Mujahid and some other commentators think that here the word مَنسَكً refers to the sacrifice of the animals in which case the verse would mean that the obligation to offer sacrifice, which has been placed on this Ummah is nothing new, because all the other peoples were likewise bound to do so. On the other hand, according to Qatadah the word means the rites of the pilgrimage, and thus the verse would mean that these rites which have been prescribed for the present Ummah were made obligatory on the people of earlier ages also. Ibn ` Arafah has interpreted the word مَنسَكً to mean worship of Allah, and so the meaning of the verse would be that the worship of Allah was made obligatory on all the peoples of bygone ages and though there were differences in the forms of worship, yet in essence it remained unchanged. وَبَشِّرِ‌ الْمُخْبِتِينَ (And give good news to those who turn to Him in humbleness). The word خَبت means ‘a depressed tract of land’ and means ` a person who deems himself humble and lowly&. According to ` Amr bin Aws مُخْبِتِينَ are those people who do not wrong others and if somebody wrongs them, they do not seek revenge. Sufyan has observed that they are the people who are contented with Allah&s will and remain agreeable in all circumstances, comfort or trouble and poverty or affluence.  Show more

خلاصہ تفسیر اور (اوپر جو قربانی کا حرم میں ذبح کرنے کا حکم ہے اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ مقصود اصلی تعظیم حرم کی ہے بلکہ اصل مقصود اللہ ہی کی تعظیم اور اس کے ساتھ تقرب ہے اور نہ مذبوح اور مذبح اس کا ایک آلہ اور ذریعہ ہے اور تخصیص بعض حکمتوں کی وجہ سے ہے اور اگر یہ تخصیصات مقصود اصلی ہوتیں تو کسی شر... یعت میں نہ بدلتیں مگر ان کا بدلتا رہنا ظاہر ہے البتہ تقرب الی اللہ جو اصل مقصود تھا وہ سب شرائع میں محفوظ رہا چنانچہ) ہم نے (جتنے اہل شرائع گزرے ہیں ان میں سے) ہر امت کے لئے قربانی کرنا اس غرض سے مقرر کیا تھا کہ وہ ان مخصوص چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو عطا فرمایا تھا (پس اصلی مقصود یہ نام لینا تھا) سو (اس سے یہ بات نکل آئی کہ) تمہارا معبود (حقیقی) ایک ہی خدا ہے (جس کا ذکر کر کے سب کو تقرب کا حکم ہوتا رہا) تو تم ہمہ تن اسی کے ہو کر رہو (یعنی موحد خالص رہو، کسی مکان وغیرہ کو معظم بالذات سمجھنے سے ذرہ برابر شرک کا شائبہ اپنے عمل میں نہ ہونے دو ) اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو لوگ ہماری اس تعلیم پر عمل کریں) آپ (ایسے احکام الٰہیہ کے سامنے) گردن جھکا دینے والوں کو (جنت وغیرہ کی) خوشخبری سنا دیجئے جو (اس توحید خالص کی برکت سے) ایسے ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ (کے احکام وصفات اور وعدہ وعید) کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جو ان مصیبتوں پر کہ ان پر پڑتی ہیں صبر کرتے ہیں اور جو نماز کی پابندی کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (بقدر حکم اور توفیق کے) خرچ کرتے ہیں (یعنی توحید خالص ایسی بابرکت چیز ہے کہ اس کی بدولت کمالات نفسانیہ و بدنیہ و مالیہ پیدا ہوجاتے ہیں) اور (اسی طرح اوپر جو تعظیم شعائر اللہ الخ میں بعض انتفاعات کا ممنوع ہونا معلوم ہوا ہے اس سے بھی ان قربانیوں کے معظم بالذات ہونے کا شبہ نہ کیا جاوے کیونکہ اس سے بھی اصل وہی اللہ تعالیٰ کی اور اس کے دین کی تعظیم ہے اور یہ تخصیصات اس کا ایک طریق ہے پس) قربانی کے اونٹ اور گائے کو (اور اسی طرح بکری بھیڑ کو بھی) ہم نے اللہ (کے دین) کی یادگار بنایا ہے (کہ اس کے متعلق احکام کے علم اور عمل سے اللہ کی عظمت اور دین کی وقعت ظاہر ہوتی ہے کہ اس کے نامزد چیز سے منتفع ہونے میں مالک مجازی کی رائے اہل اعتبار نہ رہے جس سے اس کی پوری عبدیت اور مالک حقیقی کی معبودیت ظاہر ہوتی ہے اور اس حکمت دینی کے علاوہ) ان جانوروں میں تمہارے (اور بھی) فائدے ہیں (مثلاً دنیوی فائدہ کھانا اور کھلانا اور اخروی فائدہ ثواب ہے) سو (جب اس میں یہ حکمتیں ہیں تو) تم ان پر کھڑے کر کے (ذبح کرنے کے وقت) اللہ کا نام لیا کرو (یہ صرف اونٹوں کے اعتبار سے فرمایا کہ ان کا کھڑے کر کے ذبح کرنا بوجہ آسانی ذبح و خروج روح کے بہتر ہے پس اس سے تو اخروی فائدہ یعنی ثواب حاصل ہوا اور نیز اللہ کی عظمت ظاہر ہوئی کہ اس کے نام پر ایک جان قربان ہوئی جس سے اس کا خالق اور اس کا مخلوق ہونا ظاہر کردیا گیا) پس جب وہ (کسی) کروٹ کے بل گر پڑیں (اور ٹھنڈے ہوجاویں) تو تم خود بھی کھاؤ اور بےسوال اور سوالی (محتاج) کو (جو کہ بائس فقیر کی دو قسمیں ہیں) بھی کھانے کو دو ۔ (کہ یہ دنیوی فائدہ بھی ہے اور) ہم نے ان جانوروں کو اس طرح تمہارے زیر حکم کردیا (کہ تم باوجود تمہارے ضعف اور ان کی قوت کے اس طرح اس کے ذبح پر قادر ہوگئے) تاکہ تم (اس تسخیر پر اللہ تعالیٰ کا) شکر کرو (یہ حکمت مطلق ذبح میں ہے۔ قطع نظر اس کی قربانی ہونے کے اور آگے ذبح کی تخصیصات کے مقصود بالذات نہ ہونے کو ایک عقلی قاعدے سے بیان فرماتے ہیں کہ دیکھو ظاہر بات ہے کہ) اللہ تعالیٰ کے پاس نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون، و لیکن اس کے پاس تمہارا تقویٰ (کہ نیت تقرب و اخلاص اس کے شعبوں میں سے ہے البتہ) پہنچتا ہے (پس وہی تعظیم الٰہی کی مقصودیت ثابت ہوگئی اور جیسے اوپر كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰهَا الخ میں تسخیر کی ایک عام حکمت یعنی قربانی ہونے کی خصوصیت سے قطع نظر کرنے کے اعتبار سے بیان ہوئی تھی آگے تسخیر کی ایک خاص حکمت یعنی لحاظ قربانی ہونے کے ارشاد فرماتے ہیں کہ) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارا زیر حکم کردیا کہ تم (اللہ کی راہ میں ان کو قربانی کر کے) اس بات پر اللہ کی بڑائی (بیان) کرو کہ اس نے تم کو (اس طرح قربانی کرنے کی) توفیق دی (ورنہ اگر توفیق الٰہی رہبر نہ ہوتی تو یا تو ذبح ہی میں شبہات نکال کر اس عبادت سے محروم رہتے اور یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے لگتے) اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اخلاص والوں کو خوشخبری سنا دیجئے (اس سے پہلے خوشخبری اخلاص کے شعبوں پر تھی یہ خاص اخلاص پر ہے) معارف و مسائل وَلِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لفظ منسک اور نسک، عربی زبان کے اعتبار سے کئی معنے کے لئے بولا جاتا ہے۔ ایک معنی جانور کی قربانی کے دوسرے معنے تمام افعال حج کے اور تیسرے معنی مطلقاً عبادت کے ہیں۔ قرآن کریم میں مختلف مواقع پر یہ لفظ ان تین معنے میں استعمال ہوا ہے۔ یہاں تینوں معنے مراد ہو سکتے ہیں اسی لئے ائمہ تفسیر میں سے مجاہد وغیرہ نے اس جگہ منسک کو قربانی کے معنے میں لیا ہے۔ اس پر معنے آیت کے یہ ہوں گے کہ قربانی کا حکم جو اس امت کے لوگوں کو دیا گیا ہے کوئی نیا حکم نہیں۔ پچھلی سب امتوں کے بھی ذمہ قربانی کی عبادت لگائی گئی تھی۔ اور قتادہ نے دوسرے معنے میں لیا ہے جس پر مراد آیت کی یہ ہوگی کہ افعال حج جیسے اس امت پر عائد کئے گئے ہیں پچھلی امتوں پر بھی حج فرض کیا گیا تھا۔ ابن عرفہ نے تیسرے معنے لئے ہیں اس اعتبار سے مراد آیت کی یہ ہوگی کہ ہم نے اللہ کی عبادت گزاری سب پچھلی امتوں پر بھی فرض کی تھی طریقہ عبادت میں کچھ کچھ فرق سب امتوں میں رہا ہے مگر اصل عبادت سب میں مشترک رہی ہے۔ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ لفظ خبت عربی زبان میں پست زمین کے معنی میں آتا ہے اسی لئے خبیت اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اپنے آپ کو حقیر سمجھے۔ اسی لئے حضرت قتادہ و مجاہد نے مخبتین کا ترجمہ مواضعین سے کیا ہے۔ عمرو بن اوس فرماتے ہیں کہ مخبتین وہ لوگ ہیں جو لوگوں پر ظلم نہیں کرتے اور اگر کوئی ان پر ظلم کرے تو اس سے بدلہ نہیں لیتے۔ سفیان نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی قضاء و تقدیر پر راحت و کلفت فراخی اور تنگی ہر حال میں راضی رہتے ہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلِكُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللہِ عَلٰي مَا رَزَقَہُمْ مِّنْۢ بَہِيْمَۃِ الْاَنْعَامِ۝ ٠ۭ فَاِلٰـہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْا ۝ ٠ ۭ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ۝ ٣٤ۙ الأُمّة : كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأم... ر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام/ 38] الامۃ ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ } ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں نسك النُّسُكُ : العبادةُ ، والنَّاسِكُ : العابدُ واختُصَّ بأَعمالِ الحجِّ ، والمَنَاسِكُ : مواقفُ النُّسُك وأعمالُها، والنَّسِيكَةُ : مُخْتَصَّةٌ بِالذَّبِيحَةِ ، قال : فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ [ البقرة/ 196] ، فَإِذا قَضَيْتُمْ مَناسِكَكُمْ [ البقرة/ 200] ، مَنْسَكاً هُمْ ناسِكُوهُ [ الحج/ 67] . ( ن س ک ) النسک کے معنی عبادک کے ہیں اور ناسک عابد کو کہا جاتا ہے ، مگر یہ لفظ ارکان حج کے ادا کرنے کے ساتھ مخصوص ہوچکا ہے ۔ المنا سک اعمال حج ادا کرنے کے مقامات النسیکۃ خاص کر ذبیحہ یعنی قربانی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں سے : ۔ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ [ البقرة/ 196] تو اس کے بدلے روزے رکھے یا صد قے دے یا قر بانی کرے ۔ فَإِذا قَضَيْتُمْ مَناسِكَكُمْ [ البقرة/ 200] پھر جب حج کے تمام ارکان پورے کر چکو ۔ مَنْسَكاً هُمْ ناسِكُوهُ [ الحج/ 67] ایک شریعت مقرر کردی جس پر وہ چلتے ہیں ۔ اسْمُ والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة/ 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود/ 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل/ 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة/ 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها . وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین : أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس . والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ. ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف/ 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد/ 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد/ 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن/ 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی/ 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف/ 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا [ مریم/ 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى [ النجم/ 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره . الاسم کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود/ 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل/ 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة/ 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف/ 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد/ 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد/ 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن/ 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی/ 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف/ 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم/ 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم/ 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو بهم البُهْمَة : الحجر الصلب، وقیل للشجاع بهمة تشبيها به، وقیل لكلّ ما يصعب علی الحاسة إدراکه إن کان محسوسا، وعلی الفهم إن کان معقولا : مُبْهَم . ويقال : أَبْهَمْتُ كذا فَاسْتَبْهَمَ ، وأَبْهَمْتُ الباب : أغلقته إغلاقا لا يهتدی لفتحه، والبَهيمةُ : ما لا نطق له، وذلک لما في صوته من الإبهام، لکن خصّ في التعارف بما عدا السباع والطیر . فقال تعالی: أُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِيمَةُ الْأَنْعامِ [ المائدة/ 1] ، ولیل بَهِيم، فعیل بمعنی مُفْعَل «3» ، قد أبهم أمره للظلمة، أو في معنی مفعل لأنه يبهم ما يعنّ فيه فلا يدرك، وفرس بَهِيم : إذا کان علی لون واحد لا يكاد تميّزه العین غاية التمييز، ومنه ما روي أنه : «يحشر الناس يوم القیامة بُهْماً» «4» أي : عراة، وقیل : معرّون مما يتوسّمون به في الدنیا ويتزینون به، والله أعلم . والبَهْم : صغار الغنم، والبُهْمَى: نبات يستبهم منبته لشوکه، وقد أبهمت الأرض : كثر بهمها «5» ، نحو : أعشبت وأبقلت، أي : كثر عشبها . ( ب ھ م ) البھمۃ کے معنی ٹھوس چنان کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر بہادر آدمی کو بھمۃ کہا جاتا ہے نیز ہر وہ حسی یا عقلی چیز جسکا عقل و حواس سے ادراک نہ ہوسکے اسے مبھم کہا جاتا ہے ۔ ابھمت کذا مبہم کرنا اس کا مطاوع استبھم ہے ۔ ابھمت الباب دروازے کو اس طرح بند کرنا کہ کھل نہ سکے ۔ البھیمۃ چوپایہ جانور کیونکہ اس کی صورت مبہم ہوتی ہے ۔ مگر عرف میں درند اور پرند کے علاوہ باقی جانوروں کو بہیمہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے أُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِيمَةُ الْأَنْعامِ [ المائدة/ 1] تمہارے لئے چار پاے جانور ( جو چرنے والے ہیں ) حلال کردیئے گئے ہیں ۔ سیاہ رات فعیل بمعنی مععل ہے اور تاریکی کے باعث اس کا معاملہ بھی چونکہ مبہم ہوتا ہے اس لئے اسے بھیم کہا جاتا ہے یا فعیل بمعنی مفعل ہے چونکہ وہ چیزوں کو اندر چھپا لیتی ہے اس لئے اسے بھیم کہا جاتا ہے فرس بھیم یک رنگ گھوڑا جس کی اچھی طرح پہچان نہ ہو سکے اسی سی ایک رایت میں ہے کے دن لوگ ننگے بدن اٹھیں گے بعض نے کہا ہے کہ دنیای زیب وزینت اور آرائش سے عاری ہوں گے واللہ اعلم |"۔ البھم ۔ بھیڑ بکری کے بچے ۔ واحد بھمۃ البھمی ایک قسم کی گھاس میں جس کے پیچدار ہونے کی وجہ اس کی جڑیں معلوم نہیں ہوسکتیں کہ کہاں میں ابھمت الارج زمین میں بھمی گھاس کا بکثرت ہونا جیسا کہ کے معنی گھاس اور سبزی کے بکثرت ہونے کے ہیں ۔ نعم ( جانور) [ والنَّعَمُ مختصٌّ بالإبل ] ، وجمْعُه : أَنْعَامٌ ، [ وتسمیتُهُ بذلک لکون الإبل عندهم أَعْظَمَ نِعْمةٍ ، لكِنِ الأَنْعَامُ تقال للإبل والبقر والغنم، ولا يقال لها أَنْعَامٌ حتی يكون في جملتها الإبل ] «1» . قال : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] ، وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام/ 142] ، وقوله : فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس/ 24] فَالْأَنْعَامُ هاهنا عامٌّ في الإبل وغیرها . ( ن ع م ) نعام النعم کا لفظ خاص کر اونٹوں پر بولا جاتا ہے اور اونٹوں کو نعم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ عرب کے لئے سب سے بڑی نعمت تھے اس کی جمع انعام آتی ہے لیکن انعام کا لفظ بھیڑ بکری اونٹ اور گائے سب پر بولا جاتا ہے مگر ان جانوروں پر انعام کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے ۔ جب اونٹ بھی ان میں شامل ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے ۔ وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام/ 142] اور چار پایوں میں بوجھ اٹھا نے والے ( یعنی بڑے بڑے بھی ) پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے ( یعنی چھوٹے چھوٹے بھی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس/ 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں ۔ مل کر نکلا ۔ میں انعام کا لفظ عام ہے جو تمام جانوروں کو شامل ہے ۔ بشر واستبشر : إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] . ( ب ش ر ) البشر التبشیر کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : { إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ } ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر/ 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ { فَبَشِّرْ عِبَادِ } ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ { فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ } ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔ لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔ وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا خبت الخَبْتُ : المطمئن من الأرض، وأَخْبَتَ الرّجل : قصد الخبت، أو نزله، نحو : أسهل وأنجد، ثمّ استعمل الإخبات استعمال اللّين والتّواضع، قال اللہ تعالی: وَأَخْبَتُوا إِلى رَبِّهِمْ [هود/ 23] ( خ ب ت ) الخبت ۔ نشیبی اور نرم زمین کو کہتے ہیں اور اخبت الرجل کے معنی نشیبی اور نرم زمین کا قصد کرنے یا وہاں اترنے کے ہیں ( جیسے اسھل وانجد ) اس کے بعد لفظ الاخبات ( افعال ) نرمی اور تواضع کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَأَخْبَتُوا إِلى رَبِّهِمْ [هود/ 23] اپنے پروردگار کے آگے عاجزی کی ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٤) اور ہم نے مسلمانوں میں ہر ایک کے لیے قربانی کرنا اور ان کے حج وعمرہ کے لیے قربانی کی جگہ اس لیے مقرر کی ہے تاکہ وہ ان حلال جانوروں پر اللہ تعالیٰ کا نام لیں جو اس نے ان کو عطا کیے ہیں۔ سو تمہارا معبود ایک ہی اللہ وحدہ لاشریک ہے سو مؤحد خالص بن کر اسی کی عبادت کرو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(فَاِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْا ط) ” اس کے ہر حکم کو تسلیم کرو اور اس کی مکمل اطاعت قبول کرو۔ ایسا نہ ہو کہ ایک طرف تو قربانی دی جا رہی ہو اور دوسری طرف حرام خوری بھی جا ری ہو۔ حرام کے مال سے ہی قربانی کے جانور خریدے جائیں اور پھر فوٹو بنوا کر اخباروں میں خبریں لگوائی جائیں۔ یہ س... ب کچھ اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ہے۔ اس کو معبود ماننا ہے تو پھر اس کی مکمل اطاعت قبول کرو اور اس کی حرام کردہ چیزوں میں منہ نہ مارو۔ (وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ ) ” ” اخبات “ کے معنی اپنے آپ کو پست کرنے اور تواضع و انکساری اختیار کرنے کے ہیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

64. This verse implies two things. (1) Sacrifice has been an essential part of the worship of One Allah in all the revealed religions. In order to inculcate Tauhid, Allah prohibited sacrifice for anyone other than Himself. This was in keeping with the other prohibitions which were made for others than Allah. For instance, prostration before anyone other than Allah, making vows for others than All... ah, visiting holy places others than those prescribed by Allah, fasting in the name of others than of Allah, etc., were all prohibited. (2) The other thing which has been common in all the revealed religions was the object of the sacrifice in the name of Allah though its details have been different in different religions, times and countries. 65. The Arabic word mukhbitin has no equivalent in English. It includes those who; (1) Give up pride, arrogance and adopt humility before Allah. (2) Surrender themselves to His service and slavery. (3) Accept His decrees sincerely.  Show more

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :64 اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ۔ ایک یہ کہ قربانی تمام شرائع الہٰیہ کے نظام عبادت کا ایک لازمی جز رہی ہے ۔ توحید فی العبادت کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان نے جن جن صورتوں سے غیر اللہ کی بندگی کی ہے ان سب کو غیر اللہ کے لیے ممنوع کر کے صرف اللہ کے لیے م... ختص کر دیا جائے ۔ مثلاً انسان نے غیر اللہ کے آگے رکوع و سجود کیا ہے ۔ شرائع الہٰیہ نے اسے اللہ کے لیے خاص کر دیا ۔ انسان نے غیر اللہ کے آگے مالی نذرانے پیش کیے ہیں ۔ شرائع الٰہیہ نے انہیں ممنوع کر کے زکوٰۃ و صدقہ اللہ کے لیے واجب کر دیا ۔ انسان نے معبودان باطل کی تیرتھ یاترا کی ہے ۔ شرائع الٰہیہ نے کسی نہ کسی مقام کو مقدس یا بیت اللہ قرار دے کر اس کی زیارت اور طواف کا حکم دے دیا ۔ انسان نے غیر اللہ کے نام کے روزے رکھے ہیں ۔ شرائع الٰہیہ نے انہیں بھی اللہ کے لیے مختص کر دیا ۔ ٹھیک اسی طرح انسان اپنے خود ساختہ معبودوں کے لیے جانوروں کی قربانیاں بھی کرتا رہا ہے اور شرائع الٰہیہ نے ان کو بھی غیر کے لیے قطعاً حرام اور اللہ کے یلے واجب کر دیا ۔ دوسری بات اس آیت سے یہ معلوم ہوئی کہ اصل چیز اللہ کے نام پر قربانی ہے نہ کہ اس قاعدے کی یہ تفصیلات کہ قربانی کب کی جائے اور کہاں کی جائے اور کس طرح کی جائے ۔ ان تفصیلات میں مختلف زمانوں اور مختلف قوموں اور ملکوں کے انبیاء کی شریعتوں میں حالات کے لحاظ سے اختلافات رہے ہیں ، مگر سب کی روح اور سب کا مقصد ایک ہی رہا ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٤۔ ٣٥:۔ اوپر قربانی کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں فرمایا اللہ کے نام پر جانوروں کو ذبح کرنے کا حکم کچھ اس امت کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ اور دیندار امتوں میں بھی خدا کا یہی حکم تھا تاکہ لوگ اللہ کے دیئے ہوئے جانوروں میں سے اس کے نام پر قربانی کریں اور عقبیٰ کا اجر کمائیں ‘ مشرکین مکہ بتوں کے نام پر جان... وروں کو ذبح کرتے اور طرح طرح کے شرک میں گرفتار تھے اس لیے فرمایا جس نے ان لوگوں کو ان کی سب ضرورت کی چیزوں کو اس طرح پیدا کیا کہ اس میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے تو انسان پر ہر طرح سے اس کی فرما نبرداری واجب ہے ‘ اس کی فرما نبرداری میں کسی دوسرے کو شریک کرنا بڑے وبال کے بات ہے۔ پھر فرمایا اے رسول اللہ کے اگر یہ مشرک لوگ قرآن کی نصیحت کو نہ مانیں تو تم فقط ان لوگوں کو عقبیٰ کی بہبودی کی خوشخبری سنا دو جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور مشرک ان کو ستاتے ہیں تو اس پر اور ہر طرح کی تکلیف پر صبر کرتے ہیں اور نماز کے پابند رہ کر قربانی اور سوائے قربانی کے سب صدقہ خیرات خاص اللہ ہی کے نام پر کرتے ہیں۔ مشرکین مکہ کے ستانے کے سبب اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کی سکونت کو چھوڑ کر مدینہ کی سکونت جو اختیار کی ‘ اسی کو ہجرت اور ہجرت کرنے والوں کو مہاجر کہتے ہیں۔ فتح مکہ سے پہلے یہ حکم تھا کہ ہر مسلمان مکہ کو چھوڑ کر دین اسلام کے کاموں میں مدد دینے کے لیے اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہو ‘ اس ہجرت پر بہت بڑے اجر کا وعدہ جگہ جگہ قرآن شریف میں اگرچہ آیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اجر کا مدار آدمی کی نیت پر ہے ‘ اسی واسطے صحیح بخاری ومسلم کی حضرت عمر (رض) کی حدیث ١ ؎ میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ سوائے دین کی مدد کے اور کسی نیت سے جو شخص ہجرت کرے گا تو اگرچہ ظاہر میں وہ شخص مہاجر کہلاوے لیکن عقبیٰ میں ایسے شخص کو ہجرت کا کچھ اجر نہ ملے گا ‘ اس حدیث سے یذکروا اسم اللہ علی ما رزقھم کا مطلب اسی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص ذبح سے پہلے سوائے اللہ کے کسی اور شخص کی تعظیم کی نیت سے جانور کو خریدے یا پالے گا اور ذبح کے وقت بطور عادت کے اللہ کا نام لے گا تو عقبیٰ کے اجر کے حساب سے ایسے شخص کا اللہ کا نام لینا اسی طرح بےکار ہے جس طرح ظاہری ہجرت کے بےکار ہونے کا ذکر حدیث میں ہے۔ (١ ؎ مشکوٰۃ شریف کی پہلی حدیث۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:34) منسکا۔ النسک کے معنی عبادت کے ہیں اور ناسک عابد کو کہا جاتا ہے مگر یہ لفظ ارکان حج کے ادا کرنے ساتھ مخصوص ہوچکا ہے۔ منسکا بفتح سین مصدر میمی بمعنی قربانی کرنا۔ اور بکسر میم قربانی کی جگہ یا شریعت، عبادت کا طریقہ۔ آیت ہذا میں اس کا مطلب قربانی کرنا یا قربانی ہے۔ یعنی ہر امت کے لئے ہم نے ایک ق... ربانی مقرر کردی ہے۔ آیت (22:67) ولکل امۃ جعلنا منسکا ہم نا سکوہ۔ ہر امت کے لئے ہم نے ایک شریعت مقرر کردی ہے جس کے مطابق وہ عبادت کرتے ہیں۔ لیذکروا۔ تاکہ وہ ذکر کریں۔ لام تعلیل کا ہے۔ یذکروا مضارع منصوب جمع مذکر غائب۔ اسلموا۔ سلام سے فعل امر جمع مذکر حاضر۔ تم حکم بردار ہو۔ تم تابعداری کرو۔ المخبتین۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ اخبات مصدر (باب افعال) ۔ عاجزی کرنے والے۔ خشوع کرنے والے۔ الخبت۔ نشیبی اور نرم زمین کو کہتے ہیں۔ اور اخبت الرجل کے معنی نشیبی یا نرم زمین کے قصد کرنے یا وہاں اترنے کے ہیں۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ واخبتوا الی ربہم (11:23) اور انہوں نے اپنے پروردگار کے آگے عاجزی کی۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے بطور نیاز قربانی کرنا تمام آسمانی شریعتوں کے نظام عبادت کا لازمی جزو رہا ہے اور اسلام میں بھی یہ بطورعبادت مقرر کی گئی ہے اور اس میں حاجی غیر حاجی کی کوئی قید نہیں ہے چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں دس سال رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے۔ (ترمذی ... بروایت حضرت ابن عمر (رض)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٥) اسرارومعارف نیز قربانی اور عبادات صرف اسی امت پر نہیں بلکہ ہر امت کو وقت حالات اور اس کے مزاج و ضرورت کے مطابق اللہ جل جلالہ کی طرف سے طریق عبادت دیا گیا اور قربانی بھی عبادات کا حصہ ہے لہذا یہ بھی ہر امت میں رہی کہ لوگ صرف دنیا اور مال ومنال پہ فدا نہ ہوجائیں بلکہ اپنے قیمتی اور پی... ارے جانوروں کو اللہ جل جلالہ کے نام پر ذبح کریں کہ یہ سب اسی نے دیے ہیں اور مقصد اس کی خوشنودی ہے ،۔ (بارگاہ الہی میں عجز پسندیدہ ہے) جانوروں اور دولت کی محبت مقصد نہیں اور اطاعت ایثار وقربانی اس بات کا اظہار ہے کہ تمہارا معبودوہی اکیلا ہے لہذا اسی کی بارگاہ میں سرتسلیم خم کرو اور اس کی بارگاہ میں اپنا عجز ونیاز پیش کرنے والوں کو بشارت دیجئے بعض لوگوں کو حج کرنے یا عبادات وغیرہ ادا کرنے سے یہ وہم ہونے لگتا ہے کہ ہم نے بہت بڑا کام کیا حتی کہ چاہتے ہیں کہ دنیا کے نظام میں دخیل ہوں اور دنیا میں وہی کچھ ہو جو وہ چاہیں اور اگر دعا کے مطابق کام نہ ہو تو بڑے رنجیدہ ہوتے ہیں ، یہاں سے انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ عبادات کا حاصل حکومت نہیں فرمانبرداری ہے اور اپنے عجز اور بےمائیگی کا احساس کہ اگر عبادت کی توفیق عبادت بھی تو اسی نے دی ۔ (اللہ جل جلالہ کا ذکر کرنے والوں کے اوصاف) احسان تو پھر اللہ جل جلالہ ہی کا ہوا بندے میں تو اپنی عاجزی کا احساس مزید بڑھتا ہے لہذا اللہ جل جلالہ کے بندے تو وہ ہیں کہ جب اس کا ذکر کیا جائے تو ان کے قلوب نرم پڑجاتے ہیں اور اللہ کریم کی طرف سے جیسے حالات بھی پیدا ہوں اس پر صبر کرتے ہیں اور عبادات کو قائم کرتے ہیں یعنی پورے پورے اہتمام سے عبادت کرتے ہیں اور اللہ جل جلالہ نے جو بھی دیا ہے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، وہ مال ہو یا طاقت عہدہ ہو یا علم نیز قربانی صرف رسم نہیں ہے بلکہ یہ دین کا رکن ہے شعائر اللہ ہے ، ایسے کام جن سے شناخت ہوتی ہے کہ یہ مسلمان ہے شعائر کہلاتے ہیں جن سے ایک کام قربانی بھی ہے کہ اس میں مومن کے لیے خیر اور بھلائی ہے لہذا قربانی کے جانوروں کو اللہ جل جلالہ کے نام پر ذبح کرو اور خود بھی کھاؤ نیز ہر طرح کے غریب مسکین کو بھی کھلاؤ اور اللہ جل جلالہ کا احسان یاد کرو کہ جانوروں کو تمہاری خدمت پہ لگا دیا کہ تم اسے ذبح کرکے بھی ثواب لیتے ہو اور وہ جان دے کر بھی تمہاری خدمت کا حق ادا کرتا ہے یہ بہت بڑا سبق ہے کہ تم کو بھی اپنے مالک کا شکر گزار ہونا چاہئے ، اللہ جل جلالہ کو قربانی کے جانوروں سے گوشت اور خون بہانا درکار نہیں ہے بلکہ اسے تو تمہاری وہ دلی کیفیت منظور ہے جو اس کی راہ میں مال قربان کرکے اس کی اطاعت کرکے تمہیں نصیب ہوتی ہے اور تم خود کو اس کی رضا مندی اور تقرب کی فضاؤں میں پاتے ہو کہ اس نے دیگر ساری تخلیق کو تمہاری خدمت پہ لگا دیا اور تمہیں صرف اور صرف اپنی ذات کے لیے چن لیا کہ تم صرف اس کی عظمت کے گیت گاؤ یہ بھی کس قدر عظیم احسان ہے کہ تمہیں اس کا شعور واحساس دے کر ہدایت نصیب فرمائی آپ احسان والوں کو بشارت دے دیجئے اور حدیث جبریل میں ارشاد ہے کہ احسان یہ ہے کہ اللہ جل جلالہ کی عبادت ایسے کرو جیسے آپ اسے دیکھ رہے ہیں ورنہ کم از کم یہ یقین ضرور ہو کہ وہ تو دیکھ رہا ہے ۔ (غلبہ کفار کا انجام) رہی غلبہ کفار کی بات تو یہ محض وقتی دھند ہے چھٹ جائے گی اور عنقریب اللہ جل جلالہ کفار کو شکست سے دو چار کرے گا کہ اللہ جل جلالہ ایسے مکار اور ناشکروں کو کبھی پسند نہیں فرماتا ، یہ ارشادات اگرچہ ابتدا سے اسلام اور کفار کے حدیبیہ سے روکنے اور واپس کرنے پر ہوئے تھے مگر قانون بنا دیا گیا کہ اللہ ایمان والوں کے ساتھ ہے چناچہ اس کے بعد اللہ نے مسلسل فتوحات سے مسلمانوں کو نوازا اور آخر کار مکہ مکرمہ بھی فتح ہوگیا آج بھی غلبہ کفار کی کوئی حیثیت نہیں مشکل صرف یہ ہے کہ مسلمان اپنے دین سے وفا کررہا الٹا کفار کی پیروی میں لگا ہوا ہے ، اللہ جل جلالہ مسلمانوں کو توفیق عمل دے تو انشاء اللہ کفار کے غلبہ کی بساط الٹ سکتی ہے ۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 34 تا 38 : منسکا (قربانی) ‘ بھیمۃ الانعام (بےزبان چوپائے) ‘ المخبتین (عاجزی سے گردن جھکانے والے) ‘ وجلت (ڈرگئی۔ ڈر گئے) ‘ البدن (بدنۃ) (بڑے بدن والا جانور۔ اونٹ) ‘ شعائر (شعیرۃ) (نشانیاں) ‘ صواف (سیدھا کھڑا کرنا۔ تین پاؤں پر کھڑا رہا) ‘ جنوب (جنب) پہلو ‘ القانع (قناعت کرنے والا۔...  نہ مانگنے والا) ‘ سخر نا (ہم نے بس میں کردیا۔ مسخر کردیا) ‘ لن ینال ( ہرگز نہ پہنچے گا) ‘ لحوم (لحم) گوشت ‘ دمائ (دم) (خون) ‘ یدافع (وہ دور کرے گا) ‘ خوان (بےایمان۔ دغاباز) ‘ کفور (ناشکرا) ۔ تشریح آیت نمبر 34 تا 38 : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی ! آپ ایسے نیکو کاروں کو (جنت کی) خوشخبری سنادیجئے جو لوگ ایمان پر قائم رہتے ہیں ان کی حفاظت خود حق تعالیٰ فرماتے ہیں۔ کیونکہ اس کو شکر گذار بندے اور عاجزی کرنے والے پسند ہیں لیکن جھوٹے دغا باز اور نا شکرے لوگوں کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔ ان آیات سے متعلق چند باتوں کی وضاحت : ٭اللہ تعالیٰ نے ہر شریعت میں اپنی رضا و خوشنودی کے لئے قربانیوں کو لازمی قرار دیا تھا مگر بعد میں آنے والوں نے اپنے جھوٹے معبودوں پر جانوروں کو قربان کرنا شروع کردیا اور اس بات کو بھو ل گئے کہ اللہ نے ان پر مویشیوں کی قربانی کیوں لازمی قرار دی تھی۔ انہوں نے طرح طرح کی رسموں کے ذریعہ قربانی کی اس روح کو فنا کردیا تھا یہاں تک کہ وہ اپنے جانوروں کی قربانیاں کرکے ان کا گوشت بیت اللہ میں لا کر رکھتے اور ان کے خون کو بیت اللہ کی دیواروں پر ملکر یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے قربانی کا حق ادا کردیا ہے اور گوشت اور خون اللہ تک پہنچا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس عقیدے کی نفی کرتے ہوئے فرمایا کہ مومنوں کے دلوں کا تقویٰ اللہ کو پہنچتا ہے۔ یہ گوشت اور خون اللہ کو نہیں پہنچتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ گذشتہ شریعتوں میں محض جانوروں کو قربان کرنا عبادت سمجھا جاتا تھا لیکن دین اسلام جس قربانی کا ذکر کرتا ہے وہ ان قربانیوں سے بہت مختلف ہے کیونکہ یہ قربانی جس کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کرتی آرہی ہے وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی مخلصانہ قربانیوں کی یاد گا رہے۔ لہٰذا یہ قربانی ہر صاحب استطاعت پر واجب ہے اور یہ حکم قیامت تک جاری رہے گا وہ حج کے دنوں کے لئے اور منی تک محدود نہیں ہے بلکہ ساری دنیا کے وہ مسلمان جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ان پر قربانی کرنا واجب ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دس سال تک مدینہ منورہ میں رہے اور ہر سال آپ (بڑے اہتمام سے) قربانی کرتے رہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جو شخص استطاعت رکھتا ہو اور پھر بھی وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔ حضرت انس (رض) (رض) سے روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے عید کی نماز سے پہلے ذبیحہ کرلیا اس کو چاہیے کہ وہ دوبارہ قربانی کرے۔ جس نے نماز کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پوری ہوگئی۔ اور اس نے مسلمانوں کا طریقہ پالیا۔ حضرت جابر بن عبد اللہ (رض) سے روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ منورہ میں عید الاضحی کی نماز پڑھائی۔ بعض لوگوں نے یہ سمجھ کر کہ آپ قربانی کرچکے ہیں انہوں نے اپنے اپنے جانور ذبح کردیئے۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ مجھ سے پہلے جس نے قربانی کرلی ہے وہ دوبارہ کرے۔ یہ روایات جن کو بیان کیا گیا ہے بخاری ‘ مسلم ‘ ابن ماجہ اور مسند احمد کی معتبر ترین احادیث ہیں جن پر علماء امت نے بھر پور اعتماد کا اظہار فرمایا ہے جس سے یہ بات بالکل واضح طریقہ پر سامنے آتی ہے کہ جانوروں کی قربانی کرنا حج کے دنوں میں منیٰ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں جہاں بھی مسلمان آباد ہیں ان کے صاحب استطاعت لوگوں پر ان جانوروں کی قربانی کرنا واجب ہے۔ جس کی شریعت نے جیسے اجازت دی ہے اس پر اسی طرح عمل کیا جائے مثلاً اونٹ میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں اور گائے ‘ بیل میں بھی سات آدمی شرکت کرسکتے ہیں چناچہ حضرت جابر ابن عبد اللہ (رض) سے روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں قربانی میں شریک ہونے کی اجازت دی ہے اونٹ سات آدمیوں کے لئے اور گائے سات آدمیوں کے لئے (مسلم) ٭بکر ‘ بکری ‘ بھیڑ ‘ دنبہ میں صرف ایک حصہ ہے یعنی ایک آدمی ایک بکرا یا ایک بھیڑ قربان کردے تو اس کا واجب ادا ہوجاتا ہے۔ ٭اونٹ کو نحر کیا جائے گا اور بقیہ جانوروں کو ذبح کیا جائے گا۔ اونٹ کو گرا کر اس کا ذبیحہ ناجائز ہے۔ حکم یہ ہے کہ اونٹ کو کھڑا کر کے اس کا بایاں پاؤں باندھ دیا جائے اور انٹ کو کھڑے کھڑے نیزہ یا تیز تلوار یا تیز اور لمبی چھری حلقوم میں گھونپ دی جائے۔ اس سے خون کا ایک فوارہ نکلتا ہے۔ خون نکلتے نکلتے وہ اونٹ ایک طرف گرجاتا ہے کچھ دیر وہ تڑپتارہتا ہے پھر وہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ جب اونٹ کی پوری طرح جان نکل جائے اور وہ ٹھنڈا ہوجائے تو اس کی کھال اتار کر اس کا گوشت خود بھیکھائے اور شریعت کے احکامات کے مطابق دوسروں کو بھی کھلائے ۔ اونٹ کے علاوہ تمام جانوروں کو ذبح کیا جائے یعنی جانوروں کو لٹا کر تیز چھری سے ان کا گلا اس طرح کاٹا جائے گا کہ اس جانور کا سربقیہ بدن سے جدا نہ ہو۔ ذبیحہ اور نحر کے وقت اللہ کا نام لینا ضروری ہے کیونکہ اللہ کا نام لئے بغیر ذبح کرنے سے جانور حلال نہیں ہوتا۔ اللہ کا نام لینے کا طریقہ یہ ہے کہ جس وقت جانور ذبح ہورہا ہے اسی وقت ہر جانور پر اللہ کا نام لیاجائے تب وہ جانور حلال ہوگا۔ لیکن موجودہ دور میں مشین کے ذریعہ جو ذبیحہ کیا جاتا ہے وہ حلال نہیں ہے کیونکہ محض مشین کے بٹن پر اللہ کا نام لینا اور یہ سمجھنا کہ ایک مرتبہ اللہ کا نام لے کر جو مشین چلائی گئی ہے اس سے سارے جانور حلال ہوجاتے ہیں یہ ایک غلط فہمی ہے۔ اس کے لئے میرا رسالہ ” مشینی ذبیحہ کی شرعی حیثیت “ پڑھ لیا جائے وہاں آپ کو اس کی تفصیلات اور علماء کے فتاویٰ بھی مل جائیں گے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی موحد خالص ہو، کسی مکان وغیرہ کو معظم بالذات سمجھنے سے ذرہ برابر شرک کا شائبہ عمل میں نہ ہونے دو ۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولکل امۃ ……ینفقون (٣٥) اسلامی نظام زندگی کی پالیسی یہ ہے کہ وہ انسان کے احساسات اور اس کے رجحانتا کو اللہ کی ذات کے ساتھ وابستہ کرتا ہے۔ چناچہ اس کی اسکیم یہ ہے کہ شعور ، عمل ، سرگرمی ، عبادت ، ہر حرکت اور ہر عادت کو ایک نئی سمت دی جائے اور ہر چیز کو اسلام نظریہ حیات کے رنگ میں رنگ دیا جائے ۔ اس نق... طہ نظر سے اسلام نے ان مذبوحہ جانوروں کو حرام قرار دے دیا ہے جن پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو اور یہ لازم کردیا کہ ذبیحوں پر اللہ کا نام لیا جائے بلکہ عین ذبح کے وقت اونچی آواز سے اللہ اکبر کہا جائے ، گویا جانور ذبح ہی اس لئے کیا جاتا ہے کہ اس طرح اللہ کا نام لیا جائے۔ ولکل امۃ جعلنا مسکا لیذکروا اسم اللہ علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام (٢٢ : ٣٣) ” ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کردیا ہے تاکہ اس امت کے لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں۔ “ اس کے بعد عقیدہ توحید کی تصریح آتی ہے۔ فالھکم الہ واحد (٢٢ : ٣٣) ”(مقصد صرف یہ ہے) کہ تمہارا ایک ہی خدا ہعے “۔ جب خدا ایک ہے تو ہر معاملہ میں اطاعت بھی اسی ایک کی ہونی چاہئے۔ فلہ اسلموا (٢٢ : ٣٣) ’ دپس اس کے مطیع فرمان بنو۔ “ یہ اطاعت جبر کی اطاعت نہیں ہے اور نہ اسلام میں کوئی جبر ہے ، بلکہ دل کی آمادگی سے سر تسلیم خم کرنا مقصود ہے۔ وبشر المخبتین (٢٢ : ٣٣) الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبھم (٢٢ : ٣٥) ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بشارت دے دو عاجزانہ روش اختیار کرنے والوں کو ، جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کا ذکر سنتے ہیں تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ “ محض اللہ کا نام سنتے ہی ان کے شعور اور ان کے ضمیر میں اللہ کا خوف پیدا ہوجاتا ہے اور وہ کانپ اٹھتے ہیں۔ والصبرین علی ما اصابھم (٢٢ : ٣٥) ” جو مصیبت بھی ان پر آتی ہے اس پر صبر کرتے ہیں۔ “ لہٰذا اللہ ان کے بارے میں جو فیصلہ کرے ان کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ والمقیمی الصلوۃ (٢٢ : ٣٥) ” اور نماز قائم کرتے ہیں۔ “ اور اللہ کی عبادت اس طرح کرتے ہیں جس طرح عبادت کرنے کا حق ہوتا ہے۔ ومما رزقنھم ینفقون (٢٢ : ٣٥) ” اور جو کچھ رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ “ وہ اپنے مال میں اللہ کے مقابلے میں بخل نہیں کرتے۔ یوں عقیدے ، نظریات اور دین کے بنیادی شعائر کے اندر ربط پیدا کر کے ذات باری کو ہر چیز کا محور بنا دیا جاتا ہے۔ اور اس طرح اسلامی نظام کا یہ جزء خصوصاً عبادات اس کے عقائد و نظریات کا مظہر اور رمز بن جاتی ہیں۔ اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کی پوری زندگی میں اس کے عقیدے کا رنگ ہو ، اس طرح ان کی قوت عمل اور ان کی سمت کے درمیان کوئی تضاد نہ ہو اور نفس انسانی شعور انسانی اور عمل انسانی کے درمیان کوئی تضاد اور کوئی کشمکش نہ ہو۔ اب سیاق کلام ذرا مزید آگے جاتا ہے اور اس مفہوم کو مزید تاکیدی انداز میں یوں پیش کیا جاتا ہے کہ محض کھانے پینے کے لئے ذبح کئے جانے والے جانوروں کے اس شعار اور عمل میں بھی اصل روح وہی ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو جن کے قلوب اللہ کے ذکر کے وقت ڈر جاتے ہیں اور جو صبر کرتے ہیں نماز قائم کرتے اور اللہ کے دیئے ہوئے رزق میں سے خرچ کرتے ہیں لفظ نسک مفعل کے وزن پر ہے جس کی ماضی نسک ہے یہ مادہ مطلق عبادت کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور جانور ذبح کرنے کے لیے بھی اور حج کے احکام ا... دا کرنے کے لیے بھی، جیسا کہ سورة بقرہ میں ہے (وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا) فرمایا ہے یہاں پر تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ہم نے ہر امت کے لیے عبادت کے طریقے مقرر کیے ہیں اور قربانی کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے اور قربانی کی جگہ کے معنی میں بھی اور افعال حج کے معنی میں بھی، لیکن آیت کے سیاق اور ماقبل سے ارتباط پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں جانوروں کی قربانی کرنا مراد ہے کیونکہ (وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا) کے ساتھ ہی (لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ ) فرمایا ہے۔ (فَاِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ اللّٰہُ وَّاحِدٌ فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْا) (سو تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے سو اس کی فرمانبر داری کرو) اس میں یہ بات بتائی ہے کہ جانوروں کے ذبح کرنے میں صرف اللہ وحدہ لا شریک کی رضا مقصود ہو۔ اس کے بعد مخبتین یعنی عاجزی کرنے والوں اور فرمانبر داری اور اطاعت کے ساتھ گردن جھکا دینے والوں کو اللہ کی رضا مندی کی خوشخبری سنانے کا حکم دیا اور ان کے چار اوصاف بیان فرمائے۔ پہلا وصف یہ ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (جس میں ان کی ذات وصفات کا ذکر اور اس کے احکام اور وعدہ اور وعید کا تذکرہ سب داخل ہے) تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور دوسرا وصف یہ بیان فرمایا کہ ان پر جو مصیبتیں آتی ہیں ان پر صبر کرتے ہیں اور تیسرا وصف یہ بیان فرمایا کہ وہ نمازوں کو قائم کرنے والے ہیں اور چوتھا وصف یہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں، لفظوں کا عموم فرض زکوٰۃ اور صدقات واجبہ اور نفلی صدقات سب کو شامل ہے۔ قربانی کے جانوروں میں سے خرچ کرنا فقراء اور احباب و اصحاب کو دینا یہ بھی اس کے عموم میں داخل ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

46:۔ ” وَلِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا الخ “ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نذر و نیاز کا بیان ہے۔ منسک اسم ظرف مکان ہے یعنی قربان گاہ یا مصدر ہے یعنی اللہ کے تقرب کے لیے جانور کو ذبح کرنا۔ فسرہ مجاھد ھنا بالذبح واراقۃ الدماء علی وجہ التقرب الیہ تعالیٰ (روح ج 17 ص 53) ۔ یہاں یہ بات واضح کردی گئی کہ اللہ تعالیٰ ک... ے تقرب کے لیے قربانی کرنے اور اللہ کی نذر و نیاز دینے کا دستور ہر امت میں مقرر تھا اور کسی امت کو اس سے مستثنی نہیں کیا گیا۔ اور ہر امت کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کے دئیے ہوئے چوپایوں میں سے صرف اللہ تعالیٰ کے نام ہی کی نذریں اور منتیں دیا کریں۔ اور غیر اللہ کے نام کی نذر و نیاز سے اجتناب کریں۔ لما ذکر تعالیٰ الذبائح بین انہ ل یخل منھا امۃ (قرطبی ج 12 ص 58) ۔ 47:۔ ” فَاِلٰھُکُمْ الخ “ چونکہ تمہارا معبود اللہ تعالیٰ ہے اور ہر چیز کا خالق بھی وہی ہے لہذا تم اس کے مطیع فرمان رہو اس کی تحریمات کو قائم رکھو۔ نذر و نیاز بھی اسی کے نام کی دو اور غیر اللہ کی تحریمات کو توڑو اور گیر اللہ کی نذریں نیازیں مت دو ۔ والمراد اخلصو لہ تعالیٰ الذکر خاصۃ واجعلوا لوجھہ سالما خالصا لا تشوبوہ باشراک (روح ج 17 ص 104) ۔ امر تعالیٰ عند الذبائح بذکرہ و ان یکون الذبح لہ لانہ رازق ذالک فالالہ واھد لجمیعکم فکذالک الامر فی الذبیحۃ انما ینبغی ان تخلص لہ (قرطبی) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(34) اور امم سابقہ میں سے ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کرنا اس لئے مقرر کیا تھا کہ وہ ان چوپایوں کی قسم کے مخصوص جانوروں اور چوپایوں کو ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیا کریں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کئے تھے سو لوگو ! تم سب کا معبودِ برحق تو ایک ہی معبود ہے تم سب اسی کے مطیع و فرماں بردار ہو۔ اور...  اے پیغمبر آپ ان عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔  Show more